فہرست مضامین
بوسوں کی تدفین
نسیم خان
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
… مکمل کتاب پڑھیں
بوسوں کی تدفین
نسیم خان
جبری گمشدگی
ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ ہم اپنے پیڑوں کا آکسیجن استعمال کرتے ہیں
اپنے دریاؤں کا پانی پیتے ہیں
اپنی زمیں کو بچھاتے اور اپنے آسماں کو اوڑھتے ہیں
ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ ہم اپنے نام سے پکارے جانا چاہتے ہیں
وہ نام جو ہمیں اپنے آبا و اجداد اور اپنی دھرتی سے ملا ہے
مگر وہ ہمیں باغی قرار دیتے ہیں
ہمارے بیٹوں کو سڑکوں پر سے
گندم کے دانوں کی طرح چُگ لیا جاتا ہے
وہ ہمارے لوگوں کو لاپتہ کر دیتے ہیں
جیسے جادوگر اپنی ٹوپی میں کبوتر کو غائب کر دیتا ہے
وہ ہمارے بچوں کو یوں غائب کر دیتے ہیں
جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں
وہ صرف کاغذات میں زندہ رہتے ہیں :
نام، تاریخِ پیدائش ،والد، قوم۔۔۔۔
(یقیناً، آثارِ قدیمہ والے کئی سو سال بعد ہماری آہوں کا کوئی قبرستان ڈھونڈ نکالیں گے)
ان کے بس میں ہوتا
تو وہ سورج کو کسی ٹارچر سیل میں پھینک دیتے ،
چاند کی لاش کسی بوری سے ملتی۔
ان کے بس میں ہوتا تو وہ زندگی کو کسی جعلی انکاونٹر میں مار دیتے
کوئی نہیں جانتا
لاپتہ بچوں کی مائیں
ایک دن میں اپنے اندر کتنی دفعہ لاپتہ ہوتی ہیں
کوئی نہیں جانتا
لاپتہ لوگوں کی روحوں کو موت کا کونسا فرشتہ پہلے
قبض کرتا ہے
کوئی نہیں جانتا
لاپتہ لوگوں اور سوالوں میں کیا فرق ہوتا ہے؟
٭٭٭
اس کی کوئی ہئیت نہیں ہے
چلتے ہوئے وہ پگڈنڈی بن جاتی ہے
باغ میں ایک پھول بن جاتی ہے
ندی میں ندی بن جاتی ہے
گنگناتے ہوئے ایک نغمہ بن جاتی ہے
محبت کرتے ہوئے محبت بن جاتی ہے
وہ ایک نثری نظم ہے
اس کی کوئی ہئیت نہیں ہے
٭٭٭
میں کھو گیا تھا۔
سوری!
میں
تمہاری کال نہیں اٹھا سکا
ایسا ہے
میں اک جنازے میں تھا
کل رات تمہاری طرف آتے ہوئے
میرے دل پر ماضی کا ایک ٹرک چڑھ گیا تھا۔
سوری!
میں یادوں کی الماری میں
کپڑے رکھتے ہوئے
بھولے سے
خود کو بھی رکھ آیا تھا۔
سوری!
میرے ہاتھ
ان خوابوں کا گلا دبانے میں مصروف تھے
جو ایک گاوں کے لڑکے نے
ایک شہر کی لڑکی کے ساتھ دیکھے تھے۔
سوری!
میں اپنی سسکیاں
تمہیں نہیں سنانا چاہتا تھا
جن سے تمہاری ہنسی میں دراڑ پیدا ہو سکتی تھی۔
سوری!
میں تمہاری کال نہیں اٹھا سکا
ایسا ہے
میں امی کا سر دباتے دباتے
اس کی بیمار آنکھوں میں سو گیا تھا۔
سوری!
میں
کھو گیا تھا۔
٭٭٭
جنگ اور مزید جنگ
یقیناً جنہوں نے جنگ کا آغاز کیا ہو گا
ان کی مائیں نہیں ہوں گی
جو ان کے سر اپنی گود میں رکھ کر
انہیں بتاتیں
بیٹا، کسی بھی زمین کا ٹکڑا ماں کی گود سے زیادہ پر سکون نہیں ہو سکتا!
جنگ مسلط کرنے والے نہیں جانتے کہ
ایک بچے کی موت کے ساتھ
ایک ستارہ بھی بجھ جاتا ہے
اور ایک دن آسمان پر مکمل اندھیرا چھا جائے گا
وہ نہیں جانتے کہ پھولوں کو گولیوں سے چھلنی نہیں کرتے
تتلیوں کو آری سے نہیں کاٹتے
اور قوس قزح کو توپ سے نہیں اڑاتے
وہ نہیں جانتے
خون کوئی مشروب نہیں ہے
آہیں اور سسکیاں کوئی گیت نہیں ہیں
انسان ان کے غلام نہیں ہیں
اور وہ کوئی خدا نہیں ہیں
جن کے باپ مار دئیے گئے ہوں
ان کو ستارے انگلی سے پکڑ کر چلنا کیسے سکھائیں گے؟
کوئی پیڑ انہیں کندھوں پر کیسے بٹھا کر گلیوں میں گھمائے گا؟
جن ماؤں کے بچے مار دئیے گئے ہوں
سورج ان کے سینوں میں توپ کے گولے کی طرح ڈوبتا ہے
جن بچوں کی مائیں مار دی گئیں ہوں
ان کو چاند اپنی چھاتی سے دودھ کس طرح پلائے گا؟
یقیناً جنگ کا آغاز انہوں نے کیا ہو گا
جن کی مائیں اب نہیں رہیں
وہ موت کو غور سے سننا چاہتے ہیں
اور سمجھتے ہیں کہ
سب سے میٹھی لوری وہی ہے جو موت انہیں سناتی ہے۔
٭٭٭
بیٹی
اچھی دنیا!
میری بیٹی بے شک حسین ہے
مگر وہ با صلاحیت بھی ہے
اس کی صلاحیتوں کو پسِ منظر میں چھپا کر
اس کی مورت کو اسٹیج پر لا کر کھڑا مت کرنا!
اچھی دنیا!
میری بیٹی کی زلفوں کو پھندے قرار دے کر
اسے ایک شکاری مت بنا!
اس کے ہونٹوں کو کلی بتا کر
انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سِل مت دینا!
اس کی آنکھوں کو سمندر بتا کر
وہاں اس کے خواب ڈوبنے مت دینا!
اس کی کمر کو بل کھاتا رستہ بول کر
اسے پامال مت کرنا!
اسے پھول کہہ کر
اس کے انسانی وقار کو پھول کی طرح مت توڑنا!
اچھی دنیا!
میری اچھی اور پیاری دنیا!
میری بیٹی کو محض بچے جننے والی مشین مت بنانا!
اس کی شناخت صرف ایک گھریلو خاتون تک محدود مت کرنا
اسے خود کو ایک پورا انسان محسوس کرنے کا موقع ضرور دینا!
اسے ایک موقع ضرور دینا!
٭٭٭
وہ کہتے ہیں
وہ کہتے ہیں:
’’مضبوط رہو!‘‘
جیسے کچی دیوار کو
طوفان میں گرنے سے منع کیا جاتا ہے ۔
وہ کہتے ہیں:
’’سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
جیسے ڈپریشن میرے ساتھ صرف پرینک کر رہا ہو۔
وہ کہتے ہیں:
’’وقت سارے زخم بھر دیتا ہے۔‘‘
مگر وہ بھول جاتے ہیں میں زخمی نہیں ہوں
میں بس اڑان بھول چکا ہوں۔
وہ کہتے ہیں:
’’زندگی چلتی رہتی ہے۔‘‘
بالکل، یہ کسی ٹرین کی طرح میری روح کے اوپر چلتی رہتی ہے۔
٭٭٭
میں
میری ہمت جواب دے گئی ہے
ڈپریشن آپ کو وہ کچھوا بنا دیتا ہے
جو کہانی میں بھی نہیں جیتتا۔
سائیکاٹرسٹ نے مجھے واک پر جانے کا کہا ہے
مگر میں واک کرتے ہوئے نجانے کب خوابوں میں داخل ہو جاتا ہوں
جن میں میں ایک قدم بھی نہیں چل پاتا۔
سائیکاٹرسٹ نے مجھے اچھی نیند لینے کا کہا ہے
اسے لگتا ہے نیند کسی ریل کی ٹکٹ ہے جو بڑی آسانی سے مل جائے گی
میں سو نہیں پاتا
جیسے کوئی مجھے نیند میں مار دے گا
میں سو نہیں پاتا
جیسے نیند نے اپنی چھاتیوں پر مرچی مل دی ہو
تاکہ میں اس کا دودھ نہ پی سکوں۔
سائیکاٹرسٹ نے مجھے خوش رہنے کا کہا ہے
اسے شائد نہیں پتہ
خوشی ہماری پالتو بلی نہیں جو ہمارے کہنے پر ہمارے سینے پر آ کودے گی
میری ہمت جواب دے گئی ہے
میں زیادہ دیر تک خوش نہیں رہ پاتا
جیسے میرے جسم میں خوشی کے ہارمونز ہی نہیں ہیں۔
مجھے اپنا آپ کسی غریب کا مکان لگتا ہے
میرا دل کسی خستہ حال چھت کی طرح بارشوں میں رستا رہتا ہے۔
میں نے اپنے دل سے نکلنا بند کر دیا ہے
میں بس دل کے کسی کونے میں بیٹھ کر تمہیں یاد کرتا رہتا ہوں
میں ایک ایسا انٹرورٹ ہوں جو اپنے باقی جسم سے بھی نہیں ملنا چاہتا۔
٭٭٭
امید
چاہے جتنی بھی اداسی ہو
بستر سے اٹھو
کمرے سے نکل کر کہیں بھی چلے جاؤ
کسی پارک
صحرا
سمندر کنارے
یا کسی کیفے
تصویریں اچھی نہ آئیں
تو پوز اور لوکیشن بدل کر کوشش کرنی چاہیے!
٭٭٭
ہجرت
انہوں نے چند پیتل کے برتن، زنگ آلود صندوق ،دری ،تکیے اور باقی سامان کو کیمپ میں سلیقے سے رکھ دیا
سب کچھ اپنی جگہ پر تھا
مگر ہجرت کی وہاں کوئی جگہ نہیں بن پا رہی تھی
لہذا، کچھ سوچے بغیر ہی، انہوں نے اس کے گلے میں رسی ڈال کر
اسے اپنے کتے کے ساتھ بھونکنے کے لیے باہر باندھ دیا!
٭٭٭
الوداع
تمہارے چلے جانے کے بعد لگتا ہے
میں زمین کے اوپر آگے کی طرف نہیں چل رہا
بلکہ ہر قدم کے ساتھ زمین کے اندر دھنستا چلا جا رہا ہوں۔
الوداع کے وقت میں کسی زخمی پرندے کی طرح زمین پر آ گرا۔
تمہارے بعد
اب تو مجھے اپنی بارش کے تر ہونے کا بھی بھروسہ نہیں ہوتا۔
میری رات میرے دل کی طرح ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے
مجھے اس کی دھڑکنوں سے ڈر لگتا ہے
میں آہستہ آہستہ مٹ رہا ہوں :
میں کھانے کے لیے
خود کو بلانے جاتا ہوں
تو میں کمرے میں نہیں ہوتا۔
(کالا رنگ مجھے بہت پسند ہے:
دکھ جو کالے میں ملبوس ہو۔)
میرے نئے سال کا سب سے پہلا عزم یہی ہے
کہ میں نے کسی کی محبت میں گرفتار نہیں ہونا ہے
اور یہ کہ
(میری آنکھیں نم ہو گئی ہیں)
میں نے اسے مکمل بھلا دینا ہے۔
میں تمہیں بھی یہی کہوں گا
محبت کو اپنے اندر پنپنے مت دو
یہ جلد یا بہ دیر تمہیں مار دے گی
لٹیروں کو گھر میں پناہ نہیں دیتے!
٭٭٭
یادیں
ایک یاد خون کی طرح میری کلائی یا شائد میری آنکھوں سے رس رہی ہے
اگرچہ خون اور آنسو ایک نہیں ہیں مگر درد کی شدت میں آدمی کو اتنا تو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنے زخموں کو پرندے کے گھاؤ بتائے
اور اپنے دل کو ایک تاریک کمرہ جس میں اس کے سوا کوئی نہیں آتا جاتا۔
اگرچہ سے بات شروع کر کے بات کہاں ختم کی جا سکتی ہے
سوائے اس کے کہ
میں نے تمہیں پیار کیا
تمہیں اپنے دل میں آنے کی اجازت دی
مگر تم کسی تیز دھار تلوار کی طرح میرے آر پار ہو گئی۔
میں بیک وقت اپنا بڑا بھائی، اپنی امی اور ابو ہوں۔ ہم مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے مایوس چہروں کو تکتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کی موت کے بارے میں فکر مند ہے۔ لگتا ہے ہم کسی قدرتی آفت کے منتظر ہیں۔
میں خود کا پاگل بھائی ہوں
جس کا میرے سوا کوئی نہیں ہے
وہ بچوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے مگر وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں
اور یہ کہ زندگی بہت مشکل ہے
اتنی مشکل جتنا ایک دل کا جڑنا ہے
اتنی مشکل کہ اس کا نام موت بھی نہیں رکھا جا سکتا۔
٭٭٭
کردار
میرے پاس تین کردار ہیں۔
پہلا ایک پچیس سالہ نوجوان ہے جو اب کسی سے نہیں بولتا۔ وہ خود کو بھی نہیں بتاتا کہ اس نے بولنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ وہ اکثر شام کو ایک دریا کنارے بیٹھ جاتا ہے اور ریت پر انگلی سے ’زندگی‘ لکھتا اور مٹاتا رہتا ہے۔
دوسرا کردار ایک بچے کا ہے جو کئی مہینوں سے اپنے پھٹے ہوئے جوتوں کے بارے میں فکر مند ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اسکول میں اس کے دوست اس کا اسی طرح مذاق اڑاتے رہیں۔ اسے ریت کا گھروندہ بنانے کے بعد اسی کے اندر سو جانا چاہیے مگر وہ ایسا سوچ نہیں پاتا۔
کالج کا ایک طالبعلم جسے گرامر میں بہت دلچسپی ہے۔ ایک دن وہ ایک لڑکی سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔ وہ ’میں تم سے پیار کرتا ہوں۔‘ کے بعد فل اسٹاپ لگا دیتا ہے مگر پھر اس کے ساتھ اس کی زندگی بھی رک جاتی ہے۔
وہ کئی سال سے سوچ رہا ہے کہ آج وہ اپنے جملوں کو فنکچویشن مارکس سمیت اٹھا کر سمندر میں پھینک دے گا۔
لوگ صرف ہمارے ناپ کی قبریں کھود سکتے ہیں
ہمیں دل میں جگہ نہیں دے سکتے۔
میں نے کہیں نہیں پڑھا
مگر یہ کہیں لکھا ہونا چاہیے:
’’محبت کرنے سے پہلے محبوب سے اجازت نامہ ضرور لے لینا چاہیے!‘‘
جب سے میری محبت ناکام ہوئی ہے۔ میں ہر نظم کو ایک الوداع کے طور پر لکھتا ہوں۔ الوداع بدترین بد دعا ہے جو ہم کسی کو دیتے ہیں۔
میرا نام نسیم ہے اور میں ایک ڈرپوک انسان ہوں۔ وہ مجھے چھوڑ کر جا چکی ہے۔ وہ مجھے چھوڑ کر جا چکی ہے۔
میرا نام نسیم ہے اور میرے سینے میں یہ لفظ لکھتے ہوئے بہت درد ہے۔ میں اپنی ماں سے دور کسی دوسرے شہر میں بستر پر لیٹا ہوا ہوں اور شدت سے چاہتا ہوں کہ میں اپنی ماں میں بدل کر اپنے بیٹے کو ماتھے پہ ایک بوسہ دوں اور اس کا سر دباؤں جب تک کہ وہ سو نہیں جاتا۔
٭٭٭
بلوچ
ہم وہ ہیں جن کے سوال بوریوں میں بند کسی سڑک پر پھینک دئیے جاتے ہیں
ہمارے پہاڑوں کو بیڑیاں پہنا کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے
ہماری معدنیات کو پہاڑوں کی جیبوں سے برآمد ہونے والی منشیات کا نام دے دیا جاتا ہے
ہمارے جھرنوں میں خون ملا کر انہیں ناقابلِ استعمال بنا دیا جاتا ہے
ہمارے درختوں کو
چاروں طرف سے گھیر کر انہیں
پھل پھینکنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے
اور ان کے سائوں پر فائر کھول دی جاتی ہے
ہمارے پرندوں کو ڈرون قرار دے کر
انہیں زمین پر گرا دیا جاتا ہے
ہماری عورتوں کے نافوں سے ہرنوں کی طرح مشک حاصل کیا جاتا ہے
ہمارے مردوں کو بھیڑئیے بتا کر ان کے سینوں میں گولیاں داغ دی جاتی ہیں
ہمارے بچوں کو سنپولیے بتا کر ان کے سر کچل دئیے جاتے ہیں
مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ
سوال آنکھیں نہیں کہ جن پر ہاتھ رکھ دینے سے نظر آنا بند ہو جائے گا
سوال گرہیں ہیں جو سلجھانے کے بعد خود بخود غائب ہو جاتی ہیں۔
٭٭٭
لفظ
کسی دن
ایک آدمی خیالوں میں گم سڑک سے گزرتا ہے کہ اچانک تیزی سے آتے ہوئے کچھ لفظ ٹرک بن کر اسے کچل دیتے ہیں
بھیڑ کو چیرتا ہوا کوئی آتا ہے اور فوراً کوئی نمبر ملاتا ہے :
خون میں لت پت آدمی کو اسپتال لے جانے کے لیے
لفظ ایمبولنس بن کر پہنچ جاتے ہیں
لفظ اسٹریچر کی طرح اسے اپنے سینے پر لٹا کر آپریشن تھیٹر تک لے جاتے ہیں
آدمی کو خون کی ضرورت پڑتی ہے
لفظ خون کی بوتلیں بن جاتے ہیں
لفظ ڈاکٹر بن کر آپریشن کر دیتے ہیں
لفظ نرس بن کر آدمی کی دیکھ بھال کرتے ہیں
لفظ دوست اور رشتے دار بن کر
آدمی کے لیے گلدستے اور پھل لاتے ہیں
کسی دن
لفظ روح بن کر آدمی کو پھر سے چلتا پھرتا انسان بنا دیتے ہیں۔
٭٭٭
جنگ
میں ایک نظم بننا چاہوں گا
یا
کوئی شاعر
اوہ
میں ایک شاعر ہی تو ہوں
کیا؟
ہاں میں کوئی نظم بننا چاہوں گا
انسان بیک وقت خوش اور شاعر نہیں ہو سکتا
ایک انسان کی خوشی مادی آسائشیں ہیں
اور ایک شاعر کی خوشی خیالات کی فراوانی ہے
میں دہراتا ہوں
ایک انسان بیک وقت خوش اور شاعر نہیں ہو سکتا
ایک دن رات نہیں ہو سکتا
اور ایک رات دن نہیں ہو سکتی
میرا خون مسلسل ٹھنڈا ہوا جاتا ہے
دن میرے لیے سردیاں ہیں
جبکہ راتیں گرمیاں
میں دن کے دوران اپنے کمرے میں چھپ جاتا ہوں
اور راتوں کو کچھ پر سکون ہو جاتا ہوں :ایسا ہی رہا تو میں جلد ہی کسی کولڈ بلڈڈ جانور میں بدل جاؤں گا۔ میں کاکروچ بننا چاہوں گا جو آسانی سے نہیں مرتا۔
نظمیں میرے اندر
چیونٹیوں کی طرح مختلف خیالات سروں پر لیے
چلتی جاتی ہیں
میرے اندر کا موسم بھی
باہر کی طرح سرد ہوتا جاتا ہے
بہت بار میں ایک نظم بنتے بنتے رہ جاتا ہوں
میں نہیں جانتا ایک نظم بننا بری بات ہے یا اچھی بات
مگر یہ یقیناً ایک شاعر بننے سے تو کم تکلیف دہ ہو گا
میں اپنے خد و خال کو
اپنے اندر
چھپانا چاہتا ہوں مگر
یہ ناممکن ہے
میں بس اتنا ہی کر سکتا ہوں کہ شیشے میں اپنی شکل دیکھنا چھوڑ دوں
اور اپنے کمرے میں چھپ جاؤں
جب تک یہ طویل جنگ ختم نہیں ہو جاتی۔
٭٭٭
محبت
محبت سکون ہے
جو رات ہمارے سر کے نیچے
تکیے کی طرح رکھ دیتی ہے
محبت سکون ہے
جو سورج پردے سرکاتے ہی
ہمارے چہروں پر انڈیل دیتا ہے
محبت میسر ہو
تو زندگی سبزہ زاروں میں کسی ہرنی کی طرح
قلانچیں بھرتی ہے
اور انسان کسی پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھے
پورے جسم کے ساتھ مسکراتے ہوئے
اس نظارے سے لطف کشید کرتا ہے۔
٭٭٭
جدائی
الوداع کے وقت اس نے مجھے مضبوطی سے گلے لگایا
اور میرے ماتھے پر نرمی سے بوسہ ثبت کیا
جیسے مائیں اپنی کبھی نہ لوٹنے والی اولادوں کے ساتھ کرتی ہیں
وہ مجھے جنگ پر بھیج رہی تھی
جدائی سے بڑی جنگ اور کیا ہو سکتی ہے!
٭٭٭
روانگی سے پہلے
تمہاری یاد آتی ہے
تو میں کئی ایک بن جاتا ہوں
میں ایک نہیں ہوں
ایک میں تمہیں پھول پیش کرتا ہے
ایک میں تمہارے پیر پڑتا ہے
ایک میں تمہارے ساتھ چلتا ہے
ایک میں تم سے بہت دور جاتا ہے
ایک —–
مجھے شمار کرو
اگر تم گن نہیں سکتے
خود کو
جن میں ایک مجھ سے پھول لیتا ہے
ایک مجھے پیروں میں گراتا ہے
ایک میرے ساتھ چلتا ہے
اور ایک مجھ سے بہت دور جاتا ہے
اس سے پہلے کہ
کاونٹر پر مجھ سے پوچھا جائے
کتنی ٹکٹیں چاہئییں؟
مجھے شمار کرو!
٭٭٭
محبت اور جنگ انورسلی پروپورشنل ہیں
جب ہم گہری نیند سو جاتے ہیں
تو جنگ چپکے سے آ کر اپنا کوڑا کرکٹ ہمارے صحن میں پھینک دیتی ہے۔
ہمارے دن کا آغاز کچرا اٹھانے سے ہوتا ہے
ہم کچھ آہوں کو بریڈ پر مل کر ٹھونس لیتے ہیں
اور شہر میں نکل پڑتے ہیں
( شہر جدید جنگل ہے جس کے جانور انسان ہیں .)
ہمارے بچوں کو جنگ کی ریاضی پڑھائی جاتی ہے
جہاں ایک بم سینکڑوں انسانی جانوں کے برابر ہوتا ہے
والدین جانتے ہیں کہ
ان کے زندہ کھلونوں کے سینے کیسے چھلنی ہوتے ہیں
ہمارے دن کا آغاز ایک رات سے ہوتا ہے۔ دن صرف روشنی کا نام نہیں ہے اور رات صرف اندھیرا نہیں ہوتا۔ کچھ دن رات سے زیادہ تاریک ہوتے ہیں کیونکہ ان میں دلوں کی سیاہی گھل چکی ہوتی ہے۔
ملبے سے نکلنے والی لاش ایسے ہوتی ہے
جیسے کسی مکان کو مردہ بچہ ہوا ہو۔
میں اور تو کچھ نہیں کر سکتا
مگر جن کے ہاتھ جنگ نے چھین لیے ہیں
ان سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر
اپنی نظم کو نا مکمل چھوڑتا ہوں
٭٭٭
عورت
لہجے سے پتہ چل جاتا ہے
وہ تمہیں پکار رہے ہیں
یا تم پر چِلا رہے ہیں۔
دفتر میں بوس ان کی جتنی تذلیل کرتے ہیں
گھر میں اس سے کئی زیادہ وہ تمہاری کرتے ہیں
"کام چور!!منہ بند رکھو! قسمت ہی خراب تھی میری! جاہل! بے وقوف! ایک کام بھی ٹھیک سے نہیں کر سکتی! منہ کیا دیکھ رہی ہو ،دفع ہو جاؤ! زندگی عذاب کر کے رکھی ہوئی ہے! مر کیوں نہیں جاتی؟——"
میرے ابا پچپن سال کے ہیں
اور وہ اب بھی میری اماں پر چِلاتے ہیں حتی کہ اسے مارتے ہیں
وہ سمجھتے ہیں یہ ان کا حق ہے
اور اماں اپنا فرض سمجھ کر چپ چاپ سب سنتی رہتی ہیں
ایک دن میں نے ان سے پوچھا۔ اماں کیا تمہیں تکلیف نہیں ہوتی؟ ابا کو کچھ کہتی کیوں نہیں؟
انہوں نے کہا :
’’مجھے اتنے زخم آئے ہیں کہ میں بھول گئی ہوں
میرا کوئی جسم بھی ہے۔
بیٹی ،مرد کے سامنے چپ ہی رہنا چاہیے!
مردوں کے اندر بھیڑئیے بندھے ہوتے ہیں
جو عورت کی آواز سن کر زنجیریں تُڑوا کر ان پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔‘‘
’’اماں، مگر آپ تو چپ رہتی ہیں تو آپ کیوں بھیڑیوں کا شکار بنتی ہیں؟‘‘
’’شائد ،یہ ان کے پیار کا ایک انداز ہو۔‘‘
عورت پیار اور تشدد میں فرق بھول جاتی ہے
وہ بھول جاتی ہے کہ وہ بھی ایک انسان ہے۔ بولنا اس کا حق ہے
مگر وہ اتنی خاموش ہو جاتی ہے کہ کئی بار
اس کی موجودگی بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔
٭٭٭
یادوں سے لمبا آدمی
’’قد سے ہماری تاریخ کا پتہ چلتا ہے
ہم بونے ہوتے جا رہے ہیں:
ڈائنو سار سے چیونٹی تک کا سفر!‘‘
یہ تمہید شائد کوئی نیا کہنے میں میری مدد کرے
’’یادیں اور لمبا آدمی‘‘ بنیادی نکات ہیں جن پر میں نے بات کرنی ہے۔
یادیں:
1: ایک نوجوان
پھولوں کا گلدستہ ہاتھ میں لیے
کسی لڑکی کو پیش کر رہا ہے۔
ایک لڑکی، ایک نوجوان سے جس کے ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ ہے ،
اس کے خواب لے لیتی ہے۔
2: ایک بنچ پر ایک لڑکی ایک لڑکے کے ساتھ بیٹھی مسکرا رہی ہے۔
ایک بینچ بیٹھے ہوئے لڑکے پر مسکرا رہا ہے۔
مجھے بالکل لگ رہا ہے کہ میں بالکل اچھا نہیں لکھ پا رہا لہذا اب آدمی کی طرف چلتے ہیں۔
لمبا آدمی:
آدمی اپنی عمر سے لمبا ہو سکتا ہے: A
آدمی اپنے خوابوں سے لمبا ہو سکتا ہے:B
آدمی اپنے بستر سے لمبا ہو سکتا ہے:C
اب آدمی اپنے جوتوں میں سو چکا ہے؛ صبح جاگتے ہی اسے کام پر نکلنا ہو گا۔
اب وہ قطار میں کھڑا ہو گا
بالکل ایک چیونٹی کی طرح
اور یہی آدمی کی لمبائی ہے۔
٭٭٭
ایک دفعہ
ایک دفعہ رومی یہ کہنا بھول گئے کہ
وہ چلے جاتے ہیں جب وہ تمہاری ساری محبت چوس لیتے ہیں
نیز وہ یہ کہنا بھول گئے کہ
زندگی کمان سے نکلا ہوا تیر بن جاتی ہے
جب آدمی پیار میں ہوتا ہے
رومی کے دل میں ضرور یہ خیال آیا ہو گا کہ
ابدیت ان آنسووں میں موجود ہوتی ہے
جو یادوں سے جڑیں پکڑتے ہیں
رومی پوچھ سکتے تھے
کہ تم سب مختلف ملکوں سے ہو
تو کیا
تم میں سے کسی کا تعلق محبت سے بھی ہے؟
اگر وہ اکیسویں صدی کے ڈپریشن زدہ انسانوں کو دیکھ لیتے
تو وہ شائد ایک سائیکاٹرسٹ بنتے
کاش! رومی وصیت نامے میں ایک جگہ لکھ چکے ہوتے
کہ سازش ہو یا چاہے کوئی تفریحی کہانی
کسی محبت کا حصہ مت بنو!
٭٭٭
ایک نظم
اپنی ایک آرٹ نظم میں کاسٹ کرنے کے لیے میں نے
پانچ کچھووں کو لائن میں کھڑا کیا
یہ ان کا آڈیشن تھا
کچھوا نمبر 1:
میرا نام گوالبندین ہے اور کسی کی ماں کا باپ بھی مجھے ہاتھ نہیں لگا سکتا
میری الزبتھ کو کسی نے آنکھ ماری تو اس کی آنکھیں پھوڑ دوں گا
جئیں تو جئیں کیسے ،تمہارے بنا؟
کچھوا نمبر 2:
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ،دو سے بھی نہیں
اگر تالی نہ ہو
میں خود سے باتیں کرنے کا عادی ہوں کیونکہ میرے ساتھ کوئی بات نہیں کرتا
میں اپنا سر اپنے جسم میں چھپا سکتا ہوں۔ ایسا کرنا میں نے تب سیکھا جب تلوار بنی تھی۔
کچھوا نمبر 3:
(ہونٹوں پر نقلی مونچھ چپکائے ہوئے؛ سر پہ سرخ رومال باندھے ہوئے)
خوشی کے موقع پر بہنے والے آنسو دراصل کسی پچھلے دکھ کے ہوتے ہیں۔
جنہیں نیند آ جاتی ہے
ان کو ضرور تسلی ہو گی
کہ سب بالکل ٹھیک ہے
نیند ایک تسلی ہے
دوبارہ اٹھنے کی
یا دوبارہ کبھی نہ اٹھنے کی۔
شکست محض اس بستر کا نام ہے جس پر تھک کر ہم گر جاتے ہیں۔
کچھوا نمبر 4:
سائنس سے پہلے دنیا ایک غار میں رہتی تھی پھر ایک دن آبادی اتنی زیادہ ہو گئی کہ مجبوراً ایک سرنگ کے ذریعے دنیا کا ایک کونہ باہر پھینک دیا گیا۔ میں بھی تب ایک پہاڑی کے کندھے پر سوار نکل آیا تھا۔
کچھوا نمبر 5:
میں کسی دوڑ کا حصہ نہیں:
اب جبکہ دنیا ایک دوڑ بن چکی ہے
میرے پاوں سُن ہو چکے ہیں
میں سمجھ نہیں پا رہا کہ کیا یہ بری بات ہے
کہ میں کسی دوڑ کا حصہ نہیں ہوں؟
(آگے بڑھ کر پانی کا ایک گھونٹ بھرنے کے بعد وہ گلاس کو ٹیبل پر رکھ کر دوبارہ لائن میں کھڑا ہوتا ہے۔)
اب میں محبت کے بارے میں ایک دو باتیں بتانے لگا ہوں :
ایک تتلی آ کر ایک پھول پر بیٹھ جاتی ہے
محبت ایسے ہی ہوتی ہے۔
محبت پہلی ہی نظر میں بتاتی ہے کہ
اس کی آنکھوں کا رنگ کیسا ہو:
جاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ایک بار ضرور دیکھنا چاہیے
دیکھنا اس کی آنکھوں کا رنگ بدل چکا ہو گا۔
٭٭٭
پیغام
تم مایوسی سے کہتی ہو
شائد قدرت کو بھی ہماری محبت منظور نہیں ہے
میں تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں کمرے سے باہر لا کر بتاتا ہوں :
خدا کا پیغام آ گیا ہے
بارش ہمارے ہی بارے میں ہے
اسے پڑھو!
٭٭٭
ہم نے شاعری کو آداب نہیں سکھائے
یہ فاتحہ میں قہقہے لگاتی ہے
اور شادی میں رونے لگتی ہے
کسی شریر بچے کی طرح
دروازے سے جھانک کر بھاگ جاتی ہے
سارے محلے کی لائٹس پھوڑ کر
اندھیرے میں غائب ہو جاتی ہے
ہماری پسندیدہ کزن کی طرح
نہاتے وقت ہمیں بے لباس دیکھ کر مسکرانے لگتی ہے
اور آ کر ہمیں تولیہ پکڑاتی ہے
رات کو ہمارے منہ سے کمبل کھینچ کر
ہماری نیند میں گھس جاتی ہے
اسکول سے اکثر اس کی شکایت آتی ہے
’’غیر نصابی سرگرمیوں میں تو اچھی ہے
مگر پڑھائی پہ دھیان نہیں دیتی
آپ نے اسے آداب نہیں سکھائے
کل بھی
پرنسپل آفس سے پرچے چراتے ہوئے
پکڑی گئی ہے۔‘‘
٭٭٭
محبت کی نظم
میں محبت کی نظمیں لکھنے میں برا ہوں
مگر تمہارے لیے میں ایک نظم کو
تمہارے پسندیدہ ریستوران میں بدل سکتا ہوں
جہاں ہم کینڈل لائٹ ڈنر کر سکیں
میں محبت کی نظمیں لکھنے میں برا ہوں
مگر میں تمہارے لیے ایک ایسی نظم لکھ سکتا ہوں
جس کے کندھے پہ تم جب چاہو سر رکھ سکو
جو تمہارے آنسو پونچھ کر تمہارے ہونٹوں پر مسکان لائے۔
میں محبت کی نظمیں لکھنے میں برا ہوں
مگر میں ایک ایسی نظم ضرور لکھ سکتا ہوں
جس کے آخر میں ہم ایک دوسرے کو مل جاتے ہیں
اور ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے ہیں۔
٭٭٭
برتری
ہم نے احتجاج کیا وہ کس طرح ہم سے برتر ہیں
اگر ہم ایک ہی زمین پر چلتے اور ایک ہی آسمان کے نیچے سوتے ہیں
انہوں نے اپنی آبادیوں میں سڑکیں بنا دیں
اعلی قسم کے جوتے پہنے
اور بڑی بڑی گاڑیوں میں سوار ہو گئے
انہوں نے فرشیں بچھا دیں
سونے کے لیے پلنگ سجائے
اور اتنے اونچے گھر تعمیر کیے کہ ہم آسمان کے بجائے ان کی چھتوں کے سائے میں آ گئے
وہ ہمیشہ ہم سے دس قدم اوپر اور سو قدم آگے رہتے ہیں
گویا انہیں ہمارے سر کُچل کر فرار ہو جانے کی پوری
آزادی ہے۔
٭٭
نسیم خان
صوبہ بلوچستان، پاکستان
رابطہ نمبر 03116656785
٭٭٭
تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں