فہرست مضامین
- پیکرِ خیال
- انتساب
- ایک نظر میں
- ایں سعادت بزور بازو نیست
- ’’پیکرِ خیال ‘‘ کا شاعر نورؔ سہارنپوری
- رباب عبدالصمد
- تین شعر
- چاہت میں جس کی میں نے بھرا گھر لٹا دیا
- ہر اک نظر میں اہل ہے ارفع مقام کا
- ہر ایک وعدۂ باطل پہ مسکراتا جا
- توقع تھی کیا اور کیا ہو گیا
- تجھ سے بچھڑ کے میں نے جو دیکھے ہیں یار خواب
- کیسے کوئی شمار کرے آدمی کے روپ
- میں سمجھتا تھا جسے ہے وہ مرا یار بہت
- وہم ہے یا ہے یہ تیری آہٹ
- ملا حوصلہ یہ مصیبت کے باعث
- کیا اُن کے نہ آنے کی پھر آئی ہے خبر آج
- بشر وہاں بھی تو مجبور ہے یہاں کی طرح
- اُس سمت چل رہے تھے جدھر تھا ہوا کا رخ
- یہ التفات آپ کا اِس کج روی کے بعد
- بے کیف زندگی ہے مری یار کے بغیر
- وار ہونے کو ہے اب چشمِ تماشائی پر
- ایسے خود کو نہ تو بکھیرا کر
- کئے ہیں جس نے عیاں مستتر جہاں کے راز
- نہ رہزنوں کو میسر نہ رہبروں کے پاس
- کیا تھی پہلے اور اب کیا ہے زمانے کی روش
- لا دوا ہے جس کو کہتے ہیں محبت کا مرض
- ایسا بھی اس جہاں میں نظر آئے گا لحاظ
- رفتہ رفتہ ٹوٹنے والی رفاقت الوداع
- بے مائیگی کے وقت جو بے نور تھا چراغ
- رواں دواں ہیں اندھیرے بھی بام و در کی طرف
- جب بھی اپنے وصف کی تشریح فرماتا ہے عشق
- یہ اضطراب رہے گا قرار آنے تک
- آئینہ ہر بشر کو جو دکھلا رہے ہیں لوگ
- کیسے پائے گا وہ شفائے دل
- مرعوب ہو کے آپ کی چینِ جبیں سے ہم
- کبھی تو آئے گا دل کے قرار کا موسم
- چین سے دہر میں رہا ہے کون
- جن کو ہم اپنا سمجھتے ہوئے اپناتے ہیں
- میری نظر میں کوئی بشر بھی بُرا نہیں
- کبھی تو یہ گماں ہوتا ہے سازِ بے صدا ہوں میں
- کس راہ پر تھا چلنا اور کس پہ چل رہا ہوں
- چراغِ رہ گزر جب سے بنا ہوں
- نظر نہ آئے گی ماضی کی داستانوں میں
- کبھی جنگل کبھی تو جانبِ صحرا گیا ہوں میں
- یہ عاشقی بھی جرم میں شامل اگر نہ ہو
- وہ جس کو کہہ رہا ہے کہ دھندلا ہے آئینہ
- ہیں اختلاف کی راہیں بھی اس سفر کے ساتھ
- رتبہ ترا ہے جس کی نظر میں مقام بھی
- بخشے پناہ جو مجھے ایسا نہیں کوئی
- داستاں میں تری کہیں کچھ بھی
- ہے رسائی بھی نہیں اُن کی جہاں ہے زندگی
- سنے گا ایسی بستی میں کوئی روداد کیا اپنی
- گرا کر راہ کی دیوار کو آگے جو نکلا ہے
- اُس کے بغیر زیست ہماری وبال ہے
- ماند پڑ جائے امیدوں کی کرن مشکل ہے
- بخشا وہ اعتبار مجھے تیرے پیار نے
- طلب کو دل کی مسلسل سفر میں رہنے دے
- قدم قدم پہ جو پوچھے کہ خود روی کیا ہے
- نہ دشمنی کا نہ معیار دوستی کا ہے
- اک طرف تحقیر ہے اور اک طرف توقیر ہے
- میری تنہائی کو مٹانے میرے جو غمخوار ہوئے
- جشنِ آزادی کے اِن لمحاتِ شاداں کے لئے
- {میری ماں }
- سالگرہ مبارک
- غم ناک منظر
- میری کہانی
- سالگرہ مبارک
پیکرِ خیال
مربوط ہے انھیں سے ہر اک شعر کا جمال
الفاظ ہی تو اصل میں ہیں پیکرِ خیال
نورؔ سہارنپوری
انتساب
ان تمام مخلص شخصیات اور اساتذہ کے نام جن کی بدولت میرے علم میں اضافہ ہوا اور اس علم کی وجہ سے مجھے زندگی گزارنے کا قرینہ نصیب ہوا۔
شریکِ حیات کی سالگرہ پہ
شایانِ شان کوئی بھی تحفہ نہیں ملا
سو پیش کر رہا ہوں تجھے ’’پیکرِ خیال‘‘
نورؔ سہارنپوری
۲۲ اپریل ۲۰۱۴
ایک نظر میں
نام
عبدالصمد
معروف ادبی نام
نورؔ سہارنپوری
ولدیت
شاہ شمشاد احمد ؒ (مرحوم)
مقامِ ولادت
ٹنڈو محمد خان، سندھ، پاکستان
آبائی وطن
قصبہ انبیٹھ، ضلع سہارنپور،
اتر پردیش، بھارت۔
تاریخ پیدائش
۱۹ اکتوبر ۱۹۸۲ء
تعلیم
ایم۔ فل (کراچی یونیورسٹی)
پیشہ
تعلیم و تعلم، لیکچرار گورنمنٹ ڈگری کالج برائے طلبہ، نارتھ کراچی۔
شعری ابتداء
۱۹۹۹ ء
تلمیذ
حضرت نصیر کوٹی
٭٭٭
ایں سعادت بزور بازو نیست
سرور جاوید
۹ اپریل(صبح صادق) ۲۰۱۴
شاعری ایک قدر ہونے کے ساتھ ساتھ ہر زبان کی تہذیبی روایت کا حصّہ بھی ہوتی ہے اردو میں یہ روایت بہت پرانی ہے یعنی ایک طویل مدت سے جو کئی صدیوں پر محیط ہے پڑھے لکھے گھرانوں میں شعری اظہار کی خواہش ہر نسل میں موجود رہی ہے اور اکثر گھرانوں میں شعری تربیت کے ذرائع بھی موجود رہتے آئے ہیں۔ تاہم بیسویں صدی کے آخری حصے میں اس تسلسل میں دراڑیں پڑنے لگی تھیں اور اب یہ روایت بہت کم گھرانوں تک محدود رہ گئی ہے کیونکہ بدلتے ہوئے معاشرے میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کی شدت نے نو جوان نسل کے لیے جذباتی سطح پر انتشار کی بہت سی وجوہات پیدا کر دی ہیں اس طرح جہاں جہاں یہ روایت موجود ہے زیادہ قابلِ قدر محسوس ہوتی ہے۔
عبدالصمد نورؔ سہارنپوری کا تعلق ایسے ہی خانوادے سے ہے جہاں شاعری یا شعری اظہار کی خواہش ایک روایت کی طرح موجود رہی ہے اور خود انھوں نے اس خواہش کی آبیاری میں بڑی کاوشوں سے کام لیا ہے۔ شاعری کی صلاحیت خداداد تو ہوتی ہے لیکن اس کی آبیاری کے ذرائع بہم نہ ہوں تو اس صلاحیت کی نشو و نما ممکن نہیں ہو پاتی۔ نورؔ صاحب قابلِ مبارکباد ہیں کہ انھیں وہ ماحول اور معاونت بصورتِ ہدایت و رہنمائی استاد میسر آ گئی اور وہ اس راہِ پر خار پر قدم جما کر چلنے پر قادر ہو گئے ہیں۔ اپنے اس جملے کی وضاحت میں عبدالصمد نورؔ کے چند اشعار پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جو یوں ہیں۔
ایسے خود کو نہ تو بکھیرا کر
آئینہ توڑ کر نہ پھینکا کر
دردِ دل کا بیاں ہے پیچیدہ
مجھ سے ہر بات پر نہ الجھا کر
ایسے بھی تھے کہ جن سے مری نیند اڑ گئی
دیکھے ہیں زندگی نے مری بے شمار خواب
غم و طرب کا تھا دشوار تجزیہ کتنا
عجب گھٹن میں دلِ غم شناس رہتا تھا
اجاڑ آئینہ خانہ ہوا ہے بعد ترے
ہر آئینے میں ترا انعکاس رہتا تھا
تمام عمر اسے ڈھونڈتا رہا میں نورؔ
ہر ایک پل جو مرے آس پاس رہتا تھا
اسیروں نے تو پوری کر بھی لی مدت اسیری کی
پھر اس کے بعد بھی وا کیوں درِ زنداں نہیں ہوتا
عبدالصمد نورؔ سہارنپوری کے یہ اشعار ان کے شعری سفر کے آغاز کو اعتبار بخشتے نظر آتے ہیں۔ ان میں آخری شعر میں نے اس کے شعری حسن کے حوالے سے پیش کیا ہے مگر اس کے ساتھ یہ نشاندہی بھی مقصود ہے کہ نورؔ خالص روایتی طرزِ اظہار کے خوگر بھی نظر آتے ہیں۔
تاہم شاعری کو روایت کی طرح برتنے اور اختیار کرنے میں کچھ محدودات بھی شاملِ تخلیق ہو جاتے ہیں جن میں پہلا مرحلہ ریاضتِ فن کا یعنی مشقِ سخن ہے۔ جس میں استادی اور شاگردی کی روایت کا بھی بڑا دخل ہے کہ ریاضتِ فن کی ضرورت کا ضروری احساس اسی روایتی فضا کا حصہ ہے۔ ہر استادِ شعر اپنے تلامذہ کو کسی بھی مصرعہ طرح پر شعر کہنے بلکہ پوری پوری غزلیں تحریر کرنے کا نہ صرف مشورہ دیتا ہے بلکہ اس پر عمل بھی کراتا ہے۔ اگر محسوس کیا جائے تو ریاضتِ فن ضروری بھی ہے کہ یہ شعری صلاحیت یعنی مصرعہ موزوں کرنے کی صلاحیت کا نشو و نما کا راست ذریعہ ہے مگر اس پر بہت زیادہ اصرار سے معاملات بدل جاتے ہیں اور کبھی کبھی شاعر کی تخیلی اور تخلیقی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ تاہم مشقِ سخن کی یہ منفی جہت بالذات کوئی خرابی نہیں ہے بلکہ یہ مشقِ سخن کرنے والے کی صلاحیت پر مبنی ہے کہ وہ اس سے استفادہ کر کے مثبت اثرات حاصل کرتا ہے یا منفیت کا شکار ہوتا ہے۔ مشقِ سخن کے ضمن میں خطرات کی بات میں نے نورؔ سہارنپوری سمیت سارے نئے شاعروں کی خدمتِ فکر کے لیے کی ہے کیونکہ ایک بہت معروف شاعر کو ( جو اب مرحوم ہو چکے ہیں ) مشقِ سخن کی نذر ہوتے دیکھا ہے یعنی وہ غالب و میر کی زمینوں میں مشقِ سخن سے آگے نہ بڑھ سکے تھے۔ یہ شاعر اولاً احسان امروہی کے شاگرد تھے اور بعد ازاں سلیم احمد سے شرفِ تلمذ میں رہے تھے۔
نورؔ سہارنپوری کے یہاں بھی مجھے مشقِ سخن کے اثرات نظر آتے ہیں جب میں ادق ردیفوں میں ان کی مسلسل غزلیں دیکھتا ہوں۔ لحاظ کی ردیف، روپ یا آہٹ کی ردیفیں یا رخ اور باعث کی ردیفوں کے ساتھ غزلیں اور خصوصاً چراغ یا مرض کی ردیف والی غزلیں مشقِ سخن کا اشاریہ ہیں۔ مجھے یہ خوشی ہے کہ ایسی ردیفوں میں بھی نورؔ سہارنپوری نے بامعنی غزلیں کہی ہیں لیکن اگلے مرحلے میں نورؔ کو ادق ردیفوں کی زحمت سے گریز کر کے خیال کی وسعت پر توجہ دینی چاہیے تاھم اگر خیال کے لیے کوئی ادق ردیف ہی موزوں معلوم ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ مشقِ سخن کی صور ت تو اس علاقے میں جہاں نورؔ قیام پذیر ہیں طرحی مشاعروں کی صورت میں نکلتی رہتی ہے اسی پر اکتفا کافی ہے۔ طرحی مشاعروں کا ذکر اور نارتھ کراچی اور نیو کراچی کے کثیر آبادی والے علاقے کا ذکر میں نے ایک سماجی صورتِ حال کی نشاندہی کے لیے بھی کیا ہے کہ میرے شہر کراچی میں کئی شہر آباد ہیں اور جن علاقوں میں صنعتی اور تجارتی ذہنیت ابھی فروغ حاصل نہیں کر سکی وہاں شاعری اور مشاعروں کی سرگرمی اب بھی جاری ہے جو ایک خوش آئند صورتحال ہے۔ تاھم مشقِ سخن کے ساتھ ہمارے نئے شعراء کے لیے اساتذۂ فن یعنی میر ؔ اور غالب ؔ سے بہارؔ کوٹی اور نصیرؔ کوٹی اور اعجاز رحمانی کے کلام تک کا مطالعہ ضروری ہے۔ نورؔ سہارنپوری کے کلام میں ایسے واضح آثار موجود ہیں جو ان کے مطالعۂ ادب اور خصوصاً مطالعۂ شاعری کی دلیل ہیں۔ اس طرح میں نورؔ سہارنپوری کے استاد نصیرؔ کوٹی کی طرح یقین رکھتا ہوں کہ نورؔ بہت جلد شاعری کی نئی منزلوں کو حاصل کر لیں گے۔ مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان کا موجودہ کلام یعنی اس کتاب ’’ پیکرِ خیال‘‘ میں موجودہ شاعری خدانخواستہ قابلِ توجہ نہیں ہے بلکہ ایسا ہے کہ اسی شاعری میں ان کے مستقبل کی آہٹیں سنی جا سکتی ہیں۔
یہ بات میں نے بر سبیل تذکرہ نہیں کی ہے بلکہ نورؔ کے اس کلام کی روشنی میں کی ہے جہاں وہ مشقِ سخن کی شاعری سے ہٹ کر خود خیال و فکر سے دو چار ہوتے ہیں اور شاعری کی دیوی انھیں گلے لگاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایسی شاعری نورؔ کے کلام میں انفرادی اشعار( اشعارِ غزل) کی صورت میں اور کہیں مسلسل اشعار کی صورت میں نظر آتی ہے اور یہ ان لمحات کی شاعری ہے جہاں نورؔ نے شعری روایت کی پاسداری کے بجائے جو کچھ خود محسوس کیا ہے وہ لکھ دیا ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں اور نورؔ کے اصل دکھ کو محسوس کریں اور شاعری کا ذائقہ بھی۔
بے مائیگی پہ رنج نہ کر اے دلِ حزیں
یہ امتحانِ صبر ہے کوئی سزا نہیں
گزرے جو راہِ عشق سے ہم جیسے راہرو
ناکام ہی رہے ہیں انھیں کچھ ملا نہیں
میں تھک نہ جاؤں کہیں تیری پاسبانی سے
کبھی کبھی تو مجھے اپنے گھر میں رہنے دے
حقیقت کیا بتاؤں گا کسی کی
میں اپنے آپ سے بھی کب ملا ہوں
کہاں تک منتظر رہتا میں اس کا
جہاں جانا تھا تنہا چل پڑا ہوں
نظر نہ آئے گی ماضی کی داستانوں میں
جو ٹوٹ پھوٹ ہے اس وقت خاندانوں میں
مکیں ہوں دوستو میں ایسے شہرِ زنداں کا
جہاں پہ لوگ نظر بند ہیں مکانوں میں
نہ جانے اور ستم ڈھائے گا یہ سورج کیا
دراڑیں پڑنے لگیں اب تو سائبانوں میں
زمانہ طنز کرے میری خاکساری پر
قصور اس میں مرا کب ہے سادگی کا ہے
سکوں کی آس میں اے نورؔ جس سے آئے تھے
وہ راستہ بھی تو مسدود واپسی کا ہے
رواں دواں ہیں اندھیرے بھی بام و در کی طرف
میں جا رہا ہوں سرِ شام اپنے گھر کی طرف
ڈرا سکیں گے نہ آثار آندھیوں کے انھیں
پرندے لوٹنے والے ہیں اب گھروں کی طرف
پلٹ کے اپنے خد و خال پر ہی آتی ہے
نگاہ مہر کی جانب ہو یا قمر کی طرف
سبق ملا ہے مجھے کربلا کے مکتب سے
ہو بات حق کی تو دیکھا کرو نہ سر کی طرف
ان اشعار نے مجھے وہ ذہنی فرحت دی ہے جو شاعری کا بنیادی وصف ہوتا ہے اور دوسری طرف مجھے یہ احساس دیا ہے کہ جو بات میں نورؔ سے کہنا چاہتا تھا وہ خود اس تک پہنچ گئے ہیں کہ شاعری دہرائی ہوئی حقیقتوں کو لکھنا نہیں ہے اور اقوالِ زریں کو دہرانا نہیں ہے بلکہ اپنے محسوسات کو بیان کرنا ہے جو زندگی میں اور زندگی کے کسی تجربے سے از خود گزرنے میں مرتب ہوتے ہیں یا کسی مشاہدے سے ذہن و دل میں وارد ہوتے ہیں۔ نورؔ سہارنپوری تھوڑی تاخیر سے سہی اس منزل تک پہنچ گئے ہیں اور آئندہ ان کا شعری سفر زیادہ خوبصورتیِ اظہار کی طرف لے جائے گا۔ نورؔ سہارنپوری کے بارے میں آج مجھے اتنا ہی کہنا تھا۔
٭٭٭
پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی
پرنسپل پاکستان شپ اونرز گورنمنٹ ڈگری کالج
صدر انجمن اساتذہ علومِ اسلامیہ کالجز کراچی
چیف ایڈیٹر علومِ اسلامیہ انٹر نیشنل
ہر اک شکست دے گی تجھے حوصلہ نیا
ممکن نہیں ہے جیت کوئی ہار کے بغیر
پرو فیسر عبدالصمدؔ صاحب گورنمنٹ کالج میں اسلامیات کے پروفیسر ہیں اور انجمن اساتذہ علومِ اسلامیہ کالجز کراچی کے فعال عہدیدار ہیں۔ جامعہ کراچی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کر رہے ہیں اگر اخلاص کے ساتھ ہمہ تن رہے تو جلد منزل پا لیں گے۔
شعرو ادب کی دنیا میں بے شمار شعراء گزرے ہیں لیکن قرطاسِ قلم کی سعادت بہت کم لوگوں کو میسر آئی ہے۔
بارش کے کتنے قطرے فطرت میں تھے بلند
پائی نہ گود سیپ کی گوہر نہ ہو سکے
نا قدریِ جہاں سے خدائے سخن ہزار
مٹی ہوئے، سخن کے پیمبر نہ ہو سکے
قلبی نزہتوں ، فکری عظمتوں اور نورِ ایمان علم و عرفان سے مزیّن کلام، حیاتِ جاوداں رکھتا ہے خواہ لفظی شکوہ اور جمالیاتی بانکپن نہ ہو۔ اس دوڑ میں ہر صاحبِ تخلّص بازی لے جانا چاہتا ہے لیکن کوئلہ خود کو اگر انگارہ نہ بنا لے، دل کی دھڑکن اور ایمان کی حلاوت کو ہم آہنگ نہ کر لے تو نغمہ پیرائی سے سکوت بہتر کہلاتا ہے۔
قال اور حال کو مربوط ہونا چاہئے۔ شخصی و مذہبی آگاہی قلبی بیداری کو پرواز عطا کرتی ہے۔ اظہار کو بینائی اور عمل کو توانائی فراہم کرتی ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ اس کوشش و کاوش کو قبول فرمائے اور مزید دینی و دنیاوی ترقی و کامیابیاں عطا فرمائے۔ آمین
٭٭٭
’’پیکرِ خیال ‘‘ کا شاعر نورؔ سہارنپوری
رباب عبدالصمد
نورؔ سہارنپوری کا شمار عصرِ حاضر کے نمایاں نوجوان شعراء کرام میں ہوتا ہے۔ ’’پیکرِ خیال ‘‘ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ہے۔ ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان کے اشعار سادہ اور احساسات پر مبنی ہیں۔ وہ ہر قسم کی بات کو سادگی سے اپنے اشعار میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری حالاتِ حاضرہ سے متاثر ہوتے ہوئے معاشرے کے کئی مسائل کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ نورؔ کہتے ہیں ؎
بخشا ہے اِسے گردشِ دوراں نے تغیّر
پہلا سا کہاں نورؔ ہے وہ نورِ سحر آج
آنے جانے والے کیسے پیار پھولوں سے کریں
بھر گئی ہے کس قدر کانٹوں سے گلشن کی روش
پھر اسلاف کی قربانیاں یاد دلاتے ہیں کہ
یہ ہمارے پاؤں کے چھا لے بتا دیں گے تمھیں
کتنے صحراؤں سے ہم گزرے گلستاں کے لئے
اسی تناظر میں ان کا یہ شعر اک امید کی کرن بن کے چمکتا نظر آتا ہے ؎
دامن میں جس کے امن و سکوں کا پیام ہو
میں نورؔ منتظر ہوں کسی ایسی شام کا
نورؔ کی شاعری میں عشقِ مجازی کے مضامین بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں جو غزل کے بنیادی تقاضے ہیں۔ غم و الم کے اظہار کے ساتھ ساتھ کیف و طرب اوریاس کے ساتھ ساتھ آس بھی ان کے کلام کا حصہ ہے۔ اپنی نا امیدی کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
رفتہ رفتہ ٹوٹنے والی رفاقت الوداع
جو دلوں سے جا رہی ہے وہ محبت الوداع
وہ ناسازگار حالات کی سنگینی سے بھی دل برداشتہ نہ ہوتے ہوئے امّید کی شمع اِس انداز سے روشن کرتے ہیں ؛
سرسبز پھر سے ہو گا گلستاں یہ ایک دن
یہ بات کہہ رہے ہیں نہایت یقیں سے ہم
کوئی بھی فطری شاعر اپنی آپ بیتی لکھّے بنا نہیں رہتا اسی طرح نورؔ کے ہاں بھی کئی اشعار ان کی حقیقی زندگی کی واضح تصاویر ہیں۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں ؛
کئی بار کھائے فریبِ محبت
ہیں مجبور اپنی طبعیت کے باعث
نورؔ نے چونکہ اسلامی تعلیمات کے حصول کے لئے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ صرف کیا ہے اور پھر وہ تصوّف سے بھی منسلک رہے اس لئے ان کے کلام میں مذہبی رہنمائی بھی شامل نظر آتی ہے۔ نورؔ سمجھتے ہیں کہ انسان کی کامیابی اور مشکلات کا حل اسلام کی پیروی میں ہے۔ وہ مسلمانوں میں عہدِ نبوی والا رویہ اور بھائی چارہ دیکھنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ کہیں وہ پوری انسانیت کو متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ،
پوچھے یہ بات آج کہ انسان سے کوئی
کیوں مقصدِ حیات کو اُس نے بھُلا دیا
تو کہیں نا شکری کرنے والوں کو درس دیتے نظر آتے ہیں۔
اِس بات پہ کب غور کیا ہے کبھی ہم نے
کیوں اپنی دعائیں ہوئیں محرومِ اثر آج
پھر کہیں اس المیے کی نشاندہی کرتے ہوئے زوال ِ امت کے سبب کی طرف اشارہ کرتے ہیں ؛
بھرے بھرے سے ہیں میخانے مسجدیں ویراں
کہاں ملے گی تباہی تمھیں یہاں کی طرح
اور کہیں قرآنی درس اس انداز سے دے رہے ہیں ،
سنو کہ قَالُوْا سَلٰمٰی سکھا رہا ہے خدا
کرو نہ وقت کو برباد جاہلوں کے پاس
اسی طرح نور ؔ صاحب کے ہاں کئی اشعار میں جدید لہجہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے تخلّص کا بھرپور استعمال کیا ہے اور لفظ ’’نور‘‘ سے بڑا استفادہ کیا ہے۔ ان کے تخلّص کے برتنے کا ڈھنگ بھی ملاحظہ کیجئے؛
تاریکیوں کو نورؔ سے کھانی پڑی شکست
ظلمت کی سمت جب بھی ہُوا ہے ہَوا کا رخ
ہو رہی ہے یہ روشنی کیسی
کون گزرا ہے نورؔ پھیلا کر
رات میں محفل ہو یا جلسہ ہو یا تقریب ہو
نورؔ جب آتا ہے کہہ دیتا ہے ظلمت الوداع
کب سے ہے اپنے گھر میں یہ ظلمت بسی ہوئی
اب نورؔ تجھ کو ڈھونڈ کے لائیں کہیں سے ہم
الغرض نورؔ نے اپنے خیالات کو مختلف زاویوں سے بیان کیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ انھیں ہر قسم کی مشکل اور پریشانی سے دور رکھتے ہوئے زندگی بھر کامیابیوں سے ہمکنار فرمائے۔ اٰمین
٭٭٭
تعجب ہے کہ اِس پر باغباں حیراں نہیں ہوتا
کوئی بھی پھول کیوں اِس باغ میں خنداں نہیں ہوتا
انا جس کا ہو شیوہ اور نخوت جس کی فطرت ہو
جہاں میں قابلِ تعظیم وہ انساں نہیں ہوتا
اگر محفوظ ہوتا رات میں تنہا سفر کرنا
تو یہ شہرِ تجلّی اِس قدر وِیراں نہیں ہوتا
جسے معلوم ہے یہ زندگی غم سے عبارت ہے
اُسے خوشیاں نہ ملنے کا کبھی ارماں نہیں ہوتا
ہو جس کا عزم مُحکم حوصلے میں ہو توانائی
ترقی کا پھر اُس سے راستہ پنہاں نہیں ہوتا
سفینوں کی تباہی دیکھ کر دل ڈوب جاتا ہے
بہت خوش ناخدا ہوتا ہے جب طوفاں نہیں ہوتا
اسیروں نے تو پوری کر بھی لی مدّت اسیری کی
پھر اِس کے بعد بھی وا کیوں درِ زنداں نہیں ہوتا
کبھی غم ہیں کبھی خوشیاں کبھی رونا کبھی ہنسنا
سفر یہ زندگی کا نورؔ کچھ آساں نہیں ہوتا
٭٭٭
ایک شعر
اگرچہ ایک ہے دیوار دو مکانوں کی
نہ جانے فاصلے اتنے ہیں کیوں مکینوں میں
غموں سے دور وہ خوشیوں کے پاس رہتا تھا
ہجومِ یاس میں بن کر جو آس رہتا تھا
ادا میں کر نہ سکا شکر اُس کی رحمت کا
نہ جانے کیوں میں بہت ناسِپاس رہتا تھا
خدا کی شان کہ اب مہرباں ہے وہ مجھ پر
کبھی جو باعثِ خوف و ہراس رہتا تھا
غم و طرب کا تھا دشوار تجزیہ کتنا
عجب گھٹن میں دلِ غم شناس رہتا تھا
کھِلا ہے غنچۂ دل بھی بہار میں میرا
وگرنہ گلشنِ ہستی اداس رہتا تھا
مجھے ہے یاد وہ ماضی کی داستاں کہ جب
ہر ایک شخص دریدہ لباس رہتا تھا
ترے خیال نے آ کر اُسے سکوں بخشا
وگرنہ یہ دلِ غمگیں اداس رہتا تھا
میں کیا بتاؤں شبِ ہجر کس طرح گزری
صدائے در پہ ترا التباس رہتا تھا
اُجاڑ آئینہ خانہ ہوا ہے بعد ترے
ہر آئینے میں ترا انعکاس رہتا تھا
تمام عمر اُسے ڈھونڈتا رہا میں نورؔ
ہر ایک پل جو مرے آس پاس رہتا تھا
٭٭٭
مجھ سے احباب نے میرے پوچھا یہ جب اجنبی دیِس میں حال کیسا رہا
میں نے پہلے کیا غم بیاں راہ کا پھر یہ رسماکہا بے حد اچھا رہا
رفتہ رفتہ سب اپنے جدا ہو گئے مجھ کو تنہا کیا وقتِ دشوار نے
مرحبا میں کہوں حوصلے کو نہ کیوں اِک یہی تو مرا ساتھ دیتا رہا
کتنے شداد گزرے ہیں عبرت نشاں کتنے فرعون عبرت نشاں بن گئے
کوئی جنت کی خواہش میں مارا گیا وہ جو نخوت زدہ تھا وہ رسوا رہا
عمر گزری ہے جس کی بناتے ہوئے تاجداروں کے یہ جگمگاتے محل
ہے یہ دستور دنیا کا کتنا عجب اُس کا اپنا مکاں تھا، جو کچا رہا
دارِ فانی میں اپنی بقا کے لئے پیش جس نے کئے قدر افزا عمل
کارناموں پہ اُس کے کریں رشک ہم بعد مرنے کے جو شخص جیتا رہا
سب کو شہرت کی خواہش تھی اِس دہر میں سب نے کی اپنی اپنی سی کوشش مگر
لاکھ کر کے جتن بھی نہ کچھ ہوسکا جسکی قسمت میں تھا نام اس کا رہا
نورؔ منزل کی جانب جو بڑھنے لگا راہ میں اُس کی حائل تھے کا نٹے بہت
نورؔ اُن کو ہٹاتا رہا پے بہ پے پھر ہوا یہ کوئی بھی نہ کانٹا رہا
٭٭٭
تین شعر
جو کھیل ہم نے اہلِ جہاں کو سکھا دیا
اُس کھیل میں ہر ایک نے ہم کو ہرا دیا
ہم کو ہمارے ملک نے سب کچھ دیا مگر
ہم نے بجز فساد اِسے اور کیا دیا
میرے چمن میں جوئے محبت تھی موجزن
اِس میں یہ کس نے خون کا دریا بہا دیا
٭٭٭
ایک شعر
دنیا ہے قید خانہ انسان ہے پرندہ
کب ہو رہائی کس کی یہ کون جانتا ہے
چاہت میں جس کی میں نے بھرا گھر لٹا دیا
وہ پھر بھی کہہ رہا ہے مجھے تو نے کیا دیا
دشمن ہے میرا کون مرے اِس سوال پر
دل نے مجھے جواب میں اِک آئینہ دیا
ارمان و آرزو کا نشاں دور تک نہیں
اِس بیکسی کی آگ نے دل کو جلا دیا
تھا جس کو ناز اپنی ہر اک جیت پر بہت
قسمت نے ایک پل میں اُسے بھی ہرا دیا
پوچھے یہ بات آج کے انسان سے کوئی
کیوں مقصدِ حیات کو اُس نے بھلا دیا
سنتا نہیں ہے مجھ سے کوئی داستاں مری
تم نے مجھے نگاہ سے کتنا گرا دیا
ہنستا ہے دیکھ دیکھ کے ہر آدمی ہمیں
ہم نے بھی خود کو کیسا تماشا بنا دیا
اے نورؔ سوچنے سے تو واپس نہ آئے گا
وہ بے بہا تھا وقت جو تم نے گنوا دیا
٭٭٭
ہر اک نظر میں اہل ہے ارفع مقام کا
کرتا ہے احترام جو ہر خاص عام کا
آیا نہ جس کو عہد ِوفا کا خیال تک
کیوں انتظار ہو مجھے اُسکے پیام کا
جب جائزہ لیا ہے کہ دنیا میں آئے کیوں
اُس روز مجھ پہ راز کھلا ہے قیام کا
اِس دورِ پُر فطن میں ہے دولت کو ہی شرف
اِس جا غریب شخص نہیں کوئی کام کا
بزمِ طرب میں اِس لئے تیری نہ آسکا
عادی نہیں رہا میں کبھی اژدہام کا
نا آشنائے فن میں سمجھتا رہا جسے
چرچا ہے انجمن میں اُسی کے کلام کا
بے گھر ہوا جو اپنے عزیزوں کے واسطے
اُس کو ملا کہیں نہ ٹھکانہ قیام کا
اِس عارضی حیات کو بخشے دوام جو
اِک گھونٹ بھی بہت ہے شہادت کے جام کا
دامن میں جسکے امن و سکوں کا پیام ہو
میں نورؔ منتظر ہوں کسی ایسی شام کا
٭٭٭
ہر ایک وعدۂ باطل پہ مسکراتا جا
امیرِ شہر کے قصّے مجھے سناتا جا
کدورتیں ہیں جو باہم اُنہیں مٹاتا جا
بُجھے چراغ محبت کے اب جلاتا جا
کوئی سُنے نہ سُنے دھیان دے نہ دے پھر بھی
یہ تیرا فرض ہے آوازِ حق اُٹھاتا جا
یہ جن کا رہبرِ منزل نے ساتھ چھوڑ دیا
تو خِضْر بن کے اُنہیں راستہ بتاتا جا
خزاں کو اپنا مقدر سمجھ لیا جس نے
نویدِ صُبحِ بہاراں اُسے سناتا جا
اگرچہ تیرہ شبی اِس سے مٹ نہیں سکتی
چراغ پھر بھی سرِ راہ تو جلاتا جا
کمی ہوئی ہے مرے اضطراب میں اِس سے
تو اپنا نغمۂ دلکش مجھے سناتا جا
وہ سُن کے تیری صدا بام پر نہ آئے گا
نصیب اپنا مگر نورؔ آزماتا جا
٭٭٭
توقع تھی کیا اور کیا ہو گیا
بنا کر وہ اپنا جدا ہو گیا
یہ گزری محبت کا اعجاز ہے
وہ بیگانہ بن کر مرا ہو گیا
دیا ساتھ تیرا کڑے وقت پر
جو وعدہ کیا تھا وفا ہو گیا
نہیں اب مُداوا کی حاجت مجھے
مرا درد بڑھ کر دوا ہو گیا
بچا کب جہاں کے تغیّر سے وہ
جو تھا با وفا بے وفا ہو گیا
اُگایا گیا تُخمِ نفرت سے جو
شجر وہ کئی سال کا ہو گیا
تری پرسشِ حال کا شکریہ
مرا زخمِ دل پھر ہرا ہو گیا
نصیحت کا اُس کی ہوا یہ اثر
مرا راستہ خیر کا ہو گیا
زہے اُس کی رحمت کی یہ رہبری
گنہ گار بھی پارسا ہو گیا
یہ ہے نورؔ انعام ِعشق خدا
جو سارا جہاں اب ترا ہو گیا
٭٭٭
ایک شعر
اس کی مظہر ہیں نگاہیں شکل اس کی ترجماں
جسم کے پردے میں رہ کر کب چھپا رہتا ہے عشق
تجھ سے بچھڑ کے میں نے جو دیکھے ہیں یار خواب
رکھتے ہیں کس قدر وہ مجھے بے قرار خواب
جس رات آپ سیرِ گلستاں میں ساتھ تھے
اُس ایک خواب پر ہیں نچھاور ہزار خواب
اک وقت وہ تھا شور بھی ہوتا نہ تھا مُخِل
کرتے ہیں میری نیند کا اب انتظار خواب
جب سے ہے میرے شہر میں ظلمت فروغ پر
پہرے ہیں میری نیند پہ اور سوگوار خواب
تعبیر پر یقین نہ آیا کسی طرح
دیکھے ہیں میں نے جب سے یہ بے اعتبار خواب
ایسے بھی تھے کہ جن سے مری نیند اُڑ گئی
دیکھے ہیں زندگی نے مری بے شمار خواب
اجڑے ہوئے چمن میں بھی آئے گی فصلِ گُل
ہر ایک دیکھتا ہے یہی بار بار خواب
تعبیر جس کی سب نے بتائی الگ الگ
دیکھا ہے ایسے رنگ کا بس ایک بار خواب
آنکھوں میں اب کسی کی بھی آتا نہیں نظر
عہدِ رواں میں ہو گیا اے نورؔ پیار خواب
٭٭٭
کیسے کوئی شمار کرے آدمی کے روپ
ظلمت میں ڈھل رہے ہوں جہاں روشنی کے روپ
اِس انقلابِ دہر پہ حیرت ہو کس لئے
پردے میں دوستی کے ہیں اب دشمنی کے روپ
خود دیکھ لو کے رنگ بدلتے ہیں کس قدر
میں کیا بتاؤں کتنے ہیں کس آدمی کے روپ
اُن سے ملے تو یہ نہ سمجھ پائے آج تک
یہ ہیں خوشی کے روپ کہ ہیں بر ہمی کے روپ
خواب و خیال بن کے دُکھاتے ہیں دل کو وہ
آتے ہیں یاد جب بھی گذشتہ صدی کے روپ
’’مسجد ہو خانقاہ کہ ہو مدرسہ کوئی‘‘؎۱
یہ آگہی کے روپ ہیں یا گم رہی کے روپ
اے نورؔ احتیاط ضروری ہے اس لئے
پردے میں رہبری کے ہیں اب رہزنی کے روپ
؎۱۔ استفادہ از غالب: مسجد ہو مدرسہ کہ کوئی خانقاہ ہو
٭٭٭
میں سمجھتا تھا جسے ہے وہ مرا یار بہت
اُس کی باتوں میں بناوٹ کی تھی مقدار بہت
وہ جو آئے تو مُیسّر ہو مرے دل کو سکوں
ورنہ ہو جائے گا جینا مرا دشوار بہت
وہ سمجھتا ہی نہیں ہے مری آنکھوں کا پیام
میری ہر بات کو کہتا ہے جو بے کار بہت
میں نے یہ راز تو اُس سے بھی چھُپا رکھا ہے
جس کا موجود ہے اس دل میں میرے پیار بہت
آخری وقت بھی جیسے ہو اُسے تیری طلب
نام لیتا ہے ترا تھک کے جو بیمار بہت
درمیاں جب بھی پرندوں کے بڑھی ہے نفرت
ہم نے دیکھے ہیں اجڑتے ہوئے گلزار بہت
تیری قسمت کہ تجھے مل گئی منزل ورنہ
ہم نے اِس راہ کے دیکھے ہیں طلب گار بہت
جانے کیوں اب میں بھروسہ نہیں کرتا اُس پر
اب بھی کرتا ہے وفاؤں کا جو اقرار بہت
اُس کی محفل میں یہ بہتر ہے کہ خاموش رہو
تم سے اے نورؔ نہ ہو جائے وہ بیزار بہت
٭٭٭
وہم ہے یا ہے یہ تیری آہٹ
سُن رہا ہوں نئی نئی آہٹ
ایک مدّت سے میں اکیلا تھا
آج کس کی سنائی دی آہٹ
گونج اُٹّھے غزل کی صورت میں
لفظ دیتے ہوئے کئی آہٹ
راس آیا نہ ترکِ ربط مجھے
دل میں اُس کی بسی رہی آہٹ
بار لگتی ہے اب سماعت پر
گیسوئے مشکبار کی آہٹ
اب مسلسل سنائی دیتی ہے
صرف اُس پائے ناز کی آہٹ
وہ بھی خاموش ہو گئی ہے کیا؟
میں جو سنتا تھا روز ہی آہٹ
آہٹوں کے ہجوم میں اے نورؔ
اُس کے جیسی نہیں کوئی آہٹ
٭٭٭
ملا حوصلہ یہ مصیبت کے باعث
نکھرتے ہیں تارے بھی ظلمت کے باعث
یہ مانا کہ نفرت کا ہے بول بالا
یہ دنیا ہے قائم محبت کے باعث
اُنھیں جھوٹ سے اب بھی نفرت نہیں ہے
جو رسوا ہوئے اپنی عادت کے باعث
کئی بار کھائے فریبِ محبت
ہیں مجبور اپنی طبعیت کے باعث
تدارک سمجھ میں نہیں آرہا کچھ
پریشاں ہیں سب قتل و غارت کے باعث
کریں لاکھ انکار وہ کج روی سے
بنے ہیں فسانے حقیقت کے باعث
شرافت ہی انساں کی معیار ٹھہری
گلستاں گلستاں ہے نکہت کے باعث
کہیں خودکشی ہے کہیں روز فاقے
یہ سب کچھ ہے ناقص قیادت کے باعث
یہ کیا کم ہے اے نورؔ اس دور میں بھی
ہیں مشہور ہم اپنی سیرت کے باعث
٭٭٭
کیا اُن کے نہ آنے کی پھر آئی ہے خبر آج
سنسان نظر آتی ہے کیوں راہ گزر آج
اے چارہ گرو غور سے بیمار کو دیکھو
دشوار نظر آنے لگی اُس کو سحر آج
ہو جائے مرے خواب کی تعبیر مکمل
اے کاش وہ بھولے سے ہی آ جائیں اِدھر آج
اے بیخودیِ شوق مجھے یہ تو بتادے
یہ کس کے تجسّس میں بھٹکتی ہے نظر آج
رکتی نہیں اک پل بھی کسی زہرہ جبیں پر
کس سوچ میں گم ہے نگۂ آئینہ گر آج
یہ کیسا زمانہ ہے کہ راہوں کے علاوہ
محفوظ نہیں راہزنوں سے کوئی گھر آج
اِس بات پہ کب غور کیا ہے کبھی ہم نے
کیوں اپنی دعائیں ہوئیں محرومِ اثر آج
بن جاتی ہے یہ بیچ کی دیوار ہمالہ
کیسے ہو پڑوسی کو پڑوسی کی خبر آج
بخشا ہے اِسے گردشِ دوراں نے تغیّر
پہلا سا کہاں نورؔ ہے وہ نورِ سحر آج
٭٭٭
بشر وہاں بھی تو مجبور ہے یہاں کی طرح
رِضائے رب پہ ہے خاموش بے زباں کی طرح
تمام عمر عروج و زوال میں گزری
کبھی بہار کی صورت کبھی خزاں کی طرح
یہ اُن کے دل سے گزرنے کا ڈھب نرالہ ہے
کبھی یقین کی صورت کبھی گماں کی طرح
کسی نے گھر نہ کیا اِس میں ایک مدّت سے
اُجڑ گیا ہے مرا دل مرے مکاں کی طرح
ہے احترام ضروری تمام رشتوں کا
مگر کسی کی محبت نہیں ہے ماں کی طرح
بھرے بھرے سے ہیں میخانے مسجدیں ویراں
کہاں ملے گی تباہی تمہیں یہاں کی طرح
ہرے ہیں زخم ابھی تک دیئے تھے جو اُس نے
سلوک مجھ سے جو کرتا تھا مہرباں کی طرح
شجر جو نورؔ زمانے سے دے رہا تھا ثمر
وہ سایہ دار ہے اب صرف سائباں کی طرح
٭٭٭
اُس سمت چل رہے تھے جدھر تھا ہوا کا رخ
منزل کی سمت کب تھا کسی رہنما کا رخ
وہ چاہتا تھا عیب نہ آئیں نظر مجھے
دیوار کی طرف ہی رکھا آئینہ کا رخ
برگ و ثمر شجر سے گرانے کے بعد اب
میرے مکاں کی سمت ہُوا ہے ہَوا کا رخ
کب سے ہے یہ شکارِ تمازت مرا بدن
میری طرف بھی کاش ہو بادِ صبا کا رخ
اک عمر ہو گئی تھی دعا مانگتے ہوئے
بابِ اثر کی سمت ہوا اب دعا کا رخ
دیوانے کام لے تو رہے ہیں لباس سے
پُرزے بتا رہے ہیں جنوں کو ہوا کا رخ
ہوتا ہے ساز باز عیاں اِس سے رہرو
رہزن کا رخ اِدھر ہے اُدھر رہنما کا رخ
کس کو سناؤں اپنی تباہی کی داستاں
میری طرف کہاں ہے کسی آشنا کا رخ
تاریکیوں کو نورؔ سے کھانی پڑی شکست
ظلمت کی سمت جب بھی ہوا ہے ضیاء کا رخ
٭٭٭
یہ التفات آپ کا اِس کج روی کے بعد
بخشی گئی نشاط شکستہ دِلی کے بعد
پچھتا رہے ہیں ترکِ تعلق پہ ہم سے وہ
محسوس قدرِ آب ہوئی تشنگی کے بعد
رہتے ہیں ایسے لوگ پریشان عمر بھر
کرتے نہیں جو کام کوئی شاعری کے بعد
وہ اپنے انتخاب پہ نادم ہیں کس قدر
رہبر سے آشنا جو ہوئے رہبری کے بعد
حاصل نہ ہو گا آپ کو یہ عام طور پر
آرام کا جو لطف ہے واماندگی کے بعد
تہذیب اب کہاں ہے وہ عہدِ قدیم کی
پھیلی ہے تیرگی یہ نئی روشنی کے بعد
کس واسطے وہ قدر تری رہنما کریں
منزل جنھیں نصیب ہوئی خود روی کے بعد
ساقی کہاں ہے جام کہاں میکدہ کہاں
رہتا ہے کس کو یاد یہ سب بیخودی کے بعد
کچھ اُس کی فکر بھی تو ضروری ہے ہم نفس
اک اور زندگی جو ہے اِس زندگی کے بعد
اے نورؔ رات بھر کی تجلی تھی اور بس
تاروں میں روشنی نہ رہی روشنی کے بعد
٭٭٭
بے کیف زندگی ہے مری یار کے بغیر
جیسے کوئی چمن ہو گل و خار کے بغیر
ہے سائبان عرش کا اور فرش ہے زمیں
میرا مکان ہے در و دیوار کے بغیر
آسائشیں سبھی ہیں میسر مجھے مگر
حاصل نہیں ہے ان کا کوئی یار کے بغیر
اُن کی دعا یہی ہے کہ آئے کوئی وبا
زندہ ہیں چارہ ساز جو بیمار کے بغیر
جوبھی ہُوا ہے عشقِ حقیقی میں مبتلا
بے چین ہی رہا ہے وہ دیدار کے بغیر
جس نے تمام عمر اذیّت میں کاٹ دی
ہو گا وہ قبر و حشر میں آزار کے بغیر
ہر اک شکست دے گی تجھے حوصلہ نیا
ممکن نہیں ہے جیت کوئی ہار کے بغیر
آئے گی راس نورؔ نہ دنیا سے بے رُخی
ممکن نہیں عدم کا سفر چار کے بغیر
٭٭٭
وار ہونے کو ہے اب چشمِ تماشائی پر
ضرب جلوؤں سے لگاتا ہے وہ بینائی پر
کم نظر اِس میں ہیں کتنے کبھی سوچا یہ بھی
حرف آئے گا تری انجمن آرائی پر
بھیڑ میں جس نے بھلے شخص کو پہچان لیا
آفریں ایسے شناسا کی شناسائی پر
کام یہ چاہنے والوں کا ہے اُس پر ہوں فدا
کس لئے ہو وہ نچھاور کسی شیدائی پر
چارہ گر حال مرا پوچھ کے خود چُپ کیوں ہے
مجھ کو آتی ہے ہنسی اُس کی مسیحائی پر
اُس کو معلوم نہیں اِس کے فوائد کیا ہیں
طنز کرتا ہے زمانہ مری تنہائی پر
مجھ کو منزل کے تجسس پہ کیا پھر مائل
شکریہ آپ کا اِس حوصلہ افزائی پر
نورؔ درکار ہے اک عمر ریاضت کے لئے
شعر موقوف نہیں قافیہ پیمائی پر
٭٭٭
ایسے خود کو نہ تو بکھیرا کر
آئینہ توڑ کر نہ پھینکا کر
نالۂ دل کو دل میں رہنے دے
کون سنتا ہے یار سمجھا کر
اپنے سینے کے داغ گن پہلے
کس نے بخشے یہ زخم دیکھا کر
تجھ کو پایا ہے اِس طرح میں نے
سب کو چھوڑا ہے تجھ کو اپنا کر
دردِ دل کا بیاں ہے پیچیدہ
مجھ سے ہر بات پر نہ اُلجھا کر
میں بھی اُڑنے لگا فضاؤں میں
اِک پرندے کا ساتھ اپنا کر
تیری محفل میں پھر سے آیا ہوں
اپنے مغموم دل کو بہلا کر
ہو رہی ہے یہ روشنی کیسی
کون گزرا ہے نورؔ پھیلا کر
٭٭٭
کئے ہیں جس نے عیاں مستتر جہاں کے راز
بتا رہا ہے وہی ہم کو آسماں کے راز
ذرا سی دیر میں تنکے بکھر گئے سارے
ہوانے کھول دیئے آج آشیاں کے راز
ہزار پردے اُٹھائے مگر نہیں کھُلتے
یہ کس حجاب میں مخفی ہیں لامکاں کے راز
وہ خارو گل ہوں کہ ہو عندلیبِ نغمہ سرا
کوئی نہ جان سکا کیا ہیں گلستاں کے راز
زمیں کی پہلے حقیقت سے باخبر ہو لیں
جو لوگ پوچھتے پھرتے ہیں آسماں کے راز
غموں کا ایک سمندر ہے موجزن دل میں
کھُلے نہ آج تک اِس بحرِ بے کراں کے راز
ہر اک کی بات الگ ہے مشاہدہ ہے جدا
کسے خبر ہے کہ کیا کیا ہیں اِس جہاں کے راز
مجھے پتہ ہے کہ دیوار کان رکھتی ہے
عیاں نہ کرنے لگے یہ مرے مکاں کے راز
کہیں پہ صرف اشارہ کہیں پہ نقشِ قدم
جو ہیں قمر کے وہی نورؔ کہکشاں کے راز
٭٭٭
نہ رہزنوں کو میسر نہ رہبروں کے پاس
وہ آگہی کہ جو لے جائے منزلوں کے پاس
ہر ایک شے سے نمایاں وجود ہے اُس کا
نظر سے دور سہی، ہے مگر دلوں کے پاس
کبھی نہ ہوں گے تحفّظ پہ شہر کے راضی
ہزار قسم کے حیلے ہیں بزدلوں کے پاس
نگاہِ شیخِ طریقت سے جو ملا ہم کو
تھا عالموں کے ہی پلّے نہ زاہدوں کے پاس
جُدا تو کر دیئے تم نے گل و ثمر ان سے
بچا ہی کیا ہے ان آزردہ ٹہنیوں کے پاس
سنو کہ ـ”قالوا سَلٰمٰی” سکھا رہا ہے خدا
کرو نہ وقت کو برباد جاہلوں کے پاس
عجیب قسم کا حاصل انہیں ہے استغناء
نہ جانے کون سی دولت ہے عاشقوں کے پاس
نہ جانے کتنے غریبوں کے گھر ہوئے مسمار
محل یہ کس نے بنائے ہیں بستیوں کے پاس
سنیں تو کیسے سنیں ہم اذان کی آواز
عجیب شور ہے گانوں کا مسجدوں کے پاس
کھلے ہیں مجھ پہ کئی اور رنگ لوگوں کے
میں نورؔ جانے لگا جب سے شاعروں کے پاس
٭٭٭
کیا تھی پہلے اور اب کیا ہے زمانے کی روش
شکر ہے ہم نے کبھی بدلی نہیں اپنی روش
ہر قدم پر ٹھوکریں اُن کا مقدّر بن گئیں
ہٹ کے مذہب سے جو اپناتے ہیں من مانی روش
انقلابِ وقت نے انساں کو حیراں کر دیا
قبل اس کے تو نہ تھی دنیا کی اِس جیسی روش
جس پہ چل کر سر کیا کرتے تھے ہر اک معرکہ
دور ہم سے ہو گئی کتنی وہ لاثانی روش
آنے جا نے والے کیسے پیار پھولوں سے کریں
بھر گئی ہے کس قدر کانٹوں سے گلشن کی روش
آپ عالم کی نگاہوں میں تھے کتنے محترم
آپ کے پیشِ نظر جب تک رہی اچھی روش
توڑ دیں شیشے نہ ایوانوں کے یہ مفلس کہیں
لرزہ بر اندام ہے اِس ڈر سے سلطانی روش
عرش پر کوئی بنا سکتا نہیں اُن کے سوا
نورؔ آقاؐ نے بنائی ہے جو نورانی روش
٭٭٭
لا دوا ہے جس کو کہتے ہیں محبت کا مرض
چارہ سازوں سے بھی کب ہوتا ہے یہ اچھا مرض
ارتقاء کا دور کہتے ہیں جسے اہلِ خرد
ہر نئی ایجاد نے ہم کو نیا بخشا مرض
زندگی تنہا کرے ان کا تدارک کس طرح
ہیں ہمارے سامنے اس دہر میں کیا کیا مرض
جب بھی پوچھا ہے کسی کا حال اس کی خیریت
ہر کوئی ہم سے بیاں کرنے لگا اپنا مرض
ہاتھ پھیلانا پڑا پیسوں کی خاطر جا بجا
مفلسوں کو کس طرح کرتا رہا رسوا مرض
جب سے رازق بن گئے بے رحم دنیا کے امیر
خودکشی کرتے ہیں انساں بھوک ہے ایسا مرض
مجھ کو یہ آثار اب اچھے نظر آتے نہیں
بن نہ جائے رفتہ رفتہ نورؔ خود دنیا مرض
٭٭٭
ایک شعر
عجب اصول ہے اُس کا جسے میں چاہتا ہوں
کرے جو اُس سے محبت اُسے ستانا ہے
ایسا بھی اس جہاں میں نظر آئے گا لحاظ
میرے چراغِ دل کا کرے گی ہوا لحاظ
چن کر زمیں سے ان کو سجاتے ہیں پیڑ میں
کرتے ہیں طائرانِ چمن خار کا لحاظ
کتنے غریب بھوک سے مرتے ہیں رات دن
غربت کے ایسے دور میں کس نے رکھا لحاظ
اوروں کے رنگ و بو کے لئے مر مٹا مگر
دل کے ہی گلستاں کا نہ دل نے رکھا لحاظ
بے گھر ہوا ہے آج مرا عکس میرے ساتھ
ظلمت نے کب کیا ہے کسی کا بھلا لحاظ
محفوظ رہ سکے نہ یہ محلوں کے آئینے
شیشے کا پتھروں نے کیا کب بھلا لحاظ
سورج کی اس تپش میں وہ شدّت نہیں رہی
یا پھر مرے وجود کا اس نے کیا لحاظ
صیاد نے قفس سے رہائی نہ دی مگر
کاٹے نہ بال و پر مرے اتنا رکھا لحاظ
حیرت ہے نورؔ بزم میں اس کے سلوک پر
مجھ ایسے بد لحاظ کا اس نے رکھا لحاظ
ز٭٭
رفتہ رفتہ ٹوٹنے والی رفاقت الوداع
جو دلوں سے جا رہی ہے اے محبت الوداع
کون ہے تیرا مخالف لگ گئی کس کی نظر
اے مرے اجڑے وطن کی شان وشوکت الوداع
ظلم سہنا اک طرح سے ہے ستمگر کی مدد
ظالموں سے جنگ کرنے کی جسارت الوداع
مل گیا بھیجا ہوا تحفہ ترا تہذیبِ نو
بے حیائی کی ہے کثرت شرم و غیرت الوداع
اِن زیاں آمیز ہنگاموں سے ہوتا ہے عیاں
کہہ گئی اِس قوم کو فہم و فراست الوداع
روز کی ہڑتال اور دن رات کی یہ لوٹ مار
جانے والے اِس وطن سے اہلِ دولت الوداع
ہم نے اپنے آپ سے یہ کہہ کے رخصت کر دیا
اے مروّت اے شرافت اے ثقافت الوداع
رات میں محفل ہو یا جلسہ ہو یا تقریب ہو
نورؔ جب آتا ہے کہہ دیتا ہے ظلمت الوداع
٭٭٭
بے مائیگی کے وقت جو بے نور تھا چراغ
خونِ جگر سے میں نے وہ روشن کیا چراغ
دل ڈوبنے لگا مرا ظلمت کے خوف سے
دیکھا جو آسمان پہ اک ڈوبتا چراغ
آہ و بکا سے گونج رہا ہے یہ کس کا گھر
شاید کسی کی گود کا اک بجھ گیا چراغ
ثابت ہوا خیال غلط عین وقت پر
کب آندھیوں میں ساتھ کوئی دے سکا چراغ
علم و ہنر کے آج بہت دام بڑھ گئے
مفلس کے گھر میں علم کا بجھنے لگا چراغ
جب سے جہاں میں کفر کی تنویر بڑھ گئی
مدھم سا ہو گیا ہے بہت دین کا چراغ
شامل تھا جس کے تیل میں جذبہ خلوص کا
طوفانِ تند میں بھی وہ جلتا رہا چراغ
ظلمت سے رات بھر جو نبرد آزما رہا
آنکھوں کے سامنے وہ رہے گا سدا چراغ
ہاتھوں میں خالی تیل کی بوتل لئے ہوئے
شب بھر میں دیکھتا رہا گھر کا بجھا چراغ
اے نورؔ تیری زیست منور ہے اِس لئے
ہر حال میں دعاؤں کا جلتا رہا چراغ
٭٭٭
رواں دواں ہیں اندھیرے بھی بام و در کی طرف
میں جا رہا ہوں سرِ شام اپنے گھر کی طرف
ڈرا سکیں گے نہ آثار آندھیوں کے انھیں
پرندے لوٹنے والے ہیں اب شجر کی طرف
پلٹ کے اپنے خدوخال پر ہی آتی ہے
نگاہ مہر کی جانب ہو یا قمر کی طرف
نہ راہزن ہے نہ رہبر نہ پاس رختِ سفر
سفر کا حکم ملا ہے یہ کس نگر کی طرف
سبق ملا ہے مجھے کربلا کے مکتب سے
ہو بات حق کی تو دیکھا کرو نہ سر کی طرف
قبول و رد کی مجھے کچھ خبر نہیں لیکن
دعائے امن کا رخ ہو نہ ہو اثر کی طرف
سمٹ کے کس لئے اے نورؔ آنے لگتے ہیں
تمہاری بات کے پہلو اگر مگر کی طرف
٭٭٭
ایک شعر
ملے ہیں غم ہی مسرت کی جستجو میں مجھے
خوشی کی اپنی مجھے داستاں سناتا جا
جب بھی اپنے وصف کی تشریح فرماتا ہے عشق
مختلف اقسام کی تصویر بن جاتا ہے عشق
بادیہ پیما اگر ہو تو ہے مجنوں ترجماں
دار تک پہنچے تو پھر منصور کہلاتا ہے عشق
تیشۂ فرہاد کی تفسیر جوئے شیر ہے
لیلیٰ و شیریں کی بھی تقدیر بن جاتا ہے عشق
ہو گی پیشانی زمیں پر اور نگاہیں عرش پر
اُس گھڑی ہوتا ہے جب خود وجد میں آتا ہے عشق
عاشقِ صادق کو ملتا ہی نہیں اِک پل سکوں
اشک کی بارش سے پہلے آگ بر ساتا ہے عشق
پیش کر دیتا ہے ہر محبوب کو اِک آن میں
سونے والوں کو بھی ایسے خواب دکھلاتا ہے عشق
اِس کی مظہر ہیں نگاہیں شکل اِس کی ترجماں
جسم کے پردے میں رہ کر کب چھپا رہتا ہے عشق
اِس جہاں کو نورؔ جب کہتے ہیں سب تاریک شب
ظلمتِ عالم میں شمعِ طور بن جاتا ہے عشق
٭٭٭
یہ اضطراب رہے گا قرار آنے تک
نہ مسکرائیں گے غنچے بہار آنے تک
مریضِ غم میں کہاں تابِ انتظار اتنی
نہ جانے حال ہو کیا غم گسار آنے تک
جبیں جو روز جھکاتے ہیں یہ خبر ہے اُنھیں
وہ دل جھکا نہ سکے اعتبار آنے تک
جسے یہ علم تھا آئے گی ایک دن وہ ضرور
اجل کا اُس نے کیا انتظار آنے تک
گراں ہے وقت یہ گلشن کے ساکنوں پہ بہت
خزاں کے دور سے لے کر بہار آنے تک
برنگِ خار کھٹکتا رہے گا آنکھوں میں
یہ موسموں کا تغیّر سدھار آنے تک
سکوں نصیب نہ ہو گا ہمیں کسی صورت
اُجاڑ باغ میں پھر سے نکھار آنے تک
کہاں ملیں گے وہ انسان اِس زمانے میں
رہیں جو ساتھ دکھوں میں قرار آنے تک
خطا یہ نورؔ ہے اپنی کیا نہ بند اِنھیں
کھُلے رہے یہ دریچے غبار آنے تک
٭٭٭
آئینہ ہر بشر کو جو دکھلا رہے ہیں لوگ
کرنی پہ اپنی آج وہ پچھتا رہے ہیں لوگ
میرے خیال و خواب میں جو بھی نہیں رہا
مجرم اُسی گناہ کا ٹھہرا رہے ہیں لوگ
آدابِ دشمنی سے بھی آگاہ کب ہیں وہ
مطلب رفاقتوں کا جو سمجھا رہے ہیں لوگ
اک روز انقلاب کے موجب بنیں گے وہ
بچوں کو اپنے آج جو دفنا رہے ہیں لوگ
کیا اصل ماجرا ہے اُنہیں کچھ خبر نہیں
افواہ کس یقین سے پھیلا رہے ہیں لوگ
غارت گرِ سکوں ہیں اِنہیں جانتے ہیں ہم
آداب زندگی کے جو سکھلا رہے ہیں لوگ
دوگز زمیں کی گود میں کل ہوں گے دیکھنا
قصرِ بلند آج جو بنوا رہے ہیں لوگ
اے نورؔ اپنی بزمِ رفاقت ہے عارضی
اِک ایک کر کے اُٹھتے چلے جا رہے ہیں لوگ
٭٭٭
ایک شعر
مجھے خبر ہے کہ دنیا ہے بے خبر کتنی
بتائے کون ہمیں عہدِ رفتگاں کے راز
کیسے پائے گا وہ شفائے دل
جس کو ملتی نہیں دوائے دل
اُس پہ کوئی اثر نہیں ہوتا
کوئی کتنا ہی اب دُکھائے دل
کیا ضرورت کہ میں زباں کھولوں
حال خود اپنا جب بتائے دل
جس کو چاہا ہے ٹوٹ کر چاہا
کتنی معصوم ہے خطائے دل
اشک ہوتے ہیں آنکھ سے جاری
عشق کے زخم جب چھپائے دل
خود کو جانے سے روکنا کیسا
ساتھ لے کر جہاں بھی جائے دل
آج بھی گونجتی ہے صحرا میں
قیس و فرہاد کی نوائے دل
کس قدر یہ بدل گئی دنیا
اب کسی پر مرا نہ آئے دل
کس کو فرصت ہے آج کل لوگو
کس سے کہتا میں ماجرائے دل
لکھ دیئے نورؔ غم زمانے کے
کاتبِ بخت نے برائے دل
٭٭٭
مرعوب ہو کے آپ کی چینِ جبیں سے ہم
اب سر گزشت بھول رہے ہیں کہیں سے ہم
اب تک مشامِ جاں میں ہے نکہت بسی ہوئی
گزرے تھے ایک بار کسی کے قریں سے ہم
سر سبز پھر سے ہو گا گلستاں یہ ایک دن
یہ بات کہہ رہے ہیں نہایت یقیں سے ہم
معلوم جب یہ تھا کہ وہ دے گا جواب کیا
کیوں مانگنے گئے تھے امانت امیں سے ہم
دل کو فریب دیں گے کہاں تک نشاط کا
کب تک بچیں گے جذبۂ غم آفریں سے ہم
واماندگی نے روک دیا تھا ہمیں جہاں
منزل کی جستجو میں چلے پھر وہیں سے ہم
اغیار اپنے پاس بلاتے ہیں کس لئے
کیا دور ہو گئے ہیں بہت اپنے دیں سے ہم
عہدِ وفا پہ تیرے بھروسہ نہیں رہا
بیزار ہو گئے ہیں تری ہاں نہیں سے ہم
جو چاہتے نہیں ہمیں خوشحال دیکھنا
ڈالر کی بھیک مانگ رہے ہیں انھیں سے ہم
کب سے ہے اپنے گھر میں یہ ظلمت بسی ہوئی
اب نورؔ تجھ کو ڈھونڈ کے لائیں کہیں سے ہم
٭٭٭
کبھی تو آئے گا دل کے قرار کا موسم
خزاں رسیدہ چمن میں بہار کا موسم
یہ نفرتیں بھی مٹیں گی کبھی تو دنیا سے
ضرور آئے گا دنیا میں پیار کا موسم
یہ ہار ہی تو مرے جیتنے کا مژدہ ہے
تو کیا ہوا جو ابھی تک ہے ہار کا موسم
بہت قریب ہے ابرِ بہار کی آمد
عروج پر نہ رہے گا یہ خار کا موسم
ہر ایک سمت ہیں آہ و بکا کی آوازیں
گرج رہا ہے ابھی آہ و زار کا موسم
رکھیں گے ہم بھی اُمیدِ وفا جبھی تم سے
ابھی ہے دور بہت اعتبار کا موسم
ملے گی نورؔ دلِ غم زدہ کو تابانی
گزر ہی جائے گا یہ انتظار کا موسم
٭٭٭
ایک شعر
آداب بندگی کے کچھ میں بھی سیکھ جاؤں
کر دے مجھے بھی شامل حلقے میں اولیاء کے
چین سے دہر میں رہا ہے کون
غم سے اے دل بتا بچا ہے کون
کیوں ہم آئے ہیں بزمِ ہستی میں
اس زمانے میں سوچتا ہے کون
زندگی ہو رہی ہے کیسے بسر
یہ غریبوں سے پوچھتا ہے کون
کس کی آواز آ رہی تھی یہ
آج گھر میں مرے سوا ہے کون
یاد جس کی نہیں گئی دل سے
یہ مجھے چھوڑ کر گیا ہے کون
شاخِ گلپوش میں جو بیٹھے ہیں
ان پرندوں میں خوشنما ہے کون
میرا سایہ ہے یا کوئی آسیب
یہ مرے ساتھ چل رہا ہے کون
حاکمِ وقت کے مشیروں میں
سب ہیں اچھے تو پھر برا ہے کون
کون گنتا ہے روز رخ کی شکن
آئینہ روز دیکھتا ہے کون
عقل میں کس کی پڑ گئے پتھر
نورؔ ظلمت میں ڈھونڈتا ہے کون
٭٭٭
جن کو ہم اپنا سمجھتے ہوئے اپناتے ہیں
دشمنِ زیست وہی لوگ نظر آتے ہیں
راز یہ اہلِ وفا نے ہمیں سمجھایا ہے
بے وفائی کے بھی لمحات گزر جاتے ہیں
اُن کی اِس جرأتِ اقدام کا ممنون ہوں میں
سخت بندش پہ جو ملنے کو چلے آتے ہیں
وہ جو واقف نہیں آدابِ وفا سے مطلق
جن کو معلوم نہیں وہ مجھے سمجھاتے ہیں
مجرموں کی تو رہائی کوئی دشوار نہیں
ہیں جو معصوم وہی سخت سزا پاتے ہیں
کامراں رہبرِ ناکام ہوں ممکن ہی نہیں
راہِ منزل ہے کدھر اور کدھر جاتے ہیں
دوستی کا انہیں ادراک نہیں ہے اے نورؔ
جو کڑے وقت میں ملنے سے بھی کتراتے ہیں
٭٭٭
میری نظر میں کوئی بشر بھی بُرا نہیں
یہ اور بات ہے کہ کوئی آپ سا نہیں
مجھ سے کہا یہ دیکھ کے میرے طبیب نے
تو وہ مریضِ عشق ہے جس کی دوا نہیں
دیکھے بغیر مجھ کو جو رہتا تھا مضطرب
حیرت ہے اب وہ میری طرف دیکھتا نہیں
مال و متاع پر نہ ہو مغرور اس قدر
دنیا سے کوئی ساتھ یہ لے کر گیا نہیں
بے مائیگی پہ رنج نہ کر اے دلِ حزیں
یہ امتحانِ صبر ہے کوئی سزا نہیں
گزرے ہیں کائنات میں ایسے سخی بھی کچھ
سب کچھ لُٹا کے بیٹھ گئے کچھ بچا نہیں
گزرے جو راہِ عشق سے ہم جیسے راہ رو
ناکام ہی رہے ہیں اُنہیں کچھ ملا نہیں
ہوتا تھا بے قرار جو اِک میری آہ سے
رونے کا اب وہ مجھ سے سبب پوچھتا نہیں
لازم ہے فکر نورؔ حیاتِ دوام کی
دامِ اجل سے کوئی جہاں میں بچا نہیں
٭٭٭
ایک شعر
آشیاں بجلی نے پھونکا اُس پہ یہ طُرفہ ستم
ہنس رہا ہے باغباں بھی میرے حالِ زار پر
کبھی تو یہ گماں ہوتا ہے سازِ بے صدا ہوں میں
میں خود سے بھی تو اکثر پوچھتا رہتا ہوں کیا ہوں میں
تری دوری نے مجھ کو اِس قدر بے چین رکھا ہے
تجھے ہی یاد کرتا ہوں تجھے ہی سوچتاہوں میں
کریں آنکھیں جو بند اپنی تو پایا روبرو تجھ کو
جو کھولیں اپنی آنکھیں پھر تجھے ہی ڈھونڈتا ہوں میں
چلے بھی آؤ اب تا خیر کی مہلت نہیں باقی
مسلسل کشمکش سے زندگی کی تھک گیا ہوں میں
مری اب ہر خوشی تیری مسّرت سے ہے وابستہ
بتائی ہے جو تو نے راہ اُس پر چل رہا ہوں میں
تجھے اِ س کا یقین آئے نہ آئے یہ حقیقت ہے
مرض کی تو شِفا میرے ترے دکھ کی دوا ہوں میں
مجھے اب چین آتا ہے نہ حاصل ہے سکوں دل کو
بچھڑ کر تجھ سے اپنے غمکدے میں جی رہا ہوں میں
بصد کوشش بھی چاہوں میں تو واپس جا نہیں سکتا
محبت کے سفر میں نورؔ اتنا بڑھ گیا ہوں میں
٭٭٭
کس راہ پر تھا چلنا اور کس پہ چل رہا ہوں
گلشن کی جستجو میں صحرا تک آ گیا ہوں
ہمسائیگی پہ اُن کی آتا ہے رشک مجھ کو
کانٹوں کے ساتھ جب میں پھولوں کو دیکھتا ہوں
ہے امتحاں ہر اک دن ہر ایک دن نتیجہ
بوتا ہوں بیج جیسا ویسا ہی کاٹتا ہوں
کہنے لگی ہے دنیا نادان مجھ کو جب سے
میں بھی سرشت اُس کی پہچاننے لگا ہوں
رنج والم بھی دیکھے خوشیاں بھی میں نے دیکھیں
عرفانِ زندگی سے غافل میں کب رہا ہوں
چاروں طرف تھا میرے جمِّ غفیر لیکن
سچ بولنے کے باعث تنہا میں رہ گیا ہوں
تھا اختلاف جس کو منزل کے راستے پر
اب وہ بھی ساتھ دے گا میرا یہ سُن رہا ہوں
طوفان نے سفینہ پہنچا دیا بھنور میں
میں آج دور کتنا ساحل سے ہو گیا ہوں
اہلِ خرد کی کوئی حاجت نہیں رہی پھر
اہلِ جنوں کے جب سے ہمراہ چل رہا ہوں
رہبر سے نورؔ میرا ہے اختلاف ورنہ
منزل کی بھی خبر ہے رستہ بھی جانتا ہوں
٭٭٭
چراغِ رہ گزر جب سے بنا ہوں
ہوا کا سامنا کرتا رہا ہوں
نہ ہو تاثیر کیوں میری فغاں میں
میں اک ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہوں
نہ جانے مجھ کو لے جائے کہاں یہ
میں دل کی رہبری میں چل پڑا ہوں
جہاں تھا خوفِ ہنگامہ وہاں سے
خموشی سے گزر کر آ گیا ہوں
یہ کیسی پیاس سورج کو لگی ہے
سمندر خشک ہوتے دیکھتا ہوں
مری تصویر میں کیا دیکھتے ہو
میں اپنے روپ سے مطلق جدا ہوں
حقیقت کیا بتاؤں گا کسی کی
میں اپنے آپ سے بھی کب ملا ہوں
کہاں تک منتظر رہتا میں اُس کا
جہاں جانا تھا تنہا چل پڑا ہوں
مُیسر ہی نہیں سایہ شجر کا
تپش سے دھوپ کی جلنے لگا ہوں
نظر دیتی ہے اکثر نورؔ دھوکا
حقیقت وہ نہیں جو دیکھتا ہوں
٭٭٭
نظر نہ آئے گی ماضی کی داستانوں میں
جو ٹوٹ پھوٹ ہے اِس وقت خاندانوں میں
مکیں ہوں دوستو میں ایسے شہرِ زنداں کا
جہاں پہ لوگ نظر بند ہیں مکانوں میں
نہ جانے اور ستم ڈھائے گا یہ سورج کیا
دراڑیں پڑنے لگیں اب تو سائبانوں میں
یہ سارا حسن انھیں تیرگی نے بخشا ہے
جو ضو طراز ستارے ہیں آسمانوں میں
خود اپنے ہاتھ سے تاراج کر رہے ہیں چمن
جھڑپ یہ کیسی ہوئی آج باغبانوں میں
نفاق عام ہے نفرت ہے قتل بھی ہے روا
سکوں کا ذکر ہے محدود اب فسانوں میں
نہ اپنے دل کو ٹٹولا نہ اپنی شہہ رگ کو
خدا کو ڈھونڈ رہا ہوں میں آستانوں میں
نظر طیور کی تاریک ہو گئی جس سے
یہ کیسی روشنی پھیلی ہے آشیانوں میں
دروغ گوئی سے نفرت کی بھی سزا ہے یہاں
رہو تم اِس لئے اے نورؔ بے زبانوں میں
٭٭٭
کبھی جنگل کبھی تو جانبِ صحرا گیا ہوں میں
تلاشِ یار میں پہنچا جہاں تک جا سکا ہوں میں
نہ جانے آ سماں کے زیرِ سایہ ہیں جہاں کتنے
نگاہوں کی رسائی تھی جہاں تک دیکھتا ہوں میں
ہزاروں راستے بدلے مگر کب مل سکی منزل
سفر میرا مقدر تھا سفر ہی میں رہا ہوں میں
جو نا ممکن تھا اُس کو کس طرح ممکن بنا سکتا
جہاں تک فکر کی حد ہے وہیں تک سوچتا ہوں میں
مرے ناکام ہونے کا سبب اب ہو گیا ظاہر
زمانے میں سکوں اکثر اکیلے ڈھونڈتا ہوں میں
کبھی ہے آب کی قلت کبھی نایاب ہے دانہ
کبھی محروم ہونے کے سبب سے رو پڑا ہوں میں
جہاں نفرت ہی نفرت ہے جہاں دھوکا ہی دھوکا ہے
نہ جانے کیوں اُسی قریے میں آ کر بس گیا ہوں میں
کیا تھا سامنا ہر ایک طوفانِ حوادث کا
گھرا جب حُبِّ دنیا میں زمیں پہ آ گرا ہوں میں
کبھی اُس کی زباں سے نورؔ کب شکوہ سُنا میں نے
ہمیشہ خندہ زن پایا اُسے جب بھی ملا ہوں میں
٭٭٭
یہ عاشقی بھی جرم میں شامل اگر نہ ہو
تعزیر کیوں ہو شہر میں قاتل اگر نہ ہو
کوئی شبِ سیاہ میں کیسے سفر کرے
تاریکیوں میں روشنی حائل اگر نہ ہو
منزل کی جستجو میں بھٹکنا اِدھر اُدھر
لازم ہے یہ تعیّنِ منزل اگر نہ ہو
طوفاں میں ایسی ناؤ کا بچنا مُحال ہے
ڈوبے گی وہ قریب ہی ساحل اگر نہ ہو
دنیاکو رشکِ خلد بنادیں یہ عقلمند
دنیا میں اتنی کثرتِ جاہل اگر نہ ہو
کیا حال ہو گا ایسے گلستاں کا اے خدا
ناظم ہی اعتبار کے قابل اگر نہ ہو
کرتا نہیں میں فکرِ سخن سے کوئی گلہ
دل میرا شعر گوئی پہ مائل اگر نہ ہو
منزل رسا نہ ہو گا کبھی ایسا رہنما
وہ آشنائے جادۂ منزل اگر نہ ہو
اشعار اپنے کس کو سنائیں گے اپنے ہم
شعر و ادب کی ایک بھی محفل اگر نہ ہو
انساں کرے خطا پہ خطا نورؔ کس لئے
وہ مقصدِ حیات سے غافل اگر نہ ہو
٭٭٭
وہ جس کو کہہ رہا ہے کہ دھندلا ہے آئینہ
میری نگاہ میں وہ شکستہ ہے آئینہ
کس درجہ احتیاط سے ملتا ہے آئینہ
اے دل ہجومِ یار سے اچھا ہے آئینہ
جب بھی ملا ہے مجھ سے بغل گیر ہو گیا
جیسے مرا رفیق یہ تنہا ہے آئینہ
اب کس کو کیا بتاؤں خدوخال کیا ہوئے
جب اُس سے پوچھتا ہوں الجھتا ہے آئینہ
ہے یاد اُس کو میری گذشتہ تمام عمر
کس منہ سے میں کہوں کہ یہ جھوٹا ہے آئینہ
دیکھا جو خود کو دھوپ میں سائے میں آ گیا
جیسے کسی درخت کا سایہ ہے آئینہ
آتی ہے اِس میں صاف نظر مجھ کو میری شکل
جیسے ہر ایک اشک ہی میرا ہے آئینہ
اے ہم نشیں یہ زلف پریشاں ہے کس لئے
حیرت کدے میں مجھ سے یہ کہتا ہے آئینہ
غم سے نڈھال شخص ہی آتا ہے کیوں نظر
اے نورؔ جب بھی غور سے دیکھا ہے آئینہ
٭٭٭
ہیں اختلاف کی راہیں بھی اس سفر کے ساتھ
تری نگاہ نہیں ہے مری نظر کے ساتھ
اک اجنبی ہے جو مدت سے رہ رہا ہے یہاں
نہ جانے کس کی سکونت ہے میرے گھر کے ساتھ
یہ التفات بھی صیّاد کا غنیمت ہے
ملے قفس سے رہائی جو بال وپر کے ساتھ
میں آج پھر اُسی حیرت کدے میں ڈوبا ہوں
رواں دواں ہے اندھیرا بھی کیوں سحر کے ساتھ
جب آئے گا کوئی طوفاں اِسے گرادے گا
ہوا کی دوستی ممکن نہیں شجر کے ساتھ
وہ ربط و ضبط وہ الفت وہ التفات کہاں
ہے آج دست و گریباں بشر بشر کے ساتھ
تعیّنِ رہِ منزل بھی اب نہیں آساں
ہزار موڑ ہیں ہر ایک رہ گزر کے ساتھ
ہیں احتیاط طلب اعتبار کے رشتے
یہ نورؔ نبھ نہ سکیں گے اگر مگر کے ساتھ
٭٭٭
رتبہ ترا ہے جس کی نظر میں مقام بھی
واجب ہے اُس بشر پہ ترا احترام بھی
لطف و کرم نے آپ کے بخشا ہے حوصلہ
ورنہ میں جانتا ہی نہیں لفظِ عام بھی
نسبت سے پہلے تیری مجھے جانتا تھا کون
مشہور تیرے ساتھ ہوا میرا نام بھی
جس نے سنی ہے تیری غزل اُس نے یہ کہا
طرزِ بیاں ہے خوب ترا اور کلام بھی
تجھ سا جہاں میں ارفع و اعلیٰ نہیں کوئی
رفعت کو تیری پیش ہے میرا سلام بھی
واقف نہیں ہے نورؔ تو آدابِ عشق سے
اور چاہتا ہے عشق میں اعلیٰ مقام بھی
٭٭٭
ایک شعر
یہ ناخداؤں کی غفلت نہیں تو پھر کیا ہے
سفینے ڈوب گئے آ کے ساحلوں کے پاس
بخشے پناہ جو مجھے ایسا نہیں کوئی
میرے لئے جہاں میں ٹھکانہ نہیں کوئی
مجھ سا بھرے جہاں میں اکیلا نہیں کوئی
وہ بے نوا ہوں جس کا سہارا نہیں کوئی
کیف و طرب کے خواب تو دیکھے کئی مگر
تعبیر کے لحاظ سے سچّا نہیں کوئی
اُمیدِ التفات ہے بس تیری ذات سے
تیرے سوا کسی سے بھی رشتہ نہیں کوئی
کب تک میں تیری چاہ میں تڑپا کروں بتا
مجھ سے ترا سلوک یہ اچھا نہیں کوئی
میں نے کیا تلاش بہت کائنات میں
اِس کربِ زندگی کا مسیحا نہیں کوئی
تاریکیوں کا مجھ سے سبب پوچھتے ہو کیا
کہتے ہو جس کو تم یہ اُجالا نہیں کوئی
محرومِ انبساط رہا نورؔ عمر بھر
پھر بھی وہ خوش ہے بخت سے شکوہ نہیں کوئی
٭٭٭
داستاں میں تری کہیں کچھ بھی
سچ تو یہ ہے کہ سچ نہیں کچھ بھی
حاسدوں نے کئے جتن کتنے
کر نہ پائے مجھے حزیں کچھ بھی
ذکر کرتا نہیں کوئی اُس کا
اب میں سنتا نہیں کہیں کچھ بھی
پھل سے محروم ہیں شجر سارے
دے سکی کب انھیں زمیں کچھ بھی
اُس کی نظروں میں با وقار نہیں
میرے سجدے مری جبیں کچھ بھی
عشق اُس کا تجھے بچالے گا
لوگ کہتے رہیں کہیں کچھ بھی
جب سے دیکھا ہے جلوۂ جاناں
مجھ کو بھاتا نہیں کہیں کچھ بھی
ایسی محفل میں نورؔ کیا جانا
اپنی عزت جہاں نہیں کچھ بھی
٭٭٭
ہے رسائی بھی نہیں اُن کی جہاں ہے زندگی
کہنے والے کہہ رہے ہیں بے کراں ہے زندگی
کھیل جو اِس کو سمجھتے ہیں فقط دن رات کا
ایسے انسانوں سے کتنی بد گماں ہے زندگی
ہو اگر آمد خزاں کی ہے ضروری احتیاط
حسن جس کا پھول ہیں وہ گلستاں ہے زندگی
مقصدِ تخلیقِ انساں گر سمجھ میں آئے تو
یہ عیاں ہو جائے گا ا ک امتحاں ہے زندگی
وہ زمیں کا ذکر ہو یا آسماں کی بات ہو
ہر حقیقت کی یہ تنہا راز داں ہے زندگی
راہ کی دشواریاں اُس پر فراقِ یار بھی
کس قدر تنہا مسافر پر گراں ہے زندگی
کیا ہوا جو جسم لاغر ہو گیا ہے اب مرا
یہ بھی کیا کم ہے مری اب بھی جواں ہے زندگی
مشکلوں سے نورؔ جو بھی عمر بھر خائف رہا
حوصلے سے اُس کے کتنی بد گماں ہے زندگی
٭٭٭
سنے گا ایسی بستی میں کوئی روداد کیا اپنی
کھلے کوئی نہ دروازہ جہاں سن کر صدا اپنی
پہنچتی بات کیوں دست و گریباں کی رسائی تک
اگر پہلے ہی ہم تسلیم کر لیتے خطا اپنی
یہاں پر نت نئے آلام ہوں گے اور تُو ہو گا
تجھے سکھ کی طلب ہے تو نئی بستی بسا اپنی
نگہباں نام کے ہیں کام ان کا اور ہی کچھ ہے
جنھیں ہم نے بنایا ہے محافظ قوم کا اپنی
خدایا ہے یہ میری آرزو تکمیل کی طالب
بتادے جس سے خوش ہوتا ہے تو ایسی رضا اپنی
کبھی جس نے عیاں کوئی نہ غم ہونے دیا اپنا
اب اس سے پوچھتے ہیں سب پریشانی بتا اپنی
کسی کو لوگ لے جاتے ہیں جب شہرِ خموشاں میں
مجھے پھر یاد صبح و شام آتی ہے قضا اپنی
یہاں ہر شخص اپنی منزلت کی فکر کرتا ہے
تکلّف چھوڑ تو بھی نورؔ اب وقعت بڑھا اپنی
٭٭٭
گرا کر راہ کی دیوار کو آگے جو نکلا ہے
مسافر دھن کا پکّا اپنی منزل پا ہی لیتا ہے
گھنے جنگل میں جو سب سے تناور پیڑ تھا ہم نے
اُسے طوفان کی اک ضرب سے گرتے بھی دیکھا ہے
ہر اک دل میں انا ہے اور سب کو فکر ہے اپنی
ہے کس کا حال کیسا یہ کسے احساس ہوتا ہے
یہ ہجرِ یار کی راتیں پھر اُس پر کربِ تنہائی
اکیلا جاگتا رہتا ہوں سارا شہر سوتا ہے
مصائب زندگی کے جھیل جاؤں گا بہ آسانی
کہ مجھ کو حوصلہ دینے مرا غمخوار آیا ہے
ہر اِک یہ سوچتا ہے زندگی میری سنور جائے
ہے کتنی زندگی کس کی کسی نے کب یہ سوچا ہے
یہ تم سے کہہ دیا کس نے کہ میں خود کو نہیں سمجھا
کبھی کیا ظاہر و باطن میں میرے فرق پایا ہے
نہ مجھ کو شاعری پر فخر ہے اپنی نہ کچھ دعویٰ
جو ہے دل میں اُسے کر دوں بیاں بس یہ تمنّا ہے
بتا دے کاش کوئی نورؔ اُس کو یہ زبوں حالی
کہ اُس کے ہجر میں دامن مرا اشکوں سے بھیگا ہے
٭٭٭
اُس کے بغیر زیست ہماری وبال ہے
ہے دُور کیف دل میں غمِ لازوال ہے
کتنا ملال میرے تبسم میں ہے نہاں
دنیا کو کیا خبر جو مرے دل کا حال ہے
اوروں کے عیب ڈھونڈتا رہتا ہے جو بشر
کیا اپنی خامیوں کا اُسے کچھ خیال ہے
مُدت سے اُس کا حال یہی سن رہا ہوں
کیا جانے کیوں وہ چاند سا چہرہ نڈھال ہے
آیا جو وہ تو رنج طرب میں بدل گیا
وہ سوزِ ہجر اب ہے نہ دل میں ملال ہے
کہنے کو یوں تو ہیں مرے احباب سینکڑوں
مخلص ہے کون اِن میں پرکھنا مُحال ہے
اِس حُسنِ گلستاں میں ترا ہاتھ کچھ نہیں
یہ باغباں بہار کا سارا کمال ہے
دورِ عروج فضلِ خدا سے ہے اب قریب
کچھ دن کا اور نورؔ یہ عہدِ زوال ہے
٭٭٭
ماند پڑ جائے امیدوں کی کرن مشکل ہے
کرسکے کوئی یہ تاراج چمن مشکل ہے
جادۂ فکر و سخن میں وہ جہاں سے گزرا
مجھ کو پہنچائے وہاں ذوقِ سخن مشکل ہے
وہ جو رہتے ہیں تجسّس میں رہِ منزل کی
اُن پہ غالب ہو سرِ راہ تھکن مشکل ہے
یہ مری آہ یہ فریاد و فغاں لاحاصل
حکمراں اپنا بدل دیں یہ چلن مشکل ہے
دوست بن جائے عنادل کا جہاں پر صیّاد
ہو زمانے میں کہیں ایسا چمن مشکل ہے
تو اُدھر قید قفس میں ہے اِدھر میں بے بس
ایسے حالات میں ہو تجھ سے ملن مشکل ہے
اپنا رہبر ہے جو ناکام تو ہونے دو اُسے
ختم ہو جائے یہ منزل کی لگن مشکل ہے
نورؔ مل جائے جسے سنگِ درِ یار یہاں
اس کو ہو اور کسی در سے لگن مشکل ہے
٭٭٭
بخشا وہ اعتبار مجھے تیرے پیار نے
آیا ہوں تیرے در پہ مقدّر سنوارنے
پھولوں کا حُسن ان کو دوبارہ عطا کیا
آ کر شکست دی ہے خزاں کو بہار نے
لایا ہے کس مقام پہ تو میرِ کارواں
چہرے کو ڈھک دیا مرے گرد و غبار نے
قیدِ مُحال توڑ کے آ جا کسی طرح
تجھ کو کیا ہے یاد دلِ بے قرار نے
پہنچی ہے ایک آن میں بابِ قبول تک
جب بھی بھری ہے آہ کسی دل فگار نے
کوشش کے باوجود نکلنے نہ پاؤں گا
پابند کر دیا ہے تمہارے حصار نے
اُٹھّا ہے ایک شور گلستاں میں اُس گھڑی
زخمی کیا ہے جب بھی کسی گل کو خار نے
اے نورؔ مجھ کو ہو گئی نفرت گناہ سے
مجھ پر کرم کیا ہے یہ پروردگار نے
٭٭٭
طلب کو دل کی مسلسل سفر میں رہنے دے
حصولِ منزلِ مقصد نظر میں رہنے دے
فضا یہاں کی بھی آئے گی راس کب مجھ کو
مرے رفیق مجھے تو سفر میں رہنے دے
ثمر ملیں گے اِنہیں خوشنما گلوں سے تجھے
کھلے ہیں پھول جو اِن کو شجر میں رہنے دے
مرے وطن کے گلستاں اجاڑنے والے
کوئی تو منظرِ دلکش نظر میں رہنے دے
چھُپا کسی سے نہیں ہے غنیم گلشن کا
اگر یہ بات ہے گھر کی تو گھر میں رہنے دے
ہے تیرگی سے تجھے پیار یہ خبر ہے مجھے
کوئی چراغ تو اس رہگزر میں رہنے دے
میں تھک نہ جاؤں کہیں تیری پاسبانی سے
کبھی کبھی تو مجھے اپنے گھر میں رہنے دے
نہ جانے کس کی صدا عرش تک پہنچ جائے
مجھے شریک دعائے سحر میں رہنے دے
نکال دے گا تو ظلمت فروغ پائے گی
میں نورؔ ہوں وہ مجھے اِس نگر میں رہنے دے
٭٭٭
قدم قدم پہ جو پوچھے کہ خود روی کیا ہے
رہِ حیات میں پھر اُس کی آگہی کیا ہے
وہ لوگ آج بنے میرِ کارواں اپنے
جنھیں خبر ہی نہیں طرزِ رہبری کیا ہے
خطا کے بعد ندامت پھر اس کے بعد خطا
گناہ گار سمجھتا ہے گمرہی کیا ہے
یہاں تو واسطے رشتے سبھی ہیں مطلب کے
خلوص ہو تو خبر ہو کہ دوستی کیا ہے
ہوں بال و پر بھی سلامت مگر وہ اُڑ نہ سکے
عذابِ جاں ہے پرندے کی بے بسی کیا ہے
ذراسی دیر میں وقتِ ممات ہے آتا
بس ایک پل کے سوا اور زندگی کیا ہے
مری حیات کی بس ایک رازداں ہے یہی
نہ جانے اِس کے سوا اور شاعری کیا ہے
ہیں ساتھ ماں کی دعائیں خلوص کے رشتے
پھر اِس کے بعد بتا نورؔ اب کمی کیا ہے
٭٭٭
نہ دشمنی کا نہ معیار دوستی کا ہے
یہ انقلاب ہی موضوع شاعری کا ہے
سجانے والو اِسے سیم و زر سے یہ سوچو
بنا ہے خاک سے جو جسم خاک ہی کا ہے
زمانہ طنز کرے میری خاکساری پر
قصور اِس میں مرا کب ہے سادگی کا ہے
یہ کس کے قرب سے ہونے لگی ہے تاریکی
مری حیات سے رشتہ تو روشنی کا ہے
کیا ہے راز بیاں پھر بھی ہے وہ پوشیدہ
یہی تو فائدہ گونگوں سے دوستی کا ہے
در آئیں اِس میں زمانے کی تلخیاں ساری
مرے بیاں میں جو فقدان چاشنی کا ہے
سکوں کی آس میں اے نورؔ جس سے آئے تھے
وہ راستہ بھی تو مسدود واپسی کا ہے
٭٭٭
ایک شعر
جب بھی جہانِ علم پہ ڈالی ہے اِک نظر
پھر یہ پتہ چلا ہے میں کچھ جانتا نہیں
اک طرف تحقیر ہے اور اک طرف توقیر ہے
جو گیا جس کی طرف اُس کی وہی تقدیر ہے
اِس لئے میں آئینے کے سامنے جاتا نہیں
آئینے میں قید اک وحشت زدہ تصویر ہے
کس قدر کاتب کی اس سے ہے نمایاں بے بسی
یہ جو کاغذ میں لکھی اندوہ کی تحریر ہے
زندگانی میں غموں کا بار ہے دل پر بہت
اِس لئے میرے بیانِ درد میں تاثیر ہے
کر کے رخنہ عرش پر بابِ اثر تک جائے گا
جو مرے ٹوٹے ہوئے دل کی دعا کا تیر ہے
دل کے کہنے پر چلا جب بھی ملی ناکامیاں
کیسا یہ رہبر ہے میرا اور کیسا پیر ہے
نورؔ اُس کے ظلم کا دوں ظلم سے کیسے جواب
جب کہ ہاتھوں میں بندھی اخلاق کی زنجیر ہے
٭٭٭
ایک شعر
سفر حیات کا تنہا نہیں کیا میں نے
قدم قدم پہ رہا ہمسفر مرا سایہ
میری تنہائی کو مٹانے میرے جو غمخوار ہوئے
ساتھ رہا اک دل کا غم اور باقی سب بیزار ہوئے
اس کی رحمت کے صدقے سے زیست کے وہ بھی دن میرے
کیف و طرب میں گزرے ہیں سب ہستی پر جو بار ہوئے
بے پروائی اتنی برتی ہم نے اپنے ماضی میں
خود کو بے بس پایا کتنا خواب سے جب بیدار ہوئے
زیست میں میری پیچ و خم کا آنا اک معمول رہا
جب بھی چلا ہوں جانبِ منزل راہ میں حائل خار ہوئے
ہر غم ہنس کے جھیل لیا پھر ہنسنا ہی میں بھول گیا
زخموں پر جب نمک چھڑکنے کو اپنے تیار ہوئے
صبر کے پھل کی شیرینی کو بھی چکھنے کی خواہش میں
ہنس کے ہم نے نورؔ سہے ہیں جتنے دل پر وار ہوئے
٭٭٭
جشنِ آزادی کے اِن لمحاتِ شاداں کے لئے
رہ گئے ہیں چند آنسو ہی چراغاں کے لئے
بن کے چارہ ساز جو آئے تھے درماں کے لئے
ہیں وہ اب سب سے بڑا آزار انساں کے لئے
اک نظر خستہ مکانوں کی چھتوں پر بھی کریں
مانگتے ہیں جو دعائیں ابرِباراں کے لئے
یہ ہمارے پاؤں کے چھالے بتادیں گے تمھیں
کتنے صحراؤں سے گزرے ہیں گلستاں کے لئے
ظلمتیں اپنے وطن سے چھٹ تو سکتی ہیں مگر
اپنے اپنے دیپ لائیں سب چراغاں کے لئے
پڑھ رہے ہیں صاحبِ ثروت کے یہ بچّے جہاں
مفلسوں کے لعل کب ہیں اُس دبستاں کے لئے
کون سی نعمت ہے ایسی جو ہمیں بخشی نہیں
ہم نے لیکن کیا کِیا ایسے گلستاں کے لئے
تلخیِ حالات سے عاجز ہوا جو آدمی
بول کچھ میٹھے ہیں کافی اُس پریشاں کے لئے
عہدِ رفتہ اور کچھ تھا عہدِ حاضر ہے کچھ اور
یہ زمانہ ہے زمانہ ساز انساں کے لئے
ہے یہ بہتر چھوڑ دیں ہم کو ہمارے حال پر
آپ لائیں گے کہاں سے ظرف احساں کے لئے
جو ادب کا تھا دبستاں شاعری کی شان تھا
آج یہ محفل سجی ہے اُس سخنداں کے لئے
دھڑکنیں ہیں تیز دل کی اور لرزاں ہے بدن
ہے قدم پہلا مرا یہ کوئے جاناں کے لئے
شدّتِ غم نے تو دل کو پارہ پارہ کر دیا
روح اب بے چین ہے اے نورؔ درماں کے لئے
٭٭٭
ایک شعر
بچاتا ہے خدا اے نورؔ مجھ کو اپنی رحمت سے
مرے دشمن کی کوئی کامراں سازش نہیں ہوتی
{میری ماں }
میرے سکونِ دل کی ضمانت ہے میری ماں
صد قابلِ ستائش و مدحت ہے میری ماں
بے خوف ہو کے گھر سے نکلتا ہوں روز میں
میری دعائے خیر کی عادت ہے میری ماں
کرتی ہے جتنا خرچ یہ بڑھتی ہے اور بھی
کتنی عجیب پیار کی دولت ہے میری ماں
دنیا میں اس سے بڑھ کے کوئی اور شے نہیں
حاصل تجھے ہر اک پہ فضیلت ہے میری ماں
ہوتا ہے دل نہال مرا اُس کو دیکھ کر
میرے لئے تو وجہِ مسرّت ہے میری ماں
ہیں اُس کے دم قدم سے درخشاں یہ بام و در
دراصل اِس مکان کی زینت ہے میری ماں
دن رات اُس کا شکر ادا کر رہا ہوں میں
بخشی ہوئی خدا کی یہ نعمت ہے میری ماں
دشوار وقت کا بھی کیا ڈٹ کے سامنا
وہ حوصلہ وہ عزم وہ ہمت ہے میری ماں
پہنچایا سب کو علم کے ارفع مقام تک
بہنوں کی بھائیوں کی کفالت ہے میری ماں
بھائی بہن ہیں اور بھی اک نور ؔ ہی نہیں
سب کو تری دعا کی ضرورت ہے میری ماں
٭٭٭
سالگرہ مبارک
پیغامِ تہنیت
بہ سلسلہ جشنِ ولادت رباب عبدالصمدؔ
اے ہم سفر یہ تیری ولادت کا آج دن
لایا پیام کیف و مسرّت کا آج دن
یہ روزِ انبساط مبارک ہو اے عشالؔ
ہے یہ تمہارے واسطے مدحت کا آج دن
چہرے پہ والدین کے ہے کتنی دلکشی
ماں باپ کے لئے ہے سعادت کا آج دن
مل کر منائیں جشنِ ولادت نہ کیوں سبھی
الفت کا آج دن ہے یہ قربت کا آج دن
معمور ہو خوشی سے تمہاری یہ زندگی
ثابت ہو ہر لحاظ سے رحمت کا آج دن
لازم ہے ہم پہ شکر خدا کا ادا کریں
دراصل ہے یہ رب کی عنایت کا آج دن
خوش ہو رہے ہیں بھائی بہن تجھ کو دیکھ کر
ہر ایک کے لئے ہے مسرت کا آج دن
اپریل کا یہ ماہ مبارک ہے کس قدر
اے نورؔ ہے یہ کتنی محبت کا آج دن
اے نورؔ اس کی جتنی ستائش کریں ہے کم
یہ دن ہے ہر لحاظ سے بہجت کاآج دن
٭٭٭
غم ناک منظر
وہ اک غم ناک منظر تھا
مجھے جب یاد آتا ہے
میں سب کو بھول جاتا ہوں
مجھے جب یاد آتا ہے
گزرتے راہ سے میں نے
گُلِ خوش رنگ دیکھے تھے
کئی معصوم بچوں کے
نرالے ڈھنگ دیکھے تھے
نکل کر آرہے تھے طفل
کچھ اپنے دبستاں سے
کچھ ایسے بھی تھے اُن میں
دور تھے جو اِس دبستاں سے
کہیں شانوں پہ تھے بستے
کہیں کاندھوں پہ تھیلے تھے
کہیں لب پر تبسّم تھا
کہیں یہ بار تھیلے تھے
اُدھر بستے کتابوں کے
یہاں تھیلوں میں کچرا تھا
تبسّم تھا اُدھر لب پر
اِدھر ہونٹوں پہ تالا تھا
مری نظروں کے آگے یہ
بڑا غم ناک منظر تھا
نہ دیکھا جا رہا تھا مجھ سے
جو سفاک منظر تھا
یہ خواہش ہے مرے دل کی
کہ ہر بچے کے شانوں پر
کتابیں ہی کتابیں ہوں
نہ تھیلے ہوں یہ شانوں پر
یہ جو کچرا اُٹھاتے ہیں
غریبوں کے یہ بچے ہیں
اکڑ کر چل رہے ہیں جو
امیروں کے وہ بچے ہیں
غریبی کا گلہ کوئی
نہ قسمت سے شکایت ہے
مگن ہیں اپنی حالت پر
نہ راحت کی شکایت ہے
نہ جانے نورؔ کب آئے
مساوی دور ایسا بھی
نہ ہو چھوٹا بڑا کوئی
کبھی ہو کاش ایسا بھی
٭٭٭
میری کہانی
جوانی کی میری کہانی سنو تم
کہانی بھی میری زبانی سنو تم
بہَر گام وہ زہرِ غم پی رہی تھی
مری زیست جیسے بکھر سی رہی تھی
نہ دولت نہ شہرت نہ بنوا سکا گھر
مرے دل میں جب خواہشوں نے کیا گھر
وہی مجھ سے بچھڑا جسے چاہا میں نے
سکوں لمحہ بھر کو نہیں پایا میں نے
میں روتا رہا اور تڑپتا رہا ہوں
میں یادوں میں اُس کی سسکتا رہا ہوں
کیا غور میں نے کہ ایسا ہوا کیوں
زمانے کی نظروں میں رسوا ہوا کیوں
ہوئی اب خبر آس کچھ بھی نہیں ہے
گنہہ کے سوا پاس کچھ بھی نہیں ہے
خدا سے تعلّق کا حاصل سکوں ہے
محبت مجازی تو کارِ جنوں ہے
٭٭٭
سالگرہ مبارک
کیونکر نہ ہو یہ میرے لئے وجہِ مسرت
یہ دن تو مرے یار کا ہے یومِ ولادت
تا حشر رہے سلسلۂ جشنِ ولادت
آتا رہے ہر سال کا یہ روزِ مسرّت
ہر شخص کے لب پر ہے دعا عمر بڑی ہو
دن آج کا ہے تیرے لئے باعثِ رحمت
یہ دیکھ کے مسرور نہ ہو کیوں یہ مرا دل
ہر شخص مرے یار سے کرتا ہے محبت
اندازِ تکلّم ہو زمانے سے نرالا
حاصل تری گفتار کو ہو جائے عَذُوبت
آئے گا کٹھن موڑ اگر زیست میں کوئی
آئے گی ترے کام یہ ماں باپ کی خدمت
اے یار دعا نورؔ کی نکلی ہے یہ دل سے
ہر گام ترے ساتھ ہو اﷲ کی رحمت
٭٭٭
تشکر: جلیل حیدر لاشاری جن کے توسط سے اس کی فائل فراہم ہوئی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید