فہرست مضامین
اَدھوری نیند
حبیب موہانا
habibmohana@gmail.com
ادھوری نیند
ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں میں کرم ایجنسی میں گزارتا تھا۔ ایک دفعہ میں پارا چنار میں تھا کہ مجھے تحصیل داری کے امتحان کا لیٹر ملا۔ میں نے بیگ سنبھالا اور ڈیرہ اسماعیل خان کا رخ کیا۔ دامان وسیب میں گرمی کا راج تھا۔ پارا چنار کے دیو قامت گھنے چناروں کے نیچے بیٹھ کر جب بھی میں اپنے گاؤں کا تصور کرتا تو مجھے لگتا کہ گاؤں والے گرمی میں بھن کر سڑ گئے ہوں گے۔ اور ان کی لاشیں گلیوں میں بکھری پڑی ہوں گی۔ کبھی کبھی مجھے یہ خیال آتا کہ لوگ تپش سے سکڑ کر بہت چھوٹے ہو گئے ہوں گے، کاکروچوں جتنے۔ کچھ کاکروچ مر گئے ہوں گے اور باقی آسمان کی طرف پاؤں کئے مرنے کی تیاری کر رہے ہوں گے۔
عشاء سے ذرا پہلے میں گاؤں پہنچا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ درابن ویسے تھا جیسے میں اسے چھوڑ گیا تھا۔ گلیوں میں بچے کھیل رہے تھے، جوان ریڈیو اور موبائلوں پر گانے سن رہے تھے اور چونکوں سے مردوں کے قہقہے اٹھ رہے تھے۔
میں ہر روز پرچہ دینے ڈی آئی خان آتا اور ظہر تک واپس گاؤں پہنچ جاتا۔ امتحان ہفتہ بھر رہا۔ آخری پرچہ دن کے کوئی بارہ بجے ختم ہوا۔ میں بھاگتا اڈے پر پہنچا اور پاراچنار جانے والی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی ایک بجے روانہ ہوئی، شام کی اذان کے بعد ہم صدہ پہنچے، اب گاڑی میں صرف دو سواریاں رہ گئی تھیں۔ ڈرائیور نے گاڑی بند کر دی اور کہا کہ وہ آگے نہیں جا رہا۔ دوسرا مسافر سیدھا ہوٹل چلا گیا مگر میں ہوٹل میں ٹھرنے سے کترا رہا تھا۔
صدہ میں میرے دوست صابر کا ایک کولیگ رہتا تھا۔ جسے وہ ماسٹر کہہ کر پکارتا تھا۔ میں ماسٹر سے دو دفعہ مل چکا تھا۔ میں نے ماسٹر کو فون کیا کہ میں عجب خان چوک پر کھڑا ہوں، مجھے لینے آ جاؤ۔ کچھ دیر بعد میرا میزبان آیا اور مجھے اپنے گھر لے گیا۔ ہم نے کھانا کھایا، قہوہ پیا۔ ماسٹر دیر تک مجھے افغانستان کے کامریڈوں کے قصے سناتارہا۔ اس کے بعد وہ مجھے سونے والے کمرے میں لے آیا۔ کمرے میں کوئی بلب نہیں جل رہا تھا مگر کھڑکی کے میلے دھندلے شیشوں سے ہلکی ہلکی روشنی آ رہی تھی۔ میزبان نے زمین پر بچھے ہوئے بستر کی طرف اشارہ کیا اور چلا گیا۔
میں بستر پر لیٹ گیا۔ کمرے سے دوائیوں اور میلے کپڑوں کی بو آ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ میں کمرے میں اکیلا نہیں۔ دوسرے کونے سے ہلکے خراٹوں کی آواز آ رہی تھی۔ میں نے خراٹے لینے والے آدمی کو نظر انداز کرنے اور سونے کی کوشش کی۔ چند لمحے بعد خراٹوں میں دمے کی سائیں سائیں کا رنگ بھی شامل ہو گیا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ میرا روم میٹ بوڑھا ہے۔ میری آنکھ لگی ہی تھی کہ بوڑھے کو کھانسی کا دورہ پڑا۔ کھانسی کی ٹُخ ٹُخ، دمے کی سائیں سائیں کے ساتھ وائی وخ کی آوازوں کا اک آر کسٹرا بج رہا تھا۔ میرا دم گھٹنے لگا۔ میں خود کو کوسنے لگا۔ اگر میں ہوٹل میں ٹھہر جاتا تو اچھا تھا۔ یہ بڈھا مجھے چین سے نہیں سونے دے گا۔ مجھے اس پر غصہ آ رہا تھا۔
میرا پڑوسی کراہتے ہوئے اپنی جگہ سے تھوڑا سا کھسکا اور ساتھ پڑے ہوئے پاٹ میں شَرشَر مترنے لگا۔ بڈھے کے سینے سے بھڑوں کی بھنبھناہٹ آ رہی تھی۔ پھر اس نے ساتھ پڑی ہوئی چائے کی کیتلی سے پیالا بھرا اور دیوار سے ٹیک لگا کر چسکیاں لینے لگا۔ وہ تین چار پیالیاں چڑھا گیا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ بسترپردرازہو گیا اور بڑبڑاتا رہا، پتہ نہیں وہ دعا مانگ رہا تھا یا کسی کو گالیاں دے رہا تھا۔ بہت جلد اسے نیند نے دبوچ لیا۔ اس کے بعد میری بھی آنکھ لگ گئی۔ میں دس پندرہ منٹ سویا ہوں گا کہ مریض کو کھانسی کا دورہ پڑا۔ بلغم کے گولے وہ قریب والی دیوار پر داغتا رہا۔ پھراسے ابکائیاں آئیں اور اس کے منہ سے الٹی کے فوارے چھوٹنے لگے۔ میرے جی میں آیا کہ ماسٹر کو فون کر کے اس سے کہوں کہ مجھے اس کمرے سے نکالو۔ مگر یہ سوچ کراسے فون نہ کیا کہ اس کے ہاں دوسرا کمرہ نہیں ہو گا۔ اگر ہوتا تو مجھے اس مردہ کے سائے میں نہ سلاتا۔
مریض بستر پر اوندھا پڑا تھا۔ اس کے سینے سے طرح طرح کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ اس کا گلا گھونٹ دوں۔ مجھے پیاس لگی ہوئی تھی۔ پانی کا جگ میرے قریب پڑا تھا۔ میں نے گلاس بھر کر منہ سے لگایا اور واپس رکھ دیا۔ مجھے پانی سے کھانسی، الٹی اور دوائیوں کی بو آ رہی تھی۔ میرا پڑوسی کچھ دیر آرام سے سویا رہا مگر اس کے منہ، نتھنوں اور سینے سے پیں پاں اور شاں شوں کی آوازیں نکل رہی تھیں جیسے مچھروں کی بارات گزر رہی ہو۔ میں نیند کی پھسلن پر پھسلا جا رہا تھا۔ بڈھے کو کھانسی نے ایک دم ایسا دبوچا کہ اس کی سانس رکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی، "میرے اللہ کیا مصیبت ہے !” اونگھتے ہوئے چوہے کی طرح میں اپنی جگہ سے اٹھا، بلب جلایا۔ نیند اور تھکاوٹ سے میرا سر چکرا رہا تھا۔ من میں، میں صابر اور ماسٹر کو کوس رہا تھا۔ میں مریض کے پاس آیا اسے سرہانوں کا سہارا دے کر بٹھا دیا۔ میں اس کا سینہ اور ہاتھ سہلاتارہا۔ بوڑھا مجھے ماسٹر سمجھ رہا تھا۔ جب اسے ہوش آیا تواس نے ساتھ پڑی ہوئی دوائی کی بوتل کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے اسے دوائی پلائی اور وہ دوا ئی کے چمچ کو بلونگڑے کی طرح چاٹتا رہا۔
میں نے مریض کو لٹا دیا۔ ” یہ نشے والی دوائی ہو گی اور اب وہ مزے سے سو جائے گا۔ ” میں نے خود کو تسلی دی اور واپس اپنی جگہ پر آیا۔ سرہانے پر سر رکھتے ہی مجھے نیند نے گود میں لے لیا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں بوڑھے کو کندھے پر اٹھا کر ہسپتال لے جاتا ہوں۔ قابل سول سرجنوں کی ٹیم اس کے چھلنی، بدبو دار، پلپلے پھیپھڑوں کو پٹ سن کی ڈوریوں سے سیتے ہیں۔ اس کی کھانسی اور دمہ ختم ہو جاتا ہے، اس کی سانسوں سے گلابوں کے عرق کی خوشبو آتی ہے۔ وہ شیر خوار بچے کی طرح میٹھی اور معصوم آوازیں نکالتا ہے۔ میں اسے لالی پاپ خرید کر دیتا ہوں جسے وہ چوستا رہتا ہے۔ وہ کوّالا کی طرح cuteاورcuddly لگتا ہے۔
اچانک میرے کانوں میں ٹریکٹر چلنے کا شور آیا۔ مجھے لگا کہ میں سڑک کے بیچ میں سو رہا ہوں اور ٹریکٹر میرے سینے پر چڑھ دوڑنے کو آ رہا ہے۔ میں ایکدم جاگ گیا۔ پر مجھ میں ہلنے جلنے کی طاقت نہیں تھی۔ بوڑھا کراہ رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کی سانس سیٹیاں بجا رہی تھیں۔ میرے بس میں ہوتا تو اس پر رضائیوں اور کپڑوں کا ڈھیر ڈال کر اس کی چوں چاں کو بند کر دیتا۔ میرے ہمسائے پر کھانسی کا حملہ ہوا۔ مجھے اپنا دماغ سوجا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ میں اس کے پاس آیا، وہ گٹھڑی بنا پڑا تھا۔ اس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ میں نے ماسٹر کا نمبر ملایا مگر اس نے فون نہیں اٹھایا۔ شاید اس نے موبائل silent پر کیا ہوا تھا۔ میں نے مریض سے بات کرنے کی کوشش کی، مگر وہ نہ بولا۔ وہ بے ہوش پڑا تھا۔ مجھے اپنے پاؤں تلے زمین بہتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میں نے اپنے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا، پھر ماسٹر کو دیوانہ وار آوازیں دیں۔ مگر کہیں سے کوئی جواب نہ ملا۔ میں نے بوڑھے کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ اس کے ہاتھ ٹھنڈے ہو رہے تھے۔ میں دروازہ کھول کر چیختا چلاتا رہا مگر جواب ندارد۔ میں نے آسمان پر نگاہ ڈالی۔ پر سکون وسیع آسمان، آسمانی قمقموں سے سجا ہوا تھا۔ فرحت بخش ہوا صبح کے استقبال میں بچھی جا رہی تھی۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ جگنو بن کر وہاں سے اڑ جاؤں۔ مگر نہ چاہتے ہوئے دوبارہ کمرے میں آیا۔ بوڑھا اللہ کو دم دے چکا تھا۔ میں نے اس کی ٹھوڑی باندھی، اسے سیدھا لٹایا۔ میں دل ہی دل میں خوش تھا کہ بوڑھے کا شور شرابہ ختم ہو گیا ہے اور اب میں چین سے سو سکوں گا۔ میں بستر پر دراز ہو گیا مگر نیند مجھ سے روٹھی رہی۔
فجر کی اذان ہوئی۔ مجھے سر میں کیلیں ٹھکی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں اور میری آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ روشنی اور چڑیوں کی چہچہاہٹ کھڑکی کے شیشے پھلانگتی ہوئی داخل ہو رہی تھی۔ کمرے سے موت کی بو آ رہی تھی، میں مردہ خانہ کے داروغے کی طرح پڑا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ماسٹر آئے گا تو اسے بڈھے کے مرنے کی خبر کیسے سناؤں گا۔ پھر دروازہ کھلا ایک چھوٹا بچہ ہاتھ میں چائے کی کالی جستی کیتلی اٹھائے کمرے میں داخل ہوا۔ "دادا جی، چائے "اس نے کیتلی دادا کے بستر کے قریب رکھی۔ میں اس سے بات کرنے کے لئے سنبھل رہا تھا کہ بچہ الٹے پاؤں واپس ہوا، میں اسے آوازیں دیتا رہا مگر اس نے میری ایک بھی نہ سنی۔
میں نے ماسٹرکو کال کی۔ اس نے موبائل کو بزی کر دیا۔ پانچ چھ منٹ بعد میرا میز بان آیا۔ میں اسے آتا دیکھ کر اٹھ بیٹھا۔ میرا انگ انگ دکھ رہا تھا اور نیند کی پیاسی آنکھیں پرائی پرائی لگ رہی تھیں۔ وہ میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس کی سانسوں سے پپرمنٹ کی ٹھنڈی اور خوشگوار خوشبو آ رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ کہتا وہ مسکراتے ہوئے بولا "رات ہمارا کاکا ہوا ہے۔ کل رات جب میں تمہیں سلا کر اپنے کمرے میں گیا تو میری بیوی۔۔ ۔ میں اسے ہسپتال لے گیا۔۔ ۔ ہم فجر کی اذان کے قریب واپس آئے۔ اللہ نے آسانی کر دی۔ ”
٭٭٭
کُبڑا
میرا باپ کس رنگ اور کس قد کاٹھ کا تھا، میں نہیں جانتا۔ میں نے شاید کبھی اپنے باپ کو نہیں دیکھا تھا اگر دیکھا تھا تو یاد نہیں۔ وہ کہیں باہر رہتا تھا۔ اس کے خط آتے، کبھی کبھی پیسے آتے اور نانی کا پھٹا ہوا کھڈی کا دوپٹہ دعا کے لئے اٹھ جاتا۔ پھر میں سکول جانے لگا، ابا کے خط اور پیسے آنا کم ہو گئے۔ امی، نانی اور ماما کبھی آہستہ اور کبھی اونچی آواز میں باتیں کرتے، کبھی کبھی بابا کو گالیاں دیتے۔ جب میں تیسری جماعت میں گیا تو بابا کے خط اور پیسے آنا بالکل بند ہو گئے۔ امی اور نانی بابا کو بد دعائیں دیتیں اور ماما کھلم کھلا گالیاں دیتا۔
میں تیسری جماعت تک ماما کو اپنا بابا سمجھتا تھا۔ ماما نے شادی نہیں کی تھی اور وہ آخری دم تک مجھے اپنا بیٹا سمجھتا تھا۔ ماما اور میں بازار سودالینے اکٹھے جاتے، جنگل سے لکڑیاں لینے اکٹھے جاتے، مسجد اکٹھے جاتے۔ جب ہم گلی سے گزرتے تو درابن کے بچے اور لڑکے ماما پر ہنستے، کیوں کہ وہ کبڑا تھا اور جھک کر چلتا تھا۔
ایک دفعہ کچھ لڑکے جھکڑ کی طرح آئے، اس کے کُب پر ایک ایک مکا رسید کیا اور ہوا ہو گئے۔ ماما نے ان کے پیچھے بھاگنا چاہا مگر وہ نہیں بھاگ سکتا تھا۔ اسلئے اس نے گالیاں دینے پر اکتفا کی۔ کبھی کبھار لڑکے اس کے ساتھ انوکھی شرارتیں کرتے۔ ایک دفعہ ہم شیر شاہ کے تھڑے پر نسوار بنانے جا رہے تھے۔ کچھ لڑکے تیزی سے آئے، ماما کے کُب پر ٹوٹا ہوا گھڑا اور اس کے سر پر ایک بوسیدہ چھابہ رکھا اور فرار ہو گئے۔ چار پانچ قدم چلنے کے بعد بھی ٹوٹا گھڑا اس کے کب پر سے نہ گرا۔ آخر میں نے گھڑے کو دھکا دیا اور وہ نیچے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
میرا ماما مجھ سے بے حد پیار کرتا تھا۔ مجھے اپنے ساتھ گھماتا۔ جب میں تھک جاتا تو مجھے اپنی جھکی ہوئی کمر پر بٹھاتا۔ میں اپنے چاچا کی کمر پر آسانی سے نہیں بیٹھ سکتا تھا اور نیچے کھسکتا چلا جاتا۔ مجھے ہر وقت یہ خدشہ رہتا تھا کہ ابھی گرا اور ابھی گرا۔ ایک دن چاچا کو میں نے صاف صاف بتا دیا "میں اس وقت تک تمھاری کمر پر نہیں بیٹھوں گا جب تک تو اپنی پیٹھ پر ماما کی طرح کُب نہیں لگوا لیتا۔ ” مگر میرے پیارے ماما کی جھکی کمر اور اس کے نیچے کُب ایک مثالی نشست تھی۔
مجھے ماما سے بہت پیار تھا۔ مجھے اس کی ٹیڑھی چھڑی سے پیار تھا، مجھے اس کے موٹے بے ڈھنگے جوتوں سے پیار تھا، مجھے اس کے کُب سے پیار تھا۔ ایک دن وہ مجھے اپنی کمر پر اٹھائے مسجد کی طرف جا رہا تھا: "ماما، چاچا کا کب کیوں نہیں ہے ؟”
"کب ہمیشہ ماما کا ہوتا ہے۔ چاچا کا نہیں۔ ” وہ ہنسا۔
"غلط!میں سب سمجھتا ہوں، کب صرف اچھے آدمی کا ہوتا ہے۔ چاچا اچھا آدمی نہیں ہے۔ اس لئے اس کا کب نہیں ہے۔۔ ۔ ماما کب کا کیا فائدہ ہوتا ہے ؟”
” یہ تم جیسے پیارے پیارے بچوں کو اٹھانے کے لئے ہے۔ ”
"اگر بچوں کو اٹھانے کے لئے ہوتا ہے تو پھر شیدو کے ماما کا کب کیوں نہیں ہے ؟”
ماما لا جواب ہو گیا۔
"اچھا ماما یہ بتاؤ، میرا کُب کب اگے گا؟”
"اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے ! چلو چھوڑو!۔۔ ۔ آج تم بھی میرے ساتھ نماز پڑھو گے، اب تم بڑے ہو گئے ہو۔ ”
اس دن میں نے ماما کے ساتھ نماز پڑھی۔ ماما نماز میں جسطرح اٹھتا بیٹھتا، میں بھی ویسے کرتا رہا۔ جب ہم سجدے میں پڑے تھے تومیں نے چپکے سے سر اوپر اٹھایا۔ میری نظر مسجد کی مُنڈیر پر بیٹھے کبوتروں پر جا ٹکی۔ وہ مجھے بکری جتنے لگ رہے تھے۔ پھر میری نظر مسجد کے کچے میناروں پر پڑی وہ مجھے جھولتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ میرے اوپر گر جائیں گے۔ پھر میری نظر مسجد میں لگی نسواری کھجوروں پر پڑی۔ میرے جی میں آیا کہ پرندہ بن کر اڑوں اور کھجوریں توڑ کر نیچے آ جاؤں۔ اس دن دعا میں ماما نے پتا نہیں کیا مانگا مگر میں نے خدا سے کب مانگا۔
ماما ہر روز عصر کی نماز کے بعد شیر شاہ کے تھڑے پر جاتا، وہ پتھر کی اوکھلی میں نسوار بناتا، اس کی نسوار کے اجزاسب لوگوں سے مختلف تھے: ایک کالی مرچ، ایک سبز الائچی، کھارکاچھوٹاساٹکڑا، تھوڑے سے سونف، تین چار دانے دھنیا، ایک لونگ، ایک چٹکی راکھ، چونا حسب ذائقہ اور اچھی نسل کے تمباکو کے پتے۔ ان تمام چیزوں کو وہ محنت اور شوق سے پیستا اور ان میں تھوڑا سا پانی ڈال کر پھر رگڑتا۔ نسوار تیار ہونے پر ایک چٹکی منہ میں رکھتا۔ باقی کی نسوار کو چاندی کی ڈبیا میں ڈال کر انگوٹھے سے دباتا۔ ڈبیا کے درمیان میں چھوٹا گول شیشہ اور کناروں پر رنگ برنگے نگ جڑے ہوئے تھے۔ وہ سیٹی بجاتے ہوئے اپنے چہرے کو ڈبیا میں جڑے ہوئے شیشے میں دیکھتا، مونچھوں اور داڑھی پر ہاتھ پھیرتا۔
گھر پہنچ کر وہ آدھی نسوار نانی کو دیتا جو آگے تھوڑی سی نسوارامی کو دے دیتی، جس سے باجی ایک دو چٹکی چرا لیتی۔
ایک دن ماما سے آنکھ بچا کر میں نے مٹھی بھر چونا نسوار میں ملا دیا، اس دن پہلی چٹکی نے ماما کے منہ میں زخم کر دئیے۔ نانی اور امی کے منہ ایک ہفتے تک نسوار استعمال کرنے کے قابل نہ ہوئے۔ اور باجی کا منہ اتنا خراب ہو گیا تھا کہ وہ دو ہفتوں تک سالن نہیں کھا سکتی تھی اور روٹی گڑ کے ساتھ کھاتی۔
کبھی کبھار ماما مجھے نسوار کی اوکھلی کے پاس بٹھا تا اور خود نیم تاریک، بڑے بوڑھے کوٹھے کے اندر غائب ہو جاتا۔ جب وہ واپس آتا تو اس کی آنکھیں لال ہوتیں اور وہ کھانس رہا ہوتا۔ اس دن وہ مجھے اپنی پشت پر نہ بٹھاتا۔ راستے میں مجھ سے باتیں بھی نہ کرتا، شرارت کرنے والے لڑکوں سے نہ الجھتا اور گھر پہنچ کر نانی کے سامنے بھی نہ آتا۔
میں پانچویں جماعت میں داخل ہو گیا تھا۔ اب میں گلی سے گزرتا تو مجھے ایسا لگتا کہ لڑکے مجھ پر ہنس رہے ہیں مگر مجھے اس بات کا کچھ زیادہ احساس نہیں ہوتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد مجھے پتہ چلا کہ میرا کب اگر ہا تھا اور مجھے سیدھا ہونے میں تکلیف ہونے لگی تھی۔ پھر ایک دن ماما فوت ہو گیا، اس کی جگہ میں نے لے لی۔ اب تمام لڑکے مجھ پر ہنستے تھے۔ کبھی کبھار کوئی لڑکا میرے کب پر تھپڑ یا مکا مار دیتا تھا۔
میں بڑا ہوتا گیا، مجھ پر ہنسنے والے لڑکے بھی بڑے ہوتے گئے۔ ان میں اکثر نے شادی کر لی، کچھ کے بچے ہو گئے۔ ان میں سے کچھ بعد میں میرے دوست بن گئے اور کچھ دوسرے شہروں میں مزدوری کرنے چلے گئے۔ جب وہ چھٹیاں گزارنے درابن آتے، تو مجھ سے بڑی عزت سے ملتے، میرے ساتھ بیٹھتے، باتیں کرتے۔ کبھی کبھار ان میں سے کوئی ایک آدھ میرے لئے کوئی تحفہ بھی لے آتا، لیکن مجھ سے شرارت کرنے والوں میں کمی نہ آئی۔ اب وہ لوگ جو میری عزت کرتے تھے، ان کے بچے میرے اوپر ہنستے تھے، ان میں سے کچھ کو تو میں جانتا بھی نہیں تھا لیکن مجھے ہر بچہ جانتا تھا۔ گلی میں میرے گزر جانے کے بعد لڑکے دیر تک میرے بارے میں بولتے رہتے، ہر لڑکا اپنی کار کردگی کی رپورٹ پیش کرتا۔ مجھے ستانے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈے جاتے۔ جوں جوں میری عمر بڑھتی گئی، میرا جسم سوکھتا گیا مگر میرا کب بڑھتا گیا۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا جیسے کسی نے میری کمر پر گول پتھر رکھ کے اوپر سے چمڑی منڈھ دی ہو۔ مجھے چلنے میں دقت ہوتی تھی۔ عیدین، میلہ شاہ عالم، چودہ اگست اور شادی بیاہ کے موقعوں پر بچوں کو ڈھولوں، جھولوں اور کھلونوں سے کہیں زیادہ میں تفریح مہیا کرتا۔ ایسے موقعوں پر مجھ سے بڑے پیمانے پر مذاق ہوتا۔ میں چھڑی لے کر ان کے پیچھے ہاتھی کے لنگڑے بچے کی طرح بھاگتا۔ جواب میں مجھ پر لکڑی کے ٹکڑوں، پتھروں اور ٹھیکریوں کی بوچھاڑ ہوتی۔ یہ جنگ اکثر یک طرفہ ہوتی۔ مجھے میدان چھوڑنا پڑتا مگر بعض اوقات کوئی راہ گیر میری مدد کو آن پہنچتا اور مجھے مفت میں لڑکوں کی فوج پر فتح مل جاتی۔ جو لڑکوں کو بہت بری لگتی اور وہ دو تین دن کے اندر اندر مجھ سے بدلہ لے کر دم لیتے۔
سارے شہر میں صرف ایک درزی میرے کپڑے سی سکتا ہے اور یہ وہی درزی ہے جو میرے ماما کے کپڑے سیتا تھا۔ شہر میں صرف ایک موچی میرے جوتے بنا سکتا ہے اور یہ وہی موچی ہے جو میرے ماما کے جوتے بناتا تھا۔
کچھ سال بعد مجھے ستانے والے لڑکوں کی دوسری کھیپ بھی بڑی ہو گئی۔ ان میں کچھ کی شادیاں ہو گئیں، کچھ کی نوکریاں لگ گئیں، کچھ حافظ بن گے اور انھوں نے داڑھیاں رکھ لیں۔ کچھ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ گئے۔ اب یہ جوان مجھے سلام کرتے، چیزیں اٹھانے میں میری مدد کرتے۔ کبھی کبھار مجھے کھانے پینے کی کوئی چیز دے دیتے۔ کچھ تو میرا ہاتھ پکڑا کر اپنے ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگتے۔ مگر مجھ سے مذاق کرنے والوں کی تعداد میں کمی نہ آئی۔
اب میں مکمل طور پر بوڑھا ہو گیا ہوں، میرا چہرہ، ہاتھ اور ٹانگیں سوکھتی جا رہی ہیں مگر میرا کُب بڑھتا جاتا ہے، جیسے آندھی میں ریت کا ٹیلہ بڑھتا ہے۔ جس طرح ریت کا ٹیلہ نخلستان پر قبضہ کرنے کے لئے دوڑتا ہے، اس طرح میرا کب میرے وجود پر آہستہ آہستہ فتح پارہا ہے۔ میرے لئے کب کا بوجھ اٹھانا مشکل ہے مگر نا ممکن نہیں۔ میں اس کا عادی ہو چکا ہوں۔ مجھے اس سے پیار سا ہو گیا ہے۔ کُب میری شناخت بن گیا۔ اس دنیا میں کسی کا کب بھی تو نکلنا تھا، کسی کو اندھا بھی تو ہونا تھا، کسی کو بہرہ بھی تو ہونا تھا۔ جسمانی عیب ہم میں سے کسی کے حصے میں تو آنے تھے۔ کسی کے لئے دنیا اندھیری ہونی تھی، کسی کے لئے تمام آوازیں بے معنی ہونی تھیں اور کب کو بھی کسی نے تو اٹھانا تھا۔
اچھا ہوا کہ میں انسانوں کے کچھ کام تو آیا۔ نسلِ انسانی کا ایک جسمانی عیب تو اٹھایا، بچوں کی تین نسلوں کو شرارت اور مذاق کا سامان تو مہیا کیا۔ میں خوشی خوشی اپنی جھکی کمر پر کب کو اٹھائے بوڑھے کچھوے کی طرح گلیوں کی بھول بھلیوں میں رینگتا چلا جاتا ہوں، بچوں کو اپنے اوپر ہنسنے دیتا ہوں اور انھیں زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے کا موقع دیتا ہوں۔
اب میرا بھانجا میری انگلی پکڑ کر میرے ساتھ چلتا ہے۔ اس کی عمر نو دس سال ہے۔ ہم اکٹھے بازار جاتے ہیں۔ شیر شاہ کے تھڑے پر نسوار بنانے اکٹھے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ میری نسوار میں ایک مٹھی چونا جھونک دیتا ہے اور پہلی چٹکی سے میرے منہ میں زخم آ جاتے ہیں۔ ہم مسجد اکٹھے جاتے ہیں۔ جب میں نماز پڑھتا ہوں تو وہ میرے بار بار منع کرنے کے باوجود بھی میرے جوتے اپنی جھولی میں رکھ کر میرا انتظار کرتا ہے۔ جب ہم گلی میں گزرتے ہیں تو لڑکے ہم پر ہنستے ہیں۔ ہماری طرف اشارے کرتے ہیں، قہقہے لگا تے ہیں۔ میں سوچتا ہوں یہ لڑکے مجھ پر ہنس رہے ہیں یا میرے چھوٹے بھانجے پر؟ وہ مجھ پر ہنس رہے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن اگر۔۔ ۔۔
٭٭٭
گڑ ماما
پتہ نہیں لوگ اسے گڑ ماما اور اس کی بیوی کو گڑ مامی کیوں کہتے تھے۔
گڑ مامی کا اصل نام صغراں تھا۔ وہ چودھوان سے دس میل دور گاؤں جنڈی میں اپنے ماں باپ کیساتھ رہتی تھی۔ اس کا باپ چرواہا تھا۔ وہ دن کے وقت جوار کی اور رات کے وقت گندم کی روٹی کھاتے تھے۔ صغراں کے پاؤں شل اور چھوٹے تھے جیسے کسی بچے کے ہوں مگر اس کا اوپر والا دھڑ اور ہاتھ ٹھیک اور مضبوط تھے۔ اس کا رنگ کالا مگر چمکدار اور خوبصورت تھا۔
صغراں کے باپ شجا کا ایک دوست فریدو، چودھوان کا رہائشی تھا۔ شجا جب بھی سودا سلف لینے چودھوان آتا تو اپنے دوست کے پاس ضرور پھیرا لگاتا۔ فریدو کا ایک بیٹا تھا جس کا نام رمضان تھا۔
رمضان کے دونوں ہاتھوں اور پاوؤں میں چھ چھ انگلیاں تھیں اور وہ لنگڑا بھی تھا۔ جنڈی میں کال آیا، تالاب سوکھ گئے اور لوگ پانی والے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ شجا اپنی بیوی اور بیٹی کیساتھ اپنے دوست فریدو کے ہاں اٹھ آیا۔ فریدو کے گھر میں دو کچے کوٹھے تھے۔ انہوں نے ایک کوٹھا اپنے مہمانوں کو دے دیا۔
رمضان چونکہ معذور تھا اس لیے باپ نے اس کے ذمے صرف دو کام کیے تھے۔ صبح جنگل سے گدھے پر لکڑیاں لانا اور عصر کے وقت ندی سے پانی ڈھونا۔ صغراں کی ماں گھر کے دوسرے کام کرتی اور صغراں سارا دن چھپر کے نیچے بیٹھ کر کھجور کے پتوں سے چٹائیاں بناتی یا بان بنتی رہتی۔ اب شجا کھجور اتارنے کا کام کرنے لگا۔ اسے مزدوری میں پیسوں کے بجائے کھجوریں ملتی تھیں۔ جنہیں وہ بازار میں بیچتا اور جو کھجوریں بکنے سے رہ جاتیں انہیں وہ چارپائیوں پر ڈال کر دھوپ میں سکھاتے۔
رمضان لکڑیاں لانے اور پانی بھرنے کے بعد شجا کے گھر آ دھمکتا اور صغراں کیساتھ باتیں کرتا رہتا۔ وہ اس کے چھوٹے موٹے کام کرتا۔ اسے پینے کو پانی دیتا، بازار سے رنگ خرید کر دیتا اور کھجور کے پتے اٹھا کر دیتا۔
چھو ٹی عید سے ایک دن رہتا تھا۔ رمضان بے چین تھا، وہ لنگڑاتا ہوا کبھی صغراں کے گھر جاتا اور کبھی اپنے گھر چلا آتا۔ کبھی وہ بیٹھ جاتا اور کبھی صحن میں چکر لگانے لگتا۔ آخر دن کے ایک بجے جب اس کی اور صغراں کی ماں چھپر کے نیچے سو گئی تھیں اور صغراں کھجور کے رنگین پتوں سے چٹائی بن رہی تھی تو رمضان نے دائیں بائیں دیکھا، اپنی جیب سے مہندی کی پڑیا نکالی اور اس کی طرف بڑھا دی۔
"یہ لو۔ ”
"کیا ہے یہ؟”
” مہندی۔ ”
” کیوں ؟”
” کل عید ہے نا۔ ”
” تو پھر؟”
” ہاتھوں پر لگانا۔۔ ۔ میرے لیے لگانا۔۔ ۔ اور یہ یہ چوڑیاں بھی پہن لینا”۔ اسے اپنے کانوں سے دھواں نکلتا ہوامحسوس ہو رہا تھا۔ وہ خوف اور سراسیمگی چھپانے کیلئے فوراً وہاں سے چلتا بنا۔
صبح عید تھی۔ رمضان میٹھے چاول صغراں کی امی کو دینے گیا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سما سکا۔ صغراں کے ہاتھ مہندی سے رنگے ہوئے تھے اوراس کے کالی کلائیوں پر چوڑیاں کھنک رہی تھیں۔
چار مہینے بعد بارشیں ہوئیں جنڈی کے ٹوبھوں، جوہڑوں میں پینے کا پانی جمع ہو گیا تھا۔ شجا اور اس کا خاندان واپس اپنے گاؤں جانے کیلئے بوریا بستر باندھ رہے تھے۔ رمضان اوروں سے نظریں چرا کر اپنی محبوبہ سے ملنے گیا۔
"یہ۔۔ ۔ نشانی۔۔ ۔ رکھ لو۔ "رمضان نے صغراں کے ہاتھ میں چاندی کا چھلّا تھما دیا۔
” یہ رنگین چٹائی۔۔ ۔ میں نے تیرے لیے بنائی ہے۔ اس پر سونا، بیٹھنا۔ یہ تمہیں میری یاد دلائی گی۔ ” صغراں نے کہا۔
” میں اس پر کبھی نہیں بیٹھوں گا، نہ کبھی سوؤں گا، کیونکہ ایسا کرنے سے یہ گھس جائے گی”۔
"تیری مرضی۔۔ ۔ ہمارے گاؤں آؤ گے نا ؟”
"ہاں آؤں گا ”
کوئی ڈیڑھ ماہ بعد رمضان، صغراں کو ملنے جنڈی گیا اور پورے ایک ماہ تک ان کا مہمان رہا۔ وہ گدھے پر ان کا پانی بھرتا اور لکڑیاں لاتا۔ ایک دن جب صغراں کی ماں پڑوسیوں کے گھر گئی ہوئی تھی تو رمضان نے جیب سے چھنچھناتی پائیل نکالی۔
"صغراں میں چودھوان سے تمہارے لیے پائیل لایا ہوں !”
"پائیل ؟؟؟”
"ہاں، پائیل کی چھنچھناہٹ مجھے اچھی لگتی ہے۔ ہمارے گاؤں کی ساری لڑکیاں پہنتی ہیں ”
” مگر۔۔ ۔ میں۔۔ ۔ پائیل۔۔ ۔ ”
"کیوں تمہیں پائیل اچھی نہیں لگتی ؟؟؟”
"لگتی ہے۔۔ ۔ مگر۔۔ ۔ ” رمضان اس کی بات نہ سمجھ سکا۔
ایک دن اس کا باپ اسے لینے جنڈی آیا مگر وہ نہ مانا۔ آخر ایک ہفتہ بعد اسے ماں لینے آئی تو اس نے بڑھیاسے دل کی بات کہہ ڈالی۔
شادی کے ۰ ۳سال بعد رمضان اور صغراں درابن میں ایک کچی کوٹھڑی میں رہتے تھے۔ ان کے بچے نہ ہوئے۔ لوگ اب رمضان کو گڑ ماما اور اس کی بیوی کو گڑ مامی کہتے تھے۔ گڑ ماما صبح سویرے اپنی شل بیوی کو کندھے پر رکھ کر بازار لے جاتا، جہاں وہ دونوں عصر تک بھیک مانگتے۔ لوگ ان کے کالے کاسوں میں ٹماٹر، مالٹے، مٹھائی، پیسے اور چائے ڈالتے۔
گڑ مامی کی نظر کمزور ہو گئی تھی۔ رات کے وقت تو اسے کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ وہ نسوار رکھتی اوراس کے منہ سے ہر وقت رال ٹپکتی رہتی۔ اپنے خاوند کو خوش کرنے کیلئے اب بھی وہ اپنے چھوٹے اور شل پاوؤں میں دن رات پرانی، زنگلی پائیل پہنے رہتی۔
گڑ ماما کے بال سفید ہو چکے تھے۔ وہ پہلے سے کچھ زیادہ لنگڑا کر چلتا تھا۔ وہ حقہ پیتا تھا، نسواربھی رکھتا اور کبھی کبھار اسے پینے کیلئے بھنگ کی ایک آدھ منگری مل جاتی تو اسے بھی چڑھا لیتا۔ ان کے ہاں چھ سات کتے رہتے تھے جنہیں وہ اپنی بچی کچی روٹی دیتے تھے۔
ایک دفعہ ان کی کوٹھڑی کے اندر ایک کتیا نے بچے دیے جنہیں دیکھنے کے لئے محلے کے سارے بچے دن کے وقت ان کے ہاں جمع رہتے۔ جب پلے کچھ بڑے ہوئے تو سارا دن ان کی دیگچیوں، کٹوروں، تھالیوں میں منہ مارتے رہتے۔
شیرو درابن کا ایک مشہور کردار تھا۔ جوانی میں وہ بڑے بڑے ڈاکے ڈالتا تھا۔ اپنی کرتوتوں کی وجہ سے اس کی شادی نہ ہو سکی۔ وہ بڑھاپے کے کنارے منڈلا رہا تھا۔ اب وہ چھوٹی موٹی چوریاں کر کے گزارا چلاتا۔ ایک دن عشاء کی نماز کے وقت وہ سوجی، گڑ اور گھی لئے گڑ ماما کے آستانے پر آیا۔
"آج میں تمہیں اپنے ہاتھ کا بنا ہوا حلوہ کھلاؤں گا۔ ” اس نے اپنے سامان کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔
اس نے آگ پر کڑہائی چڑھا کر حلوہ بنایا۔ سب نے مل کر حلوہ کھایا۔ وہ رات گئے تک اپنے میزبانوں کو اپنی زندگی کے واقعات سناتا رہا۔
"گڑ ماما میرا گھر دور ہے اور سردی بھی بہت ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں یہاں سو جاؤں ؟”
” ہاں ہاں، کیوں نہیں۔۔ ۔ مگر ہمارے پاس تو صرف دو رضائیاں ہیں اور وہ بھی میلی اور پھٹی ہوئی "۔
"مجھے رضائی کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس اپنا موٹا دھُسا ہے "۔ وہ سب گول چولہے کے اردگرد زمین پر لیٹ گئے۔ بہت جلد میاں بیوی نیند میں خراٹے لینے لگے۔ شیرو نے جیب سے خنجر نکالا، گڑ مامی کے ازاربند کو خنجر سے کاٹا اور۔۔ ۔۔
گڑ مامی امید سے ہو گئی۔ اس کا وزن بڑھتا گیا۔ اب وہ صبح بھیک مانگنے بازار جاتے تو گڑ ماما کو دگنا وزن اٹھنا پڑتا مگر وہ خوش تھا۔ پھر ایک دن گڑ مامی کا بیٹا پیدا ہوا۔ گڑ ماما ایک ٹانگ پر ناچتا گلی میں آیا اور اعلان کیا” ہمارا بیٹا ہوا ہے ! ”
دیکھتے ہی دیکھتے ان کی کالی کوٹھڑی محلے کی بڑی بوڑھیوں سے بھر گئی۔ کوئی ننھے مہمان کیلئے کپڑے لا رہی ہے تو کوئی اس کی ماں کیلئے دیسی گھی اور چوزے۔ تین چار روز تک دن کے وقت ان کی کوٹھڑی میں میلہ لگا رہتا تھا۔ کچھ عورتوں نے کوٹھڑی کی صفائی کی، کچھ نے ان کے برتن دھوئے۔ ایک آدمی نے انہیں دو رضائیاں دیں۔ دوسرے نے انھیں پنگھوڑا خرید کر دیا۔
اب بھیک مانگنے گڑ ماما اکیلا جاتا۔
ان کے گھر عورتوں کی آمدورفت آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی۔ لیکن ایک بڑھیا باقاعدگی سے صبح ان کی کوٹھڑی میں آتی، تلوّں کے تیل اور گندھے ہوئے آٹے سے بچے کی مالش کرتی، اسے شیر گرم پانی سے نہلاتی، اور اسے صاف ستھرے کپڑے پہنا کر چلی جاتی۔ بچے کی پیدائش کو ایک مہینہ ہوا ہو گا۔ ایک رات گڑ مامی نے سوتے میں بچے کو کچل دیا اور ان کی کالی کوٹھڑی بے چراغ ہو گئی۔
اب میاں بیوی بھیک مانگنے اکٹھے جاتے تھے۔
کچھ ماہ بعد گڑ مامی سخت بیمار ہوئی، اس کا شوہر اسے کندھے پر اٹھائے طبیبوں اور پیروں کے پاس پھراتا رہا مگر وہ صحت یاب نہ ہوئی۔ پھر ایک رات وہ وقت چل بسی۔ گڑ ماما بجائے اس کے کے لوگوں کو اپنی بیوی کی موت کے بارے میں بتاتا۔ وہ ایک دن اور ایک رات تک اپنی مردہ بیوی کو دیکھتا اور روتا رہا۔ دوسرے دن اس کے رونے کی آواز پر ایک پڑوسی عورت ان کی کوٹھڑی میں آئی۔ پھر سارا محلہ ان کی کوٹھڑی میں جمع ہو گیا۔ انہوں نے فوراً قبر کا بندوبست کیا، میت کو غسل دیا مگر جب اسے قبرستان لے جانے کی باری آئی تو گڑ ماما اپنی مردہ بیوی کی چارپائی سے چمٹ کر بیٹھ گیا۔ "تم اسے کہیں نہیں لے جا سکتے۔ یہ میری جان ہے۔ میں اس کے بغیر اکیلا کیسے رہ پاؤں گا ؟میری ایک ہی تو دوست تھی دنیا میں۔ تم اسے کہیں نہیں لے جا سکتے "۔
"ہم تو اسے بڑے ڈاکٹر کے پاس لے جا رہے ہیں "۔ ایک آدمی نے اسے تسلی دی۔
لوگ جنازہ لے گئے اور گڑ ماما بدستور کوٹھڑی میں بیٹھا رہا۔ جب اسے پتہ چلا کہ لوگ اس کی بیوی کو دفنا آئے ہیں تو وہ اس کی قبر پر گیا اور کئی دن تک وہاں بیٹھا رہا۔ اس دوران محلے کے گدھوں، کتوں اور بلیوں نے اس کی کوٹھڑی میں بسیرا بنا لیا تھا۔ کوئی دس دن بعد جب وہ واپس اپنے ڈیرے پر آیا تو اس کے گھر کی تمام چیزیں گڈ مڈ پڑی تھیں۔ کچھ برتن تو کتے چرا کر اپنے مالکوں کے گھر لے گئے تھے۔ گڑ مامی کی موت کے بعد اس نے بھیک مانگنا چھوڑ دیا۔ محلے کے کچھ بھلے لوگ صبح شام اس کے کالے کاسے میں کھانا ڈال کر چلے جاتے۔
گڑ مامی کو رخصت ہوئے ایک مہینہ گزر گیا ہو گا۔ گڑ ماما نے اپنی گدڑی اور چھڑی سنبھالی اور اپنے آبائی گاؤں چلا گیا۔ جب وہ چھ مہینے بعد اپنے ڈیرے پر لوٹا تو اس کی کوٹھڑی کا تالا ٹوٹا ہوا تھا۔ اس کی زیادہ چیزیں چوری ہو گئی تھیں اور صرف وہ چیزیں پڑی تھیں جو انتہائی غلیظ یا بیکار تھیں۔ اس کا جی اب نہ بھیک مانگنے میں لگتا تھا، نہ حقہ پینے میں۔ کبھی کبھار وہ دن کو سویا رہتا اور بھیک مانگنے رات کے وقت جاتا جب بازار میں کوئی آدمی نہ ہوتا اور بعض اوقات وہیں بازار میں سو جاتا۔ وہ اکثر بھیک مانگتے مانگتے رو دیتا۔ لوگ اسے زیادہ پیسے دیتے مگر وہ پیسوں کو اپنے کپڑوں سے جھاڑ کر کوٹھڑی میں آ جاتا۔ اب کچھ لڑکے اور کبھی کبھار ایک آدھ بھکاری اس کے کاسے سے پیسے اٹھا کر چلتا بنتا۔
ایک دن وہ صبح سے رات تک ندی سے پانی بھرتا رہتا۔ ایک دفعہ اسے جنگل سے لکڑیاں لانے کا جنون چڑھا۔ وہ پورے دو مہینے تک لکڑیاں ڈھوتا رہا۔ پھر اسے پرانے کاغذ اور چیتھڑے چننے کی عادت پڑ گئی۔ وہ سارا دن بازاروں گلیوں میں پھرتا، کاغذوں اور چیتھڑوں سے جیب اور جھولی بھر کر لاتا اور کوٹھڑی میں جمع کرتا۔ پھر اسے پرانے ٹوٹے ہوئے مٹی کے برتن اکٹھے کرنے کا شوق چرایا۔ وہ کمہاروں کے آوؤں سے ٹوٹے برتن لاتا اور اپنی کوٹھڑی کے اندر اور باہر اکٹھا کرتا رہتا۔ پھر سب چھوڑ چھاڑ کروہ گڑ مامی کی قبر پر بیٹھ گیا۔ اس نے قبر کے اردگرد کھجور کی چھڑیاں گاڑیں ان پر رنگ برنگے چیتھڑے ٹانک دیے۔ مٹی کے ٹوٹے برتنوں میں پرندوں کیلئے پانی اور دانہ رکھا۔ دن میں وہ ساٹھ ستر دفعہ قبر کے گرد جھاڑو لگاتا، قبر کے ہر پتھر کو بیسیوں دفعہ قمیص پر رگڑ کر صاف کرتا اور واپس اپنی جگہ پر رکھ دیتا۔ وہ دن کے وقت بھی قبر پر چار پانچ دیے جلا کر بیٹھا رہتا۔
قبر پر ایک مہینہ رہنے کے بعد وہ دوبارہ اپنی رہائش گاہ پر آیا۔ اس کی کوٹھڑی میں ٹوٹے برتنوں کے انبار میں کتیا نے بچے دیے ہوئے تھے۔ کوئی پلا ٹوٹی اوکھلی میں سویا ہوا تھا تو کوئی ٹوٹی ماٹی یا پرات میں۔ جب گڑ ماما چیتھڑوں، کاغذوں، ٹوٹے برتنوں سے بھری کوٹھڑی میں داخل ہوا تو کتیا نے اس پر حملہ کر دیا۔ اسے پنڈلی پر دو جگہوں پر سخت کاٹا مگر اس نے کتیا کو کچھ نہ کہا۔ وہ چیتھڑوں اور کاغذوں کے ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ دوسرے دن وہ روٹی لینے پڑوسیوں کے گھر گیا۔ واپس آ کر کتیا اور پلوں کے ساتھ مل کر اس نے روٹی کھائی۔ شام کو وہ پڑوسیوں کے گھر سے ٹھیکری میں سلگتا ہوا اپلا لایا اور چولہے میں آگ جلا دی۔ وہ آگ تاپتا رہا پھر چولہے کے قریب سو گیا۔ کتیا اور پلے بھی آگ کی تپش میں مزے سے چولہے کے اردگرد لیٹے رہے۔
کئی دنوں تک گڑ ماما نظر نہ آیا۔ کچھ پڑوسی یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ واپس اپنے گاؤں چلا گیا ہو گا اور کچھ یہ کہہ رہے تھے کہ وہ اپنی بیوی کی قبر پر بیٹھا ہو گا۔
ایک دن فیضو اپنا گدھا تلاش کرتے ہوئے گڑ ماما کی کوٹھڑی کی طرف آ نکلا۔ اس نے دیکھا کے کوٹھڑی کا دروازہ اندر سے بند ہے اور جلا ہوا ہے۔ اس نے گلی سے دو تین آدمیوں کو بلایا۔ انہوں نے دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا۔ دروازہ خود بخود اندر کی طرف گر گیا۔
کاغذ، چیتھڑے، رضائیاں سب خاکستر ہو چکے تھے۔ کوٹھڑی ناکارہ آوا لگ رہی تھی۔ ٹوٹے برتنوں اور راکھ کے ڈھیر میں گڑ ماما کی لاش جلی پڑی تھی۔ فیضو نے اس کے بازو کو ہاتھ لگایا تو کڑک کر کے ٹوٹ گیا جیسے وہ جلے ہوئے دروازے کا حصہ ہو۔
٭٭٭
گونگی قبریں
” اپریل ظالم ترین مہینہ ہے۔ ” یہ بچھڑوں کی یاد دلاتا ہے، بھولی کہانیاں تازہ کرا دیتا ہے۔ اپریل پرانے زخموں کو ہرا کر دینے والی رُت ہے۔ یہ رت نسیاں کی سکون بخش برف کو پگھلا کر انسان کو یادوں کی تپتی دھوپ میں بٹھا دیتی ہے۔
وادی میں برف پگھل چکی ہے لیکن پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کا پھٹا ہوا کفن چمک رہا ہے۔ ہر طرف ہریالی ہے۔ خوشگوار ہوا چل رہی ہے۔ شگوفے زخموں کی طرح پھوٹ رہے ہیں۔ کشمیر میں لنگڑاتی زندگی چھوٹے بچے کی طرح اپنے پاوؤں پر چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وقت کی سوئی دھیرے دھیرے زخموں کو سی رہی ہے۔ امید اور عزم زندہ اور جواں ہیں۔ ہوا میں ہر طرف تعمیر نو کی خوشبو ہے۔ پرندے ہوا میں مصروف ہیں اور زمین پر انسان اور چیونٹیاں !
دو مریل کتوں کے بھونکنے کے شور میں، میں ایک بوڑھی، کمان بنی عورت سے پوچھتا ہوں ” ماسی عمر دراز کا گھر کہاں ہے ؟”
"یہاں ہے بیٹا، سامنے، گلی کے سرے پر۔ ”
” دائیں طرف؟”
"نہیں، بائیں طرف۔ ”
"سبز دروازہ؟”
” سر! سر! آپ کس کے گھر کا پوچھتے ہیں ؟ "ایک خوبصورت بانکی لڑکی ہرنی کی طرح دوڑتی ہوئی آتی ہے۔ اس کی سفید کومل کلائی پر نفیس کالی گھڑی ایسے جمی ہوئی ہے جیسے کسی ہاتھی دانت کے نازک مینار سے چھوٹا کالا سانپ لپٹا سردیوں کی پیلی دھوپ میں اونگھ رہا ہو۔ اس کے روشن نچلے ہونٹ پر ایک چھوٹا سا زخم ایسے دہک رہا ہے جیسے جواں شمع کا گھائل شعلہ جلتا ہے۔
"آپ مجھے جانتی ہیں ؟” میں لڑکی سے پوچھتا ہوں۔
"جی سر۔ ”
"کیسے ؟ میں تو یہاں نیا آیا ہوں۔ آپ نے مجھے کہاں دیکھا ہے ؟”
"اسکول میں سر ! آپ ہمارے نئے انگلش ٹیچر ہیں نا!آج آپ نے ہمیں انگریزی پڑھائی تھی۔ میرا نام ثانیہ ہے۔ میں نویں جماعت میں پڑھتی ہوں۔ ”
میں اس لڑکی کو کلاس میں کیوں نہیں دیکھ پایا تھا؟ شاید یہ سب سے آخری ڈیسک پر بیٹھی تھی اور ہاں آج اسکول میں بجلی بھی تو نہیں تھی اور آسمان پر بادل بھی تھے۔
” سر آپ کو عمر دراز سے کیا کام ہے ؟”
"کسی نے بتا یا ہے کہ اس کے پاس کرائے کے لئے گھر خالی ہے۔ ”
"ہاں اس کے پاس خالی گھر ہے۔ سر آپ کا گھر کہاں ہے ؟”
"میں نعمان پورہ سے آیا ہوں۔ ”
تین دن بعد میں اپنی بوڑھی ماں اور بہن کے ساتھ نئے گھر شفٹ ہو جاتا ہوں۔ اس دن بہت سی عورتیں اور لڑکیاں میری ماں اور بہن کو ملنے آتی ہیں اور دیر تک بیٹھی رہتی ہیں۔ ثانیہ مراد بھی آتی ہے اور معصوم آنکھوں سے میری ماں کو دیکھتی رہتی ہے جو کہانیوں کے انداز میں باتیں کرتی ہے۔
لڑکیاں بھی عجیب مخلوق ہیں، جذبات کی ڈھیریاں، نفاست کی ڈلیاں، با توں کی گٹھڑیاں، وہ شور کرتی چڑیوں کے پھڑ پھڑاتے جھنڈ کی طرح کمرۂ جماعت میں داخل ہوتی ہیں۔ کمرے میں پہنچنے پر اپنی بڑی کالی چادروں کو نفاست سے لپیٹ کر کرسیوں کی پشت پر رکھ دیتی ہیں۔ سروں پر سفید دوپٹے لیتی ہیں۔ بیگوں سے بڑے پیار سے کتابیں نکالتی ہیں۔ پنسلوں کو احتیاط سے گھڑ کر برادہ اپنے اپنے بیگوں کی جیبوں میں ڈالتی ہیں۔ ہلکی ہلکی پھونکیں مار کر اپنی انگلیوں اور شاپنروں کو صاف کرتی ہیں۔ پھر ایک دوسرے سے سر ملا کر ہولے ہولے میٹھی میٹھی باتیں کرتی ہیں۔
ان لڑکیوں کے کتنے دشمن ہیں، زمانہ کتنا بیری ہے ان کا! یہ کتنی غیر محفوظ ہیں ! میں سوچتا ہوں۔ بظاہر خوش و خرم اور پر سکون نظر آنے والی ان لڑکیوں کے لا شعور میں خوف کی کتنی موٹی تہیں جمی ہوئی ہیں۔ کچھ لڑکیوں کی کلائیوں میں نظر بد سے بچنے کے لئے کالا دھاگا ہے۔ جنوں بھوتوں کے سایوں سے بچنے کے لئے کچھ کے گلوں میں تعویذ جھول رہے ہیں۔ صبح ان کی مائیں ان کا ما تھا چوم کر،دعاؤں کے ساتھ بھوت پریت، نظر بد، دیوانے عاشقوں اور نا گہانی حادثوں سے بھری دنیا میں دھکیل دیتی ہیں۔ چھٹی کے وقت ان کی نظریں گھڑی کی سوئیوں پر ٹک جاتی ہیں اور وہ ان کی بخیریت واپسی کا بے قراری سے انتظار کرتی ہیں۔ اگر بیٹیوں کو آنے میں تھوڑی سی بھی دیر ہو جائے تو ماؤں کے ماتھوں پر پسینہ آنے لگتا ہے۔ ان کے کلیجے الٹنے لگتے ہیں، رگوں میں بل آنے لگتے ہیں۔
ثانیہ مراد جب بھی کسی کام سے یا پانی پینے کمرۂ جماعت سے باہر جاتی ہے تو اپنی ساتھی لڑکی کے کندھے سے کندھا ملا کر چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتی ہے۔ ان کے قدموں کی آہٹ تو سنائی نہیں دیتی مگر ان کے کپڑوں کی دل آویز سرسراہٹ آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ریشم کے کئی تھان ہوا میں لہرا رہے ہوں۔ تھوڑی دیر بعد وہ مسکراتی ایک دوسرے کو ہلکے ہلکے کہنیاں مارتی واپس آتی ہیں، چہکتے ہوئے اپنے ڈیسک پر پھولوں کی ٹوکریوں کی طرح گر جاتی ہیں۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے وہ ڈیسک کے سخت تختے سے ٹکرا کر پتی پتی ہو جائیں گی۔
میری کلاس کی لڑکیاں بالکل چپ نہیں رہتیں۔ وہ ہر وقت شریر چڑیوں کی طرح چڑ چڑ کرتی رہتی ہیں۔ ایک بوڑھے پادری کی طرح میں ڈائس پر کہنیاں جمائے سوچتا ہوں، شاید انسان کو بولنا عورت نے سکھایا تھا۔ جب انسان غاروں میں رہتا تھا تو تاریک اور خاموش را توں میں عورت مردوں کو قصے سنا کر سلا دیتی تھی۔ شکاری دور میں مرد شاید عورت کو پیچھے اس لئے چھوڑ جاتے تھے کہ وہ بولنے سے باز نہیں آتی تھی اور اپنی جھک جھک سے شکار کو خبردار کر دیتی تھی۔ الف لیلہ کے سارے قصے بھی تو عورت کی زبان سے سنائے گئے ہیں۔
میں کلاس سے نکلنے کی تیاری کرتا ہوں۔ لڑکیاں کجلی آنکھیں گھما کر اور گالوں میں گڑھے بنا کر ایک دوسرے سے پیاری پیاری باتیں کرتی ہیں۔ لڑکے کوؤں کی طرح بھدا شور کرتے ہیں۔ کھردرے ہاتھوں اور بالوں سے بھرے بازوؤں کو بے ہنگم انداز میں ایسے اوپر نیچے کرتے ہوئے جیسے گدھ اڑنے کی تیاری میں پروں کو پھڑ پھڑا رہے ہوں۔ لڑکے اودھم مچاتے ہیں۔ ان کے ڈیسکوں اور بنچوں سے ایسی آوازیں آتی ہیں جیسے کباڑ خانے میں مزدور کام کر رہے ہوں۔
پانچویں اور چھٹے دن بھی ہمارے نئے آستا نے پر عورتوں اور لڑکیوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ کوئی انڈے لا رہی، کوئی دہی اور دودھ، تو کوئی گھریلو سادہ مٹھائی۔ ثانیہ بھی آتی ہے۔ وہ کٹورے میں مرغی کا سالن لائی ہے۔ سالن میں مرغی کی ایک ٹانگ ایسے پڑی ہے جیسے چولھے کے اوپر سے چھلانگ لگاتے وقت مرغی کی ایک ٹانگ دیگچی میں گر گئی ہو اور باقی کی مرغی فرار ہو گئی ہو۔ کبھی میں خود کو بہت خوش قسمت تصور کرتا ہوں، کیونکہ سر شام ہر روز کھانے کی ڈھیر ساری چیزیں مجھے مفت مل جاتی ہیں اور بعض اوقات میں خود کو بھکاری سمجھتا ہوں، جس کی میلی گدڑی پر لوگ اپنی بچی کھچی چیز پھینک رہے ہیں۔
اگلے دن ثانیہ اپنی کلاس فیلو ریحانہ کے ساتھ ہمارے گھر آتی ہے۔ دونوں آتے ہی کام میں جت جاتی ہیں۔ ریحانہ جھاڑو دینے کے بعد چلی جاتی ہے مگر ثانیہ چھوٹے موٹے کام کرتی رہتی ہے۔ کام ختم کرنے کے بعد میں اسے چائے پینے کیلئے کہتا ہوں۔ وہ میرا حکم بجا لانے کے لے ادب سے میرے سامنے بیٹھ کر چائے پینے لگتی ہے۔ چائے کی پیالی ہلکے سے اس کے نازک سندر ہونٹوں سے مس کرتی ہے اور چائے بے آواز طریقے سے اس کے ہونٹوں میں غائب ہو جاتی ہے، جیسے گلاب کی پتیوں میں شبنم غائب ہوتی ہے۔ میں اس سے اس کے گاؤں کے بارے میں پوچھتا ہوں اور وہ سکڑی، ہلکے سے جھولتی، آنکھیں اٹھاتی کبھی نیچے کرتی، مؤدب طریقے سے میرے فضول سوالوں کے جواب دیتی ہے۔
کلاس میں سبق کے دوران میں ثانیہ کو تکتا ہوں۔ جب وہ نشیلی آنکھیں اٹھا کر میری طرف دیکھتی ہے تو میں اپنی آنکھیں دوسری طرف پھیر لیتا ہوں۔ پھر وہ نظریں نیچے کر لیتی ہے اور میں اسے پھر سے تکنا شروع کرتا ہوں۔ پھر وہ نظریں اوپر اٹھاتی ہے اور میں نیچے دیکھنے لگتا ہوں۔ کبھی کبھی میری اور ثانیہ کی نظریں ایک دم ٹکراتی ہیں۔ اک سریلا شور اٹھتا ہے۔ رنگین دھول اور خوشبودار دھواں اڑتا ہے، اس کی قاتل نگاہوں کے سامنے میں خود کو بے بس پاتا ہوں۔ میں اس کی طلسماتی آنکھوں سے نکلنے والی غیر مرئی ٹھاٹھیں مارتی لہروں میں تنکے کی طرح بہتا چلا جاتا ہوں۔
ایک دن تفریح میں ثانیہ میرے پاس آتی ہے اور رنگ برنگی ٹافیوں سے بھری مٹھی میرے سامنے کھولتی ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے ٹافیاں اس کی گوری چٹی ہتھیلی سے تتلیاں بن کر اڑ جائیں گی اور وہ خود پری بن کر ان تتلیوں کو پکڑنے کے لئے ہوا میں اڑ جائے گی۔ مدھر موسیقی کا مرغولہ کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ تتلیوں کے رنگ برنگے پروں سے بنے تاج محل فضا میں تیرتے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ وہ ٹافیوں سے مٹھی بھرے، مسکراتی اسی طرح میرے سامنے کھڑی رہے اور میں اسے دیکھتا رہوں۔ پھر اس کی مٹھی سے ایک ٹافی اٹھاتا ہوں اور جیب میں محفوظ کر لیتا ہوں۔
ایک لڑکا ریحان اکثر ثانیہ سے بولتا رہتا ہے۔ اسے کاپی دیتا یا اس سے لیتا ہے۔ اس سے پین اور پنسل کا تبادلہ کرتا رہتا ہے۔ مجھے اس لڑکے پر غصہ آتا ہے۔ میں اسے سمجھانے کے لیے سزادیتا ہوں حالانکہ اس نے کوئی خاص غلطی بھی نہیں کی ہے۔ مگر وہ پھر بھی نہیں سمجھتا اور مسلسل ثانیہ سے بولتا ہے، چیزیں دیتا اور لیتا ہے۔ حتیٰ کہ ٹافیوں اور بسکٹوں کا تبادلہ کرتا ہے۔ میں اسے علیحدہ میں سمجھاتا ہوں: "ریحان تم لڑکیوں کو تنگ کیوں کرتے ہو؟ تم یہاں صرف پڑھنے کے لیے آتے ہو۔ ”
” سر میں تو کسی لڑکی کو تنگ نہیں کرتا۔ ”
"جھوٹ مت بولو! تم ثانیہ کو کیوں تنگ کرتے ہو؟”
"ثانیہ۔۔ ۔ وہ۔۔ ۔ سر۔۔ ۔ میری بہن ہے !”
ریحان۔۔ ۔ لوہے میں ڈوبا، خون آلود سپاہی۔۔ ۔ ایک دم سرخ میدان جنگ سے اٹھ کر ماں کی گود میں گر کر انگوٹھا چوسنے لگتا ہے۔ مجھے اس سے دودھ کی بو آنے لگتی ہے۔
میں ہر روز شیو بنا کر، صاف ستھرے کپڑے پہنتا ہوں، ولایتی پرفیوم لگا کر لش پش ہو کر ڈیوٹی پر آتا ہوں۔ ثانیہ کی ہو شربا آنکھیں مجھے دوڑا کر سکول لے آتی ہیں۔ میں سارا دن مضبوط گھوڑے کی طرح کام کرتا ہوں۔ ثانیہ سے نظروں کی آنکھ مچولی ہوتی ہے اور اس چالاکی اور مہارت سے کہ دوسرے لڑکے لڑکیوں کو شک بھی نہیں گزرتا۔ سبق کے خاتمے پر کبھی کبھار اپنے اسٹوڈنٹس کو شرافت، حیا اور ایمانداری پر چھوٹاسا لیکچر دیتا ہوں۔
جب چھٹی کی گھنٹی بجتی ہے تو مجھے بخار سا آنے لگتا ہے۔ مٹیالی مکڑیاں مجھے نقاہت کے جال میں جکڑتی جاتی ہیں۔ نیم مردہ ریشم کے کیڑے کی طرح مجھے اپنا آپ کو کون کے کفن میں لپٹا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ سورج دوبارہ مشرق کی طرف چلا جائے، دوبارہ صبح ہو جائے، لڑکے لڑکیوں کے چہرے شبنم میں دھلے ہوئے پھولوں کی طرح تازہ اور شگفتہ ہو جائیں۔ دوبارہ سکول لگنے کی سریلی گھنٹی بجے۔ میری منڈھی ہوئی داڑھی کی ننھی سر مئی کونپلیں جلد میں جذب ہو جائیں اور میں دوبارہ نویں جماعت کو پڑھانے میں جت جاؤں۔
میرا ایک ہم کار داؤد جو نویں جماعت کو ریاضی پڑھاتا ہے، مجھ سے زیادہ خوبصورت اور اسمارٹ ہے۔ ایک دن وہ اسکول نہیں آتا اور ثانیہ بھی اسکول نہیں آتی۔ مجھے سارا دن یہ غم ڈستا رہتا ہے کہ داؤد اور اس کے درمیان کوئی سمجھوتا ہے۔ اس نے ثانیہ کو فون پر بتا دیا ہو گا کہ وہ اسکول نہیں آ رہا۔ ثانیہ کو داؤد کے بغیر اسکول سونا سونا لگتا ہو گا، اس لیے وہ بھی اسکول نہیں آئی۔ میری نیندیں اچاٹ ہو جاتی ہیں، اور کئی دن تک میں پریشانی کے بھنور میں رہتا ہوں۔ میں ثانیہ کو سزادے کر سبق سکھانا چاہتا ہوں مگر مجھے کوئی بہانہ نہیں ملتا۔ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ داؤد ثانیہ کو کتابوں کے ساتھ سکول بیگ میں بند کر کے گھر لے جاتا ہے۔ گھر پہنچ کر وہ اسے ایک کتاب میں رکھ کر بھول جاتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد میں اس کتاب کو کھولتا ہوں اور ثانیہ کو پرانے پھول کی طرح کاغذی اور سوکھا ہوا پاتا ہوں۔ وہ پھِدّی کی طرح بولتی ہے اور تتلی کی طرح اڑ جاتی ہے۔ میں کئی دنوں تک بے حال رہتا ہوں، میری بھوک جاتی رہتی ہے۔ میرا معدہ الٹ جاتا۔ آخر ایک دفعہ جب میں ثانیہ اور دوسری لڑکیوں کو داؤد کے ٹیچنگ میتھڈ کا مذاق اڑاتے سنتا ہوں تو بہت خوش ہوتا ہوں، میرا الٹا ہوا معدہ ایک خوشگوار جھٹکے سے سیدھا ہو جاتا ہے۔ میرے پیٹ میں بھوک کی پھلجھڑیاں چھوٹنے لگتی ہیں۔ ثانیہ رجسٹر میں لکھ رہی ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے وہ کچن میں کھانا پکا رہی ہو، اس کا گھومتا ہوا پین چمچہ بن جاتا ہے۔ اس کے رجسٹر کے ورق سے بھاپ اٹھنے لگتی ہے۔ کلاس روم کھانے کی خوشبو سے بھر جاتا ہے۔
ایک دفعہ ثانیہ پورے تین دن تک سکول نہیں آتی۔ میں بے قرار رہتا ہوں۔ مارے شرم کے کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا کہ وہ کہاں گئی ہے۔
تین دن بعد۔۔ ۔ ایک لمبی قیامت خیز جدائی کے بعد۔۔ ۔ جبکہ میں خود کو بوڑھا محسوس کر رہا ہوں۔ ثانیہ جب سکول آتی ہے تو اس کے سفید ہاتھوں پر مہندی سے لمبی اور نازک بیلیں بنی ہوتی ہیں، اس کی گوری چاندی جیسی کلائیوں پر رنگ برنگی چوڑیاں کھنک رہی ہیں، اس کے چمکدار کالے بال کسی اور طرح سے گندھے ہوئے ہیں اور ان میں رنگ برنگی چھوٹی چھوٹی کلپیاں جگنوؤں کی طرح چمک رہی ہیں۔ آج وہ ایسے لہک لہک کر بول رہی ہے جیسے بلبل بہار کی آمد پر بولتی ہے۔ وہ اپنی لمبی سفید انگلیوں کو سنہری مچھلیوں کی طرح ہوا میں تیراتی ہے، خوبصورت آنکھوں کو بنٹوں کی طرح گھما کر لڑکیوں کو شادی، دلہن، نئے کپڑوں اور زیورات کے بارے میں بتا رہی ہے۔
میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی کرسی اس کے ڈیسک کے قریب رکھ لوں، اس کی خوشبو کے حلقے میں بیٹھ جاؤں اور اس کی میٹھی میٹھی باتیں سنوں مگر میں پڑھانے کا عزم رکھتا ہوں۔ میں کتاب لیے ڈیسکوں کی قطاروں کے درمیان لنگڑے، شب گرفتہ بھنورے کی طرح بھنبھناتا ہوں۔ لڑکیوں کے سر کتابوں سے اٹھ کر ثانیہ کے سر سے جڑ جاتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے کئی تتلیاں ایک پھول پر بیٹھ گئی ہوں۔ میٹھے، نقرئی قہقہے اڑتے ہیں۔ پھولوں کے بستروں میں سو کر اٹھنے والی پریوں کی طرح ثانیہ کے کپڑوں میں لگے پرفیوم کی مہک انگڑائیاں لیتی ہے۔ میں اس خوشبو کوسونگھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لنگڑا بھنورا پھول کی پتی سے ٹکرا کر بے ہوش ہو جاتا ہے۔ مجھے اپنا آپ صفحہ ہستی سے مٹا ہوامحسوس ہوتا ہے۔ میرا وجود ٹھنڈا پانی بن کر بہہ جاتا ہے۔ کلاس میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ میں کئی ہزاریاں عالم نسیاں میں گزار تا ہوں۔ پھر میں خود کو snail کی طرح رینگتا محسوس کرتا ہوں۔ لڑکوں لڑکیوں کی بھنبھناہٹ میرے سُن کانوں کو کریدتی ہے۔ میں خود کو ثانیہ مراد کے قدموں سے قطرہ قطرہ چنتا ہوں۔ میں اپنے ہاتھوں، کانوں اور ناک کو اپنی اپنی جگہ ٹانکتا ہوں، کھوپڑی کے کھوکے کی بھول بھلیوں میں بھیجے کے گلابی گچھوں کو ایڑی سے دبا کر اپنی جگہ پر بھر تا ہوں۔ رگوں کی وائرنگ کو دوبارہ فٹ کرتا ہوں، ہڈیوں کے ڈھانچے پر گوشت منڈھ کر اوپر سے بھوری چمڑی کا لیپ کر دیتا ہوں۔ رو بوٹ کی طرح میرے جسم پر کئی قمقمے جلنے لگتے ہیں۔ میرا انگ انگ زندگی کی تپش سے چیخنے لگتا ہے۔ میں دوبارہ سبق پڑھانا شروع کرتا ہوں۔ سبق کے دوران دو تین دفعہ میں ثانیہ کو ڈانٹتا ہوں۔
” ثانیہ باتیں مت کرو، سبق کو دیکھو!”مگر وہ چہکتی رہتی ہے۔ پھلجھڑی ایک دفعہ آگ پکڑ لے تو پھر اسے کون روک سکتا ہے۔ میں کتاب لئے کلاس روم میں کولھو کے بیل کی طرح گھومتا رہتا ہوں۔ میری کتاب کے حروف اڑ جاتے ہیں۔ مجھے اب وہ زیورات اور مہندی کے ڈیزائنوں والی کتاب لگتی ہے۔ میں سبق پڑھاتے وقت تین چار جگہوں پر غلطی کرتا ہوں۔ ایک دفعہ دو سطریں چھوڑ جاتا ہوں۔ دوسری دفعہ ایک لفظ کا غلط معنی کرتا ہوں اور تیسری دفعہ سبق کے درمیان ایک ایسا جملہ کہہ دیتا ہوں جس کا سبق سے کسی طور کوئی تعلق نہیں بنتا۔ شاید وہ جملہ مہندی یا چوڑیوں کے بارے میں تھا۔
"دلہن کے ہاتھوں پر مہندی تو اللہ۔۔ ۔ اس کے زیور۔۔ ۔ بھاری کڑھائی والا نیلا دوپٹہ۔۔ ۔ ”
جوں جوں ثانیہ دلہن کو میک اپ کراتی جاتی ہے۔ میرے خیالوں میں وہ خود دلہن بنتی جاتی ہے۔ گہنے پہنتی جاتی ہے، اس کے دوپٹے پر باریک کیسری بیلیں اگتی جاتی ہیں اور اس کا خوبصورت چہرہ گھونگھٹ میں چھپتا جاتا ہے۔
میں مہینے میں ایک بار ثانیہ سے پنسل، ربر یا بال پوائنٹ مانگتا ہوں اور انہیں اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیتا ہوں۔ کیا وہ میری اس حرکت کو بھانپ گئی ہے۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
مونہہ میں پین ڈال کر سوچنا اور بورڈ کی طرف دیکھنا اس کی عادت ہے۔ ایک دن وہ لیک پین کو مونہہ میں ڈالے رہتی ہے۔ نیلی روشنائی اس کے سامنے والے دانتوں کی رنگتی رہتی ہے۔ جب وہ اپنی کاپی چیک کرانے میرے پاس آتی ہے تو اس کے سامنے والے دانت نیلم کے بنے ہوئے لگتے ہیں۔
جس دن ثانیہ اسکول نہیں آتی تو مجھے سکول اجڑا اجڑا نظر آتا ہے۔ میری طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ میں دل لگا کر نہیں پڑھاتا۔ شاگردوں کا بولنا اور سوال پوچھنا مجھے بہت برا لگتا ہے۔ مجھے ان کی شکلیں بری لگتی ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے شاگردوں کو چھت سے الٹا لٹکا کر پیٹوں۔ کلاس روم کی دیواروں پر مجھے کائی جمی ہوئی لگتی ہے۔ میری ناک میں پھپھوندی لگی کھمبیوں کی عفونت چڑھ جاتی ہے اور میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ سکول کی عمارت مجھے دشمن کی خوفناک چھاؤنی لگتی ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ اسے ڈائنا مائٹ سے اڑا دوں۔ بوڑھے پرنسپل کی عینک توڑ دوں اور اپنے ہم کار اساتذہ کو ذلیل کر کے نوکری سے نکال دوں !
کام نہ کرنے پر میں لڑکوں کو سزا دیتا ہوں مگر لڑکیوں کو نہیں مارتا۔ ایک دن میں لڑکیوں کو بھی مارتا ہوں۔ ثانیہ کو بھی تین چھڑیاں لگاتا ہوں۔ وہ مار کھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مجھ سے غصے اور تیزی میں چھڑی اس کی کلائی پر لگتی ہے۔ اس کی چوڑیاں چھڑنگ کر کے ٹوٹتی ہیں۔ ٹوٹے شیشوں کی رنگیں آتش بازی ہوتی ہے۔ اک دلآویز شور ہوتا ہے اور کرچیوں کی ننھی آبشار فرش پر گرتی ہیں۔ پھر یکایک خاموشی در آتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے کالے حاشیوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔ ٹوٹی چوڑیوں کی کرچیاں اس کی کلائی کو زخمی کر دیتی ہیں۔ مجھے اپنے آپ جلاد لگتا ہے۔ میں اپنی کرسی پر چلا جاتا ہوں اور وہ چاک کو پیس کر اپنے زخموں پر لگا تی ہے۔ معصوم میمنے کی طرح مجھے آبدیدہ آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ چھٹی کے بعد جب سب لڑکے لڑکیاں کلاس روم سے نکل جاتی ہیں تو میں ثانیہ کے ڈیسک کے پاس جاتا ہوں۔ چوڑیوں کے رنگ برنگے ٹکڑوں کو چنتا ہوں اور چوم کر جیب میں ڈال لیتا ہوں۔ مجھے اپنا آپ صدیاں غار میں گزارنے والے صوفی کی طرح لگتا ہے۔ میرے گلے میں لمبی تسبیحیں اور پتھریلے منکوں کے ہار کھنکھناتے ہیں۔ میں ایک نروان یافتہ سادھو کی طرح انسانی آبادی کی طرف چل پڑتا ہوں۔
اسی دن شام سے ذرا پہلے ثانیہ ہمارے گھر آتی ہے۔ گھر کے کام میں اماں کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ سفید ہاتھوں پر کالی راکھ لگا کر برتنوں کو رگڑتی ہے۔ تیزابی راکھ اس کی کلائی کے زخموں کو چاٹتی ہے۔ کبھی کبھار بھیگی آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھتی ہے اور پھر نظریں جھکا کر ہلی ہلکی سسکیاں لینے لگتی ہے۔
ایک دن بوڑھے پرنسپل کو مجھ سے زیادہ قابل ٹیچر مل جاتا ہے اور وہ چٹکی بجا کر مجھے اسکول سے ایسے باہر پھینک دیتا ہے جیسے کوئی چڑ چڑی بڑھیا کسی شریر مرغ کو ٹانگ سے پکڑ کر شریف مرغیوں کے دڑبے سے نکال دیتی ہے۔ میں گاؤں میں آوارہ گردی کرتا ہوں۔ دل میں منصوبے بناتا ہوں۔ میں کنجوس پرنسپل کو گولی مار دوں گا۔ سکول کو بم سے اڑا دوں گا۔ اگر میرے پاس پیسے آ جائیں تو ایک ہفتے کے اندر اندر ایسا شاندار تعلیمی ادارہ کھولوں گا جس میں بچوں سے فیس کم لی جائے گی اور استادوں کو تنخواہ دگنی ملے گی۔ اس طرح لوبھی پرنسپل کی تعلیم کے نام پر تجارت کو ناکام بنا دوں گا۔ میں گلیوں میں مٹر گشت کرتا ہوں۔ کبھی دکان والے کے پاس بیٹھ کر سگریٹ پھونکتا ہوں یا پھر اپنے پڑوسی فیضو کے کھیت میں چلا جاتا ہوں۔ وہ مجھے کیڑے مار دواؤں میں ملاوٹ کی لعنت پر بھاشن دیتا ہے۔ یکا یک زمین ہلتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کی میرا سر چکرا گیا ہے۔ ساتھ ہی عمارتوں کے گرنے کی آوازیں آتی ہیں۔ ہر طرف دھول کے بادل اٹھنے لگتے ہیں۔ میں گاؤں پر نظر ڈالتا ہوں، مجھے ایسے لگتا ہے جیسے کسی جنگی فلم کا خوفناک سین دیکھ رہا ہوں۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا ہے۔
میری دائیں طرف میرا کرائے والا گھر ہے اور بائیں طرف سکول۔ میں یکایک سکول کی طرف دوڑتا ہوں۔ پھر مجھے بوڑھی ماں اور بہن یاد آتی ہیں اور میں گھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوتا ہوں مگر پھر مجھے ثانیہ کی آنکھیں یاد آتی ہیں۔ میں بلا تامل سکول کی طرف بھاگتا ہوں۔ جہاں سکول تھا اب وہاں اینٹوں اور کنکریٹ کا ایک بے ترتیب ڈھیر پڑا ہے۔ چند بچے اور دو تین حواس باختہ استاد ملبے کے ڈھیر کے ارد گرد چیخ رہے ہیں۔
اینٹوں اور کنکریٹ کے ڈھیر سے رونے اور چیخنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ ثانیہ کس کمرے اور کس جگہ پر بیٹھتی ہے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔ میں اس جگہ کی طرف بڑھتا ہوں۔ آٹھ نو اینٹوں اور کنکریٹ کے ٹکڑوں کو ادھر ادھر پھینکتا ہوں مگر گری ہوئی کنکریٹ کی چھت کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو ہٹانا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ کمرے سے دوسری آوازوں کے ساتھ ساتھ ثانیہ کے چیخنے کی آواز بھی آ رہی ہے۔
” ثانیہ میں آ گیا ہوں، تم ڈرو نہیں ! میں پہنچ گیا ہوں نا، تھوڑی دیر میں میں تمھیں یہاں سے نکال لوں گا۔ ”
"امی بچا ؤ! جلدی کرو! امی جلدی کرو ورنہ میں مر جاؤں گا۔ ”
” ابو مجھے بچا لو ! اینٹوں کا ڈھیر میرے سینے پر پڑا ہوا ہے۔ میرے سر سے خون بہہ رہا ہے۔ ابو جلدی کرو۔ ”
” سر مجھے یہاں سے نکالو، میرا دم گھٹ رہا ہے۔ میں مر جاؤں گی۔ ”
لڑکے لڑکیاں چلا رہی ہیں، شاید وہ نہیں جانتی کہ ان میں اکثر کے والدین خود بھی کہیں ایسی ہی مصیبت میں گرفتار پڑے ہیں۔
آدھے گھنٹے کے بعد میں اور دوسرے اساتذہ ایک دوسرے کی موجودگی سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ہم مل کر کنکریٹ کی چٹانوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر بے سود!
میں اپنے گھر کی طرف بھاگتا ہوں۔ گھر مٹی کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ عصر تک میں اپنی ماں اور بہن کی لاشیں نکال لیتا ہوں۔ شام کے وقت میں دوبارہ سکول جاتا ہوں۔ اینٹوں اور کنکریٹ کے ڈھیر سے اب کم آوازیں آ رہی ہیں۔ جو آوازیں آ رہی ہیں وہ تھکی تھکی ہوئی ہیں۔ میں اب بھی ثانیہ کی آواز کو پہچان سکتا ہوں۔ لیکن میں اسے بچا نہیں سکتا۔
شام کا وقت ہے، خیموں میں نیم تاریکی اور خاموشی ہے جیسے وہ کسی شکست خوردہ فوج کا پڑاؤ ہو۔ پہاڑوں کی چوٹیاں صحرا میں بھٹکے اونٹوں کے قافلے کی طرح لگ رہی ہیں۔
کچھ دیر بعد کھانا تقسیم ہونا شروع ہوتا ہے۔ میری جبلت مجھے اس طرف کھینچ کر لے جاتی ہے جہاں لوگ ہاتھوں میں برتن لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ میں ہاتھ میں کالی دیگچی لیے خیالوں میں گم کھڑا ہوں۔ ایک دم میرے کندھے پر زور سے چھڑی پڑتی ہے۔
"ذرا آگے ہو جاؤ!دوسروں کا بھی ذرا خیال کرو۔ ” ایک سپاہی کڑک کر بولتا ہے۔
صبح ٹھنڈی ہوا چلتی ہے۔ میرے مٹیالے خیمے کا کنارہ ایسے پھڑ پھڑاتا ہے جیسے ثانیہ کی چنی کا پلو ہو۔ میں اپنے ٹھنڈے بستر سے اٹھتا ہوں۔ رات کا باسی کھانا ناشتے میں کھاتا ہوں۔ سب لوگ ایک میدان میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ نام لکھے جا رہے ہیں۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی میدان کی طرف روانہ ہو جاتا ہوں۔ میرے راستے میں ہر طرف قبریں ہی قبریں ہیں۔ زلزلے کے بعد اس دھرتی کے سینے پر جیسے قبروں کی فصل اگ آئی ہو! چھوٹی قبریں، بڑی قبریں، بے ترتیب، جلدی میں بنائی گئی قبریں، بغیر کتبوں کے گوں گی گمنام قبریں !
بہار نے زمین کی گود کو سبزے اور جنگلی پھولوں سے بھر دیا ہے۔ سکول جاتے ہوئے میں کچھ جنگلی پھول چنتا ہوں اور ثانیہ کی قبر پر رکھ دیتا ہوں۔ ہمارا نیا سکول ایک بڑے تمبو میں چل رہا ہے، اساتذہ کم ہیں، کلاسوں میں طلبا کی تعداد بھی کم ہے۔ شور بھی کم ہے۔ یہ سکول نہیں بچوں کی جیل لگتی ہے۔ بچے پلاسٹک کی ڈمیوں کی طرح سر ہلاتے ہوئے آہستہ آہستہ سبق پڑھتے ہیں۔ وہ آپس میں کم بولتے ہیں۔ زلزلہ ان کے ہونٹوں سے مسکراہٹیں لے گیا ہے۔ میری نظریں کچھ چہروں کو ڈھونڈتی ہیں، میرے مرحوم ہم کار، عینک والے پرنسپل، میرے چہچہاتے شاگرد اور چونچلے کرتی ثانیہ ! کتنے خوبصورت اور معصوم چہروں کو زمین نگل گئی ہے۔
صدر، وزیر اعظم اور بڑے بڑے لیڈر آتے ہیں، بچوں میں کھلونے اور ٹافیاں تقسیم کرتے ہیں، ایک مصنوعی ہمدردی اور کاغذی مسکراہٹ کے ساتھ بے سہارا یتیم بچوں کے ساتھ فوٹو کھینچواتے ہیں۔ پھر انھیں سردی اور اندھیروں میں چھوڑ کر خود اپنے ہیلی کاپٹروں میں اڑانیں بھر کر شہروں کی روشنیوں، آرام اور تحفظ کی طرف چلے جاتے ہیں۔
رات کو برفانی ہوائیں چلتی ہیں۔ تمبوؤں کے کونے ایسے پھڑ پھڑاتے ہیں جیسے مردہ روحیں کفن کے لیے چیخ رہی ہوں۔ آسمان میں ننھے ستارے سردی سے ٹھٹھرتے رہتے ہیں۔ میرے خیمے سے کچھ فاصلے پر میری اماں اور بہن ٹھنڈی بے چراغ قبروں میں سوئی ہوئی ہیں اور دوسری طرف ثانیہ۔ مجھے دیر تک نیند نہیں آتی۔ میرے ذہن میں ماضی کے اچھے برے منظر تیرتے ہیں۔ میں انھیں بھلانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے دماغ کا آسمان صاف ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ دماغ کے آسمان میں یادوں کے دیئے ستاروں کی طرح ٹکتے جاتے ہیں اور پھر میرے دماغ میں یادوں کے ہزاروں چراغ جلتے ہیں۔
سانسوں کی نازک ڈور کے سوا میرے پاس بچا ہی کیا ہے !میں زمین پر سویا ہوا ہوں، میرے سرہانے کے قریب دو پرانی پنسلیں، ایک خالی پین، گھساہوا ایک ربر، ایک ٹافی اور ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی رنگ برنگی کرچیاں پڑی ہیں۔ میں ان سے کھیلتا رہتا ہوں اور پھر صبح ہونے سے تھوڑی دیر پہلے مجھے نیند آ جاتی ہے۔
٭٭٭
تھل
” ارے میرن تم کب آئے ؟ کیسے ہو؟۔۔ ۔ ارے جاؤ میرن کے لیے کوئی لسی پانی لاؤ” اللہ وسایا نے میرن کو پیار سے گلے لگایا۔ ” میرن تم تو کتنے بدل گئے ہو! داڑھی کب چھوڑی؟ تمھارے اماں ابا کیسے ہیں ؟”
” اماں ابا کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا”
"کیوں ؟ تم ہندوستان سے نہیں آ رہے ؟”
"نہیں ! میں ہندوستان سے نہیں آ رہا۔ ”
” تو پھر دو تین سال تو کہاں رہا؟”
” میں نے یہ سارا وقت اپنے مرشد کے دربار میں گزارا، جس نے مجھے کلمہ پڑھایا”
” ماشا ء اللہ! یہ تو بہت اچھا ہوا۔ تم دو تین سال گھر سے دور رہے۔ یہاں کے لوگ تو تیرے بارے میں قسم قسم کی باتیں کر رہے تھے۔ کچھ کہتے تھے کہ میرن ہندوؤں کے لڑاکا گروہ میں شامل ہو گیا ہے، جو چھپ کر مسلمانوں پر حملہ کرتا ہے۔ اور کچھ کہتے تھے کہ وہ ایک لڑکی کو بھگا کر لے گیا ہے۔ ”
"نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں تو ڈر کی وجہ سے نہیں آ رہا تھا۔ اگر میرے گھر والوں کو پتہ چل جاتا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں تو وہ۔۔ ۔ ”
کھانا کھانے کے بعد اس نے اللہ وسایا سے کہا۔ "اچھا چاچا میں اب اپنے گھر چلتا ہوں ”
” اپنے گھر؟؟؟”
” ہاں اپنے گھر، میرا یہاں جدی پشتی گھر ہے۔ میں وہاں رہنا چاہتا ہوں۔ ”
” مگر اب وہاں ہم رہتے ہیں ”
” آپ ہمارے گھر میں رہتے ہیں ؟”
"ہاں ”
” آپ لوگ اپنے گھر میں نہیں رہتے ؟”
” ہمارے اپنے گھر میں میرا بڑا بھائی رہتا ہے۔ تم تو جانتے ہو ہمارا پرانا گھر چھوٹا تھا۔۔ ۔ میں اور میرے بچے اب تمھارے گھر میں رہتے ہیں۔ ”
"چاچا آپ کو میرا گھر خالی کرنا ہو گا۔ اب وہاں میں رہوں گا۔ میں یہاں شادی کروں گا اور یہاں رہوں گا۔ میرا مستقبل پاکستان کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ ”
” اچھا تم یہاں بیٹھو۔ ہمیں تمھارا گھر خالی کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ ”
” ٹھیک ہے۔ میں یہاں انتظار کرتا ہوں ”
میرن نے وضو کیا، نماز پڑھی اور اس کے بعد گاؤں کی گلیوں اور کھیتوں میں گھومنے پھرنے چلا گیا۔
خدا مجھے بھوکوں نہیں مارے گا۔ میں خوش قسمت ہوں۔ مجھ سے اپنا آبائی گاؤں نہیں چھوٹا۔ میں اپنے بچپن کی سہانی یادوں کے ٹھنڈے سایوں میں زندہ رہوں گا۔ میں یہاں شادی کروں گا۔ مجھے ماضی کے بارے میں نہیں سوچناچاہیے۔ میں زمین ٹھیکے پردے دوں گا۔ اور سارا وقت اللہ کی یاد میں گزاروں گا۔ ہم بچپن میں اس شرینہہ کے نیچے جھولا جھولتے تھے۔
میرن عصر تک اللہ وسایا کا انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آیا آخر تنگ آ کر وہ خود اس کے دروازے پر گیا۔ ” میرا گھر آپ لوگوں نے ابھی تک خالی نہیں کیا؟”
” کونسا گھر؟”اللہ وسایا کے بیٹے نے غصے سے پوچھا۔
” یہ گھر جس میں تم رہ رہے ہو”
” تمھیں غلطی ہوئی ہے۔ یہ گھر ہمارا اپنا ہے۔ ”
” بھائی یہ میرا جدی پشتی گھر ہے ”
” جدی پشتی گھر تھا۔ مگر اب یہ گھر ہم نے خرید لیا ہے ”
” کس سے خریدا ہے ؟”
” تیرے والد لکھن سے۔ ہم نے یہ گھر خریدا ہے۔ ہم نے اسے پیسے دیے ہیں ”
"لیکن کچھ دیر پہلے چاچا اللہ وسایا کہہ رہا تھا کہ۔۔ ۔ ”
"کچھ دیر پہلے کی بات چھوڑو۔۔ ۔ یہ گھر ہمارا ہے۔۔ ۔ ”
میرن کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔
جب وہ شام کی نماز پڑھنے مسجد جا رہا تھا تو اسے اپنی گھوڑی مندو کے دروازے کے سامنے بندھی ہوئی نظر آئی۔ مندو گھوڑی کو پانی پلا رہا تھا۔ اس نے میرن کو گرمجوشی سے گلے لگا یا۔
” مندو ماما یہ گھوڑی ہماری ہے نا؟”
” یہ گھوڑی تمھارے بابا نے مجھے تحفے میں دی ہے۔ بہت اچھا انسان تھا تیرا بابا۔ جب آس پاس کے بپھرے دیہاتیوں نے انھیں گھیر لیا تو میں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر انھیں یہاں سے نکالا۔ تمھاری ماں، باپ، چھوٹے بھائی اور بہن کو، جب میں حفاظت سے بھکر پہنچا چکا تو لکھن نے گھوڑی میرے حوالے کر دی۔ ” مندو یہ گھوڑی تم رکھ لو۔ ہم اس گھوڑی کو ہندوستان لے جا نے سے رہے۔ ”
رات کو گاؤں والے ” چونک” میں جمع ہوئے۔ بڑے بوڑھے اس زمانے کی باتیں کرتے رہے جب گاؤں میں ہندو مسلمان پیار محبت سے رہتے تھے۔
"بچپن میں، میں تو اکثر روٹی لکھن کے گھر کھاتا اور رات کو اکثر وہاں سو جاتا تھا” ایک نے کہا۔
” یار کیا زمانہ تھا !کیا لوگ تھے ! آجکل تو محض کچرا رہ گیا ہے ” دوسرا بولا۔
” اس وقت اتفاق تھا، آجکل اتفاق نہیں ہے۔ اس لئے برکت چلی گئی ہے۔ ” تیسرے نے رائے دی۔
دس گیارہ بجے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور میرن ” چونک” میں ایک ماچے پر لیٹ گیا۔ اسے دیر تک نیند نہ آئی۔
صبح وہ اپنا آموں کا باغ دیکھنے گیا جو گاؤں سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ باغ میں کوئی دو سو کے قریب آم کے درخت تھے۔ باغ کے درمیان میں واقع مکان کی چھت پر ایک لڑکا پتنگ اڑا رہا تھا۔ لڑکا، میرن کو دیکھ کر جلدی سے نیچے اترا اور تھوڑی دیر میں ایک بوڑھا بید ٹیکتے اس کے پاس آیا۔ اس نے میرن کو چارپائی پر بٹھایا۔
” چاچا فرازو کیا حال ہے ؟”
” خیریت ہے بیٹا۔ مگر میں نے تمھیں پہچانا نہیں ”
” چاچا میں میرن ہوں ”
"میرن، لکھن کے بیٹے ؟ تم کہاں ؟ تم لوگ تو ہندوستان چلے گئے تھے۔ ”
” لیکن میں نہیں گیا تھا”
چائے پینے کے بعد جب میرن نے باغ کی ملکیت کا ذکر کیا تو فرازو نے کہا کہ اس نے یہ باغ خریدا ہے۔ اور ثبوت کے طور پر اسے اسٹام دکھایا جس پر لکھن کے نام کے نیچے انگوٹھا لگا ہوا تھا۔
گاؤں سے کوئی ڈیڑھ میل دور ایک چھوٹی کچی مسجد تھی لوگ اسے "جنوں والی مسجد”کہتے تھے۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ رات کو مسلمان جن اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے دور دور سے آتے تھے۔ کئی دیہاتیوں کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے جنوں کو اس مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔
میرن نے اس مسجد میں ڈیرہ ڈالا۔ مسجد کا کچا کوٹھا باہرسے آدھاریت میں دھنسا ہوا تھا۔ اس نے مسجد کے صحن اور کوٹھے سے ریت کو ہٹایا۔ کوٹھے کی چھت سے مکڑی کے جالوں کی مسہری کو اتارا، کچے فرش پر جھاڑو پھیرا۔ ذرا فاصلے پر واقع کنویں سے پانی لایا۔ تین مٹکوں اور پانچ کوزوں کو پانی سے بھر کر قطار میں رکھ دیا۔
سردی کا موسم تھا۔ کئی دنوں سے موسم بوجھل تھا۔ وقفے وقفے سے بارش ہوتی رہی۔ دسویں دن موسم صاف ہو گیا۔ میرن دھوپ سینکنے مسجد سے نکل کر ریت کے ٹیلے پر آ گیا۔ سفید ریت برف کے برادے کی طرح چمکیلی اور ٹھنڈی تھی۔ ٹھنڈا آسمان نیلم کی کان لگ رہا تھا۔ درخت بارش سے دھل کر چمک رہے تھے اور پرندے موسم کے صاف ہونے پر جشن منا رہے تھے۔ گاؤں سے آنے والی ملی جلی مدھم آوازیں ہوا کے دوش پراس تک پہنچ رہی تھیں۔ اسے ریت پر کوئی چیز چمکتی ہوئی نظر آئی۔ محض جذبہ تجسس کی تشفی کے لیے وہ چمکتی ہوئی چیز کے پاس آیا اور اسے اٹھایا۔ یہ اس کی بوڑھی ماں کا چاندی کا جھمکا تھا۔ اس نے جگہ کو ذرا کریدا تو اس کی ماں کی پھٹی جوتی نکل آئی۔ ذرا اور کھودنے پر اس کی ماں کے کپڑے اور پھر ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آنے لگا۔ اس نے جلدی سے ان پر ریت ڈال دی اور مسجد میں بیٹھ کر اندھیرا ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ عشاء کے وقت اس نے ٹیلے کو لکڑی کے ٹکڑے سے کھودا۔ اس کی ماں کیساتھ اس کے باپ، بہن اور بھائی کے ڈھانچے بھی دفن تھے۔ اس نے دوبارہ ان پر ریت ڈالی اور اسی وقت کراڑی کوٹ سے نکل کھڑا ہوا۔
ایک ہفتے تک گاؤں میں میرن کے چلے جانے کا کسی کو بھی پتہ نہ چلا۔ جب انہیں پتہ چلا تو ایک نے کہا۔ ” یار مجھے تو اس پر پہلے دن سے شک تھا۔ وہ مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچا رہا تھا۔ وہ اصل میں ہندوستان کے لئے جاسوسی کرنے آیا تھا۔ ”
دوسرے نے کہا۔ ” وہ جو بھی تھا، اچھا ہوا ہمارے سر سے ٹل گیا۔ ”
وقت کی ریت گھڑی چلتی رہی۔ ریت حال کے ٹیلوں سے اڑ کر ماضی کے ٹیلوں پر گرتی رہی۔ چھ سال بعد میرن واپس آیا اور ” جنوں والی مسجد” میں ڈیرہ ڈالا۔ اب اس کا حلیہ بدل گیا تھا۔ اس کی داڑھی، مونچھیں اور سر کے بال اپنی اپنی حدیں پھلانگ کر ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو چکے تھے۔ اس کے گال پچکے ہوئے تھے اور اس کے گلے میں کئی قسم کے منکوں والے ہار اور تسبحیاں چھنک رہی تھیں۔ وہ اپنے گلے میں ماں کا چاندی کا جھمکا بھی ڈالے ہوئے تھا، جو اسے ریت کے ٹیلے سے ملا تھا۔ اس کی آمد کے پانچ دن بعد گاؤں میں خبر پھیل گئی کہ جنوں والی مسجد میں ایک پہنچا ہوا بزرگ آیا ہوا ہے۔ اس سے دم کروانے کے لئے مرد، عورتیں، بچے وہاں پہنچ گئے۔ عورتوں میں سے کسی کو بھی شک نہ ہوا کہ وہ میرن ہے۔ مگر کچھ مرد اس کی شناخت کے بارے میں کھسرپھسر کرنے لگے۔ آخر ملک ڈتا نے آگے بڑھ کر اس سے سوال کیا” اے اجنبی تو میرن ہے نا؟”
” ہم فقیروں کے نام نہیں ہوتے ” میرن نے جواب دیا۔
” تم کہاں سے آئے ہو۔ تمھارا گھر کہاں ؟”
"بھائی فقیروں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا”
"تم سیٹھ لکھن کے بیٹے میرن ہو؟”مندو دھاڑا۔
میرن نے کوئی جواب نہ دیا۔
” تم جاسوس ہو!” اللہ وسایا گرجا۔
” ہاں میں جاسوس ہوں۔ ہاں میں جاسوس ہوں "میرن جوش سے چلایا۔
” تم ہندوستان کے جاسوس ہو”
"نہیں، نہیں !میں اللہ کا جاسوس ہوں۔ اپنے مرشد کا جاسوس ہوں۔ میں میرن ہوں۔ اپنے پیر و مرشد کے کہنے پر یہاں آیا ہوں "وہ جلال میں آ کر کھڑا ہو گیا۔
” تم اپنا گھر اور جائداد لینے آئے ہو؟” اللہ وسایا کے منہ سے جھاگ اڑ رہ تھا۔
میرن نے کوئی جواب نہیں دیا۔
” تم یہاں کس لئے آئے ہو ؟ چپ کیوں ہو؟”۔ مندو نے کہا۔
"میں۔۔ ۔ میں۔۔ ۔ یہاں۔۔ ۔ مرنے کے لئے آیا ہوں۔ مجھے چین سے مرنے دو گے ؟” میرن پاگلوں کی طرح دھاڑا اور لال بھبھوکا آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ دیہاتیوں میں کسی نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ وہاں سے کھسک گئے۔
گاؤں واپس آ کر لوگ دیر تک صلاح مشورہ کرتے رہے کہ میرن کیساتھ کیا کیا جائے۔
"اس سے پہلے کہ وہ کوئی فساد کرے۔ اسے فوراً قتل کر کے ریت میں دفنا دینا چاہیئے۔ ”
” شہر جا کر پولیس کو اطلاع دینی چاہیے کہ ہمارے گاؤں میں ہندوستان کا جاسوس آیا ہوا ہے۔ ”
"لیکن یہ کام تو صبح ہو گا۔ اگر اس نے اب، اسی وقت کوئی گل کھلا دیا تو؟”
"میرے خیال میں ہمیں، ابھی اسی وقت اسے گاؤں سے نکال دینا چاہیے۔ ”
جب لوگ ڈنڈے سوٹے اٹھائے، مسجد پہنچے تو میرن دیئے کی روشنی میں نفل پڑھ رہا تھا۔ نفل اتنے لمبے ہو گئے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہے تھے۔ لوگ انتظار کرتے کرتے تھک گئے۔ آخر ان میں آدھے ریت کے ٹیلے پر سو گئے۔ کچھ دیر بعد باقی آدھوں نے دو آدمیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ میرن پر نظر رکھیں اور وہ بھی سو گئے۔
صبح صادق سے تھوڑی دیر پہلے پہرے داروں نے بھی نیند کے سامنے ہتھیار ڈال دئے۔ ریت کے بستروں میں سونے والوں کی آنکھ اس وقت کھلی جب گاؤں سے آنے والی عورتیں اور بچے ان کے سرپرآ گئے تھے۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھے اور دوبارہ اپنے ڈنڈے سوٹے سنبھال لئے۔
"اسے کچھ نہ کہو۔ پچھلی رات مجھے خواب میں اماں ملی ہے، اس نے مجھ سے کہا ’تمھارے گاؤں میں جو مہمان آیا ہے، وہ رحمت ہے۔ اسے اپنے حال پر چھوڑ دو‘۔ ” ایک بڑھیا گڑ گڑائی۔
"ماسی لگتا ہے تو سٹھیا گئی ہے۔۔ ۔ آؤ اسے ختم کر یں اور اس کی لاش کسی سوکھے کنویں میں پھینک کر اوپر سے ریت ڈال دیتے ہیں۔ "ایک جوان نے ڈنڈا گھمایا۔
” اسے ختم کر دو، ورنہ یہ روزانہ ہمارے لئے دردِسربنا رہے گا۔ "اللہ وسایا کے بیٹے نے چمکتی کلھاڑی سے ریت پر وار کیا۔
سورج کا سرخ کنارہ افق سے نکل رہا تھا۔ درختوں پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ دور سے آٹے کی مشین کی تُک تُک کی آواز آ رہی تھی۔ میرن مصلے پر گٹھڑی بنا پڑا تھا۔
"چل اٹھ! مکر نہ کر، تیرا وقت آن پہنچا ہے۔ "ایک جوان نے جب اسے ہلایا تو وہ مرا ہوا تھا۔ رنگ برنگے منکوں کے ڈھیر میں دبی ایک سوکھی کالی لاش۔ لوگ لاش کو مسجد میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
میرن کے مرنے کے چار پانچ مہینے بعد اس کا پیرو مرشد ” گھنگروؤں والا فقیر” کراڑی کوٹ آیا۔ گرمی کا موسم تھا۔ بے رحم دھوپ میں تھل جل رہا تھا۔ اس نے گاؤں کی چونک میں قیام کیا۔ گاؤں کے سارے مرد، عورتیں، بچے وہاں اکٹھے ہو گئے۔ کوئی چوپڑی روٹی لا رہا ہے تو کوئی دودھ اور کوئی مرونڈے اور ابلے انڈے۔ گھنگروؤں والا فقیر، لوگوں کی طرف سرخ غصیلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ لوگ مجرموں کی طرح سہمے کھڑے تھے۔ آخر ایک سفید ریش نے ہمت کر کے کوزہ اٹھایا اور کہا۔ "پیر سائیں ہاتھ دھوئے اور بسم اللہ کیجیئے ”
"ہمارے ہاتھ تم دھلواؤ گے ؟” فقیر نے اسے آتش فشانی آنکھوں سے گھورا۔
"حضور اگراس گناہ گار کو اجازت دیں۔۔ ۔ ”
"ہم اجازت نہیں دیتے۔۔ ۔ ہمارے ہاتھ صرف میرن دھلوائے گا۔ ”
لوگ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔
” میرن کو بلاؤ۔ ہمارے ہاتھ صرف وہ دھلوائے گا، میرن کو بلاؤ”فقیر گرجا مگر کسی سے کوئی جواب نہیں بن رہا تھا۔
"بولتے کیوں نہیں ؟ جاؤ میرن کو بلاؤ۔ ”
” سرکار میرن تو فوت ہو گیا ہے ” ایک بوڑھا ممیا یا۔
"فوت ہو گیا ہے ؟ کیسے فوت ہوا؟”
” پتہ نہیں سرکار۔۔ ۔ ایک دن گاؤں والے اس کے پاس دم کروانے گئے تو وہ مسجد میں مصلے پر مرا پڑا تھا”
” اسے تم نے مارا ہے۔ تم لوگوں نے اسے مرنے پر مجبور کیا ہو گا۔ تم سب گناہ گار ہو” فقیر اپنی جگہ سے اٹھا۔ وہ غصے سے کانپ رہا تھا۔ اسے اٹھتا دیکھ کر اس کے گرد بنا ہوا لوگوں کا حلقہ ایک دم ٹوٹ گیا۔
” اس کی قبر کہاں ہے ؟ مجھے اس کی قبر پر لے جاؤ!”
” مرشد پاک!ہم اس کی قبر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ”
فقیر اپنے جوتے پہنے اور عصا اٹھائے بغیر روانہ ہو گیا۔ وہ گرم ریت پر ایسے چل رہا تھا جیسے ریشم کے غالیچے پر چل رہا ہو۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ ایک آدمی نے اسے جوتے پیش کئے مگر اس نے جوتوں کو پھینک دیا۔
” ہمیں معاف کر دو پیر سائیں۔ ہم سے غلطی ہو گئی ہے ” اللہ وسایا نے ہاتھ جوڑے۔
” ہم پر رحم کرو۔ مرشد پاک !ہم کمزور لوگ ہیں۔ "مندو گڑ گڑایا۔
کچھ فاصلے تک عورتیں اور بچے بھی چلنے والوں کیساتھ چپکے رہے اور پھر تھک کر واپس گاؤں آ گئے۔ مگر مرد چار پانچ میل تک فقیر کے پیچھے پیچھے چلتے رہے اور معافی مانگتے رہے۔ آخر وہ بھی پیاس اور تھکاوٹ سے نڈھال ہو کر درختوں کے نیچے ایک ایک کر کے بیٹھتے گے۔ فقیر تنہا، مستانہ وار چلتا رہا اور تھل کے سینے سے نکلنے والی چلچلاتی، لہراتی تپش میں غائب ہو گیا۔
” آج ضرور طوفان آئے گا، ہم نے گھنگروؤں والے فقیر کو ناراض کیا ہے ”
” مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں آج زلزلہ نہ آئے۔ ”
” اگر زلزلہ نہ آیا تو آج ژالہ باری ہو گی اور تمام فصلیں تباہ ہو جائیں گی”
گاؤں والے باتیں کر رہے تھے۔
اس دن عصر کے وقت تیز آندھی چلی اور طوفانی بارش ہوئی۔ ہر طرف اندھیرا ہو گیا اور ڈر سے لوگوں نے مسجد میں پناہ لی۔ وہ کئی دنوں تک ڈرے سہمے رہے۔
وقت گزرتا گیا۔ لوگ میرن اور گھنگروؤں والے فقیر کو بھول گئے۔ جیٹھ کا مہینہ ختم ہونے والا تھا۔ کراڑی کوٹ کے لوگ کھلیان میں گندم گہانے میں لگے ہوئے تھے۔ دھند لے تپتے افق سے ایک میلی کالی شکل ریت کے ٹیلوں کو پھلانگتی چلی آ رہی تھی۔ دیہاتیوں کی نظریں اس پر ٹک کر رہ گئیں۔ تھل کی ریت سے تپش کے مرغولے نکل رہے تھے۔ جیسے کوئی بڑے دیو ہیکل تندور کے جلتے پیٹ پر پانی کی چھینٹیں مار رہا ہو۔ جب گاؤں والوں نے دیکھا کہ میلی شکل گھنگروؤں والا فقیر ہے تو کام کرتے ہاتھ جہاں تھے وہاں رک گئے۔ فقیر ہاتھ میں چھوٹی میلی گٹھڑی اٹھائے ایسے چل رہا تھا جیسے کوئی سپیرا سانپ پکڑنے نکلا ہو۔ اس کا سر اور پاؤں ننگے تھے اور وہ انھیں کپڑوں میں تھا جو اس نے گاؤں میں اپنی آخری آمد پر پہنے تھے۔ اس کے گال دھنسے ہوئے تھے۔ وہ انتہائی کمزور اور لاغر دکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ اور پہلے سے زیادہ بڑی اور پھیلی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ وہ تھکا ہوا لگ رہا تھا مگر پھر بھی تیز قدموں سے چل رہا تھا۔ لوگ اس سے ملنے کے لئے اس کی طرف دوڑے۔ ہر کوئی اس سے ہاتھ ملانے کی کوشش کر رہا تھا۔ کوئی اس کے پاؤں پڑ رہا تھا اور کوئی ہاتھ جوڑے اس کا استقبال کر رہا تھا۔ مگر فقیر نے کسی کو کوئی توجہ نہ دی۔ وہ مسلسل چلتا رہا حتیٰ کہ وہ گاؤں پہنچ گیا۔ لوگ اس کے لئے روٹی، مکھن اور دودھ لائے مگر اس نے کچھ نہ کھایا۔
” میرن کا کونسا گھر ہے ؟”فقیر غرایا۔
” میرن کا یہاں کوئی گھر نہیں ہے مرشد”اللہ وسایا نے جواب دیا۔
” لکھن کا کونسا گھر ہے ؟”
"یہ ہے سرکار۔ سامنے والا”
فقیر، لکھن کے گھر کے سامنے شرینہہ کے نیچے پہنچ گیا۔
” یہاں جھولتا تھا، یہی جگہ ہے ! اس درخت میں جھولا ڈال کر وہ بچپن میں جھولتا تھا۔ اے درخت تو کتنا خوش نصیب ہے۔ میرن جیسا ولی تیرے سائے میں پلا ہے۔ تو بہشتی درخت ہے !”فقیر نے درخت کو گلے لگا لیا اور اسے بے تحاشا چومنے لگا۔
کچھ دیر بعد اس نے انگلیوں سے درخت کے نیچے زمین کو کریدنا شروع کیا۔ کچھ دیہاتیوں نے زمین کریدنے میں اس کی مدد کرنا چاہی مگر اس نے انہیں سختی سے منع کر دیا۔ اس کی لمبی، کالی انگلیاں ریت کو ایسی کھود رہیں تھی جیسے چوزوں والی مرغی دانوں کے لئے زمین کریدتی ہے۔ چھوٹا سا گڑھا کھودنے کے بعد اس نے گٹھڑی کھولی۔ اس سے ایک پرانا چکنا چولا نکالا، اسے آنکھوں سے اور پھر ہونٹوں سے لگایا، ادب سے گڑھے میں رکھا اور اس پر آہستہ سے ریت ڈالنے لگا۔
” دوست مجھے معاف کرنا! میں تیرے جسدِخاکی کو نہ ڈھونڈ سکا۔ کئی مہینے پیدل چلنے کے بعد مجھے تیرا یہ چولا ملا ہے۔ میں تیرے چولے کو دفنا رہا ہوں۔ اسے تیرے گاؤں کی مٹی میں دفنا رہا ہوں۔ تمھیں اس گاؤں کی مٹی سے پیار تھا نا ! تو ہمیشہ اپنے گاؤں کو یاد کرتا رہتا تھا نا! اس درخت کو یاد کرتا تھا۔ میں تیرے لیے کچھ نہ کر سکا۔ میں تیرے پسینے کی خوشبو میں رچے ہوئے چولے کو تمھاری پسندیدہ جگہ پر دفنا رہا ہوں۔ ”
وہ دیر تک قمیص کی ” قبر”کے سرہانے بیٹھا روتا رہا۔ جب شام ہوئی تو اس نے جیب سے مٹی کا دیا اور تیل کی شیشی نکالی۔ دئے میں تیل ڈالا، ادھ جلی بتی کو درست کیا اور جلا دیا۔
” دوست خدا کرے تیری قبر میں اتنے دیئے جل اٹھیں جتنے اس تھل میں ریت کے ذرے ہیں۔”
اس نے قبر سے ایک چٹکی ریت لے کر اپنی چادر کے کونے میں باندھ لی۔ ” الوداع دوست! میں جا رہا ہوں۔ اب ہم اس وقت ملیں گے جب ساری دنیا تھل بن جائے گی۔ جب سب انسان ننگے پاؤں تپتے تھل میں کھڑے ہوں گے۔ ہم اس وقت ملیں گے جب زمین کی کوئی قدر نہیں ہو گی۔ جب یہ ہمارے گلے میں طوق بن جائے گی۔ خدا حافظ میں جا رہا ہوں !”
کراڑی کوٹ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ گاؤں کے کئی آدمیوں نے شام کے بعد ” جنوں والی مسجد "میں چراغوں کی روشنی میں میرن کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ کچھ دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی رات کے وقت آسمان سے سفید روشنیوں کی آبشاریں اترتی ہیں۔ ہر طرف عطر کی خوشبو بسی ہوتی ہے۔ اور سفید پوش بزرگوں کی لمبی لمبی صفیں ریت کے ٹیلوں پر میرن کا جنازہ پڑھ رہی ہوتی ہیں۔
٭٭٭
گوبر گاؤں
شہر سے بہت دور ایک گاؤں آباد تھا۔ گاؤں کے ارد گرد کھیت اور مالٹے کے باغ تھے۔ ہر گھر میں ایک، دو بھینسیں تھیں۔ گاؤں والے اپنے کھیتوں کی گندم کھاتے اور اپنی بھینسوں کا دودھ پیتے۔ دن بھر کی مشقت کے بعد گھنے درختوں کے نیچے بیٹھ کر گانے گاتے۔ سردیوں میں چولہے کے گرد بیٹھ کر مونگ پھلی کھاتے اور پرانے زمانے کے قصے سنتے اور سناتے۔
پھر ایک دن ایک سر پھرا مہم جو سفر کی صعوبتیں جھیلتے، بھوک پیاس سے بے نیاز وہاں آن پہنچا اور یکایک گاؤں کو دریافت کر ڈالا۔ گاؤں والوں نے اس کی خوب خدمت خاطر کی۔ اس نے گاؤں والوں کو بتایا: "شہر میں دودھ بکتا ہے۔ ”
گاؤں والوں کو یقین نہ آیا۔ مہم جو گاؤں کے بارے میں جب ساری معلومات اپنی میلی ڈائری میں لکھ چکا تو اس نے پھر کہا، "شہر میں دودھ بکتا ہے۔ ”
گاؤں والے چونک میں اکٹھے ہوئے، طویل مشورے کے بعد ایک بہادر اور تجربہ کار آدمی کو تھوڑا سا دودھ دے کر مہم جو کے ساتھ شہر بھیج دیا۔
آدمی شہر سے واپس آیا، دیہاتیوں نے اس کا استقبال کیا۔ "شہر میں تو واقعی دودھ بکتا ہے ” اس نے چھنچھناتے سکے دکھائے۔
دوسری دفعہ جب وہ شہر دودھ بیچنے گیا تو اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا۔ ہوتے ہوتے وہ تین ہو گئے، پھر چار اور پھر سارا گاؤں دودھ بیچنے لگا۔ اب سردیوں میں گاؤں والے چولہوں کے گرد بیٹھتے تو پیسوں، مہنگائی، دوائیوں اور شہر کی باتیں کرتے۔
پھر دودھ لینے شہر سے گاڑی آتی۔ پھر گاڑی کا زمانہ چلا گیا۔ شہر والوں نے دودھ کے لئے پائپ لائن بچھا دی جس کے ذریعے دودھ منٹوں میں گاؤں سے شہر پہنچ جاتا تھا۔ پھر شہر کے لوگوں کو شک گزرا کہ گاؤں والے دودھ میں پانی ملاتے ہیں۔ انہوں نے بھینسوں کے تھنوں سے دودھ دوہنے والی مشینیں فٹ کر دیں۔ یہ مشینیں رات کو بھی بھینسوں کے تھنوں کے ساتھ چمٹی رہتیں اور جونکوں کی طرح دودھ چوستی رہتیں۔ اب گاؤں والے دودھ کو ہاتھ نہیں لگا سکتے تھے۔
” ہم اپنے بچوں کے لئے دودھ کہاں سے لائیں گے ؟” گاؤں والوں نے فریاد کی۔
” پوڈر سے۔ ہم تمہیں پوڈر سے بھرا ٹرک بھیجتے ہیں۔ یہ پوڈر تمہاری کالی غلیظ بھینسوں کے دودھ سے لاکھ درجے زیادہ توانائی بخش ہے ” شہر والوں نے کہلوا بھیجا۔
گاؤں والوں نے پوڈر کی بوریاں جوہڑ میں ڈالیں۔ پوڈر اور پانی کو بیلچوں، ڈنڈوں اور پاؤں سے ملایا۔ منٹوں میں تازے دودھ کا جوہڑ تیار ہو گیا۔ جوہڑ سے بلیاں بھی دودھ پینے آتی تھیں۔ پھر بلیاں اتنی زیادہ ہو گئیں کہ گاؤں والوں کو چوکیدار رکھنے پڑے مگر چوکیدار مینڈک، مچھلیوں اور سُسروں کو دودھ کے جوہڑ میں رہنے سے نہیں روک سکتے تھے۔
وقت گزرتا گیا۔
” بھینسوں کو فالودہ کھلا ؤ، انھیں پانی کی جگہ سوڈاواٹر پلاؤ اور انھیں چلنے پھرنے مت دو۔ بھینسوں کے چلنے پھرنے سے دودھ سوکھتا ہے۔ "شہر سے لکھا ہوا پیغام آیا اور ساتھ اصلی لوہے کے موٹے موٹے تالے بھی بھیجے جو گاؤں والوں نے بھینسوں کی ٹانگوں میں لگا دئیے۔
کچھ عرصہ بعد بھینسوں کے نام بھوری، کجلی اور ککی کی جگہ ولایتی طرز کے رکھ دیے گئے۔ ماہرینِ دودھیات کا کہنا تھا کہ ولایتی، خوبصورت اور ماڈرن ناموں کابھینسوں کے دماغوں پر خوشگوار اثر پڑے گا، جس سے ان کے معدوں پر اچھے نتائج مرتب ہوں گے، جو آگے چل کر ان کے دودھ والے غدود کو ریلیکس کر دے گا اور اس طرح ان میں دودھ پیدا کرنے کی صلاحیت 56.69فیصد تک بڑھ جائے گی۔
ایک دن شہر والوں نے بھینسوں کی اعلیٰ نسل کشی کے لئے اعلیٰ نسل کا ” ربڑ کا سانڈ” بھیجا۔ وہ اسے سانڈ کہتے تھے مگر اس کی شکل لنگور کی طرح تھی۔ شہر والوں نے کہلوا بھیجا” اس سانڈ سے بھینسوں کی جو نسل پیدا ہو گی وہ اعلیٰ اور معیاری ہو گی۔ ان کے رنگ خوبصورت ہوں گے۔ کالا بھی کوئی رنگ ہے ؟اب بھینسیں سبز، نیلے، گلابی اور جامنی رنگ میں آئیں گی۔ ان کے بھدے اور مڑے ہوئے سینگوں کی جگہ رنگ برنگے پھولوں کے گچھے اگے ہوئے ہوں گے۔ اور ان کی دُمیں بالوں کے بجائے اصلی ریشم کی ہوں گی۔
ولائتی سانڈ یا لنگور، گرم اور ٹھنڈی بھینس میں تمیز نہیں کر سکتا تھا۔ اسے توبس چمٹنے کا شوق تھا۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی بھینس سے چمٹا رہتا۔ بلکہ چمٹ کر سو جاتا تھا اور کئی دنوں تک چمٹا رہتا۔ اگر اسے بھینس نہ ملتی تو وہ کسی گدھے، درخت، دیوار یا پھر گوبر کے ڈھیر سے چمٹ جاتا۔
ایک دفعہ شہر والوں نے سیٹلائٹ کے ذریعے دیکھا کہ گاؤں گوبر میں دھنس رہا ہے اور دودھ کو جراثیم سے خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے مشینوں کے ذریعے بھینسوں کو غباروں کی طرح ہوا میں معلق کر دیا۔ دودھ دوہنے والی مشینیں اب بھی ان کے تھنوں سے بھوکی بلیوں کی طرح چمٹی ہوئی تھیں۔ جب بھینسیں رفع حاجت کرتیں تو گاؤں کے اوپر گوبر کی ژالہ باری ہوتی۔ اس وقت لوگ گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے اور اپنے بچوں کو چارپائیوں کے نیچے چھپا دیتے۔ اب بھینسوں نے آوازیں نکالنا بند کر دی تھیں۔ وہ سارا دن آنکھیں بند کیے ہوا میں جھولتی رہتیں۔
وقت گزرتا گیا۔ گاؤں والوں کے قد چھوٹے ہوتے گئے۔ ہوا میں معلق بھینسیں بھی سکڑتی گئیں۔ جیسے غباروں سے آہستہ آہستہ ہوا نکلتی ہے۔ اب وہ گوبر زیادہ اور دودھ کم دیتی تھیں۔ گاؤں گوبر میں دھنستا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ بھینسوں سے دودھ آنا بند ہو گیا۔ دودھ دھونے والی مشینیں ان کا خون چوسنے لگیں۔ جب یہ خون پائپ لائن کے ذریعے شہر میں پہنچتا تو شہر والے اس میں ایک ٹاپ سیکرٹ کیمیکل ملا کر اسے خالص دودھ میں بدل دیتے۔
آخر ایک دن خون آنا بھی بند ہو گیا۔ شہر والے گاؤں کو بھول گئے۔
آدھی صدی بعد ایک من موجی سیاح خاکی شارٹس پہنے، ہاتھ میں چھڑی پکڑے دنیا کی رعنائیاں دیکھنے نکلا۔ وہ گوبر کے ڈھیر کے پاس رفع حاجت کیلئے بیٹھا تھا۔ اسے ڈھیر سے ہلکی آوازیں سنائی دیں اور اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے گوبر کے ڈھیر کو دریافت کر ڈالا۔ وہ اپنے کپڑوں کی پروا کیے بغیر گوبر کے ڈھیر کے اندر گھس گیا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ لوبیا کے دانے جتنی بھینیس، چاول کے دانے کے برابر انسان اور چیونٹیوں جتنے بچے چل پھر رہے تھے۔ سیاح نے دریافت کی اس کہانی کو اخباروں، ٹی وی اور نیٹ پر دیا۔ ماہرین نفسیات، فلسفی، سا ئنسدان، شعراء اور ماہرین طب اکٹھے ہوئے اور انہوں نے گاؤں کے لوگوں کے چھوٹا ہونے اور بھینسوں کے سکڑنے پر تھیسس لکھے اور انہیں ڈگریاں ملیں۔ گوبر میں دھنسے گاؤں اوراس میں رہنے والے ننھے منے انسانوں اور چھوٹی چھوٹی بھینسوں کو دیکھنے، دنیا بھر سے لوگ آئے اور کھانے پینے کی پروا کئے بغیر کئی دنوں تک حیرت میں ڈوبے رہے۔
پھر دنیا کے میڈیا میں واویلا مچا” تم اجڈ گنوار لوگ، تم کیوں اپنے قیمتی اثاثے کو بارش اور ہوا کی نذر کر رہے ہو؟ اگر تمہارے پاس پیسے کی کمی ہے تو پیسے ہم تمہیں دیتے ہیں۔ ”
شہر کے دل میں گنبد نما، بلوری عمارت تعمیر کرائی گئی اور گوبر میں دھنسے گاؤں کو مشینوں کے ذریعے اٹھا کر اس عمارت میں منتقل کر دیا گیا اور اس عمارت کی پیشانی پر لکھ دیا گیا "گوبر گاؤں "َْ۔
دنیا بھر سے سیاح، ماہرین اور طلبائے آثارِ قدیمہ اس بے مثال عجوبے کو دیکھنے آتے ہیں اور حیرت میں ڈوبے رہتے ہیں، کچھ تو گوبر گاؤں کی خاموشی، اس کے حسن، اور اس کے خالص ہونے کی تعریفیں کرتے کرتے بے ہوش ہو جاتے ہیں۔
"ہم سے ساری ترقی، دولت، مشینری، سائنس اور علم لے لو اور اس کے بدلے میں ہمیں گوبر گاؤں دے دو۔ تم لوگ کتنے خوش نصیب ہو !تم ان لوگوں کے وارث ہو جنھوں نے گوبر گاؤں تخلیق کیا تھا۔ ” سیاح کہتے ہیں۔
"سوری ! ٹائم ختم …. کل آنا”
” لیکن ہم نے تو گوبر گاؤں کے curator سے ملنا ہے۔ ”
” وہ کل آئیں گے۔ غیر ملک گئے ہوئے ہیں۔ سوری !ٹائم ختم۔ کل آنا”۔
بلوریں عمارت سفید روشنیوں میں بقعۂ نور بنی ہوئی ہے۔ عمارت کا فرش چمک رہا ہے جیسے ہیروں سے بنا ہو، گوبر گاؤں کا کیوریٹر آتا ہے۔ اس کے پیچھے سینکڑوں غیر ملکی سیاحوں، طلبا اور علم کے پیاسوں کی بھیڑ ہے۔ وہ گوبر گاؤں کا تالا کھولتا ہے۔ لوگ اپنی سانسسیں روک لیتے ہیں۔ "آج موسم اچھا ہے ! اس لئے گوبر گاؤں کو کھولا ہے۔ "۔ کیوریٹر بہت احتیاط اور پیار سے اپنی انگلی گوبر کے ڈھیر میں گھساتا ہے۔ چھ سات آدمی، عورتیں، بچے اور بھینسیں اس کی انگلی پر چڑھ آتی ہیں۔ وہ بہت نرمی اور پیار سے لوگوں کو دکھاتا ہے۔ لوگوں کی آنکھیں حیرت سے باہر نکلی ہوئی ہیں۔
"واہ!Unbelievable! اسے کہتے ہیں تخلیق! کیا دنیا کے پاس اس قسم کی کوئی چیز ہے ؟لا جواب!” وہ انگلی اپنے ہونٹوں کے قریب لاتا ہے۔
” میری ساری تحقیق ان پر ہے۔ میں نے ساری زندگی ان کے لئے وقف کر دی ہے۔ یہ میرے بچے ہیں۔ ” وہ ان کو چومتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کے موتی چمکتے ہیں۔ ” میں انہیں اپنے بچوں سے زیادہ پیار کرتا ہوں۔ میں گھر سے زیادہ ان کو وقت دیتا ہوں۔ اسے کہتے ہیں تخلیق! واہ!Incredible! اسے "گوبر گاؤں ” نہیں ” سونے کا گاؤں ” کہنا چاہیے۔ ”
٭٭٭
جڑواں
نواب ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اُس کی بہن زینت اور وہ جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ نواب دماغی طور پر ٹھیک نہیں تھا۔ اس کی عمر انیس سال تھی۔ محلے کی تمام عورتیں اس سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔ وہ بٹیر اور کتے پالنے کا بے حد شوقین تھا۔ اگر چہ اس کا اصل نام منیر تھا۔ ماں باپ اور بہنیں اسے پیار سے نواب صاحب کہتی تھیں۔ کچھ لوگ اُسے فقیر سمجھتے، اُس سے دم کرواتے، اُس سے اپنے جسم کے دکھتے حصوں پر ہاتھ پھرواتے۔ اسے پیسے دیتے، کھانے پینے کے لیے چیزیں دیتے مگر کچھ مرد اور بچے اُسے چھیڑتے۔ اُس پر جملے کستے، اُس پر ہنستے اور لطف اُٹھاتے۔ نواب اُن کے پیچھے بھاگتا، ان پر پتھر پھینکتا اور گالیاں دیتا۔
ایک دن اُس نے ایک آدمی کا سجا ہوا، مہندی لگا، موٹا تازہ دُنبہ دیکھا تو بپھر گیا اور باپ سے کہا ” مجھے ابھی ابھی یہ دنبہ خرید دو”
اُس کے باپ نے دُنبے کے مالک سے بات کی۔ ” مجھے یہ دُنبہ اپنے بچوں کی طرح پیارا ہے۔ میں اِسے نہیں بیچ سکتا” دُنبے کے مالک نے کہا۔ مگر شام کو وہی آدمی نواب کے دروازے پر آیا اور اُس سے معافی مانگنے لگا۔
” مجھے وہ دُنبہ آپ کو تحفے میں دے دینا چاہیے تھا۔ خدا کے واسطے اب میرے بچوں کو بدعا نہ دینا۔ میں آپکے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں ” وہ نواب کی ہتھیلی پر پانچ روپے کا نوٹ رکھ کر چلا گیا۔
نواب کی تین بہنیں تھیں مگر سب سے بڑی اور اُس کی ہم سن بہن زینت اُس سے بہت پیار کرتی، اسے کھانا اور چائے دیتی۔ اُس کے کپڑے دھوتی۔
جب زینت کی شادی ہو رہی تھی اور وہ دُلہن بنی کوٹھے میں بیٹھی تھی تو نواب نے اس سے پوچھا: ” باجی آج عید ہے ؟ ”
"نہیں تو ”
” تو پھر تم نے مہندی کیوں لگائی ہے ؟ نئے کپڑے کیوں پہنے ہیں ؟
” بس ایسے ”
"پاگل اس کی شادی ہے۔ یہ اپنے نئے گھر چلی جائے گی” زینت کی ایک سہیلی نے کہا۔
” نئے گھر چلی جائے گی ؟ہمارے گھر کیوں نہیں رہے گی ؟ میں اسے کہیں نہیں جانے دوں گا”
” آج رات باراتی زینت کو اونٹ پر بٹھا کر لے جائیں گے ” سہیلی بولی۔
” لے جا کر تو دکھائیں ! میں انھیں گولی مار دوں گا ”
” پاگل ایسی باتیں نہ کر۔ ”
ہنستی کھلکھلاتی لڑکیوں نے نواب کو چوری کھلائی۔ جب سکھیاں دُلہن کو سنگار کرا رہی تھیں تو ایک لڑکی نے نواب کی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ دوسری نے اُس کے بالوں میں کنگھی کی۔
"سرخی لگا دوں ؟” ایک لڑکی نے پوچھا۔
” سرخی تو عورتیں لگاتی ہیں۔ میں کیا تمھیں عورت نظر آتا ہوں ؟”
"ہاتھوں پر مہندی لگا دوں ؟ "دوسری نے پوچھا۔
” مہندی لگا دو مگر۔۔ ۔ میرا بٹیر کون پکڑے گا ؟”
” میں پکڑوں گی !” ایک چنچل حسینہ نے اپنا نازک ہاتھ بڑھایا۔
"مگر مہندی لگانے کے بعد میں نسوار کیسے رکھوں گا ؟”
” تو اُس کی فکر نہ کر، تیرا یہ کام بھی میں کر دوں گی۔ ” حسینہ نے پیشکش کی۔
ایک لڑکی نے اُسے ہاتھوں پر مہندی لگا دی۔
زینت کے لئے کھانا آیا تو سہیلیاں روٹی کے نوالے دُلہن کے منہ میں دیتیں اور دلہن روٹی کے نوالے نواب کے مُنہ میں دیتی۔
"نواب بتاؤ کونسی لڑکی پسند ہے تمہیں ؟بولو۔ ” چاچی نے اُس سے پوچھا۔ ” آج بتا دو ورنہ پچھتاؤ گے۔ آج ہمارا گھر محلے کی ساری خوبصورت لڑکیوں سے بھرا ہوا ہے۔ بتاؤ کس سے شادی کرو گے ؟”
” مجھے شادی وادی نہیں کرنی "وہ ہاتھوں سے مہندی مروڑنے لگا۔
” اچھا یہ بتاؤ ان تمام لڑکیوں میں سب سے خوبصورت کون ہے ؟”
” خوبصورت۔۔ ۔ خوبصورت۔۔ ۔ میری زینت باجی ہے۔ ” عورتیں اور لڑکیاں زور زور سے ہنسنے لگیں۔
بچپن میں نواب سکول بھی جاتا تھا مگر سکول میں وہ نہ تو کبھی اپنا بستہ کھولتا تھا اور نہ کسی کو اپنے بستے کو ہاتھ لگانے دیتا تھا۔ جب دوسرے بچے پڑھ یا کھیل رہے ہوتے تو نواب اپنے بستے کی چوکیداری کرتا رہتا۔ ایک دن بچوں نے ایک دوسرے سے شرط لگائی کہ جو لڑکا نواب کے بستے کو ہاتھ لگا کر دکھائے گا، اسے دو دن تک سکول میں جھاڑو لگانے اور سکول کا پانی بھرنے سے چھٹی ملے گی۔
جب کوئی لڑکا بستے کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا تو نواب کڑک مرغی کی طرح اپنے بستے پر بیٹھ جاتا اور حملہ کرنے والے بچوں سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتا۔ کچھ دن بعد جب بچے اس مذاق سے تھک گئے تو اُنہوں نے ایک دوسرے سے شرط لگائی کہ جو لڑکا نواب کی ٹوپی یا جوتوں کو ہاتھ لگا کر دکھائے گا۔ اس لڑکے کی جگہ استاد صاحب کے گھر کا پانی دوسرے لڑکے بھریں گے۔ ایک دو لڑکے تو نواب کی ٹوپی اور جوتوں کو ہاتھ لگانے میں کامیاب ہو گئے مگرفوراًاُس نے اپنی ٹوپی اور جوتوں کو بستے میں ڈال کر مضبوطی سے بند کر دیا۔ اس کے بعد جب وہ لڑکوں کے بدلے تیور دیکھتا تو بندر کی طرح بستے کے اوپر چڑھ کر بیٹھ جاتا۔
نواب کچھ بڑا ہوا تو محلے کے بچوں کے ساتھ مل کر باغوں سے آم، ٹماٹر اور مولیاں چُراتا، محلے کے کسی بوڑھے، کانے کو چھیڑتا، مسجد میں نماز پڑھنے جاتا۔ گرمیوں کی لمبی دوپہروں کو لڑکوں سے ملکر آوارہ گدھوں پر سواری کرتا اور سردیوں میں گیدڑ اور سیہ کا شکار کرنے جاتا۔
عشاء کے وقت باراتی سجا ہوا اُونٹ لئے ناچتے گاتے دُلہن کے گھر پہنچ گئے۔ جب باراتی عورتیں آئیں تو نواب اپنی بہن کے پہلو سے نہ اُٹھا اور اپنے بٹیر کو چاول کھلاتا رہا۔ جب باراتی عورتیں ناچ رہی تھیں، تو نواب بھی اُن کے ساتھ ناچنے لگا۔ کچھ عورتوں نے اس کے سرپر روپے کے نوٹ ڈالے اور لڑکیوں نے کاغذ کے پرزے نچھاور کئے۔
نواب نے جب سجا ہوا اُونٹ دیکھا تو اُونٹ پر بیٹھنے کے لیے ضد کرنے لگا۔ دُلہے کے باپ نے جَت سے کہا اور وہ اُسے اونٹ پر بٹھا کر دس بارہ منٹ تک گلیوں میں گھماتا رہا۔ اور لڑکے لڑکیاں اُس کے گرد شور مچاتی اور تالیاں بجاتی رہیں۔
دُلہن کو لینے اُس کا ماما اور چاچا کوٹھے میں آئے۔ باراتی عورتیں اپنے چہرے نہ دکھانے کے لیے جتنا سکڑتیں اور دوپٹوں کو جتنا اپنے چہروں کے گرد کھینچتیں اُتنا ہی ان کے چہرے کھل کر نظر آ رہے تھے۔ ماما اور چا چا نے دُلہن کو رضائی پر بٹھایا، رضائی کو کونوں سے پکڑا اور باہر جانے لگے۔
” تم باجی کو کہاں لے جا رہے ہو؟اسے کیا ہوا ہے ؟” نواب پریشان ہوا۔
” اسے کچھ بھی نہیں ہوا” ماما نے جواب دیا۔
” تو پھر تم اسے اُٹھا کر کیوں لے جا رہے ہو؟ یہ خود کیوں نہیں چلتی ؟”
” خود چل کر دُلہنیں اپنے نئے گھر نہیں جاتیں، پگلے۔ ” مامی نے وضاحت کی۔
” یہ اپنے نئے گھر جار رہی ہے ؟”
"ہاں ”
"یہ ہمارے گھر میں نہیں رہے گی؟”
” نہیں ”
” یہ کہیں بھی نہیں جائے گی۔ اسے کوئی لے جا کر تو دکھائے ! ” نواب گلی والے دروازے کی دہلیز پر بیٹھ گیا۔ ” کوئی یہاں سے گزر کر تو دکھائے۔ ”
دروازے کے باہر باراتی انتظار کر رہے تھے۔ ڈھول بج رہا تھا۔ اونٹ اپنے بڑے بوڑھوں کی عظیم روایت پر عمل کرتے ہوئے یتز ابی پیشاب کی پچکاریاں چلائے جا رہا تھا۔ کچھ رشتہ داروں نے نواب کو راستے سے زبردستی ہٹانے کا مشورہ دیا۔ مگر اُس کی ماں نے اُنہیں منع کر دیا۔ ” یہ فقیر ہے، اس کا دل مت دکھاؤ۔ باراتی تھوڑا انتظار کر لیں گے۔ بند راستوں کو زبردستی نہیں کھولنا چاہیے۔ ”
زینت کو واپس اپنے کوٹھے میں لے جایا گیا۔ سکھیوں کے آنسوں آہستہ آہستہ خشک ہوتے گئے۔ اور وہ دوبارہ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئیں۔
” آؤ کوٹھے میں چلیں۔ ” ماں نے نواب کے بالوں میں انگلیاں پھیریں۔
” نہیں، میں نہیں جاؤں گا۔ ”
” آؤ سوتے ہیں، تمھیں نیند آ رہی ہے ”
” مجھے نیند نہیں آ رہی ”
” آؤ تمھیں سویاں دوں ” ٰ
” میں سویاں نہیں کھاتا۔ ” نواب دروازے کے ساتھ سر لگا کر بیٹھ گیا۔
آخر ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد اُس کی آنکھ لگ گئی۔ ماما اور چاچا نے اُسے ٹانگوں اور بازوؤں سے پکڑا اور کوٹھے میں لا کر چار پائی پر لٹا دیا۔ باراتی دوبارہ حرکت میں آ گئے۔ میراثی کے ہاتھ دوبارہ ڈھول کو پیٹنے میں مصروف ہو گئے۔ سکھیوں اور سہیلیوں کی اکھیاں دوبارہ ندیاں بن گئیں۔
” میں نواب سے مل لوں ؟” زینت نے روتی آواز میں پوچھا۔
” اس سے نہ ملو تو اچھا ہو گا۔ وہ دوبارہ جاگ گیا تو مسئلہ بن جائے گا۔ ” ماما نے صلاح دی۔
” یہ اپنے جڑواں بھائی سے ملے بغیر کیسے اپنے نئے گھر جائے گی؟ تم تو جا نتے ہو، نواب زینت سے کتنا پیار کرتا ہے۔ وہ دونوں اکٹھے میرے پیٹ میں کھیلے ہیں۔ کاش تم لوگ ان کی محبت کو سمجھ سکتے۔ ” اس کی ماں رونے لگی۔
زینت نے اپنے بھائی کے ہاتھوں اور ماتھے پر بوسہ دیا۔ اس کے گرم آنسوؤں جب نواب کے ماتھے پر گرے تو وہ جاگ گیا۔
” تم کہیں نہیں جاؤ گی۔ باجی تم مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤ گی !”
” میں کہیں نہیں جا رہی، پگلے۔ ”
"مجھے سب پتہ ہے، یہ لوگ تمھیں لینے آئے ہیں۔ ” وہ دوڑ کر آیا اور دوبارہ دہلیز پر بیٹھ گیا۔
میراثی کے ہاتھ رُک گئے۔ باراتی بھوکی شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنا نے لگے۔ دوبارہ انتظار ہونے لگا۔ اندھیرا گہرا ہو گیا تھا۔ بارات کیساتھ آئے کچھ لوگ تھک کر اپنے اپنے گھروں کو چل دئے۔
آدھا گھنٹہ بعد نواب کو دوبارہ نیندا ٓ گئی۔ آخر رات کے دس بجے دُلہن کو کجاوے میں بٹھا کر اپنے نئے گھر لے جایا گیا۔
صبح جب نواب جاگا تو اپنی بہن کو غائب پا کر مٹی میں لوٹنے لگا۔ اُس دن اُس نے نہ کچھ کھایا اور نہ پیا۔ اور نہ ہی اپنے بٹیر کو باجرہ کھلایا۔ شام سے پہلے کچھ بچے دوڑتے ہوئے آئے۔ اور نواب کو خبر دی ” پڑوسیوں کی کتیا نے بچے دیئے ہیں ”
"کب؟”
” کل رات ”
” کتنے بچے دیئے ہیں ؟”
” پورے پانچ”
” اُن میں دو پلے میں رکھوں گا”
وہ بچوں کیساتھ دوڑتا ہو اپنے پڑوسیوں کے گھر گیا۔ سرخ مریل کتیا اپنے اندھے مندھے بچوں کو سینے سے لگائے بھوسے میں لیٹی ہوئی تھی۔ نواب نے جب دو پلوں کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی تو کتیا غرانے لگی۔ اس نے کتیا کو روٹی اور گڑ کھلایا، کتیا اسے دوست سمجھنے لگی۔ اس نے نشانی کے طور اپنے دو پلوں کے گلے میں رنگ برنگے چیتھڑے باندھ دیے۔
اب نواب کا سارا وقت پلوں اور کتیا کے پاس گزرتا۔ کبھی کبھار کتیا کی غیر موجودگی میں وہ اپنے دو پلوں کو اپنے گھر لے آتا اور اُنہیں دودھ پلاتا۔
تین سال بعد زینت کو ٹی بی ہو گئی۔ سسرال والوں نے اُسے اپنے میکے بھیج دیا۔ ” جب تک تو ٹھیک نہیں ہو جاتی اپنے میکے رہے گی” سسرال والوں کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ یہ بیماری اپنے باپ کے گھر سے لائی تھی۔ تو وہی اُس کا علاج کرے گا۔ زینت کا باپ نسبتاً خوشحال تھا۔ وہ اس کا علاج کراتا رہا مگر وہ صحت یاب نہ ہوئی، اس کا رنگ ہلدی ہوتا گیا، اس کے جسم سے گوشت جھڑتا گیا۔ وہ پرہیزی خوراک کھاتی تھی۔ ماں نے اُس کے برتن علیحدہ کر دیے تھے مگر نواب سب کے منع کرنے کے باوجود زینت کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔
ایک دفعہ چاند رات کو جب نواب کی دوسری بہنیں مہندی لگا رہی تھیں تو زینت چار پائی پر لیٹی کھانس رہی تھی۔ نواب نے اس سے کہا ” باجی تم اپنے ہاتھوں پر مہندی کیوں نہیں لگاتی ؟”
"میرے ہاتھوں پر مہندی پہلے ہی سے لگی ہوئی ہے نا، اس لیے ! دیکھو میرے ہاتھ پیلے ہیں نا؟”
” ہاں پیلے ہیں ”
” تو پھر مجھے مہندی لگانے کی کیا ضرورت ؟”
” لیکن تم نے مہندی تو لگائی ہی نہیں پھر یہ پیلے کیسے ہو گئے ؟۔۔ ۔ دیکھو باجی جو بھی ہو اگر تم مہندی نہیں لگاتی تو میں بھی مہندی نہیں لگاؤں گا۔ ” یہ کہہ کر اُس نے زبردستی زینت کے ہاتھ سے پکڑا اور اس پر مہندی لگانے لگا۔
عید کے کچھ ہی دن بعد زینت چل بسی۔ اُس کی نمازِ جنازہ دن کے دس بجے ہونا تھا۔ رشتہ دار مرد جب جنازہ اُٹھا کر جانے لگے تو نواب دروازے کی دہلیز پر بیٹھ گیا۔ ” تم اِسے کہیں بھی نہیں لے جا سکتے ”
کچھ رشتہ داروں نے مشورہ دیا کہ اُسے زبردستی راستے سے ہٹا یا جائے مگر اُس کی ماں نے روتے ہوئے کہا "یہ فقیر ہے، اس کا دل مت دکھاؤ۔ زینت نے زندگی میں کبھی بھی اسے خفا نہیں کیا تھا۔ کبھی اس بڑھیا کی بات بھی مان لیا کرو ”
مرد جنازہ واپس لے آئے۔
” نواب تم نے روٹی نہیں کھائی۔ آؤ روٹی کھالو۔ ” ماں نے اسے پھسلایا۔
” میرے لیے چٹنی اور پیاز لاؤ۔۔ ۔ اورلسی بھی۔ ”
جب روٹی، چٹنی، لسی، پیاز لائے گئے تو وہ سب چیزیں اُٹھا کر اپنی بہن کی لاش کے پاس آیا۔
” میں اور باجی اکٹھے روٹی کھائیں گے۔ ”
” باجی تو کب کی روٹی کھا کر سو گئی ہے ” ماں نے کہا۔
” باجی نے روٹی کھا لی ہے ؟اُس نے میرا انتظار کیوں نہیں کیا ؟”
” اُس نے تیر انتظار کیا مگر تو گھر سے غائب تھا۔ تو اپنے دوستوں کیساتھ کھیل رہا تھا۔ ”
” اچھا، ٹھیک ہے۔ ” نواب نے روٹی کھائی، اپنے کتوں کو بھی کھلائی۔
” اچھا تیری باجی سو گئی ہے۔ اب تم بھی آرام سے سو جاؤ ورنہ باجی جاگ جائے گی۔ اُسے تنگ نہ کر و۔ اُسے بخار ہے۔ اس لیے جلدی سو گئی ہے۔ تم بھی سو جاؤ۔ شاباش !” اُس کی ماں اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔
وہ اپنی چار پائی پر لیٹ گیا اور جلد اسے نیند آ گئی۔
دن کا ایک بجا تھا اور سورج آگ برسا رہا تھا۔
"جنازہ ابھی ابھی گھر سے نکال لینا چاہیے اگر نواب جاگ گیا تو پھر مسئلہ کھڑا کر دے گا۔ ” نواب کے بوڑھے باپ نے مشورہ دیا۔
” مگر اس وقت سخت گرمی۔ سب لوگ سوئے ہوئے ہیں۔ جنازہ تو اب ظہر کی نماز کے بعد ہی ہو گا۔ ” اس کے چاچے نے جواب دیا۔
” کوئی بات نہیں۔ ہم جنازہ گاہ میں انتظار کر لیں گے۔ وہاں درخت ہیں۔ سایہ ہے۔ ” بوڑھا بولا۔
عصر سے پہلے زینت کو دفنا دیا گیا۔ گھر میں اڑوس پڑوس کی عورتیں جمع تھیں۔ نواب کا باپ اور چاچا فاتحہ خوانی کے لئے مسجد میں بیٹھے تھے۔ کسی نے نو اب کو نہ جگایا، سب یہ کہہ رہے تھے: ” اُسے سونے دو ! اِس میں ہم سب کی بھلائی ہے ”
جب سب لوگ رات کی روٹی کھا چکے تو نواب کی ماں روٹی لے کر اُس کے پاس گئی اور اُسے جھنجھوڑا۔ مگر وہ نہ جاگا۔ عورتیں اُس کی چارپائی کے گرد جمع ہو کر رونے لگیں۔
” جڑواں بچوں کی محبت کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ وہ اکٹھے آتے ہیں اور اکٹھے جاتے ہیں۔ ” ایک بڑھیا روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
٭٭٭
عروج
قیوم نے دوسری شادی کر لی ہے۔ وہ اپنی نئی نویلی دلہن کے لیے گراں قیمت، فینسی کپڑے لاتا ہے اور پرانی بیوی کے لئے بے رنگ، لنڈے والے کپڑے لاتا ہے۔ نئی بیوی کے لئے قیمتی پوڈر، غیرملکی کریمیں اور اصلی خوشبوئیں لاتا ہے۔
اس کی پرانی بیوی کا رنگ کالا ہو گیا ہے۔ اس کی چمڑی سوکھ گئی ہے۔ کڑاکے دارسردی میں وہ جوتوں اور جرابوں کے بغیر کام کرتی ہے، ٹھنڈے پانی سے برتن دھوتی ہے، جھاڑو لگاتی ہے۔ اس کی ایڑیاں اور ہاتھ پھٹے ہوئے ہیں۔ ان سے خون رستا ہے۔ قیوم اس کے لیے استعمال شدہ کالی گریس کی بالٹی لاتا ہے جسے وہ اپنی ایڑیوں اور ہاتھوں پر لگا تی ہے۔
اس کی نئی بیوی پڑھی لکھی اور اونچے خاندان سے ہے۔ قیوم کپڑے بدل کر اور خوشبو لگا کر اپنی نئی بیوی کے کمرے میں آتا ہے، اسمیں ائیر فریشنر چھوڑتا ہے۔ تازہ پھولوں کے گلدستے سجاتا ہے۔ انارکا رس، انڈے، ٹشو پیپرز جیسی پتلی پڑیاں، بھنے ہوئے بٹیر اور اعلیٰ خوشبودار چائے میزپر لگاتا ہے۔ میاں بیوی فینسی چشمے لگاکر ناشتہ کرتے ہیں۔ وہ بیوی سے نرم شیریں لہجے میں باتیں کرتا ہے اور اپنے ہونٹوں سے مسکراہٹ نہیں بجھنے دیتا ہے۔ مگر جلد اسے اپنی آواز اونچی اور بھدی محسوس ہوتی ہے۔ اسے ایسے لگتا ہے جیسے اس کی آواز پھٹے پرانے اخباروں سے گزر کر، لوہے کے بڑے بڑے پائپوں سے ہوتی ہوئی، ڈھیلے کواڑوں والے دیو قامت، دروازوں سے داخل ہو کر سرکس والے لمبے لاؤڈ سپیکر سے گزر کر آ رہی ہو۔ وہ پانی بن کے بہہ جاتا ہے۔ کرسی سے گر کر، میز کے نیچے سے گزر کر، قالین کے نیچے سے ہوتے ہوئے، گٹر میں ٹپ ٹپ گر جاتا ہے۔ وہ چھچھوندر بن کر غلیظ، بدبو دار نالیوں میں تیرتا ہے۔ سردی میں ٹھٹھرا گیلا چھچھوندر، راستہ سونگتا، ہسپتال پہنتا ہے۔ سرجنوں سے پلاسٹک سرجری کروا کر اپنی آواز کو نرم بنواتا ہے۔ speech therapistسے بولنے کے گر سیکھتا ہے اور صدیوں بعد اپنی نئی بیوی کے پاس لوٹتا ہے اور خوش الحان بلبل کی طرح میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہے۔
قیوم اپنے نئے بچوں کو سجے ہوئے کمرے میں رکھتا ہے، جو اس نے ان کے لیے خاص طور پر بنوایا ہے۔ صبح سویرے انہیں جگانے کے لیے ان کے کانوں میں مدھر گانے گاتا ہے۔ پرندوں کی سریلی بولیاں بولتا ہے۔ ان کے گالوں پر رنگ برنگے پھولوں کی ملائم پتیاں نچھاور کرتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں پر ہرنی کے چمڑے کے نرم دستانے پہنتا ہے، اپنے بچوں کو اٹھا کر پر آسائش، کشادہ باتھ روم میں لے جا کر قسما قسم شیمپوؤں، صابنوں اور مصالحوں سے نہلاتا ہے۔ شاوروں سے نکلنے والی بوندوں کو کچھ اس حساب سے گراتا ہے کہ وہ انھیں چبھتی ہوئی محسوس نہیں ہوتیں۔ نہلانے کے بعد وہ انہیں ڈیزائنر کپڑے پہناتا ہے۔ ناشتے میں انہیں انتہائی خستہ بسکٹ، سپنجی کیک، کیلے، نیم پختہ انڈے، شہد اور Flavoured دودھ پلاتا ہے۔ اپنے حلق میں چھوٹی سریلی سیٹی پھنسا کر مدھر آواز میں ان سے باتیں کرتا ہے۔ انہیں شہزادوں، پریوں، تتلیوں اور پھولوں کی نظمیں سناتا ہے۔ جب وہ اپنی آواز کو سردیوں کی شاموں کی طرح اداس بنا کر بچوں کو سکول کے گیٹ پر خدا حافظ کہتا ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے خدا حافظ کے ساتھ ہی اس کی روح اس کے جسم سے نکل جائے گی۔
وہ حلق میں ٹوٹے ہوئے گھڑے کی گردن لگا کر، منہ پر کالک مل کر، میلے پھٹے کپڑے پہن کر اپنے پرانے بچوں کے بھورے کے پاس جاتا ہے۔ ٹہنیوں سے بنے کھڑکے کو لات مار کر کھولتا ہے، بپھرے ریچھ کی طرح گرجتا ہے۔ اس کی آواز سن کر پرانے بچے ایکدم اٹھ کر قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر باری باری باپ کے قدموں میں گرتے ہیں۔ اپنی اپنی قمیص اتارتے ہیں۔ باپ ان کے جسموں پر تیل اور نیل کا لیپ کرتا ہے، اور انہیں چابک سے پیٹتا ہے۔ مار کھانے کے بعد وہ راکھ کے ڈھیر پر لوٹتے ہیں، راکھ نہاتے ہیں اور پھر کالے، لیس دار گڑ اور دیمک زدہ پتی کے برادے سے بنائے گئے قہوہ سے بھرے بڑے سیاہ چائے جوش کے گردسوکھی گھاس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ جوار کی پانچ انچ موٹی روٹی چائے کے ساتھ کھاتے ہیں۔ دعوت شیراز اڑانے کے بعد ایک پرانا بچہ لکڑیاں لانے کے لیے اپنے بوڑھے اور تقریباً اندھے گدھے کاسازکستا ہے۔ دوسرا گائے بکریاں چگانے جاتا ہے اور جو بکری کمزوری اور بڑھاپے کی وجہ سے نہیں چل سکتی اسے کندھے پر اٹھا کر چرا گاہ تک لے جاتا ہے۔ تیسرا کھیتوں میں کام کرتا ہے۔ کسان بچہ اپنی قمیص اتار کر اس میں کدال، کسی، تیشہ اور اپنے جوتے باندھتا ہے اور اوزاروں کی گٹھڑی اٹھائے کھیتوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ جب پرانے بچے گھر سے نکلتے ہیں تو قیوم ان پر پتھر اور گوبر پھینکتا ہے، انہیں دہشت ناک آواز میں غلیظ گالیاں دیتا ہے۔
نئے، پرانے بچوں کو رخصت کرنے کے بعد وہ ریشمی جالیاں، رنگ برنگے پھندے اور چاندی کانفیس پنجرہ لئے باغوں اور پارکوں میں تتلیاں اور خوبصورت پرندے پکڑنے اور پھول چننے جاتا ہے۔ وہ ایک بجے کے قریب گھر لوٹتا ہے، نئے بچوں کے کمرے کو مہکتے پھولوں سے سجاتا ہے، وہاں خوش رنگ تتلیاں اور خوش گلو پرندے چھوڑ دیتا ہے۔
نئے بچوں کی لگژری کار کی سہانی آواز آ رہی ہے۔ قیوم اپنے ہاتھوں پر نظر ڈالتا ہے، اس کے ناخنوں میں معمولی سی میل پھنسی ہوئی ہے۔ وہ دوڑ کر باتھ روم میں جاتا ہے، ناخن کاٹتا ہے۔ ان پر برش مارتا ہے۔ ہاتھوں کو پانچ قسم کے صابنوں سے دھوتا ہے۔ کار گھر کے دروازے پر پہنچ گئی ہے۔ وہ ہاتھوں پر ریشم کے گلابی دستانے چڑھاتا ہے۔ دستانوں پر پوڈر چھڑکتا ہے، پوڈر پر فیوم لگا کر دوڑتا ہوا جاتا ہے، روشن چہروں والے، گول مٹول بچوں کے پاؤں کو زمین پر لگنے سے پہلے اٹھا لیتا ہے۔ وہ انہیں خوشبودار پانی سے نہلاتا ہے، معطر ٹشوز میں لپیٹ کر نازک کرسیوں پر بٹھاتا ہے۔ ان کے چہروں پر پُر مہک پتیوں کی ہلکی بارش کرتا ہے۔ نئے بچے اپنے مونہوں سے آسائش و سکوں کی مہین آوازیں نکالتے ہیں، گول گول آنکھوں کو سکون سے گھماتے ہیں۔ قیوم انہیں چمکتی، تھرتھراتی غذا کھلاتا ہے۔ بچے ریشم کے جھولوں میں جھولتے ہیں۔ ان کے سروں پر خوش رنگ تتلیاں اور پرندے منڈلاتے ہیں۔ کچھ تتلیاں تو ان کے گالوں کو پھول سمجھ کر ان پر بیٹھ جاتی ہیں۔ قیوم اور اس کی نئی بیوی خسروانہ شان سے اپنے لاڈلے بچوں کو جھولتا ہوا دیکھتے ہیں اور وہ ترنگ میں آ کر طوطوں کی طرح بولنے لگتے ہیں۔
پرانے بچے شام کو گھر لوٹتے ہیں۔ وہ سرسوں اور باتھوں کے پتوں کے ساتھ نان جویں کھاتے ہیں۔ رات کو مویشیوں والے کوٹھے میں سوتے ہیں، مویشی ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ مویشیوں کے سینگوں اور سموں سے بچنے کے لئے ایک پرانا بچہ اپنے بوڑھے خسی گدھے پر بیٹھ جاتا ہے اور اسے وہاں نیند آ جاتی ہے۔ دوسرا چھت سے بندھے چھینکے میں سو جاتا ہے اور تیسرا راکھ کے ڈھیر میں غار کھود کر شب بھراسمیں محوِا ستراحت رہتا ہے۔
نئی بیوی سے بولتے وقت قیوم کو احساس ہوتا ہے کہ اس کی آنکھیں بے وقوفوں کی طرح کچھ زیادہ کھلی ہوئی ہیں، اسے اپنے کان لمبے ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ وہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ راکھ کی ڈھیری سے دھوئیں کا ایک لمبا پتلا دھاگہ بلند ہوتا ہے۔ اس کی سانسوں میں جلے ہوئے ٹائر کی بو بس جاتی ہے اوراسے اپنے حلق میں کڑواہٹ محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنی بیوی کی آواز نہیں سن پاتا ہے۔ جلتے ہوئے ٹائر کے دھوئیں سے اس کا دم گھٹتا ہے۔ راکھ اور کالک میں لتھڑے ہاتھ، قریب المرگ مرغی کے پنجوں کی طرح حرکت کرتے ہیں اور کچھ بوتلوں اور ڈبوں سے ٹکراتے ہیں۔ اسے اپنا آپ ایک بڑے آئنے میں نظر آتا ہے۔ وہ اپنی شکل سے ڈر جاتا ہے۔ وہ سارا دن ڈاکٹروں اورحسن کے ماہروں کے کلینکوں کے چکر کاٹتا ہے۔ وہ جب شام کو گھر آتا ہے تو اس کی آنکھیں متوازن اور پرکشش ہوتی ہیں۔
قیوم کے پرانے بچے اس سے بھی اونچے اور بڑے ہو گئے ہیں مگر ان کا دماغ بچوں جیسا ہے۔ آج کل وہ ان غلیظ، بدبو دار اور لمبے تڑنگے بچوں کو اپنے نرم اور چمکدار ہاتھوں سے نہیں پیٹتا۔ پرانے بچوں کو مارنے کے لئے وہ ایک مشین لایا ہے۔ وہ باری باری ایک ایک بچے کواس فرج نما مشین میں ڈالتا ہے۔ مشین بچوں کو خوب مارتی ہے۔ وہ مشین کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کرتا ہے جس پر کئیOptions بنے ہوئے ہیں: پرانے جوتوں سے چھترول، سبزلچکدار شاخوں سے مالش، لوہے کی سلاخوں سے پٹائی، کان کھینچنا، بال نوچنا، کان اور ناک میں سوئیاں گزارنا، گرم لوہے سے داغنا، ہاکیوں سے پٹائی، اونچی کرخت آواز سنا کر کان کے پردے پھاڑنا۔
پرانے بچے نیند سے اٹھنے کے بعد خود بخود مارنے والی مشین کے سامنے ایسے قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں جیسے لوگ باتھ روم کے دروازے پر اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ انتظار کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک بچے کو باپ کے پاس جا کر اس سے کہنا پڑتا ہے "اب تو آ جاؤ، ہمیں جلدی سے سزادے کر فارغ کر دو تاکہ ہم اپنے اپنے کاموں پر جا سکیں۔ "آجکل انہوں نے قہوہ پینا اور جوار کی روٹی کھانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں انہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ مار کھانے کے بعد وہ بوری سے بنے کپڑے جھاڑتے ہیں۔ خوشی سے ہوا میں دو لتیاں چلاتے ہیں، آسمان کی طرف منہ اٹھا کر گیدڑوں کی طرح ہو ہو کرتے ہوئے جنگل کی طرف جاتے ہیں اور مویشیوں کے ساتھ گھاس چرتے ہیں۔
شام کو گھر پہنچ کروہ گائے بکریوں کے ساتھ قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کا باپ جب مویشیوں کے گلے میں رسیاں ڈالنے آتا ہے تو وہ پرانے بچوں کے گلوں میں بھی رسیاں ڈال دیتا ہے۔ یہ بچے ڈھور ڈنگروں کی طرح کھر لیوں سے بھوسہ کھاتے ہیں اور جگالی کرتے ہیں۔ ان کے جسموں پر لمبے لمبے بال اور ان کے سروں پر سینگ اگ رہے ہیں۔ اس لیے ان کے سروں پر خارش ہوتی ہے جسے بجھانے کے لیے وہ ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ انہیں لڑتا دیکھ کر مویشی خود کو بچانے کے لئے ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ مویشیوں کو ٹکریں مار مار کر باڑے سے باہر نکال دیتے ہیں۔
قیوم کی پرانی بیوی کے ہاتھ پاؤں زیادہ پھٹ گئے ہیں اور ان سے خون کی جگہ نیلی پیپ اور کالا سوما رستا ہے، جیسے کنڈم مشینری کے پرزوں سے سڑا ہوا تیل ٹپکتا ہے۔ اس کے سر میں جوؤں لیکھوں کی جگہ کن کجھورے، کاک روچ اور ہزار پا رہتے ہیں۔ آج کل وہ اس سے گھر کا کام نہیں کرواتے۔ وہ مویشیوں کے باڑے کے قریب بھورے میں رہتی ہے۔ کبھی کبھار قیوم اپنے نئے بچوں کا دل بہلانے کے لئے اسے لوہے کے پنجرے میں بند کر کے گھر لے آتا ہے۔ بچے اس کے پنجرے پر گندے سیب اور سڑے انار پھینکتے ہیں۔ وہ غصے میں آ کر اپنے بال نوچتی ہے، چیختی ہے اور سلاخوں کو دانتوں سے کاٹتی ہے۔ اس سے نئی بیوی اور نئے بچے خوش ہو تے ہیں۔ بچے تالیاں بجاتے ہیں۔ ان کی تالیوں سے ہلکی آواز آتی ہے جیسے کبوتر تالیاں بجا رہے ہوں۔ قیوم یہ دیکھ کر بے حد پریشان ہو جاتا ہے اور فوراً ان کے نازک ہاتھوں کو پکڑ لیتا ہے۔ ” تالیاں مت بجاؤ! ہاتھ زخمی ہو جائیں گے۔ خوشی کا اظہار صرف منہ سے کرو۔ اچھا آج اتنا کافی ہے، بدبو زیادہ ہے اور جراثیم کا بھی خطرہ ہے۔ چلو چلو!ْ”
قیوم، اس کی نئی بیوی اور نئے بچے ارتقا کی منزلیں طے کر تے، انسانی وجود سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ اب وہ حسین ترین پرندے بن گئے ہیں اور ایک شاداب باغ میں رہتے ہیں۔ ان کی آوازیں انسانوں کی آواز کی طرح بھاری اور بھدی نہیں ہیں۔ جب وہ بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے دلآویز، آسمانی ساز بج رہے ہوں۔ انھوں نے روٹی کھانا چھوڑ دیا ہے۔ وہ شہد، پھل، ملائی اور پھولوں کی پتیاں سونے کی نفیس کٹوریوں سے اٹھا کر کھاتے ہیں۔ رات وہ، ہیرے جڑے سونے کے پنجروں میں گزارتے ہیں جنہیں روشن کرنے کے لئے ہزار ہا جگنو تعینات ہیں۔
آج کل ان کا گھر مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔ لوگ دور دور سے گاڑیوں، جہازوں، گھوڑوں اور گدھوں پر سوار ہو کر آتے ہیں۔ انہیں رشک سے دیکھتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں۔
” اس مقام پر پہنچنا آسان نہیں ہے !”
” اس مقام پر پہنچنے کے لئے گیان کی کٹھن منزلیں طے کرنی پڑتی ہیں۔ ”
” سکون، موسیقی، نزاکت، رنگینی اور خوبصورتی کی اس حد کو چھونا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ”
” عروج کی یہ منزل قربانیاں مانگتی ہے اور یہ قربانیاں صرف قیوم جیسا مضبوط، با عزم اور مقابلے کی طاقت رکھنے والا مرد اور اس کے نئے بچے اور نئی بیوی ہی دے سکتے ہیں۔ ”
یاتری جب پرانے بچوں اور پرانی بیوی کے پنجرے کے قریب آتے ہیں تو وہ ناک پر کپڑا رکھ لیتے ہیں اور آپس میں کھسرپھسر کرتے ہیں، ” جو لوگ پر عزم نہیں ہوتے، جو محنت سے جی چراتے ہیں وہ مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ وہ دھرتی کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں اور آسمانوں کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ ”
٭٭٭
دامان کا گُڑ
پرانے زمانے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک دفعہ زوروں کا کال پڑا۔ کھیت چٹیل میدان بن گئے اور کئی دیہاتوں سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے 35 میل دور ایک گاؤں ’تھلیاں‘ میں قحط اس حد تک پہنچ گیا کہ لوگ گایوں کے گوبر سے اُپلے بناتے یا خشک گوبر اکٹھا کرتے، ان سے بوریاں بھر کر اونٹوں پر درابن لے جا کر بیچتے اور سودا سلف خریدتے۔ اکثر بچے، عورتیں اور لڑکیاں تھال اور چنگیر لئے کمزور اور مریل گایوں کے پیچھے پیچھے چلتیں اور گوبر اکٹھا کرتیں۔ اگر ان کا بس چلتا تو گایوں کو ذبح کر کے، ان کے پیٹ چاک کر کے تمام گوبر ایک ہی وقت میں نکال کر ان سے تھاپیاں بنا لیتیں۔ بعض اوقات تو کچھ عورتیں اور بچے گوبر پر لڑ پڑتے۔
خوشحالی اور آبادی کے زمانے میں گاؤں والے، ایک دوسرے کی زمینوں سے مفت لکڑیاں، چارہ، خربوزے اور ساگ لے آتے۔ مگر اب غربت اور خشک سالی کی وجہ سے کوئی کسی کو گوبر بھی نہیں اٹھانے دیتا تھا۔ ایک دفعہ عصر کے وقت عورتیں، بچے، لڑکیاں اپلوں سے بھرے چھابے اور ٹوکریاں سروں پر اٹھائے گھروں کو جا رہی تھیں۔ راستے میں ایک لڑکی نے دوسری لڑکی کو شرارت سے اپلا مارا۔ دوسری لڑکی نے بھی اسے جواب میں اپلا مار دیا۔ ایک بوڑھی عورت ان پر غصہ ہوئی۔ ” خدا کا خوف کرو! اپلے کیوں ضائع کرتے ہو، میں تو اپلوں کو گُڑ کی طرح سنبھال کر رکھتی ہوں۔ ” پھر کیا تھا کہ سب گاؤں والے اپلوں کو گڑ کہہ کر پکارنے لگے۔ بعد میں علاقے کی مناسبت سے لوگ اپلوں کو "دامان کا گڑ” کہنے لگے۔
رات کے وقت لوگ چوّنک میں اکٹھے ہوتے تو گندم، فصلوں اور پانی کے بجائے اپلوں کے بارے میں باتیں کرتے۔ بہاول الدین نے کہا: ” یار پتہ نہیں گایوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ ہماری گائے صرف دو پیالی دودھ دیتی ہے "۔
” اس میں گایوں کا قصور ہی کیا ہے ؟ ہم انہیں کھانے کے لئے دیتے کیا ہیں کہ وہ ہمیں دودھ کے پیپے دیں ؟ اگر دودھ نہیں دیتیں تو کیا، میں تو یہ کہتا ہوں کہ یہ بھی ان کی مہربانی ہے کہ وہ گوبر دیتی ہیں۔ آج کل گوبر مل جائے تو بڑی چیز ہے۔ ” مانجھو بولا۔
” ایک زمانے میں لوگ گوبر کو گند سمجھ کر پھینک دیتے تھے مگر آج کل یہ بکتا ہے "۔ فلکا نے حقے کا کش لیا۔
” ہاں بھائی یہ تو نصیب نصیب کی بات ہے ” چاچا خمیسونے آہ بھر ی۔ "پرانے زمانے میں ایک آدمی اونٹ پر گڑ کی دو بوریاں لاد کر گاؤں جا رہا تھا۔ راستے میں اس سے ایک اللہ والے نے پوچھا’ اونٹ پر کیا لے جا رہے ہو؟‘آدمی تھکا ہو تھا، اس نے غصے میں جواب دیا ’اپلے ہیں، کھاؤ گے ؟‘ جب وہ گھر پہنچا اور بوریوں کو کھولا تو گڑ اپلے بنا ہوا تھا۔ آدمی دوڑتا ہوا واپس اس جگہ پر آیا مگر اللہ والا غائب ہو چکا تھا۔ ایک دفعہ ایک دوسرا آدمی اونٹ پر اپلے لاد کر گھر جا رہا تھا۔ اسے ایک اللہ والا ملا اور پوچھا ’ اونٹ پر کیا لے جا رہے ہو؟‘ ’بابا گڑ ہے۔ ‘ آدمی نے جواب دیا۔ گھر پہنچ کر اس نے بوریوں کو کھول کر دیکھا تو اپلے گڑ بن چکے تھے۔ ”
"چاچا خمیسو گڑ کا نام نہ لے اس سے میرے منہ میں پانی آ جاتا ہے۔ ” سونونے اپنے ہاتھ کو زور سے کاٹا۔
” یار گڑ اتنا میٹھا کیوں ہوتا ہے ؟ پتہ نہیں کس چیز سے بناتے ہیں ؟” چاچا خمیسو نے پوچھا۔
"گڑ، کجھورسے بناتے ہیں "۔ فلکا نے رائے دی۔
” نہیں۔ میرے خیال میں گڑ مٹھائی سے بنتا ہے۔ ” سونو نے اس کی مخالفت کی۔
” تم سب غلط ہو!ہمیں یہ سوال چاچا وزیرو سے پوچھنا چاہیئے وہ بہت گھوما پھرا ہے۔ ” مولوی صاحب نے تجویز پیش کی۔
دوسرے دن جب چاچا وزیرو چونک پر آیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا ” چاچا وزیرو گڑ کس چیز سے بنتا ہے ؟”
"گڑ کماد کے رس سے بنتا ہے۔ رس کو بڑی کڑاہیوں میں ابالا جاتا ہے۔ جب رس خشک ہو کر سخت ہو جاتا ہے تو اس کی مٹھیاں بنا بنا کر رکھتے جاتے ہیں۔ تازہ گڑ کھانے کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔”
سب کے منہ میں پانی آ گیا۔
” گڑ، چاچا کہاں بنتا ہے ؟” سونو نے سوال کیا۔
” بہت دور، دریا کے پار، نہری علاقے میں۔۔ ۔ خدا کی عجب تقسیم ہے ! کسی کے نصیب میں گڑ لکھ دیتا ہے اور کسی کے نصیب میں اپلے۔ کسی کو ریشم اکٹھا کرنے کے کام پر لگا دیتا ہے اور کسی کو پتھر اکٹھا کرنے پر۔ کچھ کھیتوں میں کھار اور تمے اگا دیتا ہے اور کچھ کے کھیتوں میں زعفران اور الائچی۔ خدا تو بے نیاز بادشاہ ہے ! اس میں ہماری بہتری ہو گی، ہمیں صبر سے کام لینا چاہیے۔ خدا خیر کرے گا!”
سونو نے اس رات خواب میں دیکھا کہ وہ گڑ کے پہاڑ پر بیٹھا ہے۔ گڑکو بوریوں میں بھر تا ہے اور اونٹ پر لاد کر بازار میں بیچتا ہے۔ بہت سے پیسے کماتا ہے۔ پیسوں سے کپڑے اور زیور خریدتا ہے اور اپنی منگیتر بینا سے شادی کرتا ہے۔
سونو پورے دس دن تک اپلے جمع کرتا رہا۔ اس نے اپلوں کی پوری بیس بوریاں اکٹھی کیں۔ وہ خوش تھا۔ اس کے پاس اپنا ایک اونٹ تھا اور ایک اونٹ اس نے اپنے دوست سے مانگا۔ رات کے وقت دونوں کو گھر میں باندھا اور کھردرے بان کی کھاٹ پر لیٹ گیا۔
صبح درابن جا کر ان بیس بوریوں کو بیچوں گا۔ پورے دو روپے ملیں گے۔ دو روپے بڑی چیز ہے۔ دو روپے کا کیا کیا لوں گا ؟اماں کی پکھی، ایک سیر گھی، دو سیر گڑ، دمان کا گڑ نہیں بلکہ اصلی اور میٹھا گڑ، بینا کے لئے چوڑیاں، اپنے لئے چھوٹا شیشہ اور ہو سکا تو ایک موچنا۔ موچنا بڑے کام کی چیز ہے۔ اس سے ناک سے بال نکالو۔ پاؤں سے کانٹے نکالو۔ وہ سوچ رہا تھا۔
گرمی کا موسم تھا۔ مچھر بھگانے کے لئے ہر گھر میں بکریوں کی میں گیاں سلگ رہی تھیں۔ سونو کے گھر میں بھی مچھر بھگانے والا دھواں اٹھ رہا تھا۔ سلگتی ہوئی کچھ مینگنیاں ہوا کے ساتھ لڑھک کر اپلوں کی بوریوں تک پہنچ گئیں۔ اپلے ساری رات آہستہ آہستہ سلگتے رہے۔ صبح، منہ اندھیرے سونو اٹھا۔ اس نے اونٹوں پر پلان رکھے، اپلوں کی بوریوں کو ہاتھ لگایا تو وہ راکھ بنی ہوئی تھیں۔ اس کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ اس رات اس نے خواب دیکھا کہ شمال سے گھٹائیں امنڈ کر آتی ہیں۔ گول اور خوبصورت اپلوں کی زور دار بارش ہوتی ہے۔ سب لوگ گھڑوں، مٹکوں اور کوزوں میں اپلے اکٹھا کرتے ہیں۔ مرغوں اور کبوتروں پر لاد کر درابن لے جاتے ہیں۔ بہت سے پیسے کماتے ہیں۔ وہ خود بھی بہت سے اپلے بیچتا ہے۔ بہت سے پیسے کماتا ہے اور اپنی منگیتر سے شادی رچاتا ہے۔
میٹھی عید آنے میں تین دن باقی تھے۔ "تھلیاں ” کے سب گھروں نے آٹھ آٹھ آنے جمع کر کے ایک بوری گڑ کے پیسے اکٹھے کئے۔ صبح سویرے رانجھو کو پیسے دے کر اونٹ پر بٹھایا اور گڑ لینے درابن روانہ کر دیا۔ عصر کے وقت گاؤں کے مرد، عورتیں اور بچے سب انتظار میں تھے کہ رانجھو اونٹ پر گڑ کی بوری لائے گا، گڑ کو بڑے بوڑھے چونک میں بیٹھ کر تیس حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ہر کوئی اپنا حصہ گھر لے آئے گا اور سارے گاؤں میں گڑ کی پاگل کر دینے والی خوشبو پھیل جائے گی۔ رانجھو شام سے پہلے گاؤں پہنچ گیا مگر گڑ کے بغیر۔ راستے میں کچھ آدمیوں نے اس سے گڑ چھین لیا تھا۔ اس رات گاؤں میں ماتم کاساسماں تھا۔ گاؤں کے سب مرد دوبارہ چونک میں اکٹھے ہوئے، مشورہ ہوا۔ دوبارہ آٹھ آٹھ آنے جمع کئے گئے۔ صبح دو آدمیوں کو دوبارہ گڑ لینے روانہ کیا گیا مگر شام کے وقت وہ بھی خالی ہاتھ لوٹ آئے۔ انہیں خالی ہاتھ لوٹتا دیکھ کر لوگوں کے ہاتھ پاؤں شل سے ہو گئے۔
” درابن کی تمام دکانوں پر گڑ ختم ہو گیا ہے۔ ” انہوں نے اطلاع دی لیکن چاچا وزیرو کا اصرار تھا کہ دکانداروں نے گڑ ذخیرہ کر لیا تھا تاکہ وہ منہ مانگے پیسے مانگ سکیں۔
” تیری منگیتر کے گھر کیا دیں گے ؟ منگنی کے بعد کی یہ پہلی عید ہے۔ اگر کہیں سے مجھے گڑ کی ایک بھیلی بھی مل جائے تو میں اس سے شکر بنا کر میٹھی سویاں بینا کے گھر بھیج دوں۔ اگر اس نے منگنی کے بعد پہلی عید پر میٹھی سویاں کھا لیں تو تم دونوں کی ساری زندگی میٹھی میٹھی گزرے گی۔ ” سونو کی ماں نے اس سے روہانسی آواز میں کہا۔
رات کو سونو نے خواب دیکھا کہ ایک پہنچا ہوا بزرگ ان کے گھر آتا ہے، اپلوں، تھاپیوں پر دم پڑھ کر انہیں گڑ میں تبدیل کرتا جاتا ہے۔ اور ان کے گھر کے تمام برتن گڑ سے بھر جاتے ہیں۔
صبح عید کا دن تھا۔ سونو اپنی ماں کے جاگنے سے پہلے اٹھا۔ اس نے سوچا، ہو سکتا ہے کہ سچ مچ کوئی اللہ والا، رات کے اندھیرے میں برتنوں کو گڑ سے بھر گیا ہو، وہ برتنوں کی تلاشی لینے لگا۔ پیالوں، کٹوروں، تھالیوں، گھڑوں اور چنگیروں کو الٹ پلٹ کر دیکھا مگر ان سے کچھ نہ نکلا۔ کارنس پرسجے ہوئے برتنوں کی تلاشی لیتے وقت اس کے ہاتھ دو چوہوں سے ٹکرا گئے، دھول اور دھوئیں سے اٹے برتنوں سے چوہوں کی مینگنیوں اور مردہ جھینگروں کے سوا کچھ نہ نکلا۔ پھر ایک زنگلی صندوق سے اسے گڑ کی میلی بھیلی مل گئی۔ اس نے اسے دانتوں سے کاٹا، مٹی اور دھوئیں کے ذائقے کے بعد اسے میٹھے کا احساس ہوا۔ اسے لہلہاتی فصلیں، ٹھنڈے سائے، نیلے پانی، غلے سے بھرے کوٹھے، اور دودھ اور گھی سے بھرے مٹکے یاد آ گئے۔ ایک مریل بلی نے میاؤں کر کے اس کے تصور کے سارے افق توڑ ڈالے۔ اس نے ایک سال سے گڑ نہیں چکھا تھا۔ اس کے جی میں آیا، ساری بھیلی کو کھڑے کھڑے کھا جائے۔ پھر اسے عید، بینا اور سویاں یاد آئیں۔ وہ خوشی سے دوڑتا ہوا اپنی ماں کی چار پائی کے پاس آیا، اسے سرہانے سمیت اٹھایا اور ناچنے لگا۔
” کیا بات ہے ؟اتنے خوش کیوں ہوں، کیا باہر بارش ہو رہی ہے ؟ یا نالہ ولیٹری میں پانی آ گیا ہے ؟”
” نہیں اماں نہیں، مجھے گڑ کی بھیلی ملی ہے۔ بس تو سویاں ابال۔ میں اس گڑ کی بھیلی کو صاف کر کے اس سے شکر بناتا ہوں۔ آج پورے گاؤں میں سب لوگ گڑ کے بغیر چاول اور سویاں کھائیں گے اور صرف میری بینا میٹھی سویاں کھائے گی۔ ”
سونو کی ماں نے سویاں ابالیں، ان پر دیسی گھی اور شکر ڈالی اور خود چکھے بغیر سویوں کی تھالی کو ریشمی، پھول دار کندورے میں باندھا اور جوتی گھسیٹتی، خوشی خوشی اپنے ہونے والی بہو کو دے آئی۔
دیکھتے ہی دیکھتے سارے گاؤں میں خبر پھیل گئی کہ آج صرف بینا نے میٹھی سویاں کھائی تھیں۔
” بڑی بھاگاں والی ہے یہ لڑکی! آج عید کے دن گاؤں میں کسی کا منہ بھی میٹھا نہ ہوا۔ مگر صرف اس لڑکی کی قسمت میں میٹھی سویاں لکھی تھیں۔ بڑی خوش قسمت ہے یہ بینا!جب سونو کے گھر جائے گی تواس کے نصیب سے اس کے گھر کے کوٹھے گندم سے اور مٹکے دودھ سے بھر جائیں گے۔ خدا ان کی جوڑی کو سلامت رکھے !” عورتیں آپس میں باتیں کرتی رہیں۔ اس دن سونو ایسے محسوس کر رہا تھا جیسے اس نے گھی اور شکر میں تر بتر کئی من سویاں کھائی ہوں۔ سارا دن اسے اپنی ڈکاروں سے دیسی گھی اور شکر کی خوشبو آتی رہی اور وہ ان مہندی لگی ہوئی انگلیوں کے بارے میں سوچتا رہا جو میٹھی سویوں کو منہ تک لے گئی ہوں گی۔ وہ ان ہونٹوں کے بارے میں سوچتارہا جن سے گزر کر سویاں منہ تک پہنچی ہوں گی۔ وہ بینا کے دانتوں، آنکھوں، بالوں اور گالوں کے بارے میں سوچتا رہا۔
جب سونو کی منگنی ہوئی تھی تو اس کی ماں نے اس کی دلہن کے لئے دو طلائی زیور اور تین جوڑی کپڑے خرید کر رکھ دئیے تھے۔ جب قحط سخت ہوا تو وہ گہنے بیچ کر کھا گئے۔
” اگر بارشیں برسیں، ہماری فصلیں اچھی ہوئیں تو ایک سال کے اندر اندر سونو بیٹے کی شادی ہو جائے گی۔ ” اس کی ماں گھر آنے والی ہر عورت اور آدمی کو بتاتی۔ وہ اٹھتے بیٹھتے بارش کے لئے دعا کرتی رہتی مگر آسمان مہربان نہ ہوا۔ زمینیں بنجر اور ویران پڑی رہیں۔ ” تھلیاں ” میں قحط اتنا سخت ہو گیا کہ اکثر گھرانے وہاں سے کوچ کر کے دریا کے پار نہری علاقے میں مزدوری کرنے چلے گئے۔
جب تین سال تک مسلسل بارشیں نہ ہوئیں تو سونو کے ہونے والے سسر نے اپنی بیٹی کی منگنی تڑوا کر اس کی درابن میں شادی کر ادی۔ ایک مہینہ بعد سونو کی ماں چل بسی اور پھر ایک دن سونو نے چھوٹی کنگھی، شیشہ، مونچھیں بنانے والی مقراض، موچنا اور بارہ آنے جیب میں ڈالے اور دو جوڑی کپڑے ٹین کے ٹرنک میں رکھے۔ ٹرنک کو کندھے پر اٹھایا اور دریا کے پار نہری علاقے میں چلا گیا۔ وہاں وہ گڑ بنانے والے کاریگر کے ساتھ نوکر بن گیا۔ پہلے دن جب وہ گرم گرم گڑ کی بھیلیاں بنا رہا تھا تو اسے اپنی دادی یاد آ گئی جو صبح صبح گھر کے باہر کھلے میدان میں گوبر سے اپلے تھاپتی۔ اسے وہ دن یاد آیا جب بچپن میں غصے میں آ کر اس نے اپنی اماں کے تازہ اور نرم اپلوں پر دوڑ دوڑ کے انہیں کچل ڈالا تھا۔ اسے بینا یاد آ گئی، اسے اپنی منگنی یاد آ گئی جس میں اس نے گاؤں کے لوگوں میں گڑ تقسیم کیا تھا۔ اس نے منہ میں تھوڑا سا گڑ ڈالا مگر اسے میٹھے کا احساس نہ ہوا۔ اسے ایسے لگا جیسے اپلا کھا رہا ہے۔
٭٭٭
بُو
"مجھے ایک اچھا سا پرفیوم دکھانا” شریف، دکان دار سے کہتا ہے۔
” سر یہ سب اچھے پرفیوم ہیں ” دکاندار جواب دیتا ہے۔
” انہیں دیکھ لیا ”
” اچھا تو پھر ذرا ان پر فیومز کو چیک کرو۔ ذرا مہنگے ہیں ”
” کوئی بات نہیں۔۔ ۔ مجھے پسند آ جائیں۔۔ ۔ پیسوں کی کوئی بات نہیں۔ نہیں، کوئی اور نہیں ہیں ؟”
” ہیں۔۔ ۔ میں اندر سے لاتا ہوں۔ تمھیں ذرا انتظار کرنا پڑے گا ”
” ان میں بھی میری پسند کا کوئی نہیں ہے "۔
” عجیب بات ہے، یہ شہر کی سب سے بڑی کاسمیٹکس کی دکان ہے۔ وزیر اور سیکریٹری لوگ پرفیومز یہاں سے خریدتے ہیں ”
” یارسچ بتاؤں ؟ میرے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ رات کو میں نے ایک خواب دیکھا۔ ایک محل میں میری ملاقات ایک خوبصورت شہزادی سے ہوتی ہے۔ میں اُسے موتیوں کا ہار دیتا ہوں۔ وہ مجھے تازہ سرخ انار پیش کرتی ہے۔ شہزادی مجھ سے کہتی ہے۔ ” اسے سونگھو” میں سونگھتا ہوں۔ اُس سےا تنی گندی بو آتی ہے کہ میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ اُس وقت سے اب تک میری ناک میں وہی سڑا ند پھنسی ہوئی ہے۔ میں جو چیز کھاتا ہوں، پیتا ہوں، میری ناک میں اُسی انار کی سڑی بو لوٹ آتی ہے۔ صبح اُٹھتے ہی میں آپ کی دکان پر آیا تاکہ کوئی اچھا سا پرفیوم لے کر کپڑوں پر لگاؤں۔ آپ نے جتنے پرفیومز بھی دیکھائے ہیں، اُن سب سے اسی سڑے انار والی بُو آ رہی ہے۔ بھائی ناراض نہ ہونا۔ اب تم بتاؤ میں کیا کروں ؟”
” تم بہت سارے تازہ پھول لو اور انھیں اپنے سونے کے کمرے میں رکھ دو۔ پھولوں کی صرف خوشبو ہی نہیں ہوتی بلکہ اُن کے خوبصورت رنگ بھی ہوتے ہیں۔ جب تم رنگ برنگے پھولوں کو دیکھو گے تو تمھارے ذہن میں خوشبو کی خوبصورت تصویر بنے گی اور تم اس مکروہ بدبو کو بھول جاؤ گے۔ ”
شریف فلورسٹ کے پاس جاتا ہے۔ ہر طرف کھلے کھلے، خوش رنگ پھولوں کو دیکھ کر اُس کا جی چاہتا ہے کہ پھولوں کے اس بستر پر لیٹنا شروع کر دے۔ رنگ برنگی نازک پتیوں کو دانتوں سے چبا ڈالے اور اُن کی خوشبو کھانا شروع کر دے۔
وہ بہت سارے پھول خریدتا ہے۔ اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ کو پھولوں سے بھر کر گھر پہنچ جاتا ہے اور اپنے سونے کے کمرے میں ہر طرف پھول بکھیر دیتا ہے۔
"اچھا ہوا ! گھر والے شادی پر گئے ہوئے ہیں ورنہ وہ کیا سمجھتے۔ اب میں گندی بو کو بھول جاؤں گا۔ ”
وہ گہری سانسیں لینا شروع کرتا ہے مگر اُسے کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔ اُلٹا اُسے ایسے لگتا ہے جیسے اُس نے اپنے کمرے کو گلے سڑے اناروں سے بھر دیا ہو۔ غصے میں آ کر وہ تمام پھولوں کو ڈسٹ بِن میں پھینک دیتا ہے۔
شریف دوبارہ بازار آتا ہے۔ ایک بڑے سٹور سے مختلف پھلوں کے آٹھ دس قسم کے غیر ملکی جوس ٹن خریدتا ہے۔ دوبارہ کار میں بیٹھتا ہے اور درختوں میں چھُپی ایک ویران، پر سکون شاہراہ پر آ کر گاڑی کھڑی کرتا ہے۔ سب سے پہلے مالٹے کے رس کو چکھتا ہے۔ پھر سیب اور کیلے کے رس کو چکھتا ہے۔ ایک ایک کر کے وہ تمام جوسوں کو آزماتا ہے مگر اپنی ناک میں پھنسی عفونت کی وجہ سے ایک گھونٹ بھی حلق کے نیچے نہیں اتار سکتا۔ وہ جوس کے تمام ٹنّوں کو قطار میں کھڑا کرتا ہے اور اُن پر گاڑی گزار کر چلا جاتا ہے۔
بازار میں اُسے ایک آدمی انگاروں پر سیخ کباب بناتے نظر آتا ہے۔ شریف گاڑی کو غلط جگہ پارک کرتا ہے اور کبابوں والے کے پاس جاتا ہے۔
” جناب کباب چاہئیں ؟”
” ایک منٹ،ا گر مجھے ان کی بوپسندآئی تو ضرور خریدوں گا۔ ”
” گوشت بالکل تازہ ہے اور ہمارا مصالحہ بھی اچھا ہے۔ "کبابی انگاروں پر تیز تیز پنکھا جھلنے لگتا ہے۔ خوشبودار دھوئیں کا ایک مرغولہ شریف کی ناک سے ٹکراتا ہے۔
” ارے تم کباب اناروں کے ٹکڑوں سے بناتے ہو؟”
” نہیں صاحب ہم تو ان میں تھوڑا ساتازہ انار دانہ ڈالتے ہیں ”
اس بوسے شریف کاسرایساچکرا جاتا ہے کہ کچھ دیر تک وہ اپنی گاڑی کو بھی نہیں ڈھونڈ پاتا۔
گھر جاتے ہوئے اُسے ” ناک کان گلے ” کے ڈاکٹر کا بورڈ نظر آتا ہے۔ بورڈ پر بنی ہوئی نارنجی ناک کو دیکھ کر اُسے لگتا ہے جیسے "سڑی بو” کے علاوہ ناک کی کوئی اور بیماری ہو بھی نہیں سکتی۔
وہ ڈاکٹر کیReceptionist سے ملتا ہے۔ ” مجھے فوراً ڈاکٹر سے ملنا ہے۔ ”
” مگر آپ سے پہلے کئی مریض بیٹھے ہیں ”
"مجھے ایمرجنسی ہے ”
” کیا تکلیف ہے آپ کو؟”
” میری ناک میں تکلیف ہے۔ میں ڈبل فیس دینے کے لیے تیار ہوں ”
وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔
” جی۔۔ ۔ جی جی۔۔ ۔ ہاں ٹھیک ہے۔۔ ۔ میں آپکی بات سمجھ گیا۔ آپ یہاں سیدھے لیٹ جائیں۔ آنکھیں بند کریں۔ "ڈاکٹر اُس کی ناک میں سپرے کرتا ہے۔ ” کچھ افاقہ ہوا؟”
” نہیں !سڑی بو جوں کی توں موجود ہے !”
” اچھا تم مارکیٹ سے یہ سپرے لے لو، ذرا مہنگا ہے۔ "ڈاکٹر کاغذ پر لکھتا ہے۔ مریض سامنے والے سُپر سٹور سے سپرے خریدتا ہے اور اُدھر کھڑے کھڑے ناک میں تین چار بار سپرے کرتا ہے مگر اُسے کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔
” السلام علیکم، ڈاکٹر صاحب ”
"و علیکم السلام !”
” سر میں۔۔ ۔ وہ۔۔ ۔ ناک میں سپرے کیا مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ ”
” آپ کا مسئلہ نفسیاتی ہے۔ آپ کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرو”
” ٹھیک، ٹھیک۔۔ ۔ ایسا ہوتا ہے۔۔ ۔ ہوں ہوں ہوں۔ میرے پاس اس کا علاج ہے۔ آپ وقت پر پہنچے۔ یہ چیز دوائی سے ٹھیک نہیں ہوتی۔ مشورے، مشق اور باقاعدہ رپورٹنگ سے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ یہ بو اصل میں وجود نہیں رکھتی لیکن آپکے ذہن پر اُس بو کی چھاپ رہ گئی ہے۔ آپ نہ تو اپنی ناک بیچاری میں قسم قسم کے سپرے چھڑکو اور نہ ہی اسے برا بھلا کہو ” ماہرنفسیات ہنستا ہے۔ ” اچھا یہ بتاؤ آپ نے خواب میں جو انار دیکھا تھا اُس کا رنگ کیسا تھا؟”
” سرخ ”
” ٹھیک ہے، سمجھ گیا۔ آپ سرخ رنگ کے بارے میں نہ سوچا کریں۔ جب آپ سرخ رنگ کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپکے ذہن میں انار آ جاتا ہے اور جب انار آتا ہے تو آپ کو سڑی بو آنے لگتی ہے۔ آپ ایسے سمجھیں جیسے سرخ رنگ سرے سے دنیا میں موجود ہی نہیں ہے۔ آپ اسی رنگ کو اپنے ذہن سے، اپنے ذخیرہ الفاظ سے نکال دیں۔ اور ہاں آپ سرخ رنگ کی کوئی چیز استعمال نہ کریں، آپکے کمرے کے پردے، فرنیچر، بیڈ شیٹ، برتن، کوئی چیز بھی سرخ نہیں ہونی چاہیے۔ دو دن بعد ملیں گے۔ خدا حافظ!”
یہ ماہرنفسیات تو مجھے بے وقوف لگتا ہے۔ اگر میں سرخ رنگ کو ذہن سے نکال سکتا تو پھر کیا مشکل تھی۔ مجھے اپنا علاج خود کرنا چاہیے۔ مجھے نیند کر لینی چاہیے۔ نیند کر لینے کے بعد میں اس گندی بو کو بھول جاؤں گا مگر نیند کیسے آئی آئے گی؟۔۔ ۔ خوب آور گولیاں لینی چاہئیں۔
شریف کو نیند آ جاتی ہے۔ وہ خواب میں دیکھتا ہے، شہزادی بہت سارے اُونٹوں پر گندے انار لادے اُس کے پیچھے بھاگتی ہے۔ شہزادی اور اس کے اونٹ اسے گندے اناروں سے مارتے ہیں۔ ڈاکٹر اناروں کے بدبو دار رس سے بھرے بڑے بڑے انجکشن لے کر اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ جب وہ ان کے ہاتھ نہیں آتا تو وہ مشین گنوں میں انجکشن رکھ کر اسے مارتے ہیں اور کبابوں والا مشکیزے میں انار کے کبابوں کا سرخ دھواں بند کر کے آتا ہے اور مشکیزے کا منہ اس کی ناک کے سامنے کھول دیتا ہے۔ اس کی آنکھ کھل جاتی ہے
” اوئے ابھی تو صرف اڑھائی بجے ہیں، اس کا مطلب ہے میں صرف آدھا گھنٹہ سویا ہوں۔ ہائے میرا سر پھٹ رہا ہے۔ میں دو دنوں سے نہیں سویا۔ اس وقت کہاں جاؤں ؟ کس سے باتیں کروں، کہاں وقت گزاروں ؟ ہائے میرے منہ سے کتنی گندی بو آ رہی ہے۔ مجھے برش کرنا چاہیے۔۔ ۔ اوئے لگتا ہے یہ پیسٹ سڑے اناروں سے بنی ہے۔ یہ سب اس ناک کا قصور ہے۔ ناک کے سوراخوں کو بند کر دیتا ہوں۔۔ ۔ کپاس کہاں گئی؟ کپاس کو چھوڑو۔ ٹشو پیپر سے بند کر لیتا ہوں۔ بند ہو گے سوراخ۔۔ ۔ اچھا ہوا۔۔ ۔ مگر سڑے انار کی بدبو تو اب بھی آ رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے، بو صرف ناک سے نہیں آتی بلکہ کانوں، آنکھوں اور منہ سے بھی سونگھی جا سکتی ہے۔ میری ناک مکمل بند ہے مگر انار کی سڑی بو اب بھی مجھے آ رہی ہے۔ جیسے میرے وجود میں سڑے اناروں کی بد بو کی پائپ لائن بچھی ہو۔
صبح سے بہت وقت باقی ہے۔ ذرا ٹی وی دیکھ لیتا ہوں۔ اوئے سکرین سے کتنی تیز روشنی نکل رہی ہے۔ میری آنکھوں سے پانی بہنے لگا ہے۔۔ ۔ ٹی وی نہیں دیکھ سکتا۔ چائے بنا لیتا ہوں مگر چائے سے بھی وہی بو آئے گی۔ چائے کو چھوڑو۔ ذرا پانی پی لیتا ہوں۔ اف پانی سے بھی وہی بد بو آ رہی ہے۔ میرے اللہ میں کہاں جاؤں ؟ کیا کروں ؟ لگتا ہے یہ بو میری جان لے کر ہی رہے گی۔
"ڈاکٹر صاحب ہمارے مریض ٹھیک تو ہو جائے گا نا؟” شریف کا بھائی پوچھتا ہے۔
” ہاں وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا اور ہاں، جب یہ ہوش میں آئے تو اس سے بو کا ذکر نہیں کرنا۔ ”
"اسے ہوش کب آئے گا؟”
"دس بارہ گھنٹے بعد۔ یہ جتنا آرام کرے گا اس کے لئے بہتر ہے۔ ہوش میں آنے کے بعد اسے انار کا جوس یا کوئی بھی سرخ رنگ کا جوس نہ دینا۔ جب اسے ہوش آئے تو اس سے ادھر ادھر کی باتیں کریں۔ ہنسی مذاق کریں، مزاحیہ فلمیں دکھائیں، اسے پکنک پر لے جائیں۔ ”
میں جاگ رہا ہوں یا سورہا ہوں ؟ اگر جاگ رہا ہوں تو پھر میں آنکھیں کیوں نہیں کھول سکتا ؟میں ہاتھ کیوں نہیں ہلا سکتا؟ میں گھر میں ہوں یا کہیں اور؟ میرے آس پاس آوازیں تو جانی پہچانی سی لگ رہی ہیں۔ یہ آواز تو شمائلہ کی ہے، اپنی امی سے پتہ نہیں کس بات پر جھگڑ رہی ہے۔ سکول جانے سے پہلے وہ ہر روز اس طرح چڑ چڑ باتیں کرتی ہے۔ یہ لڑکیاں بھی نا۔۔ ۔
” بھابی آپ چائے بہت اچھی بناتی ہیں !”
” تھنکس!ٹوسٹ لیں نا”
"لے رہا ہوں ”
’’مکھن ذرا اور لگا دوں ؟‘‘
” نو تھینکس۔ ”
” کل ہم پکنک پر جا رہے ہیں ”
” کہاں ؟”
” یہ آپ کے لئے surprise ہے۔ ”
” پکنک کے لئے خاص کیا بنا رہی ہو؟”
” بہت کچھ۔۔ ۔ اچھا آپ ٹی وی دیکھنا چاہیں گے ؟کچھ دیر پہلے بہت اچھی کامیڈی چل رہی تھی”
” ہاں ہاں۔ ٹی وی آن کر دیں …. اور آواز ذرا کم رکھنا”
"انکل میں آپ کے لئے پھول لائی ہوں ”
"او تھینک یو مائی لٹل لیڈی! مجھے پیار کرو۔۔ ۔ تم ابھی تک سکول نہیں گئی؟”
"نہیں۔ انکل آج سنڈے ہے۔ ”
"تمھارے ابو کہاں ہیں ؟”
"وہ باہر لان میں ہیں۔ انکل آپ آج مجھے کہانی سنائیں گے نا؟”
"کونسی کہانی ؟ میرے پاس تو کہانیوں کی بوریاں بھری پڑی ہیں۔ ”
” وہی شہزادی والی”
"کونسی شہزادی ؟”
” محل والی شہزادی، جو شہزادے کو انار دیتی ہے۔ تین دن پہلے آپ نے یہ کہانی درمیان میں چھوڑ دی تھی”
محل۔۔ ۔ شہزادی۔۔ ۔ انار۔۔ ۔ شریف کو ایسے لگا جیسے کسی نے اسے ناک سے پکڑ کر سڑے اناروں کے رس کے تالاب میں دھکا دے دیا ہو۔
٭٭٭
میری سہیلی
اَزک پرائمری سکول میں میری بدلی ہو گئی تھی۔ پوہ کا مہینہ تھا اور سردی جوبن پر تھی۔ میں سائیکل پر عصر کے وقت گاؤں پہنچا۔ سکول کا چوکیدار فرید و مجھے اپنی چوّنک پر لے گیا۔ فرید و اور میں رات کی روٹی کھا رہے تھے۔ ایک چھوٹا پلا کوٹھے میں گھس آیا۔ فریدو روٹی چباتے اُٹھا اور پلے کو اپنی چپلی کی تھوتھنی سے اُچھال اُچھال کر باہر پھینک آیا اور اُسے روٹی کا ٹکڑا دے کر واپس آ گیا۔ عشاء کی اذان کے وقت چونک آدمیوں سے بھر گئی۔ آگ کے الاؤ کے گرد مجمع لگ گیا۔ حقے کے دھوئیں میں قہقہے اڑتے رہے۔ پھر قصے کہانیوں اور سبز چائے کا دور شروع ہوا۔ گیارہ بجے وہ سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
فریدو اور میں چونک کے دھوئیں میں رنگے کوٹھے میں زمین پر بچھی سوکھی خوشبودار کھاوی پر میلی رضائیاں اوڑھ کر لیٹ گئے۔
کچھ دیر بعد فرید و پیشاب کرنے باہر گیا تو سردی سے ٹھٹھرا پلا روتے ہوئے کوٹھے میں آ گیا۔ فریدو کچھ دیر تک شلوار میں ہاتھ دابے ادھر ادھر گھومتا رہا اور پھر پہلی فرصت میں اس نے پلے کو ہلکی ہلکی ٹھوکریں مار کر کوٹھے سے نکال دیا۔ ہم دروازہ بند کر کے آرام سے سو گئے پر پلا بیچارا باہر کڑاکے کی سردی میں چیختا چلاتا رہا۔ کوئی آدھی رات کے وقت پلے کی کاؤں کاؤں پر میری آنکھ کھل گئی۔ میرے دل میں خیال آیا کہ باہر جاؤں اور پلے کو اندر لے آؤں۔ میں ابھی اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ فریدو بکھرے بال لئے، ڈائن کی طرح بسترسے اٹھا اور پلے کو پاؤں سے مار مار کے کہیں ٹھکانے لگا آیا۔ تقریباً گھنٹے بعد میری آنکھ پھر کھل گئی۔ میں نیند کے خمار میں تھا۔ مجھے ایسے لگا جیسے کوئی میرے بالوں سے جوئیں نکال رہا ہو۔ میں نے ذرا غور سے سننے اور محسوس کرنے کی کوشش کی۔
پلا دروازے کی دہلیز کے نیچے زمین کو پنجوں سے کریدتے ہوئے دھاڑیں مار رہا تھا۔ میں نے ارادہ کیا کہ فوراً اٹھ کر اسے اندر لے آؤں۔ پر ٹھاٹھیں مارتی نیند کی لہر نے ایک دم مجھے آ دبوچا اور میں ٹھنڈی دھند میں گم ہو گیا۔
میں صبح اٹھا تو دیکھا کہ پلا باہر کھرلی میں سردی سے مرونڈا بنا پڑا تھا۔ یہ جاننے کے لئے کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ میں نے اسے جوتے کی نوک سے ہلکی سی ٹھوکر ماری۔ پلا پھڑک کر اٹھا، لمبی انگڑائی لیتے ہوئے اپنے جسم کو سیخ کی طرح سیدھا کیا۔ پھر میرے بے وضو پاؤں کو چاٹنے لگا۔ میں اسے کوٹھے کے اندر لے آیا۔ ناشتے میں فریدو چوپڑی روٹی اور چائے لایا۔ میں نے روٹی کا ایک ٹکڑا پلے کو دیا جسے وہ دیر تک چوستا رہا۔
اسی دن سے اس کی اور میری دوستی شروع ہوئی۔
میں اور پلا سکول میں رہتے تھے۔ میں نے اس کا نام بگا رکھا۔ چائے میں خود بناتا جبکہ سالن اور روٹی فریدو گھر سے لاتا۔ میں روٹی کے بچے کھچے کنارے بَگا کو دیتا۔ میں جہاں جاتا بگا میرے ساتھ ہو لیتا۔ میں کچھ عرصے تک بگا کو نر سمجھتا رہا مگر آہستہ آہستہ اس میں ماداؤں والی علامتیں ظاہر ہونے لگیں۔ دن بدن اس کا جسم لچکدار ہوتا گیا اور اس کی نسواری آنکھوں سے نخرے کوندنے لگے۔ میں نے اس کا نام "بَگی” رکھ دیا۔ اگر کوئی بے وقت سکول آتا تو وہ بھونک کر مجھے خبر دار کر دیتی۔
ازک میں میں اکثر تنہائی اور بوریت کا شکار رہتا۔ اور ایک ٹوٹی جھولتی کرسی میں ڈھیر لگا پڑا رہتا۔ بگی اپنی اگلی ٹانگوں کے درمیان اپنی لمبی ٹھوڑی رکھے لیٹی رہتی۔ ہم گھنٹوں ایک دوسرے کو تکتے رہتے۔ کبھی کبھار مجھے خیال آتا کہ کاش بگی انسان ہوتی یا میں۔۔ ۔ تو ہم ایک دوسرے کو بہتر سمجھ سکتے۔ ایک دوسرے کے لئے سہارا بنتے۔
راتیں چوروں کی طرح اور دن ڈاکوؤں کی طرح بھاگتے رہے۔ ٹھنڈی میٹھی رت میں بگی جوان ہو رہی تھی۔ وہ بہت چست اور خوبصورت ہو گئی تھی۔ اس کے یا ربیلی اسے ملنے بغیر اجازت سکول آ جاتے۔ صبح جب میں نیند سے بیدار ہوتا تو وہ میرے سامنے آ کر خمار زدہ انگڑائی لیتی اور پھر میرے سامنے اپنی ریشمی دم سے جھاڑو پھیرنے لگتی، میری قدموں کو چاٹتی۔
بگی اپنے معمول کے خلاف چلنے لگی۔ وہ اکثر اپنے یاروں کیساتھ نکل جاتی اور بے فرمان آوارہ بیٹے کی طرح گھر صرف روٹی کے وقت آ دھمکتی اور پھر اُلٹے قدم واپس چلی جاتی۔ مجھے بگی کیا س بے شرمی پر ذرا غصہ بھی آیا۔
ازک پرائمری سکول میں دو کمرے تھے۔ ایک کمرے میں میں بچوں کو سبق پڑھاتا اور دوسرے میں فریدو کا بھوسا، ٹوٹی چارپائیاں اور سوکھے مٹکے پڑے تھے۔ بگی نے اس کمرے میں بھوسے پر بچے دیئے۔ پانچ پلوں کو جنم دینے کے بعد اس کی آنکھوں سے نخرہ اور رومانس بھاگ گئے تھے۔ وہ ایک غریب ماں کی طرح ہر وقت بجھی بجھی اور سہمی سہمی رہتی۔ اب اس کا گزارہ میری چنگیر میں بچے ہوئے ٹکڑوں پر نہیں ہوتا تھا۔ اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے اُسے اپنا پیٹ بھرنا ہوتا۔ شام کے وقت وہ گاؤں کے گھروں میں بھکاری کی طرح پھرتی۔ کھانا کھانے والوں کے ہاتھوں اور روٹی چباتے مونہوں پر نظر گاڑے رکھتی۔ اس کا خوبصورت لچک دار جسم ڈھیلا ہو گیا تھا اور اس کا پیٹ نیچے ڈھلک آیا تھا۔
وہ ٹکڑے کھا کر دوڑتی واپس آتی اور اپنا سب کچھ اندھے بھوکے پلوں کے سامنے پیش کر دیتی۔ صبح تک پلے اس کے جسم سے قطرہ قطرہ دودھ چوس لیتے تھے۔ اگر ان کے دانت ہوتے تو اس کے تھنوں کو بھی کاٹ کر کھا جاتے۔ صبح بگی بمشکل چلنے کے قابل ہوتی۔ اس کے وہ یار بیلی، جنھیں وہ میری اجازت کے بغیر را توں کو چھُپ چھُپ کر ملنے جاتی تھی، کبھی اُس کا حال تک پوچھنے نہ آئے۔ حمل کا بوجھ اُٹھانا اور بچے جننا دھرتی کی تمام ماداؤں کا حیاتیاتی المیہ ہے۔ نر رنگین را توں میں آ جاتے ہیں، پیار کے جھولے جھول کر زندگی کا بوجھ ماداؤں کی گردن میں ڈال کر ٹھنڈے اندھیروں میں غائب ہو جاتے ہیں۔ بدمست نر ڈکارتے ہیں، سموں سے مٹی کریدتے ہیں، توڑ پھوڑ مچا کر چلتے بنتے ہیں جبکہ مادائیں زندگی کو سنبھالنے کیلئے تنکے اکٹھا کرتی رہتیں ہیں، دھول مٹی سے دانے چنتی رہتی ہیں۔
اب بگی کا زیادہ وقت اپنے بچوں کیساتھ گزرتا تھا۔ وہ مجھے ایسے دیکھتی جیسے میری اور اس کی دور کی جان پہچان ہو۔ اُس کے پلے بڑے ہوتے گئے۔ ایک دن اُس کا ایک پلا گلی میں نکل گیا اور اُسے کتوں نے مار دیا۔ دو دن بعد بچوں نے اس کے دو پلے چرا لئے اور دو پلے پکھی واس چھُپا کر لے گئے۔ اولاد کے بوجھ سے آزاد ہونے کے بعد وہ دوبارہ میرے قریب آ گئی۔
میں اور وہ ایک دوسرے کو گھنٹوں تکتے رہتے۔
ایک دن گاؤں میں محکمہ صحت کے دو آدمی آوارہ کتوں کو زہر دینے کے لئے آئے۔ گاؤں والوں نے اپنے اپنے کتوں کو یا تو گھروں میں باندھ لیا یا اُنھیں پٹے پہنا دیئے۔ میں نے اپنے ایک شاگرد سے گھنگروؤں والی گانی مانگی اور بگی کو پہنا دی۔ گلیوں میں آوارہ اور بے گھر کتے رہ گئے تھے۔ اُنھوں نے زہریلی گولیاں کھائیں اور ان کے بے آسرا لاشے گلیوں میں سڑتے رہے۔ بگی دو دن تک غائب رہی۔
دو دن بعد وہ مُنہ سے رال ٹپکاتی اور شرابی کی طرح جھومتی سکول آئی۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اُسے کیا ہوا ہے۔
” اُستاد لگتا ہے تیری سہیلی نے کہیں سے زہر یلی گولیاں اُٹھا کر کھائی ہیں "۔ فریدو نے کہا۔
ہم نے کتیا کو دودھ اور گُڑ کا شر بت پلایا مگر اُسے آرام نہ آیا۔ اُس کے مُنہ سے برابر جھاگ ٹپکتا رہا اور وہ پاؤں گھسیٹتے سکول سے چلی گئی۔
میں بگی کو مرا سمجھ رہا تھا مگر تین دن بعد وہ راکھ اور دھول سے بھری سکول آئی۔ وہ ہڈیوں کا پنجر رہ گئی تھی۔ میں اُسے زندہ دیکھ کر خوش ہوا۔
دو تین ماہ بعد گاؤں کے جنوب میں اوڈوں نے ڈیرہ لگایا۔ قسمت کی ماری بگی ایک دن اُن کی جھونپڑیوں کی طرف نکل کھڑی ہوئی۔ اوڈوں کے آٹھ دس کتوں نے بگی کو خوب نوچا۔ وہ ایک ٹانگ کو گھسیٹتے سکول آئی۔ اس کے جسم سے کئی جگہوں سے چمڑی اُدھڑی ہوئی تھی اور جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا۔ فریدو اور میں نے اس کے زخموں پر تیل ہلدی لگائی۔ اُس رات وہ چین سے نہ سو سکی۔ وقفے وقفے سے وہ جاگ جاتی اور بیمار بچے کی طرح رونے لگتی۔
میں سردیوں کی چھُٹیاں درابن گزارنے کے بعد واپس سکول آیا تو بگی غائب پایا۔
” اُستاد تیری سہیلی کو پونّدے لے گئے ہیں ” چوکیدار نے مجھے خبر سنائی۔
” تو تُو نے اُنھیں روکا نہیں ؟”
"میں نے انھیں بہت روکا کیا مگر وہ نہ مانے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ بگی تو پیدا بھی ان کے ہاں ہو ئی تھی۔ ”
بگی کے بغیر مجھے سکول سُونا سُونا لگ رہا تھا۔
ڈیڑھ سال بعد میری بدلی کوٹ عیسیٰ خان ہو گئی۔ کوٹ عیسیٰ خان کے شمال میں پوّندوں کے خیمے تھے۔ ایک دن میں جنگل میں گھومنے گیا۔ ایک کتا تیزی سے میری طرف بھاگتا ہوا آیا۔ میں ڈر کر پوندوں کو آواز دینے لگا مگر قریب آنے پر کُتا کاٹنے کے بجائے میرے پاؤں میں لوٹنے لگا۔ یہ بگی تھی۔ وہ میرے ساتھ سکول آ گئی۔ پوندے سیٹیاں بجا بجا کراسے بلاتے رہے مگر وہ نہ گئی۔
میرے نئے پرائمری سکول میں انگریزوں کے زمانے کا ایک کمرہ تھا، جو کئی سالوں سے ویران پڑا تھا۔ بگی نے اس کمرے میں ڈیرہ لگایا۔ ہمارے دن ہنسی خوشی گزرنے لگے۔ چھ مہینے بعد بگی نے سکول کے ویران کمرے میں بچے دیئے۔ وہ شام کے وقت گاؤں کے گھروں میں روٹی کی بھیک مانگنے جاتی۔ ایک دن بگی سکول سے باہر گئی ہوئی تھی۔ ایک لڑکا اُس کا ایک پلا چرا کر بھاگا جا رہا تھا۔ کتیا نے اُسے دیکھ لیا۔ وہ اُس کے پیچھے بھاگی اور لڑکے کو پنڈلی پر کاٹ ڈالا۔ لڑکا ڈر کے مارے پلے کو چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ کچھ دیر بعد لڑکے کا بھائی اور ماں ڈنڈے سوٹے سنبھالے، بگی کو مارنے آ دھمکے۔ میں اُس وقت کمرے میں نہا رہا تھا۔ اُنہوں نے بگی پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیئے۔ وہ بھاگتی میرے پاس آئی۔ میں کپڑے پہن کر باہر آیا۔
"تم اس گنگ دھن کو کیوں مارتے ہو؟ ” میں نے پوچھا۔
” اس نے میرے بچے کو کاٹا ہے ” عورت چلائی۔
” تیرا بچہ بھی تو اس کا پلا چرا کر بھاگ رہا تھا۔ اب تم لوگ ذرا اسے ہاتھ لگا کر تو دکھاؤ ! ” میں گرجا۔
وہ لوگ اُس وقت تو چلے گئے لیکن عصر کے وقت اُنہوں نے روٹی میں دس باراں سوئیاں چھپا کر بگی کو کھلا دیں۔ سوئیاں اس کے تالو میں پھنس گئیں۔ وہ ہانپتی، رال ٹپکاتی میرے پاس آئی۔ میں سمجھا ظالموں نے اس کو زہر دیا ہے۔ میں نے جلدی سے گڑ اور دودھ کا شربت بنایا اور لوٹے سے اُس کے منہ میں شربت انڈیلنے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ اُسے نہیں نگل سکتی تھی۔ وہ رات اُس نے انتہائی کرب میں گزاری۔ اس کے حلق سے موت کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کبھی وہ اپنے پلوں کے پاس جاتی اور کبھی میرے پاس آ جاتی مگر میں اُس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا۔
دوسرے دن صبح جب میری آنکھ کھلی تو بگی میری چارپائی کے قریب مری پڑی تھی۔ اُس کا ایک پلا لوٹے میں منہ ڈالے پانی پی رہا تھا۔ دوسرا اپنی ماں کی گردن پر سر رکھ کر سویا ہوا تھا۔ اور تیسرا پلا اُس کے مردہ تھنوں کو چوس رہا تھا۔
٭٭٭
بچوں کی فصل
آدھی رات کا وقت تھا۔ اُس کا دماغ سلگ رہا تھا۔
” مجھے یہ جوا کھیل لینا چاہئیے۔ ایک بچہ مجھے اِس گھر سے باندھ سکتا ہے "۔
وہ اپنی کھاٹ سے اُٹھی۔ کُتے نے اپنی جگہ سے سر اُٹھایا اور دوبارہ سو گیا۔ اُسے ٹھنڈے پسینے چھوٹ رہے تھے، اسے اپنے قدم سیسے کے بنے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔
” بہن میراں کی شادی پر اسے باپ کے گھر بھیج دینا۔ کہیں اُس پر اِس بانجھ کا سایہ نہ پڑ جائے ”
اس کے جوتے چرمرا رہے تھے۔ اُس نے جوتے اُتار دیئے اور ننگے پاؤں چلنے لگی۔ اُس نے دروازہ کھولا، جب گھر کی دہلیز پار کی تو اسے ایسے لگا ہوا جیسے اندھے کنویں میں اتر رہی ہو۔
” ہم تو بس ایک ننھی مسکراہٹ دیکھنے کو زندہ ہیں "۔
اُس کے کانوں میں بھیڑیئے چیخ رہے تھے۔ وہ اپنے گھر کے دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر تھی۔ اُسے ایسے محسوس ہوا جیسے عزت و ناموس کے بھاری پردوں کو کھونٹی پر ٹانک کر چھوڑ آئی ہو۔
” لیکن جو میں کہہ رہا ہوں اُسمیں تیرا بھلا ہے۔ میں تجھے بچہ دے سکتا ہوں۔ میں تیرا رشتہ تیرے گھر سے جوڑ سکتا ہوں ”
سب معاہدوں کی سیاہی دھل گئی تھی۔ وہ سرخ آندھیوں کے خلاف چلتی رہی مگر آندھیوں کے پار اس کا بچہ مسکرا رہا تھا، اُسے بلا رہا تھا۔ اس کے لڑکھڑاتے قدم لانوں اور آک کے پودوں میں اُلجھ رہے تھے۔ آک کے بریدہ پتے دودھ رو رہے تھے۔
” تو میرے بیٹے پر تعویذ کرتی ہے۔ تو اس گھر کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ تیرا دل کہیں اور اٹکا ہوا ہے۔ اس لیے توتُو اپنے پیٹ میں بچہ نہیں ٹھہرنے دیتی۔ ”
جب آسمان میں اندھیرے اور اجالے برسر پیکار تھے تو دھرتی پر مٹی کے پتلے گرم پسینوں میں گھلے جا رہے تھے۔
” تیرا بچہ ہو گا، گھر میں تیری عزت ہو گی۔ میں تمھیں چاہتا ہوں اور بچہ تو چاہت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ”
رات ڈھل چکی تھی۔ ستارے ٹمٹما کر تھک گئے تھے۔ کالے ڈوروں سے سفید ڈورے آہستہ آہستہ نکل رہے تھے۔ اعتماد کے کچے دھاگے ٹوٹ گئے تھے۔ اس کے الجھے بالوں میں گھاس کے تنکے اٹکے ہوئے تھے اور آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں۔ اُسے اپنے آپ سے گھن آ رہی تھی۔ اس کے پیٹ میں انگارے بھنے جا رہے تھے۔
” بہن دعا کر میری بہو کے لیے ! اگر پوتا ہوا تو تمھیں ململ کا دوپٹہ دوں گی”۔
وہ نیم غنودگی کی حالت میں گھر کی طرف جا رہی تھی۔ درختوں کے سر نیند میں ڈھلکے ہوئے تھے۔ ہوا کے ٹھنڈے جھونکے تھک کر زمین پر گر رہے تھے۔ صبح صادق ہو چکی تھی۔
” لوگ فصل کے غلے کو دیکھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں پوچھتے کہ اس فصل کا بیچ چوری کا تھا یا فصل چوری کے پانی سے سینچی گئی تھی۔ ”
اندھیرا اپنا تاریک چہرہ چھپانے کے لیے مغرب کی طرف دوڑا جا رہا تھا۔ مرغ اذان دینے کے لیے پر تول رہے تھے۔ اُس نے گھر میں قدم رکھا تو اُس کا احساس جرم اور تیز ہو گیا۔ ایک دن اُس کے مہندی رنگے قدم اس گھر کی دہلیز کو چھو رہے تھے۔ اور آج۔۔ ۔
وہ بان کی چارپائی پر لوٹ رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ کتُوں کے بھونکنے کی آوازیں اس کے کانوں میں پگھلا ہوا تانبا انڈیل رہی تھیں۔ صبح کا روشن ستارہ اُس کی بے خواب آنکھوں میں چُبھ رہا تھا۔ روشنیوں نے مشرق سے یلغار کر دی تھی۔ مسجد سے مؤذن کی آواز گونجی۔ اسے اپنا جسم مردہ جانور کی طرح لگ رہا تھا۔ اس کی ناک میں مرے ہوئے جانور کی سڑاند پھنسی ہوئی تھی۔ اُسے اپنے پیٹ میں لوہا اُبلتا محسوس ہو رہا تھا۔
صبح ہوئی، دنیا جاگی۔ لوگ نماز کی تیاری کرنے لگے۔ اس کی ساس وضو کرنے لگی۔ اُسے ایسے لگ رہا تھا جیسے گھر کی دیواریں گر گئی ہوں اور اُس کے کپڑے جھکڑ اُڑا کر لے گیا ہو۔ وہ تنکا بن کر آندھیوں میں اُڑتی رہی اور درختوں، کھمبوں، دیواروں سے ٹکراتی رہی۔ پھراس کی آنکھ لگ گئی۔
وہ رنگ برنگے بچوں کی لہلہاتی فصل میں سے گزرتی ہے۔ تازہ سجرے بچے سر اٹھا اٹھا کر اسے تکتے ہیں۔ اس سے دودھ مانگتے ہیں۔ وہ درانتی سے میٹھے پکے بچوں کی فصل کاٹتی ہے۔ بچوں سے بھری گٹھڑی اُٹھائے وہ گھر آتی ہے۔ اپنی ساس کے قدموں میں بیٹھ کر ماہر بزاز کی طرح گٹھڑی کھول دیتی ہے۔ ” اپنی پسند کا بچہ چُن کر رکھ لو”
” باقی بچوں کا کیا ہو گا؟”
” انھیں زمین میں گاڑ آئیں گے ”
” زندہ ؟”
” ہاں ”
” یہ روئیں گے تو نہیں ؟”
” نہیں ! یہ اور طرح کے بچے ہیں۔ یہ کھمبیوں کی طرح زمین سے نکلتے ہیں۔ ہم انہیں مٹی میں گاڑ آئیں گے۔ اِن سے بچوں کی نئی فصل نکلے گی۔ پھر اور لوگ بچوں کی فصل کاٹیں گے۔ بچے اُگانا کوئی مشکل تھوڑا ہے !”
بوڑھی ساس اُسے زور سے چومتی ہے۔ اُسے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے مردہ گائے نے اپنی بدبو دار زبان سے چاٹ کر اُس کے ماتھے اور گالوں پر خون اور پیپ کا لیپ کر دیا ہو۔
پھر اُسے گھومتے ہوئے چاک پر پھینک دیا جاتا ہے اور مردہ گائے خرانٹ کمھار کی طرح اکڑ کر بیٹھی، اُسے زبان سے گھڑ رہی ہے۔ اُس سے مختلف شکلیں بناتی ہے: گھڑا، جھجری، مردہ گائے، بلی، کُتیا، چُڑیل۔ آخر میں مردہ گائے اُسے اپنی لمبی لیسدار جیبھ میں لپیٹ کر نگل جاتی ہے۔ وہ کئی سالوں تک مردہ گائے کے گوبر سے بھرے معدے میں گردن تک دھنسی رہتی ہے۔ گوبر کی بُو سے اُس کا دم گھٹتا ہے۔ وہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے اور بھک سے گائے کے نتھنوں سے نکل آتی ہے۔ وہ ایک لیسدارجھلی میں بند ہے۔ گٹھڑی میں بند ہے بچے ناگ بن کر اس کے پیچھے بھاگتے ہیں، وہ جھلی سمیت بھاگتی ہے۔ بچے گدھ بن کر اُس کا پیچھا کرتے ہیں، اُسے آ لیتے ہیں اور دبوچ کر نوچنے لگتے ہیں۔ کچھ فاصلے پر بھوکے گیدڑ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں، درختوں پر بیٹھی چیلوں کے خونین پنجوں کے نیچے اُس کے جسم کی بوٹیاں لٹک رہی ہیں۔ ان سے پیلا خون رس رہا ہے۔ گاؤں کے ہر درخت پر اُس کا گوشت لٹک رہا ہے اور اُس پر نیلی موٹی مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔
اُس کی ساس نے وضو کیا اور قبلہ روہو کر کھڑی ہو گئی۔
” مجھے بھی نماز پڑھنی چاہیے، خدا سے معافی مانگنی چاہیے۔ اگر خدا نے میری نماز کو ٹھکرا دیا تو۔۔ ۔ مجھے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔۔ ۔ لیکن ایک کوزہ پانی پاکیزگی کے لیے کافی ہو گا ؟”
وہ وضو کر کے قبلہ رو کھڑی ہو گئی۔ اسے مغرب سے ڈر لگ رہا تھا۔
نماز کے الفاظ کی زنجیر اُس کی زبان سے نہیں کھینچی جا رہی تھی۔ اُس نے رکوع میں جانا چاہا مگر اُسے اپنا قفس عنصری، انسانی ڈھانچوں میں چنا ہوامحسوس ہو رہا تھا۔ پھر اس نے پورا زور لگا کر رکوع میں جانے کی کوشش کی، پرانے انسانی ڈھانچے اُس پر گر پڑے۔ ہزاروں ہڈیوں کے کڑکڑانے کی آواز آئی۔ ہر طرف مٹی دھول اُڑنے لگی۔
"اس کی لاش اندر ہے، جلدی کرو! اسے نکالو !” لوگ چلا رہے تھے۔
"مٹی اور ہڈیوں کے اتنے بڑے ڈھیر کو کون ہٹائے گا؟”اس کی ساس تسبیح کے منکے گرا رہی تھی۔
٭٭٭
میں اکیلا نہیں ہوں
ممدو کے بھائی کو فوت ہوئے آٹھ مہینے گزر چکے تھے اور اس کی بھابی شمی بیوہ ہو گئی تھی۔ وساکھی رُت تھی۔ ممدو اپنے کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا۔
میں آج اپنے گھر والوں سے کہہ دوں گا کہ میں شمی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اب موقع ہے اب، وہ ویسے بھی بیوہ ہو گئی ہے۔ گھر کی شرم گھر میں رہ جائے گی۔ کنویں کی مٹی کنویں کو لگ جائے گی۔۔ ۔ اوئے لاکھا کہاں مرنے جا رہے ہو!ہاں اب ٹھیک ہے۔ شاباش! تم بہت سمجھدار بیل ہو۔۔ ۔ اگرچہ شمی کا ایک بیٹا بھی ہے۔ میں پھر بھی اس سے شادی کرنے کے لیئے تیار ہوں۔ میں اس کے بیٹے کو اپنے بیٹوں کی طرح سمجھوں گا۔ اسے بھائی جان سے شادی کئے یہی کوئی تین چار سال گزرے ہوں گے۔ یہ میری اپنی غلطی ہے۔ جس وقت بھائی جان کی شمی سے منگنی کی بات چل رہی تھی۔ تو اس وقت میں اپنے منہ میں بوری ٹھونسے سب کچھ دیکھتا رہا۔ پورے سات مہینے تک اماں شمی کے گھر آتی جاتی رہی۔ اس وقت مجھے کسی طرح سے اماں کو سمجھا دینا چاہیے تھا کہ میں شمی کو چاہتا ہوں۔ میرے لئے اس کا رشتہ مانگنے جاؤ۔ پر میں چپ رہا، بیل کی طرح۔ میں بہت بزدل ہوں۔ میں گھر والوں کے سامنے نہیں بول سکتا۔
خربوزے بونے کا موسم سر پر آ گیا ہے۔ میں آج عصر تک کام کروں گا۔ ورنہ ہمارے خربوزے پچھیتے ہو جائیں گے۔۔ ۔ میں دل کی بات منہ پر نہیں لا سکتا۔ میں تو شمی سے بھی یہ کبھی نہ کہہ سکا کہ "مجھے تم سے پیار ہے "۔ میں صرف پرے سے اسے تکتا رہتا تھا، کئی مہینوں تک۔ وہ بھی مجھے تکتی رہتی تھی۔ مجھے اس سے بات کرنے کے کئی موقع ملے لیکن میرا گلا پرانی جوتی کی طرح خشک ہو جاتا۔ میں ڈرسے کانپنے لگتا۔ وہ بھی مجھ سے پیار کرتی تھی۔ نصیب کی بات ہے۔ ہمارا میل نہ ہو سکا، لکھا نہیں ہو گا۔ لیکن قسمت ایک دفعہ پھر ہمیں ملانا چاہتی ہے۔ بھائی جان کو اپنی آئی لے گئی۔ اللہ اسے بخش دے۔ آج جب میں گھر پہنچوں گا تو اماں سے اپنے دل کی بات کہہ دوں گا۔ خیر ہم شادی اتنی جلدی نہیں کریں گے۔ بھائی جان کا غم ابھی تازہ ہے۔
لاکھا آرام سے ! رک جاؤ !تیری بپنجالی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ! بس بچہ بسس سس سس !یہ اچھا ہوا کہ دلو بھائی کی منگنی پھوپھی کی بیٹی بختاورسے ہو چکی ہے۔ ورنہ آج شمی سے شادی کرنے کا حق اس کا بنتا تھا۔ وہ مجھ سے بڑا ہے۔۔ ۔ گھڑا اٹھائے جب شمی پانی لینے جا رہی ہوتی تو چلتے چلتے پاؤں روک لیتی تھی۔ مجھے دیکھ کر، ہونٹوں کے کناروں میں مسکراتی لیکن مجھ سے ہمت نہ ہو سکی۔۔ ۔ اللہ نے کریمی کی تو اس کھیت میں اچھے خربوزے لگیں گے۔ بابا کہتا ہے کہ اس کھیت کو دعا ہوئی ہے۔ کانی گرم والے پیر نے ایک دفعہ یہاں نفل ادا کئے تھے۔
عصر کا وقت تھا ممدو اپنے بیلوں کی جوڑی کو تالاب پر پانی پلا رہا تھا۔ گاؤں کی عورتیں اور لڑکیاں پیاسی چڑیوں کے غول کی طرح تالاب پر جمع تھیں۔ کچھ عورتیں کٹوروں سے گھڑے بھر رہی تھیں، کچھ اپنے گھڑوں کے پیندے یا ہاتھ منہ دھو رہی تھیں۔ ایک نخریلی کنواری لمبی لمبی انگلیوں کی پوروں سے منہ میں قطرہ قطرہ پانی چوا رہی تھی۔
اسی تالاب سے پانی بھرتے وقت شمی کا دیدار ہوتا تھا۔ اس کی کجلی آنکھیں۔۔ ۔ اس کا تلوار جیسا پتلا ناک دل چیر لیتا تھا۔ وہ اپنی سہیلیوں سے مل کرتالاب پر کیسا غل مچاتی۔ وہ اپنی سہیلیوں میں سب زیادہ خوبصورت اور باتونی تھی۔
شام کو جب شمی اس کے سامنے روٹی کی چنگیر رکھ رہی تھی تو چار سال بعد ایک دفعہ پھر ممدو نے شمی کو عاشق کی نظر سے دیکھا۔ یہ تو اب بھی ویسی من موہنی اور خوبصورت ہے۔ اس کے ہاتھ اب بھی ویسے گورے چٹے اور ملوک ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے اسے ہمارے گھر آئے ایک دن گزرا ہو۔
"پیاز لے آؤں۔ پیاز کھاؤ گے ؟” شمی نے پوچھا۔
"نہیں۔۔ ۔ ہاں کھاؤں گا۔ لے آؤ”ممدو نے جواب دیا۔
آج میں اماں سے ضرور بات کروں گا۔ سلے ہوئے منہ کے بخیئے ضرور ادھیڑوں گا۔ بہت ہو چکا! اگر اب بھی چپ رہا تو شمی کو کوئی دوسرا لے جائے گا اور میں تکتا رہ جاؤں گا۔
"یہ لو پیاز۔ کھاٹ کے پائے پر توڑ لو۔ چھری نہیں مل رہی۔ نمک لے آؤں ؟پیاز پر ڈالو گے ؟”
"نہیں۔ نمک کی ضرورت نہیں۔ ”
آج بھی اس کی حرکتوں میں وہی ادا ہے۔ بات میں وہی نخرہ ہے۔ یہ تو بالکل نہیں بدلی۔ شادی کے باد میں اسے خوش رکھوں گا۔
"یہ لو پانی۔ خربوزے بو دیئے ہیں ؟”
” ابھی کہاں ! ابھی تو زمین توڑ رہا ہوں ”
” صبح اماں خربوزے کا کچھ بیج دے گئی تھی۔ میں نے چنی کے پلو میں باندھ دیا تھا۔ یہ لو یہ بھی بو دینا۔ بہت اچھا بیج ہے۔ ”
جس وقت وہ شمی سے خربوزے کا بیج لے رہا تھا تو اس کے جی میں آیا کہ شمی کی کلائی پکڑ لے اور کہے تم میرے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔
رات کا وقت تھا، شمی سو گئی تھی۔ دِلو ابھی تک چونک سے واپس نہیں آیا تھا۔ ایک بیل سر کھرلی میں رکھے سو رہا تھا اور دوسرا آنکھیں بند کئے جگالی کر رہا تھا۔
اب موقع ہے، گھر میں کوئی نہیں ہے۔ اماں سے بات کر لوں۔ بات کیسے چھیڑوں گا؟ میں شمی سے شادی کرنا چاہتا ہوں ؟۔۔ ۔ نہیں یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ میں اپنی اماں کے سامنے یہ بات کیسے کر پاؤں گا۔ میں تو شرم سے ڈوب جاؤں گا۔ میں یہ بات کسی بڑھیا کے ذریعے کہلواؤں گا۔
ممدو اپنی زمینوں میں ہل چلا رہا تھا۔
گاؤں میں کونسی ایسی بڑھیا ہے جو میرا پیغام اماں تک لے جائے۔ عورتیں تو زیادہ ہیں۔۔ ۔ لاکھا، لاکھا، غلط جا رہے ہو۔ بائیں چلو، ہاں اب ٹھیک ہے۔ او تیری خیر ہووے ! تم بہت اچھے بیل ہو۔ تیرا ساتھی مُشکی بہت نکما ہے۔ لاکھا تمہیں تو انسان ہونا چاہیے تھا۔ اگر انسان ہوتے تو کیا کرتے ؟ ہل چلاتے میری طرح۔ تم میں اور مجھ میں کوئی فرق ہے ؟ دونوں ہل چلا رہے ہیں۔۔ ۔ مجھے یہ پیغام کسی بڑھیا کے ذریعے نہیں دینا چاہیے۔ ایک دفعہ اگر یہ بات کسی پرائے تک پہنچ گئی تو سارے گاؤں میں پھیل جائے گی کہ ممدو اپنی بھابھی پر عاشق ہے۔ اس لئے اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی۔ ہم سارے گاؤں میں بدنام ہو جائیں گے۔ اماں سے مجھے خود بات کرنی چاہیے۔ لیکن میں اماں سے بات نہیں کر پاؤں گا۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے۔
شام کو ممدو کھیتوں سے گھر آیا تو اپنی اماں سے بات نہ کر سکا۔ وہ پورے تین مہینے تک سوچتا اور سلگتا رہا۔ اسی دوران اس کے بھائی دِلو کی منگیتر بختاورے ایک رات اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی۔ ممدو کے گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ ایک طرف تو بختاورے ان کی پھوپھی کی بیٹی تھی اور دوسری طرف وہ ان کی ہونے والی بہو تھی۔ کئی دنوں تک ممدو اور دلو اپنے پھوپھی زاد بھائیوں کے ساتھ مل کر اسے تلاش کرتے رہے مگر بختاورے نہ ملی۔
چھ سات مہینے بعد شمی سے اس کا نکاح پڑھوا دیا گیا اور ممدو دیکھتا رہ گیا۔ شادی سادگی سے ہوئی۔ ایک بکری ذبح کر کے اس کا گوشت ایک بڑے جستی دیگچے میں پکایا گیا۔ صرف قریب کے رشتہ داروں کو بلایا گیا۔ شمی کو سرخ کپڑے پہنائے گئے اور اس کے ہاتھوں پر مہندی لگاتے وقت کچھ رشتہ دار عورتیں ہولے ہولے تھال بجاتی رہیں اور آہستہ آواز میں سہرے گاتی رہیں۔ بچے بچیاں شادی کا ماحول دیکھ کر گانے اور ناچنے لگیں۔ شمی کا چھوٹا بیٹا ناچتا اور تالیاں بجاتا رہا۔ مگر جب ممدو کا باپ گھر آیا تو اس نے بچوں کو سختی سے منع کر دیا۔ عشاء کے بعد عورتیں دلہن کی ٹھنڈی اور مردہ مٹھی میں منہ دکھائی ٹھسا کر اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔ شمی کی ساس برتنوں کو ادھر ادھر پھینکتی اور خود سے بڑ بڑاتی رہی۔ ” بلا، اب میرے دوسرے بیٹے کا سر کھائے گی۔ میری بات کون مانتا ہے۔ مجھے تو سب پاگل سمجھتے ہیں۔ مجھے مہندی سے خون کی بو آ رہی ہے۔ اس کے سرخ کپڑوں سے کفن کی باس آ رہی ہے۔ ایک دن یہ سب پچھتائیں گے !”
شادی کی ساری کاروائی کے دوران ممدو گھر نہ آیا۔ گھر والوں نے اس کی طرف دھیان نہ دیا۔ انہوں نے سمجھا چونکہ ممدو سادہ اور شرمیلا ہے۔ اس لئے شادی میں شریک نہیں ہوا۔ جب وہ کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا تو اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اپنے سینے پر ہل چلا رہا ہو۔ اس کا چھوٹا بھائی اسے شادی کا کھانا دینے آیا۔
وہ دیر تک روٹی اور سالن کو دیکھتا رہا۔ کبھی اسے روٹی سے مہندی کی بو آتی اور کبھی خون کی اور کبھی مہندی رنگے ہاتھ اس کا گلا دبانے کے لیے اچھلتے۔ آخر میں اس نے سالن زمین پر پھینک دیا اور روٹی کو ایک درخت کی شاخ پر اڑسا دیا۔
اس رات ممدو دیر تک چونک میں بیٹھا رہا اور رات کے ایک بجے گھر لوٹا۔ سردی کا موسم تھا، دِلو کے کوٹھے کی کنڈی اندر سے بند تھی۔ کوٹھے میں دیا جل رہا تھا اور پرانے دروازے کی دراڑوں سے روشنی چھن چھن کر نکل رہی تھی۔ ممدو کے جسم پر کالے بچھو پھرنے لگے۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ بند دروازے کو بیل کی طرح ٹکر مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ یا کوٹھے کو آگ لگا دے۔ وہ کچھ دیر زخمی ریچھ کی طرح صحن میں چکر کاٹتا رہا۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ چھوٹے چھوٹے تارے سردی سے بچنے کے لیے کالے آسمانی کمبل میں منہ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بادل کا ایک بے جان ٹکڑا آسمان کے جنوب میں بوڑھے مردہ اونٹ کی طرح پڑا تھا۔ جنگل سے محبت میں پاگل ہو رہے گیدڑوں کی آوازیں آ رہی تھی۔ ممدو بند دروازے کے قریب آیا۔ کوٹھے سے عطر کی خوشبو، چوڑیوں کی کھنک اور کھسر پھسر کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اسے سارا گھر گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ یکا یک اسے سردی محسوس ہونے لگی۔ عدم تحفظ اور اکیلے پن کا شور اس کے کان پھاڑنے لگا۔ اسے اپنے گھر کا صحن کوسوں میل چوڑے چٹیل ویرانے کی طرح لگنے لگا۔ وہ صحرا میں کھڑا تھا اور اس کے پاؤں میں کانٹے چبھ رہے تھے۔
وہ اپنی اماں والے کوٹھے میں آیا۔ وہ اس کوٹھے میں سوتا تھا۔ شمی کا چھوٹا بیٹا اپنی دادی کے ساتھ سویا ہوا تھا۔ طاق میں دیا جل رہا تھا۔ وہ اپنی کھاٹ پر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا بھتیجا نیند سے جاگ گیا۔ اور اماں اماں پکارنے لگا۔
” اماں آ رہی ہے۔ سو جاؤ، نہیں تو بھو تمہیں کھا جائے گا! ” اس کی دادی نیند میں بڑ بڑائی۔
” اماں کہاں ہے ؟”
"پانی پینے گئی ہے ”
” میں اماں کے پاس جاتا ہوں ”
"اماں آ رہی ہے۔ چپ کر کے سو جاؤ ؤرنہ کالا کتا تمہیں اٹھا کے لے جائے گا۔ "اس کی دادی اسے تھپ تھپا کر سلانے کی کوشش کرتی رہی مگر بچہ نہ سویا۔ آخر اس نے اس پو تے کو گڑ کی روڑی دی۔ بچہ کچھ دیر گڑ چوستا رہا اور پھر سو گیا۔ ممدو کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ دیئے کی یرقان زدہ روشنی میں چھت کی کَڑیاں گنتا رہا۔ کر یہہ کی پیلی کڑیاں مچھلیوں کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے تیرتی رہیں۔
یہ سب میرا قصور ہے۔ اگر میں اپنے دل کی بات اماں کو بتا دیتا تو آج یہ قیامت نہ ٹوٹتی۔ اب میں شادی بالکل نہیں کروں گا۔ میں بہت ڈرپوک ہوں۔ جب شمی کی منگنی بھائی جان سے نہیں ہوئی تھی۔۔ ۔ ایک دن میں اپنی جیب میں ہار چھپا کر تالاب پر گیا۔ سوچ رہا تھا کہ یہ ہار شمی کو دوں گا۔ پر میں اسے نہ دے سکا۔ مجھ سے ہمت نہ ہو سکی۔ پورے دو مہینے تک وہ ہار میری جیب میں رہا۔ آخر وہ ہار ٹوٹ کر منکا منکا ہو گیا۔۔ ۔ جو ہونا تھا ہو گیا ہے۔ اب ساری بری سوچیں مجھے اپنے دل سے نکال دینی چاہئیں۔ اس میں شمی کا قصور نہیں۔ آج کے بعد وہ میری دین دنیا کی بہن ہے۔ میں اسے کسی اور نظر سے نہیں دیکھوں گا۔ اب وہ میری بھابی ہے۔ ہمارے گھر کی عزت ہے۔۔ ۔ میں صرف ہل چلانے کیلئے پیدا ہوا ہوں۔ زمین کاٹنے کیلئے بنا ہوں۔ میری قسمت میں شادی نہیں ہے۔ میں ساری زندگی بیلوں کے پیچھے مٹی اور اور ڈھیلوں میں یونہی گھسٹتا رہوں گا۔ میں بیلوں کا بھائی ہوں۔ میں جنگلی آدمی ہوں۔ میرا گھر، جنگل اور کھیت ہیں۔ کڑ کڑاتے نئے کپڑے، خوشبو، صاف بستر میرے لئے نہیں ہیں۔ سرخی، چوڑیوں سے بھری کلائیاں۔۔ ۔ مجھے ایسی باتیں نہیں سوچنی چاہئیں۔
دلو صبح کی اذان سے پہلے گھر سے نکل گیا۔ شمی دیر تک اپنے کوٹھے سے نہ نکلی۔ اس کی ساس بھاگی بھاگی کام کرتی رہی اور خود سے بڑبڑاتی رہی۔ ” بلانے اب میرے دوسرے بیٹے کے کوٹھے پر قبضہ جما لیا ہے۔ چڑیل اب میرے دوسرے بیٹے کو بھی تباہ کرنے پر تلی ہے۔ میری کون سنتا ہے ؟”
روزانہ کی طرح شمی، ممد و کے لئے صبح کی چائے نہ لائی۔ وہ سب گھر والوں سے شرما رہی تھی۔
جب یہ بھائی جان کی دلہن بن کر آئی تھی تو اس دن بھی صبح کے وقت وہ اس طرح شرما رہی تھی جس طرح آج شرما رہی ہے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گی۔ پھر مجھے روٹی دے گی۔ چائے لائے گی میرے لئے۔ اچھا ہوا دِلو بھائی کی شادی ہو گئی۔ وہ مجھ سے بڑا ہے۔ شمی سے شادی کرنا اس کا حق بنتا تھا۔۔ ۔ اب وہ بختاورے کے غم کو بھول جائے گا۔
صبح کی چائے پینے کے بعد ممدو نے ہل اٹھایا۔ ہل کا پھل اس کے سینے سا جا لگا۔ اس کے جی میں آیا کہ اس ہل پر گر کر جان دے دے۔ مگر پھر سوچا کہ اس خوشی کے موقع کو تباہ نہ کرے۔ وہ مونڈھے پر ہل اٹھائے، بیلوں کو ہانکتا کھیتوں کی طرف چل دیا۔
دن گزرتے گئے۔ آسمانوں میں روشنیوں اور اندھیروں کی آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ گاؤں کی بیریوں پر بور اور بیر لگتے اور گرتے رہے۔ شمی کی دوسری شادی کو نو سال گزر گئے تھے۔ دلو سے اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ اس کی عمر پینتیس سال ہو گئی تھی۔ وقت کے بوڑھے دیو نے اس کے سرمیں سفیدی کا بیج ڈال دیا تھا۔ لیکن اس کی کجلی آنکھیں پہلے کی طرح جوان اور چمکدار تھیں۔ اس کی ساس بستر مرگ پر تھی۔ سارے گھر کا بوجھ اس کے کندھوں پر آن پڑا تھا۔ گھر والے اور یار بیلی سب ممدو کو سمجھاتے رہے کہ شادی کر لو مگر وہ انہیں یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ اس کی شادی تو اپنے کھیتوں سے ہو چکی ہے۔
کئی سالوں سے ممدو کے خاندان اور ان کے پڑوسیوں کا زمین پر تنازعہ چلا آ رہا تھا۔ پنچایت، عدالت اور پیر خانے سب گر آزمائے جا چکے تھے۔ انت ایک دن نوبت لڑائی تک پہنچ گئی۔ دونوں پارٹیاں ڈنڈے اور کلہاڑیاں اٹھائے متنازعہ زمین پر پہنچ گئے۔ ایک طرف ممدو کا باپ اور اس کے چار بیٹے تھے اور دوسری طرف آٹھ آدمی تھے۔ لڑائی میں دلو اور ممدو سخت زخمی ہوئے اور ڈی آئی خان کے بڑے ہسپتال پہنچا دیئے گئے۔ تین دن بعد دِلو ہسپتال میں چل بسا اور دو ہفتے بعد ممدو پٹیوں میں لپٹا لولہا لنگڑا ہو کر گھر آن پہنچا۔ اب وہ بیساکھیوں کے بغیر نہیں چل سکتا تھا۔
کوئی چار ماہ بعد گاؤں کے بڑے بوڑھوں نے دونوں فریقوں کے درمیان فیصلہ کروایا۔ مدعیوں نے ہرجانے کے طور پر اسی کنال زمین اور ایک وانی ممدو کے خاندان کے نام کر دی۔ صلح کے کچھ دن بعد ممدو کی ماں نے اللہ کو دم دے دیا۔
لولہا ممدو اب کسی کام کا بھی نہیں رہا تھا۔ ممدو کے دو چھوٹے بھائی تھے۔ ان میں ایک کا نام عمرا اور دوسرے کا نام شانی تھا۔ ان کے باپ نے فیصلہ کیا کہ چھوٹا بیٹا فیصلے میں ملی ہوئی وانی سے شادی کرے گا اور عمرا شمی سے نکاح کرے گا اور اس کے بچوں کو پالے گا۔ کچھ رشتہ داروں نے یہ صلاح دی کہ شمی کی شادی ممدو سے کرا دو مگر اس کے باپ نے جواب دیا کہ اب تووہ خود دوسروں کا محتاج ہے۔ وہ ایک عورت اور اس کے پانچ بچوں کو کس طرح پال سکے گا۔
گھر اور زمین کے مختیار کا راب عمرا اور شانی تھے۔ بوڑھی تھکی نسل نے اپنے بوجھ جوان نسل پر ڈال دیئے تھے۔ ایک سال اکٹھا رہنے کے بعد عمرا اور شانی علیحدہ ہو گئے۔ انہوں نے گھر کے درمیان لمبی دیوار اٹھائی۔ بڑے بوڑھے دروازے کو اکھاڑ کر ایک طرف سلا دیا اور اس کی جگہ دو چھوٹے دروازے لگائے۔ انہوں نے گھر کے برتن بانٹے، گائے بکریاں تقسیم کیں، زمین جائیداد کے حصے بخرے بنائے۔ آخر میں بات اندھے باپ اور لولہے ممدو پر آ گئی۔ چھوٹا بیٹا باپ کو اٹھا کر لے گیا اور ممدو عمرا اور شمی کے حصے میں آ گیا۔
گاؤں میں کئی سردیاں آئیں، کئی گرمیاں آئیں۔ گاؤں کے کچھ درخت وہی تھے اور کچھ پرانے درختوں کی جگہ نئے درخت اگ آئے تھے۔ ممدو بوڑھا ہو گیا تھا۔ شمی اس سے بھی پہلے بوڑھی ہو گئی تھی۔ تیسرے شوہر سے اس کے دو بچے ہوئے۔ ممدو چارپائی پر گونگوں کی طرح چپ چاپ بیٹھا خلا میں گھورتا رہتا تھا۔ اس کے قریب پانی کی جھجری پڑی ہوتی۔ اس کی میلی اور چکنی بیساکھیاں اس کی چارپائی کے سہارے کھڑی ہوتیں۔ کبھی کبھی چارپائی پر لیٹے وہ بھولی بسری با توں کو یاد کرتا۔ اسے خیال آتا: ایک زمانہ تھا، جب میں جوان تھا، شمی جوان تھی۔ ہم تالاب پر پانی بھرتے وقت ایک دوسرے کو دیکھا کرتے تھے۔ وہ کتنے بھلے دن تھے۔ وہ میری نہیں تھی لیکن وہ کسی کی بھی تو نہیں تھی۔ وہ میٹھا درد، وہ چھپا خوف، وہ کتنے خوشیوں کے زمانے تھے۔ وہ بھلے دن خوشبو کی طرح ہوا میں بکھر گئے ہیں۔ کاش کہ ہم واپس اس زمانے میں چلے جاتے۔
لیکن پھر اسے اپنے آپ پر غصہ آتا۔
مجھے اب ایسے خیال دل سے نکال دینے چاہئیں۔ شمی میری دین دنیا کی بہن ہے۔ میری بھابی ہے۔ وہ میری خدمت کرتی ہے۔ روٹی چائے تیار کر کے میرے ہاتھ میں دے جاتی ہے۔ اللہ اس کا بھلا کرے !نہیں تو میرا ان پر زور تو نہیں چلتا۔ آج کے زمانے میں کون کسی کو اتنا برداشت کرتا ہے۔ اللہ اسے آباد رکھے ! اللہ اسے اپنے بچوں کی خوشیاں دکھائے۔ اس نے بھی تو اپنی زندگی میں بڑے دکھ دیکھے ہیں۔ وہ دو خاوندوں کے مرنے کا غم دیکھ چکی ہے۔ وہ تین خاوندوں کے بچوں کو سنبھالے ہوئے ہے۔ اچھا ہوا کہ وہ آباد ہے۔ اس کے سر پر شوہر کا سایہ ہے۔ اس کے بچے ہیں۔ اچھا ہوا کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔ عورت کا اکیلا پن مرد کے اکیلے پن سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مرد مرد ہوتے ہیں، جیسے تیسے زندگی گزار لیتے ہیں۔ وہ گرتے پڑتے اکیلے اپنی زندگی کو گھسیٹ کر موت کے منہ تک لے جاتے ہیں۔ لیکن عورت کے لئے زندگی کو اکیلے گھسیٹنا زیادہ مشکل ہے۔ میں مرد ہوں، ان بیساکھیوں پر لدا ہولے ہولے چلتا موت کے دروازے تک پہنچ جاؤں گا۔ یہ اچھا ہوا کہ شمی اکیلی نہیں ہے۔ اور میں۔۔ ۔ میں بھی تو اکیلا نہیں ہوں۔ یہ کاٹھی کی بیساکھیاں میری ساتھی ہیں نا۔۔ ۔ میں اکیلا نہیں ہوں۔
٭٭٭
خود کشی
یہ بستر کتنا سخت ہے !یہ بچے کتنا شور کرتے ہیں !یہ زندگی کتنی مشکل ہے !اسے جھیلنا ایک سزا ہے۔ اس زندگی سے تو موت اچھی ہے، لیکن میرے خود کشی کرنے کے بعد میرے چار بچے کیا کریں گے ؟بیٹے کسی ہوٹل میں برتن مانجھیں گے یا اڈوں پر جوتے پالش کریں گے اور بیٹی۔۔ ۔ آج کا دن جیسے تیسے گزر گیا، ان کی یتیمی کا ایک دن کم ہو گیا ہے۔ رابعہ کی بیو گی کا ایک دن کم ہو گیا۔ میں تو بس ان کے لیے جی رہا ہوں۔
میرا جسم کیسے ٹوٹ رہا ہے ! لگتا ہے کئی ہزاریوں سے میں دنیا کے اس عقوبت خانے میں رہ رہا ہوں۔ ٹیوشن پڑھانا کتنا ذلت آمیز کام ہے ! ایک گیٹ کی گھنٹی بجاؤ، انتظار کرو، پھر دوسرے گیٹ کی گھنٹی بجاؤ، انتظار کرو۔ غریب کی زندگی میں ذلت اور انتظار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کبھی کبھی تو بد تمیز نوکر مجھے ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے میں کوئی بھکاری ہوں۔ ظہر سے عشاء تک میں امیروں کے دروازوں پر بھیک مانگتا پھرتا ہوں۔
یہ کمرہ کتنا کشادہ اور خوبصورت ہے، صوفے کتنے آرام دہ ہیں ! تعلیم کا یہی تو فائدہ ہے، کچھ لمحوں کیلئے تو آرام مل جاتا ہے۔ نرم قالینوں پر چلنا نصیب ہو جاتا ہے۔ عاصمہ کتنی خوبصورت ہے۔ میری بیوی کو ایسے ہونا چاہیے تھا۔ اس کا چہرہ کتنا پرسکون ہے۔ یہ کتنی میٹھی باتیں کرتی ہے۔ اس کے ہاتھ کتنے دلکش ہیں۔ تین چار سال بعد پتہ نہیں یہ ہاتھ کس خوش نصیب کے ہاتھوں میں ہوں گے۔۔ ۔ مجھے ایسی باتیں نہیں سوچنی چاہیں۔ وہ میری شاگرد ہے۔ قسمت کی بات ہے، اگر میں افسر لگ گیا ہوتا تو عاصمہ جیسی بیوی مجھے مل سکتی تھی مگر میرے ترقی کے سارے خواب ملیا میٹ ہو گئے ہیں۔۔ ۔ عاصمہ کی امی ٹرے میں کیا لا رہی ہے ؟جوس ہو گا یا فروٹ چارٹ۔۔ ۔ آ ہا کتنی مزیدار فروٹ چارٹ ہے !
آدمی کو یا تو شان سے جینا چاہیے یا نہیں جینا چاہیے۔ میں کتنا نادیدہ ہو گیا ہوں۔ پلیٹوں، پیالوں اور گلاسوں کی چھنکار پر چونک جاتا ہوں۔ تف ہے ایسی زندگی پر!دوسروں کے ٹکڑوں پر زندہ رہنا۔۔ ۔ ہو سکتا ہے یہ فروٹ چارٹ انہوں نے اپنے بچے کھچے پھلوں سے بنائی ہو۔ کل سے میں ان کے گھر کی بنی ہوئی کوئی چیز نہیں کھاؤں گا۔ دوسرا یہ کہ یہ لوگ مجھے سٹائلش برتنوں میں چیزیں نہیں دیتے۔ نفیس برتن انہوں نے اعلیٰ قسم کے مہمانوں کیلئے سنبھال کر رکھے ہیں۔ میں نے سیٹھ مجید کے بیٹوں کو ٹیوشن پڑھانے سے اس لئے انکار کر دیا تھا کیونکہ ایک تو وہ مجھے برآمدے میں پرانی اُکھڑی ہوئی کرسی پر بٹھاتے تھے۔ اور دوسرامجھے ہر روز سرخ رنگ کا میٹھا شربت پلاتے۔ کبھی کبھی تو اس شربت میں بال بھی تیر رہے ہوتے اور، اور گلاس سے جو گندی بو آتی تھی اس سے تو میرے چودہ طبق روشن ہو جاتے تھے۔ شاید یہ گلاس نوکروں کیلئے تھا۔ یہ ذلت میں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
ہارون، آپ لوگوں نے یہ پردے کہاں سے خریدے ہیں ؟ بہت پیارے ہیں۔۔ ۔ تمہیں نہیں پتہ؟۔۔ ۔ مجھے ہارون سے یہ سوال نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ایسے سوالوں سے غربت ظاہر ہوتی ہے۔۔ ۔ یہ چائے کتنی مزیدار ہے۔ اسے چکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے میں ساری زندگی نقلی چائے پیتا آیا ہوں، جیسے میں نقلی زندگی گزار رہا ہوں۔ اصل زندگی تو صرف امیر لوگ گزارتے ہیں۔ ان کے کپڑے، کھانے، کھلونے، دوائیاں، گاڑیاں اصلی ہوتی ہیں، ان کی ہر چیز اصلی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے کتے بھی اصلی ہوتے ہیں۔ آج گھر پہنچ کر خود کشی کروں گا۔ بہت ہو چکا، بہت جی لیا ہے۔ زندگی تیرا بہت بہت شکریہ ! اتنی روکھی سوکھی سانسیں نچھاور کرنے کا شکریہ ! ٹکڑوں کی زندگی نہیں چاہیے مجھے ! اب بہت دیر ہو گئی ہے۔ اب میں کوئی ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ زندگی عاصمہ اور ہارون جیسے لوگوں کو مبارک ہو، جن کے پاس زندگی گزارنے کے ہزار بہانے ہیں۔ میرے مرنے کے ایک دو سال بعد رابعہ دوسری شادی کر لے گی۔ وہ ابھی جوان ہے اور خوبصورت بھی ہے۔ شادی کے بعد وہ ایک نئی ڈگر پر چلے گی، اپنے نئے خاوند کے گن گائے گی اور مجھے برا بھلا کہے گی لیکن میرے مرنے کے بعد میرے بچے کیا کریں گے۔ ان کی کمزور پتلی ٹانگیں اس عفریت دنیا کا مقابلہ کیسے کر پائیں گی ؟ان کی ننھی انگلیوں سے اڑیل زندگی کے دھاگے کیسے سلجھیں گے ؟۔۔ ۔ کیا میں خوبصورت چیزوں کو صرف دیکھنے کیلئے پیدا ہوا ہوں ؟ کیا اس دنیا کی تمام خوبصورت چیزیں مجھے جلانے کے لئے بنائی گئیں ہیں ؟غریب آدمی کا نصیب کتنا عبرتناک ہے !دو کالے کیلے، ایک کلو پیاز درجہ سوم، دو سڑے سیب۔۔ ۔ میں سبزی منڈی کے کئی چکر لگاتا ہوں۔ پہلے چکر میں ان چیزوں کو تاڑتا ہوں جو میری لیول کی ہوتی ہیں۔ دوسرے چکر میں سب دکانداروں سے قیمتیں پوچھتا ہوں، آخری چکر میں سب سے سستے اور غلیظ دکاندار سے سبزی یا پھل خریدتا ہوں۔ میری زندگی میں وہ دن نہ آ سکا جس دن بغیر قیمت پوچھے چیزیں خریدتا۔ خریداری کے دوران تین چار آدمی مجھ سے بد تمیزی سے پیش آتے ہیں جبکہ ہر روز تین چار آدمیوں سے منہ ماری کرنا میرا شیوہ بن گیا ہے۔
امیر لوگوں کی انگلیوں سے پیسے شاہانہ بے پروائی سے نکلتے ہیں، جیسے کلیاں چٹخ رہی ہوں۔ جیسے بلبلیں پھدک رہی ہوں۔ دکاندار کو دینے سے پہلے میری سوکھی انگلیاں بار بار پیسوں کوایسی گنتی ہیں، جیسے بھوکی چھپکلی کچھ نہ ملنے پر جلے پتنگوں کے پروں میں منہ مار تی ہے۔ غریب اپنے پیسوں سے جدا نہیں ہونا چاہتے۔ پیسے دکاندار کو دینے کے بعد وہ دیر تک اپنے پیسوں کو تکتے رہتے ہیں جیسے دکاندار انھیں پیسے واپس لوٹا دے گا۔
اب میرے بچے بڑے ہو گئے ہیں، تھوڑا بہت پڑھ لکھ بھی گئے ہیں۔ چھوٹے موٹے روز گار کے بھی مالک ہیں۔ اب انہیں میری ضرورت نہیں ہے۔ اب تو خود کشی میرا حق بنتا ہے۔ میں زندگی کا بوجھ مزید نہیں سہارسکتا۔۔ ۔ لیکن ان کی اب شادیاں ہونے والی ہیں۔ شادیوں میں وہ میری کمی محسوس کریں گے۔ مجھے کچھ مہینے اور انتظار کر لینا چاہیے۔ اور ہاں ولیمے کا خرچہ مجھے اپنی تجہیز و تکفین پر ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
اب میرے تمام بچوں کی شادیاں ہو گئی ہیں۔ اب انہیں میری ضرورت نہیں ہے۔ سب اپنے اپنے گھونسلوں میں پہنچ گئے ہیں۔ اب میری خود کشی سے کوئی یتیم نہیں ہو گا۔ میرے بچے اپنے اپنے خاندانوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے ہیں۔ اب میں آزاد ہوں !اب میں غربت سے بدلہ لوں گا۔ میں خود کو کسی رومینٹک دن ختم کر دوں گا۔ میں خود کو ایسی جگہ ختم کروں گا، جہاں سے میرے بیٹوں کو میری لاش گھر لانے میں تکلیف نہ ہو۔ کچھ لوگ دریا میں خود کشی کر کے اچھا نہیں کرتے۔ گھر والے ان کی لاش کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے پاگل ہو جاتے ہیں اور جو خود کو آگ لگاتے ہیں وہ صاحب ذوق نہیں ہوتے اور جو خود کو گاڑی کے نیچے پھینک دیتے ہیں وہ دوسروں کی زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ میں خود کو گھر کے آس پاس ختم کروں گا۔ میں ساری زندگی احساس کمتری اور ذہنی دباؤ کو برداشت کرتا آیا ہوں۔ اب مزید ان کو برداشت نہیں کروں گا۔ امیر لوگ مزید میری غربت کا مذاق نہیں اُڑا سکیں گے۔ میں خود کو ختم کر کے ان پر ہنسوں گا۔ خود کشی کر کے میں زندگی سے بغاوت کروں گا۔
جوانی میں میں ذہنی دباؤ اور غربت کو برداشت کر سکتا تھا مگر اب بوڑھا ہو گیا ہوں، اب برداشت نہیں ہوتا۔۔ ۔ جوانی میں میرا معدہ مضبوط تھا، ثقیل اور دیر ہضم چیزوں کو ہضم کر سکتا تھا۔ اب میرا معدہ بوڑھا ہو گیا ہے، یہ سوکھی روٹی، دال، بڑا گوشت، پراٹھا ہضم نہیں کر سکتا۔ اس عمر میں مجھے نرم، ہلکی پھلکی غذا چاہیے تھی۔ دودھ، شہد، کیلے، پھلوں کے رس، چکن کی یخنی۔ اگر میں یہ چیزیں کھانا شروع کر دوں تو میری پنشن پانچ دن میں پھُر ہو جائے گی۔ میں خزاں گزیدہ، پیلا پتا ہوں جو زندگی کے درخت سے جونک کی طرح چمٹا ہوا ہے۔ مجھے خود کو زندگی کے پیڑ سے گرا دینا چاہیے، پتھر پتھر مار مار کر!اس خزاں رسیدہ پتے کو پیڑ سے لٹک کر خود کشی کر لینی چاہیے۔ یہ زندگی کبھی بھی مجھے اپنی نہیں لگی۔ میں کبھی بھی زندگی کے پہلے صفحے پر زندہ نہیں رہا ہوں۔ میں ہمیشہ زندگی کے آخری پنوں پر ایڑیاں رگڑتا رہا ہوں۔ دیگچی میں پتھر اُبالتا رہا ہوں۔ مگر اب میں موت کو خود پر فتح نہیں پانے دوں گا، بلکہ اپنی زندگی کو خود ختم کر کے موت پر فتح پاؤں گا۔ موت پر ہنسوں گا !
میری خود کشی سے رابعہ کچھ اداس ہو گی۔ لیکن اس کے سوا کوئی بھی میری موت پر خفا نہیں ہو گا۔ ہفتہ، مہینہ رونے دھونے کے بعد وہ بھی خود کو adjustکر لے گی۔ اسے ایک بیٹا اٹھا کر لے جائے گا۔ میری پنشن بھی اسے ملتی رہے گی، اس کا گزارہ چلتا رہے گا۔ میرے بر عکس اُس کی خواہشات سادہ اور مختصر ہیں اور وہ میری طرح حساس بھی تو نہیں ہے۔ وہ جیسے تیسے زندگی کے بقیہ تین چار سال گزار لے گی۔ ہاں میرا کتا بگا میرے مرنے پراداس ہو گا۔ میں دو تین دن کے اندر اندر خود کو ختم کر دوں گا۔ لوگ مزید میرے تن کے چیتھڑوں، میرے لنڈے والے بوٹوں اور چہرے کی جھریوں کا مذاق نہیں اُڑا سکیں گے۔ یہ جھریاں بھی تو بس ایسے نکل آئی ہیں، ان جھریوں کے پیچھے کوئی سہانی یادیں بھی تو نہیں ہیں۔ میں شیکسپئیر کے بتائے ہوئے ’’سات مرحلوں ‘‘ میں سے آخری مرحلے میں داخل ہونے والا ہوں۔ میں ہرقسم کے کرداروں کو بھونڈے طریقے سے ادا کر چکا ہوں۔ آخر میں میں pentaloonنہیں بنوں گا! مجھے pentaloonبننے سے ڈر لگتا ہے۔
آج بہت گرمی ہے۔ بگا تمہیں بھی گرمی لگتی ہے ؟ تمہیں پتہ ہے کتوں کو زیادہ گرمی لگتی ہے ؟بگا تم بھی بوڑھے ہو گئے ہو۔ تم سے بھی اب نہیں چلا جاتا لیکن کیا کریں زمین تو چلنے سے رہی۔ ان ماچس کی تیلیوں کو، ان کمزور ٹانگوں کو ہی چلنا ہو گا۔ بگا کیا بوڑھے کتوں کو بھی چلنے میں تکلیف ہوتی ہے ؟ بوڑھے کتوں کے گھٹنے بھی درد کرتے ہیں، بوڑھے آدمیوں کے گھٹنوں کی طرح؟ کیا انہیں بھی چلنے کے لئے چھڑی یا بید کی ضرورت پڑتی ہے ؟ بگا میرے دوست تم نے کبھی ان چیزوں کے بارے میں سوچا ہے ؟چلو گھر چلتے ہیں، میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں اور تیرے پیٹ میں تو بلیاں دوڑ رہی ہوں گی۔ بلکہ بلے، موٹے کالے بلے دوڑ رہے ہوں گے۔ ہاہاہا۔۔ ۔ ہنسو نا یار۔ میں نے بہت اچھا مذاق کیا ہے۔ کتے بیچارے تو ہنسنے کی طاقت سے محروم ہیں۔ چلو دیر ہو رہی ہے، گھر چلتے ہیں اور اپنے بوڑھے ڈھیلے معدوں کو بے رنگ، بے بو، بے ذائقہ کھانے سے بھرتے ہیں۔ یہ گاڑیاں کتنا شور کرتی ہیں !ان کے دھوئیں سے میری آنکھیں جلتی ہیں۔ تم تھک گئے ہو، بگا ؟ میں بھی تھک گیا ہوں لیکن ہم دونوں بوڑھے ایک دوسرے کی مدد بھی نہیں کر سکتے۔ نہ تو تم گدھے ہو کہ میں تمھارے اوپر سوار ہو کر گھر چلا جاؤں اور نہ تم بلونگڑے ہو کہ میں تمہیں اپنی جیب میں ڈال کر چلوں۔ شاعر لوگ کتنے دروغ گو ہیں ! وہ کہتے ہیں زندگی چار دن کی ہے لیکن میری زندگی تو پلاسٹک بینڈ کی طرح کھچتی چلی جاتی ہے، لمبی، کمزور اور خطرناک ہوتی جاتی ہے۔ پتہ نہیں کب تڑاخ سے ٹوٹتی ہے !
کیا ہوا تمھیں ؟بخار ہے۔ کوئی گولی وولی لی ہے ؟اوئے تیرا جسم تو چنے بھن رہا ہے ! ڈاکٹر کو بلاؤں ؟ بگا تم رابعہ کے پاس بیٹھو، میں ڈاکٹر کو لاتا ہوں۔
پورے دو مہینے ہو گئے ہیں رابعہ کی بیماری کو۔ ایسے حالات میں میں خود کشی کیسے کر سکتا ہوں ؟ اسے میری ضرورت ہے۔ اگر اس مشکل گھڑی میں میں اس کے کام نہ آیا تو یہ خود غرضی کی انتہا ہو گی۔ رابعہ کے ہاتھ کتنے کمزور ہو گئے ہیں !اس کے چہرے پر جھریوں کی پوری فصل اگ آئی ہے۔ موت ان جھریوں کے نشیب و فراز میں گھات لگا کر بیٹھی ہوئی ہے۔ چالیس سال پہلے یہی ہاتھ کتنے بھرے بھرے اور خوبصورت تھے۔ کیا میںا نہی ہاتھوں میں گجرے پہنایا کرتا تھا؟کیا یہ وہی ہاتھ ہیں جن پر مہندی اتنی سجتی تھی ؟کیا یہ وہی ہتھیلیاں ہیں جن میں میں اپنی تقدیر کی لکیریں دیکھا کرتا تھا ؟انہی ہاتھوں کو پکڑ کر میں گھنٹوں رابعہ کی آنکھوں میں جھانکا کرتا تھا!اس کی گہری ٹھنڈی آنکھوں میں تیرا کرتا تھا۔ یہ کتنی جلد بوڑھی ہو گئی ہیں۔ یہ آنکھیں میری وجہ سے بوڑھی ہوئی ہیں۔ میں رابعہ کے حسن کو برقرار رکھنے کیلئے کچھ نہ کر سکا۔ اگر میں نے اسے اچھی خوراک، ذہنی سکون، اچھا ہار سنگھار دیا ہوتا تو اس کے چہرے پر جھریاں اتنی جلدی نہ اُگتیں۔ اس کے چہرے پر کتنی جھریاں ہیں جیسے کسی نے زمین پر ہل چلائے ہوں۔ ان جھریوں کی وجہ سے میں رابعہ کے چہرے کی طرف دیکھ نہیں سکتا۔ اس کا چہرہ جھریوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔
غربت اور بے احتیاطی کی وجہ سے اس کی آنکھیں گڑھوں میں دھنس گئی ہیں جیسے شفاف جڑواں جھیلیں سوکھ کر دو گدلے جوہڑوں میں بدل گئی ہوں۔ ہڈیوں کی پنجر، ایسے بے حس و حرکت پڑی ہے جیسے لکڑی کا بوسیدہ تابوت۔ اس کے پاؤں کتنے نرم ہیں جیسے چھوٹے بچے کے ہوں۔۔ ۔ کیا کر رہا ہوں ؟تیرے پاؤں کو چوم رہا ہوں، تم سو جاؤ۔ آرام سے۔ میں بیٹھا ہوں نا۔۔ ۔ جوانی میں کیسے ہرنی کی طرح دوڑتی پھرتی تھی ! شادی سے پہلے جب میں مامے کے گھر جاتا تھا تو یہ تتلی کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر اڑتی پھرتی۔ اس سے ایک جگہ نہیں بیٹھا جاتا تھا۔ اسے اگر کمرے میں کوئی کام نہیں بھی ہوتا تب بھی وہ کمرے میں آتی۔ برتنوں کو آپس میں ٹکراتی، اپنے موجود ہونے کا احساس دلاتی۔ اگر اسے ایک پلیٹ یا کپ بھی دھونا ہوتا تو وہ اسے ایسے دھوتی کہ اپنے کپڑے گیلے کر لیتی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے سفید ہاتھ ہر وقت گیلے رہتے۔ کبھی کبھی میں زبردستی اس کے ہاتھ سے پکڑ لیتا، اس کے گیلے ٹھنڈے ہاتھوں میں محبت کے کتنے آتش فشاں سوئے ہوئے تھے !بچوں کی طرح اسے پانی سے کھیلنا اچھا لگتا تھا۔ پانی سے کیے جانے والے کام اسے اچھے لگتے تھے۔ برتن دھونا، کپڑے دھونا، چھڑکاؤ کرنا، دھوئیں اور دھول والے کام اسے اچھے نہیں لگتے تھے۔ وہ ہر وقت ننگے پاؤں پھرتی تھی۔ مامی اسے اوڈنی کہا کرتی تھی۔
اچھا ہوا مر گئی ہے، رابعہ کی کمزور ہڈیاں زندگی کا بوجھ مزید نہیں سہار سکتی تھیں۔ اچھا ہوا، زمین کی گود میں سو گئی ہے۔ رابعہ کی قبر پر کتبہ لگانا چاہئے۔ دو دن میں پھولوں کی پتیاں خشک ہو کر تمباکو بن گئی ہیں۔ یہ تازہ پھول بھی مرجھا جائیں گے۔ قبروں پر سینکڑوں تازہ اور مرجھائے پھول پڑے ہیں۔ کاش پھولوں کے پر ہوتے، وہ تتلیاں بن کر اُڑ جاتے اور ہمارے ہاتھ نہ آتے۔۔ ۔ اچھا ہوا بڑھیا سے جان چھوٹ گئی ہے۔ اب میں خود کشی کرنے کیلئے آزاد ہوں۔۔ ۔ یہ قبرستان تو پارک کی طرح ہے، ہر طرف سجاوٹی پودے اور پھول لگے ہوئے ہیں !دل چاہتا ہے یہاں گھر بنا لوں۔ قبروں پر جلتے ہوئے دئیے کتنے رومینٹک لگتے ہیں۔ ایک دن میری قبر پر بھی دئیے جل رہے ہوں گے۔ کیا میری قبر پر جلنے والے دئیے اتنے خوبصورت لگیں گے ؟کاش میں اپنی قبر پر جلتے ہوئے چراغوں کی جھومتی لوؤں کو دیکھ سکتا، اگربتیوں سے اٹھنے والے نیلے دھوئیں کے خوشبودار دھاگوں کو دیکھ سکتا۔ شاید میری روح انہیں دیکھ سکے۔۔ ۔ جب لوگ قبرستان سے چلے جاتے ہیں تو روحیں ان دیؤں کی روشنی میں مل بیٹھتی ہوں گی، ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتی ہوں گی۔
قبرستان روحوں کا ہوائی اڈا ہوتا ہے، یہاں پہنچ کر روحیں اپنی اپنی منزل کو سدھارتی ہیں۔ یہ مٹی کی قبر کتنی خوبصورت ہے جیسے کشتی دریا کے کنارے سے گلے مل رہی ہو، جیسے وہ اپنی منزل پر پہنچ گئی ہو۔ میں بھی اپنی قبر کچی بنواؤں گا۔ میں اپنی ڈائری میں وصیت لکھ چھوڑوں گا کہ مجھے مٹی کی قبر میں دفنانا۔ میں مٹی کی کشتی میں بیٹھ کر روحوں کی نگری میں جاؤں گا۔ یہ سنگ مر مر کی قبریں، جیسے چاندنی میں نہائی جھیل پر بجرے تیر رہے ہوں۔ بریگیڈئیر صفدر حلیم۔۔ ۔ سیٹھ عارف ندیم۔۔ ۔ پیسے کی دوڑ نے انسانوں کو قبرستان میں بھی نہیں چھوڑا۔ کل تک جو آدمی محل میں رہائش پزیر تھا، آج وہ سنگ مر مر کی قبر میں رہ رہا ہے۔ کل جو شخص سرخ، بھُربھُری اینٹوں کے ڈھانچے میں سڑ رہ تھا، آج وہ مٹی گارے کی قبر میں قید ہے۔ غربت اور امارت کے بکھیڑے قبرستان تک بھی آ دھمکے ہیں۔ کیا روحیں بھی امیر اور غریب ہوتی ہیں ؟
بیٹا میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتا۔ آج کل کے جدید دور میں کھانا بنانا تومسئلہ ہی نہیں ہے اور اکثر میں کھانا قریب والے ہوٹل سے لے لیتا ہوں۔۔ ۔ نہیں، نہیں۔۔ ۔ میں نے کہا نا میں آپ سے ناراض نہیں ہوں۔ میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا، میں اکیلا خوش رہتا ہوں۔۔ ۔ میرے ساتھ ؟ میرے ساتھ بگا ہے نا۔ یہ میرا خیال رکھتا ہے۔ یہ مجھے راستہ نہیں بھولنے دیتا۔ خدا تمہیں خوش رکھے !آؤ بگا چلیں۔
ایک Scarecowکو پھولوں کی کیاری پر پہرہ نہیں دینا چاہیے۔ جوان میاں بیوی کا کمرہ پھولوں کی کیاری کی طرح ہوتا ہے۔ یہ تو ایسے پاگل ہیں، میں انہیں اپنی بے وقت اور بے سری کھانسی نہیں سنانا چاہتا۔ میری وجہ سے ان کا سارا معمول تباہ ہو جائے گا۔
کاش میرا بچپن لوٹ آتا، میں ان بچوں کیساتھ ہنستا، مسکراتا، چہرے پر حیرانی کی شکنیں لئے سکول جاتا۔ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا۔ ہر روز نئی نئی چیزیں دریافت کرتا لیکن وقت کی سوئیوں کو پیچھے کی طرف کون گھما سکتا ؟میں تو بس دروازے کے سامنے پڑی کرسی میں بیٹھ کر سکول جاتے، ایک دوسرے کو کہنیاں مارتے بچوں کو صرف دیکھ سکتا ہوں۔ ان بچوں کے چہرے شبنم میں نہائے ہوئے پھولوں کی طرح اجلے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں کتنی روشنی ہے۔ میری بجھتی آنکھوں کے سامنے کتنے اندھیرے ہیں۔ اے تسلسل انسانی کی صبح کے تارو! ذرا اپنی روشن آنکھوں سے میرے بجھتے چراغوں میں روشنی کی چند بوندیں ٹپکاتے چلو۔ دیکھو! میں بوڑھا کھنڈر ہوں، میرے اندر باؤلے کتے، خارش زدہ بلیاں اور بیمار چھپکلیاں رہتی ہیں۔ جب ہوا چلتی ہے تو میرا کھوکھلا پن بجتا ہے، جیسے بھوتوں کا آرکسٹرابج رہا ہو۔ میرے اندر سے ڈراؤنی آوازیں آتی ہیں۔ اپنے ننھے منے ہاتھوں سے ذرا اس کھنڈر کے سوراخوں میں کپاس ٹھونستے جاؤ۔ اپنے حصے کے چند جگنو، چند تتلیاں اس ویرانے میں چھوڑتے جاؤ۔ میں تو ٹھیک طرح سے چل بھی نہیں سکتا۔ اپنی نازک ہتھیلیوں میں میری مردہ انگلی لے لو، مجھے چلنا سکھاؤ، مجھے دنیا کی خوشیاں دکھاؤ۔ مجھے اس جزیرے پر لے چلو جہاں خوشیاں ہی خوشیاں بستی ہوں۔ مجھے وہاں لے چلو جہاں تتلیوں کے نازک پروں میں رنگ بھرے جاتے ہیں، جہاں جگنوؤں کی ننھی دموں میں روشنیاں انڈیلی جاتی ہیں، جہاں کلیوں کے کلیجوں میں چٹخنے کی صدائیں لپیٹی جاتی ہیں۔
گولیاں۔۔ ۔ نشہ آور گولیاں کہاں گئیں ؟پانی کا گلاس۔۔ ۔ مل گیا۔ نہیں یہ پلاسٹک کا گلاس نہیں چلے گا۔۔ ۔ شیشے کا فینسی گلاس کہاں گیا ؟مل گیا۔۔ ۔ لیکن یہ ذرا چکنا ہے۔ پہلے اسے وِم سے دھولوں۔ گولیاں پانی سے نہیں لینی چاہئیں۔ کسی خوش ذائقہ شربت سے لینی چاہیں۔۔ ۔ ہاں یہ انار کا شربت ٹھیک رہے گا۔ خوبصورت لگ رہا ہے شیشے کے گلاس میں، جیسے شام کی ساری شفق گلاس میں اتر آئی ہو۔ جیسے کسی نازنین نے اپنی ہونٹوں کی لالی اس میں گھول دی ہو۔
گولیاں۔۔ ۔ گولیاں مل گئیں، سب تیاری مکمل ہو گئی ہے۔ کالی کلوٹی زندگی خدا حافظ! مگر پہلے ڈائری میں تو کچھ لکھ تو لوں: میں نے خود کشی کی ہے۔ میں اپنی موت کیلئے خود ذمہ دار ہوں۔ میری الماری میں سونے کی ایک انگوٹھی پڑی ہے۔ میرے بنک اکاؤنٹ میں پانچ ہزار روپے پڑے ہیں۔ سب کو سلام۔ مجھے معاف کرنا۔ اگر معاف نہیں کر سکتے تو خود کو قتل کرنے کے جرم میں میری لاش کو سولی چڑھا دینا۔ ہاں کئی دفعہ سولی چڑھانا۔ خدا حافظ!۔۔ ۔ اور ہاں مجھے مٹی کی قبر میں دفنانا اور قبر پر مٹی کا دیا جلانا نہ بھولنا، ہر جمعرات کو۔۔ ۔ اور اگربتیاں بھی۔
پہلے شربت کا گھونٹ لے لوں، اس سے گلا تر ہو جائے گا۔ مرنے سے پہلے کوئی اچھا سا پرفیوم لگا لوں۔ ہونہہ یہ پرفیوم بڑا inspiringہے۔ میری روح جب نکلے گی تو اک بانکی خوشبو اس کا استقبال کرے گی۔ مرتے وقت مجھے قتل کی بو نہیں آنی چاہیے۔ میری روح خوشبو کے مرغولے میں بیٹھ کر نکلے گی۔ میری روح ایسے محسوس کرے گی جیسے کسی قیدی بلبل کو چمن میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہو۔ میں نے اپنی روح کو بہت ستایا ہے، بہت ذلیل کیا ہے۔ سامنے طاق میں مٹی کے دئیے جلانا تو بھول گیا۔ ایک منٹ، روح کو شان سے الوداع کہنا چاہیے۔۔ ۔ لو دئیے جل گئے۔ اب میرے ذہن کے پردے پر آخری تصویر، میٹھی روشنی کی ہو گی۔۔ ۔ بگا تم ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ تم نے کھانا تو کھا لیا ہے نا؟اچھا خدا حافظ دوست! تم نے خوب دوستی نبھائی۔ تم میری بات تو سمجھ رہے ہو نا؟ تم اداس لگ رہے ہو، کیا بات ہے ؟ تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ ادھر بیٹھو، اِدھر مت آؤ۔ میں نے تمہیں بلایا تو نہیں۔ بگا خدا حافظ !گولیاں ایک ایک کر کے لینی چاہئیں یا ساری اکٹھی لینی چاہئیں ؟ پہلے انہیں گن تولوں۔ ایک دوتین۔۔ ۔ پانچ۔۔ ۔ گیارہ۔۔ ۔ بیس۔۔ ۔ چالیس۔ ایک گولی تو آدھی ہے، اسے گننا چاہیے یا نہیں ؟ایک یہاں چھپی بیٹھی ہے۔۔ ۔ اکتالیس گولیاں اس بوسیدہ بوڑھے کو ختم کرنے کیلئے کافی ہیں۔۔ ۔ بگا تمہیں کیا ہوا ہے، تم آرام سے کیوں نہیں بیٹھ سکتے ؟تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔ تم فکر نہ کرو۔ مجھے موت کی بو آ رہی ہے۔ موت کا فرشتہ شاید پڑوس میں داخل ہو چکا ہے۔ بس ایک دو منٹ کی تو بات ہے۔۔ ۔ بگا تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تم میری گود میں کیوں گھس آئے ؟ یہ تمھاری آنکھوں میں۔۔ ۔
میرے مرنے کے بعد بگا کا کیا ہو گا؟ اسے کھانا مل جائے گا، رہنے کے لئے کوئی پل یا حلوائی کا چولھا بھی مل جائے گا مگر میری طرح کا دوست نہیں مل سکے گا۔ اس سے باتیں کون کرے گا؟ اسے سیر پر کون لے کر جائے گا ؟یہ بھی میری طرح بوڑھا ہے، اسے بھی سہارے کی ضرورت ہے۔ اس کا خیال رکھنا میرا فرض ہے۔ مجھے اس کے لیے کچھ دن اور جی لینا چاہیے۔ صرف چند انچ زندگی بچی ہے۔ گولیاں۔۔ ۔ انہیں بکس میں چھپا لیتا ہوں اور شربت۔۔ ۔ آدھا گلاس میں پی لیتا ہوں اور آدھا بگا کو دے دیتا ہوں۔ اچھا تم۔۔ ۔ تم پرفیوم لگانا چاہتے ہو؟ تمہیں پرفیوم کہاں لگا دوں ؟ تمہارے تو کپڑے نہیں ہیں۔۔ یار تمھارے بال تمھارے کپڑے ہیں۔ ہاہاہا اب مزہ آیا۔ تم اس پرفیوم کو مجھ سے زیادہ Enjoyکر سکتے ہو کیونکہ کتوں کی حسِ شامّہ بہت تیز ہوتی ہے۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید