فہرست مضامین
- لمعاتِ نظر
- محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی
- مدحتِ سرورِ عالمؐ مجھے آساں ہو جائے
- قطرۂ ناچیز میں وہ بحرِ نا پیدا کنار
- ہوں میں جب مستغرقِ کارِ ثنائے آنحضورؐ
- محبت سے سرشار ہو کر لکھی ہے
- بہر صورت میں مشغولِ ثنائے یار ہو جاؤں
- میں اُمتی ہوں وہ میرا آقا تو یہ خموشی ہے نا مناسب
- آمنہ بی کا پسر راج کنور، لختِ جگر
- صریرِ خامۂ فطرت کا تو ہی نقشِ اعظم ہے
- مہر نہ روشن تم سے سوا کچھ ماہ نہ تاباں تم سے زیادہ
- ہر چند مدح اس کی سب اہلِ ہنر کریں
- امامِ رسولاں متاعِ دو عالم
- ذکرِ پاکِ سرورِ دیں بر لبِ اظہار ہے
- الفاظ مرصّع ہوں کہ نقطے ہوں گہر سے
- بقدرِ فہم کرتے ہیں ثنا جتنی بھی ہو ہم سے
- ثنا خوانِ محمدؐ پتّہ پتّہ ڈالی ڈالی ہے
- شعور و عقلِ بشر کی عیاں ہے مجبوری
- رقصاں ہے روح و تن میں مرے موجۂ طرب
- میں رہوں نغمہ طرازِ شہِ دیں حینِ حیات
- دل آج مرا منہمکِ کارِ ثنا ہے
- حسن و خوبی کا نمونہ ہے وہ حق بیں، دلجو
- لوٹتا ہوں مدحتِ شاہِ مدینہ کے مزے
- زمرۂ انبیاء و رسل میں نہیں دوسرا کوئی شاہِ ہدیٰ کی طرح
- سرتاجِ انبیاء ہو شفاعت مدار ہو
- صد امتنان و فضلِ خدائے کریم ہے
- میں ہوں نغمہ سنجِ ثنائے نبیؐ
- چہرۂ ماہ و خور نہیں چہرۂ حورِ عیں نہیں
- کہوں بات یہ میں تو بے جا نہیں ہے
- دل عطر بیز تارِ نفس مشکبو کریں
- سجا کر سر پہ وہ تاجِ نبوت زرنگار آیا
- وہ تاب و تواں عقلِ بشر لائے کہاں سے
- ہ میدانِ ثنا آنے سے میری عقل کترائے
- مصروف دل ثنائے شہِ ذو المنن میں ہے
- تری صورت حسیں تر از مہِ کامل سمجھتے ہیں
- ثنا لکھیں تری کب خود کو اس قابل سمجھتے ہیں
- مہرباں مجھ پہ مرا جب کہ خدا ہو جائے
- جو توفیقِ یزداں بہم دیکھتے ہیں
- باعثِ تنزیلِ رحمت ذکرِ نامِ مصطفیٰؐ
- لب پہ ثنا ہے اس شہِ عالم پناہ کی
- اوجِ شرف تک آپ کے پہنچے نظر کہاں
- وہ صورت مرحبا اتنی حسیں معلوم ہوتی ہے
- ضیائے بزمِ شہود ساری تمام بزمِ عدم کے جلوے
- مدح خواں اک میں بھی ہوں کونین کے سردار کا
- شوقِ ثنائے خواجہ ہے کم مائیگی کے ساتھ
- کیا رونقِ محفل تھی کل رات جہاں میں تھا
- اے ختمِ رسل اے شہِ ابرارِ مدینہ
- لکھتے ہیں سخن سنج بہ عنوانِ محمدؐ
- مرے لبوں پر کسی گھڑی جب ثنائے خیر الانام آئے
- ہماری نعت گوئی ہے نمود اک نورِ ایماں کی
- ظلمتِ کفر میں ایماں کا اجالا نکلا
- اے ہستی پاکِ کون و مکاں تو روحِ روانِ ہستی ہے
- گرچہ ہر حرفِ سخن لؤ لؤ و مرجاں ہو جائے
- خوشا ذکر اس نبوت کے بطل کا
- رسولوں میں والا مقام اللہ اللہ
- کم ہے محیطِ فکر اور تنگ ہے ظرفِ آگہی
- صبحِ دم آمنہ بی کی آغوش میں جب وہ عالی نسب نیک نام آ گیا
- میں ثنا گوئے محمد مصطفیٰؐ برسوں سے ہوں
- فکر یکسو کر کے اپنی کر کے ہر غم برطرف
- خاطی کہاں یہ اور کہاں نعتِ آنجنابؐ
- نہیں شعر و سخن میں گو مجھے دعوائے مشاقی
- کس درجہ تلفظ آساں ہے معناً بھی نہایت اسعد ہے
- قلم اٹھا تو لیا مدحِ مصطفیٰؐ کے لئے
- دل تھام لیا اور جگر تھام لیا ہے
- اے کہ تو ہاشمی و مُطلبی ہے ساقی
- مخدومِ بندگاں ہو خدا کے حبیب ہو
- اللہ کی رحمت ہے تری چشمِ کرم اور
- شوقِ دل کا وفور کیا کہئے
لمعاتِ نظر
حصہ دوم
محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی
مدحتِ سرورِ عالمؐ مجھے آساں ہو جائے
نگہِ لطف تری اے مرے یزداں ہو جائے
دل یہ جب محوِ خیالِ شہِ خوباں ہو جائے
تیز تر روشنی مشعلِ ایماں ہو جائے
اس کی سیرت پہ نہ کیوں آدمی حیراں ہو جائے
از ہمہ پہلو جو ہم صورتِ قرآں ہو جائے
پیروِ دینِ مبیں کاش کہ انساں ہو جائے
یہ خزاں دیدہ چمن پھر سے گل افشاں ہو جائے
دن پھریں جام چلے، کیف کا ساماں ہو جائے
نگہِ لطفِ دِگر ساقی دوراں ہو جائے
حسنِ صورت میں کشش وہ ہے کہ سبحان اللہ
نقش گر آپ ہی انگشت بدنداں ہو جائے
ہاں رہے گا یونہی وقفِ غم و آلام و فغاں
جب تک انساں نہ غلامِ شہِ شاہاں ہو جائے
تب سمجھنا کہ تجھے لذّتِ ایماں ہے نصیب
جب وہ محبوبِ خدا حاصلِ ایماں ہو جائے
جب گناہوں کی طرف لغزشِ پا ہو مائل
لاج آ آ کہ تری مانعِ عصیاں ہو جائے
مغفرت کا مری امکان کوئی اور نہیں
بس یہی ہے کہ شہا آپؐ کا احساں ہو جائے
آ گیا شہرِ طرب، شہرِ بہاراں نزدیک
عین ممکن ہے کہ اب درد کا درماں ہو جائے
٭٭٭
قطرۂ ناچیز میں وہ بحرِ نا پیدا کنار
کس طرح لکھوں ثنائے خواجۂ عالی وقار
آمنہ بی کا جگر گوشہ، شہِ فرخ تبار
ذی حشم، ذی منزلت، ذی جاہ و گردوں اقتدار
گلشنِ ہستی تھا جانے کب سے محرومِ بہار
ان کے آتے ہی بہاریں آ گئیں مستانہ وار
سرگروہِ انبیا ہے وہ عرب کا تاجدار
اب نہیں کوئی نبی بعد اس کے تا روزِ شمار
بر رُخِ شاہِ دو عالمؐ حسنِ دو عالم نثار
خلقِ اطہر مصحفِ قرآں کا ہے آئینہ دار
کامیاب و کامراں وہ بامراد و کامگار
آپؐ کے نقشِ قدم پر جو رہا سجدہ گزار
حلقۂ یاراں میں وہ تصویرِ عجز و انکسار
ہے وہی شیرِ ببر در عرصہ گاہِ کار زار
جاں نثارانِ نبیؐ اللہ اکبر کیا کہیں
اک اشارے پر کریں قربان وہ جانیں ہزار
ہے سرِ فہرست جو ان سب میں مردِ خوش نصیب
ہے وہ ان کا جانشیں صدیقِ اکبرؓ یارِ غار
وحی ربانی سے ہے ماخوذ اس کا ہر کلام
ایک اک حرفِ سخن حکمت کا دُرِّ شاہوار
نسلِ آدم سے کیا پیدا محمدؐ مصطفیٰ
دستِ طرفہ کارِ فطرت پر میں ہو جاؤں نثار
حاصلِ عمرِ رواں گر ہو نہ عشق مصطفیٰؐ
لا نہیں سکتا ہے نخلِ زندگی یہ برگ و بار
بندۂ محبوبِ رب اللہُ اکبر دیکھیے
عرشِ اعظم پر ہوا ہے ایک شب وہ جلوہ بار
مصرعِ ثانی ہے یہ کس مردِ حق آگاہ کا
"با خدا دیوانہ باش و با محمدؐ ہوشیار”
دیکھ آیا ہوں خوشا میں روضۂ پاکِ رسولؐ
اب تہی دامانِ قسمت میں نہیں میرا شمار
پڑھ درود ان پر نظرؔ جتنا بھی ہو قبلِ غروب
آفتابِ عمر ڈھلکا از خطِ نصفُ النہار
٭٭٭
ہوں میں جب مستغرقِ کارِ ثنائے آنحضورؐ
روشنی ہی روشنی ہے در شعور و لا شعور
مرتکز سارا جمال و حسن در ذاتِ حضورؐ
روئے تاباں پر ہے اس کے نور اک بالائے نور
اس کی نسبت کیا کہیں ہم بندگانِ بے شعور
کیا نہیں وہ اور کیا ہے جانے یہ ربِّ غفور
گر چہ ہیں صد ہا نِعَم جنّت میں مع حور و قصور
لطف کیا لیکن نہ ہو جب تک کہ دیدارِ حضورؐ
سرزمینِ پاکِ طیبہ میں ملا دو میری خاک
مر کے جب ہو جاؤں میں من جملۂ اہلِ قبور
وہ محمدؐ ہے وہ احمدؐ ہے وہ ختم المرسلیں
ہے نبی اس کے برابر کب کوئی نزدیک و دور
مطلعِ ہستی پہ ابھری یوں وہ ذاتِ عبقری
ہو شبِ یلدا میں جیسے بدرِ کامل کا ظہور
ذکر اس کا برسرِ محفل ہو یا خلوت میں ہو
رحمتِ یزداں محیطِ ذاکراں ہو با الضرور
اس کا قرآں رحلِ دل پر کھول کر پڑھئے جناب
طاقِ نسیاں میں رکھیں تلمود و انجیل و زبور
فاتحِ بدر و حنین و فاتحِ دنیائے دل
جھک گئے پیشِ نبیؐ سب کے سرِ کِبر و غرور
مستِ صہبائے نبیؐ کی دیکھنا مہمانیاں
جامِ کوثر اوّلاً اور آخرش جامِ طہور
ہو عنایت کی نظرؔ محشر میں مجھ پر اے شفیع
نامۂ اعمال اپنا پُر ہے از جرم و قصور
٭٭٭
محبت سے سرشار ہو کر لکھی ہے
بصد شوق سنیے کہ نعتِ نبیؐ ہے
توجہ خصوصی جو اللہ کی ہے
دیارِ نبیؐ میں عجب دلکشی ہے
ضیا گستری ہی ضیا گستری ہے
وہ منظر ہے ہر سو کہ بس دیدنی ہے
وہ ماحولِ روضہ میں خوشبو بسی ہے
کوئی جیسے جنّت کی کھڑکی کھلی ہے
یہ اعزاز و اکرامِ خاکِ مدینہ
جبینِ فلک تک بھی دیکھیں جھکی ہے
کشاں لے چلا سب کو شوقِ زیارت
ہر اک سمت سے ایک دنیا چلی ہے
قدم اُٹھ رہے ہیں ادھر والہانہ
تمنّائے خوابیدہ سب جاگ اٹھی ہے
تصور میں آیا جو گنبد کا نقشہ
فسردہ دلوں پر بہار آ گئی ہے
کلامِ خدا آخری جس پہ اترا
وہی تو رسولِ خدا آخری ہے
ہوا دینِ قیم کا اتمام جس پر
وہ اُمّی لقب ہی ہمارا نبی ہے
حضوری میں اس کی جواں مرد کیسے
ابوبکرؓ و فاروقؓ و عثماںؓ علیؓ ہے
فرشتے کمر بستہ خدمت میں اس کی
وہ ہے کجکلاہی وہ شانِ شہی ہے
وہ فخرِ نبوّت وہ شانِ رسالت
صفِ انبیا و رُسل مقتدی ہے
خدا کا درود و سلامِ محبت
اترتا ہے جس پر ہمارا نبیؐ ہے
نقوشِ قدم کا جو پیرو ہو اس کے
وہی پارسا ہے وہی متّقی ہے
غمِ دل سے مجبور ہوں لب کشا ہوں
بہ حالِ زبوں آپؐ کا امّتی ہے
بھٹکتا ہے صحرائے دنیا میں تنہا
بہر سمت رہزن ہیں فتنہ گری ہے
نگاہوں سے اوجھل حقیقت کی راہیں
بہر گام لغزش وہ تیرہ شبی ہے
بجھا سا ہے ہر دم چراغِ تمنّا
نہ کوئی خوشی ہے نہ دل بستگی ہے
دلوں میں محبت ہے اب کالعدم سی
ہر اک کو ہر اک سے دل آزردگی ہے
پسِ پشت ہے مقصدِ آفرینش
کہ بیگانۂ فرض و امر و نہی ہے
جنابِ خدا میں ہماری سفارش
شہا کیجیے گا کہ موقع ابھی ہے
اسے بھی خدا بار یابِ حرم کر
نظرؔ کی دلی آرزو اب یہی ہے
٭٭٭
بہر صورت میں مشغولِ ثنائے یار ہو جاؤں
کہ اس حسنِ عمل سے خلد کا حقدار ہو جاؤں
رسائے بارگاہِ سیدِ ابرار ہو جاؤں
تمنّا ہے کہ میں لذّت کشِ دیدار ہو جاؤں
ذرا پہنچوں سہی اس بارگاہِ ناز تک میں پھر
خیالِ واپسی سے برسرِ پیکا رہو جاؤں
خوشا پامالیاں میری زہے خوش طالعی میری
جو میں پیوندِ خاکِ کوچۂ دلدار ہو جاؤں
تری نعلینِ پا کا ایک تسمہ بھی جو مل جائے
تو میں گنجِ گراں کا مالک و مختار ہو جاؤں
نہیں کچھ خوفِ راہِ پل صراط ایسا مجھے لوگو
بہ جست گام ان کا نام لے کر پار ہو جاؤں
مجھے تو جامِ وحدت کا فقط اک جام کافی ہے
میں کیوں ساغر کشِ میخانۂ اغیار ہو جاؤں
ہے میری کامیابی، فتح و نصرت کی یہی کنجی
جہادِ زندگی میں پیروِ سالار ہو جاؤں
فرشتے بھی سلامی کو نظرؔ آنے لگیں میری
اگر میں پیروِ آں سیرت و کردار ہو جاؤں
٭٭٭
میں اُمتی ہوں وہ میرا آقا تو یہ خموشی ہے نا مناسب
میں کچھ تو سوچوں میں کچھ تو لکھوں نبیؐ کی مدحت ہے امرِ واجب
تمام دنیا میں دھوم اس کی پکار اس کی چہار جانب
ہر ایک دل میں ہے اس کی چاہت ہر ایک انساں ہے اس کا طالب
خدا کی صنعت کا وہ مرقّع وہ آئینہ رو، حسین و دلکش
دراز پلکیں، سیاہ آنکھیں، کمان ابرو، نقوش جاذب
تمام نبیوں کا مقتدا وہ ہے سارے عالم کا رہنما وہ
نبی ؐ آخر زماں کو بخشے ہمارے رب نے بڑے مراتب
لہو بہا کر بدن کا اپنے تمام دن رات ایک کر کے
قلیل مدّت میں کر دکھایا خدا کے دینِ ہدیٰ کو غالب
ہے مضطرب دل تو نیند کیسی ہے فکرِ امّت تو چین کیسا
وہ اپنی امّت کی مغفرت کا میانِ شب ہو خدا سے طالب
نبیؐ کا دربار ہے شہانہ ہر اک پہنچتا ہے والہانہ
کوئی رکاوٹ نہ کوئی قدغن نہ کوئی درباں نہ کوئی حاجب
مزارِ انور پہ زائروں کا سلام سننا جواب دینا
نظرؔ یہ ممکن نہیں ہے ہرگز بُلا کے مہمان خود ہو غائب
٭٭٭
آمنہ بی کا پسر راج کنور، لختِ جگر
ہے شہنشاہِ زمن، ختمِ رسل، فخرِ بشر
چاک رکھے شبِ یلدا کا جگر تا بہ سحر
بزمِ عالم میں سجی ایسی کہاں شمعِ دِگر
دوپہر، چار پہر، بلکہ ہے سچ آٹھ پہر
ہر جگہ صلِّ علیٰ تذکرۂ خیرِ بشر
رزم گاہِ حق و باطل میں وہ ہے شیرِ ببر
ایک آئے نہ مقابل جو چلے تیغِ دو سر
ڈال دیں ان کی شریعت کو پسِ پشت اگر
نظمِ دیں، نظمِ جہاں پل میں ہوں سب زیر و زبر
شافعِ روزِ جزا، بندۂ محبوبِ خدا
ان کے حق میں تو یہ کہہ سکتے ہیں بے خوف و خطر
ایک ہی جملہ اگر شرطِ ثنا ہو تو کہوں
مبتدا سرورِ کونین، ہے کونین خبر
مصحفِ آخرِ حق آپؐ پہ نازل جو ہوا
اس کی ہر سطر ہے اک معدنِ رخشندہ گہر
ان کے قرآں کے لیے تیشۂ تحریف نہیں
رہے محفوظ بہر پیش و سکوں زیر و زبر
جو نہ بیٹھا کبھی در سایۂ قرآنِ حکیم
زندگی بھر وہ رہا نابلَدِ علم و خبر
مستِ صہبائے حقیقت ہو وہ لاریب و گماں
ڈال دے جس پہ وہ ساقی نگہِ کیف اثر
میں بھی میکش ہوں ترا ساقی گلفام ذرا
"چشمِ رحمت بکشا سوئے من انداز نظر”
لا وَزَر پڑ ھ کے بہت رَعشہ بر اندام تھا میں
مل گئی ایسے میں دامن میں ترے جائے مفر
مرتبت اس کی بیاں کیا ہو نظرؔ جس کے لیے
آسماں راہ گزر، کاہکشاں گردِ سفر
٭٭٭
صریرِ خامۂ فطرت کا تو ہی نقشِ اعظم ہے
تری عظمت خدا کے بعد اک امرِ مسلّم ہے
حریمِ نازِ حسنِ لم یزل کا تو ہی محرم ہے
نقوشِ پا سے رخشندہ جبینِ عرشِ اعظم ہے
تمہارے جدِّ امجد کی بدولت آبِ زمزم ہے
تمہارے دم سے کعبہ قبلۂ ابنائے آدم ہے
تمہارا دیں قبولِ حق، مدلّل اور محکم ہے
مفصل، منضبط، مربوط، کامل، غیر مبہم ہے
رُخِ سیرت سے اپنے تو اگر خُلقِ مجسم ہے
رُخِ اعمال سے اپنے تو قرآنِ مکرّم ہے
سرِ مغرورِ استبداد تیرے سامنے خم ہے
تری ٹھوکر کی زد میں تاجِ زرینِ کے و جم ہے
گروہِ جنّ و انساں میں درود و ذکر پیہم ہے
صفِ کرّ و بیاں میں بھی یہی اک شغل ہر دم ہے
پریشاں زُلف صد ہا قرن سے حورِ تمدّن تھی
سنواری شانۂ حکمت سے اس کی زلفِ برہم ہے
خدا کے ذکر کے پہلو بہ پہلو ذکر ہے تیرا
مؤخر ہے کہیں پر اور کہیں دیکھا مقدّم ہے
تیری فرماں روائی کا چلے گا حشر تک سکّہ
قیامت تک جو لہرائے گا وہ تیرا ہی پرچم ہے
ہزاروں فتنہ ہائے دہر میں محصور ہوں لیکن
تمہارے ذکر کے صدقے سکونِ دل فراہم ہے
نظرؔ کا نام تیرے نام لیواؤں میں ہے شامل
یہ اس کی سر خوشی کے واسطے اعزاز کیا کم ہے
٭٭٭
مہر نہ روشن تم سے سوا کچھ ماہ نہ تاباں تم سے زیادہ
کس کو ملا ہے بہرۂ فیضِ جلوۂ یزداں تم سے زیادہ
معرفتِ حق کس کو ملی اے خاصۂ خاصاں تم سے زیادہ
کس نے پلائے بادہ کشوں کو بادۂ عرفاں تم سے زیادہ
کس نے جلائی بزمِ جہاں میں مشعلِ ایماں تم سے زیادہ
کون ہے ایسا جس نے کیا یہ کارِ نمایاں تم سے زیادہ
کس نے مٹایا فتنۂ ظاہر، شورشِ پنہاں تم سے زیادہ
کس سے دبے ہیں قیصرِ روم و کسریِٰ ایراں تم سے زیادہ
بات ہے سچی حرج ہی کیا ہے کہہ دوں اگر میں سرورِ عالم
یہ کہ نہیں ہے احسن و اجمل یوسفِ کنعاں تم سے زیادہ
تاجِ رسالت سر پہ سجا کر آئے ہزاروں بزم میں لیکن
کوئی ہوا کب روح روانِ بزمِ رسولاں تم سے زیادہ
نوحؑ و خلیلؑ اللہ و سلیماں ؑ یونسؑ و موسیٰؑ یوسفؑ و عیسیٰؑ
سب ہیں خدا کے بندۂ ذیشاں پر نہیں ذیشاں تم سے زیادہ
کس نے ہے جوڑا رشتۂ اُلفت کس نے پڑھایا درسِ اخوّت
کس نے سنواری زُلفِ درازِ شامِ غریباں تم سے زیادہ
حُسنِ تمدّن کس نے نکھارا زُلفِ سیاست کس نے سنواری
کس نے مٹائے آ کے جہاں میں فتنۂ دوراں تم سے زیادہ
فکرِ فلاحِ امتیاں میں فکرِ شیوعِ دینِ خدا میں
کس نے گھلائے تا دمِ آخر اپنے تن و جاں تم سے زیادہ
سجدہ گزاری، گریہ و زاری اور حضورِ رب میں دعائیں
کون ہے اُمّت کے لیے اپنی زود پریشاں تم سے زیادہ
تیرِ ستم کی زد پہ ہے اُمّت تنگ ہے دنیا اس کی نظرؔ میں
تم ہی کرو کچھ کون ہے اس کا اے شہِ شاہاں تم سے زیادہ
٭٭٭
ہر چند مدح اس کی سب اہلِ ہنر کریں
شایانِ شان اس کے نہ ہو جس قدر کریں
ان کے نقوشِ پا کا تتبع اگر کریں
لاریب لوگ وہ دلِ یزداں میں گھر کریں
ہم کیا بیانِ خُلقِ شہِ نامور کریں
جاں لیوا دشمنوں سے بھی وہ در گزر کریں
عشقِ نبیؐ میں آؤ اِن آنکھوں کو تر کریں
بے مایہ آنسوؤں کو بھی رشکِ گہر کریں
سب انبیا ہیں چاند مگر ماند ماند سے
بطحا کا چاند ان کے مقابل اگر کریں
آ اے شبِ فراق تجھے نورِ ذکر سے
ہم پایۂ صباحتِ روئے سحر کریں
رُعبِ جمال و حسن سے کانپے اگر نگاہ
اصحابؓ روئے پاک پہ کیسے نظر کریں
سب جمع ہو کے مسجدِ اقصیٰ میں انبیاء
تسلیم اقتدائے شہِ بحر و بر کریں
اسرا کی شب رسولِؐ خدا ہے رسائے عرش
اندازہ مرتبہ کا ذرا دیدہ ور کریں
لوٹ آئے درمیاں ہی سے درماندہ ہو کے جب
رفعت پہ اس کی اہلِ نظر کیا نظر کریں
میرا سلامِ شوق کہیں آنحضورؐ سے
طیبہ کو جانے والے کرم اس قدر کریں
جانا اُس آستاں پہ مبارک تمہیں نظرؔ
ہاں واپسی کی بات نہ ہم سے مگر کریں
٭٭٭
امامِ رسولاں متاعِ دو عالم
محمدؐ رسول و نبی مکرّم
مَلَک بھیجتے ہیں درود اس پہ پیہم
سلام اس کو آتے ہیں از عرشِ اعظم
ہے قرآن اس کا مؤثر منظّم
ہے دین اس کا کامل شریعت ہے محکم
درود اس پہ بھیجیں بھی دن رات گر ہم
ہے کم اس کے احساں کے آگے بہت کم
یہ حالاتِ امّت وہ غرقِ تفکر
وہ اک دردِ جاں سوز رکھتا تھا پیہم
علوم و معارف کا ذات اس کی مخزن
حقائق سے آگاہ رازوں کا محرم
کلام اس کا بر حق کلام اس کا شیریں
مقفیٰ، مسجّع، مرصّع و محکم
وہ بیداری شب حضورِ خدا میں
دعاؤں میں مصروف با چشمِ پُر نم
ہے ذکر اس کا خالق کے پہلو بہ پہلو
کہیں ہے مؤخر کہیں پر مقدّم
ہے اس کی اطاعت خدا کی اطاعت
ہو جس کا وہ ہمدم خدا اس کا ہمدم
حقیقت میں اس کا ہے دربار شاہی
بظاہر نہیں گرچہ کوئی خم و چم
قدم بوس ہونے کو جاتی ہے دنیا
بر آں بارگاہِ شہنشاہِ عالمؐ
نظرؔ ہم نہ کیوں اس کے قربان جائیں
وہ رحمت سراپا وہ خیرِ مجسّم
٭٭٭
ذکرِ پاکِ سرورِ دیں بر لبِ اظہار ہے
دل پہ طاری ہے سکینت روح پُر انوار ہے
نعت گوئی کے لیے عشقِ نبیؐ درکار ہے
قافیہ پیمائی ورنہ شغلِ بے کردار ہے
خامۂ پرکارِ فطرت کا وہی شہکار ہے
حسنِ آں سیمیں بدن دامن کشِ انظار ہے
فی سبیل اللہ دن بھر کا تھکا ماندہ ہے وہ
شب کو مصروفِ عبادت رہ کے شب بیدار ہے
وہ حبیبِ کبریا ہے وہ ہے مخدومِ جہاں
روئے گیتی پر خوشا سب سے بڑی سرکار ہے
خوبصورت خوب سیرت، پاک باطن، پاک تن
خوش جبین و خوش ادا ہے اور خوش گفتار ہے
قبلۂ عالم ہے کعبہ، قبلۂ کعبہ ہے وہ
اللہ اللہ سوچئے کیا عظمتِ سرکارؐ ہے
اپنی امّت کی ہدایت کے لیے کوشاں ہے وہ
درس ہے توحید کا، تبشیر ہے، انذار ہے
عشقِ اصحابِؓ نبیؐ ہے دیدنی صد مرحبا
اک اشارے پر ہر اک مر مٹنے کو تیار ہے
زانوئے صدیقِ اکبرؓ پر سرِ شاہِ ہدیٰؐ
سب سے اونچا سر اسی کا ہے وہ یارِ غار ہے
حاصلِ عمرِ دو روزہ گر نہ ہو عشقِ نبیؐ
زندگی مع کُل متاعِ زندگی بیکار ہے
پھر گیا جس کی طرف سے وہ پھنسا گرداب میں
جس کا حامی ہو گیا وہ اس کا بیڑا پار ہے
مان کر اس کو نبیؐ پھر جو نہ مانیں آخری
کافر و زندیق ہیں ان پر خدا کی مار ہے
خون کے پیاسوں کو اپنے بخش دیتا ہے یونہی
رحمتُ الّلعٰلمیں کا دیدنی کردار ہے
بے نیازِ مال و زر بیگانۂ دنیائے دوں
گنجِ قاروں پر بھی اس کا پائے استحقار ہے
دل طوافِ شہرِ طیبہ میں ہے اب تک منہمک
میں تو ہوں اک بار کا، دل دائمی زوّار ہے
روزِ محشر کیا پئیں گے اے نظرؔ بتلائیے
جامِ کوثر بھی وہاں ہے اور مئے دیدار ہے
٭٭٭
الفاظ مرصّع ہوں کہ نقطے ہوں گہر سے
باہر ہے ثنا اس کی پہ امکانِ بشر سے
صورت ہے منوّر وہ سوا روئے قمر سے
سیرت وہ مطہر کہ فرشتہ جسے ترسے
جو عشقِ محمدؐ میں گرے دیدۂ تر سے
ہیں بیش بہا اشک وہ مرجان و گہر سے
وہ صانعِ قدرت کا ہے شہکار کہ اس سا
پیدا نہ ہوا اور نہ ہو نسلِ بشر سے
اک بار پیا جس نے زِ میخانۂ توحید
نشّہ وہ چڑھا جو کہ نہ اُترا کبھی سر سے
رختِ سفرِ زیست ہے اور توشۂ عقبیٰ
سرمایۂ ایماں کہ ملا آپؐ کے در سے
بھٹکی ہوئی دنیا کو دکھائی رہِ توحید
آگاہ کیا ہم کو ہر اک خیر سے شر سے
کی جس نے سدا پیروی نقشِ کفِ پا
خوش بخت وہ مامون ہوا نارِ سقر سے
دیکھا تو سہی جلوۂ رب اس سے غرض کیا
دیکھا نگَہِ دل سے کہ ظاہر کی نظر سے
جس نے نہیں دیکھا اسے اللہ دکھائے
اس روضۂ انور کو جہاں نور ہی برسے
از روئے عمل ہم تھے گنہ گار بہت پر
محشر میں چھُٹے اس کی شفاعت کے اثر سے
جو آپؐ کا رتبہ ہے خدا ہی اسے جانے
باہر ہے نظرؔ دائرۂ فہمِ بشر سے
٭٭٭
بقدرِ فہم کرتے ہیں ثنا جتنی بھی ہو ہم سے
کہ تکمیلِ ثنا ممکن نہیں ابنائے آدم سے
ترے چہرے کے آگے اور سب چہرے ہیں مدھم سے
ترا پیکر ہے موزوں تر حسینانِ دو عالم سے
تیری سیرت بتائیں ہم کوئی پوچھے اگر ہم سے
کہ وہ تو ہو بہو ملتی ہے قرآنِ مکرّم سے
سکونِ دل میسّر ہو جو گیسوئے منظّم سے
پریشاں ہوں دلِ عُشّاق اس کی زُلفِ برہم سے
جو اس کی یاد میں ٹپکے تھے میرے دیدۂ نم سے
بچا کر لے گئے مجھ کو وہی نارِ جہنّم سے
پریشانی کا عالم تھا ہوئے جاتے تھے بیدم سے
چھڑایا تم نے آ کر آدمی کو پنجۂ غم سے
مرا کہنا ہے ہر آزردہ دل وابستۂ غم سے
سکوں چاہو تو حاصل کر لو ان کے ذکرِ پیہم سے
محمدؐ ابنِ عبداللہ پہ ہاں ختم ہوتا ہے
نبوت کا چلا تھا سلسلہ اوّل جو آدم سے
شفاءِ کاملہ لے کر وہی ختم الرسل آیا
علاجِ نوعِ انساں ہو سکا کب ابنِ مریم سے
قدومِ میمنت نے آپؐ کے تابندگی بخشی
نقوشِ آدمیت پڑ چکے تھے سارے مدھم سے
تصوّر عمر بھر گرداں رہا لیکن نہیں پہنچا
وہ شب بھر میں پلٹ آئے ہیں جا کر عرشِ اعظم سے
حرم ہے منزلِ اوّل نظرؔ شوق و عقیدت کی
مگر ہے آخری منزل پرے بیتُ المحرّم سے
٭٭٭
ثنا خوانِ محمدؐ پتّہ پتّہ ڈالی ڈالی ہے
کہ خود توصیف اس نے کی ہے جو گلشن کا مالی ہے
تری صورت خدا نے نور کے سانچے میں ڈھالی ہے
ترا اخلاق اونچا ہے ترا کردار عالی ہے
تیری سیرت مطہر ہے، منوّر ہے، نرالی ہے
تری تعلیم پاکیزہ ترا اسوہ مثالی ہے
سرِ عرشِ بریں پہنچی ہوئی وہ ذاتِ عالی ہے
شبِ معراج نے دیکھا کہ بستر اس کا خالی ہے
کہیں کا کوئی سلطاں ہے کہیں کا کوئی والی ہے
ترے دربار میں آ کر مگر ہر اک سوالی ہے
تمہارا دین آساں ہے مطابق عین فطرت کے
کوئی افراط کا پہلو نہ کچھ بے اعتدالی ہے
قیامت تک تمہاری ہے بغیرِ شرکتِ غیرے
رسالت کاملہ کی آ کے جو گدّی سنبھالی ہے
جمال ان کا ہے کیف آگیں ادائیں دل نشیں ساری
اُتر جاتی ہے دل میں بات وہ شیریں مقالی ہے
پسِ مُردن بھی صدیقؓ و عمرؓ ساتھی ہیں مرقد میں
نہ ان سے پہلے خالی تھا ترا پہلو نہ خالی ہے
تھی اپنی فکر ژولیدہ، پراگندہ و فرسودہ
ترے قرآں کی منّت کش مری روشن خیالی ہے
ترے روضے کو چومیں پے بہ پے جوشِ عقیدت سے
ہمارے درمیاں حائل مگر روضے کی جالی ہے
مرے آقا گناہوں میں کٹی ہے زندگی ساری
سرِ محشر نظرؔ تجھ سے شفاعت کا سوالی ہے
٭٭٭
شعور و عقلِ بشر کی عیاں ہے مجبوری
ثنائے سرورِ عالمؐ ہو کس طرح پوری
ہے دور شہرِ مدینہ تو یہ ہے مجبوری
پر اس کی یاد میں حائل نہ ہو سکے دوری
خجل ہو ماہِ منوّر وہ چہرۂ نوری
وہ بوئے زُلفِ دوتا ہے کہ ہیچ کستوری
فروغِ نور سے منظر ہے دیدنی دل کا
جب ان کی یاد کی جلتی ہو شمع کافوری
سنبھال کراسے رکھ اپنے سینہ و دل میں
متاعِ بیش بہا ہے یہ دردِ مہجوری
وہ لا مکاں میں قدم زن ہوا تنِ تنہا
مقامِ سدرہ پہ روح الامیں کو معذوری
خدا کا بندۂ محبوب سرورِ کونینؐ
اسی نے ہم کو سکھائی ادائے جمہوری
نگاہِ مست کے صدقے کہ اک اشارے پر
اُٹھا کے مستوں نے پھینکی شرابِ انگوری
پسینہ خشک نہ ہو پائے از تنِ مزدور
ہے اس کا حکم کہ پہلے ادا ہو مزدوری
ہمیں نہ فخر ہو کیوں کالی کملی والے پر
ہیں ٹھوکروں میں پڑے جس کی تاجِ فغفوری
پہنچ کے روضۂ انور پہ میں سلام پڑھوں
نظرؔ یہ دل کی تمنّا خدا کرے پوری
٭٭٭
رقصاں ہے روح و تن میں مرے موجۂ طرب
غلطاں ہوں آج میں بہ ثنائے شہِ عرب
خطبہ ہو یا دعا ہو کہ شہ پارۂ ادب
ذکرِ رسولِ پاکؐ ہے بعدِ ثنائے رب
اس طرح سے نماز پڑھی اس نے ایک شب
خود تھا امام اور نبی مقتدی تھے سب
شیرِ وغا ہے دن میں وہ طاعت گزارِ شب
اپنے ہر اُمّتی کے لیے مغفرت طلب
شمعِ ہدیٰ کا نور بجھائے بجھے گا کب
ٹکرا کے اس سے دیکھ لے تقدیرِ بولہب
میخانۂ حجاز کی بٹتی ہے روز و شب
ہے بدنصیب اب بھی جو رہ جائے تشنہ لب
بھر دے لبا لب اس کو کسی دن تو کیا عجب
دریائے فیض وہ ہے میں پیمانۂ طلب
ایسا کریم نفس کہ دشمن کے حق میں بھی
دل میں نہیں کوئی رمَقِ غصہ و غضب
میرا حریف کون ہو کیف و سرور میں
ہوں بادہ نوشِ جام زِ میخانۂ عرب
کافر مَرے جو پی نہ سکے اس شراب کو
ساقی سے مل رہی ہے جو بے صرفہ و طلب
حد سے گزر چکی تھی رہِ دشمنی میں جو
فی النّار و فی السّقر ہے وہ حَمَّالۃ الحَطب
دل کو سنبھالوں یا نگَہِ مضطرب کو میں
پہنچا ہی چاہتا ہوں سرِ کوچۂ ادب
کوچہ میں جائیے گا نظرؔ اس کے سر کے بل
ہے راہِ عاشقی میں یہی اَمر مستحب
٭٭٭
میں رہوں نغمہ طرازِ شہِ دیں حینِ حیات
المدد خالقِ کونین و مجیب الدعوات
اس کے اقوال سے واضح ہوں خدا کی آیات
اسوۂ پاک پہ چلنے سے ملے راہِ نجات
پنجگانہ کی ملی آپ کو شاہی سوغات
بھول سکتے نہیں ہم آپ کی معراج کی رات
جلوہ گستر سرِ محفل وہ ہوا ہے جب سے
مل گیا خاک میں سب سحر و فسونِ ظلمات
حسنِ ذاتی و صفاتی کا بیاں ہو کیسے
استعارے ہیں مناسب نہ بجا مصطلحات
اس معلم سے کھلے رازِ حقائق ورنہ
تنگ انسان کا تھا دائرۂ معلومات
نہ دلا یاد مجھے قصۂ طائف ہمدم
ورنہ لگ جائے گی اشکوں کی جھڑی بے برسات
فلکِ پیر کے رخشندہ ستاروں کی عوض
لے لوں طیبہ کے چمکتے ہوئے خاکی ذرات
ذاتِ اقدس پہ سدا بھیجتے رہتے ہیں درود
اہلِ ایمان ہیں جتنے بہ شمولِ جنات
نعت گوئی کے سبب رب نے مجھے بخش دیا
فردِ اعمال میں با وصف سیہ مندرجات
خدمتِ قدس میں کچھ حال بیاں کرتا ہوں
ہے زباں گنگ مری گرچہ بہ فرطِ جذبات
مستِ صہبائے تعیش تری امت شاہا
اب نمازیں ہیں نہ روزے ہیں نہ حج ہے نہ زکوٰۃ
ترے قرآن کو رکھا ہے بہ طاقِ نسیاں
روز و شب منہمکِ لہو و لعب ہے ہَیہات
حق پرستی نہ رہی دین پسندی نہ رہی
بے خیالی میں ہے پھر بندگی لات و منات
دھیان عقبیٰ کا ہے کچھ اور نہ خوفِ انجام
مختصر یہ کہ ہے در کشمکشِ موت و حیات
اک نظرؔ آپ ہی ڈالیں جو کرم کی اس پر
ہے یقیں اب بھی سدھر سکتے ہیں بگڑے حالات
٭٭٭
دل آج مرا منہمکِ کارِ ثنا ہے
اس بندۂ عاجز پہ یہ احسانِ خدا ہے
لاریب کہ جس روز سے یہ چاند چڑھا ہے
ظلمت کی قبا چاک ہے بارانِ ضیا ہے
از قولِ "لَقَد مَنَّ ” پتہ مجھ کو چلا ہے
بعثت شہِ کونین کی اک خاص عطا ہے
ظلمت کدۂ دہر میں وہ شمعِ ہدیٰ ہے
ہر طالبِ منزل کے لئے راہنما ہے
قسّامِ ازل نے کوئی رس گھول دیا ہے
شیریں سخنی نطقِ محمدؐ پہ فدا ہے
سرچشمۂ فیض و کرم و جود و سخا ہے
وہ جامعِ اوصافِ حمیدہ بخدا ہے
ہر حرفِ سخن گوہرِ شب تاب ہو جیسے
ہر قول فقیہانہ ہے حکمت سے بھرا ہے
صناعی فطرت کا ہے بے مثل نمونہ
سر تا بہ قدم حسن کے سانچہ میں ڈھلا ہے
وہ رحمتِ عالمؐ ہے وہ ہے منبعِ رافت
اخلاقِ مجسم ہے وہ فانوسِ حیا ہے
حیرت زدۂ قصۂ معراج ہے دنیا
کیا طرفگی فیصلۂ قدر و قضا ہے
وہ مرکزِ امیدِ خلائق سرِ محشر
ہر فرد جدھر وہ ہیں اُدھر بھاگ رہا ہے
وہ عالمِ ناسوت ہو یا عالمِ لاہوت
اک غلغلۂ صلِّ علیٰ صلِّ علیٰ ہے
فکر و غمِ امت میں نہیں آنکھ لگائی
ہے آخرِ شب اور وہ مصروفِ دعا ہے
کیفیتِ صہبائے حقیقت وہی جانے
جس نے کہ خمستانِ محمدؐ سے پیا ہے
اللہ دکھائے کبھی بیتاب نظرؔ کو
وہ شہر کہ آئینۂ فردوس بنا ہے
٭٭٭
حسن و خوبی کا نمونہ ہے وہ حق بیں، دلجو
پاک دل، پاک نظر، نرم زباں، آئینہ رو
زلفِ شب رنگ میں اس کی جو رچی ہے خوشبو
ایسی عنبر میں کہاں ہے نہ بہ مشکِ آہو
لبِ لعلینِ شہِ طیبہ ہیں مثلِ یاقوت
مثلِ ناوک ہے مژہ تیغِ دو دم ہیں ابرو
"حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ، یدِ بیضا داری”
جامعِ وصف و کمالات ہے ایسا بس تو
عرشِ اعظم پہ لہکتا ہے لوائے عظمت
اس کی ٹکر کا نہیں کوئی بھی دیکھیں ہر سو
مائلِ بخشش و الطاف و کرم ہے ہر دم
جوشِ رحمت سے دلِ شاہِ اممؐ ہے مملو
سرنگوں کر کے کوئی بات کرے تو کر لے
گفتگو کوئی کرے، تاب کہاں رو در رو
قابلِ دید ہوئی تب کہیں جا کر دنیا
اس نے جب شانۂ حکمت سے سنوارے گیسو
گرمی حشر سے کیا خوف اسے اے ہمدم
مئے کوثر جسے مل جائے وہاں دو چُلّو
ہم نشیں خاص جو منظورِ نظرؔ تھے اس کے
بعد مردن بھی خوشا بخت رہے ہم پہلو
٭٭٭
لوٹتا ہوں مدحتِ شاہِ مدینہ کے مزے
عمر تا آخر مری یا رب اسی صورت کٹے
پیکر اپنی رحمتوں کا ڈھال کر اللہ نے
ابنِ عبد اللہ بھیجا اپنے بندوں کے لئے
کج روی، حق پیروی دونوں نشاں زد کر دیئے
اس نے واضح کر دیئے سب خیر و شر کے راستے
بھر کے سینوں میں حرارت جذبۂ ایمان کی
کر دیئے صیقل دلوں کے زنگ خوردہ آئینے
حق نما نے حق نمائی کا ادا حق کر دیا
رات دن اک کر دیا رب کی رضا کے واسطے
مانگتے ہیں بارگاہِ حق سے جانے کیا یہ لوگ
مل گیا محبوبِ حق تو اور پھر کیا چاہئے
فکرِ فردائے قیامت جب بھی دامن گیر ہو
دل میں جل اٹھتے ہیں فوراً ان کی یادوں کے دیے
آپ کی تصویرِ ذہنی بن تو جاتی ہے مگر
خواب میں آتے تو اصلی شکل و صورت دیکھتے
شرمِ عصیاں ہے کہ جس نے پا بہ جولاں کر دیا
کون سا منہ لے کے جاؤں مصطفیٰؐ کے سامنے
رحمتِ حق نے انہیں بہرِ شفاعت چن لیا
آنکھ سے جتنے بیادِ مصطفیٰؐ آنسو گرے
آپ ہی محشر میں ہیں امید گاہِ عاصیاں
آخرت میں کام کے کب رشتے سوتیلے سگے
‘قل ھوَ اللہُ احد’ سے لے کے تا ‘کفواً احد’
وہ نہ بتلاتے تو ہم شانِ خدا کیا جانتے
راہِ طیبہ لے نظرؔ شوقِ زیارت ہے اگر
گردشِ ایام پھر موقع تجھے دے یا نہ دے
٭٭٭
زمرۂ انبیاء و رسل میں نہیں دوسرا کوئی شاہِ ہدیٰ کی طرح
نسلِ انساں میں پیدا کیا ہی نہیں میرے اللہ نے مصطفیٰؐ کی طرح
شانِ تکریم و عزت کا کیا پوچھنا شانِ محبوبیت آپ کی مرحبا
قلبِ مخلوق میں آرزو کی طرح قلبِ خلاق میں مدعا کی طرح
خاتم الانبیاء، خاتم المرسلیں منتہی آپ پر کارِ پیغمبری
رہنمائی بھی کی رہنما کی طرح ناخدائی بھی کی ناخدا کی طرح
جامعِ خلقِ پاکیزہ ذاتِ نبیؐ حسنِ کامل کے مظہر بھی ہیں آپ ہی
ہم نے دیکھیں نہیں صورتیں سیرتیں، صورت و سیرتِ مجتبیٰ کی طرح
مومنوں کے لئے رحمتِ کبریا مجرموں کے لئے وہ نذیرِ مبیں
حق میں ہمراہ کے ابرِ گوہر فشاں حق میں گمراہ کے وہ ضیا کی طرح
اپنی امت سے اس درجہ تھا پیار انہیں ہو بہو جس کی تمثیل ممکن نہیں
بر سبیلِ تنزل سمجھنا ہو گر تو میں کہہ دوں کہ تھا مامتا کی طرح
بس خدا کی خدائی میں نکلے وہی جن کو اعزازِ معراج حاصل ہوا
کون لذتِ کشِ قربِ یزداں ہوا سارے نبیوں میں خیر الوریٰ کی طرح
گر بلاغت کے پہلو سے پوچھے کوئی ایک ہی جملۂ محمدت تو کہوں
عالمِ رنگ و بو ہے مثالِ خبرہستی پاک ہے مبتدیٰ کی طرح
سامنے گو نہیں ذاتِ پاکِ نبیؐ امتی کو ہے حاصل مگر رہبری
کارواں کارواں گونجتی ہے ابھی ان کی آواز بانگِ درا کی طرح
وصف کے کتنے پہلو نہاں رہ گئے چشمِ انساں سے خیر البشر کے نظرؔ
کیا خبر یہ تو اس وقت کھلتا کہیں دیکھ سکتا کوئی گر خدا کی طرح
٭٭٭
سرتاجِ انبیاء ہو شفاعت مدار ہو
محبوبِ رب ہو رحمتِ پروردگار ہو
ختم الرسل ہو صاحبِ عالی وقار ہو
تم اول الشرف شہِ فرخ تبار ہو
دنیائے شش جہات کے تم تاجدار ہو
ساری حقیقتوں کے تم آئینہ دار ہو
تم مرکزِ عنایتِ پروردگار ہو
کامل تمہیں ہو اور زِ ہر اعتبار ہو
میدانِ کارزار کے تم شہ سوار ہو
را توں کو رب کے سامنے سجدہ گزار ہو
رشتہ خدا سے بندوں کا کب استوار ہو
تم درمیاں نہ ہو تو بڑا انتشار ہو
دل یہ غبارِ غم سے بھرا گو ہزار ہو
تم پر درود پڑھ کے سکون و قرار ہو
نقشِ جمیلِ صانعِ قدرت ہو مرحبا
امرِ مسلمہ ہے کہ تم شاہکار ہو
غمگیں پئے ہدایتِ انساں وہ روز و شب
کہنا پڑا خدا کو نہ یوں دلفگار ہو
عرشِ عظیم بھی ہے قدم بوس آپ کا
یعنی حریمِ قدس کے بھی راز دار ہو
سو بار ناز اپنے مقدر پہ میں کروں
دیدارِ آں دیار اگر ایک بار ہو
ہو چشمِ التفات مری سمت اے نبیؐ
یومِ حساب جب کہ نظرؔ کی پکار ہو
٭٭٭
صد امتنان و فضلِ خدائے کریم ہے
میری زباں پہ مدحِ رسولِ کریمؐ ہے
وہ خوبرو ہے صاحبِ خلقِ عظیم ہے
فطرت میں ہے سلیم، طبیعت حلیم ہے
اس بات پر گواہ خدائے علیم ہے
مومن کے واسطے وہ رؤف و رحیم ہے
نازل ہوئی جو ان پہ کتابِ حکیم ہے
حکمت کے موتیوں کا خزانہ عظیم ہے
عرشِ عظیم جو کہ خدا کی حریم ہے
پہنچا وہاں پہ بھی وہ نبی کریمؐ ہے
ان گیسوؤں کی لائی اڑا کر شمیم ہے
رقصاں اسی لئے تو چمن میں نسیم ہے
دیکھیں اگر شرف تو وہ ہے سرورِ جہاں
سادہ مزاجیاں یہ کہ اوڑھے گلیم ہے
ختم الرسل ہے ہادی برحق ہے مصطفیٰؐ
دنیا کو رہنمائے رہِ مستقیم ہے
موتی تمام عمر لٹائے گراں بہا
با ایں صفت کہ آپ وہ دُرِّ یتیم ہے
اسرا کے واقعہ میں ہے سوز و گدازِ عشق
اک حادثہ سا قصۂ طور و کلیم ہے
انگشتِ دستِ پاک کا اعجاز مرحبا
مہتابِ زر نگار فلک پر دونیم ہے
امت کو اپنی چھوڑ کے جانے کا وہ نہیں
آرام گاہِ ناز میں اب تک مقیم ہے
دیکھے نظرؔ بھی روضۂ انور کو اے خدا
یہ اک دعائے خاص بہ قلبِ صمیم ہے
٭٭٭
میں ہوں نغمہ سنجِ ثنائے نبیؐ
مرے دل میں ہے موجزن سرخوشی
کسی بھی سخنور سے کب ہو سکی
ثنائے محمدؐ کما ینبغی
زِ سر تا قدم عالمِ دلکشی
حسیں ہے وہ اپنی مثال آپ ہی
نہ پوچھیں کہ سیرت ہے کیا آپ کی
خوشا ہو بہو ہے وہ قرآن ہی
وہ آنکھیں ہیں مخمور من موہنی
جو دیکھے تو سرمست ہو آدمی
وہ مردِ مجاہد، دلاور، سخی
وہ مرتاض، وہ پارسا، متقی
وہ ہے نسلِ آدم سے، ہے آدمی
پہ ہے اپنے رب کا وہ پیارا نبیؐ
بلا شک ہیں آئے ہزاروں نبیؐ
محمدؐ کی ہے شان پر اور ہی
مٹی اس کی آمد سے تیرہ شبی
اسی کی بدولت ہے سب روشنی
بتائے ہیں جتنے بھی امر و نہی
بجا لائے انساں اگر با خوشی
بدل جائے پھر نقشۂ زندگی
سنور جائے بگڑا ہوا آدمی
خوشا ان کے مصحف سے ہم کو ملی
خدا آگہی اور خود آگہی
شجاعت میں ان سے ہے نامِ علیؓ
انہیں کی بدولت ہے عثماںؓ غنی
تھے صدیقؓ و فاروقؓ ان کے ولی
ہیں تربت میں تینوں اکٹھا یونہی
نبوت کے منسب کا وہ مختتم
رسالت ہوئی آپ پر منتہی
تمام اہلِ محفل کا ساقی ہے وہ
پلائی خمستانِ توحید کی
اسی کی شریعت سکھائے ہمیں
عبادت، ادب، طہر، پاکیزگی
سرِ عرش پہنچے بہ نفسِ نفیس
شرف آپ کا سوچئے تو سہی
یہ فضلِ خدا ہے وہ جس پر بھی ہو
ہے سب انبیاء پر اسے برتری
حدیثوں پہ کر لے عمل استوار
اگر چاہئے زندگی سکھ بھری
نگاہِ کرم ہو مرے ساقیا
نظرؔ کا بھی بھر جائے جامِ تہی
٭٭٭
چہرۂ ماہ و خور نہیں چہرۂ حورِ عیں نہیں
مثلِ نبیِؐ مجتبیٰ چہرہ کوئی حسیں نہیں
در صفِ انبیاء نہیں در صفِ مرسلیں نہیں
ان سا کہاں ملے کوئی، ان سا کوئی کہیں نہیں
تختِ نبوت آپ کا صلِّ علیٰ، علی الدوام
سب کے تو جانشیں ہوئے، آپ کا جانشیں نہیں
آپ حبیبِ کبریا، آپ امامِ انبیاء
امر ہے یہ مسلّمہ اس میں چناں چنیں نہیں
ان کی کتاب آخری حکمت و علم سے بھری
کون سی بات اس میں ہے ایسی کہ پر یقیں نہیں
ذات ہے سو کریم ہے خلق ہے سو عظیم ہے
شاہدِ عدل ہے خدا کہتے یہ کچھ ہمیں نہیں
لذتِ گفتگو خوشا تا رگ و روح ہے رسا
اس کے مقابلے میں کچھ لذتِ انگبیں نہیں
مرکزِ کیف و نور ہے دیکھ لے ان کا آستاں
موت ہے گھات میں تری عمر کا کچھ یقیں نہیں
سادہ و دل نشیں رواں تیری ہے اے نظرؔ زباں
کس کے لبوں پہ بزم میں کلمۂ آفریں نہیں
٭٭٭
کہوں بات یہ میں تو بے جا نہیں ہے
نبی کوئی ختم الرسل سا نہیں ہے
ہزار انبیاء ایک سے ایک بڑھ کر
پہ کوئی سراجاً منیرا نہیں ہے
وہ ختمِ نبوت، امام انبیاء کے
علو مرتبت کوئی ان سا نہیں ہے
وہ خلقِ مجسم وہ رحمت سراپا
کوئی اور میرے نبیؐ سا نہیں ہے
نقوشِ قدم اس کے عرشِ بریں پر
جہاں آج تک کوئی پہنچا نہیں ہے
ہے معراج کا واقعہ منفرد ہی
کسی اور قصہ سے ملتا نہیں ہے
تری بزم کے لوگ عقبیٰ کے طالب
کوئی ان میں دنیا کا بھوکا نہیں ہے
پلایا ہے وحدت کا ساغر جو اس نے
اتر جائے کیف اس کا ایسا نہیں ہے
لگی دل کو ہے آستانے پہ پہنچوں
مگر واپسی کی تمنا نہیں ہے
طرف دارِ امت وہی ایک ہو گا
نظرؔ کوئی جس دن کسی کا نہیں ہے
٭٭٭
دل عطر بیز تارِ نفس مشکبو کریں
محبوبِ رب کا آئیے ذکرِ نکو کریں
قلبِ سیاہ رو کو ہم آئینہ رو کریں
خلوت ہو یا کہ بزم تری گفتگو کریں
تا اوجِ عرش پائیں گے اس کے نقوشِ پا
اس کے نقوشِ پا کی اگر جستجو کریں
صادق ہے وہ، امیں ہے وہ، عالی نسب ہے وہ
تسلیم اس قدر تو سب اس کے عدو کریں
پوچھے کوئی جو سیرتِ پاکِ نبیؐ ہے کیا
قرآں اٹھا کہ اس کے ذرا روبرو کریں
میخانۂ حجاز کی ہو اور وہ بھی مفت
پی پی کہ جام آئیے خالی سبو کریں
دیدارِ روضۂ نبوی کو ہے شرطِ عشق
آنکھیں زلالِ اشک سے پہلے وضو کریں
اونچا مقام ان کا ہے جنت انہیں کی ہے
تقلید آنحضورؐ کی جو ہو بہو کریں
لائیں بروئے کار اسی کا نظامِ دیں
دل غم سے چاک چاک ہے فکرِ رفو کریں
جانے کی آرزو ہے نظرؔ بر درِ حضورؐ
آنے کی کیا پڑی ہے کہ ہم آرزو کریں
٭٭٭
سجا کر سر پہ وہ تاجِ نبوت زرنگار آیا
رسولِ ہاشمی آیا نرالا تاجدار آیا
وہ ختمِ مرتبت عالی نسب فرخ تبار آیا
وہ بزمِ نازِ حسنِ لم یزل کا راز دار آیا
خدا کی صنعتِ تخلیق کا وہ شاہکار آیا
امام الانبیاء، ختم الرسل سا تاجدار آیا
بہاروں کے لئے مژدہ کہ وہ جانِ بہار آیا
ہوا شاداب گلشن ہر شجر پر برگ و بار آیا
درِ نایاب کا خواہاں ہر اک دیوانہ وار آیا
علومِ معرفت کا بحرِ نا پیدا کنار آیا
قرارِ جان و دل بن کر وہ سب کا غمگسار آیا
خوشا قسمت وہ جانِ رحمتِ پروردگار آیا
نظامِ زندگی برہم تھا ایسا انتشار آیا
بفضلِ ایزدی شیرازہ بندِ کاروبار آیا
وہ ساقی میکدہ بردوش جب عالی وقار آیا
تو لے کر ساغرِ دل دوڑتا ہر مے گسار آیا
تہی دامن کوئی پلٹا نہ کوئی شرمسار آیا
ہر اک دریوزہ گر اس آستاں سے کامگار آیا
وہ راہِ عشق کا سالک وہ حسنِ خلق کا مالک
تعلق بندہ و مولا کا کرنے استوار آیا
وہ مزّمل وہ مدّثر قیام اللیل کا خوگر
حبیبِ کردگار آیا زہے شب زندہ وار آیا
کرشمہ حسنِ سیرت کا کہ جادو حسنِ صورت کا
ملا جو ایک بار ان سے وہ ملنے بار بار آیا
ابو بکرؓ و عمرؓ فاروق و عثمانِؓ غنی، حیدرؓ
خوشا اس حسن کے پہلو میں عشقِ چار یار آیا
نظرؔ بیتاب دل رہتا ہے کیوں راہِ مدینہ لے
کہ ہر مضطر کو روضے پر پہنچ کر ہی قرار آیا
٭٭٭
وہ تاب و تواں عقلِ بشر لائے کہاں سے
ہو عہدہ بر آ نعتِ شہِ کون و مکاں سے
پوشیدہ نہیں یہ نگہِ دیدہ وراں سے
سب عقل و تمیز آئی ہے انساں کو کہاں سے
خورشیدِ درخشاں نہ مہِ جلوہ فشاں سے
روشن ہے خدائی یہ شہنشاہِ زماں سے
روپوش ہوا جب سے جہانِ گزراں سے
نزدیک ہوا اور بھی وہ حجلۂ جاں سے
ہیگل سے میں پوچھوں نہ فلاں سے نہ فلاں سے
منزل مری روشن ترے قدموں کے نشاں سے
معراج میں گزرے ہیں وہ شاید کہ یہاں سے
اک گرد سی اڑتی ہے ابھی کاہ کشاں سے
پیارا نہیں مجھ کو وہ فقط باپ سے ماں سے
لاریب وہ محبوب ہے اپنی رگِ جاں سے
دعویٰ محبت ہو اگر شاہِ شہاں سے
بچ سوءِ عمل، سوءِ زباں، سوءِ گماں سے
خاص ایک دعا یہ ہے مری ربِ جہاں سے
پہنچائے مدینہ پہ نہ لوٹائے وہاں سے
پیوست ہے ہر لفظِ سخن اپنی جگہ پر
مسحور ہیں جیسے کہ ترے حسنِ بیاں سے
محفوظ ہے در صورتِ قرآن و احادیث
نکلا جو کلام آپ کی پاکیزہ زباں سے
چپ چپ بھی دکھائی دے تو خاموش نہ سمجھیں
پڑھتا ہے درود ان پہ نظرؔ دل کی زباں سے
٭٭٭
ہ میدانِ ثنا آنے سے میری عقل کترائے
ہجومِ شوق لیکن محمدت پر ان کی اکسائے
لبِ اظہار تک دل سے جب ان کا ذکرِ خیر آئے
یہ دیکھا معجزہ ہم نے بھری محفل کو گرمائے
جگانے اہلِ دنیا کو محمدؐ مصطفیٰ آئے
ضلالت کی شبِ تیرہ میں وہ نورِ سحر لائے
شریعت اپنی وہ لائے وہ قرآنِ مبیں لائے
اجالا علم کا پھیلا سب اٹھے جہل کے سائے
خدا کے سارے بندوں پر تری رحمت کے ہیں سائے
سرِ میدانِ محشر بھی لوائے حمد لہرائے
خدا کی بندگی کے اس نے سب آداب سکھلائے
مسائل زندگی کے ایک اک سب اس نے سلجھائے
ہوا جب حکمِ ربی "قُم فاَنذِر” کملی والے کو
تنِ تنہا وہ اٹھے پھر نہ کچھ جھجکے نہ گھبرائے
اسی ماہِ مبیں کی روشنی سے دل منور ہیں
اسی ابرِ کرم نے علم کے موتی ہیں برسائے
وہ حسنِ خلقِ اطہر اف خدا کے اس پیمبر کا
دعائیں ان کے حق میں کیں ہزاروں جن سے دکھ پائے
ترا پیغام جو مانیں الولو الالباب کہلائیں
نہ مانیں جو نگاہِ رب میں وہ انساں ہیں چوپائے
تمہارا روضۂ انور نظرؔ سے اپنی میں دیکھوں
خدا اپنے کرم سے ساعتِ خوش جلد وہ لائے
٭٭٭
مصروف دل ثنائے شہِ ذو المنن میں ہے
اک سرخوشی کی لہر مرے تن بدن میں ہے
جو آب و تاب ماہِ عرب کی کرن میں ہے
وہ روشنی کہاں مہِ جلوہ فگن میں ہے
ملبوس کملی میں کہ ردائے یمن میں ہے
حسن آفریں وہ چاند ہر اک پیرہن میں ہے
ایسا کمالِ حسنِ تناسب بدن میں ہے
کیفِ ہزار گونہ ترے بانکپن میں ہے
خوشبوئے جاں نواز جو اس گلبدن میں ہے
مشکِ خطا میں ایسی نہ مشکِ ختن میں ہے
دانتوں میں جو چمک ہے سراپائے حسن کے
وہ آب موتیوں میں نہ دُرِ عدن میں ہے
اس سرزمینِ پاک سے گزری ہے بالیقیں
بادِ نسیم صبح سے رقصاں چمن میں ہے
منکر نکیر لوٹ ہی جائیں گے دیکھ کر
دستِ ثنا نگار جو میرے کفن میں ہے
رطب اللساں ہر اک ہے درود و سلام میں
ذکرِ جمیل آپ کا ہر انجمن میں ہے
دیکھے تمہارے روضۂ انور کو ایک دن
بس آرزو یہ قلبِ غریب الوطن میں ہے
محفل تمام بے خود و سرمست ہو گئی
خوشبوئے محمدت سے کہ میرے سخن میں ہے
منت پذیرِ سرورِ عالم ہے اے نظرؔ
رونق یہ سب جو آج ہمارے چمن میں ہے
٭٭٭
تری صورت حسیں تر از مہِ کامل سمجھتے ہیں
تری سیرت کو ہم قرآن کا حاصل سمجھتے ہیں
تجھے ہم رونقِ دنیائے آب و گل سمجھتے ہیں
اسے محفل تو تجھ کو شمعِ محفل سمجھتے ہیں
تری نسبت اس عالم سے کچھ اہلِ دل سمجھتے ہیں
اسے محمل تو تجھ کو شاہدِ محمل سمجھتے ہیں
شریعت کو تری مفتاحِ ہر مشکل سمجھتے ہیں
بہر پہلو ترے ہی دین کو کامل سمجھتے ہیں
تصور ہی سے جس کے مضطرب دل کو قرار آئے
اسی ہستی کو بس ہم عشق کے قابل سمجھتے ہیں
اگر کچھ شان و شوکت ہو گی ان کے اپنے گھر ہو گی
ترے در پر شہ و سلطاں کو ہم سائل سمجھتے ہیں
جو برگشتہ ہوا تم سے وہ ہے بے عقل و سرگشتہ
جو وارفتہ ہوا تم پر اسے عاقل سمجھتے ہیں
جہاں تک نقشِ پا تیرے نظرؔ آتے رہیں ہم کو
وہاں تک ہر قدم ہم جانبِ منزل سمجھتے ہیں
٭٭٭
ثنا لکھیں تری کب خود کو اس قابل سمجھتے ہیں
پہ لکھتے ہیں کہ اس کو ہم غذائے دل سمجھتے ہیں
نبوت سب کی برحق آپ کی کامل سمجھتے ہیں
جو جس قابل ہے اس کو ہم اسی قابل سمجھتے ہیں
بجوفِ کن فکاں عشاق تجھ کو دل سمجھتے ہیں
تجھے اہلِ نظر کونین کا حاصل سمجھتے ہیں
عبادت اور ریاضت سعی لا حاصل سمجھتے ہیں
بغیرِ مہرِ سنت ہر عمل باطل سمجھتے ہیں
تمہارا ہی عطا کردہ ہے جو وہ دینِ برحق ہے
تمام ادیان کو منسوخ اور باطل سمجھتے ہیں
نہ ہو جس دل میں الفت آپ کی وہ مضغۂ خوں ہے
ہو جس میں آپ کی الفت اسی کو دل سمجھتے ہیں
تمہارا دامنِ رحمت نہ چھوڑیں گے نہ چھوڑیں گے
کہ وابستہ اسی سے حال و مستقبل سمجھتے ہیں
جو تیرے نام کی حرمت پہ نقدِ جاں لٹا بیٹھے
انہیں ہم جنت الفردوس میں داخل سمجھتے ہیں
نظرؔ جس کا نہ مقصودِ نظر ہو کوچۂ طیبہ
ہم ایسا راہرو برگشتۂ منزل سمجھتے ہیں
٭٭٭
مہرباں مجھ پہ مرا جب کہ خدا ہو جائے
اس کے محبوب کی اک تازہ ثنا ہو جائے
دل اگر اس کے تصور سے جدا ہو جائے
خوف آتا ہے کہ جانے مجھے کیا ہو جائے
قیدِ ہستی سے مرا دل جو رہا ہو جائے
خاک بن کر ترے کوچہ کی ہوا ہو جائے
دن میں رہتا ہے وہ مصروفِ جہادِ حق میں
رات آتے ہی وہ مشغولِ دعا ہو جائے
زلفِ پیچاں کے اسیر اس کے بہت ہیں خرسند
آرزو مند نہیں کوئی رہا ہو جائے
اے مرے ساقی گلفام ترے قرباں میں
ساغرِ کوثر و تسنیم عطا ہو جائے
اس کی انگلی کے اشارے سے ہے مہتاب دو نیم
آنکھ کا ہو تو قیامت ہی بپا ہو جائے
جان پڑتی ہے شفاعت کے تصور سے ترے
دھیان سے حشر کے جب روح فنا ہو جائے
روزِ محشر ہو شفاعت مرے حق میں آقا
کر دے میرا بھی بھلا تیرا بھلا ہو جائے
رونقِ بزم دوبالا ہو یہ دیکھا ہم نے
بزم میں جب بھی نظرؔ نعت سرا ہو جائے
٭٭٭
جو توفیقِ یزداں بہم دیکھتے ہیں
ثنا میں رواں ہے قلم دیکھتے ہیں
جہانِ وجود و عدم دیکھتے ہیں
مگر کوئی تم سا نہ ہم دیکھتے ہیں
یہ اعزازِ شاہِ امم دیکھتے ہیں
قدم بوس لوح و قلم دیکھتے ہیں
صفِ مرسلاں کی قسم دیکھتے ہیں
امام الرسل تم کو ہم دیکھتے ہیں
رسائی جہاں ہو نہ روح الامیں کی
نقوشِ کفِ آں قدم دیکھتے ہیں
ترے خلقِ اطہر کی توصیف کیا ہو
ثنا خواں ہے ربِّ حرم دیکھتے ہیں
شریعت ہے تیری وہ لاریب جس میں
مداوائے ہر درد و غم دیکھتے ہیں
صحیفہ وہ تیرا کہ پڑھتے ہی پڑھتے
بہ قرطاسِ دل ہم رقم دیکھتے ہیں
بخاکِ مدینہ مزارِ مقدس
ارم اور شانِ ارم دیکھتے ہیں
تری ٹھوکروں میں شہنشاہِ عالم
سریرِ کئی تاجِ جم دیکھتے ہیں
نظرؔ چشمِ رحمت ہے ان کی سبھی پر
کھلا ان کا دستِ کرم دیکھتے ہیں
٭٭٭
باعثِ تنزیلِ رحمت ذکرِ نامِ مصطفیٰؐ
رہنمائے راہ و منزل نقشِ گامِ مصطفیٰؐ
بچھ گئی روئے زمیں بہر قیامِ مصطفیٰؐ
چرخِ چنبر جھک گیا در احترامِ مصطفیٰؐ
عود و عنبر کی قسم ہے مشکِ سارا کی قسم
کب نکلتا تھا پسینہ از مسامِ مصطفیٰؐ
کیف آگیں، روح پرور، دل نشیں ہوتا نہ کیوں
ہے کلامِ حق تعالیٰ سب کلامِ مصطفیٰؐ
روح بالیدہ ہو دل روشن، بڑھے نورِ شعور
برکتیں کیا کیا نہیں از وردِ نامِ مصطفیٰؐ
بالیقیں ہر کامرانی بڑھ کے چومے گی قدم
لوگ برپا کر کے دیکھیں تو نظامِ مصطفیٰؐ
آپ ہی اس کا محافظ ہے وہ مولائے کریم
تا قیامِ حشر ان مٹ ہے پیامِ مصطفیٰؐ
ہے جبینِ عرش پر نقشِ قدومِ میمنت
ماورائے فکرِ انساں ہے مقامِ مصطفیٰؐ
کیف اس کا ہے، خمار اس کا ہے، اس کا ہے سرور
مرحبا جو ہو گیا سیرابِ جامِ مصطفیٰؐ
ہم علیٰ وجہِ بصیرت کہہ رہے ہیں اے نظرؔ
امنِ عالم کو ضروری ہے نظامِ مصطفیٰؐ
٭٭٭
لب پہ ثنا ہے اس شہِ عالم پناہ کی
کونین کی زباں پہ صدا واہ واہ کی
ٹھوکر سے بچ گئے ہیں ہر اک سنگِ راہ کی
بخشی انہوں نے شمع ہمیں لا الٰہ کی
جھکتا سلامیوں کو ہے اس بارگاہ کی
دیکھیں ہلال پہلی کو ہر ایک ماہ کی
تکیہ کیا ہے ہم نے شفاعت پہ شاہ کی
فردِ عمل سیاہ ہے اس روسیاہ کی
ایسی نہ آفتاب کی صورت نہ ماہ کی
صورت وہ دل نشیں ہے رسالت پناہ کی
گستاخی نگاہِ مسلسل کسے مجال
سب نے جمالِ رخ پہ اچٹتی نگاہ کی
جلوہ طراز جب سے ہوئے میمنت قدوم
قسمت کھلی زمینِ بے آب و گیاہ کی
دکھلا کے سیدھی راہ خدا سے ملا دیا
گم کردہ راہ ہم تھے خبر تھی نہ راہ کی
بندوں کو آپ ہی کی بدولت ہوئی خبر
بتلائی بات بات ثواب و گناہ کی
آقائے نامدار کی سطوت کے سامنے
گردن جھکی ہوئی ہے ہر اک کج کلاہ کی
امت کے حق میں رب سے دعائیں تمام شب
حد ہے نظرؔ کوئی کرمِ بے پناہ کی
٭٭٭
اوجِ شرف تک آپ کے پہنچے نظر کہاں
طے کر سکے خیال بھی اتنا سفر کہاں
پانی میں بھی ہے آب پہ آبِ گہر کہاں
فردِ بشر کہاں یہ، وہ خیر البشر کہاں
پائے حقیقتوں کو یہ عقلِ بشر کہاں
مانے بغیر اس کو کسی کو مفر کہاں
اللہ رے یہ رعبِ جمالِ محمدیؐ
دیکھا ہے ساتھیوں نے مگر آنکھ بھر کہاں
حسن و جمالِ یوسفِ کنعاں صد آفریں
لیکن کمالِ حسنِ شہِ بحر و بر کہاں
دیکھی ہے ماہتاب کی ہم نے کرن کرن
اس رشکِ ماہتاب کی کرنیں مگر کہاں
آئے ہیں رہبری کو ہزاروں پیامبر
ان سا مگر یہ حق ہے کوئی راہبر کہاں
بخشا ہے دشمنوں کو کھلے دل سے آپ نے
جو ان میں ہے وہ حوصلۂ درگزر کہاں
ٹپکے جو ان کی یاد میں آنسوز چشمِ تر
ان کے مقابلے میں ہیں لعل و گہر کہاں
پہنچوں جو ان کے در پہ تو اٹھنے کا میں نہیں
مجھ کو نہیں دماغ پھروں در بدر کہاں
ان کی نگاہِ لطف کا امیدوار ہوں
شوقِ سفر نظرؔ ہے پہ رختِ سفر کہاں
٭٭٭
وہ صورت مرحبا اتنی حسیں معلوم ہوتی ہے
کہ مدھم صورتِ ماہِ مبیں معلوم ہوتی ہے
کوئی کیسے کہے ایسی نہیں معلوم ہوتی ہے
وہ سیرت عکسِ قرآنِ مبیں معلوم ہوتی ہے
حلاوت میں سراسر انگبیں معلوم ہوتی ہے
حدیثِ پاک اک اک دل نشین معلوم ہوتی ہے
طبیعت کھوئی کھوئی ہم نشیں معلوم ہوتی ہے
پڑی تھی فکرِ طیبہ میں وہیں معلوم ہوتی ہے
وہ آنکھیں مدھ بھری ان کی وہ ڈورے قرمزی ان میں
مئے وحدت بہ جامِ آتشیں معلوم ہوتی ہے
خموشی، گفتگو، برقِ تبسم، واہ کیا کہئے
ادا ہر ایک دل میں جاگزیں معلوم ہوتی ہے
یہ دنیا جس میں چرچا ہے خدائے پاک و واحد کا
یقیناً دیں کی تیرے خوشہ چیں معلوم ہوتی ہے
وہ دیکھیں سب سے آگے انبیاء کے صحنِ اقصیٰ میں
مجھے تو ذاتِ ختم المرسلیں معلوم ہوتی ہے
خلافِ حق عمل ہو یا تصور جب کوئی ابھرے
تمہاری یاد اس دم نکتہ چیں معلوم ہوتی ہے
نہ پوچھ اے ہم نشیں کیا بات ہے اس ارضِ بطحا کی
کہ سب کیفیتِ خلدِ بریں معلوم ہوتی ہے
سبھی نبیوں پہ رحمت کی نظرؔ ہے ہاں مگر ان پر
نگاہِ خاسِ رب العٰلمیں معلوم ہوتی ہے
٭٭٭
ضیائے بزمِ شہود ساری تمام بزمِ عدم کے جلوے
نگاہِ عرفاں سے دیکھئے تو ہیں میرے آقا کے دم کے جلوے
مرے تصور میں آ گئے ہیں عرب کے جلوے عجم کے جلوے
تو مجھ کو لگتا ہے سب کے سب ہیں انھیں کے حسنِ شیم کے جلوے
نگاہ و دل میں سما گئے ہیں انھیں کے جاہ و حشم کے جلوے
جچیں نگاہوں میں میری کیسے سریرِ کَے بزمِ جم کے جلوے
انھیں کی آمد کے بعد نکھرے خدا کے جلوے قسم خدا کی
حدودِ کعبہ میں ورنہ پہلے بکھر رہے تھے صنم کے جلوے
بفرشِ خاکی بعرشِ اعظم، بہ صحنِ اقصیٰ، بہ شاخِ سدرہ
کہاں نہیں ہیں بفضلِ ربی ہمارے شاہِ امم کے جلوے
تمھارے روضے کی جالیوں پر ہجومِ انوار اللہ اللہ
سمٹ کے جیسے کہ مرتکز ہیں یہیں پہ لوح و قلم کے جلوے
جمالِ پیکر، وہ خُلقِ اطہر ہے دینِ کامل کتابِ آخر
اس ایک ہستی میں جمع ہیں سب خدا کے فضل و کرم کے جلوے
کہاں ملیں دیکھنے کو ایسے اگر چہ دنیا یہ چھان ماریں
بخاکِ طیبہ، بخاکِ ام القریٰ ہیں جس کیف و کم کے جلوے
کسی کی یاری، کسی کی سطوت، حیا کسی کی، کسی کا تقویٰ
اسی کی شانِ عطا کے مظہر اسی کے حسنِ کرم کے جلوے
سوئے مدینہ رواں دواں ہیں ہجومِ حجاج دیکھ ہمدم
دلوں میں صد اشتیاق لے کر نظرؔ میں لے کر حرم کے جلوے
٭٭٭
مدح خواں اک میں بھی ہوں کونین کے سردار کا
بندۂ بے دام ہوں میں بھی اسی سرکار کا
ان کی جانب مڑ گیا جب سلسلہ افکار کا
دل کا عالم ہو گیا اس دم گل و گلزار کا
چشمۂ شیریں وہ اک شیرینی گفتار کا
وہ اک آئینہ مجلیٰ جوہرِ کردار کا
کارگاہِ زندگی میں پا گیا دل کا سکوں
مل گیا سایہ جسے اس زلفِ سایہ دار کا
بن گئے راہِ خدا میں لوگ وہ شمس و قمر
عکس جن پر پڑ گیا تابانی رخسار کا
تین سو تیرہ صحابہ بدر میں دشمن ہزار
حوصلہ دیکھیں مگر اس قافلہ سالار کا
اللہ اللہ یہ ہے معیارِ وفائے مصطفیٰؐ
حشر تک ساتھی بنا فاروقؓ و یارِ غارؓ کا
دست بستہ، سر خمیدہ، شاہ و سلطاں سب کھڑے
نقشۂ دربار ہے یہ اس بڑی سرکار کا
روضۂ اقدس پہ محبوبِ خدا کی دیکھ آئے
دیکھنا ہو جس کو منظر بارشِ انوار کا
ذرہ ذرہ خاک کا آنکھوں کا تارا ہے نظرؔ
مرتبہ اللہ اکبر کوچۂ دلدار کا
٭٭٭
شوقِ ثنائے خواجہ ہے کم مائیگی کے ساتھ
ہوں رہ نوردِ شوق تُنک روشنی کے ساتھ
حسن و جمالِ صورتِ زیبا ہے بے مثال
دنیا ملا کے دیکھ لے چاہے کسی کے ساتھ
سب سے بلند سیرتِ اطہر نبیؐ کی ہے
ملتی تمام تر ہے وہ قرآن ہی کے ساتھ
روئے حیات چادرِ ظلمت میں تھا نہاں
روشن ہوا خوشا تری جلوہ گری کے ساتھ
روزِ ازل بچھی تھی رسالت کی جو بساط
لپٹی بساط وہ تری پیغمبری کے ساتھ
بخشا کسی کو کب شبِ معراج سا شرف
حسنِ کرم خدا کا ہے یہ آپ ہی کے ساتھ
حق لا شریک ہے یہ ملا ہے سبق ہمیں
وحدت کی کوئی لاگ نہیں ہے دوئی کے ساتھ
دل سوزیاں ہدایتِ امت کے واسطے
پھر مانگنا دعا کا بڑی بے کلی کے ساتھ
نانِ جویں غذا ہے تو بستر زمیں پر
اللہ رے شانِ فقر یہ شانِ شہی کے ساتھ
اعجازِ رنگِ نقشِ کفِ پائے مصطفیٰؐ
با وصفِ کہنگی ہے اسی تازگی کے ساتھ
میزانِ دوستی میں ہے جو کامل العیار
پایا اسی کو غار میں ہم نے نبیؐ کے ساتھ
آرام گاہِ سرورِ عالمؐ ہے جس جگہ
دنیا چلی ہے کھنچ کے وہاں بے خودی کے ساتھ
یہ سایۂ وجود کا اعجاز ہی تو تھا
چلتے تھے چار سایے ہمیشہ نبیؐ کے ساتھ
موت آئے یوں تو میری طرف سے خوش آمدید
صورت تمہاری آئے نظرؔ جاں کنی کے ساتھ
٭٭٭
کیا رونقِ محفل تھی کل رات جہاں میں تھا
اک ہستی کامل تھی کل رات جہاں میں تھا
آسودگی دل تھی کل رات جہاں میں تھا
جاں فائزِ منزل تھی کل رات جہاں میں تھا
ہاں دید کے قابل تھی کل رات جہاں میں تھا
محفل سی وہ محفل تھی کل رات جہاں میں تھا
نظارۂ پر حیرت انوار و تجلی کا
خاموشی کامل تھی کل رات جہاں میں تھا
برہم زنِ کیفِ دل تھا سانس کا چلنا بھی
مشکل سی وہ مشکل تھی کل رات جہاں میں تھا
الفاظ کے پیکر میں ممکن تو نہیں ڈھلنا
جو کیفیتِ دل تھی کل رات جہاں میں تھا
اک عالمِ سر مستی اک عالمِ سرشاری
ہر شے متغزل تھی کل رات جہاں میں تھا
بس صاحبِ محفل تھا یا فرِّ شہنشاہی
یا شمعِ محفل تھی کل رات جہاں میں تھا
تھا خواب کے عالم میں وہ عالمِ لاہوتی
معراج کی منزل تھی کل رات جہاں میں تھا
اک طرفہ تجلی جو ہر سمت نظرؔ آئی
حیرت زدۂ دل تھی کل رات جہاں میں تھا
٭٭٭
اے ختمِ رسل اے شہِ ابرارِ مدینہ
اے روح فزا بوئے چمن زارِ مدینہ
اللہ رے کیفیتِ اذکارِ مدینہ
دل سب کے ہیں لذت کشِ گفتارِ مدینہ
کیا سحر سے دل رہتا ہے سرشارِ مدینہ
ہر چند کہ دیکھا نہیں دربارِ مدینہ
کہتے ہیں کہ جاں بخش ہے دیدارِ مدینہ
اللہ دکھائے در و دیوارِ مدینہ
وہ رحمتِ کونین ہے محبوبِ خدا ہے
اف مرتبت و عظمتِ سرکارِ مدینہ
روپوش وہیں پر کہ ہے وہ ماہِ درخشاں
دلکش ہے بہت خاکِ پُر انوارِ مدینہ
شاداب ہوئے قریہ و امصار جہاں سب
اے صلِّ علیٰ ابرِ گہر بارِ مدینہ
ہر لحظہ وہاں ابرِ کرم کی ہے تراوش
ہے کون نہ ہو گا جو طلب گارِ مدینہ
دامانِ طلب لے کے پہنچتے ہیں وہاں سب
العظمۃ للہ وہ دربارِ مدینہ
اللہ کے محبوب نبیؐ پر ہیں نچھاور
مکہ کے مہاجر ہوں کہ انصارِ مدینہ
ہر جلوۂ رنگیں اتر آیا مرے دل میں
ہے میری نظرؔ مہبطِ انوارِ مدینہ
٭٭٭
لکھتے ہیں سخن سنج بہ عنوانِ محمدؐ
پر نعت کہاں کوئی بھی شایانِ محمدؐ
ہے جرعہ کشِ چشمۂ فیضانِ محمدؐ
ہر فردِ مسلماں پہ ہے احسانِ محمدؐ
وہ سرورِ کونین ہے محبوبِ خدا ہے
اے صلِّ علیٰ ہستی ذیشانِ محمدؐ
اجسامِ ضیا بار نجوم و خور و مہتاب
روشن ہیں ز عکسِ رخِ تابانِ محمدؐ
ایک ایک حدیث آپ کی گلدستۂ معنی
سرچشمہ ہدایت کا ہے قرآنِ محمدؐ
خلوت کدۂ عرش میں پہنچے شبِ اسرا
اللہ رے عزّ و شرف و شانِ محمدؐ
خوشنودی یزداں ہے انہیں سب کا مقدر
جو لوگ کہ ہیں تابعِ فرمانِ محمدؐ
مٹی کا دیا اور کھجوروں کی چٹائی
کل یہ سر و سامانِ شبستانِ محمدؐ
پائیں گے اماں گرمی محشر سے وہی لوگ
مل جائے جنہیں سایۂ دامانِ محمدؐ
پروانۂ فردوس نظرؔ حشر میں پایا
تھا نام بہ فہرستِ ثنا خوانِ محمدؐ
٭٭٭
مرے لبوں پر کسی گھڑی جب ثنائے خیر الانام آئے
زمیں سے پیغام تہنیت کا فلک سے مجھ کو سلام آئے
وہ راحتِ جانِ آمنہ جب بہ ارضِ بیت الحرام آئے
جھلک ذرا دیکھنے کو ان کی پرائے اپنے تمام آئے
بہ شکلِ نوری، بچشمِ میگوں، بہ قلبِ اطہر، بہ خلقِ احسن
نبی عالی مقام آئے رسوالِ والا کرام آئے
نبی صادق، نبی کامل، نبی خاتم، نبی رحمت
وہ آئے دنیا میں اس ادا سے کہ سب کے بن کر امام آئے
زمانہ پڑھتا ہے اس کا کلمہ زمانہ حلقہ بگوش اس کا
جو کام آیا یہاں پہ سب کے جو روزِ محشر میں کام آئے
اس آفتابِ ہدیٰ کی کرنوں کی فیض بخشی کا کیا ٹھکانہ
جو ذرے محفل میں اس کی ٹھہرے وہ بن کے ماہِ تمام آئے
اسی کی ہے ذاتِ پاک ایسی کہ جس کی خدمت میں لحظہ لحظہ
تمام دنیا سے امتی کا درود پہنچے سلام آئے
جو اس کے دامن کو چھوڑ بیٹھی ہے مبتلائے عذاب دنیا
خدائے قادر وہ دن دکھائے کہ اس کے دیں کا نظام آئے
اسی نے ایماں کا نخل اگایا وہ ابرِ رحمت ہی بن کے چھایا
تمام دنیا پہ ہے یہ روشن وہ ساری دنیا کے کام آئے
خدا کرے میں نظرؔ سے اپنی وہ سر زمینِ حجاز دیکھوں
جہاں سرورِ سجود حاصل جہاں پہ لطفِ قیام آئے
٭٭٭
ہماری نعت گوئی ہے نمود اک نورِ ایماں کی
ثنا ممکن نہیں انساں سے اس ممدوحِ یزداں کی
میں کس صورت سے دوں تشبیہ ان کے روئے تاباں کی
نہ صورت مہر کی ایسی نہ مہتابِ درخشاں کی
رسائی مرتبہ تک ان کے کب ہے فہمِ انساں کی
اسے تو فی الحقیقت جانتی ہے ذات یزداں کی
حبیبِ کبریا ہے وہ بِنا ہے بزمِ امکاں کی
اسی نے سیر کی اسریٰ میں جلوہ گاہِ یزداں کی
خدا اس کی رسالت پر قسم کھاتا ہے قرآں کی
اسی نے ناخدائی کی بالآخر نوعِ انساں کی
نہ کیوں ممنون ہو ساری خدائی ان کے احساں کی
بدل دی آ کے آقا نے مرے تقدیر انساں کی
ہمارے پاس ان کی دی ہوئی مشعل ہے ایماں کی
خدائی چل نہیں سکتی کسی فرعون و ہاماں کی
کھلے گلہائے تر، مہکی روش، چہکے عنادل بھی
وہ کیا آئے کہ قسمت کھل گئی اپنے گلستاں کی
شہنشاہِ دو عالم کا وہ عالی آستانہ ہے
جبینِ عاجزی خم ہو جہاں پر میر و سلطاں کی
رسالت منتہی ان پر نبوت مختتم ان پر
نظرؔ اس میں جسے شک ہو وہ مانگے خیر ایماں کی
٭٭٭
ظلمتِ کفر میں ایماں کا اجالا نکلا
مطلعِ دہر پہ جب سے مہِ بطحا نکلا
چاند سے بڑھ کے چراغِ رخِ زیبا نکلا
حسنِ سیرت میں فرشتوں سے بھی بالا نکلا
زہے قسمت کہ پیمبر وہ ہمارا نکلا
جو کہ محبوبِ خداوندِ تعالیٰ نکلا
ناظرِ جلوہ گہ عرش وہ تنہا نکلا
سارے نبیوں میں وہی صاحبِ اسرا نکلا
ان کے خم خانۂ توحید میں جو آ نکلا
بادہ آشام نہ پھر اس سے پیاسا نکلا
کام آتا کوئی محشر میں نہ ایسا نکلا
اک وہی صلِّ علیٰ ملجا و ماویٰ نکلا
جو بھی خوش بخت غلامِ شہِ والا نکلا
تا قیامت وہ مسلمانوں کا آقا نکلا
چپہ چپہ وہ ترا نقشِ کفِ پا نکلا
رشکِ گلزارِ ارم شہرِ مدینہ نکلا
تیرا قرآن ہدایت کا صحیفہ ہی نہیں
وہ تو انسان کے ہر دکھ کا مداوا نکلا
رعب و ہیبت سے سرافگندہ ہوئے لات و منات
عظمتِ رب کا جو پرچم وہ اڑاتا نکلا
جس جگہ روز برستی ہے خدا کی رحمت
جا کے دنیا نے جو دیکھا ترا روضہ نکلا
کون جانے گا نظرؔ ان کا مقامِ عظمت
عقلِ انساں کی رسائی سے کہ اونچا نکلا
٭٭٭
اے ہستی پاکِ کون و مکاں تو روحِ روانِ ہستی ہے
دنیا ہے یہ تیری منت کش تو ہے تو یہ بستی بستی ہے
وحدت کے خمستاں سے تیرے اک بار ہوا جو ساغر کش
تا حشر نہ اتری مستی پھر کچھ ایسے غضب کی مستی ہے
ہے تیری طلب ہی جانِ طلب اس کار گہِ دو روزہ میں
وہ آرزو تیری آرزو ہے جو سب کے دلوں میں بستی ہے
آہنگ بھرا اک نغمہ کا ہر پردۂ سازِ ہستی میں
اب کیفِ نوائے ہستی اک اب ایک نوائے ہستی ہے
سمجھیں کہ نہ سمجھیں اہلِ ہوس مانیں کہ نہ مانیں اہلِ غرض
حقاً ترے دینِ قیم کی ہر دین پہ بالادستی ہے
انوارِ خدا کا مرکز ہے وہ روضۂ انور صلِّ علیٰ
وہ شہرِ مدینہ کیا کہئے انوارِ خدا کی بستی ہے
اس رات کی باتیں جب سے سنیں معراج کا قصہ جب سے سنا
اس دن سے ہماری نظروں میں یہ اوجِ فلک بھی پستی ہے
اس درجہ بڑی وہ ہستی ہے ہستی نہیں اس سے کوئی بڑی
گر اس سے بڑی ہستی پوچھیں تو ایک خدا کی ہستی ہے
امت کی طرف محبوبِ خدا رحمت کی نظرؔ فرمائیں کہ اب
مائل بہ تنزل ہے ہر دن ہر گام بہ سمتِ پستی ہے
٭٭٭
گرچہ ہر حرفِ سخن لؤ لؤ و مرجاں ہو جائے
محمدت پر وہ کہاں اس کے جو شایاں ہو جائے
ملتفت جب نگہِ رحمتِ یزداں ہو جائے
دل یہ مصروفِ ثنائے شہِ شاہاں ہو جائے
بے نقاب ان کا اگر چہرۂ تاباں ہو جائے
حسنِ مہتابِ جہاں تاب یہ پرّاں ہو جائے
آدمی کیوں نہ اس انسان پہ حیراں ہو جائے
جس کی سیرت بخدا جامعِ قرآں ہو جائے
صاحبِ عقل و خرد صاحبِ عرفاں ہو جائے
آدمی ان کا جو پیرو ہو تو انساں ہو جائے
نگہِ چشمِ نبوت کا جو فیضاں ہو جائے
صدقِ صدیقؓ پہ خود صدق بھی حیراں ہو جائے
ابنِ خطاب عمرؓ عدل کی میزاں ہو جائے
"اسد اللہ” علیؓ ہو "غنی” عثماںؓ ہو جائے
کرم اے شاہِ امم خواجۂ گیہاں ہو جائے
میرے پہلو میں جو دل ہے وہ مسلماں ہو جائے
لاکھوں احساں ہیں ترے یہ بھی اک احساں ہو جائے
حشر میں مجھ پہ ترا سایۂ داماں ہو جائے
چشمِ رحمت جو تری سلسلہ جنباں ہو جائے
مجھ خطاکار کی بخشش کا بھی ساماں ہو جائے
جب خدا ان سے ملاقات کا خواہاں ہو جائے
شبِ معراج سرِ عرش وہ مہماں ہو جائے
ہے تمنائے نظرؔ بارگہ عالی میں
بار پائے تو وہیں آپ پہ قرباں ہو جائے
٭٭٭
خوشا ذکر اس نبوت کے بطل کا
زباں میری مزہ لوٹے عسل کا
کرے گا کیا کوئی توصیف اس کی
جو ہے شہکار نقاشِ ازل کا
یقیناً آپ کی ذاتِ گرامی
سراپا آئینہ حسنِ ازل کا
انہیں کے ذکر کا اعجاز ہے یہ
بڑھا ہے کیف مینائے غزل کا
قدومِ میمنت سے چھَٹ گیا سب
جو اس عالم پہ طاری تھا دھندلکا
بنایا مامنِ انساں وہ خطہ
اکھاڑا جو کہ تھا جنگ و جدل کا
وہ تارا عرش کا تھا اس گھڑی بھی
ستارہ جب نہ تھا صبحِ ازل کا
وہ ہے سرور وہ ہے سرکارِ عالم
وہی ہادی ہے اقوام و ملل کا
نبی بعد ان کے اب آئے کہاں سے
بدل ممکن نہیں نعم البدل کا
رفاقت عمر بھر کی جس نے اس کی
پسِ مردن بھی ہے ساتھی بغل کا
منقش لوحِ دل پر اس کا قرآں
نہیں امکاں کسی ردّ و بدل کا
مرے اللہ پہنچا دے مدینہ
کہ اب تو آفتابِ عمر ڈھلکا
تمنا یہ بھی پوری ہو نظرؔ کی
مدینے میں پیام آئے اجل کا
٭٭٭
رسولوں میں والا مقام اللہ اللہ
صفِ انبیاء کا امام اللہ اللہ
وہ شب بھر سجود و قیام اللہ اللہ
عبادت کا وہ التزام اللہ اللہ
نبیؐ پر مرے بالدّوام اللہ اللہ
درود و صلوٰۃ و سلام اللہ اللہ
ہے شاہوں سے اونچا مقام اللہ اللہ
غلاموں کے ان کے غلام اللہ اللہ
نبوت، رسالت، فضیلت، سعادت
سبھی کچھ ہے ان پر تمام اللہ اللہ
صحیفہ جو اترا شہِ مرسلاں پر
ہے کیا ہی بلاغت نظام اللہ اللہ
جو فرمائیں وہ سب اتر جائے دل میں
وہ حسنِ بیان و کلام اللہ اللہ
پئیں جام وحدت کا سب بے محابا
ہے ساقی کا خود اذنِ عام اللہ اللہ
کوئی اس کے اخلاقِ عالی کو دیکھے
پئے دشمناں عفوِ عام اللہ اللہ
درود اس پہ بھیجیں بحکمِ الٰہی
فرشتے بصد احترام اللہ اللہ
شہِ دیں کے ہاتھوں سے پائے نظرؔ بھی
سرِ حشر کوثر کا جام اللہ اللہ
٭٭٭
کم ہے محیطِ فکر اور تنگ ہے ظرفِ آگہی
مدحتِ آنحضور سے عہدہ بر آ ہو کیا کوئی
ہے یہی عطرِ آگہی حاصلِ علم ہے یہی
بعدِ خدائے عزّ و جل مرتبۂ محمدیؐ
شمعِ ہدیٰ لئے ہوئے آئے ہزارہا نبیؐ
خاتم انبیاء کی ہے بات مگر کچھ اور ہی
گیسوئے تابدار سے ظلمتِ شب ڈری ڈری
اور زِ بوئے دل کشا خوشبوئے مشک اڑی اڑی
واہ وہ چشمِ شرمگیں مست الست و سرمئی
چہرۂ پاک سے خجل ماہ کی ساری مہوشی
دانت کی آب و تاب اف دیکھ کے جن کی دل کشی
بحر کی تہ میں جا چھپا گوہرِ آبدار بھی
فرش پہ لیٹتا ہے اف عرش کا ہو کے آدمی
سادگی و فروتنی واہ بایں شہنشہی
ڈھل گیا آفتابِ عمر بڑھ گئی آرزو نظرؔ
دیکھ لوں خانۂ خدا دیکھ لوں روضۂ نبیؐ
٭٭٭
صبحِ دم آمنہ بی کی آغوش میں جب وہ عالی نسب نیک نام آ گیا
دیکھنے والے سب کہہ اٹھے مرحبا بدرِ کامل بہ حسنِ تمام آ گیا
حکمِ ربی سے چرخِ نبوت پہ جب نور افشاں وہ ماہِ تمام آ گیا
ظلمتیں سب رخِ دہر سے چھٹ گئیں ظلمتوں کو فنا کا پیام آ گیا
دید کو ماہ و سیارگاں آ گئے اور خورشید بھی تیز گام آ گیا
بزمِ کونین میں چار سو غل ہوا دیکھو محبوبِ ربِ انام آ گیا
لوحِ محفوظ میں جو کہ محفوظ تھا وہ اتر کر خدا کا کلام آ گیا
اب سرِ عرش رہنے میں حکمت نہ تھی جبکہ دنیا میں خیر الانام آ گیا
اک فرشتہ کہ خدمت پہ مامور ہے صبح دم آ گیا وقتِ شام آ گیا
اب خدا کا لئے وہ سلام آ گیا اب لئے کوئی تازہ پیام آ گیا
میکدہ بند تھا کوئی رونق نہ تھی بادہ خواروں کی قسمت تھی سوئی ہوئی
ساقی دو جہاں کی عنایت سے پھر میکدہ چل پڑا دورِ جام آ گیا
مقتدی بن کے اقصیٰ میں موجود سب انبیاء منتظر صف بہ صف با ادب
لو وہ ختمِ الرسل حضرتِ مصطفیٰؐ احمدِ مجتبیٰؐ سا امام آ گیا
شب ہے اسرا کی آج ان کی معراج ہے لذتِ قربِ رب مرحبا مرحبا
اب یہاں جبرئیل امیں بھی نہیں لامکاں میں یہ کیسا مقام آ گیا
قول ان کا ہے کیا حق کی میزان ہے خلق ان کا ہے کیا عین قرآن ہے
ناز کر، امتِ مسلمہ ناز کر تیرا ہادی وہ عالی مقام آ گیا
قلبِ مضطر کو دولت سکوں کی ملے اس نظرؔ کو زیارت سے سرشار کر
چلتے چلتے شہا دشتِ غربت میں اب عمر ڈھلنے لگی وقتِ شام آ گیا
٭٭٭
میں ثنا گوئے محمد مصطفیٰؐ برسوں سے ہوں
تا دمِ آخر خدا توفیق دے نعتیں لکھوں
صورتِ انور کی کس صورت سے میں تشبیہ دوں
ایسی جب صورت نہیں کوئی بہ بزمِ کاف و نوں
جسمِ سیمیں پاک از بارِ لباسِ فاخرہ
اک چٹائی شہ نشیں ہے تکیہ و توشک بدوں
بے نیازِ مال و زر ہے وہ شہِ فقر و غنا
پائے استحقار اس کا بر رخِ دنیائے دوں
شہرِ طائف میں کلوخ اندازی اہلِ جفا
سر سے تا پائے مبارک جسم آلودہ بہ خوں
بو لہب بو جہل جیسے دشمنانِ آنحضورؐ
نارِ دوزخ میں جلیں گے یاں پہ بھی خوار و زبوں
جبکہ خدامِ شہِ ہر دوسرا کے ہیں مزے
میوہ و حور و قصور و سیرِ جنّٰت و عیوں
ان کے نام و کام کی شہرت تعال اللہ خوب
تا فرازِ عرش ہے از اوجِ چرخِ نیلگوں
نورِ حق اپنا بکھیرے حشر تک روشن چراغ
کارگر ہو گا نہ اب کفر و ضلالت کا فسوں
گنبدِ خضراء فضا میں کس قدر ہے سر بلند
گنبدِ گردوں ہے ہر دم احتراماً سر نگوں
زندگی جب تک ہے، جب تک ہیں بجا ہوش و حواس
میں درود اس پر پڑھوں، پڑھتا رہوں، پڑھتا رہوں
وہ شفیعِ عاصیاں ہیں عرصہ گاہِ حشر میں
امر یہ تیرے لئے ہے اے نظرؔ وجہِ سکوں
٭٭٭
فکر یکسو کر کے اپنی کر کے ہر غم برطرف
نعت لکھتا ہوں نبیؐ کی اس سے مجھ کو ہے شغف
جا نہیں سکتیں نگاہیں آسماں کے اس طرف
دیکھ سکتے ہیں کہاں ہم آپ کا اوجِ شرف
میں نہ لوں دُرِّ عدن لعلِ بدخشاں بالعوض
ان کے پائے ناز کی مٹی ملے گر کف دو کف
یہ ادا تم سے ہی سیکھی اے شہِ دینِ ہدیٰ
فی سبیل اللہ رہنا سر بکف خنجر بکف
مل گئی تیرے توسط سے صراطِ مستقیم
ہو گیا قلبِ پریشاں خیر سے اب یک طرف
ہے سرِ فہرستِ یارانِ نبیؐ وہ یارِ غار
آپ کے خدام کی فہرست میں شاہِ نجف
عرض اے آقائے دیں تم سے ہے با شرمندگی
ترک ہم سے ہو گئی راہِ بزرگانِ سلف
رہنمائے زندگی بخشی تھی تو نے جو کتاب
طاقِ نسیاں میں پڑی ہے ریشمی جز داں میں لف
بے نمازی ہیں ہزاروں چند ہیں اہلِ نماز
مسجدیں ویران ہیں خالی پڑی ہے صف کی صف
پنجگانہ کے علاوہ روزہ و حج و زکوٰۃ
سب کے سب ارکانِ دیں ہیں تیرِ غفلت کا ہدف
عادتیں اتنی ہیں بگڑی عام ہے کذب و دروغ
جس سے سچی بات کہئے ہو مزاج اس کا الف
ساز و نغمہ کے ہیں رسیا جزوِ دیں ہے رنگ و راگ
بن گیا دینِ متیں تیرا تمسخر کا ہدف
شرک و بدعت کی ہوا نے کر دیا تاراج انہیں
ہو گئیں ساری بہاریں گلشنِ دیں کی تلف
حوضِ کوثر کا نظارہ دیدنی ہے، دیکھنا
ہے وہاں پر ساقی گلفام ہی ساغر بکف
قبلۂ کعبہ ادھر ہے اس طرف کعبہ نظرؔ
بیچ رستہ میں کھڑا سوچوں کہ جاؤں کس طرف
٭٭٭
خاطی کہاں یہ اور کہاں نعتِ آنجنابؐ
لیکن ثنا نگار ہوں از نیتِ ثواب
صدیاں گزر گئیں مہِ بطحا ہے در حجاب
عالم تمام پھر بھی ہے جلووں سے فیض یاب
صورت ہے پر جمال تو سیرت ہے ہر کمال
اس کی کوئی نظیر نہ اس کا کوئی جواب
دستورِ زندگی ہے اور آئینِ بندگی
اس فخرِ انبیاء پہ جو نازل ہوئی کتاب
اقوال منضبط ہیں سب احوال مستطر
سب کو کھلی کتاب ہے اک ذاتِ آنجناب
چنتیں رہیں گے لوگ انہیں تا قیامِ حشر
اتنے لٹا گیا ہے وہ حکمت کے دُرِّ ناب
پیری میں تھا وہ مثلِ جواں از رخِ عمل
طبعاً بزرگ سا تھا وہ در عالمِ شباب
غیر از مدینہ مجھ کو نہ آئے پیامِ موت
یا رب دعا ہے یہ مری مٹی نہ ہو خراب
ان کا شمار ہو نہ سکے اے نظرؔ کبھی
احساں شہِ رسل کے ہیں دنیا پہ بے حساب
٭٭٭
نہیں شعر و سخن میں گو مجھے دعوائے مشاقی
مگر لکھتا ہوں نعتیں میں سمجھ کر فرض اخلاقی
نہیں میں ہی اکیلا جانتا ہوں تجھ کو میں ساقی
زمانہ تجھ سے واقف ہے تری شہرت ہے آفاقی
کھلا ہے میکدہ تیرا بہ ہر دم دورِ ساغر ہے
جو اہلِ ذوق ہیں رہتے ہیں وہ مصروفِ ذواقی
ہزاروں خوبیاں یکجا ہیں تیری ذاتِ واحد میں
نمایاں تیرے پیکر میں خدا کی شانِ خلاقی
جو زہرِ کفر سے مسموم تھے آخر ہوئے اچھے
ترے اک ساغرِ وحدت کا ہے یہ کارِ تریاقی
امینِ جان و دولت بن گئے تیری بدولت وہ
جو رہزن کارواں کے تھے، تھا پیشہ جن کا قزاقی
خوشا قسمت کہ تیرا نام روشن ہے قیامت تک
ترا قرآن باقی ہے رسالت ہے تری باقی
وہی ہے ہاں وہی ہے ہو بہو جیسا ہوا نازل
نہیں قرآن میں واللہ کوئی حرفِ الحاقی
تری امت کی حالت ہو گئی نا گفتہ بہ شاہا
عداوت ہے، تشتُّت ہے، ہے باہم بغض و ناچاقی
مرے آقا دعا کیجے ہمارے حق میں یوں رب سے
کہ پیدا ہم میں ہو جائے خدا خوفی خوش اخلاقی
تمنا آخری یہ ہے کہ تیرے حوضِ کوثر سے
نظرؔ کو بھی عطا ہو جائے اک ساغر مرے ساقی
٭٭٭
کس درجہ تلفظ آساں ہے معناً بھی نہایت اسعد ہے
رکھا ہے خدا نے چن کر ہی کیا نامِ گرامی احمدؐ ہے
اعلیٰ ہے نہایت ارفع ہے عزت کی جو پائی مسند ہے
وہ ذاتِ مکرم صلِّ علیٰ محبوبِ نگاہِ ایزد ہے
کیا سیرتِ اطہر ہے اس کی، کیا صورتِ انور، کیا قد ہے
سیرت ہے قسم کھانے والی، صورت ہے سو دلکش از حد ہے
انوار و تجلی کا مرکز محبوبِ خدا کا مرقد ہے
اللہ مجھے بھی پہنچا دے اس در پہ مرا یہ مقصد ہے
خلاقِ دو عالم نے بھیجا تا حشر نبیؐ ہے وہ سب کا
ہر بندۂ مومن شاہد ہے ہر نوکِ زباں پر اشہد ہے
اس نام کا کلمہ پڑھ کر سب در حلقۂ ایماں داخل ہوں
اس نام سے پھر جانے والا اسلام سے خارج مرتد ہے
ہر مومن و مسلم کے حق میں رحمت ہے وہ رحمت بھی ایسی
اس عالمِ فانی سے لے کرتا عالمِ محشر ممتد ہے
تقلید میں ہم بھی چومیں گے، چوما ہے جسے آنحضرتؐ نے
کچھ بحث نہیں اس سے ہم کو ظاہر میں وہ سنگِ اسود ہے
بعثت ہے بلاشک آخر میں نبیوں کی مگر صف میں اول
جو سب کی امامت کرتا ہو سوچیں تو وہ کتنا امجد ہے
اے شافعِ محشر ایک نظرؔ در عرصۂ محشر مجھ پر بھی
ہر چند کہ خاطی ہوں لیکن امیدِ شفاعت بے حد ہے
٭٭٭
قلم اٹھا تو لیا مدحِ مصطفیٰؐ کے لئے
خرد ہے سر بہ گریباں مگر ثنا کے لئے
یہ کائنات ضروری نہ تھی خدا کے لئے
سب اہتمام ہوا شاہِ دوسرا کے لئے
عطائے نطق ہے گر حمدِ کبریا کے لئے
ملا ہے سینے میں دل عشقِ مصطفیٰؐ کے لئے
بالاختصار ثنا کیجئے تو یوں کہئے
جہاں خبر ہے اسی ایک مبتدا کے لئے
بہ صحنِ مسجدِ اقصیٰ خوشا یہ نظارہ
صفِ رسل ہے گھڑی ان کی اقتدا کے لئے
حریمِ ذات خدا میں رسا شبِ اسرا
یہ رتبہ خاص ہے محبوبِ کبریا کے لئے
مرے حضور پہ اتری ہے وہ کتابِ حکیم
کہ جس میں نسخے ہیں ہر درد کی شفا کے لئے
برائے قبلۂ عالم بدل دیا قبلہ
خدا نے کام کیا آپؐ کی رضا کے لئے
تمہارا سایۂ داماں نصیب ہو جس کو
وہ آرزو نہ کرے سایۂ ہما کے لئے
خدا قبول کرے دیکھ لوں ترا روضہ
کہ ہاتھ اٹھے ہیں دونوں مرے دعا کے لئے
درود ان پہ پڑھیں جب خدا کا ذکر کریں
یہی ہے روح نظرؔ زہد و اتقا کے لئے
٭٭٭
دل تھام لیا اور جگر تھام لیا ہے
عشاق نے پھر جا کے ترا نام لیا ہے
وہ نامِ مبارک جو سرِ شام لیا ہے
تا صبح فرشتوں نے مرا نام لیا ہے
دنیا کے لئے نورِ ہدایت ہے سراپا
قرآن کی صورت میں وہ پیغام لیا ہے
جو ہو نہیں سکتا تھا کسی اور نبی سے
ان سے مرے اللہ نے وہ کام لیا ہے
فرمودۂ ربی ہے "رَفعنَا لَکَ ذِکرَک”
اللہ سے انعام سا انعام لیا ہے
درکار تھا بندوں کے لئے رب کو نمونہ
تو اسوۂ پیغمبرِ اسلام لیا ہے
العظمۃ للہ سرِ عرش پہنچ کر
حد درجہ بڑا تمغۂ اکرام لیا ہے
کس درجہ ہیں خوش بخت وہ میکش کے جنہوں نے
توحید کا ہاتھوں سے ترے جام لیا ہے
اک ہاتھ میں قرآن ہے اور اک میں شریعت
کیا چاہئے اب ہم کو انہیں تھام لیا ہے
جانے نہیں دیتی مجھے کیوں جانبِ طیبہ
کیا میں نے ترا گردشِ ایام لیا ہے
جاں مست ہے، دل مست ہے، روشن ہے نظرؔ بھی
میخانۂ وحدت سے ترے جام لیا ہے
٭٭٭
اے کہ تو ہاشمی و مُطلبی ہے ساقی
تجھ پہ نازاں تری عالی نسبی ہے ساقی
ہے وہ محرومِ خرد اور غبی ہے ساقی
جو کہے بعد ترے کوئی نبی ہے ساقی
مختتم جس پہ رسالت وہ رسولِ اکرمؐ
منتہی جس پہ نبوت وہ نبیؐ ہے ساقی
نور سے تیرے وہی شعلہ ہوا چشمک زن
جس میں کوئی رمقِ بو لہبی ہے ساقی
نام سنتے ہی ترے کہتے ہیں سب صلِّ علیٰ
چپ رہے کوئی تو یہ بے ادبی ہے ساقی
شاد کامِ مئے توحید ہوئے جو میکش
ان کو کہتے نہ سنا تشنہ لبی ہے ساقی
نقشِ دل ہوتی ہیں آیات ترے مصحف کی
کیا ہی اعجازِ زبانِ عربی ہے ساقی
شافعِ روزِ جزا رحمتِ کونین خوشا
روح پرور یہ تری خوش لقبی ہے ساقی
حشر میں تشنہ لبی ان کا مقدر کیوں ہو
مرحبا جن کا رسولِ عربی ہے ساقی
جلوۂ صبح کے آثار ہویدا پھر ہوں
چار سو طنطنۂ تیرہ شبی ہے ساقی
کھو گئی اپنی نظرؔ مال و زرِ دنیا میں
عقل حیراں ہے یہ کیا بوالعجبی ہے ساقی
٭٭٭
مخدومِ بندگاں ہو خدا کے حبیب ہو
خوش خلق ہو جمیل ہو روشن نصیب ہو
مرتاض و پارسا ہو تم عبدِ منیب ہو
سرتاجِ انبیاء ہو خدا سے قریب ہو
دنیائے بے ادب کے لئے تم ادیب ہو
وحدانیت کی شمع، عمل کے نقیب ہو
تاخیر سے ہو کوئی، کوئی عنقریب ہو
جب تم دعا کرو تو خدا مستجیب ہو
تلمیذِ رب ہو اور معلم قرآن کے
دانا ہو، نکتہ سنج ہو مردِ لبیب ہو
روحانیت کے روگ ہوئے سب شفا پذیر
نباضِ بے نظیر ہو ماہر طبیب ہو
لسانِ عصر زورِ خطابت پہ دنگ ہیں
وہ افصح اللسان وہ عالی خطیب ہو
ملنا شگفتہ روئی سے ہر آدمی کے ساتھ
چاہے کوئی امیر ہو چاہے غریب ہو
صلِ علیٰ کا ورد جو رکھتا ہے روز و شب
کیوں اس پہ مہرباں نہ خدائے مجیب ہو
رگ رگ میں مثلِ خوں ہے محبت رچی ہوئی
ظاہر کو ہم سے دور ہو سِراً قریب ہو
نقشِ قدم پہ ان کے جو چلتے رہے نظرؔ
امید ہے کہ ان کی شفاعت نصیب ہو
٭٭٭
اللہ کی رحمت ہے تری چشمِ کرم اور
پوری ہو جب اک نعت تو کرتا ہوں رقم اور
تو شاہِ حرم، شاہِ عرب، شاہِ عجم اور
تیرا ہے خوشا عزّ و شرف جاہ و حشم اور
مٹ جاتا ہے غم ایک تو لاحق مجھے غم اور
چھینٹے ابھی رحمت کے ذرا ابرِ کرم اور
دونوں ہیں طرح دار کے ثانی نہیں جن کا
وہ صورتِ انور وہ ترا حسنِ شیئم اور
وحدت کی پلا دی ہے مگر اے مرے ساقی
جامِ مئے کوثر کا بھی ہو جائے کرم اور
قرآن کے جلووں سے منور ہے ہر اک راہ
رہبر ہے زمانے کو ترا نقشِ قدم اور
ایذاؤں کو طائف کی سنا اور نہ ہمدم
ہم سن نہیں سکتے انہیں اس رب کی قسم اور
دوڑیں گے یہ سب تیرے ہی میخانہ کی جانب
جب پیاس سے ہو جائے گی دنیا لبِ دم اور
عاصی ہوں وہی میں، ہو خطا بخش وہی تم
اس عرصۂ محشر میں بھی تم اور نہ ہم اور
٭٭٭
شوقِ دل کا وفور کیا کہئے
لب پہ نعتِ حضورؐ کیا کہئے
باعثِ ہر ظہور کیا کہئے
ذاتِ پاکِ حضورؐ کیا کہئے
اک سراپائے نور کیا کہئے
قامتِ آں حضورؐ کیا کہئے
عالمِ کیف و نور کیا کہئے
سر و قدِ حضورؐ کیا کہئے
چاند کا ماند نور کیا کہئے
چہرۂ آں حضورؐ کیا کہئے
نور و تفسیرِ نور کیا کہئے
سیرتِ آں حضورؐ کیا کہئے
روشنی دور دور کیا کہئے
نقشِ پائے حضورؐ کیا کہئے
باعثِ صد سرور کیا کہئے
ذکرِ پاکِ حضورؐ کیا کہئے
طور یا رشکِ طور کیا کہئے
روضۂ آں حضورؐ کیا کہئے
مخرجِ سیلِ نور کیا کہئے
گنبدِ آں حضورؐ کیا کہئے
لطفِ جامِ طہور کیا کہئے
صدقۂ آں حضورؐ کیا کہئے
خم سرِ پر غرور کیا کہئے
بر درِ آں حضورؐ کیا کہئے
جس کو حورانِ خلد بھی ترسیں
وہ جمالِ حضورؐ کیا کہئے
دو کمانیں ملی ہیں آپس میں
ابروئے آں حضورؐ کیا کہئے
اس پہ لیلائے شب تصدق ہے
گیسوئے آں حضورؐ کیا کہئے
کیف زا دل نشین و جاں پرور
ہر ادائے حضورؐ کیا کہئے
کون پہنچا ہے عرشِ اعظم پر
ما سوائے حضورؐ کیا کہئے
یار ان کے ہزارہا لیکن
یارِ غارِ حضورؐ کیا کہئے
مرحبا ہے محیطِ دو عالم
سایۂ آں حضورؐ کیا کہئے
اب مدینہ بلائیے شاہا
ہے نظرؔ نا صبور کیا کہئے
٭٭٭
کمپوزنگ: محمد تابش صدیقی، محمد عتیق قریشی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید