FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

’’بچوں کا اسلام‘‘ ہی سب پر بھاری ہے

 

بچوں کی دینی نظمیں

شاہین اقبال اثرؔ

 

 

 

 

 

 

یارب عظیم ہے تو

سب پر رحیم ہے تو

 

تعریف تجھ کو زیبا

توصیف میرا شیوہ

 

آنکھوں سے تو چھپا ہے

دل میں مگر بسا ہے

 

پھولوں میں تیری خوشبو

گلشن میں بس تو ہی تو

 

سورج میں نور تیرا

ہر جا طہور تیرا

 

تو ہی بزرگ و برتر

قادر ہر ایک شے پر

 

خالق ہے آسماں کا

مالک ہے دوجہاں کا

 

واحد ہے اور احد ہے

ناصر ہے اور صمد ہے

٭٭٭

 

 

 

یہ بادِ صبا کون چلاتا ہے، مرا رب

گلشن میں کلی کون کھلاتا ہے، مرا رب

 

مکھی کو بھلا شہد بنانے کا سلیقہ

تم خود ہی کہوں کون سکھاتا ہے، مرا رب

 

برساتا ہے بادل کو اثرؔ خشک زمیں پر

گل بوٹے کہوں کون اگاتا ہے، مرا رب

 

خوشحال کو خوشحال کیا کس نے بتاؤ

غمگین کا غم کون مٹا ہے، مرا رب

 

مانا کہ سما سکتا نہیں ارض و سما میں

پر ٹوٹے ہوئے دل میں سماتا ہے مرا رب

 

اک پردۂ شب کو گراتا ہے سرِ شام

سورج کا دیا کون جلاتا ہے، مرا رب

 

صحرا کو مزین وہ بناتا ہے جبل سے

گلشن کو بھی پھولوں سے سجاتا ہے مرا رب

 

خود کھانے و پینے سے مبرا و منزہ

گو سب کو کھلاتا ہے پلاتا ہے مرا رب

 

ہے کون جو حاکم ہے بلا شرکتِ غیرے

یہ نظم و نسق کون چلاتا ہے مرا رب

 

ستّار ہے عاصی کو وہ رسوا نہیں کرتا

بندے کے معائب کو چھپاتا ہے مرا رب

 

ولیوں سے کبھی خالی نہیں رہتی ہے دنیا

اک جائے تو دوجے کو بٹھاتا ہے مرا رب                   ٭٭٭

 

 

 

اثرؔ دل کی دنیا سجاتا ہے مولیٰ

جونہی دل میں تشریف لاتا ہے مولیٰ

 

نہ پیتا ہے مولیٰ نہ کھاتا ہے مولیٰ

کھلاتا ہے مولیٰ پلاتا ہے مولیٰ

 

اسی کے نہ گن گائیں بندے بھلا کیوں

کہ دیتا ہے مولیٰ کہ داتا ہے مولیٰ

 

نہ جب نیند آئے کرو یاد اسکو

کہ پھر نیند میٹھی سلاتا ہے مولیٰ

 

بھلے وقت میں تم اسے یاد رکھو

برے وقت میں کام آتا ہے مولیٰ

 

جو بندہ بڑھے کوئی بالشت بھر بھی

تو اک باہ خود کو بڑھاتا ہے مولیٰ

 

یہ خود اس نے اعلان فرما دیا ہے

دلِ منکسر میں سماتا ہے مولیٰ

 

جیئے جو نڈر ہو کے دنیا میں اس سے

تو عقبیٰ میں اس کو ڈراتا ہے مولیٰ

 

تو حیرت سے تکتی ہے چشمِ خرد بھی

کہ جب اپنی قدرت دکھاتا ہے مولیٰ

٭٭٭

 

 

 

خوش قسمتی ہے میری

کرتا ہوں حمد تیری

 

عالم میں یا الٰہی

ہے تیری بادشاہی

 

ہر ایک کا سہارا

مولیٰ ہے تو ہمارا

 

تیرے ہی سب سوالی

تو دوجہاں کا والی

 

کتنا کریم ہے تو

کتنا عظیم ہے تو

 

ہم پر بھی فضل کر دے

دامن خوشی سے بھر دے

 

علم و عمل عطا کر

جنت کا پھل عطا کر

٭٭٭

 

جو نیکوکار ہیں ان کو جزا اللہ دیتا ہے

جو بدکردار ہیں ان کو سزا اللہ دیتا ہے

 

وہی بادل بناتا ہے وہی برساتا ہے بارش

اثرؔ مردہ زمینوں کو جِلا اللہ دیتا ہے

 

جو ہیں بددین کیا جانیں وہ عفت اور عصمت کو

دلوں کو شرم آنکوں میں حیا اللہ دیتا ہے

 

یہ ٹیبلیٹ، اور انجکشن کبھی کرتے ہیں ری ایکشن

ہوا ثابت، مریضوں کو شفا اللہ دیتا ہے

 

کسان و کھیت، تخم و ہل نظر آتے ہیں گو فاعل

مگر رازق تو ہے مولیٰ، غذا اللہ دیتا ہے

 

بظاہر جگمگائیں قمقمے بجلی کے ظاہر کو

مگر باطن کو انوار و ضیا اللہ دیتا ہے

 

جو اس کے ذکر سے سرشار ہو جائے، تو سچ پوچھو

فقیری میں بھی شاہی کا مزہ اللہ دیتا ہے

 

تجلی جذب کی جس وقت گمراہوں پہ نازل ہو

وہ فاسق کو مقامِ اولیا اللہ دیتا ہے

 

کروں توصیف میں اس کی کہاں میری بساط اتنی

اثرؔ مجھ کو یہ الفاظِ ثنا اللہ دیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

عقل کرتی ہے دریافت کیا ہے خدا

عشق کہتا ہے دل میں چھپا ہے خدا

 

بے وفا اور ہرجائی سارا جہاں

با وفا ہے خدا با وفا ہے خدا

 

یاس کو پاس آنے نہ دینا کبھی

آس رکھنا سدا، آسرا ہے خدا

 

جو مصیبت کو ٹالے نہیں کوئی اور

صرف اور صرف مشکل کشا ہے خدا

 

ساری دنیا خدا ہی محتاج ہے

ساری دنیا کا حاجت روا ہے خدا

 

وہ جو حاضر ہے ناظر ہے موجود ہے

وہ خدا ہے خدا، وہ خدا ہے خدا

 

صرف جسموں کے افعال ہی سے نہیں

دل کے رازوں سے بھی آشنا ہے خدا

 

اس کو آتی نہیں ہے کبھی اونگھ بھی

از ازل تا ابد جاگتا ہے خدا

 

کس نے غفلت میں ڈالا ہے مجھ سے تجھے

غافل انسان سے پوچھتا ہے خدا

 

بندے کر دیں فراموش یہ اور بات

اپنے بندوں کو کب بھولتا ہے خدا

 

سارا عالم ہو ناراض کچھ غم نہیں

میرا مقصود تیری رضا ہے خدا

 

کوئی اس کی نگاہوں سے مخفی نہیں

ہر نفس ہر طرف دیکھتا ہے خدا

 

ناز کرتے ہیں جو مامتا پر، سنیں

بڑھ کے ماؤں سے بھی چاہتا ہے خدا

 

ڈر ہو موجِ حوادث کا کیونکر اثرؔ

میری ناؤ کا جب ناخدا ہے خدا

٭٭٭

 

 

 

یہ کہتا ہے سوزِ دروں رات دن

تری حمد لکھتا رہوں رات دن

 

تری فرمانبرداری مقصود ہو

تری ہی عبادت کروں رات دن

 

نہ مانوں کبھی نفس و شیطاں کی بات

ترے حکم ہی پر چلوں رات دن

 

ہو جب راحتِ جان تیرا حصول

جبھی پاؤں گا میں سکوں رات دن

 

ہو مقصودِ ہستی تری ہی طلب

تری جستجو میں پھروں رات دن

 

ترے نام پر موت آئے مجھے

ترا نام لے کر جیوں رات دن

 

اثرؔ کی سماعت کی چاہت یہی

کہ توصیف تیری سنوں رات دن

٭٭٭

 

 

 

بس اپنا شوق ہی پورا کرے گا

تری توصیف کوئی کیا کرے گا

 

بہت ہی دیر تک چوما کرے گا

خدا کا نام جب لکھا کرے گا

 

اُسی کو پائے گا کلیوں میں مخفی

اُسی کو پھول میں دیکھا کرے گا

 

اُسی کے ذکر سے ہو گی زباں تر

اُسی کو قلب میں رکھا کرے گا

 

اسے دیکھے گی ہر سو دیدۂ دل

نظر سے لاکھ وہ پردہ کرے گا

 

اسی کی چاہ میں توڑے کا دل کو

اسی کو ٹوٹ کر چاہا کرے گا

 

اُسی کو پائے گا خلوت میں اپنی

اسی کو ہر طرف ڈھونڈا کرے گا

 

اُسی کے واسطے ہو گا رضامند

اسی کے واسطے روٹھا کرے گا

 

کرے گا جو اجل کی نیند طاری

وہی محشر میں بھی زندہ کرے گا

 

اثرؔ بیمار ہو جائے کبھی جب

وہی امراض کو اچھا کرے گا

٭٭٭

 

تو چشمِ بصیرت عطا کر ہمیں

الٰہی ہدایت عطا کر ہمیں

 

ترے دیں پہ چلنے کی ہے آرزو

بس اب استقامت عطا کر ہمیں

 

نمازوں کا پابند ہم کو بنا

کہ ذوقِ عبادت عطا کر ہمیں

 

تری راہ میں ہم بھی قربان ہوں

خدارا شہادت عطا کر ہمیں

 

گناہوں سے ہم کو شقی مت بنا

عمل کی سعادت عطا کر ہمیں

 

زمانے میں نافذ ہو دینِ مبیں

زمیں کی خلافت عطا کر ہمیں

 

نبیﷺ سے محبت کا دعویٰ تو ہے

نبیﷺ کی اطاعت عطا کر ہمیں

 

تو دنیا میں حسنِ عمل سے نواز

اور عقبیٰ میں جنت عطا کر ہمیں

٭٭٭

 

گمرہی سے بچایئے یارب

حق کا رستہ دکھایئے یارب

 

ہر برائی چھڑایئے یارب

نیک مجھ کو بنایئے یارب

 

سب نمازیں پڑھوں جماعت سے

ایسی توفیق چاہیئے یارب

 

آپ رزاق آپ رازق ہیں

رزق میرا بڑھایئے یارب

 

زندگی بھر ہمیشہ سچ بولوں

جھوٹ سے اب بچایئے یارب

 

اپنی یادوں کے خوشنما گل سے

میرے دل کو سجایئے یارب

 

آپ کا گھر ہے جب شکتہ دل

میرے دل میں بھی آیئے یارب

٭٭٭

 

یا الٰہی رہِ حق دکھا دے ہمیں

اپنی منزل کا راہی بنا دے ہمیں

 

ہم کو لہو و لعب سے بچا اے کریم

شوق و ذوق اب فقط علم کا دے ہمیں

 

زندہ قوموں میں شامل ہو اپنا بھی نام

خوابِ غفلت سے یارب جگا دے ہمیں

 

جس سے سارا جہاں جگمگانے لگے

ایسا علم و عمل کا دیا دے ہمیں

 

قول اور فعل میں ہو نہ ہرگز تضاد

عالمِ با عمل تو بنا دے ہمیں

 

نام اغیار کا بدتر از زہر ہو

ذکر تیرا ہی یارب مزہ دے ہمیں

 

کر نہ محتاج ہم کو کسی غیر کا

دوسروں کا سہارا بنا دے ہمیں

 

لب ہلائیں نہ آنکھیں ملائیں کبھی

یوں بڑوں کا ادب تو سکھا دے ہمیں

 

ہوں وہ استاد، یا والدین، اے خدا

سب کی خدمت پیکر بنا دے ہمیں

 

ان کی ایک ایک سنت پہ ہم مر مٹیں

اس قدر الفتِ مصطفیﷺ دے ہمیں

 

ہم محبت تو کرتے ہیں سرکارﷺ سے

اب اطاعت کا خوگر بنا دے ہمیں

 

ہم ہیں نازک کلی گلشنِ دین کی

پھول ہم کو بنا پھر کھلا دے ہمیں

 

ضعفِ ایمان سے ہم ہیں بیمارِ ’’وھن‘‘

اس مرض سے الٰہی شفا دے ہمیں

 

غیر کی اب غلامی سے آزاد ہوں

جرات و ہمت و حوصلہ دے ہمیں

 

ہم زمانے میں مغلوب و مقہور ہیں

غلبۂ مسلمیں پھر دکھا دے ہمیں

 

جس سے اصحاب و اسلاف سرشار تھے

پھر وہی جذبۂ جانفزا دے ہمیں

 

 

ہم نے تجھ کو بھلایا بڑی بھول کی

تو نہ مولیٰ مگر اب بھلا دے ہمیں

 

حاصل اقبال ہو دوجہاں میں اثرؔ

ایسی پروازِ شاہیں خدا دے ہمیں

٭٭٭

 

ہو صورت نبیﷺ کی ہو سیرت نبیﷺ کی

اگر قلب میں ہے محبت نبیﷺ کی

 

اگر چاہتے ہیں شفاعت نبیﷺ کی

تو اپنایئے آپ سنت نبیﷺ کی

 

خدا کی محبت، محبت نبیﷺ کی

خدا کی اطاعت، اطاعت نبیﷺ کی

 

مری سنتوں کو تو لازم پکڑ لے

ہے ہر امتی کو نصیحت نبیﷺ کی

 

ہیں اس کے مقدر پہ نازاں فرشتے

جو خوش بخت رکھتا ہے نسبت نبیﷺ کی

 

قیامت تلک روزِ روشن کی مانند

مسلم ہے ختمِ نبوت نبیﷺ کی

 

یہ آنکھیں ہیں ان کی زیارت کی مشتاق

میسر تھی جن کو زیارت نبیﷺ کی

 

ہے قندیل شاہانِ دنیا کے حق میں

عدالت نبیﷺ کی سیاست نبیﷺ کی

 

حقیقت میں یہ فیضِ حبِ نبیﷺ ہے

اثرؔ کر رہا ہے جو مدحت نبیﷺ کی

٭٭٭

 

ہمارے نبیﷺ پر جو کیچڑ اچھالے

وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ بنا لے

 

جہنم رسید اس کو کر کے مسلماں

مرا مشورہ ہے تو جنت کما لے

 

بظاہر نظر آئیں گے گورے گورے

بباطن وہی ہیں مگر کالے کالے

 

جو چاند اور سورج سے آنکھیں چرائیں

فلک والے ان کو زمیں سے اٹھا لے

 

جہاں میں جو ہیں چھوٹے چھوٹے شیاطیں

جو طاغوتِ اکبر ہے وہ ان کو پالے

 

زیادہ پھدکتی ہے طاغوتی قوت

خدا صاف کر دے یہ مکڑی کے جالے

 

اب اے عاشقِ گلستانِ محمدﷺ

تو  گالوں پہ سنت کا سبزہ اُگا لے

 

اثرؔ دے وسیلہ تو محبوبِ رب کا

نہیں جائیں گے رائگاں تیرے نالے

٭٭٭

 

ایسی جان ہے، جانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم

کل عالم قربانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

حسان و رومی و جامی، سب ہی جہاں شرمندہ ہوں

ہم کیا لکھیں شانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

ساری امت، ساری عمر بھی گرچہ درودِ پاک پڑھے

ختم نہ ہو احسانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

دنیا، عقبیٰ، برزخ، محشر، ہر عالم میں اس کا ظہور

ہر جانب فیضانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

داڑھی کو تم لوگ بڑھاؤ مونچھوں کو باریک کرو

سن لیجے فرمانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

اہلِ دنیا جنتے بھی ہیں، بن جائیں سب اہلِ بہشت

بس یہ تھا ارمانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

مسلم، کافر، انساں، حیواں، سب ہی بہرہ مند ہوئے

برسا یوں بارانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

عاشق ہے اللہ کا جو، وہ بن جائے پیروئے نبیﷺ

ناطق ہے قرآنِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

قابلِ دید ہو وجدان و افکار کی موجوں کا منظر

مل جائے عنوانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم

٭‎٭٭

 

بن کے ہدایت چھائے محمد صلی اللہ علیہ و سلم

دنیا میں جب آئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

یارب میرا نام بھی لکھ دے ان کے چاہنے والوں میں

میں بھی ہوں شیدائے محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

بد اعمالی کی ہو معافی رحمتِ عالم کے صدقے

رحمت ہو مولائے محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

مسلم، مومن، مدحت خواں کیا، طفل و زن و پیر و جواں کیا

عالم ہے شیدائے محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

جس کی آبادی پر ساری دنیا محوِ رشک ہے آج

تھا وہ کبھی صحرائے محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

کفر و شرک و گمراہی کی تپتی دھوپ تھی دنیا میں

بادل بن کر چھائے محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 

پہنا ہے مدحت کا گہنا میری عظمت کا کیا کہنا

میں ہوں خاکِ پائے محمد صلی اللہ علیہ و سلم

٭٭٭

عید ہے

 

سجدوں سے چاند رات سجاؤ کہ عید ہے

اٹھو علی الصباح نہاؤ کہ عید ہے

 

اے دوست عیدگاہ کو آؤ کہ عید ہے

رب کے حضور سر کو جھکاؤ کہ عید ہے

 

خود اچھے اچھے کھانے پکاؤ کہ عید ہے

چولہا غریب کا بھی جلاؤ کہ عید ہے

 

مقہور مومنین کے حق میں دعا کرو

مت اپنے بھائیوں کو بھلاؤ کہ عید ہے

 

مت مولنا خوشی میں گناہوں کی گندگی

اب نیکیوں کا مال کماؤ کہ عید ہے

 

سینے میں کینہ رکھنا خدا کو نہیں پسند

روٹھے ہوؤں کو بڑھ کے مناؤ کہ عید ہے

 

وسعت جو دی ہے رب نے، سویاں، مٹھائیاں

خود کھاؤ دوسروں کو کھلاؤ کہ عید ہے

 

بعدِ مہِ صیام جو غفلت کا ہیں شکار

سوئے ہوئے دلوں کو جگاؤ کہ عید ہے

٭٭٭

عید آئی ہے

 

فضا جی بھر کے مسکرائی ہے

گھٹا عیش و طرب کی چھائی ہے

صبا چپکے سے گنگنائی ہے

عید آئی ہے، عید آئی ہے

 

سب سے ملتے ہیں اور ملاتے ہیں

روٹھے یاروں کو بھی مناتے ہیں

کیسا جھگڑا ہے کیا لڑائی ہے

عید آئی ہے، عید آئی ہے

 

رنج خوشیوں میں ڈھل گئے آخر

چندا ماموں نکل گئے آخر

میڈیا نے خبر نے سنائی ہے

عید آئی ہے، عید آئی ہے

 

حال مہنگائی نے بگاڑا ہے

گاہکوں کا ہوا کباڑا ہے

تاجروں کی ہوئی کمائی ہے

عید آئی ہے، عید آئی ہے

 

لاکھ خوشیوں کا وہ کریں چرچہ

ہے بزرگوں کا تو فقط خرچا

عید اطفال نے منائی ہے

عید آئی ہے، عید آئی ہے

 

اس میں فقراء کو بھلا دینا

اس میں شہداء کو بھلا دینا

بے وفائی ہے، بے وفائی ہے

عید آئی ہے، عید آئی ہے

٭٭٭

 

دل کسی کا نہ ہرگز دُکھایا کرو

بھول کر بھی نہ کعبے کو ڈھایا کرو

 

اس سے صدقے کا ملتا ہے بچو ثواب

مل کے مومن سے تم مسکرایا کرو

 

نیک بننے کا تم کو اگر شوق ہے

نیک لوگوں کی صحبت میں جایا کرو

 

علم کی سلطنت گر تمھیں چاہیئے

علم والوں کے تم ناز اٹھایا کرو

 

حرص دولت کمانے کی اچھی نہیں

گر کمانا ہے نیکی کمایا کرو

 

محفلِ دوستاں میں جو موقع ملے

علم و حکمت کے موتی لٹایا کرو

 

چغلخوروں سے اللہ ناراض ہے

تم کسی کی بھی چغلی نہ کھایا کرو

 

دن بھی پر کیف گزرے گا گر صبحِ دم

لطفِ ذکر و تلاوت اٹھایا کرو

 

لمحہ لمحہ ہے انسان کا قیمتی

وقت بے جا اثرؔ مت گنوایا کرو

٭٭٭

 

شیطاں کے شکنجے میں نہ آنا مرے بچو

عقبیٰ کو بہرطور سجانا مرے بچو

 

رہ جانا، نہ دنیا کے سرائے میں الجھ کر

جنت ہے مسلماں کا ٹھکانا مرے بچو

 

دینا ہے حساب آپ کو ایک ایک نفس کا

مت قیمتی اوقات گنوانا مرے بچو

 

مظلوم کی آہوں کی رسائی ہے خدا تک

بھولے سے کبھی ظلم نہ ڈھانا مرے بچو

 

ہے شوق اگر داخلۂ خلدِ بریں کا

ہرگز کبھی چغلی نہ لگانا بچو

 

کرنا نہ کبھی بات ذرا ان سے اکڑ کر

ماں باپ سے آنکھیں نہ ملانا مرے بچو

 

تب جا کہ کہیں علم کا سرمایہ ملے گا

استاد کے ہر ناز اٹھانا مرے بچو

 

ناغوں سے کبھی علم کی وسعت نہیں ملتی

پابندی سے تم مدرسے جانا مرے بچو

٭٭٭

 

کب تلک انتظار، اب چل چل

چھوڑ ویگن کو بس کو پیدل چل

 

بج گئی گھنٹی ہو گئی چھٹی

دل میں کیونکر نہ پھر مچے ہلچل

 

یادِ مولیٰ میں اشک برساتا

دشتِ دل کو بناتا جل تھل چل

 

راہِ طیبہ کی عظمتیں مت پوچھ

اس میں عاشق جبین کے بل چل

 

راستے میں ٹھہرنا کیا معنی

شوقِ منزل ہے تو مسلسل چل

 

جب اساں چل پئے تواڈے نال

فکر دی تینوں کی اے ہنڑ گل چل

 

ہم کو معلوم ہے کہ اونٹ رے اونٹ

تیری سیدھی نہیں کوئی کل، چل

 

وہ بھی مشتاق ہیں اثرؔ تیرے

جانبِ اشتیاق انکل چل

٭٭٭

پیارے بچو

 

پیارے بچو تم ایک کام کرو

ہر مسلمان کو سلام کرو

 

اب فقط کام کام کام کرو

روشن اپنے وطن کا نام کرو

 

یوں نہ ہو بعد میں ہو پچھتاوا

سوچ کر تول کر کلام کرو

 

ایک دن تم بھی محترم ہو گے

گر بزرگوں کا احترام کرو

 

ہر بھلائی کا اب کرو آغاز

ہر برائی کا اختتام کرو

 

نیک ارادوں کی اب کرو تکمیل

خواہشِ بد کا قتلِ عام کرو

 

اپنی دنیا تو کی، مزین خوب

آخرت کا بھی انتظام کرو

 

کام بن جائیں گے تمھارے سب

گر نمازوں کا اہتمام کرو

 

فکرِ تعلیم کو کیا لازم

ذکرِ حق کا بھی التزام کرو

٭٭٭

وعظ منظوم

 

تمھیں میرے بچو! یہ معلوم ہو گا

جو خادم ہے، اک دن وہ مخدوم ہو گا

 

جو اترائے اور خود پسندی دکھائے

بہرحال آخر کو محروم ہو گا

 

سزا پائے گا وہ بنے گا جو ظالم

جزا پائے گا وہ جو مظلوم ہو گا

 

نہ کیوں تلخ محسوس ہو شہدِ طاعت

معاصی سے دل جبکہ مسموم ہو گا

 

جو خوشیوں کے خالق کو ناراض کر دے

تو دل اس کا کیونکر نہ مغموم ہو گا

 

مذمت کرے گا محمدﷺ کی جو بھی

وہ دنیا و عقبیٰ میں مذموم ہو گا

 

اثرؔ جونپوری کی نظموں کی پہچان

کہ ہر شعر اک وعظ منظوم ہو گا

٭٭٭

 

 

دینِ اسلام کے سپاہی

 

دشمنانِ شبِ سیاہی ہیں

ہم کہ راہِ خدا کے راہی ہیں

کرگسو! سن لو بازِ شاہی ہیں

دینِ اسلام کے سپاہی ہیں

دشمنوں کے لئے تباہی ہیں

 

ہم کو تسلیم ہے کہ بچے ہیں

قول اور فعل کے تو سچے ہیں

یہ نہ سمجھے کوئی کہ کچے ہیں

دینِ اسلام کے سپاہی ہیں

دشمنوں کے لئے تباہی ہیں

 

نہیں رکھتے کسی کا ڈر ہم لوگ

ایسا رکھتے ہیں دل جگر ہم لوگ

رشکِ صد تیغ اور تبر ہم لوگ

دینِ اسلام کے سپاہی ہیں

دشمنوں کے لئے تباہی ہیں

 

ہم کو محبوب ہے وطن اپنا

جان سے پیارا ہے چمن اپنا

جب ہی تو ہے اثرؔ سخن اپنا

دینِ اسلام کے سپاہی ہیں

دشمنوں کے لئے تباہی ہیں

٭٭٭

ہم قوم کے معمار ہیں

 

ہم قوم کے معمار ہیں

غافل نہیں بیدار ہیں

با ہوش ہیں ہشیار ہیں

توحید سے سرشار ہیں

غیور ہیں خود دار ہیں

ہم قوم کے معمار ہیں

 

ہم پیکرِ جہد و عمل

پُر عزم مانندِ جبل

دشمن کے حق میں ہیں اجل

ہم جعفرِ طیارؓ ہیں

ہم قوم کے معمار ہیں

 

اہلِ حیا و شرم ہیں

مومن کے حق میں نرم ہیں

کافر کے حق میں گرم ہیں

اغیار سے بیزار ہیں

ہم قوم کے معمار ہیں

 

کب خود سے شرمندہ ہیں ہم

قندیلِ آئندہ ہیں ہم

زندہ تھے اور زندہ ہیں ہم

ہم ملتِ بیدار ہیں

ہم قوم کے معمار ہیں

 

اللہ کا احسان ہے

ہم سے وطن کی شان ہے

ہم ہی سے پاکستان ہے

بے خوف ہیں جی دار ہیں

ہم قوم کے معمار ہیں

٭٭٭

 

 

ہم محافظ عالمِ اسلام کے

 

ہم کہ عادی ہیں مسلسل کام کے

ہم نہیں قائل اثرؔ آرام کے

داعی ہیں اللہ کے پیغام کے

ہم محافظ عالمِ اسلام کے

 

ہوں نہ اب مایوس اب ہمت کریں

ہم اگر صبح و مسا محنت کریں

دن پھریں گے رنجش و آلام کے

ہم محافظ عالمِ اسلام کے

 

نامِ مولیٰ ہر نفس لیتے رہیں

دعوتِ دینِ مبیں دیتے رہیں

دامنِ حکم شریعت تھام کے

ہم محافظ عالمِ اسلام کے

 

کل جہاں کو حق کا اب پیغام دیں

کام جو ذمے ہے وہ انجام دیں

مستحق ہوں گے جبھی انعام کے

ہم محافظ عالمِ اسلام کے

 

ظلم کے طوفان کا رخ موڑ دیں

کفر کی شوکت کو یکسر توڑ دیں

دستِ غیبِ مقتدر کو تھام کے

ہم محافظ عالمِ اسلام کے

 

کام کا آغاز کر دیں ہم اثرؔ

چھوڑ دیں انجام کو اللہ پر

ہم محافظ عالمِ اسلام کے

ہم مکلف ہیں فقط اقدام کے

٭٭٭

ابو ابو داڑھی رکھ لیں

 

قرآں پڑھ کر گھر جب آیا

ابو کو بھی گھر پر پایا

اچھلا کودا رویا گایا

پھر منے نے شعر سنایا

ابو ابو داڑھی رکھ لیں

ذائقہ سنت کا بھی چکھ لیں

 

قاری صاحب نے فرمایا

داڑھی کو واجب بتلایا

پیار محبت سے سمجھایا

پھر ہم کو یہ شعر سنایا

ابو ابو داڑھی رکھ لیں

ذائقہ سنت کا بھی چکھ لیں

 

وقت ہوں ضائع خرچ ہو پیسے

داڑھی منڈائیں ایسے ویسے

میں بتلاؤں بات یہ کیسے

لگتے ہیں آپ امی جیسے

ابو ابو داڑھی رکھ لیں

ذائقہ سنت کا بھی چکھ لیں

 

پیارے آقاﷺ جیسی صورت

پیارے آقاﷺ جیسی سیرت

ملتی ہے داڑھی سے عزت

کر لیں ہمت کر لیں ہمت

ابو ابو داڑھی رکھ لیں

ذائقہ سنت کا بھی چکھ لیں

 

زندہ جب یہ سنت ہو گی

رحمت ہو گی برکت ہو گی

عقبیٰ میں بھی شفاعت ہو گی

دنیا میں بھی عزت ہو گی

ابو ابو داڑھی رکھ لیں

ذائقہ سنت کا بھی چکھ لیں

 

داڑھی وجہِ بخشائش ہے

مومن کی یہ آرائش ہے

دادی کی بھی یہ خواہش ہے

امی کی بھی فرمائش ہے

ابو ابو داڑھی رکھ لیں

ذائقہ سنت کا بھی چکھ لیں

٭٭٭

 

امی امی پردہ کر لیں

 

جب اسکول سے پڑھ کر آئی

کھائی پہلے دودھ ملائی

جان میں اس کی جان جب آئی

ننھی اسماء یوں چلائی

امی امی پردہ کر لیں

نیکی سے اب دامن بھر لیں

 

امی نے حیرت سے پوچھا

یہ سب تم نے کس سے سیکھا

دیکھا نہ بھالا سوچا نہ سمجھا

بس آتے ہی شور مچایا

امی امی پردہ کر لیں

نیکی سے اب دامن بھر لیں

 

ننھی اسماء فوراََ بولی

کہتی ہے میرے ہمجولی

جس نے زلف اور مورت کھولی

اس نے نارِ دوزخ مولی

امی امی پردہ کر لیں

نیکی سے اب دامن بھر لیں

 

میری مِس بھی یہ کہتی ہیں

عریانی میں جو بہتی ہیں

ظلم وہ جانوں پر سہتی ہیں

باپردہ ہی خوش رہتی ہیں

امی امی پردہ کر لیں

نیکی سے اب دامن بھر لیں

 

بندے جب چل کر آئیں گے

رب بھی اعانت فرمائیں گے

نانا بھی تحفہ لائیں گے

ابو بھی خوش ہو جائیں گے

امی امی پردہ کر لیں

نیکی سے اب دامن بھر لیں

 

فیشن کب تک زینت کب تک

راہ میں رُلتی عصمت کب تک

خطرے میں اب عفت کب تک

غیر کے بس میں غیرت کب تک

امی امی پردہ کر لیں

نیکی سے اب دامن بھر لیں

٭٭٭

بچوں کا اسلام٭

 

حافظ بن کر اکثر قرآں پڑھتے ہیں

خلدِ بریں کے زینوں پر یوں چڑھتے ہیں

بھولے سے بھی جھوٹ نہیں وہ گڑھتے ہیں

بچوں کا اسلام جو بچے پڑھتے ہیں

علم و عمل میں سب سے آگے بڑھتے ہیں

 

سارے جہاں میں صرف خدا سے ڈرتے ہیں

حکمِ خدا پر جیتے ہیں اور مرتے ہیں

عشقِ نبئ رحمت کا دم بھرتے ہیں

بچوں کا اسلام جو بچے پڑھتے ہیں

علم و عمل میں سب سے آگے بڑھتے ہیں

 

اماں ابا کی وہ خدمت کرتے ہیں

اپنے لئے سامانِ جنت کرتے ہیں

ان کے استاد ان پر شفقت کرتے ہیں

بچوں کا اسلام جو بچے پڑھتے ہیں

علم و عمل میں سب سے آگے بڑھتے ہیں

 

حاصل وہ اس درجہ لیاقت کرتے ہیں

اہلِ خرد بھی ان پر حیرت کرتے ہیں

بچپن سے تعمیرِ ملت کرتے ہیں

بچوں کا اسلام جو بچے پڑھتے ہیں

علم و عمل میں سب سے آگے بڑھتے ہیں

 

ٹی وی کے نزدیک نہیں وہ جاتے ہیں

گالی گلوچ سے خود کو خوب بچاتے ہیں

ظلم نہیں ہرگز وہ کسی پر ڈھاتے ہیں

بچوں کا اسلام جو بچے پڑھتے ہیں

علم و عمل میں سب سے آگے بڑھتے ہیں

 

اپنے بڑوں کا کہنا بھی وہ مانتے ہیں

حکم عدولی کرنا کب وہ جانتے ہیں

ضد اور بحث کو خوب برا گردانتے ہیں

بچوں کا اسلام جو بچے پڑھتے ہیں

علم و عمل میں سب سے آگے بڑھتے ہیں

 

چال چلن گو سیدھا سادھا رکھتے ہیں

پر معلوماتِ دین و دنیا رکھتے ہیں

کچھ کرنے کا دل میں جذبہ رکھتے ہیں

بچوں کا اسلام جو بچے پڑھتے ہیں

علم و عمل میں سب سے آگے بڑھتے ہیں

 

کیا بتلائیں دل میں کیا کیا رکھتے ہیں

حوصلہ ہمت اور ارادہ رکھتے ہیں

اپنے سلف سے رشتہ ناطہ رکھتے ہیں

بچوں کا اسلام جو بچے پڑھتے ہیں

علم و عمل میں سب سے آگے بڑھتے ہیں

٭٭٭

٭ جریدے کا نام

چچا اشتیاق

 

گو بندہ نہیں ہوں کسی کام کا

میں قاری ہوں ’’بچوں کے اسلام‘‘ کا

 

ہے بچوں کا اسلام مجھ کو پسند

جبھی میں نے لکھے ہیں یہ چند بند

 

بس اب چاپلوسی و صنعت کے بعد

میں مقصد پہ آتا ہوں مدحت کے بعد

 

ہے درخواست میری چچا اشتیاق

کہ مجھ کو ہے اس کا بڑا اشتیاق

 

مری نظم کو آپ شائع کریں

مری کاوشوں کو نہ ضائع کریں

 

یہ مانا بری میری تحریر ہے

کہ شاہیں کو اقبالِ تقصیر ہے

 

نہ لکھنے لکھانے کا کچھ ڈھنگ ہے

نہ پڑھنے پڑھانے کا کچھ ڈھنگ ہے

 

ہیں مانا کہ اشعار بھی عام سے

مگر مجھ کو رغبت جو ہے آم سے

 

جگہ اس جریدے میں کچھ آپ دیں

یہ احسان ہو گا مجھے چھاپ دیں

 

رسالے کی خاطر ضروری ہوں میں

کہ آخر اثرؔ جونپوری ہوں میں

٭٭٭

بچوں کا اسلام پڑھو تم

 

بچوں کا اسلام پڑھو تم

رحمانی احکام پڑھو تم

شیطاں ہے ناکام پڑھو تم

صبح پڑھو تم شام پڑھو تم

بچوں کا اسلام پڑھو تم

 

مت دہکاؤ اپنے دیدے

دیکھو مت شیطانی جریدے

اللہ کا پیغام پڑھو تم

بچوں کا اسلام پڑھو تم

 

گالی دو ہرگز نہ کسی کو

اچھی اچھی باتیں سیکھو

کیوں تہمت الزام پڑھو تم

بچوں کا اسلام پڑھو تم

 

دینِ حق پر مرنا ہے تو

دل کو منور کرنا ہے تو

مولیٰ کا انعام پڑھو تم

بچوں کا اسلام پڑھو تم

 

گمراہوں کی راہ سے بچنا

مظلوموں کی آہ سے بچنا

ظالم کا انجام پڑھو تم

بچوں کا اسلام پڑھو تم

٭٭٭

رحمت مہِ صیام

 

بندوں پہ ہے خدا کی عنایت مہِ صیام

برکت مہِ صیام ہے رحمت مہِ صیام

 

لیتا ہے ہم سے گرچہ مشقت مہِ صیام

دیتا بھی ہے بشارتِ جنت مہِ صیام

 

کرتا ہے دور عسرت و غربت مہِ صیام

لاتا ہے اپنے ساتھ سخاوت مہِ صیام

 

ذکر و دعا درود و تلاوت مہِ صیام

طاعت مہِ صیام عبادت مہِ صیام

 

روحانیت کو بخش دے طاقت مہِ صیام

ایمان کی بڑھائے حلاوت مہِ صیام

 

قدرِ مہِ صیام کا اندازہ ہو گا تب

صائم کی جب کرے شفاعت مہِ صیام

 

غیبت سے جھوٹ، چغلی و گالی گلوچ سے

کرتا ہے صائمیں کی حفاظت مہِ صیام

 

اہلِ ہوا کو کرتا ہے اہلِ صفا کی مثل

دیتا ہے عاصیوں کو ولایت مہِ صیام

 

کرتے ہیں روزہ خوری جو ماہِ صیام میں

کرتا ہے اثرؔ ان کو ملامت مہِ صیام

٭٭٭

برکت سمیٹو

 

گزارش ہے کہ میرے بھائی بیٹو

مہِ رمضان کی برکت سمیٹو

 

عبادت کے لئے باندھو کمر اب

اب اپنا بوریا بستر لپیٹو

 

بنا لو وقت کو تم کارآمد

زیادہ سو نہ اب بے وجہ لیٹو

 

خدا کو یاد کر کے تم شب و روز

خدائے پاک کی رحمت سمیٹو

 

پڑھو شب میں تراویح و تہجد

تلاوت کر کے بعدِ ظہر لیٹو

 

بنو اب خوگرِ جہدِ مسلسل

اے میری قوم کے جیدار بیٹو

 

بہت حد سے تجاوز کر چکے ہو

ذرا اندر کو اب ہو جاؤ پیٹو

 

گیارہ ماہ کے آخر تھکے ہو

ذرا آرام فرماؤ پلیٹو

٭٭٭

 

رمضان مبارک

 

 

رحمت کی گھٹا چھائی ہے ہر آن، مبارک

کل عالمِ اسلام کو رمضان مبارک

 

آزاد ہے روحانیتِ صاحب ایماں

پابند ہے زنجیر میں شیطان، مبارک

 

دشوار ہوئی ماہِ مبارک میں برائی

اور دین پہ چلنا ہوا آسان، مبارک

 

روزہ ہے گناہوں کے لئے ڈھال، بہرحال

سرکارِ دو عالم کا ہے فرمان مبارک

 

ایماں کو حسیں کر دیا رمضاں کی بدولت

اللہ تعالیٰ کا یہ احسان مبارک

 

طاعات و عبادات و مناجات، خوشابخت

اور سننا تراویح میں قرآن مبارک

 

فساق بھی عشاق کا پہنے ہیں لبادہ

رمضانِ مبارک کا یہ فیضان مبارک

 

بندوں پہ یہ لازم ہے اثرؔ قدر کریں خوب

آیا ہے خدا پاس سے مہمان مبارک

٭٭٭

آیا مہِ صیام

 

قلب و نظر کو روح کو بھایا مہِ صیام

پھر اک نرالی شان سے آیا مہِ صیام

 

بدبخت ہے وہ جس نے کہ روزے قضا کئے

خوش بخت ہے وہ جس نے کہ پایا مہِ صیام

 

خود سر چھپائے پھرنے لگی معصیت کی دھوپ

رحمت کا ابر بن کے جو چھایا مہِ صیام

 

ہرجائیوں میں، اہلِ وفا میں تمیز ہو

مولیٰ نے اس لئے بھی بنایا مہِ صیام

 

اس ماہ میں بھی رب کو جو راضی نہ کر سکا

بس یوں سمجھ لو اس نے گنوایا مہِ صیام

 

اس کو ہوا نصیب ولایت کا گلستاں

تقویٰ کے گُل سے جس نے سجایا مہِ صیام

 

بدلے میں بھوک پیاس کی برداشت کے اثرؔ

بخشش کا توشہ ساتھ ہی لایا مہِ صیام

٭٭٭

میٹھی میٹھی عید

 

یوں میٹھی میٹھی عید کی خوشیاں منائیں گے

پڑھ کر نماز، خوب سویاں اڑائیں گے

 

پہنیں گے زرق برق لبادے بصد خوشی

گھومیں پھریں گے، اچھلیں گے کودیں گے گائیں گے

 

بیٹھیں گے پشتِ اونٹ پہ ہو جائیں گے بلند

یوں سارے ہی محلے کے چکر لگائیں گے

 

آپس کی میل جول سے محظوظ ہوں گے سب

اک دوسرے کے گھر میں بھی آئیں گے جائیں گے

 

گھر میں جگہ نہ ہو تو کوئی بات ہی نہیں

ہم اپنے دوست، یار کو دل میں بٹھائیں گے

 

رکھیں گے یاد صدقہ و خیرات سے انہیں

محتاج کو غریب کو کیونکر بھلائیں گے

 

شہداء کو کریں گے فراموش کس طرح

وہ ہر قدم پہ ہم کو اثرؔ یاد آئیں گے

٭٭٭

 

 

 

بری بات ہے

 

 

غصہ کرنا بری بات ہے

یوں بپھرنا بری بات ہے

 

جب پڑوسی ہو بھوکا تو پھر

پیٹ بھرنا بری بات ہے

 

ظالموں سے خفا ہے خدا

ظلم کرنا بری بات ہے

 

وعدہ کر ہی لیا ہے تو اگر

پھر مکرنا بری بات ہے

 

ایک اللہ کا خوف ہو

سب سے ڈرنا بری بات ہے

 

خود کشی بزدلی ہے جناب

ایسے مرنا بری بات ہے

٭٭٭

 

سرکارﷺ کی سنت ہی پہ چلنا مرے بچو

بدلے یہ جہاں تم نہ بدلنا مرے بچو

 

کفار کی نقالی جہنم کا ہے رستہ

تم سانچۂ سنت ہی میں ڈھلنا مرے بچو

 

ابلیس تو انسان کا دشمن ہے ازل سے

ابلیس کے رستے پہ نہ چلنا مرے بچو

 

تم مول نہ لینا کبھی مولی کے غضب کو

آگے نہ کبھی حد سے نکلنا مرے بچو

 

ہیں بغض و حسد نارِ جہنم کی شعاعیں

ہرگز کسی بچے سے نہ جلنا مرے بچو

 

جو بچے کہ ضدی ہیں وہ اچھے نہیں ہوتے

اب تم نہ کسی شے پہ مچلنا مرے بچو

 

دنیا ہی میں عادات کو تم سنواروں

عقبیٰ میں کہیں ہاتھ نہ ملنا مرے بچو

 

غربت میں بھی کرنا نہ فراموش خودی کو

غیروں کے نوالوں پہ نہ پلنا مرے بچو

٭٭٭

ماں باپ کی خدمت سے دعا لو

 

ماں باپ کی خدمت سے دعا لو مرے بھائی

جنت میں محل اپنا بنا لو مرے بھائی

 

اللہ کو خوش کرتی ہے یہ خلق کی خدمت

گرنے جو لگے کوئی اٹھا لو مرے بھائی

 

ایمان کی شاخوں میں سے اک شاخ ہے یہ بھی

رستے میں جو کانٹا ہو اٹھا لو مرے بھائی

 

گر رحمت و برکت کی تمنا ہے تو سن لو

ٹی وی کی بَلا گھر سے نکالو مرے بھائی

 

گندے ہیں جو بچے نہ رہو ان کے کبھی ساتھ

اچھوں کو مگر دوست بنا لو مرے بھائی

 

یوں قبر میں لے جائے گی یہ کاہلی سستی

اب نیک ارادوں کو نہ ٹالو مرے بھائی

 

دنیا کی جو دولت ہے نہیں جائے گی ہمراہ

عقبیٰ کی کرنسی بھی کما لو مرے بھائی

٭٭٭

 

کرو میرے یار اسلام علیکم

بناؤ شعار اسلام علیکم

 

ملے جب بھی کوئی مسلمان تم کو

ہو بے اختیار اسلام علیکم

 

یہ نیکی ہے، نیکی میں سبقت ہے بہتر

ہے کیوں تم پہ بار اسلام علیکم

 

ہے کب نیکی محدودِ محراب و منبر

سرِ رہ گزار اسلام علیکم

 

مٹاتا ہے آپس کی بغض و عداوت

بڑھاتا ہے پیار اسلام علیکم

 

دعا ہے، دعاؤں سے شرمانا کیسا

بصد افتخار اسلام علیکم

 

نہ اکتاؤ تکرارِ سنت سے ہرگز

کرو بار بار اسلام علیکم

 

طوالت نہ کر دے نصیحت کو زحمت

کرو اختصار اسلام علیکم

٭٭٭

 

پلٹ کر جھپٹنا ہمیں یاد ہے

جھپٹ کر پلٹنا ہمیں یاد ہے

 

وہ بڑھتے چلے جانا میدان میں

وہ پیچھے نہ ہٹنا ہمیں یاد ہے

 

وہ شاہین کا کرگسِ ہند پر

گرجنا جھپٹنا ہمیں یاد ہے

 

عدو بھول جائے تو دیگر یہ بات

عدو سے نمٹنا ہمیں یاد ہے

 

ہمارے جواں مثلِ خورشید ہیں

اندھیروں کا چھٹنا ہمیں یاد ہے

 

وہ مرہون ہونا نہ ہتھیار کا

وہ بم بن کے پھٹنا ہمیں یاد ہے

 

سو ناموسِ اہلِ وطن کے لئے

سروں کا وہ کٹنا ہمیں یاد ہے

 

زبر کی بنا دینا لمحوں میں زیر

وہ بازی پلٹنا ہمیں یاد ہے

 

جو پھیلے ہمارے جواں تو اثرؔ

عدو کا سمٹنا ہمیں یاد ہے

٭٭٭

نمازوں کی جسے فرصت نہیں ہے

 

دلوں میں جذبۂ طاعت نہیں ہے

صلٰوۃ و صوم کی عادت نہیں ہے

اگرچہ اس میں کچھ محنت نہیں ہے

مگر دل میں اہمیت نہیں ہے

نمازوں کی جسے فرصت نہیں ہے

تو اس سا کوئی بدقسمت نہیں ہے

 

ہے یہ ترک الصلٰوہ ایسی برائی

کہ لگوائے گی مرقد میں پٹائی

نمازوں سے جو کتراتا ہے بھائی

وہ خود ہی طالبِ رحمت نہیں ہے

نمازوں کی جسے فرصت نہیں ہے

تو اس سا کوئی بدقسمت نہیں ہے

 

علاج اس کا نہیں ہے فنِ طب میں

گنوائے وقت جو لہو و لعِب میں

سکوں کیا آئے قلبِ مضطرب میں

کہ راضی خالقِ راحت نہیں ہے

نمازوں کی جسے فرصت نہیں ہے

تو اس سا کوئی بدقسمت نہیں ہے

 

بنا پھرتا ہے جو دنیا میں خود سر

جھکاتا ہی نہیں سر اس کے در پر

بھٹکتا پھرتا ہے جب ہی تو در در

کہ اس پر مہرباں قدرت نہیں ہے

نمازوں کی جسے فرصت نہیں ہے

تو اس سا کوئی بدقسمت نہیں ہے

٭٭٭

 

کھانا جب بھی کھانا تم

دسترخوان بچھانا تم

 

بسم اللہ کے پڑھنے کو

ہرگز بھول نہ جانا تم

 

جو ہو سب سے زیادہ بزرگ

اس سے شروع کرانا تم

 

گر جائے جو نوالہ تو

اس کو اٹھا کر کھانا تم

 

سنت زندہ کرنے میں

ہرگز مت شرمانا تم

 

کھانا جب اک قِسم کا ہو

سامنے ہی سے کھانا تم

 

کھانے پینے کی خاطر

دایاں ہاتھ بڑھانا تم

 

ہاتھ کو دھونا گٹوں تک

جب بھی کھانا کھانا تم

 

ٹیک لگا کر مت کھانا

اکڑوں بیٹھ کے کھانا تم

 

اپنے اٹھنے سے پہلے

دسترخوان اٹھانا تم

 

کھانے کے بارے میں کبھی

شکوہ نہ لب پر لانا تم

 

رزق کا اس میں ہے اکرام

جوتے اتار کے کھانا تم

 

کھانے کے جو برتن ہیں

کر کے صاف اٹھانا تم

 

چاٹنا اپنی انگلی کو

نورِ سنت پانا تم

٭٭٭

۷ستمبر یومِ ختمِ نبوت کے موقع پر

 

ممکن ہی نہیں ایسا کبھی ہو نہیں سکتا

دجال کا شاگرد نبی ہو نہیں سکتا

 

جس شخص میں ہو عقل کا ذرہ بھی، وہ ہرگز

دعویِ نبوت پہ جری ہو نہیں سکتا

 

اِس امتِ مسلم کے لئے مارِ آستیں

مرزائی سا دشمن تو کوئی ہو نہیں سکتا

 

دنیا میں گو مفرور کو مل جائیں پناہیں

عقبیٰ کی عدالت میں بری ہو نہیں سکتا

 

ناقابلِ تردید ہے مرزا کی جہالت

اس جیسا کوئی کند و غبی ہو نہیں سکتا

 

سرکارﷺ سے پہلے تو نبی آئے بہت سے

آقاﷺ کے مگر بعد نبی ہو نہیں سکتا

 

انکار کرے ختمِ نبوت کا کوئی گر

وہ کچھ بھی ہو، مومن تو کبھی ہو نہیں سکتا

 

مرتد کی سزا قتل ہے مرتد کی سزا قتل

قانون یہ تبدیل کبھی ہو نہیں سکتا

٭٭٭

جنت لوٹو

 

محنت کر کے جنت لوٹو

ماہِ صیام کی برکت لوٹو

 

جنت کے دروازے کھلے ہیں

اپنے رب کی نعمت لوٹو

 

قیمتی اس کی اک اک ساعت

اس کی اک اک ساعت لوٹو

 

اپناؤ تقویٰ کی بلندی

عظمت لوٹو رفعت لوٹو

 

سردی ہو گرمی رکھو روزے

کر کے مشقت راحت لوٹو

 

پہلا عشرہ، عشرۂ رحمت

غفلت چھوڑو رحمت لوٹو

 

دوسرا عشرہ عفو و کرم ہے

مانگو معافی قربت لوٹو

 

تیسرا عشرہ نار سے رخصت

خوش ہو جاؤ رخصت لوٹو

 

پھر ہیں عید الفطر کی خوشیاں

خوشیاں مناؤ فرحت لوٹو

٭٭٭

ماہِ صیام آیا

 

 

مہمان خاص، ماہِ صد احترام آیا

اور صرف تیس دن کا کرنے قیام آیا

اسلام کے مہینوں کا وہ امام آیا

تنویرِ صبح لے کر مہتابِ شام آیا

ماہِ صیام آیا ماہِ صیام آیا

 

بے شک ہے یہ مہینہ قربِ خدا کا زینہ

محبوب جس کو دل سے رکھتے شہِ مدینہ

تم جانتے ہو بچو ہے یہ وہی مہینہ

جس میں مرے نبیﷺ پر رب کا کلام آیا

ماہِ صیام آیا ماہِ صیام آیا

 

پیر و جواں سے لے کر اطفال پیارے پیارے

کہتے ہیں مرحبا سب مومن خوشی کے مارے

ہر سمت لگ رہے ہیں زہد و وریٰ کے نعرے

صبر و رضا کا لے کر زریں پیام آیا

ماہِ صیام آیا ماہِ صیام آیا

 

حفاظ پڑھ رہے ہیں قرآن کے سپارے

کتنا حسیں ہے منظر، کتنے حسیں نظارے

اب جس کو شوق ہو وہ تقدیر کو سنوارے

طاعات و ذکر کا وہ پُر کیف جام آیا

ماہِ صیام آیا ماہِ صیام آیا

 

آئے صیام کے دن، دن پھر گئے ہمارے

اب رشکِ آسماں ہیں اہلِ زمین سارے

لو اس کو دیکھتے ہی چھُپنے لگے ستارے

ماہِ صیام بن کر ماہِ تمام آیا

ماہِ صیام آیا ماہِ صیام آیا

 

رحمت کا پہلا عشرہ عجلت سے بیت جائے

پھر مغفرت کا عشرہ مانندِ ابر چھائے

پھر آگ سے خلاصی کا صائم کی وہ کرائے

سرعت سے جانے والا وہ تیز گام آیا

ماہِ صیام آیا ماہِ صیام آیا

 

ارمان نیکیوں کے دل کھول کر نکالو

دنیا کما چکے تم عقبیٰ بھی اب کما لو

ہے بہترین موقع خود کو اثرؔ سنبھالو

شیطاں بھی اس مہینے میں زیرِ دام آیا

ماہِ صیام آیا ماہِ صیام آیا

٭٭٭

 

 

 

رب کی رحمت عام ہے رمضان میں

کیف صبح و شام ہے رمضان میں

 

صاحبِ ایمان پر اللہ کا

کس قدر انعام ہے رمضان میں

 

کارِ دنیا مضمحل ہے ان دنوں

لب پہ رب کا نام ہے رمضان میں

 

فکرِ باطل پر لگی ہیں قدغنیں

ذکرِ حق ہر گام ہے رمضان میں

 

دکھ، پریشانی خیال و خواب ہیں

چین ہے آرام ہے رمضان میں

 

قید میں ابلیسِ سرکش ہی نہیں

نفس بھی ناکام ہے رمضان میں

 

تشنہ کامی کے لبادے میں اثرؔ

عشقِ حق کا جام ہے رمضان میں

٭٭٭

پانی پینے کی سنتیں

 

آج سنت پانی پینے کی بیاں کرتے ہیں ہم

اسوۂ شاہِ دو عالم کو عیاں کرتے ہیں ہم

 

پانی پینا دوستو سنت ہے دائیں ہاتھ سے

کیونکہ پانی پیتا ہے شیطان بائیں ہاتھ سے

 

گر کھڑے ہوں بیٹھ جائیں پانی پینے کے لئے

پڑھ کے بسم اللہ اٹھائیں، پانی پینے کے لئے

 

پی چکیں پانی تو پھر الحمدللہ بھی پڑھیں

ٹوٹے برتن کے کناروں کی طرف سے مت پیٗں

 

تین سانسوں میں پئیں پانی یہ ہے ذوقِ حضورﷺ

سانس لیتے وقت برتن منہ سے رکھیں دور دور

 

منہ لگا کر یوں بڑے برتن سے پانی مت پئیں

اس میں خطرہ ہے اچانک سانپ بچھو گر پڑیں

 

پی چکیں پانی تو پڑھ لیں پانی پینے کی دعا

سنتِ سرکار کی ہو پیروی صبح و مسا

٭٭٭

 

پیدا کر لیں جذبۂ خدمت

خدمت سے ملتی ہے جنت

 

چاہیں گر ربّا کی رحمت

خوب کریں ابا کی خدمت

 

چاہتے ہیں گر اچھی صحت

کرتے جائیں محنت محنت

 

مہماں تو ہوتے ہیں رحمت

مہماں کو مت سمجھیں زحمت

 

اس نعمت کی قدر کریں ہم

حاصل ہے گر ماں کی نعمت

 

وقت کو کام میں لانا سیکھیں

فرصت کو ہم جانیں غنیمت

 

اچھے بچے بننا ہے گر

چھوڑ دیں گالی، چغلی، غیبت

 

نیکی کرنے سے ہوتی ہے

رزق میں وسعت عمر میں برکت

 

رحم کریں مخلوقِ خدا پر

چاہیں گر اللہ کی رحمت

 

کوئی کام نہیں ہے مشکل

کر لیں اثر گر عزم و ہمت

٭٭٭

 

آؤ میرے دوستو کچھ کام کی باتیں کریں

یعنی اپنے دین کی اسلام کی باتیں کریں

 

دارِ فانی کے کھلونوں میں الجھنے کی بجائے

جنت الفردوس کے انعام کی باتیں کریں

 

سبز گنبد کا نظارہ جن کو حاصل ہو گیا

کس لئے کاغان اور کالام کی باتیں کریں

 

وقت ضائع مت کریں، کر کے سیاسی گفتگو

وقت ہو تو دین کے احکام کی باتیں کریں

 

دن حصولِ علم کی مشغولیت میں ہو تمام

رات ہو جائے تو پھر آرام کی باتیں کریں

 

مالٹا، کینو، موسمی کے مزے لوٹیں ابھی

موسمِ سرما میں کیونکر آم کی باتیں

 

غم اگر آئے تو اس پر صبر کر کے اجر لیں

کس لئے پھر گردشِ ایام کی باتیں کریں

 

کوڑا کرکٹ، گلی ڈنڈا میں بھلا رکھا ہے کیا

کھیل سے نظریں ہٹا کر کام کی باتیں کریں

 

قومِ مستحکم اگر بننا ہے ہم کو اے اثرؔ

ملکِ پاکستاں کے استحکام کی باتیں کریں

٭٭٭

 

ہے ارشادِ شاہِ امم

من لایَرحَم لایُرحَم

 

بد خلقی سامانِ نار

خوش اخلاقی زادِ ارم

 

خالق اس سے ناخوش ہے

خَلق پہ جو ڈھاتا ہے ستم

 

شفقت رحمت اپناؤ

غصہ اپنا کر دو کم

 

چھوٹی چھوٹی باتوں پر

کیوں ہوتے ہو یوں برہم

 

کوئی بھلائی اس میں نہیں

کرتا نہیں جو رحم و کرم

 

مومن کو تکلیف نہ دے

اپنی زباں یا اپنا قلم

 

زخم کسی کو دیں کیونکر

زخم پہ رکھیں ہم مرہم

 

سب کی خوشی ہو اپنی خوشی

سب کا غم ہو اپنا غم

 

بغض و عداوت مٹ جائے

الفت یوں رکھیں باہم

٭٭٭

 

میں بھی روزہ رکھوں گا

 

 

سچ کا دامن تھاموں گا

جھوٹ نہ ہرگز بولوں گا

حکم خدا کا مانوں گا

صبح سویرے اٹھوں گا

میں بھی روزہ رکھوں گا

 

صبح کو سحری کھاؤں گا

دن بھر خود کو بچاؤں گا

شام کو پیاس بجھاؤں گا

صبح سویرے اٹھوں گا

میں بھی روزہ رکھوں گا

 

سب نے شور مچایا ہے

ماہِ رمضاں آیا ہے

ابرِ رحمت چھایا ہے

صبح سویرے اٹھوں گا

میں بھی روزہ رکھوں گا

 

دنیا سے منہ موڑ کے اب

رب سے رشتہ جوڑ کے اب

کھیل تماشہ چھوڑ کے اب

صبح سویرے اٹھوں گا

میں بھی روزہ رکھوں گا

 

ناداں کیونکر ہو جاؤں

غفلت میں کیوں کھو جاؤں

رات ہوئی ہے سو جاؤں

صبح سویرے اٹھوں گا

میں بھی روزہ رکھوں گا                  ٭٭٭

 

حق تعالیٰ سے ڈرنے کا وقت آ گیا

گمرہوں کے سنورنے کا وقت آ گیا

 

کَشتیِ ماہِ رمضان ہے زندگی

ڈوبتوں کے ابھرنے کا وقت آ گیا

 

پھر شبِ قدر نزدیک تر ہو گئی

پھر ملائک اترنے کا وقت آ گیا

 

قلب خالی ہوا الفتِ مال سے

طشتِ اعمال بھرنے وقت آ گیا

 

ذکر سے سج گیا زنگ آلود دل

یعنی ایماں نکھرنے کا وقت آ گیا

 

قلب زندہ ہو روح شاداں ہوئی

نفس و شیطاں کے مرنے کا وقت آ گیا

 

معصیت کے مراکز ہیں ویران سب

اب مساجد کے بھرنے کا وقت آ گیا

 

گلشنِ دینِ حق پر بہار آ گئی

باغِ ایماں میں چرنے کا وقت آ گیا

 

سوچنے اور سمجھنے کا موقع نہیں

اب اثرؔ کر گزرنے کا وقت آ گیا

٭٭٭

 

پلک بھی جھپکنے سے ڈرتے ہیں ہم

شبِ قدر کی قدر کرتے ہیں ہم

 

دعا رب سے رو کر جو کرتے ہیں ہم

تو دامن عطاؤں سے بھرتے ہیں ہم

 

ادا ہوں حقوق و فرائض یہاں

کہ محشر کی پیشی سے ڈرتے ہیں ہم

 

ہوں جب بھی کبھی غفلتوں کا شکار

فلک سے زمیں پر اترتے ہیں ہم

 

بڑھیں کیوں نہ ذکر و عبادات میں

دم عشقِ الٰہی کا بھرتے ہیں ہم

 

تجھے بھول جائیں تو لگ جائے زنگ

تجھے یاد کر کے نکھرتے ہیں ہم

 

درِ حق تعالیٰ کی تحصیل کو

رہِ مصطفیﷺ سے گزرتے ہیں ہم

 

کبھی غفلتوں سے ہوں بدحال تو

ترا نام لے کر سنورتے ہیں ہم

٭٭٭

چاند عید الفطر کا نکلا مبارک ہو

 

نئی ٹوپی مبارک ہو نیا کرتا مبارک ہو

نئی عینک مبارک ہو نیا جوڑا مبارک ہو

 

تمھیں روزے مہِ رمضان میں رکھنا مبارک ہو

لباسِ سنت و زہد و غمِ تقویٰ مبارک ہو

 

خدا کے حکم سے منہ بند رکھا اک مہینے تک

مہینے بعد تم کو منہ کا یہ کھلنا مبارک ہو

 

رسائی منزلِ خلدِ بریں کی اب یقینی ہے

مبارک، سنتِ سرکارﷺ پر چلنا مبارک ہو

 

نئے کپڑے پہن کر اور سویاں کھا کے میداں میں

جماعت سے نمازِ عید کا پڑھنا مبارک ہو

 

رہو محفوظ چشمِ بد سے تم اے پھول سے بچو

بروزِ عید پھولوں کی طرح کھلنا مبارک ہو

 

مگر اس میں غریبوں کا بھی استحقاق ہے پیارے

ملی عیدی مبارک ہو نیا روپیہ مبارک ہو

 

پرانے چاند کو تم الوداع اک بار پھر کہہ دو

مرے چندہ سنو تم کو نیا چندہ مبارک ہو

 

منڈا کر سر بِنا ٹوپی جو ہم نکلے تو سب بولے

کہ دیکھو چاند عید الفطر کا نکلا مبارک ہو

٭٭٭

 

دکھلاتی ہے راہِ جنت

پیارے نبیﷺ کی پیاری سنت

 

سنت ہے فطرت کا تقاضا

سنت میں ہے پنہاں راحت

 

سنت اپناؤ بہ تکلف

بن جائے گی پھر وہ عادت

 

عصیاں سے ہو جائے نفرت

نیکی کی ہو جائے رغبت

 

لب پر ورد درودوں کا ہو

دل میں ہو آقاﷺ کی الفت

 

استادوں کا کہنا مانو

چاہتے ہو گر علم کی دولت

 

خاکِ پائے آقاﷺ بننا

سچ ہے غلاموں کی ہے سعادت

 

بسم اللہ پڑھو گر پہلے

ہو گی پھر ہر کام میں برکت

 

موت سے مت گھبراؤ پیارو

مانگو اپنے رب سے شہادت

 

سنت کے سانچے میں ڈھالو

ظاہر باطن صورت سیرت

 

ہو گی پھر ملاقات اثرؔ سے

اچھا بچو اب دو اجازت       ٭٭٭

 

جو اکیلا ہے اور یکتا ہے

کبریائی اسی کو زیبا ہے

 

خَلق محتاج اور غنی خالق

سب کو دیتا ہے سب کا داتا ہے

 

اس کی چاہت کا نام ہی ہے وجود

جو بھی وہ چاہتا ہے کرتا ہے

 

پیار کا مستحق وہی مولیٰ

سب پیاروں سے بڑھ کے پیارا ہے

 

ہم یہ کہتے ہیں، ہے اسی کا دل

دل یہ کہتا ہے وہ ہمارا ہے

 

صرف فریاد اور فغاں کو نہیں

دل کی آواز کو بھی سنتا ہے

 

لاکھ پردوں میں وہ چھپا ہے مگر

دیدۂ دل نے اس کو دیکھا ہے

 

وسعتِ کائنات تنگ اسے

قلبِ خستہ میں وہ سماتا ہے

 

اس کا دل بھی ہے نور سے معمور

جس کی پیشانی وقفِ سجدہ ہے

٭٭٭

 

اپنی آنکھوں کو مت خراب کرو

ٹی وی و ڈش سے اجتناب کرو

 

مثل کرگس بنو نہ مردہ خور

خود کو اے دوستو عقاب کرو

 

طفلی پیری زمانِ ناقص ہیں

ذاتِ حق پر فدا شباب کرو

 

دوسروں کا محاسبہ کب تک

کبھی اپنا بھی احتساب کرو

 

خار کو بھی چھپا لو دامن میں

پیرویِ رہِ گلاب کرو

 

راہِ حق پر ہو گامزن ہر دم

بند بے رہروی کا باب کرو

 

ابو امی کو دیکھو رحمت سے

حاصل اک حج کا یوں ثواب کرو

 

اہلِ حق کی دلیل بن کر اب

اہلِ باطل کو لاجواب کرو

٭٭٭

سجدے میں مشغول ہوں ہم

 

سجدے میں مشغول ہوں ہم

جس دم اپنا نکلے دم

 

موند لیں اپنی آنکھیں ہم

جب ہو مقابل نامحرم

 

اہلِ علم کی مجلس میں

سنو زیادہ بولو کم

 

دنیا میں مشغول نہ ہو

چاہتے ہو گر ملکِ ارم

 

علم کی موتی برسیں جب

تھام لو کاغذ اور قلم

 

جانو اہلِ علم کی قدر

مت سمجھو تم ان کو کم

 

علم نہیں تو کچھ بھی نہیں

عالِم ہے جانِ عالَم

 

اپنے خدا کو خوش رکھیں

لگ جائے بس ایک ہی غم

٭٭٭

عمر رضی اللہ عنہ کا نام

 

اسلام کے عمود میں شامل عمر کا نام

ہے داخلینِ خلد میں داخل عمر کا نام

 

تحریر کیا کرے کوئی اوصاف آپ کے

ہے آبِ زر سے لکھنے کے قابل عمر کا نام

 

لیتی ببانگِ دہل ہے اسمِ عمر زباں

جپتا ہے چپکے چپکے مرا دل عمر کا نام

 

فاروق ہی تھے فارِق مابینِ حق و بطل

گویا بھنور کے درمیاں ساحل عمر کا نام

 

نادان ہیں وہ جو کرتے ہیں تنقید آپؓ پر

لیتے ہیں احترام سے عاقل عمر کا نام

 

انصاف اور عدل کی تاریخ ہیں عمر

تاریخ میں ہے منصف و عادل عمر کا نام

 

آتا ہے یاد دبدبہ اسلام کا اسے

سنتے ہی کانپ جاتا ہے باطل عمر کا نام

 

ابلیس ان کی راہ میں آئے تو کس طرح

ابلیس کے لئے تو ہے قاتل عمر کا نام

 

اصحاب بالعموم بھی ہیں جبکہ کالنجوم

پھر کس لئے نہ ہو مہِ کامل عمر کا نام

٭٭٭

 

جو ماہِ محرم میں مغموم ہے

محرم کی برکت سے محروم ہے

 

شہادت پہ پھر اشکباری ہے کیوں

شہادت کہیں فعلِ مذموم ہے

 

شہادت سعادت پئے مسلمیں

فضیلت شہادت کی معلوم ہے

 

اسی دم شہیدوں کی ہوں مغفرت

کہ جس دم گرے خونِ معصوم ہے

 

جو مولیٰ کی خاطر فنا ہو گیا

وہ مولیٰ کی جانب سے مرحوم ہے

 

جو ہے خادمِ صادقِ بوترابؓ

وہ میری نگاہوں میں مخدوم ہے

 

اثرؔ جونپوری کا ہر شعر ہی

حقیقت میں اک وعظِ منظوم ہے

٭٭٭

 

گلشن میں تجھے دیکھا صحرا میں تجھے دیکھا

موجوں میں تجھے پایا دریا میں تجھے دیکھا

 

گو دیدۂ سر سے تو دیدار ہے ناممکن

پر قلب کی آنکھوں نے دنیا میں تجھے دیکھا

 

 

دینِ حق دینِ اسلام

 

 

دینِ حق دینِ اسلام

تاریکی میں ہر اقدام

قلب مشوِّش ہر ہر گام

منزل سے محروم تمام

لامذہب ہیں تشنہ کام

دینِ حق دینِ اسلام

 

رزق خدا کا کھاتے ہیں

گن ابلیس کے گاتے ہیں

دنیا میں پھیلاتے ہیں

اہلِ باطل فکرِ خام

دینِ حق دینِ اسلام

 

خلد کا شیریں جام لکھا

قسمت میں اسلام لکھا

دل میں اپنا نام لکھا

ہم پر مولیٰ کا انعام

دینِ حق دینِ اسلام

 

دیتا ہے پر لطف حیات

سکھلاتا ہے اچھی بات

دکھلاتا ہے راہِ نجات

قابلِ تقلید اس کا نظام

دینِ حق دینِ اسلام

 

جب سے کی قربان خوشی

ملتی ہے انجان خوشی

دل میں ہے ہر آن خوشی

لب پر ہر دم رب کا نام

دینِ حق دینِ اسلام

 

جب سے فدا ہے تجھ پہ اثرؔ

برف سی رکھی ہے دل پر

رب کی رضا میں ہے مُضمَر

چین سکوں راحت آرام

دینِ حق دینِ اسلام

٭٭٭

 

حق ہی غالب آئے گا

 

حق ہی غالب آئے گا

جب بھی مقابل آئے گا

لڑ کے عدو پچھتائے گا

اپنے منہ کی کھائے گا

باطل تو مٹ جائے گا

حق ہی غالب آئے گا

 

لاکھ جلے دشمن لیکن

مٹ جائے حق ناممکن

سارے عالم میں اک دن

پرچمِ حق لہرائے گا

حق ہی غالب آئے گا

 

یاس نہ آئے محکومو

راہِ خدا کے مظلومو

بڑھ کر دار کو اب چومو

فتح کا در کھل جائے گا

حق ہی غالب آئے گا

 

مومن کا ایمان ہے یہ

مولیٰ کا فرمان ہے یہ

قرآں کا اعلان ہے یہ

باطل تو مٹ جائے گا

حق ہی غالب آئے گا

 

دنیا سے مٹ جائے گی

کفر و شرک کی تاریکی

اک دن سارا عالم ہی

ایماں کے گن گائے گا

حق ہی غالب آئے گا

٭٭٭

ہم تو روزہ رکھیں گے

 

مرغا ہو یا مرغی ہو

انڈا ہو یا زردی ہو

ہم کو اس سے کیا مطلب

گرمی ہو یا سردی ہو

ہم تو روزہ رکھیں گے

ذائقہ پیاس کا چکھیں گے

 

دن ہوں چھوٹے یا کہ بڑے

وقتِ سحر ہم ہوں گے کھڑے

چاہے میچ کے بعد ہمیں

چھ چھ گھنٹے سونا پڑے

ہم تو روزہ رکھیں گے

ذائقہ پیاس کا چکھیں گے

 

ہو جائیں گے حق پہ فدا

رب کی عبادت ہو گی ادا

بندوں پر تعمیل ہے فرض

حکمِ خدا ہے حکمِ خدا

ہم تو روزہ رکھیں گے

ذائقہ پیاس کا چکھیں گے

 

ثابت ہوں یا ٹوٹے ہوں

بچے ہوں یا چھوٹے ہوں

ہم کو کب ہے اس سے غرض

دُبلے ہوں یا موٹے ہوں

ہم تو روزہ رکھیں گے

ذائقہ پیاس کا چکھیں گے

 

کتنی ہی گرمی چھائی ہو

چاہے جون جولائی ہو

خالقِ جان پہ دیں گے جاں

جان پہ گو بن آئی ہو

ہم تو روزہ رکھیں گے

ذائقہ پیاس کا چکھیں گے

 

باز آئے ہم چوری سے

بیجا سینہ زوری سے

سچے دل سے کرتے ہیں

توبہ روزہ خوری سے

ہم تو روزہ رکھیں گے

ذائقہ پیاس کا چکھیں گے

 

دنیا کس کا ٹھکانہ ہے

سب کو عقبیٰ جانا ہے

گرچہ کھوئیں جان بھی ہم

ہم کو جنت پانا ہے

ہم تو روزہ رکھیں گے

ذائقہ پیاس کا چکھیں گے

٭٭٭

 

جب نوید پاتے ہیں عید آنے والی ہے

بچے چہچہاتے ہیں عید آنے والی ہے

 

خار منہ چھپاتے ہیں عید آنے والی ہے

پھول لہلہاتے ہیں عید آنے والی ہے

 

دوست اور یاروں میں گر نہیں ملے کوئی

خود ہی گنگناتے ہیں عید آنے والی ہے

 

ہاتھ سے تو ہاتھ آخر مِل رہے ہیں برسوں سے

دل سے دل ملاتے ہیں عید آنے والی ہے

 

لے کے لاٹھی دادا جی ان کی گت بناتے ہیں

شور جو مچاتے ہیں عید آنے والی ہے

 

اشک آستینوں میں جذب ہوتے جاتے ہیں

بِچھڑے یاد آتے ہیں عید آنے والی ہے

 

سال بھر تو گزرا ہے کرب و آزمائش میں

آؤ مسکراتے ہیں عید آنے والی ہے

 

بچے یاد رکھتے ہیں ایک ایک دن لیکن

بوڑھے بھول جاتے ہیں عید آنے والی ہے

٭٭٭

بچوں کا اسلام‘‘ ہی سب پر بھاری ہے

 

بچوں کا اسلام‘‘ کا جو بھی قاری ہے

بچوں کا اسلام‘‘ پہ دل سے واری ہے

بچوں کا اسلام‘‘ سے ایسی یاری ہے

بچوں کا اسلام‘‘ ہی سب پر بھاری ہے

 

بچوں کا اسلام‘‘ ہے یکتا شان میں اب

بات یہی ہے ملکِ پاکستان میں اب

جتنے جریدوں کی بھی اشاعت جاری ہے

بچوں کا اسلام‘‘ ہی سب پر بھاری ہے

 

بچوں اور بڑوں کا یکساں آئیڈیل

کیوں نہ بنائے اس کو انساں آئیڈیل

اس کی ہر تحریر ہی ایسی پیاری ہے

بچوں کا اسلام‘‘ ہی سب پر بھاری ہے

 

رشکِ شمس و ماہ و انجم سینچری

اس نے مکمل کر لی پنجُم سینچری

آخرکار رسالہ ہی معیاری ہے

بچوں کا اسلام‘‘ ہی سب پر بھاری ہے

 

خلدِ بریں کی راہ دکھاتا ہے سب کو

خوابِ غفلت سے یہ جگاتا ہے سب کو

اس کا مقصد ہی پیغامِ بیداری ہے

بچوں کا اسلام‘‘ ہی سب پر بھاری ہے

 

ون ڈے ہی میں پڑھ لیتے ہیں ہر ہر باب

مَنڈے ہی سے مُنڈے رہتے ہیں بیتاب

سیٹرڈے سے سنڈے کی تیاری ہے

’’بچوں کا اسلام‘‘ ہی سب پر بھاری ہے

 

گاؤں میں شہروں میں یکساں عام ہے یہ

سارے پھلوں میں گویا مثلِ آم ہے یہ

نو برسوں سے قائم یہ سرداری ہے

بچوں کا اسلام‘‘ ہی سب پر بھاری ہے

 

ٹھیک نشانے پر لگتا ہے اس کا تیر

وار اثرؔ اس کا ہے مانندِ شمشیر

اہلِ قلم پر جب ہی دہشت طاری ہے

بچوں کا اسلام‘‘ ہی سب پر بھاری ہے

٭٭٭

 

میں بھی مدینے جاؤں گا

 

اشک اتنے برساؤں گا

بحرِ عرب بنواؤں گا

خود کو اس میں بہاؤں گا

میں بھی مدینے جاؤں گا

 

دیکھ لوں جیتے جی سرکارﷺ

روضۂ اطہر بس اک بار

پھر نہیں واپس آؤں گا

میں بھی مدینے جاؤں گا

 

جمع کئے ہیں جو سکّے

کم ہوں وہ تو خود بِک کے

زادِ سفر میں پاؤں گا

میں بھی مدینے جاؤں گا

 

اپنے کھلونے سب دے کر

امی ابو کو لے کر

چپکے سے اُڑ جاؤں گا

میں بھی مدینے جاؤں گا

 

میں توصیف رسالت کو

پیارے نبیﷺ کی مدحت کو

لفظ کہاں سے لاؤں گا

میں بھی مدینے جاؤں گا

 

فرقت کی ہے رات تو کیا

خستہ ہیں حالات تو کیا

ایک ہی جست لگاؤں گا

میں بھی مدینے جاؤں گا

 

ایک ہی خواہش ہے کہ اثرؔ

روضہ پر حاضر ہو کر

نعت آقاﷺ کو سناؤں گا

میں بھی مدینے جاؤں گا

٭٭٭

 

ہوں شائق حضوریِ دربار کا

میں ننھا سا عاشق ہوں سرکار ﷺ کا

 

مرے دل میں عشقِ نبیﷺ ہے مگر

سلیقہ نہیں مجھ میں اظہار کا

 

ہے سارے جہاں پر حکومت مری

رعایا ہوں میں شاہِ ابرارﷺ کا

 

درِ شاہِ بطحہٰ کی بن جاؤں خاک

مجھے غم نہیں کوئی گھر بار کا

 

عطا ہو گا اذنِ حضوری مجھے

سو دامن بھرے گا طلبگار کا

 

مری افسری ہے مسلم جبھی

میں نوکر ہو نبیوں کے سردار کا

 

نگاہیں ہوں میری بھی روشن اثرؔ

نظارہ کروں شہرِ انوار کا

٭٭٭

ماخذ:

http://www.bazm.org/category/bachoonkinazmain

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید