فہرست مضامین [show]
دیس بدیس کی کہانیاں
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
خطرناک منصوبہ
اس کتاب کا نام تھا دی ہول یعنی سوراخ۔ آندرے باجن جیل کی لائبریری سے یہ کتاب وقت گزارنے کے لیے آیا تھا، مگر جب آندرے نے اس کتاب کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو اس کے دل و دماغ میں زندگی کی ایک نئی امنگ، ایک نئی لہر اٹھنے لگی، وہ خوشی کی ایک نئی ترنگ اپنے آپ میں محسوس کرنے لگا کیوں کہ یہ ناول کچھ ایسے قیدیوں کے بارے میں تھا جو جیل خانے کی قید سے فرار ہو جانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
آندرے باجن جیل میں تھا مگر وہ مجرم ہرگز نہیں تھا۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن سپاہیوں کے ہاتھوں قید ہو کر قیدی کی زندگی گزار رہا تھا۔ یہ جرمنی کی سب سے بدنام زمانہ جیل تھی۔ باجن لال سپاہی کے نام سے گوریلا گروپس سے تعلق رکھتا تھا۔ اس گروپس کے ایک ایک کر کے کئی سپاہی جیل میں آچکے تھے۔ یہ جیل برلن کے دیہاتی علاقے میں تھا۔
جیل خانے کی عمارت اس قدر مضبوط بنائی گئی تھی کہ یہاں سے کسی بھی قیدی کا بھاگ نکلنا یا فرار ہو جانا ممکن ہی نہیں تھا۔ سب ہی قیدی دل ہی دل میں دعائیں کرتے کہ کسی طرح جیل کی مضبوط بلند دیواریں گر جائیں اور وہ یہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ باجن بھی ایسی ہی خواہش دل میں بسائے رکھنے والے قیدیوں میں سے ایک تھا۔ مگر ابھی تک جیل سے فرار ہونے کی کوئی ترکیب اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔
کتاب دی ہول پڑھ لینے کے بعد اسے جیل سے فرار ہو جانے کا ایک طریقہ مل گیا۔ وہ ایک با عزم اور کچھ کر گزرنے ، کچھ کر دکھانے کا حوصلہ رکھنے والا ایک غیر معمولی شخص تھا۔ کتاب کا مطالعہ مکمل کرتے ہی اس نے کتاب اپنے سرہانے رکھ دی اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ سب سے پہلے اس نے اپنے بستر میں چھپا ہوا ایک دھاگا نکالا جسے قیدی جیل کا ٹیلی فون کہتے تھے۔ اس کے ایک سرے پر خط باندھ کر دو منزل نیچے تک پیغام پہنچایا جا سکتا تھا۔ باجن نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا۔ میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے جس پر عمل کر کے ہم لوگ جیل سے باہر نکل سکتے ہیں۔ میری کوٹھڑی تیسری منزل پر ہے۔ باجن۔
اس پرچی کے ساتھ ایک چھوٹا سا پتھر باندھ کر اس نے اسے دو منزل نیچے لٹکایا اور کوٹھڑی نمبر سینتیس کی کھڑکی پر پتھر سے دستک دی۔ اس کوٹھڑی میں جین لوئیس تھا۔ اس کا تعلق بھی لال سپاہی نامی گروپ سے تھا۔ وہ چھ ماہ اس جیل میں گزار چکا تھا۔ اس نے باجن کا پیغام اپنی کوٹھڑی کے ساتھ ریمنڈ رچرڈ کو پڑھ کر سنایا۔
ویری گڈ، ریمنڈ نے پیغام سن کر کہا۔ کچھ امید تو بندھی اس قید سے نکلنے کی، اس کے بعد باجن کے پیغامات آتے رہے ، وہ چھوٹے چھوٹے کاغذ کے ٹکڑوں پر اپنی اسکیم کے متعلق لکھتا رہا۔ یہ ایک بالکل نئی اسکیم تھی اور بالکل اسی کتاب کے مطابق جو دی ہول میں لکھی تھی، پوری اسکیم پڑھ لینے کے بعد جین لوئیس نے ریمنڈ سے کہا میرا خیال ہے یہ ایک اچھی اسکیم ہے ، اس پر عمل کر کے ہم کامیابی سے ہم کنکار ہو چکتے ہیں اور اس قید سے رہائی حاصل کر سکتے ہیں۔
باجن کا آخری پیغام تھا، آج سے کھدائی شروع کر دو، اس کے بعد باجن سرنگ کھودنے کے اوزار رسی سے باندھ باندھ کر نیچے اتارتا رہا۔
باجن کو یہ اوزار اکٹھا کر لینے میں اس لیے آسانی تھی کہ وہ قیدیوں کے اوپر جیل کا ایک رکن تھا اور صفائی کرنے والے عملے کے ساتھ مل کر کام کرتا تھا۔
رات بارہ بجے کے بعد جین لوئیس نے فرش پر چھینی رکھ کر پہلی ہتھوڑی چلائی۔ ہتھوڑی کی آواز بند کوٹھڑی میں اس طرح گونجی جیسے کوئی بم پھٹا ہو۔
مائی گاڈ، جین نے گہری سانس لیتے ہوئے زیر لب کہا۔ شاید یہ آواز سن کر جیل کے سارے ہی لوگ نیند سے بیدار ہو جائیں گے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
کچھ دیر خاموش لیٹا وہ انتظار کرتا رہا لیکن اسے کوئی آواز یا آہٹ تک سنائی نہ دی اور نہ ہی کوئی پہریدار اس کی کوٹھڑی کی طرف دوڑتا ہوا آیا۔ اب وہ مطمئن ہو گیا۔ اس نے پھر اپنا کام شروع کر دیا۔ پانچ گھنٹے محنت کرنے کے بعد ریمنڈ اور جین لوئیس ایک بڑا اور وزنی پتھر اکھاڑنے لینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے نیچے تہہ خانہ تھا اور تہہ خانے میں بجلی کی تار اور ضرورت کی دوسری اشیاء بھری پڑی تھیں۔
ایک رات کے لیے یہ کام بہت تھا، بڑی کامیابی تھی، وہ اطمینان سے لیٹ کر سوگئے لیکن اگلے چند دنوں میں انہیں ایک نئی مشکل کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ باجن جب جین لوئیس کے لیے اوزار باندھ کر نیچے لٹکاتا تھا تو اس سے نچلی منزل کے دو قیدی اسے روک لیتے تھے ، یہ دونوں لائین چوپلین اور بلارڈ تھے۔ ایک دن جب قیدیوں کو ورزش کرائی جا رہی تھی تو ان دونوں نے لوئیس سے کہا کہ کچھ اوزار انہوں نے روک لیے ہیں اور وہ بھی فرار ہونے میں ان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ جین لوئیس انہیں انکار نہ کر سکا۔ اس نے کہا ان حالات میں تمہیں اپنی کوٹھڑی میں ایک سوراخ کرنا ہو گا جس کے ذریعے تم میری کوٹھڑی میں آ کر سرنگ کھودنے میں میری مدد کر سکو۔ چوپلین اور بلارڈ اس کام کے لیے تیار ہو گئے اور انہوں نے سرنگ کھودنے میں ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا۔
ساتھ ہفتے تک جین لوئیس، ریمنڈ، چوپلین اور بلارڈ ایک رسی کی مدد سے اپنی کوٹھڑی سے چلے جاتے ، یہ رسی انہوں نے اپنی چادر کو پھاڑ کر بنائی تھی۔ جین لوئیس کو پانی چھت کا سوراخ بند کر کے ہر روز پلاستر لگانا پڑتا کہ کسی پہریدار کی نظر نہ پڑ جائے ، اتفاق سے ریمنڈ نے جنگ سے پہلے کسی کان میں کام بھی کیا تھا۔ اس کا عملی تجربہ یہاں اس کے بہت کام آیا جس نے اندازہ لگایا کہ سرنگ کو پہلے کم از کم آٹھ فٹ تک نیچے جانا چاہیے ، اس کے بعد تقریباً پچیس فٹ تک سیدھی طرف پھر بالائی سمٹ میں، دو ماہ تک وہ کتاب دی ہول میں بتائے گئے طریقوں کے مطابق اپنا کام کرتے رہے ، سرنگ سے نکلی ہوئی مٹی تہہ خانے میں جمع ہوتی رہی، روشنی کے لیے ان کے پاس صرف موم بتی ہوتی تھی۔ محتاط اندازے کے مطابق لمبائی میں سرنگ کھود کر بالائی سمت میں کھدائی کا کام شروع کر دیا گیا۔ ریمنڈ کو چوپلین کے کندھوں پر چڑھ کر کھدائی کا کام کرنا پڑتا تھا۔
سرنگ تیار ہو گئی اور جیل سے فرار ہو جانے کا راستہ بن گیا تھا لیکن اس رات ایک اور نئی مشکل سامنے آکھڑی ہوئی، چوپلین اور بلارڈ کی کوٹھڑی میں ایک نیا اور تیسرا قیدی ٹھونس دیا گیا، مجبور ہو کر اسے بھی ساتھ ملا لینا پڑا۔ یہ فوجی قیدی نہیں تھا بلکہ ایک جرمن جاسوس تھا مگر اس کے ساتھ مشکل یہ تھی کہ وہ کبڑا تھا، پتلی سی سرنگ میں اس کا گزرنا آسان نہیں تھا۔
فرار ہونے کی اسکیم سن کر جرمن مجرم ایلن کوسٹا خوشی سے جھوم اٹھا، اس نے کہا دوستو، تم فکر مت کرو اور نہ ہی میری کبڑی کمر کا خیال، شاید تم یہ بات بھول رہے ہو کہ کبڑا ہمیشہ خوش بختی لے کر آتا ہے۔
وہ بے چارے کر بھی کیا سکتے تھے۔ کبڑے کو اپنے ساتھ شامل کرنے پر بے بس اور مجبور تھے۔ رات کے دو بجے فرار ہونے کے وقت کا تعین کیا گیا۔ باجن نے دو گھنٹہ پہلے سے اپنی کوٹھڑی کی سلاخیں کاٹنی شروع کر دیں۔ یہ کام دو بجے تک مکمل ہو گیا۔ اس نے ایک رسی کھڑی سے باندھی اور نیچے اتر گیا۔ جین لوئیس کی کھڑکی سے سلاخیں پہلے ہی کاٹ دی گئی تھیں، اب کل چھ افراد فرار ہونے کے لیے بالکل تیا ر تھے ، تہہ خانے میں پہن کر سرنگ کا دہانہ کھولا گیا، جین لوئیس سب سے پہلے سرنگ میں اترا، اس کے بعد باجن پھر چوپلین، اس کے بعد ریمنڈ، پانچویں نمبر پر کبڑا کوسٹا اور سب سے آخر میں بلارڈ۔
سرنگ اتنی پتلی تھی کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی فرد وہاں سے گزر سکتا تھا، جبکہ ان کی تعداد چھ تھی۔
وہ اندھیرے میں کیڑوں کی طرح رینگتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ، آخر وہ سرنگ میں اس مقام تک پہنچ گئے جہاں سے انہیں اوپر چڑھنا تھا۔ اب جین لوئیس باجن کے کندھوں پر کھڑا ہو گیا تاکہ سرنگ کا دہانہ دوسری آزاد دنیا میں کھول دی۔ اندر کسی نے موم بتی روشنی کرنی چاہی مگر وہ ناکام رہا، آکسیجن نہیں ہے۔ کسی نے سہمی ہوئی آواز میں کہا۔ پھر بولا۔ ہم سب یہیں دم گھٹ کر مر جائیں گے۔ اسی لمحے جین لوئیس نے چھینی پر ہتھوڑے کی ضرب لگائی۔ مٹی نیچے گری اور سرنگ سے چاندنی نظر آنے لگی، پھر اس نے باہر نکل کر ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ وہ جیل کی دیوار سے صرف ایک فٹ آگے تھے ، وہ دونوں ہاتھ ٹیک کر اوپر چڑھ گئے۔ اور باجن کے بازو پکڑ کر اسے اوپر اٹھا کر باہر لے آئے۔ اب کبڑا کوسٹا اور بلارڈ باقی تھے ، سرنگ کا موڑا تنا تنگ تھا کہ کبڑے کا بدن وہاں سے گزر نہیں سکتا تھا۔ بلارڈ نے غصے بھرے لہجے میں کہا، تم نے کہا تھا کہ کبڑے خوش بختی لے کر آتے ہیں مگر تم تو میرا راستہ روک رہے ہو۔
تنگ جگہ میں وہ ایک دوسرے کی جگہ بدل نہیں سکتے تھے۔ وہ دونوں واپس تہہ جانے کی طرف چل دیے۔ پھر پہلے بلارڈ اور بعد میں کوسٹا سرنگ میں داخل ہوا۔ بلارڈ کو اس کے ساتھیوں نے اوپر کھینچ لیا، کوسٹا کا بدن سرنگ کے موڑ پر آ کر پھنس سگیا۔ اوپر اس کے ساتھی زیادہ دیر تک انتظار نہیں کر سکتے تھے لہٰذا وہ لوگ چلے گئے اور کوسٹا اپنی قسمت پر آنسو بہاتا ہوا واپس تہہ خانے میں جانے پر مجبور ہو گیا۔
آدھے گھنٹے بعد جیل کے پہریداروں نے اسے وہیں تہہ خانے میں بیٹھا آنسو بہاتے ہوئے دیکھا۔ فوراً خطرے کے الارم بج اٹھے ، بھاگے ہوئے قیدیوں کی تلاش شروع ہوئی۔ فرار ہونے کے دو گھنٹے بعد جین لوئیس ایک جھونپڑے سے پکڑا گیا اور اسی طرح دوسرے چاروں مفرور قیدی بھی ایک ہفتے کے اندر اندر دوبارہ گرفتار کر لیے گئے۔ جیل کا نظام اسی طرح چلتا رہا لیکن اب اس میں ایک فرق آ گیا تھا، جیل کی لائبریری سے وہ کتاب دی ہول اٹھا لی گئی تھی تاکہ دوسرے قیدی باجن کی طرح فرار ہونے کا منصوبہ نہ بنا سکیں۔
٭٭٭
اب میں خوش ہوں
ذیشان بن صفدر
بہت پرانے زمانے کی بات ہے جب فلسطینی باشندے اپنی سرزمین میں امن و سکون سے رہا کرتے تھے۔ شہر خلیل میں ایک غریب خیاط (درزی) عمر رہا کرتا تھا۔ عمر بہت تنگ دستی کے دن گزار رہا تھا۔ پھر بھی وہ اپنی قسمت سے شاکی نہیں تھا۔ اس کی جھونپڑی بہت پرانی اور خستہ ہو چکی تھی۔ مسلسل تنگ دستی اور غربت نے اس کے مزاج پر برا اثر ڈالا اور وہ چڑچڑا ہو گیا۔ ذرا ذرا سی بات پر وہ اس طرح بھڑک اٹھتا، جیسے کوئی شخص بارود کے ڈھیر میں دیا سلائی لگا دے۔ عمر کی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا۔ جھونپڑی میں وہ خود، اس کی بیٹی عارفہ اور نواسیاں مل جل کر رہتے تھے۔ کبھی کبھی عمر کو اپنی ننھی منی نواسیوں کا شور بھی ناگوار گزرتا اور نواسیوں کو غصے کے عالم میں برا بھلا کہہ ڈالتا۔ تب اس کی معصوم اور بھولی بھالی نواسیاں بری طرح سہم کر خاموشی ہو جایا کرتیں ان کے مسکراتے چہرے سنجیدہ ہو جاتے۔
ایک دن کی بات ہے ، بچے حسب معمول ناشتے سے فارغ ہو کر کھیل رہے تھے ، عمر ان بچوں کے شور و غل کی آواز سے بری طرح تلملا رہا تھا۔ جب بچوں کا شور و غل اس کی برداشت سے باہر ہو گیا تو وہ پیر پٹختا ہوا جھونپڑی سے باہر نکل گیا۔ پہلے تو وہ کافی دیر تک بے مقصد ادھر ادھر گھومتا رہا۔ پھر اس کے ذہن میں آیا، کیوں نہ کسی سے اس سلسلے میں مشورہ کر لیا جائے۔ مشورے کے نام پر اس کے ذہن میں ابوالحسن کا نام آیا۔ ابوالحسن ایک دانا و بینا شخص تھا۔ بستی کے تمام لوگ اپنے مسائل کے سلسلے میں اسی کے پاس مشورے کے لیے جاتے اور خوش خوش واپس آتے عمر بھی ابوالحسن کے گھر کی طرف چل پڑا۔
ابوالحسن اپنے گھر کے باہر پلنگ پر نیم دراز کوئی بہت ہی موٹی سی جلد کی کتاب پڑھ رہا تھا۔ عمر نے قریب پہنچ کر السلام علیکم کہا۔ ابوالحسن نے وعلیکم السلام کہتے ہوئے کتاب بند کر کے رکھ دی اور اٹھ کر بیٹھتے ہوئے خوش دلی سے بولا۔ آؤ عمر بھائی، کہوں کیسے ہو، خیریت تو ہے۔ کام تو ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے نا۔
ہاں ابوالحسن بھائی، خدا کا شکر ہے۔ کام تو گزارے کے لائق ٹھیک چل رہا ہے۔ بس اپنی نواسیوں سے بہت تنگ ہوں۔ گھر میں ہر وقت ایک شور ہنگامہ مچائے رکھتی ہیں۔ دو منٹ کو بھی سکون نہیں ملتا۔ کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ اس شور اور ہنگامے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے۔ عمر، ابوالحسن کے پاس ہی بیٹھتے ہوئے بولا۔ اس کی بات سن کر ابوالحسن گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر چند لمحوں کے بعد بولا۔
بھائی عمر، آپ اگر شور اور ہنگامے سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنے گھر میں ایک بلی پال لیں۔
بلی۔۔۔۔۔۔ عمر نے حیرت نے پوچھا۔ پھر بولا۔ ابوالحسن بھائی، کیا بلی سے شور شرابے میں اور اضافے نہیں ہو جائے گا۔
ابوالحسن نے سنجیدگی سے کہا۔ بھائی اگر تم شور سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے مشورے پر عمل کرو۔ ورنہ تم جانو اور تمہارا مسئلہ۔ عمر سلام کر کے خاموشی سے گھر واپس آ گیا اور ابوالحسن کے مشورے کے مطابق گھر میں ایک بلی پال لی۔ پھر وہی ہوا جس کا اسے خدشہ تھا۔ بلی دن بھر ساری جھونپڑی میں ادھر سے ادھر میاؤں میاؤں کرتی پھرتی۔۔۔۔۔ اور یوں شور میں مزید اضافہ ہو گیا۔
کئی دن تک تو عمر اس نئے شور کو بچوں کی ہلڑ بازی کے ساتھ برداشت کرتا رہا، آخر تنگ آیا اور تیز تیز چلتا ابوالحسن کے گھر جا پہنچا۔ ابوالحسن اپنے صحن میں لگے پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ عمر نے اپنی مشکل اس سے کہہ سنائی۔ ابوالحسن نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا۔ ہوں۔۔۔۔ ایسا کرو اب تم ایک کتا بھی پال لو۔
عمر یہ جواب سن کر الجھن میں پڑ گیا اور سوالیہ نگاہوں سے ابوالحسن کی طرف دیکھا۔ ابوالحسن اس کا مقصد سمجھ کر بولا۔ ہاں سوچوں نہیں جاؤ، میرا مشورہ مان لو اور جیسا میں نے کہا ہے ، ویسا ہی کرو۔
عمر بادل نخواستہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتا ہوا اپنے گھر واپس لوٹ آیا اور ابوالحسن کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایک کتا بھی پال لیا۔ اب کیا تھا۔ گھر میں کتے کے بھونکنے کا بھی اضافہ ہو گیا، بلی اور کتا آپس میں لڑتے اور خوب شور مچاتے۔ عمر پھر پریشانی کے عالم میں ابوالحسن کے پاس پہنچا اور مدد کا طالب ہوا۔
ابوالحسن نے عمر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اب وہ ایک مرغا پال لے۔
مرغا۔۔۔۔۔ عمر نے بڑی گھبراہٹ کے عالم میں پوچھا۔
ہاں بابا مرغا۔۔۔۔۔ وہ ککڑوں کوں بولتا ہے۔ ابوالحسن نے مسکرا کر کہا اور اپنی موٹی جلد والی کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔
عمر نے ایک مرغا خرید لیا۔ اب بلی، کتا، مرغا تینوں مل کر خوب شور مچاتے۔ ان کے مشورے سے عمر کی راتوں کی نیند بھی اڑ گئی۔ نواسیوں کا شور تو اسے صرف دن میں ہی تنگ کرتا تھا۔ اب ابوالحسن کے قیمتی مشوروں پر عمل کر تے ہوئے اس کی راتوں کا چین اور آرام بھی غارت ہو کر رہ گیا تھا۔ رات بھر بلی اور کتے کے شور سے جاگتے رہنے کے بعد صبح کے قریب تھکن سے جب اس کی آنکھ لگتی تو مرغا بانگ دے کر اسے جگا دیتا۔ عمر پھر پریشان ہو کر اپنے ذہین اور قابل فخر ابوالحسن کے پاس پہنچا اور اپنی بپتا کہہ سنائی۔
ابوالحسن نے ساری روداد سن کر ایک لمبی اور گہری سانس لیتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا۔ اچھا تو عمر میاں۔ اب تم ایک گدھا پال لو۔
عمر گدھا پالنے کا مشورہ سن کر مبہوت رہ گیا۔ اس کے چہرے کے گلاب سورج مکھی کا پھول بن گئے وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ گدھے کے آنے سے جھونپڑی کا حال کیا ہو گا۔ اسے سوچتے دیکھ کر ابوالحسن نے سختی سے کہا۔ جاؤ زیادہ مت سوچو، انجام کی پرواہ کیے بغیر مشورے پر عمل کرو اور گدھا پال لو۔
لیجئے صاحب، ابوالحسن کے کہنے کے مطابق عمر کے گھر میں ایک گدھے کا اضافہ بھی ہو گیا۔ اب بلی، کتا، مرغا اور گدھا اپنی اپنی بولیاں بول کر خوب شور مچاتے۔ کبھی کتے کی بھوں بھوں گدھے کی آواز سے دب جاتی اور کبھی بلی کی میاؤں میاؤں مرغے کی ککڑوں کوں میں اور جب ایک ساتھ چاروں مل کر کورس کے انداز میں بول اٹھتے تو عمر بڑی بے بسی کے ساتھ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا۔
اس طرح تین دن ہی گزرے تھے کہ اس کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ اپنی آنکھوں میں بے بسی کے سائے اور آنسوؤں کے موتی لیے بیچارگی کی مجسم تصویر بنا وہ پھر ابوالحسن کی خدمت میں حاضر ہوا اور روہانسی آواز میں بولا۔ بھائی ابوالحسن میری تو زندگی ایک عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ بلی، کتا، اور مرغا پہلے ہی کیا کم تھے ، جو آپ نے گدھا بھی جھونپڑی میں پہنچوا دیا۔ اب تو میں کچھ ہی دنوں میں پاگل ہو کر سڑکوں پر بچوں کو ڈھیلے مارتا نظر آؤں گا۔
ابوالحسن کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ وہ ہنستے ہوئے بولا، اچھا جاؤ، اب تم اپنے گدھے کو فروخت کر دو۔
دو دن بعد ابوالحسن خود عمر کے گھر اس کی خیریت پوچھنے کے لیے پہنچا۔ عمر جھونپڑی کے دروازے پر بیٹھا قمیض میں بٹن ٹانک رہا تھا۔ کہو بھائی عمر، کیسے ہو، ابوالحسن نے پوچھا۔
عمر پہلی بار مسکراتے ہوئے بولا۔ آئیے ابوالحسن بھائی، بیٹھے۔ گدھا فروخت کرنے کے بعد سے میں کافی سکون محسوس کر رہا ہوں۔ اور بہت خوش ہوں اب صبح ہونے سے قبل کچھ دیر سکون کی نیند بھی سولیتا ہوں، گدھے کی ڈھینچوں ڈھینچوں تو سونے ہی نہیں دیتی تھی۔
ٹھیک ہے اب کتے کو بھی گھر سے نکال دو۔ اور تیسرے دن میرے گھر آ کر مجھے اپنی کیفیت بتاؤ۔
تیسرے دن عمر خوشی خوشی مسکراتا ہوا ابوالحسن کے گھر پہنچا،
آج تو بہت خوش نظر آ رہے ہو۔ ابوالحسن نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا۔
ہاں بھائی ابوالحسن، میں بہت خوش ہوں۔۔۔۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ جب سے آپ کے کہنے کے مطابق میں نے کتے کو جھونپڑی سے نکالا ہے ، تب سے بلی ایک طرف کونے میں خاموش اور سست آنکھیں بند کیے پڑی رہتی ہے۔ اب تو بہت سکون اور خاموشی ہو گئی ہے میرے گھر میں۔
مارک ہو۔۔۔۔۔ بہت بہت مبارک، کہ تمہیں سکون جیسی نعمت حاصل ہو گئی۔ جاؤ اب بلی کو بھی گھر سے نکال دو، ابوالحسن نے ہدایت کی۔
بلی کو رہنے ہی کیوں نہ دیں۔ عمر نے کہا۔ اس کے رہنے سے میرے سکون اور آرام میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔
جس طرح کہہ رہا ہوں، ویسے ہی کرو۔ ابوالحسن نے سختی سے کہا۔ عمر نے کچھ کہنا چاہا مگر ابوالحسن نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ اور دو دن بعد پھر ملاقات کے لیے کہہ کر اسے رخصت کر دیا۔
دو دن پلک جھپکتے ہی گزر گئے۔ عمر خوشی سے جھومتا ہوا ابوالحسن کے گھر پہنچا، اس کے چہرے پر شگفتگی اور تازگی کھلی ہوئی تھی۔
سناؤ بھائی عمر۔ اب کیا حال ہے ، ابوالحسن نے سوال کیا۔
خدا کا شکر ہے۔ ابوالحسن بھائی، آپ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اب گھر میں سکون کی دولت ہی دولت ہے۔۔۔۔۔۔ اب تو جھونپڑی کے سناٹے اور خاموشی سے میں خود کسی وقت گھبرا جاتا ہوں۔ اگر میری ننھی ننھی معصوم نواسیوں کے قہقہے جھونپڑی میں نہ گونجیں تو یہ خاموشی مجھے پاگل کر دے۔ سچ، اگر یہ لڑکیاں گھر میں نہ ہوتیں تو شاید تنہائی مجھے زندگی سے بیزار کر دیتی۔
کیا تم خوش ہو۔ ابوالحسن نے سوال کیا۔
بہت خوش، بھائی ابوالحسن، میں تو اب یہ سمجھتا ہوں کہ میں ہی دنیا کا سب سے خوش نصیب شخص ہوں۔ عمر نے جواب دیا۔
ٹھیک ہے ، اب تم جاؤ اور اپنی نواسیوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزارو۔ دراصل خوشی اور سکون تو تمہارے گرد پہلے ہی موجود تھے ، بس تم ان سے لاعلم تھے اور پہچان نہ سکے تھے۔۔۔۔۔ !
٭٭٭
قینچی اور درانتی
بہت عرصے کی بات ہے۔ ایک گاؤں میں ایک غریب کسان رہتا تھا۔ یوں تو وہ ہر لحاظ سے خوش حال رہتا تھا کیونکہ اس کا کھیت وسیع تھا اور فصل ہمیشہ عمدہ ہوتی تھی لیکن بیوی کی وجہ سے اس کا ناک میں دم رہتا تھا۔ وہ بہت ہی ضدی اور ہٹ دھرم تھی اور ہمیشہ الٹی بات سوچتی تھی۔ اسی لیے گاؤں کے سب ملنے جلنے والوں نے اس کا نام ” الٹی کھوپڑی” رکھ دیا تھا۔
جب وہ گھر سے باہر نکلتی تو بچے اسی نام سے پکار کر اسے پکارتے اور جب وہ مارنے کے لیے دوڑتی تو دور بھاگ جاتے تھے۔ وہ کھیت میں کام کرتی تو ایک جھاڑی سے آواز آتی "ارے بہن الٹی کھوپڑی کیا کر رہی ہو۔ ” وہ جل کر اس جھاڑی کی طرف لپکتی تو فوراً دوسری جھاڑی سے ویسی ہی آواز آتی۔ وہ رک جاتی اور پلٹ کر دوسری طرف جاتی کہ اتنے میں ایک اور آواز تیسری جھاڑی سے آتی۔ یہ سب کچھ ہوتا لیکن وہ اپنی بری عادت نہیں چھوڑتی تھی۔
پڑوس کی عورتیں بھی اس سے تنگ آ گئی تھیں جب وہ بولتیں کہ کنویں پر چلیں، پانی لے آئیں تو وہ کہتی کہ نہیں پانی تو ندی سے لانا چاہیے۔ جب وہ کہتیں کہ آؤ اپلے پہاڑی پر تھاپ دیں تو وہ کہتی کہ نہیں پہاڑی کے دامن میں مناسب رہیں گے۔ جب مچھلی والا اس کے گھر کے قریب آواز لگاتا "بام مچھلی لے لو، بام مچھلی۔ ” تو وہ کہتی کہ تم سرمئی یا سنگھاڑا کیوں نہیں لائے اور جب سرمئی یا سنگھاڑا مچھلی ہوتی تو بام مانگتی۔ کسان کہتا کہ آج آلو پکا لو تو وہ کہتی کہ نہیں آج تو دال پکے گی۔ خاوند کہتا کہ میری قمیض پھٹ گئی ہے۔ ذرا اس کوسی دو، تو وہ کہتی کہ نہیں پاجامہ درست کرالو، حالاں کہ وہ پہلے ہی ٹھیک ہوتا تھا۔ وہ اپنے خاوند کو سخت جاڑے میں ٹھنڈا شربت پلا کر بیمار کر دیتی اور کہتی کہ گرمی کے موسم میں صرف گرم چائے پی جاتی ہے۔ اسی لیے سب کو یقین تھا کہ اس کی کھوپڑی الٹی لگی ہوئی ہے۔
پڑوسی آ کر کسان سے شکایت کرتے کہ تمہاری بیوی ہمیشہ ہم سے الجھتی رہتی ہے۔ وہ افسوس کا اظہار کر کے کہتا "بھائیو! اسے غنیمت سمجھو کہ وہ تمہاری بیوی نہیں ہے۔ وہ باہر نکل کر صرف چند لمحے کے لیے تم سے الجھتی ہے۔ میرا اس کا ہر وقت کا ساتھ ہے۔ وہ اپنی الٹی کھوپڑی سے میرا دماغ بھی الٹ کر رکھ دیتی ہے۔ میں رات کو تھکا ہارا چت لیٹتا ہوں تو وہ ٹہوکا دے کر کہتی ہے کہ کروٹ سے کیوں نہیں لیٹتے۔ جب میں کام پر جلدی جانے کے خیال سے روٹی کے نوالے تیز تیز کھاتا ہوں، تو وہ روک کر کہتی ہے کہ اتنی جلدی کیوں ہے ، ابھی بہت دقت ہے اور جب میں آہستہ آہستہ اطمینان سے روٹی کھاتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ جلدی کرو، کام کا ہرج ہو رہا ہے۔ کھانا ساتھ لے جاؤ۔ راستے میں چلتے چلتے کھا لینا، حالاں کہ اس روز کھیت پر جلدی جانے کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ اس لیے میرے بھائیو! میں تو خود بھی اس سے تنگ آ گیا ہوں، بتاؤ تمہاری شکایات کس طرح دور کروں ؟”
فصل پک جانے کا زمانہ تھا۔ ایک روز دونوں میاں بیوی صبح ہی صبح اپنے کھیت دیکھنے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے۔ کسان نے خیال ظاہر کیا، ” منگل تک فصل کاٹنے کی نوبت آئے گی” بیوی بولی "نہیں بدھ سے پہلے یہ کام ہر گز شروع نہ کیا جائے۔ "
خاوند نے کہا ” بہت اچھا۔ میرا خیال ہے کہ میں اپنے دو بھائیوں کو بلوا لوں تاکہ وہ ہمارا ہاتھ بٹا سکیں۔ ” بیوی بولی۔ ” نہیں میرے دو بھائیوں کو بلواؤ، وہ زیادہ پھرتی سے کام کرتے ہیں۔ "
خاوند نے یہ بات بھی مان لی اور کہا ” کل صبح سے پانچ بجے اٹھنا پڑے گا تاکہ سورج ڈھلنے تک روزانہ بہت سا کام ہو جایا کرے۔ ” بیوی نے کہا ” نہیں، چھ بجے سے پہلے اٹھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم دوپہر کو صرف آدھ گھنٹے آرام کیا کریں گے۔ ” خاوند نے کہا ” چلو، یوں ہی سہی۔ موسم تو خوشگوار ہے۔ دوپہر کو آرام نہ بھی کیا تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ” بیوی بولی۔
"موسم خوشگوار کب ہے۔ سخت گرمی ہے اور خاک بھی اڑاتی ہے آرام کرنا ضروری ہو گا۔ "
خاوند نے بات مان لی اور کہا ” آج ہی درانتیاں تیز کرا لینی چاہئیں، تاکہ فصل اچھی طرح کٹ سکے۔ ” بیوی بولی۔
” واہ کیا خوب! درانتیاں نہیں قینچیاں کہو۔ اس سال ہم درانتی کے بجائے قینچیاں استعمال کریں گے۔ "
اب خاوند سے نہ رہا گیا۔ وہ جھلا کر بولا ” واقعی الٹی کھوپڑی کی عورت ہو تم۔ رائی کی فصل کہیں قینچی سے کٹتی ہے۔ تمہاری عقل تو خراب نہیں ہو گئی۔ "
بیوی نے بگڑ کر کہا ” عقل خراب ہو گی تمہاری۔ ہم تو فصل قینچی سے ہی کاٹیں گے۔ "
خاوند بولا ” پاگل نہ بنو۔ میں قینچی کو قریب بھی لانے نہ دوں گا۔ "
” اور میں درانتی کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دوں گی۔ ” بیوی نے تڑک کر کہا۔
"نہیں قینچی ہر گز نہیں۔ "
"نہیں، درانتی ہر گز نہیں۔ "
” لوگ رائی کی فصل قینچی سے کاٹتے دیکھیں گے تو ہم پر ہنسیں گے۔ "
” نہیں وہ درانتی دیکھ کر ہمارا مذاق اڑائیں گے۔ "
"تم نہیں جانتیں۔ اس موقع کے لیے درانتی ہی زیادہ مناسب ہے۔ "
” کون کہتا ہے۔ قینچی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ "
” کچھ بھی ہو، میں کہتا ہوں کہ درانتی چلے گی۔ "
” اور میں کہتی ہوں کہ قینچی چلے گی۔ "
یہ بحث کرتے ہوئے دونوں میاں بیوی ندی پر بنی ہوئی پلیا پر سے گزر رہے تھے۔ بیوی غصے سے اس درجہ بے تاب تھی کہ اسے یہ خیال بھی نہ رہا کہ پلیا کے دونوں طرف منڈیر نہیں ہے۔ آخری بار جو اس نے غصے میں پلٹ کر جواب دیا تو پاؤں کنارے سے باہر جا پڑا اور وہ سنبھل نہ سکی۔ دھڑام سے ندی میں گر گئی۔ پانی اس جگہ خاصا گہرا تھا اور اسے زیادہ تیرنا نہیں آتا تھا۔
وہ ڈبکیاں کھانے لگی۔ پہلی ڈبکی پر جب وہ ابھری تو اس کا سانس چڑھا ہوا تھا۔ وہ مدد کے لیے نہیں چلائی بلکہ چیخ کر بولی "قینچی، صرف قینچی۔ "
کچھ خاوند کو بھی اس روز ضد ہو گئی تھی۔ اس نے فورا ً چلا کر کہا "نہیں درانتی۔ ” اور بیوی کو پانی سے باہر نکالنے کی ترکیب پر غور نہیں کیا۔
بیوی اپنے خاوند کا جواب سن نہیں سکی۔ وہ پھر پانی کے نیچے پہنچ چکی تھی اور جب وہ دو بارا ابھری تو پھر چیخ کر کہنے لگی۔ ” قینچی صرف قینچی”
اب اس کا سانس زیادہ اکھڑ چلا تھا۔ خاوند تنگ آ گیا اور اسے بیوی پر ذرا بھی ترس نہ آیا۔ اس نے فوراً کہا "صرف درانتی۔ "
اب بیوی نے جلدی جلدی غوطے کھانے شروع کر دیئے۔ لیکن وہ جتنی بار پانی سے ابھری، اس نے صرف ایک ہی لفظ کہا "قینچی۔ ” اور خاوند نے بھی جواب ہٹ دھرمی پر اتر آیا تھا۔ "درانتی” کہنے کے سوا اپنا فیصلہ نہ بدلا۔
پھر بہت دیر تک عورت پانی میں غائب رہی۔ آخری بار جب وہ ابھری تو نیم بے ہوشی کے عالم میں تھی۔ اس کی زبان بند ہو چکی تھی کیونکہ بولنے کی قوت جواب دے گئی تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنا ایک ہاتھ پانی کی سطح سے اونچا کیا اور قینچی کے دو پھلوں کے انداز میں دو انگلیاں مٹکا کر گویا اشارے سے ظاہر کیا کہ فصل قینچی سے کٹے گی۔
مرد بھی اپنی ضد سے باز نہ آیا۔ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے اپنا ہاتھ بھی اس طرح لہرایا جیسے فصل کاٹنے وقت درانتی گھمائی جاتی ہے۔
اس کے بعد عورت کا سر پانی کی سطح پر بالکل نظر نہیں آیا۔ خاوند کچھ دیر تک لہروں پر نظر جمائے گھورتا رہا۔ پھر اس نے چیخنا چلانا شروع کیا ” ارے لوگو! دوڑو۔ الٹی کھوپڑی پانی میں ڈوب گئی۔ اسے بچاؤ، جلدی بچاؤ۔ "
آس پاس کے سب کسان بھاگے آئے۔ تقریباً سبھی تیرنا جانتے تھے۔ انہوں نے لنگر لنگوٹے کس لیے اور فوراً ندی میں کود پڑے۔ وہ اسی جگہ پانی میں ڈبکیاں لگاتے چاروں طرف ہاتھ پاؤں مارتے رہے۔ پھر پانی کے بہاؤ کی طرف چلنے لگے لیکن کسان نے فوراً للکار کر کہا ” نہیں بھائی نہیں، تم اس الٹی کھوپڑی والی عورت کو اچھی طرح جانتے ہو اور پھر بھی پانی کے بہاؤ کی طرف اسے ڈھونڈنا چاہتے ہو۔ وہ ضرور چڑھاؤ کی طرف گئی ہو گی۔ "
یہ بات لوگوں کی سمجھ میں آ گئی۔ وہ کوشش کر کے چڑھاؤ کی طرف تیرنے لگے اور بہت جلد عورت پانی کے اندر اگنے والی ایک جھاڑی میں پھنسی ہوئی مل گئی۔ اس کے ایک ہاتھ کی دو انگلیاں قینچی کے دو پھلوں کے انداز میں کھلی ہوئی تھیں حالانکہ وہ مر چکی تھی مگر اس طرح اپنا خاموش فیصلہ دے رہی تھی۔
کسان روتا دھوتا بیوی کا جنازہ اپنے گھر لے گیا۔ شام کو اس کی تجہیز و تکفین کر دی گئی اور خاوند نے یادگار کے طور پر اس کی قبر کے سرہانے ایک درانتی گاڑ دی۔ جو آج تک گڑی ہوئی ہے۔
٭٭٭
سب سے زیادہ قیمتی
کوئی آٹھ سو سال پہلے کی بات ہے ، ہالینڈ میں ایک شہر بہت خوبصورت تھا۔ یہ سمندر کے کنارے اب بھی واقع ہے اور سمندر کے تھپیڑوں کو روکنے کے لیے یہاں ایک بہت بڑا، اونچا اور مضبوط پشتہ بنا ہوا ہے۔ یہ پشتہ آٹھ سو سال پہلے بھی موجود تھا۔ اسی کی بدولت بڑے بڑے تجارتی جہاز ساحل کے قریب کھڑے رہ کر سامان اتارتے اور چڑھا سکتے تھے۔ وہ دور دراز ملکوں تک اپنا مال لے جاتے اور وہاں کا سامان لا کر فروخت کرتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ ایک بڑا مال دار ملک تھا اور اس کی شان و شوکت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔
اس شہر کے لوگ مال و دولت کی وجہ سے مغرور اور سخت دل بھی ہو گئے تھے۔ خاص طور پر ایک بیوہ عورت اس لحاظ سے بہت آگے تھی کیوں کہ اس کے سات تجارتی جہاز سات سمندروں کے سینوں پر تیر کر دنیا کے ہر گوشے میں پہنچتے تھے اور ایسی ایسی چیزیں اپنے سامان کے بدلے میں لاتے تھے جو کسی اور کو میسر نہیں آتی تھیں۔ یہ عورت بہت ہی مغرور بھی تھی جب وہ گھوڑا گاڑی میں بیٹھ کر گلیوں سے گزرتی تو اس کا بناؤ سنگھار دیکھنے کیلئے خواتین گھروں کی چھتوں پر آ جاتیں اور حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتیں۔
ایک روز اس عورت نے اپنے سب سے بڑے جہاز کے کپتان کو بلا کر کہا ” فوراً بادبان چڑھاؤ، لنگر اٹھاؤ اور جہاز لے کر روانہ ہو جاؤ۔ تم کوشش کر کے دنیا کے ان حصوں میں بھی جاؤ جہاں اب تک جانے کا اتفاق نہیں ہوا ہے اور وہاں جو چیز تم کو سب سے زیادہ عمدہ، عجیب اور قیمتی نظر آئے ، جہاز میں بھر کر لے آؤ۔ قیمت کی ہر گز پروا نہ کرنا۔ میں ایک بار اپنے ملک والوں کو ایسی چیز دکھانا چاہتی ہوں جسے حقیقی معنوں میں سب سے زیادہ قیمتی اور ایک آسمانی نعمت کہا جا سکے۔ "
اب سوچ بچار کی ضرورت نہیں تھی۔ کپتان فوراً ساحل پر پہنچا۔ اپنے سب ملاحوں کو جمع کیا اور جہاز کے بادبان کھول کر اس کا لنگر اٹھایا۔ جہاز چل پڑا اور کچھ دیر بعد سمندر کے بیچ میں پہنچ گیا۔ اس وقت اس نے اپنے تمام نائبوں اور کارکنوں کو بلا کر مشورہ کیا کہ کہاں چلنا اور کیا خریدنا چاہیے۔ جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ کسی نے کہا کہ عمدہ ریشم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ کسی نے کہا کہ ایسے زیورات خریدے جائیں جن کی بناوٹ اور ساخت بالکل نئی ہو۔ کسی نے کہا کہ کیوں نہ اعلیٰ قسم کے نیلم، زمرد، لعل و یاقوت یا بڑے بڑے موتی خریدے جائیں اور پھر اپنی نگرانی میں ان کے زیورات تیار کرائے جائیں۔ لیکن ان سب چہ مگوئیوں کے دوران میں ایک کمزور سا ملاح، جس کے بارے میں کہا جا سکتا تھا کہ وہ ہمیشہ فاقے کرتا رہا ہے ، کسی قدر ہچکچاتا ہوا بولا معلوم ہوتا ہے کہ تم لوگوں پر کبھی برا وقت نہیں آیا، اس لیے تم کسی چیز کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ بتاؤ جب تم بری طرح بھوکے یا پیاسے ہو تو کون سا ہیرا یا موتی، زیور یا کپڑا کھا پی کر زندہ رہ سکتے ہو۔ اطمینان کی زندگی کے لے ے خوراک کا ایک لقمہ، پانی کا ایک گھونٹ اور عمدہ ہوا میں ایک سانس ….سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس لیے کھانے کی چیزوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے اور کھانے کی چیزوں میں گیہوں ہمارے لیے بنیادی غذا ہے۔ دنیا میں اس سے زیادہ قیمتی چیز کوئی نہیں۔ میں نے زندگی میں بہت سے فاقے کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہے۔ اگر تم بھی ان پہلوؤں پر غور کر لو تو میرے ہم خیال ہو جاؤ گے۔ "
سب لوگ حیران رہ گئے۔ ملاح کی بات دل میں اتر گئی۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا "گیہوں سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ پورا جہاز اس سے بھر لیا جائے کہ جب قحط بھی پڑے تو اس کا مقابلہ ہو سکے۔ "
لہٰذا جہاز کا رخ سرزمین مصر کی طرف پھیر دیا گیا جہاں کا گیہوں سب سے زیادہ اچھا اور صحت بخش ہوتا ہے۔ وہاں پہنچ کر کپتان نے گیہوں کے مالکان سے ملاقات کی اور بڑے بڑے ذخیرے خرید کر جہاز کے اوپر تک لاد لیا۔
اب ادھر کی سنئے جہاز روانہ ہو جانے کے بعد خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ اس پورے خطے میں سمندری طوفان کی صورت میں بڑی آفت آ پہنچی جسکی وجہ سے تمام کھیت، فصلیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کے مکانات وغیرہ زیر آب آ گئے اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔ حالت یہاں تک آ پہنچی کہ وہ خطہ جہاں رزق کی کمی نہیں تھی، وہاں لوگوں کو فاقے کرنے پڑ رہے تھے۔ خود مغرور عورت کے گودام بھی غلے اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء سے خالی ہو گئے تھے۔ پڑوسی ملکوں سے امداد کی درخواست بھی رد ہو چکی تھی۔ ایسے میں وہاں کے لوگوں سمیت اس مغرور عورت کے بھی ہوش ٹھکانے آ گئے تھے۔ عورت کی صحت دن بدن گرتی جا رہی تھی۔ پورے ملک میں سخت مایوسی کی کیفیت پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ ایک روز بہت دور سمندر کے سینے پر جہاز کے مستول نظر آئے۔ بچے ، بوڑھے ، عورت، مرد سب طرح طرح کے خیالی پلاؤ پکا رہے تھے کہ نا جانے جہاز پر وہ کونسی قیمتی چیز آئے گی۔ زندگی میں پہلی بار دنیا کی سب سے زیادہ قیمتی چیز دیکھنے کے لیے سب ہی لوگ بے تاب تھے۔
اور جب جہاز لنگر انداز ہوا اور کپتان اتر کر اپنی مالکہ کے پاس پہنچا جو جہاز کی خبر سن کر بیماری کے باوجود ساحل تک چلی آئی تھی تو اس نے کہا "محترمہ میں ایک بہت ہی قیمتی چیز لایا ہوں جو حقیقتاً زندگی کا سہارا ہے۔ یہ سن کر عورت کے چہرے پر حیرانی پھیل گئی۔ ” وہ کیا؟” عورت نے پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے پوچھا۔
” آپ اس سے واقف ہوں گی اسے کہتے ہیں گیہوں۔ کپتان نے جواب دیا۔
"گیہوں ؟” مغرور عورت نے حیران ہو کر آخری لفظ دہرایا۔ ” کیا کہا، گیہوں ؟”
ارد گرد کھڑے لوگوں نے جب یہ خبر سنی تو وہ خوشی سے چلا اٹھے ، اور "گیہوں ” کے نعرے لگانے لگے۔ عورت نے اردگرد کے لوگوں کے یہ تاثرات دیکھے تو اس کے چہرے پر موجود حیرانی کی جگہ مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ بھی خوشی سے چلا اٹھی۔ ” گیہوں …. واہ کمال کر دیا۔ "
اس کڑے وقت میں وافر مقدار میں گیہوں کی صورت میں کوئی دوسری چیز قیمتی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ عورت نے گیہوں کا ایک حصہ اپنے گودام میں رکھوا دیا جبکہ بقیہ چھ حصے عوام میں تقسیم کروا دیئے۔ یوں اس کمزور سے ملاح کی دور اندیشی سے نہ صرف عورت خوش ہوئی بلکہ اس کے مزاج میں تبدیلی کے باعث خطے کے لوگ بھی اس خزانے سے مستفید ہو گئے۔
٭٭٭
چالاک ہرن اور چیتا
چالاک ہرن نہ صرف اپنی پھرتی اور تیزی کی وجہ سے جنگل میں مشہور تھا بلکہ اپنے نام کی طرح بے حد چالاک بھی تھا۔ ایک دن وہ جنگل میں مزیدار پھلوں اور دوسری کھانے پینے کی چیزوں کے لے ے گھوم رہا تھا۔ اگر چہ وہ بہت چھوٹا تھا مگر وہ بالکل بھی خوفزدہ نہیں تھا۔ اسے پتہ تھا کہ بہت سے بڑے بڑے جانور اسے اپنی خوراک بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لے ے انہیں چالاک ہرن کو پکڑنا ہو گا جو قطعی نا ممکن تھا۔
اچانک چالاک ہرن کو کسی کے دہاڑنے کی آواز آئی۔ وہ یقیناً ایک چیتا تھا۔
چالاک ہرن کیسے ہو تم؟ میں بہت بھوکا ہوں۔ میرے لے ے کچھ کرو۔ دیکھو اگر تم چاہو تو میرے دو پہر کا کھانا بن سکتے ہو۔ لیکن چالاک ہرن بالکل چیتے کا کھانا نہیں بننا چاہتا تھا۔ آخر اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اور اپنے ذہن سے کوئی ترکیب سوچنے لگا۔ اس نے ایک کیچڑ کا ڈھیر پڑا دیکھا۔
” لیکن چیتے میں تمہارے لے ے کچھ نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ یہ آج بادشاہ کا کھانا ہے اور اس کی حفاظت کر رہا ہوں۔ "
” یہ کیچڑ۔ ” چیتے نے حیرانی سے کہا۔
” ہاں …. یہ ہی ہے بادشاہ کا کھانا۔ ” چالاک ہرن نے کیچڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اور تمہیں کیا پتہ کہ اس کا ذائقہ دنیا بھر میں سب سے اچھا ہوتا ہے۔ بادشاہ ہر گز نہیں چاہتا کہ کوئی اور اسے کھائے۔ "
چالاک ہرن کی یہ باتیں سن کر پہلے تو چیتا دیر تک اس کیچڑ کو تکتا رہا۔ پھر بولا۔ "میں بادشاہ کے اس کھانے کو چکھنا چاہتا ہوں۔ "
” نہیں نہیں چیتے۔ بادشاہ سلامت بہت غصہ ہوں گے۔
” لیکن صرف تھوڑا سا چکھوں گا۔ بادشاہ کو اس کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ "
” اچھا تو پھر ایسا کرو کہ مجھے یہاں سے بہت دور جانے دو تاکہ کوئی مجھ پر الزام نہ لگا سکے۔ "
” ٹھیک ہے چالاک ہرن تم یہاں سے جا سکتے ہو۔ ” چیتے کا اتنا کہنا تھا کہ چالاک ہرن نے وہاں سے دوڑ لگا دی اور یہ جا وہ جا۔ اس کے بعد جب چیتے نے وہ مٹی سے بھرا کیچڑ چکھا تو آخ تھو کرتا رہ گیا۔ اسے چالاک ہرن کی یہ حرکت بہت بری لگی۔ اس نے اسے سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر چہ چالاک ہرن بہت تیز دوڑتا ہے مگر اس کی رفتار اس سے زیادہ ہے۔ یہ سوچ کر اس نے پھر چالاک ہرن کا پیچھا کیا۔ بالآخر اس نے چالاک ہرن کو جالیا۔
چالاک ہرن تم نے ایک بار پھر مجھے دھوکہ دیا ہے۔ اب تمہیں میرا کھانا بننا پڑے گا۔ "
اب چالاک ہرن نے دوبارہ ادھر ادھر دیکھا۔ اسے ایک شہد کا چھتہ نظر آیا۔ اس نے کہا۔ ” مگر چیتے میں آج تمہارا کھانا نہیں بن سکتا کیوں بادشاہ نے مجھے اس ڈھول کی حفاظت کرنے کا کہا ہے۔ "
"بادشاہ کا ڈھول ؟ مگر کہاں ہے ؟” چیتے نے حیرانی سے پوچھا۔
” یہ رہا۔ ” چالاک ہرن نے شہد کے چھتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس ڈھول کی آواز پوری دنیا میں سب سے اچھی ہے۔ بادشاہ ہرگز نہیں چاہتا کہ کوئی اس کی آواز سنے۔ "
پھر چیتے نے کہا۔ "لیکن میں اس بادشاہ کے ڈھول کو بجا کر دیکھنا چاہتا ہوں۔ "
” نہیں نہیں چیتے۔ بادشاہ بہت غصہ ہوں گے۔ "
” صرف ایک چھوٹی سی ضرب۔ صرف ایک مرتبہ جس کا بادشاہ کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ "
"اچھا تو پھر مجھے یہاں سے بھاگنے دو تاکہ مجھے پر الزام نہ آسکے۔ "
” ٹھیک ہے چالاک ہرن تم بھاگ سکتے ہو۔ "
اب تو چالاک ہرن فوراً رفو چکر ہو گیا۔
” واہ بھئی۔ بادشاہ کا ڈھول کتنا اچھا ہے۔ ” چیتے نے اتنا کہا اور درخت پر چڑھ کر اسے ہاتھ سے ایک ضرب لگائی۔
” بز زززز۔ ” اب کیا تھا۔ ساری شہد کی مکھیاں باہر نکل آئیں اور چیتے کو کاٹنا شروع کر دیا۔ اس نے درد سے چیخنا شروع کر دیا۔ کسی طرح جلدی سے درخت سے نیچے اترا اور ایک تالاب میں کود کر جان بچائی۔
اب تو چیتا غصہ میں بھرا ہوا تھا۔ وہ ہر قیمت پر چالاک ہرن کو سبق سکھانا چاہتا تھا۔ اس نے پھر دوڑ لگائی اور تیزی سے چالاک ہرن کا پیچھا کرتے ہوئے اس جالیا۔
” چالاک ہرن تم نے دو مرتبہ مجھے دھوکہ دیا۔ لیکن اب تمہیں میرا کھانا بننا پڑے گا۔ ” چیتے نے غصے میں کہا۔
چالاک ہرن نے پھر ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ اسے ایک بڑا سا اژدھا نظر آیا۔ وہ اپنا جسم لپیٹ کر مزے سے سورہا تھا۔
” نہیں نہیں چیتے۔ میں تمہارا کھانا نہیں بن سکتا کیوں کہ بادشاہ نے مجھے اپے بیلٹ کی حفاظت کرنے کو کہا ہے۔ "
"بیلٹ! کہاں ہے بادشاہ کی بیلٹ؟” چیتے نے حیران ہو کر سر گھمایا۔
” وہ رہی۔ ” چالاک ہرن نے اژدھے کی جانب اشارہ کیا۔ اس کا رنگ برنگا جسم دیکھ کر چیتا بہت متاثر ہوا۔
"دیکھو چالاک ہرن کیا میں یہ بیلٹ پہن کر دیکھ سکتا ہوں ؟”
” نہیں نہیں۔ اگر بادشاہ سلامت کو پتہ چل گیا کہ ان کی بیلٹ کسی اور نے پہنی ہے تو وہ بہت غصہ ہوں گے۔ "
” صرف ایک بار۔ "
” اچھا تو پھر مجھے بھاگنے دو تاکہ مجھ پر الزام نہ آسکے۔ "
چیتے نے پھر ہر مرتبہ کی طرح اسے بھاگنے کی اجازت دے دی۔
” ارے واہ بادشاہ کی بیلٹ۔ "چیتے نے یہ کہا اور لپک کر اژدھے کو اٹھا لیا۔ ابھی اس نے کھڑے ہو کر بڑے فخر سے وہ "بیلٹ” اپنی کمر میں لپیٹی۔ اژدھا پہلے تو سمجھ نہ سکا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر اچانک اس نے بڑا سا منہ کھولا۔ چیتا اتنے بڑے اژدھے کو دیکھ کر ڈر گیا اور وہاں سے بھاگ گیا۔ اس کے بعد کبھی چیتے نے ہرن کی طرف بھوکی نظروں سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔
٭٭٭
گھر پیارا گھر
دریائے نیل خاموشی کے ساتھ رواں دواں تھا اور جب اس سے قریبی اہرام مصر پر صبح سورج کی ابتدائی کرنیں پڑتیں تو افق کے مقابل بہت پر شکوہ نظر آتا۔ سورج جب اپنی شعاع کو اہرام سے ٹکرا کر صحرا کی ریت پر پھینکتا تو وہ پرامن سرزمین بھی جاگ جاتی۔
اس وقت صرف کچھ چڑیوں کی چہچہاہٹ اور کہیں سے گائے کے بولنے کی آواز آئی۔
تائی اور بویا، دو سیاہ چمکدار آئبیں بھی اپنے گھونسلے میں جاگے جو دریا کے کنارے سے کچھ فٹ اوپر تھا۔ دونوں نے باری باری اپنے پیروں کو پھیلا کر انگڑائی لی اور پھر کھڑے ہو کر اپنی پتلی اور لمبی ٹانگوں کو سیدھا کرنے لگے۔ منہ سے بغیر کوئی آواز نکالے۔ دونوں نے لمبے سرکنڈوں سے گزر کر تیز بہتے ہوئے دریا کی پرواز کی۔ جیسے جیسے سورج آسمان میں اوپر جاتا گیا ویسے ویسے گرمی کی شدت بھی بڑھتی گئی۔ دونوں پرندوں نے بھی اپنے سیاہ پروں سے حرارت محسوس کی۔ تائی اور یویا نے پہلے سرکنڈوں کے نچے حصوں پر تھونگے مار کر اور پھر کالے کیچڑ میں، کھٹملوں اور دریا کے کنارے کم پانی میں چھینٹے اڑاتی مچھلیوں کو تلاش کرنا شروع کیا۔ جب بھی انہیں کوئی مچھلی نظر آتی تو وہ اسے اپنی تیز مڑی ہوئی چونچوں کے ذریعے گھس کر نکال لیتے۔
جب تائی اور یویا کھانے میں مشغول تھے تو انہوں نے دریا کے کنارے کچھ بچوں کو دیکھا جو چھینٹے اڑانے اور تیرنے میں مصروف تھے۔ ایک چھوٹا لڑکا جو کچھ ہی دور بیٹھ کر پہلے اپنے ہاتھ میں کیچڑ بھرتا پھر ہوا میں اچھال دیتا۔ اس کے سنہری بال کیچڑ میں آ کر لگنے چیخ رہی تھیں۔ تائی کو یہ سب بہت اچھا لگا۔ اس دوران ایک بحری جہاز وہاں سے گزرا، جس کا بادبان پھڑپھڑا کر ہوا میں سنسنی پیدا کر رہا تھا۔ تائی کی آنکھیں جہاز کے عرشے پر کھڑے مرد اور عورت پر پڑی جو تیز ہوا کے مقابلے پر جم کے کھڑے ہوئے تھے۔
جیسے ہی پویا نے ایک بڑا سا بھنورا نکلا تو اس کی نظر بھی ایک شاندار کشتی پر پڑی جو کہ بہت سجی ہوئی تھی اور شاید اسیر لوگ ہی اس میں سفر کر سکتے تھے۔ کشتی کے تختہ پر انار، لیموں اور نارنگیوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ یویا نے ایک گہرا سانس لیا اور اب وہ ایک ترش مہک سونگھ سکتا تھا۔ اس نے دوبارہ ایک نچلی پرواز کی اور دریا سے ایک گھونٹ پیتا ہوا واپس اوپر آ گیا۔ اب اسے محسوس ہوا کہ دریا مزید تیز ہو گیا ہے۔ تائی نے بھی اس بات کو محسوس کیا۔ اس نے اوپر دیکھا تو کالے بادل نظر آئے۔ ” اب ضرور بارش ہو گی۔ ” تائی نے یویا سے کہا ہمیں طوفان سے پہلے پہلے نکل جانا چاہیے۔ "
انہوں نے جیسے ہی اڑنے کی کوشش کی تو نہ اڑ سکے کیوں کہ ان کے پیر کیچڑ میں پھنس گئے تھے۔
"ہماری مدد کرو! ہماری مدد کرو۔ ہم چپک گئے ہیں۔ ” تائی زور زور سے چیخا۔
یویا کے اب تک چونچ میں مچھلی تھی۔ اس نے بھی پکارا۔
"م…. دد! مم…. دد! اس لیے لفظ مدد بولنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ کیوں کہ اس کے حلق میں مچھلی جو پھنس گئی تھی۔ دونوں آئبوں نے سرکنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ اب تائی نے دریا کی طرف دیکھا۔ بادبانی جہاز گزر چکا تھا اور وہ کشتی بھی جا چکی تھی اور اب صرف کھیلتے ہوئے بچے دیکھے جا سکتے تھے۔ اس نے دیوانہ وار ہر طرف نظر دوڑائی۔ اچانک اسے دو بڑی بڑی آنکھیں اپنی طرف بڑھتی محسوس ہوئیں اور پھر تائی کے ہوش اڑ گئے۔ کیوں کہ وہ ایک بھوکا مگر مچھ تھا۔ کاٹی نے یوبا کوپر مار کر متوجہ کیا اور اب دونوں نے ساتھ مل کر پورا زور لگایا اور جیسے ہی مگر مچھ نے انہیں کھانے کیلئے اپنا بڑا سا منہ کھولا، تائی اور یویا نے اس کے دانتوں سے بچتے ہوئے خود کو نکال لیا اور جلدی سے اڑ گئے۔ تائی اور یویا کا گھونسلہ بارش سے بھیگ چکا تھا اور اب انہیں کسی خشک جگہ کی تلاش تھی۔ اڑتے اڑتے وہ صحرا میں کسی قسم مینار پر بیٹھ گئے جو آدھا اندر دھنسا ہوا تھا۔ جب انہوں نے کچھ دیر آرام کر لیا تو تائی کو وہاں سے ایک چھپکلی نظر آئی جبکہ یویا کو ایک چھونا سا بچھو ملا۔ دونوں اپنے شکار کو پکڑنے کیلئے سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک زوردار نتھنوں کی آواز انہیں پیچھے سے سنائی دی۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ایک پتلی سی زبان نکلی ہوئی دکھائی دی اور دو گول گول آنکھیں جو انہیں گھور رہی تھیں۔ ڈر کے مارے دونوں نے وہاں سے اڑ کر مغرب کی طرف سفر شروع کیا اور اونٹ نے انہیں اس طرح سہما دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا۔
کاٹی اور یویا اب مایوسی سے کسی جگہ کی تلاش میں تھے۔ جہاں وہ مچھلیوں اور کھٹملوں کو کھا سکیں لیکن کوئی انہیں نہ کھا سکے۔
"چلو وہاں چلتے ہیں۔ ” تائی نے ایک دریا کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ تائی اور یویو گرم ریت میں اترے اور یویا نے ادھر ادھر کا جائزہ لینے کے بعد کہا۔
"ہوں ں …. یہ سب سے عجیب جگہ ہے جو میں پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں۔ نہ کھجور کے درخت اور نہ ہی سرکنڈے۔ یہ کون سی جگہ ہے ؟”
تائی نے کہا۔ ” یہاں کم از کم ہم پر مگر مچھ بھوکی نظروں سے حملہ نہیں کریں گے۔ "
"آہا…. وہ دیکھو کھٹمل۔ "
دونوں آئبیں کیڑوں کو کھانے میں مصروف تھے کہ اچانک ایک بڑے سے سائے نے ان پر چھا_¶ں کر دی اور وہ بڑا ہوتا چلا گیا۔
"یالٹیکس! وہ دیکھو کیا ہے۔ ” تائی چیخا۔
"اتنا بڑا جہاز اتنے پتلے سے دریا میں۔ ” یویا نے کہا
ارے وہ کیا لکھا ہے۔ ” سو …. ئز کنال۔ اچھا، تو یہ کنال ہے۔ تبھی تو کہوں مجھے کوئی مچھلی کیوں نظر نہیں آ رہی۔ یہ دریا نہیں کنال ہے۔ "
دونوں پرندوں نے وہیں کنال پر رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے وہاں گھونسلہ بنایا اور کھانے پینے کیلئے جہازوں سے پھینکی گئی چیزوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اب آئبیں کو کسی بارش اور مگر مچھ سے خطرہ نہیں تھا۔ اگرچہ اب ان کے لیے کوئی مچھلی نہیں تھی مگر کھٹمل کافی تھے۔ اب سیاہ چمکدار آئبیں کو اور کیا چاہیے ؟
٭٭٭
ایک کوڑی اور مکاٹو
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک لڑکا تھا جس کا نام مکاٹو تھا۔ وہ ایک یتیم بچہ تھا۔ اس کے ماں باپ اس کے بچپن ہی میں مر گئے تھے۔ اس کی دیکھ بھال کرنے کے لئے نہ کوئی بہن بھائی تھے نہ رشتہ دار اور دوست۔ اسے اپنے لئے آپ ہی کمانا پڑتا تھا۔ اس نے ہر طرح کے کام کئے۔ کبھی وہ روزی کمانے کے لئے لوگوں کا بھاری سامان ڈھوتا، کبھی جنگل صاف کرتا اور کبھی جانوروں کو راتب کھلاتا۔ اس نے ہر کام کیا۔ وہ کبھی نچلا نہیں بیٹھا۔ وہ کام چور بھی نہیں تھا۔ ہر کام دل لگا کر کرتا۔ اگرچہ سخت محنت مزدوری کے بعد اسے تھوڑی سی رقم ملتی، وہ پھر بھی خوش رہتا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر میں کام نہیں کروں گا تو بھوکوں مروں گا۔ وہ جو کام بھی کرتا سوچ سمجھ کر اور محنت سے کرتا۔ وہ بہت خوش مزاج اور ہنس مکھ بھی تھا۔ چنانچہ وہ جس کے ہاں بھی کام کرتا، وہ اس کی تعریف کرتا۔
ایک سہانی شام وہ لکڑی کا ایک بہت بڑا تنا کاٹ کر فارغ ہوا، تو ذرا سانس لینے کے لئے بیٹھ گیا۔ یوں بیٹھے بیٹھے وہ سوچنے لگا کہ مجھے آئندہ کیا کرنا چاہئے۔ وہ انجانے دور دراز علاقوں میں جا کر اپنی قسمت آزمانا چاہتا تھا، کیونکہ اسے نئے نئے کام کرنے کا بہت شوق تھا۔
اس کے مالک نے آ کر پوچھا "میرے بچے ! تم اتنے دھیان سے کیا سوچ رہے ہو؟”
مکاٹو نے شمال مشرق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا "میں وہاں جانا چاہتا ہوں۔ میں نے سنا ہے وہاں کی زمین بہت زرخیز ہے اور وہاں کے لوگ بہت نیک اور رحم دل ہیں۔ کاش میں یہ علاقہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا!” یہ کہہ کر اس کی آنکھیں شوق سے چمک اُٹھیں۔
مالک بولا "جس جگہ تم جانا چاہتے ہو اس کا نام سوکھو تھائی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سوکھو تھائی کا بادشاہ پرا روانگ بہت ہی رحم دل ہے۔ اگر تم وہاں پہنچ سکو تو شاید تمہاری قسمت چمک اُٹھے "۔
کچھ دنوں بعد مکاٹو نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنا گاؤں چھوڑا اور دنیا کی سیر کو نکل کھڑا ہوا۔ وہ مزے لے لے کر نئے اور دلچسپ نظارے دیکھتا، راستے میں لوگوں سے ملتا آگے ہی بڑھتا رہا۔ ایک مہینے کے سفر کے بعد وہ سوکھو تھائی کی سلطنت کی سرحد پر ایک گاؤں میں پہنچ گیا۔
مکاٹو کو ایک بوڑھی عورت دکھائی دی جو پانی کا ایک بہت بڑا گھڑا سر پر رکھے جا رہی تھی۔ مکاٹو نے اس سے کہا "کیا مجھے ذرا سا پانی پینے کو مل جائے گا؟ مجھے سخت پیاس لگی ہے "۔
بوڑھی عورت نے ایک چھوٹے سے پیالے میں مکاٹو کو پانی دیا، پھر اُس سے پوچھا "تم کہاں سے آئے ہو؟ تم بالکل اکیلے کیوں ہو؟ یوں لگتا ہے جیسے تم بہت دور سے آئے ہو”۔
مکاٹو نے پانی پی کر کہا "بہت بہت شکریہ!”
بوڑھی عورت نے پھر پوچھا "تمہارے ماں باپ کون ہیں ؟ کیا تمہارا کوئی رشتہ دار نہیں ہے ؟”
مکاٹو نے بتایا "نہ میری ماں ہے اور نہ باپ۔ میں مون شہر سے آیا ہوں "۔
"او میرے خدا! کیا تم واقعی مون شہر سے آئے ہو؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ نہ تم اکیلے سفر کر رہے ہو! تم تو اتنے چھوٹے ہو!”
مکاٹو بولا "میں سوکھو تھائی کے پراروانگ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بہت رحم دل بادشاہ ہیں "۔
بوڑھی عورت نے کہا "تم بہت ہمت اور پکے ارادے والے لگتے ہو! آؤ میرے ساتھ۔ کسی کو کیا پتہ، شاید تم پرا روانگ کو دیکھ ہی لو”۔
مکاٹو خوشی خوشی بڑھیا کے ساتھ چلا گیا۔ اس نے سوچا اگر میں اس رحم دل بڑھیا کا کام کروں گا تو مجھے سونے کو جگہ، کھانے کو روٹی تو مل ہی جائے گی اور شاید کسی نہ کسی دن قسمت نے ساتھ دیا تو بادشاہ کو دیکھنا بھی نصیب ہو جائے۔
بڑھیا کا شوہر، پراروانگ کا ایک مہاوت تھا۔ وہ بادشاہ کے دوسرے مہاوتوں کے ساتھ مل کر بادشاہ کے سیکڑوں ہاتھیوں کی دیکھ بھال کرتا۔ مکاٹو اس کام میں اس کا ہاتھ بٹانے لگا۔ وہ ہاتھیوں کے لئے راتب لانے اور ہاتھیوں کے تھان کی صفائی ستھرائی میں اس کی مدد کرتا۔ وہ بہت محنت سے اور دل لگا کر کام کرتا۔ مہاوت اور اس کی بیوی دونوں ہی اس کو بہت پیار کرتے تھے۔
ایک دن آسمان بالکل صاف تھا اور موسم بہت ہی سہانا تھا۔ نہ جانے کیو ں مکاٹو کو یوں لگ رہا تھا کہ آج کا دن بہت نیک ہے۔ جب وہ ہاتھیوں کے تھانوں کی صفائی کر رہا تھا تو ایک لمبے قد کا آدمی اندر آیا۔ اس نے بہت ہی شاندار لباس پہن رکھا تھا اور اس کے ساتھ کئی نوکر چاکر تھے۔ یہ پراروانگ خود تھا۔ مکاٹو نے فوراً ہاتھ جوڑ کر اسے جھک کر سلام کیا۔ اس وقت اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
بڑھیا کا شوہر بھی وہاں موجود تھا، بادشاہ نے اس سے پوچھا "یہ لڑکا کہاں سے آیا ہے ؟”
مہاوت نے ادب سے جھک کر بتایا "یہ لڑکا مون شہر سے آیا ہے۔ اس نے آپ کی تعریف سنی تھی۔ یہ آپ کو دیکھنے کے شوق میں اتنا راستہ پیدل چل کر یہاں پہنچا ہے "۔
"اس کی عمر کیا ہو گی؟”
"بادشاہ سلامت! بارہ سال”۔
بادشاہ نے خوش ہو کر کہا "خوبصورت اور محنتی لڑکا ہے۔ تم اس کا اچھی طرح خیال رکھنا”۔
جیسے ہی بادشاہ باہر گیا، مکاٹو نے زمین پر ایک کوڑی پڑی دیکھی۔ اس نے فوراً وہ کوڑی اُٹھائی اور بھاگ کر بادشاہ کی خدمت میں جا پیش کی۔ مگر بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا "یہ تم رکھ لو”۔
مکاٹو نے سوچا "آہا۔ مزا آ گیا۔ بادشاہ نے مجھے ایک کوڑی دی ہے "۔
اس زمانے میں سوکھو تھائی کے لوگ کوڑی کو سکے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اگرچہ ایک کوڑی کی ذرا سی حیثیت تھی، پھر بھی مکاٹو تو اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا، کیونکہ یہ تو بادشاہ کا دیا ہوا تحفہ تھا۔ بہت عرصے تک اسے کوئی ایسی تدبیر نہ سوجھی جس سے وہ اس ایک کوڑی سے زیادہ سے زیادہ کما سکتا۔
ایک دن بازار میں وہ پودوں کے بیجوں کی دکان کے سامنے سے گزرا۔ اس نے دکان پر نگاہ ڈالی۔ وہاں اس نے ایک ٹوکری دیکھی جو سلاد کے بیجوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے سوچا "سلاد! ایسے چھوٹے چھوٹے پودے تو میں بھی اُگا سکتا ہوں "۔ پھر اس نے دکان پر بیٹھی ہوئی ہنس مکھ عورت سے پوچھا۔
"کیا میں سلاد کے بیج خرید سکتا ہوں ؟”
اس عورت نے پوچھا "ہاں، بیٹا! تمہیں کتنے بیج چاہئیں ؟”
مکاٹو بولا "میرے پاس تو ایک ہی کوڑی ہے "۔
عورت نے ہنسے ہوئے کہا "بس ایک ہی کوڑی! اس سے تو کچھ بھی نہیں خریدا جا سکتا۔ میں تو اتنے بیج تول بھی نہیں سکتی!”
مکاٹو نے بہت شوق سے کہا "دیکھیے میں اپنی انگلی بیجوں کے اس ڈھیر میں ڈالتا ہوں اور جتنے بیج بھی انگلی سے لگ جائیں، بس وہ آپ اس کوڑی کے بدلے مجھے دے دیجئے گا”۔
عورت مکاٹو کی یہ تجویز سُن کر بہت ہنسی اور بولی "اچھا چلو یوں ہی سہی۔ اپنی انگلی بیجوں میں ڈالو!”
مکاٹو نے کوڑی عورت کو دی۔ پھر اپنی انگلی منہ میں ڈال کر گیلی کی اور بیجوں کے ڈھیر میں ڈال دی۔ جب اس نے اپنی بھیگی ہوئی انگلی ڈھیر میں سے باہر نکالی تو ساری انگلی پر بیج ہی بیج تھے۔
مکاٹو نے بہت حفاظت کے ساتھ سارے بیج اُتار کر اپنی ہتھیلی پر رکھے اور مٹھی کو مضبوطی کے ساتھ بند کر کے وہ خوشی خوشی وہاں سے چلا گیا۔
اب جو اس کے پاس بیج آ گئے تو اس نے فوراً زمین میں گوڈی کی اور بیج بو دیئے۔ ہر روز صبح وہ کیاری کو پانی دیتا۔ چند ہی دنوں میں ننھے ننھے پودے نکل آئے۔ پھر مکاٹو نے کچھ اور زمین صاف کی اور کچھ اور بیج بو دیئے۔ یوں چند ہی دنوں میں پورا کچن گارڈن تیار کر لیا۔ وہ اپنے ننھے منے ہرے بھرے کھیت کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا۔
مکاٹو نے سوچا "اس خوبصورت سلاد کے کچھ گچھے بادشاہ کو بھی پیش کر دوں تو کتنا اچھا ہو!”
ایک دن پھر بادشاہ ہاتھیوں کے تھانوں کے پاس سے گزرا۔ مکاٹو بھی موقع کے انتظار میں تھا۔ وہ اپنے گھٹنوں پر جھکا اور تازہ تازہ سلاد کے سب سے بڑے گچھے بادشاہ کی خدمت میں پیش کئے۔
بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا "یہ تمہیں کہاں سے ملی؟”
مکاٹو نے خوشی سے مسکراتے ہوئے کہا "بادشاہ سلامت! وہ کوڑی جو آپ نے مجھے بخشی تھی، میں نے اس سے بیج خریدے اور یہ سلاد اُگائی”۔
بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا "مگر کیسے ؟ ایک کوڑی میں یہ سب کیسے ممکن ہوا؟”
مکاٹو نے بادشاہ کو ساری کہانی سنادی۔ بادشاہ کو اس کی عقل مندی اور محنت بہت پسند آئی اور اس نے مکاٹو کو محل میں نوکر رکھ لیا۔
کئی سال اسی طرح گزر گئے۔ مکاٹو اب ایک تندرست، خوبصورت لمبا جوان آدمی بن چکا تھا۔ بادشاہ جو کام بھی اسے سونپتا وہ پوری محنت اور سلیقے سے کرتا۔ بادشاہ اس پر بھروسہ کرنے لگا۔ اسے بڑے سے بڑا عہدہ ملتا گیا، یہاں تک کہ اسے "کھن وانگ” کا خطاب ملا، جس کا مطلب تھا کہ وہ بادشاہ کے دربار میں سب سے اہم آدمی ہے۔ اور بالآخر بادشاہ نے اسے مون شہر کا حاکم بھی بنا دیا۔
مون شہر کا وہی یتیم بچہ جس کا دنیا میں کوئی نہیں تھا اپنی محنت اور لیاقت سے وہاں کا بادشاہ بن گیا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.vshineworld.com/urdu/library/stories/1
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید