فہرست مضامین [show]
یادوں کی مالا
مختلف شخصیات کے بارے میں مصنف کے تاثرات، افکار اور انعکاسات
رئیس احمد صمدانی
ابتدائیہ
یہ کتاب میرے ان سوانحی مضامین اور خاکوں کا مجموعہ ہے جو میں نے گزشتہ ۳۰ برس میں لکھے اور وقتاً فوقتاً مختلف اخبارات اور رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ میرا بنیادی موضوع لائبریری سائنس رہا ہے لیکن اپنے شوق اور دلچسپی کے باعث میں نے شخصیات کو بھی اپنا موضوع بنا یا۔ اس میں بعض مضامین ایسے بھی ہیں جو میں نے بطور خاص اس کتاب کے لیے لکھے جو اس مجموعہ میں شامل کیے جا رہے ہیں۔
سوانح نگاری ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں اشخاص سے بحث کی جاتی ہے، انسان کی زندگی کی کہانی، اس کی خوبیوں اور کمزوریوں کو تاریخی ترتیب کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ’’خاکہ ‘‘ نویسی ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں کسی بھی شخص کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو تاریخوں اور سنین کے بغیر مصنف اپنی سہولت اور مرضی کے مطابق پیش کرتا ہے۔ خاکہ نگاری اخلاص و محبت کے ملاپ سے معرض وجود میں آتی ہے۔ خاکہ نگار جس شخصیت سے متاثر ہوتا ہے یا اپنی کسی پسندیدہ شخصیت کی اچھی اور کسی حد تک نہ پسندیدہ باتوں کو اس طرح قلم کی زبان دیتا ہے کہ وہ شخصیت عام قارئین کے لیے بھی دلچسپ اور پسندیدہ بنا جاتی ہے۔ ابتدائی یا معروف خاکہ نگاروں میں الطاف حسین حالیؔ، محمد حسین آزادؔ، چراغ حسن حسرت، رشید احمد صدیقی، مولوی عبدالحق، عبدالماجد دریا آبادی، صادق الخیری، فرحت اللہ بیگ، ڈاکٹر اسلم فرخی، شورش کاشمیری، نظیر صدیقی ابراہیم جلیس، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، قرۃ العین حیدر، ممتاز مفتی، کوثر نیازی، گیان چند جین، رئیس احمد جعفری، وزیر آغا، سید ضمیر جعفری، تابش دہلوی، آفاق صدیقی، منو بھائی، ابوالخیر کشفی، حسن وقار گل، انور سدید، امراؤ طارق اور دیگر شامل ہیں۔
اس مجموعہ میں سوانحی مضامین بھی ہیں جن میں موضوع کو مختلف حوالات سے مزین کیا گیا، ان کے علاوہ سوانحی خاکے بھی ہیں۔ سوانحی مضامین یا سوانح عمری میں صاحب تذکرہ کے بارے میں معلومات کی فرا ہمی اور اسے صداقت اور ایمانداری کے ساتھ بیان کرنا بنیادی عنصر ہوتا ہے۔ راقم نے اپنی پوری کوشش کی کے صاحب تذکرہ کے بارے میں جہاں تک ممکن ہو سکے معلومات یکجا کر دی جائیں، ساتھ ہی ان معلومات کو صداقت اور ایمانداری کے ساتھ بیان کرنے کی سعی کی ہے۔ میں اس میں کہا تک کامیاب ہواس کا فیصلہ قارئین ہی بہتر کر یں گے۔ مجموعہ میں ایک رپورتاژ بھی ہے۔ رپورتاژ بھی اردو نثر کی ایک صنف ہے جس میں حالات و واقعات کو اس طرح اور اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے جیسے کہ وہ رونما ہوئے ہوں یعنی حقیقی واقعات سادگی سے اس طرح بیان کرنا جیسے ہو گزرے ہوں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کرشن چندر کی تصنیف ’’پودے ‘‘ اردو کی پہلی رپورتاژ ہے جو پہلی مر تبہ کتابی صورت میں ۱۹۴۷ء میں شائع ہوئی تھی۔ بعد ازاں کئی رپورتاژ لکھی اور شائع ہوئیں ان میں سید سجاد ظہیر کی ’’یادیں ‘‘ اور ’’ روشنائی ‘‘، عصمت چغتائی کی ’’ بمبئی سے بھوپال تک ‘‘، کرشن چندر کی ’’صبح ہوتی ہے ‘‘، خواجہ احمد عباس کی ’’سرخ زمین اور پانچ ستارے ‘‘، شاہد احمد دہلوی کی ’’دلّی کی بپتا‘‘ اور ابراہیم جلیس کی ’’دو ملک ایک کہا نی‘‘ اور ’’ جیل کے دن جیل کی راتیں ‘‘، قدرت اللہ شہاب کی ’’یا خدا‘‘، ڈاکٹر انور سدید کی ’’تلاش کا سفر‘‘، ممتاز مفتی کی ’’لبیک‘‘، کرنل محمد خان کی ’’بغداد کا سفر‘‘ اور قرہ العین حیدر کی ’’کوہِ دماوند‘‘ شامل ہیں۔ ان کے علا وہ بھی کئی رپورتاژ منظر عام پر آ چکی ہیں۔
کچھ شخصیات یقیناً ایسی ہوتی ہیں جن پر لکھتے ہوئے روح کو تسکین ملتی ہے اور ذہن سرشاری محسوس کرتا ہے۔ یہ اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل وہ لوگ ہیں جو اپنے حسن اخلاق، کردار اور طرز زندگی سے دنیا میں ایک ایسی خوبصورت مثال قائم کرتے ہیں کہ اگر ہم ان کی زندگی کے عملی پہلوؤں میں سے کسی ایک کو بھی اپنا لیں تو ہماری زندگی بھی بہتر ہو جائے۔ ایسے لوگ اپنی زندگی میں ایسے کارنامے انجام دے جاتے ہیں کہ جو تاریخ میں یاد گار ہو جاتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ اس مجموعہ میں جن شخصیتوں کا ذکر ہے وہ ہر قاری کے لیے جاذب نظر اور متاثر کن ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ خود میرے لیے یہ تمام شخصیتیں میری آئیڈیل نہیں لیکن انسانی قدریں ہماری زندگی کو صاف ستھرا بنانے، برائیوں سے دور رکھنے میں نا صرف معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہیں بلکہ سیدھے راستے کے تعین میں بھی مثالی کر دار ادا کرتی ہیں۔ میں نے جن لوگوں میں ایسی قدریں محسوس کیں ان کی شخصیتوں کی قدروں کو قلم کی زبان دینے کی کوشش کی ہے۔
میرا پہلا سوانحی مضمون حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تھا جو کراچی کے ایک مقامی رسالے ’ترجمان ‘ میں ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا تھا، یہ میرے سوانحی موضوعات پر لکھنے کی ابتدا تھی، دوسرا مضمون ۱۹۸۱ء میں قصور سے شائع ہونے والے رسالے ’انوار الصوفیہ‘ میں شائع ہوا جو میرے جد امجد شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی شخصیت اور ان کی شاعری پر تھا۔ شخصیات پر سوانحی مضامین لکھنے اور شائع ہونے کا یہ عمل الحمد اللہ ۳۰ برس سے جاری ہے اس دوران میری چار سوانحی تصانیف ’ڈاکٹر عبدالمعید اور پاکستان لائبریرین شپ‘ ۱۹۸۱ء، اختر ایچ صدیقی( انگریزی میں )۱۹۹۵ء، محمد عادل عثمانی( انگریزی میں )۲۰۰۴ء اور’ ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری: شخصیت و علمی خدمات‘ ۲۰۰۶ء میں شائع ہو چکی ہیں جب کہ مختلف شخصیات پر ۳۰ کے قریب سوانحی مضامین اور خاکے شائع ہوئے۔ خیال ہوا کہ ان شائع شدہ مضامین کو کتابی شکل دی جائے چنانچہ اس منصوبہ پر کام کا آغاز کوئی دو سال قبل شروع کیا، اس دوران بعض شخصیات پر مضامین بھی تحریر کیے جو اس کتاب میں پہلی بار شائع ہو رہے ہیں ان میں پاکستان لائبریرین شپ کی معروف شخصیت اور حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والے میرے استاد ڈاکٹر انیس خورشید، ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر، ملتان کے معروف نعت گو شاعر جناب تابشؔ صمدانی، میرے محترم محبوب احمد سبزواری، مشکور احمد، سید امام، شیخ لئیق احمد اور میرے دوست منظور احمد بٹ، شامل ہیں۔ اس طرح اس مجموعہ میں ۲۵ شخصیات پر سوانحی مضامین اور خاکے شامل ہیں جن میں سے ۱۷ مضامین شائع شدہ ہیں جب کہ آٹھ مضامین ایسے ہیں جو اس کتاب کے لیے تحریر کیے گئے۔
میرا موضوع وہ شخصیات رہی ہیں جن سے میں متاثر ہوا اور ان کی زندگی کو میں نے ایک قابل تقلید مثال جانا، میرا خیال ہے کہ ان شخصیات کے مطالعہ سے نا صرف ان احباب کی زندگی کے بارے میں معلومات عوام الناس کے سامنے آ سکے کیں بلکہ نئی نسل ان سے بہت کچھ سیکھے گی، ان شخصیات میں میرے استاد، ہم پیشہ ساتھی، خاندان کی بعض محترم شخصیات اور میرے دوست بھی شامل ہیں۔ میں اپنے بعض صاحب تذکرہ سے قریب رہا ہوں، ان کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے، ان کے مزاج، افتاد طبع، نشست و برخاست اور طرزِ بود و ماند سے بھی واقف رہا، میں نے کوشش کی ہے کہ اپنی ذاتی عقیدت یا اختلافی موضوعات کو اپنے تذکروں میں جگہ نہ دوں۔
کتاب کی تیاری میں میری شریک سفر شہناز نے معاونت کی، مسودہ پڑھا اور قابل عمل مشورے دئے، بعض واقعات کی تاریخ، جگہ اور تفصیلات سے بھی گاہے بہ گائے مجھے آگاہ کرتی رہیں۔ پروف ریڈنگ ایک اہم، مشکل اور تھکا دینے والا کام ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت سے ان کار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ذمہ داری میری ایک شاگردہ رابعہ کوثر جو اردو میں ایم اے کی ڈگری رکھتی ہیں نے بہت ہی خوش اسلوبی اور مہارت کے ساتھ ادا کی، ان کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ کتاب کی اشاعت کا اہتمام الطاف شوکت مرحوم کے صاحبزادے جناب مشتاق آزاد کے توسط سے لاہور کے معروف ناشر ’’ الفیصل ناشران تاجران کتب ‘‘ نے کیا۔ میں مشتاق صاحب کا اور فیصل صاحب کا انتہائی ممنون ہوں، فیصل صاحب اس سے قبل بھی میری نصابی کتب کے فروغ میں عملی تعاون کرتے رہے ہیں۔ آخر میں کسی شاعر کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں جو میرے احساسات کی بھر پور ترجمانی
کرتا ہے۔
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے، وہ لوٹا رہا ہوں
یکم اکتوبر ۲۰۰۷ء
حکیم محمد سعیدشہید
کتاب اور کتب خانوں کا شیدائی
۱۲ اکتو بر ۱۹۹۸ء بروز ہفتہ نماز فجر کے روزہ کی حالت میں حکیم محمد سعیدبے دردی سے قتل کر دئے گئے۔ اور یہ مرد مو من، رہنمائے طب، علم و حکمت کے موتی بکھیر نے ولا، اخلاق و اخلاص کا دیو قامت مجسمہ، مرد بے مثال، جو ہر عزیز، خدمت و انسانیت کا پیکر، تصنع و بناوٹ سے پاک، انکساری کا پیکر، ہمدرد انسانیت، احیاء اخلاق و تعمیر کردار کی جد و جہد کرنے والا، پاکستان سے محبت کرو اور پاکستان کی تعمیر کرو کی جد و جہد اور درس دینے والا، وطن عزیز کا درد رکھنے والا، کتاب اور کتب خانوں کا شیدائی اپنی زندگی کے ۷۸ سال ۹ماہ اور ۷ دن مکمل کر کے شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوا۔ موت برحق ہے لیکن بعض اموات اس قدر تکلیف دہ اثرات مر تب کرتی ہیں کہ انسان تڑپ اٹھتا ہے۔ ، طبعیت مچل جاتی ہے، دل و دماغ اس حقیقت کو قبول کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں ایسی ہی موت حکیم محمد سعید کی تھی کہ کسی طور بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب ہم میں نہیں، یہ بات وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتی تھی کہ ایک ایسے شخص کو جو سیاسی ہے نہ سیاسی مقاصد رکھتا ہے پھر کیوں کسی شخص، گروہ یا جماعت کو ان سے کسی بھی قسم کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے پھر ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا ؟ شاید تاریخ اس کا جواب ہمیں آئندہ دے سکے۔ محسن بھوپالی نے سچ کہا ہے ؎
انسا نیت کا قتل ہے انساں کا نہیں
نازاں تھی جس پہ قوم وہ انسان نہیں رہا
ترسیں گے کسب نور کو اب طالبانِ علم
زیب افق وہ ماہ درخشاں نہیں رہا
یہ حادثہ یقیناً پوری پاکستانی قوم کے لیے باعث ندامت اور شرمندگی ہے ہم پوری دنیا میں ذلیل و رسواء ہوئے کہ ہم اپنے محسنوں کے ساتھ، علم سے محبت کرنے والوں کے ساتھ، علماء و فضلاء کے ساتھ، ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ اور کتاب و کتب خانوں سے محبت کرنے والوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک بھی کر سکتے ہیں، تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی، حقیقت یہ ہے کہ حکیم محمد سعیدکا قتل ایک فرد کا قتل نہیں یہ ایک تحریک کا قتل ہے، ایک علامت کا قتل ہے، جذبہ تعمیر کا قتل ہے، ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک ادارے کا قتل ہے۔
حکیم محمد سعیدخوبیوں کا مجسمہ تھے ان کی مکمل زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔ مجھے آپ کو متعدد بار قریب سے دیکھنے، سننے اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا، آپ کتب خانوں اور کتب خانوی انجمنوں سے مسلسل وا بستہ رہے۔ حکیم صاحب کی صدارت میں منعقد ہونے والے سیمینار اور کانفرنسوں میں کتب خانوں کے موضوع پر مقالہ پڑھنے کا اعزاز بھی مجھے حاصل ہوا آپ کسی بھی مجلس مذاکرہ کی صدارت کے دوران تمام مقررین کو بہت توجہ سے سنا کرتے، بسا اوقات طوالت کے باعث دیگر سننے والے اکتا ہٹ محسوس کرنے لگتے لینں حکیم صاحب کے چہرہ پر کبھی اکتاہٹ کے آثار نہیں دیکھے گئے۔ آپ مسلسل چاق و چوبند بیٹھے تمام مقررین کو انہماک سے سنتے رہتے اور اپنی اختتامی کلمات میں مقررین کی بعض باتوں کا حوالہ بھی دیا کرتے۔ حکیم صاحب جیسی شخصیت برسوں میں پیدا ہوتی ہے ان کا نعم البدل قوم کو مشکل ہی سے ملے گا۔ میر تقی میرؔ نے کیا خوب کہا ہے۔
مت سہل ہمیں جانوں، پھر تا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
حکیم محمد سعید کی سادگی اور درویشانہ زندگی کے بارے میں محقق رضوان احمد نے اپنے ایک مضمون ’’حکیم محمد سعیدشہید‘‘ میں لکھا کہ ’’میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ چند سال ان کا پڑوسی بھی رہا۔ پہلی رات جب ان کے پڑوس میں رہائش پذیر ہوا تو دیکھا کہ درویش صفت انسان چھت پر چٹائی بچھا کر سو رہا تھا۔ رات اللہ تعالیٰ نے سکون اور نیند کے لیے بنائی لیکن رات کا کچھ حصہ رب العزت کے لئے گزارنا شہید کا معمول تھا ‘‘۔ حکیم صاحب کی اسی صفت کا حال معروف صحافی آغا مسعود حسین (سابق صوبائی وزیر) اپنے کالم ’حکیم سعید کی یاد میں ‘ لکھتے ہیں ’’جب میں ان کے گھر پہنچا تو انہوں نے مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھایا۔ یہی ان کی رہائش گاہ تھی زمین پر ان کا بستر بچھا ہوا تھا۔
قریب جاء نماز رکھی تھی اور اوپر سیکڑوں کتا بیں جن کا وہ رات کے کسی پہر مطالعہ کرتے تھے بس یہی ان کی
دنیا تھی ‘‘۔
حکیم محمد سعید ان صاحب فضل و کمال شخصیات میں سے تھے کہ جن کی ضیاء علم و دانش نے بیسویں صدی کو منور اور تابناک بنا دیا۔ آپ کا نقطہ نظر واضح، رائے دو ٹوک اور مصلحت سے پاک تھی، آپ انسان دوست، درد مند معالج، محقق اور دانش ور، تاریخ دان، فروغ تعلیم کے داعی، مدیر مولف و مصنف، اعلیٰ منتظم، اسلامی علوم پر ماہرانہ نظر رکھنے والے، ملکی سیاست کے نباض، حقیقت پر مبنی سوچ و فکر کے حامل اور ایک وضعدار انسان تھے۔ بقول ایس ایم ظفر ’’حکیم محمد سعید خون کے آخری قطرہ تک محب وطن تھے۔ ‘‘در حقیقت آپ کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ بقول رحیم بخش شاہین ’’عام طور پر لوگ سانسوں کی گنتی اور شب و روز کے شمار کو زندگی سمجھتے ہیں جب کہ حکیم محمد سعید کے نزدیک زندگی سعی پیہم اور جہد مسلسل کا نام ہے۔ ‘‘
حکیم محمد سعید کے آباء و اجداد کا تعلق چین کے شہر سنکیانگ سے تھا جہاں سے یہ خاندان سترھویں صدی کے آغاز میں ہجرت کر کے پشاور منتقل ہوا، تقریباً ۸۰ سال بعد اس خاندان نے پشاور سے ملتان ہجرت کی اور ۱۳۵ برس پنجاب کی سرزمین کو اپنا مسکن بنائے رکھا۔ اٹھارویں صدی کے دوسرے عشرہ میں آپ کے خاندان کے افراد نے پنجاب کی سرزمین کو الوداع کہتے ہوئے دہلی ہجرت کی اور حوض قاضی کو اپنا مسکن بنایا۔
حکیم محمد سعید ۹ جنوری ۱۹۲۰ء (۱۶ ربیع الثانی ۱۳۳۸ھ) کو صبح چار بج کر سترہ منٹ پر ہندوستان کے شہر دہلی کے کوچہ کاشغری، بازار سیتارام میں پیدا ہوئے۔ برصغیر کے معروف عالم دین حضرت مولانا احمد سعید نے آپ کا نام ’’محمد سعید‘‘ رکھا۔ سعید کے معنی ہیں ’ سعادت، مبارک، بابرکت، نیک، خوبیوں والا، خیر و عافیت والا‘۔ آپ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ابھی آپ صرف ڈھائی برس کے تھے کہ آپ اپنے والد حکیم عبدالمجید (ولادت ۲۲ جون ۱۸۸۳ء، بمقام پیلی بھیت، وفات ۲۲ جون ۱۹۲۲ء) کے سایہ سے محروم ہو گئے آپ کے والد حافظ قرآن تھے اور ان کا روحانی تعلق حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ سے تھا۔
آپ کی والدہ ایک دین دار خاتون تھیں، خواجہ حسن نظامیؒ نے آپ کو مادر ہمدرد کا خطاب دیا تھا۔ اپنی والدہ کے بارے میں حکیم محمد سعید نے تحریر فرمایا کہ : ’’ میری والدہ نہایت نرم مزاج خاتون تھیں، مگر ساتھ ہی گرم مزاج بھی تھیں۔ ساری زندگی اصول کے خلاف کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھیں۔ ان کی تربیت کا سارا زور اخلاق پر تھا۔ بد اخلاقی پر سخت سزا دیتی تھیں ‘ ‘۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’اگر ان میں یہ عظمتیں نہ ہوتیں توا با جان کے انتقال کے بعد ہمدرد باقی کہاں رہ سکتا تھا‘ ‘۔ حکیم محمد سعید کے والد حکیم عبدالمجید ایک مستقل مزاج شخص تھے۔ آپ کو ادویات کے خواص میں خاص دلچسپی تھی۔ شوق اور مہارت کے باعث انھوں نے مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے قائم کردہ ہندوستانی دوا خانے میں ملازمت کر لی۔ اس عرصے میں طب کا مطالعہ بڑی گہرائی اور طب کی متعدد کتابوں کا مطالعہ بڑی باریک بینی سے کیا۔ آپ کو جڑی بوٹیوں سے گہرا شغف تھا اور ان کی پہچان کا ملکہ حاصل تھا آخر کار انہوں نے نباتات کے میدان میں اترنے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ بیماریوں کی شفاء کے لیے ہندوستان بھر سے جڑی بوٹیاں حاصل کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ بقول حکیم محمد سعید ’’آپ ایک بلند پایہ نبض شناس تھے۔ یعنی جڑی بوٹیوں کے ماہر‘‘ ۲۲ جون ۱۹۲۲ء کو ۳۹ سال کی عمر میں آپ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہونے کے لیے ہمدرد کا ایک باب کھلا چھوڑ گئے اس وقت حکیم محمد سعید کی عمر ڈھائی برس تھی، آپ کی پرورش آپ کی والدہ رابعہ بیگم اور آپ کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید نے کی۔
شہید حکیم محمد سعید کی رسم بسم اللہ ۱۹۲۲ء میں تین برس کی عمر میں ادا ہوئی۔ تین برس کے حکیم محمد سعید نے جگت چچی کے گھر قرآن مجید پڑھنا شروع کیا اور صرف پانچ برس کی عمر میں قرآن مجید ختم کر لیا۔ ناظرہ قرآن مجید پڑھنے کی سعادت حاصل ہو جانے کے بعد آپ کی والدہ نے فیصلہ کیا کہ اب ان کا بیٹا اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرے گا۔ نو برس کی عمر میں آپ نے کلام مجید حفظ کر لیا۔ ۱۹۲۷ء میں آپ نے اپنی والدہ کے ہمراہ پہلی بار حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ حکیم محمد سعید حصول علم سے کبھی غافل نہ ہوئے، دینی تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد آپ کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا۔ ۱۹۳۶ء میں جب کہ آپ کی عمر ۱۴ برس تھی آپ مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں کے قائم کردہ آیورویدک اور یونانی طبیہ کالج دہلی میں طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
حکیم محمد سعید کی شادی ان کی خالہ زاد محترمہ نعمت بیگم سے ۱۹۴۳ء میں دہلی میں ہوئی۔ نعمت بیگم ایک مثالی وفادار صابر و شاکر اور خدمت گزار خاتون تھیں۔ حکیم محمد سعید نے اپنی زندگی کی کہانی میں اپنی شریک حیات کے بارے میں تحریر فر مایا ’’اگر ایسی معصوم شریک حیات مجھے نہ ملتیں تو شاید میں وہ سارے کام نہ کر سکتا کہ جو میں نے کر لیے ہیں۔ انھوں نے ہر تکلیف برداشت کر کے میری راحت کو ہر راحت پر مقدم رکھا۔ جب غربت کا دور دورہ تھا تو بھی وہ ثابت قدم رہیں۔ ہم دونوں نے خاموشی سے فاقے بھی کر لیے۔ پھر جب کراچی میں ہمدرد کے قیام کا وقت آیا تو اس عظیم خاتون کے پاس جو زیور تھا وہ سب مجھے دے دیا اور ہمدرد کے قیام میں اس عظمت نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا‘‘۔ حکیم محمد سعید اور محترمہ نعمت بیگم کی رفاقت ۳۸ برس پر محیط ہے۔ آپ کی شریک حیات نے ایسا حق رفاقت ادا کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ۱۸ اگست ۱۹۸۱ء دن کے دو بجے اللہ کو پیاری ہوئیں۔ حکیم صاحب کی اولاد میں ایک بیٹی سعدیہ راشد ہیں جو محترم حکیم صاحب کے بعد ہمدرد کے جملہ امور کی نگراں و سرپرست ہیں۔
حکیم محمد سعید اپنے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید سے بہت متاثر تھے۔ حکیم عبدالحمید کو بھی آپ سے بے انتہا محبت تھی، بڑے بھائی نے اپنے چھوٹے بھائی کی پرورش میں کوئی کسراٹھا نہ رکھی۔ در حقیقت حکیم محمد سعید کی تعلیم و تربیت، سیرت اور ان کی شخصیت کی تعمیر میں آپ کی والدہ رابعہ بیگم اور آپ کے بڑے بھائی کا بڑا ہاتھ تھا۔ دونوں کی تربیت نے آپ کو ایک مثالی انسان بنا دیا۔ حکیم صاحب نے اپنی کہانی میں تحریر فر مایا کہ : ’’ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میرے بڑے بھائی جان نے میری تربیت اور محبت کی خاطر اپنی ہر چیز قربان کر دی۔ وہ زندگی کے ہر لمحے میرے سامنے ایک نمونہ بن کر رہے ہیں اور مجھے انھوں نے انسان بنا دیا۔ ‘‘ایک اور جگہ آپ نے اعتراف کیا کہ ’’میرا رواں رواں ان کا زیر احسان ہے۔ ‘‘ اپنے بڑے بھائی سے تمام عمر ہدایت و رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ در حقیقت حکیم محمد سعید کی زندگی اپنے بڑے بھائی کا پرتو ہے۔ وہی ان کے آئیڈیل تھے۔
آپ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ خالصتاً مذہبی تھا۔ نماز، روزہ، تلاوت قرآن مجید، بڑوں کا حد درجہ ادب چھوٹوں کا لحاظ اور شفقت کے ساتھ پیش آنا خاندان کا طرۂ امتیاز تھا۔ اس ماحول کا نقشہ حکیم صاحب نے اپنے ایک مضمون میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔ ’’ صبح اٹھے تو محترمہ والدہ صاحبہ کو ہمیشہ ہی جاء نماز پر دیکھا اور سوتے وقت ان کو تلاش کیا تو ان کو جاء نماز پر پایا۔ گھر کا ماحول یہ تھا کہ ہر انسان نمازی تھا۔ ہر شخص حافظ قرآن تھا۔ احترام کا یہ عالم کہ کیا مجال کہ سب سے بڑی بہن کے سامنے زبان کھل جائے۔ والدہ محترمہ اور بھائی کے سامنے ٹوپی کے بغیر جانا مشکل تھا۔ بات کرتے وقت یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ آواز نیچی رہے۔ ہماری والدہ محترمہ خاندان کی چوہدری تھیں۔ وہ ہر فرد خاندان، بلکہ ہر فرد معاشرہ سے محبت و احترام سے ملتی تھیں۔ خاطر تواضع کا اہتمام خوب تھا۔ گھر کا ماحول یہ تھا کہ نماز روزے کا بڑا احترام تھا اور تلاوت قرآن حکیم معمولات زندگی۔ اسی بات سے دیانت و صداقت کا درس ملتا رہتا تھا۔ میرے دور میں ماحول یہ تھا کہ محلے کا کوئی بزرگ قریب سے گزر جاتا تو بچے ادب کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے۔ السلآمُ علیکم سے استقبال کرتے تھے۔ جواب میں وعلیکم السلام کے ساتھ دست شفقت سے نہال ہو جاتے تھے۔ بچوں کا حال یہ تھا کہ کوئی بزرگ سامان اٹھائے چل رہا ہے تو بچے فوراً سامان ہاتھوں میں لے لیتے تھے اور بزرگ کو ان کے گھر تک چھوڑ آتے تھے۔ آپ نے اعتراف کیا کہ ’’آج میں جو کچھ بھی ہوں، وہ بھائی جان محترم کے نقش قدم پر چلنے کا ثمر ہے۔ بزرگوں کا احترام کر کے میں سعید بنا ہوں ‘‘۔
۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور کے مقام پر ہونے والے تاریخی جلسہ عام جس میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی اس میں حکیم محمد سعید شریک تھے۔ قرار داد پاکستان پیش کیا جانے والا روح پرور منظر سعید ملت کے ذہن میں نقش ہو کر رہ گیا قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر نے آپ کے ذہن کو جلا بخشی۔ حکیم محمد سعید نے غور فکر کے بعد بہت بڑا فیصلہ کیا اور وہ یہ تھا کہ ’’ بھارت میں جس انداز کی حکومت قائم ہو گی میں اس کا وفادار نہیں رہ سکتا، لہٰذا مجھے پاکستان جانا ہو گا‘‘۔ پنڈت جواہر لال نہرو سے سعید ملت کے خوش گوار تعلقات تھے اس سلسلے میں آپ نے ایک بار دو ٹوک الفاظ میں کہا ’’میں پنڈت جواہر لال نہرو کا قریبی دوست ہو سکتا ہوں، لیکن اس کی حکومت کا وفادار نہیں ہو سکتا۔ منافقت کی مجھ میں صلاحیت ہی نہیں۔ ‘‘۹ جنوری ۱۹۴۸ء دہلی کے پالم ہوائی اڈے پر حکیم محمد سعید کو رخصت کرنے دیگر لوگوں کے علاوہ آپ کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید تھے۔ آپ اسی روز ہندوستان سے اپنی شریک حیات اور بیٹی سعدیہ کے ہمراہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاکستان آ گئے۔ ہمدرد فاؤنڈیشن کا قیام دہلی میں ۱۹۴۷ء میں عمل میں آیا۔ کراچی میں ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان کی بنیاد ۱۹۵۶ء میں پڑی۔ اس سے قبل آپ ۱۹۵۳ء میں ہمدرد کو وقف کر چکے تھے۔ اور اس کی راہ متعین کر دی تھی۔ ارشاد احمد حقانی کے بقول حکیم صاحب پاکستان کے ان مایہ ناز فرزندوں میں سے تھے جو قوم کی عظمت اور رفعت کے لیے انتھک محنت کرتے ہیں۔ دولت تو بہت سے لوگوں نے کمائی، لیکن حکیم صاحب نے یہ دولت ایک درجن سے زائد میدانوں میں قومی زندگی کو شان دار اور مال دار بنانے کے لیے وقف کر دی۔ خود درویشی کی زندگی گزاری ایس ایم ظفر کے خیال میں ’’مجھے تو وہ اس دور کے ابوذر غفاری دکھائی دیتے ہیں جو اپنی ضرورت سے زیادہ دولت وقف کرتے جاتے ہیں اور دولت جمع کرنے والوں اور ارتکاز زر کے ملزموں کو اپنے عمل اور بیانات سے بے نقاب کر رہے ہیں ‘‘۔ خدمت انسانی کا یہ اعزاز شاید ہی کسی اور کو حاصل ہوا ہو کہ آپ نے اپنی زندگی میں معاشرے کے ہر طبقے کے تین ملین مریضوں کا علاج کیا۔ ان میں امیر بھی تھے غریب بھی، جو ان بھی تھے بوڑھے بھی۔ سربراہان مملکت سے لے کر نچلی سطح تک کے لوگ شامل تھے۔ کسی ایک سے بھی تشخیص و تجویز کا معاوضہ (Consultation Fee)نہیں لیا۔
حکیم محمد سعید کا کہنا تھا کہ وہ صحافی بننا چاہتے تھے۔ علم و ادب سے شغف تھا اور تحریر و تصنیف کی جانب ابتدا ہی سے مائل تھے۔ حکیم محمد سعید نے خدمت خلق، وطن سے محبت اور اصلاح معاشرہ کے لیے مختلف طریقے اور پروگرام ترتیب دیے ان میں جاگو جگاؤ، پاکستان سے محبت کرو پاکستان کی تعمیر کرو، پاکستان کا یوم آزادی ۱۴ اگست کے بجائے ۲۷ رمضان المبارک کو منانے کی تحریک، کتب خانوں کے قیام اور فروغ کی تحریک، آواز اخلاق، ڈاکٹروں، حکیموں اور سائنس دانوں میں سہ فریقی اتحاد، علما اور علم کا احترام، صحت مند قوم، خودی، دن میں دو وقت کھانا، اردو زبان کی ترویج و ترقی، اسلامی تعلیمات کا فروغ، جہاں دوست، جوانان امروز کے علاوہ شام ہمدرد جو بعد میں ہمدرد مجلس شوریٰ کہلائی کے علاوہ بزم ہمدرد نونہال شامل ہے۔ شام ہمدرد کا آغاز ۱۹۶۱ء میں کیا گیا۔ اس کے ذریعے پاکستانی دانشوروں، ادیبوں، شعراء، حکماء اور سائنس دانوں، سیاست دانوں، ماہرین تعلیم، صحافیوں غرض ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو ایک ایسا فقید المثال پلیٹ فارم مہیا کیا گیا جس کے ذریعے وہ اپنا نقطہ نظر عوام الناس تک پہنچا سکتے تھے۔ یہ ایک ایسا غیر سیاسی ادارہ ہے جسے بام عروج پر پہچانے کے لیے آپ نے مسلسل محنت اور جد و جہد کی۔ حتیٰ کہ اسے عالمی شہرت حاصل ہو گئی۔
آپ بچوں سے بے انتہا محبت کرنے لگے تھے ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں ’’جب میں نے اپنی محبت کو اس قدر بڑھا لیا کہ مجھے پاکستان کا ہر بچہ اور دنیا کا ہر بچہ اپنا لگا تو پھر مجھے بزم ہمدرد نونہال شروع کرنے کا خیال آیا میں جس طرح اپنی اولاد کی بھلائی کی سوچتا ہوں اسی طرح میں ہر بچے کی بھلائی کی سوچتا ہوں۔ یہ اس سوچ کے نتیجہ میں بڑوں کی شام ہمدرد کی طرز پر بچوں کی شام ہمدرد کا تصور سامنے آیا۔ آپ نے اپنے رفقاء کے مشورے سے ’’بزم ہمدرد نونہال‘‘ (نونہال اسمبلی) کی ابتدا کی۔ کراچی کے بعد پشاور، راولپنڈی اور لاہور میں بزم کے اجلاس منعقد ہونے لگے۔ آپ بچوں کے پروگراموں میں باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے۔ بچوں سے محبت اس قدر بڑھی کہ آپ نے بچوں کے لیے باقاعدہ اور مسلسل لکھنا شروع کر دیا اور اس قدر لکھا کہ نو نہال ادب کے تمام مصنفین کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ۱۹۹۲ء میں لکھی گئیں بارہ ’’سچی کہانیاں ‘‘ بچوں کے ادب میں ایک انمول اضافہ ہے۔ بچوں کے لیے جتنی تعداد میں سفرنامے لکھے شاید ہی کسی اور نے بچوں کو اتنی اہمیت دی ہو۔
حصولِ علم، تخلیق علم، فروغ علم اور تحفظِ علم کے حوالے سے حکیم محمد سعید کی خدمات ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھی جائیں گی۔ پاکستان کی ۵۸ سالہ تاریخ میں ہمیں کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملی کہ کسی فرد واحد نے علم کے حوالے سے اس قدر عظیم خدمات سر انجام دی ہوں۔ تصانیف کے حوالے سے آپ کی تخلیقات تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ مدینۃ الحکمہ میں قائم بیت الحکمہ اور دیگر تعلیمی اداروں میں قائم کتب خانے اور ان میں جمع اور محفوظ لاکھوں کتابیں اور ان سے استفادے کا مربوط نظام علم کو جمع، محفوظ، ترتیب و تنظیم و ترسیل علم کی واضح مثال ہے۔ بقول ڈاکٹر انیس خورشید ’’حکیم صاحب خود بھی کتاب کے رسیا ہیں اور عوام تک ان کو پہچانے کے لیے کتب خانوں کے قیام ان کو قابل استعمال بنانے اور فروغ دینے کے لیے ایک ملک گیر مربوط نظام کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ اپنی بیٹی کی شادی پر آپ نے کتابوں کی ایک قابل استعمال لائبریری بھی جہیز میں دی تھی۔ کتب خانوں کی تحریک کے حوالے سے ملک بھر میں آپ نے جو کام کیا ہے وہ بھی ہماری تاریخ کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے ‘۔
حکیم محمد سعید سیاسی آدمی نہ تھے، لیکن سیاست کے لیل و نہار سے اچھی طرح واقف تھے۔ بلکہ سیاست کے نباض تھے۔ بے شمار سیاست دانوں، سربراہان مملکت، وزیروں، سفیروں، بادشاہوں، شہزادوں غرض بڑے بڑے امیر کبیر لوگوں سے آپ کے بہت اچھے اور گہرے تعلقات رہے، لیکن آپ نے کسی بھی دور میں کسی ایک سے بھی ذاتی فائدہ حاصل نہ کیا۔ پاکستان میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں اور جرنل محمد ضیاء الحق سے آپ کے بہت اچھے اور قریبی تعلقات تھے۔ جرنل محمد ضیاء الحق کے دور میں آپ مشیر طب (۱۹۷۸ء۔ ۱۹۸۲ء) بھی رہے۔ آپ کا درجہ مرکزی وزیر کے برابر تھا۔ جب تک آپ اس عہدہ پر فائز رہے اپنی اصل حیثیت کو برقرار رکھا یعنی مطب برقرار رکھا اور اپنی دیگر تمام تر مصروفیات اور خدمات کا سلسلہ ویسے ہی جاری رکھا۔ اس دور میں تمام تر اخراجات خود کیے سرکاری مراعات حاصل نہ کیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مولانا کوثر نیازی کی وجہ سے جو آپ کے دوست تھے کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن اپنی مرضی کے بغیر لڑا جس میں کامیابی نہ ہونا تھی نہ ہوئی، کیوں کہ آپ اپنے اصولوں سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ بقول ڈاکٹر اعوان ’’ان کے اجلے نام کو پاکستان کے مقتدر حکمرانوں نے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، مگر اس میں ناکام رہے ‘‘۔
’’شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی ساری زندگی راہ عمل و تعمیر کی ایک روشن مثال ہے۔ انھوں نے تا دم مرگ علم و آگہی، خدمت خلق اور تدبر و تدبیر کی شمع جلائے رکھی‘‘۔ وہ مٹھاس ہی مٹھاس۔ ایسی مٹھاس جس سے روح میں تازگی آ جاتی ہے۔ وہ ایک ماہر طبیب، ایک صاحب اسلوب ادیب، ایک سرگرم سیاح اور ایک مستعد چانسلر تھے۔ نذیر ناجی نے درست کہا ’’وہ مکمل طور پر تہذیب و تمدن میں ڈھلی ہوئی شخصیت تھے۔ ان کا رکھ رکھاؤ طرز گفتگو، لباس، طور اطوار اور شائستگی، کسی چیز میں بناوٹ نہیں تھی ان کا سب کچھ سچ تھا وہ ایک سانچے میں ڈھلی ہوئی شخصیت کے مالک تھے۔ مفتی تقی عثمانی نے حکیم محمد سعید کے با رے میں اپنے ایک مضمون میں تحریر فر مایا ’’ حکیم صاحب ایک وضع دار شخصیت تھے، انہوں نے پاکستان کے ابتدائی دور میں فقر و افلاس کا بھی خاصا وقت گزارا، ہمدرد دوا خانہ کے قیام کے لیے انہوں نے بڑی قربانیاں دیں اُس دور کی مشکلات کو انہوں نے جس خندہ پیشانی سے جھیلا، اس کی داستان کبھی کبھی وہ بڑے مزے لے لے کرسنایا کر تے تھے۔ حضرت والد صاحب (مولانا مفتی محمد شفیع ؒ )سے انہیں ابتدا ہی سے عقیدت اور محبت تھی چنانچہ حضرت والد صاحب کے پاس ان کا کثرت سے آنا جانا رہتا تھا اور اسی تعلق کے نتیجے میں دارالعلوم کے قیام کے وقت وہ اس کے بانی ارکان میں شامل ہوئے۔ مشاغل کے تنوع اور ہجوم کے با وجود وہ ہمیشہ پر سکون رہتے تھے، انہیں کبھی بھی گھبراہٹ سے مغلوب نہیں دیکھا، ان کا نظام الاو قات اتنا مستحکم اور معمولات اتنے مضبوط تھے کہ وہ ہر کام اپنے وقت پر انجام دیتے اور مطمئن رہتے تھے ‘‘۔
حکیم محمد سعید ایک با اصول انسان تھے اپنے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہو کر ہی آپ نے زندگی میں کامیابی و کامرانی حاصل کی۔ اپنی زندگی کے آخری انٹرویو میں آپ نے کرن خلیل کے ایک سوال کے جواب میں فر مایا ’’میں اپنے خاص اصول رکھتا ہوں اور ان اصولوں کا احترام کرتا ہوں۔ میں نے زندگی میں کسی سے انتقام نہیں لیا۔ میں کسی سے نفرت کرنا نہیں جانتا۔ میں محبت کرتا ہوں، احترام کرتا ہوں اور خوش رہتا ہوں۔ جو برا کہتے ہیں ان کو اچھا کہتا ہوں۔ جو تکلیف پہنچاتے ہیں ان کی راحتوں کا سامان کرتا ہوں۔ محنت کرتا ہوں۔ وقت ضائع نہیں کرتا، وقت کا احترام کرتا ہوں۔ وقت کے اس قدر پابند کہ لوگ آپ کو دیکھ کر اپنی گھڑیاں درست کر لیا کرتے در حقیقت آپ اپنے اس قول ’’وقت اللہ کی امانت ہے اس کا صحیح استعمال عبادت ہے ‘‘ کی عملی تفسیر تھے۔ روزنامہ پاکستان لاہور کے ڈاکٹر اجمل نیازی کو انٹرویو دیتے ہوئے آپ نے اپنی آرزو کے بارے میں کہا ’’میری آرزو، آرزو پاکستان۔ میری تمنا، پاکستان میں صد فی صد تعلیم۔ میری خواہش صحت سے سرشار ملت پاکستان۔ میرا مقصود پاکستان علم و حکمت کا گہوارہ، میرا مطمع نظر پاکستان میں امن و چین۔ شرافت و صداقت، امانت و دیانت۔ میری جستجو پاکستان میں قناعت‘‘۔ اپنے فلسفہ زندگی کے بارے میں پاکستان ٹیلی وژن پر نعیم بخاری کو انٹر ویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ ’’ میرا فلسفہ زندگی خدمت اور کوئی فلسفہ نہیں ہے۔ انسان کو پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے ‘‘۔
آپ کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں ۱۹۶۶ء میں حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیازسے نوازا، ۱۴ اگست ۲۰۰۰ء کو انہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’نشان امتیاز‘‘ (بعد از وفات) دینے کا اعلان کیا، ۲۳ مارچ ۲۰۰۱ء کو ایوان صدر میں ایک شاندار اور پر وقار تقریب میں صدر پاکستان جنابِ محمد رفیق تارڑ نے یہ اعزاز حکیم محمد سعید کی صاحبزادی اور ہمدرد لیباریٹریز (وقف) کی چیر پر سن نیز ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ کو عطا فر ما یا۔ طب کے پیشے کے ساتھ ۵۸ سالہ طویل رفاقت کے دوران ایک اعلیٰ پائے کے طبیب کی حیثیت سے انہوں نے ۵۰ لاکھ سے زائد مریضوں کا علاج معالجہ کیا۔ آپ نے عالمی ادارہ صحت کے اندر روائتی اور متبادل ادویات کے استعمال کے حق میں ماہرین کو اکٹھا کرنے کے لیے بھی مخلصانہ خدمات انجام دیں اور مختلف ممالک میں ادویات کے روائتی نظاموں کے خلاف تعصبات کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کم و بیش ۲۷۳ کتابیں تصنیف، مرتب اور ترجمہ کیں۔ شہید حکیم محمد سعید کو مختلف القابات سے بھی نوازا گیا جن میں ’’ بچوں کے سرسید‘‘، ’’ سرسید ثانی‘‘، ’’ عہد جدید کے ابن سینا ‘‘، ’’مجدد طب‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ شہادت کے بعد آپ کو ’’ شہید پاکستان‘‘، ’’ شہید وطن‘‘، ’’ فخر ملت ‘‘ کے القابات سے نوازا گیا۔
۱۷ اکتوبر ۱۹۹۸ء بروز ہفتہ(۲۵ جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ)، روزہ کی حالت میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد کراچی میں مریضوں کی خدمت کے لیے اپنے مطب پہنچتے ہی شہادت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہوئے۔ وطن عزیز پر جان نثار کرنے والا، پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دیکھنے والا، وہ جس نے اپنا تن من دھن سب کچھ قوم اور ملک پر نچھاور کر دیا حتیٰ کہ اپنی جان بھی اس پر نثار کر دی۔ اس عظیم انسان کی قربانیوں کی کوئی حد، کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ وہ مملکت پاکستان کا ہی نہیں امت مسلمہ کا سرمایہ تھا۔ وہ زندہ ہے او زندہ رہے گا۔ ضیاء الحق قاسمی کی اس دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ؎
تا ابد اس کی لحد شام و سحر روشن رہے
اس پہ ہو بارانِ رحمت اے خدائے دوسرا
(مطبوعہ پاکستان لائبریری بلیٹن۔ ۳۱ (۱۔ ۲) : مارچ۔ جون ۲۰۰۰ء)
پروفیسر ڈاکٹر طحہٰ حسین
عالم اسلام کی ایک نامور شخصیت جنہوں نے بصارت سے محروم ہونے کے باوجود تعلیم کے میدان میں عظیم کارنامے سر انجام دیئے
پروفیسر ڈاکٹر طحہٰ حسین(۱۸۸۹ء۔ ۱۹۷۳ء) دنیائے عرب کی ایک ایسی عظیم شخصیت کا نام ہے جس کی تمام زندگی حصول علم، فروغ علم اور تر سیل علم سے عبارت ہے۔ مصر کے اس مرد آہن نے تعلیم کے میدان میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دئے جنہیں تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنہرے حروف سے لکھا جا چکا ہے۔ وہ رہتی دنیا تک ایک مثال اور ایک نمونہ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ بصارت سے محروم ہوتے ہوئے علم و تحقیق کی انتہا کو پہنچے، تحصیل علم کے لیے آپ کی جد و جہد اور اس راہ میں حائل مسائل و مشکلات کو برداشت کرنا قابل ستائش ہے۔ ڈاکٹر طحہٰ حسین مصر کے ایک چھوٹے سے شہر میں ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوئے۔ یہ اپنے تیرہ(۱۳) بھائیوں میں ساتویں اور گیارہ بہنوں میں پانچویں نمبر پر تھے۔ آپ نے اپنی بصارتی محرومی کا واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا کہ ’’ دیہاتی اور شہری عورتوں کا فلسفہ مہمل ہوتا ہے وہ مختلف قسم کے ٹوٹکوں ‘ جھاڑ بھونک اور تعویذ گنڈوں پر بھروسہ رکھتی ہیں، مریض کی مناسب اور بر وقت دیکھ بھال ان کے نزدیک ثانوی حیثیت ہوتی ہے ‘‘۔ ڈاکٹر طحہٰ حسین لکھتے ہیں کہ ’’میری آنکھیں دکھنے لگیں ‘ اس وقت عمر کوئی تین برس تھی ‘ چند دن تو یو نہی چھوڑ دیا گیا اس کے بعد ایک نائی کو بلایا گیا اور اس نے ایسا علاج کیا کہ آنکھیں جاتی رہیں ‘‘۔
ڈاکٹر طحہٰ حسین نے بصارت سے محرومی کو کبھی اپنے مقاصد کے حصول میں حائل نہ ہونے دیا اور نہ ہی آپ نے اپنے آپ کو زندگی میں کسی لمحہ بے بس، مجبور اور قابل رحم تصور کیا بلکہ جب کبھی آپ کے خاندان یا عزیز رشتہ دار نے آپ سے اظہار ہمدردی کرنے کی کوشش بھی کی تو آپ نے اسے سخت نا پسند کیا ، آپ نے اپنی زندگی میں کبھی ہمت نہیں ہاری اور کٹھن سے کٹھن حالات میں آپ علم کے حصول میں مسلسل آگے بڑھتے رہے۔ علم کی انتہائی منزل کو پا لینے کے بعداسے اپنے تک محدود نہ رکھا بلکہ ایک استاد کی حیثیت سے تر سیل علم کا فریضہ انجام دیتے رہے آپ تحصیل علم کو ہر شخص کا پیدائشی حق تصور کرتے تھے۔ فروغ علم کے لیے آپ کی عملی جد و جہد تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جا چکی ہے۔ کلام مجید حفظ کرنے اور ابتدائی مذہبی تعلیم کے حصول کے بعد آپ نے اعلیٰ تعلیم بھی مصر ہی میں حاصل کی۔ آپ ابتدا ہی سے آزاد خیال اور ہر بات کو عقل کی کسو ٹی پر پرکھنے کے قائل تھے چنانچہ ابتدائی مذہبی تعلیم کے دوران آپ کو دینی مدارس کے روایتی استادوں سے نفرت سی ہو گئی تھی۔ آپ نے اپنی سوانح عمری میں ان اسباب کا بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے اور متعدد واقعات ان استادوں کی کم علمی، فرقہ پرستی، محدود نظری اور قناعت علمی کے بارے میں تحریر کیے ہیں۔ آپ جامعہ الازہر بھی جاتے رہے، ساتھ ہی شام کے اوقات میں جدید تعلیم کے ادارے یعنی کالج بھی جانے لگے جہاں سے وہ علوم جدیدہ کی طرف مائل ہوئے، اس نتیجے پر پہنچے کہ علم چند کتابوں تک محدود نہیں۔ جامعہ الا زہر سے فارغ ہو جانے کے بعد جہاں پر آپ کو کچھ اختلاف بھی ہواجس کا آپ نے بر ملا اظہار بھی کیا آپ مصری یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے جہاں سے آپ نے ۱۹۱۴ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ شورش کاشمیری نے لکھا ہے کہ ’آپ پہلے طالب علم تھے جنہوں نے گیارہویں صدی کے شاعر ابو العلا پر مقالہ تحریر کر کے یونیورسٹی سے ڈگری کے حصول کا اعزاز حاصل کیا‘۔ ڈاکٹریٹ کر لینے کے باوجود ڈاکٹر طحہٰ حسین میں مزید علم حاصل کرنے کی جستجو بر قرار رہی اس طرح آپ نے سمندر پار کی دنیا کو اپنی بند آنکھوں لیکن کھلے دل و دماغ سے دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کا منصوبہ بنا یا۔ اس سلسلے میں جامعہ مصر نے آپ کی بھرپور رہنمائی اور معاونت کی اور آپ کو فرانس بھیج دیا گیا جہاں آپ فرانس کی یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے اور ۱۹۱۸ء میں مزید ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ گو یا آپ ڈبل پی ایچ ڈی ہو گئے۔ علم کی ان اعلیٰ ترین اسناد کے حصول میں آپ کی بصارت سے محرومی آپ کے آڑے نہ آئی جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اگر انسان کسی مقصد کے حصول میں سچائی اور لگن کے ساتھ مصروف عمل ہو جائے تو کوئی مشکل ‘کسی بھی قسم کی رکاوٹ اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ یہ پیغام ہے نئی نسل کے لیے، ان لو گوں اور دوستوں کے لیے جو ذرا سی مشکل کو دیکھ کر ہمت ہار دیتے ہیں اور اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔
فرانس میں اپنے قیام اور مشکلات کا ذکر ڈاکٹر طحہٰ حسین نے اپنی ایک کتاب میں ان الفاظ میں کیا کہ ’’مجھے اپنی خصلتوں میں صبر و اولا العزمی کی فرانس میں جس قدر شدید ضرورت محسوس ہوئی اپنی زندگی میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔ مجھے وہاں اپنے گرد و پیش کی ہر چیز اور انسان نیا معلوم ہوتا تھا۔ اسی طرح وہاں کی ہر چیز اور ہر شخص نے مجھے اجنبی سمجھا لیکن صبر اور غیر متزلزل قوتِ برداشت ہی وہ خصلتیں ہیں جنہوں نے مجھے لو گوں اور چیزوں کو موقع دیا کہ وہ مجھے سمجھیں اور انہیں خصلتوں کی مدد سے میں فرانس میں باوجود ابتدائی مشکلات و مصائب کے زندہ رہا اور بالآخر پہلے دو سالوں کے بعد وہاں کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہونے لگیں ‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر طحہٰ حسین ایک غیر متزلزل قوت برداشت کے مالک تھے ان کی اسی خصوصیت نے انہیں زندگی میں کامیاب و کامران کیا۔ فرانس میں قیام کے دوران ڈاکٹر طحہٰ حسین کی ملاقات ایک فرانسیسی خاتون سیوزانی برسیو سے ہوئی جو طبیعتاً نرم دل، ہمدرد اور تعلیم یافتہ تھی۔ رفتہ رفتہ وہ ڈاکٹر طحہٰ کے نزدیک آ گئی اور انہوں نے سیو زانی برسیو سے شادی کر لی۔ فرانس سے واپسی پر بر سیو ڈاکٹر طحہٰ کے ہمراہ مصر آ گئی اور بقیہ زندگی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزار دی۔ زندگی کے سفر میں سیو زانی کو دیگر مصروفیات کے علاوہ ایسے کام بھی اضافی کرنا پڑے مثلاً ڈاکٹر صاحب کو اخبارات، رسائل اور کتب پڑھ کر سنانا، ان سے ایڈوائس لینا، تقاریر تحریر کرنا وغیرہ۔ سیوزانی یہ تمام کام خوشی خوشی سر انجام دیا کرتی جس کی وجہ سے ڈاکٹر طحہٰ حسین نے اپنی شریک حیات کو اپنا ہمدرد اور خیال کرنے والی ساتھی قرار دیا۔
ڈاکٹر طحہٰ حسین کی شخصیت ان کے بعض نظریات اور خیالات کے باعث سخت تنقید کا نشانہ بنی، وہ ایک جانب تو عربی زبان کے بڑے اور ممتاز ادیب کی حیثیت رکھتے تھے دوسری جانب ان پر ناقدین نے سخت تنقید بھی کی اور ان کے خلاف مصر میں بہت سی کتابیں اور بے شمار تنقیدی مضامین تحریر کیے گئے خاص طور پر جامعہ الازہر کے علماء نے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا، ڈاکٹر طحہٰ کی بعض اختلافی باتیں بہت زیادہ بلکہ خطر ناک حد تک سامنے آئیں۔ ان کی کتاب ’’الشعر الجاھلی‘‘ پر سخت تنقید ہی نہیں ہوئی بلکہ حکومت نے اس کتاب کو ضبط کر لیا۔ اسی زمانے کے ایک مصنف عبد الصمد صارم الزہری نے اپنی کتاب ’تنقید ات طحہٰ حسین‘ میں یہاں تک تحریر کیا کہ اس میں شک نہیں کہ طحہٰ حسین عربی کے مشہور نقادوں میں سے ہیں لیکن انہوں نے جو کچھ تنقید کی ہے وہ تخریبی ہے تعمیری نہیں۔ اپنی اس کتاب کے پیش لفظ میں صارم الزہری نے لکھا ہے کہ ’کیونکہ انہوں نے بعض ایسی باتیں لکھ دی ہیں جن سے کسی طرح بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا، وہ اپنے زور قلم کی بنا پر، بات کو بڑی خوبی سے پیش کرتے ہیں اور واقعات کی کڑی سے کڑی ملاتے چلا جاتے ہیں کہ کہیں بھی جھول محسوس نہیں ہوتا لیکن ہم دیگر اسلامی مفکرین و مورخین کو سراسر ان کے خلاف پاتے ہیں ‘۔
ڈاکٹر طحہٰ حسین پیرس میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس لوٹتے ہیں اور اپنی خواہش کے مطابق عربی ادب کے پروفیسر مقررہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر طحہٰ حسین لکھتے ہیں کہ ’تدریس علم کے ساتھ میرے اندر موجود بے باکی اور حق گوئی کی خصلت نے ظاہر ہو نا شروع کر دیا اور میں نے حکام با لا کی توجہ نصاب تعلیم کی جانب دلانے کے ساتھ ساتھ تعلیم کو عام کرنے کے لیے آواز بلند کی جو حکومت وقت کو پسند نہ آئی۔ چنانچہ طحہٰ حسین پر حکومتی زیادتیاں شروع ہو گئیں ادھر طحہٰ کے رویے میں بھی شدت آتی گئی اور انہوں نے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں ڈاکٹر طحہٰ حسین کو طرح طرح کی مصیبتوں اور مشکلات سے دو چار ہونا پڑا، طحہٰ کی پروفیسری بھی جاتی رہی لیکن اپنے ارادوں میں پختہ یہ شخص اپنی بات عام لوگوں تک پہنچا تا رہا، ہر حکو مت کو اس بات کا احساس دلاتا رہا کہ علم حاصل کرنا ہر ایک کا حق ہے۔
۱۹۳۶ء میں مصر وفد پارٹی کی حکمرانی قائم ہوئی اس پارٹی میں ڈاکٹر طحہٰ حسین کے نظریات سے اتفاق پایا جاتا تھا چنانچہ حکومت نے ڈاکٹر طحہٰ کو دوبارہ شعبہ ادب کا سر براہ مقرر کیا۔ ڈاکٹر طحہٰ نے اپنے نظریات و خیالات کا پر چار جاری رکھا، انہیں وقت کے ساتھ ساتھ مقبولیت حاصل ہوتی رہی، تعلیم کو عام کرنے کے سلسلے میں ان کے خیالات کو پذیرائی حاصل ہوئی حتیٰ کہ ۱۹۴۰ء میں انہیں حکومت میں شمولیت کا موقع میسر آ گیا اور انہیں محکمہ تعلیم میں ثقافتی امور کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا بعد میں وزارت تعلیم کے ٹیکنیکل مشیر مقرر ہوئے۔ اسوقت آپ نے تحریر کیا کہ مجھے ایک بار حکومت میں شرکت کا موقع مل گیا، اس وقت مجھے شرم آئی کہ میں لوگوں کے اس مطالبے کو پورانہ کروں جس کا خود میں نے انہیں سبق دیا ہے، چنانچہ میں نے اس سلسلے میں تمام امکانی کوششیں صرف کر دیں، آپ کی کوششوں سے مصر میں ابتدائی تعلیم عام اور مفت ہوئی، اسکندریہ یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک بار پھر مخالف پارٹی کی حکومت بر سراقتدار آ گئی، ڈاکٹر طحہٰ حسین ایک بار پھر مصائب و مشکلات کا شکار ہو گئے۔ اس بار بھی آپ نے ہمت نہ ہاری اورمسائل کامقابلہ کرتے رہے اور اپنے مشن کو جاری و ساری رکھاحتیٰ کہ حکومت کی باگ ڈور ڈاکٹر طحہٰ کے ہم خیال ساتھیوں کے ہاتھ آ گئی اور ڈاکٹر طحہٰ کو مصر کی وزارت تعلیم کا قلمدان سونپ دیا گیاچنانچہ آپ نے اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے بارہ سال تک مفت تعلیم دینے کا قانون پاس کرالیا، اعلیٰ تعلیم کے لیے اقدامات کیے گئے، مصر کے طلبہ یورپی ممالک اعلیٰ تعلیم کے
حصول کے لیے جانے لگے اور مصر میں جدید علوم پر خصوصی توجہ دی جانے لگی۔
ڈاکٹر طحہٰ حسین کی تمام زندگی جد و جہد سے عبارت ہے، بصارت سے محروم ہوتے ہوئے آپ نے حصول تعلیم میں بلندیوں کو چھوا، عملی زندگی میں قدم رکھا تو مصائب و مشکلات کو برداشت کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا حتیٰ کہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی، تصنیف و تالیفات کے میدان میں ڈاکٹر طحہٰ حسین نے نمایاں خدمات انجام دیں، بے شمار مضامین و خطبات کے علاوہ آپ نے چالیس سے زیادہ کتب تخلیق کیں۔ آپ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ۱۹۷۳ میں عرب دنیا کا یہ عظیم انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے، آمین۔
ہوئے بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
(امیرؔ مینائی)
(شائع شدہ مجلہ افق، گورنمنٹ ریاض گرلز کالج، کراچی۲۰۰۳ء)
حاجی سرعبد اللہ ہارون مرحوم
قائد اعظم محمد علی جناح کے 3قریبی ساتھ اور سندھ کی معروف سیاسی و سماجی شخصیت
بر صغیر پاک و ہند کی جد و جہد آزادی کی تاریخ میں بعض شخصیات کی کلیدی حیثیت ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان نیک سیرت، پر خلوص، بے باک، نڈر اور سچے مسلمان رہنماؤں کی بے پناہ محنت، خلوص و دیانت، عظیم جد و جہد اور قربانیوں کے باعث ہمیں آج یہ سعادت حاصل ہے کہ ہم آزاد فضاء میں زندہ ہیں اور ایک آزاد، خود مختار اور مسلم ریاست کے شہری ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ جد و جہد آزادی کے حریت پرستوں کی جماعت کی سربراہی اور قیادت بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو حاصل تھی جب کہ سر حاجی عبد اللہ ہارون مرحوم اس جماعت اور تحریک کے ایک اہم ذِمہ دار، مخلص، بے باک اور صف اول کے مجاہدوں نیز قا ئد اعظمؒ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ قائد اعظم کو آپ پر مکمل اعتماد تھا یہی وجہ ہے کہ سر حاجی عبد اللہ ہارون ہر مر حلہ پر قائد اعظم کے ہمراہ دکھا ئی دیتے ہیں جس کا ثبوت پیر علی محمد راشدی کے اس بیان سے ملتا ہے کہ ’’ قائد اعظم محمد علی جناح ۱۹۳۸ء میں اوراس کے بعد عبد اللہ ہارون مرحوم کے انتقال تک جب بھی کراچی تشریف لاتے ان کا قیام ہمیشہ ’’سیفیلڈ‘‘ یعنی سر حاجی عبد اللہ ہارون کی رہائش واقع کلفٹن میں ہوتا۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی، تحریک پاکستان کی عظیم شخصیت، بر صغیر کے معروف تاجر اور سب سے بڑھ کر انسان دوست حا جی سر عبد اللہ ہارون جن کی بر سی ہر سال ۲۷ اپریل کو انتہائی عقیدت و احترام اور سادگی سے منائی جاتی ہے۔ آپ کی سیاسی، سماجی، طبی، تعلیمی اور قیام پاکستان کی جد و جہد میں بے لوث خدمات سے کسی کو ان کار نہیں۔ آپ نے فلاحی سرگرمیوں، غریبوں، مسکینوں اور یتیموں اور سب سے بڑھ کر قومی مقاصد پر بے دریغ دولت صرف کی۔ آپ کی زندگی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جس شخص کی ابتدائی زندگی اس قدر کٹھن مراحل سے گزری ہو اور وہ صرف چار برس کی عمر میں یتیم بھی ہو گیا ہو اس قدر فراخ دل، با ہمت، استقا مت پسند، سادہ طبعّیت، بے لوث اور یتیموں، مسکینوں، لا وارثوں، بیواؤں اور غریب و نادار افراد کا سہارا ثابت ہوا۔ بے پناہ دولت کے مالک کے گھر کے دروازے ہر چھوٹے بڑے امیر غریب کے لیے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ ان کا گھر ’سیفیلڈ‘ ہندوستان کے مسلمانوں کی سیا ست کا مرکز تھا، اس گھر میں بر صغیر کا شا ید ہی کوئی مسلمان رہنما ایساہو جس کا گزر نہ ہوا ہو جن میں قائد اعظم محمد علی جناح، سر آغا خان، مو لا نا محمد علی جوہر، مو لانا شو کت علی جو ہر، مولانا حسرت موہانی، آزاد سبحانی، فضل حسین، فضل الحق، سر سکندر حیات، مسعود اللہ، اکرام خان، سلطان احمد، صاحبزادہ عبد القیوم، ڈاکٹر انصاری، عبد الرحمٰن صدیقی، بہادر یار جنگ شامل ہیں وغیرہ۔
سر حاجی عبد اللہ ہارون مرحوم کا تعلق میمن برادری سے تھا آپ کے آباء و اجداد ہندوستان کی ریاست’ کچھ‘ میں مستقل قیام پذیر تھے جن کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ آپ کے والد کا نام ’ہارون‘ تھا۔ چوبیس برس کی عمر میں ریاست ’کچھ‘ سے مستقل نقل مکانی کر کے سندھ میں آباد ہوئے اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور یہاں بھی تجارت شروع کی لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ ہو سکی۔ معمولی سے کاروبار سے گزر بسر مشکل سے ہو پاتا لیکن عبد اللہ ہارون مرحوم کی والدہ حنیفہ بائی انتہائی سمجھداراور سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک تھیں ان مشکل حالات میں با عزت زندگی گزارتی رہیں۔ عبد اللہ ہارون کو اعلیٰ مقام ان کی والدہ حنیفہ بائی کے ذریعہ حاصل ہوا۔
عبد اللہ ہارون ۱۸۷۲ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی کا نام عثمان تھا، یہ ابھی صرف چار برس کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور عبد اللہ ہارون کی پرورش، تعلیم و تر بیت کی تمام تر ذمہ داری کا بوجھ آپ کی والدہ محترمہ حنیفہ بائی پر پڑ گیا، والدہ نے آپ کو کراچی کے ایک گجراتی اسکول میں داخل کرایا، آپ نے تقریباً دو یا تین جماعتوں تک تعلیم حاصل کی، شاید مالی حالات کے باعث آپ کی طبعّیت اس جانب مائل نہ ہوئی، آپ کی والدہ نے اس رجحان کو محسوس کیا تو آپ نے فیصلہ کیا کہ انہیں تجارت کی طرف مائل کیا جائے۔
سر حاجی عبد اللہ ہارون نے عملی زندگی کا آغاز بچوں کے کھلونے اور معمولی سازوسامان فروخت کرنے سے کیا۔ اس وقت آپ کی عمر ۶برس تھی لیکن بہت جلد اس کام کو چھوڑ کر ایک دکان پر ملازمت اختیار کر لی۔ یہ دکان سائیکلوں کی مرمت کی تھی۔ اس ملازمت کے بارے میں پیر علی راشدی نے حاجی عبد اللہ ہارون کا بیان کردہ واقعہ تحریرکیا کہ ’’ہم نے مسلم لیگ کی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تو ہم تقریباً روزانہ شام کو کلفٹن کے ساحل پر ایک آنا کرایہ پر کرسیاں لے کر بیٹھ جاتے اور مستقبل کے بارے میں بات چیت ہوتی۔ ایک دن حاجی عبد اللہ ہارون نے اپنی زندگی سے متعلق تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ میں کچھ بھی نہیں تھا یتیم بچہ تھا پردیس یعنی ’’کچھ‘‘ ہندوستان سے سندھ میں منتقل ہوئے ابھی چار برس ہوئے ہوں گے کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ سارا بوجھ میری ماں پر پڑ گیا جو خود غریب تھی میں نے شروع میں دو تین درجے تعلیم حاصل کی اور مالی مشکلات کے باعث نوکری کرنا پڑی، صدر کراچی میں رہائش تھی اور نوکری جونا مارکیٹ کراچی میں سائیکلوں کی مرمت والی دکان پر ملی، میری ماں روزانہ روکھی سوکھی روٹی پکا کر کپڑے میں باندھ کر دیتی اور میں صدر یعنی اپنی رہائش گاہ سے جو نا مارکیٹ پیدل جا یا کرتا تھا۔ اس وقت میری حالت کچھ اس قسم کی ہوتی کہ پیر میں ٹوٹی ہوئی چپل اور کبھی وہ بھی ندارد ہوتی اور میں ننگے پاؤں دکان جا یا کرتا تھا۔ دکاندار چار آنے یومیہ مزدوری دیتا‘۔
آپ طبیعتاً نیک، دیانتدار اور صوم و صلواۃ کے پا بند تھے چنانچہ اپنی محنت اور ماں کی تر بیت، دعاؤں اور ایک فرض شناس اور عقلمند رفیقہ حیات کی رفاقت سے تجارت میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے لگے۔ حاجی عبد اللہ ہارون کے ماموں اور بہنوئی سیٹھ صالح محمد ہندوستان کے بڑے تاجروں میں سے تھے اور ان کا کاروبار بڑے پیمانے پر چل رہا تھا چنانچہ حاجی عبد اللہ ہارون نے ابتدا میں ان سے مل کر تجارت شروع کی رفتہ رفتہ آپ اس میدان میں پاؤں جما تے گئے۔ تجارت کی غرض سے آپ نے ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور پھر کراچی کے جوڑیا بازار میں ایک دوکان کھولی اور یہاں سے اپنے طور پر تجارت کا آغاز کیا۔ دکان خوب چل پڑی ساتھ ہی آپ نے ایک گجراتی ہندو پرشوتم داس سے مل کر شکر کا کاروبار شروع کیا لیکن یہ ہندو پاٹنر جلد مرگیا چنانچہ آپ نے تنہا شکر کا کاروبار شروع کیا جو وقت کے ساتھ ساتھ چمکتا گیا۔
حاجی عبد اللہ ہارون کی سماجی اور فلاحی کاموں کی ابتدا جوڑیا بازار کی دکان کے زمانے میں ہوئی، آپ کی فلاحی سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ کاروبار میں بھی اضافہ ہوا یہاں تک کہ لوگ آپ کو ’’ شکر کا راجہ‘‘ کہنے لگے اور کراچی کا تاجر طبقہ آپ کو سیٹھ حاجی عبد اللہ ہارون کہنے لگا۔ تجارت بڑھتی گئی، دولت میں اضافہ ہوتا گیاساتھ ہی حاجی عبد اللہ ہارون کی سخاوت اور فراخ دلی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ حکومت وقت تجارت کے سلسلے میں آپ سے صلاح و مشورے کرنے لگی اور آپ کو ایک بڑے تاجر کی حیثیت سے جانا جانے لگا۔ حکومت نے آپ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آپ کو’ ریزرو بنک ‘ کے ڈائریکٹر کے عہدے کی پیش کش کی جو آپ نے قبول نہیں کی لیکن آپ اس بنک کے شیئرز کی الاٹمنٹ کرنے والی کمیٹی کے رکن رہے۔ ۱۹۰۹ء میں آپ نے اپنے تجارتی مرکز کو جوڑیابازار سے منتقل کر کے ڈوسلانی منزل میں منتقل کر دیا۔ ابتدا میں وکٹوریہ روڑ پر ایک بنگلہ خریدا بعد ازاں جائیداد میں بے پناہ اضافہ ہوتا گیا اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں کے شروع ہو جانے کے بعد اپنی رہائش ’سیفیلڈ‘ واقع کلفٹن میں شروع کی جو بعد میں ہندوستان کے مسلمان رہنماؤں کا گڑھ بن گئی۔
حاجی عبد اللہ ہارون کی ازدواجی زندگی کی ابتدا ۱۸۸۷ء میں ہوئی اس وقت آپ کی عمر ۱۵ برس تھی۔ آپ کی والدہ نے آپ کی شادی رحیمہ بائی سے طے کی۔ شادی کے بعد آپ حج پر تشریف لے گئے۔ ۱۸۹۵ء میں آپ نے دوسری شادی کی اور ۱۲ نو مبر ۱۹۱۳ء میں آپ نے تیسری شادی ایرانی نژاد ڈاکٹر حاجی خان کی صاحبزادی لیڈی نصرت سے کی۔ آپ کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہوئیں۔ صاحبزادوں میں یوسف ہارون، محمود ہارون اور سعید ہارون ہیں۔
یوسف ہارون جو آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں نے پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ مغربی پاکستان کے گورنر رہے۔ محمود ہارون نے بھی ملکی سیاست میں بھر پور کردار ادا کیا، مسلم لیگ کے زبردست حامیوں میں سے تھے، مختلف وزارتوں پر فائز رہے۔ حاجی عبد اللہ ہارون کے چھوٹے بیٹے ’سعید ہارون ‘ بھی ملکی سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ ہمیشہ مسلم لیگ سے وابستہ رہے، کراچی کی قدیم اور پسماندہ بستی لیاری ان کی سیاست اور سماجی سر گرمیوں کا مرکز تھی۔ الیکشن میں بھی حصہ لیتے رہے، ذوالفقار علی بھٹو کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد ان کے لیے الیکشن میں کامیابی مشکل ہو گئی تھی۔
سرحاجی عبد اللہ ہارون کی سیا سی و سماجی خدمات تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی کا آغاز معمولی حیثیت سے کیا لیکن اپنی ذہانت، تدبر، محنت، کوشش اور اپنی ماں کی تر بیت کی بدولت ہندوستان کی صفِ اول کی شخصیات میں ان کا شمار ہونے لگا۔ آپ سلجھی ہوئی طبیعت کے آدمی تھے بقول انعام درانی ’گتھیاں ان کے ناخنِ تدبیر کی آہٹ سے سلجھ جاتی تھیں ‘ میونسپل کارپوریشن سے لے کر مرکزی مجلس قانون ساز تک کوئی ادارہ، کوئی منصوبہ، کوئی مشن ایسا نہ تھا جو مسلمانوں کی بہتری کے لیے ہو اور عبد اللہ ہارون اس میں شریک نہ ہوں۔ خلافت تحریک، ریشمی رومال، بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کی تحریک، سیاسی کانفرنسیں، تعلیمی کانفرنسیں، آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس، انڈین نیشنل کانگریس، مسلم لیگ خصوصاً سندھ مسلم لیگ غرض ۱۹۰۱ء سے ۱۹۴۲ء یعنی انتقال تک مسلمانوں کی تمام تحریکوں میں عبد اللہ ہارون نے کلیدی کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے سلسلے میں سندھ مسلم لیگ کی سر پرستی حاصل ہوئی تو آپ نے نہ صرف ایک بڑی جماعت اس کے حامیوں کی تیار کی بلکہ پورے صوبے میں پاکستان کی تحریک کی روح بھونک ڈالی۔ سندھ کے بچے بچے میں پاکستان کی تحریک کی امنگ اور لگن پیدا ہو گئی۔ اس قسم کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ دیگر رہنما جنہیں قومی ہیرو ہونے کا تو شرف حاصل ہے، انہوں نے تحریک آزادی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور ایک بڑی جماعت کو اپنا ہم نوا بنا لیا آپ نے مسلمانوں کی آواز کو دنیا میں پہچانے اور عام کرنے کے لیے ۱۹۲۰ء میں ایک اخبار ’’الوحید‘‘ جاری کیا جس نے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی، انگریز اور ہندو بوکھلا اٹھے، آخر کار مقصد میں کامیابی ہو ئی لیکن افسوس کہ قیام پاکستان تک عبد اللہ ہارون کی عمر نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
۱۹۱۹ء میں خلافت تحریک شروع ہوئی تو حاجی عبداللہ ہارون نے اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ابتدا میں آپ صوبائی خلافت کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے بعد از آں آپ کوسینٹرل خلافت کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ مولانا سید محمد میاں جو تحریک ریشمی رو مال کے اہم کارکن تھے نے اپنی کتاب ’تحریک شیخ الہند و ریشمی خطوط سازش کیس‘ کے صفحہ ۴۸ پر لکھا کہ تحریک ریشمی رو مال میں حاجی عبد اللہ ہارون جو بہت بڑے تاجر تھے ہر دور اور ہر عہد میں قومی کاموں کے لیے مقتدر رقمیں نکالتے رہے موجودہ صدی کے اوائل میں سندھ کے اندر تبلیغ اسلام کے لیے جوکام جاری ہوا تھا اس میں بے شمار روپیہ خرچ کیا گیا، خلافت لیگ اور مسلم کانفرس کی تنظیم میں چپ چاپ گرانقدر امداد دیتے رہے قابل غور امر یہ ہے کہ امداد کے سوا انہیں کوئی غرض نہ تھی‘‘۔ آپ جن اداروں کی مالی امداد کیا کرتے ان کا حساب کبھی نہیں رکھا، کراچی کے دو اداروں کا پورا خرچ ان کے ذمہ تھا۔ تحریک ریشمی رو مال کے سلسلے میں ایک مرحلہ ایسا آیا جب حضرت شیخ الہند نے مولانا عبیدا للہ سندھی کو تحریک کے سلسلے میں کابل جانے کا حکم دیا تا کہ وہ افغانستان کے سر براہ امیر حبیب اللہ خان کو اس نازک وقت میں اسلام کے لیے جانبازانہ اقدامات کرنے کے لیے تیار کریں۔ مولانا عبیداللہ سندھی کابل جانے کے لیے تیار ہو گئے تو اس سلسلے میں پہلا اہم مسئلہ اخراجات کا تھا، مولانا ابو الکلام آزاد نے اس مقصد کے لیے حاجی عبد اللہ ہارون سے ملاقات کی، انہوں نے بلا تامُل پانچ ہزار روپے پیش کر دیئے۔
حاجی عبد اللہ ہارون مرحوم ۶ سال تک مرکزی مجلس قانون ساز کے رکن کی حیثیت سے سندھ کی نمائندگی کرتے رہے آپ پہلی مرتبہ ۱۹۳۶ء میں مرکزی مجلس قانون سازکے رکن منتخب ہوئے اور ۱۹۴۲ء یعنی اپنے انتقال تک اس ادارے میں سندھ کی نمائندگی کرتے رہے۔ آپ نے قانون منظور کرایا جس کی رو سے مسلمان خواتین کو اسلامی قانون وراثت کے مطابق عورتوں کو آبائی جائیداد سے ان کا جائز حق ملنے لگا۔ آپ نے ۱۹۲۸ء میں مجلس قانون ساز میں ایک قرار داد پیش کی جس کی منظوری کے بعد حکومت نے حج تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی اور حاجی عبد اللہ ہارون کو اس کمیٹی کا رکن نامزد کیا گیا۔ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد کمیٹی کی سفارشات پر عمل در آمد شروع ہوا اور عازمین حج کی بیشتر تکالیف دور ہو گئیں۔ کراچی میں پرانے حاجی کیمپ کی تعمیر حاجی عبد اللہ ہارون کی زیر نگرانی اور آپ کی جد و جہد کے نتیجے میں عمل میں آئی، حکومت نے آپ کو ۱۹۳۴ء میں حج کمیٹی کا چیئر مین نامزد کیا اور آپ تین سال تک اس کمیٹی کے چیئر مین رہے۔ ۱۹۲۳ء میں آپ بمبئی مجلس قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے اس سال آپ نے بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کی تحریک کے مطالبے کو تسلیم کیا اور اس کی حمایت میں جد و جہد شروع کی۔
۱۹۳۰ء میں حاجی عبد اللہ ہارون کو آل انڈیا مسلم کانفرس کا سیکریٹری نامزد کیا گیا یہ اجلاس مولانا محمد علی جوہر کی صدارت میں منعقد ہوا یہی وہ اہم اجلاس تھا جس میں مسلم کانفرنس نے گاندھی کے ساتھ تعاون کرنے سے ان کار کیا اور اعلان کیا کہ کانفرنس برطانوی سامراج کے خلاف ہی نہیں بلکہ وہ ہندو تسلط کے خلاف بھی تحریک چلائے گی۔ مسٹرگاندھی کی تحریک انڈیا کی مکمل آزادی کے لیے نہ تھی بلکہ وہ سات کروڑ مسلمانوں کو ہندوؤں کا غلام بنا نا چاہتے تھے۔
۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا جس کا نصب العین مسلمانوں کی بہبود تھا حاجی عبد اللہ ہارون نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی آپ ۱۹۲۰ء میں سندھ مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور ۱۹۴۲ء یعنی اپنی زندگی کے آخری ایام تک مسلم لیگ صوبہ سندھ کے صدر کی حیثیت سے جد و جہد آزادی کی جنگ لڑتے رہے۔ ہندوستان کی تقسیم کی پہلی قرار داد سندھ کی مجلس قانون ساز نے منظور کی۔ عبد اللہ ہارون نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سندھ کے مسلمانوں میں پاکستان کے قیام کی تحریک کو اس قدر مقبول کر دیا کہ سندھ کا بچہ بچہ پاکستان کے قیام کا حامی بن گیا۔ قائد اعظم کو عبد اللہ ہارون پر مکمل اعتماد تھا اور آپ قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ مسلم لیگ کے مسلمانوں کی بہتری کے تمام پروگرام حاجی صاحب کے گھر پر تیار ہو تے ۱۹۳۸ء میں سندھ پرا ونس مسلم لیگ کانفرنس کا اجلاس منعقد ہوا، ، قائد اعظم محمد علی جناح نے اس اجلاس کی صدارت کی، عبد اللہ ہارون نے سندھ کے مسلمانوں کے نام ایک اپیل جاری کی جس میں سندھ میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا گیا تھا۔ کانفرنس نہ صرف سندھ بلکہ بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے اہم کا نفرنس ثابت ہوئی۔ حاجی عبد اللہ ہارون نے مختلف اسلامی ممالک کے اخبارات کے نام خطوط بھی ارسال کیے جس میں کہا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے نقطہ نظر کی وضاحت واضح اور صحیح طور پر کریں۔
حاجی عبد اللہ ہارون۱۹۱۳ء سے ۱۹۱۷ء تک بعد از آں ۱۹۲۱ء سے ۱۹۳۷ء اکیس سال تک کراچی میونسپل کارپوریشن کے رکن کی حیثیت سے کراچی کے مسائل کو حل کرنے کی جد و جہد کرتے رہے۔ آپ کا تعلق کراچی کی قدیم اور پسماندہ بستی ’لیاری‘ سے تھا چنانچہ آپ نے کراچی کی اس قدیم بستی
کو جدید اور عام سہولتوں سے آراستہ کرنے اور عوام کو تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ایک منصوبہ پیش کیا جس کے مطابق لیاری کو بارہ(۱۲) گاؤں یعنی لیاری کو چھوٹی موٹی بستیوں میں تقسیم کر کے ہر بستی کو یکے بعد دیگرے تمام سہولتوں سے آراستہ کیا جانا تھا۔ اس منصوبے کو پائے تکمیل تک پہچانے کے لیے حاجی صاحب نے بارہ میں سے ایک بستی کو نمونتاً تعمیر کرنے کے لیے اپنی جانب سے پونے دو لاکھ روپے کی رقم کا اعلان کیا لیکن نا معلوم کن وجوہات کے سبب حا جی صاحب کے اس منصوبے پر عمل در آمد نہ ہو سکا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی شہر کی یہ بستی آج تک ان تمام سہولتوں سے محروم رہی۔
حاجی عبد اللہ ہارون نے ۱۹۲۳ء میں کراچی کی قدیم آبادی لیاری میں کھڈا مارکیٹ کے مقام پر جس کا موجودہ نام میمن سو سائٹی (نو آباد) ہے جامعہ اسلامیہ و یتیم خانہ قائم کیا۔ اس جامعہ اور یتیم خانے کے تمام اخراجات حاجی عبد اللہ ہارون اپنی زندگی میں خود پورا کیا کرتے تھے۔ اب اس ادارے کے انتظامی امور حاجی عبد اللہ ہارون ایسو سی ایشن کے سپرد ہیں۔ یہ ایسو سی ایشن حاجی صاحب کے انتقال کے بعد قائم کی گئی۔ ایسو سی ایشن نے حاجی عبد اللہ ہارون کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے کئی فلاحی پروجیکٹ شروع کیے جس میں پرائمری و سیکنڈری اسکول یعنی حاجی عبد اللہ ہارون اسکول، حاجی عبد اللہ ہارون ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ اور حاجی عبد اللہ ہارون کالج اور اسپتال کا قیام جامعہ اسلامیہ یتیم خانہ کے احاطہ میں عمل میں آیا۔ کراچی کی پسماندہ بستی میں تعلیمی اور فلاحی اداروں کا قیام مالی منفعت سے قطع نظر غریب و نادار افراد کو تعلیم کے مواقع فراہم کرنا تھا یہی حاجی عبد اللہ ہارون کا مشن بھی تھا جسے اس ایسو سی ایشن نے عملی جامہ پہنایا۔ حاجی عبداللہ ہارون اپنے قائم کردہ جامعہ اسلامیہ اور یتیم خانہ میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔
حاجی عبد اللہ ہارون نے بر صغیر کے مسلمانوں خصوصاً سندھ کے مسلمانوں میں علم کی روشنی اجاگر کرنے، آزادی کی تحریک، سیاسی بیداری پیدا کرنے اور مسلمانوں کی آواز بر صغیر کے بر سر اقتدار حکمرانوں تک پہچانے کے لیے ۱۹۲۰ء میں تر کی کے خلیفہ سلطان وحیدالدین کے نام پر اخبار ’’الوحید ‘‘ جاری کیا۔ سندھ کی ممتاز شخصیت اور حاجی عبد اللہ ہارون کے قریبی ساتھی شیخ عبد المجید سندھی اخبار کی ادارت میں شامل تھے وہ اس اخبار کے اولین ایڈیٹر بھی تھے۔ الوحید کی اشاعت بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوئی، اس وقت کے نامور مسلمان ادیبوں، عالموں، سیاسی شخصیات اور دانشوروں نے مضامین لکھنا شروع کیے جن کا مثبت اثر ہوا۔ اس وقت یہ اخبار مسلمانوں کا واحد ترجمان تھا، اس اخبار کو جاری ہوئے مشکل سے سات ماہ کا عرصہ ہی ہوا تھا ہندو اور انگریز اس کی مقبولیت سے بوکھلا اٹھے اور بمبئی کی حکومت نے اخبار کی مقبولیت، شہرت اور اس کے اس مشن سے جو وہ بر صغیر کے مسلمانوں خصوصاً سندھ کے مسلمانوں میں جد و جہد آزادی کے سلسلے میں جوش و جذبہ پیدا کر رہا تھا ایک مضمون کی اشاعت کا سہارا لیتے ہوئے اخبار سے ۲۵ ہزار روپے زر ضمانت کے طور پر طلب کیے اور اخبار کے مدیر قاضی عبد الرحمٰن کو گرفتار کر کے ایک سال کے لیے جیل بھیج دیا۔
مولانا دین محمد وفائی جو الوحید کے نائب مدیر تھے اور اخبار میں مسلسل مضامین بھی لکھ رہے تھے کو اخبار کا مدیر مقرر کیا گیا جو بیس سال تک مدیر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ مو لانا وفائی کی سر پرستی میں الوحید نے روزنامہ کے علاوہ ایک تحریک کی حیثیت اختیار کر لی اور یہ اخبار سندھ کے مسلمانوں کی آواز اور تر جمان بن گیا۔ الوحید نے سندھ میں آزاد اور بے باک صحافت کی نہ صرف ابتدا کی بلکہ صحافت میں ایک مثالی کردار ادا کیا۔ اس خبار نے بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کی تحریک کو عوام میں عام کرنے اور حکومت وقت پر عوامی نقطہ نظر کو واضح کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی الوحید کے مشن کا ایک حصہ تھی۔ ۱۹۳۰ء میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد الوحید کا ایک خاص نمبر ’’سندھ آزادی نمبر ‘‘ شائع کیا جس کی ایک تحقیقی اور تاریخی حیثیت ہے۔ یہ خاص نمبر سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی مکمل داستان ہے الوحید نے خلافت تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ الوحید کے ایڈیٹر قاضی عبد الرحمٰن کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب مولا نا محمد علی جوہر اور ان کے ساتھیوں پر کراچی کے خا لق دینا ہال میں بغاوت کا مقدمہ چلا یا جا رہا تھا۔ الوحید نے سندھ میں چلنے والی ’تحریک نصرت اسلام ‘‘ کو نہ صرف روشناس کرایا بلکہ مسلمانوں پر واضح کیا کہ وہ ہندوؤں کے ناپاک عزائم کا مقابلہ کس طرح کریں۔ المختصر حاجی عبد اللہ ہارون کے روشن کر دہ چراغ نے بر صغیر خصوصاًسندھ کے مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے اور انہیں منظم کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔
سندھ کے معروف محقق، ادیب و دانش ور پیر محمد علی راشدی نے اپنے کالم ’’، مشرق و مغرب‘‘ جو اخبار جنگ (۶ستمبر ۱۹۸۱ء)میں شائع ہوا سیفیلڈ کی قومی حیثیت کو اجاگر کرنے کی بھر پور کوشش کی راشدی صاحب لکھتے ہیں ’’بر صغیر کے دور زریں کا شاید ہی کوئی مسلمان رہنما ایسا ہو جس کا گزر یہاں (سیفیلڈ) میں نہ ہوا ہو، کیا کیا صورتیں وہاں (سیفیلڈ) میں میں نے خود نہیں دیکھیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح، سر آغا خان، محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، آزاد سبحانی، فضل حسین، فضل الحق، سر سکندر حیات، سعداللہ، اکرام خان، سلطان احمد، صاحبزادی عبد القیوم، ڈاکٹر انصاری، عبد الرحمٰن صدیقی، بہادر یار جنگ اور بہت سے بزرگ ہیں جن کے نام یاد نہیں عبد اللہ ہارون مرحوم کے گھرسیفیلڈ میں دیکھے اور ایسے سیاسی اور مذہبی رہنما جن کی مسلم لیگ سے نہیں بنی جب کبھی کراچی آئے تو عبد اللہ ہارون کے سلام کے لیے لازمی حاضر ہوئے۔ قائد اعظم ۱۹۳۸ء میں اور اس کے بعد عبد اللہ ہارون کے انتقال تک جب بھی کراچی تشریف لاتے ان کا قیام ہمیشہ’ سیفیلڈ‘ میں ہی رہا۔ مسلم لیگ تحریک خصوصاً نظریہ پاکستان کے سلسلے میں وقتاً فوقتاً آل انڈیا ورکنگ کمیٹی اور سندھ مسلم لیگ اسمبلی پارٹی کی میٹنگیں یہیں ہوتی تھیں۔ یہیں تحریک پاکستان کے فیصلہ کن دور کے منصوبے بنے، یہیں حاجی صاحب کا وہ معرکۃ الارا خطبہ تیار ہوا جس میں پہلی بار کھل کر یہ اعلان کیا گیا کہ ہم ہندو کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے ہمارے لیے ہندوستان کا بٹوارہ کر کے ایک علیحدہ فیڈریشن بننا چاہیے، یہیں انہی خطوط پر شیخ عبدالمجید سندھی کی قرار داد قائد اعظم کے سامنے آئی(وہ اسی خواب گاہ میں اسی پلنگ پر سلیپنگ سوٹ میں لیٹے ہوئے تھے جب اس حقیر نے بحیثیت جنرل سیکریٹری سندھ مسلم لیگ کانفرنس، ان کی خدمت میں پیش کی)، یہیں نظریہ پاکستان کو ہندوستان میں مسلمانوں کے سامنے لانے کے لئے بین الصوبائی وفود کا پروگرام بنا، یہیں قائد اعظم کی صدارت میں سندھ اسمبلی کے مسلمان ممبروں کی میٹنگ ہوئی، یہیں میں (پیر علی محمد راشدی) نے قائد اعظم کے جوابی اخباری بیان کا وہ مسودہ پیش کیا جو ان کے نام سے دوسرے روز اللہ بخش مرحوم کے بارے میں شائع ہوا، یہیں پاکستان اسکیم کی تفصیل مرتب ہوئیں جن کی بنا پر بعد میں (یعنی ۱۹۴۰ء میں ) قرار داد لاہور لکھی گئی، یہیں پاکستان اسکیم کے سلسلے میں مطالعاتی میٹنگیں ہوتی رہیں جو کبھی کبھی ۲۰ ونڈسر پیلس دہلی میں بھی ہوئیں جہاں وقتی طور پر مرکزی اسمبلی کے اجلاس کے سلسلے میں مرحوم حاجی صاحب کی رہائش ہوتی، یہیں پر توقف کرنے کے بعد قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خان مرحوم لندن روانہ ہوئے، یہیں سکوٹرا فوٹو گرافر نے قائد کی وہ تصویر لی جو بعد میں آفیشل تصویر شمار ہوئی اور آج پاکستان کے کرنسی نوٹوں کی زینت ہے، یہیں سندھ میں مسلم لیگ کو منظم کرنے کے بارے میں وقتاً فوقتاً میٹنگیں ہوتی رہیں، یہیں سے مسجد منزنگاہ سکھر کی وا گزاری کے لیے تحریک کا منصوبہ بنا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سندھ کے مسلمان ہندو کے پنجے سے نکل کر اور مسلم لیگ کے زیر اثر آ کر پاکستان کے حامی بن گئے، مختصر یہ کہ کانگریس تحریک میں جو مقام آنجہانی موتی لال نہرو کے آنند بھون الہٰ آباد کو حاصل ہوا وہ مسلم لیگ تحریک میں عبداللہ ہارون کے اس سیفیلڈ کو میسر تھا۔ فرق صرف یہ رہا کہ آنند بھون اس تعلق کے تقدس کی بنا پر قومی یادگار بن گیا، اور سیفیلڈ پر تا لا لگ گیا اور ’گنبد افراسیاب‘بن کر رہ گیا‘‘۔ پیر علی محمد راشدی کی اس تجویز پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ ’اگر ’’سیفیلڈ ‘ عبد اللہ ہارون میوزیم بن جاتا تو نظریہ پاکستان کی جڑوں کو اچھی طرح سے واضح کر دینے کا موجب بنتا۔ کئی تاریخی اہمیت کی چیزیں یہاں جمع کی جا سکتی تھیں جو اب مختلف جگہوں پر بکھری پڑی ہیں اور مرور ایام سے ضائع ہو جائیں گی مثلاً عبداللہ ہارون کے ذاتی سیا سی نوعیت کے کاغذات، قائد اعظمؒ سے پاکستان کے بارے میں ان کی خط و کتا بت کے فائل، قائد اعظمؒ کے خطوط ان کے نام، تقریریں، سیاسی خطبات، پمفلٹ، کتابیں، اشتہار، اخباری آرٹیکل ان کے روزمرہ کے استعمال اور خود قائد اعظمؒ کی وہاں رہائش سے متعلق یاد گار چیزیں، اخبارات کے فائل وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ چیزیں جمع ہو جائیں تو اندرون ہندوستان ۱۹۱۰ء سے لے کر ۱۹۴۲ء تک کی جملہ مسلمان تحریکوں کے ارتقاء کی تاریخ لوگوں کے سامنے آ جاتی اور ان کو معلوم ہو جاتا کہ نظریہ پاکستان کس طرح بنا، کن منازل سے گزر ا، اور اس کے حقیقی محرکات کیا تھے۔
٭٭٭
نوٹ: ( راقم الحروف نے حاجی عبداللہ ہارون گور نمنٹ کالج میں ۳۳ برس(یکم اپریل ۱۹۷۴ء تا یکم اکتوبر ۱۹۹۷ء) خدمات انجام دیں، یہ مضمون حاجی سر عبد اللہ ہارون کی بر سی کے موقع پر تحریر کیا گیا جو روزنامہ نوائے وقت کراچی میں جناب اشتیاق اظہر مرحوم جو اس وقت نوائے وقت سے منسلک تھے کے توسط سے ۲۹ اپریل ۱۹۸۲ء کو شائع ہوا، اخبار نے مضمون کو کاٹ چھانٹ کر بے ربط بنا دیا تھا، اب یہ مضمون اپنی اصل حالت میں شامل ہے )
شیخ محمد ابراہیم آز ادؔ
خاندانِ باری بخش (حسین پور، ضلع مظفر نگر )کی ایک محترم شخصیت
شیخ محمد ابراہیم آزادؔ بیکانیری نقشبندی کا نام محمد ابراہیم، آزادؔ تخلص، تاریخی نام غلام باری تھا، ہندوستان کے صوبہ راجستھان کی تاریخی ریاست بیکانیر آپ کے آباء و اجداد کا شہر تھا جس کی مناسبت سے آپ بیکانیری ٹھہرے، نقشبندیہ سلسلہ سے تعلق نے آپ کو نقشبندی بنا دیا۔ آپ ہندوستان کے صوبے یو پی میں واقع ضلع مظفر نگر کے قصبے ’حسین پور‘ میں ۲۵ فر وری ۱۸۶۸ء مطابق یکم ذیقعد ۱۲۸۴ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ صاحب دیوان شاعر ہیں اور آپ کا شمار ہندوستان کے بلند پایہ نعت گو شعراء میں ہوتا تھا۔
آپ نے تمام زندگی نعت کہی اور عشقیہ شاعری سے نہ صرف بچے رہے بلکہ اہل اسلام کو اسے اختیار کرنے کو منع فر مایا۔ با وجود بلند پایہ وکیل اور بیکانیر چیف کورٹ کے چیف جسٹس ہونے کے آپ کی پوری زندگی انتہا ئی سادہ اور مجسم نمونہ تھی۔ آپ ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے، خاندان کے اکثر احباب علاوہ دیگر مشاغل کے شعر و سخن سے خاص شغف رکھتے تھے اور حمد و نعت گوئی کو اپنے لیے اعزاز تصور کیا کرتے۔ آپ کے خاندان کے بزرگ دیوان، قاضی، وکیل، جج اور استاد تھے بعض تجارت کے پیشے سے بھی وابستہ تھے۔
جناب آزادؒؔ کا تعلق خاندان باری بخشؒ سے ہے جو خاندان حسین پور کے نام سے بھی معروف ہے۔ آزادؔ صاحب نے اپنے نعتیہ دیوان ’’ثناء محبوب خالق‘‘، دیوان آزادؔ طبع شدہ ۱۹۳۲ء میں تحریر فر مایا ہے کہ ’ہمارے مورث اعلیٰ حضرت دیوان باری بخش علیہ الرحمۃ جو ہندوستان کے ایک حکمراں خاندان سے تھے جو ۱۱۴۸ بکرمی میں اسلام سے مشرف ہوئے پہلے آپ کا نام بیربل تھا بعد اسلام لانے کے باری بخش ہوا‘۔ بکرمی سے مراد سنہ بکرماجیت ہے، یہ ہندوؤں کے سال اور مہینوں کا نظام ہے جو ہندو راجہ بکر ما جیت کی وفات کے دن اور مہینے سے شروع ہوتا ہے۔ معروف مورخ محمد قاسم فرشتہ اپنی تصنیف ’’تاریخ فرشتہ‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’ بکر ما جیت کا تعلق ’پوار‘ قوم سے تھا، یہ طبیعت کا بہت نیک تھا جب اس کی عمر پچاس برس ہو ئی تو اس نے غیبی رہنمائی سے سپہ گری کے میدان میں قدم رکھا اور کچھ ہی عرصہ میں نہر والا اور مالوہ اس کے قبضہ میں آ گئے، عنان حکومت سنبھالتے ہی اس نے انصاف کا بول بالا کیا، ایک لڑائی میں بکرما جیت کو شکست ہوئی اس کے بعد راجہ بھوج نے عنان حکومت سنبھالا۔ دیوان باری بخش ؒ کا زمانہ۱۱۴۸ بکرمی یا ۱۰۸۸ء تھا۔ یہ خاندان ہندوستان کے علاقہ راجستھان میں ریاست بیکا نیر کے مقام پر آباد تھا۔ غزنوی حکمراں سلطان محمود غزنوی نے جب بھٹنیر پر حملہ کیا تو اس خاندان کے جدِ امجد بھٹنیر (موجودہ بیکانیر) سے دہلی منتقل ہو گئے اور دہلی سے منسلک شہر کھڈی ضلع شکار پور کو اپنا مسکن بنایا غزنوی حکمراں کی جانب سے اس خاندان کے مورث اعلیٰ کو کھڈی ضلع شکارپور کا دیوان مقرر کیا گیا۔ مغل شہنشاہ شاہجہاں ۱۶۲۷ء۔ ۱۶۶۲ء مطابق۱۰۳۷ھ۔ ۱۰۶۷ھ کے دورِ حکمرانی میں یہ خاندان ایک بار پھر کھڈی (شکارپور) سے ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے قصبے حسین پور منتقل ہواجس کے بارے میں آزادؒؔ نے لکھا ہے کہ ’’ ہمارے جد امجد اعلیٰ حضرت دیوان باری بخشؒ سے اٹھارہ پشت نیچے ہمارے جد اعلیٰ حضرت عبدالقدوس رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو قریباً سن گیارہ سوہجری میں اس حسین پور کلاں میں جس کو خان صاحب حسین خان نے (ان کو سوندے خان بھی کہتے تھے آباد کیا تھا) آ کر آباد ہوئے، اس حسین پور کے متعلق بارہ بستی ہے جس کو پٹھانوں کی بارہ بستی کہتے ہیں حضرت عبد القدوسؒ اس بارہ بستی کے قاضی مقرر ہوئے۔
شیخ محمد ابراہیم آزادؔ نے اپنے دیوان میں خاندان کے متعدد بزرگوں اور ان کے شعری ذوق کا ذکر کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس خاندان کے لوگ مذہب کی جانب مائل تھے اور شعر و سخن کا ذوق بھی رکھتے تھے، سب سے بڑھ کر یہ کہ اس خاندان میں حصول علم کا رجحان زیادہ تھا۔
شیخ محمد ابراہیم آزادؔ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، فارسی کی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی اور چند ہی سالوں میں فارسی زبان پر اس قدر عبور حاصل کر لیا کہ فارسی زبان میں خط و کتابت
فر مانے لگے۔ آپ انتہائی ذہین اور مذہبی ذہن کے مالک تھے۔ قدرت نے آپ کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازہ تھا، حافظہ اس قدر تیز کہ جو بات ایک مر تبہ سن لیتے ہمیشہ یاد رہتی۔ آپ ایک شفیق باپ، فر مانبر دار فرزند، بہترین استاد، اچھے شوہر، بلند پایہ وکیل، بہترین منصف و جج، خوش اخلاق، خوش طبع، خوش مزاج، خوش گواور بلند کردار ہونے کے ساتھ ساتھ ہمدرددان قوم بھی تھے۔ فرید کوٹ کے مہاراجہ نے آپ کی بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آپ کو اعلیٰ عہدے کی پیش کش کی جسے آپ نے قبول کر لیا۔ اس طرح آپ ۱۸۸۱ء سے ۱۸۹۷ء تک ہندوستان کے شہر فرید کوٹ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ والد صاحب قبلہ انیس احمد صمدانی مرحوم (وفات ۵ ستمبر ۱۹۹۷ء) قبلہ آزاد صاحب کے فرید کوٹ سے بیکا نیر منتقل ہونے کا واقعہ اکثر سنا یا کر تے تھے کہ مہاراجہ فرید کوٹ آپ کی بہت عزت کیا کرتا تھا اور ہر طریقے سے آپ کا خیال بھی رکھتا۔ آزاد صاحب بھی نیک نیتی اور محنت سے تمام امور کی انجام دہی فر ماتے رہے۔ ایک روز کسی سر کاری تقریب میں مہاراجہ نے آپ کواپنے کسی کارندے کے ذریعہ شراب کی پیش کش کر دی۔ آپ کو اس کی یہ حرکت سخت نا گوار گزری، آپ اسی وقت اپنے گھر تشریف لے گئے اور بغیر کسی کو بتائے رات کے اندھیرے میں فرید کوٹ کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہتے ہوئے بیکانیر تشریف لے گئے اور زندگی میں دوبارہ کبھی فرید کوٹ کا رخ نہیں کیا۔ مہاراجہ کو جب آزاد صاحب کے چلے جانے کا علم ہوا تو اپنی اس حرکت پر نادم ہوا اور سرکاری احکام جاری کیا کہ شیخ صاحب جب کبھی بھی فرید کوٹ دوبارہ واپس آئیں گے تو انہیں وہی اعزاز اور مقام دیا جائے گا۔ مگر آزاد صاحب نے دوبارہ وہاں جانے کے بارے میں سو چا بھی نہیں۔ بیکانیر میں اس وقت مہاراجہ گنگا سنگھ حکومت بر طانیہ کی طرف سے حاکم تھا۔ یہ بیکانیر کا اکیسواں مہاراجہ تھاجس نے ۱۸۹۸ء میں تاج بر طانیہ کی جانب سے اقتدار سنبھالا اور اپنی موت ۲ فر وری ۱۹۴۳ ء تک بیکانیر پر حکومت کرتا رہا، گنگا سنگھ ایک نیک انسان تھا۔ اس نے اپنے دور حکمرانی میں ریاست کی بہتری اور ترقی کے بے شمار اقدامات کئے۔ آزاد صاحب کی نیک سیرت اور اخلاص کو دیکھتے ہوئے مہاراجہ گنگا سنگھ بھی آپ کا قدر داں ہو گیا اور آپ کو ریاست کے وزیر اور قانونی مشیر کا درجہ دیا گیا۔ اکتوبر ۱۸۹۷ء سے بیکانیر میں وکالت کی، ۱۹۱۷ء سے ۱۹۲۱ء تک چیف کورٹ بیکانیر میں جج و چیف جسٹس
کے فرا ئض انجام دئے۔
ریاست بیکانیر کے مہاراجہ گنگا سنگھ کی تخت نشینی (۱۸۸۰ء۔ ۱۹۴۳ء)کو کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ گنگا سنگھ سے قبل ڈونگر سنگھ ریاست بیکانیر کا حکمراں تھا۔ اس کے کوئی اولاد نہیں تھی اس نے اپنی زندگی ہی میں اپنے چھوٹے بھائی گنگا سنگھ کو بیٹا بنا لیا تھا۔ چنانچہ اس کے انتقال کے بعد ریاست کی حاکمیت اعلیٰ گنگاسنگھ کو سونپ دی گئی۔ یہ ریاست کا اکیسواں سربراہ تھا۔ اس کے خاندان کے کچھ لو گوں نے کورٹ میں کیس کر دیا۔ آزاد صاحب چیف جج کی حیثیت سے ریٹائر ہو چکے تھے اور ریاست کے ایک نامی گرامی وکیل شمار کیے جاتے تھے۔ گنگا سنگھ نے آزاد صاحب کو اپنا وکیل مقرر کیا اور آپ کو ایک سرکار وکیل کی حیثیت سے تمام مراعات دی گئیں۔ آپ نے اپنی مدد کے لیے ایک جونئیر وکیل بھی مقرر کیا۔ جناب نثار احمد صمدانی کو یہ زمہ داری سونپی گئی۔ آزاد صاحب نے سر کار بیکانیر کی نمائندگی کر تے ہوئے مہاراجہ گنگا سنگھ کے کیس کی پیروی اس خوبی سے کی کہ کیس کا فیصلہ مہاراجہ گنگا سنگھ کے حق میں ہو گیا۔ یہ ایک بہت بڑی بات تھی۔ راجہ اس عظیم کامیابی پر بے انتہا خوش تھا۔ جناب محبوب احمد سبزواری جو جناب آزاد کے ہم زلف اور میرے ماموں ہیں نے بتا یا کہ صرف آزاد صاحب کے جونیئر وکیل جناب نثار احمد صاحب کو اس وقت ۲۰ ہزار روپے دیے گئے۔ راجہ نے آزاد صاحب کو ریاست بیکانیر کا ایک وسیع علاقہ دینے کی پیش کش کی اور کہا کہ آپ اس پورے گاؤں کے مالک ہوں گے۔ آزاد صاحب نے راجہ کی اس پیش کش کو قبول کرنے سے ان کار کر دیا۔ تاہم آپ کو کثیر رقم دی گئی اوراس کے ساتھ ہی آپ کو ریاست کے ایک وزیر کا درجہ دے دیا گیا جو آخر تک قائم رہا۔
آزادؔ کی نعتیہ شاعری
شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی شاعری کی ابتدا عشقیہ شاعری سے ہوئی۔ منشی عبد الشکور خاں برقؔ اجمیری شاگرد رشید حضرت داغؔ دہلوی نے اصلاح کی۔ آزادؔ صاحب کا عشقیہ کلام جس قدر بھی تھا منظر عام پر نہ آ سکا اور نہ ہی محفوظ رہا۔ آزادؔ بذات خود اس کے حق میں بھی نہ تھے کہ عشقیہ کلام منظر عام پر آئے۔ آپ بہت جلد غزل گوئی سے تائب ہو کر صرف حضور اکرمﷺ کی مداح سرائی کی جانب آ گئے اور مُدّت العمر نعت کہتے رہے۔ ۱۹۱۳ء میں آپ بسلسلہ شاگردی استاذ الشعراء افتخار الملک سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی جانشیں فصیح الملک داغؔ دہلوی داخل ہوئے۔ آپ اپنے پیر و مرشد حافظ سید جماعت علی شاہ نقشبندی اور اپنے استاد بیخودؔ دہلوی کی بزرگی اور استادی کے دل سے قدر داں تھے۔ آپ نے ایک جگہ فر مایا کہ میرا کلام میرے حضرت شیخ والا کی توجہ قلبی اور استاد مد ظلّہٰ کی خاص عنایت کا نتیجہ ہے۔ اپنی ایک نظم میں آپ نے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا :
استاد نے زبان دی مضمون شیخ نے
دیوان میرا مفت میں تیار ہو گیا
جناب آزادؔ کا مقام اور ان کا کلام کئی جہت سے ممتاز اور منفرد نظر آتا ہے۔ آزادؔ اسرا رِ شریعت سے واقف، کتاب و سنت کے بحرِ ذخار کے سچے عاشق اور صاحبِ فضل و کمال ہیں۔ ثنا خوانی میں جس باریک بینی، احتیاط اور ادب شناسی کی ضرورت ہو تی ہے آزادؔ اس سفر میں بہت ہی خوبی کے ساتھ گزرے ہیں۔ زبان و بیان پر غیر معمولی دسترس حاصل ہے۔ا متیاز الشعراء بیخودؔ دہلوی نے آپ کے کلام کے بارے میں فر ما یا کہ ’’ان کا کلام بقدر ان کے ذوق شعری اصلاح کا چنداں محتاج نہیں ہے ‘‘۔ آپ کا کلام اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آپ نے کلام اللہ سے مدحت سر ائی سیکھی اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ جیسے مدحت سرا اور عاشق رسول کو اپنا راہ رو بنا یا۔ جیسا کہ آپ نے خود فرما یا :
نعت میں ہوں اُسی شاعر کا مقلد میں بھی
مل گئی تھی جسے خلعت میں ردائے آقا
شائقو دل سے ہمیں میلاد خوانی چاہیے
قلب صدیقی بیان حّساں زبانی چاہیے
نعت کہنا یا نعت کا پڑھنا مسلمان کی حیثیت سے باعث بر کت اور باعث ثواب تصور کیا جاتا ہے۔ بے شمار شعراء جو صرف عشقیہ شاعری کیا کرتے ہیں انہوں نے محض حصول ثواب کی غرض سے نعت بھی کہی بعض نے تو ثواب کی خاطر اور بعض نے صرف اس لیے نعت کہی تاکہ وہ نعتیہ مشاعروں میں بھی اپنے آپ کو نعتیہ شعراء کی صف میں کھڑا کر سکیں چنانچہ ان کے نعتیہ کلام میں عشق رسولﷺ کا وہ جذبہ محسوس نہیں ہو تا۔ جنابِ آزادؔ کے پورے نعتیہ کلام میں بنی اکرمﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار نمایاں ہے۔ آپ کے کلام سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کہنے والا عشقِ رسولﷺ میں مجسم ڈوبا ہوا ہے وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اس کے دل کی آواز ہے۔ ان کے اشعار بسا اوقات پڑھنے والے پر اس قدر شدید اثرات ڈالتے ہیں کہ وہ اندر سے تڑپ جاتا ہے اور محسوس کرتا ہے جیسے وہ از خود اپنے نبی کی شان بیان کر رہا ۔
پڑھتا ہوں میں نبی پہ درود و سلام آج
اللہ سے ہم کلام ہے میرا کلام آج
بخت رسا نکال دے اتنا تو کام آج
دربار مصطفیٰ میں ہو میرا سلام آج
جناب آزادؔ کے کلام سے واضح ہے کہ آپ کو اردو اور فارسی کے ساتھ ساتھ عربی پر بھی عبور حاصل تھا، آپ کا فارسی کلام جو خاص آپ کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے با وجوہ شائع نہیں ہو سکا۔ عربی زبان کے الفاظ کا استعمال، قرآنی آیات کا ترجمہ آپ نے اپنے کلام میں بہت ہی خوبی سے نظم فر ما یا۔ جناب آزادؔ نے تحریر فر مایا کہ ’’حمد و نعت کیا ہے۔ واقعی خدا کا شکر یہ ادا کرنا ہے خدا کی صنعت تو پھول تو کیا پتے پتے سے ظاہر ہوتی ہے۔ حسن و اخلاق کے بیان کرنے کے لیے ذات مقدس محبوب خدا کی ایسی ہے کہ اگر تمام عمر ایک صفت کے ہی بیان میں خرچ کی جائے تو ایک شمہ بھی بیان نہیں ہو سکتی۔ اگر نعت کے بیان کرنے میں افراط و تفریط سے کام نہ لیا جائے تو عین موجب خوشنودی خدا اور رسول ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ اس کے بیان کرنے کے لیے قرآن پاک و تفاسیر و کتب سیر پر غور کرنا پڑتا ہے اور جس قدر انہماک اس میں ہو گا اسی قدر حضور کا عشق اس کے دل میں ہو گا جو عین ایمان ہے ‘‘۔
اسلام تلوار سے نہیں بلکہ اچھے اخلاق اور حضور کے پاکیزہ عمل سے پھیلا، آپﷺ نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ یہ ایک سچا دین ہے۔ جناب آزادؔ نے اس موضوع کو اپنی نعت میں بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا :
جھُوٹ کہتے ہیں کہ تلوار سے پھیلا اسلام
کام باتوں سے لیا تیغ چلانا کیسا
شب معراج کے واقعات کا ذکر جناب آزادؔ نے عشق مصطفیٰ میں ڈوب کر کیا۔ اس کیفیت کو آپ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ پڑھنے والے کے دل میں بھی وہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے اس کلام کا کہنا والا گذرا ہے۔ اللہ نے آپ کو غیر معمولی دسترس، جذبہ صادق اور بصیرت سے نوازا تھا۔
آپ نے اپنی اسی خداداد صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے کلام کو ان خصوصیات کے ساتھ پیش کیا اور کامیاب و کامران ہوئے :
شبِ معراج تیرا بن کے مہماں عرش پر جانا
مقدر تیری اُمت کا تھا پستی سے ابھر جانا
شبِ معراج فرشتوں نے خدا سے پوچھا
میزباں تو ہے تو کس شان کا مہماں ہو گا
حج بیت اللہ اور روضہ رسول کی زیارت کا شوق کس مسلمان کے دل میں نہیں ہوتا بلکہ ہر مسلمان کی اولین خواہش اور تمنا اللہ کے گھر اور روضہ مقدس کی زیارت ہو تی ہے جناب آزادؔ نے حج و زیارت روضہ القدس کی خواہش و تمنآ، زیارت طیبہ کی تڑپ کو اپنے دل کی گہرائیوں سے مختلف نعتوں میں بیان کیا ہے :
مرنے کے لیے رہتی ہے جینے کی تمنا
آنکھوں میں بسی جب سے مدینے کی تمنا
آزادؔ نہیں اور تمنا کوئی دل میں
روضے کا ہے ارمان مدینے کی تمنا
یا نبی روضۂ اقدس پہ بلا لو جھٹ پٹ
یہ تو ارمان مرے دل کا نکالو جھٹ پٹ
خدا بزرگ و بر تر کے حضور آزادؔ کی تمنا مقبول ہوئی اور آپ حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے۔ روضہ رسولﷺ کے سامنے جن الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا اس نظم کے چند اشعار یہ ہیں ؎
شکر خدا غلام ہے آقا کے سامنے
پہنچا دیا ہے پیاس نے دریا کے سامنے
کیا دیکھتی ہیں آنکھیں میں قرباں اے خدا
جانم فدا ہے کیا دلِ شیدا کے سا منے
جناب آزادؔ کو رسولِ مقبول ﷺ کی زیارت خواب میں نصیب ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ نے اپنے کلام اس سعادت کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا ہے :
گُم کیا خواب میں بھی جلوہ دکھا کر مجھ کو
رخ روشن بھی دکھا یا تو چھُپا کر مجھ کو
آنکھ پڑتی نہیں اب اور پہ اللہ اللہ
محو مجھ کو ایسا کیا جلوہ دیکھا کر مجھ کو
آپ کے کلام میں صوفیانہ رنگ غالب ہے۔ تصوف کے موضوعات اور جذباتِ حقیقی کو آپ نے جس باریک بینی اور خوبی کے ساتھ نظم میں بیان کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی تصوف آپ کا پسندیدہ موضوع رہا ہو گا۔ آپ کے نثری مضامین یقیناً تصوف کے مشکل مسائل کا حل پیش کرتے ہوں گے۔ کیوں کہ جو شخص نظم میں تصور جیسے دقیق اور مشکل موضوع کو اسقدر مہارت اور خوبی سے بیان کرنے کا ملکہ رکھتا ہوں وہ نثر میں اس موضوع پر زیادہ بہتر قلم اٹھا سکتا ہے۔ غزل نعت میں لکھنا اور نعت سے حمد تخلیق کرنا ایک پختہ شاعر ہی کا وصف ہو سکتا ہے۔
آزادؔ تصوف کی معراج پر فائز ہیں چنانچہ اپنے اس مقام کا ذکر بھی انہوں نے اپنے کلام میں کیا، اہل تصوف کے اجلاس میں آپ نے بڑی خوبی سے عام انسان کو تصوف کے درجات کے بارے بتا تے ہوئے کہا کہ :
سنگلاخ زمیں رکھتی ہیں یہ منزلیں اپنی
خود چل کے نہ گرنا کہیں تم ٹھو کریں کھا کر
آئے نہ نظر گر تمہیں تھک جائیں نگاہیں
تب دیکھنا آزادؔ کی عینک کو لگا کر
جناب آزادؔ نے اپنی شاعری کے پیغام میں طریقت کو شریعت کا پابند بنایا چنانچہ آپ نے تمام مسلمانوں کو اور خاص طور پر اہل طریقت کو کھلے ہوئے الفاظ میں بتا دیا کہ ؎
اے طریقت تو ضیا ہے اور شریعت خورشید
سیرت مہر ہے تو مہر ہے صورت تیری
حق تعالیٰ کی رحمت کا ذکر آزادؔ نے اس طرح کیا :
ظاہر ہے کہ رحمت ہے تیری عدل سے بڑھ کر
نیکی کو لکھا جاتا ہے دس درجے بڑھا کر
حضور اکرم ﷺ کی ولادت با سعادت کا ذکر آزادؔ نے اپنی نعتوں میں اکثر جگہ بہت ہی اچھے انداز سے کیا :
شب میلاد فرمایا خدا نے عرش اعظم سے
بنے گا جس کی تو منزل ہوا وہ مہماں پیدا
زمانے کو کیا خدا نے جس کی خاطر سے
زمانے میں ہوا ہے آج وہ فخر جہاں پیدا
چاند کو دو ٹکرے کرنے کا ذکر جناب آزادؔ اس طرح کر تے ہیں :
دو ٹکڑے جس نے بدر کو ایمان سے کر دیا
یہ ہے کمال نا خن رشک ہلال کا
جناب آزادؔ دنیامیں رونما ہونے والے حالات اور واقعات سے لا علم نہیں تھے بلکہ ان کی نظر پوری دنیا خصوصاً اسلامی ممالک میں ہونے والے مظالم اور زیادتیوں پر رہتی تھی اور ان مظالم کو جو مراکش، ایران، اٹلی، کابل اور ہندوستان کے مسلمانوں پر ہو رہے تھے ان کی کسک وہ اپنے اندر محسوس کیا کرتے ان کا اظہار آپ نے اپنی ایک نعت میں بہت ہی خوبصورت انداز سے کیا۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :
علم مولا میں ہے جو حال مرکش اب ہے
کیسا مظلوم ہے ایران رسولِ اکرم
شہ کو معلوم ہیں اٹلی کے مظالم جو ہیں
اب غضب ڈھاتا ہے بلقان رسولِ اکرم
سلطنت مُلک مراکش کی بھی رکھنا قائم
اور سلامت رہے ایران رسولِ اکرم
اس پہ سایا رہے الطاف و کرم کا تیرے
جو یہ کابل کا ہے سلطان رسولِ اکرم
ہند والے بھی مسلماں ہوں ایسے آقا
جیسے تھے اگلے مسلماں رسولِ اکرم
اپنے استاد جناب بیخود دہلوی اور اردو زبان کی تعریف و توصیف بیان کر تے ہوئے جناب آزادؔ فر ماتے ہیں :
خوشہ چیں ہوں اُ سی بیخودؔ کی زباں کا میں بھی
جس کی ممنون ہے آزادؔ زبانِ اردو
جناب آزادؔؔ ؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔنے حمد و نعت کے علاوہ نظم، قصائد اور منقبت بھی کہیں۔ آپ سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت قبلہ حاجی سید جما عت علی شاہ نقشنبدی سجادہ نشیں علی پور سیدان ضلع سیالکوٹ (فیصل آباد)کے با قاعدہ مرید تھے۔ آپ کے پیر و مرشد کے یہاں سالانہ جلسہ انورا لصوفیہ کا ہوتا تھا۔ آزادؔ صاحب نے ان جلسوں میں (۱۹۰۵ء تا ۱۹۱۷ء) باقاعدہ شرکت فرمائی اور اپنی نظمیں پیش کیں۔
آپ کے دیوان کا حصہ دوم انہیں انہیں نظموں پر مشتمل ہے۔ ان نظموں میں آپ نے اپنے پیر و مرشد کی عزت، احترام و توقیر جس انداز سے بیان کی کے اس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آپ اپنے شیخ کا کس حد تک احترام کیا کرتے تھے۔ آپ کی نعتوں میں بھی اکثر آپ کے شیخ کا ذکر ملتا ہے۔ ان نظموں میں آپ نے تصوف کے انتہائی مشکل اور نازک مسائل کو جن کا نثر میں بیاں کرنا ایک مشکل امر ہوتا ا ہے نہایت خوبی کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ جناب آزادؔ نے حضرت غوث الا عظم محی الدین جیلانی، خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اور خواجہ حمید الدین ناگوریؒ کی شان میں منقبت بھی کہی۔
آزادؔ صاحب ہندوستان کی سیا ست، حالات و واقعات سے بے بہرہ نہیں تھے۔ فرماں روائے کابل سلطان محمد حبیب الرحمٰن خان بہادر کی ہندوستان آمد کے موقع پر آپ نے ایک نظم کہی آپ کے بقول یہ نظم برادران صاحبان قوم کی خواہش پر کہی۔ اس نظم کے چند اشعار یہ ہیں :
مرحبا ہند ترے آج جو مہماں آئے
بارک اللہ عجب شان کے سلطان آئے
میزبان تجھ کو مبارک ترے مہماں آئے
منتظر جن کا زمانہ تھا وہ سلطان آئے
مری کل قوم دعا کرتی ہے دل سے آزادؔ
خیر خوبی سے یہ پھر ہند میں مہماں آئے
جنابِ آزادؔ نے رباعیات بھی کہیں۔ چند رباعیات ملاحظہ ہوں :
خاک بنتا ہوں تو ٹھو کر سے اُڑا دیتے ہیں
آنسوبنتا ہوں تو آنکھوں سے گرا دیتے ہیں
پھونس بنتا ہوں تو ہوں چھاج میں پھٹکا جاتا
دانہ بنتا ہوں تو چکی میں دلا دیتے ہیں
کیسی گھبراتی جوانی بسواری آئی
کہہ گئی جاتی ہوں میں پیری کی باری ّئی
کھیتی کریں تو کہتے ہیں ہے کام جاٹ کا
نگلش پڑھیں تو کہتے ہیں بچہ ہے لاٹ کا
مسجد کا مُلا کہتے ہیں جو علم دیں پڑھیں
جاہل ہے کُتا دھوبی کا گھر کا نہ گھاٹ کا
حضرت آزادؔ بیکانیری کا زمانہ انیسویں صدی عیسویں کے نصف آخر سے بیسویں صدی عیسویں کے تقریباً نصف آخر تک ہے۔ اس دور کے ممتاز شاعروں میں حالیؔ(۱۸۳۷ء۔ ۱۹۱۴ء)، احمد رضاؔ بریلوی(۱۸۵۶ء۔ ۱۹۲۱ء)، داغؔ دہلوی، سید وحید الدین احمد بیخودؔ ہلوی، امیرؔ مینائی(۱۸۲۶ء
۔ ۱۹۰۰ء)، محسنؔ کاکوروی(۱۸۲۶ء۔ ۱۹۰۵ء)، شادؔ عظیم آباد، ( علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ (۱۸۷۷ء۔ ۱۹۳۸ء)، مولانا محمد علی جوہرؔ(۱۸۷۸ء۔ ۱۹۳۱ء)، حسرتؔ موہانی(۱۸۷۸ء۔ ۱۹۵۱ء)، مولانا غلام شہیدؔ ، آسیؔ غازی پوری، حسنؔ بریلوی، علامہ ضیاء القادری، محمد عبداللہ بیدلؔ، حافظ خلیل الدین حسن حافظؔ پھیلی بھیتی، محمد یوسف راسخؔ، منشی عبدالشکور خاں برقؔ اجمیری، محمد عبداللہ المعروف بہ امیر دولھا صوفیؔ، ممتاز علی ممتارؔ ناصری سبزواری، نثار احمد نثارؔ، محمد عابد حسین عابدؔ آغائی اور خلیلؔ صمدانی شامل ہیں۔ یہی شعراء جناب آزادؔ کے ہم عصر کہے جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض شعراء اور ہمعصروں نے آزادؔ صاحب کے کلام کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار نثر اور نظم میں کیا اور تقریظیں لکھیں جو آپ کے روح پرور نعتوں کے دیوان ’’دیوان آزاد‘‘ میں شامل ہیں۔
امتیاز الشعراء سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی
خمخانہ بیخودؔ کے جرعہ کشوں میں ایک حاجی شیخ محمد ابراہیم صاحب آزادؔ کا نام بھی درج رجسٹر شاگردان ہے۔ صوفی منش انسان ہیں حمد و نعت کہتے ہیں عاشقانہ شعر نہیں کہتے۔ ان کا کلام بقدر ان کے ذوق شعری اصلاح کا چنداں محتاج نہیں ہے کئی سال ہوئے میں نے ان کو اپنا خلیفہ بنا دیا تھا۔
نام آزادؔ وضع کے پابند
میرے شاگرد و میرے عاشق زار
ہیں یہ مداح سر ور عالم
نعت گوئی ہے خاص ان کا شعار
یہ محدث نہ یہ مورخ ہیں
یہ عشق نبی کے ہیں بیمار
ہیں یہ مداح سیرتِ نبوی
اور مداح ان کا بیخودؔ زار
محمد عبداللہ بیدلؔ
جناب منشی محمد عبد اللہ بیدؔل جو آپ کے ہم عصر تھے اور قبلہ استاد بیخودؔ دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ آزادؔ صاحب سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آزادؔ نے شاعری کا چراغ ہر جگہ روشن کیا اور یہ اصول کہ عشقیہ شاعری ایک بیہودہ گوئی اور کلاف شریعت ہے کو بہ احسن خوبی اپنے دیوان کے ذریعہ عوام الناس تک پہنچایا ہے۔ بیدلؔ نے قطعہ تاریخ دیوان آزادؔ پر ایک بڑی نظم لکھ کر دیوان آزادؔ کا خلاصہ بیان کر دیا ہے۔ آپ نے آزاد کے کلام کو کچھ اس طرح داد تحسین دی ہے۔
کلام آزادؔ چھپ گیا ہے
نرالا ہے انوکھا ہے نیا ہے
حدیثوں سے لکھی سیرت نبی کی
کلام اس میں کرے طاقت کسی کی
عزیز احمد (آزاد صاحب کے چھوٹے بھائی)
میرے مخدومی محترم اخی معظم نے جو ثنائے محبوب کا گلدستہ پیش کیا ہے اس کو دیکھ کر انصاف سےے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ جس سچائی اور سلاست سے بپابندی زبان اردو صحیح صحیح واقعات سیرت نبوی بیان کیے ہیں اور جو مضامین نکالے ہیں یہ رنگ اور دیوان یا کلیات میں بہت کم ملے گا معلوم ہوتا ہے ۔ قدرت نے یہ اخی محترم کے لیے محفوظ رکھا تھا جو آپ کو دیا گیا :
این سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
ثنائے محبوب خالق کو سامنے رکھئے اور اس کا ہر شعر پڑھیئے اور مذاق سلیم سے مزے لیجئے ہر غزل ہر شعر میں آپ کو جدت و خوبی معلوم ہو گی۔ ثنائے محبوب خالق کے دوسرے حصہ کو جب آپ مطالعہ فرمائیں گے تو معلوم ہو گا کہ نہایت نا زک و دقیق مسائل تصوف کو جو زبان سے اور نثر میں بھی مشکل سے ادا ہوتے ہیں اس کو نہایت خوبی سے نظم میں بیان کیا گیا اور قصائد میں بجائے بہاریہ تشبیب کے نئے نئے طریقہ سے حمد و نعت بیان کی گئی ہے گویا نعت گو قصائد گاران کو صحیح راستہ دکھا یا گیا ہے بعض موقعہ پر نعت سے حمد پیدا کی گئی فرماتے ہیں۔
محمد اسرئیل (آزادؔ صاحب کے چچا زاد بھائی)
آپ کے کلام میں حسن فصاحت و اسلیب بلاغت کی جھلک شروع سے آخر تک نظر آتی ہے۔
ترکیب کی دلاویزی روز رہ محاوروں کی بے تکلفی نے چار چاند لگا رکھے ہیں۔ بے ساختہ پن اور روانی کا یہ عالم ہے کہ ایک بحر امواج موجزن ہے جس کی لہروں میں تکلف و آوارہوخس و خاشاک کی طرح بہے چلے جا رہے ہیں اور زور طبیعت ان کی پروا نہیں کرتا واقعہ نگاری اور جزئی واقعات کی تفصیل قادر الکلام پر دلالت کر رہی ہے اور لطف یہ ہے کہ جو کچھ کہا نرالے ڈھنگ سے کہا سچ یہ ہے کہ مصنف اپنی طرز حسنہ کا موجد ہے جس نے ارباب سخن کے لیے ایک شاہراہ کامیابی تیار کر دیا ہے جس کے اتباع میں منزل مقصود تک رسائی یقینی ہے۔ دیوان کی ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ کو ئی لفظ بھی شریعت کے دائرہ سے باہر نہیں
شیخ علی احمد (تحصیلدار)، آگرہ (برادر کلاں آزاد صاحب)
آزادؔ صاحب کہنہ مشق اور خوش بیان ہیں غلط تر کیبوں اور غیر مانوس الفاظ سے آپ کا کلام بالکل پاک ہے۔ ہر غزل محشرِ نعت اور جنتِ حمد ہے۔ بعض مقامات پر احادیث اور آیتِ قرآنی کا ترجمہ اس خوبی سے نظم فرمایا ہے کہ پڑھ کر جی خوش ہوتا ہے۔ آپ کی شاعری صاف زبان اور اچھے محاورات کا آئینہ دار ہے اسی طرح جذبات بھی بہ کثرت رکھتی ہے۔ میں یہ بتا دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جناب آزاد دنیاوی شاعری میں کیا پوزیشن رکھتے ہیں۔ آزادؔ صاحب حضرت بیخودؔ دہلوی جانشین فصیح الملک مرزا داغؔ دہلوی کے ارشد تلامذہ میں ہیں اور راجپوتانہ کے اساتذہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔
محمد عبداللہ المعروف بہ امیر دولھا صو فیؔ
فصاحت و بلاغت دونوں اس میں
کلام آزادؔ کا صل علیٰ ہے
نہ کیوں سر پر رکھیں دیوان آزاد
کہ اس میں حمد و نعت مصطفیٰ ہے
حسن احمد حسنؔ (آزادؔ صاحب کے ماموں زاد بھائی)
محبوب خالق، اللہ اللہ کیا جلوۂ ناز مرغوب ہے نعت شمع ہدایت کا نیا اسلوب ہے حرف حرف تفسیر عاطفت ہے لفظ لفظ خرمن گل بہجت ہے ہر شعر چمن مدحت شگفتہ ہے ہر غزل پر لعبت چین آشفتہ نیا ساز ہے ہر خیال۔ نظم آئینہ افروز ہے روانیِ طبع رفرف معرفت سے سوا ہے تخیل عالی نغمہ جبریل کی ادا ہے۔ دل کہ واقف اسرار گفتار ہے لطف اٹھاتا ہے خرمن گل پر بہار کو دیکھ دیکھ کر کھلا جاتا ہے الحق حکایات شیخ وہ نگار پرُ بہار ہے کہ کیف حسب یثرب جس کا سنگھار ہے حیران ہوں اسے آزادؔ کی تحریر کہوں دفتر تنویر سمجھوں سارا کلام عجیب ہے چمر سخن گنجینہ غریب ہے با لخصوص میرے لیے چراغ لامعہ ہے کہ اس کی روشنی میں گل مدح مرغوب نظر آیا ہے اگر قسمت سے دیار حبیب پہنچ گیا تو اس گل کو نذر گلشن کروں گا۔
دیوان نعت وہ کہا آزادؔ نے حسنؔ
بے شبہ جو کمال میں اپنی ہے خود نظیر
دیکھی جو مدح اس میں شہ بے مثال
لکھا ہے سال طبع بھی اوصاف بے نظیر
محمد یوسف راسخؔ
آزادؔ تیری آج زمانے میں دھوم ہے
دیوان تیرا طبع ہوا ہے وہ لا جواب
جو بھی کہی ہے تو نے پتے کی کہی ہے سب
تاریخی حیثیت سے ہے ہر نکتہ اک کتاب
ہے سیرۃ النبی ترے دیوان کا ہر ورق
تاریخ اور سیر کا خلاصہ ہے یہ کتاب
ارباب ذوق لکھیں گے تفریظ دل پسند
راسخؔ سے ایک شعر بھی نکلا نہ کامیاب
حکیم محمد ممتاز علی ممتازؔ ناصریؔ سبزواری
میرے عزیز کی اللہ نے ہمیشہ اپنے فضل و کرم سے تمنائیں پوری کی ہیں آخر میں حج و زیارت روضہ اقدس اور اس دیوان کے طبع ہونے کی بڑی آرزو تھی جو یہ بھی اس کے کرم سے پوری ہوئیں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عزیز موصوف کو ہمیشہ مقاصد دارین میں کامیاب رکھے اور یہ دیوان مقبول خدا و رسول ہو کر سرمہ چشم اہل بینش رہے۔
نثار احمد نثارؔ
آنکھوں کی ضیا کیوں نہ ہو آزادؔ کا دیوان
ہے نور فشاں مہر درخشان مدینہ
ہر بات کے قرآن و احادیث ہیں شاہد
ثابت ہے تیری نظم سے یوں شان مدینہ
جناب آزادؔ کے کلام میں خلوص و محبت، عقیدت و احترام کی خو شبو مشک و عنبر کی مانند موجود ہے ۔ آپ کے نعتیہ کلام کو پڑھ کر ہماری روح تازہ ہو جاتی ہے اور دل و دماغ پر خوشگوار اثرات رونما ہوتے ہیں بسا اوقات وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ سمجھنے والا بہ خوبی محسوس کر سکتا ہے کہ جناب آزادؔ نے رسمی طور پر نعت نہیں کہی بلکہ ان کی فضا میں عشق رسولﷺ سے عقیدت و محبت کی بجلیاں کوند رہی ہیں۔ انہوں نے ہر نفس میں بوئے رسولﷺ کو محسوس کیا جس کی واضح مہک ان کے کلام میں رقصاں دکھا ئی دیتی ہے۔ آپ کے کلام کو توجہ سے پڑھنے والا یہ تاثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ شاعر کو اپنے محبوب سے بے پناہ وابستگی ہے۔ ان کے کلام سے ان کی علمیت، خاص طور پر قرآن، تفسیر اور حدیث نبوی ﷺ اور فن شاعری کے ادراک کا علم ہوتا ہے۔ آپ کے بارے میں جناب بیخودؔ دہلوی کی یہ رائے کہ ’’ان کا کلام شعری اصلاح کا چنداں محتاج نہیں ہے ‘‘ اہمیت رکھتا ہے اور آزادؔ صاحب کو ایک عظیم شاعر تسلیم کرنے کے لیے کافی ہے۔
آپ نے عربی، فارسی اور اردو کے الفاظ اور محاورات کا خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر آزاد مکمل طور پر شعر و سخن کی جانب مائل ہوتے، ان کے کلام کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ طبع کرنے کا اہتمام کیا جا تا اور اس کی مناسب تشہیر بھی کی جاتی تو ادب اور شعر و شاعری کے دنیا میں دیگر معروف شعراء اور ادیبوں کی طرح آزادؔ صاحب کا مقام محفوظ ہوتا اور شہرت کی بلندی پر ہوتے لیکن عشقِ مصطفیٰ میں مجسم ڈوبے ہوئے اس عاشق رسولﷺ نے شعر گوئی کو اپنے جذبہ عشق رسولﷺ کے اظہار کا وسیلہ بنا یا۔ انہیں نام و نمود کی ہر گز پروا نہیں تھی اور نہ ہی انہوں اس جانب توجہ کی۔ آپ کے کلام پر متعدد شعراء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’رعنا لکھنوی نے جو نہایت قابل سخنور و خوش گو ہیں بہت ہی قابلیت و محنت سے اس دیوان (دیوان آزادؔ)کا مقدمہ لکھا تھا بوجہ اس کے کہ عزیز موصوف کو میرے سے خاص سعادت مندانہ تعلق ہے انہوں نے معائب سے در گزر کر کے محاسن کی طرف توجہ کی گو صاحب موصوف نے خود اپنے شوق سے مقدمہ لکھا تھا لیکن میں نے شامل کرنا مناسب نہ سمجھا کیوں کہ یہ دیوان کسی اور سے داد لینے کی غرض سے طبع نہیں کرایا جاتا اس کو شامل نہ کیے جانے کے متعلق میں نہایت شرمندگی سے عزیز موصوف سے معافی چاہتا ہوں اور اسی طرح عزیز کامل محمد یوسف راسخؔ نے بہت محنت سے تبصرہ لکھا تھا وہ بھی شامل نہیں کیا گیا عزیز موصوف سے بھی معافی چاہتا ہوں ‘‘۔ اس بات سے یہ اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ آزادؔ صاحب اپنی تعریف و توصیف کے ہر گز ہر گز قائل نہ تھے۔ افسوس ان احباب نے جو ہندوستان میں ان کے ارد گرد تھے آزاد صاحب کی علمی سرمائے کو محفوظ کرنے کی جانب توجہ نہیں دی۔ دیوان کیوں کہ طبع شدہ تھا وہ کسی طرح محفوظ رہا اور اس کے چند نسخے پاکستان آ گئے آزاد صاحب نے نثر بھی لکھی، تصوف آپ کا خاص موضوع تھا افسوس آپ کا کل علمی سر ما یہ ہندوستان ہی میں رہ گیا۔ ان سے متعلق جو احباب ہندوستان میں تھے یا اب موجود ہیں افسوس ان کی توجہ اس طرف نہیں رہی اور نہ ہی ان میں یہ ذوق پایا جاتا ہے کہ اس جانب توجہ کرتے۔
آزادؔ ؒ صاحب نے طویل علالت کے بعد قیام پاکستان سے ڈھائی ماہ قبل ۸ جون ۱۹۴۷ء کی شب ۷۹ سال کی عمر میں اس دنیائے فانی سے رحلت فرمائی، آپ بیکانیر میں اپنے آبائی قبرستان میں مدفون ہیں۔
(مطبوعہ دیوان آزادؔ، طبع دوم، ۲۰۰۵ء)
پروفیسر ڈاکٹر عبد المعید
دنیائے لائبریرین شپ کی ایک عہد ساز شخصیت
ڈاکٹر عبد المعید سے میرا استاد اور شاگرد کا رشتہ ہے۔ آپ میرے ان اساتذہ میں سے ہیں جن کی شخصیت، علمیت اور قابلیت نے میری پیشہ ورانہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، میں نے آپ سے بہت کچھ حاصل کیا۔ معید صاحب کو پہلی بار دیکھ کر میرا تاثر یہ تھا کہ یہ ایک عام انسان نہیں بلکہ علمیت اور قابلیت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ان چند انسانوں میں سے ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ۱۹۷۱ء کی بات ہے گریجویشن کے بعد میں جامعہ کراچی میں داخلہ لینے کی خواہش لیے ڈرا اور سہما ہوا جامعہ کراچی کی لائبریری جو اب ڈاکٹر محمود حسین لائبریری ہے کی پانچویں منزل پر قائم شعبہ لائبریری سائنس پہنچا جہاں ایک کمرے کے باہر دروازے پر غنی الا کرم سبزواری کے نام کی تختی لگی تھی، دیکھ کر اطمینان ہوا کیوں کہ مجھے ان ہی سے ملاقات کرنا تھی۔ اکرم صاحب اس وقت شعبہ کے ایک سینئر استاد اور انتظامی امور سے وابستہ تھے۔ مدعا بیان کیا کہ میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینے کی خواہش رکھتا ہوں تا کہ اکنامکس میں ایم اے کر سکوں، ارادہ بینکر بننے کا ہے۔ اکرم صاحب نے لائبریری سائنس کی ایسی پر کشش تصویر پیش کی کہ میں نے اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ میں شعبہ لائبریری سائنس ہی میں داخلہ لوں گا، میرا داخلہ معاشیات کے بجائے شعبہ لائبریری سائنس میں ہو گیا۔ شعبہ میں میرا پہلا دن تھا تمام کمروں کے چاروں اطراف کھلی ہوئی فضا نے کلاس روم کو ضرورت سے زیادہ روشن کر دیا تھا بلکہ چبھتی ہوئی روشنی کا احساس نمایاں تھا۔ کلاس روم طلبہ اور طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہ ایم اے سال اول (لائبریری سائنس) کی کلاس تھی۔ تمام طلبہ نے جامعہ کے شوق میں کالے رنگ کے گاؤن زیب تن کیے ہوئے تھے (اُس زمانے میں جامعہ کے ہر طالب علم کے لیے کالا گاؤن پہننا لازمی تھا)۔ کلاس روم میں مکمل خاموشی، پہلے دن کے خوف نے ماحول کو کچھ زیادہ ہی خاموش بنا دیا تھا۔ پہلی کلاس تعارفی کلاس تھی شعبہ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید، غنی الا کرم سبزواری(مشیر امور طلبہ)، سید جلال الدین حیدر اور اظہار الحق ضیاء کلاس میں موجود تھے۔ صدر شعبہ ڈاکٹر عبدالمعید صاحب نے تمہیدی کلمات کہے، شعبہ کا تعارف کرایا، اساتذہ کے بارے میں بتا یا، ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سے صاف ظاہر تھا کہ کو ئی عالم فاضل شخص گفتگو کر رہا ہے۔ گندمی رنگ، چھوٹا قد، گٹھا ہوا جسم، روشن آنکھیں، ہنستا ہوا چہرہ، سیاہ بال، کلین شیو، کالے رنگ کے چشمہ نے ان کی شخصیت کو حسین بنا دیا تھا۔
ڈاکٹر عبدالمعید ہندوستان کے ایک معزز اور مسلمان گھرانے میں ۲۰ جنوری ۱۹۲۰ء کو بازید پور(Bazidpur)، ضلع مظفرپور، صوبہ بہار میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد اور دادا سید احمد شہید اور اسمعیل شہید کی تحریک مجاہدین کے سرگرم کارکن رہ چکے تھے جنہوں نے سکھوں اور انگریزوں کے خلاف جد و جہد میں بھر پور حصہ لیا تھا۔ معید صاحب نے خاندانی روایات کے بر خلاف تعلیم کے حصول کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہائی اسکول کا امتحان اور انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد ۱۹۴۱ء میں گریجویشن کیا، آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز لائبریرین کی حیثیت سے کیا، پروفیشن کا انتخاب بھی آپ نے از خود کیا، جو آپ کا علم اور کتاب سے محبت اور عقیدت کی غمازی کرتا ہے۔ آپ نے ۱۹۴۲ء میں اینگلو عربک کالج میں لائبریرین کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا، اس دوران آپ لائبریرین شپ کی عملی تربیت کی جانب مائل ہوئے اور ۱۹۴۳ء میں کلکتہ تشریف لے گئے جہاں پر آپ بنگال لائبریری ایسو سی ایشن کے تحت منعقد ہونے والے لائبریری سائنس کے سر ٹیفیکیٹ کورس میں شریک ہوئے جو کلکتہ یونیورسٹی کے لائبریرین ڈاکٹر نہار رنجن رائے کی سر پرستی میں منعقد ہو رہا تھا۔ کلکتہ کے قیام کے دوران معید صاحب لائبریرین شپ کے زیادہ نزدیک آ گئے آپ نے برطانوی ہندوستان کی سب سے بڑی لائبریری ’’اپمیریل لائبریری آف انڈیا ‘‘ کا مطالعہ انتہائی باریک بینی سے کیا اس کے علاوہ شمالی ہندوستان کے کئی بڑے کتب خانوں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران آپ کو برطا نوی ہندوستان کے نامور لائبریرینز سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا، خاص طور پر امپیریل لائبریری کے لائبریرین خان بہادر اسد اللہ خان کی صحبت حاصل ہوئی، معید صاحب خان بہادر سے بہت زیادہ متاثر تھے عام گفتگو کے علاوہ کلاس میں بھی خان بہادر صاحب کا تذکرہ بہت احترام سے کیا کرتے تھے۔ خان بہادر صاحب امپیر لائبریری کے لائبریرین ہونے کے علاوہ لائبریری ٹریننگ کلاس کے بانی بھی تھے اور آپ کو انڈین لائبریری ایسو سی ایشن کے بانی سیکریٹری جنرل ہونے کا اعزاز بھی حا صل ہے۔
کلکتہ سے واپس دہلی آ کر آپ نے عرابک کالج، نئی دہلی کے لائبریرین کی حیثیت سے خدمات شروع کیں۔ اب آپ پہلے سے زیادہ پروفیشنل ہو چکے تھے۔ آپ نے تین سال(۱۹۴۲ء۔ ۱۹۴۵ء) لائبریری کی ترقی اور ترتیب کے امور انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دئے۔ اس کے بعد آپ کو دہلی یونیورسٹی لائبریری میں لائبریری اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا آپ نے دو سال (۱۹۴۶ء۔ ۱۹۴۷ء) یہاں خدمات انجام دیں۔ قیام پاکستان کے فوری بعد آپ نے دیگر مسلمانوں کی طرح ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اور لاہور کو اپنا اولین مسکن بنا یا۔ پنجاب پبلک لائبریری کے خواجہ نور الٰہیٰ جو اس وقت لائبریرین تھے کے ماتحت آپ نے چیف کیٹلاگر کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔ خواجہ صاحب آپ کو دہلی کے زمانے سے جانتے تھے۔ لاہور میں لائبریری سرگرمیوں کا آغاز ہوا قیام پا کستان(۱۹۴۷ء) کے وقت پنجاب لائبریری اسکول بند ہو گیا تھا، ایسو سی ایشن کی سر گرمیاں ماند پڑ چکی تھیں اور ماڈرن لائبریرین بھی بند ہو گیا تھا، لائبریری پروفیشن کے تقریباً تمام ہی سر گرم کارکن ہندو تھے جنہوں نے بھارت چلے جا نے کا فیصلہ کیاجس کے باعث لائبریری پروفیشن میں ایک خلا پیدا ہو گیا۔ اب تمام تر دارومدار لائبریرین شپ کے پیشے سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات پر تھا جنہوں نے پاکستان ہجرت کی تھی۔ ۱۹۴۸ ء کے ابتدائی ایام میں فضل الٰہی مرحوم، عبدالمعید اور خواجہ نور الٰہی کی کوششوں سے پہلی انجمن ’’ پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن‘‘ ۶ جون ۱۹۴۸ء کو پنجاب پبلک لائبریری میں کام کرنے والے عملے کے تعاون سے معرض وجود میں آئی۔ جس کے صدر خلیفہ شجاع الدین اور ناصر احمدسیکریٹری مقرر ہوئے۔ اسی ایسوسی ایشن نے ایک ڈپلومہ کورس بھی شروع کیا جس کے ڈائریکٹر فضل الٰہی مقرر ہوئے۔ سہ ماہی رسالہ ’ماڈرن لائبریرین‘ فضل الٰہی اور عبدالمعید کی ادارت میں جاری کیا۔ جس کے صرف تین شمارے شائع ہو سکے۔
کراچی میں سندھ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آ چکا تھا، ڈاکٹر عبدالمعید نے لاہور سے کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا، آپ سندھ یونیورسٹی کے اولین لائبریرین مقرر ہوئے اور چار سال (۱۹۴۸ء۔ ۱۹۵۲ء) تک لائبریری کے قیام اور ترقی کے اقدامات کیے، کراچی یونیورسٹی کے قیام اور سندھ یونیورسٹی کے حیدر آباد منتقل ہونے کے بعد آپ کراچی یونیورسٹی کے (۱۹۵۲ء) اولین اسسٹنٹ لائبریرین (انچارج) مقرر ہوئے۔ اب معید صاحب کی بھر پور لائبریری سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ ۱۹۵۴ء میں ڈاکٹر صاحب مشیگن یونیورسٹی، امریکہ سے لائبریری سائنس میں ایم ایل ایس کرنے تشریف لے گئے، ۱۹۵۵ء میں واپس تشریف لائے اور جامعہ میں شعبہ لائبریری سائنس کے قیام میں کامیابی حاصل کی۔ آپ یہ محسوس کر رہے تھے کہ لائبریری سائنس کی اعلیٰ تعلیم(پی ایچ ڈی) بھی پروفیشن کے لیے ضروری ہے چنانچہ ۱۹۶۱ء میں آپ یونیورسٹی آف ایلونائے، امریکہ سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے تشریف لے گئے، ۱۹۶۴ء میں واپسی ہوئی۔ ۱۹۷۳ء میں آپ لائبریری سائنس کی تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں نائیجیریا تشریف لے گئے۔ بعد از اں آپ نے ۱۹۷۶ء میں جامعہ کراچی سے استعفیٰ دے دیا، ۱۹۸۲ء میں آپ مستقل وطن تشریف لے آئے لیکن آپ کی صحت کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی۔ آپ ۱۳ جنوری ۱۹۸۴ء کو کراچی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیائے فانی سے رحلت کر گئے۔ آپ جامعہ کراچی کے قبرستان میں مدفون ہیں، راقم کو تجہیز و تدفین میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کو کئی انجمنوں کی سر پرستی اور سربراہی کا اعزاز حاصل ہے، متعدد انجمنوں کے آپ بانی رکن یا عہدیدار ہیں ان میں پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن (۱۹۴۷ء)، پا کستان لائبریری ایسو سی ایشن (۶۰ء۔ ۱۹۵۷ء) پہلے جنرل سیکریٹری، پاکستان ببلو گرافیکل ور کنگ گروپ (۶۰ء۔ ۱۹۴۹ء ) پہلے نائب صدر، کراچی لائبریری ایسو سی ایشن (۶۰ء۔ ۱۹۴۹ء)پہلے نائب صدر، کراچی یونیورسٹی لائبریری ایسو سی ایشن سائنس المنائی ایسوسی ایشن (۸۴۔ ۱۹۵۶ء) سر پرست، لائبریری پروموشن بیورو (۸۴ء۔ ۱۹۶۶ء)، ، ایسین فیڈریشن آف لائبریری ایسو سی ایشن (۱۹۵۷ء)نائب صدر، انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات (۱۹۶۰ء) شامل ہیں۔
ڈاکٹر عبد المعید نے ڈاکٹر محمود حسین لائبریری، جامعہ کراچی کی بنیاد ڈالی اور اسے بلندی پر پہنچایا ساتھ ہی شعبہ لائبریری سائنس کے قیام کو بھی ممکن بنایا آپ کی کوششوں سے یہ شعبہ ۱۰ اگست ۱۹۵۶ء کو معرض وجود میں آیا اور آپ اس کے اولین صدر شعبہ مقرر ہوئے جس کی تقلید ملک کی دیگر جامعات نے کی۔ شعبہ لائبریری سائنس ڈاکٹر عبد المعید کے زندہ جاوید کارناموں میں سے ایک ہے یہاں پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر تعلیم کا آغاز ہوا بعد ازاں لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کا آغاز بھی ڈاکٹر صاحب ہی کے دور میں ہوا۔ ۱۹۸۰ء میں شعبہ لائبریری سائنس سے جناب عبدالحلیم چشتی نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ان کے نگراں ڈاکٹر عبد المعید ہی تھے۔ ۱۹۵۶ء سے آج تک سینکڑوں افراد نے لائبریری سائنس میں تعلیم حاصل کی اور وہ اندرون و بیرون ملک لائبریری خدمات انجام دے رہے ہیں یہ معید صاحب ہی کا لگا یا ہوا درخت ہے جس کی شاخیں اب ملک سے نکل کر بیرون ملک تمام دنیا میں پھیل چکی ہیں۔ آپ نے ماہرین علم کتب خانہ کی ایک بہت بڑی تعداد شاگردوں کی صورت میں تیار کی ہے شخصیت گری کا یہ اعجاز بھی آپ ہی کا مرہون منت ہے۔
۱۹۸۱ء میں شعبہ کی سلور جوبلی کا انعقاد ہوا جس میں ڈاکٹر صاحب نے بنفس نفیس شرکت کی۔ اس موقع پر لائبریری پروموشن بیورو نے ڈاکٹر صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک کتاب بعنوان ’’پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید اور پاکستان لائبریرین شپ ‘‘ شائع کی۔ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور کتب خانوی خدمات کی خوبصورت تصویر پیش کرتی ہے۔ اس مجموعہ مضامین کو مرتب کرنے کا اعزاز مشترک مولف کی حیثیت سے راقم الحروف کو حاصل ہے کتاب کی تعارفی تقریب ۲۹ اگست ۱۹۸۱ء کو لیاقت میموریل لائبریری آڈیٹوریم میں میں منعقد ہوئی، صوبائی وزیر تعلیم جسٹس سید غوث علی شاہ تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر عبدالمعید نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ حضرات نے میری جس قدر قدر دانی کی ہے معلوم نہیں میں اس کا مستحق ہوں یا نہیں۔ مقررین نے جو کچھ میرے متعلق کہا میں ان کا بے حد مشکور ہوں۔ کتاب کے بارے میں کئی مقررین نے اظہار خیال کیا۔
آج پاکستان میں کتب خانوں اور لائبریری سائنس کی تعلیم کو جو مقام حاصل ہے وہ ڈاکٹر صاحب کی جد و جہد اور کاوشوں کا رہین منت ہے۔ ۲۰۰۶ء میں پاکستان میں لائبریری سائنس کی تعلیم کی تحریک کو پچاس سال مکمل ہو گئے۔ شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی نے پچاس سال مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی کا انعقاد۱۸۔ ۱۹ ستمبر ۲۰۰۶ء کو کیا، افتتاح جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر قاسم پیرزادہ صدیقی نے کیا۔ تقریبات دو دن جاری رہیں۔ اس دوران متعدد اجلاس مختلف موضوعات پر منعقد ہوئے جس میں کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں سے بھی ماہرین لائبریری سائنس نے شرکت کی۔ راقم الحروف کو ان تقریبات کے ایک اجلاس کی صدارت کا اعزاز حاصل ہوا جس کا موضوع ’’ پاکستان میں لائبریریز اورپاکستان لائبریرین شپ ‘‘ تھا، اس کے علاوہ ایک اور اجلاس جس کا موضوع ’’ پاکستان میں لائبریری ایسوسی ایشنز کا کردار‘‘ تھا راقم نے ایک مقرر کی حیثیت سے متعلقہ موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ یہ دونوں اجلاس ۱۹ ستمبر ۲۰۰۶ء کو ہوئے۔ تقریبات میں دیگر ماہرین نے بھی اظہار خیال کیا۔ گولڈن جوبلی تقریب میں شعبہ کے بانی ڈاکٹر عبد المعید کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ جب تک لائبریری سائنس کی تعلیم جاری ہے ڈاکٹر عبد المعید کو اسی طرح خراج عقیدت پیش کیا جاتا رہے گا۔ المختصر ڈاکٹر عبد المعید کو پاکستان میں لائبریری تعلیم کی تحریک میں جو اولیت حاصل ہے وہ ہمیشہ رہے گی اور ان کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ وا صلؔ عثمانی کے بقول۔
جو بجھ گیا تو ہوا اور بھی درخشندہ
چراغ ایسے لہو کے جلا گیا اک شخص
(مطبوعہ ماہنامہ کتاب، لاہور۔ جلد ۱۶، شمارہ ۳، جنوری ۱۹۸۲ء)
پروفیسرڈاکٹر انیس خورشید
خطوط، یادداشتیں اور تاثرات
پاکستان لائبریرین شپ میں پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید کا نام معروف ہی نہیں معتبر بھی ہے۔ لائبریری سائنس کے شعبے میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والے آپ اولین شخص ہیں۔ راقم الحروف کوجامعہ کراچی میں آپ کا شاگرد(۱۹۷۱ء۔ ۱۹۷۲ء) ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس تعلق کو میں بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ استاد و شاگرد کا مقدس رشتہ ایسا نہیں جو ایک بار قائم ہونے کے بعد توڑا جا سکے۔ اسلامی تہذیب میں پروان چڑھے ہوئے لوگ اس رشتے کو ایک مقدس رشتہ تصور کرتے ہیں جو تمام دوسرے تعلقات پر حاوی ہے۔ میں نے بھی ڈاکٹر صاحب سے اپنے اس رشتہ کو باوجود بعض اختلافات کے ہمیشہ مقدس سمجھا۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا دوسرا تعلق یہ ہے کہ میں نے جس موضوع (لائبریری سائنس )پر لکھنا شروع کیا تو میرے پیش نظر دیگر مصنفین کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی تحریریں تھیں جن سے میں متاثر ہوا اور ان سے استفا دہ بھی کیا۔ ڈاکٹر صاحب سے متاثر ہونے اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی تیسری اہم وجہ یہ ہے میں نے ڈاکٹر صاحب کو تمام زندگی با وجود جسمانی کمزوری کے شدید محنت کرتے ہوئے پایا۔ ڈاکٹر صاحب کو ۱۹۷۱ء میں پہلی بار شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی میں دیکھا، شعبہ لائبریری کی پانچویں منزل پر تھا، تمام کلاسیں اوپر ہی ہوا کرتی تھیں صرف ڈاکٹر انیس خور رشید صاحب کی کلاس زمینی منزل پر ہوا کرتی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب سیڑھیوں پر چڑھ نہیں سکتے تھے کیوں کہ وہ پیروں میں فالج یا پولیوں کے مرض میں مبتلا تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی آواز بھی دھیمی اور قدرِ سست روی کا شکار تھی۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے آپ کو قلم کی طاقت سے نوازا، میں نے ڈاکٹر صاحب کو مسلسل لکھتے دیکھا، لائبریرین شپ کے موضوع پر آپ کی تخلیقات معیار و مقدار ہر اعتبار سے پاکستان لائبریرین شپ کی پوری تاریخ میں لاثانی ہیں۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کے اس عمل نے متاثر کیا کہ انہوں نے اپنی بیماری، کمزوریِ صحت کے باوجود قلم کی روانی کو کم نہ ہونے دیا، لکھتے رہے اور چھپتے رہے۔ آپ کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جسمانی کمزوری انسان کے بلند مقاصد کے آڑے نہیں آ سکتی۔
ارادے جن کے پختہ ہوں نگاہ جن کی بلند ہو
ت ڈاکٹر انیس خورشید صاحب صاحب جامعہ کراچی کے سابق الا وّلون میں سے ہیں۔ آپ نے جس محنت، جفاکشی اور لگن سے جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس کی آبیاری کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے جامعہ کراچی کو اپنی عمر کا بہترین حصہ عطا کیا اور اپنی صلاحیتوں کا نچوڑ دیا، ایک کہنہ مشق لائبریرین، تجربہ کار اور قابل استاد ہونے کے ساتھ ساتھ لائبریری سائنس کے موضوع پر آپ کی متعدد تصانیف و تالیفات اور بے شمار مضامین قیمتی اثاثہ ہیں۔ پاکستان میں کتب خانوں کی ترقی، لائبریری سائنس کی تعلیم کی تحریک، پیشہ ورانہ مطبوعات اور کتب خانوں کی انجمنوں کی کارکردگی کی تاریخ ڈاکٹر صاحب کے تذکرے کے بغیر ادھوری رہے گی۔ بقول الحاج محمد زبیر’ ڈاکٹر صاحب جیسے مجموعہ محاسن اشخاص کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں ‘‘۔
پاکستان میں لائبریرین شپ کے شعبہ میں ایک نقصان دہ عمل یہ ہوا کہ جس شخص نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی یا وہ کسی بھی جامعہ یا معیاری ادارے سے وابستہ ہوا اس نے اپنے آپ کو بیرون ملک روزگار سے وابستہ کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کا یہ شعبہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنر مندوں اور تجربہ کار افراد سے محروم ہوتا چلا گیا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اس شعبہ میں پی ایچ ڈی حاصل کر لینے والے اکثر پاکستانیوں نے ملک میں خدمات فراہم کرنے کو ثانوی حیثیت دی، ڈالر اور ریال کی چکا چوند روشنی نے انہیں اپنی جانب متوجہ کیا اور وہ اس عارضی چمک کے سمندر میں بہہ گئے۔ اعلیٰ تعلیم کے حامل ایسے لوگوں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے اپنے وطن میں رہتے ہوئے خدمت کو اپنا نصب العین بنا یا اور تمام عمر اپنے ہی ملک میں گزار دی۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر انیس خورشید صاحب بھی ہیں کہ جن کے لیے باوجود خراب صحت کے بیرون ملک ملازمت کا حصول مشکل نہیں تھا لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور وطنِ عزیز میں رہتے ہوئے خدمت کو اپنا شعار بنا یا۔ اپنے ریٹائرمنٹ تک جامعہ کراچی سے منسلک رہے۔آپ کا یہ عمل آپ کو ممتاز اور محترم بنا تا ہے۔
ڈاکٹر انیس خورشید صاحب نے کراچی لائبریری ایسو سی ایشن کے سر ٹیفکیٹ کورس (۱۹۵۲ء) سے پیشہ ورانہ تعلیم کا آغاز کیا، ۱۹۵۷ء میں جامعہ کراچی سے لائبریری سا ئنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ اور امریکہ کی(Rutgers-State University of N J)سے ۱۹۵۹ میں ایم ایل آئی ایس کیا۔ امریکہ کی(University of Pittsburgh) سے ۱۹۶۹ء میں لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ آپ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز جامعہ کراچی کے کتب خانے سے (۱۹۵۴ء)بطور کلاسیفائر کے کیا، ستمبر ۱۹۵۹ء میں شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی میں آپ کا تقرر بطور جزو وقتی لیکچر ر کے ہوا بعد ازاں ۱۹۶۲ء میں کل وقتی لیکچر ر ہوئے اور ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے ۱۹۷۹ء میں پروفیسر ہوئے اس دوران آپ کئی بار صدر شعبہ کے فرائض انجام دیتے رہے اور اسی حیثیت سے ۱۹۸۶ء میں ریٹائر ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب کو پاکستان لائبریرین شپ کے ایک مستند اور معتبر محقق، مصنف اور مولف ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ کا تحریری سرمایہ پاکستان لائبریرین شپ کی تاریخ کا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ پاکستان میں لائبریری سائنس کی تعلیم کے فروغ میں بھی آپ کی خدمات قابل قدر ہیں۔ جامعہ کراچی میں شعبہ لائبریری سائنس کا قیام پرو فیسر ڈاکٹر عبدالمعید کا مرہون منت ہے جب کہ اسی شعبہ میں ایم ایل ایس(ایم اے لائبریری سائنس) کا آغاز ڈاکٹر انیس خورشید کی کوششوں کے باعث ۱۹۶۲ء میں ممکن ہو سکا۔ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن سے آپ طویل عرصہ تک وابستہ رہے اور مختلف حیثیتوں سے بے بہا خدمات انجام دیں، متعدد کانفرنسوں کی روئیدادیں مر تب کیں، کلسا (KULSAA) کے اولین چیرمین رہے، پاکستان لائبریری ریویو کے مدیر اعلیٰ بھی رہے، قائد اعظم محمد علی جناح پر کتابیات کی تدوین، ٹیکنیکل ورکنگ گروپ کی رپورٹ، پاکستانی ناموں کی کیٹلاگ سازی، لائبریری قانون کا مسودہ، پائیلٹ پبلک لائبریری اسکیم آپ کے اہم کارنامے ہیں جنہیں پاکستان لائبریرین شپ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب پر متعدد مضامین تحریر کیے گئے اور آئندہ بھی تحریر کیے جائیں گے، پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر نے ڈاکٹر صاحب کے ریٹائرمنٹ پر آپ کی شخصیت اور علمی و علمی خدمات پر ایک کتاب بعنوان Making of Librarianship in Pakistan: Presentation volume to honour Prof. Dr. Anis Khurshid on his retirementبھی مر تب کی۔ یہ کتاب ڈاکٹر انیس خورشید کی شخصیت اور لائبریری خدمات کا سیر حاصل احاطہ کرتی ہے۔ اس مجموعہ میں پاکستان اور بیرون ملک سے تعلق رکھنے والی ۱۵ شخصیات کے مضامین شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان لائبریرین شپ کی وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں ’’صدارتی تمغہ حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا جو پاکستان لائبریرین شپ کے لیے بھی ایک اعزاز ہے۔
ڈاکٹر انیس خورشید صاحب سے میرا خط و کتابت کا رشتہ قائم رہا گو کہ ہم ایک ہی شہر کے باسی ہیں۔ آپ کی ایک خوبی یہ بھی میں نے دیکھی کہ آپ نے ہمیشہ میرے خط یا جب کبھی میں نے اپنی کوئی بھی تصنیف آپ کو بھیجی تو آپ نے بذریعہ ڈاک اس کی رسید سے ضرور نوازا، گو وہ تحریر مختصر ہی ہوا کرتی تھی لیکن جواب ضرور دیا کرتے۔ ۱۹۹۸ء میں راقم نے آپ کو اپنی ایک کتاب کا ’پیش لفظ ‘ تحریر کرنے کی درخواست کی۔ آپ کا خط تحریر شدہ ۱۲ جنوری ۱۹۹۸ء موصول ہوا جس میں آپ نے معذرت چاہتے ہوئے تحریر فرمایا ’’تمہارا خط مورخہ۱۰ جنوری ۱۹۹۸ء موصول ہواPLRانڈکس بننے کی خبر پا کر خوشی ہوئی لیکن میں تواب خرابی صحت کی وجہ سے لکھنے کا کام ختم کر چکا ہوں، گو لڈن جوبلی کے سلسلے میں بہت ہی اصرار پر ایک مضمون لکھا تھا اس کے بعد طبیعت جو خراب ہوئی تو ڈاکٹر کے کہنے پر اس کام کو بالکل بند کرنا پڑ رہا ہے۔ معذرت خواہ ہوں، نیک تمناؤں کے ساتھ، انیس خورشید‘‘۔ بعد میں اس کتاب کا پیش لفظ جناب معین الدین خاں صاحب نے تحریر فرمایا۔ وقتی طور پر تو مجھے احساس ہوا کیوں کہ اس اشاریہ پر ڈاکٹر صاحب سے بہتر لکھنے والا کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا کیوں کہ آپ’ کلسا ‘ (کراچی یونیورسٹی لائبریری سائنس المنائی ایسو سی ایشن) کے اولین چیر ٔ مین اور رسالے ’’پاکستان لائبریری ریویو‘‘ کے اولین ایڈیٹر بھی رہے تھے۔
لائبریری سائنس کے مختلف موضوعات کے علاوہ سوانح نویسی یا سوانحی کتابیات کی تدوین کی جانب میری توجہ شروع ہی سے رہی ہے۔ کئی شخصیات پر میرے مضامین شائع ہوئے۔ ڈاکٹر عبد المعید پر اولین سوانح شریک مولف کی حیثیت سے مر تب کی جو۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی۔ ۱۹۹۸ء میں اختر ایچ صدیقی پر میری کتاب (Akhtar H. Siddiqui: A Bio-bibliographical Study) شائع ہوئی، یہ کتاب اختر صدیقی صاحب ہی نے ڈاکٹر انیس خورشید کی خدمت میں پیش کی۔ ڈاکٹر صاحب نے میری اس کتاب کے بارے میں اپنے ایک خط(۱۸ مئی ۱۹۹۷ء ) جو اختر صدیقی صاحب کے نام تھا اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
ڈیر اختر صدیقی، السلام علیکم !
تم آئے تو بہت سی پرانی یادیں تازہ ہو گئیں، بے سروسامانی کے اس دور میں جذبہ کی کمی نہ تھی، ہر کوئی کچھ نہ کچھ اچھا اکام کرنا چہاتا تھا کہ پیشہ کتاب داری کو وقعت حاصل ہو۔ لڑائی جھگڑے بھی تھے لیکن کام کرنے والے کام کرتے رہتے تھے۔ آج اسی جد و جہد کا نتیجہ ہے کہ ہمارا پیشہ معتبر گردانا جانے لگا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ تم نے اپنے بارے میں شائع ہونے والی Bio-Bibliographical Study کی ایک کاپی مجھے عنایت فر مائی ورنہ میں ایک اچھی کتاب سے شاید محروم رہتا۔ میں نے سر سری طور پرہی اسے دیکھا ہے مجھے کتاب اچھی لگی۔ presentationبہت ہی اچھے طور پر کی گئی ہے اور نہایت عمدگی سے dataکو پیش کیا گیا ہے۔ کتاب سے آپ کی بھر پور شخصیت اپنی طرحداری کے ساتھ اجاگر ہوتی ہے۔ تدوین اور ترتیب بھی اچھی ہوئی ہے یوں کہنا چاہئے کہ اختر ایچ صدیقی کی متنوع اور سدا بہار شخصیت اپنی پوری کتابیاتی سرگرمیوں کے ساتھ اس کتاب کے ذریعہ بھر پور طور پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ میری طرف سے مبارکباد قبول فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور تندرستی عطا فر مائے، آمین۔ سید ارشاد علی بھی آج آئے تھے اُن کو بھی میں نے کتاب دکھائی تھی، اُن کو بے حد پسند آئی۔ بھابی کو آداب کہیے ‘ دعاؤں کے ساتھ، مخلص‘‘ انیس خورشید۔
قومی کتابیات پاکستان (۱۹۴۷ء۔ ۱۹۶۱ء) جلد سوم راقم نے بطور چیف ایڈیٹر مر تب کی۔ حکومت پاکستان کی وزارت تعلیم کے شعبہ لائبریریز نے ۱۹۹۹ء میں اسے شائع کیا اس کتاب کے موصول ہونے کے بعد ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے خط ۲۰ فروری ۲۰۰۰ء میں تحریر فرمایا: ’’تمہارے خط مورخہ ۱۳ فروری کے ساتھ PNB-47-61 (500-900)ملا ‘ بے حد شکریہ۔ غالباً اس ببلوگرافی کے ساتھ باقی حصہ جو چھپنے سے رہ گیا تھا وہ بھی شامل ہو گیا ہے ‘ یہ کام قابل تعریف ہے۔ مبارکباد قبول کریں ‘‘۔ مخلص، انیس خورشید۔
۱۹۹۷ء میں میں نے ڈاکٹر خالد محمود کے اشتراک سے پاکستان سے شائع ہونے والے لائبریری و انفارمیشن سائنس کے رسائل و جرائد کا پچاس سال کا اشاریہ مرتب کیا۔ ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے خط مورخہ ۱۵ مارچ ۲۰۰۰ء میں تحریر فرمایا : ’’تمہاری اور خالد محمود کی کتاب Periodical Literature in LISملی ‘ بے حد شکریہ۔ یہ کوشش قابل مبارک باد ہے۔ اس کام کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے لیکن اسے رسائل تک محدود رکھنا وہ بھی مقامی رسائل تک سودمند ہو گا۔ میری دعائیں تم لوگوں کے ساتھ ہیں۔ دعاؤں کے ساتھ، انیس خورشید۔ ۹ فروری ۲۰۰۱ء کو آپ کا خط راقم کے نام موصول ہوا آپ نے تحریر فرما یا:
ڈیر صمدانی ! تسلیمات!
تمہارا بھیجا ہوا رسالہ PLBملا بے حد شکریہ، نیلا رنگ جو رسالہ کے سرورق کے لیے اس مرتبہ استعمال ہوا ہے وہ اتنا دلفریب اور دل آویز ہے کہ میں تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا اس لیے یہ خط عجلت میں لکھ رہا ہوں۔ لگتا ہے رسالہ پر بہار آ گئی ہے، خدا کرے کہ ہمارا لٹریچر بھی اسی طرح خوش رنگ اور اثر پذیر ثابت ہو۔ میری طرف سے مبارکباد قبول ہو۔ بخاری مرحوم پر مضمون کا بھی شکریہ، ہمارے پرانے ساتھی تھے جن سے پہلی ملاقات کراچی میں PLAکی کانفرنس ۱۹۵۸ء میں ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے آمین! ظہیر الدین خورشید کو ابو ظہبی کی عرب کلف کانفرنس میں ان کے پیپر From MARC to MARC-2 کو کانفرنس کا بہترین مقالہ کا ایوارڈ ملا ہے۔ اس خبر کا KFUPMکے یونیورسٹی کے خبرنامہ کا تراشہ منسلک ہے۔ میں نے محترم معین الدین خان صاحب کو بھی تراشہ چھپنے کے لیے بھیجا تھا اگر انہوں نے آپ کو دے دیا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ آپ بلیٹن یا پی ایل اے نیوز لیٹر میں چھاپ دیں تو میں ممنون ہوں گا‘‘۔ ہم نے یہ خبر اپنے رسا لے (Pakistan Library Bulletin)میں شائع کی جس کا بعد میں ڈاکٹر صاحب نے شکریہ بھی ادا کیا۔ ستمبر ۲۰۰۱ء کی بات ہے ڈاکٹر صاحب نے جریدہ نیا یر ل فر دور، افکار اور فنون کے بارے میں citation تلاش کرنے کے بارے میں کہا، مجھے نہیں معلوم کہ میں یہ کام کر سکا یا نہیں آپ نے اپنے خط مورخہ ۱۵ جولائی ۲۰۰۱ء میں تحریر فرمایا، ’’کل تم نے گھر رسالہ پہنچا دیا بے حد خوشی ہوئی، شکریہ۔ بدرالدین کو خط بھجوا دیا ہے۔ قمر مرزا بھی رسالہ پا کر بے حد خوش ہوں گے وہ تو ریگولر رسالہ کے ریڈر رہے ہیں۔ ڈاکٹر جالبی نے نیا دور کا citation مہیا کر دیا ہے اب آپ افکار اور فنون کے citation ہی تلاش کریں عنایت ہو گی۔ دعاؤں کے ساتھ۔
انیس خورشید‘‘۔
لاہور کے الطاف شوکت صاحب مرحوم سے میرے باوجود عمر کے فرق کے پیشہ ورانہ اوردوستانہ مراسم تھے۔ میرے پاس اپنے نام آئے ہوئے ان کے بھی بے شمار خطوط محفوظ ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد میں نے ان پر ایک مضمون لکھا اور اس رسالے کی کاپی جس میں یہ مضمون شائع ہوا تھا ڈاکٹر صاحب کو ارسال کیا ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ میں جناب جمیل نقوی پر ایک مضمون تحریر کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ مضمون میں جمیل نقوی صاحب کے بارے میں آپ کی رائے بھی شامل ہو جائے تو مضمون میں چار چاند لگ جائیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی رائے مجھے ٹیلی فون پر تحریر کرا دیں۔ ڈاکٹر صاحب اس پر تیار ہو گئے، آپ نے اپنے خط مورخہ ۲۸ اگست ۲۰۰۱ء کو تحریر فرمایا:
ڈیر صمدانی۔ السلام علیکم!
تمہارا خط ملا اور رسالہ بھی، ظہیر کی خبر چھاپنے کا شکریہ۔ مجھے دکھ ہوا کہ ہمارے پرانے ساتھی اور ہمارے عظیم دوست میاں الطاف شوکت بھی ہم سے جدا ہو گئے۔ انا للہ و انا علیہ راجعون، اللہ تعالیٰ ان کو قدم قدم پر جنت نصیب کرے۔ میں اکثر محمد تاج اور ان کے ساتھیوں سے ان کے بارے میں دریافت کرتا رہتا تھا مگر کسی نے ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہ دی میری خط و کتا بت تو کئی سال پہلے بند ہو گئی تھی ورنہ مہینہ میں ایک مرتبہ ضرور ان کا خط آتا تھا۔ مضمون میں نے سر سری طور پر پڑھا ہے۔ میری طبیعت بہت خراب ہے بیٹھ کر کچھ کام نہیں کر سکتا۔ نقوی صاحب پر ضرور میں اپنے تاثرات بیان کروں گا لیکن میں لیٹے لیٹے ٹیلی فون پر آپ کو لکھواؤں گا۔ یہ خط بڑی مشکل سے لکھ رہا ہوں۔ آپ مجھے اپنے گھر کا نمبر لکھ کر بھیج دیں اور بتا دیں کہ آپ سے بات کرنے کا کون سا اچھا وقت ہو گا۔ میں ضرور آپ کو فون کروں گا۔ اب آپ میرے مطلوبہ مضامین کے لیے پریشانی نہ اٹھائیں ‘‘۔ میرے پاس ان کی نظمیں تو ہیں اور یہ بھی علم ہے کہ وہ ان کے انتقال کے بعد چھپی نہیں ہیں وہی حوالہ دیدوں گا، آپ کی تلاش کے لیے شکر گزار ہوں، اچھا اب اجازت دیجئے ‘‘۔ انیس خورشید
ڈاکٹر صاحب سے فون پر بھی اکثر کسی نہ کسی حوالہ سے بات ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح ۱۹۹۶ء میں میرا ایک مضمون پروفیسر اختر حنیف مرحوم پر شائع ہوا تھا اس مضمون میں بھی میں نے ڈاکٹر انیس خورشید صاحب کی اختر حنیف صاحب کے بارے میں رائے نقل کی ہے جو میں نے ڈاکٹر صاحب سے ۱۹ اپریل ۱۹۹۶ء کو ٹیلی فون پر ہی حاصل کی تھی۔ یہ مضمون پا کستان لائبریری بلیٹن کی جلد ۲۷ شمارہ ۱۔ ۲، مارچ جون ۱۹۹۶ء میں شامل ہے۔ اسی حوالہ سے آپ نے میرے ۱۹ ستمبر ۲۰۰۱ء کے خط کے جواب میں ۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء کو تفصیلی خط تحریر فرمایا آپ لکھتے ہیں :
ڈیر صمدانی۔ السلام علیکم !
تمہارا ۱۹ ستمبر کے خط کا بہت شکریہ غالباً صمد انصاری صاحب نے mix-upکر لیا ہو گا میں تمہاری شکایت کیسے کرتا میں نے تو جو تم سے درخواست کی تم نے فوراً بہم پہنچائی۔ صمد انصاری صاحب سے گفتگو تو ڈاکٹر محمود حسین کے حوالے سے ہو رہی تھی انہوں نے نگار کے نمبر کے بارے میں پوچھا تھا۔ جب ڈاکٹر صاحب کا ذکر ہو تو PLAکی بات ضرور آتی ہے سو میں نے بھی ان سے پوچھا کہ بھئی سائیں ملک اور عطا اللہ کی طرف سے کوئی خبر ملتی ہے میں نے تب یہ بھی کہا کہ میں نے تو دونوں کو کئی خط لکھے لیکن جواب نہ ملنے سے خاموش ہو رہا۔ پھر مجھے یاد آیا کہ انسائیکلو پیڈیا لندن کے لیے مجھے اپنا ۳ سال پہلے کا مضمون updateکرنا ہے تو میں نے PLA کے کمپیوٹر سنٹر کراچی اور حیدر آباد کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے پیسہ نہ ہونے کی وجہ، مشینوں کی درستگی کا کام رکنے کی خبر دی۔ تب میں نے تمہارا ذکر کیا کہ آج کل صمدانی صاحب سے رابطہ نہیں ہو رہا ہے ان کا خط آیا تھا تو میں نے جواب فوراً دیا تھا مگر شاید وہ مصروف ہیں۔ ان کی طرف سے جواب نہیں ملا(خط میں تو میں نے تمہارے مضمون ’کے ایم سی کی لائبریریز‘ کی تعریف کی تھی اور اسے اپنے مضمون میں حوالہ دینے کی بات بھی کی تھی اور جو بات میں نے پوچھی تھی وہ تمہارے گھر کے نمبر کے بارے میں تھا کہ میرے پاس پرانا نمبر تھا، اس کے بعد میں نے دو مرتبہ تمہارے گھر بشیر سے نمبر لے کر بات کی تھی پہلے دن توengageملتا رہا کل رات بھی یہی کیفیت
رہی کل بھی میں نے ۲ گھنٹے وقفہ وقفہ سے کوشش کی تھی غالباً خراب ہو گیا ہو گا۔ البتہ درمیان میں ایک دن میں نے ۸ بجے کے لگ بھگ ٹیلی فون کیا تھا تو اتفاق سے ٹیلی فون مل گیا اور تمہارے بیٹے سے بات بھی ہوئی تھی اس وقت تم گھر نہیں آئے تھے اس نے پوچھا کہ کوئی messageہے تو میں نے لکھا دیا تھا۔ غالباً وہ message بھی تم کو نہیں ملا ورنہ تم ضرور بات کرتے ) میں نے تو یہ نہیں کہا تھا کہ میں نے کمپیوٹر کے بارے میں تم سے کچھ پوچھا تھا وہ تو صمد سے بات کرتے ہوئے یاد آ گیا تھا تو میں نے معلومات معلوم کر لی تھی اور تم سے صرف رابطہ اس وقت نہ ہونے کی بات کی تھی۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ محترم نقوی صاحب کے بارے میں میں ضرور تم سے بات کروں گا اس وقت میں بیمار تھا اور بیٹھ کر خط بھی نہیں لکھ سکتا تھا لیکن میں نے تم کو خط لکھا تھا اور یہ بھی پوچھا تھا کہ تمہا رے پاس میرا مضمون اُن کے بارے میں موجود ہے تو وہ کون سا مضمون ہے ؟ بہر حال ایسی کوئی بات نہیں میں نے بس یو ہی ذکر کر دیا تھا تا کہ تم مجھ سے contactکر سکو۔ غالباً تم کو میرا خط بھی نہیں ملا ہے ورنہ تم جواب ضرور دیتے۔ بہر حال آپ کی شکایت نہیں کی تھی اور نہ معلومات نہ دینے کے بارے میں بات کی تھی وہ تو ہیڈ کواٹرس سے خبر نہ آنے کی وجہ سے غالباً صمد صاحب نے سمجھا ہو گا کہ میں نے کمپیوٹر والی بات ہی کے حوالے سے پوچھا ہو گا۔ امید ہے کہ غلط فہمی دور ہو گئی ہو گی۔ مخلص، انیس خورشید‘‘۔ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں میں نے اپنی بیٹی کی شادی کی اطلاع دی جس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب کا خط تحریر شدہ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۱ء موصول ہوا جس میں آپ نے تحریر فرمایا :
ڈیر صمدانی۔ اسلام علیکم!
تمہارا خط ملا اور ٹیلی فون پر بات ہوئی بے حد خوشی ہوئی۔ PLAکمپیوٹر سینٹر کی معلومات فراہم کرنے کا شکریہ۔ بیٹی کی شادی کی اچھی خبر بھی سنائی بے حد خوشی ہوئی، پیشگی مبارک باد قبول۔ دونوں بچے (میرے بیٹے عدیل اور نبیل)بھی ماشاء اللہ بہتر پیشہ ورانہ تعلیم کی جانب رجوع ہیں انشا ء اللہ تمہاری طرح لگن سے کام کر کے ان پیشوں میں نام پیدا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی اور کامرانی سے سرفراز فرمائے آمین۔ دعا گو، انیس خورشید ‘‘۔ اسی سلسلے میں دوسرا خط ڈاکٹر صاحب کا ۲۶ دسمبر ۲۰۰۱ء کو موصول ہوا، آپ میری بیٹی کی شادی میں تو کمزوریِ صحت کے باعث شریک نہ ہو سکے لیکن شادی کے دوسرے روز ہی آپ نے مبارکباد اور معذرت کا خط تحریر کیا آپ نے لکھا:
ڈیر صمدانی ‘ السلام علیکم !
تمہاری بیٹی کا کارڈ ملا۔ بدرالدین کو میں نے اسی روز پہنچا دیا تھا میں خود آ نہیں سکتا بالکل چلنا پھر نا دشوار ہو گیا ہے، سر دی کی وجہ سے دشواری رہتی ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ ۲۵ دسمبر کو آپ کو مبارکباد کا پیغام مل جائے لیکن افسوس ہے کہ میں یہ بھی نہ کر سکا آج موقع ملا ہے تو خط بھیج رہا ہوں۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ آپ الحمد للہ اپنی بیٹی کی اس بڑی ذمہ داری سے عہدہ بر آہو گئے۔ خدا کرے یہ رشتہ کامیاب اور خوشیوں سے بھر پور ثابت ہو۔ آمین۔ دعاؤں کے ساتھ، مخلص۔ انیس خورشید‘‘۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کی اس تحریر میں جو شفقت، محبت اور اپنائیت تھی اس نے مجھے حوصلہ دیا۔
پاکستان لائبریرین شپ کے حوالے سے جناب محمد عادل عثمانی کا نام تعارف کا محتاج نہیں۔ پاکستان میں لائبریرین شپ کے بانی جناب ڈاکٹر عبد المعید کے دو جانشینوں میں ڈاکٹر انیس خورشید اور محمد عادل عثمانی شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبد المعید جو جامعہ کراچی کے لائبریرین بھی تھے اور شعبہ لائبریری سائنس کے سربراہ بھی۔ آپ نے ان دونوں اہم عہدوں کے لیے اپنے بعد جن شخصیات کا انتخاب کیا ان میں ڈاکٹر انیس خور شید صاحب شعبہ کے سربراہ ہوئے جب کہ عادل عثمانی صاحب جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری (ڈاکٹر محمود حسین لائبریری) کے سربراہ ہوئے۔ عادل عثمانی صاحب کی لائبریری خدمات اور لائبریری مواد کی فراہمی میں آپ کی صلاحیتوں سے ان کار نہیں کیا جا سکتا، آپ کی تصانیف و تالیفات پاکستان لائبریرین شپ کا اہم سرمایہ ہیں۔ راقم الحروف نے محمد عادل عثمانی کی تصانیف و تالیفات اور ان کی پیشہ ورانہ خدمات پر مبنی سوانحی کتابیات Muhammad Adil Usmani: A Bio-Bibliographical Study) مر تب کی جو ۲۰۰۴ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کے
بارے میں ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے خط مورخہ ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۴ء میں تحریر فر مایا:
ڈیر صمدانی ! السلام علیکم !
تمہارا گیارہ اکتوبر کا خط ملا، محمد عادل عثمانی (سرکار) کی سوانحی کتابیات کی خوبصورت جلد ملی اور مجلہ ’’روایت‘‘ بھی، خوشی ہو ئی، پڑھ تو نہ سکا ہوں لیکن خوشی ہو ئی تم سے دھن کے پکے لائبریرین نے مر تب کیا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ضعف عمری کا شکار ہوں، یادداشت کمزور ہو گئی ہے، گھر میں بند رہتا ہوں، ذہنی دباؤ تکلیف کا باعث رہتا ہے۔ اس لئے خط و کتابت بند کر دی ہے، ڈرائنگ روم تک بھی جانا اور دیر تک بیٹھنا مشکل ہو گیا۔ میں نے اب لکھنے پڑھنے کا کام تقریباً ختم کر دیا البتہ یہ ضرور ہے کہ حکیم صاحب کے بارے میں جو کچھ واقفیت تھی وہ میں نے شائع کر وا دیا ہے جو ہمدرد صحت جون ۲۰۰۳ء میں بعنوان ’’ ہے حرف حرف اس کا زمانے میں معتبر‘‘ یہ مضمون غالباً تم نے حاصل کر لیا ہو گا۔ ایک مضمون تقی عثمانی صاحب کا بھی جنگ میں غالباً اسی سال چھپا تھا، ایسا جامع مضمون حکیم صاحب پر میں نے پہلے نہیں پڑھا تھا۔ یہ خط بھی ایک ہفتہ کی کوشش سے لکھ پایا ہوں۔ میں نے انگریزی میں بھی لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے مجھ سے اب کچھ حاصل نہیں ہو گا، معافی چاہتا ہوں ‘‘۔ دعا گو۔ انیس خورشید ‘۔
میں شہید حکیم محمد سعید پر اپنے تحقیقی کام کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کے خیالات سے استفادہ چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے میں نے آپ سے متعدد بار تحریری درخواست کی۔ میرے استفسار پر ڈاکٹر صاحب نے اپنی مندرجہ بالا تحریر کے ذریعہ رہنمائی فرمائی جس سے میرا کام آسان ہو گیا۔ ڈاکٹر انیس خورشید صاحب پاکستان لائبریرین شپ کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت دے۔ آمین۔
۲۲ جنوری ۲۰۰۷ء
محمد عادل عثمانی
پاکستان لائبریرین شپ کا رخشندہ آفتاب
میں نے اپنے زمانہ طالب علمی ۱۹۷۱۔ ۱۹۷۲ء شعبہ لائبریری سائنس، جامعہ کراچی کے دوران لائبریری سائنس کی مختلف کتابوں میں عادل عثمانی صاحب کا نام پڑھا۔ اس دوران بعض اساتذہ اپنے لیکچر کے میں اکثر عادل عثمانی صاحب کا تذکرہ احترام کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ عثمانی صاحب اس زمانے میں کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں تھے، ۱۹۷۳ء میں واپس آئے اس وقت ایم اے کا نتیجہ آ چکا تھا۔ وہ ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کے ڈپٹی لائبریرین تھے ڈاکٹر عبد المعید صاحب کے نائیجیریا چلے جانے کے بعد ان کے جانشین بھی ہوئے۔ مجھے عثمانی صاحب کے شاگرد نہ ہونے کا افسوس تھا۔
دو سال جامعہ میں کیسے گزر مختلف کتا مضمون ’گئے پتہ ہی نہ چلا، ایم اے کر لینے کے بعد ملازمت کا مرحلہ درپیش تھا ابھی نتیجہ آئے ہوئے مہینہ بھی نہ ہوا تھا کہ جناب سبزواری صاحب نے کہا کہ آپ یونیورسٹی لائبریری میں عادل عثمانی صاحب کے پاس چلے جائیں، میں نے ان سے بات کر لی ہے۔ میں پہلی فرصت میں لائبریری چلا گیا، اب عثمانی صاحب لائبریرین ہو چکے تھے۔ میں نے اپنا نام بتا یا اور اکرم صاحب کا حوالہ دیا۔ بہت ہی شفقت اور محبت سے بیٹھنے کو کہا۔ عثمانی صاحب کو آج پہلی مر تبہ اتنے قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ انتہائی بردبار، مہذب، با اخلاق، درمیانہ قد، مناسب جسم ( اب کمزور ہو گئے ہیں )، کتا بی چہرہ، گندمی رنگ، گھنے سیاہ بال ( اب بالکل سفیدی اور وہ بھی کم کم )، کلین شیو(اب بالکل سفید داڑھی)، ستواں ناک، روشن پیشانی، کتا بی چہرہ، روشن آنکھیں، وضعدار، وقت اور اصولوں کے سخت پابند۔ گفتگو میں شگفتگی، شائستگی، دھیمہ پن اور عالمانہ انداز گفتگو جیسی صفات آپ میں نمایاں تھیں۔
ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ایک فارم دیا کہ اسے بھر دیجئے اور متعلقہ آفس میں جمع کرا دیں کل سے آپ کی نوکری شروع۔ یہ میری زندگی کی اولین ملازمت تھی جو ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے شروع ہوئی۔ کاغذی کاروائی کے بعد مجھے لائبریری کے ریسرچ ریڈنگ روم میں بھیج دیا گیا یہ دور ذوالفقار علی بھٹو کا تھا انہوں نے تعلیم یافتہ افراد کے لیے ایک اسکیم کا آغاز کیا تھا جو NDVPکہلاتی تھی میرا یہ تقرر بھی اسی پروگرام کے تحت تھا جو صرف چار ماہ قائم رہا کیوں کہ میرا تقرر حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم کے ایک کالج میں گریڈ ۱۷ میں ہو گیا۔ اس طرح عثمانی صاحب کے ساتھ میرا آفیسر اور ماتحت کا تعلق قائم ہو گیا۔ وہ ایک ذمہ دار، شفیق اور قابل سربراہ تھے۔ آپ کے انداز سے کبھی یہ تاثر نہیں ملا کہ وہ آفیسر ہیں اور دیگر ان کے ما تحت، ان کا پیار محبت اور شفقت والا رویہ ہر ایک کے ساتھ ہوا کرتا۔ وہ ہمیشہ اپنے ماتحتوں کو اعتماد میں لے کر کام کیا کرتے اور یہ احساس اور تاثر پیدا کیا کرتے تھے کہ لائبریری ایک اجتماعی ذمہ داری ہے اور تمام کام کرنے والے خواہ ان کی حیثیت کچھ بھی ہو ایک خاندان کے فرد ہیں۔
عادل عثمانی صاحب سے میرا ایک اور تعلق ۱۹۷۵ء میں اس وقت قائم ہوا جب ڈاکٹر غنی الا کر سبزواری صاحب بہ سلسلہ ملازمت سعودی عرب تشریف لے گئے۔ عادل عثمانی صاحب رسلہ کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے میں اس رسالہ میں شمولیت اختیار کر چکا تھا۔ اب بیورو اور رسالے کے معاملات کے لیے عثمانی صاحب سے تعلق قائم ہو گیا۔ یہاں ہم آفیسر اور ماتحت نہیں تھے بلکہ ایک ہی ادارے کے کارکن لیکن ہر اعتبار سے سینئر اور جونیئر کے رشتہ میں رہتے ہوئے پیشہ ورانہ امور انتہائی خوش اسلوبی سے انجام پاتے رہے۔ عثمانی صاحب کی ایک صفت اپنے سے چھوٹوں کو اس انداز سے تر بیت کرنے کی ہے کہ سامنے والے کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس کی تر بیت کی جا رہی ہے۔ آپ کی فراخ دلانہ طبیعت و صلاحیت کے باعث آپ کے ساتھ کام کرنے والوں میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ عثمانی صاحب بھی ۱۹۷۹ء میں سعودی عرب تشریف لے گئے اور میرا اور ان کا یہ براہِ راست تعلق منقطع ہو گیا۔
اس دوران ان سے بہت کچھ سیکھا۔ آپ سے یہ تعلق ختم ضرور ہو گیا لیکن ایک نئے تعلق نے جنم لیا وہ تھا خط و کتا بت کا تعلق۔
سعو دی عرب سے راقم کے نام عثمانی صاحب کا پہلا خط ۶ نومبر ۱۹۷۹ء کو موصول ہوا جب کہ میری خطوط کی فائل میں آخری خط ۵ مئی ۱۹۹۸ء کا لکھا ہوا ہے۔ اس طرح میرے نام آئے ہوئے آپ کے خطوط کی تعداد جو میں محفوظ رکھ سکا ۶۲ ہے۔ ان خطوط میں لائبریری پروموشن بیورو اور رسالے کے علاوہ پروفیشنل معاملات کے بارے میں تفصیل ہوا کرتی تھی۔ عثمانی صاحب کی شخصیت اور لائبریرین شپ کے لیے آپ کی خدمات کا تقاضہ تھا کہ آپ کو کتابی صورت میں متعارف کرایا جائے۔ میرا ایک شوق شخصیات کو پڑھنا اور ان پر لکھنا رہا ہے۔ چنانچہ کئی احباب پر مضامین لکھے۔ ڈاکٹر عبدالمعید اور اختر ایچ صدیقی پر تصانیف مرتب کیں جو بالترتیب ۱۹۸۱ء اور ۱۹۹۵ء میں شائع ہوئیں۔ ۱۹۹۶ء میں جب کہ عثمانی صاحب پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے میں نے ان سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ پر ایک کتاب انگریزی میں مرتب کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے آپ کی اجازت اور تعاون کی ضرورت ہے۔ آپ نے کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے ٹال مٹول سے کام لیا اور سعودی عرب واپس چلے گئے۔ مجھے احساس تھا کہ عثمانی صاحب نام و نمود اور شہرت کو پسند نہیں کرتے وہ تو خود پیچھے رہتے ہوئے اوروں کو آگے بڑھاتے رہے ہیں لیکن میں اپنے دل میں یہ ارادہ کر چکا تھا کہ میں یہ کام کروں گا چنا نچہ اس حوالے سے عثمانی صاحب سے رابطہ جاری رکھا اور اپنے خطوط میں انہیں اس جانب مائل کرتا رہا، میں نے آپ سے کام شروع کرنے اور متعلقہ مواد ارسال کرنے کی درخواستیں کیں۔ بالا آخر برف پگھلی اور میں اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گیا، عثمانی صاحب اس پر تیار ہو گئے۔ کتاب کی تیاری میں آپ میری رہنمائی اپنے خطوط کے ذریعہ کرتے رہے اور میں یہ کام رفتہ رفتہ کرتا گیا حتیٰ کہ نو سال کی طویل محنت رنگ لائی اور عثمانی صاحب پر میری کتاب ۲۰۰۴ء میں بعنوان ”Muhammad Adil Usmani : A Bio-bibliographical Study”شائع ہوئی۔ اس کتاب پر ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے خط مؤرخہ ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۴ء میں مختصر تبصرہ یہ کیا ’’ تمہارا گیارہ اکتوبر کا خط ملا، محمد عادل عثمانی (سرکار) کی سوانحی کتابیات کی خوبصورت جلد ملی اور مجلہ ’’روایت‘‘ بھی، خوشی ہو ئی، پڑھ تو نہ سکا ہوں لیکن خوشی ہو ئی تم سے دھن کے پکے لائبریرین نے مر تب کیا ہے ‘‘۔ عثمانی صاحب کی شخصیت میں میرے لیے جو احترام، عقیدت اور لگاؤ کا عنصر پایا جاتا ہے اس کے باعث میں نے عثمانی صاحب پر کتاب مرتب کی، اس سے قبل میں عادل عثمانی صاحب پر دو مضامین انگریزی ہی میں لکھ چکا ا تھا، پہلا پاکستان لائبریری بلیٹن (جلد ۲۴، شمارہ ۴، دسمبر ۱۹۹۳ء ) میں دوسرا اسی سال ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کی جانب سے شائع ہونے والے سووینیر میں شائع ہوا۔
عادل عثمانی صاحب ایک عظیم اور انمول انسان ہیں ان کی شخصیت میں سادگی کا رچاؤ بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ منکسر المزاجی ان کی طبیعت کا جُز و ہے۔ جامعہ کراچی کے بڑے کتب خانہ کی سربراہی طویل عرصہ کی لیکن ہم نے آج تک کوئی منفی بات آپ کے بارے میں نہیں سنی۔ آپ کے کردار کی بلندی کا یہ حال ہے کہ آپ نے کبھی کسی بک سیلریا کسی شخص سے کوئی ادنیٰ سی چیز لینا اپنے لیے کسر شان تصور کیا۔ آپ کو تحفہ میں ملنے والی تمام کتب جامعہ کراچی کے ذخیرہ میں شامل ہیں۔ آپ نے اپنا ذاتی کتب خانہ مرتب نہیں کیا جو کتابیں آپ کے پاس تھیں سعودی عرب جاتے ہوئے انہیں ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کو دے گئے۔
حکیم محمد سعید نے جناب عادل عثمانی کے بارے میں اپنی خود نوشت بعنوان ’’ نونہالوں کے لئے سچی کہانی میری ڈائری کی زبانی مئی ۱۹۹۲ء‘‘ (صفحہ ۱۳۴) میں تحریر فرما یا ’’ جناب عادل عثمانی نہایت نفیس انسان ہیں۔ نہایت سمجھ دار کتب دار ‘ (لائبریرین) پہلے جامعہ کراچی میں تھے اب جامعہ ام القریٰ کی شاخ لائبریری طائف میں ہیں۔ ان سے ملنے کو بہت دل چاہتا تھا۔ بس میں نے ان کو آج بلا لیا۔ ایک گھنٹہ ان سے باتیں کیں۔ ان کا مشورہ یہ ہے کہ طب نبوی ؑ میں سائنسی توجہ کروں۔ میں نے ان کو بتا یا کہ میری کتاب ’’طب نبوی ؑ ‘‘ تیار ہے۔ جناب حکیم نعیم الدین زبیری صاحب نظر ثانی کر رہے ہیں ‘‘۔
عادل عثمانی صاحب نرم دل، ہمدرد، سخی، صلہ رحمی کرنے والے اور ضرورت مندوں کی خاموشی سے مدد کرنے والوں میں سے ہیں۔ خاموشی کے ساتھ اس طرح مدد کرنا کہ ضرورت مند کو اس کی خبر بھی نہ ہو کہ اس کی مدد کی جا رہی ہے اور کون کر رہا ہے۔ عثمانی صاحب کی اس منفرد اور قابل تقلید عمل کا ذکر ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب نے اپنی کتاب ’’آنگن میں ستارے ‘‘ میں عادل عثمانی صاحب کے چھوٹے بھائی محمد واصل عثمانی پر لکھے گئے خاکے میں کیا، یہاں اسے بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اِس واقعہ بیان کرنے سے پہلے وضاحت کی کہ ’’یہ محض سنی سنائی بات نہیں۔ ذاتی واردات ہے اور اس قدر مؤثر ہے کہ واصل عثمانی صاحب کے بھائیوں کی خصوصیات اور خاندانی اثرات کی وضاحت میں قلم بند ہونا ضروری ہے ‘‘۔ (صفحہ ۲۰۴)۔ اس واردات کے ڈاکٹر اسلم فرخی ہی عینی شاہد نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب کے بعد راقم بھی عادل عثمانی صاحب کے صَلۂ رحمی کے اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہے۔ ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب لکھتے ہیں
’’عادل عثمانی صاحب یونیورسٹی میں ڈپٹی لائبریرین تھے۔ میں جب بھی لائبریری جاتا ایک بڑے بوڑھے صاحب کو دیکھتا، سر پر دو پلی، بر میں شیروانی، خمیدہ کمر، بھویں اور بلکیں دونوں سفید، خاموشی اور انہماک سے کام میں مصروف نظر آتے۔ ایک آدھ دفعہ میں نے مذاق میں عادل صاحب سے کہا بھی کہ کیا لائبریری میں سبک دوشی کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ عادل صاحب میری بات کو ہنسی میں ٹال گئے۔ اب یہ ہوا کہ عادل صاحب کا تقرر مکہ یونیورسٹی میں ہو گیا اور وہ جانے کی تیاری کرنے لگے۔ ایک دن وہ میرے پاس آئے۔ میں ان دنوں شعبہ تصنیف و تالیف و تر جمہ کا ناظم تھا۔ عادل صاحب نے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد کہا، ’’میں ایک درخواست لے کر حاضر ہوا ہوں۔ ایک ذمہ داری آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ ان کار نہیں کریں گے ‘‘۔ عادل صاحب نے یہ الفاظ اتنے خلوص اور لجاجت سے کہے کہ میں متاثر ہوا۔ کہنے لگے، آپ نے اُن بڑے میاں کو لائبریری میں دیکھا ہے۔ وہ میرے عزیز ہیں۔ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ دو میاں بیوی ہیں۔ اولاد کوئی ہے نہیں، گزارے کی کوئی صورت نہیں مگر غیرت مند اتنے ہیں کہ کسی رشتے دار کا احسان لینا گوارا نہیں۔ میں نے ان کے لیے یہ صورت نکالی کہ انھیں فرضی طور پر لائبریری میں رکھ لیا، پان سو روپے (۵۰۰)مہینہ میں انھیں دیتا ہوں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں تنخواہ مل رہی ہے کیونکہ لائبریری کا خزانچی پہلی تاریخ کو رقم انھیں ادا کر دیتا ہے، اب میں جا رہا ہوں لہٰذا لائبریری میں یہ کام نہیں ہو سکے گا۔ آپ انھیں اپنے شعبہ میں بلا لیجیے اور پہلی کے پہلی پان سو روپے انھیں ادا کر دیجئے گا۔ روپیہ آپ کے پاس پہنچتا رہے گا مگر اس بات کا علم کسی کو نہ ہو اور ان صاحب کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو ورنہ یہ رقم نہیں لیں گے۔ میں نے خوش دلی سے یہ ذمہ داری قبول کر لی۔ وہ بزرگ دوسرے دن آ پہنچے۔ میں نے یہ سوچا کہ ان کے لیے روز روز کا دفتر آنا بھی تکلیف دہ ہے لہٰذا ’’سیر الا ولیا‘‘ کا فارسی نسخہ ان کے حوالے کیا۔ اشاریہ مرتب کرنے کا طریقہ سمجھا یا اور کہا، آپ گھر پر یہ کام کریں۔ پہلی کو آئیں۔ مہینے بھر کا کام ساتھ لائیں اور تنخواہ لے جائیں۔ چنانچہ یہ سلسلہ میری نظامت کے دور میں جاری رہا۔ بعد میں شاید عادل صاحب نے کوئی دوسرا انتظام کیا۔ مجھے یہ خوشی ہوئی کہ ایک نیک کام میں میں بھی شریک رہا۔ یہ واقعہ ۸۰ء کا ہے۔ اس زمانے میں پان سو روپے جان رکھتے تھے۔ پھر ایک پورے کنبے کی پر ورش کرنے والے تنخواہ دار کے لیے ہر مہینے پان سو روپے خاموشی سے ادا کرنا بڑی ہمت اور ایثار کا کام تھا مگر عادل صاحب خاموشی سے یہ کام کرتے رہے ‘‘۔ (صفحہ ۲۰۴)
ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب نے جب یہ نیک کام انجام دے لیا اور شعبہ تصنیف و تالیف سے کسی دوسری جگہ چلے گئے تو ان محترم بزرگ کی اسی طریقے سے امداد جاری رکھنے کی ذمہ داری عادل عثمانی صاحب نے ڈاکٹر نسیم فاطمہ کے سپرد کی جو شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں استاد اور لائبریری پروموشن بیورو میں شریک کار تھیں۔ اس وقت یہ معاملہ میرے علم میں بھی لایا گیا کہ راز داری کے ساتھ ان صاحب کی امداد کا سلسلہ کیسے جاری رکھا جائے۔ چنانچہ ہم نے لائبریری پروموشن بیورو کی تصانیف سے متعلق بعض کام ان بزرگ کے سپرد کیے، وہ اسی طرح کام گھر پر لے جاتے اور ہر مہینے پہلی تاریخ کو اپنی تنخواہ بیورو کے خزانچی ’اشرف صاحب‘ سے لے لیا کرتے تھے جس کی ادائیگی عادل عثمانی صاحب سعودی عرب سے کر دیا کرتے تھے۔ اب بھی وہ یہ سمجھتے رہے کہا نھیں بیورو میں ملازم رکھ لیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ وہ بزرگ کچھ عرصہ کے لیے غائب ہو گئے، اپنی تنخواہ لینے آئے اور نہ ہی وہ کام واپس کیا جو وہ لے گئے تھے۔ جب کافی وقت گزر گیا تو تشویش ہوئی، مختلف خیالات کا ذہن میں آنا ایک قدرتی عمل تھا، کیوں کہ ان بزرگ کی عمر خاصی تھی، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بھی تحریر کیا کہ کمر جھکی ہوئی، سر اور داڑھی ہی سفید نہ تھی بلکہ آنکھوں کی پلکوں اور بھوؤں کے بال بھی سفید تھے، بڑی مشکل سے کسی طرح ان کے گھر واقع نیو کراچی کا پتہ معلوم کیا، معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہیں۔ ان کے گھر کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ واقعی عثمانی صاحب ایک حقیقی ضرورت مند کی مدد کر رہے ہیں اور دنیا میں جنت کما رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کی طرح ہم بھی کسی حد تک اس نیک کام میں شریک رہے۔
عادل عثمانی صاحب ہندوستان کے معروف ضلع اِ لہٰ آباد کے تاریخی مقام’ کڑا‘ سے تعلق رکھتے ہیں، آپ اسی بستی کے ایک گاؤں ’رشید مئی‘ میں ۲ جنوری ۱۹۳۲ء کو پیدا ہوئے۔ اِ لہٰ آباد میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۱۹۴۸ء میں مجیدیہ اسلامیہ کالج، اِلہٰ آباد سے میٹرک کیا،ا لہٰ آباد یونیورسٹی سے ۱۹۵۲ء میں گریجویشن کیا۔ اسی سال پاکستان ہجرت کی، کراچی میں کراچی لائبریری ایسو سی ایشن کے تحت لائبریری سائنس کا سرٹیفیکیت کورس ہو رہا تھا آپ نے ۱۹۵۳ء میں اس کورس میں داخلہ لیا، اس کلاس میں انیس خورشید صاحب بھی تھے، لائبریرین شپ کے پیشہ میں یہ آپ کا نقطہ آغاز تھا۔ ۱۹۵۴ء میں جامعہ کراچی کے کتب خانے میں ریفرنس اسسٹنٹ کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ ۱۹۵۶ء میں جامعہ کراچی میں شعبہ لائبریری سائنس کی بنیاد پڑی اور پوسٹ گریجویٹ کورس کا آغاز ہوا، عادل عثمانی صاحب پہلے سیشن ۵۷ء۔ ۱۹۵۶ء کے طالب علم تھے۔ اس کلاس کے بعض طالب علموں میں انیس خورشید، عبد اللہ خان، صادق علی خان، سید افتخار حسین سبزواری، محمد عبید اللہ سیفی، محمد اظہار الحق ضیاء اور محمد سجاد ساجدشامل تھے۔ انیس خورشید صاحب کی پہلی، عادل عثمانی صاحب کی دوسری اور سید مظہر علی زیدی کی تیسری پوزیشن تھی۔ ۱۹۵۸ء میں آپ ایشیا فاؤنڈیشن اور فل برائٹ اس کالر شپ پر امریکہ کی رٹگرس یونیورسٹی گئے جہاں سے آپ نے لائبریری سائنس میں ایم کی سند حاصل کی۔ وطن واپس آ کر آپ جامعہ کراچی کے کتب خانے سے منسلک ہو گئے ساتھ ہی شعبہ لائبریری سائنس میں جزو وقتی استاد کے فرائض بھی انجام دئے۔ ، ۱۹۶۰ء میں اسسٹنٹ اور جون ۱۹۶۱ء میں ڈپٹی لائبریرین اور ساتھ ہی قائم مقام لائبریرین ہوئے کیوں کہ معید صاحب پی ایچ ڈی کرنے امریکہ تشریف لے گئے تھے۔ ۱۹۷۳ء میں آپ ڈاکٹر محمودحسین لائبریری کے لائبریرین ہو گئے، ۱۹۸۳ء میں آپ نے اس وقت ریٹائرمنٹ لی جب آپ سعودی عرب میں تھے۔ سعودی عرب میں آپ نے طویل عرصہ خدمات انجام دیں۔ آپ کنگ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کے لائبریرین ۱۹۷۳ء۔ ۱۹۶۸ء، لائبریرین امہ القریٰ یونیورسٹی، مکہ ۱۹۷۹ء۔ ۱۹۸۲ء اور ڈائریکٹر سینٹرل لائبریری، امہ القریٰ یونیورسٹی، طائف ۱۹۸۲ء۔ ۹۹۹اء رہے۔ آپ جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں ۱۹۶۷ء میں شروع ہونے والے پہلے پی ایچ ڈی پروگرام کے ان طالب علموں میں بھی تھے جنہوں نے اس کورس میں داخلہ لیا لیکن اسے پائے تکمیل کو نہ پہنچا سکے۔ جامعہ کراچی کی ڈاکٹر محمود حسین لائبریری ڈاکٹر عبدالمعید اور محمد عادل عثمانی کی پیشہ ورانہ زندگی کا حاصل ہے۔ آپ دونوں نے اس کتب خانے کو قائم کیا اور اسے بلندی پر پہچانے میں اپنی تمام عمر لگا دی، ڈاکٹر عبد المعید صاحب کے کارناموں میں شعبہ لائبریری سائنس کا قیام بھی شامل ہے۔ عادل عثمانی صاحب لائبریری میں بک بنک کے قیام کے روح رواں ہیں۔ آپ ہی کی کوششوں سے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کے دورِ وائس چانسلری میں جامعہ کراچی میں بک بنک قائم ہوا جو آج بھی خدمات انجام دے رہا ہے۔ عادل عثمانی صاحب کو پاکستان میں لائبریری ریسرچ اور لائبریری مطبوعات کے حوالے سے سبقت حاصل ہے۔ آپ کی پیشہ ورانہ زندگی تصنیف و تالیف سے عبارت نظر آتی ہے۔ آپ کی مرتب کردہ پاکستان بک ٹریڈ ڈائریکٹری جو ۱۹۶۶ء میں شائع ہوئی، یہ اپنی نوعیت کی اولین ماخذ ہے، اسی طرح کتابیاتی ضبط کے موضوع پر آپ کی کتاب Status of Bibliography in Pakistanاپنے موضوع پر ابتدائی اور اہم کام ہے یہ کتاب ۱۹۶۸ء میں شائع ہوئی، اس کا اردو ترجمہ ۱۹۷۱ء میں منظر عام پر آیا، آپ نے انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات(SPIL)کے مختلف سیمیناروں کی رودادیں بھی مرتب کیں، اسکول لائبریری ورکشاپ کی رپورٹ ۱۹۶۷ء میں منظر عام پر آئی، ان کے علاوہ آپ نے انگریزی میں قرآن پر مواد کی کتابیات، اسلام پر پی ایچ ڈی مقا لات کی کتابیات، قائد اعظم پر کتب، علامہ اقبال پر کتب کا کیٹلاگ بھی مرتب کیا۔ پاکستان لائبریری بلیٹن جس کا موجودہ نام پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل ہے سے مسلسل وابستہ ہیں۔ آپ کی انگریزی کتابوں کی تعداد ۱۰، اردو مطبوعات کی تعداد ۲، عربی زبان میں ایک، سیمیناراور کانفرنسوں کی رودادیں ۵، کتابچے اردو و انگریزی ۹، اسکیم و پلان ۳اور مضامین و اداریے انگریزی میں ۱۳، ارد و میں ۱۲ ہیں۔
عادل عثمانی صاحب نے لائبریری انجمنوں میں بھی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا، پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن، کراچی یونیورسٹی لائبریری سائنس المنائی ایسو سی ایشن، انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات، پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ، سندھ لائبریری ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ لائبریری ایسو سی ایشن، برطانیہ، امریکن لائبریری ایسو سی ایشن، اسپیشل لائبریری ایسو سی ایشن کانفرنس، امریکہ میں پاکستان کی نمائندگی کی، امریکہ، برطانیہ، یورپ، مشرق وَسطیٰ اور ہندوستان کے اہم اور بڑے کتب خانوں کا دورہ کر چکے ہیں۔
عادل عثمانی صاحب پانچ بھائی (محمد عاقل عثمانی، محمد فاضل عثمانی، محمد کامل عثمانی، محمد عادل عثمانی اور محمد واصل عثمانی) اور دو بہنیں انیس فاطمہ اور قریش فاطمہ ہیں۔ واصل عثمانی عرف بھولے میاں جو علامہ کے لقب سے معروف ہیں صاحب دیوان شاعر ہیں۔ جناب ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری کے جگری دوست ہونے کے ناطے (اکرم صاحب نے اپنی کتاب ’درجہ بندی‘ میں انھیں اپنا ہمزاد لکھا ہے ) علامہ مجھ پر بھی مہربان ہیں اور اپنی شفقت و محبت جب کبھی پاکستان میں ہوتے ہیں نچھاور کرتے رہتے ہیں۔
باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں، وہ خصوصیات جو غزل گو شاعر میں پائی جاتی ہیں بدرجہ اتم ان میں بھی موجود ہیں۔ عادل عثمانی صاحب کا بہت احترام اور ادب کرتے ہیں۔ اپنے مجموعہ کلام ’’ سب سخن میرے ‘‘ ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی اپنے بھائی عادل عثمانی صاحب کی شان میں منظوم نذرانۂ عقیدت کچھ اس طرح پیش کیا ہے ۔ (صفحہ ۹۵)
تری نگاہ نے بخشی خرد کو تابانی
ترے کرم سے بڑھی زندگی میں جولانی
ترا وجود مرے واسطے حصارِ کرم
ہے تیری ذات سے لطف و کرم کی ارزانی
رہے ہمیشہ مرے سر پہ سایۂ عادل
مرے قریب نہ آئے کوئی پریشانی
اللہ تعالیٰ نے عادل عثمانی صاحب کو فر مانبر ار اولاد ذکور اور اولاد اناث سے نوازا، محترمہ نورجہاں دختر نصیرالدین آپ کی شریک حیات تھیں۔ محمد عامر عثمانی، محمد عمر عثمانی، محمد سلمان عثمانی آپ کے بیٹے ہیں جب کہ خدیجۃ الکبریٰ(ریحانہ)، عائشہ سلطانہ، میمونہ (رضوانہ)، آمنہ اور رومانہ عثمانی آپ کی صاحبزادیاں ہیں۔ عادل عثمانی صاحب، جامعہ کراچی اور سعودی عرب کی ملازمتوں سے فارغ ہو جانے کے بعد کراچی میں مقیم ہیں اور اپنی ریٹائر منٹ لائف انتہائی سکون اور آرام سے گزار رہے ہیں، سعودی عرب میں رہتے ہوئے آپ بعض نا مناسب حالات سے دوچار ہوئے، ان میں آپ کی شریک حیات کی جدائی بھی شامل تھی جن کے باعث آپ ذہنی دباؤ اور بیماری کا شکار ہو گئے، ویسے تو بڑھاپا از خود ایک بیماری ہوتا ہے، آپ نے لکھنے کی مصروفیات کو خیر باد کہہ دیا ہے، اب آپ کا وقت عبادت اور اپنے بچوں میں گزرتا ہے۔ کم کم گفتگو کے پہلے بھی عادی تھے اب اس میں بھی کمی آ گئی ہے۔ مخاطب ان سے جو بات کرے جواب دے دیتے ہیں ورنہ چپ ہی رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ سلامت رکھے، آمین۔
۲۸ جنوری ۲۰۰۷ء
ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری
پاکستان لائبریرین شپ کی ایک محترم شخصیت
ہر آدمی ایک شخص تو ضرور ہوتا ہے لیکن ہر شخص ایک شخصیت نہیں ہوا کرتا ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری اپنی ذات میں نہ صرف ایک شخصیت ہیں بلکہ ایک انجمن اور ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنے خاندان میں انتہائی احترام اور محبت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ان کے بزرگ انہیں ’اکرم‘ کے نام سے، چھوٹے عزیز رشتہ دار ’اکرم بھائی‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں میں انتہائی عزت و توقیر سے دیکھے جاتے ہیں۔ آپ کا تعلق لائبریرین شپ کے پروفیشن سے ہے اس پروفیشن میں آپ ’ڈاکٹر سبزواری‘ کے نام سے معروف ہیں ڈاکٹر سبزواری کے آباء و اجداد کا تعلق ایران کے شہر سبزوارسے ہے جنہوں نے مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے دور میں ہندوستان ہجرت کی ابتدا میں دہلی میں قیام کیا بعد میں یو پی کے ضلع ’مظفر نگر‘ کو اپنا مسکن بنا یا اور قصبہ ’’بنتَ‘‘ میں مقیم ہوئے۔ مظفر نگر ہندوستان کے ضلع یو پی (اتر پردیس) کا ایک ضلع ہے جس کی آبادی مسلمانوں اور ہندوؤں پر مشتمل ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ ہندوستان کے صوبے یو پی (اتر پردیس) کے شمال مشرق میں واقع ہے۔
ڈاکٹر سبزواری کے مطابق ’’ایران سے ہجرت کر کے دہلی منتقل ہونے والے چار بھائی تھے۔ ہندوستان میں رہائش اختیار کر لینے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے اپنے ناموں کے ساتھ اپنے آبائی شہر ’’سبزوار‘‘ کی مناسبت سے لفظ ’’ سبزواری ‘‘ لکھا کریں گے جو ان کا خاندانی نام ہو گا۔ چنانچہ یہ رسم اس وقت سے شروع ہوئی اور آج تک ان چاروں بھائیوں کی اولاد اپنے نام کے ساتھ سبزواری تحریر کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سبزواری خاندان کے ان چاروں بھائیوں کی والدہ کا نام ’’بنتِ‘‘ تھا انہوں نے مظفر نگر کے اس قصبے کا نام اپنی والدہ کے نام کی مناسبت سے ’’بنتِ ‘‘ ہی رکھا تھا جو رفتہ رفتہ ’’ بَنت‘ ‘ہو گیا۔ یہ آج بھی قائم و دائم ہے اور خاندان کے کئی احباب اس قصبہ میں رہائش پذیر ہیں۔ بنت میں رہائش پذیر خاندان ’’محل والے ‘‘ کہلاتے تھے۔ ڈاکٹر سبزواری ضلع، مظفر نگر کے قصبہ ’’ بنت ‘‘ میں ۲ دسمبر ۱۹۳۵ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کا نام ’غنی الاکرم۔ آپ کے ایک بھائی محمد اعظم اور چار بہنیں کفیلہ مرحومہ، سنجیدہ، شکیلہ اور منیزہ جن کا انتقال کم عمری ہی میں ہوا۔ آپ کا نمبر دوسرا ہے۔ آپ کی والدہ کا نام جمیلہ خاتون اور والد کا نام غلام مصطفی سبزواری ہے۔ والدہ کا انتقال ۱۹۵۹ء میں ہو ا۔
لمبا قد، دبلے پتلے ( اب چھوٹی سی توند اور جسم بھی بھاری ہو گیا ہے )، گورا رنگ، گھنی بھوئیں، روشن پیشانی، کتا بی چہرہ پر وجاہت اور شرافت، آنکھوں میں چمک، شائستہ اور شگفتہ لہجہ، مزاج میں بڑی معصومیت گفتگو میں سوجھ بوجھ اور علمیت کا امتزاج و سنجیدگی اور بردباری، سر تا پا انکسار، چہرے مہرے اور وضع قطع سے مضبوط ارادے، حوصلے اور قوت فیصلہ کے حامل معلوم ہوتے ہیں، دیکھنے والے ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، عام طور پر پینٹ اور شرٹ گھر میں ڈھیلے پائچے کا پیجامہ پہنتے ہیں۔ ساری زندگی وضع داری میں گزاری۔ وقت اور اصولوں کے پابند، کلاس میں کبھی دیر سے نہیں آئے، شادی و دیگر تقریبات میں وقت مقررہ پر پہنچتے ہیں۔
ڈاکٹر سبزواری کی ابتدائی تعلیم کا آغاز مشرقی روایات کے مطابق دینی تعلیم سے ہوا ابتدا میں بیکانیر کے ایک دینی مدرسہ میں قرآن مجید پڑھا۔ پرائمری اور لوئر سیکنڈری (آٹھویں جماعت )تعلیم بیکانیر کے ’’ سادل ہائی اسکول‘ ‘ سے حاصل کی۔ آپ کے اسکول کے ساتھیوں میں موہن لال اور شکیل احمد سبزواری (مصنف کے ماموں جناب محبوب احمد سبزواری کے بڑے صاحبزادے، پنجاب کے شہر میلسی میں رہائش پذیر ہیں ) شامل ہیں۔ ڈاکٹر سبزواری کا کہنا ہے کہ بیکانیر میں جناب شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کے گھر ’’آزاد منزل ‘‘ میں ادبی محفلیں اور مشاعرے منعقد ہوا کر تے جن میں وہ شوق سے شرکت کیا کرتے تھے۔ اس ادبی ماحول سے متاثر ہو کر آپ نے تعلیم کی اہمیت پر ایک مضمون لکھا جو اسکول کے میگزین میں ۱۹۴۶ء یں شائع ہوا، یہ آپ کے لکھنے کی ابتدا تھی۔ قیام پاکستان کے دو ماہ بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں آپ نے اپنی والدہ، بھائی اور بہنوں کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی آپ کے والد بیکانیر ریلوے میں ملازم تھے کئی سال کے بعد پاکستان تشریف لائے۔ اس وقت آپ کی عمر ۱۳ برس تھی۔ سبزواری صاحب نے لیاری میں قائم ایس ایم لیاری اسکول میں آٹھویں جماعت میں داخلہ لیا اور اسی اسکول سے ۱۹۵۱ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اسکول کے ساتھیوں میں سید کمال احمد، نذر حسن تقوی اور نور محمد بلوچ شامل تھے۔
سبزواری صاحب کی والدہ ایک دین دار خاتون تھیں ہمیشہ پڑھنے کی ترغیب دیا کرتیں، بسا اوقات سختی بھی کیا کرتیں، نماز کی خود بھی پابند تھیں اور تمام بہن بھائیوں کواس کی سختی سے تاکید کیا کرتیں اس کے ساتھ ساتھ از خود سلائی بھی کیا کرتی تھیں۔ ہمارے گھروں کا دستور تھا( اب قدریں بدلتی جا رہی ہیں ) کہ کسی بچے نے کوئی قابل تعریف کام کیا تو اسے تاکید کی جاتی تھی کہ وہ فوری طور پر خاندان کے بزرگ کے پاس جائے اور انہیں اس سے آگاہ کرے اور ان کی دعائیں لے۔ راقم الحروف نے ۱۹۵۸ء میں دوسری جماعت کا امتحان پاس کیا تو میں بہت خوشی خو شی نتیجے کا کارڈ لے کر دادی اماں (اکرم صاحب کی والدہ میری دادی تھیں )جواس وقت ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر رہتی تھیں گیا اور اپنے پاس ہونے کی خبر سنائی یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئیں اور مجھے گلے لگا تے ہوئے ڈھیر ساری دعائیں دیں، فوری طور پر کسی کو حلوائی کی دکان پر بھیج کر لڈو منگوائے اور اپنے ہاتھ سے مجھے کھلائے۔ اکرم صاحب کی بہنیں جنہیں ہم کفیلہ پھوپھی، سنجیدہ پھوپھی اور شکیلہ پھوپھی کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے بہت ہی نیک، خوش اخلاق اور ہم سے بہت محبت کیا کرتی تھیں۔ کفیلہ پھوپھی اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں۔ حسن اتفاق ہے کہ اکرم صاحب کے چھوٹے بھائی محمد اعظم بھی میرے باقاعدہ استاد رہے وہ کینیڈا جانے سے قبل گورنمنٹ سیکنڈ ری اسکول ماری پور(بیس مسرور) میں پڑھایا کرتے تھے ان کی وجہ سے میرا داخلہ چھٹی جماعت میں اس اسکول میں ہوا تھا میں نے اسی اسکول سے میٹرک بھی کیا۔ اس سے قبل میں غازی محمد بن قا سم پرائمری اسکول، مسان روڈ میں پڑھا کرتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کی شادی ٹونک کے ایک نوا بی خاندان میں صا حبزادہ محمد علی خان صاحب مرحوم کی بڑی صاحبزادی مظفر جہاں (ملکہ ) سے ۲۴ نومبر ۱۹۶۴ء میں ہوئی۔ شادی کے وقت آپ کی شریک حیات پیشہ تدریس سے وابستہ ایک اسکول(اشاعت قر آن سیکنڈری اسکول، ناظم آباد) کی صدر معلمہ تھیں۔ شادی کے بعد آپ نے لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ بھی کیا۔ آپ کے تین صاحبزادے فرید، ندیم اور فہیم ہیں، تینوں امریکہ اور کنیڈا میں مقیم ہیں۔ شریک حیات سے تعلق کے بارے میں آپ نے اپنی کتاب ’احتساب قبل یوم الحساب‘ میں لکھا کہ ’’میں بھی ازدواجی زندگی میں نشیب و فراز سے دوچار ہوتا رہا ہوں۔ بیگم ٹو نک کے نواب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اس نسبت سے مزاج نوابی ہے۔ کبھی کبھی اختلاف رائے بھی ہوا۔ خفگی بھی ہوئی لیکن مجھ سے زیادہ بیگم نے فراخ دلی اور در گذر کی صورت اختیار کی۔ جس پر بعد میں مجھے پشیمان ہونا پڑتا تھا۔ مجھ سے زیادہ دینی ذہن کی مالک ہیں اور میری کوتاہیوں پر اکثر تنبیہ کرتی رہتی ہیں جسے میں خوش دلی سے قبول کرتا ہوں۔ بس اتنی کسر ہے وہ مزاح اور لطیفے ہضم نہیں کر پاتیں۔ بہت سے لطیفے اور چٹکلے ان کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم اور تربیت میں ان کا بڑا حصہ ہے ‘‘۔ محترمہ چچی صاحبہ کا فی عرصہ عارضہ کینسر میں مبتلا رہنے کے بعد امریکہ میں ۲مئی ۲۰۰۶ء کو اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئیں۔ بہت ہی نیک سیرت، نیک دل، بلند اخلاق
کی مالک تھیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے آمین۔
۱۹۵۹ء میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری سائنس میں ایم اے سال اول (پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ) میں داخلہ لیا۔ اساتذہ میں ڈاکٹر عبد المعید، ڈاکٹر انیس خورشید، عادل عثمانی اور شفیع صاحب مرحوم شامل تھے۔ ساتھیوں میں، جلال حیدر، شیخ ابراہیم، اختر حنیف، محمد واجد، عظیم قادری شامل تھے۔ اس دوران آپ امریکن سینٹر ہی میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ آپ نے انٹر ویو میں بتا یا کہ ’’
۱۹۶۱ء میں مسز بینکر کے کہنے پر آپ نے فل برائٹ اس کالر شپ کے لیے درخواست دی جو منظور اور آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلے گئے۔
مئی ۱۹۶۴ء میں آپ وطن واپس آئے جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں لیکچر ر کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا اور گیارہ برس تک تدریس میں منہمک رہے۔ ۱۹۷۵ء میں جب کہ آپ شعبہ کے سربراہ (چیرٔ مین) کے فرائض انجام دے رہے تھے ملازمت کے سلسلے میں آپ کو سعودی عرب کے متبرک مقام ’مکہ المکرمہ ‘ کی جامعہ اُم القریٰ سے پیش کش ہوئی جسے آپ نے بے چون و چرا قبول کر لیا۔ گویا آپ کی انسان دوستی، خوش خلقی، مروت و اخلاص، ایمانداری و صلہ رحمی، ایثار و در گذر اور سعی پیہم کا صلہ یوں ملا کہ اللہ نے اپنے گھر مکتہ المکرمہ بلا بھیجا۔ ندائے حق پر آپ نے دل و جان سے لبیک کہا اور وہ صراطِ مستقیم اپنا لی جو بیت اللہ تک آپ کو لے گئی جہاں پر آپ نے ۲۷ برس دنیاوی نعمتوں کے ساتھ ساتھ روحانی سکون بھی حاصل کیا۔ ۲۰۰۲ء میں اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر وطن واپس آ گئے۔ سعو دی عرب میں قیام کے دوران آپ نے ۱۹۸۳ء میں سینچری یونیورسٹی کیلی فورنیا، امریکہ سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ وطن واپسی پر آپ کے ساتھ گھریلو ساز و سامان کم اور کتا بیں زیادہ تھیں یہ ذاتی ذخیرہ کتب آپ نے مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے جمع کیا تھا۔ جن میں نایاب اور قیمتی کتا بیں بھی ہیں۔
راقم الحروف کو ڈاکٹر سبزواری کا شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ۱۹۷۰ میں بی اے پاس کرنے کے بعد جامعہ کراچی میں معاشیات میں ایم اے کرنے کی خواہش لیے راقم اپنے چچا(اکرم صاحب اور میرے والدحقیقی ماموں، پھوپھی زاد بھائی ہیں اس رشتہ سے آپ میرے چچا ہوئے ہم انہیں اکرم چچا ہی کہتے ہیں ) سے مشورہ اور مدد حاصل کرنے شعبہ لائبریری سائنس گیا جو کراچی یونیورسٹی لائبریری (جو اب ڈاکٹر محمود حسین لائبریری ہے ) کی پانچویں منزل پر واقع تھا۔ مدعا بیان کیا کہ میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینے کی خواہش رکھتا ہوں تا کہ اکنامکس میں ایم اے کر سکوں، ارادہ بینکر بننے کا تھا۔ اکرم صاحب نے محبت اور پیار سے بٹھایا، خوش ہوئے کہنے لگے کہ میں کلاس میں جا رہا ہوں واپس آ کر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ کلاس سے واپس آئے دائیں بائیں، اِدھر اُدھر کالے گاؤن پہنے ہوئے کئی طلبہ اور طالبات تھے اپنے کمرے میں آئے کچھ دیر ان سے باتیں کر کے انہیں فارغ کیا۔ اب مجھے متوجہ کر کے گویا ہوئے ہاں میاں تو آپ اکنامکس میں ایم کرنا چاہتے ہیں، بہت خوب اچھا خیال ہے، کیا تم نے فارم لے لیا میں نے کہا کہ نہیں ابھی نہیں لیا لینا ہے۔ پھر گویا ہوئے کہ بھئی یہ جو ہمارا سبجیکٹ ہے لائبریری سائنس یہ بھی ایک پروفیشنل اور ٹیکنیکل مضمون ہے اور خاصا اسکوپ ہے اگر تمہیں لکھنے پڑھنے اور کتابوں سے دلچسپی ہے تو اس کے بارے میں بھی سوچومیرا خیال ہے کہ یہ مضمون بھی تمہارے لیے بہتر رہے گا۔ مختصر سی گفتگو کے بعد کہنے لگے چلو گھر چلتے ہیں باقی باتیں گھر پر ہوں گی۔ کیمپس میں رہا کرتے تھے دس منٹ میں گھر پہنچ گئے۔ ان کی شادی کے بعد میں آج پہلی بار ان کے گھر گیا تھا۔ محترمہ چچی صاحبہ سے تعارف کرا یا کہنے لگے کہ یہ انیس بھائی کے بڑے صاحبزادے ہیں ماشا ء اللہ بی اے کر لیا ہے اور اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینا چاہتے ہیں۔ چچی بھی خوش ہوئیں خیریت پوچھی امی ابا اور بہن بھائیوں کے بارے میں دریافت کیا۔ کچھ دیر میں کھانا میز پر لگ گیا۔ کھانے کے دوران کہنے لگے بیگم یہ جو رئیس میاں ہیں انہیں ہم نے گود میں کھلایا ہے۔ بہار کالونی میں ہم سب ایک ہی گھر میں رہا کرتے تھے سب لوگ بڑے بڑے تھے بچہ ایک ہی تھا وہ یہ تھے، گھر کچے تھے باہر بھی ریت ہوا کرتی تھی ہم اکثر انہیں کھلانے گھر سے باہر لے جاتے اور انہیں ریت میں کھڑا کر کے چاروں طرف سے ریت ڈال دیا کر تے تھے۔ اسی طرح کے اور واقعات انہوں نے سنائے۔ یہ باتیں میں اپنے گھر میں بھی سن چکا تھا۔ در اصل میرے والد صاحب جب ہندوستان سے کراچی آئے تو رہنے کے لیے اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا بہار کالونی میں اکرم صاحب اور دیگر خاندان کے احباب ایک ہی گھر میں رہا کرتے تھے۔ با وجود اس کے کہ گھر بہت مختصر اور وہ بھی کچا تھا لیکن ہمارے بزرگوں کے دلوں میں بہت گنجائش تھی۔ کچھ ہی عرصہ بعد ہمارے والد صاحب نے الگ جگہ(آگرہ تاج کا لونی میں )لے لی اور ہم اس میں منتقل ہو گئے۔ المختصر یہ کہ میں اکرم صاحب سے پہلے ہی بہت متاثر تھا کیوں کہ ہمارے خاندان میں اکرم صاحب پہلے فرد تھے جو امریکہ پڑھنے گئے اور یونیورسٹی میں استاد ہوئے۔ اکرم صاحب کے گھر ہی میں میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں معاشیات میں نہیں بلکہ لائبریری سائنس میں داخلہ لوں گا۔ چنانچہ ایک داخلہ فارم اکنامکس میں اور ایک لائبریری سائنس میں جمع کرا دیا گیا۔ لائبریری سائنس شعبہ کے انتظامی معاملات میں اس وقت اکرم صاحب ہی کرتا دھر تا تھے چنانچہ میرا داخلہ اس شعبہ میں ہو گیا۔
جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں ڈاکٹر سبزواری منفرد اور مقبول اساتذہ میں سے تھے۔ آپ کے پڑھانے کا انداز عالمانہ اور موضوع پر مکمل گرفت، ساتھ ہی ساتھ دوران لیکچر مزاح کی چاشنی بھی ہوا کرتی۔ ایک اچھے استاد کی طرح پڑھانے میں خود بھی محنت کرتے اور طلبہ سے بھی محنت لیا کرتے تھے۔ آپ نے اپنے اور طلبہ کے درمیان کبھی فاصلہ نہیں رکھا ان سے ہمیشہ پیار، محبت، ہمدردی سے پیش آیا کرتے دیگر شہروں کے طلبہ کا زیادہ خیال رکھتے، اکثر ان سے دریافت کرتے کہ انہیں کسی قسم کی پریشانی یا تکلیف تو نہیں۔ کیمپس میں رہا کرتے تھے چنانچہ ہر تہوار کو خصوصاً عید اور بقر عید کے روز ان طلبہ کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا کرتے تاکہ ان میں اپنے گھر سے دوری کے احساس کو کم کر سکیں بعض طلبہ کی مالی امداد بھی کی لیکن دوران تعلیم کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اب اکثر طلبہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہاسٹل میں مقیم طلبہ کے پاس جا کر ان کی خیریت دریافت کیا کرتے کہ انہیں کسی قسم کی تکلیف تو نہیں۔
سبزواری صاحب نے جامعہ کراچی میں بہت اچھا وقت گزارا۔ خوش رہے۔ مطمئن رہے۔ قناعت پسند ہیں تھوڑے کو بہت سمجھتے ہیں۔ دنیاوی دولت و ثروت، جاہ و منصب اور شہرت کی مطلق ہوس نہیں تھی اور نہ اب ہے۔ دوستوں، عزیز رشتہ داروں حتیٰ کہ دور پرے کے جاننے والوں سے بھی انتہائی محبت اور ٹوٹ کر ملا کر تے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمعید مرحوم کے بہت مداح ہیں اور ان کا حد درجہ احترام کر تے ہیں۔ محمد عادل عثمانی صاحب جو ان کے استاد بھی ہیں کی علمیت، بزرگی اور بڑائی کے حد درجہ قائل ہیں ان کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا طرزِ عمل معروف شاعر آتشؔ کے خیال میں ؎
محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
جھکا تی ہے ہماری عاجزی سر کش گر دن کو
آپ انتہائی ملنسار، خوش اخلاق، ہمدرد، ہر ایک کی بات کو غور سے اور توجہ سے سننا آپ کا معمول ہے، سعودی عرب سے جب وطن آتے تو از خود اپنے عزیز رشتہ داروں، دوستوں، شاگردوں سے ملنے جانا آپ کا معمول تھا۔ آپ سے مل کر لوگوں میں ایک خوش گوار تاثر محسوس ہوتا ہے۔ اکرم صاحب کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع ہے تاہم قریبی دوست کم ہی ہیں۔ آپ مزاجاً مجلسی واقع ہوئے ہیں۔ اپنے شاگردوں کو مجازی اولاد سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کر تے ہیں۔ آپ کے ہزاروں طلبہ آپ کے دوستوں ہی کی طرح ہیں۔ داغؔ دہلوی کے بقول :
داغؔ دشمن سے بھی جھک کر ملئے
کچھ عجب چیز ملنساری ہے
ڈاکٹر سبزواری کے خاص دوستوں میں پروفیسر محمد واصل عثمانی کا نام سر فہرست ہے جنہیں آپ ’’علامہ ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں کبھی کبھار ’بھولو‘ (بھولے میاں واصل صاحب کی عرفیت ہے ) بھی کہتے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی جو جامعہ کراچی کے علاوہ میرے کالج (گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد )میں بھی استاد رہے نے اپنی کتاب بعنوان ’’آنگن میں ستارے ‘‘ میں پروفیسر واصل عثمانی صاحب کا خاکہ تحریر کیا ہے۔ سبزواری صاحب کے حوالے سے آپ نے لکھا کہ ’’واصل صاحب کا تذکرہ سبزواری صاحب کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ میاں آدمی تھے اور زندگی کے خصوصی رویوں میں واصل صاحب سے پوری طرح آہنگ تھے لہٰذا دونوں میں بڑی گاڑھی چھنتی تھی۔ اکثر ساتھ ہی نظر آتے رختِ سفر باندھنے کی نوبت آئی تو دونوں ہی سعودی عرب چلے گئے ‘‘۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے عزیز ترین دوست ہیں دونوں نے دوستی کو خوب نبھا یا ہے۔ واصل صاحب اپنے دوست کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے کبھی کبھی جذباتی بھی ہو جا تے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کے دوست نے ان کا ہر اچھے اور برے وقت میں ساتھ دیا ہے۔ اکرم صاحب بھی اپنے دوست کواسی طرح عزیز رکھتے ہیں۔ بقول امیر مینائی :
ہے وہی دوست جسے جس سے محبت ہو جائے
نہ یہ اپنے پہ ہے موقوف نہ بے گا نے پر
۲۰۰۵ء میں واصل صاحب بیمار ہوئے اور آغا خان اسپتال میں داخل ہونے کی نوبت آ گئی۔
اکرم صاحب ان دنوں پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے ’اسکول آف لائبریرین شپ ‘ میں پڑھا رہے تھے یہ ان کی بڑائی تھی۔ میں کلاس لینے کے بعد اپنے آفس میں بیٹھا تھا اکرم صاحب کلاس لینے کے بعد آفس میں آئے اور کہنے لگے کہ علامہ اسپتال میں ہیں انہیں دیکھنے جانا ہے۔ بھرائی ہوئی آواز، افسر دہ چہرہ، آنکھوں میں نمی نمایاں تھی محسوس ہو رہا تھا کہ بہت زیادہ متفکر ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم اسپتال پہنچے واقعی اس وقت علامہ کی حالت بہت ہی تشویش ناک تھی شاید ہمیں تو پہچانا بھی نہیں البتہ جب اکرم صاحب نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھا تو دونوں کی آنکھوں میں آنسوتھے۔ واصل صاحب گفتگو کے قابل نہیں تھے بعد میں واصل صاحب نے بتا یا کہ اکرم صاحب رات میں پھر اسپتال آئے اور کہنے لگے کہ میں رات میں اسپتال میں رہوں گا سب لوگ جائیں حالا نکہ ان دنوں اکرم صاحب کی بیگم بھی بیمار تھیں۔ اکرم صاحب کی مکہ مکرمہ روانگی کے موقع پر واصل صاحب نے بھی ایک عشائیہ کا اہتمام (۱۳جولائی ۱۹۷۶ء) کیا جس میں آپ نے اکرم صاحب کی جدائی کے احساس کو اشعار میں بیان کیا گو وہ بھی کچھ عرصہ بعد اپنے دوست کے پاس سعودی عرب تشریف لے گئے۔ اب جب کہ اکرم صاحب امریکہ میں ہیں تو واصل صاحب بھی ان کا پیچھا کرتے ہوئے امریکہ کے چکر لگا تے رہتے ہیں۔ دونوں کی دوستی مثالی، قابل تقلید اور قابل رشک ہے بسا اوقات بعض دوست اپنی محبت میں حسد بھی کرنے لگتے ہیں۔
ڈاکٹر سبزواری کے علمی کارناموں میں سب سے اہم لائبریرین شپ کے پیشے سے متعلق ایک سہ ماہی رسالہ ’پاکستان لائبریری بلیٹن ‘ جس کا موجودہ نام ’پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل‘ ہے کا اجرا ہے جو ۱۹۶۸ سے مسلسل شا ئع ہو رہا ہے ۲۰۰۷ء تک اس کی ۳۸ جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ پاکستان لائبریرین شپ کا یہ واحد رسالہ ہے جس نے اپنی اشاعت کے ۳۶ برس مکمل کیے کسی اور رسالے کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہو سکا اس کے علاوہ ایک ادارہ ’لائبریری پروموشن بیورو‘ کا قیام ہے جس کے زیر اہتمام اب تک ۵۰ کے قریب کتب شائع کی جا چکی ہیں۔ اس ادارے سے آپ کے دلی تعلق کا عالم یہ ہے کہ آپ اس ادارے کو اپنا تیسرا بیٹا گر دانتے ہیں۔ کینیڈا کے تسلیم الٰہی زلفی کو انٹرویو میں (یہ انٹر ویو پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جر نل جلد ۳۶(۱)، مارچ ۲۰۰۵ء میں شائع بھی ہوا) ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے واضح کیا ’’ کہ میرے تین بیٹے ہیں، دو امریکہ میں اور ایک کنیڈا میں۔ بیگم اور بیٹے بھی یہی کہتے ہیں کہ میں امریکہ یا کنیڈا میں قیام کروں۔ میں کہتا ہوں کہ تین بیٹے ہیں اور چوتھا بیٹا یہ ادارہ (لائبریری پروموشن بیورو) ہے اگر میں یہاں چلا آیا تو ہمارا ادارہ بند ہو جائے گا ‘‘۔ ڈاکٹر سبزواری کئی کتابوں کے مصنف ہیں آپ کے بے شمار مضامین اور اداریے تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ سبزواری صاحب نے بڑی لگن اور استقلال سے اپنے پروفیشن کی خدمت کی ہے۔ ان کا مطالعہ وسیع، نظر گہری، یادداشت غیر معمولی اور رائے بڑی جچی تلی ہے۔ آپ کی تحریر طویل غور و فکر دید و دریافت اور تجربے کا نتیجہ ہے۔ لائبریرین شپ کے علاوہ اسلام اور عام معلوماتی موضوعات پر بھی آپ نے لکھا ہے حال ہی میں آپ کی ایک کتاب ’’احتساب قبل یومُ الحساب ‘‘ منظر عام پر آئی ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ ’’ یہ مختصر سا کتابچہ حالات حاضرہ سے متاثر ہو کر لکھنے کی جسارت کی ہے ‘‘۔ ۲۰۰۶ء میں آپ کی ایک کتاب ’’درجہ بندی‘‘ کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر آیا۔
ڈاکٹر سبزواری کے خطوط راقم ا الحروف کے نام
انسانی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک بیرونی ‘ دوسرا اندرونی یعنی ایک سَماجی ‘ دوسرا نجی ان دونوں پہلوؤں کے جائزے سے بھی انسان کو پرکھا جا سکتا ہے۔ خطوط ایسا ہی ایک ذریعہ ہوتے ہیں جن سے انسانی زندگی کے مختلف روپ مثلاً بحیثیت باپ، بیٹا، شوہر، دوست، پڑوسی، شاگرد، استاد وغیرہ وغیرہ سامنے آتے ہیں اور معاشرے میں اس کی تمام تر حیثیتیں واضح ہو جاتی ہیں۔ ‘‘
راقم الحروف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ڈاکٹر سبزواری نے مکہ المکرمہ جیسی متبرک سر زمین سے ۲۷ برس قیام کے دوران بے شمار خطوط تحریر کیے۔ ان میں سے راقم کے پاس تقریباً ۷۰ خطوط محفوظ ہیں۔ یہ خطوط آپ کی نجی تحریر ہے جن سے آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ خاص طور پر وطن سے دور رہتے ہوئے اپنے وطن کی محبت اور درد، اپنے پیشے کی ترقی اور فروغ کی تمنا، اپنے پروفیشن کے لیے کچھ کرنے کی لگن، وطن میں رہتے ہوئے اپنے قائم کر دہ ادارے ’لائبریری پروموشن بیورو‘ اور اس کے تحت جاری کردہ رسالے ’پاکستان لائبریری بلیٹن‘ (پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل )کی باقاعدہ اشاعت کی تگ و دو، مصنف کی حیثیت سے لکھنے کے عمل کو مسلسل جاری رکھنا، راقم کو لکھنے کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کرتے رہنا، پاکستان میں موجود اپنے دوست احباب، عزیز رشتہ داروں اور شاگردوں کی خبر گیری رکھنا ان کے دکھ درد میں شریک رہنا شامل ہے۔ یہ خطوط آپ کے حسن اخلاق و کردار کاعکس ہیں۔ مہمان نوازی آپ کی شخصیت کا ایک اہم عنصر ہے، کراچی میں رہتے ہوئے آپ کے دوست احباب اور شاگرد اس سے بخوبی واقف ہیں۔ جو احباب سعودی عرب گئے وہ آپ کی مہمان نوازی سے بخوبی آگاہ ہیں اور کھلے بندوں اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔
۳۰ جولائی ۱۹۷۵ء کو تحریر کیے گئے اپنے خط میں آپ لکھتے ہیں ’’ آپ کی کالونی (میں اس زمانے میں میں آگرہ تاج کالونی میں رہتا تھا) محمد زاہد حسین صاحب (اب ان کا انتقال ہو چکا ہے ) جو جماعتِ اسلامی کے سرگرم کارکن ہیں اور یہاں طائف میں پاکستانی اسکول میں پڑھاتے ہیں آجکل مکہ مکرمہ آئے ہوئے ہیں میں ان کو اپنے گھر لے آیا وہ میرے ساتھ قیام کیے ہوئے ہیں اگر ان کے گھر جانا ہو تو ان کے والد صاحب کو ان کا اور میرا سلام عرض کرنا اور بیگم صاحبہ کو کہلوا دیں کہ زاہد صاحب یہاں کھانے پینے میں بڑا تکلف کرتے ہیں ان کی ذرا خبر لیں۔ ان کے بیٹے عبداللہ کو دعائیں۔ زاہد صاحب نے بتا یا کہ ان کے سسرال کی طرف سے آپ کی اور ہماری رشتہ داری ہوتی ہے لہٰذا اس رشتہ سے بھی ان پر خاصہ زور ڈالتا ہوں۔ بہر حال ان کے ساتھ اچھی گذر رہی ہے یکم شعبان کو وہ طائف واپس چلے جائیں گے کیوں کہ ان کا اسکول کھل جائے گا ‘‘۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
تواضع کا طریقہ صاحبو سیکھو صراحی سے
کہ جاری فیض بھی ہے اور جھکی رہتی ہے گردن بھی
مکہ المکرمہ میں قیام کے دوران جو احباب بھی وہاں گئے وہ سبزواری صاحب کی مہمان نوازی کے گن گاتے نہیں تھکتے۔ بقول کسی کے سبزواری صاحب کو جھوٹوں سے بھنک پڑ جائے کہ ان کے دور پرے کا کوئی عزیز رشتہ دار یا جاننے والا مکہ المکرمہ میں آیا ہے تو وہ اپنے تمام کام چھوڑ کر اسے کسی نہ کسی طرح ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو جاتے اوراسے اپنے گھر لے آتے۔ یہی نہیں بلکہ سعودی عرب کے کسی دوسرے شہر میں بھی اگر کوئی ان کا جاننے والا ہوتا تو وہ اسے وہاں سے لینے پہنچ جاتے۔
معروف شاعر جناب راغبؔ مراد آبادی سعودی عرب تشریف لے گئے۔ راغبؔ صاحب کوفی البدیہہ شعر کہنے کا جو ملکہ حاصل ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے اپنے قیام سعودی عرب کی مصروفیات اور احساسات کو اپنی کتاب ’’جادۂ رحمت ‘‘ میں بیان کیا۔ آپ لکھتے ہیں ’’ جناب غنی الاکرم سبزواری بعدِ مغرب مکہ سے جدہ آئے اور ہمیں اپنی کار میں مکہٌ لے گئے۔ سبز واری صاحب امٌ القرُیٰ یونیورسٹی میں لائبریرین ہیں۔ شارع ابنِ خلدون پر واقع کئی منزلہ عمارت کے ایک کشادہ فلیٹ میں اقامت ہے۔ طوافِ کعبہ اور نماز عشاء سے فارغ ہو کر جناب سبزواری ہی کے یہاں کھانا کھایا۔ ہمارے علاوہ مکہ کے چند دیگر معززین بھی مدعو تھے۔ کھانے کے بعد نعتیہ محفل ہوئی۔ ہم سب نے رات یہیں بسر کی۔ نماز تہجد و نماز فجر کے لیے حرم شریف گئے جو بہت قریب ہے۔ اگلے روز ۹ مارچ ۱۹۹۴ء کو خانہ کعبہ میں نماز جمعہ ادا کی سہ پہر کو غنی الاکرم صاحب ہمیں اپنی گاڑی میں عرفات۔ منیٰ۔ مزدلفہ حِرا اور متعدد دیگر مقامات اہم کی زیارت کو لے گئے۔ میں کار میں ان کے ساتھ اگلی نشست پر تھا۔ لہٰذا ان سے جملہ مقامات کی تاریخی اہمیت پر جو گفتگو ہوئی میں نے اسے ٹیپ میں محفوظ کر لیا۔ یہ بات چیت بہت مفید اور
کارآمد ثابت ہوئی۔ غنی الا کرم صاحب کے والد بزرگوار سے بھی شرفِ ملاقات حاصل ہوا اور غنی الا کرم صاحب کے بیٹوں فہیم، ندیم اور فرید کو بھی دیکھا یہ نوجوان عربی بالکل اہلِ زبان کی طرح بولتے ہیں اس
کے باوجود عجمی ہی کہلاتے ہیں ‘‘ راغبؔ صاحب نے اپنے سفر کو نظم میں بہت ہی خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ اشعار جن میں سبزواری صاحب کا ذکر کیا گیا حسب ذیل ہیں۔
صاحِب دل و نُکتہ دَاں غنی اُ لا کرم
خُوش طِینت و مِہر باں غنی اُ لا کرم
ہم سَب کے بفضلِ حَق تعالیٰ اِمروز
مکی میں ہیں میزباں غنی اُ لا کرم
ہاں، مرکز علم و آگہی کو دیکھا
ہاں، محورِ عقل و روشنی کو دیکھا
ہَم راہِ جناب سبزواری راغبؔ
اَللہ رے مَو لِد ُ النبِیؐ کو دیکھا
غافِل نہ رہے شکرِ خُدا سے ہم
آگاہ تھے آدابِ دُعا سے ہم بھی
موٹر میں جنابِ سبزواری ہی کی آج
گزرے مُزدَلفہ و مِنیٰ سے ہم بھی
مکہ مکر مہ میں قیام کے دوران آپ کو حکیم محمد سعیدشہید کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا جس کی تفصیل بتاتے ہوئے آپ نے بتا یا کہ ’’مکہ المکرمہ میں حکیم صاحب ایک ایجوکیشن کانفرنس میں آئے ہوئے تھے ملاقات ہوئی میں نے انہیں دعوت دی ساتھ ہی یہ بھی پوچھا کہ کیا کھانا پسند کریں گے۔ دعوت قبول کرتے ہوئے کہنے لگے کہ کھانا بالکل سادہ ہو مرغن نہ ہو۔ آپ میرے گھر تشریف لائے اس موقع پر میں نے دیگر لائبریرینز جواس وقت مکہ میں تھے کو بھی بلا لیا ان میں ڈاکٹر عبدا لصبوح قاسمی، یعقوب چودھری، عبدالرحمن وغیرہ شامل تھے۔ دوسری بارمدرسہ صولتیہ کے شمیم احمد صاحب کے گھر ملاقات ہوئی۔ شمیم صاحب نے حکیم صاحب سے کہا کہ آپ توشیر خوار ہیں آپ کے لیے دودھ منگواتا ہوں۔ ایک بار میں اپنی لائبریری میں کام کر رہا تھا دیکھا کہ حکیم صاحب کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید صاحب تشریف لائے کہنے لگے کہ مجھے حکیم سعید نے آپ کا نام بتایا آپ طب پر موجود مخطوطات کے بارے میں جاننا چاہتے تھے ‘‘۔
ڈاکٹر سبزواری انتہا ئی محنتی واقع ہوئے ہیں اپنی عملی زندگی کے ابتدائی دور سے آج تک مسلسل تندہی سے مقاصد کے حصول کے لیے سر گرداں ہیں۔ انہوں نے لکھنے کا کام رات رات بھر جاگ کر کیا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’ جب میری بیگم (جنہیں وہ از راہ مذاق بے غم کہتے ہیں ) سو جاتی ہیں تو میری صبح ہو جاتی ہے اور میں رات گئے تک کام کرتا رہتا ہوں۔ صبح اٹھنے کے بھی عادی ہیں، ہم نے انہیں شروع ہی سے باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ نے راقم کو بھی محنت سے کام کرنے اور مخالفت کی پرواہ نہ کرنے کی تر غیب دی۔ اپنے خط بتاریخ ۲۱ جمادی الا ول ۱۳۹۹ھ میں آپ نے لکھا ’’ ایک بات ذہن نشیں کر لیں کہ جو شخص بڑی ذمہ داری اور بلند کام انجام دینے کا عزم کرتا ہے بشرطیکہ خلوص نیت شامل ہو تو اللہ تعالیٰ بے پناہ مدد کرتے ہیں۔ اس میں بے حد دشواریاں ‘ مخالفت اور پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں لیکن اگر مخالفت اور اعتراضات کی پر واہ کیے بغیر کام کرتے چلے جائیں تو مخالفین خود بخود ذلیل اور رسوا ہو کر منہ چھپانے لگتے ہیں۔ بس آپ مردانہ وار قدم آگے بڑھاتے جائیں اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائیں گے۔ اتنا ضرور خیال رکھیں کہ خوامخواہ کسی کی دل آزاری نہ کریں اور خوامخواہ کسی کی مخالفت مول نہ لیں۔ جہاں تک ہو سکے ہر شخص کا تعاون اور مدد حاصل کریں ‘‘۔ آپ نے خود بھی علمی اور تعمیری کام کیے اور دوسروں کو بھی اس کی تر غیب دی۔ ۲۵ مارچ ۱۹۸۰ء کو تحریر کیے گئے اپنے خط میں آپ نے لکھا کہ ’’ علمی اور تعمیری کام میں مصروفیت باعث برکت ہوتی ہے ‘‘۔
مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے آپ نے راقم کو ہمیشہ سعودی عرب آنے کی دعوت دی راقم بھی اس کی شدید خواہش رکھتا تھا مجبوریاں اپنی جگہ در اصل بلا وا نہیں تھا حکم خداوندی کے بغیر یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میرے احباب خانہ کعبہ میں میرے لیے دعائیں کرتے رہے اور میری زندگی کے تمام کام آسان ہوتے گئے۔ ایک مر تبہ راقم بیمار ہوا نوبت اسپتال میں داخل ہونے اور آپریشن کو پہنچی۔ اکرم صاحب نے اپنے خط بتاریخ ۸ دسمبر ۱۹۷۹ء میں تحریر فر ما یا ’’ آپ کی صحت اب کیسی ہے۔ علاج اور پرہیز جاری ہے ؟ میں نے حج اور بیت اللہ میں آپ کی صحت ‘ ترقی اور خوش حالی کی دل سے دعائیں کی ہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں گے انشا اللہ العزیز‘‘۔
(یہ مضمون ڈاکٹر صاحب پر راقم کی تحریر کردہ کتاب ’’ڈاکٹر غنی لا اکرم سبزواری : شخصیت و خدمات‘‘ شائع شدہ ۲۰۰۶ء سے ماخوذ ہے )
پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر
پاکستان لائبریرین شپ کے معروف استاد و محقق
۱۹۷۱ء کے ابتدائی دنوں میں سے کوئی دن، شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی کے کتب خا نے (یہ اب ڈاکٹر محمود حسین لائبریری ہے ) کی پانچویں منزل پر واقع تھا۔ تمام کمروں کے چاروں اطراف کھلی ہوئی جگہ نے کلاس روم کو ضرورت سے زیادہ روشن کر دیا تھا بلکہ چبھتی ہوئی روشنی کا احساس نمایاں تھا۔ کلاس روم میں کل۷۷ طلبہ جن میں ۴۴ طلبہ اور ۳۳ طالبات تھیں۔ یہ ایم اے سال اول (لائبریری سائنس) کی کلاس تھی۔ تمام طلبہ نے جامعہ کے شوق میں کالے رنگ کے گاؤن زیب تن کیے ہوئے تھے (اُس زمانے میں جامعہ کے ہر طالب علم کے لیے کالا گاؤن پہننا لازمی تھا)۔ کلاس روم میں مکمل خاموشی، پہلے دن کے خوف نے ماحول کو کچھ زیادہ ہی خاموش بنا دیا تھا سونے پر سہاگہ یہ کہ پروفیسر صاحب کے خشک اور دو ٹوک لہجے نے طلبہ کو دم بہ خود کر دیا تھا۔ پروفیسر صاحب کلاس میں تشریف لائے تمہیدی گفتگو کے بعد بتا یا کہ وہ کیٹلاگ سازی پڑھائیں گے۔ لفظ کیٹلاگ آج پہلی بار سنا تھا اُس وقت تو ایسامحسوس ہوا کہ یہ کسی جنگلی جانور کا نام ہے جو وادیِ کیلاش سے تعلق رکھتا ہو گا۔ رفتہ رفتہ عُقدہ کھلا کہ یہ تو لائبریری سائنس کا ایک بنیادی مضمون ہے۔ پروفیسر صاحب کا نصیحت آمیز لیکچر ختم ہوا ان کے کلاس روم سے جاتے ہی ایک جانب سے آواز آئی ’’اف توبہ بڑا ہی مشکل مضمون ہے ‘ خدا خیر کرے ‘‘ اس پر ایک اور قہقہہ لگا، یہ آواز کلاس کے ایک زیادہ عمر کے طالب علم منظور ا لکریم کی تھی جو اپنے مزاج میں بھر پور مزاح لیے ہوئے تھے ان کے ساتھ ان کے ایک اور دوست جبار نے ٹھیکہ لگا یا ’بچ کے رہنا بھائیوں اور بہنو‘۔ لیکن چند ہی دنوں میں پروفیسر صاحب کی سختی نر می اور پیار و محبت میں بدل گئی۔ یہ تھے سید جلال الدین حیدر(جو اب پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر ہیں )
سید اعجاز حسین مرحوم کے بیٹے، آپ کے علاوہ آپ کی تین بہنیں ہیں جن میں آپ کا نمبر چوتھا ہے۔ ، ۸ جولائی ۱۹۳۸ء کو ہندوستان کے شہر جُون پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جُون پور ہی میں حاصل کی، الہٰ آباد بورڈ سے جسٹرڈ شیعہ انٹر کالج، جُون پور سے ۱۹۵۳ء میں میٹرک اور ۱۹۵۵ء میں انٹر پاس کیا، ۱۹۵۶ء میں والدین کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور ناظم آباد نمبر ۱ میں سکونت اختیار کی بعد ازاں نارتھ ناظم آباد میں سکونت اختیار کی اور آج بھی وہیں مقیم ہیں۔ اردو کالج سے ۱۹۵۹ء میں بی اے، جامعہ کراچی سے ۱۹۶۱ء میں لائبریری سائنس میں ڈپلومہ، ۱۹۶۴ء میں امریکہ سے ایم ایل آئی ایس کر کے وطن واپس آئے ایک سال بعد ۱۸ ستمبر ۱۹۶۵ء کو سیدہ ریاض زہرہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے آپ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک انسان کو زندگی میں سب کچھ مل جائے۔ آپ کا ثابت قدم رہنا اللہ کی ذات پر پختہ ایمان کا مظہر ہے۔ ۱۹۶۰ میں جامعہ کراچی کے کتب خانے سے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ ۱۹۷۰ء میں جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں استاد کی حیثیت سے تقرر ہوا، صدر شعبہ کی حیثیت سے ۱۹۹۸ء میں ریٹائر ہوئے۔
لانبا قد، بھاری جسم (جو اب نہیں رہا)، کتا بی چہرہ، گندمی رنگ، گھنے سیاہ بال (جن میں اب سفیدی نمایاں ہے )، داڑھی مونچھیں صاف یعنی کلین شیو، ستواں ناک، آنکھیں چھو ٹی اور کسیِ قدر اندر کی جانب، مضبوط ہاتھ پیر، زیادہ تر پینٹ شرٹ اور کوٹ پتلون لیکن کبھی کبھی شیروانی اور علی گڑھ کاٹ کے پیجامے میں بھی ہوا کرتے تھے اب تو اکثر تقاریب میں اسی لباس میں نظر آتے ہیں۔ جوانی میں وضع دار تھے تمام زندگی اسی وضع داری میں گزار دی، وقت اور اصولوں کے سخت پابند۔ کلاس میں کبھی دیر سے نہیں پہنچے کلاس میں آئے راسٹرم کے پیچھے کھڑے ہو کر مخصوص انداز سے اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی پر کلائی کی جانب وقت دیکھا ساتھ ہی کلاس پر ایک معنی خیز نظر دوڑائی انداز بتا رہا ہوتا کہ دیکھو میں بالکل وقت پر کلاس میں آ گیا ہوں۔ جو کچھ پڑھاتے حد درجہ عالمانہ اور فنی انداز سے پڑھاتے البتہ لہجہ میں قدرِ کرختگی ضرور تھی۔
اس زمانے میں جامعہ کراچی میں سیمسٹر نظام رائج نہیں ہوا تھا اور ہر مضمون میں انٹر نل ایویولیشن (Internal Evaluation)کے طور پر ۲۵ مارکس ہوا کرتے تھے جس کی تفویض کا کل اختیار متعلقہ استاد کے پاس ہوتا تھا جلال صاحب دوران لیکچر ان ۲۵ نمبروں کا خوف بہت زیادہ دلایا کرتے تھے آپ کی یہ بات طلبہ میں اس قدر عام ہوئی کہ اکثر طلبہ آپ کو ’سر ۲۵ نمبر ‘کہنے لگے تھے۔ ایک بار شعبہ سال اول و دوم کے تمام طلبہ پکنک منانے کسی ساحلی مقام پر گئے شعبہ کے اساتذہ میں ڈاکٹر عبدالمعید، ڈاکٹر غنی الا کرم سبزوری (اس وقت ڈاکٹر نہیں تھے )، ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر(اس وقت ڈاکٹر نہیں تھے )، اختر حنیف، اظہار الحق ضیاء اور ممتاز بیگم بھی تھیں۔ چند طلبہ جن میں افتخار خواجہ( اب ڈاکٹر افتخار الدین خواجہ ہیں )بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری سائنس کے بانی صدر شعبہ ہوئے بعد از آں شعبہ تعلیم سے ریٹائر ہوئے، رموز احمد خان(اس وقت شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور کے صدر شعبہ ہیں )، عبدالجبار اور منظور الکریم (مرحوم) اس تماشے کے بنیادی کردار تھے۔ رموز احمد خان کو سر سے پیر تک سفید چادر ڈال کر زمیں پر لٹا دیا گیا اور افتخار خواجہ نے ان سے سوالات دریافت کرنا شروع کیے۔ ان کے چاروں جانب طلبہ اور اساتذہ کھڑے تھے۔ پہلے ڈاکٹر عبد المعید کی جانب اشارہ کیا اور پوچھا یہ کون ہیں ؟ جواب دیا گیا کہ ڈاکٹر عبد المعید، پوچھا کہ یہ اِس وقت
کہاں ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں جواب دیا گیا کہ یہ اس وقت آشور بنی پال کے کتب خانے میں ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ میں اس کتب خانے کی کتابیں جو مٹی کی تختیاں ہیں کس طرح اپنے ساتھ لے جاؤں۔ (زور دار قہقہہ اور تالیاں )، پھر سبزواری صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ کون ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں ؟ جواب دیا کہ یہ سر اکرم ہیں اور اس وقت سوچ رہے ہیں کہ پکنک پر آئے ہوئے جن طلبہ نے چندہ نہیں دیا ان سے کیسے وصول کیا جائے (واضح رہے کہ سبزواری صاحب اس وقت مشیر طلبہ تھے اور تمام تر طلبہ سرگرمیاں ان ہی کی مرہون منت تھیں )، اس کے بعد تماشہ گر نے جلال صاحب کی جانب اشارہ کیا اور پوچھا کہ یہ کون ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں ؟ جواب دیا یہ سر جلال ہیں اور اس وقت سوچ رہے ہیں کہ ۲۵ نمبر میں سے کس کس کو زیرو نمبر دوں اس جواب پر تمام لوگوں نے زور دار قہقہہ لگایا۔
۱۹۷۲ء میں جلال صاحب ایران چلے گئے اور تبریز یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری سائنس میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ ۱۹۷۵ء میں واپس آ کر دوبارہ شعبہ سے منسلک ہوئے ڈاکٹر حیدر سے راقم کا تعلق استادو شاگرد کے علاوہ ہم پیشہ و ہم مشرف کا بھی تھا چنانچہ اکثر شعبہ میں ان سے ملاقاتیں رہتیں لیکن کم کم اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہم باقاعدہ طور پر اپنے استادغنی الا کرم سبزواری صاحب کے قائم کر دہ ادارے لائبریری پروموشن بیورو اور اس کے تحت جاری رسالے ’پاکستان لائبریری بلیٹن‘ (نیا نام پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جر نل ) سے منسلک ہو چکے تھے اور’ عثمانی و سبزواری‘ کے حلقے میں داخل تھے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا جلال صاحب اور ہم قریب آتے گئے اور تعلق استاد شاگرد سے بڑھ کر ددستانہ ہو گیا اب ہر موضوع اور ہر مسئلہ پر ادب و لحاظ کے دائرہ میں رہتے ہوئے گفتگو ہونے لگی۔ راقم پہلی مر تبہ ۱۹۹۵ء میں اس وقت جب کہ جلال صاحب شعبہ کے سر براہ تھے بورڈ آف اسٹڈیز برائے لائبریری و انفارمیشن سائنس جامعہ کراچی کا رکن مقرر ہوا اور مسلسل ۹ سال یہ فرائض انجام دیتا رہا۔ جلال صاحب کے بعد ڈاکٹر نعیم قریشی اور ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے بھی میرے انتخاب کو بر قرار رکھا۔ مجھے پہلی مر تبہ یہ اعزاز جلال صاحب ہی کی وجہ سے ملا تھا۔ راقم ۱۹۹۵ء، ۱۹۹۷ء میں جزوقتی استاد بھی رہا۔
ڈاکٹر حیدر پاکستان میں لائبریرین شپ کے استاد الا اساتذہ میں سے ہیں۔ آپ نے پاکستان لائبریرین شپ کو بہت کچھ دیا۔ آپ کے شاگرد جو ہزاروں میں ہیں پاکستان کے کونے کونے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بیرونی دنیا میں میں بھی آپ کے شاگردوں کی بڑی تعداد ہے۔ آپ ایک علمی انسان اور بزرگ اسکالر ہیں۔ آپ کی علمی خدمات بہت وقیع اور محترم سمجھی جاتی ہیں۔ لائبریرین شپ کا شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہو جو آپ کے قلم کی گرفت میں نہ آ سکا ہو۔ آپ کی تحریر کا زیادہ حصہ انگریزی زبان میں ہے جو پاکستان اور بیرون ملک کے پیشہ ورانہ جرائد میں شائع ہوا، آپ نے اردو زبان میں بھی لکھا۔ ڈاکٹر خالد محمود کے ایک سروے کے مطابق بیرونی دنیا کے رسائل و جرائد میں ڈاکٹر حیدر کے تحریر کر دہ مضامین تعداد کے اعتبار سے پاکستان میں لائبریرین شپ کے کسی بھی لکھنے والے کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں۔ وہ مسلسل لکھ رہے ہیں جو کام کیا بہت ہی محنت، لگن، جذبے اور انہماک سے کیا ان کی تحریر لائبریرین شپ میں معتبر اور محترم سمجھی جاتی ہے۔ ان کے شاگرد اور رفقا محبت اور احترام سے ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر حیدر کی زیر نگرانی حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کے اساتذہ خالد محمود اور کنول امین نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت بھی آپ کے زیر نگرانی چند طالب علم لائبریری سائنس میں تحقیق میں مصروف ہیں۔
ڈاکٹر حیدر نے اپنے ریٹائرمنٹ (جولائی ۱۹۹۸ء)کے بعد اِستِغناکو اپنا شعار بنا یا، آپ نوکری بعد از نوکری کے قائل نہیں جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ آپ کو ریٹائر ہوئے آٹھ سال ہو چکے ہیں آپ نے کوئی نوکری نہیں کی،البتہ آپ تین سیمسٹر کے لیے جزوقتی استاد ضرور رہے جسے آپ اپنی زندگی کی ایک غلطی تصور کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے آپ کو کل وقتی تصنیف و تالیف سے منسلک کیا ہوا ہے۔ قناعت پسند ہیں۔ تھوڑے کو بہت سمجھتے ہیں۔ آپ نے اپنے عمل سے یہ بھی ثابت کیا کہ حصول علم کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں اور ہنر زندگی کے کسی بھی حصہ میں سیکھا جا سکتا ہے۔ آپ نے ۵۶ سال کی عمر میں ۱۹۹۴ء میں لفبرویونیورسٹی، برطانیہ (Loughborough University, UK)سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی اور اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد کمپیوٹر میں دسترس حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا اور اپنے آپ کو اس قابل کیا کہ انٹر نیٹ کے استعمال کے ساتھ ساتھ اپنے مضامین از خود کمپوز کر سکیں اور وہ اب ایسا ہی کر تے ہیں ساتھ ہی انٹر نیٹ کی دنیا سے بھی مسلسل رابطہ میں رہتے ہیں۔ جلال صاحب کے قریبی دوستوں کا حلقہ محدود نظر آتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید کو پاکستان لائبریرین شپ کا واحد بانی تصور کرتے ہیں ان کا حد درجہ احترام کرتے ہیں اور ان کا ذکر اکثر کیا کرتے ہیں اور ان کی علم فہمی کے بڑے قائل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمعید پ رایک تفصیلی مضمون تحریر کر چکے ہیں۔ اختر حنیف مرحوم آپ کے قریبی دوست تھے۔ آپ کے جامعہ کراچی کے بعض پروفیسر حضرات سے بھی دوستانہ مراسم اور قربت ہے ان میں ڈاکٹر محمد صابر جو آپ کے پڑوسی بھی ہیں قریبی دوستی ہے۔ اکثر محبت سے ان کا ذکر کیا کرتے ہیں۔ راقم کو بھی ڈاکٹر صابر کے شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ۱۹۷۱ء میں جامعہ کراچی میں ایم ایل ایس کے دوران تر کی زبان کا سر ٹیفیکیٹ کورس کیا ڈاکٹر صاحب ہی استاد تھے۔
انسان کی پہچان اس کے ساتھ سفر کرنے سے بھی ہوتی ہے مجھے جلال صاحب کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد اور واپسی کا ہوائی سفر کرنے اور ہوٹل میں ایک ساتھ قیام کا اتفاق ہوا۔ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کی سولھویں (۱۶) کانفرنس منعقدہ ۲۵۔ ۲۶ جون ۱۹۹۷ء بمقام نیشنل لائبریری آف پاکستان میں شرکت کا پروگرام ہم نے ساتھ بنایا۔ اس وقت میرا گھر جلال صاحب کے گھراور ائر پورٹ کے درمیان میں تھا چنانچہ آپ نے مجھے میرے گھر سے لے لیا میں نے ائر پورٹ پر کرایہ دینے کی کوشش کی مگر جلال صاحب کہاں یہ برداشت کرنے والے، سفر اچھا گزرا راستہ میں مختلف پیشہ ورانہ اور دیگر موضوعات پر گفتگو ہو تی رہی۔ فلائٹ رات کی تھی اس وجہ سے شاید صبح تین بجے اسلام آباد پہنچے، برسات نے سر دی میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا کراچی والوں کے لیے تو یہ اچھی خاصی سر دی تھی ظفر جاوید نقوی ائر پورٹ پر موجود تھے انہوں نے ہوٹل پہنچایا، ہم دونوں نے کچھ دیر آرام کیا صبح ہوتے ہی نیشنل لائبریری پہنچا دیے گئے۔ جلال صاحب نے ایک سیشن کی صدارت بھی کی مجھے بھی ایک پیپر پڑھنا تھا۔ رات میں جلال صاحب کے شاگرد آ جاتے اور رات گئے محفل جمی رہتی۔ جلال صاحب ہر ایک کی توجہ کا مرکز ہوا کرتے تھے۔ دوسرے روز ہم جلدی فارغ ہو گئے فلائٹ رات کی تھی ہم دونوں ہوٹل کے آس پاس گھومنے نکل گئے مرغن کھانے کھا کر دونوں کی طبعیت بوجھل ہو گئی تھی چنانچہ ایسی جگہ کی تلاش شروع کی جہاں پر بہت ہی ہلکی چیز کھانے کو مل جائے آخر کار ہم اس میں کامیاب ہو گئے۔ واپسی نائٹ کوچ سے تھی۔ ائر پورٹ پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ جہاز ابھی کراچی ہی سے نہیں آیا ہمیں انتظار کرنا ہو گا اس طرح ہم نے رات کے کئی پہر لاؤنج میں گزارے، اس دوران مختلف موضوعات کے علاوہ کبھی ڈاکٹر عبدالمعید، کبھی ڈاکٹر انیس خورشید، کبھی اختر حنیف اور کبھی شعبہ کے حالات زیر بحث آتے رہے۔ جلال صاحب اور اکرم صاحب کا امریکہ جانا، اکرم صاحب سے دوستی اور کلسا کے حوالے سے اختلافات غرض قسم قسم کے موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ شاید رات دو بجے فلائٹ چلی اور ہم چار بجے کراچی ائر پورٹ پہنچے۔ جلال صاحب بہت ہی محتاط واقع ہوئے ہیں کہنے لگے کہ ہمیں صبح کا انتظار کرنا چاہیے اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان دنوں کراچی کے حالات اچھے نہیں تھے اس وجہ سے ان کی رائے مناسب تھی میں نے کوئی جواب نہ دیا رات بھر کی نیند اور بے آرامی کے باعث حال بہت ہی برا ہو رہا تھا ایسی کیفیت میں تو فوراً گھر پہنچنے کو جی چاہتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد میں نے یہ رائے دی کہ وہ میرے گھر چلیں وہاں پر صبح کی سفیدی ہوتے ہی اپنے گھر چلے جائیں شاید جلال صاحب میری کیفیت کا اندازہ کر چکے تھے وہ اس پر تیار ہو گئے۔ ہم نے ٹیکسی کی اور چل دئے میں ان دنوں دستگیر سوسائٹی میں رہتا تھا جب ٹیکسی یاسین آباد کے پل پر پہنچی تو جھٹکے لیتی ہوئی رک گئی اب ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے جلال صاحب کا چہرہ بتا رہا تھا کہ دیکھا میں اسی لیے کہہ رہا تھا کہ صبح کا انتظار کر لیا جائے۔ ایک لمحہ کو یہ خیال بھی آیا کہ کہیں یہ ڈرائیور کی چال تو نہیں، میرے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ جلال صاحب درست کہہ رہے تھے واقعی ہمیں ائر پورٹ پر صبح کا انتظار کر لینا چاہیے تھا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ دونوں ہی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے لگے۔ عام طور پر سڑکوں پر تین بجے سے صبح ہونے تک کا وقت بہت ہی خوف ناک ہوتا ہے ٹریفک نہ ہونے کے برابر، رات کا اندھیرا، آدم نا آدم ذات، دور سے اگرکسی گاڑی کی لائٹ نظر آئے تو خوف کی کیفیت اور بڑھ جاتی ہے۔ میں نے تو دل ہی دل میں جس قدر قرآنی آیات یاد تھیں پڑھ ڈالیں شاید جلال صاحب نے بھی یہی کچھ کیا ہو گا۔ میں اس وجہ سے اور بھی خوف زدہ تھا کہ اگر خدا نخواستہ کچھ ہو گیا تو تمام تر قصور میرا ہی ہو گا کیوں کہ جلال صاحب تو ائر پورٹ پر وقت گزارنا چا ہتے تھے میرے کہنے پر وہ تیار ہو گئے۔ جب یہ یقین ہو گیا کہ ٹیکسی والا قصداً یہ حرکت نہیں کر رہا اور واقعی ٹیکسی خراب ہو گئی ہے ہم نے ٹیکسی کو فارغ کیا میرا گھر کچھ ہی دور تھا لیکن ہم دونوں کے پاس جو بھی سامان تھا اسے اٹھا کر پیدل چلنا مشکل تھا لیکن سامان کے ساتھ سڑک پر زیادہ دیر ٹھہرنا خطرے سے باہر نہیں تھا چنانچہ ہم دونوں نے جیسے تیسے سامان اٹھایا اور گھر کی جانب چل دیے، گھر پہنچ کر خدا کا شکر ادا کیا۔ صبح ہو تے ہی جلال صاحب کو ان کے گھر کے لیے رخصت کیا۔ جلال صاحب کے ساتھ یہ سفر یادگار رہا وہ ہم سفر کو بور ہونے نہیں دیتے وقت، حالات اور ہم سفر کی مناسبت سے بات سے بات نکالتے ہیں اس میں سنجیدگی بھی ہو تی ہے، ہنسی مذاق بھی، کچھ آب بیتی ہو تی ہے اور کچھ جگ بیتی لیکن تمام تر گفتگو ادب آداب اور شائستگی کے دائرے میں کر تے ہیں۔
مارچ(۲۶۔ ۲۸) ۲۰۰۷ء میں پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کی ستھرویں کانفرنس پاکستان کی قومی لائبریری اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ اس بار بھی ہم نے ایک ساتھ سفر کیا لیکن اس بار ہمارے ہمراہ جہاز میں عبدالصمد انصاری، مختار اشرف، آمنہ خاتون، فرحت حسین اور رفعت پروین بھی تھیں۔ آمنہ خاتون کے صاحبزادے سلمان غزالی جو ایرو ایشیاء میں ملازم ہیں نے ہمیں نہ صرف رعایت سے ہوائی ٹکٹ دلوائے بلکہ فلائٹ پر آ کر اپنی والدہ کے ہمراہ مجھے، جلال صاحب، صمد صاحب اور مختار اشرف کو بزنس کلاس میں بٹھا دیا، ہم پیچھے سیٹ پر بیٹھ کر اکثر پردے کے آگے بزنس کلاس میں بیٹھے مسافروں کو دیکھا کرتے تھے لیکن کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا، عزیزم سلمان نے آج یہ راز بھی فاش کرا دیا کہ بزنس کلاس کیسی ہوتی ہے۔ سفر خوش گوار گزرا۔ اللہ تعالیٰ اُسے جزا دے۔ اسلام آباد کے ہوٹل ’’چیک ان ‘‘ میں ہم نے ساتھ ہی قیام کیا، میرے کمرے میں مختار اور جلال صاحب کے ہمراہ صمد صاحب تھے، مختار کی طبیعت کچھ نرم گرم ہو گئی وہ اپنے کمرے میں آرام کیا کرتا اور میں، صمد اور جلال صاحب رات گئے مختلف موضوعات پر باتیں کیا کرتے، تین دن اسی طرح گزر گئے، دن بھر کانفرنس میں مصروف رہتے رات میں ہم دن بھر کی مصروفیات کا تجزیہ کرتے اور دیگر موضوعات جن میں ہر طرح کی باتیں شامل تھیں کیا کرتے۔ جلال صاحب کے سو جانے کے بعد میں اور صمد اپنے اپنے کمرے سے باہر آ کر ہوٹل کے کامن روم میں بیٹھ جاتے جہاں پر مدھم روشنی ہوا کرتی تھی، ایک ایک سیگریٹ کا کش لگاتے اور کراچی کے جھمیلوں سے آزاد رات گئے تک باتیں کرتے رہتے۔ (سیگریٹ نوشی میری عادت نہیں اکثر اس قسم کے ماحول میں بد پرہیزی ہو جاتی ہے )، اس بار بھی جلال صاحب کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا۔ وہ مجلسی آدمی ہے، محفل کو اپنی باتوں سے پر رونق رکھتے ہیں۔ پی ایل اے کی کانفرنس میں انہوں نے بھر پور حصہ لیا، اپنے مضمون کے علاوہ دیگر معاملات پر بھی حصہ لیتے رہے۔
آدمی کی پرکھ معاملات سے بھی ہو تی ہے جلال صاحب معاملات کے بہت کھرے ہیں۔ خالد محمود( اب ڈاکٹر خالد محمود ہیں ) کراچی آئے اور میرے گھر قیام کیا، ان دنوں وہ جلال صاحب کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ چنانچہ ان سے ملاقات مقدم تھی ہم دونوں جلال صاحب کے گھر پہنچے بہت ہی اچھی طرح ملے اور گفتگو ہونے لگی تھوڑی دیر بعد جلال صاحب اندر گئے اور کچھ پیسے غالباً تین سو روپے تھے لا کر خالد کی طرف بڑھائے خالد نے پوچھا کہ سر یہ کیا ہے میں بھی قدرے حیران تھا کہنے لگے کہ تم نے فلاں کتاب مجھے فوٹو اسٹیٹ کر اکے بھیجی تھی یہ اس کے پیسے ہیں اب خالد نے بہت چاہا کہ وہ ان سے یہ رقم نہ لے لیکن جلال صاحب کہاں ماننے والے، جب خالد نے زیادہ زور دے کر کہا کہ سر شاگرد ہونے کے ناتے اگر میں نے ایسا کر ہی دیا تو یہ میرا فرض بنتا ہے لیکن جلال صاحب نے ایک نہ سنی جلال میں آ گئے اور وہ رقم اسے دے کر ہی دم لیا۔
ڈاکٹر حیدر کا ذاتی ذخیرہ لائبریرین شپ کے حوالے سے نایاب اور قیمتی (Rich)ہے۔ مجھے جب کسی کتاب، مقالے یا مضمون کی ضرورت ہوتی ہے جلال صاحب کی عنایت سے مجھے مل جاتی ہے لیکن واپسی کے وعدے کے ساتھ۔ ایک مر تبہ ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ جو بکھرے ہوئے اوراق پر مشتمل تھا مجھے اس کی ضرورت ہوئی میں نے اپنے لیے فوٹو کاپی کرائی ساتھ ہی اصل کاپی کی جلد بھی بنوا دی اس خیال سے کہ یہ مزید خراب نہ ہو، میں نے جب یہ کتاب انہیں واپس کی تو خوش تو ہوئے لیکن اس کی جلد بندی کے پیسے جو صرف بیس روپے تھے مجھے جبراً ادا کر کے سکون میں آئے۔
ڈاکٹر حیدر تہذیب کے ایک یاد گار نمائندے ہیں ایسے پر وقار نمائندے اب معدوم ہو تے جا رہے ہیں۔ آپ کی گفتگو میں شائستگی، دھیما پن بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ در حقیقت وہ ’میاں آدمی ہیں ‘۔ سادہ طبعیت پائی ہے، رہن سہن سادہ ہے، دکھاوے اور بناوٹ کے قائل نہیں، آپ نے کئی ۱۹۸۵ء میں جو کار (سوزوکی ایف ایکس) خریدی تھی آج بھی اسی پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ ان کے گھر کے ڈرائنگ روم میں جو صوفہ سیٹ آج سے ۲۰ سال قبل تھا آج بھی وہی ہے لیکن صاف ستھرا دیکھنے میں ایک پروفیسر کا ڈرائنگ روم لگتا ہے۔ اگر کسی چیز کا اضافہ ہوا تو وہ کتابیں اور اب کمپیوٹر ہے۔ صفائی پسند ہیں۔ لباس ہمیشہ صاف ستھرا زیب تن کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ گھر بھی صاف ستھراہ رکھتے ہیں۔ رکھ رکھا ؤ، گھر آنے والے کی خاطر تواضُع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، بڑے مہمان نواز ہیں با وجود اس کے کہ تمام کام آپ کو از خود کرنا ہوتے ہیں میں نے بار ہا کہا کہ سر میرے آنے پر تکلفات نہ کیا کریں میرے لیے وہ لمحات بہت تکلیف دہ ہو تے ہیں جب وہ از خود چائے کی پیالیاں یا کولڈ ڈرنک لے کر آتے ہیں لیکن جلال صاحب اپنی روایات سے ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے۔ بقول غالبؔ :
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں چھو یں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
آپ کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ان کی حق پسندی اور محتاط انداز فکر ہے۔ جلال صاحب سچ کہتے اور سچ سننا پسند کرتے ہیں۔ زندگی کے معاملات میں زیادہ محتاط ہیں آپ کا کہنا ہے کہ اگر کسی کو فائدہ پہچانے میں میرا نقصان نہیں ہو رہا تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ محتاط انداز فکر آپ کی شخصیت کا ایک لازمی حصہ نظر آتا ہے۔ کئی سال قبل آپ عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے اور چند روز کارڈیو ویسکلر میں بھی داخل رہے۔ بعد ازاں ڈاکٹروں نے آپ کی رپورٹس کی روشنی میں اس بات کی نفی کی کہ آپ کو دل کا عارضہ ہے لیکن آپ نے احتیاط کے پیش نظر زندگی کے معمولات پر نظر ثانی کی، خوراک اور پرہیز کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا لیا اس پر آج تک سختی سے کاربند ہیں۔ عیشؔ برنی کے بقول :
قدم قدم پہ یہاں احتیاط لازم ہے
کہ منتظر ہے یہ دنیا کسی بہا نے کی
آج سے کوئی دس سال قبل میں نے جلال صاحب پر لکھنے کا ارادہ کیا تھا اس مقصد سے ان سے باقاعدہ انٹر ویو( ۷ جولائی ۱۹۹۶ء)کو کیا، وقت کس تیزی سے گزرا معلوم ہی نہ ہو سکادیکھتے ہی دیکھتے ۱۰ سال گزر گئے اور میں اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ دوسری بار باقاعدہ ملاقات آٹھ سال بعد ۱۲مارچ ۲۰۰۴ء کو کی، یہ ملاقات اپنی تحقیق کے حوالے سے تھی۔ اب دس سال بعد میں اپنے اس ارادے میں کامیاب ہو سکا کہتے ہیں دیر آید درست آید۔ ایک فائدہ یہ ہوا کہ ان دس سالوں میں انہیں زیادہ نزدیک سے دیکھنے، سمجھنے اور محسوس کرنے کا موقع ملا ساتھ ہی استاد و شاگرد کا تعلق بڑھ کر دوستا نہ ہو گیا اس کام کو اِس وقت ہی مکمل ہو نا تھا۔ میں اس مضمون میں ڈاکٹر حیدر کی شخصیت کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ نہیں کر سکا بس جو بھی صلاحیت ہے اس کے مطابق کوشش کی کہ آپ کی شخصیت کے مخصوص پہلوؤں کو اجاگر کر سکوں استاد جو کچھ اپنے شاگرد کو دیتا ہے اس کا حق تو ایک شاگرد کبھی بھی ادا نہیں کر سکتا یہ تو ایک معمولی سا نذرانہ ہے شاگرد کا اپنے استاد کے لیے۔
۱۹ اپریل ۲۰۰۷ء
جمیل نقوی
لائبریرین، شاعر، مصنف و مولف
تابشؔ دہلوی کے بقول’ عظیم شخصیتوں کو دیکھ لینا بھی عظمت ہے ‘۔ میں اپنے آپ کو ان خوش نصیبوں میں تصور کرتا ہوں کہ جس نے پاکستان لائبریرین شپ کی عظیم شخصیات کو نہ صرف دیکھا بلکہ بہت ہی قریب سے دیکھا، ان محترم شخصیات میں جمیل نقوی مرحوم بھی شامل ہیں۔ آپ ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے پاکستان میں لائبریرین شپ کی بنیاد رکھی اور اس پیشہ کو اپنی منجملہ صلاحیتوں اور انتھک محنت سے اسے ایک تناور درخت بنا یا۔ پاکستان لائبریرین شپ کی تاریخ میں ان اکابرین کی خدمات کو ہمیشہ بلند مقام حاصل رہے گا۔ مجھے ان میں سے اکثر کا قرب حاصل رہا اور بعض کے ساتھ عمروں کے فرق اور نیاز مندی کے باوجود دوستی کا شرف حاصل ہوا۔ جمیل نقوی مرحوم نہ صرف ایک فرض شناس لائبریرین، لائبریری سائنس کے استاد بلکہ استاد لا اساتذہ میں سے تھے۔ انگریزی اور اردو کے شاعر، نثر نگار، لائبریرین شپ اور دیگر موضوعات پر آپ نے متعدد کتب تصیف کیں۔ نعتیہ شاعر کی حیثیت سے آپ کی بعض نعتیں بہت مقبول ہیں اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر پیش ہوتی ہیں۔
لائبریرین شپ کے موضوع پر آپ اردو زبان کے ابتدائی مصنفین میں سے ہیں، آپ کے تحریر کردہ مضامین مکتبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے رسالہ ’’کتاب نما ‘‘ میں مسلسل ایک سال (۱۹۳۸ء) تک شائع ہوئے۔ اردو میں معاشیات کتب خانہ پر فنی حیثیت سے یہ مضامین نقش اول کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان مضامین پر مشتمل آپ کی کتاب ’’انتظام کتب خانہ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۴۱ء میں مکتبہ جامعہ دہلی نے شائع کی تھی۔ اس وقت جمیل نقوی برطانوی عہد کی امپیریل لائبریری کلکتہ میں دار المطالعہ اور عملی شعبہ کے سربراہ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس تصنیف کو بجا طور پر اردو زبان میں لائبریری سائنس کی اولین کتاب کا درجہ حاصل ہے۔ بقول ڈاکٹر انیس خورشید ’’جمیل نقوی صاحب کا کتاب سے بہت پرانا تعلق ہے، کتاب کی خوشبو کے نصف سے زائد طویل سفر میں جمیل نقوی کو خط کیٹلاگ سے لے کر کمپیو ٹرائی نوری نستعلیق تک کئی منزلیں طے کرنا پڑیں اس سفر میں جب بھی آپ رکے ‘ کتاب ہی آپ کا مسلک رہا اور اس حوالہ سے آپ نے جو بھی کام انجام دیا اتنے سلیقہ اور رچاؤ کے ساتھ کیا کہ آپ خود بھی لوگوں کی نگاہ کے مرکز بنے رہے ‘‘۔
جمیل نقوی مرحوم ۹ جنوری ۱۹۱۴ء میں ہندوستان کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔ پورا نام جمیل احمد نقوی، فقہ کے اعتبار سے حنفی اور والدہ کی طرف سے آپ کا سلسلہ سر سید احمد خان سے ملتا ہے غالباً اسی تعلق کے باعث آپ میں ادب دوستی اور علم پروری کے ساتھ ساتھ ترسیل علم کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ معلومات کا وسیع خزانہ اپنے اندر رکھتے ہیں، حافظہ بھی لاجواب تھا یہی وجہ ہے کہ آپ کو کتابوں کا چلتا پھر تا انسائیکلو پیڈیاجیسے خطابات سے نوازا گیا۔ ابتدائی تعلیم امروہہ ہی میں حاصل کی، لائبریری سائنس میں ڈپلومہ اور اردو میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ لائبریری سائنس کے علاوہ ادب ان کا خاص موضوع تھا۔ نثر اور نظم دونوں میں طبع آزمائی کی۔ خوشگوار ازدواجی زندگی گزاری۔ ایک بیٹا طاہر جمیل نقوی اور چار بیٹیاں ہیں۔ آپ کی دنیاوی زندگی ۸۶ سالوں پر محیط ہے جو ہندوستان کے شہر امروہہ سے شروع ہو کر ۱۹۹۹ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں اختتام پذیر ہوئی، یعنی ۳۴ سال غیر منقسم ہندوستان میں اور ۵۲ سال پاکستان میں خدمات انجام دیں۔
جمیل نقوی نے ۱۹۳۳ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ علوم شرقی کی ’’لٹن لائبریری‘‘ (حالیہ مولانا آزاد لائبریری) سے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور اسسٹنٹ لائبریرین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں بعد ازاں امپریل لائبریری کلکتہ میں شعبہ دار المطالعہ کے نگراں اور مخطوطات کی کیٹلاگ سازی کا اہم کام آپ کے سپرد کیا گیا۔ اس کے علاوہ آپ وائس رائے آف انڈیا نیو دہلی کے اکنامکس ایڈوائزر کے لائبریرین اور ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ امپریل لائبریری کلکتہ کے اسکول آف لائبریرین شپ سے بھی آپ وابستہ رہے۔ اسکول کے منتظم خان بہادر اسد اللہ خان تھے اور ایک استاد کی حیثیت سے لائبریری سائنس کی تعلیم کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا لائبریری منصوبہ بندی و کیٹلاگ سازی آپ کے مخصوص موضوعات تھے، آپ کو بمبئی یونیورسٹی کے اسکول آف لائبریرین شپ کے وزیٹنگ استاد (۶۰ء۔ ۱۹۶۱ء) کی حیثیت بھی حاصل تھی۔
لائبریری تحریک میں بھی آپ کی خدمات قابل ستائش ہیں، انڈین لائبریری ایسو سی ایشن (۱۹۳۳ء) کے بنیادی رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایسو سی ایشن کے بہت ہی ممتاز اور مستعد سیکریٹری(۱۹۶۰ء۔ ۱۹۶۶ء) خلیفہ محمد اسد اللہ خان کے با اعتماد اسسٹنٹ سیکریٹری کے فرائض بھی خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہے۔ آپ انڈین لائبریری ایسوسی ایشن کے ماہانہ میگزین ’’انڈین لائبریرین‘‘ کی ادارتی ذمہ داریوں میں خان بہادر صاحب کے شریک کار رہے۔ ہندوستان کے کتب خانوں میں جامعہ ملیہ لائبریری دہلی، مسلم یونیورسٹی ڈے اس کالر لائبریری، علی گڑھ، انڈین میوزیم لائبریری، کلکتہ اور کلکتہ کلب لائبریری کی تنظیم و ترتیب بھی آپ کے ہاتھوں عمل میں آئی۔
۱۹۴۸ء میں جمیل نقوی نے پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنا یا۔ پاکستان میں آپ کی لائبریری خدمات ۵۲ برس پر محیط ہیں۔ حکومت پاکستان کے ادارہ فروغ برآمدات سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور ۱۹۷۱ء تک لائبریری خدمات سر انجام دیتے رہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ حاصل کی۔ آپ نے خیر پور اسٹیٹ کے وزیر اعلیٰ کے لائبریری ایڈوائزر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ سرکاری عہدہ سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ ایک بڑے طباعتی ادارے ’الیٹ پبلشرز لمیٹڈ ‘ سے وابستہ ہو گئے۔
جمیل نقوی جو ہندوستان میں انڈین لائبریری ایسو سی ایشن سے وابستہ رہ چکے تھے پاکستان میں قائم ہونے والے لائبریرین شپ کے ان ابتدائی اداروں کے قیام اور تنظیم میں فعال ثابت ہوئے۔ آپ کراچی لائبریری ایسو سی ایشن اورپاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کے بنیادی رکن ہونے کے ساتھ ساتھ جوائنٹ سیکریٹری مقرر ہوئے۔ ان دونوں اداروں نے یکے بعد دیگرے لائبریری کورسز کا آغاز کیا تو جمیل نقوی ان کورسزکا اہم حصہ ہی نہیں بلکہ ایک تجربہ کار استاد بھی تھے۔ اس کورس میں جمیل نقوی کو ڈاکٹر انیس خورشید اور محمد عادل عثمانی صاحب کے استاد ہونے کا رتبہ بھی حاصل ہے۔ آپ نے پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے انتظامی امور میں بھی اہم کردار ادا کیا، اسکول آف لائبریرین شپ کی داغ بیل ڈالی اور ایک استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
لائبریرین شپ کے حوالے سے جمیل نقوی مرحوم کا ایک اہم کارنامہ ڈیوی اعشاریائی درجہ بندی کے نمبر ۲۹۷ کی اسلام اور مشرقی علوم کی توسیعات ہیں۔ اپنے موضوع پر ابتدائی کام ہونے کے باوجود ان توسیعات کو ’شفیع توسیعات‘ کے مقابلے میں مقبولیت حاصل نہ ہو سکی، شاید اس کی وجہ یہ رہی کہ جمیل نقوی کو نہ تو ستائش کی تمنا تھی اور نہ ہی انہوں نے اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی عملی کوشش کی، البتہ اس بات کا شکوہ انہوں نے اپنی کتاب ’انتظام کتب خانہ اور اس کی فن وار تقسیم‘ اشاعت دوم ۱۹۹۲ء میں ان الفاظ میں کیا ’’پاکستان میں اس موضوع پر کام کیا گیا اور اس خاکسار کی کاوش کا اشارتاً بھی حوالہ دیے بغیر اس میں کتر بیونت کر کے بین الاقوامی طور پر پیش کرنے کا فخر حاصل کیا گیا نہ صرف یہ بلکہ میرے ہی ایک نامور شاگرد نے (غالباً بغیر تحقیق کے سہواً میرے ایک مرحوم بزرگ ہمعصر لائبریرین کے سیکشن ۲۹۷ کی توسیع کا کریڈٹ دیتے ہوئے (شاید گزشتہ سے پیوستہ سال)اس موضوع پر ایک کتابچہ بھی شائع کر دیا۔ درآنحالیکہ شاگرد موصوف کے پاس ڈیوی اعشاریائی اسکیم کے کئی شعبوں کی (بشمول ۲۹۷) میری توسیعات کے اصل مسودے تک موجود ہیں ‘‘۔ اس ضمن مین جمیل نقوی مرحوم مزید لکھتے ہیں کہ ’’بہر حال ایسی صورت میں یہ مناسب معلوم ہوا کہ تاریخی ریکارڈ صحیح کرنے کی غرض سے مذکورہ الصدر میلول ڈیوی اسکیم سیکشن۲۹۷ کی اولین توسیع ’’انتظام کتب خانہ ‘‘ (جو اپنے موضوع پر اردو میں سب سے پہلی کتاب اور اپنی نوعیت کی مختصر تالیف بھی ہے ) کی طبع ثانی میں ضمیمہ کے طور پر شامل کر رہا ہوں تاکہ سند رہے ‘‘ ؎
’’رکھنا غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف‘‘۔
جمیل نقوی کی اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر انیس خورشید صاحب ہی کا تحریر کردہ ہے جس میں جمیل نقوی کی کاوش کو اولین کوشش قرار دیا گیا ہے۔ جمیل نقوی کے اس شکوہ کی وضاحت ڈاکٹر انیس خورشید صاحب نے اپنے ایک طویل مضمون ’’شفیع اعشاریائی توسیعات برائے اسلام اور انڈین لائبریری ایسو سی ایشن کی دستاویزات‘‘، شائع شدہ ’’پاکستانی لائبریرین‘‘، شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ پنجاب، لاہور، جلد اول میں کیا ہے۔ یہ موضوع اپنی اہمیت کے پیش نظر تحقیق و جستجو کا تقاضا کرتا ہے لیکن دستاویزات اور موجود حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ جمیل نقوی کی یہ کاوش ابتدائی نوعیت کی ہے، تاریخی حقائق چھپا نہیں کرتے اگر واقعی غلطی ہوئی ہے تو تاریخ کبھی نہ کبھی اسے درست کر ہی لے گی۔
جمیل نقوی کی شاعری
جمیل نقوی کی شخصیت کئی جہتوں پر مشتمل ہے وہ ایک خوش فکر شاعر، صاحب نظر نقاد، منتظم، مولف، مصنف اور دقیقہ رس محقق بھی تھے۔ آپ کو علی گڑھ کی علمی و ادبی، شعری اور ثقافتی حلقوں میں معتبر مقام حاصل تھا، پاکستان میں آپ نے اپنے آپ کو ادبی اور شعری حلقوں میں نمایاں کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی، آپ کو بہت ہی کم مشاعروں میں دیکھا یا سنا گیا حالانکہ آپ کے بلند پایہ شاعر ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ آپ کی شاعری میں پختگی، درد اور والہانہ پن بدرجہ اتم موجود ہے۔ نعت گوئی جمیل نقوی کی پہچان ہے، آپ کی بعض نعتیں بے حد مقبول ہیں اگر آپ مشاعروں کے شاعر بھی ہوتے تو یقیناً آپ کی شہرت کسی بھی طرح بڑے اور معروف شعراء سے کم نہ ہوتی لیکن جمیل نقوی نے اپنا کلام مشاعروں میں نہ پڑھا اور نہ ہی وہ اسے اپنی شہرت کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔ بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہے کہ پاکستان کی معروف نعت خواں ’’اُم حبیبہ‘‘ کی آواز میں بعض نعتیں جو کئی برس سے سماعتوں میں رس گھول رہی ہیں سرکار دو عالم خاتم الانبیاء کے حضور جمیل نقوی کاہی نذرانہ عقیدت ہے یہ نعتیں ریڈیو، ٹیلی ویژن، کیسٹ اور نعت کی محفلوں میں بہت ہی ذوق و شوق اور عقیدت سے سنی جاتی ہیں۔ آپ کی بعض نعتوں کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :
کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر کیا چیز ہے دنیا بھول گیا
یوں ہوش و خرد مفلوج ہوئے دل ذوق تماشا بھول گیا
پہنچا جو حرم کی چوکھٹ تک اِک ابر کرم نے گھیر لیا
باقی نہ رہا یہ ہوش مجھے، کیا مانگ لیا کیا بھول گیا
عشق کو حسن کے انداز سکھا لوں تو چلوں
منظر کعبہ نگاہوں میں بسا لوں تو چلوں
کر لوں اک بار ذرا پھر سے طواف کعبہ
روح کو رقص کے انداز سکھا لوں تو چلوں
ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی نے جمیل نقوی کے نعتیہ مجموعہ کلام ’’ارمغان جمیل‘‘ میں نعت گوئی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’سرکارؑسے چاہت والے تو ہم سب ہیں جمیل نقوی سرکار کی چاہت والے ہیں انہیں سرکار کی محبت عطا ہو گئی ہے اور ان کی نعت گوئی ان کی حضورؑ کی داستان ہے ‘‘۔ آپ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ جمیل نقوی نے اپنے علم، اپنے ورثہ ایمان، لفظوں سے اپنے رشتہ۔ ۔ ۔ ۔ ان سب کو گوندھ کر نعت گوئی کی ہے ان کی نعت کے خمیر میں ان کی ذات، ان کا ورثہ سب کچھ خوشبو بن کر شامل ہے۔ حضورﷺ کی ذات کے مہر درخشاں کے حضور، اس قطرہ شبنم نے، کہ جسے جمیل نقوی کہتے ہیں اپنے آپ کو یوں رکھ دیا کہ یہ قطرہ وجود کھو بیٹھے کہ یہی عشرت قطرہ ہے ‘‘۔ جمیل نقوی کی شعر گوئی کے بارے میں پروفیسر سحر انصاری کا کہنا ہے کہ ’’ اس قسم کے نعتیہ کلام میں جمیل نقوی کا لہجہ مفکرانہ اور فلسفیانہ ہو جاتا ہے ان کے کلام میں جو بے ساختگی، والہانہ پن اور مستی نظر آتی ہے اس میں رسمیت کو قطعاً دخل نہیں شاید اس لیے ان کی بعض نعتیں بہت مقبول ہوئیں اور ان کو سن کر سامعین پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ‘‘۔ جمیل نقوی نے غزل بھی کہی، مراثی، نوحہ و سلام کے علاوہ قومی نظمیں بھی کہیں۔ ڈاکٹر وقار احمد رضوی کا کہنا ہے کہ ’’ جمیل نقوی نے محبت رسول ؑ میں ڈوب کر نعت کہی ان میں تخلیقی شان پائی جاتی ہے نیز ان کی نعتوں میں روانی، جوش اور شیرینی ہے ‘‘۔
تصانیف جمیل نقوی
جمیل نقوی نے تقریباً ۲۵ کتابیں تخلیق کیں۔ آپ کی تحریر کے بارے میں ڈاکٹر انیس خورشید کا کہنا ہے کہ ’’ آپ کی تحریر بھی آپ کی شخصیت کی طرح دلکش، جامع اور پر اثر ہوتی ہے ‘‘۔ جمیل نقوی کی تصانیف میں انتظام کتب خانہ، شبلی کی رنگین زندگی، انتخاب اصغر، پرچم کا ہلال جگمگایا، اردو کے بہترین افسانے، عمر خیام (ہیرالڈ کے ناول کا ترجمہ)، آپ بیتی جسٹس سید امیر علی (ترجمہ)، تنقید و تفہیم، اردو تراجم قرآن، کف خاکستر، اردو نثر کا ارتقاء، روداد لہو رنگ، ارمغان جمیل، آغاز اسلام : شبلی کی کتاب کا ترجمہ، اردو تفاسیر القرآن (کتابیات)، اردو احادیث(کتابیات)، مکشفات غوثیہ، مسند عائشہ، مسند علی، بزم سہروردیہ، دیوان میر انیس، اردو مخطوطات کی توجہی فہرست شامل ہیں۔ جب انگریزی میں The Travellerاور Lyric Homage to the Last Prophet (PBUH) شامل ہیں۔
جمیل نقوی مرحوم میرے براہ راست استاد تو نہیں تھے لیکن لائبریری سائنس میں آپ کو استاد الاساتذہ کا درجہ حاصل تھا، آپ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور لکھا جائے گا۔ آپ کی زندگی کا مقصد تحصیل علم، فروغ علم اور ترسیل علم نظر آتا ہے اس مقصد کے حصول کے لیے آپ تمام زندگی تن من دھن سے مصروف رہے۔ نمود و نمائش سے اپنے آپ کو دور رکھا، خاموشی کے ساتھ لکھتے رہے۔ آپ طباعتی رموز سے بھی واقف تھے۔ قدرت نے آپ کو خوش خطی کے ہنر سے بھی نوازا چنانچہ کتاب کا صفحہ عنوان از خود ڈیزائن کرنا حتیٰ کہ ضرورت کے وقت کتابت بھی از خود کر لیا کرتے۔ مختصر یہ کہ جمیل نقوی بے شمار خوبیوں کا مرقع تھے آپ جیسے با صلاحیت، نفیس، پابند وضع اور مخلص انسان مشکل ہی سے پیدا ہوا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ۱۹ جنوری ۱۹۹۹ء عین عید الفطر کے روز رات دس بجے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ا للہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
کتنی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کتنے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
(مطبوعہ’ پاکستان لائبریری بلیٹن ‘۔ جلد ۳۳، شمارہ ۱۔ ۲، مارچ۔ جون ۲۰۰۲ء)
میاں الطاف شوکت
پنجاب لائبریرین شپ کے بابا جی
پاکستان لائبریرین شپ کی ترقی اور فروغ میں بزرگ لائبریرینز کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنے پیشے کو عبادت تصور کیا اور اسے ایک تناور درخت بنا نے میں انتھک محنت کی۔ ان احباب کی خدمات کو سراہنا اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنا ہمارا قومی و اخلاقی فرض ہی نہیں بلکہ یہ ہماری اسلامی روایات و تشخص کا ایک حصہ ہے۔ میاں الطاف شوکت پاکستان لائبریرین شپ کی ان محترم شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی تمام زندگی کتب خانوں کی تنظیم، ترتیب، ترقی اور فروغ کے علاوہ کتب خانوی تعلیم کو عام کرنے میں گزاری۔ میاں صاحب نہ صرف ایک اچھے منتظم تھے بلکہ ایک اچھے استاد، کہنہ مشق لائبریرین نیز اردو زبان میں لائبریری سائنس جیسے فنی موضوع کے ابتدائی مصنفین میں سے تھے۔ آپ نے اس موضوع پر اس وقت قلم اٹھا یا جب کہ اس موضوع پر لکھنے والے چند ہی تھے۔
میاں صاحب نے ۲۲ جولائی ۱۹۱۳ء کو پنجاب کے مردم خیز ضلع جالندھر کے قصبہ شاہکوٹ میں ایک پڑھے لکھے اور دین دار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ننگل انبیاء ہائی اسکول سے میٹرک، ریندھیر کالج کپور تھلہ سے ایف اے، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے گریجویشن اور پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔ میاں صاحب میں خدمت خلق اور سماجی کام کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں آپ نے طلبہ سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔ آپ تقسیم سے قبل طلبہ تنظیم ’’انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہڈ‘‘ (بعد ازاں مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن) کے بانی اراکین میں سے تھے اور اس کی قیادت بھی کی۔ اسی تنظیم کے تحت آپ کو شاعر مشرق علامہ اقبال کی زندگی ہی میں ۹ جنوری ۱۹۳۸ء کو پہلا ’’یوم اقبال ‘‘ منعقد کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس تاریخی تقریب کے موقع پر پڑھے گئے منتخب مقالات کو ’’مقالات یوم اقبال‘‘ کے عنوان سے آپ نے کتابی صورت میں شا ئع کیا۔ آپ کو شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت تحریک پاکستان کے سلسلے میں طلبہ کے ساتھ پھر پور حصہ لینے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ میاں صاحب کو ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو ’’قرار داد پاکستان‘‘ پیش کیے جانے والے تاریخی جلسہ عام میں شرکت کا شرف بھی حاصل ہے۔ آپ نے تحریک پاکستان کے دوران ہندو پراپیگنڈہ کے خلاف مسجد شاہ چراغ لاہور میں ’’تعمیر ملت لائبریری‘‘ قائم کی۔
آپ نے ملازمت کا آغاز اسلامیہ کالج برائے خواتین، لاہور سے بطور لائبریرین کے کیا بعد ازاں ہیلی کالج آف کامرس لاہور کے لائبریرین ہوئے اور اسی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ نے فلاحی سرگرمیاں جاری رکھی لائبریری پروفیشن کی ترقی میں عملی جد و جہد کے ساتھ ساتھ آپ نے لاہو رہی میں سمن آباد کے قریب گیارہ کنال اراضی حاصل کر کے احباب کے تعاون سے ’’عالی مسجد‘‘، ’’جامعہ فضلیہ‘‘ اور فضلیہ پبلک ڈسپنسری کی بنیاد رکھی جس سے اس علاقے کے مکینوں کو صحت مند ماحول میسر آیا۔ عالی مسجد سے ملحق ملتان روڈ پر لائبریری کے لیے ایک وسیع ہال خالصتاً جیب خاص سے تعمیر کروایا اور اس میں ایک لائبریری قائم کی۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے عقیدت مندوں، دوستوں اور شاگردوں نے اس لائبریری کو آپ ہی کے نام سے منسوب کیا اور اب یہ لائبریری ’’میاں الطاف شوکت میموریل پبلک لائبریری ‘‘ کہلاتی ہے۔ لائبریری سائنس کا سرٹیفیکیٹ کورس اب اسی لائبریری میں منعقد ہو رہا ہے۔ یہ کورس بھی میاں صاحب کے علمی کارناموں میں سے ایک کارنامہ ہے۔
میاں صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ آپ حد درجہ نیک، دیانت دار، عجز و انکساری کا پیکر، سادہ طبیعت، ہمدرد اور اخلاص کا مجموعہ تھے۔ آپ کی شخصیت شہر اور دیہات کی ملی جلی فضا لیے ہوئے تھی۔ میاں صاحب سے میرا باقاعدہ تعلق ۱۹۷۷ء میں قائم ہوا، اس سے قبل میں ۷۲ء۔ ۱۹۷۱ء میں جامعہ کراچی میں لائبریری سائنس کے طالب علم کی حیثیت سے میاں صاحب کی تحریر کردہ کتاب سے استفادہ کر چکا تھا، آپ کی یہ کتاب اردو زبان میں لائبریری سائنس پر ابتدائی مواد فراہم کرتی ہے۔ ۵ جولائی ۱۹۷۷ء کا تحریر کردہ میاں صاحب کا خط آپ سے براہ راست تعلق کی بنیاد بنا، یہ تعلق آپ کے انتقال تک قائم رہا۔ اپنے اس خط میں میاں صاحب نے راقم کو پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کے تحت ہونے والے لائبریری سائنس کے سرٹیفیکیٹ کورس کا ممتحن مقرر کرنے کی نوید دی۔ آپ نے تحریر فرمایا، ’’ آپ سے تعارف نہیں لیکن اب ہو رہا ہے۔ ۱۹۶۲ء سے انڈر گریجویٹس کے لیے ایک لائبریری ٹریننگ کلاس جاری ہے سولہ سال میں انیس سیشن ہوئے میں شروع سے اس کلاس کا انچارج چلا آ رہا ہوں۔ اتفاق کی بات ہے کہ پہلا پرچہ آج تک کراچی سے سیٹ ہوتا رہا ہے چنانچہ ڈاکٹر انیس خورشید، عادل عثمانی صاحب، سبزواری صاحب، ایس وی حسین مرحوم، نسیم فاطمہ وغیرہ ممتحن رہے ہیں۔ نسیم فاطمہ سے ان کے جانشین کے متعلق مشورہ کیا تھا، انہوں نے آپ کا نام تجویز کیا تھا۔ تین ماہ ہوئے ایسوسی ایشن منظوری دے چکی ہے۔ کلاس گزشتہ ماہ ختم ہوئی ہے یکم اگست کو غالباً امتحان ہو گا ایسو سی ایشن یہ کام ایک طرح پیشہ کی خدمات کے لیے کر رہی ہے۔ مختصراً یہ کہ ایسو سی ایشن نے اس سلسلہ میں آپ سے خدمات لینی ہیں آپ کو پرچہ نمبر ایک کا ممتحن مقرر کیا گیا ہے امید ہے آپ اسے منظور فرمائیں گے ‘‘۔ میاں صاحب کے اس خط کے بعد میں ان کی نگرانی میں ہونے والے سرٹیفیکیٹ کورس کا ممتحن بن گیا ساتھ ہی میاں صاحب سے ناطہ بھی قائم ہو گیا۔
میاں صاحب سے ملاقات کا شرف پہلی بار ۱۹۹۰ء میں حاصل ہوا۔ لاہور میں یوں تو کئی دوست تھے لیکن امریکن سینٹر کے محمد اصغر صاحب سے قریبی دوستی تھی انہوں نے یہ فریضہ سر انجام دیا وہ اپنی موٹر بائیک پر مجھے میاں صاحب کے گھر لے گئے، مغرب ہو گئی تھی، رات کی تاریکی اور تنگ و تاریک گلی میں مکان تلاش کرنا اصغر صاحب ہی کا کام تھا، تنہا میرے لیے میاں صاحب کا گھر تلاش کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہوتا۔ دروازہ پر دستک دی، اصغر صاحب نے اپنے نام کے ساتھ میرا نام بھی بتا یا، بہت تپاک کے ساتھ ملے۔ خلوص و محبت واضح تھا، خاطر تواضع کی، مختلف پیشہ ورانہ موضوعات پر گفتگو ہوئی، کراچی کے ہم پیشہ احباب کی خیریت دریافت کی، دوبارہ آنے پر اصرار بھی کیا، ساتھ ہی اپنی طبیعت کی ناسازی کے بارے میں بھی بتا یا جو آپ کی ظاہری کیفیت سے عیاں ہو رہی تھی۔ یہ میاں صاحب سے میری پہلی ملاقات تھی لیکن ایسا محسوس ہوا کہ جیسے برسوں سے ایک دوسرے سے واقف ہوں، خلوص و محبت سرتا پا انکساری، اپنائیت اور پیشہ سے سچی ہمدردی و لگن کی جھلک نما یاں تھی۔
میاں صاحب سے دوسری ملاقات پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کی ۱۵ ویں کانفرنس منعقدہ دسمبر ۱۹۹۴ء کے موقع پر ہوئی۔ کراچی سے دیگر احباب کے علاوہ اسکول آف لائبریرین شپ، پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کے کئی اساتذہ نے بھی شرکت کی تھی۔ میاں صاحب صاحب نے بطور خاص کراچی کے لائبریری اسکول کے اساتذہ کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا، یہ تقریب پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کے سرٹیفیکیٹ کورس کے ساتھیوں کی جانب سے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ میاں صاحب کے علاوہ مقصود علی کاظمی، ایم ایچ شباب مرحوم، سر فراز حسین چشتی، محمد اسلم مرحوم، محمد تاج، منیر احمد نعیم عابد علی گل اور دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری کے نصرت علی اثیرنے بھی شرکت کی۔ لائبریری کے سروے کے دوران مختلف شعبہ جات اور لائبریری آٹو میشن کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر میاں صاحب بھی ہمارے ساتھ موجود رہے۔ تقریب میں میاں صاحب نے لائبریری سائنس سر ٹیفیکیٹ کورس کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ قیام پاکستان کے بعد دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری نے اپنی خدمات کا آغاز ٹرسٹ کے چیِر مین جسٹس ایس اے رحمان مرحوم کی درخواست پر میاں صاحب کی زیر نگرانی ہی میں شروع کیا، میاں صاحب طویل عرصہ تک لائبریری میں خدمات انجام دیتے رہے۔
میاں صاحب کا تعلق پنجاب کے شہر لاہور سے تھا، لائبریرین شپ تعلق رکھنے والے احباب انہیں ’’بابا جی ‘‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے، بابا جی اب ہمارے درمیان نہیں لیکن پاکستان میں انڈر گریجویٹ سطح پر لائبریری تعلیم کے فروغ و ترقی میں باباجی کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ پنجاب میں انڈر گریجویٹ سطح پر لائبریری تعلیم میاں صاحب ہی کی مرہون منت ہے۔ آپ نے پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن سابقہ مغربی پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے زیر اہتمام لائبریری تعلیم کو نامساعد حالات میں نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کا دائرہ لاہور سے بڑھا کر راولپنڈی اور بہا ولپور تک وسیع کر دیا۔
پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن نے ۱۹۶۲ء میں مغربی پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کو لاہور میں اور ایسٹ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کو ڈھاکہ میں لائبریری ٹریننگ اسکول قائم کرنے کی سفارش کی چنانچہ مغربی پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن (جس کا موجودہ نام پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن ہے ) نے ۱۹۶۳ء میں لاہور میں لائبریری سائنس کی ٹریننگ کلاس کا اجراء کیا۔ میاں صاحب شروع ہی سے اس کلاس کے منتظم اعلیٰ چلے آ رہے تھے۔ میاں صاحب کی کوششوں سے ۱۹۸۳ء میں ایسو سی ایشن کی خدمات کا دائرہ لاہور سے بڑھا کر راولپنڈی تک وسیع ہوا، ٹریننگ کلاس کا ایک مرکز راولپنڈی میں بھی قائم کیا گیا۔ ۱۹۸۳۔ ۱۹۸۸ء تک ٹریننگ کلاس کے راولپنڈی سے نو سیشن مکمل ہوئے اور کل ۲۶۰ طلبہ نے ٹریننگ حاصل کی۔ ۱۹۸۸ء کے بعد بہاولپور میں بھی ایک مرکز قائم کیا اس طرح اس ایسو سی ایشن نے ۲۵ سالوں میں ۱۸۱۲طلبہ کو انڈر گریجویٹ سطح پر لائبریری سائنس کی تربیت سے آراستہ کیا، جو پنجاب کے مختلف کتب خانوں میں پیرا لائبریری اسٹاف کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
۱۹۸۶ء میں حکومت پاکستان کی وزارتِ تعلیم کے شعبہ لائبریریز ملک میں انڈر گریجو یٹ لائبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت کے فروغ اور اس کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے کراچی میں پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے تحت جاری سرٹیفیکیٹ کورس اور لاہور میں پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کے سرٹیفیکیٹ کورس کو باقاعدہ منظور کرتے ہوئے احکامات جاری کیے حکومتی سطح پر ملک میں انڈر گریجویٹ لائبریری تعلیم کی باقاعدہ سر پرستی و قدر شناسی کی یہ پہلی مثال تھی جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
سرٹیفیکیٹ کورس میں یکسانیت پیدا کرنے کے سلسلہ میں، میں نے میاں صاحب کو تحریر کیا کہ اگر کراچی اور لاہور میں جاری سرٹیفیکیٹ کورسز کا نصاب یکساں ہو جائے اور اس میں ہم آہنگی پیدا ہو جائے تو یہ زیادہ ترقی کا باعث ہو گا۔ میاں صاحب نے میری اس تجویز کو نہ صرف سراہا بلکہ اسے ایک عمدہ تجویز قرار دیا، آپ نے اپنے خط (۳ مارچ ۱۹۷۹ء )میں تحریر فر مایا ’’ ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کی کلاس کے متعلق پڑھا۔ کیا یہ وہی کلاس ہے جس کے کرتا دھرتا اے آر۔ غنی اور ایس وی حسین تھے۔ میں دو دفعہ اس کلاس کا ممتحن بنا تھا۔ ہماری اور آپ کی کلاس کا نصاب ایک ہونا چاہیے۔ یہ بہت عمدہ خیال ہے میں کوشش کروں گا کہ یہ خیال عملی جامہ پہن لے ‘‘۔ بعد ازاں ایسا ہوا۔ جس کا تمام تر سہرا میاں صاحب ہی کو جاتا ہے۔ میاں صاحب سرٹیفیکیٹ کورس کے ابتدا ہی سے ڈائریکٹر تھے اور تمام امور از خود سر انجام دیا کرتے تھے۔ جس میں ممتحن سے خط و کتابت، پرچہ ارسال کرنا، یاددہانی کرانا، پرچہ پریس پہچانا، پروف ریڈنگ کرنا وغیرہ شامل تھا۔ ممتحن کی حیثیت سے میری پوری کوشش ہوا کرتی کہ بروقت پرچہ تیار کر کے بھیج دوں، میں کئی سال ممتحن رہا، میرے علاوہ کراچی سے ڈاکٹر انیس خورشید، محمد عادل عثمانی، ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری، سید ولایت حسین شاہ، صادق علی خان اور ڈاکٹر نسیم فاطمہ ممتحن رہ چکے تھے۔
پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن پاکستان میں لائبریرین شپ کے پیشے میں قائم ہونے والی اولین ایسو سی ایشن ہے جس کا قیام ۱۹۴۸ء میں ’’ مغربی پا کستان لائبریری ایسو سی ایشن ‘‘کے نام سے عمل میں آیا۔ فضل الٰہی مرحوم اس ایسو سی ایشن کے قیام میں پیش پیش تھے۔ تقسیم ہند سے قبل بر طانوی ہندوستان میں پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن لاہورمیں قائم ہو ئی تھی۔ لاہو رہی اس انجمن کی سر گرمیوں کا محور تھا۔ قیام پا کستان کے بعد لاہور میں موجود لائبریری پروفیشن سے تعلق رکھنے والوں نے کسی بھی پروفیشنل تنظیم کی موجودگی کو محسوس کیا۔ فضل الٰہی مرحوم لاہور میں (M.A.O.) کالج سے وابستہ تھے۔ آپ نے کوشش کی کہ پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کو از سر نو منظم کیا جائے۔ اس وقت پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کے صرف دو اراکین میاں الطاف شوکت لائبریرین ہیلے کالج اور محمد صدیق لائبریرین گورنمنٹ کالج ساہیوال ایسو سی ایشن کے رکن کی حیثیت سے موجود تھے۔ دونوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کو از سر نو منظم کیا جائے۔ فضل الٰہی نے ۱۹۴۸ء کے اوائل میں ایسو سی ایشن کے اراکین کی ایک میٹنگ منعقد کی جس میں اسلامیہ کالج کے لائبریرین سید نصیر احمد نے بھی شرکت کی۔ یہ میٹنگ اسلامیہ کا لج لائبریری میں منعقد ہوئی۔ اس سال ابتدائی نوعیت کا کام ہوا اور انتخابات کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ انتخابات اپریل ۱۹۴۹ء میں منعقد ہوئے جس کے نتیجے میں خواجہ نور الٰہی لائبریرین پنجاب پبلک لائبریری صدر، میاں الطاف شوکت سیکریٹری، محمد صدیق اسسٹنٹ سیکریٹری اور محمد اسلم خازن منتخب ہوئے۔ مجلس منتظمہ کے اراکین پنجاب کی مختلف ڈسٹرکٹ سے لیے گئے۔ تمام صوبوں میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے جنرل باڈی اجلاس میں متفقہ طور پر ایک قرار داد منظور ہو ئی جس میں اس ایسو سی ایشن کا نام ’’، ، مغربی پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن‘‘ اور اس کا صدر مقام لا ہور قرار پایا۔ ون یونٹ کے اختتام( جولائی ۱۹۷۰ء) میں اس انجمن کو پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کا نام دیا گیا جو آج تک قائم ہے۔ مقصود کاظمی کے مطابق تادم مرگ میاں الطاف شوکت اس ایسو سی ایشن کے جنرل سیکریٹری رہے۔ ڈاکٹر جلال حیدر نے مغربی پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کو برطانوی ہندوستان کی پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کا جانشین قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا پہلا اجلاس ۲۸ دسمبر ۱۹۶۱ء کو دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری میں ہوا۔
۱۹۶۰ء میں جب میاں صاحب ہیلے کالج آف کامرس کے لائبریرین تھے تو آپ نے کیٹلاگ سازی پر انگریزی زبان میں ایک مختصر سی کتاب تحریر کی جو ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی، یہ اپنے موضوع پر ابتدائی معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ میاں صاحب ابتداء ہی سے لائبریری پروفیشن کی عملی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ہیلے کالج کے بعد میاں صاحب دارالسلام لائبریری سے منسلک رہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد آپ لائبریری سائنس کے سرٹیفیکیٹ کورس سے کل وقتی منسلک ہو گئے اور اپنے انتقال تک یہ خدمت سر انجام دیتے رہے۔ میاں صاحب کی دوسری کتاب بعنوان ’’نظام کتب خانہ ‘‘ ۱۹۷۰ء کی دہائی کی ایک مقبول کتاب تھی اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا۔ کتاب کے بارے میں بیورو آف ایجوکیشن حکومت پنجاب کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالرؤف نے اپنے پیش لفظ میں لکھا کہ ’’ محترم الطاف شوکت نے اس اہم موضوع پر ایک ایسی قابل قدر تصنیف پیش کرنے کا شرف حاصل کیا ہے جس میں ان کی فنی بصیرت اور طویل تنظیمی تجربہ کی صحیح عکاسی ہوتی ہے، نظام کتب خانہ ہر اعتبار سے قابل ستائش تخلیق ہے ‘‘۔ ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے ایک مضمون ’’کتابیں کتاب کاروں کی : ایک کتابیاتی مضمون‘‘ میں میاں صاحب کی کتاب پر اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ’’ ۱۹۷۰ء میں شیخ غلام علی اینڈ سنز نے بھی ایک کتاب شائع کی یہ کتاب ملک کے کہنہ مشق لائبریرین الطاف شوکت کی تصنیف ’نظام کتب خانہ‘ ہے۔ یہ کتاب اوسط درجہ کے کتب خانوں کی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے۔ اپنے بہت سے اضافوں کے ساتھ ابتدائی سطح پر لائبریری سائنس کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے یہ ایک مفید کتاب ثابت ہو گی‘‘۔ میاں صاحب کی ایک کتاب ۱۹۸۴ء میں ’’ابتدائی نظام کتب خانہ ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی جو آپ نے اپنے دستخط کے ساتھ ۱۵ اپریل ۱۹۸۴ء کو مجھے ارسال کی، یہ کتاب چھوٹے کتب خانوں کے لیے ترتیب دی گئی تھی۔
آپ خود بھی مصنف تھے اور دیگر لکھنے والوں کی قدر اور حوصلہ افزائی کھلے دل سے کیا کرتے۔ میں نے ۱۹۷۹ء میں اپنی کتاب ’ کتب خانے تاریخ کی روشنی میں ‘‘ آپ کو ارسال کی، اپنے خط (۱۶ فروری ۱۹۷۹ئء) میں میاں صاحب نے لکھا کہ ’’آپ کی مفید کتاب کا میں نے خود کلاس میں ذکر کیا تھا، میں تو یہی چاہتا ہوں، طلبہ و طالبات ہر پرچے سے متعلق تین چار کتا بیں ضرور پڑھیں۔ میں نے کاظمی صاحب کو تاکید کی تھی کہ آپ کی کتاب کا تعارف کرائیں اوراسے پڑھوائیں، انہوں نے ایسا کیا بھی‘‘۔ ۱۹۸۰ء میں میں نے اپنی ایک کتاب ’’ابتدائی لائبریری سائنس ‘‘ میاں صاحب کی خدمات میں پیش کی آپ نے اپنے خط (۱۰ اکتوبر ۱۹۸۰ء)میں لکھا کہ ’’ آپ کی کتاب موصول ہو گئی تھی، بہت بہت شکریہ، آپ نے لگن اور محنت سے کتاب تیار کی ہے ہم نے اپنے نصاب میں شامل کر لیا ہے ‘‘۔
میاں صاحب ایک سچے اور کھرے انسان تھے، درست کو درست اور غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ لائبریری مواد کا مطالعہ باریک بینی سے کیا کرتے اور اس پر اپنی رائے کا اظہار بر ملا کر دیا کرتے۔ آپ نے اپنے خط (۱۹ دسمبر ۱۹۸۱ء) میں تحریر فرمایا ’’ سبزواری صاحب آجکل مکہّ ہی میں ہیں، یا کراچی آئے ہوئے ہیں ؟ مجھے ان کا ایڈریس درکار ہے۔ ان کی درجہ بندی کی کتاب کا پہلا حصہ دیکھ کر جتنی خوشی ہوئی تھی دوسرا حصہ دیکھ کر اتنی ہی مایوسی ہوئی ہے۔ انہوں نے ادب اور اسلام کے نمبر یکسر تبدیل کر دئے ہیں، ہمارے کتب خانوں میں ڈیوی کے نمبر رائج ہیں، نئے نمبروں کی ٍadjustmentکیسے ہو گی، میں انہیں خط لکھنا چاہتا ہوں، ہمارے بھائی کس طرف چل نکلے ‘‘۔ الطاف شوکت۔
میاں صاحب میں ہمدردی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا ان کے قرب و جوار کے ساتھی اس سے بخوبی واقف تھے ہر ایک سے محبت اور ہمدردی سے پیش آتے خیریت معلوم کرتے کسی بھی مشکل یا پریشانی میں کام آنے کی پوری کوشش کرتے۔ یہ جذبہ سینکڑوں میل دور رہنے والوں کے لیے بھی یکساں تھا اس کا اظہار آپ کی تحریروں سے واضح ہوتا ہے۔ راقم کے نام اپنے ایک خط(۶جون ۱۹۸۷ء) میں میاں صاحب نے لکھا: ’’ ڈیڑھ سال پیشتر مجھے کراچی جانے کا اتفاق ہوا تھا، میری بیوی بھی ہمراہ تھی۔ پروگرام تھا کہ ہم دونوں عزیزہ نسیم فاطمہ کے گھر جائیں گے۔ نسیم فاطمہ مجھے بیٹی جیسی عزیز ہے گھر والے چھوٹے بڑے سب اسے جانتے ہیں۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اس کے گھر کا پتہ جو میں نے کہیں سنبھال کر رکھا تھا نہ ملا مجبوراً یونیورسٹی ٹیلی فون کرنا پڑا اور ڈاکٹر انیس خورشید نے فون اٹھا یا اور میرا سن کر دعوت دی کہ ان کے گھر پہنچوں میں نے بتا یا کہ میری بیوی بھی ہمراہ ہے کہنے لگے یہ تو اور بھی اچھی بات ہے وہ اپنی باتیں کریں گی اور ہم اپنی باتیں۔ میں نے بتا یا مجھے نسیم فاطمہ سے ہر صورت ملاقات کرنی ہے معلوم ہوا کہ ان کے وا الد صاحب بیمار ہیں اس لیے میں نے اسی پر اکتفا کر لیا کہ کل اس سے پھر یونیورسٹی میں ہی ملاقات کر لوں چنانچہ ایسا ہوا۔ ہمارانسیم فاطمہ کے گھر جانے کا مقصد یہ تھا کہ ان کے والدین سے دریافت کرتے کہ اس کی ابھی تک شادی کیوں نہیں ہوئی۔ ہمیں بہت دکھ ہے۔ ڈیڑھ سال گزر گیا ایسی بات ہر کسی سے ہو نہیں سکتی۔ اس لیے آپ کو منتخب کیا گیا ہے۔ مہر بانی کر کے میری طرف سے ان کے والد صاحب سے ملاقات کریں اور اس معاملہ پر بات چیت کریں اور مجھے مطلع کر کے ممنون کریں۔ ۸۰ فیصد حالات سے تو آپ پہلے ہی واقف ہو نگے۔ کئی روز ہوئے مجھے نسیم فاطمہ کا خط ملا تھا کہ وہ ایسو سی ایٹ پر و فیسر بن گئی ہیں۔ مجھے نصف خوشی ہوئی ہے۔ اگر وہ اسسٹنٹ پروفیسر ہی رہتی اور شادی کی خبر سنتا تو بے حد خوشی ہوتی، بہر حال میں آج اسے بھی مبارکباد کا خط تحریر کر دوں گا اِنشا اللہ۔ مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔ کیا آپ کا لاہور آنے کا پروگرام نہیں بن سکتا؟ فقط الطاف شوکت‘‘۔
جیسا کہ میں ابتدا میں تحریر کر چکا ہوں کہ میں الطاف شوکت صاحب کے کورس میں کئی سال ممتحن رہا ہوں، میری کوشش ہوا کرتی تھی کہ پرچہ وقت پر تیار کر کے بھجوا دوں پھر بھی مصروفیات کے باعث تاخیر ہو جایا کرتی، ایک بار ایسا ہی ہوا میں با وجود کوشش کے پرچہ شاید وقت پر نہیں بھیج سکا، میاں صاحب کے خط (۳ مئی ۱۹۸۱ء) میں پرچہ دیر سے پہنچنے اور کورس کے امور سر انجام دینے کی تصویر خوبصورت طریقے سے واضح ہوتی ہے۔ آپ نے لکھا ’’ عزیز صمدانی ! السلام علیکم۔ ۲۸ تک بھی آپ کا پرچہ نہ ملا تو اسلم صاحب نے مشورہ دیا کہ تار بھیج دیا جائے مگر سوچا وقت گزر چکا تھا، ۲۹ بھی گزر گئی، تو محترم عادل عثمانی صاحب کی یاد تازہ ہو گئی، ایک دفعہ وہ ممتحن تھے، تو ایسا ہی ہوا تھا، ۲۹ گزر گئی، اب صرف ۳۰ اپریل کی تاریخ باقی رہ گئی، چنانچہ ۲۹ کی رات ۱۱ بجے بیٹھ کر میں نے پرچہ تیار کر لیا اور ۹ بجے پریس میں بھجوا دیا۔ وہ آخری تاریخ تھی، بارہ بجے خود پہنچ کر پروف پڑھے اور ساڑھے چار بجے باقی پرچوں کے ہمراہ آپ کا پرچہ بھی وقت پر چھپ گیا۔ یکم کو جمعہ تھا اور ۲ مئی کو سب سے پہلا آپ کا پرچہ تھا، کل پرچہ ہو گیا، گھر واپس پہنچا تو آپ کی رجسٹری وصول ہو چکی تھی، عثمانی صاحب کی رجسٹری پرچہ کے ایک دن بعد موصول ہوئی تھی۔ امید ہے پرچے بھی آپ کو ساتھ ہی موصول ہو جائیں گے ‘‘الطاف شوکت۔
میاں صاحب یکم فروری ۱۹۹۸ء بروز اتوار کو خالق حقیقی سے جا ملے، وہ اب ہمارے درمیان میں نہیں لیکن ان کی یاد یں آج ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کا اخلاق ان کی تخلیقات اور لائبریری ساسئنس ٹریننگ کلاس ایسے فیوض جاریہ ہیں جن سے موجودہ اور آئندہ نسل فیض حاصل کرتی رہے گی۔ لائبریری ٹریننگ کلاس کی سر پرستی اب میاں صاحب کے رفیق کار سید مقصود علی کاظمی صاحب کو حاصل ہے۔ وہ اس خدمت کو اسی جذبہ اور لگن سے سر انجام دے رہے ہیں جیسے میاں صاحب برسہا برس تک دیتے رہے۔ میاں صاحب کے فرزند جناب مشتاق آزاد بھی اس کورس میں معاون ہیں۔
اگست ۲۰۰۷ء کے ابتدائی دنوں کی کوئی تاریخ تھی ٹیلی فون پر معلوم ہوا کہ کوئی مشتاق صاحب بات کرنا چاہتے ہیں، میں نے بعد از سلام عرض کیا آپ کون صاحب ہیں کہنے لگے میرا نام مشتاق آزاد ہے لاہور سے آیا ہوں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، میں نے عرض کیا کہ آپ ضرور ملاقات کریں، مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کو نہیں پہچانا، گویا ہوئے کہ میں الطاف شوکت کا بیٹا ہوں، ان کا یہ کہہ دینا ہی میرے لیے کافی تھا، میں نے کہا کہ بس اسقدر تعارف کافی ہے آپ پہلی فرصت میں تشریف لائیں، اپنے گھر کا پتہ اچھی طرح لکھوا یا، میں انتظار کرتا رہا، لیکن وہ نہ آئے شاید وقت نہ مل سکا ہو، کئی دن گزرنے کے بعد ۲۹ اگست کو آپ نے مجھے پھر فون کیا کہ میں آپ کے گھر آنا چاہتا ہوں، راستے میں ہوں ناظم آباد سے واپس اپنے بیٹے کے گھر ملیر کینٹ جا رہا ہوں، میں نے اپنے گھر کا پتہ بتا یا، تھوڑے ہی دیر بعد وہ اپنی بیگم کے ہمراہ تشریف لے آئے، وہی الطاف شوکت جیسا ڈیل ڈول، چہرہ پر سفید داڑھی، گفتگو کا انداز بھی کچھ کچھ ملتا جلتا۔ مجھے ایسا لگا کہ میاں صاحب قدرِ جوان ہو کر آ گئے ہیں۔ ان سے تعلق کی ایک فلم نظروں کے سامنے چلنے لگی، باتیں مشتاق صاحب سے کر رہا تھا، ذہن میں میاں صاحب تھے۔ بہت خوشی ہوئی، میاں صاحب کی یاد تازہ ہو گئی، مشتاق صاحب بھی خوش نظر آ رہے تھے، میں نے اپنے پاس محفوظ میاں صاحب کے متعدد خطوط انہیں دکھائے جو انہوں نے بہت ہی محبت سے دیکھے اور پڑھے۔ ان کی بیگم میری بیگم سے محوِ گفتگو رہیں، مشتاق صاحب نے بتا یا کہ ان کا بیٹا پاکستان آرمی میں میجر ہے اور آجکل کراچی میں اس کی پوسٹنگ ہے وہ اس کے پاس ہی آئے ہوئے ہیں اور اکثر آتے رہتے ہیں۔
میاں الطاف شوکت نے لائبریری سائنس کی تعلیم و تربیت کا جو چراغ ۱۹۶۲ء میں لائبریری ٹریننگ اسکول کی صورت میں روشن کیا تھا، آج ۴۵ برس گزر جانے کے بعد بھی اپنا فیض جاری رکھے ہوئے ہے۔ علمی خدمت کی ایسی مثالیں کم کم ملتی ہیں۔ جس کام میں خلوص، سچائی، خدمت خلق کا حقیقی اور بے لوث جذبہ ہو وہ زندہ رہتا ہے، پھلتا پھولتا ہے، عظمت کی مثال بن جاتا ہے۔ معروف شاعر جمیل نقوی مرحوم کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
چھوڑ جاتی ہے، جو صدیوں نہیں مٹنے پاتے
ذہن کی سطح پر کچھ ایسے نشان زنجیریں
نوٹ: یہ مضمون پاکستان لائبریری بلیٹن، جلد ۳۲ شمارہ ۱۔ ۲، مارچ۔ جون ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا، تصحیح و اضافہ کے ساتھ کتاب میں شامل کیا جا رہا ہے۔
ابن حسن قیصر
پاکستان میں لائبریری تحریک کا خاموش مجاہد
پاکستان میں لائبریری تحریک کی داغ بیل ڈالنے والوں میں ایک نام ابن حسن قیصر کا بھی ہے جو خاموشی کے ساتھ اس وقت کے لائبریرینز کے شانہ بہ شانہ لائبریری تحریک کی جد و جہد میں سر گرم عمل نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان میں لائبریری تحریک کی تاریخ ابن حسن قیصر کے ذکر کے بغیر نا مکمل ہو گی۔ قیصر صاحب کا تعلق فوج سے رہا ہے چنانچہ ان میں ایک خاص قسم کا نظم و ضبط اور کام کرنے کا جذبہ نمایاں نظر آتا ہے۔ آپ نے کبھی اپنی ذات کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ مقصد کو فوقیت دی اور لائبریری تحریک میں اپنے آپ کو ایک ادنیٰ کارکن تصور کرتے ہوئے جد و جہد میں شریک رہے۔ بعض اہم کام آپ نے سر انجام دیے لیکن اپنی ذات کو اس سے دور رکھا نتیجے کے طور پر ان سے بعض لوگوں نے فائدہ حاصل کیا اور خوب نام کمایا اور مشہور ہوئے مگر قیصر صاحب نے پھر بھی اپنے مشن کو جاری رکھا اور لائبریری تحریک کو پروان چڑھانے میں مصروف رہے بلاشبہ قیصر صاحب لائبریری تحریک کے خاموش مجاہد ہیں۔
لائبریری تحریک اور ابن حسن قیصر
لاہور جو کتب خانوں کا شہر اور لائبریری تحریک کا مرکز تھا قیام پا کستان کے وقت رو نما ہونے والے واقعات کے باعث اس کی تمام تر لائبریری سر گرمیاں ماند پڑ چکی تھیں۔ کتب خانوں میں کام کرنے والے عملے کی اکثر یت ہندوؤں کی تھی ان کے ہندوستان چلے جا نے کی وجہ سے کتب خانے بند ہو گئے۔ ۱۹۱۵ء میں قائم ہونے والا’ لائبریری اسکول‘ بند ہو گیا، لائبریری پروفیشن کا ترجمان رسالہ ’ماڈرن لائبریرین‘ کی اشاعت بند ہو گئی۔ ایسی صورت حال میں کتب خانوں کا قیام اور لائبریری تحریک کو بالکل ہی ابتداء سے شروع کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ دور مصا ئب و مشکلات اور جد و جہد کا دور تھا۔ لائبریرین شپ سے تعلق رکھنے والی محترم شخصیات اور وہ لوگ جنہوں نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تھی سب ہی نے ان مشکل حالات میں لائبریرین شپ کے فروغ اور ترقی کے لیے خلوص دل کے ساتھ دن رات محنت کر کے نہ صرف لائبریری تحریک کی بنیاد رکھی بلکہ اسے پروان چڑھانے کی مسلسل انفرادی اور اجتماعی جد و جہد کر تے رہے ان احباب نے ایسی منصوبہ بندی کی کہ آج پاکستان لائبریرین شپ ترقی کے اعتبار سے دوسرے شعبوں سے کسی بھی طرح کم نہیں۔ ان قابل تعریف شخصیات میں خان بہادر اسد اللہ خان، محمد شفیع، نور محمد خان، خواجہ نور الٰہیٰ، فضل الٰہیٰ، عبدالسبحان خان، عبدالصبوح قاسمی، عبدالرحیم، ڈاکٹر محمد علی قاضی، الطاف شوکت، فرحت اللہ بیگ، جمیل نقوی، الحاج محمد زبیر، سید ولایت حسین شاہ، حبیب الدین احمد، ڈاکٹر عبدالمعید اور ابن حسن قیصر شامل ہیں۔ لائبریری تحریک کو منظم کرنے اور فروغ دینے میں یہ احباب انفرادی اور اجتماعی کوششیں کرتے رہے، ان میں ڈاکٹر عبدالمعید اگلی صف میں نظر آتے ہیں اور دیگر احباب ان کے شانہ بہ شانہ تھے، قیصر صاحب اس دور کے ایک سر گرم کارکن کی حیثیت سے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔
لا ہو رہی میں برطانوی ہندوستان میں قائم ہونے والی پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۸ء میں مغربی پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے نام سے قائم ہو ئی لیکن صوبوں کے ادغام کے بعد اسے دوبارہ پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کا نام دے دیا گیا۔ اس ایسو سی ایشن نے دسمبر۱۹۴۹ء میں ’’ ماڈرن لائبریرین‘‘ ( نیو سیریز) شائع کیالیکن یہ جولائی ۱۹۵۰ء میں بند ہو گیا۔ ۱۹۴۸ء میں پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن نے لائبریری سائنس میں سر ٹیفکیٹ کورس شروع کیا لیکن یہ ایک سال میں بند ہو گیا۔ اِسی دوران ڈاکٹر عبدالمعید سندھ یونیورسٹی کے لائبریرین مقرر ہوئے اور لاہور سے کراچی منتقل ہو گئے۔ اب کراچی میں لائبریری سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ کراچی لائبریری ایسو سی ایشن ۱۹۴۹ء میں قائم ہو ئی۔ اس ایسو سی ایشن نے لائبریری سائنس میں سر ٹیفکیٹ کورس بھی شروع کیا جو کراچی میں اپنی نوعیت کا اولین کورس تھا اس کورس نے لائبریرین شپ کو بنیاد فراہم کرنے میں بہت مدد دی۔ پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ ۱۹۵۰ء اور پا کستان لائبریری ایسو سی ایشن کی بنیاد کراچی میں مارچ ۱۹۵۷ء میں رکھی گئی۔ قیصر صاحب ان اداروں کے قیام اور سر گرمیوں میں دیگر احباب کے ہمراہ خاموشی سے جد و جہد کرتے دکھا ئی دیتے ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں پاکستان لائبریرین شپ میں ایک ایسی انجمن معرض وجود میں آئی کے جس نے مختصر وقت میں کتب خانوں اور لائبریری تحریک کے فروغ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر دکھایا۔ یہ انجمن شہید حکیم محمد سعید کی سر پرستی میں ’انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات، اسپل (SPIL)کے نام سے قائم ہو ئی۔ ایسو سی ایشن نے ملک کے مختلف شہروں میں لائبریرین شپ کے مختلف موضوعات پر یکے بعد دیگرے قومی نوعیت کے سیمینار، ورکشاپس اور کا نفرنسیں منعقد کیں، کتب خانوں کے فروغ و ترقی کے منصوبے اور تجاویز حکو مت کو پیش کیں۔ شہید حکیم محمد سعید نے نہ صرف اسپل (SPIL) کے پرچم تلے کتب خانوں کی ترقی کے لیے جد و جہد کی بلکہ دیگر لائبریری انجمنوں کی بھی سر پرستی کی اور ان کے تحت ہونے والے کتب خانوں کی ترقی کے پروگراموں کے ذریعہ حکومت کو ملک میں کتب خانوں کے قیام اور ترقی کا احساس دلاتے رہے۔
قیام پاکستان کا ابتدائی دور مسائل اور مشکلات کا دور تھا۔ حکومت بعض اہم اور قومی نوعیت کے امور کی انجام دہی میں مصروف رہی جس کے نتیجہ میں تعلیم بشمول کتب خانوں کی جا نب فوری توجہ نہ ہو سکی۔ ملک میں کتب خانوں کے قیام اور لائبریری تحریک کے سلسلے میں حکو مت پا کستان کی جانب سے جو اولین اقدام سامنے آیا وہ امپیریل لائبریری کلکتہ کے سابق لائبریرین ‘ انڈین لائبریری ایسو سی ایشن کے بانی سیکریٹری، لائبریری ایسو سی ایشن لندن کے فیلو اور اسا ڈان ڈکنسن کے شاگرد خان بہادر خلیفہ محمداسد اللہ خان کا تقرر وزارت تعلیم حکو مت پاکستان میں بطور ’’آفیسر بکار خاص‘‘ (Officer on Special Duty)تھا جنہوں نے ہندوستان کو خیر باد کہتے ہوئے پاکستان ہجرت کی۔ خان بہادر صاحب کوہندوستان لائبریرین شپ میں بہت ہی بلند مقام حا صل تھا۔ ۱۹۳۵ ء میں برطانوی حکو مت نے انہیں اُن کی اعلیٰ لائبریری خدمات کے اعتراف میں ’’ خان بہادر ‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ قدرت نے خان بہادر صاحب کو پا کستان میں بہت کم مہلت دی وہ ۲۳ نومبر ۱۹۴۸ء کو رحلت کر گئے۔ مختصر عرصہ میں بھی انہوں نے پا کستان میں لائبریری تحریک اور ملک کی قو می لائبریری کی بنیاد رکھی۔ بقول ڈاکٹر ممتاز انور ، اسداللہ نےا فسر بکار خاص کی حیثیت سے کراچی میں مختصر عرصہ خدمات انجام دیں جہاں انہوں نے بنیادی نوعیت کے کام کیے۔ اس میں شک نہیں کہ ڈائریکٹریٹ آف آرکائیوز و لائبریریز اور نیشنل لائبریری۱۹۴۹ء میں اسد اللہ کے کام کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئے ‘۔ ڈاکٹر حیدر کا کہنا ہے کہ ’’ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو ایک بات مسلمہ ہے وہ یہ کہ ۱۹۴۹ء میں ڈائریکٹریٹ آف آرکائیوز و لائبریریز کا قیام بہادر صاحب کی کوششوں کا مرہون منت ہے ‘‘۔
اس طرح پاکستان مین لائبریری تحریک کا آغاز کراچی سے اور لاہور سے بیک وقت شروع ہوا۔ گویا لاہور سے انجمن سازی کا آغاز ہوا اور کراچی سے کتب خانوں کے قیام اور فروغ کے لیے منصوبہ بندی کی گئی۔ بعد ازاں انجمن سازی کی سرگرمیاں کراچی سے پورے آب و تاب سے شروع ہو گئیں۔
لائبریرین شپ میں شمولیت
ابن حسن قیصر نے ۱۹۳۶ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے اردو میں ایم اے کیا اور ۱۹۵۱ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے لائبریری سائنس میں ست ٹیفیکیٹ کورس حاصل کیا۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی اس وقت آپ آرمی میں تھے۔ فوری طور پر کوئٹہ پوسٹنگ ہوئی لیکن جلد ہی ریٹائرمنٹ لے لی اور لاہور منتقل ہو گئے۔ فروری ۱۹۴۹ء میں پنجاب لائبریری سے وابستہ ہوئے یہ لائبریرین شپ میں شمولیت کا آغاز تھا۔ ابتداء میں جونیِر اسسٹنٹ پھر اسسٹنٹ کیٹلاگر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں، اکتوبر ۱۹۵۱ء تک آپ اس ادارے سے منسلک رہے۔ گویا پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں آپ نے ۲ سال ۸ ماہ خدمات انجام دیں اس کے بعد آپ کراچی منتقل ہو گئے۔ لیاقت میموریل لائبریری سے اپنی وابستگی کے بارے میں قیصر صاحب نے ا اپنے ایک مضمون میں لکھا ’’میں ۱۹۵۲ء میں پنجاب یونیورسٹی کی ملازمت ترک کر کے نیشنل لائبریری سے وابستہ ہو گیا جہاں پیشہ ورانہ عملے میں سب سے پہلا تقرر مبلغ دو سو روپے ماہوار پر میرا عمل میں آیا، میرے آنے کے چھ ماہ بعد سید ولایت حسین مرحوم بحیثیت لائبریرین تشریف لائے جنہوں نے جی جان سے ایسا کام کیا کہ نہ دن دیکھا نہ رات‘‘۔ لیاقت میموریل لائبریری اس وقت نیشنل لائبریری تھی۔ قیصر صاحب کا تقرر سینئر ٹیکنیشن کی حیثیت سے ہوا پھر آپ اسسٹنٹ لائبریرین ہوئے، قائم مقام لائبریرین کے فرائض انجام دئے اور آخر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد ۲۰ نومبر ۱۹۶۹ء میں اس کتب خانے سے سبکدوش ہو گئے۔
قیصر صاحب کے ایک ہمعصر فرحت للہ بیگ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’جب میں سینٹرل سیکریٹریٹ اور نیشنل لائبریری آف پاکستان سے منسلک ہوا تو یہاں ہم دونوں کو ایک بار پھر دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کام کرنے کا موقع ملا۔ سینٹرل سیکریٹریٹ لائبریری یا عارضی نیشنل لائبریری (جو عام طور پر اس وقت کہلاتی تھی) کراچی میں لائبریری سرگرمیوں کا مرکز بن گئی جہاں پر حسب ذیل سینئر لائبریرینز نے باہم مل کر لائبریری پروموشن کے لیے کام کیا۔ ان سینئر لائبریرینز میں فضل الٰہیٰ مرحوم، الحاج محمد شفیع، نور محمد خان، سید ولایت حسین شاہ، ڈاکٹر عبدالمعید، ابن حسن قیصر اور فرحت اللہ بیگ شامل تھے، اس مختصر سے پانچ سالوں ( ۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء )میں ہم نے باہم مل کر کھلے دل سے کام کیا اور حسب ذیل اداروں کی بنیاد رکھی، ڈاکٹر عبدالمعید کا کردار زیادہ نمایاں تھا۔ ان اداروں میں کراچی لائبریری ایسو سی ایشن، پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن، اسکول آف لائبریرین شپ اور پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ شامل تھے ‘‘۔ پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ میں ان اداروں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ قیصر صاحب کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ ان اداروں کے بانی رکن رہے۔ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن جس کا قیام ۱۹۵۷ء میں عمل میں آیا، ڈاکٹر عبدالمعید اس کے بانی سیکریٹری اور قیصر صاحب اس کی منتظمہ کے رکن تھے۔ قیصر صاحب پی ایل اے کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے۔ ایسو سی ایشن کی پہلی کانفرنس کی صدارت اس وقت کے صدر مملکت میجر جنرل اسکندر مرزا نے کی تھی جو ایسو سی ایشن کی تاریخ کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ قیصر صاحب نے اسکندر مرزا کی صدارت کا ذکر اپنے ایک مضمون میں اس طرح کیا ’’ میں ابتداء ہی سے لائبریری ایسوسی ایشن کا ممبر تھا پہلے سال ڈاکٹر عبدالمعید اس کے سیکریٹری تھے۔ جب طے پایا کہ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کا اجلاس کراچی میں کیا جائے تو ہم لوگوں نے اس وقت بڑی رد و قدح کے بعد طے کیا کہ وزیر تعلیم پاکستان سے صدارت کی درخواست کی جائے چنانچہ ایک وفد وزیر تعلیم کی خدمات میں حاضر ہواس سے رسائی نہ ہوئی تو ایک وفد جوائنٹ سیکریٹری کے پاس بھیج دیا گیا انہوں نے فرمایا کہ ’’ پاکستان میں تعلیم کا تناسب ہی اس قدر امید افزا کہاں ہے کہ ہمیں کتب خانوں کی ضرورت ہو۔ ایسے ملک میں جہاں کی اکثریت نہ پڑھ سکتی ہو کتب خانے عیاشی نہیں تو اور کیا ہیں ‘‘۔ اس تلخ جواب پر غور کرتے ہوئے مجھے آج بھی شرم محسوس ہوتی ہے کہ ایک پڑھا لکھا آدمی جو وزارت تعلیم کا حاکم ہونے کے باوجود کتب خانوں کی اہمیت اور وقعت سے اس قدر بے بہرہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ وفد وہاں سے ناکام و نا مراد لوٹا۔ اس واقعہ سے ہمارا پست ہمت ہو جانا ایک فطری عمل تھا۔ اس نا امیدی میں ڈاکٹر محمود حسین نے ہماری ہمت بندھائی اور فرمایا مجھے سوچنے کا موقع دو میں کوئی اور صورت نکالتا ہوں۔ ہمیں اس وقت خیال یہ تھا کہ شاید ڈاکٹر صاحب نواب صاحب خیر پور یا بہاولپور سے رجوع کریں گے لیکن ایک ہفتہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے بتا یا کہ اس وقت کے صدر پاکستان جناب اسکنددر مرزا نے صدارت کرنے کا وعدہ کر لیا ہے۔ چنانچہ یہ اجلاس اسکندر مرزا ہی کی صدارت میں وائی ایم سی اے ہال کراچی میں ہوا‘‘۔
پی ایل اے کے علاوہ پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ جس کا قیام ۱۹۵۰ء میں عمل میں آیا۔ گروپ کی پہلی مجلس منتظمہ میں ڈاکٹر عبد المعید نائب صدر اور قیصر صاحب اس کے بانی خازن تھے۔ اسی طرح ۱۹۵۹ء میں گروپ کے زیر اہتمام اسکول آف لائبریرین شپ قائم ہوا تھا تو کورس کے نگرانِ اعلیٰ فضل الٰہیٰ تھے جب کہ اساتذہ میں دیگر کے علاوہ ابن حسن قیصر بھی تھے۔ قیصر صاحب جامعہ ملیہ میں منعقد ہونے والے لائبریری سائنس کے سر ٹیفیکیٹ کورس میں بھی ایک استاد کی حیثیت سے پڑھایا۔ لیاقت میموریل لائبریری سے ریٹائر ہو جانے کے بعد قیصر صاحب دسمبر ۱۹۶۹ء میں علامہ اقبال کالج کی لائبریری سے منسلک ہو گئے اور لائبریری کی تنظیم و ترتیب کے فنی کام خوش اسلوبی سے انجام دیے۔ آپ ستمبر ۱۹۷۲ء تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔
اردو اشاریہ سازی اور ابن حسن قیصر
اشاریہ سازی ایک اہم فن ہے جس کی افادیت سے ان کار نہیں کیا جا سکتا۔ کتاب کا اشاریہ کتاب کی اہمیت کا باعث ہوتا ہے، رسائل و جرائد کے اشاریے، رسائل و جرائد اور اخبارات میں شامل مضامین کے اشاریے مصنفین اور محققین کی ان کے مطلوبہ مواد تک رسائی میں معاون ہوتے ہیں۔ پاکستان مین اردو رسائل کی اشاریہ سازی میں ابن حسن قیصر کی خدمات قابل قدر ہیں۔ آپ نے اس اہم اور فنی کام کو عام کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ’’افادات نیاز‘‘ کے عنوان سے علامہ نیاز فتح پوری پر اشاریہ مرتب کیا۔ یہ اشاریہ ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا۔ یہ موضوعی اشاریہ علامہ نیاز فتح پوری پر مضامین، نظم و نثر شائع شدہ ۱۹۳۹ء تہ ۱۹۶۲ء یعنی ۲۳ سالوں کا احاطہ کرتا ہے۔ قیصر صاحب کا مرتب کردہ دوسرا اشاریہ بابائے اردو مولوی عبد الحق پر ’’اشاریہ عبد الحق‘‘ کے عنوان سے ۱۹۶۲ء میں مرتب کیا، یہ اشاریہ عبد الحق کی تحریروں اور انپر جو کچھ تحریر کیا گیا ان تمام تخلیقات کا احاطہ کرتا ہے۔ ’’غالب نما‘‘ کے عنوان سے قیصر صاحب نے ایک اور اہم اشاریہ مرتب کیا یہ ۱۹۶۹ء ادارہ یاد گار غالب نے شائع کیا۔ یہ توضیحی اشاریہ ہے یعنی تخلیقات پر مختصر تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔ غالب پر کتب و مضامین جو اردو زبان کے رسائل و جرائد میں ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۹ء کے درمیان شائع ہوئے یہ اشاریہ ان تخلیقات کا احاطہ کرتا ہے۔ ان کے علاوہ آپ نے بے شمار کتب کے اشاریے بھی مرتب کیے ان میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب ’’تاریخ ادب اردو‘‘ کا اشاریہ بطور خاص قابل ذکر ہے۔
وہ دن وہ محفلیں وہ شگفتہ مزاج لوگ
موج زمانہ لے گئی نہ جانے ان کو کس طرف
(مطبوعہ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۴( ۴)دسمبر ۱۹۹۳ء، ۱۸۔ ۲۶)
تابشؔ صمدانی
ایک خاکہ ۔ ۔ ۔ ایک مطالعہ
۱۶ اپریل ۲۰۰۲ء بروز منگل کالج سے شام پانچ بجے گھر واپسی ہوئی ابھی کچھ وقت ہی ہوا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی چھوٹے بیٹے نبیل نے کہا ابو مغیث دادا کا فون ہے بھرائی ہوئی آواز میں گویا ہوئے کہ ملتان میں تابش بھائی کا انتقال ہو گیا۔ میں نے ان کا پورا جملہ نہیں سنا۔ سنتا کیا۔ ۔ ۔ طویل تعلق، ابھی تین ماہ قبل کی ملاقات اور کوئی ایک ہفتہ قبل اپنے نام ان کا تحریر کردہ خط جس کے ہمراہ انہوں نے اپنا تازہ مجموعہ کلام(مر حبا سیدی) بھی بھیجا تھا سب کچھ نظروں کے سامنے گھومنے لگا۔ معلوم کرنے پر بتا یا کہ انتقال آج ہی سہ پہر چار بجے ہوا ہے کل ظہر کی نماز کے بعد تدفین ہو گی میں نے دوبارہ دریافت کیا کہ کیا واقعی تدفین کل ظہر میں ہو گی کہنے لگے کے ہاں ایسا ہی ہو گا میں کل صبح بذریعہ ہوائی جہاز جا رہا ہوں۔ میں نے یہ سوچ کر کہ اگر میں رات کی کسی بھی ٹرین سے سوار ہو جاؤں تو کل صبح بہت آسانی سے ملتان پہنچ جاؤں گا اور تدفین میں شرکت ہو جائے گی چنانچہ اس پروگرام پر عمل کر تے ہوئے میں رات کی ٹرین میں سوار ہونے اسٹیشن پہنچا شہناز، عدیل اور نبیل اسٹیشن چھوڑنے گئے جوں ہی اسٹیشن پہنچا ٹرین سیٹی بجاتی ہوئی رینگنے لگی، ٹکٹ بھی نہیں لیا تھا اگر ٹکٹ لینے رک جا تاتو ٹرین چھوٹ ہی جاتی۔ میں چلتی ٹرین میں جو ڈبہ سامنے آیا سوار ہو گیا شروع میں تو سیٹ نہیں ملی رات میں کسی وقت پولس والوں کی مہر بانی سے بیٹھنے کی جگہ مل گئی ساتھ ہی ٹی ٹی سے ٹکٹ بھی بنوا لیا اس طرح اگلے دن ۱۲ بجے کے قریب بڑی ہی مشکل سے گھر ڈھونڈ تا ہوا گھر پہنچا۔ قسمت میں تدفین میں شرکت نہیں تھی گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ احباب ابھی ابھی قبرستان سے واپس آ کر بیٹھے ہیں پروگرام میں تبدیلی کرتے ہوئے تدفین صبح ہی کر دی گئی۔ ملتان کے اخبارات میں جو خبر تابشؔ صمدانی کے انتقال کی شائع ہوئی اس میں بہت واضح طور پر تحریر تھا کہ تدفین بعد نماز ظہر کی جائے گی۔ نا معلوم کیا وجوہات تھیں۔ عام طور پر ہارٹ اٹیک کی صورت میں انتقال ہو جانے یا بہت ہی موٹے جسم والے کے لیے تدفین میں عجلت کے لیے کہا جاتا ہے۔ یہاں تو دونوں ہی صورتیں نہ تھیں۔ عام زندگی میں ہی تابشؔ صمدانی انتہا ئی دبلے پتلے تھے رہی سہی کسر کینسر جیسے مرض نے پوری کر دی تھی۔ اس فیصلے سے نہ صرف میں بلکہ ملتان سے تعلق رکھنے والے وہ احباب جنہوں نے اخبار میں تدفین کی خبر پڑھی تھی تدفین میں شرکت سے محروم رہ گئے۔ بعض احباب میری موجودگی میں تدفین میں شرکت کرنے ظہر کی نماز میں آئے۔ ان سب کو میری ہی طرح دکھ ہو اہو گا۔ دل ہی دل میں افسوس کرتا رہا کاش میں نے ٹرین سے پروگرام نہ بنا یا ہوتا اور ہوئی جہاز سے آ جاتا اب کیا ہو سکتا تھا۔ دل میں تدفین میں عدم شرکت کی کسک لیے اسی رات واپسی کا سفر باندھا اور مشکل سفر کے بعد گھر واپسی ہوئی۔ سفر میں مرحوم کی شخصیت اور ان سے کی ہوئی گفتگو اور خط و کتا بت جس کے مطابق میں نے ان سے کہا تھا کہ ’’ میں آپ کی شخصیت اور نعت گوئی پر لکھوں گا ‘‘ کے بارے میں سوچتا رہا کہ کاش میں ایسا ان کی زندگی ہی میں کر سکتاپھر یکا یک خیال آیا کہ اب وہ ہم سے بہت دور جا چکے ہیں لیکن ان کی یادیں اور سب سے بڑھ کر ان کی کتا بیں (نعتیہ مجموعہ کلام) تو موجود ہیں جو اب میرے اس ارادے کی تکمیل میں معاون ہوں گی، یہ کتابیں انہیں تا ابد زندہ رکھیں گی۔ معروف شاعر صہبا اختر نے کتاب کی اہمیت کو اپنی نظم ’’ کتابیں ‘‘ میں اس طرح بیان کیا ہے۔
کتابوں کا افسوں نہیں ٹوٹتا
کبھی ان کا سورج نہیں ڈوبتا
کتابوں کی طاقت ہیں فکر و خیال
کتابوں کو ممکن نہیں ہے زوال
مبارک ہیں وہ ہاتھ اور قلم
جو کر تے ہیں زندہ کتابیں رقم
اپنے ارادے اور تابشؔ صمدانی سے کیے ہوئےوعدے کی تکمیل میں پانچ سال لگ گئے۔ تابشؔ صمدانی پر کتاب تو نہ لکھ سکا ارادہ کتاب لکھنے کا ہی تھا یہ سوچ کر کہ انسان کی زندگی کا کیا بھروسہ ایسا نہ ہو کہ خواہش دل ہی دل میں رہ جائے اوراِسی خواہش میں اگر کہیں جناب تابشؔ سے آمنہ سامنہ ہو گیا تو میں انہیں کیا منہ دکھاؤں گابس مضمون پر ہی اکتفا کر لیا۔ قارئین سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ تابشؔ صمدانی میرے والد کے چچا زاد بھائی ہیں اس رشتہ سے میرے چچا ہیں لیکن مجھے ان سے اور شاید انہیں مجھ سے خاص انسیت تھی، وجہ مجھے نہیں معلوم، میں تو ان سے اس وجہ سے متاثر ہوں کہ وہ میرے خاندان کے ایک ایسے فرد ہیں جو علم و ادب اور شعر گوئی کا اعلیٰ ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے آباء و اجداد کے علمی اور ادبی ورثہ کو اپنی آئندہ نسل میں منتقل کرنے کے امین تھے۔ وہ بھی مجھ پر مہر باں تھے شاید انہوں نے مجھ میں بھی کچھ ایسی ہی صفات محسوس کی ہوں واللہ عالم بالصواب۔
نام طفیل احمد صمدانی، تخلص تابشؔ، تابش صمدانی سے معروف ہیں۔ ہندوستان کے صوبے راجستھان کے شہر بیکانیر (جو کبھی ریاست بیکانیر تھی) میں اپنے آبا ئی مکان ’’آزاد منزل‘‘ میں ۲۰ اگست ۱۹۴۱ء کو پیدا ہوئے۔ آپ خاندانِ باری بخش جو بعد میں خاندانِ حسین پور کہلایا کی ۳۶ ویں نسل سے ہیں۔ آپ کے والد ماجد کا نام خلیل صمدانی اور دادا کا نام شیخ محمد ابراہیم آزادؔ ہے۔ ناچیز کے خیال میں :
باغِ ابراہیم کا ایک پھول ہیں تابشؔ
جانشین آزادؔ اور جانِ خلیلؔ ہیں تابشؔ
آزادؔ، خلیلؔ اور تابشؔ ایک ہی تسلسل کے تین نام ہیں، خاندان، پیشہ، مزاج، عادات و اطوار، ذوق علم و آگہی، شعر گوئی و شعر فہمی اور سب سے بڑھ کر نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے والہانہ عشق اور عقیدت اور اس کا اظہار نعت گوئی کے ذریعہ کرنا ایسی قدرِ مشترک ہے کے جس کا کوئی ثانی نہیں۔ ایک ہی خاندان کے دادا، بیٹے اور پوتے میں تسلسل کے ساتھ اسقدر مطابقت اور قدر مشترک کا پایا جانا خدا تعالیٰ کا خاندان باری بخش کے لئے ایک انمول عطیہ ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی اس عنایت پر جس قدر شکر ادا کریں کم ہے :
ہو نہ کیوں ناز ہمیں آزادؔ ‘ خلیلؔ و تابشؔ پر
کہ ایک ہی چمن کے یہ درخشندہ ستارے ہیں
رہی ہمیشہ جن کے لبوں پر سر کار کی مدحت
جو صدیوں میں ہوں پیدا یہ مہ انجم ہمارے ہیں
تابشؔ صمدانی نے اپنے آبائی شہر بیکانیر کے آبائی گھر ’’آزاد منزل‘‘ میں آنکھ کھولی تو آزاد منزل کے درو دیوار شعر و سخن کی فضاء سے منور و معمور تھے۔ آزاد منزل کو علم و ادب ‘شعر گوئی اور مدحت رسولﷺ کی محافل کے انعقاد میں راجستھان میں عام طور پر اور بیکانیر میں خاص طور ایک امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ بقول انصار محشرؔ عباسی امروہوی ’’ بیکانیر میں اردو ادب کی داغ بیل کا سہرا آزادؔ مرحوم نے ڈالا ‘‘۔ ہندوستان کے معروف شعراء آزاد منزل میں منعقد ہونے والی ادبی مجالس اور مشاعروں میں شر کت کیا کرتے تھے اس ادبی ماحول ‘ خاندانی اثرات اور اپنے والد کی سر پرستی نے تابشؔ صمدانی کی شخصیت کو مجسم سخن فہم اور عاشق زار بنا دیا :
وراثت میں ملی ہیں جسے آبا کی صفات
کتنا خوش نصیب مدحت سرا ہے تابشؔ
تابشؔ صمدانی کو وکالت کے ساتھ ساتھ شعر و نعت گوئی ورثہ میں ملی۔ تابشؔ صمدانی کے دادا جناب آزادؔ، والد بزرگوار خلیلؔ صمدانی اور خاندانِ باری بخش کے بے شمار احباب شعر و سخن کا ذوق رکھتے تھے۔ تابشؔ نے از خود اس بات کا اعتراف بر ملا کیا کہ انہیں مدحت کا قرینہ ورثہ میں ملا۔ آپ کہتے ہیں :
یہ بھی مرے اجداد کا احسان ہے تابشؔ
ورثہ میں ملا ہے مجھے مدحت کا قرینہ
جناب حافظ لدھیانوی نے تابشؔ صمدانی کے مجموعے کلام ’مرحبا سیدی‘ میں ’فکر تابشؔ ‘ کے عنوان سے اظہار خیال کر تے ہوئے واضح کیا کہ ’’ تین پشتوں سے یہ معزز گھرانہ حضورﷺ کے مدحت نگاروں کی حیثیت سے جا نا پہچانا جا تا ہے۔ تین پشتوں سے گھرکی فضاء میں نعت کے زمزمے گونجتے رہے ہیں میر انیسؔ نے اپنے خاندنی شرف کو بیان کر تے ہوئے کہا تھا ’’پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں ‘‘حافظ صاحب نے اس مصرعہ کی مناسبت سے ایک اور مصرعہ کہا اور تابشؔ صمدانی کو مشورہ دیا کہ وہ اس کرم خاص کا ذکر کر تے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ ’’ تیسری پشت ہے سرکار کی مداحی میں ‘‘۔ الحمد اللہ خاندان باری بخش میں شروع ہی سے ذوق شاعری بدرجہ اتم موجود ہے اور ان کا شمار حضور اکرم محمد مصطفیﷺ کی مداح سراحوں میں ہوتا ہے۔ جناب آزادؔ کے بعد تیسری ہی نہیں بلکہ چوتھی اور پانچویں پشت میں بھی ذوق نعت گوئی پایا جاتا ہے۔ الحمد اللہ تابشؔ صمدانی کے بیٹے رہبر اور سرور شعری ذوق رکھتے ہیں۔
عجز و انکساری کا پیکر، قناعت اور پاک باطنی ان کی سرشت میں تھی۔ تہذیب و شائستگی ان کے خمیر میں شامل تھی۔ وہ ایک بے باک اور کھرے انسان تھے اور سب سے بڑھ کرسر تا پا عاشق رسولﷺ اور بزرگوں کا حد درجہ احترام تابشؔ صمدانی کی شخصیت کا خاصّہ تھا۔ علامہ احمد سعید شاہ کاظمیؒ کے صاحبزادے جناب مظہرسعید شاہ کاظمی تابشؔ صمدانی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’جب میں نے تابشؔ صمدانی کو قریب سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ نحیف و نزار اور کمزور و ناتواں شخص عزم صمیم کا پیکر‘ اِخلاص و ایثار کا مجسمہ اور جذبوں کا جوالا مکھی ہے عشق رسولﷺ اس کا مسلک اور بزرگان دین اور اولیاء کرام سے عقیدت و محبت اس کا شرف ہے یہی وجہ ہے کہ نعت رسولﷺ مقبول ہو یا منقبت اولیا کرام تابشؔ صمدانی کے کلام میں ادبی خوبیوں اور فنی محاسن کے ساتھ ساتھ ان کے دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے اور مژہ پر چمکتے ہوئے آنسود کھائی دیتے ہیں ‘۔ در حقیقت تابشؔ صمدانی عجز و نکساری کا پیکر تھے بزرگوں کا حد درجہ احترام کیا کرتے اپنوں سے چھوٹوں کے ساتھ بھی انکساری سے پیش آتے بزرگوں کا احترام تو ان کی زندگی کا شعار تھا۔ ایک جگہ آپ کہتے ہیں :
مجھ کمتر و بے مایہ پہ الطاف کی بارش
تابشؔ یہ ثمر ہیں بزرگوں کی دعا کے
تابشؔ صمدانی نمود و نمائش، دکھاوے اور شہرت سے بہت دور تھے۔ ان کی گفتگوسادہ، لباس میں حد درجہ سادگی، رہن سہن میں سادگی اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ تابشؔ صمدانی کی ظاہری اور باطنی کیفیت منکسرانہ اور عاجزانہ تھی وہ اپنی گفتگو، لب و لہجہ، چال ڈھال اور برتاؤ میں ایک مثالی انسان تھے البتہ شاعرانہ خصوصیات نمایاں تھی۔ انہیں دیکھ کر ایک عام آدمی بھی یہ کہ سکتا تھا کہ مو صوف شاعر ہیں۔ مولوی محمد سلطان عالم انصاری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ملتان کے مطابق ’’انہوں نے کبھی نام و نمود اور شہرت حاصل کرنے کے ذرائع نہیں اپنائے پیشہ وکالت کے ساتھ ساتھ انہوں نے ملتان میں نعت گوئی کے فروغ میں جو خدمات سر انجام دی ہیں انہیں کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا‘‘۔ ملتان ہی کے جناب حافظ محمد فاروق خان سعیدی کا کہنا ہے کہ ’تابشؔ صمدانی ملتان کی نامور اور ہر دلعزیز علمی و ادبی شخصیت ہیں آپ زود گو اور مشاق سخنور ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز قانون داں بھی ہیں۔ شاعری کے علاوہ قانون دانی بھی آپ کو ورثہ میں ملی ہے ‘۔
میں تابشؔ صمدانی کے انتقال سے کوئی چار ماہ قبل(۶ جنوری ۲۰۰۲ء)کو ملتان جا نے اور ان کی تیمار داری کا شرف حاصل ہو ا۔ برادرم سہیل صمدانی نے مشکل آسان کی اور اپنے ہمراہ مجھے تابشؔ صمدانی کے گھر لے گئے۔ راقم بہت عرصہ سے ان کی شخصیت اور نعت گوئی پر لکھنے کا ارادہ رکھتا تھا چنانچہ دیگر باتوں کے علاوہ اپنے اس ارادہ کا اعادہ بھی کیا۔ آپ اس وقت اپنی بیماری (کینسر) سے نبرد آزما تھے، سخت تکلیف اور کرب میں تھے۔ ایسی صورت میں انسان حوصلہ افزائی ہی کر سکتا ہے سو ایسا کیا اپنے مزاج کے مطابق کسر نفسی سے کام لیا بات یہ طے ہوئی کہ میں کراچی جا کر ایک سوالنامہ بھیجوں گا وہ ان سوالات کے جوابات تحریر کر کے بھیج دیں گے۔ چنانچہ راقم نے ایسا ہی کیا دوسری جانب موذی مرض ان پر حاوی آتا جا رہا تھا اور وہ اس کے ہاتھوں اندر ہی اندر شکست کھاتے جا رہے تھے۔ اپنے انتقال سے ایک ماہ گیارہ دن قبل (۵ مارچ ۲۰۰۲ء) کو آپ نے راقم کو ایک خط تحریر کیا جس کے اوپر تحریر تھا ’’بستر علالت سے ‘‘۔ خط کا مکمل متن حسب ذیل ہے۔
بستر علالت سے ۷۸۶ 5/3/2002
عزیز محترم رئیس صمدانی صاحب سلام مسنون
کچھ روز ہوئے والا نامہ ملا۔ علالت بڑھتی جا رہی ہے۔ پروردگار عالم کی رحمت کی آس ہے۔ انسان کو ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔ آج پھر کیمو تھراپی کے لیے اسپتال میں ایڈمٹ ہو رہا ہوں۔ ایک ہفتہ گھر پر اور دو ہفتے اسپتال میں گزرتے ہیں۔ انشا اللہ جلد ہی دوسرا نعتیہ مجموعہ ’’مرحبا سیدی‘‘ منظر عام پر آ رہا ہے پیش کروں گا۔ ’’آزادؔؒ ‘‘ ‘ پر جو مضمون تحریر فرمایا اس کی کاپی عنایت کریں (اپنے جد امجد حضرت شیخ محمد ابراہیم آزادؔ پر راقم کا تحریر کردہ مضمون قصور سے شائع ہونے والے رسالے ’انوار الصوفیہ ‘ میں شائع ہوا تھا )۔ انٹر ویو کے لیے بہتر اور معروف شخصیت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ میں کیا اور میری شخصیت کیا۔ اگر زندگی اور علالت نے اجازت دی جس قابل ہوں سوالنامہ کا جواب عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں آپ محنت اور کاوش فرما رہے ہیں۔ یہ اپنی جگہ تعمیری کام ہے۔ کراچی کے بیشتر عزیزان سے قریب قریب رابطہ ختم ہو گیا ہے اور نہ ہی ان حضرات کے ایڈریس معلوم ہیں۔
آپ نے ملاقات کے لیے وقت نکالا اس کے لیے میں آپ کا احسان مند ہوں۔ ’مرحبا سیدی‘ میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا خط بھی شامل ہو رہا ہے جو اپنی جگہ سند کا درجہ رکھتا ہے۔ خدا کرے بات بن جائے اور یہ کلام بارگاہِ رسالت میں مقبول ہو جائے۔ علالت کے زمانے میں ہی کلام رہبر اور سرور ( دونوں آپ کے بیٹے ہیں )سے یکجا کروایا۔ خود ہی اپنے کلام کا جیسا تیسا انتخاب ہو سکا کیا ہے۔ انشاء اللہ کتاب آنے پر فوری آپ کی خدمت میں روانہ کروں گا۔ دعا فرمائیں خیریت سے یہ شارٹ کامیاب رہے اور گھر خیریت سے واپسی نصیب ہو۔ بھابی صاحبہ (راقم کی والدہ محترمہ)کی خدمات میں خاص طور پر دعا کی استدعا ہے۔ عزیزان کے لیے سلام و دعا۔ گھر کا فون نمبر ۷۷۸۷۷۷ ہے۔ کچھ روز پہلے ہی فون لگا ہے۔ مغیث صاحب سے ملاقات ہو تو میرا سلام اور دعا کے لیے عرض کر دیجئے گا۔ اب ہمارا بھی کیا پتہ ہے۔ خدا جانے حالیؔ نے کس کرب سے شعر کہا تھا :
اٹھ گئے ساقی جو تھے میخانہ خالی رہ گیا
یاد گارِ بزم دلی ایک حالیؔ رہ گیا
پروردگار عالم آپ کا حافظ و ناصر رہے اور آپ اسی طرح علمی اور ادبی خدمات انجام دیتے رہیں۔ فقط والسلام
دعا گو بھی اور محتاج دعا بھی، تابشؔ
تابشؔ صمدانی بیماری کی اس کیفیت میں بھی بلند حوصلہ تھے ان کی بیماری ان کے کمزور اور نحیف جسم پر تو حاوی آتی جا رہی تھی لیکن وہ کسی صورت بھی ان کے حوصلے اور قوت ارادی کو شکست نہ دے سکی۔ وہ تو اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھتے تھے اور حضور اکرم ﷺ کے سچے عاشق اور مداح سرا ہوں میں سے تھے۔ عشق رسول سے والہانہ محبت کا یہ عالم تھا کہ سخت اذیت اور تکلیف میں ہونے کے باوجود خواہش ہی نہیں بلکہ عملی طور پر اس جستجومیں تھے کہ کسی طرح ان کا دوسرانعتیہ مجموعہ کلام منظر عام پر آ جائے۔ آپ کی یہ خواہش پوری ہوئی آپ کا مجموعہ کلام ’’ مر حبا سیدی‘‘ آپ کے انتقال سے چند روز قبل منظر عام پر آ گیا۔ انتقال سے صرف ۱۲ روز قبل ۴مارچ ۲۰۰۲ء کو آپ نے ایک مختصر خط راقم الحروف کو تحریر کیا جس کے ہمراہ آپ نے اپنے تازہ مجموعہ کلام کی کاپیاں بھی ارسال کیں۔ خط کا مکمل متن کچھ اس طرح ہے۔
بستر علالت سے ۷۸۶ مورخہ۴ اپریل ۲۰۰۲ء
عزیز محترم رئیس صمدانی صاحب سلام مسنون !
گزستہ دنوں آپ کا خط ملا۔ علالت کی یہ نوعیت ہے ایک ماہ میں کم وبیش پندرہ روز اسپتال میں گذرتے ہیں۔ کل پھر کیمو تھراپی کا شارٹ لگنا ہے۔ ایک ہفتہ دس روز ایڈمٹ رہنا ہوتا ہے۔ دوسرا نعتیہ مجموعہ ’’مرحبا سیدی‘‘ پیش کر رہا ہوں۔ ایک کتاب برادر مغیث صمدانی صاحب اور ایک کتاب انعام صدیقی صاحب کے لیے ہے۔ ان حضرات کو بھجوادیں۔ میرے پاس ان کا ایڈریس نہیں ہے۔ انٹر ویو کے لیے مناسب شخص کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ میں کیا اور میری شخصیت کیا۔ تاہم زندگی رہی اور بیماری نے کچھ مہلت دی تو آپ کے سوال نامے کا جواب عرض کر دوں گا۔ آپ البتہ بروشر کے لیے اپنے تاثرات عنایت کریں۔ محترمہ بھابی صاحبہ کی خدمات میں سلام اور دعا کی استدعا ہے۔
جملہ عزیزان کو سلام دعا۔ فقط والسلام ۔ دعا گو۔ تابشؔ
میرے نام تابشؔ صمدانی کا یہ آخری خط تھا ان کا پہلا خط جو میرے پاس محفوظ ہے انہوں نے ملتان ہی سے ۲۹ جون ۱۹۸۰ء کو تحریر کیا تھا۔ ان سے میری رفاقت ان کے پاکستان آنے (۱۹۷۰ء)کے بعد سے ہے جب کبھی ملاقات ہوئی دیگر خاندانی موضوعات کے علاوہ علمی اور ادبی موضوعات پر بھی گفتگو ہوا کرتی۔ خط و کتابت کا آغاز ۱۹۸۰ء میں ہوا۔ میں نے حضرت شیخ محمد ابراہیم آزادؔ جو میرے پر دادا اور تابشؔ صمدانی کے دادا ہو تے ہیں کے نعتیہ کلام کے انتخاب پر مبنی مجموعہ ترتیب دینے کا ارادہ کیا۔ تابشؔ صمدانی نے میرے اس فیصلہ کی نہ صرف تائید کی بلکہ کلام کے انتخاب میں معاونت کا بھی وعدہ کیا۔ ۱۹۸۰ میں میں نے اپنی اک کتاب جنا بِ تابشؔ کوارسال کی اس کے جواب میں آپ نے راقم کو ۲۹ جون ۱۹۸۰ء کو جواب تحریر کیا آپ نے تحریر فرمایا :
’’کتاب عنایت فرمانے کا شکریہ۔ بڑی مسرت ہوئی۔ پروردگار عالم آپ کو اس سے بھی زیادہ کامیابی اور شہرت عطا فرمائے آپ خاندان حضرت آزادؔ کا وقار بن کر ابھریں۔ میں نے حضرت آزادؔ کے کلام کا انتخاب شروع کر دیا ہے یا تو میں تمام انتخاب کی نقل روانہ کر دوں یا آپ ملتان کا پروگرام بنا لیں۔ میں اس تحریک میں ہر وقت آپ کے ساتھ ہوں ‘‘۔ اس مجموعہ کلام کا عنوان ’’بر لب قدسیاں ‘‘بھی جناب تابشؔ صمدانی نے ہی تجویز کیا تھا۔
حضرت آزاد کا نعتیہ کلام جو میں نے اور جناب تابشؔ صمدانی نے منتخب کیا تھا کتابت بھی کرا لیا گیا اس کی تصحیح ہو رہی تھی کہ کاتب قمر صدیقی کا اچانک انتقال ہو گیا اور مجھے کتابت شدہ مسودہ باوجود کوشش کے نہیں مل سکا اور یہ مجموعہ منظر عام پر نہیں آ سکا جس کا افسوس آج تک ہے۔ ۳۱ جولائی ۱۹۸۰ کے تحریر کردہ اپنے خط میں تابشؔ صمدانی نے دیگر خاندانی باتوں کے علاوہ ملتان ریڈیو اسٹیشن سے حضرت علیؓ کے سلسلے میں ۴ اگست کو منقبت پڑھنے کی اطلاع بھی دی۔ ۵ نومبر ۱۹۸۰ء کو تحریر کیے گئے خط میں ۸ نومبر کی شب ریڈیو اسٹیشن ملتان سے سیدنا فاروق اعظم کی منقبت پڑھنے کی اطلاع بھی دی۔
۱۹۸۶ء کی بات ہے تابشؔ صمدانی کراچی تشریف لائے گھر آئے لیکن مجھ سے ملاقات نہ ہو سکی انہیں غالباً اسی روز واپس جانا تھا۔ میرے نام ایک پرچہ اور ایک فائل چھوڑ گئے۔ پرچہ میں تحریر تھا ’’ ملاقات نہیں ہو سکی۔ فائل چھوڑے جا رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر فرمان فتح پوری) سے مفصل تاثرات حاصل فرمائیں۔ آپ کو زحمت تو ہو گی کچھ کلام ابھی باقی ہے۔ جلد ہی کتابت کا کام شروع کرا رہا ہوں امید ہے اس سلسلے میں آپ خاطر خواہ تعاون فرمائیں گے ‘‘۔ اس پرچہ پر تاریخ درج نہیں اور نہ ہی مجھے اب صحیح تاریخ یاد ہے البتہ اگست ۱۹۸۶ء سے پہلے کی بات ہے (یہ پرچہ اور وہ فائل میرے پاس آج بھی محفوظ ہے )یہ فائل تابشؔ صمدانی کے مجموعہ کلام ’’ برگ ثنا‘‘ کی تھی جو ۱۹۸۸ء میں منظر عام پر آئی۔ بعد میں آپ نے اس سلسلے میں کئی خطوط بھی تحریر فر مائے۔ اس مجموعہ کلام میں تابشؔ صمدانی کی نعتیہ شاعری کے بارے میں احمد ندیم قاسمی، حفیظ تائب، عرش صدیقی، عاصیؔ کرنالی، اقبال صفی پوری اور حزیں صدیقی کے خیالات شامل ہیں۔ باوجود کوشش کے ڈکٹر فرمان فتح پوری صاحب سے رابطہ نہ ہو سکا۔ اس دوران آپ کی ایک مختصر کتاب ’’ نذر سعید‘‘شائع ہو ئی جو حضرت علامہ احمد سعید شاہ کاظمیؒ کے بارے میں ہے راقم نے کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات اور مبارک باد تحریر کی جس کے جواب میں آپ نے تحریر فر مایا :
’’نذر سعید ‘‘ کو پسند فرمانے کا شکریہ۔ خدا کے فضل سے ادبی حلقوں میں نذرسعید کو پسند کیا گیا۔ کراچی میں علامہ احمد سعید شاہ کاظمیؒ کے بڑے مرید اور معتقد ہیں لیکن وہاں میرا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ نعتیہ مجموعہ ’’برگ ثنا‘‘ کی کتابت کا مرحلہ قریب قریب مکمل ہے فروری میں مکمل ہو جائے گا۔ محترم اقبال صفی پوری صاحب نے اپنے تاثرات عنایت فرما دئے ہیں۔ اب کتاب کی طباعت کا مرحلہ در پیش ہے اس سلسلے میں آپ کے تجربات اور تجاویز سے فائدہ اٹھا نا چاہتا ہوں۔ ملتان کی طباعت کا معیار ’’نذر سعید ‘‘ ہے۔ ایسی طباعت تو ملتان میں ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کو مصروفیات اجازت دیں تو اپنے مشورے سے نوازیں ‘‘۔ (یہ خط ۴ فر وری ۱۹۸۸ء کو تحریر کیا گیا)
تابشؔ صمدانی کے والد جناب خلیلؔ صمدانی اور دیگر اہل خانہ اپنے بڑے بھائی جناب انیق احمد والد بزرگوار جناب رشید احمد صمدانی کی تیمار داری کی غرض سے پاکستان تشریف لائے اور ملتان میں قیام کیا۔ اس دوران تابشؔ صمدانی کے والد اچانک اللہ کو پیارے ہو گئے تدفین ملتان میں ہوئی۔ اس حادثہ کے بعد تابشؔ صمدانی نے فیصلہ کیا کہ وہ اب مستقل پاکستان اور ملتان میں قیام کریں گے اپنے والد محترم کی آخری آرام گاہ کو چھوڑ کر اپنے آبائی وطن نہیں جائیں گے۔ آپ کو اپنے والد سے بے انتہا محبت اور عقیدت تھی آپ نے اپنی زندگی کا یہ معمول بنا لیا تھا کہ آپ ہر روز اپنی زندگی کے معمولات کی شروعات سے قبل اپنے والد کے مزار پر فاتحہ پڑھا کرتے بعد از آں دنیا وی معمولات شروع کیا کرتے۔ اپنے اس طرز عمل پر آپ آخر تک قائم رہے۔
تابش ملتان میں طرحی نعتیہ مشاعروں کے انعقاد کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ آپ نے ایک ادبی انجمن ’بزم نو‘ قائم کی۔ اس انجمن کے زیر اہتمام ملتان شہر کے شعراء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور طرحی نعتیہ مشاعروں کا سلسلہ شروع کیا۔ مرزا عزیز اکبر بیگ کے مطابق ’’بیشتر غزل گو شعراء اس تحریک سے متاثر ہو کر نعت رسول اکرمﷺ کی طرف مائل ہوئے اور اب ملتان میں ہر طرف نعتیہ مشاعروں کا چرچا ہے ‘‘۔ تابشؔ صمدانی کی رہائش گاہ جو نیو ملتان میں ہے نعتیہ مشاعروں کا مرکز تصور کی جاتی ہے۔
تابشؔ صمدانی علی گیرین تھے۔ آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ۱۹۶۵ء میں اردو میں ایم اے کی سند حاصل کی تھی۔ ملتان شہر میں قائم ’علی گڑھ اولڈ بوائز ایسو سی ایشن‘ سے تابشؔ دور کیسے رہ سکتے تھے۔ ۱۹۷۰ء میں ملتان میں سکونت اختیار کر تے ہی آپ ایسو سی ایشن سے منسلک ہو گئے اور کئی سال اس کے جنرل سیکریٹری رہے۔ ایسو سی ایشن کے صدر اور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ملتان مولوی سلطان عالم انصاری کے مطابق تابشؔ صمدانی کی گرانقدر خدمات قابل تحسین ہیں۔ انہیں علی گڑھ سے والہانہ لگا ؤ ہے اور اس تحریک کو وہ پاکستان کی اساس سمجھتے ہیں ‘۔
تابشؔ صمدانی باہمی اخوت اور میل جول پر یقین رکھتے تھے۔ ہر ایک کی خوشی اور دکھ درد میں شریک ہوتے۔ اگر کسی دوسرے شہر میں کسی عزیز رشتہ دار کے دکھ تکلیف کا علم ہو جا تا تو اس سے خط کے ذریعہ اظہار ہمدردی کیا کر تے۔ مجھے یاد نہیں کہ میرے گھر کسی بھی قسم کی پریشانی یا غم میں انہوں نے خط لکھ کر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار نہ کیا ہو۔ آپ خاندان کے افراد میں باہمی میل جول، محبت، رواداری اور خوش گوار تعلق پر یقین رکھتے تھے۔ خاندانی ایسو سی ایشن ’’ ینگ میں حسین پوری ایسو سی ایشن‘‘ کی سر گرمیوں میں بھی آپ شریک رہے۔ ۱۹۹۰میں ایسو سی ایشن کے صدر جناب مشکور احمد نے تابشؔ صمدانی ، رشید احمد صمدانی، جناب عبدالخالد، جناب فہیم احمد صدیقی اور ملتان شہر میں رہائش پذیر دیگر اہل خاندان کو ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں فعال کردار اداکرنے کی دعوت دی۔ مشکور صاحب کی دعوت پر نہ صرف تابشؔ صمدانی نے بلکہ ملتان سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام ہی حسین پوریوں نے لبیک کہا اور ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں بھر پور حصہ لیا۔ ۲۶ دسمبر ۱۹۹۱ء میں ایسو سی ایشن کا اجلاس عام فیصل آباد کے شہر ’’بابے والا‘‘ میں منعقد ہوا جس میں صرف ملتان شہر سے تعلق رکھنے والے تقریباً۲۰ اراکین نے شرکت کی۔ آپ نے تقریر کرتے ہوئے کہا ’’کبھی بچپن میں ایسو سی ایشن کے بارے میں سنا تھا اب مشکور صاحب کے ملتان آنے کے بعد مجھ تک یہ پیغام پہنچا کہ ینگ مین حسین پوری ایسو ایشن کا اجلاس ہو رہا ہے تو میرے ذہن میں کچھ سوالات ابھرے، میرے سامنے ایسو سی ایشن کا منشور نہیں تھا اس لیے میں نے سوچا کہ ینگ میں حسین پوری ایسو سی ایشن کے لیے میں مدعو کیا جا رہا ہوں، میں تو اب پچاس کے پیٹھے میں ہوں، میں بڑی الجھن میں رہا کہ مجھے اس میں شریک ہونا چاہیے یا نہیں، میرے برادر گرامی رشید احمد صمدانی اس میں جائیں یا اپنے بچوں کو بھیجیں تو اس کے نام میں ایک ابہام ہے اسے دور ہونا چاہیے ‘‘۔ آپ نے مزید فر مایا کہ ’’ میں موجودہ انتظامیہ کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں ان کا سب سے بڑا کارنامہ تو یہ ہے کہ مجھ جیسے رسوائے زمانہ اور گوشہ عافیت میں رہنے والے شخص کو وہ اسٹیج پر لے آئے تو کیا یہ ان کی ولایت نہیں ہے۔ میں تو مشکور صاحب کو صدر ہی نہیں سمجھتا بلکہ دور حاضر کا ولی سمجھتا ہوں اور جناب مشکور احمد کا کردار یہ کہ رہا ہے :
اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں
ایسو سی ایشن کا اجلاس عام ۲۵ دسمبر ۱۹۹۳ء میں ملتان شہر میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس عام ڈاکٹرمصباح ا لحق صاحب کے ملتان ہومیوپیتھک میڈیکل کالج میں منعقد ہوا جس میں پاکستان بھر سے خاندان حسین پور کے احباب نے شرکت کی۔ تابشؔ صمدانی نے اپنی تقریر کا آغاز حسب روایت اس شعر سے کیا
؎امیر آتی ہے مجھ کو شرم اس محفل میں کچھ کہتے ہوئے
کہ میں ناقص ہوں اور کامل یہاں ہر فن کے بیٹھے ہیں
آپ نے کہا ’’میں ان تمام بزرگوں کی ارواح مقدسہ کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے یہ ایسو سی ایشن قائم کی اور ہم آج ایک عظیم مقصد کے لیے یہاں یکجا ہوئے ہیں ‘‘۔ خاندان میں پائے جانے والے اختلافات اور رنجشوں کے حوالے سے آپ نے کہا کہ ’’ ہمیں اس بات کا اندازہ لگانا ہو گا کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمیں نفاق کی طرف لے جا رہے ہیں ان عوامل کا پتہ چلانے کے بعد ہمیں اپنا انداز فکر بدلنا ہو گا۔ پرانی قدروں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا کہ آج کا یہ جدید طرز عمل ہی ہمارے درخشاں مستقبل کی ضمانت ہے ‘‘۔
تابشؔ صمدانی اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کے والد قبلہ خلیل احمد نے اپنی زندگی کا طویل حصہ بیماری میں گزارا۔ آپ نے اس بات کا اظہار اس طرح کیا ’’ میری عمر کا بہترین زمانہ اکثر و بیشتر علالت میں گزرا۔ قریب قریب تیس برس مہلک و جاں فرسا امراض کینسر، ٹیریجمینل نورلجیا وغیرہ وغیرہ میں مبتلا رہا ‘‘۔ اس وجہ سے بھی تابشؔ صمدانی کی زندگی دباؤ اور بوجھ میں رہی لیکن انہوں نے حالات کا مقابلہ انتہائی حوصلہ اور بہادری سے کیا۔ طالب صمدانی اور حسین صمدانی ان کے چھوٹے بھائی ہیں۔ عقیلہ، طیبہ، طاہرہ، قدسیہ اورسعدیہ ان کی بہنیں ہیں۔ تابشؔ صمدانی کی شادی اپنے خاندان ہی میں جناب مشتاق احمد کی صاحبزادی بہار آرا سے ہوئی۔ تین بیٹے رہبر، سرور، صفدر اور دو بیٹیاں عظمت اور نصرت ہیں۔ بیٹے شعری ذوق رکھتے ہیں، سرور اپنے والد کی طرح شعبہ قانون سے وابستہ ہیں۔ شعر بھی کہتے ہیں۔ امید ہے خاندان کے ساتھ ساتھ اپنے والد کا نام بھی روشن کریں گے۔
تابشؔ صمدانی کی نعتیہ شاعری
تابشؔ صمدانی ان خوش نصیبوں میں سے ہیں کہ جنہیں مدحت سراحی اپنے اجداد سے ورثہ میں ملی گویا نعت گوئی تابشؔ صمدانی کے خمیر کا حصہ ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ تابشؔ کے دادا حضرت شیخ محمد ابراہیم آزادؔ اور والد بزرگوار جناب خلیلؔ صمدانی اپنے وقت کے معروف اور مستند صاحب دیوان نعتیہ شاعر تھے۔ تابشؔ صمدانی نے شعور کی دنیا میں قدم رکھا تو اپنے گھر کی فضاء کو سخن فہمی و سخن گوئی سے مسحور پایا انہوں نے اِ سی فضاء میں اپنے دادا حضرت آزادؔ اور والد خلیلؔ صمدانی کی زیر سر پرستی پرورش پائی۔ شعر گوئی کا ذوق پیدا ہو جانا ایک قدرتی عمل تھا چنانچہ وہ بچپن ہی سے شعر کہنے لگے تھے۔ آپ کی شاعری ذہن و ادراک کو متاثر کرنے والی ہے۔ انہوں نے نہایت نازک، حساس اور شاعرانہ طبیعت پائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے احساسات و جذبات کو خوبصورت اور دلکش الفاظ کا روپ دیا۔ آپ کو ایک فطری شاعر کہا جا سکتا ہے۔
تابشؔ صمدانی کی نعت گوئی میں جو عاجزی و انکساری پائی جاتی ہے وہ ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔ بزرگوں کا حد درجہ احترام ان کی زندگی کا خاصا تھا یہی وجہ ہے کہ تابشؔ کی نعت کی فضاء شاعرانہ ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ مودبانہ ہے۔ معروف دانشور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا کہنا ہے کہ ’’ آپ نے غزل کا مزاج پایا ہے اس کے رموز آشنا ہیں اور ان رموز کو عشق رسولﷺ سے بطریق احسن منسلک کرنے کا سلیقہ بھی ہے ‘‘۔ تابش صمدانی اس کا اعتراف کر تے ہوئے کہتے ہیں :
مجھ کو یہ اعتراف ہے تابشؔ کہیں کہیں
مضمون غزل کے دیوان میں آ گئے
معروف شاعر احمد ندیمؔ قاسمی کے خیال میں ’’تابشؔ صمدانی کی نعتوں کا مجموعہ پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ نعت بطور عبادت بھی کہی جا سکتی ہے ان کی نعتوں میں وہی عبادت کی سی سپردگی اور لگن ہے وہ حضورﷺ کے حسنِ صورت کا ذکر کریں یا جمالِ سیرت کا بیان صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ شاعر حضورﷺ کی ذات و الا صفات کے عشق میں کھویا ہوا ہے اور نعت برائے نعت نہیں کہہ رہا بلکہ اس میں اپنے شعور و وجدان کی تمام رسائیوں اور لطافتوں کو سمو رہا ہے ‘‘۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا کہنا ہے کہ تابشؔ صمدانی کی نعت میں عبد و معبود کا ایک حقیقی رشتہ ابھر کر سامنے آ گیا ہے ‘‘۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے کہا کہ تابشؔ کے نعتیہ کلام میں عشق رسولﷺ سے پیدا ہونے والی گرمی نے کلام کو پر اثر بنا دیا ہے ‘‘۔ اقبال عظیم نے کہا کہ ’’یہ نعتیں پڑھ کر ہر دیانت دار صاحب فکر و نظر کوتسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ کلام ایک ایسے پختہ مشق شاعر کا ہے جسے نہ صرف زبان و بیان پر مکمل قدرت حاصل ہے بلکہ جو آدابِ نعت گوئی اور نکات سخن وری سے پوری طرح آگاہ ہے اور جس نے حیات پاک رسول اللہﷺ کا مطالعہ بھی خاطر خواہ کیا ہے ‘۔ (مرحبا سیّدی ) تابشؔ صمدانی کی نعت میں حضور اکرمﷺ سے دوری، ان تک پہنچنے کی تڑپ حد درجہ پائی جاتی ہے۔ ان کی یہ خواہش کہ وہ دربار نبوی ؑمیں حاضری دیں ان کے کلام میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ آپ کہتے ہیں :
ہر لمحہ آس ہے کہ بلاوا اب آئے گا
اس طرح جی رہا ہوں در مصطفیٰ سے دور
ایک اور جگہ تابشؔ کہتے ہیں :
جا کے واپس نہ آؤں گا تابشؔ
حاصل مدعا مد مینہ ہے
ادب، احترام، عاجزی، انکساری اور دھیمہ پن تابشؔ صمدانی کی ذات کا حصہ ہیں جنہیں ان کے کلام میں نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آپ ایک جگہ کہتے ہیں :
ہے یہ بھی عطا آپ کی میں نعت سرا ہوں
ورنہ تھا کہاں مجھ میں سلیقہ میرے مولا
پروفیسر ڈاکٹر عرش صدیقی نے کہا کہ تابشؔ صمدانی کا باطن عشق رسولﷺ سے منور اور ان کا ظاہر یہاں تک کہ ان کی گفتگو کا دھیما پن ان کی چال ڈھال غرض ان کی شخصیت کے ہر پہلو میں عشق رسول منعکس ہے ان کی نعت گوئی کا سب سے نمایاں پہلو محبت کا وہ دلکش والہانہ پن ہے جو ادب کی حدود کا بھی احترام کرتا ہے۔ ‘‘(برگ ثنا)
تابشؔ صمدانی کا کوئی باقاعدہ استاد نہیں تھا ابتدا میں اپنے والد سے فیض حاصل کیا، تابشؔ نے جس ادبی اور شعری ماحول میں پرورش پائی اس نے تابشؔ میں پختگی پیدا کر دی۔ پروفیسر عاصی کرنالی کے بقول تابشؔ صمدانی ایک پختہ فکر شاعر ہیں۔ جوانی ہی میں وہ دستگاہ کمال کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ مشاقی نے ان میں مہارت اور چابک دستی کا ہنر پیدا کیا ‘‘۔ ڈاکٹر بیدل حیدر کہتے ہیں کہ تابشؔ صمدانی علمی بصیرت ہے کہ ان کے کلام میں دور دور تک کسی قسم کا کوئی سقم نظر نہیں آتا ‘‘۔ محمد افسر ساجد کا خیال ہے کہ ’’ تابشؔ کی فکر میں پختگی ہے ‘‘۔ تجدید نو اسلام آباد کی مدیرہ عذرا اصغر کا کہنا ہے کہ ’ تابشؔ صمدانی کی نعت گوئی کی فضاء مکمل طور پر شاعرانہ آہنگ سے ہمکنار ہے۔ مودبانہ بھی ہے اور محبت سے لبریز بھی اس طرح تابشؔ صمدانی ہمیں ایک پختہ گو اور فکر و آگہی کے شاعر نظر آتے ہیں ‘‘۔
یہ بات اظہر من شمس ہے کہ تابشؔ صمدانی نعت گوئی کا قرینہ رکھتے تھے اور اس کے من جملہ رموز سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ اعزاز احمد آذرؔ کا کہنا ہے کہ ’’ تابشؔ صمدانی کی نعت گوئی اپنے اسلوب و ابلاغ کے لحاظ سے بھی خوبصورت اور اثر آفرینی کا حسین امتزاج ہے ‘‘۔ پروفیسر شیخ محمد اقبال نے کہا کہ ’’وہ لفظی جادوگری اور ادبی شعبدہ بازی سے کام نہیں لیتے اور نہ ہی بزم کا جادو جگا تے ہیں ان کا بز تو ان کی محبت ہے ‘‘۔ تابشؔ صمدانی نے نعت گوئی کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیا ان کی خواہش تھی کہ وہ ہمیشہ نعت کہتے رہیں۔
تابشؔ صمدانی کا پہلا نعتیہ مجموعہ کلام ’’ برگ ثنا‘‘ ۱۹۸۸ء میں جب کہ دوسرا مجموعہ ۲۰۰۲ء میں منظر عام پر آیا۔ آپ نے اپنے والد جناب خلیلؔ صمدانی کے کلام پر مشتمل مجموعہ بھی مر تب کیا جا ۱۹۶۸ء میں بیکانیر، راجستھان سے شائع ہوا۔ یہ آپ کی پہلی ادبی کاوش تھی۔ بزرگان دین سے والہانہ محبت و عقیدت تابشؔ صمدانی کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی اس جذبہ کا اظہار عملی طور پر ان کی مطبوعات ’’نذرِ سعید‘‘ اور ’’ منقبت کے پھول ‘‘ ہیں۔ اول الذکر اعلیٰ حضرت علامہ احمد سعید کاظمیؒ سے والہانہ ارادت و عقیدت اور بے پناہ محبت و مؤدت کی آئینہ دار ہے۔ یہ کتاب ۱۹۸۷ء میں منظر عام پر آئی۔ ’منقبت کے پھول‘ جناب علامہ حامد علی خانؒ کی شان میں تابشؔ کا نظرانہ عقیدت ہے۔ تابشؔ کے مجموعہ کلام کے بارے میں ان کے بڑے بیٹے رہبر صمدانی نے یہ قطعہ کہا :
شا ہدِ کبریا کی خصوصی عطا
فکر تابشؔ کو کرتی گئی پُر ضیأ
تا قیامت رہیں گی یہ جلوہ فشاں
’’مرحبا سیّدی‘‘ اور ’’ برگِ ثنا‘‘
تابشؔ صمدانی نعت گوئی کو اپنے اجداد کا ورثہ تصور کرتے ہیں اور اس آرزو کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ وہ اپنے اجداد کی طرح زندگی کے اختتام تک سرور کائنات احمد مجتبیٰﷺ کے حضور نعت کا نذرانہ پیش کرتے رہنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ اس خواہش کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا :
زیست اب جتنی ہے باقی عزم ہے تابشؔ یہی
حمد باری اور نعت مصطفیٰ لکھوں گا میں
لکھ لکھ کے نعت پڑھتا رہوں آپ کے حضور
یہ عظمتِ قلم یہ نوا چاہیے مجھے
میری تو زندگی یہی میری تو بندگی یہی
آخری سانس تک رہوں مدح سرا مصطفیٰ
اللہ نے تابشؔ صمدانی کی یہ آرزو پوری کی باوجود سخت بیماری اور تکلیف کے انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی بستر علالت سے حضور اکرمﷺ کے حضور نعت کا نذرانہ پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی خواہش کو قبول و منظور فرمائے۔ آمین ؎
ہے عیاں عشق محمدی ؑ ہر ایک شعر سے
رشید الخیال و بلیغ ا لنظر ہے تابشؔ
قبول مدح محبوبی ہو تابشؔ کی رئیسؔ
ہے یہ دعا تمہیں جنت ہو نصیب تابشؔ
۱۶ جنوری ۲۰۰۶ء
محبوب احمد سبزواری
سب کے محبوب
ہمارے مورث اعلیٰ حضرت باری بخش رحمۃ اللہ علیہ ہندوستان کے ایک حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خاندان شروع میں ہندوستان کی معروف اور تاریخی ریاست بیکانیر میں آباد تھا۔ قریباً سن گیارہ سو ہجری میں اس خاندان کے جد امجد اعلیٰ حضرت عبدالقدوس رحمۃ اللہ علیہ (۶۲۷ء۔ ۶۶۲ء) نے ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے قصبہ ’حسین پور ‘ میں سکونت اختیار کی اس منا سبت سے یہ خاندان ’’حسین پوری‘‘ کہلایا۔ ضلع مظفر نگر کے ایک قصبہ ’’بنت‘‘ میں ایک اور خاندان سکونت پذیر تھا جو اپنے نام کے ساتھ ’’سبزواری‘‘ لگا یا کرتا تھا کہا جاتا ہے کہ اس خاندان کے جد امجد مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے زمانے میں ایران کے شہر ’’سبزوار‘‘ سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئے۔ سبزوار ایران کے شہر خراسان کا ایک چھوٹا ساقصبہ ہے۔ اس خاندان کے لو گوں نے ابتدا میں دہلی کو اپنا مسکن بنا یا اس کے بعد مختلف شہروں جن میں فرید کوٹ، بگرہ، سہارنپور، کوٹکا پور ہ، بیکانیر، مالیر کوٹلے، فیروز پور، امرتسر شا مل ہیں آباد ہوئے لیکن ان کی زیادہ تعداد ضلع مظفر نگر کے قصبے ’’بنت ‘‘ میں آباد ہوئی۔
ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری کے مطابق ایران سے ہجرت کر کے دہلی منتقل ہونے والے چار بھائی تھے۔ ہندوستان میں رہائش اختیار کر لینے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے اپنے ناموں کے ساتھ اپنے آبائی شہر ’’سبزوار‘‘ کی مناسبت سے لفظ ’’ سبزواری ‘‘ لکھا کریں گے جو ان کا خاندانی نام ہو گا۔ چنانچہ یہ رسم اس وقت سے شروع ہوئی اور آج تک ان چاروں بھائیوں کی اولاد اپنے نام کے ساتھ سبزواری تحریر کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سبزواری خاندان کے ان چاروں بھائیوں کی والدہ کا نام ’’بنتِ‘‘ تھا انہوں نے اس علاقے کا نام اپنی والدہ کے نام کی مناسبت سے ’’بنتِ ‘‘ رکھا جو رفتہ رفتہ یہ بَنت ہو گیا۔ یہ آج بھی قائم و دائم ہے اور خاندان کے کئی احباب اس قصبہ میں رہائش پذیر ہیں۔ رفتہ رفتہ خاندان کے لوگ بہ سلسلہ روزگار ہندوستان کے دیگر شہروں میں منتقل ہو گئے۔ بنت میں رہائش پذیر خاندان کے لوگ ’’محل والے ‘‘ کہلایا کر تے تھے۔
مظفر نگر کے قصبے ’بنت ‘ میں سبزواری خاندان اور دوسرے قصبے ’’حسین پور ‘‘میں خاندان باری بخش جو خاندان حسین پوری کے نام سے جا نا جا تا تھا آباد تھا۔ رفتہ رفتہ دونوں خاندان اس قدر شیر و شکر ہوئے کہ آپس میں شادیاں ہونے لگیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں خاندانوں کے آباء و اجداد کے مزاج، طور طریقے اور رسم و رواج، رہن سہن میں مطابقت پائی جاتی تھی۔ باہمی ملاپ کا یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور دونوں خاندان مختلف نسل، قوم، زبان اور زمین کے با وجود ایک قوم، ایک زبان اور ایک ملک کے ایسے باسی بنے کے ایک دل دو جان ہو گئے اور یہ رشتہ ایسا پختہ ہوا کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود دونوں میں تفریق مشکل ہو گئی ہے۔
میں جب اپنے آباء و اجداد کی ازدواجی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ میرے پر دادا اعلیٰ حضرت شیخ محمد ابراہیم آزادؔ (۱۸۶۸ء۔ ۱۹۴۷ء) کی والدہ یعنی قبلہ نبی بخش صاحب کی شریک حیات محترمہ بو یعقوماً جناب کرامت علی صاحب کی دختر تھیں جن کا تعلق سبزواری خاندان سے تھا ان کا انتقال فرید کوٹ میں ہوا۔ آزادؔ صاحب نے دو شادیاں کیں دونوں کا تعلق سبزواری خاندان سے تھا اس خاندان کے دو بھائی جناب سلطان حسن اور حکیم ممتاز علی سبزواری قبلہ آزادؔ صاحب کے ماموں تھے آپ کی پہلی شادی جناب سلطان حسن صاحب کی دختر ہما بیگم سے ہوئی۔ ہما بیگم کے انتقال (۱۹۲۸ء) کے بعد آپ نے حکیم ممتاز علی سبزواری کی صاحبزادی محمودہ خاتون سے عقد ثانی فر ما یا۔ آزادؔ صاحب کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں ان میں حقیق احمد مرحوم میرے دادا ہوئے۔ آپ کی شادی جناب محمد زکریاسبزواری صاحب کی صاحبزادی محترمہ امۃ الباقی سے ہو ئی۔ میری والدہ محترمہ صفیہ سلطانہ بھی سبزواری خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ آپ جناب امید حسن سبزواری مرحوم کی صاحبزادی ہیں۔ اس طرح میرے سکڑ دادا(نبی نخش مرحوم)، پر دادا(شیخ محمد ابراہیم آزادؔ مرحوم)، دادا(حقیق احمد مرحوم) اور قبلہ والدصاحب(انیس احمد مرحوم) صاحب سبزواری خاندان کی خواتین سے رشتہ ازداج میں منسلک ہوئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اسی طرح حسین پوری خاندان کی بے شمار خواتین کی شادیاں سبزواری خاندان میں ہوئیں اور یہ باہمی رشتے اسقدر بڑے پیمانے پر ہوئے کہ آج سبزواری اور خاندان حسین پور میں تفریق مشکل ہو گئی ہے۔
میں سبزواری خاندان کی دو شخصیات سے بے حد متاثر ہوں ان میں سے ایک میرے والد صاحب قبلہ انیس احمد مرحوم کے ماموں زاد بھائی محترم ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری ہیں جن کی شاگردی کا مجھے جامعہ کراچی میں ایم اے کے طا لب علم(۱۹۷۱ء۔ ۱۹۷۲ء) کی حیثیت سے اعزاز حاصل رہا۔ در حقیقت مجھ میں جو تھوڑا بہت علمی ذوق ہے یہ ان ہی کی وجہ سے ہے۔ اس خاندان کی دوسری شخصیت جس نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا قبلہ محبوب احمد سبزواری صاحب کی ہے جو میرے حقیقی ماموں بھی ہیں۔ آپ کا حسنِ اخلاق، عادات و اطوار، شفقت اور محبت مثالی ہے، مجھ پر بہت زیادہ شفقت فرماتے ہیں در حقیقت آپ اپنی تہذیب کے ایک یادگار نمائندے ہیں۔ عرصہ دراز سے آپ پر لکھنے کا ارادہ کر رہا تھا، جب بھی قلم اٹھایا کوئی نہ کوئی مصروفیت آڑے آتی رہی اور میں اپنے اس مقصد کی تکمیل نہ کر سکا۔ ستمبر ۱۹۹۷ء میں آپ میرے والد صاحب قبلہ انیس احمد صمدانی (وفات ۵ ستمبر ۱۹۹۷ء) کی وفات کے بعد کراچی تشریف لائے، باوجود غم و الم کی کیفیت کے میرا ارادہ تازہ ہو گیا، ۲۸ اکتوبر ۱۹۹۷ء کو میں نے آپ سے اپنے ارادہ کا اظہار کیا اور ان سے گفتگو کی درخواست کی۔ آپ نے از راہ عنایت میرے چند سوالات کے جوابات دئے جو میں نے اس مقصد کے لیے بنائی گئی اپنی ڈائری میں محفوظ کر لیے تھے۔ جب کبھی ڈائری کھولتا یہ انٹر ویو سامنے آتا اور اپنے ارادے کو زندہ کر لیا کرتا۔ وقت گزرتا گیا حتیٰ کہ آپ ۲۰۰۵ء میں دوبارہ کراچی تشریف لائے۔ کمزوری، قوت سماعت اور بینائی کا متاثر ہو جانا نیز یادداشت کا کمزور ہو جانا ضعیف العمری کے تحفے ہیں۔ ہر وہ انسان جو عمر کے اس حصے کو پہنچے اور یہ تمام تحفے اسے اللہ کی طرف سے میسر آئیں تو خندہ پیشانی کے ساتھ اللہ کا انعام و اکرام سمجھ کر قبول کر لینے چاہئیں۔ ان میں بھی زندگی کا مزہ ہے۔ آپ نے بتایا کہ آپ اپنی زندگی کی ۹۰ بہاریں دیکھ چکے ہیں یعنی آپ کی عمر ۹۱ برس ہے، صحت بھی اچھی ہے۔ بغیر سہارے کے چلنا پھرنا، تمام کام از خود کرنا آپ کا معمول ہے۔
آپ کے والد امید حسن پٹواری تھے اور ہندوستان کے قصبے ’کوٹ کپورا‘ میں آپ کی پوسٹگ تھی اسی مقام پر آپ ۱۴ جون ۱۹۱۴ء کو پیدا ہوئے، بچپن فرید کوٹ میں گزرا، کیوں کہ آپ کے والد پٹواری کی حیثیت سے فریدکوٹ آ گئے تھے۔ آپ کی والدہ(صحیفہ) عنایت اللہ حسین پوری کی بیٹی تھیں۔ آپ ملنسار اور پڑھی لکھی خاتون تھیں، محلے میں اگر کسی کا خط آ جاتا تو اسے پڑھ دیا کرتی تھیں۔ اپنی اولاد کو پڑھنے کی جانب راغب کیا کرتی تھیں۔ فرید کوٹ میں قائم ’’بر جندر اسکول‘‘ سے آپ نے ۱۹۳۱ء میں میٹرک کیا۔ آپ نے بتا یا کہ فریدکوٹ میں کالج نہیں تھا اس کے لیے فیروز پور جانا تھا اس وجہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ میٹرک پاس کرنے کے فورًا بعد مئی ۱۹۳۱ء میں آپ کی شادی جناب حکیم محمد ممتاز علی سبزواری کی صاحبزادی ’’زبیدہ خاتون ‘‘ سے ہوئی۔ یہ حضرت شیخ محمد ابراہیم آزادؔ مرحوم (مصنف کے پر دادا) کی دوسری شریک حیات محمودہ خاتون کی ہمشیرہ تھیں۔ اس رشتہ سے آپ آزادؔ صاحب کے ہم زُلف تھے آپ نے بتا یا کہ بارات جناب حقیق احمد (مصنف کے دادا ) کی بس میں فرید کوٹ سے بنت گئی تھی۔ اپنی شریک حیات کو منہ دکھائی میں مبلغ دو(۲) روپے دئے تھے۔ آپ کی شریک حیات(زبیدہ خاتون) دراز قد، سفید رنگ، بڑی بڑی آنکھیں اور خوبصورت تھیں ان کے مقابلے میں آپ کا رنگ سیاہ مائل تھا البتہ جوانی میں لہیم شہیم، کڑیل جوان ضرور تھے۔ شاید رنگت آپس میں بہت زیادہ خوشگوار ازدواجی تعلقات میں حائل رہی، آپ کی شریک حیات کا بہت جلد انتقال ہو گیا۔ آپ نے باوجود دباؤ اور اصرار کے دوسری شادی اپنے بچوں کی بہتر نگہداشت اور انہیں سوتیلی ماں کے سلوک سے محفوظ رکھنے کی وجہ سے نہیں کی۔ آپ نے اپنے بچوں کی پرورش اور نگہداشت از خود کی اور اپنی خواہشات کو بچوں پر قربان کر دیا۔ یہ بات بھی قابل بیان ہے کہ اپنے بچوں سے قبل آپ نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش بھی کی تھی جس کی وجہ آپ کی والدہ اور والد کا جلد انتقال ہو جانا تھا۔ پیسے کی ہمیشہ ریل پیل رہی حتیٰ کہ اب بھی اللہ کا فضل ہے۔ آپ کے دو بیٹے (شکیل احمد ور وکیل احمد )اور دو بیٹیاں (شکیلہ اور طاہرہ) ہوئیں قسمت سے آپ کو اپنے دونوں بیٹوں سے وہ سعادت مندی حاصل نہ ہو سکی جو اسلامی اور مشرقی روایات کا حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی چھوٹی بیٹی کو اپنے ہمراہ رکھا اور ضعیفی کے ایام سکون اور آرام سے گزار رہے ہیں۔
لمبی قامت، گول ہنس مکھ چہرہ، دل میں گہرائی تک اتر جانے والی آنکھیں، گھنی بھنویں، جوانی میں کلین شیو ہوا کرتے تھے اب کالی مگر زیادہ سفید داڑھی، فراخ پیشانی، کالا رنگ مگر دل کے انتہائی شفاف، چھوٹا سر، مضبوط ارادے، حوصلے اور قوت فیصلہ کے حامل معلوم ہوتے ہیں۔ انداز میں شائستگی اور وضع داری، شہر اور دیہات کی ملی جلی فضاء کے پروردہ بزرگ بلکہ دیہات کے ماحول کا غلبہ نمایاں، گفتگو میں سوجھ بوجھ اور علمیت کا امتزاج، سنجیدگی اور بردباری، بات میں وزن، ہر ایک کی بات توجہ سے سننا اور تسلی وتشفی بخش جواب دینا آپ کی عادت ہے۔ اکثر گفتگو میں شعر بھی پڑھتے ہیں۔ زبان میں شیرینی اور مٹھاس، گفتگو میں کسی کی للو پنجو نہیں کر تے بات ایمان کی اور دھڑلے کی کہتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ سامنے والا برا بھی مان سکتا ہے۔ اس وقت چہرے مہرے اور انداز سے یہ ہر گز معلوم نہیں ہوتا کہ آپ اپنی عمر کی دسویں دھائی میں ہیں اللہ آپ کو سلامت رکھے۔
آپ کی والدہ (مصنف کی نانی) کا انتقال ۱۹۳۲ء میں فرید کوٹ کی ’ بلبیربستی ‘ میں ہوا،ا جب کہ والد جناب امید حسن (مصنف کے نانا) نے ۱۵ سال بعد مارچ ۱۹۴۷ء میں رحلت فرمائی۔ آپ کے والد صاحب شدید بیمار تھے لیکن خواہش یہ تھی کہ ان کی بیٹی صفیہ (مصنف کی والدہ) کی شادی ان کی زندگی ہی میں ہو جائے، کہتے ہیں کہ ایک پل انسان کی دعا کی قبولیت کا بھی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول کر لی تھی چنانچہ رشتہ طے ہو گیا، دوسری جانب بیماری شدید صورت اختیار کر تی گئی اسی دوران شادی کی تاریخ بھی طے ہو گئی۔ بارات آئی آپ بستر علالت پر تھے بیٹی کو اسی حالت میں رخصت کر کے اللہ کا شکر ادا کیا، حالت بگڑتی گئی اس موقع پر آپ کے چھوٹے بھا ئی وصی احمد سبزواری بھی موجود تھے، انہوں نے کیفیت کو محسوس کر تے ہوئے اپنے بھائی سے کہا کہ ’’بھائی یہ جانا ا للہ کی اما نت ہے اسے خوشی سےا للہ کے سپرد کر دیں ‘‘ لیکن آپ نے رات بھر اپنی نوبیاہتا بیٹی کی واپسی کا انتظار کیا، آنکھیں دروازے پر لگی تھیں، صبح ہو ئی، ٹرین نے دوپہر کو آنا تھا، باغباں کو اپنی اس کلی کا شدت سے انتظار تھا جو عنقریب پھول بننے جا رہی تھی لیکن دوسری جانب درخت جھک رہا تھا، پتے مرجھا رہے تھے، ٹہنیاں زرد ہو رہی تھیں، ہواؤں کا رنگ بدل رہا تھا، وقت کا صیاد اپنا تیر چلانے کو تیار بیٹھا تھا، مہلت ختم ہونے کو تھی، یکا یک کلی نمو دار ہو ئی اور منتظر باپ کے سینے سے جا لگی، باغباں کے مہر بان ہاتھوں نے اپنی کلی کو سینے سے لگا یا، منتظر آنکھوں کو ٹھنڈا کیا لیکن وہ ہاتھ وہیں جم کر رہ گئے وہ آنکھیں جو محوِ انتظار تھیں سینے کی ٹھنڈک کو پہچان کر مطمئن سی ہوئیں اور پھر انجان بن گئیں، دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ان کی اس خواہش کی تکمیل بھی کر دی جس کی آرزو انہوں نے بیماری کی حالت میں کی تھی، کلمہ طیبہ پڑھا اور اسی حالت میں جب کہ آپ کی بیٹی سرخ جوڑے میں ملبوس اپنے منتظر باب کے سینے سے لگی اپنے سینے کو بھی ٹھنڈا کر رہی تھی باغباں نے چپکے سے آنکھ موند لی اور آپ کی روح اس دنیائے فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پرواز کر گئی۔
قیام پاکستان کے بعد اپنی ہجرت کی داستان بیان کر تے ہوئے آپ نے بتا یا کہ ۱۸ اگست ۱۹۴۷ء کو ہماری ٹرین انبالہ سے امرتسر ہو تے ہوئے لاہور پہنچی، رات لاہو رہی میں بسر کی، ہماری منزل ابھی دور تھی، اگلے روز مال گاڑی میں منڈگمڑی ہو تے ہوئے بھورے والا آ گئے، فرید کوٹ کے بے شمار لوگ بھورے والا آ چکے تھے، رات بھورے والا میں گزاری، ۲۰ اگست کو وھاڑی آئے یہاں سے ہمیں کرم پور جانا تھا جہاں پر ڈاکٹر انوار پہلے سے موجودتھے، جب ہم یہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ میلسی منتقل ہو چکے ہیں، رات کرم پور میں ڈاکٹر انوار کے ڈیرے پر بسرکی اگلے روز ۲۱ اگست کو میلسی پہنچ گئے، ایک روز بعد بقر عید تھی، میں اگلے ہی روز میلسی کے تحصیلدار سے ملا اور بتا یا کہ میں میٹرک پاس ہوں پٹوار کا امتحان بھی پاس کر چکا ہوں، ہندوستان کے شہر فرید کوٹ میں پٹواری تھا، اس نے مجھے فوری کلرک بھرتی کر لیا، میری ذمہ داریوں میں میلسی پہنچنے والے مہاجرین کی آباد کاری تھی جو مہاجر آتے میں انہیں ہندوؤں کے مکان اور دکانیں الاٹ کیا کرتا تھا میلسی میں مجھے بھی ایک مکان الاٹ ہو گیا تھا یہ مکان میلسی شہر کے وسط میں ہے (میں اسی مکان میں ۱۵ اگست ۱۹۴۸ء کو عالم وجود میں آیا) آپ کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ بعد انہوں نے سر کاری ملازمت چھوڑ دی اور ایک وکیل شیخ محمود علی کے ساتھ منشی ہو گئے، ۱۹۵۱ء میں پھر سے پٹواری ہو گئے، آپ کے چھوٹے بھائی مطلوب بھی پٹواری تھے۔ آپ پٹوری کی ملازمت ترک کر کے دوبارہ ایک وکیل کے ساتھ کام کرنے لگے اور ۱۹۷۵ء تک باقاعدہ کام کر تے رہے رہا، آپ نے بتا یا کہ آپ کی پھوپھی(زوجہ جناب خلیق احمد صمدانی مرحوم) نے آپ کو ساڑے پانچ ایکڑ زرعی زمین تحفہ کے طور پر دی تھی جو آج بھی موجود ہے اور ان کی آمدنی کا ذریعہ یہی زمین ہے۔ یہ ہیں سب کے محبوب ’’محبوب احمد سبزواری‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت عطا فرمائے۔ آمین۔
۶ نومبر ۲۰۰۵ء
مشکور احمد
چند یادیں۔ ۔ ۔ چند باتیں
بعض سانحے ایسے ہوتے ہیں کہ ہر دل شکن منظر کھلی آنکھوں دیکھنے کے باوجود یقین نہیں آتا کہ یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔ مشکور احمد صاحب کی موت بھی میرے لیے ایک ایسا ہی سانحہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے وہ اب بھی یہیں کہیں موجود ہیں حالانکہ اس سانحہ کو ہوئے اب کئی برس ہو چکے ہیں اور میں نے انہیں زندگی کے آخری ایام میں ( ایک سے زیادہ بار )بہت قریب سے دیکھا حتیٰ کے ان کی تجہیز و تکفین میں بھی شریک ہوا لیکن ان سے طویل رفاقت، دوستانہ مراسم اور خاندانی ایسو سی ایشن ’’ ینگ مین حسین پوری ایسوسی ایشن‘‘ جس کے وہ صدر اور میں سیکریٹری رہ چکا تھا کی سر گر میوں کو جاری و ساری رکھنے کے لیے ہم سالوں سر گرم عمل رہے یہ سب کچھ نظروں کے سامنے ایسے گھومنے لگتا ہے کہ جیسے ایک ویڈیو چل رہی ہو۔ جانا تو ہم سب کو ہے لیکن میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس قدر جلد ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے چلے جائیں گے۔
میں اور مشکور صاحبخاندان باری بخشؒ سے تعلق رکھتے ہیں جو خاندان حسین پور کے نام سے بھی معروف ہے۔ ہمارے مورث اعلیٰ حضرت دیوان باری بخش علیہ الرحمۃ ہندوستان کے ایک حکمراں خاندان سے تھے۔ ان کازمانہ۱۱۴۸ بکرمی یا ۱۰۸۸ء تھا۔ یہ خاندان ہندوستان کے علاقہ راجستھان میں ریاست بیکا نیر کے مقام پر آباد تھاجو بھٹنیر (ہنو مان گڑھ) کہلاتا تھا۔ پندرھویں صدی میں یہ سر زمین راجپوتوں کے زیر اثر تھی۔ اسی قوم کے ایک راٹھور راجپوت ’سردار راؤ بیکا جی نے ۱۴۸۸ء
میں اس علاقہ پر اپنی حکمرانی کا باقاعدہ آغاز کیاساتھ ہی اس علاقے کا نام اس نے اپنے نام کی مناسبت
سے ’’بیکانیر‘‘ رکھا۔
غزنوی حکمراں سلطان محمود غزنوی نے جب بھٹنیر پر حملہ کیا تو ہمارے خاندان کے جدِ امجد بھٹنیر (موجودہ بیکانیر) سے دہلی منتقل ہو گئے اور دہلی سے منسلک شہر کھڈی ضلع شکار پور کو اپنا مسکن بنایاغزنوی حکمراں کی جانب سے اس خاندان کے مورث اعلیٰ کو کھڈی ضلع شکارپور کا دیوان مقرر کیا گیا۔ اس طرح یہ خاندان ابتدائی طور پر بیکانیر سے کھڈی ضلع شکار پور منتقل ہو گیا۔ شہاب الدین شاہجہاں کے عہد میں حسیں خان صاحب کو ہندوستان کے ضلع مظفر نگر میں ایک وسیع جاگیر انعام میں ملی۔ انہوں نے اس علاقہ کا نام حسین پور رکھا اور چونکہ ان کو انتظام جائیداد اور ریاست کے لیے ایک صاحب تجربہ و عقل وفرزانہ کی ضرورت تھی اس لیے آپ کی نظر ہمارے مورث عبدالقدوس صاحب پر پڑی، بڑے اصرار کے بعد خان صاحب موصوف عبدلقدوس صاحب کو باعزاز حسین پور لائے اوردیوان مقرر کیا چنانچہ آپ معہ اہل و عیال شکار پور سے منتقل ہو کر قصبہ حسین پور میں مقیم ہو گئے اور اس وقت سے یہ خاندان حسین پوری مشہورہو گیا۔ حسین پور ضلع مظفر نگر میں ہمارے جدِ امجد جناب عبدالقدوس کو وہ تمام اعزازات حاصل تھے جو ایک صوبے کے گورنر کو حاصل ہوتے ہیں لیکن یہ اعزاز اور مرتبہ
خاندان باری بخش کے لیے نئی بات نہیں تھی، یہ خاندان ابتداہی سے حکمراں خاندان میں سے رہا۔
خاندانی ایسو سی ایشن ’’ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن‘‘۱۹۴۰ ء میں قائم ہوئی۔ اس وقت سے فعال چلی آ رہی ہے لیکن کبھی کبھی تعطل کا شکار بھی ہوئی۔ اس قسم کے فلاحی ادارے اکثر غیر متحرک بھی ہو جایا کرتے ہیں سو یہ انجمن بھی وقفہ وقفہ سے غیر متحرک رہی۔ میں نے باقاعدہ طور پر ۱۹۸۰ء میں بہاولپور میں منعقد ہونے والے اجلاس عام سے اس خاندانی انجمن میں شمولیت اختیار کی۔ جس میں مشکور صاحب کے بڑے بھائی منظور احمد صاحب ایسو سی ایشن کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ ۱۹۸۳ء میں ایسو سی ایشن کا فائینانس سیکریٹری اور کراچی کا لوکل سیکریٹری بن گیا اس طرح اس ایسو سی ایشن کی سرگرمیوں میں خاصا فعال رہا۔ ۱۹۹۰ء تا ۱۹۹۳ء ایسو سی ایشن کا سیکریٹری اور مشکور صاحب اس کے صدر رہے۔ اس عرصہ میں ہم ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ گئے۔ ایسوسی ایشن کو فعال اور سرگرم کرنے کی منصوبہ بندی کی جس میں بڑی حد تک کامیابی ہوئی۔ فیصل آباد کے گاؤں ’بابے والا ‘ میں جہاں پر خاندان کے متعدد لوگ رہائش پذیر ہیں ایسو سی ایشن کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ منعقد کیا جس میں صرف کراچی سے ۲۶ خواتین و حضرات بابے والا پہنچے جلسہ عام میں شریک خواتین، مرد اور بچوں کی تعداد ۱۶۱ تھی جو ۱۹۴۰ء (امرتسر) سے ۱۹۹۰ء (کراچی) کے تمام جلسوں سے زیادہ تھی۔ یہ سب کاوش مشکور صاحب ہی کی تھی اس اجلاس کو کامیاب بنا نے کے لیے انہوں نے پاکستان کے مختلف شہروں کے دورے بھی کیے اور خاندان کے افراد کو ایسو سی ایشن کی جانب مائل کیا جس کے نتیجے میں دور دراز کے شہروں سے سے تعلق رکھنے والے بے شمار احباب ایسو سی ایشن میں شامل ہوئے۔
جناب مشکور احمد نے ایسو سی ایشن کے صدر کی حیثیت سے ۱۹۹۰میں جناب تابشؔ صمدانی مرحوم، رشید احمد صمدانی مرحوم، جناب خالد احمد، جناب فہیم احمد صدیقی اور ملتان شہر میں رہائش پذیر دیگر اہل خاندان کو ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں فعال کردار اداکرنے کی دعوت دی۔ مشکور صاحب کی دعوت پر نہ صرف تابش صمدنی نے بلکہ ملتان سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام ہی حسین پوریوں نے لبیک کہا اور ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں بھر پور کردار ادا کیا۔ ۲۶ دسمبر ۱۹۹۱ء کو ایسو سی ایشن کا اجلاس عام فیصل آباد کے شہر ’’بابے والا‘‘ میں منعقد ہوا جس میں صرف ملتان شہر سے تعلق رکھنے والے تقریباً۲۰ اراکین نے شرکت کی جن میں جناب تابش صمدانی مرحوم، رشید احمد صمدانی مرحوم بھی شامل تھے۔ اجلاس عام میں جناب تابش صمدانی نے تقریر کا آغاز اس شعر سے کیا :
ع ذرے میں آنکھ ملتا نظر آئے آفتاب
قطرے میں سانس لیتا سمندر دکھا ئی دے
آپ نے کہا ’’کبھی بچپن میں ایسو سی ایشن کے بارے میں سنا تھا اب مشکور صاحب کے ملتان آنے کے بعد جھ تک یہ پیغام پہنچا کہ ینگ مین حسین پوری ایسوسی ایشن کا اجلاس ہو رہا ہے تو میرے ذہن میں کچھ سوالات ابھرے، میرے سامنے ایسو سی ایشن کا منشور نہیں تھا اس لیے نے میں سوچا کہ ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن کے لیے میں مدعو کیا جا رہا ہوں، میں تو اب پچاس کے پیٹھے میں ہوں، میں بڑی الجھن میں رہا کہ مجھے اس میں شریک ہونا چاہیے یا نہیں، میرے برادر گرامی رشید احمد صمدانی اس میں جائیں یا ا پنے بچوں کو بھیجیں تو اس کے نام میں ایک ابہام ہے اسے دور ہونا چاہیے ‘‘۔ آپ نے مزید فر مایا کہ ’’ میں موجودہ انتظامیہ کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں ان کا سب سے بڑا کارنامہ تو یہ ہے کہ مجھ جیسے رسوائے زمانہ اور گوشہ عافیت میں رہنے والے شخص کو وہ اسٹیج پر لے آئے تو کیا یہ ان کی ولایت نہیں ہے۔ میں تو مشکور صاحب کو صدر ہی نہیں سمجھتا بلکہ دور حاضر کا ولی سمجھتا ہوں اور
جناب مشکور احمد کا کردار یہ کہہ رہا ہے :
اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں
مشکور صاحب سے میں پہلی بار ان کے اپنے گھر جب وہ پا پوش نگر میں رہا کرتے تھے ملا تھا۔ ان کے بڑے بھائی منظور احمد صاحب ایسو سی ایشن کے صدر۱۹۸۰ء میں منتخب ہوئے۔ راقم کے علاوہ پروفیسر راشد حئی، شاہد اطہر، طاہر حسن قریشی اور دیگر احباب اکثر ایسوسی ایشن کے معاملات کے سلسلے میں منظور صاحب کے گھر واقع پاپوش نگر جایا کر تے تھے، کبھی کبھی ان کے آفس واقع فرید چیمبر عبداللہ ہارون روڈ بھی جا نا ہوتا دونوں جگہ مشکور صاحب سے رسمی سلام دعا ہوا کرتی۔ منظور صاحب ۱۹۸۲ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے جس کے بعد ایک طویل عرصہ تک مشکور صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی۔ ایسو سی ایشن کے لوکل اجلاس اکثر مختلف احباب کے گھر منعقد ہوا کرتے رفتہ رفتہ وہ بھی دم توڑ گئے۔ پروفیسر راشد حئی اور میں طویل عرصہ تک عبداللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں رہ چکے تھے بعد میں ان کا تبادلہ نیشنل کالج اور میرا گورنمنٹ کالج برائے طلبہ نا ظم آباد میں ہو گیا اس حوالہ سے وہ میرے ساتھی بھی تھے اور ایک خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے ہم دونوں ہی غیر ارادی طور پر ایک دوسرے کا خیال کیا کرتے تھے انہوں نے، اپنے کزن اور بہنو ئی شاہد اطہر جو پروفیسر محمد محصی کے صاحبزادے ہیں، جناب انعام احمد صدیقی اور میں نے باہم مل کر ایسو سی ایشن کو از سر نو فعال کرنے کا پروگرام بنا یا اس مقصد کے لیے ہم خاندان کے اکثر احباب کے گھروں پر گئے اور انہیں ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ اس تحریک میں جناب مشکور صاحب کو بھی ایسو سی ایشن میں فعال کر دار ادا کرنے پر تیار کر لیا گو وہ بہت عرصہ تک ٹال مٹول سے کام لیتے رہے با لا آخر وہ اس کے لیے تیار ہو گئے۔ اب ہم اور مشکور صاحب ایسو سی ایشن کو فعال رکھنے، خاندان کے احباب کو اس میں شریک کرنے کے حوالے سے اکثر و بیشتر ملا کرتے اور گھنٹوں مختلف معاملات پر گفتگو ہوا کرتی۔ بقول شاعر :
ع وہ دن وہ محفلیں وہ شگفتہ مزاج لوگ
موج زمانہ لے گئی نہ جانے ان کو کس طرف
ایسو سی ایشن کے حوالے سے مشکور صاحب کا ایک عظیم کارنامہ جناب خالد پرویز کے اشتراک سے ’’شجرہ خاندان حسین پور ‘‘ کی تدوین ہے جسے ایسو سی ایشن نے ۱۹۹۰ء میں شائع کیا۔ خاندان حسین پور کا اولین شجرہ ۱۹۲۵ء میں جناب محمد حنیف صاحب نے مر تب کیا تھا۔ مرتبین نے ۶۵ سال کے وقفہ کے بعد خاندان کی لڑیوں کو خوبصورتی سے ترتیب دیا۔ شجرہ کا بنیادی مقصد موجودہ نسل کو اس اہم بات سے باخبر رکھنا ہے کہ ہمارے آباء و اجداد کون تھے اور ہمارے رشتہ دار کون ہیں۔ مشکور صاحب کے مرتب کردہ شجرہ میں خاندان حسین پور کے ذکور و اناث کا تذکرہ حتی الوسع کیا گیا ہے۔ ایسو سی ایشن کے صدر جناب انعام احمد صدیقی نے پیشوائی کے عنوان سے تحریر فر ما یا کہ ’’ یہ شجرہ انہی دونوں حضرات(مشکور احمد۔ خالد پرویز) کی کاوشوں اور جان کاہی کا ثمر ہے۔ تحقیق و جستجو کی وادیِ پر خار سے سلامت روی سے گزرنا اور گوہر مقصود کا حاصل کر لینا بے شک ان حضرات کا ایک عظیم کارنامہ ہے اور اس کے لیے وہ ہم سب کی داد وتحسین کے جائز حقدار ہیں ‘‘۔
قیام پاکستان کے وقت آپ کا خاندان ہندوستان کے شہر امرتسر میں مقیم تھا۔ آپ نے اپنے والد صاحب (میاں احمد مرحوم )کے ہمراہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی اور لاہور کو اپنا مسکن بنایا، آپ کے والددرس و تدریس کے پیشے سے وابستہ تھے چنانچہ لاہور میں ایم اے او کالج میں استاد کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور اسی کالج میں رہائش بھی مل گئی۔ مشکور صاحب کی شادی جناب حسن عسکری صاحب کی صاحبزادی محترمہ آمنہ پروین سے ۳ نومبر ۱۹۵۹ء کو کراچی میں ہوئی۔ ا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد ذکور (عادل، عارف اور عاصم) اور اولاد اناث (سہلا، ثمرہ اور سبیلہ) سے نوازا۔ آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ دیو بندی عقائد رکھتے تھے۔ ان کے بھائی محبوب احمد صاحب کا انتقال ۱۹۹۰ء میں ہوا، جسدخاکی کو لحد میں اتار دیا گیا، فاتحہ ہوئی بعد میں کسی نے کہا کہ سوئم کا اعلان کر دیں، مشکور صاحب میرے برا بر میں ہی تھے گو یا ہوئے جسے جو کچھ پڑھنا اور ایصال ثواب کرنا ہے اپنے اپنے طور پر ہی کر دے۔ مالی طور پر خوش حال تھے ساتھ ہی دریا دل واقع ہوئے تھے، ہمدرد، محبت کرنے والے اور مدد کر کے بھول جانے والوں میں سے تھے۔ مستحقین کی مدد اس طرح کرتے کہ کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلتا، خاندان میں کون ضرورت مند ہے انہیں اس کی مکمل آگاہی ہوتی اور ان سے مسلسل روابط ہوتے۔ اپنا کاروبار تھا۔ جبیس ہوٹل کے برابر فرید چیمبر میں ساتویں منزل پر آفس تھا۔ اکثر ایسو سی ایشن کے معاملات کے لیے جانا ہوتا۔ رفتہ رفتہ کاروبار سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی، عاصم ابھی پڑھائی کے مراحل میں تھا اور عارف ملک سے باہر، عادل ہی تمام کاروبار کے ذمہ دار تھے۔ کاروبار کے سلسلے میں وہ متعدد بار سوئیزرلینڈ، امریکہ، برطانیہ، اٹلی، آسٹریا بھی گئے۔
مشکور صاحب کراچی میں کرایہ کے مکان میں رہے، عام طور پر تجارت پیشہ لوگ کرایہ کے مکان میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نوے کی دھائی میں گلستان جوہر میں اپنا مکان بہت ہی شوق سے بنوایا، ستمبر ۱۹۹۵ء میں اس میں منتقل بھی ہوئے ان دنوں کراچی کے حالات خراب تھے چوری اور ڈاکہ زنی عام تھے۔ گلستان جوہر میں اس قسم کے واقعات زیادہ ہی ہو رہے تھے چنانچہ مشکور صاحب اور ان کے اہل خانہ بھی اس سے دوچار ہوئے ان کے گھر ڈاکہ پڑا اور تمام مال و متاع جاتا رہا، شاید اس سانحہ کا بھی ان کے ذہن پر اثر ہوا اور دل بر داشتہ ہو کر انہوں نے دسمبر ۱۹۹۵ء میں کراچی کو الوداع کہا اور لاہور منتقل ہو گئے۔ ابتدا میں کرایہ کے مکان میں رہے پھر جوہر ٹاؤن میں اپنا گھر بنا یا۔
انسان کی پہچان اس کے ساتھ سفر کرنے سے بھی ہوتی ہے مجھے مشکور صاحب کے ہمراہ ایک سے زیادہ بار سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ کراچی سے بہاولپور(۱۹۸۰ء)، راولپنڈی (۱۹۸۳ء)اور فیصل آباد، بابے والا(۱۹۹۲ء) ایسوسی ایشن کے اجلاسوں میں ہم نے دیگر احباب کے ساتھ سفر کیا، فیصل آباد اور پھر بابے والا کے سفر میں ہمارے اہل خانہ بھی ساتھ تھے۔ تمام سفر بہت یاد گار تھے۔ مشکور صاحب دوران سفر انتہائی خوشگوار موڈ میں ہوا کرتے۔ سفر سے پہلے سفر کے لوازمات کا بہت خیال کیا کرتے۔
مشکور صاحب کی زندگی کے آخری ایام میں ہماری دوستی نے ایک نیا موڑ اختیار کیا جس کے بارے میں کم از کم میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور یقیناً مشکور صاحب کے وہم و گمان میں بھی نہیں رہا ہو گا کہ ہمارا یہ تعلق قریبی رشتہ داری اختیار کر لے گاجس کے نتیجے میں وہ اور میں ایک دوسرے کے ’’ سَمدھی ‘‘ بن جائیں گے۔ ۱۹۹۹ء کی بات ہے مجھے اپنے فلیٹ (واقع نارتھ کراچی)منتقل ہوئے (۸جو لائی ۱۹۹۹ء) صرف ایک مہینہ ہی ہوا تھا اپنے چھوٹے ہم زلف ’’شفیق‘‘ کی زبانی پیغام ملا کہ مشکور صاحب اپنے چھوٹے صاحبزادے ’عاصم‘ کا رشتہ میری بیٹی فاہینہ سے چاہتے ہیں۔ میرے فلیٹ میں ابھی ٹیلی فون بھی نہیں لگا تھا چنا نچہ وقت طے کر کے میں ارم اور شفیق کے گھر گیا، آمنہ بھابی (بیگم مشکور احمد ) نے اپنا مدعا بیان کیا۔ میں نے ان کی بات سنی اور چند روز میں جواب دینے کے لیے کہا۔ میں ان دنوں شدید الجھنوں اور پریشانیوں کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنوں اور پرایوں کی سنگ باراں سے دو چار تھا۔ ۵۱ سال (۱۹۴۸ء۔ ۱۹۹۹ء)کی اپنائیت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہتے ہوئے اپنے ہی گھر سے (والدین کا گھر ہر اعتبار سے اپنا ہوتا ہے ) اپنے ذاتی گھر منتقل ہوا تھا۔ اپنی ماں کو روتا اور افسردہ چھوڑ آیا، اس عمل سے میرے مرحوم والد کی روح کو بھی یقیناً دکھ ہوا ہو گا۔ کرتا بھی کیا، میری سمجھ میں صرف یہی بات آئی کہ مسئلہ کو جڑ سے ختم کر دینا ہی مسئلہ کا صحیح حل ہے پھر یہ تو ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا آخر دنیا اسی طرح ہی تو پھیلی ہے۔ اس فیصلہ پر میں بہت پہلے عمل کر چکا ہوتا لیکن میں دل سے محسوس کرتا تھا کہ میرے والد نہیں چا ہتے تھے کہ میں ان سے جدا ہو جاؤں چنانچہ ان کی خواہش کو ہر بات پر مقدم جانا، اپنی طبعیت اور مزاج کے خلاف ہونے والی ہر بات کو صرف اور صرف سننے سنا نے تک ہی محدود کر دیا اور ایک اچھا سامع بن گیا، یہ عادت بھی بہت خوب ہے، بہت کام آتی ہے، بہت سی برائیوں اور پریشانیوں سے انسان کو دور رکھتی ہے حالانکہ اس دوران کبھی کبھی بہت ہی تکلیف دہ باتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ بات مشکور صاحب سے قریبی تعلقات قائم ہونے کی ہو رہی تھی، یہ ماضی کے دریچے بھی خوب ہوتے ہیں جب یاد آ جاتے ہیں تو گویا یادوں کی ایک بارات بن کرانسان کو ماضی میں دھکیل دیتے ہیں۔ میں نے مشکور صاحب کے بیٹے عاصم سے اپنی بیٹی کے رشتہ کے بارے میں تنہا خوب غور کیا، ہر ہر پہلو سے سوچا آخر کار اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ من جانب اللہ ہے۔ میرے سامنے ان کار کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ خاندان ایک، خوش حال، تمام لوگ بلند اخلاق اور اچھے کردار کے مالک، ملنسار، عاصم تعلیم یافتہ، خوب شکل و خوب سیرت، بر سرِ روزگار، سب سے بڑھ کر میرا مشکور صاحب سے تعلق، ان سب باتوں نے مجھے اس رشتہ کو قبول کرنے کی تر غیب دی، البتہ ایک بات جس کی جانب میرے بعض کرم فرماؤں نے توجہ دلائی وہ یہ تھی کہ تمہاری اکلوتی بیٹی تم سے دور یعنی لاہور چلی جائے گی۔ مجھے اس بات میں وزن محسوس نہیں ہوا، کیوں کہ بیٹی کو ایک نہ ایک دن پرائے گھر جانا ہی ہوتا ہے وہ نزدیک ہو یا دور، اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں خوش و خرم رہے۔ الحمد اللہ آج وہ اپنے گھر میں خوش ہے، میری پیاری سی نواسی’ نہا ‘اسکول جانے لگی ہے، کیوٹ سا نواسہ’ ارحم‘ دو برس کاہو چکا ہے۔ خوب شرارتیں کرتا ہے، فون پر اپنے نانا سے باتیں بھی کرنے لگا ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں بچوں کو سلامت رکھے، علم کی دولت سے مالا مال کرے۔
ایک ماہ کے بعد(۲ ستمبر ۱۹۹۹ء) مشکور صاحب اپنے تمام اہل خانہ کے ہمراہ کراچی تشریف لائے مقصد رشتہ کو باقاعدہ قائم کرنا تھا۔ تقریب سے ایک روز قبل وہ اور ان کے تمام اہل خانہ میرے گھر آئے، معمولی سی دعوت کا اہتمام تھا، بعد اختتام دعوت تمام لوگ کھڑے تھے مشکور صاحب میری بیٹی کا ہاتھ اوپر اٹھا تے ہوئے گو یا ہوئے ’ ’یہ اب ہماری ہوئی‘ ‘، یہ ان کا خاص انداز تھاجس سے خلوص، محبت اور اپنائیت صاف عیاں تھی۔ مشکور صاحب سے کئی سال بعد ملاقات تھی ملے تو اسی طرح لیکن مختصر گفتگو کے بعد بالکل ایسے ہو جاتے جیسے کوئی بات ہی نہیں ہو ئی، میں اس وقت تک ان کی بیماری کے بارے میں لا علم تھا لیکن اندر ہی اندر فکر بھی لاحق تھی کہ ضرور کوئی بات ہے۔ اس سے قبل۱۹۹۷ء میں میرا اپنی فیملی کے ساتھ لاہور جانا ہوا تھا۔ ہو ٹل میں پڑاؤ تھا دیگر احباب سے ملاقات کے ساتھ ساتھ مشکور صاحب سے ملاقات ایجنڈے کا حصہ تھی چنانچہ ہوٹل سے انہیں فون کیا گفتگو شروع ہوئی اپنا بتا یا کہ میں لاہور میں ہوں اور آپ سے ملاقات بھی ہو جائے تو اچھا ہے گفتگو میں وہ بات نہیں تھی ایسا لگا کہ کوئی بات ضرور ہے۔ خیر ملاقات نہ ہو سکی بات آئی گئی ہو گئی۔
معلوم ہوا کہ مشکور صاحب یادداشت کمزور ہو جانے والی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اسے میڈیکل کی اصطلاح میں (Parkinsonism)بھی کہا جاتا ہے۔ اس مرض میں مریض لڑکھڑا کر چلتا ہے اور بدن میں ریشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ انگلیاں اور ہاتھ تھرانے اور لڑکھڑانے لگتے ہیں، چہرے سے کسی قسم کے تاثرات نہیں ملتے، نظر ملا نے سے کتراتا ہے، بات کم کرتا ہے، بسا اوقات عجیب و غریب باتیں کرتا ہے، چھوٹے چھوٹے قدم سے چلتا ہے لیکن تیز تیز، الفاظ کی ادائے گی درست نہیں ہوتی، دھیمہ لہجہ اختیار کر لیتا ہے، پہچان جاتی رہتی ہے مختصر یہ کہ مریض ذہنی طور پر دنیا سے دور چلا جاتا ہے۔ یہ مرض عام طور پر بڑھاپے میں لاحق ہوتا ہے۔ خدا معلوم مشکور صاحب کو یہ مرض کیوں کر لاحق ہو گیا۔ علاج میں کوئی کثس نہ اٹھا رکھی گئی حتیٰ کہ انہیں علاج کی غرض سے امریکہ بھی لے جایا گیا۔ جو لائی ۲۰۰۰ء میں وہ امریکہ اپنے بڑے بیٹے عارف کی شادی کے سلسلے میں امریکہ گئے لیکن ان کے لیے یہ بیماری بہت سی بیماریوں کی طرح لاعلاج ہو گئی۔
میں اپنی بیگم (شہناز) کے ہمراہ ستمبر ۲۰۰۰ء میں مشکور صاحب کو دیکھنے لاہور گیا۔ ہم ائیر پورٹ سے گھر پہنچے تو وہ اپنے بیڈ پر سفید کپڑوں میں ملبوس لیٹے ہوئے تھے دیکھ کر فوری طور پر گرم جوشی سے ملے میرا نام لے کر مجھے مخاطب کیا شاید ایک آدھی بات بھی کی ہو گی اس کے بعد گفتگو میں تسلسل نہیں رہا۔ میں دل ہی دل میں بے انتہا دکھی ہو رہا تھا کہ ہم اس قدر قریب آئے بھی تو اس کیفیت میں کہ قریب آ کر دور اور بہت دور بلکہ ہمیشہ کے لیے دور ہو گئے۔ شاید خدا کو یہی منظور تھا۔ ان کی اس کیفیت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا حتیٰ کہ باہمی مشورے سے ہم دونوں خاندانوں نے اپنے بچوں (عاصم۔ فاھینہ ) کی شادی کی تاریخ ۲۵ دسمبر۲۰۰۱ء طے کر دی۔
شادی کی تاریخ قریب آ رہی تھی ۱۵نومبر ۲۰۰۱ء کو میں اور شہناز لاہور گئے، مقصد شادی کے جملہ معاملات کو حتمی شکل دینا تھا مشکور صاحب ذہنی طور پر دنیا سے اپنا تعلق ختم کر چکے تھے، میں اندر ہی اندر ہاتھ ملتا رہ گیا، ایک لمحے کو ان کے اچھے دنوں کی ایک فلم چل پڑی کہ کس قدر صحت مند، ہشاش بشاش، خوش اخلاق، مسکراہٹ سے لبریز چہرے کو کس کی نظر لگ گئی۔ تندرست و توانا شخص چند مہینوں میں کیا سے کیا ہو گیا۔ باغ باں کی فکر میں ہر کلی غم زدہ تھی، ہر پھول محو حیرت تھا، غنچے سہمے ہوئے تھے، ٹہنیاں جھک جھک رہی تھیں لیکن باغ باں جس نے خون دل سے کلیوں کی آبیاری کی تھی، شگفتہ پھولوں کو مہک عطا کی تھی، غنچوں کو گدگدایا تھا رفتہ رفتہ اپنا ناتا اپنے ہی گلشن سے توڑتا جا رہا تھا۔ وہ اس فکر سے آزاد تھا کہ اس کے بعد اس کے گلشن کا کیا ہو گا۔ شاید اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ وقت کا صیاد اپنا تیر چلانے کو تیار بیٹھا ہے، مہلت ختم ہونے کو ہے۔
میں اور شہناز دکھی دل کے ساتھ رمضان سے ایک روز قبل واپس آ گئے۔ فکر لگی ہوئی تھی کہ ایسی صورت حال میں شادی کیسے اور کس طرح ہو گی، ادھر امریکہ میں موجود مشکور صاحب کا بڑا بیٹا عارف اپنی بیگم اور بچے کے ہمراہ شادی میں شرکت کے لیے پاکستان آنے کا پروگرام بنا چکے تھے۔ انہیں یکم دسمبر ۲۰۰۱ء (۱۵ رمضان المبارک ) کو لاہور پہنچنا تھا، جوں ہی ان کا طیارہ لاہور کی سر زمین پر اترا، عارف، بیگم عارف اور مشکور صاحب کے پوتے طلحہٰ نے پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھا مشکور صاحب جو کئی روز سے بے چین اور مشکل میں تھے سکون میں آ گئے، انتظار کی تمام گھڑیاں اختتام کو پہنچیں، انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ان کی تمام اولاد اب ان کے پاس ہے، شاید انہیں اسی لمحے کا انتظار تھا، جوں ہی بیٹے کا سفر اختتام پذیر ہوا اور وی منزل پر پہنچا باغ باں جو اپنے سفر پر جانے کے لیے بے تاب تھا ہر چیز کی پرواہ کیے بغیر اس نے رخت سفر باندھا، اس جانب جہاں سے انسان دوبارہ لوٹ کر نہیں آتا، یکم دسمبر ۲۰۰۱ء مطابق ۱۵ رمضان المبارک آپ نے اپنی جان مالک حقیقی کے سپرد کر دی۔ میں نے بھی تدفین میں شرکت کی میری خواہش تھی کہ شادی ملتوی کر دی جائے لیکن آمنہ بھابی (بیگم مشکور احمد)، نجم الحسن(برادر آمنہ بھابی)، عبد الخالد(مشکور صاحب کے ہم زلف)، خورشید احمد (برادر مشکور احمد)، مبین الحسن(داماد مشکور احمد)، عابد علی خان(داماد مشکور احمد)، عبدالوحید، (داماد مشکور احمد)عادل، طلعت عادل، عارف، نورین عارف، سہلہ، ثمرہ، سبیلہ اور دیگر احباب نے بہت ہی ہمت، حوصلے اور جرأت کا مظاہرہ کیا، شادی طے شدہ تاریخ ۲۵ دسمبر ۲۰۰۱ء پر ہی ہوئی۔ آج ہم ایک دوسرے کے ’سمدھی ‘ تو بن چکے ہیں لیکن مشکور صاحب کے بغیریہ تعلق ادھورا سا لگتا ہے۔ مجھے ان کی کمی شدت سے محسوس ہو تی ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ مشکور صاحب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے آمین۔
ع چراغ بجھتے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
میں نے یہ مضمون کئی نشستوں میں لکھا شاید اسے ایک سال کا عرصہ لگا۔ جب بھی لکھنے بیٹھتا مشکور صاحب کی صورت آنکھوں میں آ جاتی، وہ صورت بھی جب وہ تندرست و توانا تھے اور وہ کیفیت بھی جب وہ بستر سے لگ گئے تھے، متوسط قد، ہنستا مسکراتا زندگی سے بھر پور کتا بی چہرہ، پیشانی کشادہ قدرے باہر کی جانب ابھری ہوئی، روشن آنکھیں، بالوں میں قدرے سفیدی، آخر میں سفیدی نمایاں تھی اور سر پر چند بال ہی رہ گئے تھے۔ پہلے کلین شیو تھے زندگی کے آخری سالوں میں داڑھی اور وہ بھی زیادہ سفید، لہجے میں نر می، آواز میں اعتماد، اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی الفاظ کا استعمال نمایاں تھا، ہر ایک سے جھک کر ملنا اور محبت سے پیش آنا، میں نے کبھی کوئی بھدی بات ان کی زبان سے نہیں سنی، کس قدر نفیس انسان اور کیسا پیارا دوست تھا، کس قدر جلد چلا گیا۔ شاید اچھے لوگ جلد ہی چلے جاتے ہیں :
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂنور ستہ اُس گھر کی نگہبانی کرے
۲۵ دسمبر ۲۰۰۶ء
سید امام کے بارے میں ایک تاثر
بندر روڈسے مسان روڈ تک
بعض شخصیات اس قدر متاثر کن ہوتی ہیں کہ انسان ان کی شخصیت اور اثرات سے ہمیشہ متاثر رہتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بلند اخلاق کی حامل شخصیت محسوس کرنے والے کو اپنے اثرات کی گرفت میں اس طرح محبوُس کر لیتی ہے کہ وہ اس کے لیے ایک مثال بن جاتا ہے۔ میری زندگی میں ایک ایسی ہی شخصیت سید امام مرحوم کی تھی۔ آپ ایک ملن سار، با اخلاق و با کردار، ، حق گو، برد بار، وضع دار، عجز و انکساری کا پیکر، مُتَدبرِ و مُتَدیِن، مُتشرِع و مُتشکرِانسان تھے۔ میری رائے میں وہ وحشتؔ کلکتوی کے اس شعر کا نمونہ تھے :
وحشتؔ کروں غرور تو کس بات پر کروں
پاتا ہوں میں تو اپنے سے بہتر ہر ایک کو
خوش اخلاقی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ جس سے آپ کا کوئی تعلق ہو یا جس سے کوئی فائدہ وابستہ ہو اس کے ساتھ خوش اخلاقی برتنا۔ دوسرے یہ کہ خوش اخلاقی کو اپنی عادت بنا لینا اور ہر ایک سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آنا، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ خوش اخلاقی کی پہلی قسم سے بھی آدمی کو کچھ نہ کچھ فائدہ ملتا ہے مگر خوش اخلاقی کی دوسری قسم کے فائدے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ میٹھی زبان، اچھا سلوک اس وقت بھی جب بہ ظاہر اس کا کوئی فائدہ نظر نہ آتا ہو تب بھی مفید ہے لیکن اگر وہ آدمی کا عام اخلاق بن جائے تو اس کے فائدوں کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ سید امام ان ہی آدمیوں میں سے تھے کہ جن کا اچھا اخلاق ان کی عام عادت بن چکا تھا وہ اپنے سے بڑوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ چھوٹوں کے ساتھ بھی ملنساری اور شفقت سے پیش آیا کرتے تھے، علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے :
خدا تو ملتا ہے، انسان ہی نہیں ملتا
یہ چیز وہ ہے جو دیکھی کہیں کہیں میں نے
گہرا سانولا رنگ، کتابی چہرہ، بڑی آنکھیں، کشادہ پیشانی، لانبا قد، چوڑا سینہ، مضبوط جسم، چہرے پر مسکراہٹ، آنکھوں میں سوجھ بوجھ کی چمک، آنکھوں پر گہرا سا چشمہ لگا ہوا۔ ابتدا میں کلین شیو بعد میں مختصر سی داڑھی رکھ لی تھی، کالے رنگ پر سفید بال حسین امتزاج تھا پھر سر کے بالوں اور داڑھی پر مہندی لگا کر سرخ کرنے لگے تھے۔ سنجیدہ طرز گفتگو، معلومات کا وسیع خزانہ، ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنے میں ماہر، سیاست سے گفتگو کی حد تک گہری دلچسپی، میں نے انہیں ایک مثالی انسان پایا۔ شادی ہوئی رخصتی کے وقت دلھن تو روتی ہی ہے (اُس زمانے میں ایسا ہی تھا اب قدریں بدلتی جا رہی ہیں، بیوٹی پارلر سے ہزاروں روپوں میں کرائے گئے میک اپ کی خاطر دلھن کو تلقین کی جاتی ہے کہ خبر دار رخصتی کے وقت اگر ایک بھی آنسونکالا) لیکن امام صاحب کی آنکھوں میں آنسو نمایاں تھے، دولھا بنے ہوئے رخصتی کے وقت تمام لوگوں کو صبر کی تلقین کر رہے تھے، شادی کے بعد عید آئی سسر نے کچھ رقم عیدی کے طور پر دی آپ نے عید کے حوالے سے مختصر باتیں کیں اور کہا کہ میری خوشی اس میں ہے کہ میں عیدی کے طور پر صرف ایک روپیہ لوں، چنانچہ آپ نے تمام رقم واپس کر دی اور صرف ایک روپیہ عیدی کے طور پر لے لیا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو امام صاحب کو دیگر لوگوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان کا اخلاق و کردار مشعل راہ ہے اور باعث تقلید بھی۔
رہن سہن انتہائی سادہ، بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کے پیچھے ایک پرانی بلڈنگ کی ددوسری منزل پر ایک کمرے کے فلیٹ میں رہا کرتے تھے۔ شادی مسان روڈ کی ایک بستی میں رہنے والے خاندان میں ہوئی ان کے ہمراہ ان کی ضعیف والدہ اور ایک بہن بھی تھیں، شادی کے بعد اپنے فلیٹ کے اوپر ایک چھو ٹا سا کمرہ تعمیر کرا لیا تھا۔ گھر کا ماحول انتہائی مذہبی تھا، ماں، بہن اور بیٹے صوم و صلواۃ کے سخت پابند، ہر وقت فرش پر جائے نماز بچھی ملتی تھی، نماز کے علاوہ کلام مجید کی تلاوت اور تسبیحات پڑھانا آپ کا معمول تھا۔ میں ان دنوں برنس روڈ پر واقع ایس ایم کالج کا طالب علم تھا، کبھی کبھار کالج سے واپسی پر امام صاحب کے گھر چلا جایا کرتا، امام صاحب بہت ہی محبت اور پیار سے ملتے، ان کی والدہ اور بہن بھی بہت نیک اور پر خلوص تھیں۔ امام صاحب کی شادی میرے والد صاحب کی پھو پھی زاد بہن سے ہوئی تھی شادی سے قبل وہ اور ہم نزدیک ہی رہا کرتے تھے، آپس میں قرابت اور محبت مثالی تھی جو بعد میں دوری میں بدل گئی۔ ان کی چھوٹی بہن ’’حمیرہ صمدانی ‘‘ میرے حقیقی عم جناب مغیث صمدانی کی شریک حیات تھیں۔ محترمہ عمہ حمیرہ صمدانی مرحومہ نیک، با اخلاق، ملن سار، محبت کرنے والی خاتون تھیں، دنیا سے بہت جلد چلی گئیں، نیک لوگ دنیا سے جلد ہی چلے جاتے ہیں، ان کے انتقال کی خبر مجھے اسلام آباد میں وکیل صمدانی صاحب کے گھر ملی تدفین میں شرکت نہ کر سکاجس کا مجھے ہر دم ملال رہتا ہے۔
سید صاحب کی شادی کا ایک واقعہ یہاں قلم بند کرنا ضروری سمجھتا ہوں، اس واقعہ سے یقین اور ایمان کی پختگی کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔ ان کی شادی کی تاریخ تو یاد نہیں البتہ اسقدر یاد ہے کہ اس دن قیامت کی بارش ہوئی گلیوں میں اسقدر پانی جمع ہو گیا کہ گھروں تک میں داخل ہو گیا، بارات کا وقت قریب آ گیا جو اسی موسلا دھار بارش میں آئی، اس زمانے میں شادی ہال کا فیشن نہیں تھا، گھروں کے سامنے شامیانے لگا کرتے تھے، بارش نے ان شامیانوں کو کملا کے رکھ دیا تھا، ہر ایک پریشانی کے عالم میں تھا، سب کے اوسان خطا تھے، بارات کالی پیلی ٹیکسیوں میں آئی، کم ہی لوگ ہوں گے، جس ٹیکسی میں دولھا تھا اسی ٹیکسی میں بری کا سامان اور زیورات بھی تھے، بارش نے سب کو مخبوط الحواس کر کے رکھ دیا تھا، باراتیوں کے حواس بھی باختہ تھے جس کے باعث وہ ٹیکسی سے بری کا سامان نکالنا بھول گئے اور ٹیکسی والا معمول کے مطابق چلا گیا، اللہ کی رحمت جاری و ساری تھی، نکاح کا وقت قریب آیا تو باراتیوں کو سامان کی سوجھی، ایک دوسرے سے معلوم کیا جاتا رہا، ہر ایک نے یہی کہا کہ ہم نے تو نہیں نکالا، اب سارا کھیل دھرا کا دھرا رہ گیا، لوگ ہکا بکا رہ گئے، یہ بات عام ہوئی کہ بری کا تمام تر سامان ٹیکسی سے نکالا ہی نہیں گیا، اب کیا ہو سکتا تھا، ٹیکسی کا نمبر نوٹ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمارے ہاں اس قسم کی باتوں کا رواج ہے، تمام لوگ شدید بارش اور طوفان سے تو پریشان تھے ہی اس ناگہانی نے رہی سہی کسر پوری کر دی، سید صاحب دولھا نبے ہوئے بھی مطمئن نظر آ رہے تھے، انہیں ا للہ کی ذات پر مکمل بھروسہ اور یقین تھا، انہیں دوسروں کو یہ کہتے سنا گیا کہ’ اللہ بہتر کرے گا انشاء اللہ سامان مل جائے گا‘، یقیناً ان کے دل و دماغ میں اس وقت قرآن مجید کی اس آیت کا مفہوم رہا ہو گا جس کا ترجمہ یہ ہے ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے مایوسی کفر ہے ‘‘ گو مہ گوں کی کیفیت جاری تھی، فیصلہ ہوا کہ نکاح کی رسم شروع کر دی جائے، قاضی نے رسم نکاح شروع کی، سید صاحب ایجاب و قبول کے جملے ادا کر رہے تھے دوسری جانب اللہ تعالیٰ نے اس ٹیکسی ڈرائیور کو نیک ہدایت سے نوازا، اس نے جوں ہی وہ سامان اپنی ٹیکسی میں دیکھا موسلا دھار بارش میں الٹے پاؤں سامان واپس کرنے پہنچ گیا افسر دہ چہروں اور بھیگے بدن کے ساتھ نکاح میں شریک لو گوں کے ہاتھ دعا کے لیے دراز تھے، بظاہر یہ دعا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے والے نو بیاہتا جوڑے کے لیے تھی لیکن سید صاحب کے دل میں کچھ اور ہی تھا جسے پروردگار نے قبول فرمایا، دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو منہ پر پھیرنے سے قبل وہ تمام سامان لوگوں کی نظروں کے سامنے تھا۔ یقین پختہ ہو گیا کہ دنیا میں نیک لوگ موجود ہیں، ٹیکسی ڈرائیور جو مالی طور پر یقیناً کمزور ہو گا شیطان کے دھوکے میں نہ آ سکا، اس پر نیکی غالب آ گئی، نیک صفت انسان کو کس کس نے دعا نہیں دی ہو گی۔ ٹیکسی ڈرائیور اپنے نیک عمل سے بہت کچھ کر گیا جسے ہم آج بھی اچھے نام سے یاد کرتے ہیں۔
سید صاحب عالم تو نہ تھے البتہ عامل ضرور تھے۔ جادو ٹونا، عملیات، سفلی عمل، اثرات کا اتار بھی کیا کرتے تھے لیکن یہ عام نہیں تھا، جاننے والے اگر ایسی مشکل میں آ جاتے تو امام صاحب سے ہی رجوع کیا جاتا۔ جِنّاَت کی موجودگی سےا نکار نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی اور ان سے پہلے جنات کو آگ سے پیدا کیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے تر جمہ ’’ اسی نے انسان کو ایسی مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح بجتی ہے پیدا کیا اور جنات کو خالص آگ سے پیدا کیا۔ ‘‘(سورۃ الرحمن: آیت ۱۴۔ ۱۵)۔ اسی سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے انسان و جن کو ایک ساتھ مخاطب کیا ہے تر جمہ ’’سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے ‘‘ (سورہ رحمٰن، آیت نمبر ۱۳)۔ جنات اچھے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں کو پریشان کرنے والے بھی، ایسی مثالیں عام ملتی ہیں یہ اس زمانے کا ذکر ہے کہ ہماری رہائش لیاری کے علاقے آگرہ تاج کالونی میں تھی، اسے مسان روڈ بھی کہا جاتا ہے، یہ رہائشی بستی جس قطعہ زمین پر مشتمل ہے یہاں قیام پاکستان سے قبل ہندوؤں کی رہائش کے ساتھ ساتھ مسان گھاٹ بھی تھا، اس بستی میں قائم غازی محمد بن قاسم اسکول جس میں راقم نے پہلی تا ششم تک تعلیم بھی حاصل کی ہندوؤں کی رہائش گاہ تھی۔ تاج جامعہ مسجد کے پاس ہندوؤں کا مسان گھاٹ بھی تھا جہاں پر ہندو اپنے مردوں کو جلایا کرتے تھے، یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ تک جاری رہا، مسلمانوں کی اکثریت جب اس علاقے میں آباد ہو گئی تو ہندو یہاں سے منتقل ہو گئے۔ اس بستی کے قیام کے ابتدائی دنوں میں اکثر زمین کی کھدائی کے دوران انسانی اعضاء نکلا کرتے تھے۔ یہاں ایک عامل ’’پانی والا بابا‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ میں اپنے دوستوں سبطین، ظفر، سعید، احمد، شکیل(پیارے ) کے ہمراہ اکثر اس عامل کے گھر جو غوثیہ روڈ پر واقع تھا اور ہر خاص و عام کے لیے کھلا رہتا چلے جاتے، اس وقت مقصد تماشہ دیکھنا ہوتا تھا۔ اس عامل کے پاس مرد، عورت اور بچے ایسے آتے جن کے بارے میں یہ یقین ہوتا کہ ان پر جن یا بھوت کا اثر ہے، یہ عامل تمام لوگوں کی موجودگی میں ہاتھ میں تسبیح لیے کچھ پڑھتا تھا ساتھ ہی مخصوص الفاظ بھی ادا کیا کرتا تھا، اس کے اس پڑھنے کے بعد جن یا بھوت کے اثر کا حامل مریض ہاتھ پیر مارنے لگتا اس کے قریب کے لوگ اسے پکڑنے کی کوشش کیا کرتے، اس کے بعد عامل اس مریض سے پوچھتا کہ کہ بتا کہ تو کون ہے جن یا بھوت؟ وہ اسے جواب دیتا کہ وہ کون ہے، یہ پوچھتا کہ تو نے اسے کب، کہاں اور کیوں پکڑا، جواب میں مریض کہتا کہ فلاں درخت کے نیچے، سنسان جگہ، قبرستان وغیرہ وغیرہ سے، وہ ان کی تعداد بھی معلوم کیا کرتا کہ وہ تعداد میں کتنے ہیں جواب میں وہ کبھی کہتا کہ ایک ہی ہوں، کھبی اپنے خاندان کے بارے میں بتا یا کرتا۔ اس کے بعد عامل اس کو جانے کے لیے کہتا اگر جن کمزور ہوتا تو چلا جاتا، کبھی عامل اسے بوتل میں بند کر دیا کرتا اور کبھی لوبان کی دھونی کے ذریعہ جلا دیا کرتا۔ ہم نے یہ صورت حال کئی برس دیکھی، یہ عامل ذات کا کچھی یا تُرک تھا۔ اس طرح راقم کو جِنّاَت کو سننے، انسانی روپ میں دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کا تجربہ رہا۔
میں نے اپنے گھر میں اپنی امی کی زبانی یہ بات کئی بار سنی ہوئی تھی کہ وہ جب چھو ٹی سی تھیں ابھی چلنا بھی شروع نہیں کیا تھا تو اکثر ایک سانپ ان سے کھیلا کرتا تھا، وہ ان کے گلے میں کبھی ایک جانب کبھی دوسری جانب گھومتا رہتا اور وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اسے پکڑتی اور کھیلا کرتی تھیں، جب کوئی ان کے پاس آ جاتا تو وہ غائب ہو جاتا، ان کے والدین نے کسی عامل کے ذریعے اس سانپ کو جو در اصل ’جن ‘تھا چلتا کیا۔ ہم بہن بھائی اکثر اپنی امی کو اس واقعہ کی یاد دلا کر مذاق کیا کرتے تھے۔ جن کے انسان پر وارد ہونے کا ایک واقعہ ہمارے خاندان میں یہ بھی مشہور تھا کہ امام صاحب کے سسر محترم حنیف احمد مرحوم جو میرے والد کے حقیقی پھوپھا تھے ہندوستان میں ایک مر تبہ ان پر ایک جن آ گیا بتا نے والوں نے بتا یا کہ جس وقت وہ ان پر یا ان میں موجود ہوتا تو وہ انگریزی میں گفتگو کیا کرتے تھے، گو یا جن انگریز تھا یا اس کی زبان انگریزی ہو گی۔ و اللہ عالم با لصواب، والد صاحب مرحوم (انیس احمد صمدانی) نے بتا یا تھا کہ ان کے والد یعنی میرے حقیقی دادا (حقیق احمد مرحوم) بھی عامل تھے اور جِنّاَت وغیرہ کے اثرات کا توڑ کیا کرتے تھے۔ جناب حنیف احمد مرحوم پر جو جن وارد ہوا اس کو انہوں نے ہی اپنے عمل کے ذریعہ دور کیا۔ میں بچپن ہی سے جِنّاَت وغیرہ کے بارے میں سنتا چلا آ رہا تھا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں امریکہ کے صدر آئیزن آور پاکستان تشریف لائے انہوں نے پی اے ایف بیس مسرور (اس وقت اس کا نام بیس ماری پور تھا) پر اتر نا تھا ماری پور روڈ کے کنارے جو کچی بستیاں تھیں جن میں آگرہ تاج کا لونی، انجام کالونی، کچھی کالونی وغیرہ انہیں حکومت نے منتقل کرنے کا منصوبہ بنا یا تا کہ امریکی صدر کو پاکستان کے غریب لوگوں کی غریب بستیاں دیکھنے کو نہ ملیں، لیاری ندی سے موجودہ وزیر مینشن تک ماری روڈ کے کنارے آباد ان بستیوں کو منتقل کر کے ملیر کے علاقے کھوکھرا پار کالونی میں آباد کر دیا گیا۔ ان بستیوں کو راتوں رات مسمار کیا گیا، پھر بھی کچھ گھر کھنڈرات کی صورت میں باقی رہ گئے۔ آئیزن آور ماری پور ائیر پورٹ پر اترے اور ماری پور روڈ سے گزرے، انہوں نے اسی سڑک پر بشیر احمد ساربان کو اپنی اونٹ گاڑی لیے دیکھا، وہ اس پر عاشق ہوئے اور اپنے ہمراہ امریکہ لے گئے۔ اس قصہ کی کہانی اخبارات کی زینت بھی بنی۔ ہمارا گھر محفوظ رہا لیکن اب اس کے سامنے دور تک ٹوٹے پھوٹے مکان، مٹی کے ڈھیر اور کھنڈرات تھے، رات کے وقت خاص طور پر خوف ناک منظر ہو تا، ایک شب میں تنہا اپنے گھر کی جانب آ رہا تھا گھُپ اندھیرا تھا، ٹوٹے پھوٹے گھر اور کھنڈرات خوف ناک منظر پیش کر رہے تھے ابھی میں اپنے گھر سے چند قدم پر ہی تھا کہ دو سے تین فٹ اونچا انسان نما، دیکھنے میں بونے قد کا انسان لگ رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے میرے سامنے آ گیا لیکن چند قدم دور آ کر رک گیا، اب میں اور وہ آمنے سامنے تھے وہ تو اطمینان سے تھا لیکن میرے اوسان خطا ہو چکے تھے، بدن کپ کپا رہا تھا، ، قدم وہیں رک گئے، واپسی کی صورت میں یہ خوف لاحق تھا کہ اگر میں نے واپسی کی اور اس کی جانب سے پیٹ ہو گئی تو یہ مجھے نقصان پہنچا سکتا ہے، اس وقت میرے آس پاس کوئی دوسرا نہیں تھا، میں ابھی فیصلہ کرنے ہی والا تھا کہ اس نے اپنا رخ میری جانب سے واپس موڑا اور تیزی کے ساتھ چلتے چلتے غائب ہو گیا۔ میں بمشکل تمام گھر پہنچا، تیز بخار اور سردی جو در اصل خوف تھا، بعض لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ جن تھا جو انسانی روپ میں اس جگہ اکثر نظر آتا ہے۔
۱۹۷۰ ء کی بات ہے میری امی کو بخار آ گیا، معمولی سی بات تھی، علاج ہوا اتر گیا لیکن کھانسی نہ گئی، ایسا بھی اکثر ہوتا ہے، کھانسی کی دوا استعمال کرتی رہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ آواز سے یہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے کوئی مرد کھانس رہا ہے، سب کو تشویش ہوئی، امام صاحب کی شادی میرے والد صاحب مرحوم کی پھوپھی زاد بہن کفیلہ (بائی) سے ہو چکی تھی، ان کی سسرال کا راستہ ہمارے گھر سے ہو کر جاتا تھا چنانچہ امام صاحب کا یہ معمول تھا کہ وہ زیادہ تر رات کو اپنے گھر واپس جاتے ہوئے ضرور آیا کرتے اور بہت بہت دیر بلکہ رات گئے تک باتیں کرتے رہتے، ہر موضوع پر تفصیل سے گفتگو کیا کرتے، ان کی گفتگو اس قدر شیریں اور پر اثر ہوا کرتی تھی کہ ہم سب ان کے ساتھ خوشی سے بیٹھے رہتے۔ جب انہیں امی کی اس کیفیت کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ میں کل آپ کو اس کے بارے میں بتاؤں گا، اگلے ہی دن وہ آئے اور کچھ تعویذ، پڑھا ہوا پانی اور ساتھ ہی ہمیں پڑھنے کے لیے کچھ بتا یا، انہوں نے یہ بھی بتا یا کہ ان پر (ہماری امی پر) کسی مرد جن کا اثر ہے، ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں، یہ کچھ نہیں کرے گا، اسے جانے میں کچھ وقت لگے گا۔ سارے بہن بھائی چھوٹے تھے، خوف زدہ ہو جانا ایک قدرتی عمل تھا، ان کی کھانسی اسی طرح جاری رہی، کھانستے وقت مرد کی آواز نمایاں ہوا کرتی لیکن کوئی اور بات کبھی نہیں ہوئی۔ امام صاحب کا عمل جاری رہا انہوں نے نے بتا یا کہ وہ رات میں پڑھائی بھی کرتے ہیں۔ چند روز گزرنے کے بعد ایک دن امی پر کھانسی کا شدید دورہ پڑا لیکن اس دورے کے باوجود ان میں وہ نقاہت یا کمزوری دیکھنے میں نہیں آئی۔ بیٹھے بیٹھے کھانس رہی تھیں البتہ اس دن انہوں نے مرد کی آواز میں بولنا شروع کیا چند جملے ہی ذہن میں ہیں، مرد کی آواز میں کہا کہ ’’میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا‘‘، ’’ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘، ’’تم لوگ مت ڈرو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا‘‘ وغیرہ وغیرہ، میں امی کے پاس ہی تھا، میری کسی بہن سے چائے کے لیے کہا کہ میں چائے پیوں گا، چائے بنا دی گئی، تھوڑی سے چائے پی، آدھا کپ چائے باقی تھی، مجھے مخاطب کیا، کہنے لگیں !تو میرا بیٹا ہے، میں نے کہا کہ ہاں ہوں، گویا ہوئیں ! میرا ایک کام کرے گا میں نے کہا کروں گا، پھر کہا کہ یہ کپ میں جو چائے ہے اسے دروازے کے باہر پھین کدے، بظاہر یہ عام سی بات تھی، لیکن اس وقت کچھ عجیب سا ڈر اور خوف کی کیفیت طاری تھی، میں نے کہا کہ اسے میز پر رکھ دیں، پھینکنے کی کیا ضرورت ہے، لیکن مصر ہوئیں کہ میں اسے باہر پھینک دوں، میں ان کے اصرار پر سمجھ گیا کہ بات کچھ اور ہے، میں نے ڈرتے ڈرتے ان کار کر دیا، کھانسی کے دورے میں بے انتہا اضافہ ہوا حتیٰ کہ رفتہ رفتہ کھانسی بند ہو گئی اور ان کی اس کیفیت میں بھی تبدیلی آ گئی یعنی وہ اپنی آواز میں باتیں کرنے لگیں، رات میں امام صاحب آئے تو انہیں اس کیفیت سے آگاہ کیا گیا انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے بہت اچھا کیا کہ چائے باہر دروازے پر نہیں پھینکی، ایسا کرنے کی صورت میں ’جن‘ ان کے اوپر سے تو چلا جاتا لیکن باہر دروازے پر اپنا بسیرا جما لیتا۔ اس طرح امام صاحب نے ہمیں ایک بڑی مشکل سے نجات دلائی۔
اکثر لوگ جِنّاَت کے ہاتھوں مشکل میں گرفتار ہونے والوں پر یقین نہیں کرتے اور انہیں نفسیاتی مریض سمجھتے ہیں۔ میرے کالج کے ایک پروفیسر ساتھی آجکل اسی پریشانی سے دوچار ہیں، خود میں جس گھر میں کوئی ۱۴ برس (۱۹۸۵ء۔ ۱۹۹۹ء) رہائش پذیر رہا، میرے منتقل ہو جانے کے بعد وہاں کے رہائشی اسی پریشانی سے دوچار ہوئے۔ چند سال پہلے کی بات ہے میں نارتھ کراچی سے گلشن اقبال منتقل ہو ا ہی تھا میرے ایک دوست جو ایک مقا می کالج کے پروفیسر ہیں کی بیوی (وہ بھی پروفیسر ہے ) اس مشکل سے دو چار ہوئی۔ میرا دوست سخت پریشانی میں تھا، ہر طرح کا علاج کرایا، حتیٰ کہ نفسیاتی معالج کا علاج بھی ہوا لیکن تمام علاج بے سود ثابت ہوئے۔ خاتون کی بعض حرکات جن کا ذکر میرا دوست کیا کرتا ایسی تھیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ معاملہ جِنّاَت کے اثر وغیرہ کا ہے۔ بہت عرصہ بعد اسے کسی عامل کے بارے میں معلوم ہوا، سردیوں کا زمانہ تھا میرے دوست نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں مجھے کسی نے ایک عامل کے بارے میں بتا یا ہے جو ڈیفنس کے پاس کسی کچی بستی میں رہتا ہے اس کے پاس بیگم کو لے جانا ہے اچھا ہے ایک سے دوہوں گے، نہ معلوم کیا صورت ہو، میں تیار ہو گیا، اس کی طبیعت واقعی خراب تھی، میں اس کے ساتھ ہو لیا، مغرب کے بعد وہ عامل مریضوں کو دیکھا کرتا تھا، ہم بعد نماز مغرب وہاں پہنچ گئے۔ کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے ان کو فارغ کرنے کے بعد اس عامل نے میرے دوست کی بیوی کو سامنے بٹھایا، اس کے برابر میرا دوست بیٹھا تھا اور اس کے برابر میں تھا، عامل نے تفصیل معلوم کی اور عمل شروع کر دیا، خاتون کا رنگ بدلنا شروع ہو گیا، بڑی بڑی آنکھیں باہر کی جانب، ہم سب کو گھور گھور کر دیکھنے لگی، عامل نے یہ محسوس کیا کہ جن آسانی سے نہیں جائے گا چنانچہ اس نے اپنے کارندوں کو کوئلے دہکانے کے لیے کہا، کمرے کی لائٹ مدھم کر دیں، عامل بہت زیادہ موٹے دانے والی تسبیح لے کر کھڑا ہو گیا اور تسبیح پڑھنے لگا، اتنے میں کوئلے دھک گئے، عامل نے دھکتے کوئلوں کو ایک مخصوص بر تن میں ڈال کر اس عورت کی ناک کے نیچے کیا اور ان پر چھوٹی سرخ مرچیں جن پر اس نے تسبیح پڑھنے کے بعد پھونک ماری تھی کوئلوں پر ڈال دیا، مرچوں کی دھونی سے ہم سب کا برا حال لیکن وہ عورت جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا، اس عامل نے ایک ہاتھ سے اس کے سر کے بال پکڑے دوسرے ہاتھ سے مرچوں کی دھونی اس کی ناک میں زبر دست طریقے سے دی، کافی دیر کے بعد اس پر کچھ اثر ہوا، عامل اس سے مخاطب ہوا، پوچھا کہ ’بتا تو کون ہے ‘؟ مردانہ آواز میں جواب دیا کہ’ میں جن ہوں ‘، دیگر سوال کیے کہ تو اس عورت کو چھوڑ دے، کہنے لگا کہ یہ میری بیوی ہے میں نہیں جاؤں گا وغیرہ وغیرہ، عامل نے یہ عمل دہرایا، مرچوں کی دھونی نے اس کمرے میں بیٹھے تمام لوگوں کا برا حال کر دیا تھا لیکن وہ عورت اطمینان سے تھی، آخر کار عامل نے ’جن‘ کو جانے پر مجبور کر دیا، اس نے جانے کا وعدہ تو کر لیا لیکن فوری طور پر نہیں گیا، ہم یہ سمجھے کہ وہ چلا گیا، واپسی کاسفر شروع ہوا، میرا دوست پہلے ہی بیمار تھا اس صورت حال کے بعد اسے سردی اور بخار ہو گیا، ڈیفنس سے گلشن اقبال تک کا سفر خاصا طویل تھا، میرے دوست کے لیے گاڑی چلانا ممکن نہیں تھا، اس نے مجھ سے گاڑی چلانے کے لیے کہا، یہ کوئی خاص بات نہیں تھی، وہ جب اگلی سیٹ پر بیٹھنے لگا اور بیوی کو پیچھے سیٹ پر بٹھا نے کے لیے دروازہ کھولا تو اس کی بیوی نے مر دانہ آواز میں کہا ’’ ہٹو میں آگے بیٹھوں گا‘‘، میں گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا، میں نے جب یہ جملہ سنا تو میرے ہوش گم ہو گئے میں سمجھ گیا کہ ابھی وہ یعنی ’جن ‘ اس عورت میں موجود ہے، اب کیا ہو سکتا تھا، میرا دوست پیچھے بیٹھ گیا، اس کے ساتھ اس کی کوئی۱۲ سال کی بیٹی بھی اس کے ساتھ پچھلی سیٹ پر تھی، میرا دوست بھی صورت حال محسوس کر رہا تھا، لیکن اس نے اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھا کہ گاڑی چلا سکتا، اللہ کا نام لے کر ہم روانہ ہوئے، وہ عورت نظر نیچی کیے خاموش بیٹھی تھی، گاڑی میں مکمل خاموشی تھی، میں گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ راز داری کے ساتھ اس عورت پر نظر رکھے ہوئے تھا، میں بھی یہ چاہتا تھا کہ خاموشی ٹوٹے، اسی لمحے میرے دوست نے اپنی بیوی کی خیریت پوچھی، شاید وہ بھی چاہتا تھا کہ خوف کا ماحول خوش گوار ماحول میں بدل جائے، اس کے بولتے ہی وہ عورت مردانہ آواز میں چلائی ’’خاموش بیٹھا رہے ‘‘، اس کے بعد وہ میری جانب مخاطب ہوئی، کہنے لگی ’’ تو خاموشی سے گاڑی چلا‘‘، میں نے اپنے دوست سے کچھ کہا، اس کے جواب میں وہ عورت مردانہ آواز میں مجھ پر برس پڑی، بولی، ’’ خاموش نہیں رہے گا، ابھی گاڑی سے نیچے پھینک دوں گا‘‘، اس کے اس جملے نے میرے ہوش گم کر دیے، میں اس خوف میں مبتلا ہو گیا کہ اگر اس نے چلتی گاڑی سے دھکا دے دیا تو کیا ہو گا، میرے بدن کا ایک ایک رُواں کھڑا تھا، بدن کپکپانے لگا، وہ یہ جملہ کہہ کر خاموش ہو گئی، میں بدستور گاڑی چلاتا رہا، جس قدر قرآنی آیات یاد تھیں وہ تمام مسلسل پڑھتا رہا اور دعا کرتا رہا کہ کسی بھی طرح منزل آ جائے، جب ہم شہید ملت روڈ کے پل پر پہنچے تووہ پھر مخاطب ہوئی، کہنے لگی ’’ پان کھلا اورسگریٹ پلا‘‘، میں نے جواب دیا کہ میں دونوں چیزیں نہیں استعمال کرتا اپنے میاں سے کہو وہ کھلائے گا، اب تو جناب وہ زور سے دھاڑی کہنے لگی ’سگریٹ کی دکان پر گاڑی روک، سنا نہیں تو نے، میں نے کہا کہ اچھا دکان آ جائے تو روکتا ہوں لیکن میں نے گاڑی کی اسپیڈ کم نہیں کی، وہ بھی اس کے بعد خاموش ہو رہی، گھر آ گیا، خدا کا شکر ادا کیا، چابی اپنے دوست کے حوالے کی اور اپنے گھر کی راہ لی۔ میرے دوست نے بتا یا کہ وہ رات بھر سوتی رہی، صبح اٹھی تو اسے ان تمام باتوں کا علم نہیں تھا کہ اس نے رات میں دو مردوں کو کس قدر خوف میں مبتلا کیا، اس نے بتا یا کہ اس عمل کے بعد اس کی بیوی ٹھیک ہو گئی۔ امام صاحب کی طرح کتنے ہی لوگ انسانوں کو مشکل سے نجات دلانے میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس نیک کام کی یقیناً جزا دے گا۔ یہ میری زندگی کا نہ بھولنے والا واقعہ ہے، جب کبھی مجھے اس کا خیال آ جاتا ہے ’ جن‘ سے ہونے والی گفتگو تازہ ہو جاتی ہے۔ اس واقعہ سے جِنّاَت پر میرا ایمان مزید پختہ ہو گیا۔ یقیناً اللہ کی یہ مخلوق موجود ہے۔ ان میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی۔ کلام مجید کی سُور ۂ جن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ تر جمہ ’’اور ہم میں سے (پہلے سے بھی) بعض نیک (ہوتے آئے ہیں ) اور بعض اور طرح کے (ہوتے آئے ہیں ‘‘۔ ( آیت نمبر ۱۱ )، اسی سُورۂ میں کہا گیا کہ ’’ آپ ن لوگوں سے کہیے کہ میرے پاس اس بات کی وحی آئی ہے کہ جِنّاَت میں سے ایک جماعت نے قرآن سناپھر (اپنی قوم میں واپس جا کر انہوں نے کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو راہِ راست بتلاتا ہے سو ہم تو اس پر ایمان لے آئے اور اب اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے ‘‘۔ (سُورۂ جن، آیت نمبر ۱۔ ۲ )
امام صاحب اب ہم میں نہیں اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب ہو۔ میں ان کی شخصیت سے متاثر تھا، ان کے اچھے اخلاق اورحُسنِ تعلق نے مجھے ان کی شخصیت پر قلم اٹھا نے پر مجبور کیا۔
۳۰ دسمبر ۲۰۰۶ء
شیخ لئیق احمد
ایک شخصیت۔ ۔ ایک مطالعہ
یو تو زندگی میں بے شمار لوگوں سے واستہ پڑتا ہے، کسی سے کبھی کبھار ملاقات ہو تی ہے تو کسی سے اکثر ملاقاتیں رہتی ہیں۔ ایسی شخصیات بہت کم ہوتی ہیں کہ جن سے مل کر خوش گوار تاثر قائم ہو اور آئندہ پھر سے ملنے کی خواہش بر قرار رہے میرے خاندان میں ایسی ہی ایک شخصیت شیخ لئیق احمد کی تھی۔ وہ بہ ظاہر تو معمولی آدمی تھے لیکن میں سمجھتا ہوں وہ ہر گز ہر گز معمولی آدمی نہیں تھے کیونکہ جس آدمی نے ساری زندگی حالات، ماحول اور معاشرے سے جنگ کی اور کبھی ہار نہیں مانی وہ معمولی آدمی کیسے ہو سکتا ہے۔ لئیق احمد جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے دکھ ہوتا ہے، وہ بوڑھے ضرور ہو چکے تھے لیکن بڑھاپے کی اس منزل تک ہر گز نہ پہنچے تھے جس کے ساتھ موت کا تصور وابستہ ہے۔ مگر موت تو بر حق ہے، کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا بلاوا کب اور کس وقت آ جائے، ہمیں ہر حال میں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوتا ہے کہ موت بر حق ہے۔
موت سے کس کو دست کاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
لئیق احمد ان لوگوں میں سے تھے جن کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت نظر آتی ہے۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے میں نے انہیں اس وقت دیکھا جب میں پانچویں یا چھٹی جماعت میں تھا، ہم کراچی کی ایک کچی بستی آگرہ تاج کالونی میں رہا کرتے تھے۔ کچھ کچا اور کچھ پّکّا لیکن کشادہ مکان تھا، جس میں ہمارا خاندان یعنی امی، ابا، سات بہن بھائیوں کے علاوہ ہمارے دو چچا(جلیس احمد اور مغیث احمد) اور دو پھوپھیاں (موبینہ خاتون اور تسلیمہ خاتون) بھی رہا کرتے تھے۔ کمانے والے ہمارے والد صاحب ہی تھے، ہم سب بہن بھائی چھوٹے اور پڑھ رہے تھے، شاید ہمارے چچا بھی کچھ کرنے لگے تھے، صحیح یاد نہیں، گزر بسر اچھے طریقے سے ہو رہا تھا کیوں کہ والد صاحب اور والدہ دونوں ہی فضول خرچ نہیں تھے، قناعت پسند تھے، تھوڑے کو بہت جانتے تھے، ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں کو ہی دیکھا کرتے تھے، ہم نے انہیں کبھی اپنے سے اوپر والوں کے بارے میں بات کرتے نہیں سنا۔ ہماری امی کے حقیقی بھائی اور بہنیں کراچی میں نہیں تھے، لئیق احمد صاحب ہماری امی کے کسی رشتہ سے بھائی ہوتے تھے، ان کی حقیقی بہن ہماری امی کے بڑے بھائی جناب زبیر احمد سبزواری کی شریک حیات تھیں۔ اس رشتہ سے ہماری امی انہیں ’’ بھائی لئیق ‘‘ اور ان کی بیگم کو ’’بھابی ‘‘ کہا کرتیں اور ہم سب انہیں لئیق ماموں اور ان کی بیگم کو ’’مامی‘‘ کہتے ہیں، مامی (بیگم لئیق احمد) کے ایک حقیقی بھائی جناب ’احمد حسن ‘‘ ان دنوں ہمارے پڑوسی بھی تھے، انہیں سب لوگ کیپٹن صاحب کہا کرتے تھے کیوں کہ یہ فٹبال کے بہت اچھے کھلا ڑی ہونے کے ساتھ پاکستان ٹوبیکو کمپنی کی فٹبال ٹیم کے کیپٹن تھے، بہت ہی ہنس مکھ، خیال کرنے والے اور ملنسار انسان تھے۔ انہیں بھی ہم ماموں ہی کہا کرتے تھے۔ ان دونوں خاندانوں کا ہمارے گھر آنا جانا تھا، شیخ لئیق اُن دنوں پوسٹ آفس میں کام کیا کرتے تھے اور کورنگی کریک میں ان کی پوسٹنگ تھی اس سے پہلے کسی اور جگہ رہی ہو گی میرے علم میں نہیں، ہمارے اور ان کے گھر میں کئی میل کا فاصلہ تھا اس کے با وجود آنا جانا رہتا تھا، اکثر عید و بقر عید سے ایک روز قبل یہ ہمارے گھر آ جاتے ایک ساتھ خوشیاں منانے کی روایت قائم تھی۔ اس وقت ان کے دو ہی بچے ’’مینا اور پپو‘‘ تھے، خوش حال زندگی بسرہو رہی تھے، وقت گزرتا گیا، بچے دو سے نو ہو گئے، ملازمت بدستور جاری رہی اسی دوران وہ نامساعد حالات سے دوچار ہوئے ملازمت جاتی رہی لیکن خوددار تھے، حالات کا مقابلہ کرتے رہے، اتنی مشکل آن پڑی کے کرائے کے گھر میں رہنا بھی مشکل ہو گیا، مجبوراً ہمارے والد صاحب سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا انہوں نے بے چوں و چراں کرایہ کا مکان چھوڑ کر اپنے گھر منتقل ہونے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ انہیں بمعہ ساز و سامان اپنے گھر لے آئے۔ ہمارے والد صاحب اللہ مغفرت کرے کسی بھی اپنے یا پرائے کا دکھ تکلیف نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جہاں تک ممکن ہوتا اس کی مدد کرنے میں کسی سے مشورہ کرنا تو دور کی بات دیر نہیں کرتے تھے۔
یہ پہلا واقعہ نہ تھا وہ ایسا پہلے بھی کئی بار کر چکے تھے۔
میرے والد صاحب قبلہ انیس احمد مرحوم کے ماموں جناب غلام مصطفی سبزواری مرحوم کے سالے ضمیرحسن سبزواری مالی طور پر پریشانی کا شکار ہوئے اور ان کے ساتھ بھی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ کرایہ کے مکان میں رہنا مشکل ہو گیا۔ اس وقت بھی ہمارے والد صاحب نے انہیں اپنے گھر میں پناہ دی، ہمارے گھر کا صحن کافی بڑا تھا، کمرے تو شاید ایک یا دو ہی تھے، آنگن میں جھونپڑی ڈالی اور ہنسی خو شی کافی عرصہ رہتے رہے۔ یہ وہ وقت تھا جب ناظر بھائی پڑھ رہے تھے، بعد میں انہوں نے بی ای کیا اور سول انجینئر ہو گئے۔ ہم ناظر بھائی کے والد صاحب کو ضمیر تا یا کہا کرتے تھے۔ اللہ مغفرت کرے بے حد ہنس مکھ اور مذاقیہ واقع ہوئے تھے، وہ جتنے دن ہمارے گھر میں رہے، گھر میں ہر وقت محفل جمی رہتی اور سب ان کے لطیفوں جن میں زیادہ تر ان کی آب بیتی ہوا کرتی تھی محظوظ ہوتے رہتے۔ ایک واقعہ سنا یا کہ وہ ہندوستان میں چند دوستوں کے ہمراہ رات میں شاید اپنی نوکری سے فارغ ہو کر آ رہے تھے راستہ سنسان تھا، گھپ اندھیرا بھی، کہتے ہیں کہ اتنے میں ایک خوبصورت عورت ہمارے سامنے آ گئی، ہمارے اوسان اس وقت خطا ہو گئے جب ہماری نظر اس کے پیروں پر پڑی، اس کے پیر الٹے تھے ان کے کہنے کے مطابق وہ چڑیل تھی، کہنے لگے کہ وہ کبھی ہمارے آگے اور کبھی ہمارے پیچھے، یہی نہیں بلکہ کچھ دیر بعد وہ عورت کے بجائے بکری کا بچہ بن کر ہمارے آگے اور پیچھے چلنے لگی، انہوں نے کہا کہ میں چڑیل کو بھگا نے کی ترکیب اپنے کسی بزرگ سے سن چکا تھا، ہم اس زمانے میں دھوتی پہنا کرتے تھے، اس وقت بھی دھوتی پہنی ہوئی تھے، میں نے تو بھئی اپنی دھوتی نیچے سے اٹھائی اور اوپر کاندھوں پر ڈال لی۔ جوں ہی میں نے یہ ترکیب استعمال کی چڑیل رفو چکر ہو گئی اور ہم دوستوں کی جان میں جان آئی۔ اسی طرح کی بے شماری باتیں اور لطیفے وہ ہر وقت سناتے رہتے تھے۔ مچھلی کے شکار کے بے انتہا شوقین تھے۔ یہ خاندان ہمارے گھر کے آنگن میں کافی عرصہ رہا۔ جب حالات بہتر ہو گئے تو انہوں نے اپنا مکان کرائے پر لے لیا۔ اسی طرح لئیق ماموں کے خاندان نے بھی ہمارے گھر میں کچھ وقت گزارا، یہ وہ وقت تھا جب ان کے تمام ہی بچے چھوٹے تھے کسی بچے نے میٹرک بھی نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود بہت اچھا وقت گزرا، لئیق ماموں اور مامی دونوں ہی فراخ دل، در گذر کرنے والے اور ر نیک طبیعت تھے، کچھ عرصے بعد حالات بہتر ہو گئے تو انہوں نے ہمارے گھر کے سامنے ہی کرایے کا مکان لے لیا اور اس میں رہنے لگے۔
خاندانوں کو اپنے گھر پناہ دینے کے علاوہ انفرادی طور پر مختلف شخصیات کو دوران تعلیم اپنے گھر رکھنا، ان کے کھانے پینے کا ا اہتمام کرنا بھی ہمارے والد صاحب مرحوم کی زندگی کا حصہ تھا۔ ، ہمارے خاندان کے وہ احباب جو اندرون ملک سے کراچی میں حصول تعلیم کے لیے آئے اکثر کو ہمارے والد صاحب نے اپنے گھر پناہ دی اور جب تک انہوں نے اپنی تعلیم مکمل نہ کر لی، ان کی تمام تر سہولیات کا خیال رکھا، مجھے ان میں سے بعض کے بارے میں علم ہے، ایک شیخ طاہر حسن جو میرے والد صاحب کے چچا ’’ مفیق احمد مرحوم‘‘ کے متبنیٰ بیٹے تھے، اس وقت ملتان میں وکالت کرتے ہیں، دوسرے شاہد احمد صدیقی واجد احمد مرحوم کے صاحبزادے تھے۔ ہم نے کسی لمحے اپنے والد صاحب کی زبان سے یہ بات نہیں سنی کہ انہوں نے کسی کے ساتھ کوئی احسان کیا، گویا وہ نیکی کر کے بھول جانے والوں میں سے تھے۔ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ یہی حکمِ خداوندی بھی ہے۔ سورۃ النحل آیت نمبر ۹۰، ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔ ‘‘۔ میری یاد داشت میں ہے کہ شکیل احمد سبزواری جو میرے ماموں زاد بھائی ہیں جب پنجاب سے کراچی آئے تو ہمارے ہی گھر قیام کیا۔ صوفی محمد احمد مرحوم بھی بہت عرصہ ہمارے ہی گھر میں رہے۔
۱۹۶۸ء کی بات ہے میں میٹرک کر چکا تھا، میرا تعلیمی ریکارڈ بہت نمایاں نہیں تھا، بس نارمل تھا۔ ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ فیصلہ ہوا کہ میں کوئی ٹیکنیکل لائن اختیار کروں، ساتھ ہی اپنی پڑھائی بھی جاری رکھوں۔ چنانچہ میں نے عبداللہ ہارون کالج میں شام کی شفٹ میں داخلہ لے لیا۔ لئیق ماموں جو پاکستان مشین ٹول فیکٹری میں ملازم تھے، انہوں نے مجھے فیکٹری میں شروع ہونے والی اپرنٹس شپApprenticeship )میں بھر تی کرا دیا۔ یہ خالصتاً ٹیکنیکل کام تھا۔ شروع کے دو ماہ لوہے کے ٹکڑوں کوبنچ (Bench) پر کس نے کے بعد فائل کے ذریعہ مخصوص طریقے سے گھسنا ہوتا تھا۔ دو ماہ کے بعد کارکردگی کی بنیاد پر کوئی مشین مین بن جاتا، کوئی خراد مشین(Lathe Machine) کا کاریگر تو کوئی بنچ فٹر ہی رہتا، میں ہر روز فجر کے وقت گھر سے نکلتا، بس کے ذریعہ سٹی اسٹیشن پہنچتا اور وہاں سے مہران ایکسپر یس کے ذریعہ جو ۶ بجے چلا کرتی تھی مشین ٹول فیکٹری پہنچا کرتا۔ مر پٹ کر میں نے دو ماہ گزار لیے اس کے بعد مجھ میں یہ ہمت نہیں تھی کہ میں اسے جاری رکھ سکتا، چنانچہ میں نے بغیر اطلاع کے ٹول فیکٹری جانا بند کر دیا۔ لئیق ماموں کیوں کہ آفس میں تھے اس وجہ سے میری جاں بخشی ہو گئی ورنہ شاید پو لس کے ذریعہ بلوا لیا جاتا۔ یہ میری زندگی کی اولین ملازمت یا ایسی پڑھائی تھی کہ جس کے بعد روزگار کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ لئیق ماموں اکثر کہا کرتے تھے کہ تمہارا بیج ٹول فیکٹری کا اولین بیج تھا، کافی ترقی ہوتی، لیکن اس قدر سخت محنت کا کام میرے بس کی بات نہیں تھی۔ مجھے تو قلم چلانا تھا اور تعلیم کے میدان میں رہنا تھا خراد مشین کا ’’خرادیہ‘‘ کیسے بن سکتا تھا۔
شیخ لئیق احمد خوبصورت انسانوں میں سے تھے، ہنستی صورت، موہنی مورت، گوری رنگت، لمبا قد، دلکش کتابی چہرہ، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، غلافی آنکھیں، صورت شکل، وضع قطع، چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل، وضع داری اور معصومیت کا خوش گوار اظہار، اردو غزل میں محبوب کا جو نقشہ شاعر کے ذہن میں ہوتا ہے وہ سب کچھ آپ کی شخصیت میں نمایاں تھا۔ خوش پوشی، جامہ زیبی، عام لباس میں بھی ایک پھبن، با وقار، حلیم و بردبار، معاملہ فہم، گفتار میں نر می اور مٹھاس، جب بھی ملاقات ہوئی لطافت اور محبت کا احساس ہوا۔ اگر کوئی صنف نازک ان صفات کی ہو تو بھلا کیسے شاعروں اور عاشقوں کی نظروں سے اوجھل رہ سکتی ہے اسی طرح ایک مرد آہن اس قدر خو بصورت، پر وجاہت اور جاذب نظر ہو تو نا چاہتے ہوئے بھی صنف نازک کی نظروں سے کیسے بچ سکتا تھا۔ اس میں ان کا کوئی قصور نہ تھا، اپنے آپ کو بہت بچا یا، محفوظ رکھا لیکن انسان تو پھر انسان ہے، خطا کا پتلا بھی چنانچہ وہ بھی زندگی کے کسی حصہ میں جب کہ ان کی پوسٹنگ جناح اسپتال کے پوسٹ آفس میں تھی کسی چاہنے والے کی چاہت میں گرفتار ہو گئے۔ لیکن انہوں نے بہت جلد یہ محسوس کر لیا کہ ان پر بہت ذمہ داریاں ہیں، وہ تو ایک ایسے گلشن کے باغباں ہیں کہ جسے کئی ننھے ننھے پودوں کی آبیاری کرنا ہے انہیں پروان چڑھانا ہے، ابھی تو کلیوں نے پھول بننا ہے، پودوں نے تنا ور درخت کا روپ دھارنا ہے۔ اگر باغباں نے اپنے گلشن سے توجہ کہیں اور کر لی تو گلشن اجڑ جائے گا اور وہ تمام کلیاں اور پھول بن کھلے ہی مرجھا جائیں گے۔ باغباں کو یہ کیسے گوارا ہو سکتا تھا اس نے اپنے رب سے توبہ کی اور اپنا راستہ بدل لیا۔
پاکستان مشین ٹول فیکٹری میں ملازمت مل چکی تھی اور ملیر کے علاقے کھو کھرا پار کالونی میں مکان خرید لیا تھا۔ آپ اپنے بچوں کے ساتھ خوش و خرم رہنے لگے۔ زندگی کی گاڑی پھر سے پٹری پر آ گئی، بچے بڑے ہو رہے تھے کچھ تعلیم حاصل کر رہے تے اور کچھ بر سر روزگار بھی ہو چکے تھے، بڑی بیٹی اور بڑے دو بیٹوں کی شادی بھی کر چکے تھے۔ یہ ۱۹۹۰ء کی دیہائی تھی جو پاکستان میں منفردسیاسی کلچر لیے ہوئے تھی جس نے سندھ کے شہری علاقوں کو ایک نیا سیاسی کلچر دیا۔ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد عملی سیا ست میں حصہ لینے لگی، گھر کے بڑے بزرگ دیکھتے ہی رہ گئے، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس کے بچے اس سیاست سے محفوظ رہے ہوں۔ لئیق احمد کے بچے بھی اس سیاست سے دوچار ہوئے، بڑے بیٹے خالد مر تضیٰ نے اسٹیل مل میں ملازمت کے ساتھ ساتھ مزدور یونین میں نام پیدا کیا، اس دور میں یونین کا چیر مین اسٹیل مل کے چیر مین سے کچھ کم نہ تھا، ہزاروں مزدوروں کی سربرہی بڑا اعزاز تھاساتھ ہی رعب و دبدبہ، دوسرے بیٹے بھی بر سرِ روزگار ہو گئے، حالات بہتر ہوئے، مالی خوش حالی آئی، گلشن پھلنے ولنے لگا، باغ باں فرط مسرت سے پھولے نہ سماتا تھا، اپنے گلستان کی کلیوں اور پھولوں کو دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا، مگر فلکِ کج رفتار کو گلستاں کا رنگ و بو ایک آنکھ نہ بھایا، آتشِ حسد سے جل اُٹھا، تیور بدلنے لگے۔ چرخِ کہن کی جبیں شکن آلود ہو گئی۔ ہواؤں نے اس کی حاسد تمازت جذب کر لی اور اپنی نرم لطافت، آسودگی کھو بیٹھیں، رات کے بگولے اُڑ نے لگے، ہواؤں کے جھکڑ چلنے لگے۔ حالات نے پھر سے پلٹا کھا یا، کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے خلاف فو جی آپریشن شروع ہوا، آگ اور خون کا بازار گرم ہوا، بے شمار لوگ مارے گے، کچھ رو پوش ہو گئے، بعض ملک سے ہی فرار ہو گئے۔ معروف شاعر پروفیسر عنایت علی خان نے اپنی ایک نظم ’’یہ کراچی ہے ‘‘ میں اس دور کے کراچی کا حقیقی نقشہ کھینچا ہے :
یار دکھلا نا شام کا اخبار
کون زخمی ہیں کون مر دہ ہیں؟
شکر ہے ان میں اپنا نام نہیں
گو یا ہم شام تک تو زندہ ہیں ؟
ان حالات سے لئیق احمد کا خاندان بھی متاثر ہوا، نوبت یہاں تک پہنچی کے اپنے بھرے گھرکو رات کی تاریکی میں خیرباد کہنا پڑا، بالکل اس طرح جیسے ۱۹۴۷ء میں مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نے بے سروسامانی کے عالم میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تھی، لئیق احمد کو پاکستان میں ایک اور ہجرت کرنا پڑی، انہوں نے اپنے بھرے گھر کو خیرباد کہا۔ ابتدا میں تمام اہل خانہ نے ہمارے ہی گھر قیام کیا، بعد میں کہیں اور رہائش اختیار کی، حالات بہتر ہونے کے بعد اپنے گھر گلبرگ منتقل ہو گئے۔
سیاسی حالات کے بہتر ہو جانے کے بعد زندگی میں ایک بار پھر سے ٹھہراؤ آیا، حالات اچھے ہو گئے، تمام بچے بر سرِروزگار ہو گئے، آپ نے اپنی دو بیٹیوں (شمو، بانو) کی شادی کر دی اور وہ اپنے گھر کی ہوئیں۔ اس سے قبل آپ اپنی دو بیٹیوں (مینا، گو گی) کی شادی پہلے ہی کر چکے تھے۔ بیٹیوں کے فرض سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ مرحلہ تیسرے بیٹے کامران( مننے ) کی شادی کا تھا۔ ایک دن میں شہناز کے ہمراہ ان کے گھر گیا ہوا تھا باتوں ہی باتوں میں شادی کا ذکر آیا، شہناز نے کہا کہ میری ایک دوست کی بیٹی اچھی ہے، اگر مناسب خیال کریں تو دیکھ لیں۔ ان دنوں میرا تبادلہ عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج سے گورنمنٹ گرلز کالج، فیڈرل بی ایریا، بلاک ۱۶ میں ہو گیا تھا، اس وقت یہ بچی (سعدیہ ) اس کالج میں انٹر میں پڑھا کرتی تھی، میں نے بھی اسے دیکھا ہوا تھا، میں نے شہناز سے اتفاق کرتے ہوئے رشتہ سے اتفاق کیا، ماموں اور مامی دونوں نے کہا کہ ٹھیک ہے دیکھ لیتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد ہم ان کے ہمراہ شہناز کی دوست (عشرت زبیر) کے گھر گئے ماموں نے ایک نظر اس بچی کو دیکھا اور فیصلہ کیا کہ ہمیں منظور ہے، بات آگے بڑھی اور شادی ہو گئی، الحمد اللہ آج یہ چوڑی اپنے گھر میں مثالی تصور کی جاتی ہے۔ دونوں گھرانے خوش ہیں۔ اتنی ہی خوشی ہمیں بھی ہے۔
لئیق احمد صاحب کے ایک بیٹے شوکت ضیاء (شبو) کا مجھ پر ایک ایسا احسان ہے جسے میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔ یہ ۱۹۷۵ء کی بات ہے میں نے ایم اے کرنے کے بعد ملازمت اور اس کے ساتھ ساتھ لکھنے کی ابتدا کی تھی، اردو میں ایک کتاب مرتب تو کر لی تھی اس کی اشاعت سے قبل ٹائپنگ کا مرحلہ در پیش تھا، کیوں کہ اس کتاب پر کم سے کم خرچ کرنا تھا، چنانچہ طے ہوا کہ اس کتاب کے اردو ٹائپ رائٹر پر اسٹینسل کٹوا لیے جائیں، اس وقت کمپیوٹر ہمارے ملک میں نہیں آیا تھا، یہ اردو ٹائپ رائٹر اور اسٹینسل کا زمانہ تھا، نہ معلوم کیسے شوکت (شبو )سے ملاقات ہوئی اور میں نے اپنی اس مشکل کا ذکر اس سے کیا، اس وقت وہ کسی کمپنی میں شاید بن قاسم میں ملازم تھا اور انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو ٹائپنگ بھی جانتا تھا۔ اس نے مجھ سے یہ کام کرنے کو کہا میں نے بھی موقع غنیمت جانا اسے مسودہ دے دیا۔ شبو نے چند روز میں پوری کتاب کے اسٹینسل کاٹ کر لا دئے ، اس طرح میری پہلی کتاب ’’پاکستان میں سائنسی و فنی ادب ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی، لکھنے اور چھپنے کا سلسلہ جو آج سے ۳۲ سال قبل شروع ہوا تھا الحمد للہ آج بھی جاری ہے۔ شبو نے اسٹینسلا پنے ہی پاس سے استعمال کیے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کم از کم اسٹینسل کی قیمت ہی ادا کر دوں لیکن اس نے ایک نا سنی، میں جب بھی اپنی اس کتاب کو دیکھتا ہوں شبو کے عمل کو یاد ضرور کرتا ہوں۔ اس کے اس عمل نے مجھے لکھنے اور چھپنے کی ایسی راہ دکھائی کہ میں طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اسی راہ کا مسافر ہو کر رہ گیا ہوں۔
۳۱ ما رچ ۲۰۰۶ء جمعہ کی نماز پڑھ کر گھر میں جوں ہی داخل ہوا شہناز جو ٹیلی فون پر کسی سے بات کر رہی تھیں میری جانب متوجہ ہوئیں اور کہا کہ لئیق ماموں کا انتقال ہو گیا، میرے پیروں تلے جیسے زمین نکل گئی ہو۔ نا بیماری کی خبر، نہ اسپتال میں داخل ہونے کی اطلاع، پھر اچانک یہ کیا ہوا۔ معلوم ہوا کہ وہ لیاقت نیشنل اسپتال میں ہیں، میں فوری طور پراسپتال پہنچ گیا، وہ ایمرجنسی وارڈ کے ایک بیڈ پر سفید چادر میں ملبوس تنہا موجود تھے، معلوم ہوا کہ ان کے ہمراہ جو احباب ہیں وہ اسپتال سے ان کی رخصت کی کاروائی میں مصروف ہیں، ایسا محسوس ہوا کہ اسپتال کا عملہ انہیں اس دنیا سے رخصت کر کے کچھ دیر پہلے ہی فارغ ہوا ہے، چادر پر تازہ خون واضح تھا، دونوں ہاتھ بینڈیچ کے ذریعہ بیڈ سے بندھے ہوئے اور دونوں ہاتھوں میں انجکشن یا ڈریپ کے لیے کینو لا (Cannula) لگا ہوا تھے ، گردن میں بھی ایک جانب کینولا لگا ہوا تھاجس کے ذریعہ ایک ٹیوب دل کی جانب پاس کی گئی تھی۔ شیو بڑھی ہوئی تھی جس سے اندازہ ہوا کہ وہ چند روز سے اس قابل نہیں تھے کہ شیو ہی بنا لیتے، ورنہ وہ تو عام زندگی میں صاف شفاف رہنے کے عادی تھے، چہرے سے نقاہت، افسردگی، تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے، ان کے چہرے سے یہ احساس نمایاں تھا کہ موت نے انہیں ابھی ابھی مات دی ہے، روح کو ان کے جسے رخصت ہوئے کچھ دیر ہی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنی ہمت و طاقت کے مطابق ملک الموت کا مقابلہ کیا لیکن پھر یہ سوچ کر ہتھیار ڈال دئے کہ یہ من جانب اللہ ہے، میرا وقت پورا ہو چکا ہے، جس قدر زندگی مجھے عطا کی گئی تھی وہ پوری ہوئی، یہ سفر اب اختتام کو پہنچا اور اب اس عالم فانی سے ایک نئے اور ابدی سفر کا آغاز ہونا ہے، اور پھر اپنی جان اپنے خالق کے سپرد کری۔ میں ان کے برابر موجود تھا، انہیں ٹک ٹکی باندھے دیکھ رہا تھا، ان سے تعلق کے حوالے سے ایک فلم ذہن میں چل رہی تھی، ان کے ساتھ گزرے لمحات، ملاقاتیں اور واقعات ایک ایک کر کے نظروں کے سامنے تھے۔ اسپتال کے ایک کارکن نے انہیں اسپتال سے رخصت کرنے کے انتظامات شروع کیے، گردن میں داخل ایک ٹیوب باہر نکالی جس کے ساتھ ان کا تازہ خون بھی باہر آیا، دونوں ہاتھوں میں لگے ہوئے ’کینولے ‘ نکالے گئے، نئی سفید چادر میں لپیٹا گیا، اس عمل میں میں اس کارکن کی مدد کرتا رہا۔ تیاری مکمل ہوئی اور ایمبو لینس میں گھر کی جانب روانہ ہوئے، میں اپنی گاڑی میں ساتھ ساتھ تھا، گھر پہنچے جہاں ان کے اہل خانہ نے آہوں اور سسکیوں میں ان کا استقبال کیا، وہاں موجود ہر فرد آنسوں بہا رہا تھا، بین کرتی ہوئے ان کی بیٹیاں اور بیٹے اور دیگر عزیز و عقارب نوحہ کناں تھے۔ لاہور اور اسلام آباد سے ان کی ایک بیٹی اور بیٹے کو پہنچنا تھا، رات ہو چکی تھی چنانچہ فیصلہ ہوا کہ تدفین صبح ہو، غسل دینے کے بعد ان کے جستدخاکی کو ایدھی کے سرد خانہ میں رکھوا دیا گیا، ، صبح تدفین ہوئی، سیکڑوں کی تعداد میں احباب ان کے سفر آخرت میں شریک تھے جن میں ان کے عزیز رشتہ دار، دوست احباب اور کراچی کی انتظامیہ کے لوگ بھی بڑی شامل تھے۔ قومی و صوبائی اسمبلی کے بعض اراکین، وزراء اور متحدہ قومی موو منٹ کے بے شمار کارکن بھی شریک سفر تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
اپنے جد امجد شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں :
ہم نشیں پوچھتے کیا ہو میرے دل کی حالت
صدمہ کیا دے گئے دنیا سے جانے والے
۱۴ اگست ۲۰۰۷ء
منظور احمد بٹ
ایک مخلص سماجی کار کن
۹مارچ ۲۰۰۷ء جمعہ کا دن میں کالج جانے کی تیاری میں تھا ٹیلی فون کی گھنٹی بجی بیگم نے کہا کہ ممتاز زیدی صاحب کا فون ہے۔ زیدی صاحب میرے بچپن سے جوانی تک کے ساتھی، عمر میں فرق کے با وجود میرے دوست، کرم فرما اور محبت سے پیش آنے والوں میں سے ہیں۔ میرے گھر کا ہر فرد ممتاز زیدی صاحب سے اچھی طرح واقف اور متعارف ہے۔ سلام دعا ہوئی، گھر کے تمام افراد کی خیریت دریافت کی، چند ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد گویا ہوئے رئیس بھائی ایک افسوس ناک خبر یہ ہے کہ منظور بٹ صاحب کا انتقال ہو گیا۔ میں یہ جملہ سن کر سنا ٹے میں آ گیا۔ منظور بٹ صاحب ہمارے دیرینہ ساتھی، دوست بلکہ گھر کے فرد کی طرح تھے۔ زیدی صاحب نے تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے بتا یا کہ مجھے ظفر صدیقی نے فون کر کے بتا یا ہے شاید رات کے کسی پہر دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ زیدی صاحب نے بتا یا کہ ابھی کوئی ایک ہفتہ قبل انہوں نے مجھے اور جمال صاحب کو بلا یا تھا اور ہم ان کے گھر گئے تھے تو وہ بالکل ٹھیک تھے کسی بھی قسم کی کوئی بات نہ تو انہوں نے کی اور نہ ہی ہمیں ان کی گفتگو یا ظاہری صحت کے حوالہ سے محسوس ہوئی۔ مختصر یہ کہ میں اور زیدی صاحب کافی دیر بٹ صاحب کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ خدا حافظ اس بات پر کیا کہ بٹ صاحب کے گھر ملاقات ہو گی۔
جمعہ کا دن تھا میں پہلے ہی کالج سے لیٹ ہو گیا تھا، کالج جانا بھی ضروری تھا کیوں کہ ہفتہ کو چہلم کی چھٹی آ رہی تھی، اسی روز میرے بیٹے نبیل کا ایم بی بی ایس فائنل ائر کا دوسرا پرچہ بھی تھا۔ میں اپنے تمام بچوں کو امتحان والے روز امتحانی مرکز پر از خود چھوڑ کر آتا ہوں، یہ میرا معمول رہا ہے، آج بھی مجھے ایسا ہی کرنا تھا، کالج کے لیے روانہ ہوا، راستہ میں گاڑی چلاتے ہوئے ذہن منظور بٹ صاحب کے بارے میں سوچتا رہا، ان کے ساتھ گزرے طویل دور کی ایک ریل چلتی رہی۔ کالج پہنچنے تک میں نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے کالج سے براہِ راست بٹ صاحب کے گھر چلے جانا چاہیے، سو ایسا ہی کیا، کالج میں حاضری لگا کر میں سائٹ سے ہوتا ہوا بٹ صاحب کے گھر آگرہ تاج کالونی پہنچ گیا۔ بٹ صاحب کے بیٹے ’’گو گے ‘‘سے ملا وہ مجھے سیدھا بٹ صاحب کے پاس لے گیا جو نہائے دھوئے، سفید لباس میں ملبوس گہوارہ میں ابدی نیند سو رہے تھے۔ شبانہ روز سماجی، سیاسی اور جمہوری سر گرمیوں میں مصروف رہنے والا، سراپا حرکت اور سراپا فکر و عمل، سیماب صفت اور پیہم مضطرب و مضطر، جہاں گشت و جہاں گرد نہایت ہی اطمینان و سکون میں آ چکا تھا۔ ان کے گرد دیگر خواتین کے علاوہ بھابی(بیگم منظور بٹ) اور ان کی بیٹیاں افسردہ، غموں سے چور موجود تھیں۔ بھابی نے مجھے دیکھا تو شدت غم سے گویا ہوئیں کہ’ رئیس تمہارے بٹ صاحب چلے گئے، انہیں دیکھ لو ‘میں نے خواتین کو راستہ دینے کا اشارہ کیا اور گہوارے کے بالکل نزدیک چہرے کی جانب ہو گیا، کچھ دیر ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا، چہرہ متعُوب، غموں اور فکروں سے آزاد، ایسا لگا کہ کوئی مسافر طویل مسافت طے کرنے کے بعد آخر کار تھک کر سو گیا ہے اور یہ سوچ کر آنکھیں موند لی ہیں کہ اب بہت ہو چکا، یہ آنکھیں ساری زندگی کھلی رہی تھیں، یہ جسم ساری زندگی متحرک رہا تھا، بٹ صاحب کو رات کے کسی پہر بھی کسی نے مدد کے لیے پکارا توہر بات کی پروا کیے بغیر وہ اس کے ساتھ ہو لیا کرتے، لیکن آج یہ آنکھیں بند تھیں، جسم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر متحرک ہو چکا تھا۔ چند منٹ میں اپنے دوست کو دیکھتا رہا لیکن اس کیفیت کو زیادہ دیر جاری رکھنا مشکل تھا، بچیاں اپنے باپ کے گرد بیٹھیں بین کر رہی تھیں، میں نے اپنے اندر اسقدر سکت بھی نہ پائی کہ انہیں تسلی دیتا، میں ان کے کرب کو محسوس کر رہا تھا، ماں یا باپ کی ہمیشہ کی جدائی ایک ایسا تکلیف دہ صدمہ ہوتا ہے جس کی کسک انسان تمام زندگی محسوس کرتا ہے۔ میں نے اپنے دوست کی پیشانی کا بوسہ لیا اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہہ کر واپس ہوا ۔
ع ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگ نا گہانی اور ہے
عزیز رشتہ دار، دوست احباب، سماجی اور سیاسی کارکن جوق در جوق چلے آ رہے تھے دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا ایک بڑا ہجوم بٹ صاحب کے سفر آخر میں شمولیت کے لیے پہنچ گیا۔ جمعہ کی نماز کے بعد آگرہ تاج کالونی کے ’’ دہلی پارک‘‘ جس کے قیام میں منظور بٹ صاحب نے رات دن صرف کیے تھے ان کی نماز جنازہ ہو نا تھی۔ بٹ صاحب کے تمام دوست پہنچ چکے تھے، لوگ ٹولیوں میں ادھر اُدھر کھڑے بٹ صاحب کے بارے میں ماضی کی یادوں کو تازہ کر رہے تھے، ان میں سید جمال احمد، سید ممتاز علی زیدی، مغیث احمد صمدانی، سبطین رضوی، ظفر احمد صدیقی، شیث احمد صمدانی، بابواسماعیل، ارشاد قاضی، صادق حسین دور دراز سے پہنچنے والوں میں سے تھے یہ تمام بٹ صاحب کے تاج ویلفیر سینٹر کے ساتھیوں میں سے تھے۔ ایک جانب بٹ صاحب کے بھانجے زاہد رفیق بٹ جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے لوگوں کے ہمراہ اپنا غم بانٹ رہے تھے۔ ایک طرف شہنشاہ حسین اپنے پی پی کے دوستوں کے درمیان تھے، مسلم لیگ (ن) کے رہنما سلیم ضیاء بھی موجود تھے جو اپنی جسامت کی وجہ سے نمایاں تھے ان کے ساتھ ان کی جماعت کے ساتھی بھی تھے، امان اللہ، اور تاج الدین صدیقی بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ محوِ گفتگو تھے۔ مختلف سیاسی وسماجی شخصیات نے بھی تدفین میں شرکت کی ان میں وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر طارق رحیم، ممبر سندھ صوبائی اسمبلی، سلیم ھنگورو، ناظم ہمایوں خان، شاہ میر خان، ماما یونس بلوچ، بابو اسماعیل، رانا اشفاق رسول، فاروق اعوان، اعجاز حسن، سعید اختر پرویز، مجیب الرحمٰن صدیقی، ملک رفیق اعوان، راجہ مشتاق ملک حیات، محمد انور نیازی شامل تھے۔ روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سید غوث علی شاہ نے منظور بٹ صاحب کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔
جمعہ کی نماز کا وقت قریب آ گیا، تمام لوگ نماز کے لیے جانے لگے، قریب میں موجود میرے دوست قاضی ارشاد نے کہا کہ میں تو تاج مسجد میں نماز ادا کروں گا، اس کے جواب میں، میں نے بر جستہ کہا کہ تم اپنے باپ کی مسجد میں جاؤ میں اپنے باپ کی مسجد ’’حنفیہ جامع مسجد‘‘میں نماز پڑھوں گا، میرے اس جملہ پر قریب میں موجود لوگ محظُوظ ہوئے، در اصل جب ہم آگرہ تاج کالونی میں رہا کرتے تھے تو قاضی ارشاد تاج مسجد کے سامنے رہا کرتے تھے اس وجہ سے ان کے والد اس مسجد میں نماز پڑھتے اور اس کے انتظامی امور میں شامل تھے جب کہ میرے گھر کے قریب حنفیہ جامع مسجد تھی، اس مسجد کی تعمیر میں میں نے اپنے والد کو مزدوری کرتے ہوئے دیکھا، بعد میں وہ اس کے انتظامی معاملات میں شریک رہے، اس تعلق کے حوالے سے میں نے اُس وقت یہ کہا کہ میں اپنے باپ کی مسجد میں نماز ادا کروں گا، مجھے اس مسجد سے اس وجہ سے بھی زیادہ عقیدت اور محبت ہے کہ میرے والد مرحوم اس کی تعمیر میں شریک رہے تھے اور انہوں نے اس مسجد میں کئی برس نماز ادا کی۔ ہم آگرہ تاج کالونی سے دستگیر سو سائٹی منتقل ہوئے تو میرے والد صاحب یٰسین آباد کی مسجد قبا میں نماز ادا کرنے لگے اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس مسجد میں اور ایک مخصوص جگہ یعنی اول صف میں امام صاحب کے انتہائی دائیں جانب وہ نماز ادا کیا کرتے تھے، وہ اذان ہوتے ہی مسجد چلے جایا کرتے اس وجہ سے انہیں اپنی مخصوص جگہ ہی مل جایا کرتی، اس مناسبت سے میں جب کبھی اس بستی میں جاتا ہوں تو میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس مسجد میں اور اس جگہ پر نماز ادا کروں جہاں میرے والد صاحب مرحوم نے اپنی زندگی کے نا معلوم کتنے سجدے اد کیے۔ اس مسجد اور اس مخصوص جگہ سے مجھے ایک خاص عقیدت اور انسیت ہے مجھے وہاں سے اپنے والد مرحوم کی خوشبو آتی ہے۔ میں نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس جگہ کو بطور خاص بوسہ بھی دیتا ہوں جہاں پر میرے مرحوم والد سجدہ میں رہا کرتے تھے۔
منظور بٹ صاحب کا جنازہ آہوں اور سسکیوں میں دہلی گراؤنڈ لا یا گیا، دہلی گراؤنڈ بٹ صاحب کے عقیدت مندوں، محبت کرنے والوں، عزیز و اقارب اور دوستوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، نماز جنازہ کسی غیر معروف امام نے ادا کی، نماز پڑھا کر وہ امام صاحب تیز قدموں، مجمع کو چیر تے ہوئے واپس لوٹتے دیکھے گئے، شا ید ان کے عقائد میں نماز جنازہ کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ضروری نہیں۔ مولانا غلام دستگیر افغانی جو حنفیہ جامعہ مسجد کے پیش امام اور منظور بٹ صاحب کے دوستوں میں سے تھے نماز جنازہ تو نہ پڑھا سکے البتہ نماز کے بعد انہوں نے دعا کرائی، ہر آنکھ نم تھی، سارے دل افسر دہ تھے، سب لوگ بٹ صاحب سے اپنے تعلق کے حوالے سے محو گفتگو تھے، لوگ ان کی اچھائیوں کو بیان کر رہے تھے۔ بلا تفریق ہر ایک کے دکھ درد میں کام آنے والا، غریبوں کا ہمدرد، علاقے کے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے جس نے اپنی زندگی وقف کر دی، اپنے چاہنے والوں، ہمدردوں، عزیزوں، رشتہ داروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر اپنے ابدی سفر کی جانب روانہ ہو چکا تھا۔ کاروں، بسوں اور موٹر سائیکلوں پر مشتمل قافلہ شیر شاہ قبرستان پہنچا جہاں بٹ صاحب کی آخری آرام گاہ ان کے انتظار میں اپنا دامن واہ کیے ہوئے تھی۔ مرحوم کو اپنے جواں سال بیٹے مسعواحمد بٹ عرف پپو کی قبر کے برابر ہی جگہ ملی ان کا یہ بیٹا جوانی میں ایک حادثہ میں جاں بہ حق ہو گیا تھا۔ وہ جو زندگی میں کسی کا احسان اٹھانے کو تیار نہیں ہوتا تھا دوش احباب پر سوار بہ مجبوری اللہ کے گھر پہنچ گیا۔
شہر خموشاں میں جسد خاکی کو لحد میں اتارنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں لوگ دور دور تک ادھر اُدھر قبروں کے درمیان ٹولیوں میں محوِ گفتگو تھے۔ میں بھی افسردہ ایک قبر کی اونچی سی دیوار پر ٹیک لگائے اپنے محلہ، پڑوس، رشتہ دار، دوست، احباب، جانے انجانے جو اس قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں کے بارے میں سوچ رہا تھا، ان تمام احباب کی قبریں ایک ایک کر کے میری نظروں کے سامنے آ رہی تھیں جن کے سفر آخرت میں میں شریک رہا تھا، ان میں میرے حقیقی دادا جناب حقیق احمد مرحوم (بارشوں اور سیلاب نے ان کی قبر کا نشان ہی مٹا دیا)، حنیف احمد صمدانی، حمیرہ صمدانی(میرے حقیقی عم جناب مغیث احمد صمدانی کی شریک حیات)، خادم الا انبیاء سبزواری(میرے والد صاحب کے ماموں ) اور میرا دوست محمد وسیم جو عین جوانی میں موٹر سائیکل کے حادثہ میں جاں بحق ہو گیا تھا، ان احباب کے قبریں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں، جمیلہ خاتون(والدہ ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری)، سید امام، والدہ اور ہمشیرہ سید امام، شعیب صمدانی، والدہ شعیب صمدانی کے علاوہ ننھی معصوم سی بھانجی (ناہید کی بیٹی)، جلیس چچا مرحوم کا ننھا سا بیٹا، فیاض صاحب، عثمان اور دیگر دوست احباب، پڑوسی جو اس قبرستان میں مدفون ہیں سب کی مغفرت کی دعا کر رہا تھا کہ اچانک سامنے والی قبر پر نظر گئی جس کے کتبے کو پڑھ کر میں اپنے ماضی میں کھو گیا، لکھا تھا ’’ عبد الستار عرف ملو ولد کلو، عمر ۹۰ برس آگرہ تاج کالونی‘‘، یہ اس دودھ والے کی قبر تھی جس کے دودھ کے باڑے سے ہم ایک طویل عرصہ تک دودھ لاتے رہے تھے، آگرہ تاج کالونی میں ملو کا باڑہ بہت مشہور تھا، میں نے اپنے دوستوں ظفر، سبطین اور جمال صاحب جو میرے قریب ہی موجود تھے متوجہ کیا اور پوچھا کہ یہ شخص کون ہے ؟ انہوں نے بھی کتبہ پڑھا اور کہا کہ یہ تو ملو دودھ والے کی قبر ہے۔ اب ہم سب اپنے ماضی کی یادوں میں چلے گئے، ملو کا باڑہ، حاجی مراد راشن شاپ والے جہاں سے ہم راشن لایا کرتے تھے ( اس زمانے میں راشن کارڈ کا نظام رائج تھا)، بلدیہ کا لگا ہوا پانی کا وہ نل جہاں سے ہم ’بہنگی‘ (ایک بانس یا ڈنڈا جس کے دونوں طرف پانی کے ڈول اٹھا نے کے لیے رسیاں بندھی ہوتی ہیں )کے ذریعہ پانی لایا کرتے تھے، حاجی کی لکڑی کی وہ ٹال جہاں سے ہم لکڑیاں لایا کرتے تھے، کبیر صاحب اور فیروز صاحب کی پرچون کی دکانیں، قدیر خان کی کرائے کی سائیکلوں کی دکان جہاں سے ہم کرائے پر سائیکل لے کر گھر والوں کو بتائے بغیر خوب گھوما کرتے تھے اور شیخ صاحب بڑے گوشت کی دکان والے المختصر یہ کہ قبرستان کی اس غم ناک فضاء میں ہم سب اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے رہے اور پھر دکھی دل کے ساتھ بٹ صاحب کا جسد خاکی لحد میں اتار دیا گیا، فاتحہ ہوئی اور ہم اپنے ایک دیرینہ دوست کو اپنے ہاتھوں مٹی کے سپرد کر کے واپس ہوئے۔
کہتے ہیں آج ذوقؔ جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا ‘ خدا مغفرت کرے
مجھے یاد نہیں آتا کہ میں منظور بٹ صاحب سے پہلی بار کب ملا تھا لیکن ماضی کی یادوں میں ادھر اُ دھر ہاتھ مارتا ہوا قدم بڑھاتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ میں نے بٹ صاحب کو کشمیر کے ایک حسین نوجوان کے روپ میں دیکھا تھا جس نے تازہ تازہ شیو بنا نا شروع کی تھی، اس نوجوان کو باڈی بلڈنگ کا شوق تھا، لمبا قد، دبلا پتلا، گورا رنگ، گھنی بھنویں، روشن پیشانی، کتا بی چہرہ پر وجاہت اور شرافت، آنکھوں میں چمک، لہجہ میں معصومیت اور معمولی سی لکنت، چہرے مہرے اور وضع قطع سے کشمیر کا حسن نما یاں تھا، ابتدا میں پینٹ اور شرٹ بعد میں پینٹ اور بوشرٹ پہنا کرتے تھے، گھر میں ڈھیلے پائینچے کا پیجامہ (پتلون نما ) اور اس کے اوپر اسی رنگ کا بوشرٹ ان کا خاص لباس تھا، وضع دارانسان تھے۔ ان دنوں میں کالج میں پڑھا کرتا تھا اور اپنے محلے کے ساتھیوں کے ساتھ کھیل کود کے علاوہ فلاحی کاموں میں بھی شریک رہا کرتا۔ ان میں سے اکثر مجھ سے عمر میں بڑے بھی تھے، ان نوجوانوں نے علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے ایک سماجی ادارہ ’’تاج ویلفیئر سینٹر‘‘ ۱۹۶۰ء میں قائم کیا تھا، جہاں اہل محلہ چھوٹے بڑے کھیل کود کے علاوہ فلاحی کاموں میں مصروف رہا کرتے۔ بہت ہی اچھا ماحول تھا، بڑے اپنے چھوٹوں کا حد درجہ خیال کیا کرتے، چھوٹے اپنے بڑوں کے احترام کے ساتھ ان کے شریک رہا کرتے، گویا چھوٹوں کے لیے یہ ایک تر بیت گاہ تھی۔ در حقیقت میں نے اس ماحول سے بہت کچھ سیکھا، محفل میں گفتگو کرنا، مجمع کے سامنے اسٹیج پر تقریر کرنے کا حوصلہ مجھ میں اسی دور میں پیدا ہوا۔ میرا بچپن اور جوانی اسی جگہ گزری، میں نے اسی علاقے کے اسکولوں پہلے قومی انجمن پرائمری اسکول بعدہ غازی محمد بن قاسم ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، ایس ایم کالج سے انٹر، عبدا للہ ہارون کالج سے بی اے کیا، بعد ازاں اسی کالج میں ۲۳سال ملازمت کی۔ اس ماحول سے میں تہذیبی اور تمدنی زندگی کی اعلیٰ قدروں سے واقف ہوا، یہی وجہ ہے کہ لڑکپن کے یہ تہذیبی نقوش میرے ذہن و دل پر آج بھی مرتسم ہیں۔
تاج ویلفئر سینٹر ایک ایسا فلاحی ادارہ تھا جس نے اپنے اراکین میں خدمت خلق کا مثالی جذبہ پیدا کر دیا تھا، مختلف سیاسی نظریات کے حامل، مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف قومیتوں سے تعلق اور مختلف مذہبی عقائد رکھنے کے با وجود اس ادارے سے منسلک لوگ اپنے آپ کو ایک ہی خاندان کا فرد تصور کیا کرتے تھے۔ ہر ایک کے دکھ درد خوشی یا غمی میں عزیز رشتہ داروں سے بڑھ کر شریک رہا کرتے۔ خلوص، محبت، ہمدردی، با ہمی شفقت، اخوت، بھائی چارہ کے اس ماحول کو کبھی بھلا یا نہیں جا سکتا۔ شاید ہم میں سے کسی کو بھی وہ ماحول زندگی میں دوبارہ نہیں مل سکا۔ منظور احمد بٹ نے بھی اسی ماحول سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، ان کی فلاحی کاموں کی تر بیت اسی ماحول میں ہوئی جس نے انہیں ایک مخلص، بے لوث اور کبھی نہ تھکنے والا سماجی کارکن بنا دیا۔ اس شخص کو شب و روز لوگوں کی خدمت کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہ تھا۔
تاج و یلفئر سینٹر کے ہر سال انتخابات ہوا کرتے تھے جس میں عہدیداران کا انتخاب عمل میں آتا، ۱۹۷۳ء کے انتخابات میں منظور احمد بٹ صاحب صدر اور میں جنرل سیکریٹری منتخب ہوا، اس سے قبل ان عہدوں پر جناب مظہر الحق، انیس فاروقی، سید ممتاز علی زیدی، سید جمال احمد، شیش احمد صمدانی اور دیگر احباب خدمات انجام دے چکے تھے۔ بٹ صاحب سے میری قریبی دوستی کا یہ نقطہ آغاز تھا۔ نائب صدور سید ممتاز علی زیدی اور سید جمال احمد، جوائنٹ سیکریٹری ظفر احمد صدیقی، سو شل سیکریڑی سید سبطین رضوی، تعلیمی سیکریٹری ابرار حسین، اسپورٹس سیکریٹری جلیس احمد، ہیلتھ سیکریٹری سراج الحق، آفس سیکریٹری محمد اقبال اور خازن سید اختر حسین شاہ منتخب ہوئے تھے۔ اس ادارے کی تاریخ میں پہلی بار سینئر اور جونیئر ایک ساتھ عہدیدار منتخب ہوئے، جس کا بنیادی مقصد اپنے چھوٹوں کی تر بیت اور انہیں مستقبل کے لیے تیار کرنا تھا۔
منظور بٹ صاحب کی زبان میں لکنت تھی اور وہ جملے کی ادائیگی کے درمیان کسی کسی وقت اٹک جا یا کرتے تھے، اسی لیے وہ تقریر کرنے سے بھی گریز کیا کرتے تھے۔ نئی مجلس منتظمہ کی تقریب حلف بر داری منعقد ہوئی۔ الیکشن چیئر مین کے فرائض محمد اشرف چودھری نے انجام دئے تھے، تقریب میں وہ نو منتخب صدر سے حلف لے رہے تھے۔ منظور بٹ صاحب نے ہکلاتے ہوئے حلف نامہ پڑھنا شروع کیا ’’میں منظور احمد بٹ ولد۔ ۔ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر عہد کرتا ہوں کہ میں۔ ۔ وغیرہ وغیرہ) خالی جگہ انہیں اپنے والد صاحب کا نام لینا تھا، انہوں نے حلف نامہ پڑھنا شرع کیا اور اپنے نام کے بعد اپنے والد کا نام ’’اللہ دتہ‘‘ لینے کے بجائے انہوں نے کہا ’’ میں منظور احمد بٹ ولد اللہ تعالیٰ۔ ۔ ‘‘ جب انہوں نے یہ جملہ ادا کیا تو تقریب میں موجود تمام لوگ محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکے، زور دار قہقہہ لگا، بٹ صاحب کی یہ بات ہمیشہ انہیں یاد دلائی جاتی تھی، وہ بھی اس پر ہنس دیا کرتے۔
منظور بٹ صاحب بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، ایک طویل عرصہ بٹ صاحب کے ساتھ گزرا، شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا ہو گا جب کہ ہم دوست آپس میں نہ ملا کرتے ہوں۔ ہمدرد، در گزر کرنے والے، انہیں کبھی غصہ میں نہیں دیکھا، غریبوں کی خاموشی سے مدد کرنے والے، دوستوں پرپیسہ خرچ کر کے بھول جانے والوں میں سے تھے۔ مالی طور پر خوش حال تھے، اللہ نے آپ کو خوب دولت دی تھی انہوں نے اسے فیاضی کے ساتھ خرچ بھی کیا۔ خرچ کر کے کبھی زبان پر نہیں لائے، الیکٹرک کنٹریکٹر تھے، روزنامہ جنگ کی تقریباً تمام عمارتوں کی الیکٹریفیکیشن انہوں نے ہی کی تھی، طارق روڈ پر طارق سینٹر کی وائرنگ، حسین ڈی سلوا اور کئی بڑی عمارتوں کی وائرنگ انہوں نے کی تھی۔ وہ کراچی کے بڑے ٹھیکیداروں میں سے تھے۔ سادگی کا یہ عالم کہ پوری زندگی ویسپا اسکوٹر پر گزار دی، حالانکہ وہ کار ہی نہیں بلکہ پجیرو بھی رکھ سکتے تھے، میں اکثر اپنے دوستوں سے کہا کرتا کہ اگر آپ کو بٹ صاحب سے ملاقات کرنی ہے تو کراچی کے کسی بھی راؤنڈ اباؤٹ پر کھڑے ہو جائیں بٹ صاحب اپنی ویسپا پر کم از کم ایک بار وہاں سے ضرور گزریں گے۔
منظور بٹ پیدائشی مسلم لیگی تھے۔ ہارون برادران (یوسف ہارون، محمود ہارون اور سعید ہارون) ان کے سیاسی لیڈر تھے۔ وہ ان سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ جب تک یہ احباب محمود ہارون اور سعید ہارون حیات تھے بٹ صاحب کے سیاسی معاملات انہیں کے زیر عصر رہے۔ وہ مرتے دم تک مسلم لیگی رہے لیکن ان کے دیگر سیاسی جما عتوں کے کارکنوں کے ساتھ بھی دوستانہ مراسم تھے۔ وہ۱۹۸۸ء میں علاقے کے ’’کونسلر‘‘ بھی منتخب ہوئے اور علاقے کے بے شمار دیرینہ مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئے، دہلی پارک جس میں ان کی نماز جنازہ بھی ادا کی گئی مرحوم کی عملی کاوشوں کا ہی ثمر ہے۔ اس پارک کے افتتاح (۱۹۷۹ء) پر انہوں نے ایک سوو ینئر بعنوان ’’حلقہ نمبر ۱، بلدیہ دور کی دو سالہ کارکردگی ‘‘بھی شائع کیا جو ان کی عوامی خدمات کی دستاویز ہے۔ تاج ویلفیئر سینٹر کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے اس ادارے کی ترقی کے لیے جو کوششیں کیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں لیکن افسوس وہ اس ادارے کی عمارت اپنی زندگی میں تعمیر نہ کراس کے۔ زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے کسی ٹھیکیدار کے ہاتھوں کوئی معاہدہ کر لیا تھا جس کے مطابق وہ ٹھیکیدار اس جگہ عمارت تعمیر کرے گا اور زمینی منزل اس ادارے کو دے دے گا۔
افسوس وہ اس ادارے کی عمارت کی تعمیر سے قبل ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔
تاج ویلفیر سینٹر کے عہدیداران اور بٹ صاحب کے دوستوں کا ایک تعزیتی اجلاس جناب محمد اشرف چودھری (ایڈوو کیٹ) کی رہائش گاہ واقع گلشن اقبال میں منعقد ہوا جس میں بڑی تعداد میں احباب نے شرکت کی۔ شریک دوستوں نے بٹ صاحب سے تعلق اور تاج ویلفیئر سینٹر میں گزرے دنوں کے حوالے سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، ان میں سید ممتاز علی زیدی، سید جمال احمد، سید حیدر رضاء، مغیث احمد صمدانی، چودھری محمد اشرف، شیش احمد صمدانی، سبطین رضوی، ظفر احمد صدیقی، احمد حسین، محمد صادق، قاضی محمد ارشاد، شکیل احمد اور راقم الحروف شامل تھا۔ اجلاس میں بٹ صاحب مرحوم کی ان خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا جو انہوں نے ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے انجام دیں۔
کوئی بھی انسان خامیوں سے مبرا نہیں ہوتا، منظور بٹ میں بھی خامیاں اور بعض کمزوریاں تھیں۔ ان کے دوست ان کی بعض باتوں سے اختلاف کیا کرتے اور بر ملا ان باتوں کا اظہار بھی ان سے کیا کرتے تھے وہ ان باتوں کو ہنس کر ٹال جاتے اور ایک خاص جملہ ’’کوئی نہ، کوئی نہ‘‘ کہہ کر خاموش کرا دیا کرتے۔ اب وہ اچھی جگہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین !
وہ دن وہ محفلیں وہ شگفتہ مزاج لوگ
موج زمانہ لے گئی نہ جانے ان کو کس طرف
۱۳ مئی ۲۰۰۷ء
٭٭٭
پروفیسر اختر حنیف
شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ کراچی کے ایک استاد
دنیا فانی ہے، موت ایک فطری عمل اور حقیقت ہے اس بات پر پختہ یقین اور ایمان ہونے کے باوجود کبھی کبھی کسی کی موت ایک قابل یقین واقعہ بن جاتی ہے اور دل و دماغ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ پروفیسر اختر حنیف کی موت بھی اسی زمرہ میں آتی ہے۔ ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۵ء کو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گئے۔ انا اللہ و انا علیہ راجعون۔
پروفیسر اختر حنیف اب ہم میں نہیں لیکن ان کی یادیں، اعلیٰ کردار اور حسن اخلاق ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔ وہ شرافت کا پیکر، تصنع و بناوٹ سے پاک، کم گو اور خاموش طبع ہونے کے ساتھ ساتھ صاف ذہن و دل کے مالک تھے۔ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں ۲۶ مئی ۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئے، بی اے ۱۹۵۴ء میں میرٹھ کالج سے کیا، دو سال بعد ۱۹۵۶ء میں پاکستان ہجرت کی اور اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی کی ایک قدیم بستی ’’بہار کالونی ‘‘ کو اپنا مسکن بنایا۔ ہندوستان سے نقل مکانی، ڈاکٹر عبد المعید سے تعلق اور پاکستان لائبریرین شپ سے اپنی وابستگی کا ذکر اختر حنیف نے اپنے ایک مضمون اس طرح کیا کہ ’’ہم لوگ ۱۹۵۶ء میں ہندوستان سے نقل وطن کر کے پاکستان آئے اور کراچی میں بہار کالونی میں سکونت اختیار کی اپنے مکان کے سامنے سے سوٹ میں ملبوس ایک پر کشش شخصیت کو صبح و شام آفس جاتے ہوئے دیکھتا تھا۔ مکان کے سامنے سے بہت سے لوگ آتے جاتے تھے مگر اس انسان میں کچھ عجیب سے جاذبیت تھی جو میرے ذہن میں اب تک محفوظ ہے ایک دن تعارف بھی ہو گیا۔ مسلم لیگ کے اخبار ’منشور‘ کے ایڈیٹر حسن ریاض صاحب جو بہار کالونی ہی میں مقیم تھے سے ملاقات ہوئی اور معلوم ہوا کہ آپ عبدالمعید ہیں اور کراچی یونیورسٹی کے لائبریرین ہیں۔ اب سلام دعا ہونے لگی۔ ایک دن ہمارے ہاں بڑے بھائی صاحب کے دوست محمود اختر صاحب آئے اور ’پاکستان لائبریری ریویو‘ کا پہلا شمارہ دیا وہ اس کے ناشر تھے اور کراچی یونیورسٹی کے ڈپلومہ (لائبریری سائنس ) کی پہلی کلاس کے طالب علم۔ انہوں نے لائبریری سائنس کی تعلیم اور لائبریری کے پیشہ کی بڑی مسحور کن تصویر پیش کی اور مجھے لائبریری سائنس میں ڈپلومہ کرنے کی کی ترغیب دی، میں ہندوستان سے بی اے کر کے آیا تھا اور اب تک کسی منا سب پیشہ سے وابستہ نہیں ہوا تھا لائبریری سائنس میں داخلہ لینے کے لیے راضی ہو گیا۔ یہ ۱۹۵۹ء کی بات ہے اب معید صاحب پڑوسی کے ساتھ ساتھ استاد بھی ہو گئے ‘‘۔
اپنی ملازمت کے بارے میں اختر حنیف صاحب نے اپنے اسی مضمون میں لکھا کہ ’’ اب ملازمت کا سوال ہوا دبے الفاظ میں معید صاحب سے بات ہوئی صاف صاف الفاظ میں فرمایا کہ میں آپ کو یونیورسٹی میں تو نہیں لے سکتا کسی اور جگہ سفارش کر دوں گا۔ مجھے بعد میں آئی بی اے میں ملازمت مل گئی اور اب میں لائبریرین ہونے کے ناطے معید صاحب کا ہم پیشہ ہو گیا، پھر شعبہ لائبریری سائنس سے منسلک ہونے کی وجہ سے ماتحتی میں بھی کام کیا‘‘۔ اختر حنیف صاحب ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے کہ جنہوں نے جامعہ کراچی سے لائبریری سائنس میں ایم اے کیا اور اسی تعلیمی استطاعت کی بنیاد پر نہ صرف آئی بی اے کے لائبریرین ہوئے بلکہ جامعہ کراچی شعبہ لائبریری سائنس میں لیکچر ر، بعد ازاں ترقی کرتے ہوئے پروفیسر اور صدر شعبہ کے فرائض بھی انجام دئے۔ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۷ء تک آپ نے نائیجیریا میں بھی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۶۰ء میں جامعہ کراچی سے لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ، ۱۹۶۳ء میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ ۱۹۶۰ء میں کینٹ پبلک اسکول کے لائبریرین ہوئے، ۱۹۶۱ء میں آئی بی اے کے لائبریرین مقر ر ہوئے، ابتدا میں شعبہ لائبریری سائنس میں جزو وقتی لیکچر ر مقر ر ہوئے بعد ازاں ۱۹۷۲ء میں اسسٹنٹ پروفیسر ہو گئے ترقی پاتے ہوئے پہلے ایسو سی ایٹ
پھر پروفیسر ہوئے اس دوران صدر شعبہ کے فرائض بھی انجام دئے۔ آپ نے جامعہ کراچی کے مرکزی کتب خانے ’ڈاکٹر محمود حسین لائبریری ‘ کے جزو وقتی لائبریرین کے فرائض بھی انجام دئے۔ جامعہ کراچی سے منسلک رہتے ہوئے آپ پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے زیر انتظام اسکول آف لائبریرین شپ میں اعزازی استاد بھی رہے ریٹائر منٹ کے بعد آپ اس اسکول کے ڈائریکٹر بھی مقر ر ہوئے۔ ۱۹۹۳ء میں جامعہ کراچی سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کالج آف فزیشن اینڈ سرجن کے کتب خانہ سے منسلک ہوئے۔ اسی دوران آپ کو بیماری نے آ گھیرا جس کے باعث طویل سفر مشکل ہو گیا چنانچہ آپ نے یہ ملازمت ترک کر دی اور سر سید یونیورسٹی کی لائبریری سے منسلک ہوئے اور اپنی زندگی کے اختتام تک اس سے وابستہ تھے۔
پیشہ ورانہ انجمنوں میں بھی اختر حنیف نے فعال کردار ادا کیا، پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے تا حیات رکن تھے۔ کراچی یونیورسٹی لائبریری سائنس المنائی ایسو سی ایشن(KULSAA) کے ۱۹۷۵ میں سیکریٹری اور ۱۸۷۰ء میں اس کے چیر مین رہے، اس انجمن کے زیر اہتمام شائع ہونے والے رسالہ ’پاکستان لائبریری ریویو‘ کے ایڈیٹر کے فرائض بھی انجام دئے، پی ا ایل آر کے ڈاکٹر رنگا ناتھن نمبر کے ایڈیٹر اختر حنیف صاحب ہی تھے۔ انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات (SPIL)، کے سیکریٹری اور دیگر اہم عہدوں کے علاوہ اس انجمن کے خبرناموں کی ادارتی کمیٹی سے بھی آپ وابستہ رہے۔ پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ(PBWG) کی سر گرمیوں میں عملی حصہ لیا، اس کے تحت چلنے والے اسکول آف لائبریرین شب کے استاد اور ڈائریکٹر کے فرائض انجام دئے۔ لائبریری پروموشن بیورو اور اس کے تحت شائع ہونے والے رسالے پاکستان لائبریری بلیٹن ‘‘ کے انگریزی شعبہ کے ایڈیٹر کے فرائض بہت عرصہ انجام دئے۔ آپ کو اس کے اولین اداراتی بورڈ جو ۱۹۶۸ء میں تشکیل پا یا تھا کارکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ لائبریری فورم کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا جس کے تحت ایک کتاب بھی شائع ہوئی۔
اختر حنیف اپنوں کی نظر میں
ماں، باپ، بھائی، بیوی، بچے اور دیگر قریبی عزیز رشتہ دار معاشرتی تعلق کی بنیادی اکائیاں ہیں۔ انسان اپنی زندگی میں سب سے زیادہ وقت انہیں اکائیوں میں گزارتا ہے جس طرح ایک استاد کے بارے میں اس کے شاگرد ہی صحیح رائے رکھتے ہیں اسی طرح کسی بھی شخص کی زندگی کے بارے میں یہ بنیادی اکائیاں درست تصویر پیش کرتی ہیں۔ میں نے اختر حنیف سے تعلق رکھنے والی ان بنیادی اکائیوں سے رابطہ کیا اور ان کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اختر حنیف مرحوم نے اپنے والد، والدہ، ایک بھائی اور ایک ہمشیرہ کے ہمراہ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی۔ آپ کے والد کا انتقال اپریل ۱۹۷۴ء میں ہوا، آپ کی والدہ بقید حیات اور ضعیف ہیں۔ بیٹے کی جدائی کے غم نے انہیں مزید کمزور کر دیا ہے۔ آپ کی والدہ کا کہنا تھا کہ ’’ اختر حنیف بچپن ہی سے کم گو اور فرما نبر دار تھے، شرارت بالکل نہیں کرتے تھے ، میرا حد درجہ احترام کیا کرتے جامعہ جانے سے قبل ان کے پاس ضرور جاتے۔ بیماری کے ایام میں جب کہ سیڑھیاں چڑھنا مشکل ہو گیا تھا اکثر اپنی بچیوں سے میری خیریت معلوم کراتے اور کہلواتے کہ جیسے ہی میں اس قابل ہوا کہ سیڑھیاں چڑھ سکوں آپ کے پاس ضرور حاضر ہوں گا۔ اختر حنیف کے ایک بھائی اور ایک بہن ہیں ان کے بڑے بھائی کا ۱۹۸۴ء میں انتقال ہو گیا تھا۔ ہمشیرہ فردوس خاتون جو اختر حنیف سے بڑی ہیں ایک مقامی اسکول میں استاد ہیں، آپ نے اپنے بھائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتا یا کہ ’’ اختر حنیف مجھ سے چھوٹے تھے اس لیے بھی وہ میرا بہت زیادہ احترام کیا کرتے، بہت ہی خیال انہوں نے میرا کیا، یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں تنہا ہوں، مجھے پڑھنے کی تر غیب دی خاص طور پر بی ایڈ میں میں نے ان کے نہ صرف کہنے پر داخلہ لیا بلکہ انہوں میری عملی مدد کی، ان کی وجہ سے ہی میں نے بی ایڈ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ مثالی بھائی تھے، انہوں نے اس رشتہ کا حق ادا کر دیا، ان کا وہ رویہ جو ان کی شادی سے پہلے تھا بعد میں بھی وہ اس انداز سے پیش آتے رہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے ورنہ وقت اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسان کے برتاؤ میں عام طور پر تبدیلی آ ہی جاتی ہے۔ وہ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے ایسے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں ‘‘۔
پروفیسر اختر حنیف کی چار بیٹیاں ثمیرا، صوبیہ، ثمن اور فر حین ہیں۔ ثمیرا اور صوبیہ کی شادی انہوں نے اپنی زندگی ہی میں کی بلکہ بیماری کے ایام میں فریضہ انجام دیا۔ ثمن اور فرحین چھوٹی ہیں۔ ٹیلی فو پر گفتگو (بروز جمعہ ۵ اپریل ۱۹۹۶ء)کرتے ہوئے ثمن اور فرحین نے بتا یا کہ ان کے ابو بہت اچھے تھے ہر طرح کا خیال رکھتے۔ اسکول خود چھوڑ نے جاتے، اگر ہم میں سے کوئی کبھی بیمار ہو جاتا تو فوری ڈاکٹر کے پاس لے جاتے اس دوران بہت زیادہ خیال رکھتے۔ ہمارے آرام و آسائش کا خاص خیال رکھتے، چاہتے تھے کہ ہم زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں لیکن ہم چاروں بہنوں پر کبھی یہ زبر دستی نہیں کی کہ ہم سائنس پڑھیں، کامرس یا آرٹس بلکہ یہ چوائس ہم پر چھوڑ دی تھی‘‘، فرحین نے ایک سوال کے جواب میں بتا یا کہ اس کے ابو خود سادگی پسند تھے لیکن ہم پر کبھی پابندی نہیں تھی کہ ہم کس قسم کا لباس پہنیں البتہ سادگی کو بے حد پسند کیا کرتے تھے۔ گھر کو بھی صاف ستھرا اور جاذب نظر دیکھنا پسند کرتے، ثمن نے بتا یا کہ اس کے ابو کو ہم بہنوں پر کبھی غصہ نہیں آیا۔ ہمیشہ مسکراہٹ کے ساتھ بات کرتے۔ کھلکھلا کر شاید ہی کبھی ہنسے ہوں زیر لب مسکرانا ان کی خاص عادت تھی‘‘۔ ثمیرا اختر حنیف کی سب سے بڑی بیٹی ہیں امریکہ کے شہر کیلی فورنیا میں رہتی ہیں ان کے شوہر شفاعت کمپیوٹر انجینئر ہیں۔ ثمیرا نے اپلائیڈ کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا انہوں نے اپنے ابو کے بارے میں فون پر (بروز ہفتہ ۴ مئی ۱۹۹۶ء) کو بتا یا ہمارے ابو ایک حقیقت پسند اور مضبوط قوت ارادی کے مالک تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی چاروں بیٹیاں Boldہوں، کسی پر بھروسہ اور انحصار نہ کریں بلکہ تمام تر حالات کا مقابلہ از خود کریں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمیں خود اعتمادی کا درس دیا جس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ انہوں نے ہم تینوں بہنوں کو از خود کار چلانا سکھا یا۔ ثمیرا نے بتا یا کہ انہیں اسکول و کالج کے زمانے سے ہی کمپیئرنگ کا شوق تھا چنانچہ جا معہ میں منعقد ہونے والی ایک بین الا قوامی فوڈ کانفرنس کی کمپیئرنگ مجھے سونپی گئی اس کی تیاری میں ابو نے بھر پور مدد کی اس کانفرنس میں غیر ملکی مندوبین بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس کے اختتام پر اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر سید ارتفاق علی، شعبہ کی سربراہ بیگم راشدہ علی اور مسٹر بار لو سے میں نے اپنے امی اور ابو کا تعارف کرایا۔ مسٹر بارلو نے ابو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ‘you must be proud on your daughter’یہ جملہ میری کمپیئرنگ سے متاثر ہو کر کہا تھا اس جملہ کو سن کر ابو کے چہرے پر خوشی اور اطمینان کی جو لہر تھی اس سے یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ جیسے اس جملہ سے انہیں اپنی فتح اور کامیابی کا یقین ہو گیا ہو‘‘۔ ثمیرا نے اپنی امریکہ روانگی کا ذکر کرتے ہوئے بتا یا کہ مجھے رخصت کرتے وقت ابو کی اشک بار آنکھیں بتا رہی تھیں کہ انہیں یقین ہے کہ وہ اپنی اس بیٹی کو زندگی میں دوبارہ نہیں دیکھ سکیں گے اور یہ کہ وہ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ر خصت کر رہے ہیں۔ اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا میں ابو کی زندگی میں پاکستان نہ آ سکی اور وہ مجھ سے ملے بغیر ہی اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلے گئے جس کا مجھے بے انتہا افسوس ہے۔ گھر کے ماحول کے بارے میں ثمیرا کا کہنا تھا کہ ہم سب لوگوں میں بہت زیادہ understandingتھی۔ ابو ہم لوگوں سے ہر قسم کے موضوع پر گفتگو کیا کرتے تھے۔ وہ بہت کشادہ ذہن کے مالک تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک شفیق باپ ہی سے محروم نہیں ہوئے بلکہ ایک ہمدرد دوست اور محبت کرنے والے ساتھی سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ابو کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے‘‘ صوبیہ ثمیرا سے چھوٹی ہیں ان کی شادی کراچی ہی میں ہوئی انہوں نے اپنے ابو کے بارے میں بتا یا کہ ابو کو وقت ضائع کرنا پسند نہیں تھا وہ کسی نہ کسی کام میں مصروف رہنے کو اچھا سمجھتے تھے۔ جب کبھی ہم کسی تقریب میں ابو کے ساتھ عزیز رشتہ دار کے ہاں جاتے تو ابو ہمیں سب لوگوں سے نہ صرف ملایا کرتے بلکہ ہمیں یہ بھی بتا تے کہ ہمارا اُن سے کیا رشتہ ہے۔
پروفیسر اختر حنیف کی شادی ۶ مارچ ۱۹۷۱ء کو اپنے ہی خاندان میں محترمہ نزہت جمال سے ہوئی۔ یہ شادی گھر والوں کی پسند کی تھی۔ نزہت جمال ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں جنہوں نے معاشیات میں ایم اے کیا ہے۔ اختر حنیف بحیثیت شوہر کیسے تھے اور ان کی زندگی کے آخری ایام کی کیا روداد ہے۔ اس موضوع پر آپ سے گفتگو ٹیلی فون پر(۱۹ مارچ، ۵ اپریل ۱۹۹۶ء)کو ہوئی، آپ نے بتا یا کہ ان کے شوہر بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، کبھی اونچی آواز میں بات نہ کرتے اگر کسی بات پر غصہ آ جاتا تو خاموشی اختیار کر لیتے، گھریلو کاموں میں بھی برابر کے شریک رہتے، تمام خاندانی معاملات یا کسی بھی مسئلہ پر مشورہ کرتے البتہ حتمی فیصلہ خود ہی کیا کرتے، طویل اور بے مقصد گفتگو نہ تو خود کرتے اور نہ ہی پسند کیا کرتے۔ جہاں تک ممکن ہوتا اختصار سے کام لیتے، ہم دونوں میں حد درجہ ہم آہنگی تھی۔ بیگم حنیف نے بتا یا کہ انہوں نے کبھی اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ ہمارا بیٹا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری بیٹیاں ہی ہمارے بیٹے ہیں۔ بچیوں کا بہت خیال رکھتے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے زندگی میں کبھی کسی چیز کی منصوبہ بندی نہیں کی بلکہ میرے تمام کام خدا کی مرضی سے خود بخود ہوتے چلے گئے۔ مرحوم اپنے رشتہ داروں میں پسند کیے جاتے تھے ان کے تمام احباب سے یکساں مراسم تھے۔ بیگم حنیف نے بتا یا کہ اختر حنیف کی خواہش تھی کہ ان کی بچیاں زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں وہ بچیوں میں strong education کے قائل تھے۔ خواتین کو ملازمت کرنا چاہیے یا نہیں۔ اس سوال کے بارے میں بیگم حنیف کا کہنا تھا کہ میں تعلیم یافتہ تھی لیکن مجھے کبھی منع نہیں کیا کہ میں ملازمت نہ کروں لیکن یہ کہا کرتے کہ اگر بیوی نوکری کرتی ہے تو بچوں کی تر بیت متاثر ہوتی ہے اور بچوں کی بہتر تر بیت نوکری سے زیادہ مقدم گھر گ س دوران صدر شعبہ کے فراخ
ہے۔ اختر حنیف کے دھیمے لہجے کا ذکر کرتے ہوئے بیگم نزہت جمال نے کہا کہ میں اکثر کہا کرتی تھی کہ خدا را کسی وقت تو بلند آواز سے بات کر لیا کریں تاکہ اس گھر کے در و دیوار بھی مردانہ آواز سن لیں۔
اختر حنیف کو لاحق مرض اور ان کی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے بیگم نزہت جمال نے بھرائی ہوئی آواز میں بتا یا کہ جامعہ سے ریٹائر منٹ کے بعد انہیں ہچکیاں آنے لگی تھیں، رفتہ رفتہ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ علاج بدستور جاری رہا یہ معلوم نہیں تھا کہ بظاہر ہچکیوں کی تکلیف ہے لیکن اندر ہی اندر خطر ناک مرض پرورش پا رہا ہے جو بہت جلد انہیں اس دنیا سے دور لے جائے گا۔ آپ نے بتا یا کہ ۲۶ اپریل ۱۹۹۳ء کو تمام تر چیک اَپ (ٹیسٹ) کی رپورٹس دیکھنے اور پوری طرح تسلی کرنے کے بعد ڈاکٹر نے واضح کیا کہ انہیں جس مرض نے اپنے نرغے میں لے لیا ہے شاید وہ اب اس سے پیچھا نہ چھڑا سکیں یہ مرض بلڈ کینسر تھا۔ ڈاکٹر نے یہ بھی واضح کر دیا کہ ان کے پاس ڈھائی برس کی مہلت ہے۔ بقول اختر حنیف ان باتوں کا اثر فطری تھا لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے آپ کو سنبھا لا اس ڈر سے بھی کہ بچیوں کو اگر یہ بات معلوم ہو جائے گی تو ان کا کیا بنے گا۔ ۲۶ اپریل ۱۹۹۳ء کی شب بہت ہی تکلیف میں گزری، اندر ہی اندر ہم دونوں میاں بیوی اس طرح روئے کہ دونوں کو اس بات کی خبر نہ ہو جائے حالانکہ دونوں ہی اس بات سے با خبر تھے۔ صبح اٹھ کر حسب معمول مصروفیات میں لگ گئے۔ کہنے لگے کہ ’’دیکھو یہ تو زندگی کی حقیقت ہے اسے خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے ‘‘۔ اس گفتگو کے بعد بیگم حنیف خاموش ہو گئیں۔ میں نے انہیں تسلی دی، اپنے طور پر حوصلہ بڑھانے کی باتیں کیں اور ان سے شکریہ کے ساتھ اجازت چاہی۔
واقعی اختر حنیف بہت ہی مضبوط اعصاب کے مالک تھے اگر کوئی اور شخص ہوتا تو وہ ڈاکٹر کی دی ہوئی ڈھائی برس کی مہلت تو کجا وہ ڈھائی ماہ مشکل سے زندہ رہتا۔ یہ مرحوم کی مضبوط قوت ارادی اور اللہ کی ذات پر پختہ یقین ہی تھا کہ انہوں نے نہ صرف ڈاکٹر کی دی ہوئی مہلت پوری کی بلکہ دوسال ساتھ ماہ کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ بلند ہمتی اور قوت ارادی کے ساتھ انہوں نے اس مرض کا مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن پھر بھی اختر حنیف ہار گئے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی اتنی ہی لکھی تھی انہیں وقت مقر رہ پر اس دنیا سے چلے ہی جانا تھا۔ کینسر یا کوئی اور مرض تو بہانا تھا ان کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ اپنی زندگی میں جو کچھ کرنا تھا بھر پور انداز سے کیا۔ بیٹے کی حیثیت سے والدین کی خدمت کی، ان کا آخری وقت تک خیال رکھا، بھائی کی حیثیت سے بہن کو بھائی کی محبت دی، شوہر کی حیثیت سے بیوی کو اطمینان اور سکون دیا، باپ کی حیثیت سے بچیوں کی مثالی پرورش کی انہیں زندگی گزارنے کے طور طریقوں سے بخوبی آگاہ کیا، استاد کی حیثیت سے بے شمار طالب علم پیدا کیے جو آج سینکڑوں خاندانوں کی کفالت کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ لائبریرین کی حیثیت سے کئی کتب خانوں کی معیاری تنظیم و ترتیب میں بھر پور حصہ لیا، منتظم کی حیثیت سے مثالی انتظام کی روایت ڈالی، ایک مصنف، مولف اور محقق کی حیثیت سے بے شمار علمی مواد تخلیق کیا۔
کس کو معلوم یونہی راہ پر چلتے چلتے
کون کس موڑ پہ کس وقت جدا ہو جائے
پروفیسر اختر حنیف احباب کی نظر میں
اختر حنیف مرحوم کے دوستوں، ساتھیوں، شاگردوں اور استادوں کی فہرست طویل ہے۔ مجھے یہ بات لکھتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ میں نے اختر حنیف کے بارے میں اپنی رائے کے اظہار کے لیے جس کسی سے بھی کہا ہر ایک نے بلا تردد اختر حنیف کے بارے میں زبانی یا تحریری اپنے تاثرات قلم بند کرائے۔ زیادہ تر احباب سے فون پر گفتگو ہوئی، جو احباب کراچی یا پاکستان سے با ہر تھے انہوں نے اپنے تاثرات مجھے روانہ کر دئے، جن احباب سے فون پر رابطہ نہ ہو سکا میں ذاتی طور پر ان کے گھر یا دفتر گیا اور ان کے تاثرات قلم بند کیے جو ذیل میں دئے جا رہے ہیں۔
محمد عادل عثمانی پاکستان لائبریرین شپ کا ایک بڑا نام ہے۔ اختر حنیف آپ کے شاگرد اور قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ پیشہ ورانہ سر گرمیوں میں بھی دونوں ساتھ رہے۔ عثمانی صاحب نے جو ان دنوں سعودی عرب میں تھے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ’’ میرے شاگردوں میں اختر حنیف ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے وہ ڈپلومہ (۵۹ء۔ ۱۹۶۰ء ) میں اور دوبارہ ایم اے لائبریری سائنس (۶۲ء۔ ۱۹۶۳ء) میں میری کلاس میں شامل رہے۔ شرمیلے، سنجیدہ و خاموش طالب علموں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ امتحانات میں امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوتے رہے۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی پر وقار انداز کے حامل رہے۔ کلسا، پی ایل اے، اسپل، پی بی ڈبلیو جی اور دوسری انجمنوں میں وہ شریک رہے۔ اچھی صلاحیت کے مالک تھے اسی لیے ترقی کے زینے طے کرتے رہے۔ یہاں تک کہ شعبہ لائبریری سائنس، جامعہ کراچی کے پروفیسر اور صدر نشین بھی ہو گئے۔ میرے جامعہ کراچی سے دوبارہ ۱۹۷۹ء میں سعودی عرب رخصت پر روانہ ہوتے وقت میری ہی سفارش پر انہیں کتب خانہ (ڈاکٹر محمود حسین لائبریری) کی اضافی ذمہ داری سونپی گئی جسے انہوں نے بڑی خوشی اسلوبی سے انجام دیا۔ لائبریری پروموشن بیورو میں ابتدا سے میرے ساتھ رہے اور پاکستان لائبریری بلیٹن کی ادا ارت میں میرا ہاتھ بٹاتے رہے اور ۱۹۷۹ء سے لے کرتا دم حیات (۱۹۹۵ء)انگریزی شعبہ کے ایڈیٹر رہے۔ فن تدریس کی اچھی صلاحیت پیدا کر لی تھی اس لیے اپنے شاگردوں میں مقبول تھے۔ تقریر و تحریر دونوں میں انداز اختصار و جامعیت لیے ہوئے تھا جو ایک بڑی اہم صفت ہے مگر کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ جہاں تک اخلاقی قدروں کا تعلق ہے وہ ایک معتدل مزاج، ہنس مکھ، خوش خلق، کم سخن اور مہمان نواز انسان تھے۔ اپنے اساتذہ، رفقائے کار، شاگردوں اور لائبریرین برادری میں یکساں مقبول تھے اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اختر حنیف کی موت جہاں ان کے اہل خاندان کے لیے ایک سانحہ عظیم ہے وہاں رفقائے کار، احباب، شاگردوں اور پاکستان لائبریری بلیٹن کے لیے ایک نقصان عظیم ہے اور میرے لیے ایک نہ پر ہونے والا خلا ؎ آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید کے شاگرد، رفیق کار اور یہ ساتھ جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں کئی برسوں پر محیط ہے۔ ۱۹ اپریل ۱۹۹۶ء، جمعہ کی شام ڈاکٹر انیس خورشید صاحب کے گھر میں نے فون پر رابطہ کیا سلام و خیریت دریافت کی، آپ نے کہا کہ آج کل طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے لیکن آپ بتائیں کیا بات ہے۔ میں نے مدعا بیان کیا، ڈاکٹر صاحب موصوف نے اچھا کہا اور اختر حنیف مرحوم کے بارے میں بولنا شروع کر دیا۔ میں نے عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب میرا قلم بھی چل رہا ہے اور آپ کی باتیں قلم بند کرنا مشکل ہو رہا ہے، آپ نے اب آہستہ آہستہ گفتگو کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلا بے ساختہ جملہ اختر حنیف مرحوم کے بارے میں یہ فرمایا کہ ’’ وہ اچھے ٹیچر تھے ‘‘۔ بعد ازاں گویا ہوئے کہ انہوں نے ڈپلومہ کرنے کے بعد آئی بی اے میں ملازمت کر لی تھی اور باہر جانے کے خواہشمند تھے، میں نے انہیں اس بات پر راغب کیا کہ پہلے لائبریری سائنس میں ایم اے لرلیں چنانچہ انہوں نے ایم اے میں داخلہ لے لیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتا یا کہ جب وہ کلاس، جس میں اختر حنیف ایک طالب علم کی حیثیت سے شریک تھے ختم ہوئی تو میں نے اختر حنیف کے بارے میں اندازہ لگا لیا کہ ان میں ایسی خصوصیات ہیں کہ وہ ایک اچھے استاد بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ آئی بی اے کے لائبریرین کے ساتھ ساتھ انہیں شعبہ لائبریری سائنس میں جز وقتی استاد مقر ر کر لیا۔ وہ اپنا لیکچر بہت محنت اور سلیقہ سے تیار کیا کرتے تھے بہت اچھی طرح معلومات کو منظم کیا کرتے۔ ایک اچھے استاد کو اپنے شاگردوں کا پوری طرح خیال بھی رکھنا چاہیے اور اختر حنیف میں یہ خوبی تھی کہ وہ اپنے شاگردوں کا ہر طرح خیال رکھتے اور ان پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔ اختر حنیف کی انتظامی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ وہ ایک اچھے منتظم تھے ڈاکٹر محمود حسین لائبریری میں وہ بہت کم عرصہ رہے وہاں پر ان کی انتظامی صلاحیتوں کا اندازہ ہوا، انہوں نے رسائل کا کیٹلاگ کم وقت میں شائع کرا دیا۔ نائجیریا کے آئی بی اے کے کتب خانہ میں بھی اختر حنیف کا خاصا کام ہے وہاں کے لوگوں نے ان کی تعریف کی‘‘۔
ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری نے مکہ المکرمہ سے اپنے تاثرات ارسال فرمائے۔ آپ نے لکھا کہ ’’ اختر حنیف صاحب میرے ہم جماعت علم کتب خانہ جات کی تعلیم کے دوران تھے۔ پھر ہم نے ایک ہی پیشے کو اختیار کیا۔ وہ آئی بی اے کی لائبریری میں خدمت دیتے رہے اور میں امریکن سینٹر کی لائبریری میں مصروف کار رہا۔ بعد ازاں میں شعبہ علم کتب خانہ جات، جامعہ کراچی میں تدریس کے لیے مقرر کیا گیا تو اختر حنیف صاحب بھی جزوقتی استاد کی حیثیت سے ہمارے رفیق کار رہے۔ پیشہ ورانہ انجمنوں اور خدمات میں بھی اختر حنیف صاحب نے نمایاں خدمت انجام دیں۔ کلسا، پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن اور دیگر پیشہ ورانہ انجمنوں میں شرکت اور تعاون سے پیشہ کے مسائل اور معاملات کو سلجھانے اور حل کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ نہایت سنجیدہ، خوش طبع اور تحمل مزاج رکھتے تھے۔ ان سے گفتگو کر کے فرحت اور آسودگی محسوس ہوتی تھی۔ اکثر مسائل کے حل کرنے میں تعاون کرتے تھے۔ ہم سے ان کا خصوصی تعلق اس نسبت سے بھی رہا کہ وہ ہمارے ادارے میں شریک کار رہے۔ پاکستان لائبریری بلیٹن کے انگریزی کے شعبہ کی انہوں نے ادارت بڑی خوش اسلوبی سے انجام دی۔ ان کی غیر موجودگی سے بہت بڑا خلا محسوس ہوتا ہے۔ ان کی جدائی ان کے اہل خانہ کے لیے تو واقعی ناقابل تلافی ہے ہی لیکن ہم سب کے لیے بھی ایک عظیم سانحہ ہے۔ میں رب کعبہ سے دست بدعا ہوں کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فر مائے اور اپنی رحمتوں سے سرفراز کرے آمین۔
پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر، اختر حنیف مرحوم کے رفیق کار اور قریبی دوستوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ ٹیلی فون پر(بروز جمعہ ۲۹ مارچ ۱۹۹۶ء) اپنے تاثرات قلم بند کراتے ہوئے آپ نے کہا ’’چند جملوں میں اختر حنیف کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار میرے لیے مشکل ہے اور یہ کام مشکل تر ہو جات ہے جب کے یہ تعلقات ۳۶ سال کے طویل عرصہ پر محیط ہوں اور پھر اس کی مختلف جہتیں ہوں۔ میں نے انہیں ایک خاموش کلاس فیلو کی حیثیت سے بھی دیکھا ہے علاوہ ازیں ہم مختلف لائبریری انجمنوں بشمول کلسا، اسپل اور پی ایل اے میں ہم دونوں نے مختلف حیثیتوں میں کام بھی کیا۔ ہم لوگوں کی مشترکہ سوچ کے نتیجہ میں ’لائبریرینز فورم ‘ کا قیام عمل میں آیا جس کے تحت ایک کتاب بھی شائع ہوئی اور وہ میرے اس کتاب میں شریک مصنف بھی تھے۔ ۱۵ سال شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ کراچی میں ایک ساتھ کام کیا اور کسی بات پر اختلاف نہیں ہوا جس کا کریڈٹ میں مرحوم کو دیتا ہوں۔ ڈاکٹر حیدر نے مزید بتا یا کہ ’ہر انسان میں خوبیاں اور خامیاں دونوں ہوتی ہیں لیکن میرے خیال میں اختر حنیف صاحب میں خوبیاں زیادہ تھیں ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مزاجاً خاموش طبع تھے یہ کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ وہ reserve اور محتاط رہنا پسند کرتے تھے یہاں تک کہ اکثر لوگوں کو ان پر مغرور ہونے کا گمان ہوتا لیکن یہ بات نہ تھی در اصل وہ تعلقات میں ایک حد ضرور قائم رکھتے تھے اورکسی کو اس لائن کو کراس کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے چاہے انہیں پیچھے ہی ہٹنا کیوں نہ پڑتا۔ ان کی دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی رائے کے اظہار میں بے باک تھے جس کا ثبوت مجھے بار بار ملا شاید اس چیز نے ہم دونوں کو آخر تک دوست بنائے رکھا‘۔
ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’پروفیسر اختر حنیف صاحب میرے استاد اور رفیق کار رہے۔ بحیثیت استاد میں نے انہیں خوش لباس، خوش گو اور بر وقت اپنا نصاب ختم کروانے والا پایا۔ شاگردوں کے ساتھ میانہ روی اختیار کرتے تھے۔ صبر و برداشت بہت زیادہ تھی۔ بحیثیت انسان تعاون کرنے والے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد اور بیماری میں وہ اکثر اپنے دیرینہ رفیقوں کا ذکر اس تاسف کے ساتھ کرتے تھے کہ ۳۵ برس کی ہمہ وقتی دوستی و تعاون کے بدلے انہیں بے رخی اور بے اعتنائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اختر حنیف صاحب ایثار کے پیکر تھے۔ دکھ درد میں شریک رہتے تھے۔ میرے گھر مع بیگم کے تشریف لاتے اور میرے مرحوم والدین کی عیادت اور مابعد تعزیت کرتے رہے۔ بحیثیت مصنف انگریزی تحریروں پر شعبہ کے بیشتر اساتذہ ان سے نظر ثانی کی درخواست کرتے اور وہ اسے قبول لیتے، پاکستان لائبریری بلیٹن سے شروع ہی سے وابستہ رہے۔ پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے اسکول آف لائبریرین شپ میں اعزازی استاد اور پھر ڈائریکٹر مقر ر ہوئے۔ اس معاملے میں بھی ان کے بعض رفیق ان پر طنز کرتے اور وہ مسکراتے رہے۔ وہ ایک اچھے استاد تھے اس لیے کسی بھی سطح پر پڑھانا کسر شان نہیں باعث افتخار جانتے تھے۔ شعبہ کی سب سے مقبول شخصیت تھے لیکن ان کی اچانک موت سے تحقیق کرنے والے ان طالب علموں کا کام ادھورا رہ گیا۔ میری دعا ہے کہ انسانی خوبیوں اور نیکیوں کے عوض اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ درجہ عطا فرمائے ۔
مولانا محمد عارف الدین پاکستان لائبریرین شب کی ایک معروف شخصیت ہیں اب ان کا شمار پاکستان کے بزرگ لائبریرینز میں ہوتا ہے۔ اختر حنیف مرحوم کے بارے میں آپ نے کہا کہ وہ میرے ہم پیشہ ہی نہیں تھے بلکہ ان سے میری قریبی وابستگی تھی خاص طور پر اسپل (Society for Promotion and Improvement of Libraries, SPIL) کے کاموں کے سلسلہ میں مرحوم سے زیادہ ملاقاتیں رہتی تھیں میں جب بھی کسی کام سے ان کے پاس گیا انہوں نے منع نہیں کیا اور کام صرف لکھنے پڑھنے کے ہی ہوا کرتے تھے۔ وہ باتیں کم کام زیادہ کیا کرتے تھے، کم گوئی اور اختصار سے کام لینا ان کی عادت تھی جب کبھی ان کے کمرے میں داخل ہوتا ایک مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ملتے اور پوچھتے کہ کیا کام ہے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا تھا کہ میں کسی نہ کسی کام ہی سے آیا ہوں گا۔ جامعہ سے ریٹائر منٹ کے بعد ان کے معمولات میں فرق نہیں آیا وہ اسی طرح دھیمے لہجے اور مسکراہٹ کے ساتھ ملتے۔ پیشہ ورانہ کاموں کے لیے ہر وقت تیار رہتے زندگی کے اختتام تک وہ’ اسپل‘ سے منسلک تھے۔ اس کے بورڈ آف ڈارئریکٹرز کے رکن اور نیوز لیٹر کمیٹی کے ممبر بھی تھے ‘۔
سید امتینان علی شاہ بخاری نے اپنے تاثرات میں اختر حنیف مرحوم کو شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ کراچی میں سب سے زیادہ عزت کیا جانے والا انسان قرار دیا، خورشید عالم کا کہنا ہے کہ انہوں نے در اصل ان کی باتوں سے قائل ہو کر ہی لائبریرین شپ کا پیشہ اختیار کیا، جناب صادق علی خان صاحب، جعفر معین، رفیع الدین صدیقی، عبد الصمد انصاری، منور سلطانہ، اقبال الرحمٰن فاروقی، مقصود عالم، سید التفات احمد، سیدہ نجمہ سلطانہ نے اختر حنیف مرحوم کو خوبیوں کا مجسمہ قرار دیا اور انہیں اچھے الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔
انسان یقیناً فانی ہے، ہم سب کو یکے بعد دیگرے اس دنیا سے چلے جانا ہے یہ سلسلہ ابد سے جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔ دنیا سے چلے جانے والے کی یادیں مختلف صورتوں میں باقی رہ جاتی ہیں۔ اس شخص کا وہ تعلق باقی رہ جاتا ہے جو اس نے مختلف حیثیتوں میں دنیا سے روا رکھا، اس کا وہ اچھا یا برا عمل یا سلوک باقی رہ جاتا ہے جو اس نے دوسرے انسانوں کے ساتھ کیا اور وہ اپنے انہی اعمال، عادات و اطوار، اخلاق و سلوک اور تعلق کے حوالہ سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔ اختر حنیف مرحوم کی شخصیت کا مطالعہ انہی حوالوں سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اختر حنیف مرحوم حسن و اخلاق کا مجموعہ، روا داری اور تحمل کا پیکر، حلیم الطبع، شریف النفس، منکسرالمزاج، تصنع اور بناوٹ کی آرائش سے پاک، دھیمے لہجے، مسکراتے چہرے، شگفتگی اور میانہ روی اور اختصار کے قائل تھے ساتھ ہی وہ ایک فرمانبردار بیٹے، محبت کرنے والے باپ، مثالی شوہر، خیال رکھنے والے بھائی، مہر بان دوست، قابل اور محنتی استاد، کامیاب منتظم، مصنف و مولف اور ایک پختہ کار محقق تھے اور سب سے بڑھ کر وہ ایک مکمل پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک لائبریرین تھے۔
انسان مین بشری کمزوریوں کا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اختر حنیف میں بھی بشری کمزوریاں تھیں لیکن مجموعی طور پر ان کی شخصیت میں خوبیوں کے رنگ زیادہ پائے جاتے تھے۔ ۔ پاکستان لائبریرین شپ کے لیے وہ ایک اثاثہ تھے ان کے انتقال سے لائبریرین شپ کے پیشہ میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ شاید کبھی نہ بھر سکے۔ ان تمام احباب کا خاص طور پر بیگم اختر حنیف کے شکریہ کے ساتھ جنہوں نے مرحوم کی شخصیت کے مطالعہ میں مجھ سے عملی تعاون کیا۔ اس دعا پر اپنے اس مطالعہ کا اختتام کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اختر حنیف مرحوم کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب ہو۔ آمین
(یہ مضمون پاکستان لائبریری بلیٹن جلد ۲۷، شمارہ ۱۔ ۲، مارچ۔ جون ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا، یہاں یہ مضمون قدرِ مختصر کر کے شامل کیا جا رہا ہے )
الحاج محمد زبیر
علی گڑھ مسلم یو نیور سٹی کے سابق لائبریرین
علی گڑھ مسلم یو نیور سٹی کے سابق لائبریرین الحاج محمد زبیر ایک مستند کتاب کار، معلم کتاب داری، صاحب علم، شائق مطالعہ، مشرقی تہذیب کا پیکر، قدیم وضع داریوں کا اعلیٰ نمونہ، اردو، فارسی، عربی، انگریزی زبانوں پر آپ کو عبور حا صل تھا۔ آپ ایک علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے، آپ کے بزرگوں میں کئی نامور شخصیات مصنف اور عالم گزرے ہیں۔ آپ کے جد امجد حکیم عنایت حسین نامور مصنف، مورخ اور طبیب تھے۔ حاجی صاحب کا مولد مارہرہ، یوپی کا ضلع ایٹہ ہے یہ مارہرہ شریف کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت زبیر کی ذات اقدس پر منتہی ہوتا ہے اسی نسبت سے یہ خاندان زبیری کہلاتا ہے۔ علی گڑھ کا یہ نامور سپوت ۸۶ بس کی عمر میں لائبریرین شپ کے علمی سرمایہ کو اپنی علمی کاوشوں سے منور کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
زبیر صاحب کے انتقال سے پاکستان لائبریرین شپ میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ شاید کبھی پر نہ ہو سکے گا کیونکہ آپ بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ آپ کی سب سے بڑی اور انفرادی خصوصیت یہ تھی کہ آپ باوجود ضعیف العمری اور مسلسل علالت کے تصنیف و تالیف میں مصروف تھے اور اردو زبان میں لائبریرین سپ کے علمی سر مائے میں مسلسل اضافہ فر ما رہے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنی آخری طبع شدہ کتاب میں تحریر فر ما یا ’’قارئین کرام مجھے اس امر کا پورا پورا احساس ہے کہ پیش کردہ کتاب ’میری یادوں کی کہکشاں ‘ مرتب کرنے کا حق پوری طرح ادا نہیں کیا جا سکا جو کچھ آپ کے سامنے ہے وہ ان ایام میں مرتب ہوا ہے جب کہ میری ۸۴ سالہ عمر کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہے ‘‘۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد آپ ایک اور کتاب کی تالیف میں مصروف تھے اور اس کتاب کو اپنی زندگی ہی میں مکمل کرنا چاہتے تھے، اس کتاب کے کئی ابواب تحریر کر چکے تھے بعض ابواب کی کتا بت بھی ہو چکی تھی، آپ کا کہنا تھا کہ یہ میری زندگی کی آخری کتاب ہو گی اس وجہ سے آپ نے اپنی اس کتاب کا عنوان ’’میری زندگی کی آخری کتاب ‘‘ رکھا تھا، مجھے اس کتاب کے متعدد ابواب کی پروف ریڈنگ کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ افسوس زندگی نے آپ سے وفا نہ کی اور آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی، لیکن آپ نے پاکستان لائبریرین شپ کو جس علمی سرمائے سے مالا مال کیا اس کا فیض برسہا برس جاری و ساری رہے گا اور لائبریری سائنس کے طالب علم اس سے مستفیض ہوتے رہیں گے :
کتنے حسین لوگ تھے جو مل کے ایک بار
آنکھوں میں جذب ہو گئے دل میں سما گئے
کتابیں زبیر صاحب کی رفیق اور ہمدم تھیں، اپنی کتاب ’’کتاب زیست‘‘ میں آپ نے تحریر فرمایا ’میری زندگی کا یہ بڑا روشن باب ہے کہ لائبریری سے منسلک ہونے کے بعد یعنی ۱۹۲۲ء سے ۱۹۸۱ء تک ہزارہا کتا بیں خلوت اور جلوت میں میری رفیق و ہمدم رہی ہیں۔ کتابوں کی گہری قربتوں سے مجھے بڑے روحانی، علمی اور فنی فائدے پہنچے انہوں نے مجھے فہم و فراست اور شعور و تدبر کی راہیں د کھائیں، طرح طرح کے علوم و فنون سے آگاہی بخشی، کتاب داری کے نظری و علمی پہلوؤں پر دسترس حاصل کرنے کی صلاحیتیں عطا کیں اور اپنا ایسا گرویدہ بنا یا کہ میری عمر کے اس آخری دور میں بھی وہ میرا اوڑھنا بچھو نا بنی ہوئی ہیں۔ ان کا مطالعہ کیے بغیر مجھے سکون نہیں ملتا۔ جب کبھی ناسا زی طبع کے باعث خود مطالعہ نہیں کر سکتا تو اپنی بیوی سے کتا بیں پڑھوا کر بیمار طبعیت کو بحال رکھتا ہوں، در اصل :
کتاب من معشوقہ من است بستہ دل من بدوکشادہ اسست
زبیر صاحب کی تخلیقات جو ان کی زندگی میں طبع ہوئیں ۱۲ ہیں۔ مضامین ان کے علاوہ ہیں جو مختلف رسائل و جرائد اور اخبارات میں شائع ہوئے۔ آپ کی پہلی کتاب ’’شہان مغلیہ کے کتب خانے اور ان کا نظام ‘‘ ۱۹۵۱ء میں منظر عام پر آئی جبکہ آخری کتاب بعنوان ’’میری یادوں کی کہکشاں ‘‘ ۱۹۹۰ء میں شائع ہوئی۔ آپ کی قابل قدر کتاب ’’اسلامی کتب خانے ‘‘ ۱۹۶۱ء میں ندوۃ المصنفین دہلی سے شائع ہوئی تھی اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۸ء میں کراچی سے شائع ہوا۔ اپنے موضوع پر یہ پہلی کتاب تھی جس میں اسلامی کتب خانوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ ۲۳ ستمبر ۱۹۷۹ء بروز اتوار آل پاکستان ایجو کیشنل کانفرنس میں اس کتاب کی تقریب رونمائی عمل میں آئی جس کی صدارت کے فرائض جسٹس (ر) قدیر الدین احمد صاحب نے انجام دئے اور اس تقریب میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مہمان خصوصی تھے۔ مقر رین میں سید الطاف علی بریلوی، ڈاکٹر انیس خورشید، ڈاکٹر معین الدین عقیل، سید ریاض الدین، گلستان خان کے علاوہ راقم بھی شامل تھا۔ ڈاکٹر محمد ایوب قادری نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کی موجود گی میں کسی بھی تقریب میں تقریر کرنے کا یہ میرا پہلا اور آخری موقع تھا جسے میں اپنے لیے ایک اعزاز تصور کرتا ہوں۔ میں نے ۱۹۷۱ ء میں جامعہ کراچی میں ایم اے سال میں داخلہ لیا تو ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جامعہ کراچی کے وائس چانسلر تھے، ۱۹۷۲ء میں جب میں فائنل میں آیا تو ڈاکٹر قریشی ریٹائر ہو گئے اور ڈاکٹر محمود حسین وائس چانسلر ہو گئے۔ اس طرح مجھے دونوں محترم شخصیات کی سربراہی میں تعلیم حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ تقریب میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب نے زبیر صاحب کے حوالے سے کتاب پر مدلل خیالات کا اظہار فرمایا، آپ نے کہا کہ ’’ میں زبیر صاحب کی سنجیدگی اور ذوق علمی کا شروع سے قائل ہوں بلاشبہ زبیر صاحب نے یہ کتاب نہایت محنت اور لگن سے تیار کی، مجھے اندازہ ہے کہ اس قسم کی کتابوں کی تالیف میں سخت محنت اوراستقلال سے کام لیا جاتا ہے۔ ایک ایک پتی اور ایک ایک پھول جمع کر کے گلدستہ بنا یا جاتا ہے ‘‘۔ سید الطاف علی بریلوی نے زبیر صاحب سے اپنے تعلق خاطر کا با انداز خاص ذکر فر ما یا اور کتاب کو ایک قیمتی اثاثہ قرار دیا۔
الحاج زبیر صاحب کی عملی زندگی کا آغاز ۱۹۲۲ء میں اس وقت ہوا جب آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے اور ۱۹۶۴ء تک بر صغیر کی اس جامعہ سے منسلک رہے۔ اس دوران آپ لائبریری میں مختلف عہدوں پر فائز رہے اور آخر میں کتب خانہ کے قائم مقام لائبریرین کی حیثیت سے خدمات انجام دی ساتھ ہی لائبریری سائنس کے استاد بھی رہے۔ ۱۹۶۴ء میں آپ علی گڑھ سے کراچی تشریف لائے۔ ہجرت کے بارے میں آپ نے تحریر فرمایا ’’اس وقت میرے لیے عجیب کشمکش اور تذبذب کا عالم تھا کہ ایک طرف علی گڑھ کی زمین میرا دامن پکڑے ہوئے تھی تو دوسری طرف پاکستان مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ بالآخر علی گڑھ سے جدائی اختیار کرنے پر اپنے آپ کو آمادہ کر لیا۔ لیکن میں اس سے اتنا وابستہ رہا ہوں کہ میری روح تو کبھی اس سے جدا ہوہی نہیں سکتی‘‘۔ کراچی آمد کے بعد جامعہ کراچی کے کتب خانے سے منسلک ہوئے بعد میں نیشنل کالج کے لائبریرین کے فرائض انجام دئے ساتھ ہی پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے اسکول آف لائبریرین شپ سے منسلک ہوئے اور لائبریری سائنس کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے۔ ۱۹۷۳ء میں اسکول کے ڈائریکٹر سید ولایت حسین شاہ کے انتقال کے بعد آپ اسکول کے ڈائریکٹر مقر ر ہوئے، زندگی کے آخری ایام تک آپ یہ فرائض انجام دیتے رہے ۔
زبیر صاحب بلا شبہ لائبریری سائنس کے میر کارواں تھے۔ اپنی تحریرسے لائبریری سائنس کے دامن کو خوب مالا مال کیا۔ آپ ایک محنتی لائبریرین اور ایک بہترین منتظم بھی تھے۔ منصوبہ سازی میں آپ کا جواب نہیں تھا۔ نرم لہجہ اور ٹھہر ٹھہر کر سمجھا نے والے انداز میں گفتگو کرتے، ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی شفیق باپ اپنی اولاد کو سمجھا رہا ہو، وضعداری اور انکساری آپ کا شعار تھا :
مثالی استاد علم و فن تھے
دکھائے علم و ہنر کے جوہر
وہ کل بھی تھے رہنما، ہمارے
وہ آج بھی ہیں، ہمارے رہبر
آپ کو مطالعہ کا شوق تھا، کتاب یا مضمون انتہا ئی غور اور توجہ سے پڑھا کرتے، اپنی کتاب ہونے کی صورت میں خاص خاص باتوں پر نشان لگاتے جاتے بصورت دیگر کتاب یا مضمون سے خاص خاص باتوں کو نوٹ کر لیا کرتے۔ لائبریری سائنس کے علاوہ اسلام آپ کا خاص موضوع تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اسلامی موضوعات پر متعدد مضامین اور کتب بھی لکھیں۔ ’ہم حج کیسے کریں ‘ آپ کی معروف کتاب ہے۔ ماہانہ ’الا انسان ‘ میں آپ آخری وقت تک مضامین تحریر کرتے رہے :
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو سب آتے ہیں مرنے کے لیے
زبیر صاحب سے میرا تعلق ۱۹ سالوں پر محیط رہا، یہ تعلق اس وقت قائم ہوا جب میں نے ۱۹۷۴ء میں اعزازی طور پر اسکول آف لائبریرین شپ میں پڑھانا شروع کیا۔ یہ تعلق اس وقت مزید بڑھ گیا جب زبیر صاحب اسکول کے ڈائریکٹر تھے اور میں ۱۹۷۹ء میں اسکول کا سیکریٹری اور منتظم مقر ر ہوا۔ اسکول کے انتظامی امور کی انجام دہی کے سلسلے میں بار ہا زبیر صاحب کے گھر جا نا ہوتا اور کافی کافی دیر گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا۔ شاید انہیں مجھ سے اور مجھے ان سے خاص انسیت ہو گئی تھی۔ اس کول کے معاملات کے علاوہ زیادہ تر لائبریری سائنس حتیٰ کہ ذاتی مسائل پر بھی کھل کر گفتگو ہوا کرتی، کچھ عجیب سے کشش تھی کہ جانے کے بعد اٹھنے کو جی نہ چاہتا، اکٹر کئی کئی ہفتے ہو جاتے تو محبت بھرے انداز میں فرماتے کہ ’’صمدانی صاحب اگر میں صحت مند ہو تاتو از خود آپ کے پاس چلا آتا، ان کے اس جملے سے میں شرمندہ ہو جا یا کرتا اور آئندہ کوتاہی نہ کرنے کا وعدہ کرتا۔ مرحوم کو اس بات کا شدت سے دکھ تھا کہ اُن کی اولادوں میں لائبریرین تو بنے لیکن تصنیف و تالیف کی جانب کوئی مائل نہ ہوا، اپنی تصانیف کی تکمیل خصوصاً پروف ریڈنگ کے سلسلے میں اپنی شریک حیات کی خدمات کی ہمیشہ تعریف کیا کر تے۔ اپنی شریک زندگی کی جدائی کا آپ کو شدید صدمہ ہوا آپ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگے، اکثر کہتے ’’صمدانی صاحب میری بیوی نہیں مری بلکہ میں مر گیا‘‘۔ اس حادثے کے بعد آپ کو پروف ریڈنگ میں مشکلات پیش آنے لگیں، جن کا ذکر آپ نے بارہا کیا، یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی زندگی کی آخری کتاب جس کا عنوان ہی ’’میری زندگی کی آخری کتاب‘‘ تھا مکمل نہ کر سکے، شا ید قدرت کو یہی منظور تھا ؎
وہ مجھ پہ مہر باں تھے ابھی کل کی بات ہے
اور سوچئے تو جیسے زمانہ گزر گیا
یہ عظیم ہستی بروز اتوار ۲ فروری ۱۹۹۲ء کوہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئی اور ہم ایک محبت کرنے والے شخص سے محروم ہو گئے۔ انا اللہ و انا علیہ راجعون۔
مت سہل ہمیں جانو پھر تا ہے فلک بر سوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
(مطبوعہ پاکستان لائبریری بلیٹن۔ جلد ۲۴ شمارہ ۴ ، دسمبر ۱۹۹۲ء)
مولانا محمد عارف الدین
لائبریری تحریک کے فروغ میں شہید حکیم محمد سعید کے دست راست
پاکستان میں لائبریرین شپ کے پیشے کی ترقی اُن اکابرین لائبریری سائنس کی مرہون منت ہے جنہوں نے آزادی کے پرچم تلے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی۔ انہوں نے پاکستان میں لائبریرین شپ کے پودے کا بیج بویا، اس کی آبیاری کی اور اپنی تمام زندگی اس پیشے کے فروغ اور ترقی کے لئے وقف کر تے ہوئے اسے ایک تناور درخت بنا دیا جس کے فیض سے آج نئی نسل فیض یاب ہو رہی ہے۔ ان محترم شخصیات میں ڈاکٹر عبدالمعید مرحوم، سید ولایت حسین شاہ مرحوم، فضل الٰہی مرحوم، محمد شفیع مرحوم، اختر ایچ صدیقی مرحوم، جمیل نقوی مرحوم، فرحت اللہ بیگ اور مولانا محمد عارف الدین شامل ہیں۔ کراچی میں ابتدائی لائبریری سر گرمیاں انہی احباب کی مرہون منت تھیں۔ کراچی لائبریری ایسو سی ایشن( ۱۹۴۹ء)، پا کستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ (۱۹۵۰ء)، انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات اسپل (۱۹۶۰ء)، کراچی یونیورسٹی لائبریری سائنس المنائی ایسو سی ایشن (۱۹۵۷ء) کے قیام اور خدمات میں ان احباب نے کلیدی کردار ادا کیا۔
۱۹۶۰ء تا ۱۹۹۸ء کے درمیان انجمن فروغ وترقی کتب خانہ جات، اسپل(Sociey for Promotion and Improvement of the Libraries, SPIL)، شہید حکیم محمد سعیداور مولانا عارف الدین ایک ایسی مثلث تھی کہ جس کے تینوں ستوں ملک میں کتب خانوں کی تحریک اور ترقی کے حوالے سے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے۔ عارف صاحب نے کالج لائبریرین کی حیثیت سے پیشہ ورانہ خدمات کا آغاز کیا، نیپا (NIPA) کے ریسرچ لائبریرین کے فرائض انجام دیے، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سٹی لائبریرین رہے اور ہمدرد لائبریری کے لائبریرین اور ڈائریکٹر کے فرائض بھی خوش اسلوبی کے ساتھ اداکیے لیکن اسپل (SPIL) آپ کی پہچان ہے، اسپل کے حوالے سے آپ جانے جاتے ہیں اس انجمن نے عارف الدین صاحب ہی کی وجہ سے نصف صدی کا پیشہ ورانہ سفر انتہائی جوش و جذبہ کے ساتھ طے کیا اس دوران انہیں شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی سر پرستی اور رہنمائی حاصل رہی۔
راقم الحروف کو پاکستان لائبریرین شپ کی جن شخصیات پرسوانحی و تعارفی مضامین لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا ان میں ڈاکٹر عبدالمعید، محمد عادل عثمانی، الحاج محمد زبیر، ابن حسن قیصر، جمیل نقوی، آئی اے ایس بخاری، پروفیسر اختر حنیف، فرحت اللہ بیگ، الطاف شوکت، رشید الدین احمد اور سمیع اللہ شامل ہیں۔ بعض احباب سے انٹر ویوز بھی کیے۔ عارف الدین صاحب سے گفتگو کی خواہش اور کوشش ایک عرصہ دراز سے تھی۔ اکثر آپ سے گفتگو کرنے کی کوشش کی لیکن آپ نے ہمیشہ اپنے بارے میں بات کرنے سے گریز کیا۔ عارف صاحب بہت ہی محبت کرنے والے، شفیق، نرم گو اور انکساری اور عاجزی کا پیکر ہیں۔ انتہائی محنت اور جوش و جذبہ کے ساتھ کام کرنا، اپنے آپ کو پیچھے رکھنا، خاموشی کے ساتھ اس طرح کام کر ناکہ بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس پروگرام میں عارف صاحب کہیں بھی نظر نہیں آئے در حقیقت وہ تمام کا تمام انہیں کا کارنامہ تھا۔ اسپل (SPIL) کے تحت بڑے اور اعلیٰ پیمانے پر سیمینار، کانفرنسیں اور ورکشاپ منعقد ہوئے کسی پروگرام میں بھی عارف صاحب اسٹیج پر نظر نہیں آئے۔ وجہ یہ نہیں کہ آپ اسٹیج پر بول نہیں سکتے تھے در اصل یہ آپ کا مزاج اور عادت کا حصہ تھا۔ خود کو پیچھے رکھتے ہوئے دوسروں کو آگے بڑھانا، یہ بات بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ عارف صاحب کو سب سے پہلے ۱۹۷۱ء میں اس وقت دیکھا جب راقم الحروف نے جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں داخلہ لیا۔ شیروانی اور علی گڑھ پا جامے میں ملبوس لیاقت علی خان کیپ لگائے ٹرمپ (Trump)موٹر سائیکل پر اکثر عادل عثمانی صاحب اور ڈاکٹر غنی لا کرم سبزواری صاحب کے پاس ڈاکٹر محمود حسین لائبریری اور شعبہ لائبریری سائنس جو لائبریری کی پانچویں منزل پر تھا آیا کر تے تھے۔ بعد میں یہ موٹر سائیکل ویسپا Vespa اسکوٹر اور پھر سوزوکیری میں تبدیل ہو گئی۔ سنا ہے کہ کبھی عارف صاحب سائیکل پر بھی دوڑے پھرا کرتے تھے۔ آپ سے باقاعدہ تعارف ۱۹۷۳ء میں اس وقت ہوا جب راقم الحروف نے ہمدرد لائبریری کی تنظیم و ترتیب کے کام میں عارف صاحب کی سربراہی میں حصہ لیا۔ کچھ عرصہ بعد اسپل (SPIL) عارف صاحب سے تعلق کا باعث ہوئی۔ ۱۹۹۶ء میں ایسا وقت بھی آیا کہ شہید حکیم محمد سعید اسپل کے صدر، عارف صاحب سیکرٹیری اور مجھے جوائنٹ سیکرٹیری ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
عارف صاحب ۲۷ اپریل ۱۹۱۹ ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۳۶ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے میٹرک پاس کیا قیام پاکستان کے بعد آپ نے پاکستان ہجرت کی۔ ۱۹۵۵ء میں کراچی لائبریری ایسو سی ایشن کا سر عر پر ت سے باے نرٹیفیکیٹ کورس کیا، ۱۹۶۲ء میں امریکہ کی یونیورسٹی آف ساؤتھرن کیلی فورنیہ سے لائبریری سائنس کا کورس کیا۔ پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز۱۹۵۵ء میں سندھ مسلم کالج کے لائبریرین کی حیثیت سے کیا ۱۹۶۱ء تک کالج لائبریرین رہے۔ ۱۹۶۱ء سے ۱۹۷۵ء تک نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن (NIPA) کے لائبریرین رہے۔ ۹۷۵اء میں بلدیہ کراچی کے سٹی لائبریرین اور ۱۹۷۶ء میں ہمدرد لائبریری سے منسلک ہوئے۔ بیت الحکمہ کے ڈائریکٹر کے فرائض بھی انجام دیے۔ عربی سوسائٹی سے بھی منسلک ہوئے اور کئی برس سوسائٹی کی ترقی کے لیے کام کیا۔ عارف صاحب کی پیشہ ورانہ خدمات اسپل کے حوالہ سے ہیں۔ آپ اس انجمن کے بانی رکن ہیں اس کی تمام تر سرگرمیاں شہید حکیم محمد سعید کی سر پرستی میں اور عارف صاحب کی رہین منت تھیں۔
راقم الحروف نے عارف صاحب سے یہ گفتگو ۳۱ دسمبر ۲۰۰۳ء بروز بدھ جناب عادل عثمانی صاحب کی رہائش گاہ واقع گلستان جوہر میں کی تھی اس گفتگو کے دوران جناب عادل عثمانی بھی موجود تھے۔ عارف الدین صاحب کی پیشہ ورانہ سرگرمیان اسپل (SPIL) کے حوالے سے رہی ہیں در حقیقت اسپل (SPIL) ہی آپ کی پہچان ہے یہی وجہ ہے کہ آپ سے گفتگو کا محور اسپل (SPIL) رہی۔
سوال۔ سب سے پہلے کیا آپ اپنے پس منظر پر روشنی ڈالنا پسند کریں گے۔
جواب۔ میرا تعلق ہندوستان کی ریاست حیدرآباد دکن سے ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے میٹرک کرنے کے بعدپاکستان ہجرت کی اورکراچی کواپنا مستقل مسکن بنا لیا۔ اب کراچی سے اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا، کراچی یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد ۱۹۵۵ء میں کراچی لائبریری ایسوسی ایشن کا سرٹیفیکیٹ کورس کیا اس کی بنیاد پر سندھ مسلم کالج کراچی کے لائبریرین کی ملازمت مل گئی، اس طرح لائبریرین شپ کے پیشہ سے منسلک ہو گیا۔ ۱۹۶۲ء میں امریکہ کی کیلی فورنیا یونیورسٹی میں لائبریرین کی تربیت کے لیے گیا۔ سندھ مسلم کالج کے علاوہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمینسٹریشن(NIPA) میں ریسرچ لائبریرین کے فرائض انجام دئے، بلدیہ عظمیٰ کراچی میں سٹی لائبریرین رہا اور ہمدرد لائبریری کے چیف لائبریرین اوربیت الحکمہ کے ڈائریکٹر کے فرائض بھی انجام دئے۔
سوال۔ اسپل (SPIL) کب اورکیسے قائم ہوئی؟
جواب۔ میری سوچ یہ تھی کہ کتب خانوں کی ضرورت شہریوں کو ہے لائبریرینز کو نہیں وہ تو ان کا نظام چلانے اور شہریوں کو بہتر سے بہتر لائبریری خدمات فراہم کرنے میں اہم کردار اداکر سکتے ہیں، میں یہ سمجھتا تھا کہ ملک میں لائبریری تحریک کا فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں شہریوں کی تنظیم(Citizen Body)زیادہ فعال اور موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ میں نے اس کاذکرمسز گل کے مینوالا سے کیا، انھوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے ایک خط ڈرافٹ کیا اس پر میرے اور مینوالا کے دستخط تھے، یہ جنرل باڈی کا اجلاس تھا جس میں کراچی سے تعلق رکھنے والی علمی اور ادبی شخصیات، دانشوروں اور دیگر مقتدر لوگوں نے شرکت کی لائبریرین شپ کے حوالے سے میرے علاوہ پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کے صدر فضل الٰہی، ابن حسن قیصر اور سید ولایت حسین شاہ شریک تھے۔ اس اجلاس میں ایک دستور ساز کمیٹی تشکیل پائی اس کے سربراہ پروفیسراے بی اے حلیم، سابق وائس چانسلرکراچی یونیورسٹی تھے، اراکین میں مسز گل کے مینوالا، ڈاکٹرسرور حسن، سید امجد علی اور میں شامل تھا۔ کمیٹی نے کئی اجلاسوں کے بعداسپل کا دستور تشکیل دیا۔ دستورکے مطابق جنرل باڈی کی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کا انتخاب عمل میں آیا۔ پھراس بورڈ آف ڈائریکٹرز نے مجلس منتظمہ کا انتخاب کیا۔ چنانچہ دستور کی رو سے اسپل کا اولین بورڈ آف ڈائریکٹرز ایس ایم کالج میں منعقد ہونے والے جنرل باڈی اجلاس میں معرض وجود میں آیا اس کے مطابق حکیم محمد سعیدشہید اس کے تاسیسی صدر منتخب ہوئے جو اپنی شہادت تک اس عہدہ پر فائز رہے، پروفیسر احمد علی پہلے جنرل سیکریٹری، مسز گل کے مینوالا ٹریزر ر (Treasurer) اور میں جوائنٹ سیکریٹری تھا، اراکین میں پروفیسر اے بی اے حلیم، ، ڈاکٹر محمود حسین، جناب ممتاز حسین، سیدامجدعلی، مس صفیہ خان اورسید ولایت حسین شامل تھے۔ اس طرح اسپل معرض وجود میں آئی۔
سوال۔ اسپل کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی جب کہ ملک میں کئی انجمنیں کام کر رہی تھیں ؟
جواب۔ ٹھیک ہے اس وقت بعض پروفیشنل ایسوسی ایشنز قائم ہو چکی تھیں ایک تو بات یہ ہے کہ میں ذاتی طور پر محسوس کرتا تھا کہ کتب خانوں کی ترقی ملک کے با اثر اور کتب خانوں کا ادراک رکھنے والے شہری جب تک اس تحریک میں عملی طور پر شریک نہیں ہوں گے بات آگے نہیں بڑھے گی میں چاہتا تھا کہ کتب خانوں سے محبت کرنے والا شہریوں کا ایک مضبوط گروپ(Strong Group of Library Friends)تشکیل دیا جائے ان کی وجہ سے Development بڑھے گی ایک اور بات جو میں محسوس کرتا تھا کہ لائبریرین شپ سے وابستہ لوگوں کی اکثریت ابھی نچلے (Lower) گریڈ میں ہے کتب خانوں کی ترقی اور فروغ کی بات حکومت کے اعلیٰ ایوانوں میں اس قدر توجہ سے نہیں سنی جائے گی، جو بات با اثر شہریوں کی ہو گی، ان کی وجہ سے کتب خانوں کی ترقی ہو گی اور وہ فروغ پائیں گے۔
سوال۔ اسپل(SPIL)نے پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا؟
جواب۔ اسپل کی تاریخ دیکھیں اس کے تحت پورے ملک میں لائبریری تحریک اور کتب خانوں کی ترقی اور فروغ کے لیے جو سیمینار، ورکشاپ اور کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ ان کے ذریعہ ہم نے پہلے کتب خانوں کی ترقی اور فروغ کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی اور جب رائے عامہ ہموار ہو گئی اور شعور بیدار ہو گیا تو اس کے بعد کتب خانوں کی ترقی اور فروغ کے لیے پلان، تجاویز اور ترقیاتی اسکیمیں تیار کی گئیں اور حکومت کو پیش کی گئیں۔ اسپل نے تین کتب خانے مکمل طور پر قائم کئے ان میں دو کراچی میں اور ایک کوئٹہ میں، بے شمار کتب خانوں کے قیام میں عملی طور پر حصہ لیا ان کی مدد کی، اسپل ہی نے سب سے پہلے ملک میں لائبریری قانون کے عملی نفاذ کی جد و جہد کا آغاز کیا، ۱۹۶۱ء لائبریری قانون کا ایک مسودہ تیار کیا اور نفاذ کے لیے حکومت کو پیش کیا گیا، پہلا لائبریری ترقیاتی منصوبہ اسپل نے تیار کیا، کراچی پبلک لائبریری اسکیم تیار کی، کراچی میں لائبریری بورڈ اسپل کی جد و جہد کے باعث تشکیل پایا، ۱۹۶۸ء میں نیشنل کمیشن برائے افرادی ترقی اور تعلیم National Commission on Manpower and Educationکو کتب خانوں کی ترقی کے لیے یاد داشت پیش کی، چوتھے پانچ سالہ منصوبہ میں لائبریریز کی ترقی کی تجاویز پیش کیں، ۱۹۷۰ء میں (National Pay Commission) کو ملک میں لائبریرین شپ کے پیشے سے وابستہ افراد کی تنخواہوں کی تجاویز پیش کیں۔ اپنی شہادت سے دوسال قبل ۱۹۹۶ میں حکیم محمد سعید نے پاکستان نیشنل لائبریری کے دورے کے موقع پر پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے عہدیداران سے ملاقات کی اورپی ایل اے کا تیار ر کردہ لائبریری قانون کا مسودہ حکومت پنجاب وسند ھ کو نفاذ کے لیے پیش کیا۔ اسی طرح اور بے شمار ترقیاتی کام ہیں جو اسپل نے گزشتہ ۴۳ برسوں میں انجام دئیے ہیں، یہ تمام معلومات آپ کو اسپل کی مطبوعات میں تفصیل کے ساتھ مل جائیں
گے۔
سوال۔ شہید حکیم محمد سعید نے اپنی بیٹی کو جہیز میں ایک لائبریری بھی دی تھی سنا ہے کہ اس لائبریری کی کتب کا انتخاب آپ نے کیا تھا؟
جواب۔ جی ہاں یہ درست ہے حکیم صاحب نے اپنی اکلوتی بیٹی کو جہیز میں منتخب کتب پر مشتمل ایک (Library Collection) دیا۔ اس لائبریری کی کتابوں کا انتخاب میں نے اورمسزللی اینی ڈی سلوا نے مل کر کیا تھا۔
مطبوعہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل جلد۳۶شمارہ ۵۔ دسمبر ۲۰۰۵)
فرحت اللہ بیگ
ہارڈنگ پبلک لائبریری دھلی اور خیر پو رپبلک لائبریری کے لائبریرین
پاکستان میں لائبریرین شپ کے پیشے کی ترقی اُن اکابرین لائبریری سائنس کی مرہون منت ہے جنہوں نے آزادی کے پرچم تلے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی۔ انہوں نے پاکستان میں لائبریرین شپ کے پودے کا بیج بویا، اس کی آبیاری کی اور اپنی تمام زندگی اس پیشے کے فروغ اور ترقی کے لئے وقف کر تے ہوئے اسے ایک تناور درخت بنا دیا جس کے فیض سے آج نئی نسل فیض یاب ہو رہی ہے۔ ان محترم شخصیات میں ڈاکٹر عبدالمعید جنہوں نے ۱۹۴۷ء میں لاہور کو اپنا مسکن بنایا اور بہت جلد کراچی منتقل ہو گئے۔ آپ ابتدا میں سندھ یونیورسٹی اور پھر کراچی یونیورسٹی کے لائبریرین ہوئے، سید ولایت حسین شاہ (۱۹۴۵ء سے ۱۹۵۰ء) ایس ایم کالج کے لائبریرین تھے، بعد ازاں لیاقت لائبریری کے لائبریرین ہوئے، فضل الٰہی بھی لاہور سے کراچی آ گئے اور لیاقت لائبریری (۱۹۵۰ء۔ ۱۹۵۱ء) سے منسلک ہو گئے، ابن حسن قیصر بھی لاہور سے کراچی منتقل ہو گئے اور ۱۹۵۲ء میں لیاقت لائبریری سے منسلک ہو گئے، محمد شفیع مرحوم نے ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی اور قومی اسمبلی کے لائبریرین ہو گئے، آپ ۱۹۵۸ء تک اس سے منسلک رہے، اختر ایچ صدیقی این ای ڈی انجینیئرنگ گورنمنٹ کالج کے (۱۹۴۸ء۔ ۱۹۵۱ء) لائبریرین تھے، جمیل نقوی مرحوم جنہوں نے ۱۹۴۸ء میں پاکستان ہجرت کی، ہندوستان میں لائبریرین شپ کے پیشے سے منسلک تھے، آپ انڈین لائبریری ایسو سی ایشن سے بھی وابستہ رہ چکے تھے، کراچی میں پاکستان ادارہ فروغ برآمدات سے منسلک ہو گئے اور فرحت اللہ بیگ دہلی کی ہارڈنگ پبلک لائبریری سے وابستہ تھے آپ نے ۱۹۴۸ء میں پا کستان ہجرت کی اور سیکریٹیریٹ لا ئبریری کے لائبریرین (۱۹۴۸ء۔ ۱۹۵۵ء) ہوئے۔ کراچی میں ابتدائی لائبریری سر گرمیاں انہی احباب کی مرہون منت تھیں۔ کراچی لائبریری ایسو سی ایشن ۱۹۴۹ء میں اور پا کستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ ۱۹۵۰ء میں معرض وجود میں آئے یہی ادارے بعد میں پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے قیام کاسبب بنے۔ یہ قابل احترام شخصیات اور بعض دیگر جن میں خان بہادر خلیفہ محمداسد اللہ خان، ڈاکٹر عبدا لصبوح قا سمی، ڈاکٹر محمد علی قاضی، خواجہ نور الٰہی، الطاف شوکت، اے رحیم، ، نور محمد خان، ، عبداللہ خان شامل ہیں پاکستان لائبریرین شپ کے حقیقی pioneers ہیں۔
فرحت اللہ بیگ اس وقت پاکستان لائبریرین شپ کے بزرگ ترین لائبریرین ہیں جو فضل تعالیٰ اپنی زندگی کے ۹۰ برس مکمل کر چکے ہیں۔ پاکستان میں آپ کی لائبریری خدمات ۵۶ برسوں پر محیط ہیں۔ راقم الحروف نے آپ سے بروز جمعرات ۳۰ ستمبر ۲۰۰۴ء آپ کی قیام گاہ واقع ناظم آباد میں ملاقات کی اور لائبریری پروفیشن کے حوالے سے گفتگو کی، آپ کی صحت بہتر ہے، چل پھر لیتے ہیں لیکن آپ کی یادداشت اور قوت سماعت عمر کے باعث متاثر ہو چکی ہے پھر بھی آپ نے اپنے ماضی کی یادداشتوں کو بیان کرنے کی بھر پور کوشش کی جسے میں نے قلم میں نے قلم بند کیا۔ بیگ صاحب اپنے ذاتی مکان کی پہلی منزل پر رہتے ہیں زمینی منزل پر ان کے ایک صاحبزادے اسد اللہ بیگ قیام پذیر ہیں جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں اسسٹنٹ ڈائیریکٹر ہیں۔ بیگ صاحب تک پہنچنے میں کچھ مشکلات پیش آئیں، کافی دیر انتظار کے بعد ان کی بیٹی جو ان ہی کے ساتھ رہتی ہیں سے اپنا تعارف کرایا اور ساتھ ہی مدعا بھی بیان کیا، انہیں یہ بات سننے کے بعد قدرے اطمینان ہوا کہ میں بیگ صاحب کا ہم پیشہ ہوں۔ اسی دوران ڈاکٹر معید کا ذکر بھی انہوں نے کیا وہ معید صاحب کی بیٹی عطیہ سے بھی واقف تھیں۔ اس طرح انہوں نے میری اور بیگ صاحب کی ملاقات کا اہتمام کر دیا۔ اس مرحلے میں اسدا للہ بیگ کی بیگم بھی معاون ثابت ہوئیں، بیگ صاحب تک پہنچنے میں انہوں نے ہی میری مدد کی۔ بیگ صاحب اُسی وقت سو کر اٹھے تھے۔ فوری طور پر انہیں بھی پہچاننے میں دشواری ہو ئی، ایک دو حوالوں کے بعد آپ گفتگو پر آمادہ ہو گئے۔
بیگ صاحب نے بتایا کہ میرا تعلق دہلی سے ہے، میں دہلی ہی میں اگست ۱۹۱۴ء میں پیدا ہوا اور اب میری عمر ۹۰ برس ہو چکی ہے۔ آپ نے ہندوستان سے ماسٹر کیا اور دہلی کی ہارڈنگ پبلک لائبریری میں ۱۳ برس (۱۹۳۵ء۔ ۱۹۴۸ء) لائبریری خدمات انجام دیں۔ آپ نے بتایا کہ ہارڈنگ لا ئبریری میں ڈاکٹر رنگا ناتھن کی سر پرستی میں ایک ورکشاپ منعقد ہو ئی تھی انہوں نے اس ورکشاپ میں شمولیت اختیار کی۔ ہارڈنگ لائبریری ہندوستان میں لائبریری سرگرمیوں کا مرکز ہوا کر تی تھی۔ ڈاکٹر عبدالمعید نے اسی لائبریری سے لائبریری سائنس کی تر بیت بھی حاصل کی تھی۔ آپ نے بتا یا کہ معید صاحب سے ان کی پہلی ملاقات دہلی کی اسی لائبریری میں ہو ئی تھی۔ انہی دنوں اس لائبریری میں آل انڈیا لائبریری کانفرنس بھی منعقد ہو ئی۔ جس کے انتظامی امور میں بیگ صاحب نے بھر پور کر دار ادا کیا۔
آپ ۱۹۴۸ء میں پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ لائبریری میں اپنی ملازمت کے با رے میں آپ نے بتایا کہ ڈپٹی سیکریٹری تعلیم اختر حسین رائے پو ری تھے انہوں نے آپ کا تقرر بحیثیت لائبریرین سیکریٹیریٹ لائبریری جو اس وقت قو می لائبریری بھی تھی کر دیا۔ میں جب اس لائبریری میں آ گیا تو یہ لائبریری کراچی کے لائبریرینز کی سر گرمیوں کا مرکز بن گئی۔ میرے پاس تمام لوگ جمع رہتے۔ کراچی میں لائبریری سر گرمیوں کی ابتدا اسی سیکریٹیریٹ لائبریری سے ہو ئی جس نے ایک قو می تحریک کی صورت اختیار کر لی۔ آپ نے بتایا کہ ان لوگوں میں جن کی کوششوں سے پہلے کراچی لا ئبریری ایسو سی ایشن اسکول آف لائبریرین شپ، پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ اور پھر قومی انجمن پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن قائم ہو ئی ڈاکٹر عبدالمعید، فضل الٰہی، سید ولایت حسین شاہ، محمد شفیع، جمیل نقوی، ابن حسن قیصر، نور محمد خان، اختر ایچ صدیقی اور وہ خود شامل تھے۔ آپ نے کہا کہ ہم نے مل کر لائبریریز اور لائبریری پروفیشن کی ترقی کے منصوبے تشکیل دیئے۔ سب لوگ انتہائی خلوص، لگن اور محنت سے کام کیا کر تے تھے۔ لوگ اپنی اپنی ڈیو ٹی ادا کر کے لائبریری آ جاتے اور دیر تک منصوبہ بندی کر تے رہتے۔ ۱۹۴۹ء میں کراچی لائبریری ایسو سی ایشن کی بنیاد رکھ دی گئی، اس کے پہلے صدر حسن علی اے رحمان اور سیکریٹری سید ولایت حسین شاہ تھے۔ اس کے تحت کچھ پروگرام تشکیل دئے ۱۹۵۲ء میں اس ایسو سی ایشن کے تحت ایک لائبریری اسکول قائم ہو گیا، محمد شفیع اس کے ڈائریکٹر بنے اور ولایت صاحب سیکریٹری۔ یہ لائبریری اسکول صحیح معنوں میں انڈر گریجویٹ سطح پر ملک کا پہلا لائبریری اسکول تھا۔ جس نے اس پیشے کی جا نب لوگوں کو مائل کیا جو لوگ اس کورس میں آئے انہوں نے بعد میں اس پروفیشن کے لئے بہت کام کیا۔ ان میں خاص طور پر ڈاکٹر انیس خورشید اور عادل عثمانی قابل ذکر ہیں جن کی لائبریری پروفیشن کے لئے بڑی خدمات ہیں۔ یہ دونوں حضرات ڈاکٹر عبدالمعید کے جانشین بھی ہوئے یعنی ڈاکٹر انیس خورشید شعبہ کے سربراہ اور عادل عثمانی یونیورسٹی لائبریرین ہوئے۔
کے ایل اے کے بعد پاکستان ببلوگرا فیکل ورکنگ گروپ قائم ہوا۔ اس کے قیام میں ڈاکٹر معید کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ اس ادارے کے قیام میں بین الا قوامی ادارے یونسکو اورحکو مت پاکستان نے بھی دلچسپی لی تھی۔ کتابیات کے شعبے میں یہ ملک کا اولین کتا بیاتی ادارہ تھا۔ اس کے قیام کے سلسلے میں کراچی یونیورسٹی لائبریری مرکز تھی۔ اس کے قیام کے سلسلے میں پہلی میٹنگ اسی لائبریری مین غالباً اگست ۱۹۵۳ء میں ہو ئی تھی اس میں ڈاکٹر معید، ولایت صاحب، جعفری صاحب، میں اور اختر صدیقی شریک تھے۔ اس کی تشکیل میں کوئی ایک سال لگ گیا ۱۹۵۴ء میں گروپ کی پہلی مجلس منتظمہ تشکیل پا ئی۔ گروپ کے صدر حکومت پاکستان کے مشیر تعلیم ایم ایس محی الدین کو منتخب کیا گیا جب کہ شفیع صاحب، معید صاحب نائب صدر، سیکریٹری ولایت صاحب، جوائنٹ سیکریٹری جمیل نقوی اور مجھے (فرحت اللہ بیگ)خازن بنایا گیا دیگر لوگوں میں اے آر غنی، ابن حسن قیصر اور اختر ایچ صدیقی شامل تھے۔
۱۹۵۵ء میں میرا تقرر خیر پور پبلک لائبریری کے لائبریرین کی حیثیت سے ہو گیا۔ یہ بر صغیر کی ایک قدیم پبلک لائبریری تھی۔ میں نے اسی سال ایک بین الا قوامی سیمینار میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی تھی۔ خیر پور پبلک لائبریری میں میرا تقرر اس وقت کے ایک وزیر ممتاز حسین قزلباش اور ڈاکٹر محمود حسین نے کیا تھا۔ بیگ صاحب نے اس لائبریری میں ۱۹ جولائی ۱۹۵۵ء سے ۷ اگست ۱۹۷۱ء تک خدمات انجام دیں۔ بقول ڈاکٹر اللہ رکھیو بٹ سندھ کے محکمہ ثقافت کے تحت یہ واحد لائبریری ہے جو پیشہ ورانہ اور انتظامی اعتبار سے مستحکم ہے۔ پہلے لائبریرین جناب بیگ صاحب (۱۹۵۷ء۔ ۱۹۷۱ء) ایک بیرون ملک کے فارغ التحصیل، ماہر اور تجربہ کار تھے، جنہوں نے لائبریری کو مستحکم بنیادوں پر قائم کیا۔ ۱۹۶۱ء میں بیگ صاحب آسٹریلیا تشریف لے گئے جہاں سے انہوں نے لائبریری سائنس میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ آسٹریلیا کے قیام کے دوران آپ نے لائبریری کی ترقی کی منصوبہ بندی کی جس پر بعد ازاں عمل درآمد بھی ہوا۔ لائبریری کی نئی عمارت کا افتتاح اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۶ مارچ ۱۹۶۵ء کو کیا۔ فرحت اللہ بیگ صاحب جو لائبریرین ہونے کے علاوہ لائبریری کمیٹی کے رکن بھی تھے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ اس لائبریری کا موجودہ نام ’’ سچل سر مست سندھ گورنمنٹ پبلک لائبریری‘‘ ہے۔ خیر پور میں قیام کے دوران بیگ صاحب نے ۱۹۷۰ء میں سندھ لائبریری ایسو سی ایشن کی بنیاد بھی رکھی۔ بیگ صاحب سے یہ ملاقات اس اعتبار سے مفید تھی کہ اس میں آپ نے پاکستان لائبریرین شپ کی ابتدائی تاریخ کے بعض نکات بیان کئے جو تا حال عام لوگوں کے علم میں نہیں تھے۔ یہ بزرگ پاکستان لائبریرین شپ کا ایک قیمتی سرمایہ ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے۔ آمین۔
مطبوعہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل جلد۳۵شمارہ ۴۔ دسمبر ۲۰۰۴ء)
سید امتینان علی شاہ بخاری
پاکستان لائبریرین شپ کے بخاری صاحب
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی
بخاری صاحب جن کا پورا نام سید امتینان علی شاہ بخاری تھا اللہ کو پیارے ہوئے۔ پاکستان لائبریرین شپ کی دنیا میں بخاری صاحب مرحوم کو ایک منفرد مقام حاصل تھا۔ اپنے منفرد اور اثر پذیر انداز میں گفتگو اور جاذب نظر شخصیت کے باعث وہ ہر محفل میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جایا کرتے۔ برٹش کونسل بخاری صاحب کی پہچان تھی کیونکہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ برٹش کونسل حیدر آباد اور لاہور میں گزرا تھا۔ حیدر آباد، اندرون سندھ اور کراچی کے تعلیم یافتہ لوگ بخاری صاحب کی لائبریری خدمات سے مستفیض ہو چکے تھے اور وہ مرحوم کی بہت عزت کیا کرتے، اس کی وجہ بخاری صاحب کا وہ برتاؤ اور خدمات تھیں جو انہوں نے ایک لائبریرین کی حیثیت سے فراہم کی تھیں۔ سندھ کے کئی لکھنے والوں نے اپنی تصانیف میں بخاری صاحب کی لائبریری خدمات کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا ہے۔
بخاری صاحب۶ نومبر ۱۹۳۲ ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، ۱۹۴۶ء میں میٹرک پاس کیا، ۱۹۵۴ء میں بی اے، بعد ازاں جامعہ پنجاب سے انگریزی اور فارسی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں، اسی جامعہ سے ۱۹۵۶ء میں لائبریری سائنس میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا، برطانیہ سے لائبریرین شپ کا مختصر کورس بھی کیا۔ آپ نے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز پی سی ایس آئی آر کے لائبریرین کی حیثیت سے کیا اور تین سال اس ادارے سے وابستہ رہے۔ بعد ازاں برٹش کونسل سے منسلک ہوئے اور حیدر آباد اور لاہور میں مختلف حیثیتوں میں ۱۵ سال خدمات سر انجام دینے کے بعد لیاقت میموریل لائبریری کے پرنسپل لائبریرین (ڈپٹی ڈائریکٹر ) ہوئے اور چار سال خدمات انجام دیں۔ اسی دوران آپ بیرون ممالک بھی گئے اور پیرس کی French Proficiencyاور جرمنی میں German Proficiency (Bonn)سے بھی وابستہ رہے۔
بحیثیت استاد بھی بخاری صاحب کی خدمات قابل قدر ہیں۔ جامعہ سندھ، حیدر آباد میں لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کلاس کا آغاز ڈاکٹر محمد علی قاضی کی عملی جد جہد کے نتیجہ میں ۷۰ء۔ ۱۹۷۱ء میں ہوا۔ ابتدائی کلاس (جس میں ۳۸ طلبہ تھے ) کو پڑھانے کے لیے جن اساتذہ کا تقرر عمل میں آیا ان میں ڈاکٹر محمد علی قاضی کے علاوہ جناب معین الدین خان اور بخاری صاحب شامل تھے۔ بخاری صاحب پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے اسکول آف لائبریرین شپ سے بھی وابستہ رہے۔ راقم نے ۱۹۹۲ء میں بخاری صاحب سے ہائر سرٹیفیکیٹ کورس کی کلاس کو پڑھانے کی استدعا کی جو آپ نے قبول کر لی اور دوسال ریفرنس کا کورس محنت کے ساتھ پڑھاتے رہے۔ وقت کی پابندی، احساس ذمہ داری اور اپنے پیشہ سے دلی وابستگی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس دوران جب کہ سیشن جاری تھا آپ کی ہمشیرہ اچانک رحلت کر گئیں اور آپ کو فوری پنجاب جانا پڑا، آپ نے پنجاب سے راقم کو خط تحریر کیا جس میں اس افسوس ناک خبر کی اطلاع کے علاوہ اپنے اچانک چلے جانے اور ان کی غیر موجودگی میں کلاس لینے کی درخواست کی تاکہ طلبہ کا نقصان نہ ہو۔
بخاری صاحب کی شخصیت تصنع و بناوٹ سے پاک تھی، سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ گفتگو بہت ہی سوچ سمجھ کر کیا کرتے، ادب و آداب، لحاظ و مروت کا ہمیشہ پاس رکھتے۔ کبھی اخلاق سے گری ہوئی بات نہ کرتے ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا کہ ایک ایسا پڑھا لکھا شخص بات کر رہا ہے جس کے اندر علم کی گہرائی موجود ہے۔ مر دانہ وجاہت، خو بصورت، کھڑے نقوش، گورا رنگ، دبلے اور لانبا قد اور اس کے ساتھ خوش لباسی مرحوم کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ ملنسار، خوش طبع و خوش گفتار تھے، گفتگو میں اکثر شعر سنایا کرتے، ادبی رنگ ان کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ بخاری صاحب کی شخصیت کا ظاہری lookانگریز سے مشابہت رکھتا تھا۔ انگریزی میں ایم اے کی سند نے انہیں مزید گوروں سے مشابہ بنا دیا تھا اور پھر رہی سہی کسر برٹش کونسل کی ملازمت نے پوری کر دی تھی اور وہ مکمل انگریز بن گئے لیکن کبھی اپنی انگریز نما شخصیت سے کسی کو مرعوب کرنے کوشش نہیں کی حتیٰ کہ عام گفتگو میں بھی انگریزی بولنے سے اجتناب کرتے۔ راقم الحروف کے نام اپنے ایک خط جو اردو زبان میں ہے مرحوم نے انگریزی زبان میں اپنے جذبات اور احساسات کو واضح انداز سے اظہار نہ کرنے کی جانب اشارہ کیا، آپ نے لکھا ’’صمدانی صاحب ! بعض اوقات ہم انگریزی زبان میں اپنے جذبات اور احساسات کو جس انداز سے ہم بیان کرنا چاہتے ہیں شاید نہیں کر پاتے ‘‘۔
بخاری صاحب کی انگریز نما شخصیت میں پاکستان ٹیلی ویژن کے سینئر پروڈیوسر سید حیدر امام رضوی کو جنہوں نے معروف ڈرامہ ’’جناح سے قائد‘‘ پیش کیا برطانوی سامراج کی ایک معروف شخصیت ’’لارڈ ماؤنٹ بیٹن‘‘ سے مشابہ نظر آئی چنانچہ اس ڈرامہ میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا مختصر سا کردار سید امتینان علی شاہ بخاری نے کامیابی سے ادا کیا۔
لائبریرین شپ کی محفلوں، مجالس و مذاکرہ اور کانفرنسوں میں بخاری صاحب بھر پور طریقے سے شریک ہوا کرتے ان کی عادت یہ تھی کہ خود کو پیچھے رکھتے دوسروں کو آگے بڑھانے کی سعی کرتے رہتے۔ شعلہ بیان مقرر تو نہ تھے البتہ کسی بھی موضوع پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے جو ہر اعتبار سے مدلل اور impressiveہوا کرتی۔ مجھے متعدد بار لائبریرین شب پر منعقد ہونے والے پروگراموں میں بخاری صاحب کے ساتھ بولنے کا اتفاق ہوا۔ ۱۹۹۶ء میں امریکن لائبریری سینٹر نے چوتھے لائبریری ویک کے سلسلے میں مئی میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا۔ شریک گفتگو بخاری صاحب، ڈاکٹر نسیم فاطمہ، معین الدین خان صاحب اور راقم الحروف شامل تھا۔ مذاکرہ کا موضوع ’’مستقبل کے کتب خانے ‘‘ تھا۔ تمام مقررین کے علاوہ بخاری صاحب نے موضوع پر بھر پور انداز سے گفتگو کی اور شرکاء کو متاثر کیا۔
پیشہ ورانہ سر گرمیوں کے علاوہ بخاری صاحب اپنے پیشہ کے فروغ، ترقی اور سر بلندی کے لیے انفرادی طور پر بھی جو کچھ ممکن ہوتا کیا کرتے۔ لیاقت میموریل لائبریری کی ڈائریکٹر کی حیثیت سے محترمہ مہتاب اکبر راشدی صاحبہ نے جب چارج سنبھالا، اس وقت بخاری صاحب ڈپٹی ڈائریکٹر تھے ، آپ نے کراچی کے سینئر لائبریرینز کی ایک میٹنگ ڈائریکٹر صاحبہ کے ساتھ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۸ء کو منعقد کی۔ بخاری صاحب نے اس تعارفی تقریب میں اپنے پیشے اور لائبریرینز کا بھر پور تعارف محتر مہ سے کرایا۔ ۱۹۹۶ء میں بخاری صاحب سندھ آرکائیوز میں بیٹھے لگے، آپ نے راقم کو ۲۰ اکتوبر ۱۹۹۶ء کو ایک خط تحریر کیا جس میں لائبریری قانون کے مسودات کی کاپی فراہم کرنے کی درخواست کی گئی، وہ اپنے شعبہ کے تحت اس کوشش میں بھی رہے کہ کسی طرح سندھ میں لائبریری قانون کا نفاذ عمل میں آ جائے۔ راقم نے انہیں لائبریری قانون کے مسودات کی کاپی فراہم کر دیں۔
بخاری صاحب مجلسی آدمی تھے لوگوں کے درمیان رہنا، گفتگو کرنا پسند کیا کرتے تھے۔ گفتگو میں شائستگی، ادب و آداب اور لحاظ ان کی طبیعت کا ایک اہم جزو تھا۔ بیہودہ گفتگو کرتے نہ ہی کسی دوسرے کی ایسی بات برداشت کیا کرتے۔ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے تا حیات رکن تھے، پاکستان ببو گرافیکل ورکنگ گروپ کے رکن اور اسکول کے ایک قابل استاد تھے۔ پاکستان لائبریری بلیٹن کے مستقل پڑھنے والوں میں سے تھے، جب بھی ملاقات ہوتی رسالہ کے بارے میں ضرور پوچھتے، تعریف کے ساتھ ساتھ غلطیوں کی بھی نشاندہی کیا کرتے۔ لائبریرین شپ کے گرتے ہوئے معیار پر فکر مندی کا اظہار کیا کرتے، اکثر کہا کرتے تھے کہ اس پیشہ میں ذہین لوگوں کو آنا چاہیے۔ بخاری صاحب اب ہم میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
(مطبوعہ پاکستان لائبریری بلیٹن۔ جلد ۳۱، شمارہ ۳۔ ۴، ستمبر أ دسمبر ۲۰۰۰ء)
رشید الدین احمد(ماسٹر رشید)
بیت الحکمہ، ہمدردیونیورسٹی کے لائبریرین
یہ آج کی بات نہیں تقریباً ۳۰ برس پہلے کی بات ہے جامعہ کراچی کا شعبہ لائبریری سائنس، جامعہ کی لائبریری (ڈاکٹر محمود حسین لائبریری) کی پانچویں منزل پر قائم تھا۔ شعبہ کے سابق طلبہ کی انجمن ’کراچی یونیورسٹی لائبریری سائنس المنائی ایسو سی ایشن (کلسا) کے انتخابات منعقد ہو رہے تھے۔ میں اس وقت ایم اے سال دوم کا طالب علم تھا۔ کیوں کہ سال اول (پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ ) مکمل کر چکا تھا لہٰذا کلاس کے تمام ساتھی اس انجمن کے رکن کی حیثیت سے ووٹ دینے کے حقدار تھے۔ انتخابات میں دو گروپ مدِ مقابل تھے ان میں سے ایک گروپ کی سربراہی رشید الدین احمد کر رہے تھے جو ماسٹر رشید کے نام سے معروف تھے۔ آپ ایسو سی ایشن کے چیر مین کے عہدے کے امیدوار تھے۔ انتخابی مہم کے سلسلے میں ماسٹر صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شعبہ میںس تشریف لائے، اپنا تعارف کرایا اور ہم طلبہ کو اپنے حق میں ووٹ دینے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔ ماسٹر صاحب کی شخصیت متاثر کرنے والی تھی۔ گفتگو بہت ہی دھیمے لہجے میں ٹھہر، ٹھہر کرنا آپ کی عادت تھی۔ لیڈرانہ تمکنت قطعاً نہیں تھیں۔ برٹش کونسل میں ملازم تھے، ظاہری طور پر بھی صاف ستھرا لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ ماسٹر صاحب سے جو تعلق ۱۹۷۲ء میں قائم ہوا وہ پیشہ ورانہ معاملات کے حوالے سے قائم رہا جو تقریباً ۲۷ برس پر محیط ہے۔ اس دوران آپ بارہ برس لیبیا میں بھی رہے۔ اپنے انتقال کے وقت آپ بیت الحکمہ (ہمدرد لائبریری) سے وابستہ تھے۔ ۲۵ جون ۱۹۹۵ء بروز اتوار دوران غسل پاؤں پھسل کر گر جانے کے باعث سر کی چوٹ سےجانبر نہ ہو سکے اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
ماسٹر رشید مرحوم ۱۰ جون ۱۹۳۰ء کو ہندوستان کے شہر کانپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کانپور میں ہی حاصل کی ۱۹۴۴ء میں اے ایس جوبلی کالج مرزاپور سے میٹرک، پرسٹ پرچ کالج کانپور سے ۱۹۴۶ء میں بی اے اور ۱۹۵۱ء میں آگرہ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ پاکستان ہجرت کے بعد ۱۹۵۵ء میں بی ٹی کیا اور ایک استاد کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ۱۹۶۶ء میں دوران ملازمت آپ نے شعبہ لائبریری سائنس، جامعہ کراچی میں داخلہ لیا۔ آپ کے ساتھیوں میں عبدالقیوم لطفی، مطلوب حسین مرحوم، ممتاز بیگم، واصل محمد صدیق اور علامہ واصل عثمانی خاص طور پر شامل تھے۔ ڈپلومہ میں آپ کی اول پوزیشن تھی، ڈپلومہ کرنے کے بعد لائبریرین شپ کے پیشہ سے وابستہ ہو گئے جس کے باعث ایم اے فائنل نہ کر سکے، امریکن سینٹر مین ملازمت مل گئی۔ چار سال بعد ایم اے لائبریری سائنس میں دوبارہ داخلہ لیا، اس بار بھی آپ کی اول پوزیشن تھی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماسٹر رشید ایک ذہین اور محنتی شخص تھے آپ کی قابلیت میں کوئی شک نہ تھا۔ آپ کو بجا طور پر لائبریری شپ کا درخشاں ستا رہ کہا جا سکتا ہے۔
ماسٹر رشید نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز چرسٹ کالج لائبریری کانپور سے کیا جہاں پر آپ شام کی شفٹ کے انچارج لائبریرین تھے۔ ساتھ ہی انگریزی کے لیکچر ر کی حیثیت سے بھی ایک سال خدمات انجام دیں۔ پاکستان ہجرت کرنے کے بعد گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول، ملیر کینٹ میں استاد کی حیثیت سے تدریس کا آغاز کیا۔ استاد ہونے کے ساتھ ساتھ آپ لائبریری کے انچارج بھی تھے۔ یہاں آپ نے ۸ سال(۱۹۵۵ء۔ ۱۹۶۲ء) خدمات انجام دیں۔ ۱۹۶۲ء میں امیریکن سینٹر سے منسلک ہوئے جہاں پر ۱۲ سال(۱۹۶۲ء۔ ۱۹۷۴ء) لائبریری خدمات انجام دیں اور اسسٹنٹ لائبریرین، سپر وائزر اور چیف لائبریرین کی حیثیت سے کراچی، حیدر آباد، پشاور اور کوئٹہ میں کام کرتے رہے۔ کوئٹہ میں ہوتے ہوئے آپ نے بلوچستان پبلک لائبریری کوئٹہ کے کیٹلاگ کی از سر نو تدوین اور ترتیب کے کاموں کی نگرانی کی۔ ۱۹۷۴ء میں آپ کا تقرر سینٹرل لائبریری الفتح یونیورسٹی ٹریپولی، لیبیا میں بحیثیت اسسٹنٹ لائبریرین ہوا اور آپ نے بارہ سال (۱۹۷۴ء۔ ۱۹۷۶ء) خدمات انجام دیں۔ ۱۹۸۷ء میں آپ واپس وطن آئے اور حکیم محمد سعید کے کتب خانہ ہمدرد لائبریری سے منسلک ہو گئے۔ یہ لائبریری جو ابتداء میں حکیم محمد سعید کا ذاتی کتب خانہ تھا ہمدرد لائبریری بنی بعد ازاں ’’ بیت الحکمہ‘‘ کہلائی۔ رشید الدین احمد کو بیت الحکمہ کا اولین لائبریرین ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آپ اپنے انتقال (۲۵ جون ۱۹۹۵ء) تک اس کتب خانہ سے وابستہ تھے۔ یہاں آپ کی خدمات ۸ سال ۵ ماہ پر محیط ہیں اس طرح ماسٹر صاحب کی عملی زندگی کا آغاز ۱۹۵۰ء میں ہندوستان کے شہر کانپور سے ہوا اور ۵۴ سال بعد پاکستان کے شہر کراچی میں اختتام پذیر ہوا۔
ماسٹر صاحب ایک ملنسار ار دوسروں کے کام آنے والے انسان تھے انہیں دوسروں کی مدد کر کے تسکین ہوتی تھی۔ امریکن سینٹر کے کامیاب ترین ریفرینس لائبریرین میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ پیشہ ورانہ سرگرمیوں اور فلاح و بہبود کے کاموں میں ذوق و شوق سے حصہ لیا کرتے۔ ۱۹۴۸ء۔ ۱۹۴۹ء میں آپ چرسٹ کالج کانپور کے کالج میگزین کے اردوسیکشن کے ایڈیٹر مقرر ہوئے، ۱۹۶۴ء۔ ۱۹۶۶ء میں آپ حریت ایجو کیشن سوسائٹی کے نائب صدر مقرر ہوئے۔ لائبریرین شپ میں آپ کی پیشہ ورانہ سر گرمیوں کا آغاز ۱۹۶۲ء میں ہوا، اسی سال آپ کو پاکستان لائبریری ریویو کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا بعد ازاں ۱۹۷۰ء میں آپ کو اسی رسالہ کا ایسو سی ایٹ ایڈیٹر مقرر کیا گیا، شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی کے قدیم طلبہ کی انجمن (کلسا) کے آپ دوبارہ ۱۹۶۹ء اور ۱۹۷۲ء میں چیر مین منتخب ہوئے۔ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں بھی حصہ لیا اس کے خازن بھی منتخب ہوئے۔
رشید صاحب کے علم کی روشنی میں ان کا عملی کام بہت مختصر ہے۔ کیٹلاگ سازی پر انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب Introduction of Cataloguing: theory and practiceکے مشترکہ مصنف تھے۔ یہ کتاب لبیا سے شائع ہوئی۔ مولانا محمد علی جوہر کی کتاب Choice of Turksکا اردو ترجمہ بعنوان ’’ ترکوں کا انتخاب ‘‘کیا۔ پیشہ ورانہ موضوعات پر آپ کے ۸ مضامین طبع ہوئے جب کہ ادب کی مختلف اصناف پر آپ کے ۹ مضامین مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوئے لیکن آپ کا زیادہ تر کام دوسروں کے کھاتے میں ہے۔ وہ اس طرح کہ آپ نے مختلف مصنفین و محققین کی مدد اور معاونت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔
خواجہ بدر الحسن اور ماسٹر رشید
ماسٹر رشید نے امریکن سینٹر میں بارہ سال خدمات سر انجام دیں جہاں پر خواجہ بدر الحسن ان کے ساتھی، دوست بعد ازاں آفیسر بھی رہے۔ خواجہ صاحب امریکن سینٹر کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہو چکے ہیں خواجہ صاحب سے ماسٹر صاحب کے حوالہ سے جو تفصیلی گفتگو ہوئی ذیل میں درج ہے
خواجہ صاحب کے مطابق ’’ ما سٹر صاحب نے ۱۹۶۲ء میں امریکن سینٹر میں ملازمت کا آغاز کیا تو وہ مکمل طور پر لائبریری میں تو نہ تھے البتہ ثقافتی امور کے ساتھ ساتھ لائبریری کے امور بھی سر انجام دیا کرتے تھے۔ رشید صاحب لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ حاصل کر کے آئے تھے ‘‘۔ اس وقت خواجہ صاحب کے پاس کسی بھی قسم کی پیشہ ورانہ سند نہیں تھی۔ خواجہ صاحب کا کہنا ہے کہ ماسٹر صاحب کی شخصیت نے انہیں لائبریری کے امور کی جانب مائل کیا اس کے بعد خواجہ صاحب نے ۱۹۶۵ء میں پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کا سرٹیفیکیٹ کورس کیا اس وقت سید ولایت حسین شاہ مرحوم کورس ڈائریکٹر تھے، خواجہ صاحب نے ڈپلومہ نمایاں حیثیت سے پاس کیا آپ کی پہلی پوزیشن آئی۔ خواجہ صاحب نے بتا یا کہ رشید صاحب نے انہیں متعدد لائبریری امور سے آگاہ کیا۔ رشید صاحب ریفرنیس لائبریرین تھے جب کہ خواجہ صاحب لائبریری کے انتظامی امور کے نگراں۔ اس وقت دونوں ایک ہی گریڈ میں تھے۔ علوی صاحب ڈائریکٹر تھے۔
خواجہ صاحب نے امریکن سینٹر پر حملہ اور آگ لگ جانے کا واقعہ سنا تے ہوئے بتایا کہ ۱۹۶۵ء میں لائبریری پر حملہ ہوا اور آگ لگانے کا واقعہ رونما ہوا، اس وقت خواجہ صاحب اور دیگر عملہ ڈیوٹی پر تھا۔
جب عمارت کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، تمام لوگ اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے خواجہ صاحب نے بتا یا کہ اس وقت ایک کمرہ کے کونے میں ہماری ڈائریکٹر جو انگریز تھی ڈری اور سہمی ہوئی اور چھپی کھڑی تھی، انہوں نے حالات کا احساس کرتے ہوئے اپنی ڈائریکٹر کو جو جسامت میں خواجہ صاحب سے کسی بھی طور کم نہ تھی اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور بیرونی دیوار سے باہر کی جانب پھینک دیا اس طرح اس کی جان تو بچ گئی لیکن ٹانگیں وغیرہ شدید زخمی ہو گئیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو وہ ڈائریکٹر یقینی طور پر جل جاتی۔ خواجہ صاحب کو اس کارنامہ پر State Department Award of Heroismسے نوازا گیاساتھ ہی آپ امریکن سینٹر کی انتظامیہ کے قریب آ گئے۔ چنانچہ جب لائبریری کے عملہ کو مختلف شعبہ جات میں تبادلہ کرنے کا مرحلہ آیا تو خواجہ صاحب سے مشورہ کے بعد مختلف احباب کا مختلف جگہ تبادلہ کیا گیا۔ رشید صاحب کو PACCکا لائبریرین مقرر کیا گیا۔
خواجہ صاحب نے بتا یا کہ کچھ عرصہ بعد امریکن سینٹر لائبریری کو ازسر نو فیروز خان نون کی کوٹھی میں ترتیب دیا گیا تو اس کے کاموں میں انہوں نے رشید صاحب نے اور ارشاد احمد نے سرگرمی سے حصہ لیا۔ آپ نے بتا یا کہ ماسٹر صاحب بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے لیکن امریکیوں کی نظر میں ان کی سست روی ایک کمزوری تھی۔ وہ تمام امور بہت ہی سلیقے سے انجام دیا کرتے لیکن ان میں دھیمے پن کا عنصر شامل تھا۔ شاید یہی سبب بنا کہ علوی صاحب کے ریٹائر ہونے کے بعد ماسٹر صاحب کے بجائے خواجہ صاحب کو لائبریری کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ خواجہ صاحب کے بقول امریکی سست روی کے مقابلہ میں تیز کام کرنے والوں کو ترجیح دیتے ہیں اور شاید یہی وجہ میری ترقی کا باعث بنی۔ خواجہ صاحب نے بتا یا کہ میں اور رشید صاحب کوئی سال سے ساتھی تو تھے ہی میری ترقی کے بعد ہم آفیسر اور ماتحت کے رشتہ میں منسلک ہو گئے لیکن ہمارے درمیان دوستی کے تانے بانے مزید بڑھتے گئے اور ہمارا تعلق جو دفتر کے حوالہ سے تھا گھریلومراسم میں تبدیل ہو گیا ہم دونوں ایک دوسرے کے گھر آنے جانے لگے۔ کیرم کھیلنا ہمارا مشترکہ مشغلہ تھا، ماسٹر صاحب کیرم کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ جوانی میں ہاکی بھی کھیلا کرتے تھے۔ صاف ستھرا لباس زیب تن کیا کرتے، آفس میں ہمیشہ شرٹ یا سوٹ جب کہ گھر میں بڑے پا ئچے کا پیجامہ اور کرتا ان کا مخصوص لباس تھا۔ پان زیادہ کھا یا کرتے، پان کی ڈبیہ اور بٹوا ان کے ہمراہ ہمیشہ ہوتا۔ وہ ایک فرمانبردار بیٹے، ذمہ دار بھائی، خیال کرنے والے شوہر اور ایک فرض شناس باپ تھے۔ آپ کی ابتدائی نجی زندگی مشکلات سے دور چار رہی۔ شادی بھی تاخیر سے کی، چاہتے تھے کہ وہ اپنی بہنوں کے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔ آپ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
بیت الحکمہ اور ماسٹر رشید
لیبیا سے وطن واپس آنے کے بعد آپ فروری ۱۹۸۷ء میں ہمدرد لائبریری (بیت الحکمہ) کے چیف لائبریرین مقرر ہوئے اور اپنے انتقال ۲۵ جون ۱۹۹۵ء تک اسی کتب خانے سے منسلک تھے۔ یہاں آپ کی خدمات ۸ سال ۵ ماہ پر محیط ہیں۔ آپ سے قبل اس عہدہ پر حکیم نعیم الدین زبیری، مولانا عارف الدین، عبیداللہ سیفی، خورشید عالم، ممتاز الا سلام خدمات سر انجام دے چکے تھے۔ عام تاثر یہ تھا کہ اس کتب خانہ میں خدمات سر انجام دینا مشکل اور کٹھن ہے۔ ماسٹر صاحب نے اپنے عمل سے اس تاثر کو غلط ثابت کر دکھایا اور یہ ثابت کیا کہ اگر انسان چاہے تو ہر طرح کے حالات میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
ہمدرد لائبریری یا بیت الحکمہ حکیم محمد سعید کے خوابوں کی تعبیر اور ایک ایسا کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک حکیم محمد سعید کو زندہ و جاوید رکھے گا۔ اس کتب خانے کے حوالے حکیم نعیم الدین زبیری کا ذکر بھی لازمی ہے۔ آپ نے تحریری طور پر اپنے خیالات سے نوازا۔ آپ لکھتے ہیں ’’ ۱۹۸۶ء کے اواخر میں ہمدرد فاؤنڈیشن میں لائبریرین کے انتخاب کے لیے انٹر ویو ہوئے۔ امیدواروں میں سے ایک صاحب کی سنجیدگی اور متانت نے مجھے بطور خاص متوجہ کیا۔ یہ مرحوم رشید الدین صاحب تھے۔ رشید صاحب نے اپنی درخواست کے ساتھ جو اپنا حیات نامہ منسلک کیا تھا ‘ اس کی تفاصیل نے میرے احساس کو تقویت پہنچائی پھر گفتگو کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ اعلیٰ تعلیمی قابلیت ‘ طویل تجربے اور فن میں مہارت کے باوجود انتہائی منکسرالمزاج بھی واقع ہوئے ہیں۔ انٹر ویو لینے والے دیگر حضرات کی رائے بھی کم و بیش یہی تھی۔ اس بنا پر رشید صاحب کا انتخاب با اتفاق ہو گیا اور جلد ہی ان کا تقرر ہو گیا۔ فروری ۱۹۸۷ء میں رشید صاحب نے ایک با وقار اور تجربہ کار لائبریرین کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ جو حضرات پاکستان سے باہر جا کر کام کرتے ہیں ‘ پاکستان آنے کے بعد ان کی توقعات اندازے ہمیشہ زائد ہوتے ہیں مگر رشید صاحب نے ہماری پیشکش کو جو بہت زیادہ نہیں تھی خندہ پیشانی سے قبول کر لیا، انہوں نے ابتدائی ملاقات میں جو تاثر چھوڑا تھا اسے اپنے ایام کار کے آخری روز تک بر قرار رکھا۔ ہمدرد لائبریری میں جو ناظم آباد سے مدینہ الحکمہ منتقل ہو چکی تھی ان کی بے مثال اور بے لوث کارگزاری کا آخری دن ۳۰ مئی ۱۹۹۵ء تھا۔ دفتری اوقات کار کے دوران میں نے انہیں سب سے زیادہ مصروف پایا اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہیں کسی نے مجلس بازی میں وقت ضائع کرتے دیکھا ہو۔ امور کتب خانہ میں ان کی تجربہ کاری اور سنجیدہ مصروفیت نے سب کو متا ثر کیا۔ امور کتب خانہ سے متعلق لوگ انہیں ماسٹر صاحب کہا کرتے تھے۔ ان میں جو خصوصیات موجود تھیں وہ سب اکتسابی خصوصیات تھیں اور ان کے رکھ رکھاؤ سے ان کے ایک انتہائی لائق اور محنتی استاد ہونے کی خصوصیت نمایاں تھی۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے اپنی خدمات کے آٹھ سال کے دوران کسی سے غصے میں بات کرتے انہیں نہیں دیکھا‘ ماتحت کارکنوں کے ساتھ ان کا سلوگ ایک معیاری سربراہ کا سلوک رہا۔ رفقائے کار میں کسی کو کبھی ان کا شاکی نہیں پایا۔ فن میں مہارت اور مثالی عملی قابلیت کے حامل افراد میں بردباری اور انکساری کاس طرح یکجا ہونا میرے خیال میں اگر معدوم نہیں تو نادر ضرور ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے اعمال کا بہتر صلہ عطا فرمائے اور ان کی مغفرت فرمائے آمین۔
میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اور رشید الدین احمد مرحوم کا تصور آنکھوں کے سامنے ہے۔ لمبا قد جس کے باعث کمر قدرے جھکی ہوئی ، سنجیدہ اور بردبار چہرہ، کشادہ پیشانی، روشن آنکھیں ، گندمی رنگ، بچے بالوں میں قدرے سفیدی اور سلیقہ سے اوپر کی جانب ستے ہوئے ، گرمیاں ہیں تو قمیض پتلون ٹائی ، جاڑے ہیں تو صاف ستھرا سوٹ، لہجے میں نر می ، آواز اعتماد اور دھیما پن، گفتگو میں شائستگی] کسی بھی بات پر قہقہہ لگا نے کی ضرورت ہوئی تو زیر لب مسکراہٹ پر اکتفا کرنا، ہر شخص سے جھک کر ملنا، محبت سے پیش آنا آپ کا روز مرہ کا معمول تھا۔ جب کبھی میرا ہمدر لائبریری جانا ہوتا خندہ پیشانی سے ملتے۔ کبھی کوئی ہلکی یا ناروا بات آپ کی زبان سے نہیں سنی۔ کیا خوب شخص تھا، للہ مغفرت کرے آمین۔
(مطبوعہ پاکستان لائبریری بلیٹن۔ جلد ۳۴، شمارہ ۱۔ ۲، مارچ۔ جون ۲۰۰۳ء)
غروبِ سحر
(رپورتاژ)
زندگی نے آنکھ کھولی، ستارے مسکرا اُٹھے۔ سحر نمودار ہوئی تو زندگی کی حرارت بخش نرم نرم کرنیں بکھر نے لگیں، ہر سوُ سوتا پھیلا نے لگیں ؎
آفتاب تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا
غنچوں نے مسکراکر اس نو دمیدہ کلی کو دیکھا، پھول فرطِ انبساط سے ہنس پڑے، باغباں نے احساسِ طمانیت سے آنکھیں بند کر لیں، دل خدا کے حضور احساِس تشکر سے جھُک گیا۔ کلی پھلنے، پھولنے لگی، مگر فلکِ کج رفتار کو گلستاں کا رنگ و بو ایک آنکھ نہ بھایا، آتشِ حسد سے جل اُٹھا، تیور بدلنے لگے۔ چرخِ کہن کی جبیں شکن آلود ہو گئی۔ ہواؤں نے اس کی حاسد تمازت جذب کر لی اور اپنی نرم لطافت، آسودگی کھو بیٹھیں، رات کے بگولے اُڑ نے لگے، ہواؤں کے جھکڑ چلنے لگے۔
پھول خوف سے زرد ہو گیا۔ ٹہنیاں جھُک جھُک گئیں، غنچے سہم کر پھول کی اوٹ میں چھپ گئے اور باغباں حیران و پریشان ہواؤں کا رنگ دیکھ رہا تھا کہ معصوم سی، کو مل سی، کہکشاں کی طرح جگمگاتی مسکراتی ’سحر‘ ہواؤں کی تپش سے جھُلسنے لگی، تپنے لگی، اس کا گِیہُواں چمکتا دمکتا رنگ تمازتِ آفتاب سے سُرخ ہونے لگا، ننھے ننھے لب کانپنے لگے، خوبصورت آنکھیں جھپکنے لگیں، ننھا سا سہما سہما و جود فضاؤں کی بے رُخی کی تاب نہ لا کر دھیرے دھیرے لرزنے لگا، مگر لب خاموش تھے صرف آنکھیں بولتی تھیں۔ وہ جو پھول کی نرم نرم آغوش محبت کی لطیف سی حرارت کی عادی تھی بے رحم ہواؤں کی تپش سے مُرجھانے لگی ، شاخ پر ڈولنے لگی۔ ساتھی پھولوں نے سہارا دیا مگر وہ ننھی سے کومل جان جو ابھی پوری طرح طلوع بھی نہیں ہوئی تھی کہ بے مہریِ زمانہ کے ہاتھوں بے بس ہو کر اپنی کرنوں کو سمیٹنے لگی، شمع کی مانند بھڑ کنے لگی، وہ جو چشم براہ تھی، نہ جانے اسے کسی مہر باں کا انتظار تھا۔ نہ جانے کس مسیحا ٔ نفس کی تلاش تھی کہ آنکھیں جانبِ در اور گوش بر آواز تھے۔
یکا یک وہ باغباں جس نے خونِ دل سے کلیوں کی آبیاری کی تھی، غنچوں کو گدگدایا تھا، ہنسا یا تھا، شگفتہ پھولوں کو مہک عطا کی تھی آ پہنچا۔ مگر دیر ہو چکی تھی وقت کا صیاد اپنا تیر چلا چکا تھا۔ باغباں کا مہر باں ہاتھ حفاظت ’سحر ‘ کو اُ ٹھا تو وہیں جم کر رہ گیا، وہ آنکھیں جو محوِ انتظار تھیں ہاتھ کے لمس کو پہچان کر مطمئن سی ہوئیں اور پھر انجان بن گئیں۔ کلی نے چپکے سے آنکھ موند لی۔
باغباں تھرا گیا، پھول کا چہرہ فرطِ غم سے سفید پڑ گیا، غنچے بلک بلک کر رودیئے۔ مگر کلی تو ایسی روٹھی پھر منائی نہ جا سکی۔ آفتاب کی کرنیں دھند لانے لگیں، دونوں وقت ملنے لگے تو وہ نازک سے کلی، وہ نودمیدہ ’سحر‘ پیوند خاک ہو گئی۔ وہ ’سحر‘ جو آنکھ کا نور، دل کا سرور تھی، باغباں تہی دست رہ گیا اور گل رنگ تتلی کو فضا میں تحلیل ہوتے دیکھتا رہا۔ وہ آفاق کی لامتناہی تنہائیوں میں کھو گئی، وہ چلی گئی ایک ایسی جگہ جہاں دنیا کا رکھوالا اس کی نگہداشت کو موجود ہے۔ وہ سحرَ تھی میری بیٹی۔ کہ پوری آب و تاب سے طلوع ہوئی اور پھر یکدم غروب ہو گئی کبھی طلوع نہ ہونے کے لیے۔ لیکن میرے دل میں تو وہ ہمیشہ جگمگاتی رہے گی، مجھے حوصلہ دیتی رہے گی کہ باغباں اپنے فرض سے غافل نہ ہو اور بھی غنچے ہیں جنہیں تجھے پروان چڑھانا ہے اور انہیں تن آور سایہ دار بنا نا ہے تاکہ وہ بھی باغباں بن جائیں گل چیں نہ بنیں کہ یہی رسمِ گلستاں ہے، رسمِ دنیا ہے اور مرضیِ مولا بھی یہی ہے :
طلوعِ سحر ہوئی بھی نہ دیکھنے پائے
غروب سحر کا منظر نہ بھولنے پائے
مآل دردِ محبت جو ہم نے دیکھا ہے
الٰہی میرا عُدو بھی نہ دیکھنے پائے
ہوا ہے کیسا اندھیرا مرے گلستان میں
کلی جو چٹکی تو غنچہ نہ دیکھنے پائے
کسے مناؤں کوئی اب کہاں ملے گا مجھے
وہ چار دن بھی جھولا نہ جھولنے پائے
جو میں نہ تھا تو میرا انتظار تھا اس کو
جو مجھ کو دیکھا تو دنیا نہ دیکھنے پائے
(شائع شدہ ’ادب و کتب خانہ ‘ ۱۹۸۰ء)
٭٭٭
وقت سحر در جنت سے یہ ندا آئی
اُٹھو اُٹھو چڑیوں سحر آئی سحر آئی
درباں نے جو آواز سنی ایک ہل چل سی مچی
فلک گونج اٹھا بہار آئی بہار آئی
غنچے مسکرائے، پھول مہکے، کلیاں چٹکنے لگیں
باغباں کہہ اٹھا ایک پھول آئی ایک پھول آئی
فرطِ مسرت سے یوں ہوا جنت میں استقبالِ سحر
بیبیاں گو یا ہوئیں کیا خوب آئی کیا خوب آئی
فرشتے لیے ڈولی حاضر ہوئے با ادب و احترام
کلی چٹک کے بولی خاتونِ جنت سحر آئی سحر آئی
رئیسؔ صمدانی، ۱۹۸۰ء
(سحرَ میری بیٹی تھی جو اس دنیا میں آئی اور صرف ۳۹ دن بعد اللہ کو پیاری ہوئی)
تصانیف و تالیفات
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
اردو ادب (سوانح اور خاکے )(Urdu Literature)
۱۔ جھولی میں ہیرے اور موتی:شخصی خاکے ؍ کراچی: فضلی بک سپر مارکیٹ ، ، ۲۰۱۲ء، ۲۵۶ص۔
عالمی معیاری کتاب نمبر:ISBN:978-969-441-164-7
۲۔ یادوں کی مالا:مختلف شخصیات کے بارے میں مصنف کے تاثرات، افکار اور انعکاسات؍ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۲۴۴ص۔ عالمی معیاری کتاب نمبر:ISBN:969-503-763-1
۳۔ ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری : شخصیت و علمی خدمات؍؍کراچی: بزم اکرم و لائبریری پروموشن بیورو، ۲۰۰۶ء، ۹۶ص، عالمی معیاری کتاب نمبر:ISBN:97-969-459-035-3
۴۔ ڈاکٹر عبد المعید اور پاکستان لائبریرین شپ؍(مشترک مولٔف )کراچی: لائبریری پروموشن بیورو، ۱۹۸۰ء، ۱۵۱ص
۵۔ ادب و کتب خانہ ؍(مشترک مولٔف) کراچی:بزم اکرم۔ ۱۹۸۰ء، ۲۲۸ص
۶۔ محمد عادل عثمانی : کتابیاتی سوانحی جائزہ(انگریزی)
7) Muhammad Adil Usmani: A Bio-Bibliographical Study/ Karachi: Pakistan Bibliographical Working Group & Library Promotion Bureau, 2004. 117p. (ISBN: 969-8170-05-7)
۸۔ اختر ایچ صدیقی : کتابیاتی سوانحی جائزہ(انگریزی)
8) Akhtar H. Siddiqui: A Bio-Bibliographical Study/Karachi Pakistan Bibliographical Working Group, 1995, 79p: (ISBN: 969-8170-02-2)
۹۔ شیخ محمد ابراہیم آزادؔ : شخصیت، شاعری اور شجرہ؍؍زیر طبع، ۲۰۱۲ء(زیر طبع)
۱۰۔ پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدرـ : ایک ہمہ گیر شخصیت؍(زیر طبع)
اسلام(Islam)
۱۱۔ دعا کی اہمیت و فضیلت اور ۱۰۱ قرآنی و مسنون دعائیں معہ ترجمہ؍ ؍کراچی: صمدانی اکیڈ می، ۸۸ص۔ اشاعت اول: ۲۰۰۸ء اشاعت دوم: ۲۰۱۱ء، عالمی معیاری کتاب نمبر:ISBN:978-969-9267-00-0
۱۲۔ سلام : (السلام علیکم )قرآن کی روشنی میں ؍ کراچی: صمدانی اکیڈمی، ۲۰۰۲ء عالمی معیاری کتاب ٍنمبر:ISBN:978-969-9267-01-7
لائبریری و انفارمیشن سائنس(Librarry and Information Science)
۱۳۔ کتب خانے تاریخ کی روشنی میں ؍ کراچی: قمر کتاب گھر، ۱۹۷۷ء۔ ۱۱۱ص
۱۴۔ ابتدائی لائبریری سائنس؍ کراچی: لائبریری پروموشن بیورو، ۱۹۸۰ء۔ ۲۲۸ص، ایڈیشن اول ۱۹۸۰ء، ایڈیشن ۲۲، ۲۰۱۲ء
۱۹۸۰ء تا ۲۰۱۲ء کے درمیان شائع ہونے والے ایڈیشنز کی تفصیل:
اشاعت ۱ ــ……… ــ ۱۹۸۰ء اشاعت ۲ ــ………ستمبر۲ ۱۹۸ء
اشاعت ۳ ……… ۱۹۹۱ء اشاعت ۴ ـ……… ۱۹۹۲ء
اشاعت ۵ ـ………ـــــ ۱۹۹۴ء اشاعت ۶ـ……… ۱۹۹۵ء
اشاعت ۷ـ………ــــــــ ۱۹۹۶ء اشاعت ۸ـ……… ۱۹۹۷ء
اشاعت ۹ـ……… ۱۹۹۸ء اشاعت ۱۰ ـ……… ۱۹۹۹ء
اشاعت ۱۱ـ……… جنوری ۲۰۰۰ء اشاعت ۱۲ ـــ ـ……… ستمبر ۲۰۰۰ء
اشاعت ۱۳ـ……… ۲۰۰۱ء اشاعت ۱۴ـ……… ۲۰۰۲ء
اشاعت ۱۵ ـ……… ۲۰۰۳ ء اشاعت ۱۶ـ…… اگست ۲۰۰۴ ء
اشاعت ۱۷ـ……… نومبر ۲۰۰۴ ء اشاعت ۱۸ـ……… ۲۰۰۵ ء
اشاعت ۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ستمبر ۲۰۰۶ اشاعت ۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگست ۲۰۰۷ء
اشاعت ۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۸ء اشاعت ۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۱۲ء
۱۵۔ مبادیات لائبریری سائنس؍ کراچی: لائبریری پروموشن بیورو، ۱۹۸۵ء۔ ۲۰۰ص، ایڈیشن اول ۱۹۸۰ء ایڈیشن ۲۱، ۲۰۱۲ء
۱۹۸۵ء تا ۲۰۱۲ء کے درمیان شائع ہونے والے ایڈیشنز کی تفصیل:
اشاعت ۱ ــ……… ۱۹۸۵ء اشاعت ۲ ــ………ستمبر۱۹۸۹ء
اشاعت ۳ ……… ۱۹۹۱ء اشاعت ۴ ـ……… ۱۹۹۲ء
اشاعت ۵ ـ……… ۱۹۹۴ء اشاعت ۶ـ……… ۱۹۹۵ء
اشاعت ۷ـ……… ۱۹۹۶ء اشاعت ۸ـ……… ۱۹۹۷ء
اشاعت ۹ـ……… ۱۹۹۸ء اشاعت ۱۰ ـ……… ۱۹۹۹ء
اشاعت ۱۱ـ……… جنوری ۲۰۰۰ء اشاعت ۱۲ ـــ ـ……… ستمبر ۲۰۰۰ء
اشاعت ۱۳ـ……… ۲۰۰۱ء اشاعت ۱۴ـ……… ۲۰۰۲ء
اشاعت ۱۵ ـ……… ۲۰۰۳ ء اشاعت ۱۶ـ…… اگست ۲۰۰۴ ء
اشاعت ۱۷ـ……… ۲۰۰۵ء اشاعت ۱۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ستمبر ۲۰۰۶ ء
اشاعت ۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۷ء اشاعت ۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۸ء
اشاعت ۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۱۲ء
۱۶۔ نظری لائبریری سائنس؍؍ کراچی: لائبریری پروموشن بیورو، ۱۹۹۴ء۔ ۲۲۸ص، ایڈیشن
۵، ۲۰۰۵ء ISBN: 969-459-004-3
اشاعت : ۱ ـ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ـ ـ ـ ۱۹۹۴ء
اشاعت : ۲ ـ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۹۹۷ء
اشاعت : ۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۰ء
اشاعت : ۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ـــ۔ ۔ ۲۰۰۴ء
اشاعت : ۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۵ء
۱۷۔ تعلیمی لائبریری سائنس؍؍ کراچی: لائبریری پروموشن بیورو، ۱۹۹۵ء۔ ۲۲۸ص، ایڈیشن ، ۴۔ ۲۰۰۷ءٍ ISBN: 969-459-015-9
اشاعت اول۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۹۹۵ء
اشاعت دوم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۹۹۹ء
اشاعت سوم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۵ء
اشاعت چہاروم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۷ء
۱۸۔ جدید لائبریری و اطلاعاتی سائنس؍(مشترک مولٔف) کراچی: لائبریری پروموشن بیورو، ۱۹۹۳ء،
19) Serials Management: A Study Guide for MLIS/ Islamabad: Allama Iqbal Open University. 2002.135p.
کتابیات؍اشاریہ؍کیٹلاگ (Bibliographies/Indexea/Catalogue
۲۰۔ پاکستان میں سائنسی و فنی ادب: ۱۹۴۷ء۔ ۱۹۷۴ئ؍؍ کراچی: لائبریری پروموشن بیورو، ۱۹۷۵ء۔ ۱۵۷ص۔
۲۱۔ کتا بیات طب و صحت؍؍ کراچی: پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ، ۱۹۹۲ء، ۷۲ص
22) The National Bibliography of Pakistan: Volume III (Pure Sciences Geography and History, (500 to 900)/ (Retrospective Pakistan National Bibliography) Islamabad: Department of Libraries, Ministry of Education, Government of Pakistan, 1999, 580p: ISBN:969-8170-05-7; ISNN:10190678
23) Periodical Literature in Library and Information Science: an Index of 50 Years Works in Pakistan (1947-1997)/by Rais Ahmed Samdani and Khalid Mahmood.- Karachi: Pakistan Bibliographical Working Group, 1999, 182p: ISBN:969-8170-04-9 Web Version available on:http://www.angelfire.com/ma3/mahmoodkhalid
24) Index of Pakistan Library Bulletin: 1968 – 1994/ Karachi: Library Promotion Bureau,1996, 115p: (ISBN: 969-459-012-4) 25) Cumulative Index of Pakistan Library Review (PLR)/ Karachi: Pakistan Bibliographical Working Group, 1998, 40p: (ISBN: 969-8170-03-0
26) Bibliographical Sources on Islam / Karachi : Pakistan Bibliographical Working Group, 1993. 44p. ISBN: 969-8170-10-4
27) Books on Pakistan in Haji Abdullah Haroon Govt College Library (English and Urdu) / Karachi: The College, 1993, 62p;
ڈائریکٹریDirectories
28) First Famous Facts of Muslim World/Compiled by Dr. Ghaniul Akram Sabzwari and Dr. Rais Ahmed Samdani.- Karachi: Library Promotion Bureau, 2012, 122p. Price: 495/-, ISBN:878-969-459-047-9
کتابچہ(Brouchure)
29) School of Librarianship, P.B.W. G.: Prospectus/ Karachi: Pakistan Bibliographical Working Group, 1990. rev. ed. 2008.
رودادیں (Proceedings)
۳۰۔ روداد گولڈل جوبلی و اجلاس عام ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن ۲۲۔ ۲۳ مارچ ۱۹۹۰ء ؍؍ کراچی: ایسو سی ایشن، ۱۹۹۰ء، ۱۲۸ص
۳۱۔ روداد اجلاس عام ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن ۲۶۔ ۲۷ دسمبر ۱۹۹۲ء، ۹۶ص
۳۲۔ رپورٹ جنرل سیکریٹری، ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن، یکم جولائی ۱۹۹۰ء۔ جون ۱۹۹۱ء، کراچی: ایسو سی ایشن، ۱۹۹۱ء، ۱۳ص
۳۳۔ رپورٹ کارگزاری، ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن، ۱۹۹۰ء۔ ۱۹۹۱ء، کراچی: ایسو سی ایشن، ۱۹۹۱ء، ۳۱ص
مضامین Articles/Papers خاکے، سوانحی مضامین، رپوتاژ، آپ بیتی، مکالمے
۱۔ ’’حضرت علی ابن ابی طالب ‘‘۔ ماہنامہ ترجمان کراچی۔ ۸(۲) ۳۱۔ ۳۴، اگست ۱۹۷۸ء
۲۔ شیخ محمد ابراہیم آزادؔ : نعت گو شاعر۔ ’’ ماہنامہ انوار الصوفیہ ‘‘، قصور، اگست ۱۹۸۱ء، ۲۰۔ ۲۸
۳۔ شیخ محمد ابراہیم آزادؔ : خاندان باری بخش کی ایک عظیم شخصیت؍ در؛، ثنائے محبوب خالق، دیوان آزادؔ نعتیہ مجموعہ کلام حضرت شیخ محمد ابراہیم آزادؔ ؍ مولف مغیث احمد صمدانی۔ ۔ اشاعت دوم۔ ۔ ۲۰۰۵ء،ص ص ۳۰۵۔ ۳۲۱
۴۔ شیخ محمد ابراہیم آزاد ؔ : خاندانِ باری بخش (حسین پور )کی ایک محترم شخصیت ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ءء، ۳۷۔ ۵۲
۵۔ حاجی سر عبد اللہ ہارون: شخصیت۔ روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘، کراچی، ۲۹ اپریل ۱۹۸۲ء،ص viii
۶۔ حاجی سر عبدا للہ ہارون مرحوم : قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھ اور سندھ کی معروف سیاسی و سماجی شخصیت ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۲۷۔ ۳۶
۷۔ الحاج محمد زبیر۔ : بر عظیم پاک و ہند میں لائبریرین شپ کی نامور شخصیت۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۳( ۴): دسمبر ۱۹۹۲ء، ۱۔ ۱۵
۸۔ الحاج محمد زبیر : علی گڑھ مسلم یو نیور سٹی کے سابق لائبریرین ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۱۸۰۔ ۱۸۵
۹۔ ابن حسن قیصر: پاکستان مین لائبریری تحریک کا خاموش مجاہد۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۴( ۴)دسمبر ۱۹۹۳ء، ۱۸۔ ۲۶
۱۰۔ ابن حسن قیصر : پاکستان لائبریری تحریک کا خاموش مجاہد ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۱۹۳۔ ۱۹۹
۱۱۔ محمد عادل عثمانی : پاکستان لائبریرین شپ کارخشندہ آفتاب ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۶۸۔ ۸۰
12- Muhammad Adil Usmani: an Eminent Pakistani Librarian. Pakistan Library Bulletin. XXIV(4), pp: 10-16, December 1993.Also on internet with photograph of Mr. M. Adil Usmani Webside”http://www.twsu.edu/-systems/adil.htm”13- Muhammad Adil Usmani: an eminent University librarian. Souvenir, 1st Library Seminar on Academic Libraries at the Threshold of 21st Century, held on 27th-28th January 1993. Organized by the Dr.Mahmud Hussain Library, University of Karachi. The Library, 1993, pp:35.
۱۴۔ پروفیسر اختر حنیف مرحوم۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۷( ۱۔ ۲): مارچ۔ جون ۱۹۹۶ء، ۱۔ ۳۷
۱۵۔ پروفیسر اختر حنیف مرحوم ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۱۶۶۔ ۱۷۹
۱۶۔ حکیم محمد سعید : کتاب اور کتب خانوں کے سچے عاشق۔ مجلہ ’’ افق ‘‘ ریاض گورنمنٹ گرلز کالج، کراچی، ۹۹۔ ۱۹۹۸ء، کراچی، ۱۹۹۹ء، ۱۷
۱۶۔ کتاب اور کتب خانوں کا شیدائی۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۳۱( ۱۔ ۲):مارچ۔ جون ۲۰۰۰ء، ۱۹۔ ۲۵
۱۷۔ ’’شہید حکیم محمد سعید : کتاب اور کتب خانوں کا شیدائی‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۹۔ ۲۰
- 18. Hakim Muhammad Said: at a Glance. Pakistan Library XXI v(1-2), March-June 2000. p: 7-30.
18- Hakim Muhammad Said: at a Glance. "Rivayat” CollegeMagazine Govt College for Men, Nazimabad 2000.
۱۹۔ پاکستان لائبریرین شپ کے بخاری صاحب۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۳۱( ۳۔ ۴):ستمبر۔ دسمبر ۲۰۰۰ء، ۱۔ ۱۱
۲۰۔ سید امتینان علی شاہ بخاری : پاکستان لائبریرین شپ کے بخاری صاحب ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۲۰۷۔ ۲۱۰
۲۱۔ سمیع اللہ مرحوم۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۰ء
۲۲۔ میاں الطاف شوکت: پاکستان لائبریرین شپ کی ایک محترم شخصیت۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۳۲( ۱۔ ۲):مارچ۔ جون ۲۰۰۱ء، ۱۔ ۹
۲۳۔ میاں الطاف شوکت : پاکستان لائبریرین شپ کی ایک محترم شخصیت ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۱۰۶۔ ۱۱۶
۲۴۔ جمیل نقوی : لائبریرین، شاعر اور قلم کار۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۳۳( ۱۔ ۲):مارچ۔ جون ۲۰۰۲ء
۲۵۔ جمیل نقوی مرحوم : ایک لائبریرین، شاعر اور قلم کار ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۱۸۶۔ ۱۹۲
۲۶۔ حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ کالج فیض احمد فیضؔ سے پروفیسر فضل الٰہیٰ تک۔ میگزین ’’ نوید سحر‘‘، حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ کالج، ۲۰۰۲، ۶۵۔ ۷۸
۲۷۔ رشید الدین احمد المعروف بہ ماسٹر رشید۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۳۴( ۱۔ ۲):مارچ۔ جون ۲۰۰۳ء
۲۸۔ رشید الدین احمد(ماسٹر رشید) ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰ء، ۲۰۰۔ ۲۰۶
۲۹۔ پروفیسر ڈاکٹر طہ ٰ حسین: عالم اسلام کی ایک نامور شخصیت جنہوں نے بصارت سے محروم ہونے کے باوجود تعلیم کے میدان میں عظیم کار نامے سر انجام دئے :مجلہ ’’ افق‘‘، ریاض گورنمنٹ گرلز کالج، کراچی ۳۰۰۳، ۳۰۔ ، ۳۳
۳۰۔ ’’ڈاکٹر طحہٰ حسین : عالم اسلام کی ایک نامور شخصیت جنہوں نے بصارت سے محروم ہونے کے باوجود تعلیم کے میدان میں عظیم کارنامے سر انجام دیئے ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۲۱۔ ۲۶
۳۱۔ پروفیسر سراج الدین قاضی۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۴ء، ۶۱۔ ۶۳
۳۲۔ مادر ملت فاطمہ جناح : قدم بہ قدم۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظمآباد، کراچی، ۲۰۰۰ء، ۴۱۔ ۴۶
۳۳۔ فرحت اللہ بیگ: پاکستان ائبریرین شپ کے ایک بزرگ لائبریرین سے ایک ملاقات۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۳۵( ۴):دسمبر ۲۰۰۴ء، ۱۔ ۳
۳۴۔ فرحت اللہ بیگ : پاکستان لائبریرین شپ کے ایک بزرگ ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۲۷۱۔ ۲۲۱
۳۵۔ مسیز مارگریٹ من: لائبریرین اور ایک استاد۔ پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۳۸ (۳)، ستمبر ۲۰۰۷، ۱۔ ۱۸
۳۶۔ ’’ڈاکٹر انیس خورشید : پاکستان لائبریرین شپ کا ایک رخشندہ آفتاب غروب ہو گیا (۱۹۲۶ء ۔ ۲۰۰۸ء)‘ ‘۔ پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۳۹ (۱)، جنوری ۲۰۰۸، ۱۔ ۱۲
۳۷۔ ڈاکٹرانیس خورشید محقق کے نام اپنے خطوط اور مضامین کی روشنی میں، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۳۸۔ پروفیسرڈاکٹر انیس خورشید : خطوط، یادداشتیں اور تاثرات ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۵۹۔ ۶۷
۳۹۔ ’’پاکستان لائبریرین شپ کے معروف استاد و محقق پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر بھی رخصت ہوئے ‘‘۔ پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۳۹ (۴)، دسمبر ۲۰۰۸،
۴۰۔ ’’پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر کا سفر آخر‘‘پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۴۰ (۱)، مارچ ۲۰۰۹ء، ۷۔ ۱۰
۴۱۔ پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر : پاکستان لائبریر ین شپ کے معروف استاد و محقق ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۹۵۔ ۱۰۵
۴۲۔ پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدرکا سفرِ آخر۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی: خاکے ؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ۲۰۱۲ء
۴۳۔ ڈاکٹر غنی لاکرم سبزواری : دنیائے لائبریرین شپ کا ایک گوہر یکتا ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۸۱۔ ۹۴
۴۴۔ ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری : شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ کراچی کے سابق صدر شعبہ و پاکستان لائبریرین شب کی ایک ہمہ گیر شخصیت‘‘۔ پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۳۷ (۳)، ستمبر ۲۰۰۶، ۱۔ ۱۳
۴۵۔ ’’پروفیسر خورشید اختر انصاری: دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ بلوچستان کے استاد‘‘ پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۴۱ (۳)، ستمبر ۲۰۱۰ء، ۱۸۔ ۲۲
۴۷۔ تابش ؔ صمد انی : ایک خاکہ۔ ۔ ایک مطالعہ ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۱۱۷۔ ۱۳۴
۴۸۔ محبوب احمد سبزواری : سب کے محبوب ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران وتاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۱۳۵۔ ۱۴۱
۴۹۔ مشکور احمد: چند یادیں۔ ۔ چند باتیں ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۱۴۲۔ ۱۵۳
۵۰۔ سید امام : بندر روڈسے مسان روڈتک ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰ء، ۱۵۴۔ ۱۶۵
۵۱۔ مولانا محمد عارف الدین : انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات کے بانی رکن ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۲۱۱۔ ۲۷۰
۵۲۔ منظو احمد بٹ : ایک مخلص سماجی کارکن ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۲۲۲۔ ۲۳۱
۵۳۔ شیخ لئیق احمد کے بارے میں ایک تاثر ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۲۳۲۔ ۲۴۱
۵۴۔ ’’پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام سابق پروفیسر گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد ‘‘۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘ گولڈن جوبلی نمبر۱۹۵۶ء۔ ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۸ء، ۲۵۔ ۲۷۔
۵۵۔ پروفیسر ڈاکٹرعبدالسلام:سابق پروفیسر گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی: خاکے ؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ۲۰۱۲ء
۵۶۔ پروفیسر لطیف اللہ : سابق پروفیسر گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد ‘‘۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘ گولڈن جوبلی نمبر۱۹۵۶ء۔ ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۸ء، ۲۸۔ ۳۰۔
۵۷۔ پروفیسر لطیف اللہ:سابق پروفیسر گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی: خاکے ؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ کراچی: فضلی کتاب سپر مارکیٹ، ۲۰۱۲ء
۵۹۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی: اردو ادب کا روشن ستارہ۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی: شخصی خاکے ؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ کراچی: فضلی کتاب سپر مارکیٹ، ۲۰۱۲ء
۶۰۔ عبد الوہاب خان سلیم: ایک کتاب دوست۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی: خاکے ؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ کراچی: فضلی کتاب سپر مارکیٹ، ۲۰۱۲ء
۶۱۔ عبد الصمد انصاری:دھیما لہجہ۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی:: شخصی خاکے ؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ کراچی: فضلی کتاب سپر مارکیٹ، ۲۰۱۲ء
۶۲۔ فیض احمد فیض: میرا پرنسپل۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی: : شخصی خاکے ؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ کراچی: فضلی کتاب سپر مارکیٹ، ۲۰۱۲ء
۶۳۔ عبد الستار ایدھی: خدمت و عظمت کا نشان۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی: شخصی خاکے ؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ کراچی: فضلی کتاب سپر مارکیٹ، ۲۰۱۲ء
۶۴۔ پروفیسرمحمد احمد: سابق پرنسپل: اسلامیہ کالج، سکھر، حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ کالج کراچی۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی: : شخصی خاکے :کراچی: فضلی کتاب سپر مارکیٹ، ۲۰۱۲ء
۶۵۔ فرخندہ لودھی:ایک ادیب اور ایک کتابدار۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی: : شخصی خاکے ؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ کراچی: فضلی کتاب سپر مارکیٹ، ۲۰۱۲ء
۶۶۔ اپنی تلاش: خاکہ۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی: : شخصی خاکے کراچی: فضلی کتاب سپر مارکیٹ، ۲۰۱۲ء
۶۷۔ میری ماں : خاکہ۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی: : شخصی خاکے :کراچی: فضلی کتاب سپرمارکیٹ، ۲۰۱۲ء
رپوتاژ؍یادوں کے دریچے
۶۸۔ غروب سحر۔ در۔ ۔ ادب و کتب خانہ۔ ؍ مرتبہ نسیم فاطمہ اور رئیس احمد صمدانی، ۔ کراچی: لائبریری پروموشن بیورو، ۱۹۸۰ء،ص ص ۷۶۔ ۷۸
۶۹۔ غروب سحر (رپوتاژ) ‘‘۔ در، یادوں کی مالا؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ لاہور: الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۹ء، ۲۴۲۔ ۲۴۴
۷۰۔ ’’میں نے موت کو قریب سے دیکھا‘‘(رپور تاژ)، ادب و کتب خانہ ؍ کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۱ء
۷۱۔ میں نے موت کو قریب سے دیکھا:رپور تاژ۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی: شخصی خاکے ؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ کراچی: فضلی کتاب سپر مارکیٹ، ۲۰۱۲ء
۷۲۔ جامعہ سرگودھا میں میرے شب و روز:کچھ یادیں کچھ باتیں۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی: : شخصی خاکے ؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ کراچی: فضلی کتاب سپر مارکیٹ، ۲۰۱۲ء
۷۳۔ جامعہ کراچی میں میرا زمانہ طالبِ علمی :گزرے دنوں کی کچھ یادیں۔ در، جھولی میں ھیرے اور موتی:: شخصی خاکے ؍رئیس احمد صمدانی۔ ۔ کراچی: فضلی کتاب سپر مارکیٹ، ۲۰۱۲ء
انٹر ویوز
۷۴۔ انجمن ترقی و فرغ کتب خانہ جات کے بانی رکن مولانا محمد عارف ا الدین سے ایک ملاقات۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۳۶( ۴):دسمبر ۲۰۰۵ء،
۷۵۔ ’’پاکستان لائبریرین شپ کے سینئر لائبریرین محمد گلستان خان سے ایک مکالمہ‘ ‘۔ پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۳۹ ۲)، جون ۲۰۰۸، ۱۰۔ ۱۵
۷۶۔ سعدیہ راشد۔ صدر ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان، انٹر ویو: ۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۷۷۔ پروفیسرحکیم نعیم الدین زبیری۔ ڈائریکٹر، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈریسرچ، ہمدرد یونیورسٹی کراچی، انٹر ویو، ۲ستمبر ۲۰۰۳ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۷۸۔ مسعود احمد برکاتی۔ سینئر ڈائریکٹر، پبلی کیشنز ڈویژن، ہمدرد (وقف ) پاکستان، انٹر ویو، ۸ نومبر ۲۰۰۴ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدردیونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۷۹۔ فرقان احمد شمسی۔ ڈائریکٹر جنرل۔ ہمدردفاؤنڈیشن پاکستان، انٹر ویو، ۲۵ اکتوبر۲۰۰۵ء، در ، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۸۰۔ پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر(سابق ڈائریکٹر تعلیمات، بلوچستان )، انٹر ویو، ۱۹ جون ۳۰۰۳ء، کوئٹہ، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰ء،
۸۱۔ خورشید اختر انصاری۔ چیر مین شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، بلوچستان یونیورسٹی، انٹر ویو ، ۱۹ جون ۳۰۰۳ء، کوئٹہ، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۸۲۔ رحمت اللہ خان بلوچ۔ چیرٔمین(مارچ ۲۰۰۵ء تاحال)، شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، بلوچستان یونیورسٹی، انٹر ویو، ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ء، کوئٹہ، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۸۳۔ محمد الیاس۔ اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، یونیورسٹی آف بلوچستان ، انٹر ویو، ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ء، کوئٹہ، در ، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۸۴۔ ڈاکٹر سکینہ ملک۔ چیف لائبریرین بلوچستان یونیورسٹی، انٹر ویو، ۱۹ جون ۳۰۰۳ء، کوئٹہ، در ، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۸۵۔ پروفیسر ڈاکٹر افتخا الدین خواجہ۔ بانی چیرمین : شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، بلوچستان یونیورسٹی، کوئٹہ، انٹر ویو، ۱۵ا کتوبر ۲۰۰۵ء، کوئٹہ، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۸۶۔ نور محمد۔ لائبریرین۔ صوبائی لائبریری بلوچستان، کوئٹہ، انٹر ویو، ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ء ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۵ء، کوئٹہ، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۸۷۔ پروفیسر سیدلیاقت علی۔ چیر مین شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، پشاور یونیورسٹی، انٹر ویو، ۱۳ ا کتوبر ۲۰۰۵ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۸۸۔ حامدرحمان۔ اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، پشاور یونیورسٹی، ۷ جولائی ۲۰۰۴ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۸۹۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد فاضل خان۔ ایچ ای سی پروفیسرو صدر شعبہ، ، شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، ، انٹر ویو، ۱۴ا کتوبر ۲۰۰۵ء ، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۹۰۔ پروفیسر ڈاکٹرخالد محمود۔ شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، انٹر ویو ، ۲۸ دسمبر ۲۰۰۴ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۹۱۔ پروفیسرڈاکٹر اللہ رکھیوبٹ۔ چیر مین، شعبہ لائبریری وانفار میشن سائنس، یونیورسٹی آف سندھ، انٹر ویو، ۷ اپریل ۲۰۰۴ء ، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۹۲۔ پروفیسر ڈاکٹرسید جلال الدین حیدر۔ سابق صدرشعبہ، لائبریری وانفارمیشن سائنس، جامعہ کراچی، انٹر ویو، ۱۲ مارچ۲۰۰۴ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۹۳۔ محمدعارف الدین۔ بانی رکن، انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات، انٹر ویو، ۳۱ دسمبر ۲۰۰۳ء، کراچی، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۹۴۔ محمد عادل عثمانی۔ سابق ڈائریکٹرجامعہ امہ القرا، طالٔف، سعودی عرابیہ ولائبریرین جامعہ کراچی، انٹر ویو، ۲ فروری ۲۰۰۴ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۹۵۔ ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری۔ سابق صدرشعبہ، لائبریری وانفارمیشن سائنس، جامعہ کراچی و لائبریرین جامعہ اُمہ القریٰ مکہ المکرمہ، سعودی عربیہ، انٹر ویو، ۲۳ مارچ ۲۰۰۴ء، در ، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۹۶۔ محمد گلستان خان۔ لائبریرین، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز، ہمدرد یونیورسٹی، انٹر ویو، ۷ اگست ۲۰۰۴ء ، کراچی، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۹۷۔ شکیل احمد خلیل۔ ایسو سی ایٹ لائبریرین، آغا خاں میڈیکل یونیورسٹی، انٹر ویو، ۳۱مئی ۲۰۰۴ء ، کراچی، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۹۸۔ چیر پرسن، شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ کراچی، انٹر ویو، ۲ مئی ۲۰۰۴ء، کراچی، در ، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی ’میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۹۹۔ دردانہ انور۔ سینئر لائبریرین و انچارچ شعبہ تراشہ جات، بیت الحکمہ (ہمدرد یونیورسٹی)، انٹر ویو، ۸ ستمبر ۲۰۰۴ء ، کراچی، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۱۰۰۔ عبد الصمد انصاری، انٹر ویو، ۸ ستمبر ۲۰۰۴ء ، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۱۰۱۔ سید اختر علی، انٹر ویو ۸ ستمبر ۲۰۰۴ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۱۰۲۔ محمد افضل، انٹر ویو ۸ ستمبر ۲۰۰۴ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب ’خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۱۰۔ آمنہ خاتون، انٹر ویو ۸ ستمبر ۲۰۰۴ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۱۰۴۔ اختر ایچ صدیقی، انٹر ویو ۱۵ دسمبر ۲۰۰۳ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۱۰۵۔ فرحت اللہ بیگ، انٹر ویو ۳۰ ستمبر ۲۰۰۴ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۱۰۶۔ عذراقریش، انٹر ویو ۱۱ جنوری ۲۰۰۵ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۱۰۷۔ خورشید عالم، انٹر ویو ہفتہ ۲۲ جنوری ۲۰۰۵ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۱۰۸۔ محمد عارف، انٹر ویو ۲۳ جولائی ۲۰۰۴ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۱۰۹۔ جان محمد چرن، انٹر ویو ۵ نومبر ۲۰۰۵ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ’ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۱۱۰۔ محمد سجاد ساجد۔ ، انٹر ویو۵ جنوری۲۰۰۵ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۱۱۱۔ قمر مرزا۔ ، انٹر ویو۱۳ دسمبر ۲۰۰۴ء، در، ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء،
۱۱۲۔ ’’سیدہ ریاض زہرہ بیگم پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر سے ایک مکالمہ‘‘ پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۴۰ (۱)، مارچ ۲۰۰۹ء، ۱۔ ۴
۱۱۳۔ سید شعیب احمد بخاری:حکومت سندھ کے وزیر برائے پرائس کنٹرول اور گورنمنٹ کالج ب رائے طلبہ ناظم آباد کے سابق طالب علمے ایک ملاقات ‘‘۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘ گولڈن جوبلی نمبر۱۹۵۶ء۔ ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۸ء، ۴۷۔ ۴۸۔
۱۱۴۔ سید فیصل علی سبزواری: وزیر برائے امور نوجوانان حکومت سندھ اور سابق طالب علم ’گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد سے ایک ملاقاتــ‘‘۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘ گولڈن جوبلی نمبر۱۹۵۶ء۔ ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۸ء، ۴۹۔ ۵۱
۱۱۵۔ پروفیسر سید کمال الدین سابق ڈائریکٹر آف کالجز و پرنسپل گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد سے ایک ملاقاتــ‘‘۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘ گولڈن جوبلی نمبر۱۹۵۶ء۔ ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۸ء، ۵۲۔ ۵۴
۱۱۶۔ پروفیسر محمد مظہر الحق : سابق پرنسپل، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد سے ایک ملاقاتــ‘‘۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘ گولڈن جوبلی نمبر۱۹۵۶ء۔ ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۸ء، ۵۵۔ ۵۸
۱۱۷۔ پروفیسرانیس زیدی گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد کے سابق طالب علم اور گورنمنٹ نیشنل کالج کے سانق پر نسپل سے ایک گفتگو۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘ گولڈن جوبلی نمبر۱۹۵۶ء ۔ ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۸ء، ۵۹۔ ۶۳
۱۱۸۔ نیر سوز :شاعر و اد یب: گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد کے سابق طالب علم سے ایک مکالمہ ‘‘۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘ گولڈن جوبلی نمبر۱۹۵۶ء۔ ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۸ء، ۶۴۔ ۶۶
مضامین : لائبریری و انفارمیشن سائنس
۱۱۹۔ ’’عہد اسلامی کے کتب خانوں کی تاریخ‘‘۔ ماہنامہ تر جمان، کراچی۔ ۸(۱) : ۷۰۔ ۷۵، جنوردی ۱۹۷۸ء
۱۲۰۔ لائبریری دارلعلوم امجدیہ ، کراچی۔ ماہنامہ ترجمان، کراچی۔ ۱۱(۷) : ۷۰۔ ۷۵، مئی ۱۹۷ء
۱۲۱۔ نعت رسول مقبولﷺ۔ ماہنامہ ترجمان، کراچی۔ ۹(۱) : ۷۰۔ ، جولائی ۱۹۷۸ء
۱۲۲۔ ذرائع تحریر۔ پاکستان لائبریری بلیٹن، کراچی۔ ۱۱ (۱۔ ۲) : ۱۔ ۱۲، مارچ۔ جون ۱۹۷۹ء
۱۲۳۔ پاکستان مین لائبریری سائنس کی تعلیم اور جدید رجحانات۔ ’ مجلہ نخلستانِ کتب‘ ڈیپارٹمنٹ آف لائبریریزم وزارت تعلیم، حکومت پاکستان، ۱۹۷۹ء،ص ص ۴۰۔ ۴۴
۱۲۴۔ نعت گوئی۔ ’’مجلہ اکرم‘‘، بزم اکرم کراچی۔ ۱۹۷۹ء،ص ص ۶۵۔ ۷۰
۱۲۵۔ زبیر صاحب اور کتب خانے۔ در، اسلامی کتب خانے مولفہ الحاج محمد زبیر کی تقریب رونمائی ؍ مرتبہ پروفیسر محمد ایوب قادی۔ کراچیـ: ایج ایم سعید، ۱۹۸۰،ص ص ۵۔ ۸
۱۲۶۔ پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ اور ڈاکٹر عبد المعید۔ در۔ ، ڈاکٹر عبد المعید اور پاکستان لائبریرین شپ؍ کراچی: لائبریری پروموشن بیورو، ۱۹۸۱ء،ص ص ۱۰۸۔ ۱۱۲
۱۲۷۔ اردو میں سائنسی و فنی ادب۔ میگزین ’’ کائینات‘‘، جشن سیمیں ۱۹۵۵ء۔ ۱۹۸۱ء، گورنمٹ اردو سائنس کالج (سالانہ میگزین)، ۱۹۸۱ء، ۲۰۔ ۲۸
۱۲۸۔ اسکول آف لائبریرین شپ، زیر اہتمام پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ۔ ’’ماہنامہ کتاب ‘‘، لاہور، ۱۵ (۱۹): ۳۲۔ ۳۵، اگست ۱۹۸۱ء
۱۲۹۔ حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج لائبریری۔ ماہنامہ ’’ کتاب‘‘، لاہور، ۱۵(۱۷) : ۲۷۔ ۳۰، مئی ۱۹۸۱ء
۱۳۰۔ بلدیہ کراچی کے عوامی کتب خانوں کا سر سری جائزہ۔ ماہنامہ ’کتاب‘، لاہور، ۱۶ (۱۲): ۲۷۔ ۳۰، اکتوبر ۱۹۸۲ء
۱۳۱۔ کراچی کے کتب خانوں کا سر سری جائزہ۔ روزنامہ ’’جنگ ‘‘ کراچی، ۱۴ جون ۱۹۸۲ء،ص ۹
۱۳۲۔ جلد سازی۔ ماہنامہ ’’ کتاب ‘‘ لاہور، ۱۷ ( ۵) : مارچ ۱۹۸۳ء، ۱۱۔ ۱۲
۱۳۳۔ بین القوامی اسلامک یونیورسٹی لائبریری، اسلام آباد۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۱۷ ( ۲): جون ۱۹۸۵ء، ۱۔ ۱۴
۱۳۴۔ فرھنگ اصطلا حات کتب خانہ : خصوصہ مطالعہ۔ ماہنامہ ’’ کتاب ‘‘ لاہور، ۹ (۵): مارچ ۱۹۸۵ء، ۴۱۔ ۴۲
۱۳۵۔ بین الا قوامی اسلامک درجہ بندی ( اردو ترجمہ)۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۱۸ ( ۲۔ ۳): ستمبر۔ دسمبر ۱۹۸۶ء، ۱۱۔ ۳۴
۱۳۶۔ انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی لائبریری۔ در؛، یونیورسٹی لائبریرین شپ ان پاکستان کراچی: لائبریری پروموشن بیورو، ۱۹۸۶ء،ص ص ۷۸۔ ۹۱
۱۳۷۔ کتاب زیست کا عنوان زبیر صاحب۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۱۸ ( ۲۔ ۳): ستمبر۔ دسمبر ۱۹۸۶ء، ۱۴۔ ۱۶
۱۳۸۔ اردو کتاب بیات سازی میں مقتدرہ قو می زبان کا کردار۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۰ (۲۔ ۳):جون۔ ستمبر ۱۹۸۹ء، ۱۔ ۲۸
۱۳۹۔ کالج کے کتب خانے اور ان کے مسائل۔ در؛۔
In,Essential Role of Library and information Centres in the Provision and transmission of knowledge” as series of Extension Lectures from 17th to 21st June 1989 at NIPA, Karachi.- /Compiled by Sadiq Ali Khan.- Karachi: PakistanLibrary Association, 1989. pp 96- 100
۱۴۰۔ پاکستان میں انڈر گریجویٹ لائبریری تعلیم کا معیار؍ در؛،
In, Standardization of Library Services in Pakistan/ed. by Sadiq Ali Khan.- Karachi: Pakistan Library Association, 1989. Pp:139-163.
۱۴۱۔ پاکستان میں اسکولوں کے کتب خانے۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۱ ( ۱):مارچ ۹۰ ۱۹ء، ۱۔ ۲۴
۱۴۲۔ قومی کتا بیات پاکستان ۱۹۸۶۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۲( ۱۔ ۲):مارچ۔ جون ۱۹۹۱ء، ۱۔ ۱۵
۱۴۳۔ قومی کتا بیات پاکستان ۱۹۸۷۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۲( ۴): دسمبر ۱۹۹۱ء، ۱۔ ۱۴
۱۴۴۔ عالمی نمبروں کے نظامات۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۳( ۱):مارچ ۱۹۹۲ء، ۱۔ ۱۴
۱۴۵۔ الحاج محمد زبیر۔ : بر عظیم پاک و ہند میں لائبریرین شپ کی نامور شخصیت۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۳( ۴): دسمبر ۱۹۹۲ء، ۱۔ ۱۵
۱۴۶۔ موبائل لائبریری؍ در؛، مرکزی کتب خانہ کراچی : کاروائی مذاکرہ با شتراک بلدیہ عظمی کراچی و انجمن ترقی و فروغ کتب خانہ بتا ریخ ۱۱ نومبر ۱۹۹۲ء ؍ مرتبہ معین الدین خان کراچی: میٹرپولیٹن کارپوریشن، ۱۹۹۳ء،ص ص۔ ۶۴۔ ۷۱
۱۴۷۔ عالمی معیاری نمبروں کے نظامات ؍ در؛۔ جدید لائبریری و اطلاعاتی سائنس؍۔ کراچی لائبریری پروموشن بیورو، ۱۹۹۳ء،ص ص ۳۰۔ ۴۶
۱۴۸۔ قومی کتابیات پاکستان ۱۹۸۸ء۔ ’’پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن جر نل ‘‘۔ لاہور، نمبر ۱۵، جون۔ ستمبر ۱۹۹۳ء، ۱۰۔ ۲۲
۱۴۹۔ تعلیم میں کالج لائبریری کا کردار۔ ’’پلسا نیوز‘‘، لاہور، ۵ (۴): دسمبر ۱۹۹۳ء، ۳۳۔ ۸
۱۵۰۔ کتابیاتی ضبط : قومی و عالمی۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۴( ۱):مارچ ۱۹۹۳ء، ۱۔ ۱۷
۱۵۱۔ عوامی کتب خانوں کا کردار اور افادیت۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۴( ۳):ستمبر ۱۹۹۳ء، ۹۔ ۱۶
۱۵۲۔ کتابیاتی ضبط : قومی و عالمی؍ در؛، جدید لائبریری و اطلاعاتی سائنس؍ کراچی : لائبریری پروموشن بیورو، ۱۹۹۳ء،ص ص ۴۷۔ ۵۳
۱۵۳۔ لائبریری قانون اور پاکستان میں اسکولوں کے کتب خانے ؍ در ،
In, Impact of Library Legislation on the Development of Library Services in Pakistan: Proceeding of the PLA 14th Conference held at Sheikh Zayed Islamic Centre, University of Karachi, from 7-9, March 1991/ ed. By Sadiq Ali Khan.- Karachi: Pakistan Library Association, 1993. P:: 145-165.
۱۵۴۔ انٹر نیشنل فیڈریشن آف لائبریری ایسو سی ایشنز اینڈ انسٹی ٹیوشنز(IFLA)۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۵( ۱۔ ۲):جنوری۔ جون ۱۹۹۴ء، ۱۔ ۹
۱۵۵۔ کراچی کے کتب خانے اور پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کمپیوٹر سینٹر۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۶( ۱):مارچ ۱۹۹۵ء، ۱۔ ۱۸
۱۵۶۔ کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کے کتب خانے۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۶( ۲):جون ۱۹۹۵ء، ۱۔ ۲۳
۱۵۷۔ اقبال میونسپل لائبریری (نہرو لائبریری) مری۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۲۷( ۳):ستمبر ۱۹۹۷ء، ۱۔ ۱۰
۱۵۸۔ احوال واقعی ( اداریہ) کالج میگزین ’’ روایت ‘‘، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۴ء
۱۵۹۔ پاکستان میں لائبریری قانون۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۳۶( ۲):جون ۲۰۰۵ء، ۱۔ ۶
۱۶۰۔ انجمن ترقی و فرغ کتب خانہ جات کے بانی رکن مولانا محمد عارف ا الدین سے ایک ملاقات۔ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘، ۳۶( ۴):دسمبر ۲۰۰۵ء،
۱۶۱۔ شعبہ لائبریری ساتنس، جامعہ کراچی : اچھے دنوں کی باتیں اور یادیں۔ پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۳۷ (۴)، دسمبر ۲۰۰۶، ۱۔ ۵
۱۶۲۔ قومی تعلیمی پالیساں، ترقیاتی منصوبے اور کتاب خانے۔ پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۳۸ (۲)، جون ۲۰۰۷، ۵۔ ۲۳
۱۶۳۔ کیٹلاگ سازی کی عالمی شہرت یافتہ لائبریرین، استاد و مصنفہ مارگریٹ من۔ پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۳۸ (۳)، ستمبر ۲۰۰۷، ۱۸۔ ۱۹
۱۶۴۔ خلاصہ ’’پاکستان میں لائبریری تحریک اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار‘‘، (پی ایچ ڈی مقالہ)، رئیس احمد صمدانی۔ ۔ خلاصہ، پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۴۰ (۳)، ستمبر ۲۰۰۹ء۔
۱۶۵۔ ’’لائبریرین شپ ایک ٹیکنیکل پروفیشن‘‘، روزنامہ مقدمہ کرچی، پیر، ۱۰ مئی ۲۰۱۰ء، ۶ پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۴۱ (۳)، ستمبر ۲۰۱۰ء۔ ۱۰ میں بھی شائع ہوا۔
۱۶۶۔ ’’اظہاریہ‘‘۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘ گولڈن جوبلی نمبر۱۹۵۶ء۔ ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالجبرائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۸ء،
۱۶۷۔ انجمن والدین و اساتذہ ؍ کالج مینجمنٹ کمیٹی گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد ۱۹۹۴ء۔ ۲۰۰۸ء‘‘۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘گولڈن جوبلی نمبر۱۹۵۶ء۔ ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۸ء، ۷۸۔ ۸۸
۱۶۸۔ ’’ گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد میری نظر میں ‘‘۔ کالج میگزین ’’ روایت ‘‘گولڈن جوبلی نمبر۱۹۵۶ء۔ ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد، کراچی، ۲۰۰۸ء، ۱۱۳
رپورٹس
۱۶۹۔ پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کی سرگرمیاں ؍ ماہنامہ ’’ کتاب ‘‘، لاہور۔ ۹ (۴) : جولائی ۱۹۸۰ء، ۱۹۔ ۲۰
۱۷۰۔ تعلیمی رپورٹ؍ پمفلیٹ ’’ طلوع‘‘، ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن، جولائی ۱۹۸۸ء
۱۷۱۔ حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں تقریب؍ روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘، کراچی، ۱۹ اگست۱۹۸۲ء
۱۷۲۔ رپورٹ جنرل سیکریٹری: ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن، در، روداد اجلاس عام ‘ ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن‘ بمقام بابے والا، فیصل آباد، پنجاب، ۱۹۹۲ء
۱۷۳۔ رپورٹ جنرل سیکریٹری: ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن، در، روداد اجلاس عام ‘ ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن‘ بمقام ملتان۔ ۲۵۔ ۲۶ دسمبر ۱۹۹۳ء، مرتبہ رضا احمد مشتاق۔ ۱۹۹۳ء
مراسلات ( اخبارات کے مدیران کے نام خطوط
۱۷۴۔ کتابوں کی بر آمد سے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا ان کار؍ روزنامہ جنگ کراچی۔ ۲۶ جون ۱۹۹۹ء
۱۷۵۔ غفلت و لاپروائی؍ روزنامہ جنگ کراچی۔ ۱۴ مارچ ۱۹۹۹ء
۱۷۶ کراچی سٹی لائبریریا تھارٹی؍ روزنامہ جنگ کراچی۔ ۲۶ اپریل ۱۹۹۹ء
۱۷۷۔ نصابی کتب کی ڈی ریگو لیشن؍ روزنامہ جنگ کراچی۔ ۲۲ اپریل ۲۰۰۱ء
۱۷۸۔ تعلیمی اداروں کے لیے اس کیم؍ روزنامہ جنگ کراچی۔ ۷ مئی ۲۰۰۱
۱۷۹۔ جیل میں لائبریری کا قیام؍ روزنامہ جنگ کراچی۔ ۳۰ مئی ۲۰۰۱ء
۱۸۰۔ کتاب کلچر؍ روزنامہ جنگ کراچی۔ ۲۸ جولائی ۲۰۰۱ء
181) KMC Librarie/۔ Daily Dawn Karachi, 5th July 1982.
182) Where are our Libraries/ Daily Dawn Karach,۔ December 2002 183) Library Law/ Daily Dawn Karach, April 1, 2005
184) Apathy Towards Librarians/ Daily Dawn, Karachi, 12 may 2007
پیغامات
۱۸۵۔ پیغام ؍ حلقہ نمبر ۱ بلدیہ دور کی دو سالہ کارکردگی، منظور احمد بٹ، کونسلر بلدیہ کراچی جنوبی، آگرہ تاج کالونی و نیو کلری
186) Message: ‘Library Science at College Level in Pakistan’۔ Edited by Farhatullah Beg. Karachi. Sindh Council of School and College Librarians.2003, p.xxxiii Articlesُْ/Papers In English Language 187) Role of Friends of Libraries (Editorial)۔ News and View, Newsletter SPIL, January – March 1987. P:3.188) Government Publication (Editorial)۔ News and Views, Newsletter SPIL, No.2 : April – June 1987. P:3 189) Harnessing the Flood of Periodical Literature. News and Views, Newsletter, SPIL, No,3, June – Sept. 1987, p: 3. 190) School Libraries.(Editorial) News and Views ,Newsletter SPIL ,No4, October December 1987, p3.191) Dewey Decimal Classification: 20th edition. (Editorial) XX(4):December 1989.Library Legislation in Pakistan: Problems and Prospects. Pakistan Library Bulletin. XXII (3): ppp:44-48, September 1991.Also published in PLA Newsletter, Punjab Branch Council. Lahore. 1(4): pp:1-2,1991.
192) School Libraries of Pakistan: Facilities, Services, Resources and Standards. In., A Treatise on Library and Information Science in Pakistan/edited by Sajjadur Rehman.- Lahore: Punjab Library Science alumni association (PULSAA), 1990.pp: 45-47.193) Pakistan Library Association (Editorial)۔ PLA News, Sindh Branch Council. PLA Sindh Branch Council. 1 (1-2): September – December 1991. P:2.194) Muhammad Adil Usmani: an Eminent Pakistani Librarian. Pakistan Library Bulletin. XXIV(4), pp: 10-16, December 1993.Also on internet with photograph of Mr. M. Adil Usmani Web side”http://www.twsu.edu/-systems/adil.htm”
195) Muhammad Adil Usmani: an eminent University librarian. Souvenir, 1st Library Seminar on Academic Libraries at the Threshold of 21st Century, held on 27th-28th January 1993. Organized by the Dr.Mahmud Hussain Library, University of Karachi. The Library, 1993, pp:35.
196) National Library of Pakistan: Prime Minister Inaugurates. (Editorial)۔ Pakistan Library Bulletin. XXIV (3) : Sept. 1993.
197) Education Policy 1992 – 2002 and Libraries. Pakistan Library Bulletin. XXV (1- 2): pp: 9 – 20, January – June 1994.
198) Importance of Technology in Pakistan” Potential and Prospects (Editorial)۔ Pakistan Library Bulletin. XXVV(3-4): July – December 1994.
199) Index of Pakistan Library Bulletin 1968 – 1994. Pakistan Library Bulletin. XXVI (3-4):pp: 51-115, September – December 1995.
200) Dewey Decimal Classification, Edition 21: an appreciation. Pakistan Library Bulletin. XXVIII (1-2):pp:10-21, March – June 1997.
201) Library Resources and Publishing: 50 Years Analysis. Pakistan Library Bulletin. XXVIII (4): pp:29 – 39, December 1997
202) 21st Century and the Strategy for Professional Library Associations with particular reference to Pakistan. Pakistan Library Bulletin. XXVIII (4):pp: 50 -58, Dec. 1997.
203) Professional Library Journals of Pakistan” 50 Years Historical Analysis (1947 1997)۔ Pakistan Library Bulletin. XXIX (1-2)” pp: 22-34, March June 1998
204) Revival of PLA (Sindh Branch), Editorial, PLA Newsletter, PLA Sindh Branch Council, No. 1, January- February 1999.
205) Pakistan Librarianship at the Crossroad. (Editorial)۔ PLA Newsletter, PLA Sindh Branch Council, No.2, March – August 1999. P:1206) Hakim Muhammad Said: at a Glance. Pakistan Library Bulletin. XXI v(1-2), March-June 2000. p: 7-30.
207) Hakim Muhammad Said: at a Glance. "Rivayat” College Magazine Govt College for Men, Nazimabad 2000.
208) Pakistan Copyright Law. (co-editor)۔ Pakistan Library Bulletin. XXXII. (3),September – December 2001. pp: 3-10.
209) Reading Habit and Libraries. College Magazine ‘Rivayat’ 2004, Govt. College for Men Nazimabad, Karachi. 2004. pp.24-26
210) Chief Editor’s Note. College Magazine ‘Rivayat’ 2004, Govt. College for Men , Nazimabad, Karachi. 2004. p. 7
211) Doctoral Research in Library and Information Sciecne in Pakistan/E-Journal "LPP” November 2011
Un-published Reports/Plan, Drafts
212) Recommendations/additions/comments on Chapters 10 and 11 of National Education policy 1998 -2002. Representation from Pakistan Bibliographical Working Group, March 11, 1998. This was addressed to Prime minister, Education Minister, Information Minister, Secretary Education, Senators Ahsan Iqbal and Jamiluddin Aali.
213) Draft ‘Public Libraries Act Balochistan’ and BalochistanLibrary Foundation’, prepared on the request of PLA
(Headquarter), Balochistan, on 07-07-2007
214) Draft ” Sindh Library Foundation”, This was submit to the Education Minister, Sindh by PLA Sindh Branch Council.
215) Role of Hakim Muhammad Said Shaheed in the Promotion of Library Movement and Development of Libraries in Pakistan (Ph. D. thesis (Abstract) Pakistan Library & Information Science Journal. 40 (3): September 2009.
تصانیف کے پیش لفظ؍تقریظ
۲۱۶۔ ’’اظہارِ خیال ‘‘، در کیا بیت گئی؟ قطرہ پہ گہر ہونے تک؍مصنف ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری۔ ۔ کراچی: لائبریری پروموشن بیورو، ۲۰۰۹ء،ص صـ۷۔ ۱۲
۲۱۷۔ ’’تقریظ۔ لمحہ فکر کی شاعرہ۔ نعیم فاطمہ توفیق‘‘۔ در لمحہ فکر؍ نعیم فاطمہ توفیق۔ کراچیَ لائبریری پروموشن بیورو، ۲۰۱۲ء،ص ص: ۸۔ ۱۲
۲۰۱۰ء اور اس کے بعد شائع ہونے والے مضامین
۲۰۱۰ء
۲۱۸۔ لائبریرین شپ: ایک ٹیکنیکل پروفیشن؍ روزنامہ ’’مقدمہ‘‘ کراچی: ۱۰ مئی ۲۹۱۰ء، ۶پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل: ۴۱(۳): ستمبر ۲۰۱۰ء، ۱۶(بھی شائع ہوا)
۲۱۹۔ کراچی یونیورسٹی لائبریری سائنس المنی ایسو سی ایشن (کلسا)؍پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل: ۴۱(۴):دسمبر ۲۰۱۰ء، ۶۔ ۹
۲۰۱۱ء
۲۲۰۔ انٹر نیشنل اردو کانفرنس ’’اردو زبان اورعصری آگاہی‘‘ جامعہ سرگودھا: ایک جائزہ۔ ماہنامہ ’’نگارِ پاکستان‘‘ شمارہ ۱، جنوری ۲۰۱۱ء، ۳۷۔ ۴۲
۲۲۱۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی۔ خاکہ؍ زرنگار، فیصل آباد، شمارہ ۷۔ ۸، جنوری۔ جون ۲۰۱۱ء۔
۲۲۲۔ عبد الوہاب خان سلیم: ایک کتاب دوست (خاکہ)؍پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۴۲ (۱)، مارچ ۲۰۱۱، ۱۔ ۱۷
۲۲۳ عبد الصمد انصاری:دھیمہ سا لیجہ، تھوڑی سی شوخی ؍پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۴۲ (۳)، ستمبر ۲۰۱۱، ۱۔ ۷
۲۰۱۲ء
۲۲۴۔ مکتبہ مکہ المکرمہ (مکہ لائبریری۔ سعوعی عربیہ)؍پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۴۳ (۲)، جون۲۰۱۲، ۱۔ ۶
۲۲۵۔ حکیم محمد سعید (شہید)۔ کتابیاتی تحقیقی جائزہ؍ در، ادب و کتاب خانہ ۲۰۱۲، کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۲ء، ۸۶۔ ۱۰۵۔
۲۲۶۔ پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کا کردار(مصنف کے پی ایچ ڈی مقالہ سے موخوذ)؍پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس جرنل، ۴۳ (۱)، مارچ ۲۰۱۲، ۱۴۔ ۳۰۔
۲۲۷۔ فرخندہ لودھی: ایک ادیب ایک کتاب دار۔ ماہنامہ ’’الحمرا‘‘ لاہور، ۱۲(۳)، مارچ ۲۰۱۲ء
۲۲۸۔ فیض احمد فیض ؔ ۔ میرا پرنسپل(خاکہ) ؍ ماہنامہ ’’نگارِ پاکستان ‘‘، کراچی، جلد ۹۱، شمارہ ۲، فروری ۲۰۱۲ء، ۳۴۔ ۴۴۔
۲۲۹۔ حبیب جالب: شاعر عوام ؍ ماہنامہ ’’نگارِ پاکستان ‘‘، کراچی، جلد ۹۱، شمارہ۳، مارچ ۲۰۱۲ء، ۴۰۔ ۴۸
۲۳۰۔ فاطمہ ثریا بجیا پر شائع ہونے والی کتاب ’’بجیا‘‘ برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس۔ فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی کی تعارفی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال ؍ ماہنامہ ’’نگارِ پاکستان ‘‘، کراچی، جلد ۹۱، شمارہ۸، اگست، ۲۰۱۲ء، ۴۲۔ ۴۷
۲۳۱۔ میں کیوں لکھتا ہوں ؍؍روزنامہ جنگ ’’سنڈے میگزین‘، ۔ ۲۰ مئی ۲۰۱۲ (۳۰ مئی تا ۵ جون ۲۰۱۲ء)،
۲۳۲۔ پیکر الفت، ملنسار مسیحا حکیم محمد سعید: نام ہی نہیں، عمل کے بھی سعید تھے، ہم سے بچھڑے ۱۴ برس بیت گئے۔ سنڈے میگزین روزنامہ جنگ، ۱۴ تا ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۲ء، ۲۲
۲۳۳۔ ایک رشتہ: جس نے دنیا میں صرف میری آواز سنی اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؍روزنامہ جنگ ’’سنڈے میگزین‘‘(ایک رشتہ ایک کہانی)۔ ۲۵ نومبر ۲۰۱۲ (۲۵ نومبر تا یکم دسمبر ۲۰۱۲ء)، ۱۸
۲۰۱۳ء
۲۳۴۔ ادب ‘ روبہ زوال نہیں ہو سکتا! اہل قلم متحرک ہیں اور ادب تشکیل پارہا ہے ؍ روزنامہ جنگ کراچی، ۲۳ جنوری ۲۰۱۳ء۔
تحقیقی مقالات
۱۔ پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کا کرادا۔ (پی ایچ ڈی مقالہ)ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء، xxi، ۶۳۹ص۔
۲۔ اردو میں سائنسی و فنی ادب ؛ منتخبہ کتابیات ۱۹۴۷ء۔ ۱۹۷۱ء (ایم اے مقالہ) ؍ شعبہ لائبریری سائنس، جامعہ کراچی برائے جزوقتی تکمیل امتحا نات برئے ایم اے سال آخر، ۱۹۷۲ء،
۱۴۷ص
Life Sketch/Interviews of Dr.۔ R. A. Samdani published in the following sources Hina Naz ٭ Library Promotion Bureau ka Thaqiqi Jaiza (Urdu tr. Research Study of Library Promotion Bureau) (MLIS Thesis) Department of Library and Information Science, University of Karachi. 2003.
٭ Library Promotion Bureau ka Thaqiqi Jaiza (Urdu tr. Research Study of Library Promotion Bureau)/ Karachi: Library Promotion Bureau, 2003. pp.91-96.Khalid Mahmood. Mahmood, Khald Alternative Funding Model for Libraries in Pakistan (Ph. D dissertation), Department of Library and Information Science, University of Punjab, 2003. p.322
٭ Alternative Funding Model for Libraries in Pakistan/ Lahore: Pakistan Library Automation Group, 2005, pp. 309 – 310. Sabzwari, Ghaniul Akram Who’s Who in Library and Information Science in Pakistan/ 2nd. Ed.- Karachi: Society for Promotion and Improvement of Libraries and Library Promotion Bureau. 1987. p.
٭ Who’s Who in library and Information Science in Pakistan/ 3rd. ed.- Karachi; Library Promotion Bureau. 2004.۔ p.62 Syeda Najma Sultana Talk with a popular writer of Library Science Mr. Rais Ahmed Samdani. Special Magazine "Kitab Numa”.Library Science Society, Government College for Women, North Nazimabad, Karachi. 2000. Formeun Time: Monthly Newspaper, Karachi: Interview. October 1999
حوالہ جات
1) Abdul Hafeez Akhtar. Foreword in The National Bibliography of Pakistan: Volume III (Pure Scienc Geography and History, (500 to 900)/ (Retrospective Pakistan National Bibliography) Islamabad: Department of Libraries, Ministry of Education, Govt. of Pakistan, 1999, 580p:
2) M. AdilUsmani۔ Pakistan Library Bulletin: Impact of its writings on Librarianship in Pakistan. PLB. XXVI (3-4): September – December 1995. p:17, 22
3) Ghaniul Akram Sabzwari. Library Promotion Bureau. PLB. XXVI (3-4): Sept.- Dec. 1995. p: 47
4) Syed Jalaluddin Haider. Foreword inBibliographical Sources on Islam/by Rais Ahmed Samdani.- Karachi: PBWG. 1993. p:3
5) Syed Jalaluddin Haider. Foreword in Periodical Literature in Library and Information Science:an Index of 50 Years Works in Pakistan (1947-1997) /by Rais Ahmed Samdani and Khalid Mahmood.- Karachi: Pakistan Bliographical Working Group, 1999, 182p:
6) Moinuddin Khan. Foreword in Cumulative Index of Pakistan Library Review (PLR)/by Rais Ahmed Samdani.- Karachi: PBWG. 1998. pp: 9-10
7) Rafia Ahmed Sheikh. Foreword in Akhtar H. Siddiqui: A Bio- Bibliographical Stud/by Rais Ahmed Samdani.- /Karachi: Pakistan Bibliographical Working Group, 1995, 79p: (ISBN: 9969-8170-02-2)
۸۔ حکیم محمد سعید۔ خط بنام رئیس احمد صمدانی۔ حوالہ نمبر ھ؍ف؍پ؍۸۵؍۴۱۱۸، بتاریخ ۲۳ جولائی ۱۹۸۵ء
۹۔ رئیس احمد صمدانی۔ ابتدائی لائبریری سائنس؍ کراچی: لائبریری پرومو شن بیو رو، ۱۹۸۰ء،ص ص۵۔ ۶
۱۰۔ ڈاکٹر انیس خورشید۔ خط بنام اختر ایچ صدیقی۔ بتا ریخ ۱۸ مئی ۱۹۹۷ء۔
۱۱۔ ڈاکٹر انیس خورشید۔ خط بنام رئیس احمد صمدانی، بتا ریخ۲۰ فروری ۲۰۰۰ء۔
۱۲۔ ڈاکٹر انیس خورشید۔ خط بنام رئیس احمد صمدانی، بتا ریخ۱۵ مارچ ۲۰۰۰ء۔
۱۳۔ ڈاکٹر انیس خورشید۔ خط بنام رئیس احمد صمدانی، بتا ریخ۱۹ اکتو بر ۲۰۰۴ء۔
۱۴۔ ڈاکٹر جمیل جالبی۔ بنام رئیس احمد صمدانی۔ حوالہ نمبر ذ۔ ۱۴۱۸، بتا ریخ۱۰ اکتو بر ۱۹۹۲ء
۱۵۔ فر خندہ لودھی، لاہور خط بنام رئیس احمد صمدانی۔ تا ریخ درج نہیں، ۱۹۸۵ء
۱۶۔ تاثرات : عبد الصمد انصاری، در، ڈاکٹر غنی لاکرم سبزواری : شخصیت و علمی خدمات از رئیس احمد صمدانی؍ کراچی : بزم اکرم و لائبریری پروموشن بیورو، ۲۰۰۶، ص۔ ۹
۱۷۔ ایضاً۔ ص۔ ۲۰
۱۸۔ اکرام الحق۔ تبصرہ ’’یادوں کی مالا‘‘ از رئیس احمد صدمانی۔ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل، جلد ۴۲، شمارہ ۱، مارچ ۲۰۱۱ء
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
بزم اردو لائبریری اور جناب اعجاز صاحب کا خصوصی شکریہ ان کے تعاون سے میری سوانحی مضامین پر مشتمل تصنیف کی ای بک منظر عام پر آئی۔ اب یہ تصنیف اور مختلف احباب پر لکھے گئے مضامین تادیر پڑھے جاتے رہیں گے۔