FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

مولوی محمد عبد الغفارؒ : حیات و خدمات

 

 

تالیف و ترتیب

ڈاکٹر محمد عبد العزیز سہیل

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

 

 

 

انتساب!

 

میرے والد محترم الحاج مولوی محمد عبد الغفار صاحبؒ مرحوم

و

جماعت اسلامی ہند کے جمیع معزز حضرات کی نذر

جن کا واحد مقصد دین اسلام یعنی (شریعت)کی تعلیمات پر خود عمل پیرا ہو کر دوسروں تک اس کو پہچانا ہے۔

ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل

 

 

 

پیش لفظ

 

اسلامی تحریک کی چند نمایاں خصوصیات میں سے یہ بھی اہم خصوصیت ہے کہ اس سے وابستہ ہونے والے افراد چاہے کسی بھی پس منظر Back Groundسے آئے ہوں ان کی اسطرح تربیت کرتی ہے اور ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اس طرح اجاگر کرتی ہے کہ ایک نئی شخصیت کا وجود عمل میں آ جاتا ہے۔ ایک ایسی شخصیت جو خالصتاً اسلامی تحریک کا ایک جز ولا ینفک بن جاتی ہے۔ !!

زندگی تو بہت تیزی سے رواں دواں گزرتی ہے۔ اسلامی تحریک سے منسلک ہو جانے کے بعد زندگی میں وہ انقلاب اور تبدیلی برپا ہو جاتی ہے کہ پچھلی زندگی کی پرچھائیاں نظر بھی نہیں آتیں۔ ایسا شخص جب جس لمحہ وہ تحریک میں شامل ہو جاتا ہے تو وہ پھر پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھتا کہ وہ کیا تھا؟ کہاں سے آیا تھا؟ اس کو تو بس آگے کی منزلیں اسطرح مسحور کر دیتی ہیں کہ وہ آگے ہی آگے بغیر کسی کی پرواہ کیے اپنی منزل کو پانے کیلئے تیز گام ہو جاتا ہے۔ مرحوم مولوی محمد عبد الغفارؒ صاحب کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، ایک ایسی ہی شخصیت کا وجود تھا جس نے تحریک اسلامی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا وہ مبارک گھڑی جسمیں انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ آئندہ زندگی اسلام اور اسلامی تحریک کی سربلندی کیلئے صرف کرتے ہوئے گزارنی ہے تو پھر راہ میں جتنی مشکلات، مسائل، مصائب آتے گئے انہوں نے اس کو بڑی خندہ پیشانی جرأت، ہمت اور فراست ایمانی کی حکمت عملی سے حل کیا اور بہ رتبہ اور توفیق اللہ تعالیٰ انہی افراد کو اپنے فضل و کرم سے عنایت فرماتا ہے جواسکی راہ میں اس یقین اور اخلاص سے آگے بڑھتے ہیں کہ وہ ایک قدم بڑھیں گے تو ان کا رب ان کی طرف کئی قدم آگے بڑھے گا وہ چلیں گے تو ان کا رب دوڑ کر ان کو اپنا سہارا دئے گا۔

مرحوم مولوی محمد عبد الغفار صاحب سے میری پہلی ملاقات تو یاد نہیں، لیکن1978ء میں ایمرجنسی اٹھا لیے جانے کے عرصہ بعد چھتہ بازار حیدرآباد میں اتوار کے ہفتہ واری اجتماع میں پہلی دفعہ خطاب سننے کا موقع ملا۔ خطاب کیا تھا ایسا لگتا تھا کہ کوئی شیر دہاڑ رہا ہے، قرآن کی آیات، واقعات سیرتﷺ، علامہ اقبالؒ کے اشعار کے ساتھ جوش و جذبہ کا طوفان تھا جو دوڑ رہا تھا، اسی دور میں اسٹوڈنٹس اسلامک یونین کے قیام اور اس کی ذمہ داری پورا کرنے کیلئے آندھراپردیش کے مختلف مقامات کا دورہ کرتے ہوئے متعدد بار نظام آباد جانے اور محترم عبد الغفار صاحب مرحوم سے ملاقات، استفادہ کا موقع ملا، وہ بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے اس کے نتیجہ میں بے تکلفی کے ساتھ ہم ان کو ’’غفار بھائی‘‘ پکارنے لگے، اور اسی رشتہ کے حوالے سے یہ سطور تحریر کی گئی ہیں۔

محترم غفار بھائی ڈسپلن اور وقت کے انتہائی پابند تھے مسجد رضا بیگ میں فجر سے پہلے اور دیگر نمازوں کیلئے اذاں سے قبل مسجد میں موجود رہتے اور اپنے مخصوص معمولات کے لیے مصروف تھے جیسے عصر کے بعد مسجد کے ایک کمرہ میں بیٹھنا، مولوی فقیر محمد صاحب مرحوم کے ساتھ تلاوت اور تجوید کی مشق وغیرہ شامل ہیں۔

احقر کو جب امیر حلقہ کی ذمہ داری سونپی گئی تو سابق امیر حلقہ مولانا عبدالقدوس لطیفی صاحب مرحوم کو ان کے گھر کریم نگر تک چھوڑ نے کیلئے سفر کے بارے میں طئے کرتے ہوئے بس یہ بھی طئے کر لیا تھا کہ کریم نگر سے سیدھے نظام آباد جاؤں اور غفار بھائی سے ملاقات کروں، اللہ تعالیٰ نے موقع دیا اور کریم نگر سے نظام آباد پہنچے کے بعد مرحوم غفار بھائی سے ملاقات طئے شدہ وقت اور مقام پر ہوئی۔ حالانکہ میں ان کے سامنے ہر اعتبار، علم، تجربہ، اور عمر کے لحاظ سے چھوٹا تھا اور کئی مرتبہ ان کے سامنے بحیثیت صدر SIUاورSIOزانوئے ادب طئے کرنے کے مواقع ملتے رہے، لیکن اس ملاقات میں محترم غفار بھائی نے جس انداز سے مجھ سے ملاقات فرمائی اور جس مشفقانہ انداز سے محترم نے مظاہرہ فرمایا میرے لیے وہ یاد گار دن بن گیا۔ بہت غور سے میری ہر بات سماعت فرمائے اور میرے ساتھ بھر پور تعاون کرنے کا وعدہ فرمایا جو حلقہ کی ذمہ داری تک جاری تھا۔ یہ ان کی شخصیت کے بڑے ہونے کی ایک مثال ہے۔ بعض لوگ بظاہر بڑے نہیں لگتے لیکن ان کے اعلی کردار ان کو بہت اونچا بنا دیتے ہیں اور ہر آدمی کے دل میں وہ مخصوص جگہ بنا لیتے ہیں۔

اسی لیئے ان کی یادیں بے ساختہ آ جاتی ہیں، ان کا بڑکپن دیکھئے کہ ہمیشہ میرا تذکرہ کیا کا کرتے تھے، میرے مرکز منتقل ہونے کے بعد بھی فون پر اکثر بات ہوتی بہت خوش ہوتے اور دعائیں دیتے مرحوم غفار بھائی سے ایک غیر معمولی دلی لگاؤ اور والہانہ خلوص تھا۔ بابا پور میں ضلعی اجتماع کے موقع پر جو بہت بڑے پیمانے پر منعقد کیا گیا تھا، مرحوم غفار بھائی اس اجتماع کے انعقاد، انتظام و انصرام میں غیر معمولی دلچسپی لی اور اپنی صلاحیتوں اور قوت فیصلہ سے الحمد للہ اس اجتماع کی کامیابی میں بہت ہی اہم حصہ ادا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ جزاء خیر عطا فرمائے۔ آمین، نمائندگان کے اجلاس میں شرکت کرنے والے رفقاء کیلئے حیدرآباد تا دہلی، قیام دہلی پھر واپسی حیدرآباد تک کے سفر میں آمد و رفت کے موقعوں پر ہر ایک کا خیال رکھتے، اور سہولت بہم پہنچاتے، طعام کا انتظام ہو یا دگر تھوڑی تھوڑی دیر سے خیریتی اطلاع لیتے رہتے بعد ازاں مطمئن ہوتے، محترم غفار بھائی کی رہنمائی میں سفراطمنان بخش ہوتا تھا۔

عمر اور صحت کی خرابی کے باوجود تحریک کے کاموں میں سرگرمی دکھلاتے اور جماعتی نظم کی سختی سے پابندی کرتے اڑیسہ کے ناظم علاقہ بنائے گئے وہاں موجود غذا، رہائش اور سفر کی عدم سہولتوں کے باوجود اپنی ذمہ داری کو بحسن خوبی ادا کرتے رہے۔ اڑیسہ کے رفقاء میں اطاعت امر، انفاق اور نظم کی پابندی کا جذبہ ابھارا یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا۔

غرض یہ کہ محترم غفار بھائی جماعت اسلامی ہند خاص طور پر آندھرا پردیش، اڑیسہ کیلئے ایک غیر معمولی فعال اور زندہ دل شخصیت تھے۔ آخری وقت اسی مسجد رضا بیگ کے صحن میں محترم غفار بھائی کا جنازہ دیدار کے لیے رکھا گیا اور بس دیدۂ نم میں ان کے چہرہ کو دیکھ رہا تھا، ایسا لگا جیسے وہ اسلام کے لیے دھاڑنے والا شیر خدا بزرگ و برتر کے سامنے ہاتھ باندھے امید مغفرت کے ساتھ خاموش کھڑا ہے۔ ان کا مسکراتا چہرہ زبان سے حال کہہ رہا تھا۔ بربّ کعبہ۔۔ میں تو کامیاب ہو گیا۔۔ !!

اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ جنت الفردوس کے اعلی درجات عطا فرمائے۔ آمین

واضح رہے کہ یہ مختصر حالات کا تذکرہ ہے ورنہ میں واقعات بیان کرتا جاؤں تو دفتر بھر جائیں گے۔ وہ اعلی صفات کے مالک تھے۔ اس کتاب کے بارے میں عرض کرتا چلو کہ غفار بھائی کے انتقال کے بعد ان کے فرزند ڈاکٹر عزیز سہیل نے اس بات کا ارادہ ظاہر کیا کہ اپنے والد کی 55سالہ خدمات پر ایک دستاویزی کتاب مرتب کی جائے جس کے لیے انہوں نے مختلف جماعتی و دیگر افراد کے تاثرات اور مضامین کو بڑی محنت سے اکھٹا کیا جو کہ عبد الغفار صاحب کی مکمل زندگی کا احاطہ کرتی ہے، اس کتاب سے تحریکی افراد کو اپنے سابقون کی زندگی کے حالات سے واقفیت ہو گی، بہت سے مضمون نگاروں نے غفار بھائی مرحوم کی زندگی کے لیل و نہار پر بڑی تحقیقی نگاہ ڈالی ہیں اور ان سے متعلق بہت سی باتیں جس سے ہم خود بھی واقف نہیں تھے، مفصل بیان کئے ہیں۔ جو لائق مطالعہ ہے توقع ہے کہ یہ کتاب تحریکی افراد کیلئے شمع راہ ثابت ہو گی۔

آخر میں اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ اس مرد حق کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین                                                                         سید عبدالباسط انور

حیدرآباد

 

 

بسمہ اللہ الرحمن الرحیم

مولانا محمد عبد الغفار نظام آبادیؒ

 

کیا لوگ تھے جو راہ وفاسے گزر گئے

20 فروری1981ء بروز جمعہ بعد نماز عصر، سہ روزہ آل انڈیا اجتماع جماعت اسلامی ہند منعقدہ وادیِ ہدی پہاڑی شریف حیدرآباد کے پہلے دن 45ہزار مندوبین کے مطبخ کے باہر محترم رحیم خاں صاحب ناظم جماعت اسلامی علاقہ رائل سیماکے ساتھ مولانا محمد عبد الغفار صاحب کو پہلی بار دیکھا وہ دونوں کر سیوں پر آمنے سامنے تشریف فرما تھے۔ پہلی ملاقات میں ہی جسمانی وجاہت، لباس کی نفاست اور چہرہ کی متانت سے اندازہ ہوا کہ یہ کوئی جماعت کی با وقار شخصیت ہے اس کے بعد انہیں بار ہا مختلف اجتماعات میں دیکھنے اور سننے کا موقع ملا ہر موقع پران کی شخصیت میں پنہاں خوبیاں سامنے آتی رہیں اور تعلقِ خاطر بڑھتا گیا، غالباً جب وہ ناظم علاقہ بنے ہم نے ان کو یوم عاشورہ اور شہادت امام حسینؓ پر خطاب کیلئے کرنول مدعو کیا بعد نماز مغرب تا عشاء گھنٹہ سوا گھنٹہ فضائل عاشورہ اور شہادت حسینؓ کے مقاصد پر آیات قرآنی اور کلام اقبال سے مربوط خطاب فرمایا شرکاء جلسہ بہت محظوظ و مطمئن ہوئے۔ تناولِ ماحضر کے دوران تحریک کی ضرورت کیلئے مفید مشوروں کے بعد مولانا نظام آباد کیلئے واپس روانہ ہو گئے۔

وہ مضبوط جسم، معاملہ فہم اور جہد مسلسل کے عادی تھے ان کی فراست اور حکمت و دانائی کا ہر کوئی قائل تھا یہی وجہہ ہے کہ نظام آباد کی ہر انجمن اور ملی بہبود کیلئے بنائی جانے والی ہر سوسائٹی کے وہ روح رواں ہوا کرتے تھے، چاہے وہ مسلم پرسنل لا ہو، یا کہ مسلم متحدہ محاذ ان اداروں کے آپ ہر اول دستہ تھے۔

اسلامیہ عربی ڈگری کالج کرنول سے وظیفہ حسن خدمت کے بعد جب میں اپنے شہر حیدرآباد آ گیا تو نظام آباد کے مدارس دینیہ کے سالانہ جلسوں اور عازمین حج کے تربیتی اجتماعات میں مولانا مجھے مدعو کرتے اور مولانا کے فریش ہو جانے کے بعد مولانا کے رفیق کار مولانا احمد عبد العظیم، محترم احمد عبدالحلیم اور محترم ایم این بیگ زاہد صاحبان مدعو کرنے لگے مولانا سے بغیر عیادت و ملاقات لوٹنا یہ ہمارے لئے نا ممکن تھا۔ اسطرح کی ایک ملاقات میں پولیس کے کسی ذمہ دار کا فون آیا فون پر اس نے بتایا کہ مسلمان اپنی مذہبی جھنڈیاں مندر کے منڈیر سے باندھ دیئے ہیں، جس سے اشتعال کا اندیشہ ہے اس کا یہ فون مولانا پر کامل اعتماد کا مظہر تھا کہ اس کا تدارک مولانا ہی کر سکتے ہیں حالانکہ ان جھنڈیوں سے مولانا یا مولانا کے رفقاء کا کوئی تعلق خاطر نہیں تھا۔ مولانا نے پر اعتماد لہجہ میں اس کو اطمینان دلایا کہ انشاء اللہ آج شام تک وہ جھنڈیاں وہاں سے ہٹا لی جائیں گی پھر آپ نے جھنڈیوں کے ذمہ داروں کو فون کر کے فوراً جھنڈیاں وہاں سے ہٹانے کیلئے پابند کیا۔ یہ تھا مولانا کا اثر حکومتی اداروں اور عامۃ المسلمین پر۔ ضرورت تھی کہ ایسی شخصیت کی حیات اور خدمات کو بہی خواہاں ملت کے سامنے لایا جائے اسی احساس کے ساتھ مولانا کے صاحبزادہ عزیز القدر ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل نے مولانا سے متاثر شخصیتوں کے تحریر کردہ خاکوں کو جمع کیا ادر  ادب اسلامی کل ہند مشاعرہ اور جلسہ سیرت النبیؐ منعقدہ جڑچرلہ میں خطاب کیلئے احقر کو مدعو کیا اور  خطاب کے بعد بوقت واپسی مجھ سے خواہش کی کہ میں بھی بطور پیش لفظ یا تاثرات قلمبند کروں اس بِناء  پر یہ چند کلمات ضبط تحریر میں آ سکے۔

اس مجموعہ میں جن حضرات نے بھی اپنے خاکوں کے ذریعے خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کی ہے مولانا کی شخصیت ان سے بہت اونچی تھی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حضرات کے خراج عقیدت کو شرف قبولیت بخشے اور مو لانا کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ہم سب کو مولانا ہی کی طرح اقامت دین کیلئے سرگرم عمل بنا دے آمین۔

مفتی محبوب شریف نظامی

بانی مدرسہ، صدر و اراکین رحمت سوسائٹی، حیدر آباد

 

 

 

اظہار مدعا

 

ہندوستان میں بیسویں صدی میں ایک اہم اسلامی تحریک رونما ہوئی جس کی بناء مولانا سید ابو اعلی مودودیؒ نے ڈالی۔ 25اگسٹ 1941ء یکم شعبان ۱۳۶۰ھ کو جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا، جماعت اسلامی کے قیام کے دور میں لوگ روایتی اورنسلی مذہبیت کے قائل تھے اور اسی پر عمل پیرا بھی جبکہ جماعت اسلامی کے قیام کے سلسلہ میں مولانا مودویؒ کا نظریہ تھا کہ اللہ کی کتاب اور سنت رسولؐ پر ہی ہمار ا عمل ہو۔ اللہ کے دین کی دعوت بندگان خدا تک پہنچایا جائے، ساتھ ہی ہماری زندگیوں میں دین پر عمل آوری ہو اور ہم سب مل کر نظام دین کو عملاً نافذ و قائم کرنے کیلئے اجتماعی کوشش کریں، اور اس تحریک سے متعلق کہا گیا کہ پورا کا پورا اسلام ہی ہماری تحریک ہے، جماعت اسلامی کی ہئیت بھی دیگر جماعتوں و تنظیموں کی طرح کی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ جماعت اسلامی ان ہی خطوط پر قائم کی گئی ہے جو اللہ کے رسولؐ کی قائم کردہ جماعت کا تھا، جماعت اسلامی کے قیام کے وقت اس کی حمایت میں شریک ہونے والوں کی تعداد صرف 75 افراد پر مشتمل تھی جو ملک کے مختلف مقامات سے اپنا تعلق رکھتے تھے اور مختلف شعبۂ حیات کے ماہرین تھے۔ ان ہی حضرات کے تعاونِ عمل سے جماعت اسلامی عملی میدان میں اپنے کام کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کے طول و عرض میں جماعت اسلامی کا پیغام عام ہوا اور لوگ جماعت سے وابستہ ہونے لگے اور اپنی اصلاح کی اور ساری انسانیت کو دین اسلام کا سبق دینے کیلئے کمر بستہ ہو گئے۔

جماعت اسلامی کی تحریک ریاست حیدرآباد پہنچی اور اس کی دعوت ریاست حیدرآباد کے اطراف و اکناف میں پھیلنے لگی، ضلع نظام آباد جو ایک تاریخی، مذہبی، ادبی اور تہذیبی علاقہ ہے وہاں کے ایک قصبہ بابا پور میں جب جماعت اسلامی کا پیغام پہنچا تو اس کو قبول کرنے والوں میں احمد عبدالقادر خان صاحب(صوبہ دار خان)پہلے فرد تھے، یہ تحریک آگے بڑھنے لگی اور نظام آباد میں عبدالرزاق صاحب بھی اس تحریک سے وابستہ ہوئے ان ابتدائی ایام میں جن شخصیات نے جماعت اسلامی کو اختیار کیا ان میں مولوی محمد عبد الغفار صاحب بھی شامل تھے، مولوی صاحب کا تعلق بھی دینی گھرانے سے تھا ان کے والد محترم محمد عبدالمجید صاحب موڑتاڑ کے پولیس پٹیل تھے۔ مولوی محمد عبد الغفار صاحب نے جماعت کی دعوت پر لبیک کہا اور اپنے آپ کو اس جماعت سے مکمل وابستہ کر لیا اور جماعت کو استقامت سے تھامنے اور اس تحریک کیلئے اپنے آپ کو قربان کرنے کا عہد کیا اور آخر وقت تک اپنے عہد پر جمے رہے۔

اللہ رب العزت کا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے مجھے والد محترم مولوی محمد عبد  الغفار صاحب مرحوم کی حیات اور ان کی دینی اور ملی خدمات کو منظر عام پر لانے کی توفیق عطا فرمائی۔ والد کے انتقال کے بعد میں نے اس بات کا ارادہ کر لیا تھا کہ کیوں نے والد محترم کی 55سالہ مذہبی و ملی خدمات پر مشتمل ایک دستاویزی کتاب کو مرتب کروں، یہ کام اس لیے بھی ضروری تھا کہ والد محترم نے اپنے رفقاء کے ساتھ ایک ایسے وقت میں مسلمانان نظام آباد کی رہنمائی اور ہمت افزائی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جد و جہد کی جب کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کیا جا رہا تھا، دین میں مداخلت کی جا رہی تھی، مساجد کو مسمار کیا جا رہا تھا، ایسے وقت مسلمانوں کو ایک مضبوط قیادت کی ضرورت تھی، ان حالات میں نظام آباد میں مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق اور اپنے مسائل کے حل کیلئے حکومت سے نمائندگی کیلئے جن شخصیات نے اپنے وقت اور مال کی قربانیاں دی ہیں ان میں والد محترم کا شمار بھی اہمیت کا حامل رہا ہے، مولوی محمد عبد  الغفار صاحب کا شمار تلنگانہ، بالخصوص نظام آباد کی ان نابغہ روزگار ہستیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی کو دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لیے وقف کیے رکھا تھا۔ ایسی شخصیات کی زندگی کے گوشے عوام و خواص کے لیے جہاں راہ عمل متعین کرنے کا اہتمام کرتے ہیں وہیں حالات کی تندہی کے سامنے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ بھی دیتے ہیں۔ اس کتاب میں مولوی محمد عبد الغفار صاحب کی زندگی کے حالات اور ان کی دینی خدمات دین پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ کتاب کے اولین حصے میں مختلف اہل علم حضرات کے تاثرات کو شامل کیا گیا ہے۔ کتاب کے دوسرے حصہ میں مختلف احباب کے مضامین شامل ہے جس سے مولوی محمد عبد الغفار صاحب کی حیات و خدمات کے بارے میں بہت سی معلومات کچھ اپنی یادداشت سے اور کچھ ان کی زبانی سنے ہوئے واقعات کی روشنی میں قلمبند کی گئی ہیں۔ خواجہ نصیر الدین صاحب کا مضمون مولوی محمد عبد الغفار صاحب سے انٹرویو کے بعد لکھا گیا تھا جو کہ مرحوم کے انتقال کے بعد شائع ہوا تھا شامل کیا گیا ہے۔ کتاب کے تیسرے حصہ میں والد محترم کی شخصی ڈائری سے قید و بند کے حالات جو روداد کی شکل میں موجود تھے شامل کیا گیا ہے آخر میں منظوم خراج کو شامل کیا گیا ہے۔

اس کتاب کو ترتیب دینے میں جن اصحاب نے اپنا قلمی تعاون دیا اور تاثرات لکھے ان میں علماء اکرام، سیاسی قائدین، سماجی شخصیات، شعراء ادباء اور میرے دوست و احباب شامل ہیں میں ان کا شکر گزا رہوں بالخصوص شکیل انوار صاحب، محمد محبت علی منان صاحب، ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم، سید اسماعیل، محسن خان(حیدرآباد) اور میرے شفیق بھائی محمد عبداللہ ندیم(اقبال)کے علاوہ میری رفیق حیات کی ہمت افزائی اور مفید مشورے شامل رہے ہیں میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں جناب سید عبدالباسط انوار صاحب، مفتی محبوب شریف نظامی صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی قیمتی آراء سے نوازہ اور میری ہمت افزائی سے اس کتاب کی اشاعت میں عملی تعاون پیش کیا۔ میں آخر میں جناب ڈی، سرینوس صاحب، حامد محمد خان صاحب، جناب عبد الملک شارق اور جناب احمد عبدالحلیم صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کے پیامات کو تاثرات کی شکل میں اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل

 

 

 

حمد باری تعالیٰ

’’کنتم خیرا امۃاخرجت للناس‘‘

 

دعوتِ فکر و عمل ہے، اے نگاہِ حق شناس!

عبداللہ ندیمؔ

 

الہ العلمین اپنی تجھے تعریف بھاتی ہے

زباں، حمد و ثنائی  میری بھی اکثر گنگاتی ہے

 

میں تیرے ذکر میں ڈبوں تو ہوتا ہے ہنر پیدا

مجھے زیر و زبر کی کب کوئی ترکیب آتی ہے

 

مری فکر و نظر پر رات دن دیتا ہے تو پہرا

تبھی تو شاعری میری ہمیشہ جگمگاتی ہے

 

تری رحمت کا چرچا تا قیامت کارگر ہو گا

مرا دل بھی سمجھتا ہے مگر لاتیؔ مناتیؔ ہے

 

خدایا نعمتوں کا شکر بھی کیسے ادا ہو گا

گناہوں کی طرف رغبت مجھے ہر پل رلاتی ہے

 

حیاتِ مختصر کو غم زدہ ہر بار پاتا ہوں

عبادت کے مگر ہر مرحلے میں مسکراتی ہے

 

تہجد کے لیے اٹھ کر بھی امت کے لیے رونا

محمدؐ کا طریقہ تھا، یہ امت بھول جاتی ہے

 

مرے ماں باپ کی بھی مغفرت کا فیصلہ کر دے

دعاؤں کی اگر کثرت کسی کو بخشواتی ہے

 

ندیمؔ اب آخرت کی فکر کو عادت بنا ڈالو

یہی تو چیز ہے جو دل میں ایماں کو جگاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

فکرِ ندیمؔ

 

عبداللہ ندیمؔ

 

غم بے شمار ہو تو شمارے میں کیا لکھوں

حیران ہوں کہ آپ کے بارے میں کیا لکھوں

ہر فائدہ تھا دونوں جہاں کا مرا نصیب

اب پڑ گئی حیات خسارے میں کیا لکھوں

 

دنیا کی زندگی کا سبق آپ نے دیا

ہم کو قلم دوات ورق آپ نے دیا

مولیٰ کا شکر صاحبِ ایماں کے گھر ہوئے

اللہ کی بندگی کا بھی حق آپ نے دیا

 

سیرت پہ مصطفیؐ کی سدا گامزن رہے

سب کے دلوں میں آپ کے جیسی لگن رہے

وہ سنت یوسفؑ ہو کہ ہو،  خدمتِ خلق خدا کی بات

جب تک رہے زمین پہ یوں ہی مگن رہے

 

آنسو ندامتوں کے زمیں میں جو بو دئیے

سجدے میں گر کے خوفِ خدا سے جو رو دئیے

سمجھو اسی گھڑی میں کہ بس پاک ہو گئے

رب نے گنہگاروں کے سب داغ دھو دئیے

 

میں ربِ کائنات سے کرتا رہوں دعا

ہر کارِخیر آپ کے حق میں قبول ہو

مجھ سے مری نسل سے جہاں تک بھی ہو سکے

ایسا کوئی عمل بھی نہ ہو جو فضول ہو

آمین

٭٭٭

 

 

 

مادہِ تاریخ وفات

 

عبدالغفار بے بدل

۱۴۳۶ہجری

از:ڈاکٹر فاروق

 

 

 

 

سوانحی خاکہ

 

 

نام: محمد عبد الغفار

ولدیت: محمد عبدالمجید

پیدائش: 1937ء

مقام پیدائش: موڑتاڑ، ضلع نظام آباد

وطن: بابا پور، بھمیگل منڈل، ضلع نظام آباد

ابتدائی تعلیم: تحتانوی سطح تک/دینی تعلیم گھر پر حاصل کی/مولوی

مشاغل: بچپن سے ہی اخبارات اور کتابوں کے مطالعہ کا شوق

اہلیہ: رحیم النساء بیگم(وفات: 15مارچ 2015ء)

اولاد: 4 لڑکے 5لڑکیاں

(۱۔ محمد عبدالغنی مقبول ۲۔ محمد عبداللہ اقبال ۳۔ محمد عبدالعزیز سہیل ۴۔ محمد عبدالمجید پرویز)

پیشہ: خطیب و امام مسجد رضا بیگ، نظام آباد/تجارت(اجناس)

امامت کے فرائض: 1956ء تا 2014ء

گرفتاری: 4جولائی1975ء رہائی: 23مارچ1977ء  قید: 21ماہ

خدمات و ذمہ داریاں: رکن جماعت اسلامی ہند1960ء تا2014ء(رحلت تک)

بحیثیت امیر مقامی جماعت اسلامی ہند نظام آباد1966ء تا1977ء

بحیثیت ناظم ضلع جماعت اسلامی ہند نظام آباد 1977ء تا1988ء

بحیثیت ناظم علاقہ جماعت اسلامی ہند شمالی تلنگانہ1988ء تا1995ء

رکن مجلس نمائندگان جماعت اسلامی ہند: 1980ء تا1995ء

رکن مجلس شوریٰ جماعت اسلامی، آندھراپردیش: 1977ء تا2003ء

معتمد، مسلم مجلس مشاورت نظام آباد 1966ء

معتمد، مسلم پرسنل لاء کمیٹی نظام آباد(رحلت تک)

کنونیر: بابری مسجد ایکشن کمیٹی 1992ء

صدرمساجد کمیٹی، نظام آباد 2004ء تا2008

معتمد یونائٹیڈ مسلم فورم نظام آباد

وفات: /12 نومبر 2014ء دن 12 بجے عمر(77سال )

تدفین: قدیم قبرستان، بودھن روڈ، نظام آباد

 

 

 

حصہ اول

مولوی محمد عبد الغفار اہل علم کی نظر میں

 

قومی اتحاد کا اعلی نمونہ

ڈی۔ سرینواس    D. Srinivas

خصوصی مشیربرائے حکومت تلنگانہ

Special Adviser to Telanagana Govt.

 

مولانا محمد عبد الغفارؒ صاحب سے میرا تعلق بہت گہرا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ غفار صاحب ایک سیکولرذہنیت کے حامل شخصیت تھے، وہ ہمیشہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کا درس دیتے تھے ان کی فطرت میں رواداری پائی جاتی تھی۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہ مختلف پلیٹ فارم کے ذریعہ سیاسی، سماجی، ملی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ میں ان سے ہمیشہ صلاح و مشورہ کرتا رہا وہ قومی اتحاد کا اعلی نمونہ تھے، وہ میرے ایک ہمدرد سرپرست تھے جنہیں میں اپنے والد کا درجہ دیتا تھا، مولانا محمد عبدالغفار صاحب کا انتقال میرا شخصی نقصان ہے اس لیے بھی کہ میں اپنے سرپرست سے محروم ہو گیا۔ غفار صاحب سے جب بھی بات ہوتی تھی وہ مجھے تاکید کرتے تھے کہ میں سیکولر رہوں، اور غریبوں کی خدمت اور تمام طبقات کی ضرورتوں کا خیال رکھو، اور اپنی خدمات سے پہچانا جاؤں۔ اکثر وہ عوام کے مسائل سے مجھ کو واقف کرواتے، اماموں، موذنوں میں مکانات کی تقسیم اور مسلم قبرستان کیلئے انہوں نے مجھے متوجہہ کیا تھا اس بناء پریہ اہم کام انجام پایا۔ غفار صاحب کی حیات و خدمات پر یہ کتاب کی اشاعت پر میں ان کے فرزندان کو مبا رک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے والد کی خاموش خدمت اور ملت کیلئے عظیم خدمات کو آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ کر دیا یہ ضروری تھا کہ اہلیان نظام آباد اس عظیم قائد کی صفات سے بھی واقف ہوں۔ غفار صاحب کا انتقال در اصل اہلیان نظام آباد اور میرا ذاتی نقصان ہے، میں تمام افراد سے گزارش کروں گا کہ وہ مل جل کر اتحاد سے نظام آباد کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کریں۔ غفار صاحب کے جانے سے جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کو پر کریں۔

 

 

 

 

وابستگان جماعت کیلئے ایک مثالی نمونہ

 

حامد محمد خاں

امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند تلنگانہ و اڑیسہ

 

جناب محمد عبد الغفارؒ مرحوم کی حیات و خدمات پر کتاب کی اشاعت مستحسن اقدام ہے جو ان کے فرزند ڈاکٹر عزیز سہیل نے لیا ہے، انہوں نے اپنی جوانی سے لے کرتا دم زیست جماعت اسلامی ہند میں اپنے مقام (نظام آباد) کے علاوہ ناظم ضلع و علاقہ، مرکزی مجلس نمائندگان اور حلقہ کی مجلس شوریٰ میں اور مختلف مرکزی و حلقہ واری اجتماعات میں ناظم مطبخ کی حیثیت میں نہایت گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انشا اللہ تعالیٰ ضرور انہیں شرف قبولیت سے نوازیں گے ان کی آخرت میں مغفرت اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں گے۔ مسجد رضا بیگ نظام آباد میں 55 سال امامت و خطابت، مسجد کی توسیع و تعمیر، شرعی و ملی امور و مسائل میں عملی دلچسپی و حصہ داری اور سیاسی معاملات میں ان کی با مقصد سر گرمی، جماعت کے مقامی دفتر کی عمارت کی تعمیر وغیرہ ان کے نمایاں کارنامے اور ثواب جاریہ ہیں اس طرح سینکڑوں افراد ملت کو تحریک اسلامی سے وابستہ کرنا اور ان کی تربیت کا اہتمام کرنا ہم وابستگان جماعت کے لئے ایک مثالی نمونہ تھے، اس طرح انہوں نے بھرپور جماعتی زندگی گزاریں جو لائق تقلید ہے جس سے موجودہ اور آنے والی نسلیں انشاء اللہ تعالیٰ ٰ ضرور مستفید ہو کر ان کے حق میں دعائے خیر اور آخرت میں ان کے درجات میں بلندگی اور رضائے الٰہی کا موجب ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے کہ مثالی تحریکی زندگی بسر کریں۔

 

 

 

 

کردار کا غازی

 

عبدالملک شارق

صدر حلقہ ایس آئی او، تلنگانہ

 

مولانا محمد عبد الغفارؒ صاحب سے میری واقفیت سنِ شعور سے رہی چونکہ وہ میرے پر نانا جناب احمد عبدالقادر خان صاحب مرحوم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اکثر و بیشتر تحریکی حلقوں میں تحریک اسلامی کے لیے آپ کی سرگرمیوں کے تذکرے ہوتے تھے۔ مولانا کی تقریر اور اندازِ خطابت بہت زبردست ہوا کرتا تھا دورانِ تقریر اپنے مخصوص انداز میں وہ قرآن کی آیات اور علامہ اقبالؒ کے اشعار کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے تھے۔ کتنے ہی نوجوانوں کو انہوں نے اقبالؒ کے اشعار اور اس کی تفہیم کے ذریعہ سے مقصدِ زندگی سے واقف کروایا اور اسلام کے لئے کام کرنے کا تحرک عطا کیا۔ نہ صرف ضلع نظام آباد بلکہ اطراف و اکناف کے اضلاع نیز اڈیشہ میں آپ نے تحریک اسلامی کے فروغ کے لئے ثمر آور کوششیں کیں۔ آج بھی ان مقامات پر آپ کو عقیدت سے یاد کیا جاتا ہے۔

شہر نظام آباد کے مختلف ملی سماجی و سیاسی مسائل کے حل و نمائندگی کے سلسلے میں مختلف مسالک کے علماء کو ساتھ لے کر آپ نے قائدانہ رول ادا کیا۔ مولانا محمد عبد الغفارؒ صاحب تحریکِ اسلامی کے فروغ کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔ اللہ کی راہ میں جد و جہد کرنے والے نوجوانوں کے لئے آپ کی زندگی بہترین مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کی کوششوں، کاوشوں اور قربانیوں کو شرفِ قبولیت بخشے اور آپ کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔

 

 

 

 

آئین جواں مرد ان حق گوئی و بے باکی

 

احمد عبدالحلیم

امیر مقامی جماعت اسلامی نظام آباد

 

محترم جناب مولوی محمد عبد الغفار صاحب کا سانحہ ارتحال نا صرف شہریان نظام آباد کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے بلکہ تحریک اسلامی کے حلقوں میں بھی یہ خلاء باقی رہیگی۔ مقام سے لے کر مرکز اور علاقہ سے لے کر ریاست تک جماعتی حلقوں میں محترم کو غیر معمولی مقام حاصل تھا۔ حالانکہ آپ کوئی دینی و دنیوی مدارس سے فراغ نہیں تھے، یہ سب فضل الٰہی پر مبنی معاملہ تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو خداداد صلاحیتوں کا حامل بنایا تھا۔ جسمیں آپ نے اپنی ذات کو بنانے سنوارنے کیلئے غیر معمولی محنت شاقہ سے کام لیا تھا۔

وہ ایک مرد مجاہد تھے، ہمہ تن تحریک کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا۔ ہر مکتب فکر کے افراد کو انہوں نے قریب کیا، اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ان کے معمولات زندگی اور وقت کی پابندی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ نظام آباد کے مسلم کش فسادات اور ہندوستان میں ایمرجنسی میں آپ کی قید و بند کے آلام و مصیبت سے آپ کو گزرنا پڑا، امیر مقامی سے لے کر ناظم علاقہ تک کی ذمہ داریوں کا اپنا حق ادا کیا اور بیشمار رفقاء کی آپ نے تربیت کی۔ ریاستی رکن شوری اور نمائندگان میں آپ منتخب ہوئے تھے۔

آئین جواں مرد ان حق گوئی و بے باکی

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہ ی

شیدائے اقبالؔ اب ہمارے درمیان میں نہیں رہے، لیکن وہ شاہین صفات ہمارے دلوں پر نقش کر گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جس محنت، مشقت و اخلاص سے موصوف نے اپنی خدمات انجام دی ہیں، اللہ اس کو قبول فرمائے اور اجر عظیم سے نوازے۔ آمین

 

 

 

 

آہ مولوی محمد عبد الغفار صاحب نہیں رہے

 

مولانا سید ولی اللہ قاسمی

صدر جمعیت العلماء ہند ضلع نظام آباد

 

قدرت خداوندی کے بنائے ہوئے دستور ازلی کے مطابق اس دنیا جہاں میں آنے والے ہر نفس اور ذی روح کو یہاں سے جانا ہے اس مسلمہ حقیقت سے کسی کو مجالِ انکار و چشم پوشی کی بھی گنجائش نہیں ہے خالق کائنات نے اس اصول اور ضابطہ کو خود قرآن کریم میں ذکر فرمایا کہ ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ و ’’ کل من علیھا فان‘‘ قرآن کریم کے اس بیان کے مطابق ہر کسی کو اس دارِ فانی سے خواستہ نخواستہ جا نا ہی پڑتا ہے۔

لیکن کچھ عظیم ہستیاں اپنے تاریخ ساز کارناموں و خدمات اور اپنے روشن و تابناک ماضی کی بنیاد پر معدوم رہتے ہوئے بھی موجود محسوس ہوتی ہیں اپنے اخلاق و کردار اور بلند احساسات کی وجہہ سے مر کر بھی وہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں ان کی خدمات ایک روشن باب اور سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہوتی ہیں۔

انہی عظیم شخصیات میں سے ایک جناب محترم مولوی محمد عبد الغفارؒ صاحب تھے۔ آپ مسلم پرسنل لاء کمیٹی نظام آباد کے معتمد عمومی تھے انتہائی خلیق ملنسار اور متواضع شخصیت تھے عجز و انکساری کے پیکر مخصوص تھے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ آپ کی اس عظیم صفت کی بنیاد پر آپ ہر ایک کو اپنی ذات سے متاثر کر کے سب ہی کو جوڑ کر پورے اتحاد کے ساتھ لے کر چلتے تھے امت کے مختلف سیاسی سماجی معاشرتی دینی و تہذیبی مسائل میں غیر معمولی دلچسپی لیتے،، سنجیدگی اور ظرافت طبع تو آپ کی پہچان بن چکی تھی، علماء اور علمی شخصیات کے دل سے قدر داں تھے بڑا، اکرام فرمایا کرتے تھے اور بہت خود نواز بھی تھے۔ حالات خواہ کتنے ہی کٹھن اور صبر آزما ہوں ہر موڑ پر صبر و ضبط سے خود بھی کام لیتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ علمی ذوق اور شاعرانہ شوق کے حامل تھے اشعار میں بطور خاص علامہ اقبالؒ کے اشعار آپ کو زبانِ زد تھے موقع و محل کی مناسبت سے اشعار سے استدالال کرنے میں بھی آپ کی ایک خاص صفت تھی۔ باقاعدہ عالم نہ ہونے کے باوجود آیات قرآنیہ کے حوالے سے بات کرنا اس کی تفسیر و تشریح کرنا بھی آپ کا امتیاز تھا۔ انتہائی سادہ مزاج ہونے کی وجہہ سے اجتماعی مسائل کو بہت سی مخالفتوں کے باوجود پوری سادگی سے حل کرتے تھے۔ اور اپنے موقف پر جمے رہتے تھے جس کی وجہہ سے آپ کا ہر مد مقابل آپ کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا جماعت اسلامی کے ذمہ داروں میں سے ہونے کے باوجود اکابرین دیوبند کا اکرام اور ان سے استفادہ اور کسب فیض سے کبھی اپنے آپ کو مستغنی اور بے نیاز نہیں سمجھتے تھے۔ شوق سے علمی استفادہ فرماتے تھے۔ کئی بار راقم الحروف سے بہت سے ملی و معاشرتی اور مذہبی معاملات و مسائل پر گفتگو کرتے تھے غرض یہ کہ بہت ساری خوبیوں کے آپ مالک تھے اس دور میں تو ڈھونڈنے سے بھی ایسے افراد نہیں ملتے۔ اللہ مرحوم کو غریق رحمت کرے ان کے درجات کو بلند فرما کر بعد والوں کو ان کے علمی ورثہ اور تجربوں سے استفادہ کی کماحقہٗ توفیق د ارزانی نصیب فرمائے۔ آمین

مرحوم کے فرزند عبدالعزیز سہیل کے اصرار پر مذکورہ بالا چند سطور تحریر کر دیا ہوں باوجود یہ کہ مرحوم کے اوصاف و کمالات اور کئی ایک علمی واقعات کو قلمبند کرنے کا ارادہ تھا۔

 

 

 

 

ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ ساکہیں جسے

 

حبیب احمد

 (سابقہ رکن ریاست تلنگانہ حج کمیٹی، رکن مسلم پرسنل لا کمیٹی نظام آباد و معتمد نظام آباد ڈسٹرکٹ حج کمیٹی)

 

مولوی محمد عبد الغفار صاحب سے میرا تعلق میرے بڑے بھائی جیسا تھا۔ ان کے ہمارے مراسم تقریباً 50 سال تک قائم رہے ان کے انتقال سے نظام آباد کے مذہبی حلقوں میں خلاء پیدا ہو گئی جس کا پر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ بابا پور سے نظام آباد میں آمد کے بعد ایک عرصہ تک غفار بھائی ہمارے مکان میں کرایہ سے مقیم رہے۔ ابتداء سے ہی وہ سخت محنت کیا کرتے تھے ڈسپلن کے بہت پابند تھے خاندان کے افراد کو ساتھ لے کر چلنا اور اپنے خاندان کی کفالت کیلئے روزی روٹی کمانے کیلئے سخت دوڑ دھوپ کی اس دوران علم کے حصول کی جستجو بھی جاری رہی ہے۔ حالانکہ وہ کسی یونیورسٹی یا مدرسے سے فراغ نہیں تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ ایک بڑے عالم کا درجہ رکھتے تھے۔ امتہ مسلمہ کے مشکلات و مسائل کیلئے ہمیشہ سنجیدہ رہتے کوئی بھی مسئلہ مسلمانان نظام آباد کو درپیش رہتا اس کے حل کیلئے مختلف مسالک و جماعتوں کے نمائندوں کو ساتھ لے کر اس کا حل تلاش کرتے وہ ایک پل کی طرح سب کو جوڑنے کا کام حسن بخوبی سے انجام دیتے تھے۔ ان کی خوبیوں میں یہ بات شامل تھی کہ وہ ہر چھوٹے بڑے فرد کا احترام کرتے اور ان سے مشورہ کرتے ان کی بات اطمینان سے سنتے پھر اپنی رائے و مشورے سے نوازتے تھے، نظام آباد میں مسلم پرسنل لا کمیٹی کے قیام اوراس کی مہمات کو جاری رکھنے کیلئے خوب خدمات انجام دی انہوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو جماعت اسلامی تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ وہ امت مسلمہ کے ایک جانباز سپاہی کی حیثیت رکھتے تھے۔ نظام آباد میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر اس وقت کے وزیر اعلی مسٹر این۔ چندرا بابو نائیڈو سے نمائندگی کی اور ان کی رہائی کا انتظام فرمایا۔ غفار بھائی کے ساتھ مسلم پرسنل لا کمیٹی کے قیام سے ان کے انتقال تک ساتھ رہنے کا موقع ملا انہوں نے کبھی بھی مجھے چھوٹا نہیں سمجھا ہر بات پر مشورہ کرتے مسلم پرسنل لا کمیٹی کے ذریعے نظام آباد میں شرعی پنچایت کا قیام عمل میں لایا اور اس کے دفتر کو مسجد رضا بیگ پھر بعد میں مختلف کرایہ کے مکانات حاصل کرتے ہوئے قائم رکھا گیا۔ جس کے ذریعے سے سیکڑوں مقدمات حل ہو پائے۔ مسلم پرسنل لاء کمیٹی کے دوروں کے موقع پر ہمیشہ میں ان کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ شاہ بانو مقدمہ کے سلسلہ میں نظام آباد میں ایک تاریخی جلوس نکلا گیا تھا جس کیلئے ہم نے مل کر بہت محنت کی جس کے نتیجہ میں سیکڑوں افراد اس جلوس میں شریک رہے جس کی نظیر آج تک بھی نظام آباد میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ بہرحال ان کی خدمات نظام آباد کے مسلمانوں کیلئے یاد گار رہیں گی اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے ان کی خدمات کو قبولیت بخشتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین

 

 

 

 

 روحِ انجمن

 

قاضی محمد شوکت علی، ضلعی قضات، نظام آباد

 

غفار بھائی کا انتقال میرا ذاتی نقصان ہے وہ ملت اسلامیہ کیلئے ایک رہنماء کی حیثیت رکھتے تھے نظام آباد میں مسلم پرسنل لا کمیٹی کا قیام ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا اس کے تحت شرعی پنچایت کے قیام کے ذریعے ملت کے مختلف مسائل کے حل کیلئے کامیاب کوشش انجام دی گئیں۔ جب کبھی کل جماعتی اجلاس کی ضرورت محسوس ہوتی تو غفار بھائی تمام جماعتوں کے نمائندوں کو مدعو کرتے اور درپیش مسئلہ کے حل کیلئے کوشش شروع ہو جاتی اور ہم سب کو مختلف ذمہ داریاں تفویض کی جاتی اور ہر کوئی اپنے طور پر مطمئن رہتا اور پورے انہماک سے کام کی انجام دہی ہو پاتیں۔ مولانا عطا ء الرحمن قاسمی صاحب مرحوم مولانا ولی اللہ قاسمی صاحب اور دیگر اکابرین کے ساتھ مل جل کر کام کرنا غفار بھائی کی خصوصیت تھی وہ کس سے کیا کام لیا جا سکتا ہے اس سے بخوبی واقف تھے مجھے بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا اچھا موقع ملا، ریاستی کل جماعتی قائدین جب کبھی بھی کسی مہم کا اعلان کرتے نظام آباد سے اس مہم کے سلسلہ میں کامیاب کوشش ہوتی جس میں غفار بھائی کا کافی اہم رول ہوتا تھا۔ اللہ رب العزت نے انہیں اتم تنظیمی صلاحیتوں سے نوازہ تھا۔ اکثر ملت کے مسائل کے حل کیلئے اعلی عہدیداروں سے نمائندگی اور اس مسئلہ کے حل کیلئے متحدہ کوشش کے سلسلہ میں غفار بھائی ہمیشہ منہمک رہتے تھے اور سب کو ساتھ لے کر اس کام کو انجام دیتے اکثر وہ مجھ سے مشورے لیتے۔ غفار بھائی بڑے عالی ظرف وسیع النظر، با ہمت اور حوصلہ مند انسان تھے۔ کسی بھی کام کا اگر ارادہ کر لیتے تو اس کے تکمیل تک بے چین رہتے۔ وہ بہترین خطیب تھے، نظام آباد میں امن کمیٹی کے رکن بھی تھے اور شہر میں امن و امان کی بحالی میں پیش پیش رہتے تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے انتقال سے قبل تک بھی ہر سال کل جماعتی افراد کے ساتھ ضلع کلکٹر سے بابری مسجد کی تعمیر سے متعلق نمائندگی کرتے رہے اور سب کو جوڑنے کا وصف اللہ رب العزت نے انہیں خصوصی طور پر عطا کیا تھا، کسی بھی پروگرام کے انعقاد میں اپنی انتظامی صلاحیتوں کو روبکار لاتے اوراس کے کامیابی کیلئے جد و جہد کرتے۔ ساری زندگی دین اسلام کی سرفرازی میں صرف کی۔ اللہ رب العزت ان کی اس سعی و جہد کو قبولیت بخشے ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ملت اسلامیہ کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔ آمین

 

 

 

 

پیکرِ خلوص

 

محمد منظور احمد

نائب صدر مسلم پرسنل لاء کمیٹی نظام آباد

 

غفار بھائی سے ہمارے قدیم تعلقات تھے بچپن سے ہی ہم ان سے واقف تھے ہمارے والد محترم جناب مسعود احمد صاحب مرحوم ان کی بہت قدر کرتے تھے عیدالفطر اور عید الاضحی کے موقع پر والد صاحب ان کو خصوصی طور پر یاد فرماتے وہ ہمارے گھر اکثر تشریف لایا کرتے تھے۔ میرے والد صاحب جب صحت کی ناسازی میں مبتلا ہوئے تو والد صاحب کی عیادت کرنے ہمارے گھر تشریف لاتے تھے۔

مسلم پرسنل لا ء کمیٹی میں ان کے ساتھ کام کرنے کے مواقع میسر آئے اکثر وہ کل جماعتی اجلاس اورمسلم پرسنل کے خصوصی جلسوں کے سلسلہ میں ضلع نظام آباد کے دورہ پر مجھے ساتھ لے جاتے، ہمیشہ ملت کے مفاد کی فکر رہتی، اتحاد و اتفاق پر زور دیتے، کام کی سچی لگن اور جستجو رہتی۔ بلا تفریق مذہب و ملت خدمات کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ کسی کو ناراض کرنا ان کی فطرت نہیں تھی، اکثر میں روزانہ ان کی دوکان پر ملاقات کرتا تھا، ملی مسائل پر گفتگو ہوتی تھی۔ 2001ء میں غفار بھائی کے ساتھ حج کے سفر میں ہم ساتھ ساتھ تھے۔ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں گہ عطا فرمائے۔ آمین

 

 

 

 

نرم دم گفتگو گرم دم جستجو

 

مولانا کریم الدین کمال

صدر مدینہ عید گاہ کمیٹی، نظام آباد

 

مولوی محمد عبد الغفا رؒ صاحب بہتر اخلاق حمیدہ سے متصف انسان تھے، ان کی گفتگو کا انداز جیسے ’’نرم دم گفتگو گرم دم جستجو ‘‘ کا تھا، اللہ رب العزت نے ان کی شخصیت میں ایک مقناطیسی کیفیت عطا کی تھی، قوانین اسلامی کی پابندی ان کا شعار تھا، دیانت، امانت اور تقویٰ کا اعلی نمونہ تھے، ان کا مطالعہ نہایت وسیع تھا، آیت قرآنی، احادیث، سیرت، فقہ، فلسفہ، شعر و ادب سے بہت زیادہ دلچسپی تھی، وہ وقت کے پابند تھے اور وقت کو ضائع کرنے کو برداشت نہیں کرتے تھے، جو بھی ذمہ داری ہوتی اس کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے،

آپ مسلم پرسنل لاء کمیٹی نظام آباد کے روح رواں اور جان تھے آپ ایک زندہ دل انسان تھے، امت مسلمہ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے جرأت و بے باکی کا مظاہرہ کرتے اور اربابِ مجاز سے نمائندگی کیلئے تمام مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والے احباب کے ساتھ نمائندگی کرتے تھے مسلم پرسنل لاء کمیٹی نظام آباد و کل جماعتی اجلاس کے انعقاد میں متحرک رہتے، مسائل کے حل کیلئے اجلاس طلب کرتے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے مشاورت کرتے اور لائحہ عمل ترتیب دیتے تھے، عاجزی و انکساری کا پیکر تھے، ملی مسائل کی نمائندگی کے سلسلے میں میں اکثر ان کے ساتھ رہا، مستقر اور حیدرآباد کے سفر میں اکثر ہمارے ساتھ ہوتے، اپنے رویہ سے بہت زیادہ متاثر کرتے تھے، آپ کے انتقال سے نظام آباد میں جو خلا ء پیدا ہوئی ہے شاید ہی وہ پر ہو سکے گی؟

 

 

 

 

رونقِ خاندان

 

محمد عبدالستار دوبئی

مالا پلی، نظام آباد

 

بھائی محمد عبد الغفار مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے۔ لیکن علمی اعتبار سے اعلی رتبہ رکھتے تھے۔ ہمارا گھرانہ ایک دینی گھرانہ تھا۔ ہمارے والد محترم محمد عبدالمجید صاحب ضلع نظام آباد کے موضع موڑتاڑ میں پولیس پٹیل تھے۔ 1948ء میں پولیس ایکشن کے بعد والد صاحب کو جیل میں قید کیا گیا۔ جس کی وجہہ سے ہمارا خاندان بہت متاثر ہوا اور ہماری معاشی حالات نے ہمیں کم عمر میں ہی روزگار سے منسلک کر دیا۔ ہم لوگ اعلی تعلیم حاصل نہیں کر پائے بلکہ علم کے حصول کی عمر میں 1950ء میں روزگار کیلئے بابا پور سے نظام آباد کا رخ کیا حالانکہ اس دور میں موٹر گاڑی کا انتظام نہیں تھا۔ عبد الصمد صاحب کی بیل بنڈی میں بیٹھ کر نظام آباد پہنچے۔ اور ہمارا قیام جمعرات بازار میں محبوب بیگ صاحب کے مکان میں رہا۔ غفار بھائی دن میں محنت کرتے اور رات میں کام سے فارغ ہو کر علم حاصل کرنے کی جستجو کرتے رہتے اور سخت محنت سے اپنے مقصد کیلئے خوب جد و جہد کی اور خود کوقابل بنایا اور اپنے اندر صلاحیتیں پیدا کیں اور دینی اعتبار سے اور دنیوی اعتبار سے بھی سرفراز ہوئے۔ انہوں نے ہمارے خاندان کا نام خوب روشن کیا۔ آج بھی نظام آباد میں کوئی ہم سے پوچھے کہ آپ کون ہے ؟توہم فوری بھائی محمد عبد الغفار کا نام بتا دیتے وہ ہمارے بھائی ہے۔ بس لوگ ہماری بہت عزت کرتے ہیں یہ ہمارے لیئے بہت بڑی بات ہے۔ ابتداء میں غفار بھائی کو اسحاق سیٹھ مالک جوبلی ہوٹل نے تعلیم کی طرف توجہ دلائی وہ اکثر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسجد رضا بیگ میں مقیم رہتے تھے۔ بچپن میں کسمپرسی کی زندگی گزاری لیکن اللہ رب العزت نے انھیں دین کے کام لیے چن لیا انہوں نے ایک مجاہد کی زندگی گزاری اور علاقہ تلنگانہ میں اسلامی شعور کی بیداری کا خوب کام انجام دیا۔ جماعت اسلامی کے قائد کی حیثیت سے انہوں نے تعلیم و تربیت کا بہترین کام انجام دیا۔ ان کی تقاریر مسلمانوں کو اپنے مقصد زندگی سے واقفیت کروانے، ان کے اندر جذبات کو ابھارنے کا بہترین ذریعے تھے وہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے شیدائی تھے۔ ان کی کوئی تقریر بھی اقبالیات کے تذکرے سے خالی نہیں ہوتی تھی، بہر حال ہر نفس کو موت کا مزا چکنا ہے۔ موت سے کسی کو انکار نہیں۔ اللہ انھیں غریق رحمت کرے، ان کے درجات کو بلند کرے۔ آمین

زندگی دی، دی ہوئی اسی کی تھی        حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے      جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

 

 

 

 

بڑے آدمی

 

مسعود جاوید ہاشمیؔ،

حیدرآباد

 

۱۹۵۳ء میں والد صاحب کا تبادلہ عادل آباد سے نظام آباد ہوا، جب میں نویں جماعت میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ پہلی مرتبہ مولوی محمد عبد الغفار صاحب سے ملاقات ہوئی، وہ مسجد رضا بیگ کے امام تھے، جمعہ کا خطبہ اور مغرب میں درس قرآن دیتے تھے۔

۲۰ برس بعد ۱۹۷۳ء میں میں محکمہ آبپاشی میں سوپروائزر تھا۔ میرا تبادلہ نرمل سے نظام آباد ہوا، اس دوران میں جماعت اسلامی کا رکن بن چکا تھا اور جماعت اسلامی کا لٹریچر بڑے ذوق و شوق سے پڑھتا اور لوگوں کو پڑھواتا تھا۔ نظام آباد کے امیر جماعت اسلامی مولوی محمد عبد الغفار صاحب تھے۔ تقریر اور درس قرآن کی تربیت میں نے مولوی صاحب سے حاصل کی اور نوجوانوں میں کام کرتا رہا۔

ایمرجنسی کے دوران جب مولوی محمد عبد الغفار صاحب جرم بے گناہی میں قید کر دئیے گئے تو میں ان کی نیابت کا فرض انجام دیتا رہا، جمعہ کے خطبات اور درس قرآن کا سلسلہ جاری رہا۔

ایمرجنسی سے پہلے مولوی صاحب چاول کا ٹھوک بیوپار کرتے تھے۔ ملز سے چاول خریدنا اور دکانوں پر سپلائی کرنا ان کے بیوپار کا طریقہ تھا۔ ان کی یادداشت قابل رشک تھی۔ وہ بہت محنت کرتے تھے، روزگار کے لئے بھی اور تعلیم کے لئے بھی، روزانہ فجر کے بعد مسجد رضا بیگ کی لائبریری میں آٹھ بجے تک بلا ناغہ قرآن اور حدیث کا مطالعہ اور علامہ اقبال کے اشعار پڑھنا ان کا معمول تھا۔ وہ قرآنی آیات اور اقبال کے اشعار اپنی تقریروں میں بہت زیادہ اور بر محل استعمال کرتے تھے۔ ادارۂ ادب اسلامی کی بھی انہوں نے حوصلہ افزائی کی۔ اجتماعات کے بعد فارغ اوقات میں شعر سنتے اور داد دیتے تھے۔ ادارۂ ادب اسلامی کی نشستوں کے اہتمام میں بھی بڑی دلچسپی لیتے تھے۔

رفقاء کے ساتھ برابر ربط و ضبط رکھتے، ان کی تربیت کا اہتمام کرتے، ان کے مسائل سے دلچسپی لیتے اور حل کرنے کی کوشش کرتے، مامورین کو درس اور تقریر کی تربیت دیتے اور دعوتی اور تنظیمی کاموں میں رہنمائی کرتے، حلقے کی مجلس شوریٰ کے برسوں رکن رہے اور اپنی مفید آرا سے نوازتے رہے۔

اُڑیسہ میں دعوتی اور تنظیمی کاموں کے سلسلہ میں آپ کی خدمات حاصل کی گئیں تو آپ نے کبر سنی کے باوجود بطریق احسن کام انجام دیا۔ بڑے اجتماعات کے موقعے پر مطبخ کے انتظامات کی ذمہ داری بڑے اچھے انداز میں اپنی مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ انجام دیتے رہے، حیدرآباد سے دہلی کے آل انڈیا اجتماع کے لئے جو ٹرین بک کی گئی تھی اس میں بھی انہوں نے یہ کام بحسن و خوبی انجام دیا۔ ہم بونوں کے درمیان وہ ایک بڑے آدمی تھے۔ انہوں نے قدم قدم پر ہماری رہنمائی فرمائی اور ہم سے خلوص و محبت کا برتاؤ کرتے رہے۔ ہمارے دلوں میں مولوی محمد عبد الغفار صاحب کی یاد تر و تازہ ہے۔ اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے اور اعلیٰ علین میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین

 

 

 

 

اللہ مغفرت کرے۔ عجب آزاد مرد تھا

 جمیلؔ نظام آبادی

 

مولوی عبد الغفارؒ صاحب مرحوم نظام آباد کی نیک اور فعال شخصیتوں میں شمار کئے جاتے تھے آپ نے اپنی ساری زندگی جماعت اسلامی ہند کی پالیسیوں اور پروگراموں کی عمل آوری اور قوم و ملت کی فلاح و بہبود کیلئے عملی اقدامات کو رو بعمل لانے میں گزاری آپ نے جماعت اسلامی سے وابستہ ہونے کے بعد یہ ثابت کر دکھایا کہ آپ اس تحریک کے سچے، اچھے متحرک اور فعال فرد ہیں جنھوں نے نظام آباد میں اس جماعت کے کاموں کو آگے بڑھانے اور مسلمانوں میں اس جماعت کو پھیلانے میں نمایاں کام کیا ہے آپ جماعت کے معمولی کارکن سے شروع ہو کر نظام آباد کے امیر جماعت مقرر ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے شمالی تلنگانہ اور ریاست اڈیشہ کے ناظم کے عہدہ پر برسوں کام کیا تھا، آپ کو صرف جماعت ہی سے نہیں ملی مسائل سے بھی گہری دلچسپی تھی، آپ ملت کے درد کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہوئے ان کو حل کروانے کیلئے خود کو وقف کر دیا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ملت کا ہر مسلہ ان کا ذاتی مسئلہ اور ملت کا ہر درد ان کا ذاتی درد رہا ہو، چنانچہ ملت کے کاموں کے لئے آپ پیش پیش رہتے تھے نظام آباد کے مسلمان آپ پر پورا پورا بھروسہ کرتے تھے، نظام آباد میں شروع سے مسلم قیادت کا فقدان رہا ہے ایسے میں آپ کی شخصیت فعال نیک ثابت ہوئی تھی۔

جناب محمد عبد الغفارؒ صاحب ایک اوسط گھرانے میں پیدا ہوئے آپ کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں ملا کم عمر ہی میں آپ کو معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا، آپ کی زندگی جہد مسلسل کا ایک نمونہ تھی اپنی عملی زندگی کا آغاز آپ نے ایک چھوٹی سی ہوٹل کے قیام سے کیا تھا، آپ اس ہوٹل میں بذات خود محنت کر کے حلال رزق کے حصول کیلئے کوشاں رہتے تھے بعد میں آپ نے غلے کی تجارت شروع کی۔ اس تجارت میں اللہ نے آپ کو ترقی دی، تجارت کے ساتھ ساتھ آپ جماعت اسلامی کے پروگراموں کی عمل آوری کیلئے اپنا بھر پور حصہ ادا کرتے۔ 1975ء میں ملک میں جب ایمرجنسی نافذ ہوئی تو دوسروں کے ساتھ آپ کو بھی گرفتار کیا گیا، قیدو بند کے اس دور میں اپنا زیادہ وقت آپ نے مطالعہ میں گزارا۔ مطالعہ کے اس شوق نے آپ کی شخصیت کو نکھار۔ آپ کی سوچ اور فکر کے دروازے کھل گئے۔ آپ میں وسعتِ نظری پیدا ہوئی اور آپ ایک مسلم نمائندہ کے طور پر آ گئے آئے، جماعت کے کاموں کیساتھ ساتھ آپ نے نظام آباد میں مسلم پرنسل لاء کمیٹی تشکیل دینے میں نمایاں رول ادا کیا اور اس کے جنرل سکرٹری منتخب ہوئے۔ پھر جب یہاں مسلم متحدہ محاذ بنایا گیا تو اس کے صدر بنائے گئے، اس طرح آپ نے ملت اسلامیہ کی فلاح کے لئے کام کئے۔

عبد الغفارؒ صاحب نے مسجد رضا بیگ احمدی بازار نظام آباد کے خطیب و امام کے طور پر تقریباً نصف صدی تک بلا معاوضہ خدمات انجام دیتے ہوئے اپنی عاقبت کیلئے کام کیا۔ مسجد رضا بیگ کے ایک حصہ میں جہاں جماعت اسلامی نظام آباد کا دفتر واقع ہے اس دفتر میں آپ کیلئے ایک کمرہ مختص تھا جہاں آپ مقر رہ اوقات میں موجود رہتے یہاں آپ سے ملنے کے لیے ہر طبقہ کے لوگ، شہر کے معتبر افراد، اور سیاسی قائدین آتے رہتے، آپ کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوئے، بلکہ دو ٹوک انداز میں آپ ہر کس سے صاف اور سچی بات کہتے۔ سچ بولنے میں آپ کبھی نہیں ڈرتے۔ ہر ایک کو اس کی خامی بتا کر اپنی اصلاح کرنے کی تلقین کرتے۔

مولوی عبد الغفارؒ صاحب ایک ہنس مکھ خوش مزاج اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے ہر کسی سے خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے ملتے اور اس کے مسائل سے آگہی حاصل کر کے ممکنہ طور پر اس کی رہنمائی کرتے تھے۔ آپ میں وہ تمام خوبیاں تھیں جو ایک مرد مومن میں ہونی چاہئے۔ زندگی عملی طور پر جد و جہد کرنے والا یہ شخص مختصر کی علالت کے بعد 78برس کی عمر میں 12نومبر 2014کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا اور آنے والوں کیلئے اپنی مثالی زندگی کے نقوش چھوڑ گیا۔      اللہ مغفرت کرے۔ آمین

 

 

 

 مرحوم محمد عبد الغفارؒ صاحب کی یاد میں

 

محمد محمود علی

ناظم علاقہ اڑیسہ

 

مولانا محمد عبد الغفارؒ صاحب نے ایک طویل عرصہ تک اڑیسہ میں جماعت اسلامی کے ناظم کی حیثیت سے بے لوث خدمات انجام دی ہیں ان کے عہد میں یہاں پر اڈیا زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کا رسم اجراء بھی انجام پایا تھا۔ مولانا کی شخصیت ایک دور اندیش اور تحریک اسلامی سے والہانہ محبت رکھنے والی تھی۔ آپ جب بھی تنظیمی دورے پر کٹک ’’اڑیسہ‘‘تشریف لاتے رفقاء کے اندر ایک نئی جان پیدا ہو جاتی تھی۔ آپ قرآن مجید کی آیات و احادیث کے حوالے سے علامہ اقبالؒ کے اشعار اپنے خطاب میں کثرت سے استعمال کرتے جو لوگوں کے دلوں پر کافی اثر انداز ہوتے تھے۔ وہ فن خطابت سے لوگوں کا دل جیت لیتے تھے۔ کٹک اڑیسہ میں مولانا کی قیادت میں جلسہ سیرت نبیﷺ کا کامیاب انعقاد عمل میں لایا گیا تھا۔ اس جلسہ کے حوالے سے بھی آپ کو آج بھی اڑیسہ میں یاد کیا جاتا ہے۔ اڑیسہ میں جماعت کے بیت المال کا آغاز بھی آپ ہی کے دور میں شروع ہوا تھا۔ مولانا کی شخصیت بڑی نرم مزاج تھی لوگوں سے خوش دلی سے ملتے تھے وہ ایک زندہ دل انسان تھے۔

2008ء ملک معتصم خان صاحب کی امارت میں مولانا تنظیمی دورہ پر 8دن کیلئے اڑیسہ تشریف لائے تھے۔ آپ کی آمد پر تربیتی اجتماعات، تنظیمی اجتماعات اور مختلف مقامات پر دوروں کے سلسلے میں ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ اس دوران ایک جلسہ عام بعنوان ’’اصلاح معاشرہ‘‘ کا انعقاد عمل میں لایا گیا تھا جس میں بڑی تعداد میں مرد و خواتین حضرات نے شرکت کی تھی۔ اور مولانا نے اپنے مخصوص انداز سے اس جلسہ کو مخاطب کیا تھا۔ یہاں اس موقع پر رفقاء جماعت کی خصوصی نشست بھی منعقد ہوئی جس میں رفقاء سے عہد لیا گیا تھا کہ تحریک کی خاطر جئیں گے اور تحریک کیلئے مریں گے۔

کٹک سے 70کیلومیٹر کی دوری پر ایک مقام برم بردہ ہے جہاں پر دیوبندی جماعت کا دبدبہ ہے، یہاں ایک صاحب خیر کی جانب سے سیرت النبیﷺ کا جلسہ منعقد کیا گیا تھا۔ اس جلسہ میں دیوبندی علمائے کرام کو بھی مدعو کیا گیا۔ جلسہ کے منتظم کو یہ اطلاع ملی کہ جماعت اسلامی کے ایک ذمہ دار حیدرآباد سے کٹک آئے ہوئے ہیں تو انہوں نے فوری مولانا کو اس جلسہ میں خطاب کی دعوت دی۔ مولانا نے اس دعوت کو قبول کیا۔ جب ہم برم بردہ کے مقام پر پہنچے تو دیوبندی علماء کو اس بات کی اطلاع ملی کہ اس جلسہ میں جماعت اسلامی کے ذمہ دار بھی خطاب فرمائیں گے جس پر انہوں نے منتظمین سے اعتراض کیا اگر جماعت کے ذمہ دار تقریر کریں گے تو ہم تقریر نہیں کریں گے اور ہم ان کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھ نہیں سکتے۔ اس پر منتظم صاحب نے انھیں کھلے انداز میں کہہ دیا کہ آپ کو تقریر نہیں کرنا ہے تو نہ کریں۔ اسٹیج پر نہ بیٹھنا ہے تو نہ بیٹھیں جماعت کے ذمہ دار کی تقریر ضرور ہوں گی اس لیے کہ وہ ہمارے مہمان ہیں۔ چنانچہ پروگرام کا آغاز ہوا۔ تلاوتِ کلام پاک، نعت اس کے بعد ایک تقریر دوسرے نمبر پر مولانا کی تقریر رکھی گئی تھی، آپ نے 45منٹ سیرت کے موضوع پر تقریر کی۔ آپ کی تقریر کے بعد جلسہ سے لوگ جانے لگے۔ ہمارے ایک رفیق نے لوگوں سے پوچھا کہ پروگرام ابھی ختم نہیں ہوا ہے آپ لوگ کیوں جا رہے ہو۔ لوگوں نے کہاکہ ہم صرف جماعت اسلامی کے ذمہ دار کی تقریر سننے آئے تھے۔ یہاں یہ رواج عام ہے کہ جو بھی مقرر آتا ہے اس کو بخشش کے طور پر کچھ رقم دی جاتی ہے۔ ہم لوگ مولانا کے ساتھ کٹک واپس جانے کیلئے کار میں سوار ہوئے، منتظم صاحب ہاتھ میں پیسوں کے لفافے لے کر آئے اور مولانا کے ہاتھ میں دینے لگے مولانا نے کہا ہم لوگ پیسے لے کر تقریر نہیں کرتے۔ اسے آپ اپنے پاس رکھیں، جس پر وہاں کے لوگ بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ آج بھی وہاں کے لوگ مولانا محمد عبد الغفار صاحب کو یاد کرتے ہیں۔

بہرحال مولانا کو آ خر وقت تک اڑیسہ میں جماعت کے کام کی فکر رہتی تھی اکثر فون پر احوال پوچھا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ انھیں جنت الفردوس میں اعلی درجات عطا فرمائے۔ آمین

 

 

 

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں !

 

وسیم احمد

ظہیر آباد

 

میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی ہند ظہیر آباد کے ایک ادنیٰ کارکن کے حیثیت سے میرا مرحوم مولوی عبد الغفار صاحب نظام آباد کا سا تھ ایک لمبے عرصے تک تعلق رہا۔ وہ ناظم علاقہ تھے۔ اکثر دوروں پر ظہیر آباد آیا کرتے تھے۔ ان دنوں نظام آباد سے ظہیر آباد کا سفر بڑا تھکا دینے والا تھا۔ راستہ بے حد خراب اور اس سے زیادہ خراب بس (BUS )ہوا کر تی تھی۔ تقریباً آٹھ گھنٹے کا سفر ہوا کرتا۔ مولانا اس تھکا دینے والے سفر کے باوجود دن بھر تربیتی اجلاس میں مصروف رہتے۔ مگر آپ کی اصل آزمائش تو مخصوص رفقاء کی وہ محفل ہوتی جو رات نو بجے سے شروع ہو کر رات دو بجے تک چلا کرتی۔ جس میں مرحوم ابراہیم خان درّانی صاحب، نورالحسن غوری، اقبال احمد، محمد ایوب، اور دیگر رفقاء ہوا کرتے تھے۔ مختلف موضوعات ہوا کرتے مرحوم کی دلچسپ باتوں سے جی نہ بھرتا۔ مرحوم مولوی عبد الغفارؒ صاحب کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو جاتیں مگر مروت یہ کہ اس کا اظہار بھی نہیں کر تے۔ صرف اتنا کہتے کہ ظہیر آباد والوں کی آنکھیں جیسا جیسا رات گزرتی ہے چمکنے لگتی ہیں۔

مولانا اپنے رفقاء کے ذاتی حالات سے بھی ذاتی واقفیت رکھتے تھے۔ میں ان دنوں کاروباری سلسلے میں بڑی آزمائش سے گذر رہا تھا۔ دن بھر کے اجلاس میں شرکت نہ کر سکا۔ رات کی محفل میں ڈرتے ڈرتے چلا گیا۔ مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہو کر بڑی دیر تک گلے سے لگا کر دعائیں کرتے رہے۔ مجھے ایسا محسوس ہواجیسے میں ایک تپتی ہوئی دھوپ سے نکل کر ایک ٹھنڈے سائے دار شجر سے لپیٹ کر کھڑا ہوں۔ وہ احساس آج بھی مجھے محسوس ہوتا ہے۔

مو لانا کی تقریر کا ایک اپنا الگ انداز تھا جو بڑا پر اثر تھا۔ مولانا کی شخصیت بھاری بھر کم تھی۔ جب وہ اپنی گھن گرج آواز میں دوران تقریر علامہ اقبال کے شعر پڑھتے تو ان کی تقریر عجب موڑ اختیار کرتی۔ ان کی تقریر کا لہجہ خطیبانہ نہ تھا بلکہ اس میں مرد مومن کی للکار محسوس ہوتی۔ ایمرجنسی کے دوران ایک لمبے عرصہ کے لئے جیل میں قید رہے۔ وہ دور جماعت اسلامی کیلئے بڑا پر آشوب دور تھا۔ جیل سے رہا ہو کر جب وہ ظہیر آباد آئے تو ہم سب کا احساس تھا کہ وہ کمزور اور تھک گئے ہوں گے مگر وہ ہمیشہ کی طرح چاق و چوبند تھے اور وہی ان کی خوش مزاجی برقرار تھی۔ جیل نے انہیں ذرا بھی نہ بدلا تھا رفقائے جماعت نے جیل کی روداد سنانے کی فرمائش کی، ہم تو ان سے جیل کی صعوبتیں سننا چاہتے تھے مگر وہ جیل میں تحریک اسلامی کا تعارف دوسرے جماعتوں میں کیسے کیا گیا اور جیل میں اس موقع کا فائدہ اٹھا کر برادران وطن جس میں آر یس یس اور آنند مارگ کے ذمہ داروں کے سامنے جماعت اسلامی کا مقصد واضح کیا گیا اور وہ کیسے متاثر ہوئے۔ اور وہ لوگ جیل میں قید جماعت اسلامی کے رفقاء کی حوصلہ مندی دیکھ کر کیسے حوصلہ پا تے اس کا ذکر تفصیل سے کیا۔ یہ سب سن کر رفقاء کے دل میں نہ صرف جیل کا ڈر ختم ہوا بلکہ ایک حوصلہ مندی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ تھا مولانا کا رفقاء کی تربیت کرنے کا انداز۔

مولانا بے حد مخلص انسان تھے۔ یہ اخلاص تحریک کے مقصد سے بھی تھا، جماعت کے رفقاء سے بھی۔ مخلص انسان کی شخصیت میں جاذبیت خود بہ خود پیدا ہوتی ہے۔ ہمیشہ چاق و چوبند رہنے والے مرحوم مولوی عبد الغفار صاحب کو دیکھ کر مجھے ان میں پھول کی سی تازگی اور جاذبیت نظر آتی، ان کی یہی جاذبیت دوسروں کو بہت جلد متاثر کرتی اور ان کا دائرہ کار اور چاہنے والوں کا حلقہ خود بہ خود بڑھتا جیسے خوشبو پھیل کر، بکھر کر اپنے وجود کا خوشگوار احساس دوسروں کو دلاتی ہے۔

دعا اپنی اثر پذیری کے لئے جانی جاتی ہے وہ کبھی رد نہیں ہوتی۔ میرا یہ ذاتی خیال ہے کہ مرحوم مولوی عبد الغفار صاحب نے جو دعوتی اور جماعتی زندگی گزاری ہے انشاء اللہ وہ ان کے حق میں دعا ثابت ہو گی اور وہ وہاں ہوں گے جس کی آرزو ہر مسلمان کرتا ہے۔ آمین

 

 

 

 مولوی محمد عبد الغفار صاحب کی شخصیت کے چند پہلو

 

 ڈاکٹر محمد ناظم علی

پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کا لج موڑتاڑ، نظام آباد

 

دنیا میں چند ایسی شخصیتیں ہوتی ہیں جو اپنے فرائض منصبی انجام دینے کے علاوہ دیگر سماجی مسائل و معاشرتی بلکہ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں اور نہ صرف بھی بلکہ دیگر معاشرتی اور سماجی مسائل کے تدارک کیلئے اپنے آپ کو وقف کیا۔ مولوی عبد الغفارؒ صاحب کی شخصیت میں خلوص و محبت نیک نفسی، بے باکی اور بات میں دو ٹوک انداز، کسی کی دل آزاری نہ کرتے ہوئے اپنی بات کو منوانا اور مختلف فیصلوں میں اجتماعیت کو دخل دینا شامل ہے آپ سادگی کو پسند کرتے تھے سادہ طرز زندگی کا پیکر تھے مسجد رضاء بیگ میں امامت کے فرائض کئی برسوں تک انجام دیتے رہے۔ آیات و  قرآنی سورتوں کو نماز میں خوش لحن سے ادا کرتے تھے تاکہ روحانی جذبہ دوبالا ہو جائے آپ ملت کے نوجوانوں نسل کیلئے فکر مند رہتے تھے ان کی تعلیم و تربیت اور مستقبل کے تعلق سے کوشش و  کاوشیں کیا کرتے تھے وہ نئی نسل کو اعلی منصب پر دیکھنا چاہتے تھے۔ اقبالؒ کے کلام کے تناظر میں اپنی بات جلسوں واجلاسوں اور محافل میں بیان فرماتے تھے، فقیرانہ درویشانہ زندگی کے خواہان تھے اس کے علاوہ دوران ایمرجنسی جیل میں بھی گئے اور مسلم پرسنل لا پر ہمیشہ ڈٹے رہے اگر اسلامی اقدار یا تہذیب اورمسلم پرسنل لا پر کوئی رخنہ ڈالے تو آپ نے اجتماعی کاوشوں سے اس کو روکنے کی جستجو کی۔ اور حکومت سے اس سلسلہ میں کامیاب کوشش کی ہے۔ آئے دن اسلامی قدروں و تہذیب پر حملے ہو رہے ہیں انہوں نے اس کا جواب دینے کی برابر کوشش کی۔ وہ عالم تو نہیں تھے لیکن با عمل شخصیت تھے انہوں نے نظام آباد کے معاشرہ و سماج کی سماجی، معاشی، تعلیمی، اصلاح کے لئے انتھک محنت کی، ان کی مذہبی، دینی، معاشرتی خدمات ناقابل فراموش ہیں ایک عالم کی موت ایک عالم کی موت ہے ان کی رحلت سے جو خلاء پیدا ہو ہے، اس کو بھرنے میں برسوں لگ جائیں گے،

مولوی عبد الغفارؒ صاحب سے میرا ربط مختلف موقعوں پر منعقدہ پروگراموں اور Etvکے انٹرویو اور مختلف اجلاسوں میں رہا۔ میں نے یہ بات محسوس کی کہ وہ کم گو اور متانت و برد باری کا نمونہ تھے رہتی دنیا تک ان کے دینی، روحانی معاشرت اور دیگر کارنامے جو معاشرہ سے منسلک و منسوب ہے یاد رہیں گے خدا سے دعا ہے کہ خدا مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دئے، آمین

عصر حاضر میں حفاظ، علماء و مفتیان، کی ذمہ داری ہے کہ اپنی دینی خدمات کے ذریعے سماج میں پھیلی برائیوں اور خامیوں کو دور کرنے کیلئے عملی حیثیت سے خدمات انجام دیں آج ملت بے شمار معاشرتی سماجی برائیوں، نا انصافیوں اور حق تلفیوں کا شکار ہے لہذا مذہبی طبقہ بھی اس کے انسداد و تدارک کیلئے عملی حیثیت سے حصہ لیں تاکہ ملت کی سرخروی کا موجب بنے گا۔

میں کہاں رکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے   مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے

موت سے کس کو رست گاری ہے     آج وہ کل ہماری باری ہے۔

 

 

 

 

کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے

 

محمد عبید اللہ

نظام آباد

 

میں مولوی محمد عبد الغفار صاحب کو بچپن ہی سے جانتا ہوں، مولوی محمد عبد الغفارؒ صاحب میرے نانا سید محمد علی صاحب مرحوم رکن جماعت اسلامی نظام آباد کے رفیق خاص تھے، مولوی محمد عبد الغفارؒ صاحب ایک عظیم المرتبت آہنی شخصیت کے حامل فرد تھے وہ بیک وقت عالم، خطیب، دانشور اور رہنما کا درجہ رکھتے تھے، آپ کا شمار جماعت اسلامی کے اکابرین میں ہوتا تھا، ان کو مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ سے بہت زیادہ انسیت تھی اس لیے اکثر اپنے خطابات میں مولانا مودودی کے افکار اور علامہ کے اشعار کا برمحل استعمال کرتے تھے، نظام آباد میں آپ نے کم و بیش 60سالہ خدمات انجام دی، وہ انتہائی ملنسار اور خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے، آپ آخری دم تک تحریک اسلامی کے مقصد اقامت دین کیلے جد و جہد کرتے رہے اور اپنے بصیرت افروز خطابات سے امت مسلمہ اور تحریکی افراد کے دلوں کو جھنجوڑنے اور انھیں رب کی بندگی کی طرف آمادہ کرنے کیلئے جد و جہد کی،، مولوی محمد عبد الغفار صاحب نے ایک بہترین زندگی گزاری دین و ایمان پر قائم رہے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور جیل میں بھی دعوت دین کے کاموں کو جاری رکھا، شہر نظام آباد میں جب کبھی ناگہانی حالات پیش آتے تو آپ نے اپنی بصیرت سے امت مسلمہ کے حوصلوں کو بڑھایا اور ان حالات کا سب کو ساتھ لے کر بحسن خوبی سے مقابلہ کیا اور ہر حال میں ثابت قدم رہے، چاہے حالات ملکی ہوں یا بیرون ملک ہر موقع پر علماء کرام، دانشوروں کو جوڑے رکھا، متعدد موقعوں پر احتجاج و جلسوں کے انعقاد کے ذریعے اپنے موقوف کا اظہار کیا اور امت مسلمہ کے ساتھ ہونے والی ہر نا ا انصافی کے خلاف آواز بلند کی، ملت اسلامیہ کیلئے انہوں نے فعل خدمات انجام دیں وہ ملت کا اثاثہ تھے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ان کی راہ حق میں جو قربانیاں ہے اس کو قبولیت بخشے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا ء فرمائے، آمین

 

 

 

اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کر جی ڈرتا ہے

کیا لوگ تھے جو اس راہ گذر سے گزرے

داعی حق مولوی محمد عبد الغفار صاحب

 

محمد عبدالحئی راحیل

رکن عیدگاہ کمیٹی و حج کمیٹی نظام آباد

 

مولوی محمد عبد الغفار صاحب با عمل انسان اور داعی حق تھے، وہ ایک سچے انسان، محبت و شفقت رکھنے والے رہنما اور ملت کے پیچیدہ مسائل میں بہترین مشیر تھے، شہر نظام آباد میں ان کی ملی خدمات قابل تحسین ہے، مجھے بے حد خوشی ہے کہ میں ان کے ساتھ مختلف ملی مسائل اور پروگراموں میں ساتھ رہا ہوں، مجھے ان سے انسیت تھی، جدید مسلم قبرستان کی مساعی کے سلسلہ میں اکثر مجھے کچھ نہ کچھ کام کیلئے یاد فرماتے، ہمارے لیے مولوی محمد عبد الغفار صاحب کی زندگی ایک بہترین نمونہ ہے، اللہ رب العزت نے انہیں لوگوں کو جوڑنے اور اجتماعی جد و جہد کے خصوصی وصف سے نوازہ تھا، ملت کا درد رکھنے والی شخصیت آج ہمارے درمیان نہیں ! اللہ مغفرت فرمائیں اور ان کی خدمات کو قبولیت بخشے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

حصہ دوم

 

مضامین

 

مرد خود آگاہ

 

 لیاقت علی انجینئر

حیدرآباد

 

۱۹۵۶ء میں لسانی بنیاد پر ہندوستان کی ریاستوں کی تقسیم عمل میں آئی تو میرا تبادلہ اورنگ آباد سے نظام آباد ہوا۔ مجھے جستجو ہوئی کہ جماعت اسلامی کے افراد سے ربط پیدا کروں، پتہ چلا کہ ایک صاحب محمد عبدالرزاق نامی ہیں جو محلہ پھولانگ میں رہتے ہیں موصوف سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو سے پتہ چلا کہ یہاں پر جماعت کا وجود نہیں ہے۔ طئے پایا کہ جناب محمد عبدالرزاق کے مکان پر ہفتہ واری اجتماع کا آغاز کر دیا جائے اس وقت تک تفہیم القران کی طباعت نہیں ہوئی تھی اور نہ کوئی حدیث کی کتاب، چنانچہ حضرت محمود الحقؒ والا ترجمہ و مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی تفسیر والے قرآن سے استفادہ کیا جاتا رہا۔ ۱۹۵۸ء میں تفہیم القرآن کی اشاعت کے بعد وہی زیر مطالعہ رہی۔ افراد کی تعداد بڑھ جانے کی وجہہ سے یہ اجتماع محلہ حطائی کی مسجدمیں منتقل کیا گیا۔

اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ جناب عبد الغفار صاحب جوبلی ہوٹل میں کام کیا کرتے تھے۔ ان کا قیام مسجد رضا بیگ کے باہر جو کمرے بنے ہوئے تھے ایک کمرے میں رہتے تھے۔ اس مسجد کے انتظامات کے ذمہ دار جناب ارشاد احمد بیگ صاحب(مشہور وکیل جناب رشید احمد بیگ صاحب کے فرزند)تھے۔ میرا قیام ان کے مکان کی پچھلی جانب تھا(موصوف تبلیغی جماعت کے سرگرم کارکن تھے۔ موصوف جماعت اسلامی سے کیسے وابستہ ہوئے، ( کچھ تفصیل ہے جو بعد میں کسی موقعہ پر بیان کروں گا۔ )

ہفتہ وار اجتماع مسجد حطائی منتقل ہونے کے بعد ہم (یعنی میں اور جناب عبدالرزاق صاحب)نے جناب محمد عبد الغفار صاحب اور اجناس فروش جناب محمد عبدالحکیم صاحب اور شمبھو گڑی کے سامنے پان کے ڈبے کے مالک حامد صاحب کو اجتماع میں شرکت کی دعوت دیتے رہے۔ ان تینوں حضرت نے اپنی شرکت کو یقینی بنایا۔ اسی دوران ۱۹۵۸ ء میں بابا پور سے محترم جناب احمد عبدالقادر خاں صاحب رکن جماعت بھی نظام آباد منتقل ہو گئے۔ ہم لوگوں میں ایک قسم کی جان پڑ گئی اور سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔

چنانچہ ۱۹۵۸ء میں پولیس، بلدیہ اور الکٹرک ڈپارٹمنٹ سے اجازت حاصل کر کے برکت پورہ مارکیٹ کے احاطہ میں ایک عظیم الشان اجتماع کا انعقاد عمل میں لایا گیاجس میں با اثر غیر مسلم حضرات کو بھی مدعو کیا گیا۔ مولانا عبد الرزاق صاحب لطیفی کی تقریر کا اثر یہ ہوا کہ اجتماع کے بعد غیر مسلم وکلاء نے مولانا عبدالرزاق صاحب لطیفی کو گھیر لیا اور اصرار کیا کہ جب بھی وہ نظام آباد آئیں ان حضرات سے ضرور ملیں۔

اس اجتماع کے ضمن میں پوسٹر چپکانا اور سیکل اسٹانڈ کی ذمہ داری جناب محمد عبد الغفار صاحب کو دی گئی تھی جس کو انہوں نے بہ حسن و خوبی نبھائی، (کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ معاذ اللہ میں ان کی تنقیص و تقلیل کا مرتکب ہو رہا ہوں )اس مضمون کے عنوان پر ایک مرتبہ نظر ڈال لیجئے، آپ کا گمان ہوا ہو جائے گا۔

اکٹوبر۱۹۵۹ء میں میرا تبادلہ نظام ساگر ہیڈ سلوس پر ہوا اور پھر وہاں سے پٹلم، بچکنڈہ میں تقریباً سوا تین سال کا عرصہ گزرا۔ مارچ ۱۹۶۳ء میں ترقی پر ناگرجنا ساگر پر تبادلہ ہوا، تین ماہ تک ساگر میں مجھے تنخواہ نہ مل سکی کیونکہ میرا L.P.Cنظام آباد سے وصول نہیں ہوئی تھی۔ جنانچہ میں حصولL.P.C کے لیے نظام آباد پہنچا۔ نظام آباد چھوڑے تین سال سے زائد ہو چکے تھے۔ سب سے پہلے پان کے ڈبے کے مالک حامد صاحب سے ملاقات ہوئی۔ دونوں بھی بہت خوش تھے۔ انہوں نے مجھے دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ وہ دھارو گلی میں رہتے تھے۔ میں سونچا کہ پہلے ظہر کی نماز پڑھ لوں اس کے بعد کھانے کے لئے جاؤں۔ مسجد میں داخل ہوا مسجد میں موٹے موٹے ستون تھے۔ ایک ستون کو سہارا بنا کر نماز ادا کی۔ نماز کے بعد اعلان ہوا کہ تھوڑی دیر تشریف رکھیں درس قرآن ہو گا۔ پہلے سے ستون کی آڑ میں تھا، ویسے ہی بیٹھا رہا۔ مدرس کی شکل نظر کے سامنے نہ تھی۔ درس شروع ہوا، درس کی نوعیت۔۔ اعلی درجہ کا انداز بیان، اردو کی سلاست، فی البدیہہ موزوں اشعار، سوز و گداز سے بھرا درس اور تحریکی انداز، میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ یہ صاحب جماعت اسلامی کے محسوس ہوتے ہیں۔ ذرا ستون کی اوٹ ہٹا کر دیکھا تو میری حالت عجیب ہو گئی۔ خوشی کے مارے میرے آنسو نکل آئے۔ اپنے آپ کو سنبھالنے میں تھوڑی دیر لگی۔ میرا دل مالک حقیقی کے آگے سجدہ ریز ہو گیا، اور اندر سے ایک آواز آئی اللہ چاہے تو ذرہ کو آفتاب بنا سکتا ہے۔ یہ جناب عبد الغفار تھے۔

یہ وہ حقیقت ہے جس سے موجودہ نسل واقف نہیں بعد کے حالات سے آپ حضرات مجھ سے زیادہ واقف ہیں۔

یہ مضمون نا مکمل رہ جائے گا، اگر میں محترم عبدالرزاق صاحب(پھولانگ) کا تذکرہ نہ کروں۔ محترم انتہائی درجہ خلیق، ہمدرد، صابر، پر سوز پر حکمت، معاملہ فہم، دور اندیش، حد درجہ متقی، نڈر اور اقامت دین کی راہ میں استقامت ان کا شیوہ رہا۔

ان دونوں ’’مرد خود آگاہ‘‘ کو اللہ تعالیٰ اپنی فردوس بریں کا مکیں بنائے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 جناب محمد عبد الغفار صاحب مرحوم

 

سیدشکیل احمد انور

حیدرآباد

 

محمد عبد الغفار صاحب سے جماعتی تعلقات کے علاوہ تقریباً (۴۰) (۵۰)سال سے شخصی شناسائی تھی۔ وہ میرے بہنوئی جناب عبدالجمیل خان صاحب مرحوم (چار بھائی بیڑی)کے نہایت قریبی دوستوں میں سے تھے۔ جو لوگ جمیل بھائی سے واقف ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ وہ جماعتی رفقاء کے معاملات، ان کی دینی سرگرمیوں وغیرہ کے سلسلہ میں اپنی راست گوئی کے پہلوسے کافی مشہور تھے اور لوگ بھی چوکنا رہتے تھے لیکن وہ جن جماعتی احباب کے قدر داں تھے ان میں عبد الغفار صاحب کو خصوصی مقام حاصل تھا۔

جماعتی زندگی میں کسی فرد کا بالکل ابتدائی سطح سے ابھرنا ملی،سماجی اور عوامی مسائل میں سرگرم کردار ادا کرنا،معروف مذہبی معاملات۔ مسجد کی امامت و خطابت، شرعی خاندانی مسائل کے تصفیہ میں دلچسپی لینا اور ان مصروفیات کے باوجود اپنی روٹی روزگار کے کاروبار میں مقام پیدا کر  لینا یہ ہرکس وناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔

جمیل بھائی کاگھراورآفس بودھن روڈپربس اسٹانڈ کے قریب تھا اوراس کے عقب میں مسجد رضا بیگ میں محمد عبد الغفار صاحب امام و خطیب تھے وہ مسجد کی مصروفیات کے علاوہ قریبی بازار میں چاول کا کاروبار کرتے۔ وہیں ان کی دوکان تھی۔ صبح سے شام تک کتنا فروخت کرتے اس کا اندازہ نہیں کئی سال یہ کاروبار چلا ظاہر ہے کہ منافع بخش رہا ہو گا۔ اس کے بعد مسجدرضا بیگ کے کمرہ میں جماعتی مکتبہ قائم جو مکتبہ تعمیر انسانیت کہلاتا تھا اوراسلامی فکر کی پاکیزگی کے ساتھ عطریات کی خوشبو کا معنی خیز بکھراؤ وہاں سے ہوتا رہا۔ اس طویل عرصے میں مسجدرضا بیگ میں جماعتی اثر برابر بڑھتا رہا اور اب بھی وہاں جماعتی دفتر کی شاندار عمارت میں تحریکی سرگرمیاں چلتی رہتی ہیں۔

چالیس سال قبل نظام آباد کی مقامی جماعت میں عبدالرزاق صاحب مرحوم (سپروائزرنقشہ نویس)کا دور بھی دیکھا ہے۔ ارکان جماعت کی تعداد۱۹۷۷ء  میں (۲۱)تھی البتہ مسائل کافی تھے۔ شہر فرقہ وارانہ طور پربھی کافی حساسیت کا حامل تھا۔ ہرسال کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہوتی رہتی تھی۔ امیر حلقہ جناب عبدالرزاق لطیفی مرحوم کاپیس مشن ایک کامیاب تجربہ تھا۔ فرقہ وارانہ صورتحال جہاں بہتری آئی وہیں جماعتی مسائل کے دباؤ میں بھی کمی آئی۔ مقامی جماعت کے نوجوان عنصر کو آگے بڑھایا گیا اس میں محمد عبد الغفار صاحب بھی تھے۔ جو بعد میں امیر مقامی(۱۹۶۶ء) سے ناظم علاقہ، رکن مجلس شوریٰ و نمائندگان رہے (۱۹۹۰ء تک ) جماعت کے چھوٹے بڑے اجتماعات میں ناظم مطبخ کی نازک و جوکھم بھری ذمہ داری ادا کئے

جماعت کے میقاتی پروگراموں پرمبسوط عمل آوری کی سعی اس دور میں نمایاں رہیں جبکہ محمد عبد الغفار صاحب امیر مقامی تھے بلکہ بعض معاملات میں وہ کافی نمایاں کردار ادا کرتے تھے جب مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام ہوا نظام آبادمیں جماعت کی نگرانی شرعی پنچایت کمیٹی بھی تھی اس کے وہ کنوینر تھے۔ جب حلقہ کے علم میں یہ بات آئی کہ نظام آباد میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی مقامی شاخ بنی ہے تو انہیں متوجہ کیا گیا کہ یہ بات مناسب نہیں ہے چنانچہ اس کا نام مسلم پرسنل لا کمیٹی نظام آباد ہوا۔ جماعت نے ۱۹۷۸ء سے سیکولرسیاسی امیدواروں کی عام انتخابات میں تائید کا فیصلہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں مقامی جماعتوں کے ذمہ داروں کے اثرات سیاسی حلقوں میں نمایاں طور پر پڑے اوراس کا اثر نظام آباد میں خاص نمایاں طور پر دکھائی دیا۔ ایک اسمبلی انتخاب میں جماعت کا تائیدی امیدوار کامیاب ہوا اور وہ وزیر بھی بنایا گیا۔ اس نے محکمہ اکسائیزکی وزارت سنبھالنے سے محض اس وجہہ انکار کر دیا کہ وہ جماعت سے وعدہ کر چکا ہے کہ شراب بندی کی کوشش کرے گا چنانچہ اس کی برسراقتدارپارٹی نے دوسرامحکمہ اس کو دیا۔ اس کی ایک وجہہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مقامی طور پرسیاسی بازپرس کا معاملہ نہایت چوکس تھا۔ یہ معاملہ نہیں تھا، جیساکہ ایک قدآورسیاسی قائد نے بتلایا کہ فرشتہ صفت انسانوں کی ایک جماعت ہمیشہ اس کی تائید بلا شرط کرتی رہی ہے۔ جس کے باعث وہ سیاست میں اونچے مقام تک آیا۔ اور وہ ایسے لوگ ہیں جو بعد میں کبھی نظر نہیں آتے حالانکہ بہت سے دوسرے با اثر افراد اور جماعتیں ہمیشہ اپنی سیاسی تائید کو کیاش کراتی رہیں ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ۲۰۰۵ء کے بعد عبد الغفار صاحب کسی جماعتی منصب پر منتخب نہ ہو سکے۔ اس معاملہ میں وابستگان جماعت کی روایت پسندی کا بڑا دخل ہے ایک مرتبہ جب ان مناصب پر کوئی نئی ٹیم آ جاتی ہے تو کافی عرصے تک اس میں کوئی دوسرانام بڑی مشکل سے آتا ہے خواہ کسی کی خدمات کچھ بھی کیوں نہ رہی ہوں۔ حالانکہ جماعت میں صالحیت اور با صلاحیت واستعداد کے لحاظ سے بدرجہ خوب تر ارکان ہر وقت موجود رہے ہیں اورسابقہ ذمہ دار حضرات اپنے تجربات کے لحاظ سے ایک درجہ زیادہ فوقیت رکھتے ہیں۔ مگر روایت اور شعور کے معاملے کوکیسے سمجھایا جائے

۱۹۷۷ء  میں جبکہ محمد عبد الغفار صاحب امیر مقامی تھے ۲۰۱۵ء  تک جماعت میں نئے ارکان کی شمولیت ہوئی اور اب ماشاء اللہ (۷۲)ارکان وہاں ہیں جماعت میں نئے خون،جوش و جذبے کا اضافہ ہوا ہے۔ خدا کرے کہ ہوش، تحریکی فکر و نظم کے استقلال اور دعوت حق کی توسیع اوستحکام کا باعث ہو۔ واللہ مستعان علیٰ ماتصفون         6/10/2015

٭٭٭

 

 

 

 

محمد عبد الغفار صاحب ایک مِلی اور عوامی شخصیت

 

ملک معتصم خان

صدر ویلفر پارٹی آف انڈیا

 

محمد عبد الغفار صاحب سے ایک لمبے عرصے سے ملاقات کا شرف حاصل رہا۔ موصوف سے انفرادی گفتگو،  اجتماعات میں ایک ساتھ شرکت، اور کئی بار شریک سفر رہنے کا موقع بھی ملا ہے۔ جناب محمد عبد الغفار صاحب کی شخصیت اور خدمات ایسی رہی ہیں کہ جن کو عوام بہت دنوں تک یاد رکھیں گے۔ ہم جیسے لوگوں پر بھی فرض بنتا ہے کہ موصوف کی شخصیت اور خدمات کے بارے میں اپنے جذبے و تاثرات کو ضبط تحریر لائیں تاکہ آئندہ آنے والے لوگوں کیلئے استفادہ کا باعث ہو۔ میں اس موقع پر اپنے تاثرات درج کر رہا ہوں

1۔ محمد عبد الغفار صاحب کی شخصیت کا ایک اہم پہلو وہ قرآن مجید سے گہرا شغف اور لگاؤ رکھتے تھے۔ آپ کو قران حکیم پڑھنے، سمجھنے اور یاد کرنے سے بڑی دلچسپی تھی۔ مختلف موضوعات پر قرآن مجید کی آیات یاد رکھنے اور پیش کرنے،  اور اس کے انطباق پر آپ کو عبور حاصل تھا۔ جن لوگوں نے بھی آپ کے خطبات جمعہ،  سیرت کے خطاب اور خطاب عام میں تقاریر سنیں ہیں وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ اس سلسلہ میں آپ کی محنت اور جستجو بہت عمدہ تھی۔

2۔ آپ کی شخصیت کا دوسرا اہم پہلو ڈاکٹر علامہ اقبال کے کلام سے محبت اور لگاؤ ہے موصوف کو بعض نظمیں تو مکمل یاد تھیں اور بعض موقعوں پر ’’بند‘‘ کے ’’بند‘‘ سنایا کرتے تھے۔ خاص طور پر ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘، ابلیس کی مجلس شوریٰ، کو اپنی تقریر کا موضوع بناتے تھے۔ اشعار اور اس کی تفہیم و تشریح اسطرح کرتے تھے گویا کہ وہ اقبالیات پر ڈاکٹریٹ کر چکے ہوں۔

3۔ آپ کی شخصیت کا تیسرا اہم پہلو آپ کے خطا بات اور تقریر ہیں۔ قرآن و سنت کا گہرا مطالعہ، بالخصوص تفہیم القرآن کا گہرائی سے مطالعہ اور اقبال کے کلام اور اس کے فہم نے آپ کو بہترین خطیب بنا دیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ موصوف نے سید مودودی اور علامہ اقبال سے بھر پور استفادہ کیا اور اپنی شخصیت اور صلاحیت کو نکھار نے میں بھر پور مدد لی۔ آپ کوئی سند یافتہ مولوی یا عالم نہیں تھے لیکن مستند بات لوگوں تک پہنچاتے تھے۔

4۔ آپ کی شخصیت کا چوتھا پہلو مِلت اسلامیہ کے لئے دردمند دل رکھتے تھے۔ شہر نظام آباد یا اطراف کے گاؤں و دیہات ہوں وہاں کے ملی مسائل کو حل کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔ ملی مسائل کو حل کرنے میں قائدانہ رول آپ کی شخصیت اور خدمات کا اہم پہلو ہے۔ شہر نظام آباد اور علاقہ کے تمام ملی رہنماؤں، علمائے اکرام، سیاسی رہنماؤں سے آپ کے شخصی تعلقات تھے۔ ہر اہم مسئلہ پر اقدام کرتے ہوئے تمام ذمہ داروں کو جمع کرتے اور اجتماعی حیثیت سے سرگرمیوں کو انجام دیتے، اجتماع ہو یا حکومت کو نمائندگی کرنا ہو ہر معاملہ میں عبد الغفار صاحب کی شخصیت ایک نمایاں نام رکھتی تھی۔ اس دوران شہر نظام آباد میں مسلم متحدہ محاذ،  مسلم پرسنل لا کمیٹی وغیرہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ موصوف کے انتقال سے شہر نظام آباد کی مِلی زندگی ایک حرکیاتی قائد سے محروم ہو گئی اور ابھی یہ خلا پر ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔

5۔ جماعت اسلامی ہند کے آپ ابتدائی زندگی سے دم آخر تک رکن رہے۔ شہر نظام آباد، ضلع کے پورے علاقے میں جماعت کے تعارف، توسیع اور استحکام میں آپ کی دوڑ دھوپ، لگن، محنت، جرات مندی، دِلسوزی کا بڑا دخل رہا۔ امیر مقامی، ناظم ضلع، ناظم علاقہ، حلقہ کی شوریٰ کے رکن رہے۔ آپ پورے علاقہ میں منظم دورہ کرتے تھے۔ رفقاء کی ذہن سازی اور کردار سازی میں نمایاں حصہ لیتے تھے آپ نے عوام میں جماعت اسلامی ہند سے دلچسپی پیدا کرنے اور کارکنوں کے فہم اور سرگرمی کو سنوارنے میں بڑی مدد کی۔ اللہ بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ موصوف کی شخصیت اور خدمات کو قبول فرمائے۔ اور اپنی شخصیت کو سنوارنے اور امت مسلمہ کیلئے آپ کی جو خدمات اور کوشش رہی اس کے مطابق دوسروں کو کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین

 

 

 

مولانا عبد الغفارؒ تحریک اسلامی کا مرد درویش

 

محمد خواجہ نصیر الدین

ناظم ضلع، جماعت اسلامی، نظام آباد

 

مولانا عبد الغفارؒ صاحب مرحوم 1937 ء میں موڑتاڑ میں پیدا ہوئے آپ کے والد محمد عبدالمجید پولیس پٹیل تھے۔ پولیس ایکشن کے بعد آپ کی ملازمت ختم ہو گئی آپ کے دادا شاہ محمد جو پنجاب سرحد سے تشریف لائے تھے، آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت موڑتاڑ میں ہوئی، بابا پور میں سید احمد شہید کی تحریک "تحریک مجاہدین” کا زور تھا، اس تحریک کے روح رواں مولانا عباسؒ بابا پور میں ہی قیام پذیر تھے آپ کے والد بھی اس تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے۔ ابتداء ہی سے آپ کا گھرانہ اسلامی جذبوں سے سر شار تھا، جب آپ کا خاندان بابا پور سے نظام آباد منتقل ہوا تو یہاں بھی آپ کو دینی ماحول ملا۔ آپ کے استادوں میں مولانا حمید احمد، مولانا صغیر احمد انور، مولانا شبیر احمد اظہر شیخ الحدیث کی نگرانی میں قرآن کی تعلیم حاصل کی حصول علم کے سلسلے میں آپ نے انتھک کوشش کی۔ احمدی بازار کی چھوٹی سی مسجد عثمانیہ رضا بیگ کو آپ نے حصول علم کا مرکز بنا کر اپنے استادوں سے تعلیمی فیض حاصل کرتے رہے۔

مولانا عبد الغفارؒ صاحب مرحوم 1956 ء میں بابا پور سے نظام آباد منتقل ہوئے تو جوبلی ہوٹل قلعہ روڈ پر ملازمت اختیار کی۔ جوبلی ہوٹل کے مالک جناب سید اسحاق صاحب مرحوم نے آپ کو جماعت اسلامی کا تعارف کروایا۔ اور تحریکی لٹریچر مطالعہ کے لیئے فراہم کیئے۔ 1957ء میں تحریک اسلامی کے ہم خیال ساتھی ایک جگہ جڑنے لگے۔ جن میں جناب ارشاد احمد صاحب، جناب لیاقت علی صاحب انجینیر اور جناب عبدالقادر خانصاحب شامل تھے۔ ان حضرات نے مسجد عثمانیہ رضا بیگ میں باضابطہ اسٹڈی سرکل کا نظم شروع کیا۔ 1958ء میں مولانا عبدالرزاق لطیفی صاحب مرحوم نظام آباد تشریف لائے اور آپ کو جماعت اسلامی ہند ضلع نظام آباد کے ناظم کی حیثیت سے ذمہ داری دی گئی۔ مولانا عبدالرزاق لطیفی صاحب نے، جناب عبدالقادر خان صاحب باباپور کو خط لکھ کر نظام آباد آنے کی دعوت دی تاکہ تحریک اسلامی کے کاموں کا فروغ حاصل ہو سکے۔ چنانچہ 1959 ء میں جناب عبدالقادر خان صاحب نظام آباد تشریف لائے۔ آپ کو امیر مقامی نظام آباد کی ذمہ داری دی گئی۔ جناب عبدالقادر خان صاحب نے اپنے تحریکی رفقاء کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ 1960ء میں آپ کی امارت میں جناب عبدالرزاق صاحب (پھولانگ) جناب عبد الغفار صاحب کی رکنیت مولانا ابو للیث اصلاحی ندویؒ امیر جماعت اسلامی ہند نے منظور فرمائی۔ مولانا نے اپنی ذاتی صلاحیت و قابلیت کی بناء پر تحریک اسلامی میں مقام بنایا۔ 1966ء میں امیر مقامی جماعت اسلامی ہند نظام آباد مقرر کئے گئے۔

تحریک اسلامی کا آزمائشی دور

1965-67 ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ بے قصور لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔ لاکھوں کی املاک نقصان ہوئی۔ مولانا عبد الغفار صاحب کی نگرانی میں ریلیف کا کام کیا گیا۔ جیل اور مختلف پولیس اسٹیشنوں میں حراست میں رکھے گئے لوگوں تک مولانا عبد الغفارؒ صاحب کھانا خود پہنچاتے تھے۔ ایک مرتبہ 10تا 15 افراد کی ایک ٹولی نے مولانا کو گھیر لیا۔ زد و کوب کیا جس سے جسم کا بیشتر حصہ زخمی ہو گیا۔ 25جون 1975کو کانگریس حکومت نے ملک میں انٹرنل ایمرجنسی نافذ کر دی۔ 26پارٹیوں پر امتناع عائد کیا گیا جسمیں جماعت اسلامی بھی شامل تھی۔ 4 جولائی1975 جمعہ کا دن تھا بعد نماز عصر مسجد رضا بیگ جماعت اسلامی کے دفتر پر دھاوا کیا گیا۔ مسجد رضا بیگ جماعت اسلامی کے دفتر کو پولیس نے گھیر لیا اور دفتر میں موجود افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ جس میں جناب عبدالرزاق صاحب (پھولانگ) ناظم ضلع، احمد عبد القیوم صاحب، جناب یعقوب علی صاحب کے علاوہ مولانا عبد الغفارؒ صاحب امیر مقامی کو گرفتار کیا گیا۔ دو دن پولیس ٹاؤن میں رکھنے کے بعد 15دن کے لیئے عدالتی تحویل میں دیا گیا۔ اس کے بعد نظام آباد جیل بھیج دیا گیا 10دن بعد ضمانت پر رہائی عمل میں آئی لیکن مولانا عبد الغفار صاحب امیر مقامی، جناب عبدالرزاق صاحب (پھولانگ) ناظم ضلع، جناب یعقوب علی صاحب خازن کو دوبارہ میسا (Mísa) کے تحت گرفتار کیا گیا۔

جیل کی زندگی

جیل کی زندگی نے مولانا کو مطالعہ کے لئے ماحول فراہم کیا۔ چنانچہ آپ نے عثمانیہ یونیورسٹی کی لائبریری کی ساری کتابوں کا مطالعہ کیا۔ یہ سہولت حکومت کی جانب سے مہیا تھی۔ جیل میں ایک لیبر آفیسر عبدالرسول صاحب رشوت کے الزام میں سزا کاٹ رہے تھے وہ انگریزی قواعد کے ماہر تھے۔ چنانچہ مولانا عبد الغفارؒ صاحب اور آپ کے ساتھیوں نے ابتدائی انگلش گرامر تا ہائی اسکول انگلش گرامر عبدالرسول صاحب سے سیکھ لیئے۔ جیل میں درس قرآن و احادیث کا سلسلہ جاری رہتا بعد نماز فجر درس قرآن جس کو مولانا عبد الغفارؒ صاحب اکثر دیا کرتے تھے۔ دوپہر درس حدیث کا پروگرام ہوتا۔ مغرب کے بعد کل جماعتی سیاسی اجلاس ہوتا۔ جسمیں ملک کی صورتحال کے بارے میں مذاکرے منعقد ہوتے تھے۔ مولانا کے درس قرآن میں غیر مسلم حضرات بھی شریک رہتے۔ جیل کی زندگی غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت کا اچھا موقع تھا۔ بی جے پی، آر یس یس لیڈرس سے اسلام کے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔

دعوتی کردار

مولانا عبد الغفارؒ صاحب نے اپنی زندگی کے قیمتی سال دعوت اسلامی کے لئے وقف کئے۔ 1960ء میں جب تحریک اسلامی کے ہمسفر ہوئے تو تحریک کے لئے اپنی زندگی کو وقف کر دیا۔ تھیلی میں دینی کتابیں رکھ کر لوگوں سے گھر گھر ملاقاتیں کرتے۔ سیکل پر سفر کرتے۔ ایک دور ایسا بھی تھا آپ نے کندکورتی، رنجل، اے آر پی کیمپ ہنگرگہ، ساٹا پور ان دیہاتوں کا سیکل پر سفر کیا اور وہاں تحریک اسلامی کے لئے بہت کوششیں کی۔

تحریکی ذمہ داریاں

1966 ء سے لے کر1977ء تک مولانا عبد الغفار صاحب نے امیر مقامی جماعت اسلامی ہند نظام آباد کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دی۔ اس کے بعد 1977ء سے 1988ء تک ناظم ضلع جماعت اسلامی ہند نظام آباد کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیئے۔ پھر 1988ء سے لے کر 1995ء تک ناظم علاقہ شمالی تلنگانہ کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دی۔ 1980 تا 1995تک مجلس نمائندگان کے رکن رہے۔ 1977 تا 2003 تک مجلس شوریٰ جماعت اسلامی ہند آندھراپردیش کے رکن رہے۔

ذوق مطالعہ

دینی کتابوں کے مطالعہ کے ذوق نے مولانا کی شخصیت کو نکھارا۔ مولانا نے اگرچیکہ کوئی ڈگری حاصل نہ کی لیکن علم کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر موتی حاصل کیئے۔ بچپن سے ہی مطالعہ کا شوق تھا۔ جناب رشید احمد ایڈوکیٹ اور مرزا یونس بیگ صاحب آپ کے استادوں میں سے تھے جنھوں نے تعلیم کے سلسلے میں اہم رہنمائی فرمائی۔ مولانا کا قرآن و حدیث کا گہرا مطالعہ تھا۔ مطالعہ کے ذوق کا یہ عالم تھا کہ ایک بجے رات تک کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے۔ جب آپ ہوٹل چلا رہے تھے تو ہوٹل کی مصروفیات کے باوجود مطالعہ کے لئے وقت نکالتے تھے۔ مولانا ہر روز مسجد میں نماز فجر کے بعد درس قرآن دیا کرتے تھے۔ مولانا خطبہ جمعہ کا موقع یا کوئی موضوع پر تقریر۔ عنوان کی باضابطہ تیاری کرتے۔ آپ کی تقاریر میں اقبالیات کا رنگ ہوتا۔ خاص طور پر علامہ اقبال کی اہم طویل نظمیں ازبر تھی جنھیں وہ اپنی تقاریر میں موزوں جگہ استعمال کرتے تھے۔

 ملی و سیاسی تحریکات میں حصہ

مولوی عبد الغفار صاحب کو جماعت اسلامی میں آنے سے پہلے کمیونسٹ پارٹی سے لگاؤ تھا۔ اسی لئے جماعت اسلامی میں آنے کے بعد ملی و سماجی و سیاسی تحریکات میں دلچسپی لیتے رہے۔ 1966ء میں نظام آباد میں مسلم مجلس مشاورت قائم کی گئی تو مولانا کو معتمد بنایا گیا۔ شاہ بانو کیس کے بعد مسلمانوں کے معاشرتی مسائل پر اصلاح معاشرے کے جائزہ کے لئے با ضابطہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ مولوی عبد الغفار صاحب کو اس کمیٹی کا معتمد بنایا گیا۔ 6ْ/ ڈسمبر 1992ء کو بابری مسجد شہید ہونے کے بعد ضلع نظام آباد سطح پر بابری مسجد کمیٹی بنائی گئی تو مولانا کو اس کمیٹی کا کنوینر منتخب کیا گیا۔ مولانا نے پرسنل لاء کمیٹی کے معتمد اور بابری مسجد کے کنونیر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری بحسن خوبی نبھائی۔ جماعت اسلامی ہند نظام آباد نے 2004 – 2008 میں شہر کے تمام مساجد کے علماء و صدور کا اجلاس طلب کرتے ہوئے مساجد کمیٹی کا قیام عمل میں لایا تاکہ ملت کہ مشترکہ مسائل پر تمام علماء کی آواز ایک ہو۔ آپس میں تعاون ہم آہنگی کی فضاء ہموار ہو سکے۔ مولانا عبد الغفار صاحب کو مساجد کمیٹی کا صدر بنایا گیا۔

2004ء میں اسمبلی انتخابات میں فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینے کے لئے مسلم یونائیٹڈ فورم ریاستی سطح پر قائم کیا گیا۔ اضلاع کی سطح پر بھی اس کی توسیع کی گئی ضلع نظام آباد کی سطح پر مولانا عبد الغفار صاحب معتمد منتخب کیئے گئے مولانا نے اپنی سیاسی بصیرت سے فورم کو متحرک رکھا۔ مولانا نے 1957ء سے تا حیات اعزازی طور پر مسجد کے امام و خطیب کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔ مولانا کا طویل علالت کے بعد 12 / نومبر 2014ء 12بجے دن 77 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

مولانا کے اندر اسلام اور ملت اسلامیہ کی خدمت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ مختصر یہ ہے کہ مولانا کی تحریک اسلامی و ملت اسلامیہ کے لیئے قربانیاں ہم سب کے لیئے مثالی نمونہ ہیں۔

اُف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے       کیا مسافر تھے جو اس راہ گزرسے گذرے ہون

٭٭٭

 

 

 

مولوی محمد عبد الغفار صاحبؒ یادوں کے جھروکوں سے

 

 سید مجیب یعقوبی

ڈائرکٹر کریسنٹ گروپ آف اسکول، نظام آباد

 

جب کبھی مسجد رضا بیگ احمدی بازار نظام آباد میں داخل ہوتا ہوں تو یادوں کا ایک سیل رواں میرے دماغ میں گردش کرنے لگتا ہے۔ زندگی کے ابتدائی شعوری ایام میں والد محترم مولوی سید یعقوب علی صاحب مرحوم نماز کی ادائیگی کیلئے ہم بھائیوں کو مسجد رضا بیگ لے جایا کرتے تھے۔ فراغت نماز کے بعد جن شخصیات کے ساتھ والد محترم کی ملاقات رہتی تھی ان میں نمایاں و قابل ذکر شخصیت مولوی محمد عبد الغفار صاحب خطیب و امام مسجد رضا بیگ تھے۔ مسجد رضا بیگ ہی میں جماعت اسلامی ہند شہر نظام آباد کا مرکز ہے اور اکثر ارکان و کارکنان وہاں نماز ادا کرتے ہیں۔ محترم مولوی عبد الغفار صاحب کا مخصوص لہجہ قرأت آج بھی میرے دماغ میں محفوظ ہے۔ خاص طور پر مولوی محمد عبد الغفار صاحب کا جمعہ کا خطبہ سننے کیلئے با ذوق حضرات دور دور سے تشریف لایا کرتے تھے۔ موضوع کا انتخاب اور حالات حاضرہ سے انطباق قرآن اور حدیث کے حوالہ جات، مسائل کے حل کی شکلیں اور تدابیر دوران خطبہ علامہ اقبال، عامر عثمانی اور حفیظ میرٹھی کے اشعار کا استعمال اس انداز سے پیش کیا جاتا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا کہ ہار کی بناوٹ میں ہر چیز کو موزوں اور مناسب مقام پر جڑا اور پُروایا گیا ہے۔ خاص طور پر مولوی محمد عبد الغفار صاحب کے روزانہ کے معمولات قابل رشک تھے۔

یہ بات مشہور تھی کہ وہ روزانہ صبح4؍بجے بیدار ہوتے نماز تہجد کے بعد قبرستان جاتے پھر اس کے بعد فجر کی اذان سے آدھا گھنٹہ قبل مسجد رضا بیگ آتے اور مطالعہ قرآن میں مصروف ہو جاتے، نماز فجر کے بعد 15منٹ تا20منٹ پابندی سے درس قرآن دیا کرتے تھے اس کے بعد کچھ دیر دفتر جماعت میں بیٹھتے لوگوں سے ملاقاتیں کرتے اور پھر سودا سلف کیلئے بازار میں نظر آتے۔ سودا سلف کے بعد وہ اپنی چاول کی دکان پر 8بجے سے لوگوں کو دستیاب رہتے۔ یہ معمولات کسی سفر کے باعث ہی متاثر ہوتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز1956ء میں ایک ہوٹل میں ملازمت سے کیا تھا۔ لیکن مسلسل مطالعہ تحریک سے والہانہ وابستگی اور اپنی انفرادی کوششوں کے ذریعہ انہوں نے اپنے آپ کو خوب نکھارا اور1966ء میں جماعت اسلامی ہند شہر نظام آباد کے امیر منتخب ہوئے۔ جماعت اسلامی ہند کی امارت اس زمانے میں مصائب و آلام کو دعوت دینی تھی۔ موصوف نے بھی بہت سی آزمائشیں اور مصیبتیں جھیلیں۔ حتیٰ کہ انہیں زد و کوب بھی کیا گیا۔ 1975ء میں ایمرجنسی کے زمانے مینMisaکے تحت بہت سے ارکان کو پابند سلاسل کیا گیا۔ چشم دید گواہوں کو آج بھی وہ دن یاد ہیں۔ 4؍جولائی1975ء جمعہ کا دن بعد نماز عصر مسجد رضا بیگ پر پولیس کی جانب سے دھاوا کیا گیا اور مولوی محمد عبد الغفار صاحب و دیگر رفقاء کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اس موقع پر جناب احمد عبدالعظیم صاحب و جناب احمد عبدالحلیم صاحب کے والد محترم جناب عبدالقیوم صاحب جو کورٹلہ سے آئے تھے نماز کی ادائیگی کے بعد دفتر جماعت میں تشریف فرما تھے کہ اچانک پولیس نے دفتر کو گھیر لیا اور مولوی محمد عبد الغفار صاحب کے علاوہ عبد القیوم صاحب اور دیگر رفقاء کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں محمد عبدالرزاق صاحب پھولانگ ناظم ضلع نظام آباد اور میرے والد محترم جناب سید یعقوب علی صاحب جو مقامی جماعت کے خازن تھے گرفتار کر لئے گئے۔ مولوی عبدالرزاق صاحب اور مولوی محمد عبد الغفار صاحب کے بعد جن کو سب سے زیادہ جیل میں وقت گذارنا پڑا وہ میرے والد محترم تھے، والد محترم نے 17مہینے مشیر آباد سنٹرل جیل میں گذارے۔ ایمرجنسی کے تکلیف دہ زندگی کے مرحلوں کا والدہ محترمہ اکثر ذکر کرتی ہیں اس وقت میرے بڑے بھائی صاحب جناب سید ایوب علی کی عمرصرف11سال تھی۔ محترم مولوی محمد عبد الغفار صاحب اور عبد الرزاق صاحب مرحوم ساکن پھولانگ18مہینے سے زائد عرصہ جیل میں گذارے۔ جیل کی زندگی میں بھی ان کا ذوق مطالعہ ان کا دعوتی کردار اور ان کی جرأت و بے باکی، خاص طور پر آر ایس ایس کے احباب کے درمیان انہوں نے جس طرح دین کی دعوت رکھی آج بھی اس کے تذکرے سننے کو ملتے ہیں جو قابل تقلید ہیں۔ مولوی محمد عبد الغفار صاحب نے ہر موقع پر ایک ہمہ وقت جماعتی کارکن، دین کے سچے سپاہی اور پا بہ رکاب کی طرح زندگی گذاری۔ جیل کے تکالیف نے ان کے پایہ استقامت میں کوئی فرق پیدا ہونے نہ دیا۔ پہلے سیکل کے ذریعہ نظام آباد کے قریہ قریہ میں تحریک اسلامی کے پیغام کو پہنچایا۔ آج بھی کنداکرتی،رنجل، اے آر پی کیمپ، ہنگرگہ، کوپرگا، بودھن آرمور کے قدیم رفقاء اس کی گواہی دیتے ہیں۔

مولوی محمد عبد الغفار صاحب نے 1977ءتا1988 ء تک ناظم ضلع کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جب انہیں 1988 ء تا 1996ء تک ناظم علاقہ شمالی تلنگانہ کی ذمہ داری سونپی گئی تو انہوں نے ضلع عادل آباد کے دورافتادہ اور دور دراز وسیع و عریض رقبہ پر پھیلے ہوئے ضلع کے ہر پسماندہ مقامات کا اسکوٹر کے ذریعہ سفر کیا۔ اسلام اور جماعت کے پیغام کو تمام مقامات تک پہچانے کی اپنی سی سعی و جد و جہد کی۔ آج بھی ایچوڑہ، اندرولی، خانہ پور، نرمل، عادل آباد، نارائن کھیڑ اور مختلف مقامات کے رفقاء ان کے متواتر دوروں، نشستوں کا انعقاد اور ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مسجد رضا بیگ سے متصل ان کا مخصوص کمرہ 1966-77ء تک دفتر جماعت اسلامی ہند شہر نظام آباد رہا۔ 1977-88 ء سے تک دفتر جماعت اسلامی ہند ضلع نظام آباد رہا اور 1988-95ء تک دفتر جماعت اسلامی علاقہ تلنگانہ رہا۔ انہیں ناظم علاقہ اڑیسہ کی ذمہ داری دی گئی تھی باوجود عمر کی زیادتی اور وسائل کی قلت کے انہوں نے کئی مرتبہ علاقہ اڑیسہ کا دورہ کیا اور اس دوران اسفار میں پیش آنے والی تکالیف کو برداشت کیا۔ اس ذمہ داری کوبحسن و خوبی انجام دیا۔

وہ مسجد رضا بیگ میں عصر کی نماز کے بعد درس حدیث دیتے اور اس کے بعد جب کبھی وہ نظام آباد میں ہوتے دفتر میں ایک محفل جمتی مولوی فقیر محمد خان صاحب، مولوی قادر خان صاحب، مولوی محمد عبدالقادر عارف صاحب، عبد المتین متینؔ صاحب یہ وہ لوگ تھے جو اکثر ان کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔ علمی، ادبی اور دینی موضوعات پر وہاں سیرحاصل گفتگو ہوا کرتی۔ کبھی بہترین اشعار کا تبادلہ بھی ہوتا۔ یہ افراد علمی ادبی اور دینی شعوری آگہی کے لحاظ سے شہر کے قابل ترین لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ راقم الحروف کو اس بات کا شرف حاصل ہے کہ باوجود کم عمری کے اکثر اس محفل میں جایا کرتا اور ان کے تجربات ان کی علمی بحثوں اور ان کے دینی معلومات سے مستفید ہوتا تھا۔ وہ اکثر اسفار اپنی اسکوٹر ہی کے ذریعہ کرتے تھے۔ کبھی اپنے بھانجے محمد واجد صاحب کو کبھی توحید کو اور کبھی عبدالرزاق صاحب موذن کو اور محمد مبین صاحب آپٹیکل کو اپنے ساتھ لے لیا کرتے تھے۔

1990میں بی ایڈ تعلیم کے سلسلے میں میرے محبوب نگر میں قیام کے دوران مجھے اطلاع ملی کہ مولوی عبد الغفار صاحب نظام آباد سے تشریف لائے ہیں تو پروگرام کے بعد میں نے ان سے ملاقات کی۔ جب میں نے اِن سے دریافت کیا کہ آپ کس طرح آئے ہیں تو فوراً انہوں نے اپنی اسکوٹر کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ میں اسکوٹر سے کرنول گیا تھا۔ واپسی میں یہاں ٹھہر گیا۔ میں تعجب میں پڑ گیا۔ عمر کے اس حصہ میں بھی کہ اتنا طویل سفر وہ کس طرح اسکوٹر پر کر پاتے ہیں۔ مجھے انہیں دیکھ کر اکثر یہ شعر یاد آتا ہے ؎

میرا تو جنون مصلحت اندیش نہیں ہے

بہتر ہے کہ خود وقت ہی اپنے کو سنبھالے

دے دعوتِ آرام کسی اور کو منزل

میں اپنی تھکن بھی نہ کروں تیرے حوالے

آندھرا کے سیلاب کے موقع پر اور چھٹے آل انڈیا اجتماع کے موقع پر انہوں نے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ ایک موقع پر غالباً شب قدر کا موقع تھا۔ مولوی عبد الغفار صاحب کی تقریر کا آغاز11: 10بجے پر ہوا اور قریب قریب2: 40بجے تک وہ اپنے خیالات سے سامعین کو محظوظ کرتے رہے اس موقع پر قوی شاکر صاحب نے مجھے سے کہا کہ میں ان کے اشعار کو گنوں گا اور میرے ذمہ یہ بات تھی کہ میں ان کے قرآنی حوالوں کو گنوں اس موقع پر انہوں نے 40اشعار کا استعمال کیا اور 26قرآنی آیات اور کثیر احادیث کے حوالے دیئے۔ وہ ایسا حافظہ رکھتے تھے کہ کسی بھی موقع پر قرآن کی کسی بھی آیت کا سیاق و سباق شان نزول اور کوئی بھی شعر کی تشریح سے خاص طور پر اقبالیات پر انہیں خصوصی دسترس تھی۔ موقع کے لحاظ سے قرآنی آیات اور اشعار کا استعمال کرتے تھے۔ جرأت اور بے باکی سے معمور ان کی تقریریں ہوتیں۔ برجستہ اشعار کہتے۔ خاص طور پر ابلیس کی مجلس شوریٰ کے اشعار ؎

مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے

پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے

تو کبھی

میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں

میں اپنی تسبیح روز و شب کرتا ہوں دانہ دانہ

کی بہترین انداز سے توضیح اور عصر حاضر کے تناظر میں اس کی افادیت کو بیان کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بیدار ملی و سیاسی شعور رکھا تھا۔ بعض افراد کو مخصوص ناموں سے بھی بلایا کرتے تھے خاص طور پر عارف انصاری کو ’’ایمرجنسی اسکارٹ‘‘ اور مجھے ’’چھپارستم‘‘ کہتے تھے۔ انہوں نے مسلم پرسنل لاء کمیٹی کے ذریعہ تمام مکتب فکر کے احباب کو جوڑنے میں بہت نمایاں کردار انجام دیا تھا۔ اسی طریقہ سے شرعی پنچایت نظام آباد کے قیام اور یونائٹیڈ مسلم فورم نظام آباد کی تشکیل میں بہت نمایاں کردار انجام دیا۔ رحمانیہ اسکول نظام آباداورمسلم دوا خانہ (نظام آباد کلینک)کے قیام میں بھی انہوں نے اہم ترین کردار انجام دیا تھا۔ دوسری جماعتوں سے تعاون کرتے اور افراد اور جماعتوں پر راست تنقید سے وہ ہمیشہ اجتناب کرتے تھے۔

ان کے پیش نظر ہمیشہ ملت کا وسیع تر مفاد ہوتا تھا۔ وہ ہر معاملے میں جرأت کے ساتھ اظہار خیال کے بھی خوگر تھے۔ ایک دفعہ راقم الحروف کو ان کے ساتھ ڈی سرینواس ریاستی وزیر کے پاس جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں انہوں نے بغیر کسی مرعوبیت کے مسلم علاقے میں میٹرنٹی دوا خانے کے قیام سلسلے میں ڈی سرینواس کو اس طرح مخاطب کیا۔ ’’بابو‘‘ اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے کہ ضرورت مندوں کے کام آئیں ایک اچھے کام کیلئے ہم آپ کو توجہ دلانے آئے ہیں۔ مسلم علاقے میں میٹرنٹی ہاسپٹل کی شدید ضرورت ہے یا سرکار کی طرف بکرا مارکٹ احمدی بازار میں دوا خانہ کا قیام عمل میں لائے یا جماعت کو اراضی الاٹ کرائیں تاکہ جماعت وہاں پر میٹرنٹی ہاسپٹل قائم کر سکے یہ ایک موقع ہے اس کو غنیمت جانو ورنہ اللہ یہ موقع چھین بھی لیتا ہے۔ کسی سے بھی مرعوب و متاثر نہیں ہوتے بلکہ بے لاگ انداز سے اظہار خیال کرتے تھے۔

ایک واقعہ جو میرے دل و دماغ میں پیوست ہے کہ 1984ء میں باوجود کم عمری اور کم علمی کے مجھے SIOکی مقامی ذمہ داری دی گئی اور بقر عید کے موقع پر SIOنے یہ بات طئے کی کہ وہ جماعت کے ساتھ چرم وصول نہ کرے گی بلکہ علیحدہ چرم وصول کرے گی۔ جماعت یہ چاہتی تھی کہ ایس آئی او علیحدہ چرم وصول نہ کرے معاملہ امیر حلقہ تک پہنچ گیا اورایس آئی او کی جانب سے اس سلسلے میں امیر حلقہ محترم مولانا عبدالعزیز صاحب کو ایک تفصیلی مکتوب تحریر کیا گیا تھا۔ اس مکتوب کا تمام متن مجھے آج بھی یاد ہے۔ مسودہ میں ایک جملہ اس طرح تھا کہ امیر حلقہ سے گذارش کی جاتی ہے کہ وہ مقامی جماعت کے تعلق سے محض شاخ تراشی سے کام نہ لیں بلکہ اس کے لئے عمل جَرّاحی ناگزیر ہے۔ امیر حلقہ مولانا محمد عبدالعزیز صاحب مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے فوراً نظام آباد تشریف لائے۔ جماعت اسلامی شہر نظام آباد کے آفس پر انہوں نے ایس آئی او کے ذمہ داران کو طلب کیا اور محترم امیر حلقہ مولانا محمد عبدالعزیز صاحب جو صاحب بصیرت بھی تھے اور جہاں دیدہ بھی انہوں نے مجھ سے کہا کہ بیٹا یہ تیری تحریر نہیں ہے۔ تجھ سے کسی نے یہ الفاظ لکھوائے ہیں اور انہوں نے تمام معاملے کو بحسن و خوبی کے ساتھ رفع دفع کیا اور یہ جملے ارشاد فرمائے جو انشاء اللہ مجھے تا حیات یاد رہیں گے۔ ’’ بیٹا !جو لوگ دینی کام کر رہے ہیں ان کی قدر کرو، تصادم کے بجائے تعاون کی روش اختیار کرو۔ ‘‘30سال پر محیط بے شمار واقعات ہیں جو دل و دماغ میں محفوظ ہیں مضمون کی طوالت کا خدشہ قلم کو روک رہا ہے کہ قرطاس پر مزید آگے نہ بڑھا جائے۔ محترم کی چاول کی دکان پر آخری مرتبہ صبح کے وقت ملاقات ہوئی تھی اس موقع پر سوز نجیب آبادی ان کی دکان پر بیٹھے ہوئے تھے میں نے جب مولانا کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ ’’ان کی زبان سے ہماری کیفیت شعر کی شکل میں سن لو‘‘اورسوز نجیب آبادی کی طرف اشارہ کیا۔ سوزنجیب آبادی نے داغؔ کا وہ شعر سنایا۔

ہوش و حواس، تاب و تواں، داغ جا چکے

اب ہم بھی جانے والے ہیں، سامان تو گیا

بعد ازاں مولانا عبد الغفار صاحب سے ان کی رہائش گاہ پر آخری ملاقات میرے چھوٹے بھائی سید نجیب علی کے ساتھ ہوئی تھی۔ ان کی قلندرانہ طرز زندگی زبان قال سے نہیں زبان حال سے کہہ رہی تھی۔

دو عالم سے بیگانہ کرتی ہے دل کو

عجب چیز ہے لذت آشنائی

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں سے درگذر فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کو تحریک اسلامی کا مدد گار بنائے اور تحریک کو ہر دور میں ایسے فعال اور متحرک داعی نصیب فرمائے۔ آمین۔

 

دل وہ تپتی ہوئی ریتیلی زمیں ہے کہ جہاں

نقش رہ جاتے ہیں اور لوگ گذر جاتے ہیں

12؍نومبر2014ء کو مولوی محمد عبد الغفار صاحب ہمارے درمیان سے رخصت ہو گئے۔ نصف صدی پر محیط مسجد رضا بیگ کی اعزازی امامت و خطابت اور تحریک سرگرمیوں کا اختتام ہو گیا۔ لیکن ہر ایک کے دِل وہ قیام پذیر ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

 ان کے نام جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا

 

 محمد عبدالرحیم قمر

رکن جماعت اسلامی ہند شہر نظام آباد و صدر ادارہ ادب اسلامی ہند شہر نظام آباد

 

یہ شاید 15؍ڈسمبر2014ء کی بات تھی کہ میں اپنے فون پر ایس ایم ایس چیک کر رہا تھا کہ مجھے اس میں برادرم عزیز سہیل کا ایس ایم ایس نظر آیا جس میں لکھا تھا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ والد صاحب مرحوم کی زندگی کے واقعات پر مبنی ایسی کتاب مرتب کروں جس میں میرے علاوہ دیگر وہ احباب جو ان کے ہم عصر رہے ہوں یا جو ان کے قریب رہے ہوں اپنی اپنی وابستگی کے متعلق کچھ نہ کچھ لکھیں اس SMSکو پڑھنے کے بعد میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر میں کس زمانے سے بات شروع کروں اور ان کی زندگی کے کون سے پہلو کا تذکرہ کروں بے شمار واقعات ہیں جس کا شمار بہرحال مجھ سے ممکن نہیں ہو گا۔ بیشتر واقعات جو پچھلے 4تا5د ہوں پر مشتمل ہیں ان کے دھندلے دھندلے واقعات اور ان کی ہلکی اور کچھ مثبت تصاویر ابھی بھی میرے ذہن میں موجود ہیں لیکن میں یہ طئے نہیں کر پا رہا ہوں کہ چچا مرحوم کے تذکرے کو کس دہے سے شروع کروں اگرپچاس سالہ واقعات کو صفحہ قرطاس پر جگہ دیتا ہوں تو زیر ترتیب کتاب مجھے اس طویل تحریر کیلئے جگہ کا شکوہ کرے گی۔ لہٰذا میں نے حتی الامکان کوشش کی کہ جتنا بھی اختصار ممکن ہو اسے ملحوظ رکھوں گا۔

چچا صاحب مرحوم کا ہمارے ساتھ کوئی خاندانی یا نسبی رشتہ نہیں تھا لیکن ایک مضبوط رشتہ جسے تحریکی رشتہ کہا جاتا ہے وہ ان کے ہمارے درمیان اور دیگر تحریکی احباب کے درمیان موجود تھا جو کہ تمام ہی مروجہ رشتوں سے بلند بالا اور اہم ہوتا ہے۔ میں نے جب شعور کی آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو تحریک اسلامی کے ہاتھوں میں پایا۔ میرے والد مرحوم و مغفور جماعت کے ابتدائی ارکان میں سے تھے ان کی تحریک سے نسبت اور بے پناہ وابستگی تھی ان کے کام کے تذکرے آج بھی جماعتی حلقوں کے علاوہ قریبی احباب کی زبانی اکثر سننے میں آتے ہیں۔ جب مجھے والد صاحب اپنے ساتھ اجتماعات میں لے جاتے تو میں اس وقت بہت ہی چھوٹا7-6سال کا بچہ تھا مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا لیکن وہاں پر جو حضرات ہوتے ان کی باتیں ان کے چہرے ذہن نشین ہو جاتے اور میں چچا مرحوم کو دیکھتا کہ وہ اکیلے گفتگو کر رہے ہیں سب لوگ خاموشی سے سن رہے ہیں کسی کو کچھ کہا جا رہا ہے کسی سے کچھ سناجا رہا ہے۔ جب یہ سوال ذہن میں گردش کرتا کہ اتنے لوگ ایک طرف بیٹھے خاموش سن رہے ہیں اور ہمیشہ یہ صاحب ہی کھڑے ہو کر ان سب کی طرف منہ کئے کیا کیا بولتے رہتے ہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ گھر آ کر والد صاحب سے سوال کرتا ابا یہ صاحب کون ہیں اور کیا کہہ رہے تھے اور آپ سب وہاں کیوں جمع ہوتے ہیں اس کا کیا مطلب ہے۔ ابّا کہتے بیٹے ابھی تم بچے ہو ذرا بڑے ہو جاؤ گے تو سب باتیں تمہاری سمجھ میں آ جائیں گی۔

خیر وقت گذرتا رہا دن بیتتے رہے 1967ء تا1969ء مجھے تعلیم کیلئے کریم نگر روانہ کر دیا گیا ان دوسالوں میں، میں نظام آباد سے دور رہا پھر 1969ء میں جب نظام آباد آیا تو یہاں مرے والد صاحب کے کاروبار کی مجبوریوں کی وجہ مجھے کریم نگر کی تعلیم منقطع کرنی پڑی اس زمانے میں ہماری ایک چھوٹی سی کتابوں کی دوکان ہوا کرتی تھی جسے خصوصی طور پر ہر رمضان المبارک میں دوکان کے باہر خصوصی سیل رکھا کرتے تھے تو اس دوکان میں مجھے ہی رہنا پڑتا تھا اس دوکان پر سارارمضان جماعت کے رفقاء کچھ نہ کچھ خریدنے آ جاتے تھے گویا ملاقاتوں کا بڑا اچھا موقعہ فراہم ہوتا تھا چچا مرحوم مولوی محمد عبد الغفار صاحب جن کے گھر کا راستہ ہماری دوکان کے راستے پر ہی تھا اس طرح ان کا یہاں رک جانا فطری تھا اکثر کچھ نہ کچھ گفتگو ہوتی کچھ ہدایتیں دیتے اور چلے جاتے ایک دن کہنے لگے میاں ایسا کرو کہ اپنی ہم عمر کچھ لڑکوں کو ساتھ لے کر اجتماعات شروع کرو کچھ دین کا کام کرو ان سے یہ بات سن کر میں مسکراتا اور خاموش ہو جاتا۔

پھر ایک دن ملاقات ہوئی کہنے لگے دیکھو بابو آج بعد نماز عصر دفتر میں مجھ سے ملنا میں انتظار کروں گا تھوڑی دیر کیلئے میں پریشان ہو گیا آخر کیوں بلا رہے ہیں۔ بہرحال کئی ایک خدشات کے ساتھ دفتر پہنچا ملاقات کیا تو انہوں نے بتایا کہ دیکھو بابو(وہ مجھے پیار سے یہی کہتے تھے )کچھ لڑکے جمع ہوئے ہیں تم بھی ان کے ساتھ ہو جاؤ ہفتہ میں ایک بار اجتماع رکھ لو تھوڑی دیر کے بعد دو لڑکے آئے تو چچا نے ان سے مجھے ملایا اس طرح ایک چھوٹی سی تنظیم جس کا نام نوری محفل رکھا گیا تھا قائم ہو گئی جو کہ کئی دنوں تک باقاعدگی سے چلائی گئی اس کے بعد جماعت کے ریاستی سطح پر اسٹوڈنٹس اسلامک یونین نامی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیاجس سے ہم سب وابستہ ہو گئے یہ اور اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جسے بیان کرنا مشکل ہے۔ نفس مضمون کا تقاضہ ہے کہ محترم چچا محمد عبد الغفار صاحب کی زندگی کے ان روشن پہلوؤں کوسامنے لایا جائے جس کے ذریعہ وہ بلند و اعلیٰ معیار و مقام پر دکھائی دیتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اوپر لکھ دیا ہے کہ میں اپنے بچپن ہی سے چچا مرحوم کو نہایت قریب سے دیکھتا آیا ہوں بہت سے واقعات جو ذہن سے محو ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے کام جو انشاء اللہ بھلائے نہیں جا سکتے جو کارکنان تحریک کیلئے مشعل راہ ہیں نہ جانے کیوں یہاں مجھے اپنا ہی شعر زبان پر آتا ہے

حسین دن تھے سہانی تھیں کس قدر گھڑیاں

تصورات میں گذرے زمانے آتے ہیں

میں نے 1965ء سے ہی جو کہ مری یادداشت میں موجود ہے دیکھتا آیا ہوں کہ وہ مسجد جو کہ آج مرکز جماعت کہلاتی ہے ایک غیر آباد مسجد تھی جسے اس کے متولی صاحب اور چچا مرحوم نے بڑی کوششوں سے آباد کیا راستے میں کھڑے ہو کر لوگوں سے کہتے بھائی یہاں پر اس مسجد میں بھی نماز قائم ہو رہی ہے آیئے یہاں نماز پڑھئے۔ پھر دوسری بات جو میں نے اس وقت سے لے کر ان کی صحت تک یعنی جب وہ مسجد آنے جانے کے قابل تھے یہ معمول دیکھتا آیا ہوں کہ وہ صبح کی اولین ساعتوں میں مسجد میں آ جاتے نوافل کا اہتمام کرتے۔ نماز با جماعت کی امامت کرتے پھر دفتر پر بیٹھ جاتے وہاں پر قرآن کا مطالعہ کا معاملہ ایسا تھا جیسا جسم کیلئے غذا کا ہوتا ہے اس کے بعد دیگر چیزوں کا مطالعہ جیسے احادیث اور دیگر کتابوں کا مطالعہ کرتے یہ معمول میں کم و بیش پورے 40تا45سال دیکھتا رہا اس معمول میں وقفہ اسی وقت آتا جب موصوف کوئی تحریکی دورے پر ہوتے یا کوئی شرعی یا ضروری کام سے شہر سے باہر ہوں شہر میں موجود ہوں اور دفتر میں نہ آئیں یا نماز میں نہ رہیں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

بحیثیت امیر مقامی نہایت شاندار کام انہوں نے انجام دیئے جسے جماعت کے سنہری دور سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ 1967ء میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس میں کافی جانی و مالی نقصانات ہوئے اسی دوران نظام آباد میں 5معززین شہر کو پولیس نے گرفتار کر لیا جس میں جماعت کے اس وقت کے ناظم ضلع مولوی محمد عبدالرزاق صاحب کے علاوہ غیر جماعتی چار احباب کو نظام آباد قلعہ جیل منتقل کیا گیا۔ اس وقت کے امیر حلقہ آندھراپردیش مولوی محمد عبدالرزاق صاحب لطیفی تھے انہوں نے عبد الغفار صاحب جو کہ اس وقت امیر مقامی نظام آباد تھے فون پر گفتگو کی تمام صورتحال معلوم کی اور فرمایا کہ عبد الغفار صاحب آپ نظام آباد جیل کو جائیں اور معلوم کریں کہ اس وقت وہ سارے گرفتار شدگان کو کہاں رکھا گیا ہے کہیں انہیں دوسری جگہ منتقل تو نہیں کیا جا رہا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں اس وقت آج کی طرح فونس کی اتنی سہولیات نہیں تھیں ایک فون ملا کر گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا فون بھی تھا تو دفتر جماعت پر گھر اور دفتر میں بھی کافی فاصلہ تھا چچا مرحوم نے یہ تمام مجبوریوں کا ذکر امیر حلقہ سے بیان کیں رابطہ کی دشواری ہے اس وقت فساد چل رہا ہے قلعہ جیل کا راستہ اسی فساد زدہ ایریوں سے ہو کر گذرتا ہے وہاں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن امیر حلقہ مولانا لطیفی صاحب نے فرمایا عبد الغفار صاحب ان ہی حالات میں وہاں پہنچ کر ان لوگوں کی کیفیت آپ کو معلوم کرنا ہے مجھے آپ کی ایک جان سے کہیں زیادہ سے پانچ افراد کی جانیں قیمتی ہیں مجھے یہ معلوم ہو کہ عبد الغفار صاحب نے امیر کی اطاعت میں شہادت پائی۔ اتنا سننا تھا کہ چچا مرحوم نے اپنی سیکل نکالی پہلے اسکوٹر اور یہ گاڑیاں بھی کہاں میسر تھیں جانے کو تو چلے گئے اور پہنچ بھی گئے لیکن جب جیلر سے ملاقات کر کے واپس ہوئے تو راستے میں شرپسندوں نے گھیر لیا جم کر مقابلہ ہوا بے انتہا زد و کوب کئے گئے پورے آدھے گھنٹے تک اپنی سیکل گھماتے ہوئے سخت ترین مقابلہ کیا بعد میں کچھ لوگوں کو پتہ چلا تو مدد کو وہاں پہنچے تو شرپسند فرار ہو گئے۔

اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا موصوف مرحوم سمع و طاعت کے کس بلند و بالا مقام پر فائز تھے میں سمجھتا ہوں بلکہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ زندگی کے آخری لمحات تک اللہ تعالیٰ نے عزت توقیر عطا فرمائی آخر وقت تک بھی ان کی شخصیت میں عجیب قسم کا رعب و دبدبہ موجود تھا میں نے انہیں کبھی کسی سے مرعوب ہوتے ہوئے یا مغلوب ہوتے ہوئے یا دبتے ہوئے نہیں دیکھا ان کے تعلقات شہر کے تمام ہی مکتب فکر کے لوگوں سے تھے ان میں علماء عظام، سیاسی، سماجی قائدین مقر رین اور معزز شہریان شامل تھے اکثر معززین ملی و ملکی مسائل پر گفت و شنید کیلئے دفتر جماعت آتے یہاں ان کے اجلاس ہوتے تھے۔ سن 1965ء کا دور تھا مسلم مجلس مشاورت نظام آباد کا قیام ان کی دلچسپی اور کوششوں کا نتیجہ تھا اس کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام بھی ان کی زندگی کا زرین کارنامہ ہے ساتھ ہی شہر کی سطح پر مسلم متحدہ محاذ کے قیام میں کلیدی رول انہوں نے ادا کیا ملت اسلامیہ کے مفادات ملی و ملکی مسائل پر وہ کسی بھی طرح خاموش تماشائی نہیں رہے بلکہ ایک ذمہ دار قائد کی طرح سب سے پہلے ہر معاملے میں پہل کی۔ ملی مفادات کے تئیں انجام دیئے گئے ان کے تمام کام انشاء اللہ یادگار رہیں گے ملت کے انصاف پسند احباب ان کے کام کو تاریخ کا انمٹ حصہ بنائیں گے۔

جیسا کہ اوپر میں نے لکھا ہے بحیثیت امیر مقامی ان کا دور انتہائی سنہری حرفوں میں لکھا جائے گا انہوں نے رفقاء میں سمع و طاعت کا جو جذبہ پروان چڑھایا تھا وہ اپنے آپ میں ایک مثال تھا وہ ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر تھے نظم کو چلانے کا طریقہ انتہائی موثر اور مضبوط تھا محاسبہ کی نشستوں کا جو بھی دن آتا رفقاء بڑے پریشان رہتے جو کام ہونے سے رہ گئے ان کا کیا جواب دیں گے تنظیمی گروپ اس قدر موثر تھی کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

اس کے بعد وہ ناظم ضلع منتخب ہوئے بحیثیت ناظم ضلع نظام آباد بے شمار کام انہوں نے انجام دیئے ضلع بھر میں دورے، انتہائی پابندی سے کیا کرتے تھے معمول کے مطابق ہفتہ اور اتوار کو برابر دوروں پر چلے جاتے چاہے موسم کیسا بھی ہو کچھ بھی ہو کاروبار کی صورتحال کیسی ہی کیوں نہ ہو مزاج کی سازگاری وناسازی سب چیزیں بالائے طاق رکھ دیا کرتے تھے بس ایک دھن کہ کام ہو دین کا بول بالا ہو یہ سلسلہ دو ایک دن نہیں بحیثیت ناظم ضلع بحیثیت ناظم علاقہ بحیثیت رکن شوریٰ اور بحیثیت ناظم علاقہ اڑیسہ ان کی صحت کے زمانے تک قائم رہا ایک بات یہ ہے کہ اڑیسہ میں جماعت کا کام نہیں کے برابر تھا یہ محترم کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ وہاں کام کا آغاز ہوا۔ الحمد للہ آج وہاں جماعت کا کام کافی حد تک بڑھ گیا ہے۔ موصوف کے اثرات جماعتی حلقوں سے ہٹ کر دیگر سماجی اور سیاسی حلقوں تک وسیع و عریض تھے۔ ہر حلقے میں موصوف کو معزز اور محترم جانا جاتا تھا ان کی رائے مشورہ کو قدر کے ساتھ قبول کیا جاتا تھا۔ آج یہ عظیم شخصیت ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کے بیش بہا کارنامے اور ان کے قائدانہ شب و روز ان کی تقاریر ان کے خطابات اور ان کے خطبات جمعہ، دروس کی محافل تذکیر و تزکیہ کی نشستیں جن میں خاص کر اپنی تقاریر میں کثرت سے علامہ اقبال کے اشعار کا استعمال اور موقع و محل اور برجستگی ساتھ ایسے کرتے کہ معلوم ہوتا تھا کہ موصوف علامہ اقبال کے اشعار کا مدلل خلاصہ پیش کر رہے ہیں ان کی تقاریر میں قرآن اور حدیث مبارکہ تاریخ اسلام صحابہ کرامؓ و صحابیاتؓ کے تذکرے سے متعلق بے شمار حوالے بہرحال موجود ہوتے۔ موضوعاتی تقاریر پر بھی انہیں بڑا دسترس حاصل تھا۔

اور ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اپنی تقاریر و خطابات میں اشاروں، کنایوں میں کبھی اپنے آپ کو ہی مخاطب کر رہے ہوں کہ بقول شاعر

سنگ ہاتھوں میں لئے ہر کوئی آتا ہے نظر

کم سے کم آپ تو آئینہ بنا لو مجھ کو

انسان کی زندگی میں خوشی غم مصیبت راحت پریشانیاں آتی جاتی رہتی ہیں ان ادوار سے موصوف محترم بھی گذر چکے ہیں تحریکی کاموں کے آغاز کے موقع پر موصوف ان مراحل سے برسوں گذر چکے ہیں پھر مالی مشکلات پھر فراغت پھر قید و بند کی صعوبتیں گھریلو مسائل خاندانی مسائل اور جماعتی مسائل گویا زندگی میں خوشیوں کے ساتھ ساتھ بے شمار تکالیف بھی انہوں نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیں میں ان کی یہ تصویر اپنے ہی اشعار میں دیکھتا ہوں یہ کیسا پیکر استقامت ہے جو یہ کہہ رہا ہو۔

قوت ضبط مجھے اتنی خدا نے دی ہے

درد بے چارا پریشاں ہے کہاں سے اٹھے

یا پھر یوں کہہ رہے ہیں

احباب میرے طنز کے نشتر چلا گئے

سانچے میں صبر و ضبط کے ڈھلنا پڑا مجھے

بہرحال محترم کی اثر انگیز شخصیت خود ہمیں اپنی حیات تک بھلائی نہ جا سکے گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے زندگی کے کارناموں کے عوض اپنی بہترین نعمتوں بھری جنتوں میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی قبر کو نور سے منور فرمائے اور اسے حد نظر وسیع فرمائے اور ان کاحساب آسان فرمائے اور ان کا نعم البدل عنایت فرمائے۔ آمین۔

آخیر میں انہیں اپنے اس شعر سے خراج پیش کرتا ہوں۔

رونق تھی اس چمن میں تمہارے وجود سے

’’تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ زیبا لے کر

مولوی محمد عبد الغفارؒ صاحب مرحوم ایک شخصیت کئی پہلو

 

 سید نجیب علی ایڈوکیٹ

نظام آباد

 

مولوی محمد عبدالغفار صاحب مرحوم وضع دار، منکسرالمزاج، متواضع،  توحید کے علمبردار، ایک داعی، پر عزم بلند مقاصد کے حصول کے لئے اور اقامت دین کی سرگرمیوں میں پوری تن دہی کے ساتھ یقین محکم عمل پیہم کی حامل ہمہ پہلو شخصیت کی حیثیت سے دینی حلقوں میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے تھے۔ سن شعور کی ابتدا ء ہی سے شخصی طور پر مجھے انہیں دیکھنے کا موقع ملا اور تقریباً 20سال تک مجھے وقتاً فوقتاً ان کی صحبت علمی سے فیضیاب ہونے کا بھی موقع ملا۔

مجھے تحریک اسلامی سے اب بھی لگاؤ ہے اگرچیکہ میں تحریک سے فعال طور پر اجتماعی حیثیت سے جڑا ہوا نہیں ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس اجتماعیت کے طفیل مجھے شعور حاصل ہوا ہے۔ اور انہی بزرگوں کے علمی چشموں سے سیراب ہونے کا بھی موقع ملا بلاشبہ جماعت اسلامی کے ہر اول دستہ کے اولین شخصیات جنہوں نے اپنے سرمایہ زندگی کو اقامت دین کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے دوام زندگی کو اپنا منتہائے مقصود بنا لیا تھا۔ اسلامی سربلندی اور اس کی اشاعت و ترویج کیلئے ان کی سرگرمیاں سعی و جہد تحریک اسلامی کے البم کے وہ انمٹ نقوش ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

میرے والد مرحوم مولوی سید یعقوب علی صاحب جماعت اسلامی کے رکن تھے وہ 48برس کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے والد مرحوم بچپن میں ہم بھائیوں کو لے کر جماعت اسلامی کے منعقد ہونے والے تربیتی اجتماعات میں شریک ہوتے تھے ان اجتماعات کی یادوں کے دھندلے نقوش اب بھی ذہنوں میں ابھرتے ہیں آہ یہ کیسے لوگ تھے للہیت کے جذبہ سے سرشار ہر شخص اپنے کاز اور مقصد و نصب العین کیلئے مخلص متحرک ایک دوسرے کیلئے بھرپور رفیق کار جماعت کے ذمہ داران جب آتے اجتماعات منعقد ہوتے نظم و ضبط مختلف شعبوں میں کام کرنے والے ذمہ دار تحریک کے قائدین کے پر مغز بیداری قلب کا سامان کرنے اور عزائم کوسینوں میں رکھی چنگاریوں کو شعلہ جوالہ بنانے والے خطابات، طاغوت باطل قوتوں سے لوہا لینے کیلئے آمادہ کرنے والے افکار سے پران کے خیالات ایک فرد کو انفرادی طور پر تیار کرنے اور ایک معاشرے کی تشکیل کیلئے تیاری کرنے اور ایک تشکیل ریاست کو نصوص قرآن و حدیث پر تعمیر کرنے کے خواب کی عملی تعبیر کو شرمندہ کرنے کی تڑپ اور اُس کیلئے حتی المقدور سعی و جہد پر آمادہ کرتے تھے۔

مولوی عبد الغفارؒ صاحب مرحوم انہی بزرگ شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے تن من دھن کے ساتھ اپنے محدود وسائل کے باوجود پوری تن دہی ذمہ داری متانت وسنجیدگی کے ساتھ جماعت اسلامی کی مفوضہ ذمہ داریوں کو پورا کیا، اُن کی نگاہ بلند تھی وہ سخن دلنواز اور جان پرسوزشخصیت تھے۔ جماعت اسلامی کے نصب العین اور اقامت دین کیلئے وہ انتہائی فعال و متحرک انداز سے سرگرم عمل رہا کرتے تھے۔ وہ کوئی عالم دین نہیں تھے۔ انہوں نے کسی مدرسہ سے فراغت وسند حاصل نہیں تھی لیکن میں پورے شرح صدر کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ عالم سے کم بھی نہیں تھے وہ اتنے تشنہ علم تھے کہ انہوں نے تفاسیر کی بڑی بڑی شرحیں پڑھ لی تھیں ابتداء ہی سے علم کا شوق تھا جز معاش سے وابستگی کے ساتھ ساتھ علم کے حصول کے شوق نے انہیں ایک بوسیدہ مسجد سے وابستہ کر دیا تھا۔ مسجد عثمانیہ رضا بیگ جہاں انہوں نے اپنی نوکری کے دوران عارضی قیام گاہ بنا لیا تھا۔ اس مسجد سے ان کی وابستگی تا دم حیات رہتی ہے پر انہیں ابتداء میں تبلیغی جماعت سے وابستہ ہونے اور بعد ازاں جب تحریک اسلامی سے واقف ہوئے تواس عظیم ہمہ گیر انقلاب کے داعی کی حیثیت سے اس سے چمٹتے رہے وہ مجھ سے کہتے کہ میں نے اس وقت جب کہ آمدنی محدود ہوا کرتی تھی۔ اسلامی کتب خرید کر یا پھرمستعار لے کر پڑھا۔ نظام آباد میں واقع ایک قدیم کتب خانہ باپوجی واچنالیہ جہاں اب بھی علمی، ادبی و دینی سرمایہ کو دیمک چاٹ رہی ہے۔ مولوی عبد الغفار صاحب نے کہا کہ وہ پابندی سے وہاں جا تے اور مختلف موضوعات پر کتابوں کا مطالعہ کرتے سوشلزم، سیکولرزم، کمیونزم کی خرابیوں اور ان نظاموں کوانسانیت کیلئے کارگر نہ ہونے اوراسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر پیش کرنے کیلئے ان کے پاس دلائل تھے۔ کارل مارکس کے نظریات ڈارون کا انسانی تخلیقی طریقہ سے نشٹے کے افکار کے مقابلہ میں اسلام کے برعکس ہر نظریہ حیات پر کاری ضرب لگانے کیلئے وہ علمی طور پر اسلامی نظریہ حیات کو پیش کرتے۔ قرآن و حدیث فقہ اسلامی،  تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔ مطالعہ ان کی روح کی غذا تھی۔ قرآن کی تفاسیر جلالین و کمالین،  ابن کثیر،  تدبر القرآن، معارف القرآن،  فی ضلال القرآن،  تفہیم القرآن کی ضخیم جلدیں ان کے مطالعہ کا معمول اور ان کے مطالعہ کی میز پر ہمیشہ جمی رہتیں۔ اقبالیات،  مثنوی مولانا روم،  سعدی کی حکایات،  اکبر الہ آبادی کے اشعار انہیں ازبر تھے اور برجستہ اس کے حوالے دیا کرتے تھے۔ فن خطابات کے لئے پوری طرح تیاری کرتے۔ قرآن و حدیث، تاریخی واقعات،  حقائق و حالات پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ درس قرآن میں بیٹھنے والا شخص تسلسل کے ساتھ ان کے درس کوسنتا تھا۔ قرآن کی کسی آیت، حدیث یا سیرت صلی اللہ علیہ و سلم،  سیرت صحابہ کا کوئی بھی حوالہ میں ان سے پوچھتا تووہ آیت نمبر اورسورت کا حوالہ اگر حدیث ہو تو اس کی تفصیل اورسیرت کے کسی واقعہ کی حقیقت پر فوری وہ سیرت النبی کی جلدوں کے صفحات کے ساتھ حوالہ دیا کرتے تھے۔ معتبر اورمستند کتاب کا مطالعہ ان کا معمول تھا۔ اپنے ذاتی خرچ سے انہوں نے کتابیں خریدی تھیں۔ وہ علامہ اقبالؔ کو اس دور کا معاصر شاعر اسلام کا نقیب قرار دیتے تھے۔ جنہوں نے اپنے اشعار کو خون جگر سے سینچ کر ملت کی آبیاری کا سامان فراہم کیا۔ علامہ اقبالؔ سے انہیں گہری عقیدت تھی۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ کے علاوہ علامہ اقبالؔ کے تمام ادوار کے اشعار بشمول شکوہ جواب شکوہ انہیں ازبر تھے۔ وہ اکثر آئمہ مساجد کو یہ شعر سناتے تھے۔

گر صاحبِ ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب

دیں بندۂ مومن کیلئے موت ہے یا خواب

وہ بڑے نباض تھے۔ حالات پران کی گہری نظر تھی اکثر یہ شعر مجھ سے کہا کرتے تھے۔

مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں

میں روز و شب کا شمار کرتا ہوں تسبیح دانہ دانہ

علم کے اس قدر حریص تھے کہ میں جب کوئی نئی کتاب کا ذکر کرتا تو مجھ سے کتاب طلب کرتے اور میں انہیں کتاب فراہم کرتا تھا۔ عمر کے تفاوت کے باوجود غیر معمولی شفقت کے ساتھ پیش آتے۔ گفتگو کے دوران انکساری سے ایسا محسوس ہوتا تھا۔ ہم اپنائیت سے بات چیت کر رہے ہیں۔ اپنے دیرینہ تجربات،  مشاہدات اور واقعات کا تذکرہ کرتے تھے، تنظیم، اجتماعیت،  اسلامی عقائد و افکار، دینی اشاعت اور حق کیلئے سعی جہد کرنے کے دوران آزمائش اور استقامت جیسے امور پر تفصیلی گفتگو کیا کرتے تھے وہ جماعت کے معاصر اکابرین ہی کی نہیں بلکہ تمام ہی مسالک کے علماء کی کتب سے استفادہ کرتے تھے۔ وہ تنگ ذہن اور تنگ نظر نہیں بلکہ وسیع النظر و وسیع القلب تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بلا لحاظ وابستگی مسلک ان کا احترام اور ان کی اجتماعی کوششوں کے سلسلہ میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

ٓ     اپنی ذاتی زندگی میں وہ صبر و ثبات کے پیکر تھے۔ مخالفین بھی سخت اختلاف کے باوجود خندہ پیشانی سے ملنے پر ان کے اخلاق سے متاثر ہو جاتے تھے۔ میں نے کبھی انہیں اختلافی مسائل پر مباحث کرتے نہیں دیکھا، احسن انداز سے صحیح بات غلط عقائد کے بالمقابل وہ آسانی سے کہہ گزرتے کہ سامنے والے کو اختلافی مسئلہ پر لب کشائی کا موقع نہیں ملتا کم عمر ہم جیسے بچوں سے بھی نہایت شفقت اور انکساری سے ملتے۔ انتہائی منکسرالمزج شخصیت کے حامل مولوی محمد عبد الغفار صاحب مرحوم ایک با تقویٰ شخص تھے اگرچیکہ ان کی انفرادی عبادات کا وہ کبھی تذکرہ نہ کرتے لیکن میں نے ان کے ساتھ سفر کے دوران انہیں دیکھا کہ ان کے بیاگ میں قرآن مجید رہا کرتی تھی اور تہجد اور کوئی نماز ان کی قضاء نہ ہوتی جس مسجد کا موذن اس بات کی گواہی دے کہ فجر کی اذان سے پہلے سب سے پہلے کوئی شخصیت مسجد میں داخل ہوتی ہے وہ عبد الغفار صاحب مرحوم ہیں اس سے بڑی گواہی کیا ہو سکتی ہے۔ وہ روزانہ تہجد کے بعد اپنے گھر سے نکل کر قبرستان جاتے اور فجر کی نماز، درس قرآن کے بعد 7بجے تک قرآن و حدیث کا مطالعہ کرتے اور اپنے کاروبار میں اور تحریکی کاموں میں مشغول ہو جاتے۔ ایک مہذب قد آور وضع دار شخصیت جناب مولوی عبد الغفار صاحب مرحوم کا یہ انفرادی اور شخصی کردار تھا جس کا میں نے احاطہ کیا۔

وہ ملت کے اجتماعی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ نظام آباد میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے تاریخی جلسہ کے بعد تمام ہی جماعتوں کے قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر جوڑ رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے انہوں نے نظام آباد میں مسلم پرسنل لا کمیٹی کو تا دم حیات قائم رکھا اور جب بھی ملی اجتماعی اُمور و مفادات و معاملات کی بات آتی وہ اس کمیٹی کے ذریعہ اجتماعی طور پر سرگرمی کے ساتھ کام کیا کرتے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1986ء میں نان نفقہ کے مسئلہ پر شاہ بانو کیس میں عدلیہ کی مداخلت کے بعد مسلم پرسنل لا کمیٹی کے ذریعہ سے پورے ضلع بھر میں ایک اجتماعی مہم چلائی گئی جس میں بھی اگرچیکہ کم عمر تھا لیکن تمام ذمہ داروں کے ساتھ ضلع کے دوروں میں شامل تھا اور ایک زبردست ریالی جس کی نظام آباد کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی نکالی گئی تھی۔ شریعت میں ارباب اقتدار یا عدلیہ کی مداخلت کا معاملہ ہویا بابری مسجد سانحہ شہادت سے قبل کے حالات کا جناب مولوی محمد عبد الغفار صاحب مرحوم نے اس پلیٹ فارم کو جوڑ رکھا، اُنہی کی کوششوں سے پہلی مرتبہ نظام آباد میں شرعی پنچایت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ ابتداء میں اس کا دفتر مسجد رضا بیگ میں تھا لیکن بعض معترضین نے اس دفتر کو بدل دیا لیکن مرحوم اتنے وسیع القلب ووسیع نظر تھے کہ اس مسئلہ پر انہوں نے کبھی بھی اعتراض نہیں کیا۔ وسیع القلبی کا یہ عالم تھا کہ شرعی پنچایت کے مسجد رضا بیگ میں قیام کے دوران مولانا عطا الرحمن صاحب،  مولانا کریم الدین کمال،  مولانا ولی اللہ صاحب،  حافظ عرفان احمد صاحب اگر نمازوں کے اوقات میں موجود رہتے تو وہ امامت کیلئے انہیں مصّلے تک پہنچاتے اور ان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے۔ فروعی مسائل اور اختلافی امور میں وہ ہمیشہ معتدل رویہ اختیار کیا کرتے تھے اور اختلافی امور و مباحث کو ہمیشہ نظرانداز کر دیا کرتے تھے کہیں کوئی فساد ہوتا تو وہ تمام ہی جماعتوں اور مکاتب فکر کے قائدین کے ساتھ پہنچ کر مسائل کو حل کیا کرتے تھے۔ اور ارباب مجاز سے نمائندگی کرتے تھے۔ بابری مسجد سانحہ شہادت کا واقعہ اگرچیکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ذہنوں سے اوجھل ہو رہا ہے لیکن مرحوم ہر سال پوری تہذیب کے ساتھ ذمہ داران ملت کو جوڑ کر وہ نمائندگی کیا کرتے تھے۔ مرحوم کا یہ مثالی اجتماعی کردار تھا جو ہمیشہ ملت کے ذمہ داروں کو یاد رہے گا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ ابتداء میں اہلحدیث سے بعد میں تبلیغی جماعت سے متاثر تھے اور وہ تبلیغی جماعت کے دوروں میں بھی شریک تھے لیکن جماعت اسلامی سے وابستہ ہونے کے بعد وہ جماعت اسلامی کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ اسلامی نظام کے قیام اس کی نشاۃ ثانیہ کیلئے اپنے تن من دھن کی قربانی کا پیکر بن کر سرگرم عمل رہے۔ وہ قرآن کا یہ جملہ بار بار دہرایا کرتے تھے کہ اَن الحکم الاللہ اَن الارضا للہ۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے قیام ہی کو اپنی زندگی کا محور و مرکز بنا لینا چاہئے۔ فرد کا ارتقاء معاشرہ کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل یہ وہ خواب تھا جس کو اسلامی سانچہ میں ڈھالنے کا خواب تحریک کے بانیوں نے دیکھا تھا جس تحریک کا اساس کار قرآن وسنت اور ایک اجتماعی نظام کے قیام کے لئے جد و جہد جس کا محور و مقصود اسی تصور کے ساتھ وہ آخری دم تک مصروف عمل تھے۔ جماعت اسلامی نے انہیں جتنی ذمہ داریاں تفویض کی وہ تمام ذمہ داریاں کو بحسن خوبی انجام دیتے۔ وہ ناظم ضلع کے بعد ناظم علاقہ بنے ‘میں دیکھتا کہ وہ اسکوٹر پر طویل سفر کرتے ہوئے تنظیمی اور عام اجتماعات منعقد کرتے اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے۔ انہیں اڈیشہ کا ناظم بنایا گیا وہ سنگلاخ علاقہ میں بھی کام کرتے ہوئے اپنے نقوش چھوڑے۔

اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہچانے، اقامت دین کے ایک داعی کی حیثیت سے ان کی انفرادی و اجتماعی زندگی ایک مثال تھی۔ ایک دیانت دار تاجر کی حیثیت سے انہیں غیر مسلم مالکان رائس ملز عزت و وقار کی نظر سے دیکھتے اور ان کی رائس ملز میں آمد کو خیر و برکت تصور کرتے چاول کی دکان کے مالک کی حیثیت سے انہوں نے دیانت و امانت کی بناء پر ایک صادق تاجر کی حیثیت سے اپنی منفرد شناخت بنائی تھی وہ غیر مسلم احباب سے اپنی ملاقات کے دوران توحید،  رسالت اور آخرت کے تصو رسے انہیں آگاہ ہی کرتے تھے۔ فرقہ پرست قائدین بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے۔ فورم فار ڈیموکریسی اینڈ کمیونل امیٹی کے نام سے جماعت نے ایک فورم قائم کیا تھا انہوں نے اس فورم کے مقاصد کے پیش نظر غیرمسلم قائدین کو اس کاز کیلئے جوڑا تھا تاکہ جمہوریت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ملک میں برقرار رکھا جا سکے۔ ایمرجنسی کے دوران میرے والد محترم مرحوم جناب سید یعقوب علی صاحب اور مولوی عبد الغفار صاحب 18 ماہ تک مشیر آباد جیل میں محروس تھے۔ اس دوران جیل میں بھی انہوں نے آر ایس ایس،  کمیونسٹ قائدین سے مل کر انہیں دین اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کے ازالہ کی بھرپور جد و جہد کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چند سال قبل بنڈارو دتاتریہ(موجودہ وزیر) جب انتخابی مہم کے سلسلہ میں نظام آباد میں تھے نہرو پارک پر مولوی محمد عبد الغفار صاحب کو دیکھ کر انہیں گلے لگا لیا اور جیل کے ایام کے یادیں تازہ کیں۔ جماعت اسلامی سے وابستگی کے دوران جہاں انہیں جیل کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا وہیں مخالفین کے طعنے اور ان کے حملے بھی سہنے پڑے لیکن انہوں نے مدافعت میں اپنا دیرینہ نظرانداز کرنے والا رویہ برقرار رکھا۔ آزمائشوں کے کئی مراحل سے وہ گذرے لیکن ان کے پائے ثبات کو میں نے کبھی لڑکھڑاتے نہیں دیکھا۔ اللہ بزرگ و برتر پر انہیں گہرا یقین تھا مشکل حالات میں بھی وہ ہمیشہ ایک پہاڑ کی طرح کھڑے رہتے۔ بے باکی جرأت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ حق کے معاملہ میں رشتہ ناطہ اور دوستی کا لحاظ کئے بغیر وہ دو ٹوک اپنی بات کہہ جاتے۔ انہوں نے کبھی ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر ترجیح نہ دی تھی۔ جماعت اسلامی کے ایک پابند رکن کی حیثیت سے وہ جانے جاتے تھے۔

مسجد عثمانیہ رضا بیگ ایک سفال پوش بوسیدہ عمارت پر مشتمل مسجد تھی اس مسجد کی تعمیر نو کیلئے انہوں نے غیر معمولی دلچسپی لیتے ہوئے دامے،  درمے،  سخنے تعاون حاصل کرتے ہوئے نظام آباد کی خوبصورت مسجد کی حیثیت سے اس مسجد کو تبدیل کر دیا۔ وہ کہتے تھے کہ بڑی محنت وجستجو سے انہوں نے مسجد اور اس کے اطراف کی زمین حاصل کی۔ مسجد کے متولیوں نے ان کی مسجد کیلئے دی جانے والی خدمات پر مسجد کے داہنی حصہ کو ان کی ذاتی رہائش کیلئے مختص کر دیا تھا لیکن انہوں نے اس حصہ کو اپنی ذاتی رہائش کے سوائے جماعت اسلامی کے دفتر کے قیام کیلئے ترجیح دی۔ آج جہاں ابو للیث ہال اور جماعت کا مقامی دفتر واقع ہے۔ 60سال کے طویل عرصہ تک وہ بلا معاوضہ و کفاف مسجد میں امامت و خطابات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ انہیں مسجد سے بے حد لگاؤ اور محبت تھی۔ 60سال کی دیرینہ وابستگی کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں ہے۔ علالت کے سبب وہ مسجد آنے سے قاصر تھے لیکن میں جب بھی ملاقات کیلئے جاتا تو مسجد کے چھوٹ جانے کا حزن و ملال ان کے چہرے پر پاتا۔ ایک مرتبہ زار و قطار رونے لگے کہنے لگے کہ میری شدید خواہش کے باوجود میں مسجد نہیں آ سکتا۔ خود داری کا یہ عالم تھا کہ کثیر العیال محدود وسائل کے باوجود کبھی اپنی ضروریات کا احساس دوسروں کے روبرو نہیں کرتے اور اس طرح وضعداری کے ساتھ رہتے کہ انہیں دیکھنے والا انتہائی مالدار تصور کرتا۔ الحمد اللہ مجھے مولوی عبد الغفار صاحب کے ساتھ بیٹھنے،  ان کے ساتھ سفر میں رہنے کا موقع حاصل رہا۔ بہت سے امور میں جس کا احاطہ کیا جا سکتا ہے لیکن طوالت سے بچتے ہوئے انہیں خراج پیش کرنے کیلئے میں نے چند کلمات جو ان کی انفرادی ذات، اجتماعی شخصیت، تحریکی زندگی، امامت ومسجد سے وابستگی کے سلسلہ میں ہے رقم کیا ہوں۔ اللہ مرحوم کی کاوشوں کو شرف قبولیت عطا کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین

علامہ اقبال کا یہ اشعار ان پر صادق آتے ہیں

اُس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل

اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دل نواز

نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو

رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز

المرقوم: ۵؍محرم الحرام، 20اکتوبر 2015ء

٭٭٭

 

 

 

حرکت و عمل کا پیغام دینے والے مولانا عبد الغفار مرحوم

 

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

اسوسی یٹ پروفیسر سیاسیات، اردو آرٹس کالج۔ حمایت نگر۔ حیدرآباد

 

تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کے لئے یہ بات دل کو بڑی بے چین اور مضطرب کر دینے والی ہے کہ یکے بعد دیگر اس کی بزم کے وہ چراغ گل ہوتے جا رہے ہیں جن کے فکر و عمل نے تحریک کے خاکے میں وہ رنگ بھرا کہ یہ تحریک ایک ٹھوس نظریہ بن کر دنیا کے سامنے آئی اور اپنی صداقت کا لوہا منوائی۔ بلاشبہ مولانا محمد عبد الغفار نظام آبادی کا شمار ہندوستان اور خاص طور پر سابق ریاست آندھراپردیش اور موجودہ ریاست تلنگانہ میں جماعت اسلامی کے ان مخلص احباب میں ہوتا ہے جنہوں نے کسی نام یا نمود کے بغیر ایک بنیاد کے پتھر کے مانند جماعت کے پیغام،  اس کی ترقی اور اس کے استحکام میں اپنا سب کچھ تج دیا۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ’’نیک، متقی اور چھپ کر رہنے والے لوگ جو غائب ہو جائیں تو ان کی تلاش نہ ہو اور اگر موجود ہوں تو پہچانے نہ جائیں۔

نہایت سادہ طبعیت کے مالک مولانا عبد الغفار ‘گزشتہ سال نومبر میں رحلت کر گئے۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ حیات اور موت کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا لیکن اگر کوئی خادم اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کی شدت سے یاد آتی ہے اور اس کی کمی عرصہ دراز تک محسوس کی جاتی ہے۔ جناب عبد الغفار صاحب کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ اپنے شب و روز دین کی اقامت کیلئے وقف کر دیئے جس اعلیٰ ترین مقصد کو زندگی کا نصب العین بنایا اس پر آخر دم تک جمے رہے اور جس تحریک سے وفا کا راستہ جوڑا آخر تک اس کا ساتھ نبھایا۔ تحریک اسلامی اس ملک میں جس نشیب و فراز سے گذری اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے لیکن اسے آگے بڑھانے کیلئے جو قربانیاں دیں اس پر یہی کہا جا سکتا کہ کیا مسافر تھے جو اس راہ پر گزرے۔ یہ راہ کوئی پھولوں کابستر نہیں تھی کانٹوں سے بھرا راستہ تھا۔ ان اکابرین نے زمانہ کا ستم سہتے سہتے یہ فاصلے طئے کئے۔ آلام اور مصائب ان کی منزل کا روڑا نہیں بن سکے۔ ان کی رگ و پئے میں بس یہی آرزو سرایت کر چکی تھی کہ دعوت اسلامی کا پیغام عام ہو جائے۔ تحریک اسلامی کی پہلی صف کا یہی جذبہ اور ان کا یہی عزم ہندوستان میں دوبارہ اسلام کے احیاء کا ذریعہ بنا۔ ملک کے بدلتے ہوئے حالات میں اس فرض کو ادا کرنا بڑے دل کی بات تھی۔

مولانا عبد الغفار نے اپنے عنفوان شباب میں ہی جماعت اسلامی ہند کی آواز پر لبیک کہا۔ جماعت اسلامی کے لئے ان کی جو خدمات رہیں وہ سب پر عیاں ہیں لیکن خود ان کی زندگی ایک کھلی کتاب تھی۔ وہ کوئی جماعت کے بڑے (Ideologue)نظریہ ساز نہیں تھے اور نہ ہی وہ اپنی لیڈر شپ کو منوانے کے قائل تھے۔ لیکن کیا بات ہے کہ کم از کم پورے علاقہ تلنگانہ کے اضلاع میں وہ بڑی عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ یہ در اصل ان کی اصول پسندی اور تحریک اسلامی کی راہ میں فریفتگی اور وارفتگی کا نتیجہ تھا۔ غفار صاحب اپنے پاس عصری علوم کی کوئی اعلیٰ ڈگری بھی نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی کسی دینی جامعہ سے انہوں نے فراغت حاصل کی تھی لیکن ان کی تقریروں کا کمال تھا کہ وہ دلوں پر راست اثر کرتی تھیں کیونکہ یہ دل دردمندی کی صدا تھی۔

جناب غفار صاحب کی تقریر قرآن اور حدیث کے حوالوں کے ساتھ علامہ اقبال کے اشعار سے مزین ہوتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں سارا کلام اقبال زبانی یاد تھا۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب تین،  چار سال پہلے آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس اسوسی ایشن کی جانب سے ظہیرآباد(ضلع میدک) کے ڈگری کالج میں ’’یوم اقبال‘‘ کا انعقاد عمل میں آیا تھا۔ اس پروگرام میں میرے بشمول سب ہی مقر رین کا تعلق پیشہ تدریس سے تھا۔ اس سمینار کی صدارت مولانا عبد الغفار صاحب کر رہے تھے جب انہوں نے صدارتی تقریر کی تو ایسا معلوم ہوا کہ کوئی بڑے ماہر اقبالیات نے خطاب کیا۔ انہوں نے نوجوانوں میں حرکت و عمل کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے اقبال کے ایسے اشعار پڑھے کہ سارا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ پروگرام کے اختتام کے بعد کرناٹک اور مہاراشٹرا سے آئے ہوئے پروفیسر صاحبان نے مجھ سے دریافت کیا کہ ’’ یہ مولانا کیا علامہ اقبال پر ڈاکٹریٹ کئے ہیں ‘‘ میں نے کہا کہ انہوں نے اقبال پر پی ایچ ڈی تو نہیں کی ہے لیکن انہوں نے اقبال کے کلام کو پی لیا ہے اور وہ کلام اقبال کو مردہ دلوں میں زندگی پیدا کرنے کے لئے اپنی تقریر میں استعمال کرتے ہیں۔ مرحوم ایک بہترین مقرر تھے اور اپنی ولولہ انگیز تقریر کے ذریعے سامعین میں دین کا ایک نیا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے نظام آباد کی مسجد رضا بیگ میں انہوں نے کئی دہوں تک خطابت کے فرائض انجام دیئے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعے انہوں نے ہزاروں مسلمانوں کے دلوں کو دین کی روشنی سے منور کیا۔ حق گوئی، بے باکی اولوالعزمی اور بے خوفی ایک داعی اسلام کی نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں۔ اس معیار سے اگر مولانا کی زندگی کو دیکھا جائے تو یہ ساری صفات آپ میں نظر آتی ہیں۔ نہایت سنگین اور پُر خطر حالات میں تحریک اسلامی کا جو قافلہ68سال پہلے چلا تھا ہر شخص جانتا ہے کہ غیروں کے علاوہ اپنوں نے بھی اس تحریک کو نقصان پہچانے اور بدنام کرنے کے لئے کیا حربے استعمال نہیں کئے تھے۔ ایسے خطرناک ماحول میں یہ تحریک کے سابقوان الاولون تھے جنہوں نے طوفان و  حوادث کی پرواہ کئے بغیر دین کی اقامت کو اپنا حزر جاں بنا لیا اس کے لئے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں اور لوگوں نے تضحیک کا رویہ بھی اپنا یا۔ لیکن ان شخصیتوں نے پورے عزم کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو ادا کیا۔ مصالحت کوشی اور کوتاہ اندیشی کے یہ لوگ قائل نہیں تھے بلکہ جرأت گفتار اور عمل پیہم کے پیکر تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے دل ایمان محکم اور یقین کامل کی دولت سے مالامال تھے۔ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ وہ لوگوں کو جس دین کی دعوت دے رہے ہیں یہ حق و صداقت کا دین ہے اور اسی کو اللہ تعالیٰ غلبہ عطا کرے گا۔ جب تک یہ یقین دل میں پیدا نہ ہو، انسان کے قدم عمل کی طرف راغب نہیں ہوتے۔ جب یقین پختہ ہو جا تا ہے تب آزمائشیں اور مصیبتیں پست ہمت یا مایوس نہیں کر دیتیں بلکہ اور زیادہ ہمت و جرأت کے ساتھ دعوت کا کام آگے بڑھتا ہے۔ محدود وسائل یا حالات کی نزاکت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جب یقین کمزور پڑ ج  اتا ہے تب وسائل کی بہتات اور سازگار حالات بھی داعیان دین کو عزیمت کی راہ کے بجائے رخصت کی طرف مائل کرنے لگتے ہیں اور ان کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔ جس وقت آزاد ہندوستان میں تحریک اسلامی کے کام کا آغاز ہوا،  سب جانتے ہیں کہ وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ یہ کوئی سرمایہ داروں یا اقتدار رکھنے والوں کی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ تحریک اس لئے اعلیٰ تھی کہ دین کا جو محدود تصور عام ہو رہا تھا اس کا ردّ کرتے ہوئے دین کو اس کی مکمل حیثیت میں پیش کیا جائے اور اس تحریک میں شامل ہونے والے افراد بے لوث اور بے باک تھے لیکن معاشی طور پر انتہائی تہی دست تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے دین کی یہ گراں بار ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔ گاؤں گاؤں، قریہ قریہ اسلام کے پیغام سے آشنا ہوا۔ جناب غفار صاحب جو قافلے کے رکن تھے انہوں نے بھی اس فرض کو ادا کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی خاص طور پر اضلاع نظام آباد، میدک اور عادل آباد کے تقریباً تمام مقامات پر مرحوم نے جماعت کو متعارف کرانے اور مستحکم کرنے میں اپنی ساری صلاحیتیں لگا دیں۔ ایک فکر مند ذہن اور تڑپتے دل کے ساتھ انہوں نے اس فرض کو انجام دیا۔ ان کی اس بے لوث خدمت دین کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ جن نوجوانوں کی انہوں نے تربیت کی تھی ان میں سے بہت سارے آج ذمہ داران جماعت کی حیثیت سے ہمارے سامنے موجود ہیں۔ افراد سازی اور صلاحیتوں کو پرکھ کر آگے بڑھانے کا ہنر ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ نو جوانوں کی پذیرائی کرتے ہوئے اپنے آپ کو پیچھے ہٹا لینا بھی بہت بڑی اعلیٰ ظرفی ہے۔ تحریکوں اور جماعتوں کا سب سے بڑا روگ یہ ہوتا ہے کہ جب لوگ عہدے اور منصب سے چمٹے رہنا اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلم جماعتیں (چاہے سیاسی ہوں کہ مذہبی) جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں وہ اس کا نتیجہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جماعت اسلامی ہند پر بہت بڑا یہ فضل فرمایا کہ اس کے بزرگوں نے کبھی اپنی قربانیوں کا صلہ عہدے اور منصب کی شکل میں طلب نہیں کیا۔ وقت اور حالات کے لحاظ سے جو بھی تنظیمی تبدیلیاں آتی ہیں اس سے نہ صرف خوش دلی سے قبول کیا بلکہ نوجوانوں کی امارت کو تسلیم کرتے ہوئے معروف میں ان کی اطاعت کو بھی اپنے پر لازم کر لیا۔ یہ صورتحال کسی اور مسلم جماعت میں پیدا ہوتی تو اس بات کا پورا امکان ہوتا کہ وہ جماعت باقی ہی نہیں رہتی۔ یہ محض جماعت اسلامی ہند کے اکابرین تھے جنہوں نے نفس کو اپنے دل و دماغ میں پنپنے کا موقع نہیں دیا اور نہ ہی کبھی یہ تمنا اور آرزو کی کہ ان کا شمار ہمیشہ ’’قائدین جماعت‘‘ یا ’’ذمہ داران جماعت‘‘ میں ہو۔ وہ تو بس اس قافلہ اسلامی کے ایک گمنام مسافر کی حیثیت سے رہنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ حالانکہ ان کے علم و فن ان کے ایثار و قربانی اور ان کے جذبہ دین کے مقابلے میں آج کے نوجوان بہت پیچھے ہیں لیکن تحریک کے مستقبل کو تابناک بنانے اور اس ملک میں اسلام کے پیغام کو اور زیادہ مدلل انداز میں پیش کرنے کے مقصد سے نوجوانوں کو قیادت سونپ دی۔ نظام آباد میں مولانا عبد الغفار نے جو خدمات انجام دیں اس کی گواہی جماعتی حلقوں سے ہٹ کر عام مسلمان بھی دیتے ہیں لیکن جب نوجوانوں کو آگے بڑھانے کی بات آئی تو جس انداز میں انہوں نے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے جماعتی ذمہ داریاں سونپیں اس سے ان کی زندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کے پیش نظر کوئی دنیاوی منفعت نہیں ہوتی ہے اور نہ وہ کوئی شہرت یا ناموری چاہتے ہیں۔ ورنہ اکثر کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے کہ قبر میں پاؤں لٹکتے رہتے ہیں لیکن معمولی سا معمولی عہدہ ان کے پاس ہو تو اس سے بھی دستبردارہونا نہیں چاہتے۔ یہ مریضانہ ذہنیت ہے۔ جماعت اسلامی ہند اب تک پاک ہے اور یہ محض جماعت کے اولین اصحاب کی بے نفسی ہے تحریک اسلامی ہند آج جس مرحلے میں داخل ہوئی ہے اس سے امت مسلمہ کے ذمہ دار افراد بخوبی واقف ہیں۔ نصف صدی سے زائد عرصے سے زیادہ یہ تحریک اس ملک میں اسلام کی اطاعت اور مسلمانان ہند کی سرخروی کیلئے کئی کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ دعوت دین سے لے کر تعلیم وتعلم کے میدان میں شعائراسلام کی حفاظت سے لے کر اصلاح معاشرے کے معاملے میں جماعت اسلامی ہند کی جو خدمات رہیں وہ اظہر من الشمس ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریکوں اور تنظیموں میں بعض وقت جمود اور تعطل کا بھی دور آتا ہے۔ ہندوستان کی تحریک اسلامی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ تحریک میں بعض کمزوریاں بھی در آتی ہیں۔ ان پر قابو پانے کے لئے جہاں دیگر پہلوؤں سے غور و خوض کرنا تحریک کے حق میں بہتر ہے وہیں ان سے بے لوث قائدین اور ذمہ داران جماعت کی قربانیوں کا بھی تذکرہ ضروری ہے جنہوں نے نامساعد حالات میں تحریک کو پنپنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ ان کی زندگی میں کی جانے والی بے تکان جد و جہد کا جائزہ لینا چاہئے جنہوں نے تحریک کے لئے سب کچھ لُٹا دیا۔ اور اپنی بے مثال قربانیوں کے ذریعے تحریک اسلامی کو ایک تناور در درخت میں تبدیل کر دیا جب تک ہم جماعت کی ان بے لوث شخصیتوں کی خدمات سے واقف نہیں ہوں گے۔ ہم میں حرکت و عمل کا وہ جذبہ پیدا نہیں ہو سکتاجو ان حضرات میں تھا۔ آج جس شخصیت کا ذکر ہو رہا ہے ان کا شمار بھی ان مخلصین جماعت میں سے ہے جن کے اوراق زندگی سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

مولانا عبد الغفار صاحب مرحوم سے راقم السطور کا تعلق قریبی،  دیرینہ اور خاندانی رہا ہے۔ بچپن سے جو لوگ ہمارے گھر میں آتے جاتے تھے اور جن سے ہمارے کان آشنا رہے ان میں جناب غفار صاحب کا نام بھی شامل ہے۔ میرے والد محترم جناب سید جلال الدین شاہ جہاں (سابقہ امیر مقامی، جماعت اسلامی ہند نرمل، ضلع عادل آباد) نوجوانی میں ہی جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے۔ انعام دار گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود انہوں نے دین حق کی خاطر اپنی سرکاری نوکری اور جائیداد اور زندگی کی دیگر آسائشوں سے دست کش ہو کر اس خدمت کو انجام دیا۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی علیہ الرحمہ کے لٹریچر نے انہیں اوائل زندگی میں ہی دین کا صحیح فہم عطا کیا۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ مولانا عبدالرزاق لطیفی مرحوم سابق امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند حلقہ آندھراپردیش کی شخصیت سے وہ بہت زیادہ متاثر تھے۔ مولانا لطیفی کی وساطت سے جناب عبد الغفار صاحب سے ایسی دینی رفاقت قائم ہوئی کہ زندگی بھر ایک دوسرے کے پیچھے بہی خواہ اور ہمدرد رہے۔ پچاس،  ساٹھ سال پر محیط یہ دوستانہ تعلقات کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ نظام آباد میں جماعت نے جب مدرسہ کا آغاز کیا تھا،  جناب غفار صاحب نے والد مرحوم کو یہاں خدمات انجام دینے کا موقع دیا۔ جب کبھی غفار صاحب نرمل تشریف لاتے یا نرمل سے گذرتے یہ نا ممکن تھا کہ والد صاحب سے ملاقات کے بغیر چلے جاتے۔ جب والد صاحب بیماری کی وجہ سے فریش ہو گئے تب بھی غفار صاحب شدید مصروفیت کے باوجود گھر آ کر ملاقات کرتے۔ یہ والہانہ محبت خونی رشتے کی بنیاد پر نہیں تھی بلکہ اس کی بنیاد دینی رشتہ تھا،  کاش یہ محبت پھر ایک مرتبہ عام ہو جائے تو امیر کو مامورین سے اور مامورین کو امیر سے کوئی شکایت نہ ہو گی لیکن کیا کریں کہ زمانے کا اندازہ بدل گیا ہے اس لئے وابستگان جماعت میں بھی معیارات بدل گئے ہیں۔ آمد برسرمطلب۔ جناب غفار صاحب کی میرے بھائیوں پربھی بڑی شفقتیں رہیں۔ میرے دو بھائی نظام آباد میں زیر تعلیم رہے اس وقت غفار صاحب ہی ان کے ایک معنی میں سرپرست رہے۔ ستر کے دہے میں،  میں اور میرے ایک بھائی دارالعلوم ناندیڑ  میں زیر تعلیم تھے۔ ناندیڑ جانے کے لئے والد جب ہمیں نظام آباد لاتے اور یہاں جناب غفار صاحب سے کافی دیر ملاقات رہتی۔ مسجد رضا بیگ میں اور اسی دکان میں جو احمدی بازار میں ہی تھی (اور اب بھی شاید موجود ہے )والد صاحب اور غفار صاحب کے درمیان تفصیلی گفتگو ہوتی لیکن اس گفتگو کا محور صرف جماعت اسلامی کی سرگرمیاں ہوتیں۔ بہرحال یہ تعلق بڑھتا گیا۔ اسے اتفاق ہی کہئے کہ میرے خسر محترم جناب محمد توقیر الدین جو محکمہ ٹیلی فون میں انجینئر تھے جب ان کی پوسٹنگ نظام آباد ہوئی وہ بھی جناب غفار صاحب کے گرویدہ ہو گئے (یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ میری شادی نہیں ہوئی تھی اور میں ابھی طالب علم تھا) نظام آباد کا پوسٹ آفس میرے خسر کی نگرانی میں ہی تعمیر ہوا جس کا تذکرہ بہت بعد میں غفار صاحب نے میرے سامنے کیا۔ میرے خُسر کی ملازمت کی بات چالیس سال پرانی ہے لیکن جب حیدرآباد میں میرا رشتہ ان کی لڑکی سے ہونے جا رہا تھا اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ میرا تعلق نرمل سے ہے۔ انہوں نے تحقیق کے لئے میرے والد کا نام لیا۔ جب بتایا گیا کہ وہ انہیں کے بیٹے ہیں تب یہ راز کھلا کہ میرے والد صاحب، میرے بڑے بھائی اور میرے خسر صاحب اور جناب غفار صاحب نظام آباد میں ایک دوسرے کے بہت قریب رہے۔ میرے خُسر کو اس بات کی خوشی ہوئی کہ چالیس سال پہلے جو ایک دوسرے سے دینی تعلق قائم ہوا وہ اب رشتہ میں تبدیل ہو رہا ہے چنانچہ انہوں نے مزید کسی تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی اور میری شادی ہو گئی۔ اس طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ جناب غفار صاحب کا غائبانہ تعارف میرے شادی کے رشتے کو مضبوط بنانے میں کافی مددگار ثابت ہوا۔ جناب غفار صاحب کہا کرتے تھے کہ ’میاں ‘‘تمہارے خسر ایک سرکاری اعلیٰ عہدیدار تھے لیکن انہوں نے نظام آباد میں جماعت کے اجتماعات کے پوسٹر راتوں میں اپنے ہاتھوں سے دیواروں پر چسپاں کئے۔ بہرحال چالیس سال سے زیادہ عرصے کی یادوں کا ایک سلسلہ ہے جسے بیان کرنے کے لئے کئی صفحات دکار ہیں لیکن میں اسے یہیں چھوڑتا ہوں۔ اس مضمون کو لکھنے کا ہر گز یہ مقصد نہیں ہے کہ اس سے کوئی شخصیت پرستی جھلکے۔ اسلام نے ’’تقدس الرجال‘‘ یعنی انسانوں کی تقدس کی تعلیم نہیں دی ہے بلکہ ’’تقدیر الرّجال‘‘ یعنی انسانوں کی قدر شناسی کی تلقین کی ہے۔ بے لوث، بے باک،  حق گو اور بلند نصب العین کے لئے جد و جہد کرنے والوں کی زندگیاں ہمارے لئے مشعل راہ کا کام کرتی ہیں، جن لوگوں نے اپنی زندگی کی تمام کشتیاں جلا کر ایک مقصد حیات کو سامنے رکھ کر زندگی گذاری۔ ان کے احوال زندگی آنے والی نسلوں کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیاکیسے واقف ہو گی کہ تحریک اسلامی میں کیسے کیسے گوہر بے بہا تھے،  جنہوں نے عمارت کے نقش و نگار بن کر اپنے کو چمکایا نہیں بلکہ بنیاد کے پتھر بن کر عمارت کو وہ استحکام بخشا کہ لاکھ آندھیاں اُٹھیں عمارت کو منہدم کرنا تو بہت دور کی بات ہے اس کی ایک اینٹ کو بھی باطل طاقتیں انہیں جگہ سے ہٹا نہیں سکیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حوادث زمانہ کی وجہ سے عمارت کے مکیں ہی خدانخواستہ شگاف ڈال دیں۔ ایسی اولوالعزم ہستیاں جنہوں نے تحریک کے دور اول میں ہر آزمائش کو انگیز کرتے ہوئے اپنے فرض کو نبھایا ان کی خدمات کو جیتے جی یا ان کے دنیا سے گذر جانے کے بعد بھلا دینا کوئی احسن عمل نہ ہو گا۔ ایسی شخصیتوں کی خدمات کا تذکرہ اس لئے کرنا ضروری ہے کہ اس سے آنے والی نسلوں میں اپنے نصب العین کے تئیں نیا عزم اور حوصلہ پیدا ہو اور جو اس جہد مسلسل کے لئے ہمہ تن مصروف ہوں۔ جناب غفار صاحب مرحوم جس بے لوثی اور للہیت کے ساتھ اقامت دین کا فریضہ انجام دیتے ہوئے خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اس کے لئے ہمارے پاس ان کے حق میں دعائے خیر کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ بس دعا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی دینی و ملی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور لغزشوں سے در گذر فرمائے۔ آمین۔

نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

٭٭٭

 

 

 

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

 

طارق انصار

قائد ٹی آر ایس، نظام آباد

 

ریاست تلنگانہ کے ضلع نظام آباد کیلئے یہ بات باعث افتخار ہے کہ یہاں ملت اسلامیہ کی گزشتہ ایک صدی کے دوران کئی عظیم شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے مسلمانوں اور ہم وطن دیگر طبقات کے لئے بھی اپنی عوامی خدمات کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ میں بچپن سے ہی الحاج محمد عبد الغفار صاحب مرحوم کی شخصیت سے متاثر رہا ہوں آج جبکہ وہ دار فانی میں موجود نہیں میں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے سلسلہ میں چند سطور کو لکھنے میں بھی ایک جذباتی کیفیت سے دوچار ہو رہا ہوں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مرحوم ایک پیکر جرار تھے وہ ایک منفرد شخصیت کے حامل تھے۔ جنہوں نے بڑے صبر آزما حالات میں بھی اپنے عزم واستقلال کو نہیں چھوڑا بلکہ نامساعد حالات کو بڑی ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے ہوئے دین و دنیا دونوں میں اپنی منفرد شخصیت کے نقوش چھوڑے جس سے نئی نسل فیض حاصل کرے گی۔ میرے والد جناب اختر انصاری صاحب ایڈوکیٹ بھی مولوی محمد عبد الغفار صاحب مرحوم کے شیدائی تھے اور مختلف امور میں ان سے مشورے حاصل کرتے تھے اور ارباب وقت سے نمائندگیوں کے سلسلہ میں ان میں مشاورت ہوتی تھی۔ میرے والد مرحوم کے کہنے کے مطابق مولوی محمد عبد الغفار صاحب کی شخصیت نظام آباد میں پولیس ایکشن کے بعد کے عرصہ میں آمد کے بعد یہاں کے ملی وسیاسی اور دینی ماحول میں عامۃ المسلمین کے مفاد میں اپنی خدمات کا آغاز کرنا اور اس کو دم آخر تک جاری رکھنا ایک انتہائی منفرد اور بے لوث خدمات کی مثال تھی جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ میرے والد کو سال1955ء سے مولوی محمد عبد الغفار صاحب سے شرف نیاز حاصل تھا۔ اور وہ دونوں مختلف مسائل پر گفت و شنید کرتے تھے۔ اللہ رب العزت نے انہیں بصیرت و بصارت کی خوبیوں سے نوازا تھا۔ نظام آباد میں انہوں نے نامساعد حالات میں کسب معاش کی جد و جہد کے ساتھ مسجد رضا بیگ کی امامت کے فرائض انجام دینے شروع کئے جس کا انہوں نے کبھی بھی معاوضہ نہیں لیا یہ ایک منفرد بات ہے۔ مسجد کے ایک کمرہ میں بیٹھ کر دین و دنیا کے موضوعات پر وہاں آنے والوں سے گفت و شنید کرتے نہ صرف نظام آباد بلکہ مختلف اضلاع سے علمی، ادبی، دینی علوم سے رغبت رکھنے والے طلباء اور ملت کے تعلیم یافتہ با شعور افراد ان سے رجوع ہوتے اور ان سے مختلف مسائل میں مشاورت کی جاتی تھی۔ مسلم مجلس مشاورت کے قیام کے سلسلہ میں میرے والد محترم جناب اختر انصاری صاحب مرحوم نے مولوی محمد عبد  الغفار صاحب کی رہنمائی میں متعلقہ امور کی انجام دہی کی تھی۔ اور 1966ء میں مسلم مجلس مشاورت کے مرکزی وفد نے ضلع نظام آباد کا دورہ کیا تھا۔ ملت کے مفاد کو انہوں نے اپنی بے لوث اور مخلصانہ خدمات کے میدان میں ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ 1960ء سے 1970ء تک ضلع نظام آباد میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر میں بے شمار مسلم خاندانوں کی تباہی وار بے سروسامانی کے حالات میں مولوی محمد عبد الغفار صاحب نے ملت کے جری قائد کا گرانقدر رول انجام دیا۔ اپنے جماعت اسلامی کے رفقاء کے ساتھ ثابت قدمی کا ثبوت بہم پہنچایا۔ اور اپنی بے لوث خدمات سے نہ صرف مسلم طبقہ بلکہ دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے دانشوروں،  قائدین اور نوجوانوں کو متاثر کیا۔

بعد کے عرصہ میں بھی فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات،  مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر ان کو قانونی امداد کی فراہمی کے سلسلہ میں میرے والد جناب اختر انصاری صاحب ایڈوکیٹ سے قانونی تعاون حاصل کیا جاتا رہا۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور میں ایمرجنسی کے اعلان کے بعد پورے ملک میں بے شمار قائدین کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ مولوی محمد عبد الغفار صاحب جیل میں قید کئے گئے۔ انہوں نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ اُس وقت جیل میں موجودہ مرکزی وزیر وینکیانائیڈو بھی تھے۔ مجھے بھی دینی،  سیاسی،  سماجی کاموں میں مولوی عبد الغفار صاحب کی رہنمائی اور سرپرستی حاصل رہی۔ میں ان کی بے لوث اور خاموش ملی خدمات سے بے حد متاثر رہا ہوں۔ مسجد رضا بیگ میں ایک کمرے میں ان کی نشست ہوا کرتی تھی جہاں مقامی اور غیر مقامی سیاسی، سماجی اور ملی شخصیتوں کا آنا جانا رہتا تھا۔ اور مولوی محمد عبد الغفار صاحب مرحوم کی شخصیت مینارہ نور بنی ہوئی رہتی تھی۔ مجھے اس بات کا شرف حاصل ہے کہ فساد زدہ علاقوں کا دورہ اور ریلیف کے کاموں میں اُن کی رہنمائی میں مجھے کام کرنے کا موقع ملا مختلف مسائل پر ضلعی سطح پر نمائندگیوں کے موقع پر مجھے طلب کیا کرتے تھے۔

مسلم یونائیٹیڈ فورم کے بیانر تلے مجھے مولوی عبد الغفار کے ہمراہ ضلع کے مختلف مقامات کا دورہ کرنے کا اُس وقت موقع ملا جبکہ فورم نے 2005ء اور 2009ء میں کانگریس کی حمایت میں حلقہ پارلیمانی نظام میں انتخابی مہم چلائی تھی۔ میرے والد اختر انصاری صاحب ایڈوکیٹ مرحوم اسلامک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی علمی سرگرمیوں کی ستائش کرتے تھے اور اُن کے پروگراموں میں شرکت کرتے رہے۔ مجھے مولوی محمد عبد الغفار صاحب مرحوم سے جب بھی گفتگو کا موقع ملتا تومیں ان کے انداز گفتگو افہام و تفہیم کا انداز سنجیدگی اور  الفاظ کے استعمال سے بے حد متاثر ہوتا تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کے سلسلہ میں یوم سیاہ کے موقع پر مسلم پرسنل لا کمیٹی کی جانب سے ضلع انتظامیہ کو پیش کئے جانے والے میمورنڈم کے موقع پر اُن کے ہمراہ جانے کا موقع ملا۔ میرے پاس انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔ مولوی محمد عبد الغفار صاحب مرحوم علامہ اقبال کے شیدائی تھے اور انہیں مفکراسلام کہا کرتے تھے۔ انہوں نے از راہ نوازش مجھے علامہ اقبال کے چند مجموعہ کلام حوالے کئے تھے۔ اُن کے گذر جانے سے عامہ المسلمین کے معاشرہ میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جو ایک ناقابل فراموش حقیقت بن گیا ہے۔ مولوی محمد عبد الغفار صاحب مرحوم ہمیشہ ہماری یادوں میں بسے رہیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ اُن کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

الحاج مولوی محمد عبد الغفارؒ صاحب،  سابق ناظم علاقہ اڑیسہ ایک پیکرِ جرار

 

ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل

لیکچرار MVSڈگری کالج، محبوب نگر

 

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اس شعر کے مصداق اس دنیا میں کئی سالوں میں کوئی دیدہ ور شخصیت کا وجود عمل میں آتا ہے۔ دنیا میں لوگ تو بہت پیدا ہوتے ہیں لیکن ایسے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں جن کو اپنے آپ کی پرواہ کے بجائے غیروں کی پرواہ ہوتی ہے جو انسانیت کی خدمت کیلئے جنم لیتے ہیں جن کا مقصد دنیا میں بھلائی کو فروغ دینا برائی سے روکنا ہوتا ہے، جن کا مقصد انسانوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلانا ہوتا ہے، جن کا مقصد امن و امان قائم کرنا ہوتا ہے، جن کا مقصد دعوت دین ہوتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا۔

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی

میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی

دین اسلام کی سرفرازی کیلئے جنوبی ہند کے ضلع نظام آباد میں پیدا ہونے والی شخصیت الحاج مولوی محمد عبد الغفار صاحب سابق ناظم علاقہ اڑیسہ جو 1937ء کو ضلع نظام آباد کے ایک چھوٹے سے قصبے بابا پور میں پیدا ہوئے جن کے والد کا نام محمد عبدالمجید صاحب تھا جو پیشہ سے پولیس پٹیل تھے۔ مولوی محمد عبد الغفار صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ ذریعہ معاش کی تلاش میں انہوں نے 1956ء کو بابا پور کو خیر آباد کیا اور شہر نظام آبادم یں سکونت اختیار کر لی۔ اس دوران شہر نظام آباد کی ایک چھوٹی سی مسجد جو شہر کے درمیان میں واقع محلہ احمدی بازار قدیم بس اسٹانڈجوبعض احباب کے مطابق غیر آباد تھی اس کو اپنے احباب کے ساتھ مل کر آباد کیا اور امامت کا آغاز کر دیا حالا نکہ وہ کوئی مدرسہ کے فارغ تھے نا عالم تھے نہ حافظ لیکن عربی اور اردو کی مبادیات سے واقف تھے اللہ رب العزت نے انہیں بصیرت و بصارت سے نوازا تھا وہ علم عطا کیا تھا جو شاید مدرسہ سے فراغت کے بعد بھی بہت کم حضرات کے حصہ میں آتا ہے۔ بڑے سے بڑے عالم دین یا تعلیم یافتہ فرد کے سامنے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے مسجد کے ہی ایک کمرے میں اپنے علمی سفر کا آغاز کیا اور جید علماء اکرام سے زانوئے ادب طئے کیا اور ساتھ ہی انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔ اسی دوران مولانا مودودیؒ کی اقامت دین کی دعوت نظام آباد پہنچ چکی تھی، جناب عبدالقادر خاں صاحب مرحوم صوبیدار کی تحریک پر جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوئے۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر     لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔

جماعت اسلامی ہند سے وابستگی نے ان کی شخصیت کے اندر مقصد کے حصول کے لئے جہد مسلسل، تڑپ، لگن، خلوص، استقلال اور قربانی کا مادہ پیدا کیا۔ 1960ء میں انہیں جماعت اسلامی ہند کی باضابطہ رکنیت حاصل ہوئی۔ 1966 ء میں مولوی محمد عبد الغفار شہر نظام آباد کے امیر مقامی منتخب ہوئے، اس دوران وہ ضلع میں جماعت کے پھیلاؤ اور فروغ کیلئے متحرک ہو گئے ان کے شانہ بہ شانہ چلنے والے احباب میں عبدالقادر خان صاحب، خواجہ معین الدین صاحب، قمر الدین صاحب، عبدالرزاق صاحب وغیرہ شامل تھے۔ ان کے پیش نظر جماعت کے کاموں کے علاوہ ملت اسلامیہ کا درد بھی پنہاں تھا وہ سماج میں ہونے والی نا ہمواریوں کے خلاف کمر بستہ ہو جاتے اور اس کیلئے جد و جہد بھی کرتے اور کام کی تکمیل تک بے چین رہتے، در اصل یہ ان کی فطرت کا خصوصی وصف تھا جو ابدی دنیا میں تشریف لے جانے تک بھی برقرار رہا۔ 1966ء میں انہوں نے مسلم مجلس مشاورت کے قیام کی مساعی انجام دی تھیں، اور وہ مسلم مجلس مشاورت کے معتمد بنائے گئے، اس وقت مسلم مجلس مشاورت کے مرکزی وفد نے نظام آباد کا دورہ کیا تھا، جس کی رہنمائی میں وہ پیش پیش تھے، در اصل وہ ہمیشہ ملی مفاد کو عزیز رکھتے تھے۔ 1965 تا 1967ء نظام آباد میں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے جس میں امن و امان کی بحالی اور نا حق گرفتار ہونے والے مسلمانوں کی رہائی میں انہوں نے اہم رول ادا کیا۔ اس سلسلہ میں وہ غیر فرقہ کے افراد کے ہاتھوں زخمی بھی ہوئے اور ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا لیکن وہ ان سب بالائے طاق رکھے، ثابت قدم رہے اور اپنی رفتار میں کوئی جنبش آنے نہیں دی۔ 1972ء میں نظام آباد میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام عمل میں لایا اور وہ اڈھاک کمیٹی کے معتمد بنائے گئے۔ مسلم پرسنل لا کمیٹی کے قیام کے بعد سے انتقال تک بھی وہ معتمد کی ذمہ داری کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کا خصوصی وصف یہ تھا کہ وہ کبھی کسی کی برائی نہیں کرتے تھے اور نہ کسی کی برائی کو سننا چاہتے تھے، اس لئے وہ لوگوں میں عزیز تھے اور جب کبھی کوئی ملی مسئلہ در پیش ہوتا تمام ہی جماعتوں سے مشاورت کرتے اور اس کے حل کیلئے متحرک ہو جاتے اور اللہ نے ان سے مختلف مکتبۂ فکر کے لوگوں کو جوڑے رکھنے کا خصوصی وصف بخشا تھا۔ 26جون 1975ء میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا اعلان کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک سے ہزاروں قائدین کو جیلوں میں نظر بند کر دیا گیا تو نظام آباد سے جن احباب کو گرفتار کر کے چنچل گوڑہ جیل منتقل کیا گیا تھا۔ ان میں مولوی محمد عبد الغفار صاحب بھی شامل تھے جو21 ماہ تک قید کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ اس وقت ان کے ساتھ موجو دیگر لوگوں میں موجودہ وزیر جناب وینکیا نائیڈو بھی محروس تھے۔ انہوں نے کبھی بھی دین کی راہ میں اپنے گھر دار اور بیوی بچوں کو آڑ نہ بنایا بس خدا کے دین کی جد و جہد میں منہمک رہے۔ 1977ء میں ہی وہ جماعت اسلامی ضلع نظام آباد کے ناظم منتخب ہوئے۔ 1988ء میں ناظم علاقہ شمالی تلنگانہ بنائے گئے۔ 1980ء سے 1995ء تک مجلس نمائندگان کے رکن منتخب ہوئے۔ 1985ء شاہ بانو کیس کے مسئلہ کے وقت عدالتی فیصلہ کے خلاف نظام آباد میں مختلف جماعتوں کے تعاون سے بڑے پیمانے پر تاریخی احتجاج جلوس نکالا گیا تھا جو آج بھی ضلع نظام آباد کی تاریخ میں ایک تاریخ ساز جلوس تسلیم کیا جاتا ہے جس میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی تھی جس کے بیانر پریہ شعر لکھا گیا تھا۔

ٍ عجب نہیں کے بدل دئے اسے نگاہ تیری

بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا

بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ سے قبل بابری مسجد رابطہ کمیٹی قائم کی گئی تھی نظام آباد میں بھی اس کمیٹی کی تشکیل عمل میں لائی گئی تھی اور اسی عنوان پر دہلی میں منعقدہ احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا تھا آپ نے نظام آباد سے اپنے رفقاء کے ساتھ شرکت کی۔ 2001ء میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کیئے۔ 2002ء سے 2008ء تک ناظم علاقہ اڑیسہ کی حیثیت سے خدمت انجام دے اور اڑیسہ میں جماعت کے کام کو استحکام بخشا۔ 2004ء میں یونائٹیڈ مسلم فورم کے معتمد منتخب کئے گئے۔ 1956ء تا 2014ء یعنی اپنے انتقال سے قبل تک مسجد رضا بیگ احمدی بازار نظام آباد کے خطیب و امام کے فرائض انجام دئیے اور اللہ کے گھر کی تعمیر اور ترقی میں خوب حصہ لیا۔ ان کے رفقاء میں جناب عبدالحکیم صاحب، جناب عبدالقادر عارف صاحب، فقیر محمد خان صاحب، سید یوسف صاحب، اختر انصاری صاحب، محمد یوسف صاحب و دیگر قابل ذکر ہیں۔ مولوی محمد عبد الغفار صاحب علامہ اقبال کے شیدائی تھے اللہ نے انھیں بہترین حافظہ عطا کیا تھا، قائدانہ صلاحیت تو اتم درجہ کی تھی ہی درس قرآن و خطابات ان کا خصوصی وصف تھا مطالعہ کے بہت ہی شوقین تھے خالی اوقات کو مطالعہ میں گزار تے تھے انہوں نے ہمیشہ سے ہی گھر اور دفتر میں خصوصی کتب خانہ قائم کیا تھا اور وہ ایک مکتبہ بھی چلاتے تھے جس کا نام انہوں نے مکتبہ تعمیر انسانیت رکھا تھا۔ اس کے علاوہ عبادتوں کا معمول یہ تھا کہ روزانہ صبح 3: 30 کو بیدار ہو جاتے، تہجد کی ادائیگی کے بعد قبر ستان کی زیارت کرتے فجر کی نماز کی امامت کے بعد قران مجید کا درس دیتے اس کے بعد مطالعہ میں مصروف ہو جاتے، ظہر کی ادائیگی، بعد عصر درس حدیث کا اہتمام کرتے، مغرب اور عشاء کی ادائیگی کے بعد رات کو جلد سوجاتے تھے، تلنگانہ کے مختلف اضلاع سے جماعت کے پروگرام میں تقریر کیلئے خصوصی طور پر مدعو کئے جاتے تھے کسی کو ناراض کرنا ان کی فطرت ہر گز نہ تھی۔ ان کی تقریر کا وصف یہ تھا کہ جب تقریر شروع ہوتی تو سامعین تقریر کے اختتام تک انہماک سے تقریرسماعت کرتے تھے قران کی آیات اور احادیث حفظ تھیں علامہ اقبالؔ کے اشعار کا بر محل اظہار کرتے تھے۔ مختلف احباب سے تعاون حاصل کرتے ہوئے سیکڑوں بچوں کو تعلیم کا انتظام کرتے غریبوں اور مسکینوں کا خیال رکھتے ہر ایک سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ خالی اوقات میں خاموش رہا کرتے تھے چھوٹوں کے ساتھ بہترین رویہ رکھتے تھے جو بھی ان سے ایک بار ملاقات کرتا وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ غیر مسلم حضرات بھی ان سے مرعوب تھے۔ ان کا اثر قبول کرنے والے افراد میں ڈی سرینواس سابق صدر پردیش کانگریس کمیٹی، مدھو گوڑ یاشکی سابق رکن پارلیمنٹ نظام آباد شامل ہیں۔

انھیں کبھی بھی عزت و شہرت اور مال و دولت کی ہوس نہیں رہی وہ اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی کوئی چیز مثلاً جائیداد وغیرہ کا نہ تو شوق تھا نہ مستقبل کی فکر ہمیشہ دین اسلام کی سر بلندی میں منہمک رہتے وہ اکثر مسلمانوں میں اسلامی بصیرت کے شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت پر زور دیتے، اجتماعیت کی اہمیت کو اجاگر کرتے دعوت دین کیلئے جد و جہد کرنے کیلئے افراد کو تیار کرتے رہے۔ ان سے فیض حاصل کرنے والے احباب میں جناب ملک معتصم خان صاحب سابق امیر حلقہ آندھرا پردیش، جناب ایم این بیگ زاہد سکریٹری جماعت اسلامی آندھرا پردیش، جناب محمد عبدالعزیز سکریٹری جماعت اسلامی آندھرا پریش، جناب ظفر احمد عاقل سکریٹری جماعت اسلامی آندھرا پردیش وغیرہ شامل ہیں۔ لواحقین میں 4فرزندان، 5صاحبزادیاں شامل ہیں۔ راقم الحروف بھی ان کے تیسرے فرزند ہیں۔ جان دی، دی ہوئی، اسی کی تھی حق تو یوں ہے، کہ حق ادا نہ ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

میرے سرپرست و محسن مولوی محمد عبد الغفار صاحب

 

ایم۔ اے نعیم

چیرمین و خادم، اصلاح معاشرہ و ازالہ منکرات(این جی او)سابقہ خادم الحجاج

 

مولوی محمد عبد الغفار صاحب کے انتقال کی اطلاع نے مجھے دلی صدمے سے دوچار کر دیا اور حضرت کی زندگی کے ساتھ میری وابستگی کم و بیش 50سال کی تھیں، ان کی تصویر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے گھومتی ہے، حضرت میرے محسن و سرپرست اعلی تھے، رشتہ میں وہ میرے حقیقی ماموں ہوتے تھے۔ جماعت اسلامی خود میرے گھر سے مجھے وراثت میں ملی چونکہ میرے والد 1950ء سے رکن جماعت تھے۔ 8سال کی عمر میں میں اپنے وطن بابا پور سے نظام آباد منتقل ہوا، میرے تعلیمی دور کا آغاز ہوا، اس وقت سے حضرت جماعت اسلامی کے اکابرین و ذمہ دار رہے، ان کی طبیعت میں یہ بات شامل تھی کہ غصہ کم آتا تھا جب آتا تو  مجھے گھورتے اور آنکھیں سرخ ہو جاتیں، گھریلو زندگی میں کم وقت دیتے تھے اور اپنے آپ کو جماعت کیلئے وقف کر لیا تھا، آپ نے ابتداء میں جامعہ نظامیہ سے مولوی کی سند حاصل کئے، لیکن مزید تعلیم کو جاری نہ رکھ سکے، اس کے باوجود قرآنی آیات و تفاسیر، سیرت، اسلامی لٹریچر، تاریخ اسلام پر عبور حاصل تھا کہ وہ ایک بڑے عالم، دانشور کی حیثیت رکھتے تھے، علامہ اقبالؒ کی شاعری کے مطالعہ سے ان کی فکر میں وسعت پیدا ہوئی تھی، بیشتر کلام ان کو ازبر تھا، اللہ رب العزت نے انھیں بہترین صلاحیتوں سے نوازہ تھا ان کی تقاریر و تنظیمی صلاحیتیں لاجواب تھیں، ہزاروں کے مجموع میں اپنی تقریر سے ایک جوش و جذبہ پیدا کرتے اور سامعین کو گرما دیتے تھے، ساتھ ہی تحسین حاصل کرتے تھے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو جماعت اور ملت اسلامیہ کی شعور بیداری کیلئے استعمال میں لایا۔ ان کے انتقال سے ملت میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جس کو پورا کرنا بہت مشکل نظر آتا ہے،

میں آپ کے کردار و تقاریر سے بہت زیادہ متاثر تھا، حق و باطل کی کش مکش ان کا ایک خاص موضوع تھا، جو میر والد کا بھی رہا ہے، جس کی وجہہ سے میں حکومت کی ملازمت کو خیر آباد کیا، مولوی محمد عبد الغفار صاحب میرے ملازمت کے چھوڑنے پر بہت خوش ہوئے تھے اور اس پر تبصرہ کیا تھا کہ جماعت اسلامی کو اب ایک تیار لقمہ مل گیا، میری ملازمت کو چھوڑ دینے کے بعد میری جماعت کی رکنیت منظور ہوئی، پھر مختصر مدت کے بعد مجھے امارات کی ذمہ داری تفویض کی گئی، جماعت کے کام کے سلسلہ میں اکثر مجھے وہ ساتھ رکھتے بالخصوص جماعت کے دوروں پر ان کے ساتھ جانے کا موقع ملتا، ملت اسلامیہ کے مسائل کے سلسلہ میں اکثر قائدین، سیاسی لیڈروں اور حکومتی نمائندوں سے ملاقات کے سلسلہ میں مجھے ہمیشہ ساتھ رکھتے اور کہتے کہ ایک انگریزی داں ہمارے ساتھ رہنا چاہئے، ان کی تقاریر میں قرآنی آیات و احادیث کا استعمال اور پیش کش کا انداز بہت عمدہ ہوتا تھا، حالات حاضرہ پر ان کی بڑی گہری نظر تھی، علامہ اقبال کے اشعار برجستہ موضوعات پر سنادیتے، واقعات سیرت نبیﷺ سے دلائل پیش کرتے جس سے سامعین قائل ہو جاتے تھے۔

مولوی محمد عبد الغفار صاحب نے نظام آباد کے علاوہ عادل آباد، میدک اور بالخصوص اڑیسہ میں جماعت اسلامی کے استحکام کیلئے غیر معمولی خدمات انجام دئیے، غیر مسلمین میں جماعت اسلامی کی شناخت مولوی محمد عبد الغفار صاحب سے تھی، وہ اکثر اراکین جماعت و کارکنوں کو ہدایت کرتے کہ اپنے اندر بہترین صلاحیتیں پیدا کریں اور اللہ نے جو صلاحیتیں آپ کو عطا کی ہیں اس کو استعمال میں لا کر دین اسلام کے پیغام کو عام کریں، اور جماعت کی ذمہ داریوں کو قبول کریں اور اقامت دین کیلئے جد و جہد کرتے رہیں۔

مجھے افسوس ہوتا ہے کہ مولوی محمد عبد الغفار صاحب نے جماعت میں اپنا جانشین نہیں چھوڑا وہ مجھ سے امید رکھتے تھے لیکن میں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی اور ہمہ مسلکی تنظیم کی بنیادڈالی، جس کے ذریعے اصلاح معاشرہ و ازالہ منکرات کی کوشش کا کام انجام دیا جا رہا ہے جو تعلیم و تربیت، تزکیہ، تعمیل دین کی مکمل تنظیم ہے جس کو مختلف علماء اکرام کی سند بھی حاصل ہے، اس سلسلہ میں بھی مولوی محمد عبد الغفار صاحب نے اپنے مضامین سے نوازا تھا، وہ اکثر مجھ سے یہ سوال کرتے تھے کہ تم نے اس طرح کی تنظیم کیوں بنائی ؟میں انہیں جواب میں یہ کہا کرتا تھا کہ جماعت اسلامی جوانوں کی جماعت ہے اور ہمہ مسلکی تنظیم اصلاح معاشرہ و ازالہ منکرات بوڑھاپے کی جماعت ہے جس میں جذبات کم اور ٹھہرو زیادہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

مولوی عبد الغفار علاقہ تلنگانہ کی ممتاز وضع دار دینی و ملی شخصیت

 

محمد انور خان

سابق امیر مقامی جماعت اسلامی ہند شہر نظام آباد و ایڈیٹر نظام آباد نیوز

 

مولوی عبد الغفار مرحوم علاقہ تلنگانہ کے ممتاز وضع دار دینی و ملی درد رکھنے والے تحریکی دائرے سے ایک ملی قائد تھے مسلم پرسنل لاء کمیٹی نظام آباد کے قیام اور اس کی سرگرمیوں میں اپنی زندگی میں گراں قدر رول انجام دیا۔ مسلم پرسنل لاء کمیٹی کے تحت امت کو درپیش مسائل کے حل کی راہیں تلاش کرنے میں ہمیشہ سرگرداں رہتے چنانچہ آپ پرسنل لاء کمیٹی کے روح رواں ہونے کی وجہ سے ملت کے کئی مسائل حل کرنے اکابرین نظام آباد سے آپ مشورہ کرتے اور بصیرت افروز رہنمائی کے لئے دفتر جماعت اسلامی کے دروازے کھلے رکھتے تھے۔ راقم الحروف کو مولوی محمد عبد الغفار صاحب سے تقریباً25سال تک تعلق خاطر رہا ہے۔ مرحوم کی عادت تھی کہ وہ اپنے سے کم عمر لوگوں سے بھی کسی مسئلہ میں مشورہ لینے سے عار نہیں سمجھتے تھے ان کی یہی خاصیت اور دلجوئی کی وجہ سے لوگوں کا ان کے پاس آنا جانا رہتا تھا۔ میں نے مرحوم کی زندگی میں دیکھا کہ ہر ایک کے خوشی اور غم میں شامل رہتے۔ بیماروں کی کثرت سے عیادت کرتے جن افراد سے ان کے تعلقات ہیں ان کی ہمت افزائی کرتے اگر مسافت 200سے 300کلومیٹر کی ہوتی اور انہیں مدعو کیا جاتا تو وہ ضرور شادی بیاہ میں اپنی شرکت کو لازمی سمجھتے تھے۔ احباب کی تیمار داری کرتے تھے۔ مولوی عبد الغفار صاحب کے ہمراہ کئی دفعہ میں سفر میں شریک رہا۔ جمیل سیٹھ، عباد اللہ صاحب مولانا عبدالعزیز صاحب، بابا خان، بدر الدین صاحب وغیرہ کی عیادت کیلئے مولوی عبد الغفار کے ساتھ سفر کیا۔ ان کے پاس کوئی ضرورت مند آتا تو اس کی ضرورت کا حل نکال لیتے۔ مولوی محمد عبد الغفار صاحب کی سفارش سے وہ کام ہو جاتا تھا۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ کئی افراد نے مولوی عبد الغفار صاحب کی سفارش کی وجہ سے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی۔ مرحوم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ غرباء پرور تھے کئی غریب و بے سہارا افراد کی مختلف ذرائع سے امداد بہم پہنچایا کرتے تھے۔ کئی مستحق لوگوں کو ماہوار اور سالانہ امداد مرحوم فراہم کیا کرتے تھے۔ مولانا عبد الغفار صاحب کی زندگی ہمہ پہلو شخصیت کی حامل جہد مسلسل کا پیکر تھی ابتداء میں آپ معاشی ضرورت اور اولاد کی پرورش کے لئے محنت شاقہ کی اس دوران میں جماعت اسلامی کے امیر مقامی، ناظم ضلع، ناظم علاقہ اور ناظم اڑیسہ کی گراں قدر ذمہ داریوں کو بحسن و  خوبی نبھایا۔ راہ خدا میں جد و جہد اقامت دین کا پیکر بن کر کئی علاقوں میں تحریک اسلامی کیلئے افراد کو فراہم کیا۔ آج بھی علاقہ تلنگانہ کی تقریباً جماعتی تعداد مولوی عبد الغفار صاحب کی کوششوں و کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ جماعت اسلامی علاقہ تلنگانہ کے وہ روح رواں جد و جہد و عزیمت کا پیکر تھے۔ تحریکی زندگی میں کئی مسائل درپیش ہوا کرتے ہیں لیکن مولانا کی خاص بات یہ تھی کہ وہ نشستوں کی صدارت میں تذکیری کلمات کے ذریعہ ہی تقریباً مسائل کا حل تلاش کر لیتے تھے۔ مرحوم فرض شناس تھے کس آدمی سے کیا کام لیا جانا چاہئے اور کونسے کام کو کون بخوبی کر سکتا ہے۔ یہ جان کر ہی فرد کی مناسبت سے کاموں کوتقسیم کرتے اپنی زندگی میں مولانا نے سب کو خوش رکھنے کی کوشش کی۔ کسی کو بھی ناراض نہیں کیا۔ ہر ایک کا احترام کرتے سامنے والے کی بات کو غور سے سماعت کرتے کسی سے اختلاف ہوتا بھی تو اپنی رائے کو رکھ دیتے اور اپنی رائے پر اصرار نہیں کرتے جس کی وجہ ہر فرد آپ کے قریب ہوتا اور ہر جماعت و مسلک کے لوگوں سے تعلق خاطر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو لوگ دفتر جماعت تشریف لاتے۔ مرحوم سے مشاورت کرتے اور کل جماعتی بینر کے تحت ان مسائل کو حل کیا جاتا۔ مسلم پرسنل لاء کمیٹی کے قیام کے 35سالہ عرصہ میں مولوی عبد الغفار صاحب نے کئی گراں قدر خدمات انجام دیں جس کی ایک مثال ریاست آندھراپردیش میں چندرابابو نائیڈو کے دور میں نظام آباد میں بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا۔ مولانا نے مسلم پرسنل لاء کمیٹی کے وفد کے ذریعہ چندرابابونائیڈو سے ملاقات کی اپنا احتجاج درج کروایا اور بے قصور نوجوانوں کی گرفتاریوں کے سلسلے کو روکا۔ غیرمسلموں میں مولوی عبد الغفار کا اثر غیر معمولی تھا۔ ہر طبقہ اور ہر سیاسی جماعت کے افراد سے بہترین تعلقات تھے۔ تمام ہی سیاسی پارٹیوں کے ایم ایل اے، ایم پی و دیگر قائدین مختلف موقعوں پر آپ کے پاس پابندی سے آتے جاتے۔ اور آپ کی دعائیں اور مشورے پاتے۔ تمام حلقوں میں آپ معزز تھے۔ باوجود جماعت اسلامی کی جو پالیسی ہوتی اس سے انحراف نہیں کرتے۔ اسی امیدوار کی تائید کرتے جس کے سلسلے میں جماعت نے فیصلہ کیا ہو۔ عبد الغفار صاحب مرحوم سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ بیک وقت ملی اتحاد سیاسی پہلو اور ماہر اقبالیات، امام و  خطیب، قرآن فہمی کے دلدادہ تھے۔ مرحوم کو ہر عنوان پر قرآن کی آیات اور احادیث کے حوالے یاد ہوتے۔ اپنی50سالہ امام و خطابات کی زندگی میں انہوں نے اسلام کو ایک نظام حیات کے طور پر پیش کیا۔ ان کے خطابات سننے کیلئے خاص کر لوگ جوق در جوق دور دور سے مسجد رضا بیگ میں جمع ہوتے۔ اپنے خطابات میں قرآن و حدیث، سیرت رسول، سیرت صحابہ و صحابیاتؓ، اولیاء اللہ کے واقعات کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کی بیدارانہ شاعری کے ذریعہ سامعین کو محظوظ کرتے اور ملت کا شعور بیدار کرتے۔ اللہ جل شانہ مرحوم کو غریق رحمت کرے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

’ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی‘

 

محمد عبدالعزیز

سکریٹری شعبہ خدمت خلق جماعت اسلامی ہند

 

اس کارگاہِ ہستی میں لوگ آتے ہیں اور وقت مقر رہ تک اپنی زندگی گذار کے رخصت ہو جاتے ہیں۔ لیکن تاریخ کا حافظہ انہی لوگوں کو اپنی یادداشت میں محفوظ رکھتا ہے جن کی زندگیاں ایک معین اور متعین نصب العین کے تحت گذرتی ہیں جو دنیا میں دینے کے لئے آتے ہیں لینے کیلئے نہیں۔ اور اسلامی تناظر میں بقول علامہ اقبالؒ کے

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی   میں اسی لئے مسلمان میں اسی لئے نمازی

اسی قافلہ سخت جاں کے ایک مسافر تھے محترم مولوی محمد عبد الغفار صاحب مرحوم و مغفور جن کی زندگی کے کم و بیش 50 پچاس برس اسی نصب العین جسے اقامت دین سے تعبیر کیا جاتا ہے اسی کی کوششوں و کاوشوں اور جد و جہد میں گذرے اور اسی راہ میں مرحوم کو ایمرجنسی کے دوران سنہ 1975تا1977ء کم و بیش19ماہ تک سنت یوسفی کو ادا کرنے کا موقع ملا۔ بقول علامہ اقبال

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ہر بولہوس کے واسطے دار و رسن کہاں ؟

شہر نظام آباد میں بالخصوص اور ریاست آندھراپردیش میں بالعموم تحریک کی رفتار کو آگے بڑھانے میں ان کی سعی و جہد کا ہر رفیق جماعت قائل و معترف ہے۔ انتہائی نامساعد حالات میں بھی جماعت کی دعوت کو خاص و عام میں پہچانے میں کوئی کسر روا نہ رکھی۔ اکثر کہا کرتے تھے ؎

جھپٹنا پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا     لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ

مجھے مرحوم کے ساتھ زمانہ طالب علمی سے ہی اکتساب کا موقع ملا۔ ان کی رہنمائی اور شفقت حاصل رہی۔ تنظیمی اور تربیتی اجتماعات میں دور دراز کے مقام پر بھی وہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ نظام آباد سے عادل آباد تک اور میدک سے آندھرا کے دور دراز علاقوں تک سفر کرنے کا موقع ملا۔ میری دانست میں مرحوم مولوی محمد عبد الغفار صاحب کی شناخت اور پہچان تحریکی اور غیر تحریکی حلقوں میں جماعت اسلامی کے ایک بے لوث سپاہی کی ہی رہی۔ حالانکہ وہ مختلف اعتبارات سے تنظیمی ذمہ داریوں پر بھی فائز رہے۔ رکن جماعت اسلامی سے لے کر مرکزی نمائندگان تک امیر مقامی سے لے کر ناظم علاقہ تک لیکن میرا یہ احساس ہے کہ عام طور پر لوگ مناصب سے پہچانے جاتے ہیں۔ مناصب کی روشنی کے گل ہوتے ہی اشخاص بھی اندھیرے میں گل ہو جاتے ہیں۔ مرحوم اپنے انتقال سے قبل کم و بیش 8سال بناء کسی منصب و عہدے کے رہے پھر بھی ملت کو بیدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بھی، ہم رفقائے تحریک ہمیشہ آپ کے مشوروں پر عمل کرتے رہے۔ وہ ایک غیر معمولی مقناطیسیت مزاج شخصیت تھے۔ اسی بنا پر ملت کے ہر فرد کا تعاون بغیر کسی غرض و مادی فوائد کے کرتے تھے۔ شمالی تلنگانہ سے جنوبی تلنگانہ تک علاقہ سرکار سے لے کر آندھرا تک میں جہاں جہاں بھی گیا علالت کے دوران بھی اور انتقال کے بعد بھی لوگ ان کی خدمات ان کی کاوشوں اور ان کی تحریکی سرگرمیوں کا تذکرہ کرتے رہے۔ یہی خراج تحسین اور خراج عقیدت اور قلبی دعائیں مرحوم کو مغفور بنا دیتی ہیں۔ اور ان کے حق میں مسلسل و متواتر ثواب جاریہ کا سبب بنتی ہیں۔ شاید اسی لیے مولانا مودودیؒ نے ایک موقع پر تحریکی نصب العین کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا ’’زندگی ماہ و سال سے ناپی نہیں جاتی زندگی کا تعین تو انسان کے نصب العین سے ہوتا ہے۔ نصب العین جتنا بلند ہو گا زندگی اس شخص کیلئے اتنی ہی معنی رکھتی ہے۔ اگر نصب العین آفاقی ہو گا تو یہ زندگی بھی آفاقی ہو جائے گی۔ مرحوم و مغفور مولوی محمد عبد الغفار صاحب کی زندگی بھی ماہ و سال سے ناپی نہیں جا سکتی بلکہ ان کی زندگی کا تعین بھی ان کے نصب العین ہی سے ہو گا۔ جو ان کو اپنی آخری سانس تک عزیز رہا۔ تحریک اسلامی سے بے پناہ محبت، بانی تحریک سے بے پناہ عقیدت اور علامہ اقبال سے بے پناہ اکتساب نیز اقامت دین کے آفاقی نصب العین پر بے پناہ یقین انہیں باطل سے نبرد آزما ہونے اور حق کی راہ میں برسرپیکار رہنے پر آمادہ کرتا رہا۔ بقول فیض احمد فیضؔ کے

مقامِ فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں       جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

اگر مرحوم کے بارے میں اپنے ذاتی تاثرات، ذاتی احساسات نیز شخصی اکتساب کا تذکرہ نہ کروں تو اس تعزیتی مضمون کے ساتھ انصاف نہیں ہو گا۔ مرحوم کے بارے میں میرا یہ احساس ہے اور جس کی شدت میں آج بھی محسوس کرتا ہوں وہ یہ کہ حق گوئی اور بے باکی کی کیفیت ان میں بددرجہ اتم موجود تھی۔ میں نے کبھی کسی سے خوف کھاتے ہوئے کسی کے دباؤ میں آتے ہوئے یا کسی اونچے عہدے اور منصب پر فائز شخص خواہ وہ وزیر ہویا پولیس کا کوئی اعلیٰ عہدیدار، کوئی سیاسی لیڈر ہویا مذہبی و سماجی رہنما کبھی کسی سے مرعوب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اپنی تقریروں میں علامہ اقبال کے اس شعر کو اکثر پڑھا کرتے تھے جس کی عکاس خود مرحوم کی زندگی تھی ؎

ہے وہی تیرے زمانہ کا امام برحق           جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

موت کے آئینہ میں دکھا کر رخِ دوست زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے

مرحوم کے بارے میں میرا دوسرا اور آخری تاثر یہ ہے کہ بلاشبہ تحریک اسلامی سے وابستگی نے ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی لیکن اس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ وہ خود بھی مطالعہ قرآن، تدبر قرآن تواتر اور تسلسل کے ساتھ اسلامی لٹریچر کا مطالعہ اور بالخصوص کلام اقبال کے رموز سے واقفیت کیلئے اوقات کی پابندی ان کے روزانہ کا معمول تھا۔ یہی وجہ تھی کہ علمی و مذہبی محفلوں و مجلسوں میں مرحوم کی علمی و قائدانہ حیثیت مسلم اور متعین تھی۔ قحط الرجال کے اس دور میں اس طرح کی متحرک اور سرگرم عمل رہنے والی شخصیت کا ہمارے درمیان میں سے اٹھ جانا ایک مشترکہ نقصان ہے۔ مختار مسعود (مرحوم) اپنی کتاب آوازِ دوست میں لکھتے ہیں: ’’زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں۔ ‘‘ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ ہمیں مرحوم کا بہترین نعم البدل عطا فرمائیں گے اور ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ساری کوششوں اور کاوشوں اور جد و جہد کو ان کے لئے بہترین توشۂ آخرت بنا دے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

مولانا محمد عبد الغفار، ایک محرک و روح رواں داعی اسلام

 

حلیم بابرؔ

محبوب نگر

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اسلامی تعلیمات و اسلامی طرز عمل کو صد فیصد سراہتے ہوئے اور اس کے عملی اقدامات میں اپنی ساری زندگی صرف کرتے ہوں، چونکہ زندگی کی راہوں میں ایسے پیچ و خم کا بھی سامنا ہو جاتا ہے جس سے دانستہ یا نادانستہ اس کے شکار ہو جاتے ہیں اور اس طرح کماحقہ دینی خدمات انجام نہیں دسکتے، مگر قابل تحسین ہیں مولانا عبد الغفار مرحوم جنہوں نے عزم محکم سے اسلامی تعلیمات کو مستحکم کرنے میں اپنا خون جگر صرف کیا اور نظام آباد ضلع میں ایسی تاریخ بنائی ہے جس کے مطالعہ و مشاہدہ سے ان کی عظمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دین کی خدمات کیلئے چند احباب کو چن لیتا ہے اور ان چند احباب میں مولانا محمد عبد الغفار کا شمار بھی ہوتا ہے جو ایک داعی اسلام قرار دئے جا سکتے ہیں۔ زندگی کے اس طویل سفر میں کئی پیچ و خم کا بھی مولانا نے سامنا کیا تھا مگر ان کے ماتھے پر کبھی شکن نہیں آئی، وہ صبر و تحمل کے حامل انسان تھے، رضائے الٰہی و خوشنودی رسولؐ کے علمبردار تھے اور اسطرح اپنی خدمات سے یہ ثابت کر دیا کہ زندگی میں رضائے الٰہی و خوشنودی رسولؐ دو ایسی طاقتیں ہیں جن کے سہارے انسان بڑے سے بڑے خطرناک حالات کا مقابلہ کر سکتا ہے اور کامیابی اس کے قدم چومنے لگتی ہے۔ مولانا کا وطن بابا پور (بھمیگل) تھا، جو نظام آباد ضلع میں واقع ہے وہ نظام آباد شہر میں سکونت اختیار کی اور جماعت اسلامی جیسی فعال دردمند مسلم نواز تحریک سے وابستہ ہو گئے۔ مسجد رضاء بیگ نے مولانا کو اپنے دامن میں جگہ دی اور وہ وہاں کے امام و خطیب کی حیثیت سے بلا کسی معاوضہ خدمات انجام دینے لگے۔ انہوں نے وہاں اسلامی حلقوں کے استحکام پر بھر پور توجہ دی اور برادران اسلام کے اندر دینی شعور اور برادران وطن کو دعوت دین دیتے رہے۔ مولانا کی اعلی صلاحیتوں کے پیش نظر مولانا عبدالرزاق لطیفی نے آپ کو ناظم ضلع نظام آباد کے عہدے پر سرفراز کیا تھا، اس طرح75 19ء میں جبکہ جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی گئی تھی مولانا کو ان کے رفقاء کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ مولانا نے جیل میں کم و بیش دو سال کا عرصہ گذرا دوران قید وہاں انہوں نے درس و تدریس اور عبادات کا خصوصی اہتمام کرتے رہے۔ مولانا نے 1960ء سے جماعت اسلامی کے ایک سچے عاشق اور خدمت گذار کی طرح دین حق کی سربلندی میں اپنے اوقات صرف کئے اور کافی مقبول رہے۔ 1966ء سے 1977ء تک مولانا نے بحیثیت امیر جماعت نظام آباد کارگزار رہے اور اپنی خدمات کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے جس کو مٹانا مشکل ہے، آپ نہایت ہی خوش اخلاق، ملنساراور دردمند ملت کی حیثیت سے مشہور و معروف ہوئے، 1977ء سے 1988ء تک ناظم علاقہ شمالی تلنگانہ کی حیثیت سے خدمات انجام دی اور جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کو تلنگانہ میں مقبول و کار کرد بنایا، عمر کے آخری حصہ میں انہوں نے اڑیسہ میں جماعتی سرگرمیوں کو فروغ دیا، آج وہاں جماعت کا کام کافی وسعت اختیار کر رہا ہے، حالانکہ مولانا کے پاس کوئی تعلیمی سند بھی نہیں تھی مگر انہیں مطالعہ کے ذریعے عالمانہ صلاحیتیں حاصل ہوئی تھیں، مسجد رضا بیگ میں روزانہ فجر کے بعد درس قرآن دیا کرتے تھے۔ مولانا کا مطالعہ بہت وسیع تھا، نماز جمعہ کے خطابات بڑے پر اثر اور دعوت و تبلیغ دین پر مشتمل رہتے تھے، جس سے برادران اسلام میں دینی شعور زندہ ہوتا تھا، خطابات میں علامہ اقبال کے اشعار کے استعمال سے قوم میں بیداری پیدا کرتے تھے 1992ء میں جب بابری مسجد شہید ہوئی تو عالم اسلام کے مسلمانوں میں بے چینی، افسردگی اور مایوسی جیسی کیفیت مسلط ہو رہی تھی ہر مقام پر مختلف کمیٹیوں کے قیام کے ذریعے مذمت اور احتجاج کیا جانے لگا، چنانچہ ضلع نظام آباد میں بھی بابری مسجد ایکشن کمیٹی بنائی گئی جس کے کنوینر کی حیثیت سے مولانا کا تقرر کیا گیا مولانا موصوف نے تمام جماعتوں کے افراد کو ساتھ لے کر حکومت سے بارہا نمائندگی کی اور اپنا احتجاج درج کروایا۔ مولانا کی شخصیت کا خصوصی وصف سب کو ساتھ لے کر چلنا تھا۔ مولانا کیلئے سب سے بڑا اعزاز و سعادت اس بات کا ہے کہ وہ 1957ء سے لے کر 2014ء یعنی کم و بیش 60 سال تک مسجد رضا بیگ میں امام  و خطیب کی حیثیت سے کار گذار رہے اتنی طویل مدت تک امام و خطیب جیسے پر عظمت عہدہ پر رہنا یقیناً ان کے حق میں سعادت و انعام سے کم نہیں بہر حال مولانا کا وصال ملت اسلامیہ بالخصوس جماعت اسلامی میں ایک ایسا خلاء پیدا کر دیا ہے جس کا پر ہونا ممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے۔ تلنگانہ کے جماعتی حلقوں میں مولانا کے نقوش اپنی روشنی منور کرتے رہیں گے اور تحریک کے رفقاء ان کیلئے دعا مغفرت کرتے رہیں گے۔ مولانا کا ایک قیمتی اثاثہ ان کی صالح اولاد بھی ہے، جس میں قابل ذکر جواں سال ڈاکٹر عزیز سہیل بھی شامل ہیں، جنہوں نے اعلی تعلیم کے زینے طے کرتے ہوئے ایم اے، پی۔ ایچ۔ ڈی تکمیل کی انہوں نے ایک اردو زبان کے محسن و خدمت گزار کی حیثیت سے اپنا سفر جاری رکھا ہے موصوف کی ۴ کتابیں شائع ہو کر اردو دنیا کا وقار بلند کیا ہے، ان کی کتابوں پر ایوارڈ بھی دئے گئے۔ اس خصوص میں ان کے والد کی تربیت بھی شامل رہی ہے، بہر حال ڈاکٹر عزیز سہیل کو صفِ اول کے جواں سال قلمکا وں میں شامل کیا جا سکتا ہے، میرے لیے یہ بڑے اعزاز و سعادت کی بات ہے کہ انتقال سے چند ماہ قبل میری ملاقات مولانا کی قیام گاہ نظام آباد میں ہوئی جبکہ وہ علیل تھے ان کے ساتھ مختصر گفتگو میرے دل میں ایسے گھر کر گئی کہ میں ان کا مداح بن گیا۔

حرف آخر۔ مولانا عبد الغفار صاحب جن کی ساری زندگی شریعت کا ساتھ نبھاتی رہی اور اشاعت دین کو اپنا فرض سمجھتی رہی قابل تحسین ہے، ایک داعی اسلام کی حیثیت سے زمانہ مولانا کو فراموش نہیں کر سکتا، بہر حال دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ برادران اسلام مولانا کی رحلت سے بے حد غمگین ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ موت اس کی ہے کرے جس پر زمانہ افسوس۔ یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کیلئے، ملت مولانا سے یوں مخاطب ہے کہ۔

تمھاری نیکیاں زندہ تمھاری خوبیاں باقی

٭٭٭

 

 

 

بے لوث داعی

 

 محمد تنویر پاریکھ

عادل آباد

اس دار فانی کی زندگی میں داعی کی زندگی بھی کیا خوب زندگی ہے۔ دنیا سے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں پر اس کا نقش اور اثر دیر تک باقی رہتا ہے۔ وہ اس مختصر زندگی میں نیکی کے اُس راستہ کو اختیار کرتا ہے کہ دنیا سے اس کا رشتہ ختم ہو جانے کے باوجود بھی اس کے نامہ اعمال میں نیکیوں اور حسنات کا اضافہ ہوتا ہی چلا جاتا ہے۔ اور جب تک اس کی سعی اور دعوت کے اثرات باقی رہتے ہیں۔ اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بڑے ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں یہ توفیق ملتی ہے۔ جناب عبد الغفار صاحب ایسے ہی خوش نصیبوں میں سے تھے۔

آپ ایک پر اثر خطیب، بے لوث داعی اور ایک مثالی کارکن تھے۔ آپ کو دیکھنے سے محسوس ہو جاتا تھا کہ فکر آخرت آپ پرسوار رہتی ہے۔ آپ پر دنیا بنانے کی فکر دارِ آخرت سنوارنے پر غالب نہیں آتی تھی باوجود اس کے کہ آپ معاشی طور پر زیادہ مستحکم نہیں تھے۔

جوانی ہی میں جماعت سے وابستہ ہوئے۔ مختلف سطح کی تنظیمی ذمہ داریاں انجام دیئے۔ نظام آباد اور عادل آباد کے ناظم ضلع کی ذمہ داری بھی نبھائی۔ اڈیشہ میں جماعت کے کام کی بنیاد ڈالی۔ اور حلقہ کی شوریٰ کے رکن کی حیثیت سے منتخب ہوئے۔ نہ بڑھتی ہوئی تنظیمی ذمہ داریاں،  نہ ڈھلتی ہوئی عمر اور نہ حالات کے سرد و گرم آپ کی سرگرمی کو متاثر کر سکے۔ مفوضہ ذمہ داری کو انجام دینے کیلئے آپ مسلسل دورے کرتے رہتے۔ کئی نئی بستیوں میں تحریکی کام کا آغاز کیا۔ علاوہ اس کے بہت سے مقامات پر تحریک کومستحکم کیا۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو عمدہ تقریر صلاحیت سے نوازہ تھا۔ بلند آواز، گفتگو میں ٹھہراؤ، دل پر اثر ڈالنے والا انداز اور بر موقع و محل علامہ اقبال کے اشعار اور تقریر میں واقعات کی شمولیت جس سے سامعین کے ذوق سماعت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ آپ کے انداز سے عوام و خواص دونوں بھرپوراستفادہ کرتے تھے۔ اورسننے والے محسوس کرتے تھے کہ باتیں ادھر دل سے نکل رہی ہیں اور ادھر دل میں اتر رہی ہیں آپ کا ظاہر و باطن ایک جیسا تھا، حق گو تھے۔

آپ کی ظاہری شخصیت اور معاملہ فہمی کی وجہ سے لوگ معاملات کے تصفیہ کیلئے آپ کو حکم بناتے تھے۔ تحریک کے باہر کے افراد بھی آپ کو بہت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اور آپ سے استفادہ کرتے تھے۔

آپ نے جس راستہ پر سفرشروع کیا آخر دم تک اس پر چلتے رہے۔ عمر کے اس مرحلہ میں بھی جب جسم کے اعضاء جواب دے چکے تھے۔ تب بھی آپ سے رائے و مشوروں کے لئیے لوگ آتے تھے۔ آپ آٹھوں پہر ملی خدمات کا جذبہ رکھتے تھے۔ آپ خدا کے راستہ میں دوڑ دھوپ جاری رکھے ہوئے تھے۔ یقیناً یہ عزیمت کا نمونہ ہے۔ آپ کی زندگی عملی رہنمائی کا نمونہ پیش کرتی ہے کہ مومن کبھی نہیں تھکتا۔ مسائل سے نہیں گھبراتا، راستہ سے نہیں ہٹتا،  کمزوری نہیں دکھاتا بلکہ ہمیشہ پر امید رہتا ہے۔ معاشرہ میں زندگی کی روح پھونکتا جاتا ہے اور باطل کے مقابلہ میں ڈٹ جاتا ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے ؎

’’اس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گذر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے کمزوری نہیں دکھائی۔ وہ(باطل کے آگے ) سرنگوں نہیں ہوئے۔ ایسے ہی صابروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔ (سورہ آل عمران: آیت 146)۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔ آپ کے حسنات کو قبول فرمائے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

اپنی ذات میں ایک انجمن تھے آپ

 

عبدالقیوم شاکر القاسمی

جنرل سکریٹری جمعیۃ العلماء ضلع نظام آباد

یوں تو مرنے کوا س دنیا میں اور مرتے ہیں لوگ، موت کا تلخ گھونٹ توہر کس وناکس کو پینا ہی پڑتا ہے۔ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، چاہے نہ چاہے ہر ذی روح کو راہی ملک عدم بننا ہے لیکن 12؍نومبر 2014 کو جو ہمہ گیر شخصیت اپنوں اور بیگانوں کو الوداع کہہ کر ہمیشہ کیلئے رخصت ہوئی ہے وہ جناب محترم مولوی عبد الغفار صاحب کی ذات گرامی تھی۔ جو ایک فرد ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔

اگرچیکہ مولانا محترم سے میرا کوئی گہرا تعلق نہیں تھا لیکن ایک سے زائد مرتبہ ملاقات اور مختلف مسائل پر گفتگو کرنے کا موقع بارہا ملا جس کی وجہ سے ایک حد تک شناسائی اور مرحوم کے مزاج علمی شغف اور قوم و ملت کے تئیں درد کا کھلے طور پر اندازہ ہوتا تھا۔ اسی مناسبت سے برادرم ڈاکٹرعبدالعزیز سہیل صاحب نے خواہش کی کہ چند سطور والد بزرگوار کے حوالہ سے تحریر فرما دیں تاکہ ’’ اذکرو امحاسن موتا کم‘‘ کے تحت آنے والی نئی نسل کو کام کرنے میں اپنے اسلاف کے محاسن و حوصلوں سے راہبری مل سکے۔ بنا بریں امید درج ذیل احساسات کو قلمبند کر رہا ہوں کہ اکابرین حضرات کے جذبات اور طریق کار کو مشعل راہ بنا کر اپنے اندر بھی وہ حوصلہ پیدا کریں۔

مولانا عبد الغفار صاحب مرحوم آج سے تقریباً 58 سالہ قبل شہر نظام آباد تشریف لائے اور ابتداء ہی سے علم و علماء سے لگاؤ، خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار تھے۔ دو تین سال کے بعد باقاعدہ طور پر جماعت اسلامی سے منسلک ہو کر کچھ عرصہ بعد شہر نظام آباد کے امیر مقامی کی حیثیت سے آپ کو نامزد کیا گیا۔ مختلف زاویوں سے آپ کی خدمات قابل ستائش رہیں۔ بڑوں کی جانب سے بھی آپ کو داد تحسین ملتی گئی، پوری دل جمعی اور اخلاص کے ساتھ آپ اسلامی ماحول بنائے اور امت میں پیدا شدہ منکرات کی روک تھام کیلئے سرگرداں و کوشاں رہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ مولانا مرحوم کی خدمات کا احاطہ اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں لیکن مالا یدرک کلہ لایترک کلہ کے قاعدہ کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے اپنے اکابرین کی خدمات کو یکسر فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ آپ کی خدمات میں اہم اور قابل ذکر مسجد رضا بیگ اور تحریک اسلامی اور جماعت اسلامی، مسلم پرسنل لاء بورڈ، مسلم متحدہ محاذ میں تا حیات آپ کے اُن جماعت کے قوم و ملت کی فلاح و بہبودی کے عظیم کارہائے نمایاں انجام دیتے رہے۔ مولانا مرحوم ظرافت طبع کی وجہ سے بھی عوام و خاص و عام میں کافی مقبول تھے۔ علمی ذوق اور شاعرانہ شوق بھی آپ پر غالب تھا اکثر و بیشتر اقبال کے کلیات دہراتے اور اس سے سبق آمیز نصائح اخذ کرتے، عزم و ہمت کا پیمانہ لاجواب تھا ہی جس کی وجہ سے سیاسی حالات کا بھی رُخ موڑ دیتے تھے۔ جرات مندی اور بے باکی کا عالم یہ تھا کہ ہزاروں کے مجمع میں بھی حق گوئی سے گریز نہیں کرتے۔ مزاج شناس، موقع شناس اور حالات سے واقف کار بھی تھے۔ اگرچیکہ باضابطہ جماعت اسلامی سے منسلک تھے لیکن مفاد عامہ کی خاطر سب کو باندھ کر اتحاد و اتفاق رائے سے کام کرنا اور کام لینا آپ کا شیوہ تھا۔ ہر چھوٹے بڑے کے دکھ درد میں شریک ہو کر اس کا ساتھ دیتے تھے۔ پست ہمتی اور حوصلہ شکنی سے بے حال ہوتے نوجوانوں کو بھی تسلی اور ترغیب دیتے تھے۔ سیاسی، سماجی قائدین کی بھی آپ کے پاس آوک جاوک رہتی تھی ہر ایک آپ سے اپنے متعلقہ ذمہ داریوں کی ادائیگی اور حسن خدمت کیلئے صلاح و مشورے لینے کو ضروری سمجھتے تھے اور آپ بڑے حکیمانہ انداز میں آنے والوں کو کام کرنے کے طریقہ بتلا کر ان کی راہ نمائی کرتے تھے۔ گویا تا حیات آپ ہی ہر درد کی دوا اور ہر زخم کا مداوا بنے رہے۔ سیاسی، سماجی، معاشرتی، اصلاحی، دینی، دعوتی، علمی، عملی ہر راہ کے مسافر کی منزل آپ تھے۔ ہر موڑ پر لوگوں نے آپ سے استفادہ کیا اور خوب کیا۔ آپ نے بھی ان کی راہ نمائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ ’’گویا گذری ہے زندگی اسی دشت کی سیاحتی میں ‘‘ کے آپ حقیقی مصداق تھے۔ دوران علالت بھی آنے والوں اور عیادت کرنے والوں کا ایک سلسلہ آپ کے گھر پر لگا رہتا تھا۔ احقر بھی کئی ایک مرتبہ حصول ثواب کی نیت سے حضرت مولانا سید ولی اللہ صاحب قاسمی کی معیت میں عیادت کیلئے حاضر ہوا تو ہر بار آپ کو کلمات تشکر اور ذکر کا ورد کرتے ہوئے پایا۔ کبھی ذات خداوندی میں نالاں نہیں دیکھا۔ دیکھنے والوں کی زبانی یہ بھی سنا ہے کہ آپ نماز تہجد کا بھی زیادہ اہتمام فرما تے تھے۔ جلوت تو نمایاں تھی ہی لیکن خلوت میں بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط اور مستحکم تھا۔ کیا شخصیت اور مرد درویش تھے آپ کہ تنظیمی کام کاج کی ذمہ داریوں کا بوجھ اور تنہائی میں طویل عبادت کا ذوق، یقیناً یہ تو مرحوم ہی کا حق تھا کہ کر گذرے اب تو دیکھنے کیلئے آنکھیں اور سننے کیلئے کان ترستے ہیں۔ الغرض آپ بیک وقت کئی خوبیوں کے مالک تھے۔ اللہ نے آپ کو بے مثال و لا جواب کمالات سے نوازا تھا۔

میں اس موقع پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کے فرزند ان بطور خاص لائق و فائق ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل کا کہ انہوں نے اپنے والد بزرگوار کے حوالہ سے مختلف لوگوں کے خیالات اور مرحوم کی خدمات کے تذکرے کو یکجا کیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرین کیلئے اس کتاب کو نافع بنائے اور مولانا مرحوم کی مغفرت فرما کر اعلی علین میں جگہ نصیب فرمائے۔ آمین۔

٭٭٭

 

 

 

 

غفار صاحب مرحوم تحریک اسلامی کے بے مثال مجاہد تھے

 

محمد عبدالمجید نور

مولوی محمد عبد الغفار صاحب مرحوم کا تذکرہ جب بھی ہوتا ہے۔ ایسی شخصیت ہمارے ذہن میں گھوم جاتی ہے جو بالکل سیدھی سادی سی اور بناوٹ و تصّنع سے پاک ہے۔ عبد الغفار صاحب (مرحوم) تحریک اسلامی نظام آباد کے قافلہ سالار تھے۔ وہ ان ابتدائی لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنا سب کچھ تحریک اسلامی پر نچھاور کر دیا تھا۔ عبد الغفار صاحب جنہیں میرے والد مرحوم غفّار بھائی کہہ کر پکارتے تھے، والد محترم کو غنی بھائی کہتے تھے اور وہ ہمیشہ ہم سب کے بہی خواہ اور ہمدرد رہے۔ میں جب چھوٹا تھا اور میری عمر بمشکل 8یا10سال رہی ہو گی اس وقت جماعت اسلامی ہند کا نام پہلی بار میں نے غفار صاحب کی زبانی ہی سنا تھا۔ انہیں مطالعے کا بڑا شوق تھا اور قرآن مجید کی تلاوت تو اُن کے روز کے معمولات میں شامل تھی۔ اس وقت بھی جبکہ جماعت اسلامی نظام آباد صرف تین یا چار افراد پر مشتمل تھی۔ غفار صاحب راستے میں بھی میرے والد محترم سے ملتے تو انہیں قرآنی آیات وسورتیں ازبر (یاد کر کے )سنایا کرتے تھے۔ صرف چار افراد تھے ایک غفار صاحب، دوسرے عبدالقادر عارف صاحب، تیسرے میرے والد محترم محمد عبدالغنی صاحب اور چوتھی شخصیت احمد عبد القادر خان صاحب کی تھی۔ جماعت کا کام بڑھتا گیا۔ غفّار صاحب کی تقریری صلاحیتوں نے زبردست کام کیا۔ یہ بڑے مخلص لوگ تھے جنہوں نے خواتین کو بھی اس کام کیلئے تیار کیا۔ غفار صاحب کے کام کرنے کا جذبہ سب سے منفرد تھا۔ اگر انہیں بچپن میں صحیح مواقع ملتے تو یقیناً وہ ایک بہت بڑے عالم و فقیہ بنتے۔ قدرت کو ان سے کام لینا مقصود تھا۔ اللہ بزرگ و برتر کسی سے بھی کام لے لیتا ہے۔ آج بھی میرے ذہن میں غفار صاحب کے جمعہ کے خطبوں کے الفاظ گونجتے ہیں۔ بڑے نپے تلے انداز میں تقریر کرتے۔ جہاں پر زور دینا ہوتا جوش میں آ جاتے۔ اقبال کے اشعار برجستہ سناتے جاتے۔ ان کی تقریر سن کر اندازہ ہوتا تھا کہ اللہ کے بھٹکے ہوئے بندوں کو راہِ حق پر لانے کی ان میں کتنی تڑپ تھی۔ مخالفین کے پروپیگنڈہ کی ذرا بھی پروانہ کرتے۔ وقت کے نہایت پابند تھے۔ جماعت اسلامی نے ان پر جو بھی ذمہ داریاں ڈالیں اُن سب سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کرتے تھے ساتھ ہی ساتھ رزقِ حلال کی تلاش میں سرگرداں رہتے۔ دولت مند بننے کی لالچ ان میں ہرگز نہیں تھی۔ میں نے دینی کتابوں کا مطالعہ بچپن ہی سے کیا اور میرے ذہن میں بار بار خلفائے راشدینؓ کی مبارک زندگیوں کے واقعات ابھر کر آتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات میں سوچا کرتا تھا کہ یہ غفار صاحب بھی خدا کے ان نیک بندوں میں سے ہیں جو تجارت بھی کرتے ہیں اور اپنی دینی ذمہ داریوں کو بھی پورا ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک نام بھول گیا۔ یہ نام میرے چچا جان محمد قمرالدین صاحب کا ہے۔ یہ بھی بڑے مخلص آدمی تھے۔ رات رات بھر اللہ کے دین کی دعوت لوگوں تک پہچانے کی باتیں اور مشورے ہوا کرتے اور صبح صبح قمر الدین صاحب کی ہوٹل میں سب جماعتی رفقاء ناشتہ کرتے تھے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاسوں کے انعقاد کے علاوہ نظام آباد میں شرعی پنچایت کے قیام کے سلسلہ میں غفار صاحب کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اقامت دین کی جد و جہد کے ایک ایسے سپاہی تھے جنہوں نے آخری دم تک دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کیلئے کام کیا۔ مسجد رضا بیگ احمدی بازار کو دعوتی و تبلیغی مرکز بنانا غفار صاحب کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ انہوں نے یہاں پر دار المطالعہ بھی قائم کیا۔ 1975ء میں ایمرجنسی کے دوران مصیبتوں و مشکلات کا سامنا کیا۔ سردی ہو یا گرمی برسات کی جھڑی ہو، میں نے تربیتی اجتماعات میں اپنے والد مرحوم کے ساتھ غفار صاحب کی پر اثر تقریریں سنی ہیں۔ ایک بار انہوں نے دوران تقریر اقبال کا یہ شعر پڑھا:

میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں

میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ

میں نے محسوس کیا کہ اس وقت کے اور موجودہ حالات کے سمجھنے وسمجھانے کیلئے اس سے مفید ومناسب کوئی دوسرا شعر ہرگز نہیں ہو سکتا۔ غفار صاحب نے جس وقت جماعت اسلامی ہند کے کاموں کی نظام آباد میں بنیاد ڈالی اس وقت نشر و اشاعت کے اتنے ذرائع نہیں تھے اور نہ میڈیا کے ذریعہ دعوت دین پہچانے کے کوئی وسائل تھے لیکن انہوں نے مستقل مزاجی کے ساتھ کام شروع کیا اور نہ صرف جہلاء کا سامنا کیا بلکہ مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے مخالفین کے طنز و استہزاء کو بھی برداشت کیا۔ جماعت اسلامی کی دعوت پر لبیک کہنے والے ابتدائی لوگ ہماری طرح اتنے ’’تعلیم یافتہ‘‘ نہیں تھے۔ خدا نے ان کے کاموں میں برکت عطا فرمایا تھا اور ان کی زبانوں میں بھی تاثیر تھی۔ یہ تاثیر ان کے نیک اعمال کی وجہ سے تھی جس کے معترف مخالفین بھی تھے۔ عبد الغفار صاحب کو دیکھ کر مجھے قرونِ اُولیٰ کے وہ مسلمان یاد آ جاتے تھے جنہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں بھی دین حنیف کی بقاء کیلئے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ وہ کسی غریب مسلمان کو حقیر نہیں سمجھتے تھے بلکہ مولانا عبدالعزیز صاحب مرحوم سابق نائب امیر جماعت اسلامی ہند کی طرح ایک ایک فرد کو اپنے قریب کرتے تھے اور وہ شخص یوں محسوس کرتا تھا کہ تحریک اسلامی اس سے کچھ امیدیں و توقعات رکھتی ہے اور وہ غریب شخص اپنے آپ کو تحریک اسلامی کے کاموں میں لگا دیتا۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر خوش ہوتا تھا۔

ایک مرتبہ کا ذکر ہے میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ جماعت اسلامی کے لوگ کتابی کیڑے ہوتے ہیں وہ اپنے پمفلٹ کو رٹ کر تقریریں کرتے ہیں،  ان کی تقاریر میں کوئی تڑپ اور ولولہ نہیں ہوتا۔ میں نے اپنے دوست کی رائے سے اتفاق نہیں کیا اور اسے دعوت دی کہ جماعت اسلامی ہند ’’ہفتہ انسداد و فحش و منکرات‘‘ منا رہی ہے اور وہ دوسرے دن غفار صاحب کا جمعہ کا خطبہ رضا بیگ مسجد میں آ کر سن لے۔ میرے دوست نے حامی بھر لی مسجد رضا بیگ میں میرے دوست کے ساتھ تھا غفار صاحب کا خطبہ جمعہ سنا تو حیران رہ گیا، قرآن کی متعدد آیتوں اور احادیث کے استعمال کے ساتھ ساتھ موجودہ سماج کی حالت کی جو تصویر غفار صاحب نے کھینچی اور درد انگیزی میں بیان کیا میرے دوست کے شبہات جاتے رہے اور اس کا ذہن یکسر تبدیل ہو گیا۔ یہ تھا اُن کے خطابات و تقریر کا کمال!

غفار صاحب نے جتنی محنت کی ہے اگر آج کی نئی نسل اس سے سبق لے تو دنیا و آخرت میں اُسے بھی کامیابیاں نصیب ہوں گی(انشاء اللہ)۔ ڈاکٹر عبد العزیز سہیل، مولوی عبد الغفار صاحب مرحوم کے لائق و فائق فرزند ہیں۔ ملت اسلامیہ کو ان سے کافی توقعات ہیں۔ خدائے رحمن و رحیم سے دعا ہے کہ وہ عبد الغفار صاحب مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اور ان کی اولاد کو تحریک اسلامی کیلئے مفید سے مفید تر بنائے۔ کارکنانِ تحریک اسلامی کو اخلاص و للہیت کی دولت سے مالا مال فرمائے (آمین ثمہ آمین)

٭٭٭

 

 

 

 

ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دُکھا گیا

 

جویریہ اِرم

تقریروں، تحریروں سے زیادہ انسان کے رویے معاملات زندگی ومعمولات زندگی انسان کی بہتر ترجمانی کرتی ہے۔ آج ناناجان کے ایک اور قریبی دوست اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور محرومیوں کا احساس کراگئے۔ جن کی پوری زندگی ہمارے لئے مشعل راہ تھی وہ عظیم لوگ اس دنیا سے آہستہ آہستہ رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔ ناناجان اور ان کے دوستوں ساتھیوں کیلئے جماعت اسلامی ہی ان کی زندگی کا محور رہی۔ میرے ناناجان محترم جناب احمد عبدالقادر خان صاحب (صوبیدار خان)جماعت اسلامی نظام آباد کے رکن اور امیر مقامی بھی رہ چکے تھے۔ مولوی عبد الغفار صاحب، مولانا عبدالعزیز صاحب سے بہت ہی قریبی تعلقات تھے ان میں بڑی محبت تھی۔ ناناجان بستر مرگ پر تھے وہ اکثر مزاج پرسی کے لئے آتے رہتے تھے۔ ۲۰۰۲ء میں جب نانا جان انتقال کر گئے ہم بہت چھوٹے تھے ابھی اسکول میں پڑھتے تھے لیکن مولوی عبد الغفار صاحب کی صورت میں ایک سایہ اب بھی تھا۔ پچھلے چند ہی مہینوں میں پہلے عبد الغفار صاحب کے انتقال کی خبر آئی پھر اب مولانا عبدالعزیز صاحب کے انتقال کی خبر نے بے حد تکلیف اور بڑوں کے سایہ سے محرومی کا احساس کروایا اور ماضی کی بے شمار یادیں تازہ ہو گئیں۔ کتنے مناظر میری آنکھوں کے گرد گھوم رہے ہیں کن کن کی عکاسی کروں۔ یہ مجھ سے ممکن نہیں ہے۔

مسجدرضا بیگ جماعت اسلامی ہند نظام آباد کا مرکز ہی نہیں بلکہ نانا جان اور ان کے ساتھیوں کی توجہ اور امنگوں کا مرکز تھا۔ اسی مسجد کی گلی میں ہمارا چھوٹا سا مکان تھا۔ عہد طفلی میں ان عظیم لوگوں کے اِ رد گرد گذرا ان کی حرکات وسکنات کو بغور دیکھا ہے۔ مولانا عبد الغفار صاحب کی سادہ زندگی تھی چھوٹوں پہ شفقت اپنے ساتھیوں سے محبت عزت و احترام ان کی قدر و منزلت اپنے بڑوں کے ساتھ انتہائی احسن سلوک کی ہماری آنکھیں شاہد ہیں۔ چھوٹوں سے شفقت و محبت نبیؐ کی سنت ہے اور ساری زندگی مولوی عبد الغفار صاحب نے یہ سنت خوب ادا کی۔ امی جان کہتی ہیں وہ اکثر مجھے گود میں اٹھا کر مسجد میں لے جاتے اور میں مسجد میں بنا روئے دھوئے ان لوگوں کی نشستوں، اجلاسوں، مشوروں، منصوبوں کے موقع پر خاموشی اور معصومیت سے انہیں تکتے رہتی تھی۔ نانا جان انہیں جماعت میں لائے تھے اور دادا جان محمد اسماعیل صاحب نے انہیں عربی کی تعلیم دی تھی عبد الغفار صاحب کی امامت میں ہم نے کئی نمازیں پڑھی تھیں ان کی تقاریر سننے کیلئے تو سرپٹ دوڑتے تھے۔ اکثر رمضان میں وہ نانا جان اور دادا جان کیلئے دعائیں مانگتے تھے۔ ہم نے آج تک نجانے کتنے اساتذہ سے تعلیم لی کبھی کسی کے اتنے احسان مند رہے نہ ہماری زبانوں نے ان کے لئے کبھی اتنی دعائیں جتنی عبد الغفار صاحب کی زبان پر اپنے استادوں کیلئے ہوا کرتی تھی۔

مسجد کے صباحی مدرسے میں قرآن پڑھتے تھے اور دن میں تجوید سیکھنے جاتے تھے۔ طاق راتوں میں بڑا روح پرور منظر ہوتا تھا۔ مسجد کے پروگرام میں حمد و نعت پڑھنے کی درخواست لے کر ہم محترم فقیر محمد صاحب المعروف بڑے مولوی صاحب کے پاس جاتے حالانکہ وہ عبد الغفار صاحب کے ساتھی تھے مگر ہمیں اب بھی یاد ہے ہم پیچھے کھڑے ہوتے تھے اور اتنی معمولی سی بات پر وہ لوگ بڑے ادب و احترام سے عاجزی کے ساتھ ہماری بات پہنچاتے اور گو کہ وقت کی کمی ہوتی عبد الغفار صاحب بڑی محبت و ادب کے ساتھ ان کی بات مان لیا کرتے تھے۔ وہ مناظر بے سمجھے ہی ذہن میں قید ہو گئے آج یاد آتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کیسے عجیب لوگ تھے لیکن جماعت کا صحت مند ماحول انہی اوصاف سے بنتا ہے۔ بحث و مباحثہ جھگڑے کا کوئی موقع نہ تھا۔ کئی موقعوں پر ان کی ایک رائے قائم نہیں ہوتی تھی مگر خیالات کا یہ ٹکراؤ کبھی تکرار کا باعث نہ رہا۔ یہ ان کے تنظیمی شعور اور نرم دلی کی انتہائیاں تھیں جو وہ اس طرح کا ماحول قائم کر پاتے تھے۔ ہم ان کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر پاتے تھے کسی نے کہہ دیا مولانا بڑی دھیمی آواز میں بولتے ہیں اور ہم آگ بگولہ ہو جاتے اور خوب سنادیتے تھے۔ جتنی محبت وہ مجھ سے میرے والدین سے کرتے تھے اتنی محبت ہم بھی ان سے کرتے تھے۔ جب میرے والد نے گھر تعمیر کرنے کا سوچا تو ہم سب کے ذہن میں ایک ہی نام آیا عبد الغفار صاحب کہ انہی کے ہاتھوں اس کام کی شروعات ہو گی وہ آئے انہوں نے سب کیلئے دعا کی اور کام کا آغاز ان کے مبارک ہاتھوں سے ہی ہوا۔ کسی نے ایک دفعہ میرا تعارف ان کے سامنے پیش کیا تو وہ بڑی محبت سے مسکراتے ہوئے جواب دئے ’’ آپ اس بچی کا تعارف مجھے دے رہے ہیں اسے تو میں نے گود میں کھلایا میں اسے کیسے نہیں جانتا ہوں۔ ‘‘

دادا جان کی توسط سے وہ میرے والد سے بھی بڑی محبت رکھتے تھے میرے والد سے کہا کرتے کہ میں تمہارے والد کو دعاؤں میں اکثر یاد رکھتا ہوں ایک ہی مارکٹ میں دونوں کا کاروبار ہے اس لئے ایسے بے شمار مواقع تھے جب دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے تھے کتنے مواقع کتنے واقعات یاد آ رہے ہیں اس وقت کاروباری حلقہ کے لوگ یا عام لوگوں کے مسائل ملکی و ملی مسائل ہر جگہ انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا سب ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں ملت کی انہوں نے خوب بے لوث خدمت کی ہے۔

تقریر اچھی تو تو یہ میرا کمال نہیں

میرا خلوص مخاطب تھا میں کہاں بولا

یہ شعر وہ اپنی تقاریر میں کہا کرتے تھے حقیقت میں ان کے الفاظ سے اخلاص چھلکتا تھا۔ جب ان کی صحت بگڑنے لگی اور وہ مسجد میں دوسرے پروگراموں میں کم شرکت کرنے لگے تو سب کو ان کی بڑی فکر ہونے لگی تھی۔ ہم نے ہمیشہ ان کی صحت مندی کی دعائیں کیں اور ان کے صحت مند لوٹ آنے کے منتظر تھے۔ ایک معمول سا بن گیا تھا کہ نماز کس نے پڑھائی ؟آج جمعہ کا خطبہ کون دئیے۔ عبد الغفار صاحب نے۔ ؟جواب ہاں میں آیا تو دوسرا سوال صحت کیسی محسوس کی گئی۔ ؟ جواب نا میں آئے تو سبھی دعا کرتے اللہ انہیں صحتِ کاملہ عطا کرے اس شخصیت کی جماعت کو بڑی ضرورت ہے۔ جس شخص کے لوٹ آنے کے شدت سے منتظر تھے وہ اب اپنی ایسی آرام گاہ کی طرف منتقل ہو گئے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے انہیں جنت الفردوس میں اعلی درجہ عطا کرے آمین۔ جانے والے نے اپنے پیچھے بہت بڑی میراث چھوڑی ہے اپنے آباء کے ادھورے کام ہم بچوں کو ہی پورے کرنے ہیں۔ ان کی زندگی جلتی لو کی طرح زندگی کے اندھیروں میں روشنی بکھرتی رہے گی۔

ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دکھا گیا

کہ شام غم تو کاٹ لی سحر ہوئی چلا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

حصہ سوم

 

رُودادِ اَدائیگی سُنت یوسفی

 

رُودادِ اَدائیگی سُنت یوسفی بہ دوران داخلی

 

 ایمرجنسی جون 1975ء تا مارچ1977ء،

از: قلم: مولوی محمد عبد الغفار

آج بتاریخ چار جولائی1975ء جمعہ کا دن تھا، میں حسب طریقہ روز کی طرح بھی صبح ٹھیک پانچ بجے بیدار ہوا اور مسجد پہنچ کر نماز فجر ادا کیا۔ درس حدیث کے بعد مطالعہ قرآن میں مصروف ہو گیا۔ آج جمعہ کا خطبہ بھی دینا تھا، اسی لئے دیر تک تیاری کرتا رہا۔ ٹھیک آٹھ بجے ہمارے ایک رفیق جناب محترم سید صاحب جو صبح ہی سے میرے ساتھ تھے اور اپنے انفرادی مطالعہ میں مصروف تھے وہ بھی فارغ ہو کر آ گئے۔ ہم لوگ آپس میں حالات پر تبادلہ خیال کرنے لگے۔ ہمارے رفیق نے اس موقع پر اہم مشورے دیئے اور ساتھ ہی وہ فرمانے لگے کہ ایسا ہو کہ کچھ دنوں کیلئے دفتر جماعت سے اہم چیزوں کو نکال لینا مناسب ہو گا۔

ان کے اس خیال سے مجھے بھی اتفاق تھا،  نہ جانے پھر کیوں مجھے خیال کہ میں نے ان سے کہہ دیا کہ آپ کے خیال سے متفق ہوں۔ کل اجتماع ارکان ہے طئے کر دیں کہ سامان منتقل کر دیں گے۔ پھر آج شام حیدرآباد جا رہے ہیں وہاں امیر حلقہ سے مشورہ کر کے فوری آ جائیں انشاء اللہ حسب حکم تعمیل کریں گے۔ پھر ہم لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے، پھر ٹھیک بارہ بج کر تیس منٹ پر میں مسجد پہنچا، سنتوں سے فارغ ہو کر خطبہ کیلئے منبر پر کھڑا ہو گیا اور آج سورہ احزاب کے آخری رکوع کی پہلی آیت کا خطبہ تھا جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو کچھ آزمائش آئی تھیں ان کا ذکر تھا۔ میں آزمائشوں کو بیان کرتا جا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ خیال آ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ بندوں نے راہ حق میں کیا کیا تکالیف برداشت کئے اور دین حق کا پرچم لہراتے اور صبر کرتے رہے۔ اور آخر کار اللہ نے ان کی مدد فرمائی اور وہ کامیاب ہوئے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ خدا نخواستہ ان تکالیف میں سے مجھ جیسے گناہ گار پر رتی برابر بھی تکلیف آئے تو نہیں معلوم کہ میرے ایمان کا کیا حال ہو۔ ہمارے حال پر اللہ ہی رحم فرمائے۔ نماز سے فارغ ہو کر دوست احباب سے ملاقات رہی اور ایک رفیق نے مالیگاؤں سے ایک چٹی میرے نام روانہ کی تھی۔ میں چونکہ مصروف تھا۔ چٹھی جیب میں رکھ کر اخبارات میں مصروف ہو گیا۔ ایک خبر تھی کہ کیرالہ میں آر ایس ایس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ خبر پڑھ کر اخبار رکھا ہی تھا کہ ہمارے بزرگ جناب عبد الخلیل خان صاحب نے فرمایا کہ جناب آپ تیار ہو جائیے، آپ لوگوں کی باری ہے۔ میں نے کہا کہ بھائی ہم اس مرتبہ کے نہیں ہیں کہ راہ خدا میں جیل جا سکیں۔ پھر میں نے یہ شعر پڑھ دیا کہ

یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا      ہر بول ہوس کے واسطے دارورسن کہاں

محترم خلیل بھائی نے بڑی دیر تک جیلوں کے واقعات سنائے اور میں سنتا رہا پھر انہوں نے استقامت کی تلقین کی، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگر خدانخواستہ ایسا وقت آ جائے تو میں اپنے رب سے مدد طلب کروں گا اور صبر واستقامت سے اللہ تعالیٰ کی مدد سے حالات کا مقابلہ کروں گا۔ آپ سے گذارش ہے کہ آپ بھی ہمارے لئے دعا فرمائے۔ ان سے رخصت ہو کر سیدھے گھر پہنچا اور اہلیہ اور بچوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا شروع ہو گیا۔ اس دوران وہ چٹھی یاد آئی اور فوری نکال کر پڑھا جس میں امیر جماعت اور مرکز کے لوگوں کی گرفتاری کی اطلاع تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آخر ان حالات سے جماعت کا کیا تعلق ہے۔ پھر امیر جماعت کی گرفتاری بھی سمجھ میں نہیں آئی۔ میں نے اپنی اہلیہ سے ذکر کیا،  وہ بھی تعجب کرنے لگیں پھر میں نے کہا کہ خدا نخواستہ کہیں ہماری باری نہ آ جائے تووہ بے چاری ذراسی پریشان ہو گئیں اور پھر کچھ دیر بعد کہنے لگی اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے اور اگرایسا ہوا تو میں اور اپنے بچے اللہ سے مدد طلب کریں گے اور صبر سے کام لیں گے۔ کھانے سے فارغ ہو کر سیدھے دفتر جماعت آیا اور کچھ دیر اخبارات دیکھنے کے بعد قیلولہ کے لئے لیٹ گیا تھا، سواپانچ بجے موذن صاحب نے جگایا اور وضو سے فارغ ہو کر نماز پڑھ لیا۔ پھر احباب کے ساتھ دفتر جماعت میں داخل ہو گیا۔ تھوڑی دیر میں نکل کر جانے والا ہی تھا کہ ہنگیرگہ سے جناب محمد یوسف صاحب تشریف لائے جو نومسلم ہیں۔ یہ ہمارے خاص اور بہترین رفقاء میں سے ہیں۔ خالص توحید پرست ہیں۔ ان سے گفتگو کر ہی رہا تھا کہ کورٹلہ سے دو رفقاء آ گئے جناب غوث محی الدین صاحب اور عبد القیوم صاحب۔ انہوں نے اپنے ساتھ ٹیپ ریکارڈر لایا تھا۔ جذبہ انتہائی نیک کہ ہمارے پاس مرحوم محترم امیر حلقہ جناب عبدالرزاق صاحب لطیفی کا درس قرآن کیسٹ میں بھرا ہوا تھا اور محترم مولانا مودودیؒ کی ایک تقریر جو مولانا نے امریکہ سے واپسی پر کراچی میں استقبال کرنے والوں کے سامنے کی تھی موجود تھی، اور اس کو ریکارڈ کرنے کیلئے وہ لوگ آئے تھے اتفاق سے لوگوں کو بس نہیں ملی،  لاری کے ذریعہ آئے تھے۔ میں باہر نکلنے والا ان لوگوں کیلئے رک گیا۔ پھر ان کا ٹیپ ریکارڈر ٹھیک ہی کر رہا تھا کہ ٹھیک ہونے پر ہمارے رفیق سید محمد علی صاحب موجود تھے چنانچہ آغاز کے طور پر ان کی قرأت بھرنا شروع کیا۔ کوئی ساڑھے پا نچ بجے شام کا وقت تھا۔ سورہ یٰسین کی تلاوت شروع ہوئی اور جب سورت آخری مرحلہ پر پہنچی تو اچانک کچھ دوڑنے کی آواز آئی،  میں حیران ہو کر ادھر کون لوگ دوڑتے ہوئے آ رہے ہیں۔ پھر میں کیا دیکھتا ہوں کہ سرکل انسپکٹر پولیس اور سب انسپکٹر اور کئی پولیس کے جوان وغیرہ ہتھیار کے ساتھ آئے، آتے ہی سرکل صاحب نے فرمایا کہ یہاں کون کون ہیں میں نے انگلی سے اشارہ کیا اور کہا خاموش قرآن کی تلاوت ہو رہی ہے۔ ختم پر گفتگو کریں گے۔ وہ خاموش کھڑا ہو گیا اور میں نے محمد علی صاحب سے کہا کہ وہ قرأت جاری رکھیں۔ سورہ کے خاتمہ پر میں نے سرکل صاحب سے کہا کہ کیا بات ہے آپ لوگ کس پریشانی میں ہیں اور آپ کو کیا مطلوب ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کون کون ہیں۔ میں نے کہا آپ کو کون لوگ مطلوب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور میں نے محمد علی صاحب کو دفتر کا چارج دیا اور کہا میرے آنے تک آپ امیر رہیں گے اور چابیاں حوالے کر دیا لیکن سرکل انسپکٹر صاحب نے فرمایا کہ آپ سب لوگ ہمارے ساتھ چلیں گے اور تمام لوگ پولیس کے گھیرے میں آ چکے ہیں اس لئے آپ میں سے کوئی بھی نہیں جا سکتا۔ میں نے کہا جناب یہ تین آدمی باہر کے مقام کے ہیں۔ آپ ہمیں لے چلئے لیکن ان حضرات کو چھوڑ دیجئے مگر انہوں نے اصرار کیا میں خاموش ہو گیا۔ اسی اثناء میں ہمارے رفیق سیدیوسف صاحب کسی کام سے آ گئے اورپولیس نے انہیں بھی گھیرے میں لے لیا۔ خیر ہم تمام لوگ دفتر کے باہر نکلے،  کیا دیکھتے ہیں کہ ہر طرف پولیس اطراف مسجد کو گھیرے ہوئے ہے۔ ماجرا کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر کیا بات ہے۔ پھر ہم مسجد سے باہر نکلے تو دو تا تین ہزار آدمی کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم چھ آدمی پولیس کے ساتھ کثیر عوام کی موجودگی میں چوراہا پر جہاں پولیس کی موٹر کھڑی ہوئی تھی لائے گئے اور موٹر میں بیٹھ کر پولیس ٹاؤن نمبر ون لائے گئے، پھر ساڑھے چھ بجے شام کا وقت تھا ٹاؤن پہنچتے ہی میں نے چابیاں فوری روانہ کر دیں اور ہدایت دی کہ فوری دفتر خالی کر دیں۔ مگر معلوم ہوا کہ ہمارے آتے ہی دفتر پر پولیس کا پہرا لگا دیا گیا ہے اور کوئی بھی دفتر کے قریب نہیں جا سکتا۔ چابیاں واپس آ گئے چونکہ میں ہمیشہ بعد نماز عصر چائے پینے کا عادی رہا ہوں اس لئے میں نے ٹاؤن میں چائے کا مطالبہ کیا جس کی فوری تعمیل کی گئی۔ اور چائے آ گئی۔ ہم لوگ چائے پی ہی رہے تھے کہ پولیس گاڑی ہمارے ناظم ضلع مولوی عبدالرزاق کو لے کر آ گئی۔ خیر سب سے ملاقات ہو گئی۔ مغرب کا وقت ہو گیا۔ سامنے دکان سے کپڑا منگوایا گیا اور تمام رفقاء نے مل کر نماز مغرب با جماعت ادا کی اور مالک سے استقامت کی دعا کی۔ نماز سے فارغ ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ اور لوگوں کو ایک ایک کر کے لایا جا رہا ہے مگر یہ دیگر جماعتوں کے غیرمسلم افراد ہیں۔ کمیونسٹ طلبہ تنظیم کے تین افراد لائے گئے۔ اور آر ایس ایس کے تین آدمی لائے گئے اور ایک نکسلائیٹ ایڈوکیٹ اورکانگریسی کو بھی لایا گیا۔ یہ عمل ٹھیک گیارہ بجے تک جاری رہا۔ گیارہ بجے کھانے کی اجازت لے کر ہمارے رفیق اسلم صاحب کی ہوٹل سے کھانا منگوایا گیا اور ہم تمام ساتھیوں کو لے کر کھانے سے فارغ ہوئے اب یہ معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی،  آر ایس ایس اور دیگر چوبیس جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اور یہ تمام کاروائی اس ضمن میں ہے۔ پھر تمام رفقاء نے مل کر نماز عشاء با جماعت ادا کی اور خاموشی سے دیگر لوگوں سے گفتگو ہوتی رہی اس دوران میں ڈی ایس پی صاحب آ گئے اور ہم سے کہا گیا کہ لائن سے کھڑے ہو جائیں اور ہم لوگ کھڑے ہو گئے اور پھر ہم تمام لوگوں کے نام اور جماعت سے تعلق کی نوعیت وغیرہ نوٹ کرتے رہے۔ اس سے فارغ ہو کر ڈی ایس پی صاحب اپنے آفس چلے گئے۔ یہ تمام کاروائی ٹھیک بارہ بجے تک ہوتی رہی۔ اس دوران ہمارے رفقاء کثرت سے آتے رہے اور مختلف ضروریات کا سامان فراہم کرتے رہے۔ سننے میں آ رہا تھا کہ ہم لوگ راجمندری لے جائے جائیں گے اسی خیال سے ہم لوگوں نے اپنے اپنے گھروں سے ضروری سامان منگوا لئے۔ ٹھیک ایک بجے رات سرکل صاحب نے ہمیں طلب کیا اور کہا کہ دفتر کی چابیاں دے دیجئے،  میں نے کہا کہ جناب دفتر سے کیا مطلوب ہیں۔ میں نے کہا مجھے لے چلیں میں دے دوں گا۔ لیکن سرکل صاحب نے کہا کہ صرف چابیاں دے دیجئے، میں نے کہا چابیاں گھر پر ہیں اور میرا چلنا ضروری ہے۔ خیر رات ایک بجے پولیس مجھے گاڑی میں لے کر میرے مکان گئے، پیچھے ڈی ایس پی صاحب کی موٹر بھی تھی۔ میرے اچانک گھر پہنچ جانے سے سب لوگ حیران ہوئے۔ اہلیہ وغیرہ کچھ پوچھنا چاہتے تھے لیکن پولیس کو دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ میں نے اہلیہ کو دلاسہ دیا اور صبر کی تلقین کر کے پولیس کے ساتھ دفتر جماعت پہنچے۔ دفتر کھولا گیا۔ وہ لوگ سامان اٹھانا چاہتے تھے۔ میں نے کہا جناب پہلے فہرست تیار کی جائے پھر پنچ نامہ کر کے سامان اٹھائے۔ وہ لوگ بھی راضی ہو گئے اور آدمیوں کو لینے کیلئے گئے اور دو آدمی لائے گئے۔ جو ایک حمال اور ایک ہوٹل ملازم تھا۔ دونوں نشے میں چور تھے۔ میں نے کہا کہ کیا پنچ نامہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہاں،  تب میں نے کہا یہ لوگ نشے میں ہیں اور یہ عبادتگاہ ہے یہاں نشہ والے لوگ نہیں آ سکتے۔ خیراس پر ان لوگوں نے کہا کہ کل صبح ٹاؤن میں پنچ نامہ کریں گے۔ آپ وہاں خود موجود ہیں میں نے کہا ٹھیک ہے اور تمام سامان میں نے اور میرے ساتھیوں نے پندرہ برس میں ایک ایک پیسہ جوڑ کر جمع کیا تھا، بڑی بیدردی سے موٹر میں ڈال کر اور تمام چیزوں کو برباد کرتے ہوئے رات ٹھیک تین بجے ٹاؤن پہنچایا گیا۔ چار بجے کے بعد دو اور رفیق سید یعقوب علی صاحب اور محمود بیگ صاحب لائے گئے۔ یہ تمام نو لوگ مل کر صبح کی نماز کی تیاری میں لگ گئے۔ ہمارے باہر کے رفقاء شاید رات بھر سوئے یا نہیں، فجر میں پھر حاضر ہو گئے۔ ہم ٹاؤن کے باہر وضو بنا رہے تھے کہ کئی رفیق ملے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ نماز فجر ادا کر کے مالک حقیقی سے استقامت کی دعا کرتے رہے کہ مالک ہم لوگ بہت کمزور ہیں ایمانی حیثیت سے بھی اور طاقت کے اعتبار سے بھی۔ تو ہی ہمارا واحد سہارا ہے اور تو ہی ہمارا بہتر وکیل ہے۔ ہم تمام معاملات تیرے حوالے کرتے ہیں اور تجھ ہی پربھروسہ کرتے ہیں۔ صبح فجر کے بعد بھی ہمارے رفیق محترم اسلم صاحب نے سب کیلئے چائے روانہ کر دی۔ چائے سے فارغ ہو کر ہم لوگ آپس میں تبادلہ خیال کرتے رہے پھر ناشتہ بھی اسلم صاحب نے ہی بھجوا دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے کاروبار میں ترقی دے۔ وہ ہم لوگوں کا ہر وقت خیال کرتے رہے۔ دس بجے کے بعد اخبارات ملے اور پورے ملک میں جماعت اسلامی کے رفقاء کے گرفتار ہونے اور دفاتر کو سیل کرنے کی خبریں پہلے صفحہ پر شائع ہوئی تھیں۔ یہ بھی مالک کا کرم ہے آج اخبارات نے جماعت اسلامی کی خبروں کے لئے پہلے صفحہ دیا حالانکہ یہ جماعت اس ملک میں 33سال سے خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس جماعت کا بڑے سے بڑا اجتماع ہوا یا بڑے سے بڑا تحریک کا کام ہو مگر کبھی ان اخبارات کو صفحہ اوّل پر جماعت کی خبریں شائع کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس سے ہم لوگ یہی اندازہ کیا کہ شاید مالک اس آفات کے ذریعہ اقامت دین کی اس تحریک کو پورے ملک میں متعارف ہونے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ بہر حال پانچ جولائی ہفتہ کا دن گذر رہا تھا اور  مختلف رفقاء ٹاؤن میں آ کر مل رہے تھے اور تمام خبریں معلوم ہو رہی تھیں ٹھیک تین بجے دن کا وقت تھا ڈی ایس پی صاحب تشریف لائے اور آتے ہی سرکل انسپکٹر کو ڈانٹنے لگے کہ ان لوگوں کو کیوں لاک اپ میں نہیں ڈالا گیا اور حکم دیا گیا کہ فوری اندر ڈال دو۔ اس پر ہم لوگ بالکل بدل گئے اور ہم نے اندر جانے سے صاف انکار کر دیا لیکن سرکاری حکم ہے فوری طور پر کانسٹبل ہم کو اندر ڈالنے کی تیاری کرنے لگے۔ بڑی کشمکش کا وقت آ گیا کیونکہ لاک اپ انتہائی چھوٹا اور تمام گندہ تھا۔ 21آدمی اس میں کیسے رہیں گے اور ہر آدمی فکر مند ہو گیا اور دلوں میں اللہ سے دعا میں مصروف ہو گیا۔ عین اسی وقت مجھے ایک اور آزمائش سے گذرنا پڑا اور ادھر لاک اپ میں ڈالنے کی کشمکش جاری رہی اور تکرار بڑھتی رہی۔ میرے دو بچے ٹاؤن سے باہر آ کر بابا کہہ کر پکارنے لگے۔ انہیں پولیس والے ڈرا رہے تھے لیکن معصوم بچوں کو یہ حالات کیا معلوم کہ وہ مسلسل پکارے جا رہے تھے اور رو رہے تھے۔ میری بھی اسی وقت عجیب کیفیت ہو گئی اور اگر اللہ تعالیٰ اس وقت صبر نہیں دیتا تو میں بھی اس وقت دھاڑے مار کر رو دیتا۔ پھر میں نے اپنے آپ کوسہارا دیا۔ پھر اتنے میں ایک رفیق آ کر بچوں کو لے کر چلے گئے اور مجھے بڑا سکون ہوا۔

ہم نے ڈی ایس پی صاحب سے کہا کہ جناب ہم کو یہاں لائے ہوئے قریب چوبیس گھنٹے گذر چکے ہیں۔ ہمیں فوری عدالت میں پیش کیا جائے تو مناسب رہے گا۔ اس نے فوری مختلف الزام عائد کر کے شام چھ بجے عدالت میں پیش کیا گیا اور ہم جج صاحب کے سامنے پیش کر دیئے گئے۔ جج صاحب نے چالان دے کر کہا کہ کل صبح دس بجے ان کو پیش کیا جائے لہذا پھر ٹاؤن واپس ہونے لگے جیسے جیسے ٹاؤن قریب آتا جا رہا تھا کہ ہر آدمی فکر مند تھا کہ اب تو ضرور اندر ڈالے جائیں گے۔ ہم تمام لوگ ذکر خداوندی میں مصروف ہو گئے۔ اللہ تو ہی ہم کواس مصیبت سے بچاسکتا ہے تو مالک نے اس غلاظت سے محفوظ کر دیا۔ ہم لوگوں نے ایک ترکیب کی کہ جب تک یہ لوگ چار چار آدمی پکڑ کر اندر لے جا کر نہیں ڈالیں گے تب تک ہم خود ہی اٹھنے والے نہیں۔ خیر مالک نے مدد فرمائی اور مصیبت ٹل گئی۔ گیارہ بجے اٹھ کر وضو وغیرہ کر کے تمام رفقاء نے نماز عشاء با جماعت ادا کی۔ تب تک گھروں سے کھانا آ گیا تھا۔ تمام لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے اور رات نیند لگ گئی۔ دوسرے روز صبح ہی ناشتہ آ گیا اور ساتھ ہی سب کے بچے آ گئے۔ اورسب سے ملاقات ہو گئی۔ اور دس بجے دن عدالت میں پیش کیا گیا اور جج نے ہم کو پندرہ دن کیلئے ریمانڈ کر دیا۔ ہم نے ہمارے سامان کی بابت دریافت کیا تو سرکل صاحب نے کہا کہ وہ محفوظ رہے گا۔ ہم نے جج صاحب سے کہا کہ ہمارے سامان کا پنچ نامہ نہیں کیا گیا ہے لہذا سامان کا پنچ نامہ کیا جائے یا سامان عدالت کے پاس محفوظ رکھا جائے۔ جج صاحب نے نوٹ لکھ لیا۔ ہم لوگوں کو نظام آباد جیل لے گئے۔ جیل لے جاتے وقت بہت سے رفقاء ہم لوگوں کو رخصت کرنے کیلئے آئے تھے۔ سب کو خدا حافظ کر کے ہم کو جیل کے لیے روانہ ہو گئے۔ نظام آباد جیل میں داخل ہوئے تو تمام سامان چھوڑ کر اندر داخل ہونا پڑا اور ہم لوگوں کیلئے الگ بیریکس نمبر 9دیا گیا اور وہاں جیلر راج ریڈی انتہائی اچھے آدمی تھے۔ انہوں نے آتے ہی مصافحہ کیا اور کہا کہ آپ لوگوں کو کن کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ ہم لوگوں نے کہا کہ آپ کا کھانا ہمارے لئے مشکل ہے لہذا ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم کھانا گھر سے منگوا لیں، بچارے نے فوری اجازت دے دی اور دو لیٹر دو دھ بھی ہمارے لئے روزانہ مقرر کر دیا۔ اور ہم لوگوں نے گھروں کو اطلاع دے دیئے کہ وہ صبح و شام کھانا جیل کو پہنچائیں۔ چھ جولائی کو ہم جیل میں داخل ہوئے تھے اور بارش مسلسل ہو رہی تھی مگر ہمارے رفقاء نے کھانا اور تمام ضروریات کی چیزیں ہمارے لیے فراہم کرتے رہے تھے اور ہم بغیر کسی تکلیف کے دن گذار رہے تھے۔ اسی اثناء میں ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ہماری ضمانت ہو سکتی ہے چنانچہ تیسرے دن ضمانت کی کاروائی شروع ہو گئی اور آخر آٹھ دن بعد چار لوگوں کی ضمانت آ گئی جن میں ناظم ضلع اور دوسرے دو رفقاء شامل تھے۔ پانچ آدمیوں کی ضمانت نامنظور ہو گئی۔ ہم لوگ گیارہ جولائی کو شام میں جیل سے باہر نکلے۔ باہر ہمارے بہت سارے رفقاء موٹر لئے کھڑے تھے۔ سب سے مل کر اپنے اپنے گھروں کو موٹر کے ذریعہ پہنچا دیئے گئے۔ میں گھر پہنچا بڑی بہن موجود تھیں۔ دیکھتے ہی رونے لگی۔ اور اہلیہ کی آنکھوں سے بھی آنسو آ گئے۔ اور بچے تمام دوڑتے ہوئے آ کر لپٹ گئے۔ میں نے سب کو دلاسہ دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کی یہی مرضی تھی جو پوری ہوئی، فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مالک نے مجھے آزاد کر دیا اور رات تک لوگ کثرت سے ملاقات کرنے آنے لگے۔ میں نے سب کو منع کر دیا اور کہا کہ ایمرجنسی ہے اور ابھی مصیبت دور نہیں ہوئی ہے۔ برائے مہربانی اپنے اپنے گھروں میں رہو کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اور مصیبت نہ آ جائے۔ رات گذر گئی اور دوسرے دن صبح سے ہی ہمارے اندر والے رفقاء کے رشتہ دار آ کر تنگ کرنا شروع کر دیئے اور کہنے لگے اچھے ذمہ دار لوگ ہیں آپ لوگ آپ تو باہر آ گئے اور ہمارے لوگ اندر کیوں یہ کیا بات ہے۔ میں نے سب کو دلاسہ دیا اور کہا کہ صبر کرو ایک یا دو دن میں سب لوگ باہر آ جائیں گے۔ اور انتظار کرنے لگے۔ بھاگ دوڑ شروع ہو گئی اور یہ بات پولیس کوسخت ناخوشگوار ہوئی اور ٹھیک چودہ جولائی کو اطلاع ملی کہ ہم لوگ پھر گرفتار ہو جائیں گے تومیں نے اپنی تیاری شروع کر دی اور اہلیہ کو بغیر کہے مختلف سامان سوٹ کیس میں رکھنے لگا۔ نہیں معلوم کہ پولیس والے کب آ جائیں اور تیاری کا موقع نہ ملے۔ اور تیاری شروع کر دی۔ دوسرے دن ہمارے محترم قمر الدین صاحب جو دوا خانہ میں تھے ان سے ملاقات کیا اور میرے بڑے بھائی جو ہماری فکر میں دوا خانہ میں شریک ہو گئے تھے ان سے ملاقات کیا اور انہیں دلاسہ دیا۔ قمر الدین صاحب سے بڑی طویل گفتگو رہی۔ میں نے ان سے کہا ممکن ہے ہم لوگ پھر گرفتار ہو جائیں اس پر رفیق محترم نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا اگر ایسا ہو تو نہیں معلوم کہ میرا جنازہ کون پڑھائے گا۔ میں نے انہیں دلاسہ دیا اور کہا انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کو جلد صحت دے۔ آپ فکر نہ کریں۔ بہر حال بڑی مشکل سے ان سے رخصت ہوا اور باہر نکلا۔ مگرکسے معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے اور پھر ہم لوگ حشر میں ملاقات کر سکیں گے۔ مسجد میں نماز سے فارغ ہوا تو معلوم ہوا کہ ناظم ضلع کو گرفتار کر لیا گیا اورپولیس موٹر میرے انتظار میں ہے مجھے کوئی ضروری کام انجام دینے تھے۔ اسی لئے پولیس کو تھوڑی سی چکر دے کر ضروری کام انجام دے دیا اور گھر پہنچ کر اہلیہ کو تمام احوال بیان کر دیا اور نماز عشاء پڑھ رہا تھا کہ پولیس کی موٹر گھر پہنچ گئی اور آواز دینے لگے۔ اہلیہ نے کہا نماز پڑھ رہے ہیں تو خاموش ہو گئے۔ پھر میں نے نماز سے فارغ ہو کر انہیں اندر بلایا اور کہا آپ لوگ آرام سے تشریف رکھیے میں نے پولیس والوں سے کہا کہ آپ لوگ بھی کھانے میں شریک ہو جائیں۔ ان لوگوں نے شکریہ پر اکتفا کیا۔ اور کہا کہ آپ کھا لیجئے۔ میں نے ان کی چائے وغیرہ سے خاطر کی اور وہ لوگ بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے جناب ہم جب گرفتاری کیلئے کہیں بھی جاتے ہیں تو لوگ پریشان ہو جاتے ہیں مگر آپ لوگ بھی عجیب ہیں کہ اطمینان سے خاطر کرتے ہوئے سکون سے چلنے کیلئے تیار ہیں۔ 15 جولائی کو گھر سے ٹھیک ساڑھے نو بجے شب پولیس کے ساتھ دوستوں سے ملتے ہوئے ٹاؤن نمبر ون میں سرکل صاحب سے ملاقات کے بعد اندر داخل ہوا وہاں ناظم ضلع اور دو اسمگلرس، تین کمیونسٹ پارٹی کے افراد اور طلبہ گروپ کے تین لڑکے جو ہمارے ساتھ جیل میں تھے لائے گئے، ان لوگوں سے ملاقات رہی، ٹھیک گیارہ بجے شب مجھے MISAکا وارنٹ دیا گیا اور بارہ بجے شب حیدرآباد کیلئے روانگی شروع ہوئی۔ بڑی حسرت سے اپنے گھر اور وطن کو چھوڑ کر نکلنے کا احساس ہو رہا تھا دوسری طرف خوشی ہو رہی تھی کہ ہم گناہ گار بندوں کو رب کی راہ میں جیل جانے کا شرف حاصل ہو رہا ہے۔ ہم اس قابل تو نہیں تھے مگر ہمارے رب نے اس کا شرف بخشا اس کا احسان ہے۔ ٹھیک پانچ بجے صبح چنچل گوڑہ جیل پہنچ گئے۔ سامنے پولیس گارڈ روم میں ہم کو ٹھہرایا گیا وہاں ہم نے نماز فجر ادا کی پھر صبح سات بجے ہمارا انسپکٹر جا کر جیل والوں سے مل آیا اور اس نے خبر دی کہ جیل میں جگہ نہیں ہے اسی لئے مشیر آباد جیل جانا ہے وہاں سے ہم لوگوں کو مشیر آباد لایا گیا۔ اور یہاں سولہا جولائی 1975ء کو ٹھیک گیارہ بجے دن اندر داخل کیا گیا۔ یہ بھی بہت بڑی جیل ہے اس میں 800تا ایک ہزار قیدی رہتے ہیں۔ اپنے پیشہ وغیرہ کی ضروری کاروائی کے بعد بیریک نمبر 5میں ہم کو رکھا گیا اور Bکلاس میں داخلہ ملا۔ Bکلاس کے قیدی کے داخل ہوتے ہی حسب ذیل اشیاء پہلے دی جاتی ہیں گویا یہ ایک اچھا خاصہ جہیز ہوتا ہے جو سرکار کی طرف سے آنے والے ہر نئے مہمان کو ملتا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

ایک عدد پلنگ،  ایک عدد توشہ، دو عدد تکیہ،  دد عدد پلنگ پوش،  ایک عدد مچھر دانی،  ایک عدد اونی بلانکٹ، ایک عدد چینی کی پلیٹ،  ایک عدد گلاس،  ایک عدد سامان دانی،  دو عدد صابن، ایک عدد شیونگ سیٹ، ایک عدد چپل، 45روپئے کے نئے کپڑے، تیل اور ٹوتھ پیسٹ وغیرہ۔ یہ تمام سامان کے ساتھ بریکس میں داخل ہوئے۔ بیریکس بھی آرام دہ ہوتا ہے۔ اس میں کرسی، ٹیبل کے علاوہ ایک آئینہ بھی ہوتا۔ اندر بھی اچھے قسم کے بیت الخلاء ہوتے ہیں، پنکھا وغیرہ بھی اچھے قسم کا ہوتا ہے۔ یہاں ہمارے آنے تک تقریباً سات سو ستر لوگ نظربند ہو چکے تھے۔ جس میں جماعت اسلامی رائیل سیما کے تین رفقاء تھے اور آنند مارگ والے اور آر ایس ایس اور جن سنگھ اور سوشلسٹ پارٹی ونکسلائیٹ وغیرہ۔ سب دوستوں سے ملاقاتیں رہیں۔ اور کھانا وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد پہلے رفقاء سے ملے، پھر تمام تفصیلات معلوم کیں۔ پھر تمام افراد سے ملاقاتیں رہیں اور ہمارا پروگرام بن گیا۔ صبح فجر کے بعد ورزش سے فارغ ہونے کے بعد انفرادی مطالعہ قرآن،  پھر چائے، چائے سے فارغ ہونے کے بعد درس قرآن مجید جس میں ہمارے رفقاء کے علاوہ اور مسلمان بھی شریک ہوتے تھے۔ اور دیگر لوگ بھی آ کر بیٹھ جاتے تھے پھر ناشتہ،  ناشتہ کے بعد اخبارات کا مطالعہ،  پھر دیگر مطالعہ، پھر دوپہر  کا کھانا اور عصر تک آرام اور عصر کے بعد تبادلہ خیال کی نشستیں ہوتی تھیں۔ تمام جماعتوں کے لوگوں نے مل کر ایک جلسہ منعقد کیا جس میں جماعت اسلامی کا تعارف بھی رکھا گیا تھا۔ تمام لیڈر تھے اور الحمد للہ کہ مجھے بھی موقع ملا اور میں نے بڑی تفصیل سے جماعت اسلامی اور اسلام کا تعارف کروایا۔ یہ سلسلہ کچھ دنوں تک چلتا رہا اور چند دنوں بعد سید یعقوب علی صاحب کو لایا گیا اور پھر تھوڑے دن گذرنے کے بعد عبدالرحیم خان صاحب نندیال کو بھی لایا گیا۔ بہر حال آتے ہی لوگوں کو خوشی بھی ہوتی اور غم بھی ہوتا۔ تھوڑے دنوں بعد ہمارے دو رفقاء چھوٹ گئے تعجب تھا کہ کیا بات ہوئی کہ کیا بات ہوئی سب چھوٹ جائیں لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے معافی نامہ داخل کر دیا ہے وہ بھی اس طرح معلوم ہوا کہ معافی نامہ تینوں نے داخل کیا تھا جن میں دو چھوٹ گئے اور ایک رہ گئے تھے۔ انہوں نے یہ تفصیل بتائی۔ بہت افسوس ہوا کہ ان لوگوں نے برسوں تربیت حاصل کی ایک ذراسی مصیبت سے گھبرا کر معافی نامہ داخل کر دیا۔ افسوس۔ خیر رہنے والوں نے خدا سے استقامت کی دعا کی اور اس طرح دن گذرتے رہے اور کوئی نہ کوئی پروگرام رہتا اور نئے لوگ داخل ہوتے رہے۔ اس دوران ایک واقعہ پیش آیا۔ یہاں جیل میں دونکسلائٹس تھے جن کو پھانسی کی سزا ہو گئی۔ عنقریب پھانسی ہونے والی تھی کہ تمام نظر بندوں نے یہ طئے کیا کہ پھانسی کی سزا منسوخ کروائی جائے اور بھوک ہڑتال شروع کرنے کا پروگرام طئے پایا اور تمام لوگوں نے ہم سے دریافت کیا ہم نے صاف انکار کر دیا۔ ہم نے ان لوگوں سے کہا کہ جہاں تک مشترکہ مسائل ہیں ہم بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہیں مگر جہاں ذاتی مسئلہ ہے وہاں ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ خیر ان لوگوں نے بھوک ہڑتال منائی اور پھانسی کچھ دنوں کیلئے ملتوی ہو گئی۔ پھر تمام لوگوں کے کچھ مشترکہ مطالبات تھے۔ اس مرتبہ طئے ہوا کہ پندرہ اگست کو جو آزادی کا دن ہے یوم سیاہ منانے کا پروگرام طئے کیا گیا اور بھوک ہڑتال بھی کی گئی اور اسی دن ایک جلسہ بھی منعقد ہوا جس میں اپنی جماعت کا تفصیلی تعارف رہا۔ جس میں آر ایس ایس والوں نے حصہ نہیں لیا۔ ماہ اگست ختم ہوا۔ ماہ ستمبر شروع ہوا۔ ہم لوگوں کو فکر ہوئی کہ ماہ صیام آ گئے ہیں لیکن ابھی کوئی رہائی کی امید نظر نہیں آئی کیا ماہ صیام جیل میں ہی گذریں گے۔ فوری طور پر ہم لوگوں نے جیل کے عہدیداروں سے گفتگو کی اور سہولتیں مانگیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم کچھ بھی سہولت نہیں دے سکتے۔ مجبوراً ہمیں چیف سکریٹری کو لکھنا پڑا۔ اس کے بعد یہ انتظام ہوا کہ الگ سے ایک بیریک رہنے کیلئے دیا گیا اور دوسرا بیریک نماز وغیرہ کیلئے دیا گیا۔ اور دیگر سہولتیں بھی دی گئیں۔ چودہ رمضان شریف کو ہمارے تمام مسلم ساتھی چھوٹ گئے اور صرف جماعت اسلامی کے رفقاء ہی رہ گئے اورساتھ ہی عبد الحفیظ خان صاحب اور حافظ انوار اللہ محمود صاحب امیر حلقہ گرفتار ہو کر ہمارے پاس آ گئے۔ اس سے ہم تمام لوگ اطمینان سے ماہ صیام گذا  رہے تھے اور امید میں تھے کہ عید تک رہا ہو جائیں گے مگر رہائی نہ ہوئی۔ پھر عید کا دن آ گیا۔ ہم نے عید کا پروگرام منایا اور تمام جیل کے لوگوں کیلئے میٹھا تیار کیا گیا۔ تمام لوگ مل کر عید کی نماز ادا کئے اور مٹھائی کی تقسیم کی گئی۔ تمام ہندوؤں نے شرکت کی اور ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا اور عید کی مبارک باد دی گئی۔ عید کے موقع پر گھروں کی بھی بہت یاد آئی۔ بچے یاد آئے مگر رب کی رضا کے خاطر صبر سے کام لیا گیا۔ ماہ صیام کے ختم پر مختلف پروگرام ترتیب دیئے گئے اور انگریزی زبان کوسیکھنے کا پروگرام بنایا گیا۔ میں حافظ صاحب اور دوسرے ساتھی ہمارے ضلع کے افسر رسول صاحب سے انگریزی سیکھنے لگے جو ہماری طرح سزا میں آئے ہوئے تھے۔ اس طرح جیل کے لیل و نہار گزر رہے تھے۔ اب بچوں اور اہلیہ کی یاد ستانے لگی۔ لہذا خط لکھ کر گھر سے اہلیہ اور بچوں کو بلایا گیا۔ ان لوگوں سے مل کر ایک حد تک خوشی ہوئی اور اطمینان بھی ہوا۔ اور یہ پہلی ملاقات تقریباً پانچ مہینے بعد ہوئی۔ ہم لوگ اس امید میں رہتے کہ ممکن ہے کہ رہائی کا حکم آ جائے بہر حال پروگرام اور تبادلہ خیال کی نشستیں روز ہی منعقد ہوتی رہیں اور کبھی ہم لوگ اظہار خیال کرتے اور کبھی آر ایس ایس کے لوگ اور کبھی جن سنگھ اور کبھی آنند مارگی اور کبھی نکسلائیٹ اس طرح ایک دوسرے کو سمجھنے اور اسلام اور تحریک اسلامی کے تعارف کا کافی موقع ملا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی مہربانی کہ بڑے سے بڑے منکرین خدا اور مشرکوں کو دعوت دین پہچانے کا اچھا موقع ملا۔ اور ہم لوگ اپنی حد تک اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے۔ نومبر 1975ء میں آر ایس ایس نے گورنمنٹ کے سامنے کچھ مطالبے رکھے۔ اور نوٹس دی گئی کہ اگر جماعتوں سے پابندی نہیں ہٹائی گئی تو پورے ملک میں پانچ لاکھ افراد گرفتاری کی لئے پیش کریں گے۔ حکومت اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں چور تھی اور لوگوں کو جیل میں بھر رہی تھی۔ اسی طرح26جنوری1976ء تک لوگ آتے رہے اور رہا بھی ہوتے رہے۔ اس دوران ہمارے بھی کچھ ساتھی اندر آئے اور رہا ہو گئے۔ یکم ڈسمبر 1976ء کو ہماری جیل میں دو آدمیوں کوپھانسی دی گئی۔ اتفاق یہ ہے کہ ہم لوگ بالکل پھانسی کے تختہ کے قریب تھے اور اچھی طرح وہ احوال سننے کا موقع ملا۔ یہ دونوں ملزم خدا کے منکر تھے لیکن عین پھانسی کے وقت دونوں نے خدا کو پکارنے لگے۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ آدمی زندگی بھر کتنا بھی خدا کا انکار کرے مگر وقت آخر خدا ہی کو پکارنا پڑتا ہے۔ پھر کیوں نہ ہر وقت خدا کوہی پکارا جائے۔ دوسرے دن بڑی بحث ہوئی کہ ان لوگوں نے خدا کو نہیں پکارا۔ منکرین کہہ رہے تھے کہ وہ خدا کو کیسے پکارسکتے ہیں، خدا پرست کہہ رہے تھے کہ انہوں نے آخر میں خدا کو پکارا۔ ہم لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی اور قصہ ختم ہوا۔

تفصیلات:    گرفتاریاں: 4جولائی1975ء  رہا ئیاں: 23مارچ1977ء

نظام آباد سے جملہ گرفتار شدگان 10افراد تھے جن میں 9ارکان اور ایک کارکن شامل تھے۔ اور ان میں چھ کا تعلق نظام آباد سے تھا۔ ان کے نام حسب ذیل ہیں۔

1۔ محمد عبد الرزاق صاحب ناظم ضلع نظام آباد  2۔ محمد عبد الغفار صاحب امیر مقامی نظام آباد

3۔ سید یعقوب علی صاحب خازن 4۔ صالح بن احمد بکران صاحب امیر مقامی آرمور

5۔ مرزا محمد بیگ صاحب رکن جماعت 6۔ سید محمد علی صاحب رکن جماعت

7۔ سید یوسف علی صاحب رکن جماعت 8۔ غوث محی الدین صاحب امیر مقامی کورٹلہ

9۔ احمدعبدالقیوم صاحب رکن جماعت کورٹلہ10۔ محمدیوسف صاحب نومسلم کارکن ہنگرگہ

مندرجہ بالا تمام ہی رفقاء ابتداً DIRکے تحت گرفتار کئے گئے۔ من بعد محمد عبد الرزاق صاحب ناظم ضلع،  محمد عبد الغفار صاحب امیر مقامی،  سید یعقوب علی صاحب خازن،  صالح بن احمد بکران صاحب امیر مقامی آرمور،  یہ چار رفقاء کوDIRسے ضمانت پر رہا کیا گیا لیکن بعد میں MISAکے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ باقی تمام رفقاء تقریباً دو مہینے بعد ضمانت پر رہا کر دیئے گئے تفصیلات جیل: DIRکے تحت گرفتاری اور رہائی

نظام آباد جیل من بعد ڈسٹرکٹ جیل مشیر آباد سکندرآباد،  الیکشن کے اعلان کے بعد منتقل سنٹرل جیل چنچل گوڑہ حیدرآباد۔ چنچل گوڑہ جیل سے نظام آباد جیل۔ نظام آباد جیل سے رہائی عمل میں آئی۔

مصروفیات جیل: ۔ صبح چار بجے بیداری،  اس کے بعد نماز فجر اور درس قرآن جس میں شرکاء کی تعداد 20تا25تک تھی بعض وقت کچھ زیادہ بھی ہوتی تھی جس میں رفقاء کے علاوہ دیگر شرکائے جیل مسلم، بھورے،  کھوجے اور شیعہ افراد کے علاوہ غیر مسلم احباب آر ایس ایس اور دیگر پارٹیوں کے لوگ بھی شریک رہتے تھے۔ 11بجے سے ایک بجے تک اجتماعی مطالعہ قرآن۔ بعد نماز ظہر درس قرآن۔ بعد نماز عصر درس حدیث،  بعد مغرب تمام پارٹیوں کی میٹنگ وغیرہ۔ اس کے علاوہ فٹبال اور دیگر کھیل میں بھی حصہ لیا جاتا تھا۔ اور دن میں بعض اوقات تبادلہ خیال وغیرہ بعد نماز عشاء رفقاء کے درمیان ادبی نشست بھی رہتی تھی۔ اللہ کے فضل سے ہم لوگوں نے کچھ ایسا پروگرام بنا لیا تھا کہ احساس جیل نہ ہوا اور اس کو تربیت گاہ تصور کرنے لگے جہاں ہمیں تربیت کیلئے لایا گیا ہے۔ الحمد للہ تمام رفقاء پوری استقامت کے ساتھ ان ایام کو گذارتے رہے۔ نظام آباد جیل، مشیر ا ٓباد جیل میں مسجد نہیں تھی البتہ حکام جیل نے دونوں جگہ نماز کیلئے الگ الگ بیارک میں انتظام کیا تھا البتہ سنٹرل جیل حیدرآباد میں بادشاہ کے زمانے کی مسجد موجود تھی جو بہت خوبصورت مسجد ہے۔ ہماری ساری سرگرمیاں اسی مسجد میں ہوتی تھیں۔ طعام وغیرہ کا بہت عمدہ انتظام تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ دیگر تمام ضروری چیزیں حاصل تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

محترم جناب محمد عبد الغفار صاحب قائد جماعت اسلامی  کی وفات پر تعزیت کے طور پر لکھے گئے اشعار

 

محمد عبدالماجد نثارؔ نرمل

 

واہ کیا خوب تھے عبد الغفار

سب کے محبوب تھے عبد الغفار

 

دین کی تبلیغ میں ہی عمر کٹی

رب کے مندوب تھے عبد الغفار

 

کام آتے تھے ہر اک انساں کے

سب کے مطلوب تھے عبد الغفار

 

نام کے جز میں تھی بخشش شامل

حق سے منسوب تھے عبد الغفار

 

وہ ہر اک کے تھے معاون و ممد

سب کے مرغوب تھے عبد الغفار

 

حق کی خاطر تو وہ ڈٹ جاتے تھے

اور نہ مرعوب تھے عبد الغفار

 

دھن تھی بس دین کی اقامت کی انہیں

دین کے مطلوب تھے عبد الغفار

 

تھے وہ اقبالؔ کے شیدائی نثارؔ

خوب ہی خوب تھے عبد الغفار

٭٭٭

 

 

 

 

تعزیتی اشعار

 

رحمت اللہ خان سوریؔ

 کرنول

 

ہمیشہ دوسروں کا غم مٹانا ہی شرافت ہے

ہمیں غفار صاحب کی ملی ایسی ہدایت ہے

 

نظام آباد کی تہذیب کو پھر سے کئے روشن

ہر انساں سے محبت ہے ہر اک مذہب کی عزت ہے

 

بہر صورت کبھی اخلاص کا دامن نہیں چھوٹا

غریبوں کے مسیحا تھے ابھی تک ان کی شہرت ہے

 

محبت اور عزت کا سبق ایسا پڑھائے تھے

نہ طاقت کی حقیقت ہے نہ دولت کی فضیلت ہے

 

عبادت سے تکبر کو مٹانا چاہیے انساں

یہی تیری عبادت ہے یہی ان کی ہدایت ہے

 

ابھی بھی ان کے کاموں کی ہر اک کوچے میں برکت ہے

امر ہیں آج دنیا میں جنہیں حق سے محبت ہے

 

جہاں سید حسینیؒ ہیں وہاں غفار صاحب ہیں

نظام آباد میں سوری، ؔزمیں زریں و نکہت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بیاد مولوی جناب حضرت الحاج محمد عبد الغفار صاحب

 

محبت علی منانؔ جڑچرلوی

 

سب کے ہمدرد تھے غم خوار تھے عبد الغفار

سب کو معلوم ہے دلِ دار تھے عبد الغفار

 

سب کے محسن رہے با کار تھے عبد الغفار

سچ ہے یہ پیکر اخلاص تھے عبد الغفار

 

دل کے آئینہ میں نفرت نظر آتی ہی نہ تھی

ہر کسی کیلئے بس پیار تھے عبد الغفار

 

قید جیلوں میں ہوئے حق کی لڑائی کے لئے

حق و انصاف کی تلوار تھے عبد الغفار

 

سب سے الفت سے ہی پیش آتے رہے

دین احمدؐ کے پرستار تھے عبد الغفار

 

قلب میں ان کے بسا رہتا تھا دردِ ملت

ہر کسی کے لئے بس پیار تھے عبد الغفار

 

حق کے رستے ہی پہ چلتے رہے وہ عمر تمام

سچے رہبر تھے وفادار تھے عبد الغفار

 

ان کے اوصاف بیاں کیسے کروں میں منانؔ

نیک تھے صاحب کردار تھے عبد الغفار

٭٭٭

تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں