FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

کمان

 

(ابتدائیہ اور متفرقاتّ)

 

 

مظفر حنفی

 

عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

خالقِ اکبر کے نام

 

خدائے عزّ و جل تو جاوداں کرتا ہے لفظوں کو

مظفرؔ اپنی ہر تخلیق تیرے نام کرتا ہے

مظفرؔ حنفی

 

 

 

 

 

نوٹ

 

’کمان‘ نام کی اس کلیات میں ۲۰۱۲ء تک شائع شدہ مظفر حنفی کے چھ مجموعوں  کے علاوہ مجموعوں میں غیر مطبوعہ کلام شامل کیا گیا تھا۔ اس حصے میں سے بچوں کی مزید نظمیں ’باپ رے باپ‘ کے نام سے علیحدہ ای بک میں، اور باقی متفرق کلام معہ ابتدائی مضامین کے پیش نظر برقی کتاب میں شامل ہے۔

 

 

 

دیباچہ

 

ایک مدت سے میں مظفر حنفی کے بارے میں لکھنے کی سوچ رہا ہوں لیکن ہمیشہ یہ مشکل مانع آ جاتی تھی کہ مظفر حنفی جیسے پر گو اور متنوع غزل گو اور نظم گو کے بارے میں بات کہاں سے شروع کروں، خاص کر جب وہ بہت اچھے رباعی گو بھی ہیں، تنقید بھی انھوں نے جب لکھی ہے تو اچھی خاصی لکھی ہے، افسانہ نگاری کے بھی کوچے سے وہ نا آشنا نہیں۔ ان کے طوفاں زا تخلیقی جوش کے باعث ان کی انتہا تو انتہا، ابتدا پر بھی ہاتھ پڑنا مشکل معلوم ہوتا تھا۔ اور اب جب ان کے کلیات کے چھپ جانے کا امکان ہے، یہ مجھے اور بھی مشکل، لیکن اور بھی مناسب لگنے لگا ہے کہ ان پر کچھ لکھا جائے۔

ہر چند کہ مظفر حنفی پر تحقیقی مقالے بھی لکھے گئے ہیں، اور ان کی غزل گوئی، ان کی طنزیہ جہت، ان کی طباعی اور طنازی پر بھی لوگوں نے حسب توفیق گفتگو کی ہے، لیکن ان تحریروں میں ہمیشہ مجھے کچھ کمی کا احساس ہوتا تھا۔ اس کی وجہ صرف ان کی پر گوئی نہیں (اگر چہ وہ بھی ایک اہم وجہ ہے )۔ میرا خیال ہے کہ کچھ تو اپنے رجحان طبع کے سبب، اور زیادہ تر اپنے استاد شاد عارفی صاحب کا حق ادا کرنے کے لیے انھوں نے اکثر خود کو طناز اور غزل کی صنف میں طنز کی بقدر کثیر آمیزش کرنے والا اور ٹیڑھی تیکھی باتیں لکھنے والا لکھا اور کہا ہے۔ (ان کے ایک مجموعے کا نام ہی ’’تیکھی غزلیں ‘‘ ہے۔ )واضح رہے کہ میں ’’طنز نگار‘‘ نہیں کہہ رہا ہوں، طناز کہہ رہا ہوں۔ ’’طنز نگار‘‘ سے عام طور مراد ہوتی ہے ایسا شخص جس کا ادبی کارنامہ بیش از بیش طنز(اور کچھ مزاح) پر مشتمل ہو۔ مثلاً خود رشید احمد صدیقی طنز نگار ہیں، سید محمد جعفری طنز نگار ہیں، شاد عارفی طنز نگار ہیں۔ لیکن شفیق الرحمٰن مزاح نگار ہیں، ابن انشا مزاح نگار ہیں، وغیرہ۔ رشید صاحب نے اپنی کتاب ’’طنزیات و مضحکات‘‘ میں ’’طنز نگار‘‘ کی جمع کے طور پر ’’طنزئین‘‘ لکھا ہے، یعنی وہ سب لوگ جو اپنی طنزیہ تحریروں یا میلان کی بنیاد پر ادب میں کوئی مقام رکھتے ہیں، خواہ انھوں نے صرف و محض طنز نہ لکھا ہو۔ لیکن رشید صاحب نے اس کا واحد ’’طنزی‘‘ نہیں استعمال کیا۔ مجھے بھی ’’طنزی‘‘ کچھ بے ڈول سا لگتا ہے۔ اور مظفر حنفی کو صرف ’’ طنز نگار‘‘ کہنا غیر منصفانہ معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا میں نے لفظ ’’طناز‘‘ کو اس کے عشقیہ مفہوم سے الگ کر کے صرف ان معنی میں استعمال کیا ہے کہ ہر وہ شخص جو طنز کو اپنی تحریروں میں راہ دیتا ہے، اسے ( اور با توں کے علاوہ) ’’طناز‘‘ کہا جانا چاہیئے۔

’’فرہنگ آنند راج‘‘ میں لفظ ’’طناز ‘‘ کے حسب ذیل معنی درج ہیں:

بسیار سخن برموز گویندہ و ناز کنندہ و رفتار بہ ناز کنندہ

ظاہر ہے غالبؔ کے مندرجہ ذیل مشہور شعر میں ’’طناز‘‘ بمعنی ’’ناز کنندہ‘‘ ہے ؎

نقش ناز بت طناز بہ آغوش رقیب

پاے طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے

اور میرؔ کے اس شعر میں ’’طنز‘‘ کے معنی ہیں ’’وہ بات جو برموز، یعنی گھما پھرا کر کہی جائے ‘‘ ؎

مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں

اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے

طنز کی بنیادی خصوصیت یہی ہے کہ بات کچھ مقصود ہوتی ہے اور کہی کچھ اور جاتی ہے۔ مظفر حنفی کے یہاں یہ صفت عام ہے اور براہ راست صرف طنز سے مختص نہیں۔ لہٰذا مظفر حنفی کے کلام کی محض طنزیہ جہت پرساری توجہ منعطف کر کے ہم ان کے ساتھ کچھ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مگر ایک مشکل یہ بھی ہے کہ مظفر حنفی کو یہ وہم بھی ہے کہ ان کے یہاں عشقیہ شعر کم ہیں، یعنی ان کے کلام میں ’’تغزل‘‘ کا عنصر کم ہے ؎

غزل مظفر کی خوب تھی اس میں شک نہیں ہے

مگر تغزل کے نام پر ایک بات کم تھی

میں تو ’’ تغزل‘‘ کو ایک بے معنی اور اردو تنقید کی اصطلاح کے طور پر، یا غزل کی تفہیم و تعریف بیان کرنے کے لیے ایک وسیلے کے طور پر، موضوعی لفظ سمجھتا ہوں (اس پر کچھ بات آئندہ ہو گی)۔ ہماری پرانی کتابوں میں (حتیٰ کہ ’’آب حیات‘‘ میں بھی) یہ لفظ نہیں ملتا۔ تو جس چیز یا تصور کا وجود ہماری روایت میں تھا ہی نہیں، اس کے وجود یا عدم سے گفتگو کرنا کار فضول ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ناسخ کے یہاں ’’تغزل‘‘ نہیں ہے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ اسی حساب سے آتش کے یہاں بھی ’’تغزل‘‘ نہیں ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جو بات مشہور ہو جائے اس پر سبھی ایمان رکھتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ ناسخ کا رنگ ’’لکھنوی‘‘ اور ’’خارجی‘‘ ہے اور آتش کا رنگ ’’دہلوی‘‘ اور ’’داخلی ‘‘ ہے۔ اور حقیقت حال یہ ہے کہ مصحفی جیسے شخص نے آتش کا نیا انداز دیکھ کر خیال بندی اختیار کی تھی، جیسا کہ مصحفی نے خود کہا ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ خیال بندی ہی شاعری ہے۔ شاعری اور بھی کئی طرزیں ہیں، اور سب اپنی اپنی جگہ خوب سے خوب تر کہی جا سکتی ہیں۔ لیکن اگر شعر میں عدم انفعال، رندانہ خوش طبعی، ظرافت، اور مضمون آفرینی کی بے لگام قوت دیکھنا ہو تو ناسخ کو دیکھیے، آتش کو دیکھیے۔ ذوق کو دیکھیے۔ ان کے پہلے والوں میں مصحفی کو دیکھیے، اور بھی پہلے بقا اکبر آبادی، اور شاہ نصیر کو دیکھیے۔ افسوس کہ ان لوگوں کو ترک کرنے کی وجہ سے ہماری شاعری اور خاص کر ہماری غزل، جوانی کے رگ پٹھوں اور ہڈی کی توانائی سے محروم رہی۔ ذرا ناسخ کو سنیے ؎

چلی تلوار دریا پر یہ تیرے آشناؤں میں

ہزاروں سر حباب آسا ہوئے نابود پانی میں

الاپا وہ پری طلعت سلیماں جو لب دریا

بجائے شور ہو گا نغمۂ داؤد پانی میں

اکیلے تم نہانے کو نہ اترو سن لو ناسخ کی

نہ غوطہ مار بیٹھا ہو کوئی مردود پانی میں

ان اشعار میں مضمون آفرینی اور رعایت و مناسبت کا جو وفور ہے، اس کو بیان کرنے کا موقع نہیں۔ آپ صرف یہ دیکھیں کہ پہلے شعر میں جو لطف ہے (یعنی دوسرے عاشقوں، یعنی رقیبوں، کے مرنے کا غم بالکل نہیں )وہ ایک طرف مومن کی یاد دلاتا ہے، ( لیکن مومن کے شعر میں اتنی تیزی اور طباعی نہیں جتنی ناسخ کے شعر میں ہے، ہاں یہ لطف ضرور ہے کہ عاشقوں کا قتل بڑی تماشے کی چیز ہے )، تودوسری طرف حافظ اور نسبتی تھانیسری کے جلوؤں کی چھوٹ سے ہمیں چکا چوندھ کرتا ہے ؎

کیا تم نے قتل جہاں اک نظر میں

کسی نے نہ دیکھا تماشا کسی کا

(مومن)

زلف نگار و توبۂ ما و سر رقیب

ایں ہر سہ را کہ نام شنیدی شکستہ بہ

(نسبتی)

یا وفا یا خبر وصل تو یا مرگ رقیب

بود آیا کہ فلک زیں دو سہ کارے بکند

(حافظ)

اگر (مقبول اور مروج تنقیدی رائے کے مطابق)یہ گمان کیا جائے کہ آتش تو ’’داخلیت‘‘ اور ’’سوزو گداز قلب‘‘ کے شاعر ہیں، لہٰذا آتش کے یہاں اس طرح کی ’’اٹھا پٹک‘‘ والے شعر نہ ہوں گے، تو آتش کی ایک غزل کے کچھ شعر ملاحظہ ہوں۔ بحر وہی ہے، ردیف وہی، قافیہ مگر بدلا ہوا ہے ؎

نہانے کو لگا جانے جو وہ محبوب دریا میں

ٍٍعریضوں کی جگہ بہنے لگے مکتوب دریا میں

مرے یوسف کو لہر آئی اگر اس میں نہانے کی

حباب ایک ایک ہو گا دیدۂ یعقوب دریا میں

لگا کر غوطہ بوسہ لوں گا اس طفل شناور کا

خدا سے گوہر مقصود ہے مطلوب دریا میں

تو جب پرانے ’’اساتذہ‘‘ اور ’’ثقہ‘‘ شاعر اس طرح کے شعر کہتے تھے تو ہمارے مظفر حنفی کی کیا خطا ہے اگر وہ بھی اس طرح کے شعر کہتے ہیں ؟ ملاحظہ ہو ؎

تھوڑا سا التفات میاں یار بادشاہ

دینے لگے ہیں زخم دھواں یار بادشاہ

لازم ہے دل میں تیر کے مانند آئیے

اب جسم ہو گیا ہے کماں یار بادشاہ

معلوم یہ ہوا کہ وہاں آپ ہیں مقیم

ہم نے کیا قیام جہاں یار بادشاہ

٭

برہمن سیخ پا ہو رہا ہے ادھر

اس طرف شیخ کا قافیہ تنگ ہے

باغباں کے بھروسے کی اچھی کہی

غالباً آپ کی عقل پر زنگ ہے

٭

حیراں نہ ہو فضول کہ کیا ہے پس غبار

کچھ بھی نہیں غبار کھڑا ہے پس غبار

شہ رگ اچھل رہی ہے چھٹی حس کے ساتھ ساتھ

دشمن کوئی ضرور چھپا ہے پس غبار

٭

پوچھیے تو رہرو دشت بلا کوئی نہیں

در حقیقت دور تک دامان صحرا سرخ ہے

آنکھ سے دامن تک آنے میں یہ حالت ہو گئی

خون کا قطرہ بھی آدھا زرد آدھا سرخ ہے

٭

کچھ لوگوں کو جھوٹی تعریفیں بھاتی ہیں مثلاً وہ

کچھ سچی تعریفیں سن کر شرماتے ہیں مثلاً میں

اکثر بے چاروں نے اتنے دھوکے کھائے دنیا میں

اب مخلص لوگوں سے مل کر گھبراتے ہیں مثلاً میں

٭

جھینپ رہی ہیں فرمائش پر

شرمیلی شرمیلی آنکھیں

ژرف نگاہی سے عاری ہیں

آہو کی تمثیلی آنکھیں

ان شعروں کے سامنے مصحفی کا یاد آ جانا لازمی ہے ؎

ہیں تری سحر سامری آنکھیں

نہ کریں کیوں کے کافری آنکھیں

زہر کھانے لگے ہیں کیا کیا لوگ

ہیں جو کیری سی بس ہری آنکھیں

مصحفی کتنی زیب دیتی ہیں

گورے چہرے پہ سانوری آنکھیں

یہ بات صحیح ہے کہ مصحفی کے یہاں آنکھوں کے حسن کا احساس بالکل زمینی، بصری اور لمسی سطح پر ہے۔ اسی لیے ان کے شعر ’’دل میں گھر کر جانے ‘‘کی صفت رکھتے ہیں۔ مظفر حنفی کو کسی کے دل میں گھر کرنے کا نہ ذوق ہے نہ فرصت، وہ تو سوچ سوچ کر اور عقل کا استعمال کر کے شعر کہتے ہیں۔ وہ طنز کہیں یا نہ کہیں، لیکن وہ خیال اور عقل کے شاعر پہلے ہیں، باقی سب بعد میں۔

یہ ضرور ہے کہ گئے زمانے کی ردیفیں اور تھیں، مضمون اور تھے، لیکن اصول وہی تھے جو آج مظفر حنفی نے اپنائے ہیں: بات کہنے میں منفعلی کا شائبہ نہیں، بہت سی باتیں صرف بات کی خاطر کہی جائیں گی، لیکن بات میں ندرت ہونا شرط ہو گا۔ مظفر حنفی مجھے معاف کریں تو میں یہ بھی کہہ دوں کہ ناسخ اور آتش کے اشعار میں فنی لوازم کا التزام زیادہ ہے۔ ان کا ہر شعر نک سک سے درست ہے۔ مظفر حنفی انھیں لوگوں کے معنوی شاگرد ہیں، لیکن ان کے یہاں کبھی کبھی بات کہنے کی ذرا جلدی معلوم ہوتی ہے۔

لہٰذا افسوس یہ ہے کہ غلط اصطلاحوں اور غلط تصورات کے چکر میں پڑ کر ہم نے غزل کی شاعری کی حقیقت کے بارے میں ایک بنیادی بات بھلا دی ہے۔ اور وہ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ لازمی نہیں کہ غزل کا شاعر انفعالی اور ’’پژمردہ‘‘ مزاج رکھتا ہو، ہر بات پر آنسو بہا تا ہو اور معشوق کی یاد میں صحرا و دریا کی خاک چھانتا پھرتا ہو۔ دوسرے الفاظ میں، غزل کے مضامین اور اسالیب وہ نہیں جن کا مذاق حالیؔ نے انتہائی بے دردی سے اڑایا تھا۔ غزل کا شاعر جارحانہ، تفکرانہ اور تحکمانہ مزاج کا حامل بھی ہو سکتا ہے۔ غزل کا شاعر صرف محرومی قسمت اور ناسازگاری زمانہ کی بات نہیں کرتا، وہ لوگوں سے جھگڑتا بھی ہے۔ (ہمارے یہاں سب سے بڑے جھگڑالو حضرت میر محمد تقی میر تھے۔ ) اور اگر وہ محرومی اور نارسائی وغیرہ مضامین اٹھاتا بھی ہے تو اپنے شعر میں انفعال کی جگہ برہمی، یا طنز، یا مبصرانہ اظہار رائے کو بیش از بیش بکار لاتا ہے۔

مضمون کی تلاش، اور نادر بات کہنے کا ذوق، خیال بندی کا ایک اہم پہلو ہے۔ اس کا دوسرا اہم پہلو، ظرافت، ٹھٹھول، عاقلانہ اظہار خیال، تفکر اور تجسس ہے۔ دونوں کی زندہ اور روشن مثالیں ناسخ اور آتش کے اوپر منقولہ مقطعوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ غزل میں ’’داخلیت‘‘ (خدا جانے یہ کیا شے ہے ؟)ہی ہو، تصوف اور ما بعد الطبیعیات ہی ہو۔ غزل میں دنیا داری اور پنچایتی رنگ بھی ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شاعر کو ندرت کی تلاش ہو، وہ نئے الفاظ اور مضامین کو ’’مضر‘‘ نہ سمجھے، ان سے پرہیز نہ کرے، بلکہ انھیں غزل کے مزاج کے موافق بنائے۔ ہمارے آخری بڑے خیال بند اصغر علی خان نسیم دہلوی کا شعر ہے ؎

مضمون کے بھی شعر اگر ہوں تو خوب ہیں

کچھ ہو نہیں گئی غزل عاشقانہ فرض

خیال بندی کا تیسرا اہم اصول یہ ہے کہ شاعر اگر نئی بات کہنا چاہے تو اس نکتے کو ملحوظ رکھ کر کہے کہ غزل کا ایک تسلسل ہے، ایک تاریخ ہے، اور کوئی بھی صنف اپنی تاریخ سے بیگانہ نہیں ہو سکتی۔ مظفر حنفی کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے شعر قدم قدم پر اردو فارسی کے کلاسیکی شعرا کی سر زمین سے اگے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر، مظفر حنفی کی ایک غزل کے کچھ شعر دیکھیے۔ یہ شعر میں نے کسی خاص تلاش اور فکر کے بغیر اٹھا لیے ہیں ؎

کہاں تو پاے سفر کو راہ حیات کم تھی

قدم بڑھایا تو سیر کو کائنات کم تھی

خیال صحراے ذات میں اس مقام پر تھا

جہاں کہ گنجائش فرار و نجات کم تھی

وہ فرد بخشش کہ جس کی تکمیل کی ہے میں نے

نگاہ ڈالی تو اس میں اپنی ہی ذات کم تھی

ترے کرم سے بڑا تھا کچھ اعتقاد مرا

اسی لیے مجھ کو فکر صوم و صلواۃ کم تھی

بہاؤ پانی کی بوند پر خون کا سمندر

نہیں تو اک قطرۂ لہو سے فرات کم تھی

فی الحال سخت ردیف اور مشکل قافیے کو الگ رکھ کر اشعار پر توجہ کرتے ہیں۔ مطلع سنتے ہی غالب کا شعر یاد آتا ہے ؎

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

غالب کے یہاں جو کائناتی وسعت ہے اور زمین و آسمان کو جس طرح یکجا کیا گیا ہے، وہ ان کی اپنی قوت ہے۔ اور وہ اس طرز کو ہمیشہ استعمال بھی نہ کر سکے۔ بعد میں اقبال نے کائنات، دنیا، زمین، آسمان، انسان، خدا اور شیطان کو اپنی دنیائے شعر کی مکمل گرفت اور وسیع حصار میں لے لیا۔ غالب کو اولیت ہے، لیکن تکمیل کا کام اقبال نے انجام دیا، اور وہ بھی اس شان سے، کہ ان کے بعد کسی کو جرأت نہ ہو سکی۔ قدیم سنسکرت شاعری میں ضرور اس طرح کا انداز ملتا ہے (اور ممکن ہے اقبال نے وہاں سے بھی استفادہ کیا ہو)کہ شاعر بے تکلف زمینی اور آسمانی مضامین و مناظر کو یکجا کر لیتا ہے۔ اقبال کی کوئی بھی نظم دیکھ لیں: ’’انسان اور بزم قدرت‘‘ ؛ ’’صبح‘‘ ؛ روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے ‘‘؛ ’’ابلیس کی عرضداشت‘‘ ؛ حتیٰ کہ ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ جیسی بظاہر رسمی نظموں کے صرف آخری بند دیکھ لیجیے، بات واضح ہو جائے گی۔

اقبال اور غالب کی اشرفیت کی با توں کے باوجود ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ مظفر حنفی کے مطلعے میں غالب اور اقبال دونوں کی تخلیقی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ پہلے مصرعے میں ’’راہ حیات‘‘ کا مضمون ہے، جس کے لیے پاے سفراٹھا یا تھا، لیکن چلنے کے پہلے ہی معلوم ہوا کہ سفر تو دور رہا، سیر کے لیے بھی وسعت بقدر ذوق نہیں۔ واضح رہے کہ ’’سیر‘‘ کے ایک معنی ’’چلنا‘‘، یا ’’سفر‘‘ ہیں تو دوسرے معنی ہیں ’’تفریح کی غرض سے کہیں جانا، یا تفریح کی غرض سے کچھ دیکھنا یا کسی نئی جگہ کا نظارہ کرنا۔ ‘‘میر نے کمال خوبی سے دونوں معنی یکجا کر دئیے ہیں ؎

ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں

نکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا

معنی کے اسی امکان سے فائدہ اٹھا کر میر نے ایک جگہ دونوں الفاظ کو یکجا کر کے بالکل نئی بات پیدا کی ہے ؎

دیر و حرم سے گذرے اب دل ہے گھر ہمارا

ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا

مظفر حنفی کے شعر میں بھی یہی بات ہے کہ ’’سفر‘‘ سے شاعر کا ذہن اور ہمارا ذہن ’’سیر ‘‘کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ زندگی اگر ایک سفر ہے جو بہت مختصر معلوم ہوتا ہے، خواہ راہ حیات کتنی ہی طویل ہو، تو کائنات تقاضا کرتی ہے کہ ہم اس کی سیر کریں، اس کے اسرار و علائم کو سمجھیں، اس کے نت نئے نظاروں کو دیکھیں۔ لیکن اگر اپنی طوالت کے باوجود راہ حیات کم لگتی تھی تو سیر و سفر کے لیے بھی جگہ تنگ تھی۔ بجا، کہ میر، اور ایک حد تک غالب نے اپنے شعروں میں معنی کے جو امکانات بھر دئیے ہیں، مظفر حنفی کے شعر میں انھیں ڈھونڈنا بے سود ہو گا۔ لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ یہ مطلع وہیں سے اگا اور بالیدہ ہوا ہے جہاں میر، غالب اور اقبال نے اپنی بیخ افگنی کی تھی۔

دوسرے شعر میں ’’فرا رو نجات‘‘ نے معنی کی ایک اور جہت پیدا کر دی ہے، ورنہ غالب کا شعر یاد آنا لازمی تھا ؎

شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں

جادہ غیر از نگہ دیدۂ تصویر نہیں

’’نگہ دیدۂ تصویر‘‘ کا پیکر اور استعارہ ناسخ کا فیض معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ناسخ نے ’’شمع تصویر‘‘ کی بے نوری کی بات بہت پہلے کہہ دی تھی ؎

ایک کو عالم حسرت میں نہیں ایک سے کام

شمع تصویر سے روشن شب تصویر نہیں

لیکن شمع سے شمع یوں ہی جلتی ہے۔ مظفر حنفی کے یہاں ذات کا صحرا پھیلا ہوا ہے، غالب کے یہاں کوئی شوق بے پایاں ہے جو متکلم کو دوڑائے لیے جاتا ہے۔ غالب کو پھر سنیے ؎

مدعا محو تماشائے شکست دل ہے

آئینہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے

مظفر حنفی کے شعر کو غالب کے اشعار پر بلیغ اظہار خیال کہنا چاہیئے۔ فرینک کرموڈ (Frank Kermode) نے کیا عمدہ بات کہی ہے کہ کسی نظم (یعنی شعر) پر بہترین اظہار خیال یا شرح (Commentary) کوئی دوسری نظم ہی ہو سکتی ہے۔ اب مظفر حنفی کے اگلے شعر پر غور کریں ؎

وہ فرد بخشش کہ جس کی تکمیل کی ہے میں نے

نگاہ ڈالی تو اس میں اپنی ہی ذات کم تھی

میں مجاز کو بہت اچھا شاعر نہیں سمجھتا لیکن آخری زمانے میں انھوں نے ایک دو غزلیں ضرور ایسی کہیں جن میں نئی جان تھی، ترقی پسندوں کا فارمولا نہ تھا۔ ان کا یہ شعر سنیے ؎

سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے

سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے

انسانی سعی کے رائیگاں جانے، یا انسانی سعی کتنی اور کیسی ہی انتھک اوربسیط ہو، خود فاعل اس سے مطمئن نہیں ہوتا۔ غالب نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ ’’قلندری و آزادگی و ایثار و کرم کے جو وداعی خالق نے مجھ میں بھر دئیے تھے بقدر ہزار ایک ظہور میں نہ آئے۔ ‘‘مجاز کے شعر میں رومانی المیہ ہے اور مظفر حنفی کے شعر میں مفکر یا مصلح کا المیہ جو افلاطونی کاوشوں کی یاد دلاتا ہے۔ اگلے شعر میں با خدا دیوانہ باش کا رنگ نظر آتا ہے۔ تیرا کرم بے پایاں ہے، لیکن تجھ پر میرا اعتقاد اس سے بھی زیادہ تھا۔ یہ تو کچھ خدا کی ہستی کے بارے میں عجب طرح کی تشکیک کا مظاہرہ ہے، یا پھر اقبال کی طرح خدا کو چنوتی دینے کی بات معلوم ہوتی ہے ؎

تو شب آفریدی چراغ آفریدم

سفال آفریدی ایاغ آفریدم

بیابان و کہسار و راغ آفریدی

خیابان و گلزار و باغ آفریدم

لیکن انسان کی خلاقانہ قوت در حقیقت کھوکھلی ہے، کیونکہ اگر شب نہ ہوتی تو چراغ کہاں سے آتا؟ اللہ مسبب الاسباب ہے اور انسان عالم اسباب میں اسیر۔ مظفر حنفی کو احساس ضرور ہو گا کہ ذات کی طرح صفات بھی بے پایاں ہیں، پھر بھی وہ خدا کے سامنے اکڑنے سے باز نہیں آتے۔ اور یہ اکڑ یگانہ کی سی اکڑ نہیں ہے کہ اللہ کے مقرر کئے ہوئے نظام پر طنز کی (ناکام ) کوشش کریں ؎

پچھلا پہر ہے کاتب اعمال ہوشیار

آمادۂ گناہ کوئی جاگتا نہ ہو

اول تو گناہ کرنے کے لیے پچھلے پہر کی کیا قید، گناہ تو ہر وقت ہو سکتا ہے اور ہوتا ہی ہے۔ اس پر ظلم یہ کہ یگانہ کو اللہ تعالیٰ کے اس کرم و لطف کا خیال ہی نہیں کہ انسان جب کسی نیک کام کا ارادہ کرتا ہے تو وہ نیکی اس کے حساب میں لکھ دی جاتی ہے۔ لیکن جب وہ کسی گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو جب تک وہ گناہ اس سے سرزد نہیں ہوتا، اس کے نامۂ اعمال میں درج نہیں ہوتا۔ پھر کراماً کاتبین کے بارے میں تو اللہ نے قرآن میں خود ہی کہہ دیا ہے کہ وہ ہمیشہ مستعد اور مہیا رہتے ہیں، پھر انھیں ہوشیار رہنے کی تلقین فضول محض ہے۔

یگانہ صاحب کی اکڑ بے معنی بھی ہے اور شعری اصول کے حساب سے بھی غلط ہے۔ دیکھیے کچھ مظفر حنفی جیسی بات امیر مینائی کیا لطف سے کہہ گئے ہیں ؎

بندہ نوازیوں پہ خدائے کریم تھا

کرتا نہ میں گنہ تو گناہ عظیم تھا

امیر مینائی کے یہاں صوفیانہ انداز ہے، زاہدانہ نہیں۔ مظفر حنفی کے یہاں ایک مفکرانہ موقف ہے جس میں خدائے تعالیٰ کی لا متناہی بے کراں رحمت پر ایک طرح سے سوالیہ نشان لگایا گیا ہے۔

نہر فرات کے ساحل پر امام عالی مقام کی تشنہ لبی پر بے شمار شعر کہے گئے ہیں۔ لیکن کم ہی ایسا ہوتا ہے جب اس مضمون کو بیان کرتے وقت متکلم کا غم اور اس کی برہمی دونوں ایک شعر میں یکجا ہو جائیں۔ مظفر حنفی کہتے ہیں ؎

بہاؤ پانی کی بوند پر خون کا سمندر

نہیں تو اک قطرۂ لہو سے فرات کم تھی

’’قطرۂ لہو‘‘ کی تازگی لائق داد ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ مضمون ہے کہ امام کے لہو کا ایک قطرہ پورے دریائے فرات سے زیادہ قیمت اور توقیر کا حامل تھا۔ دنیا کے بادشاہوں کو طاقت اور علاقے کی ہوس دبائے اور دوڑائے چلی جاتی ہے۔ وہ کسی کو ایک بوند پانی اپنے پاس سے نہ دیں گے اور ایک بوند پانی کو روکے رہنے کی خاطر خون کے سمندر بہا دیں گے۔ پانی کی بوند اور خون کی بوند کا تقابل نہایت نہایت برجستہ اور استعاراتی امکانات سے بھرا ہوا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جب راجہ رام نرائن موزوں کو انگریزوں نے گنگا میں غرق کیے جانے کی تعزیر دی تو ہنگام غرقابی ان کے لبوں پر یہ شعر تھا ؎

محروم رفت بے تو لب تشنۂ حسین

اے آب خاک شو کہ ترا آبرو نہ ماند

فارسی کا شعر شور انگیز ہے اور اس میں رعایتیں ان رعایتوں سے بھی لذیذ ہیں جو ہم نے ناسخ اور آتش کے شعروں میں دیکھیں۔ فارسی کاشعر دل پر اثر کرتا ہے لیکن ہمیں غور و فکر پر آمادہ نہیں کرتا۔ مظفر حنفی اسی مضمون کو مفکرانہ اور شکوہ سنجی کے انداز میں کہتے ہیں اور مضمون کا پورا حق بھی ادا کر دیتے ہیں۔

سنہ ۱۹۶۷ میں قاسمی صاحب مرحوم کی فرمائش پر میں نے ’’فنون‘‘ کے جدید غزل نمبر کے لیے ’’ہندوستان میں نئی غزل‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا تھا۔ میں نے مظفر حنفی کے بارے میں اس مضمون میں لکھا تھا کہ انھوں نے جدیدیت کو شعوری اقبال و ایجاب کے طور پر اپنایا ہے۔ لہٰذا ان کے یہاں نثریت سے لے کر غیر معمولی شگفتگی تک ہر طرح کا انداز مل جاتا ہے۔ معلوم نہیں مظفر حنفی کو اس خیال سے اتفاق تھا کہ نہیں۔ شاید نہ رہا ہو گا، کیونکہ جدید غزل گویوں میں مظفر حنفی کے جن ہم عصروں نے خیال بندی اور مضمون آفرینی کو بیش از بیش اختیار کیا (بانی، بمل کرشن اشک، زیب غوری، کرشن کمار طور)انھیں پیکر تراشی سے بہت دلچسپی تھی اور بمل کرشن اشک کے سواکسی کو طنز سے لگاؤ کچھ زیادہ نہ تھا۔ اشک کے یہاں بھی طنزیہ جہت ان کی غزلوں سے زیادہ نظموں میں ہے۔ لیکن یہ سب شاعر کسی نہ کسی طور پر عشق کی پیچیدگیوں اور نارسائیوں اور اسرار سے بھی علاقہ رکھتے تھے۔ مظفر حنفی کو عشق کے مسائل یا معاملات سے دلچسپی بہت کم ہے۔ میر نے عشق کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا ہے، اور ہر پہلو کو انھوں نے جس خوبصورتی اور معنویت کے ساتھ نظم کیا ہے، وہ صرف اور صرف انھیں کا حصہ ہے۔ اس کے باوجود میر بھی شکوہ کرتے ہیں کہ دنیا اور خود شعر گوئی کے لوازم عشق کے حالات کے محرم ہونے کا درجہ نہیں رکھتے ؎

نہ کچھ کاغذ میں تہ ہے نے قلم کو درد نالوں کا

لکھوں کیا عشق کے حالات نامحرم ہیں یہ دونوں

مظفر حنفی کا بھی معاملہ کچھ ایسا ہے کہ وہ دل کی بات زبان پر لانے سے کتراتے ہیں (شاید ڈرتے ہیں ؟)یہ کہنا کافی نہیں کہ طنز کا پنجہ ان پر اتنا حاوی ہے کہ وہ عشق کی سر خوشی، یا عشق کی شکست و ریخت کی منزل تک پہنچتے ہی نہیں۔ عشق کے حالات طنزیہ رنگ میں بھی بیان ہو سکتے ہیں، خصوصاً ً ً جب شاعر خود پر طنز کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔ عرفی کا یہ غیر معمولی شعر دیکھیے۔ خود پر بھی طنز ہے اور معشوق پر بھی طنز ہے ؎

عرفی قریب نزع رسیدی و بہ شدی

شرمت نیامد از دل امیدوار دوست

لیکن ہر شخص عرفی یا غالب نہیں ہو سکتا۔ مظفر حنفی کے دو شعر میں نے اپنے محولہ بالا مضمون ’’ہندوستان میں نئی غزل‘‘ میں نقل کیے ہیں۔ ان میں دوسرا شعر یہ تھا ؎

سچ مچ وہ تغافل سے کنارہ ہی نہ کر لے

میں سوچنے بیٹھا تو پسینہ نکل آیا

یہ عشقیہ شعر ہے، اور غالب کی یاد دلاتا ہے ؎

جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امید بھی ہو

یہ نگاہ غلط انداز تو سم ہے ہم کو

غالب کا شعر خیال بندی میں عشقیہ شاعری کی اچھی مثال ہے۔ رعایتیں اس پر مستزاد ہیں۔ لیکن مظفر حنفی نے ایک بالکل نئی بات نکالی ہے۔ اس میں پورا وقوعہ نظم ہو گیا ہے۔ غالب کا متکلم تو شاکی ہے کہ تم تغافل اور تجاہل عارفانہ سے بھی کام نہیں لیتے۔ نظر انداز کر کے نکل جاتے ہو۔ تو بھلا مجھے کیا امید ہو سکتی ہے کہ تم میرے وجود سے واقف بھی ہو، میری محبت کا اعتراف تو دور کی بات ہے۔ جگر صاحب کا شعر ہے، اگرچہ کمزور شعر ہے، لیکن تجاہل اور تغافل کی یکجائی کے باعث یاد آ گیا ؎

تجاہل تغافل تبسم تکلم

یہاں تک وہ پہنچے ہیں مجبور ہو کر

جگر صاحب کا دوسرا مصرع بالکل فضول ہے، لیکن تجاہل اور تغافل کے معاملات میں جو امکانات ہیں ان کا ذکر خوب ہے، اگرچہ غالب سے مستفاد ہے۔ مظفر حنفی کی دنیا ہی نرالی ہے۔ معشوق کی طرف سے کبھی کبھی اشارہ ملتا تھا کہ میرا تغافل در اصل ایک ادائے ناز ہے۔ اب کسی باعث وہ اشارے نہیں مل رہے ہیں۔ یا ہو سکتا ہے متکلم نے کبھی جھلا کر معشوق سے کہہ دیا ہو کہ جان کر کیجے تغافل، لیکن اس کا اثر شاید کچھ الٹا پڑا ہے اور اب آثار ہیں کہ وہ تغافل بھی ترک کر دے گا۔ اب جب یہ امکان متکلم پر روشن ہوا ہے تو اس کا تاثر انتہائی غیر معمولی ہے۔ اسے پسینہ آ جاتا ہے، جو انتہائی گھبراہٹ اور شاید خوف کی بھی علامت ہے۔ شعر کی برجستگی اور اپنی حماقت پر متکلم کی تشویش قابل داد ہیں۔ اسی غزل کا ایک اور شعر مجھے یاد ہے، مگر افسوس کہ وہ شعر مجھے کلیات میں نہیں ملا ؎

پھر کوہکنی ڈھال رہی ہے نئے تیشے

پھر فخر سے چٹان کا سینہ نکل آیا

یہ مضمون مجھے تو کہیں نہیں ملا، نہ فارسی میں نہ اردو میں۔ اور اس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔ فنکار کا وسیلۂ فن (موقلم، کاغذ، رنگ، قلم،روشنائی، چھینی، کنی، بربط، ستار وغیرہ) فنکار پر ناز کرے، یہ بات تو پھر بھی سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن یہاں تو وہ چٹان جسے تراش کر دودھ کی نہر نکالی جائے گی، یا کوئی شبیہ بنائی جائے گی، وہ ناز کر رہی ہے کہ اب میرے امکانات ظاہر ہونے والے ہیں۔ اور اس احساس کو ظاہر کرنے کے لیے شاعر نے چٹان کے سینے کو فخر سے ابھرتا ہوا بتا یا ہے۔ غالب کے یہاں دو شعر ہیں جن میں فن اور فنکار، اور فنکار کے وسیلۂ فن کی بات ہے ؎

دیدہ ور آں کہ تا نہد دل بہ شمار دلبری

در دل سنگ بنگرد رقص بتان آزری

اور دوسرا شعر خاص شاعرانہ تعلی کا ہے ؎

ما نبودیم بدیں مرتبہ راضی غالب

شعر خود خواہش آں کرد کہ گردد فن ما

مظفر حنفی کا کمال یہ ہے کہ ان کے یہاں دونوں اشعار کی جھلک ہے لیکن ان کا مضمون بالکل ان کا اپنا ہے۔ اس پر مستزادمصرع ثانی کا پیکر ہے، تمام تصویروں اور تمام تقریروں سے بڑھ کر، کہ مصرع پڑھ کر جھر جھری آ جاتی ہے، ع

پھر فخر سے چٹان کا سینہ نکل آیا

مظفر حنفی کی ایک اور غزل کے چند شعر یاد آ گئے، انھیں کوئی تجزیہ کیے بغیر بس نقل کر دیتا ہوں۔ بس یہ کہوں گا کہ ردیف کی ندرت اور اس کا نبھاؤ ہر طرح غیر معمولی ہیں۔ مضمون میں حسب معمول شوخی ہے ؎

ہمارے عہد میں جنت پہ طنز کرنا ہو

تو کاشمیر کو فردوس بر زمیں کہنا

ہمارے پاؤں تلے سے کھسک رہی ہے زمیں

ابھی زمیں کو ہمیں آسماں نہیں کہنا

ہزار ہاتھ بڑھیں جس طرف وہ دامن ہے

کسی کے خون میں تر ہو تو آستیں کہنا

مظفر حنفی کو اپنی قادر الکلامی کا جتنا احساس ہے، اتنا ہی شاید اس بات کا بھی ہے کہ اب تک ان کے شعر کی قدر کما ینبغی نہیں ہوئی ہے۔ میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ان کے اس مقطعے کا دوسرا مصرع ان کے حسب حال نہیں، لیکن مصرع اولیٰ بے شک ہے۔ اور مصرع اولیٰ کا کنایہ اس قدر لطیف ہے کوڑھ مغز ’’استادوں ‘‘ کی رسائی اس کے معنی تک نہ ہو سکے تو عجب نہیں ؎

آج مظفر حنفی کا ہر شعر بباطن مقطع ہے

استادوں نے تو اس کو ناکارہ سمجھا لیکن وہ

الٰہ آباد، ۲۷؍ دسمبر ۲۰۱۲                                                 —شمس الرحمٰن فاروقی

٭٭٭

 

 

 

یہ کلیات

 

زمانے کے اعتبار سے اپنی شاعری کا قصہ کوئی نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے لیکن ۱۹۶۰ء تک بنیادی وفاداری فکشن کے ساتھ رہی۔ اس زمانے میں زیادہ تر افسانے لکھے اور انگریزی سے کچھ ناول اردو میں منتقل کیے البتہ تخلیق کے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے گاہے بہ گاہے شعر بھی ہوتے رہے اور بچوں کے لیے نظمیں بھی کہتا رہا۔ پھر ۱۹۶۰ء کے آس پاس ادب میں جدیدیت کی رو آئی اور بتدریج یہ رجحان زور پکڑتا گیا۔ روشِ عام سے ہٹ کر لکھنے اور کہنے کی طرف طبیعت ابتداء ہی سے مائل تھی اس لیے میں نے جدیدیت کو اجنبی نہیں سمجھا البتہ تخلیقی حس نے یہ نکتہ ضرور سُجھایا کہ جدیدیت میں جس علامت پسندی، تجریدیت اور اشاریت پر زور ہے اس کے جوہر شاعری میں بخوبی کھل سکتے ہیں، فکشن میں ان کا استعمال کہانی پن کے لیے مضرت رساں ہو گا چنانچہ اب میں نے افسانہ نگاری سے توجہ ہٹا لی اور شاعری کا دامن تھام لیا۔ اسی دوران شادؔ عارفی سے مشورۂ سخن کا سلسلہ شروع ہوا جن کو نئی شاعری کے پیش رَو کی حیثیت حاصل ہے۔ شادؔ کے اثرات میری شاعری کے ابتدائی برسوں میں واضح نظر آتے ہیں۔ میرے ہاں طنزیہ اسلوب، سماجی مقصدیت اور لہجے کی انفرادیت جیسے عناصر اسی راہ سےآئے ہیں۔ ہر چند کہ میں کل چودہ مہینے (دسمبر ۱۹۶۲ء تا جنوری ۱۹۶۴ء) تک ہی موصوف سے بذریعہ مراسلت استفادہ کر سکا لیکن ان سے مزاجی مناسبت اتنی گہری تھی کہ فطری طور پر میرے دو اولین مجموعہ ہائے کلام، تیکھی غزلیں (ناشر: مرکز ادب، بھوپال) اور ’صریر خامہ‘ (ناشر پی کے پبلی کیشنز، دہلی) اور طویل نظم ’عکس ریز‘ میں ناقدین ادب کو شاد عارفی کے رنگ و آہنگ کا بھرپور عکس نظر آیا لیکن یہ مجموعے اشاعتی اداروں نے بعد میں (بالترتیب ۱۹۶۸ء اور ۱۹۷۳ء) شائع کیے۔ تاریخی اعتبار سے میرا سب سے پہلے مطبوعہ شکل میں منظر عام پر آنے والا منظومات کا مجموعہ ’پانی کی زبان‘ ہے جس میں اکہتر غزلیں اور بہتّر نظمیں شامل تھیں۔ اسے ۱۹۶۷ء میں شب خون (الٰہ آباد) نے اپنے اشاعت گھر سے شائع کیا تھا۔ ’پانی کی زبان‘ اور قاضی سلیم کی نظموں کا مجموعہ ’نجات سے پہلے ‘ ہندوستان میں شائع ہونے والے جدید شاعری کے اولین صحیفے ہیں۔ ۱۹۶۸ء میں ہی اس عہد کے دوسرے اہم جریدے ’کتاب‘ (لکھنؤ) نے اپنے اشاعتی ادارے سے میری طویل نظم ’عکس ریز‘ کتابی صورت میں شائع کی۔ یہی وہ زمانہ ہے جب اس وقت کے ابھرتے ہوئے نقاد شمس الرحمن فاروقی نے مجھے لکھا تھا کہ آپ ہند و پاک میں اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ شائع ہونے والے شاعر ہیں۔ ۱۹۶۹ء میں ہی شب خون کتاب گھر (الٰہ آباد) نے میرا مجموعہ کلام، ’طلسم حرف‘ بغرض اشاعت طلب کیا۔ اس میں ایک سو اٹھانوے غزلیں، پینتیس نظمیں اور تینتیس رباعیات شامل ہیں۔ بعض پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ کتاب غیر معمولی تاخیر سے کہیں ۱۹۸۰ء میں منظر عام پر آئی۔ ظاہر ہے اس کا منفی اثر تخلیق کار کو جھیلنا پڑا۔

اس کے بعد زیورِ طبع سے آراستہ ہونے والے میرے شعری مجموعوں کی صورتِ حال درج ذیل ہے:

(۱)                        ۱۹۷۴ء میں نیشنل اکادمی، دہلی نے ’’دیپک راگ‘‘ شائع کیا۔ اس میں پچانوے غزلیں اور بائیس رباعیاں شامل ہیں۔

(۲)                        ۱۹۷۹ء میں ’یم بہ یم‘ کی اشاعت عمل میں آئی جس میں بہتّر غزلیات کو جگہ ملی تھی یہ انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی کے وسیلے سے منظر عام پر آیا تھا۔

(۳)                        اگلا مجموعہ ’کھل جا سِم سِم‘ ۱۹۸۱ء میں مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی نے چھاپا۔ اس کتاب میں بانوے غزلیں شامل ہیں۔

(۴)                        ’پردہ سخن کا‘ بھی مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی کی وساطت سے ہی ۱۹۸۶ء میں منصہ شہود پر آیا۔ یہ مجموعہ میری ایک سو ایک غزلوں پر مشتمل ہے۔

(۵)                        ۱۹۹۶ء میں موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے نیا مجموعہ ’یا اخی‘ شائع کیا جس میں ایک سو پچاسی غزلیں چھپی تھیں۔

(۶)                        بعد از آں دو سو بیس غزلوں کا مجموعہ ’ہاتھ اوپر کیے ‘ بھی موڈرن پبلشنگ ہاؤس (دہلی) ہی نے شائع کیا۔

(۷)                        ۲۰۰۴ء میں مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی نے میری غزلوں، نظموں اور رباعیوں کا مجموعہ ’آگ مصروف ہے ‘ شائع کیا جس میں انسٹھ (۵۹) نئی غزلیں شریک ہیں۔

(۸)                        بچوں کے لیے نظمیں میں ۱۹۴۹ء سے تا حال مسلسل لکھتا رہا ہوں جن کا مجموعہ ’’کھیل کھیل میں ‘‘ ۲۰۰۵ء میں چھپا تھا۔ یہ نواسی نظموں پر مشتمل ہے۔

(۹)                        ان کے علاوہ تقریباً ساٹھ غزلیں اور بیس نظمیں غیر مطبوعہ ہیں۔

 

جی چاہتا تھا تمام شعری سرمایہ یکمشت کلیات کی شکل میں چھپ کر منظر عام پر آ جائے تاکہ نئی نسل کو بھی میری تخلیقی تگاپو کا اندازہ ہو سکے۔ کلّیات جلد اوّل کی اشاعت اسی خواہش کی عملی شکل ہے جو میرے بیٹے نے مرتب کی ہے۔ فیروز نے میرے ابتدائی پانچ مطبوعہ مجموعہ ہائے کلام جن میں ابتداء سے لے کر ۱۹۷۱ء تک کی تخلیقات اور ادبِ اطفال سے متعلق نگارشات شامل ہیں۔ کلیات کی جلد اوّل میں یکجا کر دی ہیں۔ ان کے علاوہ رسائل اور بیاضوں سے تلاش کر کے وہ منظومات بھی غیر مطبوعہ متفرقات کے عنوان سے کلیات میں شامل کر دی گئی ہیں جو محولہ بالا مجموعوں میں شامل نہیں تھیں۔ ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ میں برادر محترم شمس الرحمن فاروقی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے اپنی علالت کے باوجود اس کا دیباچہ قلم بند کیا اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان بھی شکریے کی مستحق ہے جس کے تعاون کے بغیر ایسی ضخیم کتابوں کی اشاعت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

انشاء اللہ کلیات کی جلد دوم بھی جلد ہی منظر عام پر آ جائے گی۔

—مظفر حنفی

31؍ دسمبر 2012ء                    (سابق پروفیسر اقبال چیئر کلکتہ یونیورسٹی)

D-40، بٹلہ ہاؤس، جامعہ نگر

نئی دہلی-25

فون: 26987470

موبائل: 0 991106720

٭٭٭

 

نوٹ: مظفر حنفی کی کلیات ‘کمان‘ میں

 

 

 

 

 

طوفان سا اک دست ہنر میں سمٹ آیا

 

۱۹۶۵ء کو گزرے یوں تو تقریباً آدھی صدی کا لمبا عرصہ ہونے کو آیا، مگر مظفر صاحب ذرا بھی نہیں بدلے۔ ان سے پہلی ملاقات تو ۱۹۷۶ء میں ہوئی مگر جان پہچان کا سلسلہ اس سے گیارہ برس پہلے شروع ہو چکا تھا۔ وہ سیہور (مدھیہ پردیش) میں رہتے تھے اور میں نے اندور کو اپنا ٹھکانا بنا لیا تھا۔ وہاں پہنچنے کے کچھ ہی دنوں بعد ایک روز مظفر صاحب کا خط ملا۔ اس علاقے میں عمیق حنفی کے بعد وہ دوسرے ادیب تھے جن کا نام اور کلام سرحد کے دونوں طرف چھپتا رہتا تھا۔ عمیق صاحب کے ساتھ تو خیر روز کی ملاقات ایک معمول بن گئی کیونکہ وہ بھی اندور میں تھے اور ان کا قیام ہمارے گھر سے کوئی پندرہ منٹ کے فاصلے پر ریڈیو کالونی میں تھا، مگر اندور سے سیہور کے فاصلے کو پار کرنے میں دس گیارہ سال گزر گئے۔

۱۹۷۶ء میں ہم دونوں دلّی آن بسے۔ شعبہ ایک، علاقہ اور ادارہ ایک، روز مرہ مصروفیتیں بھی ایک جیسی۔ لیکن پچھلے لگ بھگ چالیس برسوں سے، مظفر صاحب کی زندگی کے چلن اور انداز و اطوار میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی۔ میں نے اپنے کسی شاعر دوست کو اتنا منظم، اپنے مشاغل کا اتنا پابند، اتنا مربوط اور سلیقہ مند نہیں دیکھا۔ بظاہر ان میں شاعروں جیسی کوئی بات، کوئی بے قاعدگی نہیں۔ وہ ایک انتہائی ذمہ دار انسان کی زندگی گزارتے آئے ہیں اور اس روش میں کبھی فرق نہیں آیا۔ شاید اسی لیے دنیوی کامرانیوں کی حصولیابی کے ساتھ ساتھ، نثر و نظم کے میدان میں مظفر صاحب نے جتنا کچھ کر ڈالا ہے، کئی لوگ مل کر بھی نہیں کر سکتے۔ ان کی طبیعت میں ریاضت کے علاوہ باقاعدگی کا وہ عنصر بھی بہت نمایاں ہے جسے میرا جی نے ادیب یا لکھاری ہونے کے بنیادی شرط قرار دیا تھا، یعنی ایسا شخص جس کے لیے ’’لکھنا‘‘ روز مرہ زندگی کا معمول بن چکا ہو۔

مظفر صاحب نے نثر اور نظم کی بہت سی صنفوں میں ایک ساتھ اپنے اظہار کی راہ نکالی ہے۔ تحقیق، تنقید، کالم نویسی، جائزے، تبصرے، فکشن، ترجمہ، مگر ان کی شناخت کا ذریعہ، بہر حال ان کی شاعری کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں اس واقعے کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ مظفر صاحب نے اپنی شاعری کی ترکیب میں ان اجزاء سے بھی برابر کا کام لیا ہے جو بالعموم نثر سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ وہ نثر کی تعمیر کرنے والے بہ ظاہر ’’کاروباری‘‘ یا عملی (Functional) عناصر کو اپنی شاعری سے کبھی خارج نہیں کرتے۔ یوں بھی طنز، حاشیہ آرائی اور کسی انسانی تجربے یا صورت حال کی عقلی اور منطقی تعبیر اور تعیین قدر کے عمل میں طرزِ احساس اور تفکر کا نثری انداز کسی نہ کسی مرحلے میں خود بہ خود شامل ہو ہی جاتا ہے۔ اور مظفر صاحب کی شاعری اپنی نوعیت اور سرشت کے اعتبار سے صرف حسّی اور اعصابی تجربے کی شاعری نہیں ہے۔ اس کا مجموعی سیاق مظفر صاحب کے تہذیبی، معاشرتی اور اجتماعی تصورات کے واسطے سے مرتب ہوتا ہے۔ ان کے حصے میں اپنے ماحول کی نگہبانی کا فریضہ بھی آیا ہے۔

در اصل اس رویے نے مظفر صاحب کی شاعری میں معاصر زندگی، ماحول، واردات اور ذہنی و جذباتی کیفیتوں سے مناسبت پیدا کی ہے۔ مزاجاً وہ کلاسیکی مذاق رکھنے والے ہیں اور اپنے پیشے کی ضرورتوں (معلمی کے منصب) سے قطع نظر، اپنی تربیت اور طبیعت کے اعتبار سے بھی، ادب کی کلاسیکی روایت، پرانے اور آزمودہ اسالیب سے ان کا شغف بہت نمایاں ہے۔ کلاسیکی شاعری کے مانوس رنگوں، لہجوں اور لسانی مضمرات کی آگہی کی سطح ان کے یہاں اتنی ہی نمایاں ہے جتنی کہ خلیل الرحمن اعظمی، حسن نعیم، ظفر اقبال اور عرفان صدیقی جیسے شاعروں کے کلام میں۔ لیکن جو بات انہیں اپنے عہد کے دوسرے ’نو کلاسیکی‘ شاعروں سے الگ کرتی ہے، وہ سماجی برہمی، طنز اور تناؤ کی نوکیلی کیفیتیں ہیں۔ یہی کیفیتیں یگانہ اور شاد عارفی کے تشخص اور ان کے اپنے ماحول میں ان کے روایتی معاصرین، اصغر، فانی، حسرت، جگر اور فراق سے ان کے اختلاف اور امتیاز کا سبب بنیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی بہت اہم ہے کہ یگانہ اور شاد عارفی کی حسیت کے اسی پہلو نے انہیں اپنے بعد کے دور، اور ایک بدلتی ہوئی حسیت کے ترجمان کہے جانے والے شاعروں کے لیے، اپنے روایتی ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ قابل قبول بنایا۔ یگانہ اور شاد عارفی کا دھار دار، کھردرا اور کھرا اسلوب روایتی اور قدیم شعریات سے زیادہ مطابقت اور مناسبت، اس شعریات سے رکھتا ہے جو ایک نئے اجتماعی کلچر کی تہہ سے نمودار ہو رہی تھی۔ یہ شعریات ہمارے احساسات کو تھپکیاں دینے کے بجائے ان میں ایک پہچان، تناؤ اور بے اطمینانی کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ یگانہ اور شاد کی شاعری کا اسلوب اور اس کا فکری، جذباتی مزاج اردو کی غزلیہ شاعری کے مرکزی دھارے سے مختلف، کہیں کہیں تو متضاد بھی تھا۔ ایک حد تک اس کے نامانوس اور پریشان کرنے والے اسلوب کی وجہ سے اسے قبول کرنے میں بہتوں کو دشواری ہوتی تھی اور کسی نئی غذا یا نئے تجربے کی طرح شعر کا رسمی اور روایتی ذوق رکھنے والا خود کو تیار کیے بغیر اسے اختیار کرنے سے گھبراتا تھا۔ یہ دونوں کافی عرصے تک اردو شاعری کے عام ماحول میں ایک اجنبی کے طور پر دیکھے جاتے رہے۔ ان کے اسلوب میں ایک بے ارادہ نثریت اور ایک طرح کی انفرادی منطقیت کا عمل داخل بھی نظر آتا تھا جسے شعر میں برتنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہ تھی۔ پیرایۂ اظہار کے لحاظ سے یہاں مضامین، تصورات اور لفظوں کے ساتھ ساتھ لہجے کو بھی ایک خاص حیثیت حاصل تھی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس شاعری کا پورا مزاج ہی اس کے لہجے اور آہنگ سے متعین ہوتا تھا۔

مظفر صاحب نے یگانہ اور شاد سے قطع نظر اردو کی شعری روایت کے مرکزی دھارے اور مانوس اظہار و اسلوب سے وابستہ شاعروں کا کلام بھی بہت توجہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ان میں بیرونی عناصر کو جذب کرنے اور آزمودہ اسالیب سے اخذ اور استفادہ کرنے کی صلاحیت بھی غیر معمولی ہے۔ ان کی شاعری میں تیکھی غزلوں سے لے کر آج تک کی شاعری کا انداز و اسلوب اسی لیے، پڑھنے والے کے لیے کسی اَن ہونے واقعے کی صورت رونما نہیں ہوتا۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے فطری تخلیقی اعتماد کے ساتھ اپنے پیش روؤں کے قائم کردہ معیاروں اور ان کی پسندیدہ تخلیقی قدروں کو، بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے۔ اپنے راستے کا انتخاب اور تعین اپنی آمادگی اور رضا مندی کے بعد کیا ہے۔ کسی رنگ کو محض جبراً یا زمانے کے رنگ میں رنگ ملانے کی کمزور عادت کے تحت اختیار نہیں کیا ہے۔ مظفر صاحب کی لفظیات سے زیادہ زبان و بیان کے عام مذاق کی طرف ان کے انتخابی رویے نے، ان کے انفرادی مزاج اور مذاق کی تربیت کی ہے اور یہ طفیل بھی اسی انتخابی رویے کا ہے کہ ان کے پرانے اور نئے کلام میں ان کے امتیاز، انفرادیت اور تشخص کے عناصر یکساں طاقت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ وہ اپنی روایت اور ماضی سے نہ تو بے سبب متصادم ہوتے ہیں، نہ نئے تجربوں اور رویوں سے خواہ مخواہ مرعوب ہوتے ہیں۔ ان کے تخلیقی کیرئیر میں، جو خاصا طویل ہے، انتشار اور ابتری یا ناہمواری کا کوئی نشان جو نظر نہیں آتا تو اسی لیے کہ مظفر صاحب کا پورا سفر ان کی اپنی مرضی، اپنی پسند اور اپنے انتخاب کا تابع رہا ہے۔ ان کے مزاج کو سب سے زیادہ مناسبت شادؔعارفی سے تھی۔ اور شاد کی انفرادیت اور امتیازات کی تعمیر و تشکیل میں بھی سب سے زیادہ سرگرم، موثر اور فعال رول در اصل اسی عنصر نے ادا کیا ہے۔ ان مرحوم نے بھی اپنا سارا سفر اپنی آمادگی اور انتخاب کے سائے میں طے کیا تھا۔ انہوں نے سخت آزمائشوں سے بھری ہوئی زندگی گزاری، مگر اپنی سی گزاری، اور دنیا سے کسی طرح کی دست گیری کے طالب نہیں ہوئے۔ ایسا نہ ہوتا تو گرد و پیش کی زندگی کے فرسودہ چلن نے ان کی انفرادیت پر غلبہ حاصل کر لیا ہوتا اور ان کی شاعری اس تیکھے پن، تیزی اور تشخص کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی جس نے انہیں نئی حسیت کے بہت سے ترجمانوں کے لیے قابل قبول ٹھہرایا تھا۔ شاد عارفی کے کلام میں ایک ناموافق ماحول کی سخت گیری اور احتساب کے باوجود اپنی انفرادیت پر اصرار اور ہجوم میں اپنے چہرے کی تلاش اور تحفظ کا عنصر، اسی لیے، ایک مستقل اور پائیدار قدر کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاد کی موت پر مظفرؔ صاحب کا شخصی مرثیہ، شادؔ کی صعوبتوں سے معمور زندگی کے ساتھ ساتھ خود مظفر صاحب کی ذہنی اور تخلیقی شخصیت کا شناس نامہ بھی ہے۔ اس نظم کو مظفر صاحب کے شخصی ملال کی عکاسی کے علاوہ ایک ذاتی اخلاقی منشور کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

یوں بھی مظفر حنفی کی شاعری میں زندگی اور شخصیت کی اخلاقی جہات کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ ہمارے عہد کے ایک دانشور ادیب (ہیرالڈ پنیٹر) نے نوبل انعام قبول کرتے وقت اپنی تقریر میں کہا تھا کہ وہ وقت آ گیا ہے جب ادب کی تخلیق کرنے والے کو ادب اور اخلاق، سیاست اور اخلاق، روز مرہ زندگی اور اخلاق کے ناگزیر رشتے پر تھکے بغیر گفتگو کرتے رہنا چاہیے۔ ہمارا وقت مادّی اعتبار سے جتنا ثروت مند نظر آتا ہے، اخلاقی سطح پر اتنا ہی قلاش اور حاجت مند بھی ہے۔ اور تو اور، علوم، ادبیات اور آرٹ کی دنیا میں بھی اخلاقی اساس سے محرومی کا احساس بہت دبا ہوا ہے اور اس کام کا اظہار ہمارے ادیب بھی کم کم ہی کرتے ہیں، کرتے بھی ہیں تو محض ایک پوز کے طور پر۔ اسی لیے ان کی آواز دم خم سے بالعموم خالی محسوس ہوتی ہے۔ مظفر صاحب کے اشعار میں تخلیقی اظہار کی اخلاقی قدر اور معنویت کا عنصر نہ صرف یہ کہ ایک حاوی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے، اس میں خلوص اور سچائی کا تاثر بھی بہت طاقتور ہے۔ لہٰذا شعر گوئی ان کے لیے نہ تو برائے تفریح ہے، نہ صرف عادت کا جبر۔ ان کے یہاں اس سے ایک اخلاقی فریضے کی ادائیگی بھی ہوتی ہے اور اپنے ماحول میں، واقعات میں، اشخاص میں، تجربوں میں انہیں جہاں کہیں بھی ناہمواری، نقص اور بدہیئتی دکھائی دیتی ہے، وہ اس پر اپنے رد عمل کے اظہار سے باز نہیں رہتے۔ ان کے مزاج میں سوداؔ کے جیسا غم و غصہ اور اشتعال تو پیدا نہیں ہوتا، لیکن اپنے دل کی بات پر وہ کسی طرح کی مصلحت، منافقت اور مجبوری کا پردہ بھی نہیں آنے دیتے۔ اپنی بات وہ دو ٹوک انداز میں کہتے ہیں اور عام طور پر استعارے، علامت اور ابہام کے بغیر کہتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے مظفر صاحب کی شاعری میں تخلیقیت پر تفکر کا طور غالب آ گیا ہے۔ ان کے اشعار سے، اس پریشاں ساماں عہد کی فکری ابتری اور اخلاقی بے سر و سامانی کا پورا خاکہ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ مضمون بندی کا عمل بھی ان کے یہاں اسی رویے کا پابند ہے جس کی نشاندہی میر مہدی مجروحؔ کے اس شعر سے ہوتی ہے کہ—

لکھ وہ مضمون جو ہو نفع رسانِ عالم

روز بے کار لکیریں یونہی کاغذ پہ نہ کھینچ

یہاں اس حقیقت کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ مظفر حنفی کی شاعری کسی بیرونی دستور العمل کی تابع نہیں ہے۔ اپنے گہرے سماجی اور انسانی سروکاروں کے باوجود مظفر صاحب کی شاعری کا عمومی میلان ان کی اپنی طبیعت کا پروردہ ہے اور ان کی بے ساختہ، اسی کے ساتھ ساتھ انتہائی منظم اور تربیت یافتہ تخلیقی شخصیت کا اظہار۔ اپنے کلیات میں انہوں نے منظوم سماجی تبصرے یا بچوں کے لیے کہی جانے والی نظمیں جو شامل کر دی ہیں تو اس لیے کہ ہر کلیات کے کچھ ناگزیر تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ تجربوں اور خیالوں کی پختگی اور سن رسیدگی کے با وصف مظفر صاحب کے یہاں کہنگی اور تھکن کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ اپنے پرانے جوش اور وفور کے ساتھ شعر کہے جا رہے ہیں۔ بے تکلف شعر کہنے کی ایک روایت بھی ہماری ادبی تاریخ کا حصہ رہی ہے۔ اس روایت کی تشکیل میں زبان و بیان پر گرفت، لہجے او آہنگ کو برتنے میں مشاقی اور اپنی زندگی اور زمانے کی طرف آگہی اور حساسیت کا رویہ ضروری ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو مظفر صاحب ہمارے موجودہ ادبی معاشرے میں بڑی حد تک اکیلے اور بے مثال کہے جا سکتے ہیں۔ ان کے ابتدائی دور کی ایک غزل کے کچھ شعر ہیں —

پارساؤں میں نہیں ہوں، مجھے پینی بھی نہیں

اس لیے میں نے کسی ہاتھ سے چھینی بھی نہیں

مجھ پہ ٹوٹی ہے جو آفت مری پروردہ ہے

آسمانی بھی نہیں اور زمینی بھی نہیں

یہ سارا خمیازہ بہر حال اکیلے پن کے سفر کا ہے اور مظفر صاحب پوری طمانیت کے ساتھ بہت سی منزلیں سر کر لینے کے بعد بھی اس پرانے راستے پر سرگرم سفر ہیں۔ یہ سفر اسی طرح جاری رہے گا۔

۱۱۴/بی، ذاکر باغ

اوکھلا روڈ، نئی دلّی                                    —شمیم حنفی

۴؍ ستمبر ۲۰۱۲ء

٭٭٭

 

 

 

متفرق غیر مطبوعہ تخلیقات

۱۹۵۲ء    ۲۰۱۲ء

 

 

 

 

 

مرثیہ شادؔ عارفی

 

برنگِ موت جی کے فرق ہی مٹا گیا ہے وہ

حیات کی ممات سے کڑی ملا گیا ہے وہ

بُلا کے اپنی موت خود ہی مات کھا گیا ہے وہ

یہ ایک اور تیر طنز کا چلا گیا ہے وہ

اگرچہ انجمن سے روٹھ کر چلا گیا ہے وہ

مگر کچھ اس طرح کہ انجمن پہ چھا گیا ہے وہ

تمام عمر نشتروں سے کھیلتا گیا ہے وہ

اگرچہ خود ہی اپنے خون میں نہا گیا ہے وہ

صداقتوں کی تلخیوں کے ساتھ ندرتِ ادا

غزل کو زندگی کا آئینہ بنا گیا ہے وہ

حیات کی تمام تلخیاں یتیم ہو گئیں

کہ آج زندگی سے روٹھ کر چلا گیا ہے وہ

عجیب بیکسی کی موت مر کے مُجرمین میں

ہمیں گنا گیا ہے وہ تمہیں گنا گیا ہے وہ

جیا تو اس طرح جیا کہ زندگی لرز گئی

مرا بھی اس طرح کہ موت کو ہلا گیا ہے وہ

اسی لیے تو چین سے نہ جی سکا نہ مر سکا

کہیں بھی ظلم ہو رہا ہو، تلملا گیا ہے وہ

سماج نے اُسے ہر اک قدم پہ چوٹ دی مگر

سماج کی نحیف رگ ٹٹولتا گیا ہے وہ

تمام عمر ظلمتوں سے واسطہ رہا اُسے

مگر ہر ایک موڑ پر دئیے جلا گیا ہے وہ

غزل کہی تو ایک شعر میں ہزار طنز ہیں

اگر کہیں بھی ظلم کا سراغ پا گیا ہے وہ

اُسے خبر نہ تھی کہ مصلحت بھی کوئی چیز ہے

پڑا جو سامنا تو راستہ بچا گیا ہے وہ

قضا پہ دسترس نہیں، نظر سے دور لے گئی

مگر دلوں کے اور بھی قریب آ گیا ہے وہ

جہانِ مال مست میں وہ کھال مست خوب تھا

کہ جو نظر پڑا اُسی کو چھیڑتا گیا ہے وہ

سخی تو خیر تھا، مگر بخیل سا بخیل تھا

خوشی تو بانٹتا پھرا ہے غم چھپا گیا ہے وہ

خود اپنی ذات پر بھی طنزِ مستقل بنا رہا

عجیب شخص تھا، عجیب گل کھلا گیا ہے وہ

برائے فکر و فن تمام عمر یوں گزار دی

کہ بیسویں صدی کی روح میں سما گیا ہے وہ

کلامِ شادؔ عارفی کہیں سے دیکھ لیجیے

اس عہد کی تمام خامیاں گنا گیا ہے وہ

رقیب خوش نہ ہوں کہ شادؔ عارفی نہیں رہا

ہمیں بھی داؤں پیچ طنز کے سکھا گیا ہے وہ

مظفرؔ خراب، مختصر کرے، تو یہ لکھے

کہ اس عظیم حادثے سے بوکھلا گیا ہے وہ

٭٭٭

 

 

 

 

شادؔ عارفی کا قاتل!

 

اگر گلوں کے سفیر ہوتے !

’’کسی قفس‘‘ کے اسیر ہوتے !

لکیر ہی کے فقیر ہوتے !

غزل میں ’’شوخ و شریر‘‘ ہوتے !

’’سماج کے دستگیر‘‘ ہوتے !

نہ تھے — اگر بد ضمیر ہوتے !

تو شادؔ صاحب امیر ہوتے !!

’’جو حکم حاکم‘‘ پہ کان دھرتے !

کہیں ٹھٹکتے، کہیں ٹھہرتے !

صداقتوں ہی کا دم نہ بھرتے !

بلا سے تیور نہیں نکھرتے !

جو سازشِ باغباں سے ڈرتے !

سخاوتِ خونِ دل نہ کرتے !

تو غالباً اس طرح نہ مرتے !!

یہ فرض کر کے بہل گیا دل

کہ شادؔ تھے عارفی کے قاتل

٭٭٭

 

 

 

 

گفتنی نا گفتنی

 

شادؔ عارفی کا نام مرے روبرو نہ آئے

یہ طنزیہ کلام مرے روبرو نہ آئے

اب اور کوئی تلخ اشارہ نہ کیجیے

اس طنز گو کا ذکر خدارا نہ کیجیے

جس کی تمام عمر کٹی انتشار میں

جس کو کہیں جگہ نہ ملی کوئے یار میں

اپنوں میں جس کا نام پکارا نہیں گیا

جو دشمنوں کے ہاتھ سے مارا نہیں گیا

جو پتھروں میں پھول کھلا کر چلا گیا

’’طنز و غزل‘‘ کی چول ملا کر چلا گیا

جو ظلمتوں کی راہ میں حائل رہا وہی

جو عمر بھر خلوص کا قائل رہا وہی

مشکوک باغباں سے خار کے لیے

جس نے بہار و گل کے معانی بدل دئیے

مجنوں صفت رہا جو بصد آگہی۔ وہی

جس نے غزل کرائے کے گھر پر کہی۔ وہی

سب اس سے بدگمان تھے، وہ یار سب کا تھا

حالانکہ اس کے طنز کا نشتر غضب کا تھا

وہ دوسروں کے واسطے زندہ رہا مگر

بونوں کو دیو زاد نہیں آ سکا نظر

منسوب اس کے ساتھ روایات ہیں کئی

ناگفتنی سے اور بھی حالات ہیں کئی

در زندگی کے بند تھے اُس بدمزاج پر

ہے اُس کی موت، طنز مجسم سماج پر

بچنے کا کوئی اور بہانہ تو ہے نہیں

(آنکھوں کے پاس کوئی خزانہ تو ہے نہیں

پلکوں پہ آنسوؤں میں کہاں تک لہو نہ آئے ۱؎ )

شادؔ عارفی کا نام مرے روبرو نہ آئے

۱؎ شادؔ عارفی کا ایک شعر

٭٭٭

 

 

 

 

چراغِ طنزیہ غزل

 

غریب ہوکے پھر وہ آن بان شادؔ عارفی!

تری زمیں بھی تھی آسمان شادؔ عارفی!

رواں دواں یہ طنز، بے ’’تکان‘‘ شادؔ عارفی!

غزل میں بولتا ہے اک پٹھان شادؔ عارفی!

نہ وہ خطا ہوا کہیں، نہ یہ لچک سکی کہیں

غزل کا تیر، نظم کی کمان شادؔ عارفی!

تمام عمر خدمت ادب کا یہ صلہ ملا

کہ بیچنا پڑا تجھے مکان شادؔ عارفی!

ہر ایک حق پرست پر حیات یوں بھی تنگ ہے

مگر تری حیات! الامان شادؔ عارفی!

یہی تو دَور طنز کا ہے، کس عجیب وقت میں

خموش ہو گئی تری زبان شادؔ عارفی!

خلوصِ فکر و فن کی بس یہی تو اِک دکان تھی

ابھی سے کیوں بڑھا گیا دُکان شادؔ عارفی!

وہ فن کا پیر مرد، فکر کا جوان اُٹھ گیا

ضعیف شادؔ عارفی! جوان شادؔ عارفی!

کچھ اس طرح جیا، کچھ اس ادا سے مر گیا کہ ہے

۔۔ ۔۔ سفر تمام — اور بے تکان شادؔ عارفی!

برائے طنز، ہنس کے موت کو گلے لگا لیا

تجھے سمجھ رہے تھے سخت جان شادؔ عارفی!

ہزار حیف! اک عظیم شخص تھا، نہیں رہا

اگرچہ آدمی تھا دھان پان شادؔ عارفی!

چراغِ طنزیہ غزل ترے بغیر بجھ گیا

چلی گئی نئی غزل کی شان شادؔ عارفی!

بتا مظفرؔ خراب شعر کس طرح کہے

مرے شفیق، میرے مہربان شادؔ عارفی!

٭٭٭

 

 

 

 

 

شتر گربہ

 

بدن گرم ہے اور جذبات سرد

لگاتی ہے چھاتی پہ ماتھے کی بِندیا

سناتی ہے شوہر کوآ جاری نِندیا

اسی غم میں مدقوق سازرد زرد

بہت ساری عورت کاتھوڑا سا مرد!

٭٭٭

 

 

 

 

مزاحیہ قصیدہ در مدحِ عبداللطیف اعظمی

 

(ایک قدیم صنفِ سخن سے چھیڑ خانی)

 

سردی میں بھی ہے زور پہ برسات نمایاں

کیوں سینے میں رقصاں ہیں یہ جذبات نمایاں

جامے سے نکل آیا ہے ہر پھول چمن میں

ہے دشت میں ہر خار کی اوقات نمایاں

پڑتی ہیں ہر اک سمت سے خوشبو کی پھواریں

ہر سُو ہیں نباتات و جمادات نمایاں

تتلی کی طرح آج شفق رنگ ہیں بھنورے

جگنو کی طرح ریت کے ذرّات نمایاں

ہر شمع کے اطراف ہے پروانوں کا لشکر

بلبل کی شگوفوں پہ مراعات نمایاں

لگتا ہے کہ جو دن بھی ہے وہ عید کا دن ہے

لگتی ہے ہر اک دن سے سوا رات نمایاں

پوچھا جو سبب خالدِ محمود سے میں نے

ہے چونکہ وہ شاگردوں میں بقراط نمایاں

کہنے لگا کیا آپ کو معلوم نہیں ہے

مسجد سے زیادہ ہیں خرابات نمایاں

اک مردِ خود آگاہ لطیف اعظمی نامی

لکھتا ہے مضامین و مقالات نمایاں

ہیں جامعہ کے اہلِ قلم اس کا نشانہ

طے کرتا ہے کس کس کی ہیں خدمات نمایاں

تمکین سے اچکن کے بٹن بند گلے تک

ٹوپی میں کج، آنکھوں سے کوئی گھات نمایاں

اندوہ کی مجلس ہو کہ تہنیتی محفل

انبوہ میں وہ مردِ خوش اوقات نمایاں

ہر بزمِ ادب کی صف اوّل میں وہ موجود

چہرے پہ کیے سیکڑوں خدشات نمایاں

قسمت سے جو لگتا ہے مشاہیر کا میلہ

کرتا ہے وہ بڑھ بڑھ کے ملاقات نمایاں

بِن اس کے ہر اک جشن کی توقیر خطر میں

بِن اس کے نہ ہو عزّتِ سادات نمایاں

جلسوں میں سنی جاتی ہے تقریر اُسی کی

اخباروں میں چھپتے ہیں بیانات نمایاں

دِن جتنے گزرتے ہیں جواں ہوتا ہے وہ پیر

اس ضمن میں ہے دن سے کہیں رات نمایاں

وہ زورِ خطابت کہ جوابات سوالی

اثبات سے کرتا ہے سوالات نمایاں

از بر اسے ہر شخص کی تاریخِ ولادت

پرچوں میں کرے سرخیِ وفیات نمایاں

تحقیق کے میدان کا وہ مردِ مجاہد

مقسوم ہیں مالک سے فتوحات نمایاں

اُس شخص کے ہر بات میں اک رمزِ جنوں ہے

ہوتے ہیں تفکّر کے اشارات نمایاں

عرشیؔ کے تقابل میں رکھی جائے وہ تحریر

فقروں میں کوئی بَل نہ تضادات نمایاں

غمزہ ہو اشارت ہو عبارت ہو ادا ہو

اس مردِ خود آگاہ کی ہر بات نمایاں

گو جسم سے نازک وہ پہلوانِ سخن ہے

تسخیر کیے اُس نے کمالات نمایاں

رستم سے شجاعت میں کئی میل وہ آگے

حاتم سے سخاوت میں ’’سخاوات‘‘ نمایاں

ہے اس پہ فدا شاہدؔ و انورؔ کی جماعت

کرتی ہے بپا جشنِ ’’لطیفات‘‘ نمایاں

آئیں گے وہاں زیدیؔ و مسعودؔ و جمالؔ آج

تا پیش کریں اپنے خیالات نمایاں

مل جائیں گے جلسے میں شمیمؔ اور مشیرُلؔ

بے چین ہیں پڑھنے کو مقالات نمایاں

اس جشن میں شرکت کے لیے آپ بھی چلیے

اس شخص کی ہیں ہم پہ عنایات نمایاں

دلچسپ قصیدہ کوئی ہو جائے تو کر دے

یہ نیک عمل آپ کی اوقات نمایاں

مطلع

اب مطلعِ ثانی سے کروں بات نمایاں

ہے جذبۂ توصیف پہ بہتات نمایاں

کچھ مدح کے اشعار میں حاضر میں کہوں گا

محفل میں تُو ہے قبلۂ حاجات نمایاں

سنتے ہیں کہ اُردو میں ترے دم سے ہوئی ہیں

معصوم صحافت کی روایات نمایاں

خاکسترِ تحقیق میں مانندِ شرر تُو

تنقید کے بِروا میں ترے پات نمایاں

دلّی میں کوئی جلسہ ہو ہر جلسے کے اندر

ہیں تیری لطافت کی حکایات نمایاں

تجھ علم کی قندیل سے روشن ہیں ستارے

سورج سے ترا نُور سوا ہات نمایاں

لاریب بلند است و بلندش تری حکمت

بقراط نمایاں ہے نہ سقراط نمایاں

شبلی بھی کرے فکر تری فکر کے آگے

آزادؔ سے ہیں تیرے نظریات نمایاں

اب ابنِ بطوطہ بھی پلٹتا ہے وطن کو

لے کر تری تصنیف کی سوغات نمایاں

اسلوبِ نگارش میں کبھی برف سی ٹھنڈک

لہجے میں کبھی برق و بخارات نمایاں

حاسد کو ڈپٹ دیتا ہے بڑھ کر ترا اقبال

کرتا ہے اگر حرفِ شکایات نمایاں

تیری نگہِ گرم سے لرزیدہ ہے تلوار

بندوق سے دو ہاتھ ترے ہات نمایاں

بہرام بھی کہرام کرے وار پہ تیرے

چیتک پہ ترا اسپ کرے لات نمایاں

بیشک ترا کردار ہے لبریز کمالات

واللہ تری ذات، تری ذات نمایاں

مطلع

دربانوں میں شامل ترے جنّات نمایاں

شبّیرؔ و انسؔ کے ہیں وقارات نمایاں

تعریف مری کیا ہے کہ سوداؔ سے نہ ہوں گے

اوصاف مکمل ترے ہیہات نمایاں

خمیازۂ احباب یہ کرتا ہے اشارہ

ہو مطلعِ روشن سے مناجات نمایاں

مطلع

سب لوگ کریں بہر دعا ہات نمایاں

لقمان سے بیش اس کے ہوں درجات نمایاں

دنیا میں ملیں اس کو مقالات پہ دادیں

جنت میں کریں حوریں مدارات نمایاں

قائم رہے خالدؔ کی یہ بچکانہ طبیعت

انورؔ کے شگفتہ رہیں ’’فقرات‘‘ نمایاں

چھپتی رہیں تصویریں شمیمِؔ حنفی کی

صغریٰ کی رہے عزّتِ سادات نمایاں

تا حشر ضیائؔ پر رہے بھرپور جوانی

پاپا کو ودیعت ہوں کرامات نمایاں

کیفیؔ کے لیے کیف حنیفوں کے لیے سیف

حنفیؔ کو قصیدے پہ مقامات نمایاں

ہم کھول سکیں ’’انجمنِ جشن کرالو‘‘

تا شہر میں ہو روز مدارات نمایاں

مقصودِ قصیدہ ہے فقط ایک گزارش

ہیں چونکہ تری اس پہ عنایات نمایاں

تحقیقی مقالہ جو ترے زیرِ قلم ہے

کچھ اس میں عطا کر دے مقامات نمایاں !

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نذرِ غالبؔ

 

(تضمین)

 

ہے کون دردِ دل کا مداوا کہیں جسے

جو آسرا نہ دے پہ سہارا کہیں جسے

چھوکر ہزار بار اچھوتا کہیں جسے

’’آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے ‘‘

 

مر ہی نہ جاؤں درد کی لذت میں اے خدا

ملتا ہے لطفِ خواب حقیقت میں اے خدا

لیتا ہوں کس کا نام یہ وحشت میں اے خدا

’’پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا

افسونِ انتظار تمنّا کہیں جسے ‘‘

 

چبھ جائے پاؤں میں تو نہ کانٹا نکالیے

آئے جو موت وعدۂ فردا پہ ٹالیے

موقع ہے خوب آج مروّت نہ پالیے

’’سر پر ہجوم درد غریبی سے ڈالیے

وہ ایک مشتِ خاک کہ صحرا کہیں جسے ‘‘

 

واعظ ہے کج نگاہ کہے بھی تو کیا کہے

بد باطنوں کو نیک، بتوں کو خدا کہے

اب اور کیا مظفرؔ آتش نوا کہے

’’غالبؔ برا نہ مان جو واعظ برا کہے

ایسا بھی ہے کوئی کہ سب اچھا کہیں جسے ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

ہولی نئی بہار کا پیغام لائی ہے

 

گلشن پہ رنگ و نور کی بدلی سی چھائی ہے

پودوں کو ہے خمار، ہوا پی کے آئی ہے

پھولوں کو دیکھیے تو عجب دلربائی ہے

رنگینیوں سے آج مری آشنائی ہے

ہولی نئی بہار کا پیغام لائی ہے

 

کانٹوں کو بھی عبیر لگاتی ہوئی کلی

اُڑتا ہوا گلال فضا میں گلی گلی

ہر سمت ناچتی ہوئی مستوں کی منڈلی

میٹھی مغلّظات ہیں، نغمہ سرائی ہے

ہولی نئی بہار کا پیغام لائی ہے

 

ہنستے ہیں یار لوگ حسینوں کے حال پر

کاجل لگا ہے کان میں سِندور گال پر

دس بیس کا ہجوم مٹھائی کے تھال پر

ٹیسو کی بالٹی پہ بھی زور آزمائی ہے

ہولی نئی بہار کا پیغام لائی ہے

 

رعنائیوں کی بات گلِ تر سے پوچھیے

مستی کا حال بادہ و ساغر سے پوچھیے

کیسا تھا سیلِ رنگ مظفرؔ سے پوچھیے

اشعار کہہ رہے ہیں کہ ہولی منائی ہے

ہولی نئی بہار کا پیغام لائی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سلام

 

اونچا ہوا نشان سناں پر حسینؓ کا

کٹنے کے بعد بھی نہ جھکا سر حسینؓ کا

یہ جان کر بھی نہر سے خیمے ہٹا لیے

پانی کریں گے بند ستم گر، حسینؓ کا

عَون و محمد، اکبر و اصغر عطش عطش

مرجھا گیا ہر ایک گلِ تر حسینؓ کا

بوڑھے حبیبؓ ابنِ مظاہر کے ساتھ ساتھ

اک شیر خوار بھی تھا دلاور حسینؓ کا

میرا مشاہدہ ہے کہ گرداب و آبشار

صدقہ اُتارتے ہیں برابر حسینؓ کا

باطل کے آگے اُس نے جھکایا کبھی نہ سر

عاشق ہے بچپنے سے مظفرؔ، حسینؓ کا

٭٭٭

 

 

 

 

میر انیسؔ کی یاد میں

(رباعی)

 

بھولے گی نہ اردو کبھی احسانِ انیسؔ

جاری ہے ادب میں ابھی فیضانِ انیسؔ

حالیؔ ہوں کہ اقبالؔ ہوں یا جوشؔ کہ شادؔ

تھاما ہے ہر اک نسل نے دامانِ انیسؔ

قطعہ

 

وہ فن کا تاج دار قلم کا رئیس ہے

اس کا سلام، اس کی رباعی نفیس ہے

وہ مرثیے کی شان، رِثائی ادب کی جان

بیشک اودھ کا شاعرِ اعظم انیسؔ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مرے وطن کی چاند سر زمیں

 

بہ ہر قدم مناظر حسیں

سنہری صبح، شام سُرمگیں

یہ خاکِ زر، یہ آبِ آتشیں

جھکی ہے احترام سے جبیں

مرے وطن کی چاند سرزمیں

 

بہ ایں مزاجِ آب و گل عوام

پہاڑ جیسے مستقل عوام

کروڑوں جسم ایک دل عوام

بتائیے نظر میں ہیں کہیں

مرے وطن کی چاند سرزمیں

 

زمانے بھر کو امن کا پیام

پلا رہی ہے شانتی کے جام

بلندیوں کی سمت تیز گام

مگر کسی سے دشمنی نہیں

مرے وطن کی چاند سرزمیں

 

سپاہ ایک ٹولیاں کئی

محل وہی رنگولیاں کئی

پیام ایک بولیاں کئی

مثال اس کی دوسری نہیں

مرے وطن کی چاند سرزمیں

٭٭٭

 

 

 

ہمارا وطن

 

ہمالیہ ہے تاج، کاشمیر آستین ہے

یہ خوش گمانیاں نہیں ہیں واقعی یقین ہے

جواب اس کا رُوس ہے نہ مِصر ہے نہ چین ہے

زمانہ ایک بزم اور ہند شہہ نشیں ہے

کہ دو جہاں میں سرزمین ہند بہترین ہے

 

قدم قدم پہ اس کے بے شمار پاسبان ہیں

امیر ہیں غریب ہیں، ضعیف ہیں، جوان ہیں

بھلے عقیدے مختلف ہوں، ایک خاندان ہیں

عزیز ہم کو جان سے زیادہ یہ زمین ہے

کہ دو جہاں میں سرزمینِ ہند بہترین ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سرحد پر سانپ

 

سانپ آستیں کے نکلے جو ہم نفس رہے ہیں

یلغار سے ہماری دشمن جھلس رہے ہیں

اب تو کمر ہمارے بچے بھی کس رہے ہیں

گھس بیٹھیے وطن کی سرحد کو ڈس رہے ہیں

توپیں گرج رہی راکٹ برس رہے ہیں

 

اے فوج کے دلیرو تنہا نہ خود کو مانو

ہم ایک اَرب ہیں سَینک ہم کو بھی ساتھ جانو

مزدورو ہاتھ لاؤ، آواز دو کسانو

اے چھاترو وطن کے، اے دیس کے جوانو

تلوار اُٹھاؤ اپنی، بندوقیں اپنی تانو

گھس پیٹھیے وطن کی سرحد کو ڈس رہے ہیں

توپیں گرج رہی ہیں راکٹ برس رہے ہیں

 

ہم چاہے جس جگہ ہوں اس جنگ میں ہیں شامل

میدانِ جنگ میں ہے ہندوستان کا دل

آئے تھے جو بٹالک لینے دراس و کرگل

آج ان کو سانس لینا بھی ہو رہا ہے مشکل

اب سانپ ڈھونڈتے ہیں چھپنے کے واسطے بِل

گھس پیٹھیے وطن کی سرحد کو ڈس رہے ہیں

توپیں گرج رہی ہیں راکٹ برس رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

سچائی کی جیت

 

چندے ہوتے ہیں دفتر میں جلسے ہیں میدانوں میں

فوجی بننے کے منصوبے مزدور اور کسانوں میں

سرحد پر لڑنے کی خواہش بوڑھوں اور جوانوں میں

عالم یہ ہے بچوں کی بھی فوجی وردی سلتی ہے

آج ہمارے نعروں سے کرگل کی چوٹی ہلتی ہے

 

دشمن کے گندے پیروں کو کاٹ نہ دیں تو نام نہیں

وادی کو ان کی لاشوں سے پاٹ نہ دیں تو نام نہیں

بوٹی بوٹی کر کے ان کی بانٹ نہ دیں تو نام نہیں

ایسے غصّیلے نعروں سے کھال عدو کی چھلتی ہے

آج ہمارے نعروں سے کرگل کی چوٹی ہلتی ہے

 

پاکستانی در اَنداز اَب اور نہیں ٹِک پائیں گے

ان سے ٹکّر لینے کو ہم بن کر سَینک آئیں گے

ہم دراس کو صاف کریں گے اور بٹالک جائیں گے

جو سچائی پر ہوتا ہے جیت اسی کو ملتی ہے

آج ہمارے نعروں سے کرگل کی چوٹی ہلتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

منقبت

 

محبوبِ پیمبرؐ، فخرِ علیؓ، حضرت سلطان نظام الدینؒ

’’تم نورِ مجسم، حق کے ولی، حضرت سلطان نظام الدینؒ ‘‘

بادل سے سخی، ساگر سے دھنی، دریا دل سے اللہ و غنی

مختارِ زمن، مہراج بَلی، حضرت سلطان نظام الدینؒ

کیوں راہ یہ پُر انوار نہ ہو، آخر کو دیار یہ کس کا ہے

صدقے اس پر جنت کی گلی، حضرت سلطان نظام الدینؒ

تری چاہ میں ہم بھی فقیر ہوئے، تری زلف کے ہم بھی اسیر ہوئے

ترے نام کی تن پہ بھبھوت ملی، حضرت سلطان نظام الدینؒ

کیا نذرِ عقیدت پیش کریں، حاضر ہے تمہارے قدموں میں

یہ تازہ بہ تازہ دل کی کلی، حضرت سلطان نظام الدینؒ

اُمید ہماری بَر آئے، اس ڈال پہ اب تو ثمر آئے

مدّت سے نہیں یہ پھولی پھلی، حضرت سلطان نظام الدینؒ

رہبر ہے کون مظفرؔ کا، محور ہے کون مظفرؔ کا

کر دو تحریر بخطِّ جلی، حضرت سلطان نظام الدینؒ

٭٭٭

 

 

 

 

قطعہ

(والدہ مرحومہ کی وفات پر)

 

خدا انہیں اپنے سایۂ عاطفت میں رکھّے

ہماری جنت تو روٹھ کر جا رہی ہے گھر سے

وصال کا سنہ انھیں میں پنہاں تھا اے مظفرؔ

مزارِ خاتون فاطمہؓ پر جو پھول برسے

۱۹۶۶ء

٭٭٭

 

 

 

قطعہ

 

جب آ گیا ہے لب پہ ترا نام اے حسینؓ

تھم سی گئی ہے گردشِ ایام اے حسینؓ

شبنم سے تر رہے گی ہر اک صبح کی پلک

خونِ شفق بہائے گی ہر شام اے حسینؓ

٭٭٭

 

 

 

 

پنڈت جواہر لعل نہرو کی موت پر

 

مبتلائے غم ہے ہر اک مرد و زن تیرے لیے

چاک کر ڈالے سبھی نے پیرہن تیرے لیے

امن کے پیغام بر، عزم و عمل کے دیوتا

ہم نے اشکوں سے بنائے ہیں کفن تیرے لیے

٭٭٭

 

 

 

 

منقبت

 

فیوض ہر دو زمانی حسن نظامی سے

عقیدتوں پہ جوانی حسن نظامی سے

وہ ایک نعرۂ مستانہ ظلمتوں کے خلاف

عبارتوں کی روانی حسن نظامی سے

طلسم سادہ نگاری سے بات بات میں بات

جڑی ہوئی ہے کہانی حسن نظامی سے

دلوں کو نور تو بالیدگی نظر کو ملی

سنی جو پیار کی بانی حسن نظامی سے

دماغ عرش پہ تھا اُس کی خاکساری کا

سبک رہی ہمہ دانی حسن نظامی سے

رہے ہیں داد کے مشتاق سب بمع اقبالؔ

عزیزؔ و اکبرؔ و فانیؔ حسن نظامی سے

ترے حضور مظفرؔ کو کھینچ لایا ہے

جو ایک ربط ہے ثانی حسن نظامی سے

٭٭٭

 

 

 

 

دوہے

 

لپکا لپکا جائے ہے اک راہی انجان

رہزن ہوں گے گھات میں، رستہ ہے سنسان

 

ایک نشیمن پھر جلے چاہے ماتم ہوئے

گھور اندھیرا رات کا تھوڑا تو کم ہوئے

 

دیکھ نہ پائے ٹھیک سے، کھو بیٹھے اوسان

تم سے ملنے کا ہمیں کتنا تھا ارمان

 

ننھا سا دل ایک ہے جس پر لاکھوں گھاؤ

مال اگر کمیاب ہو بڑھ جاتے ہیں بھاؤ

 

پھول کہیں بھی ہو اگر ہوتا ہے پامال

دل کے شیشے میں مرے آ جاتا ہے بال

 

مسجد میں جو لوگ ہیں ان کو ہی بہکاؤ

رِندوں میں کیوں آئے ہو اے مولانا جاؤ

 

زندہ بت کو چھوڑ کر پتھر کی تعظیم

اچھا ہم تو چل دیے پنڈت جی تسلیم

 

میرے سینے پر اُٹھی جہاں کہیں سنگین

اُن کا دامن ہو گیا گھر بیٹھے رنگین

 

اُس کے غم سے مانگ لو کچھ کرنوں کی بھیک

بات بہت باریک ہے رات بڑی تاریک

 

جو میرے ہر شعر پر کرتے تھے تنقید

کرتے ہیں وہ لوگ ہی اب میری تقلید

 

آ جاتی ہے پھول کی مٹّی میں بوباس

ہم کیوں تیرے پاس بھی اکثر رہے اُداس

 

پھر جانے کب رات ہو، کب یاد آئیں آپ

جی کہتا ہے اور کچھ، پڑے رہیں چپ چاپ

 

ایک ہاتھ میں پھول ہو، ایک ہات میں تیر

آج مظفر کھینچیے، ساجن کی تصویر

 

دل میں کچھ ارمان تھے آنکھوں میں کچھ خواب

سینے میں گرداب ہے آنکھوں میں سیلاب

 

لذّت ہی کچھ اور ہے محنت کر کے کھائیں

وہ بیچارے کیا کریں جو بن مانگے پائیں

٭٭٭

 

 

 

 

ترانہ (۱) سنٹرل یونیورسٹی کشمیر

 

ہمارا نعرہ ہے تکبیر

ہماری روشن ہے تقدیر

ہمارا مستقبل پر نور

ہمارا ماضی پُر تنویر

ہم طلباء و طالباتِ جامعہ کشمیر

 

علاقہ ہے یہ رشکِ طور

پسندیدہ نزدیک و دور

ہماری شالیں اور قالین

زمانے بھر میں ہیں مشہور

ہم طلباء و طالباتِ جامعہ کشمیر

 

ہمارے لل دید و مخدومؒ

ہمارے گلمرگ و ڈکسوم

یہاں مقبول رشی تحریک

یہاں ہے شرک و داکھ کی دھوم

ہم طلباء و طالباتِ جامعہ کشمیر

 

غنی و داؤد و اقبال

ابھینؤ گپت یہاں کے لال

یہاں ہر فرد ہے خوش اخلاق

ہر اک خاتون پری تمثال

ہم طلباء و طالباتِ جامعہ کشمیر

 

ہماری دانش گاہِ نَو

علوم و فن کی اونچی لَو

ترقی اِس کی روز افزوں

بڑھائیں مل کر اِس کی ضو

ہم طلباء و طالباتِ جامعہ کشمیر

٭٭٭

 

 

 

 

ترانہ (۲) سنٹرل یونیورسٹی کشمیر

 

اس نے وادی میں اُجالا کر دیا

جہل و ظلمت کا ازالہ کر دیا

پستیوں کو بھی ہمالہ کر دیا

علم و فن کا بول بالا کر دیا

شان ہے یہ سارے ہندوستان کی

مرکزی کشمیر یونیورسٹی

 

گل بداماں ہیں نشیبی کوہسار

دودھیا موتی لٹائے آبشار

کھلکھلاتے ہر طرف چشمے ہزار

رقص میں ہے چپے چپے پر بہار

آرزو اس کی ہمیں مدّت سے تھی

مرکزی کشمیر یونیورسٹی

 

اَوج پر ہیں علم و حکمت، مرحبا

پھیلی خوشبوئے ثقافت، مرحبا

چل پڑی رسمِ محبت، مرحبا

مرحبا، امن و اُخوّت، مرحبا

صنعت و حرفت کی وافر آگہی

مرکزی کشمیر یونیورسٹی

 

رنگ و بو کشمیر کی سوغات ہے

دن سے روشن تر یہاں کی رات ہے

دستکاری کی یہاں بہتات ہے

منحصر اس پر ہماری ذات ہے

اس کے ہاتھوں میں ہماری زندگی

مرکزی کشمیر یونیورسٹی

 

فیض ہے لل دید اور سادات کا

انور و اقبال کے شذرات کا

شیخ العالم کی مقدس ذات کا

قلعہ توڑا نور نے ظلمات کا

اور وادی سے جہالت مٹ گئی

مرکزی کشمیر یونیورسٹی

 

یہ فنونِ عصرِ نَو کی بارگاہ

جامعاتِ ہند کی یہ بادشاہ

دلربا، شیریں نوا، اونچی نگاہ

آسماں تک جائے گی یہ شاہراہ

یہ بلندی پر ہمیں پہنچائے گی

مرکزی کشمیر یونیورسٹی

 

ارتقاء پر روز و شب یہ جامعہ

لائقِ تعظیم سب یہ جامعہ

مرکزِ شعر و ادب یہ جامعہ

سربسر فیضانِ رب یہ جامعہ

اس کی شہرت ہو خدایا دائمی

مرکزی کشمیر یونیورسٹی

 

زندہ باد اے محورِ تہذیب و فن

تو رہے گلبار یوں ہی جانِ من

شاہراہِ ارتقا پر گام زن

لہلہائیں تیرے شعبوں کے چمن

پھیلے دنیا بھر میں ان کی روشنی

مرکزی کشمیر یونیورسٹی

٭٭٭

 

 

 

 

ترانہ (۳) سنٹرل یونیورسٹی کشمیر

 

منشور ہے یہ آزادی کی

مینارِ نور ہے وادی کی

عظمت ہے اس آبادی کی

خلوص و الفت کی تفسیر یہ دانش گاہ

یقیناً ہے شانِ کشمیر یہ دانش گاہ

 

یہ خوابِ شیخ العالم ہے

اقبال و غنی کا سنگم ہے

حبّہ خاتون کا پرچم ہے

عروج و سطوت کی تصویر یہ دانش گاہ

یقیناً ہے شانِ کشمیر یہ دانش گاہ

 

یہ عہدِ نَو کا دارالعلوم

اس کا غبار، شمس و نجوم

ہیں دِل پذیر اس کی رسوم

کئی تہذیبوں کی تنویر یہ دانش گاہ

یقیناً ہے شانِ کشمیر یہ دانش گاہ

 

یہ منزل دانش مندوں کی

مستقبل کے فرزندوں کی

تکبیر اللہ کے بندوں کی

وطن کی بے پایاں توقیر یہ دانش گاہ

یقیناً ہے شانِ کشمیر یہ دانش گاہ

 

مرکز تازہ افکار کی ہے

رہبر اعلا اقدار کی ہے

مخزن یہ نئے انوار کی ہے

محبت نے کی ہے تعمیر یہ دانش گاہ

یقیناً ہے شانِ کشمیر یہ دانش گاہ

 

یہ ایک چنار ببولوں میں

اس کی خوشبو ہے پھولوں میں

ہے اس کا جوش بگولوں میں

ہماری تدبیر و تقدیر یہ دانش گاہ

یقیناً ہے شانِ کشمیر یہ دانش گاہ

 

ہم شمعِ علم کے پروانے

ہم بزمِ علم کے افسانے

ہم شہرِ علم کے دیوانے

ہمارے خوابوں کی تعبیر یہ دانش گاہ

یقیناً ہے شانِ کشمیر یہ دانش گاہ

٭٭٭

 

 

 

 

ترانہ (۴) سنٹرل یونیورسٹی کشمیر

 

تنویر طور جیسی

مینارِ نور جیسی

دل کے سرور جیسی

دامانِ حور جیسی

کشمیری جامعہ ہے

پیاری جامعہ کشمیر

 

پیغامِ عزم و ہمت

راہِ فروغ ملّت

گنجینۂ فراست

روشن چراغِ حکمت

کشمیری جامعہ ہے

پیاری جامعہ کشمیر

 

یہ مہرباں ہماری

یہ راز داں ہماری

جادو بیاں ہماری

در اصل ماں ہماری

کشمیری جامعہ ہے

پیاری جامعہ کشمیر

 

اقدار کی معلّم

اظہار کی معلّم

ایثار کی معلّم

فنکار کی معلّم

کشمیری جامعہ ہے

پیاری جامعہ کشمیر

 

جہد و عمل کی پَیکر

تعلیم سے منوّر

تدریس سے معطّر

انسانیت کی مظہر

کشمیری جامعہ ہے

پیاری جامعہ کشمیر

 

پرچم بلند اس کا

رقبہ وسیع و اعلا

مسلک مساویانہ

تفریق سے مبرّا

کشمیری جامعہ ہے

پیاری جامعہ کشمیر

 

دانشوروں کا ارماں

سائنس کی نگہباں

ایوانِ دستکاراں

دربارِ ہوش منداں

کشمیری جامعہ ہے

پیاری جامعہ کشمیر

 

آئینہ خانۂ فن

بر آب و دانۂ فن

فخرِ زمانۂ فن

محوِ ترانۂ فن

کشمیری جامعہ ہے

پیاری جامعہ کشمیر

٭٭٭

 

 

 

 

ترانہ (۵) سنٹرل یونیورسٹی کشمیر

 

کشمیر زمیں پر جنت ہے

کشمیر وطن کی عزّت ہے

کشمیر خدا کی رحمت ہے

کشمیر جمالِ قدرت ہے

اور آن بانِ کشمیر ہے اپنی دانش گاہ

شایانِ شانِ کشمیر ہے اپنی دانش گاہ

 

اس وادی کی یہ تابش ہے

گنجینۂ رنگ و رامش ہے

توسیعِ علم و دانش ہے

یہ اِک ایوانِ نازش ہے

جانِ جہانِ کشمیر ہے اپنی دانش گاہ

شایانِ شانِ کشمیر ہے اپنی دانش گاہ

 

حبّہ خاتون کا یہ سپنا

تہذیب کا ہے یہ گہوارا

اک سنگ میل ثقافت کا

اس کے آگے سرخم دُنیا

تاریخ دانِ کشمیر ہے اپنی دانش گاہ

شایانِ شانِ کشمیر ہے اپنی دانش گاہ

 

ہر دل میں سرور اسی کا ہے

شہرہ منظور اسی کا ہے

ذہنوں میں نور اسی کا ہے

جاری دستور اسی کا ہے

اک ترجمانِ کشمیر ہے اپنی دانش گاہ

شایانِ شانِ کشمیر ہے اپنی دانش گاہ

 

اللہ نے ابنِ آدم کو

بخشا اس اسمِ اعظم کو

اس مساوات کے پرچم کو

اب اونچا رکھنا ہے ہم کو

ہفت آسمانِ کشمیر ہے اپنی دانش گاہ

شایانِ شانِ کشمیر ہے اپنی دانش گاہ

٭٭٭

 

 

 

 

ترانہ (۶) سنٹرل یونیورسٹی کشمیر

 

صنعت و حرفت کی محور، مخزنِ تہذیب تُو

رہنمائے قوم ہے تُو، علم کی ترغیب تُو

تجرباتِ نَو بہ نَو کی خوشنُما ترتیب تُو

زندہ باد اے مرکزی کشمیر یونیورسٹی

 

دستکاروں کی تُو جنت ہے تمدّن کی امین

دل رُبا تیرے مناظر، تیری تعمیریں حسین

جامعاتِ ہند میں لاریب تُو ہے بہترین

زندہ باد اے مرکزی کشمیر یونیورسٹی

 

ترجماں ڈل، چشمۂ شاہی نمائندہ تِرا

حبّہ و لل وید سے ماضی بھی آئندہ تِرا

تو ذکاوت کا خزینہ، فیض پائندہ تِرا

زندہ باد اے مرکزی کشمیر یونیورسٹی

 

شاردا پیٹھ اور دارالعلم کی تصویر ہے

شیخ نورالدین کے پیغام کی تفسیر ہے

جنتِ کشمیر ہے، مستقبل کشمیر ہے

زندہ باد اے مرکزی کشمیر یونیورسٹی

 

تو ثقافت کی امیں ہے شعر و حکمت کا ستون

بھر دیا تو نے دلوں میں علم و دانش کا جنون

ہمنوا سائنس کی تُو پرورش گاہِ فنون

زندہ باد اے مرکزی کشمیر یونیورسٹی

 

گُلِ بداماں وادی و کُہسار تیرے دم سے ہوں

عظمتیں منسوب دنیا کی ترے پرچم سے ہوں

تیری نسبت سے اُجالے ملک بھر میں ہم سے ہوں

زندہ باد اے مرکزی کشمیر یونیورسٹی

٭٭٭

 

 

 

 

ترانہ (۷) سنٹرل یونیورسٹی کشمیر

 

علم کے چراغ، امن کے سفیر

سرفروش و حق پسند و دلپذیر

خوش کلام و خوش مزاج و باضمیر

ہم طلبائے دانش گاہِ کاشمیر

ہم طلبائے دانش گاہِ کاشمیر

 

خُلد بر زمین ہے یہی جگہ

امن کی امین ہے یہی جگہ

گنجِ عارفین ہے یہی جگہ

ہم طلبائے دانش گاہِ کشمیر

ہم طلبائے دانش گاہِ کشمیر

 

اس کی برجیوں پہ ہے فرازِ طور

ذرّے ذرّے میں ہے پیار کا سرور

کلّیے ہیں اس کے گنج ہائے نور

ہم طلبائے دانش گاہِ کاشمیر

ہم طلبائے دانش گاہِ کاشمیر

 

مخزنِ علومِ ظاہر و بطون

سرپرستِ شعر و حکمت و فنون

ہیں ثقافت و ادب کے یہ ستون

ہم طلبائے دانش گاہِ کاشمیر

ہم طلبائے دانش گاہِ کاشمیر

 

عہدِ نَو کا یہ عظیم شاہکار

درس و فکر کا یہ بحرِ بے کنار

نَو بہارِ فلسفہ ہے یہ دیار

ہم طلبائے دانش گاہِ کاشمیر

ہم طلبائے دانش گاہِ کاشمیر

 

اس کے نوجوان پیکرِ حیات

رنگِ کائنات اس کی طالبات

نازشِ وطن اساتذہ کی ذات

ہم طلبائے دانش گاہِ کاشمیر

ہم طلبائے دانش گاہِ کاشمیر

 

اے خدا تری نگاہِ لطف سے

یہ چمن سدا ہرا بھرا رہے

جاوداں بہار اس کو بخش دے

ہم طلبائے دانش گاہِ کاشمیر

ہم طلبائے دانش گاہِ کاشمیر

٭٭٭

 

 

 

 

ترانہ (۸) سنٹرل یونیورسٹی کشمیر

 

جہانِ نو کی داستاں

ہمارا شوقِ علم ہے

کہ زندگی کی آن بان شان ذوقِ علم ہے

 

یہ رمزِ کائنات ہے

وظیفۂ حیات ہے

ہماری یورنیورسٹی

وسیلۂ نجات ہے

مسلسل اور جاوداں

ہمارا شوقِ علم ہے

کہ زندگی کی آن بان شان ذوقِ علم ہے

 

یہی ہماری جان ہے

ہماری ترجمان ہے

ہم اس کے پاسباں ہیں، یہ

ہماری پاسبان ہے

یہ سنگ میلِ کارواں

ہمارا شوقِ علم ہے

کہ زندگی کی آن بان شان ذوقِ علم ہے

 

یہ جھیل اور مرغزار

یہ جوئبار و آبشار

یہ گل بدوش وادیاں

یہ برف پوش کوہسار

رمیدہ ان کے درمیاں

ہمارا شوقِ علم ہے

کہ زندگی کی آن بان شان ذوقِ علم ہے

 

فنون کے سفیر ہم

خلوص کی نظیر ہم

صداقتوں کے ہم نوا

عمل کے دستگیر ہم

وفورِ عزم بے تکاں

ہمارا شوقِ علم ہے

کہ زندگی کی آن بان شان ذوقِ علم ہے

 

حسین و بہترین ہے

بہشت بر زمین ہے

یہ درسگاہ کاشمیر

علم کی امین ہے

ہر ایک شعبے سے عیاں

ہمارا شوقِ علم ہے

کہ زندگی کی آن بان شان ذوقِ علم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ترانہ (۹) سنٹرل یونیورسٹی کشمیر

 

قدرت کی رحمت کا مظہر جامعہ کشمیر

دنیا کی جنت کا منظر جامعہ کشمیر

پیدا کرتی ہے دانشور جامعہ کشمیر

وادی کی عظمت کا پیکر جامعہ کشمیر

 

اس کی رونق وادی کے گلپوش نظاروں میں

اس کا پرتو ہے ڈل کے زرتاب کناروں میں

اس کے دم سے تخلیقی موجیں فنکاروں میں

وادی کی عظمت کا پیکر جامعہ کشمیر

 

کشمیری قالین کی نرمی سے دنیا مخمور

شال یہاں کی لاثانی، کندہ کاری مشہور

شہرت اس کی پیپرماشی میں نزدیک و دور

وادی کی عظمت کا پیکر جامعہ کشمیر

 

اس کے دامن میں تہذیب سنورتی رہتی ہے

یہ ارمانوں میں رنگینی بھرتی رہتی ہے

علم و فن میں روز اضافے کرتی رہتی ہے

وادی کی عظمت کا پیکر جامعہ کشمیر

 

ارماں شیخ العالم کا، خوابِ حبّہ خاتون

توسیعِ تاریخ و ثقافت، سائنس اور فنون

اس کی گود میں پلتے ہیں مستقبل کے مضمون

وادی کی عظمت کا پیکر جامعہ کشمیر

 

کم علموں کو دانشمند بنا دیتا ہے یہ

تاریکی میں لاکھوں دیپ جلا دیتی ہے یہ

ماضی سے مستقبل میں پہنچا دیتی ہے یہ

وادی کی عظمت کا پیکر جامعہ کشمیر

 

یا رب اس کے چاہنے والے رہیں شاد، آباد

اس کے طالب علم کریں نِت نئے جہان ایجاد

دانش گاہ کاشمیر زندہ پائندہ باد

وادی کی عظمت کا پیکر جامعہ کشمیر

٭٭٭

 

 

 

 

ترانہ (۱۰) جواہر اردو ہائی اسکول، کھنڈوا

 

حسن رضا کی ہے تعمیر

حبیب عالم کی یہ تدبیر

مظفرؔ حنفی کا ارمان

یہ منشائے حسن بشیر

ہمارا اردو ہائی اسکول

جواہر اردو ہائی اسکول

 

زبانِ اردو کا مینار

ثقافت کا یہ پہرے دار

یہاں کے طالب علم ذہین

یہاں کی طالبات فنکار

ہمارا اردو ہائی اسکول

جواہر اردو ہائی اسکول

 

تمنّائے عبدالرحمان

ہمارے کھنڈوا کی یہ شان

عطائے لوہکھنڈوالا

منیش مشرا کا یہ وردان

ہمارا اردو ہائی اسکول

جواہر اردو ہائی اسکول

 

مثالی ہے اس کی تنظیم

یہاں کی معیاری تعلیم

لائقِ فخر اس کی تہذیب

اساتذہ سرتاپا تکریم

ہمارا اردو ہائی اسکول

جواہر اردو ہائی اسکول

 

ہماری درسگاہ نایاب

الٰہی سدا رہے شاداب

وطن کی خدمت میں مصروف

علم کی دولت سے زرتاب

ہمارا اردو ہائی اسکول

جواہر اردو ہائی اسکول

ٰ٭٭٭

 

 

 

 

کلامِ فیض کی پیروڈی

غزل

(پروفیسر قمر رئیس کے اصرار پر)

 

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

تو ہم شراب کے بِل یاد کرنے لگتے ہیں

 

رسیدیں غیروں کی معشوق بھرنے لگتے ہیں

اور اس کی تہمتیں ساحرؔ پہ دھرنے لگتے ہیں

 

وہاں کے قاضی کو جب یاد کرنے لگتے ہیں

تو جونپور سے وامقؔ بھی ڈرنے لگتے ہیں

 

فرازؔ، فیضؔ کی غزلیں کُترنے لگتے ہیں

تو شاعری کے جراثیم مرنے لگتے ہیں

 

کبھی جو تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں

ندیمؔ قاسمی ہم پر بپھرنے لگتے ہیں

 

سڈول شانوں پہ جب ہاتھ دھرنے لگتے ہیں

حسین آپ کی نیت سے ڈرنے لگتے ہیں

 

لَٹوں میں انگلیاں سردارؔ کرنے لگتے ہیں

تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں

 

برابری مری مجروحؔ کرنے لگتے ہیں

تو فیضؔ دل میں شرارے اُترنے لگتے ہیں

 

جو کیفیات سے نیچے اُترنے لگتے ہیں

شبانہ اعظمی کو یاد کرنے لگتے ہیں

 

وہ جب چنبیلی کے منڈوے میں ڈرنے لگتے ہیں

اپیل مُلّاؔ سے مخدومؔ کرنے لگتے ہیں

 

قمر رئیس جو تنقید کرنے لگتے ہیں

غزل کی آنکھوں میں آنسو اُبھرنے لگتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

فیض کے شعروں کی تضمینی پیروڈی

 

تمھارا راز پڑوسی نے آشکار کیا

مرے رقیبوں نے مخبر پہ اعتبار کیا

تمام رات قیامت کا انتظار کیا

 

کبھی پیادہ کبھی گھڑ سوار گزری ہے

تلاش میں ہے پولس بار بار گزری ہے

 

تاریخ میں نام اپنا رقم کرتے رہیں گے

جو قوم کا غم کرتے ہیں غم کرتے رہیں گے

شان اپنی زیادہ تری کم کرتے رہیں گے

ہم پرورشِ چشم و شکم کرتے رہیں گے

مئے پی کے ترے گھر میں اودھم کرتے رہیں گے

٭٭٭

تشکر: شاعر، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں