فہرست مضامین
- تفسیر الکتاب
- ڈاکٹر محمد عثمان
- حصہ اول
- تفسیر الکتاب
- ڈاکٹر محمد عثمان
- سورۃ ۱: فاتحہ
- سورة فاتحہ کے مضمون پر ایک اجمالی نظر
- سورة فاتحہ کی اہمیت اور اس کی خصوصیات
- سورۃ ۲: البقرۃ
- حصہ اول
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
حصہ اول
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
حصہ دوم
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
کتاب کا اقتباس پڑھیں …..
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
سورۃ ۱: فاتحہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قرآن مجید کا یہ فقرہ بطور ایک آیت کے ہر سورت کی ابتدا میں دہرایا گیا ہے اور سورة النمل کے اندر عبارت میں بھی بطور آیت قرآنی آیا ہے۔
سورة فاتحہ کے مضمون پر ایک اجمالی نظر
سورة فاتحہ ایک دعا ہے جو اللہ نے ہر اس انسان کو سکھا دی ہے جو اس کتاب کا مطالعہ کر رہا ہو۔ کتاب کی ابتدا میں اس کو رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان واقعی اس کتاب سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرے۔ اس سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن اور سورة فاتحہ کے درمیان حقیقی تعلق کتاب اور اس کے مقدمہ کا سا نہیں بلکہ دعا اور جواب دعا کا سا ہے۔ بندہ دعا کرتا ہے کہ اے پروردگار میری رہنمائی فرما اور جواب میں پروردگار پورا قرآن اس کے آگے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت و رہنمائی جس کی دعا تو نے مجھ سے کی ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس حیرت انگیز جامعیت کے ساتھ سورة فاتحہ کی سات مختصر آیات میں توحید الٰہی اور صفات کمالیہ کا بیان آیا ہے اس کی نظیر سے مذاہب عالم کے دفتر خالی ہیں۔ اس سے بڑھ کر تو کیا اس کے برابر بھی مثال پیش کرنے سے دنیا کے مذاہب عاجز ہیں۔ مسیحی دنیا کو اپنی انجیلی دعا (Lord’s Prayer) پر بڑا ناز ہے۔ یہاں اسے درج کیا جاتا ہے۔ ہر منصف مزاج آدمی خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ سورة فاتحہ اور اس انجیلی دعا کے درمیان کیا نسبت ہے۔
انجیلی دعا (متی ۶: ۹: ۴۱)
۱۔ اے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔
۲۔ تیری بادشاہت آئے۔ تیری مرضی جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔
۳۔ ہماری روز کی روٹی ہمیں آج دے۔
۴۔ جس طرح ہم نے اپنے قرض داروں کو معاف کیا ہے تو ہمارے قرض ہم کو معاف کر۔
۵۔ اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا۔
۱۔ کہاں رب العالمین کی لا محدود وسعت و ہمہ گیری اور کہاں آسمان پر محدود اور پھر باپ جیسی مادی تعلق رکھنے والی ہستی۔
۲۔ ایک طرف اعلان ہو رہا ہے ہمہ گیر صفات ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت و مالکیت کا اور دوسری طرف ذکر ہے صرف زمین پر آسمانی بادشاہت آنے کا۔
۳۔ قرآنی عبارت میں جو زور توحید خالص اور غیر اللہ سے مدد نہ مانگنے پر ہے انجیلی دعا میں اس کا پتہ تک نہیں۔
۴۔ انجیلی دعا کی آیت نمبر ۳ میں روٹی کی اس درجہ اہمیت، مادیت کی انتہا ہے۔
۵۔ محض برائی سے بچنے کی دعا، صراط مستقیم پر قائم رہنے کی نسبت سے کہیں زیادہ ہلکی ہے۔
سورة فاتحہ کی اہمیت اور اس کی خصوصیات
یہ قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے۔ اس لئے فاتحۃ الکتاب کے نام سے پکاری جاتی ہے۔
جو بات زیادہ اہم ہوتی ہے، قدرتی طور پر پہلی اور نمایاں جگہ پاتی ہے۔ یہ سورت قرآن کی تمام سورتوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس لئے قدرتی طور پر اس کی موزوں جگہ قرآن کے پہلے صفحے ہی میں قرار پائی، چنانچہ خود قرآن نے اس کا ذکر ایسے لفظوں میں کیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔
(وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ 87) 15۔ الحجر: 87)
اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سات آیات دی ہیں جو (نماز میں) دہرائی جاتی ہیں اور قرآن عظیم (عطا کیا ہے) ۔
احادیث و آثار سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس آیت میں ’’دہرائی جانے والی آیات‘‘ سے مقصود یہی سورت ہے، کیونکہ یہ سات آیات کا مجموعہ ہے اور ہمیشہ نماز میں دہرائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سورت کو ’’سبع المثانی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ علاوہ بریں ایک سے زیادہ حدیثیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت کے یہ اوصاف عہد نبوت میں عام طور پر مشہور تھے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبیﷺ نے ابی بن کعبؓ کو یہ سورت پڑھنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ اس کے مثل کوئی سورت نہیں۔
سورة فاتحہ میں دین حق کے تمام مقاصد کا خلاصہ موجود ہے، چنانچہ اس سورت کے مطالب پر نظر ڈالتے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں اور قرآن کے بقیہ حصہ میں اجمال اور تفصیل کا سا تعلق پیدا ہو گیا ہے، یعنی قرآن کی تمام سورتوں میں دین حق کے جو مقاصد بہ تفصیل بیان کئے گئے ہیں، سورة فاتحہ میں انہی کا بہ شکل اجمال بیان موجود ہے۔ اگر ایک شخص قرآن میں سے اور کچھ نہ پڑھ سکے، صرف اس سورت کے مطالب ذہن نشین کر لے، تب بھی وہ دین حق اور توحید پرستی کے بنیادی مقاصد معلوم کر لے گا اور یہی قرآن کی تمام تفصیلات کا ماحصل ہے۔
علاوہ بریں جب اس پہلو پر غور کیا جائے کہ سورت کا پیرایہ دعائیہ ہے اور اسے روزانہ عبادت کا ایک لازمی جز قرار دیا گیا ہے، تو اس کی یہ خصوصیت اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے، اور واضح ہو جاتا ہے کہ اس اجمال و تفصیل میں بہت بڑی مصلحت پوشیدہ تھی۔ مقصود یہ تھا کہ قرآن کے مفصل بیانات کا ایک مختصر اور سیدھا سادہ خلاصہ بھی ہو جسے ہر انسان بہ آسانی ذہن نشین کر لے، اور پھر ہمیشہ اپنی دعاؤں اور عبادتوں میں دہراتا رہے۔ یہ اس کی دینی زندگی کا دستور العمل، توحید پرستی کے عقائد کا خلاصہ اور روحانی تصورات کا نصب العین ہو گا۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دنیا میں جو چیز جتنی زیادہ حقیقت کے قریب ہوتی ہے، اتنی ہی زیادہ سہل اور دلنشین بھی، اور خود فطرت کا یہ حال ہے کہ کسی گوشے میں بھی الجھی ہوئی نہیں ہے۔ الجھاؤ جس قدر بھی پیدا ہوتا ہے، بناوٹ اور تکلف سے پیدا ہوتا ہے، پس جو بات سچی اور حقیقی ہو گی، ضروری ہے کہ سیدھی سادی اور دلنشین ہو، دل نشینی کی انتہا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی ایسی بات آپ کے سامنے آ جائے تو ذہن کو کسی طرح اجنبیت محسوس نہ ہو، وہ اسی طرح سے قبول کرے گویا پیشتر سے سمجھی، بوجھی ہوئی بات تھی۔
اب غور کریں کہ جہاں تک انسان کا تصور توحید پرستی کا تعلق ہے، اس سے زیادہ سیدھی سادی باتیں اور کیا ہو سکتی ہیں جو اس سورت میں بیان کی گئی ہیں، اور پھر اس سے زیادہ سہل اور دلنشین اسلوب بیان کیا ہو سکتا ہے؟ سات چھوٹے چھوٹے جملے ہیں۔ ہر جملہ چار پانچ لفظوں سے زیادہ کا نہیں، اور ہر لفظ صاف اور دلنشین معانی کا نگینہ ہے جو اس انگوٹھی میں جڑ دیا گیا ہے۔ اللہ کو مخاطب کر کے ان صفتوں سے پکارا گیا ہے جن کا جلوہ شب و روز انسان کے مشاہدے میں آتا رہتا ہے۔ اگرچہ وہ اپنی جہالت و غفلت سے ان میں غور و تفکر نہیں کرتا۔ پھر اس کی بندگی کا اقرار ہے، اس کی مددگاریوں کا اعتراف ہے، اور زندگی کی لغزشوں سے بچ کر سیدھی راہ پر چلنے کی طلبگاری ہے۔ کوئی مشکل خیال نہیں، کوئی انوکھی بات نہیں، کوئی عجیب و غریب راز نہیں۔ جب کہ ہم بار بار یہ سورت پڑھتے رہتے ہیں اور صدیوں سے اس کے مطالب نوع انسانی کے سامنے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہمارے دینی تصورات کی ایک بہت ہی معمولی سی بات ہے، لیکن یہی معمولی بات جس وقت تک دنیا کے سامنے نہیں آئی تھی، اس سے زیادہ کوئی غیر معلوم اور ناقابل حل بات بھی نہ تھی۔ دنیا میں حقیقت اور سچائی کی ہر بات کا یہی حال ہے، جب تک سامنے نہیں آتی، معلوم ہوتا ہے، اس سے زیادہ مشکل بات کوئی نہیں۔ جب سامنے آ جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے، اس سے زیادہ صاف اور سہل بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
دنیا میں جب کبھی وحی الٰہی کی ہدایت نمودار ہوئی ہے، اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ انسان کو نئی نئی باتیں سکھا دی ہوں، کیونکہ توحید پرستی کے بارے میں کوئی انوکھی بات سکھائی ہی نہیں جا سکتی۔ اس کا کام صرف یہ رہا ہے کہ انسان کے وجدانی عقائد کو علم و اعتراف کی ٹھیک ٹھیک تعبیر بتا دے اور یہی سورة فاتحہ کی خصوصیت ہے۔
اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔ تمام تعریفیں۱ اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب۲ ہے۔ رحمن (اور) رحیم ہے ۳روز جزا کا مالک۵، ۴ ہے۔ (اے اللہ) ہم تیری ہی۶ عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھی راہ چلا۷ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام فرمایا۸۔ نہ ان کی جن پر (تیرا) غضب (نازل) ہوا ۹اور نہ گمراہوں کی۔ ۷ ؏ ۱
۱۔ تعریف کسی کی بھی ہو، کسی نام سے بھی ہو در حقیقت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہوتی ہے اور اسی کو پہنچتی ہے۔ حاکم اگر عادل ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے صفت عدل اس کے اندر رکھ دی ہے۔ کسی کی شکل خوبصورت ہے اور کسی کی سیرت پاکیزہ ہے تو تعریف و ستائش کی اصل مستحق ذات باری تعالیٰ ہے۔
اللہ کے تصور کے بارے میں انسان کی ایک بڑی غلطی یہ رہی ہے کہ وہ اس تصور کو محبت کی جگہ خوف و دہشت کی چیز بنا لیتا تھا۔ سورة فاتحہ کے سب سے پہلے لفظ نے اس گمراہی کا ازالہ کر دیا۔ اس کی ابتدا حمد کے اعتراف سے ہوتی ہے۔ حمد ثناء جمیل کو کہتے ہیں، یعنی اچھی صفتوں کی تعریف کرنے کو۔ ثناء جمیل اسی کی کی جا سکتی ہے جس میں خوبی و جمال ہو۔ پس حمد کے ساتھ خوف و دہشت کا تصور جمع نہیں ہو سکتا۔ جو ذات محمود ہو گی، وہ خوفناک نہیں ہو سکتی۔ پھر حمد کے بعد اللہ کی عالمگیر ربوبیت، رحمت اور عدالت کا ذکر کیا ہے، اور اس طرح صفات الٰہی کی ایک ایسی مکمل شبیہ کھینچ دی ہے جو انسان کو وہ سب کچھ دے دیتی ہے جس کی انسانیت کے نشو و ارتقا کے لئے ضرورت ہے اور ان تمام گمراہیوں سے محفوظ کر دیتی ہے جو اس راہ میں اسے پیش آ سکتی ہیں۔
۲۔ ’رب‘ کا لفظ عربی زبان میں تین معنوں میں بولا جاتا ہے: (۱) مالک اور آقا۔ (۲) پرورش اور خبر گیری کرنے والا۔ (۳) فرمانروا اور حاکم۔ اللہ تعالیٰ ان سب معنوں میں کائنات کا رب ہے۔
رب العالمین میں اللہ کی عالمگیر ربوبیت کا اعتراف ہے جو ہر فرد، ہر جماعت، ہر قوم، ہر ملک، ہر گوشہ اور ہر وجود کے لئے ہے، اور اس لئے یہ اعتراف ان تمام تنگ نظریوں کا خاتمہ کر دیتا ہے جو دنیا کی مختلف قوموں اور نسلوں میں پیدا ہو گئی تھیں، اور ہر قوم اپنی جگہ سمجھنے لگی تھی کہ اللہ کی برکتیں اور سعادتیں صرف اسی کے لئے ہیں، کسی دوسری قوم کا ان میں حصہ نہیں۔
۳۔ رحمن مبالغہ کا صیغہ ہے اور رحیم صفت کا۔ رحمن اللہ کی رحمت کے جوش و خروش کو ظاہر کرتا ہے اور رحیم اس کے دوام و تسلسل کو، اللہ کی رحمت میں صرف جوش ہی نہیں ہے بلکہ پائداری اور استقلال بھی ہے۔ اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ اپنی رحمانیت کے جوش میں دنیا تو پیدا کر دی اور پھر پیدا کر کے اس کی خبرگیری اور نگہداشت سے غافل ہو گیا ہو بلکہ اس کو پیدا کر کے وہ اپنی پوری شان رحیمیت کے ساتھ اس کی پرورش اور نگہداشت بھی فرما رہا ہے۔ پھر اس کی رحمتیں اس چند روزہ زندگی تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ جو لوگ اس کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے رہیں گے ان پر اس کی رحمت ایک ایسی لازوال اور ابدی زندگی میں بھی ہو گی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں۔
۴۔ ’’الدِّیْنِ‘‘ کا لفظ جزا کے قانون کا اعتراف ہے اور جزا کو ’دین‘ کے لفظ سے تعبیر کر کے یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ جزا انسانی اعمال کے قدرتی نتائج و خواص ہیں، یہ بات نہیں کہ اللہ کا غضب و انتقام بندوں کو عذاب دینا چاہتا ہو کیونکہ ’الدِّیْن‘ کے معنی بدلہ اور مکافات کے ہیں۔
۵۔ یعنی اس دن کا مالک جب تمام انسانوں کو جمع کر کے ان کے کارنامہ زندگی کا حساب لیا جائے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا صلہ اور بدلہ مل جائے گا۔ مالک وہ ہوتا ہے جسے پورے اختیارات حاصل ہوں۔ مجرم کو چاہے تو بخش دے چاہے تو سزا دے۔ کوئی اس سے باز پرس کرنے والا نہیں اور کوئی اس پر حاکم نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف میں رحمن اور رحیم کہنے کے بعد روز جزا کا مالک کہنے سے یہ بات نکلتی ہے کہ وہ صرف مہربان ہی نہیں بلکہ منصف بھی ہے۔
’ربوبیت‘ اور ’رحمت‘ کے بعد مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے وصف نے یہ حقیقت بھی آشکارا کر دی کہ اگر کائنات میں صفات رحمت و جمال کے ساتھ قہر و جلال بھی اپنی نمود رکھتی ہیں تو یہ اس لئے نہیں کہ پروردگار عالم میں غضب و انتقام ہے، بلکہ اس لئے کہ وہ عادل ہے، اور اس کی حکمت نے ہر چیز کے لئے اس کا ایک خاصہ اور نتیجہ مقرر کر دیا ہے۔ عدل منافی رحمت نہیں ہے بلکہ عین رحمت ہے۔
۶۔ یعنی ہم تجھ ہی کو حاجت روا سمجھ کر تیری طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس آیت نے ہر قسم کی مظہر پرستی اور مخلوق پرستی کی جڑ کاٹ دی ہے اور خفیف سی گنجائش بھی پیر پرستی، پیغمبر پرستی، فرشتہ پرستی یا اولیاء پرستی کی باقی نہیں چھوڑی ہے۔
عبادت کے لئے یہ نہیں کہا کہ ’نَعْبُدُکَ‘ بلکہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ یعنی یہ نہیں کہ ’ تیری عبادت کرتے ہیں‘ بلکہ حصر کے ساتھ کہا ’صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں‘۔ اس اسلوب بیان نے توحید کے تمام مقاصد پورے کر دیئے، اور شرک کی ساری راہیں بند ہو گئیں۔
۷۔ یعنی وہ راہ جس میں کوئی کجی نہیں، کوئی اونچ نیچ نہیں، کہیں ٹھوکر لگنے کا احتمال نہیں۔ اس سے مراد جادہ شریعت ہے کہ یہی زندگی کا مکمل نظام ہے۔
سعادت و فلاح کی راہ کو ’ صراط المستقیم‘ یعنی سیدھی راہ سے تعبیر کیا، جس سے زیادہ بہتر اور قدرتی تعبیر نہیں ہو سکتی، کیونکہ کوئی نہیں جو سیدھی راہ اور ٹیڑھی راہ میں امتیاز نہ رکھتا ہو اور پہلی راہ کا خواہشمند نہ ہو۔
۸۔ پھر اس کے لئے ایک ایسی سیدھی سادی اور جانی بوجھی ہوئی شناخت بتا دی جس کا یقین قدرتی طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہے، یعنی وہ راہ جو انعام یافتہ انسانوں کی راہ ہے۔ خواہ کوئی ملک، کوئی قوم، کوئی زمانہ، کوئی فرد ہو لیکن انسان ہمیشہ دیکھتا ہے کہ زندگی کی دو راہیں یہاں صاف موجود ہیں۔ ایک راہ کامیاب انسانوں کی راہ ہے، ایک ناکام انسانوں کی، پس ایک واضح اور آشکارا بات کیلئے سب سے بہتر علامت یہی ہو سکتی ہے کہ اس کی طرف انگلی اٹھا دی جائے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا، ایک معلوم بات کو مجہول بنا دینا تھا۔ انعام سے مراد دینی انعام ہے۔ انعام پانے والے چار گروہ ہیں، انبیاء، شہداء، صدیقین اور صالحین جیسا کہ سورة النساء کی آیت ۶۹ سے واضح ہے۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کیلئے دعا کا پیرایہ اختیار کیا گیا ہے، کیونکہ اگر تعلیم و امر کا پیرایہ اختیار کیا جاتا تو اس کی نوعیت کی ساری تاثیر جاتی رہتی۔ دعائیہ اسلوب ہمیں بتاتا ہے کہ ہر راست باز انسان کی جو توحید پرستی کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے، صدائے حال کیا ہوتی ہے اور کیا ہونی چاہئے؟ یہ گویا توحید پرستی کے فکر و وجدان کا نچوڑ ہے جو ایک طالب صادق کی زبان پر بے اختیار آ جاتا ہے!
۹۔ غضب کے مستحق وہ لوگ ہیں جو تحقیق کے باوجود راہ ہدایت کو چھوڑ دیں اور گمراہ وہ ہیں جو صراط مستقیم کی تلاش نہ کرنا چاہیں۔
٭٭٭
سورۃ ۲: البقرۃ
شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الف۔ لام۔ میم۔۱ یہ وہ کتاب ہے جس (کے کلام الٰہی ہونے) میں کچھ بھی شک نہیں۔ ہدایت ہے متقی ۲انسانوں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۳، نماز قائم کرتے ہیں۴ اور جو کچھ ہم نے ان کو دے رکھا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں بھی) خرچ کرتے ہیں۔ اور (اے پیغمبر) جو (کتاب) تم پر اتری اور جو (کتابیں) تم سے پہلے اتریں ان (سب) پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت ۵ کا بھی یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی (آخرت میں) فلاح پانے والے ہیں۶۔ جن لوگوں نے (ان باتوں کو ماننے سے) انکار کیا ۷ان کے حق میں یکساں ہے کہ تم ان کو (انکار حق کے نتائج سے) ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ (کبھی) ایمان نہ لائیں گے اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے ۸اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ ۷؏ ۱
۱۔ اس طرح کے حروف جو قرآن مجید کی بعض سورتوں میں واقع ہیں مقطعات کہلاتے ہیں اور حروف تہجی کی طرح پڑھے جاتے ہیں۔ ان کے معانی اللہ نے کسی مصلحت سے بندوں پر ظاہر نہیں کئے۔ بعض مفسرین نے جو معنی تجویز کئے ہیں وہ ان کی اپنی رائے ہے۔ ان کے معنی کا جاننا ضروری بھی نہیں۔ انہیں آدمی اگر نہ بھی جانے تو قرآن سے ہدایت حاصل کرنے میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی۔
۲۔ متقی وہ آدمی ہے جو اپنے فکر و عمل میں بے پرواہ نہیں ہوتا، ہر بات کو درستگی کے ساتھ سمجھنے اور کرنے کی کھٹک رکھتا ہے اور برائی اور نقصان سے بچنا چاہتا ہے۔
۳۔ غیب سے مراد وہ چیزیں ہیں جو حواس اور عقل سے پوشیدہ ہیں۔ مثلاً اللہ کی ذات و صفات، ملائکہ، وحی، جنت، دوزخ وغیرہ۔ ہم ان کو صرف اللہ اور رسولﷺ کے فرمانے سے صحیح مان لیتے ہیں۔
۴۔ نماز قائم کرنے کے معنی صرف یہ نہیں کہ آدمی پابندی سے نماز ادا کرے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فرض نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے۔ اسلام میں نماز کا مزاج اور اس کی صحیح شکل یہی ہے۔ اگر کوئی شخص بلا عذر نماز کے لئے مسجد میں حاضر نہ ہو تو رسول اللہﷺ کے قول کے مطابق اس کی نماز مقبول ہی نہیں ہوتی۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، دارقطنی، حاکم، بروایت عبد اللہ بن عباسؓ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ اور آپ کے اصحاب اس پر اس طرح مداومت کرتے رہے کہ گویا وہ بھی نماز کا جز اور اس کے اندر داخل ہے۔ آپ نے اپنے مرض وفات میں بھی اسے ترک نہیں فرمایا۔ آپ جماعت چھوڑنے والوں پر سخت ناراض ہوتے تھے۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے کچھ لوگوں کو بعض نماز میں نہ دیکھا تو فرمایا کہ میں سوچتا ہوں کہ ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ نماز پڑھائے پھر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت سے پیچھے رہ جاتے ہیں پھر حکم دوں کہ لکڑیوں کو جمع کر کے ان کے گھروں کو جلا دیا جائے۔
۵۔ آخرت ایک جامع لفظ ہے جس کا اطلاق مندرجہ ذیل عقائد پر ہوتا ہے: (۱) انسان اپنے تمام اعمال کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ (۲) یہ کہ دنیا کا موجودہ نظام ایک وقت پر جس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ختم ہو جائے گا۔ (۳) اللہ اس عالم کے خاتمے کے بعد ایک دوسرا عالم بنائے گا۔ اس میں پوری نوع انسانی کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک زمین پر پیدا ہوئی تھی بیک وقت دوبارہ پیدا کرے گا اور سب کو جمع کر کے ان کے اعمال کا حساب لے گا اور ہر ایک کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ (۴) اللہ کے اس فیصلے کی رو سے جو لوگ نیک قرار پائیں گے وہ جنت میں جائیں گے۔ اور جو لوگ نافرمان ٹھہریں گے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ آخرت پر جن لوگوں کو یقین نہ ہو وہ قرآن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ کیونکہ ان باتوں کا انکار تو درکنار اگر کسی کے دل میں ان کی طرف سے کوئی شک و شبہ اور تذبذب کی کیفیت بھی ہو تو وہ اس راستے پر نہیں چل سکتا جو انسانی زندگی کے لئے قرآن نے تجویز کیا ہے۔
۶۔ قبولیت حق کے لحاظ سے یہ انسانوں کی پہلی قسم ہوئی۔
۷۔ یہ انسانوں کی دوسری قسم ہے جو قبولیت حق کے لحاظ سے پہلی قسم کی ضد ہے اس سے مراد مشرکین و اہل کتاب کے وہ لوگ ہیں جو حق کو اچھی طرح پہچان لینے کے بعد اس کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔
۸۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے مہر لگا دی تھی اس لئے انہوں نے نافرمانی کی راہ اختیار کی بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دوسرا راستہ اختیار کر لیا تو اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی۔ اس سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ اللہ نے انسان کو نیکی و بدی کا امتیاز بخشا ہے اور ساتھ ہی اس کو اختیار دیا ہے کہ چاہے وہ نیکی کا راستہ اختیار کرے چاہے بدی کا۔ اگر وہ نیکی اور بھلائی کی راہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو نیکی کی راہ میں ترقی کی توفیق ملتی ہے اور اگر وہ بدی کے راستے پر چل پڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ اس کا دل برائی کا رنگ پکڑنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ یہ رنگ اس پر اس قدر غالب ہو جاتا ہے کہ پھر اس کے اندر نیکی کی رمق باقی ہی نہیں رہتی۔ یہی مقام ہے جہاں پہنچ کر اللہ کے قانون کے تحت آدمی کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ اور کیونکہ مہر لگانے کا قانون اللہ ہی کا بنایا ہوا ہے اس لئے اس قانون کے تحت مہر لگنے کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اس طرح کی مثالیں قرآن میں متعدد مقامات پر ملیں گی جہاں اللہ نے بعض افعال اپنی طرف منسوب کئے ہیں لیکن ان سے مقصود ان افعال کی نسبت نہیں ہے بلکہ ان قوانین کی نسبت ہے جن کے تحت وہ افعال واقع ہوتے ہیں۔
اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائے حالانکہ وہ ہرگز مومن نہیں۔ (یہ لوگ اپنے نزدیک) اللہ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لا چکے ہیں دھوکا دینا چاہتے ہیں اور حقیقت میں دھوکا نہیں دیتے مگر اپنے آپ کو اور (اس بات کو) نہیں سمجھتے۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے سو اللہ نے ان کی بیماری بڑھا دی ہے، اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے اس لئے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۹۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو (تو) کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ یاد رکھو یہی لوگ فسادی ہیں لیکن نہیں سمجھتے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح (اور) لوگ ایمان لائے ہیں تم بھی ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ کیا ہم بھی (اسی طرح) ایمان لے آئیں جس طرح احمق ایمان لائے ہیں؟ یاد رکھو (حقیقت میں) یہی لوگ احمق ہیں لیکن نہیں جانتے۔ اور جب ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لا چکے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم (بھی تو) ایمان لا چکے ہیں۔ اور جب تنہائی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں۱۰ تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم تو صرف (مسلمانوں کو) بناتے ہیں۱۱۔ اللہ انہیں بناتا ہے اور ان کو ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی۔ سو نہ تو ان کی تجارت ہی سود مند ہوئی اور نہ ہوئے وہ راہ پانے والے۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور پھر جب آگ نے اس کے ارد گرد کو روشن کر دیا تو اللہ نے اس کا نور (بصارت) سلب کر لیا اور اس کو اندھیروں میں چھوڑ دیا۱۲ کہ (اب) اسے کچھ نہیں سوجھتا۔ (یہ) بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں۱۳، اب یہ لوٹنے والے نہیں ہیں۱۴۔ یا (پھر ان کی مثال ایسی ہے) جیسے آسمانی بارش کہ اس میں اندھیرے ہیں اور گرج اور بجلی۔ وہ کڑک کے سبب (اور) موت کے ڈر سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۱۵ اور اللہ منکروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ قریب ہے کہ بجلی ان کی نگاہوں کو اچک لے جائے، وہ جب ان کے آگے چمکتی ہے تو اس (کی روشنی) میں کچھ (دور) چل لیتے ہیں۱۶۔ پھر جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے (کے کھڑے) رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی بصارت اور سماعت سلب کر لیتا۱۷، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۲۰ ؏ ۲
۹۔ یہ انسانوں کی تیسری قسم ہے یعنی منافقین جو باطن میں کافر تھے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے۔ یہاں بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے۔ ان کے نفاق سے نقصان کسی اور کا نہیں ان ہی کا ہے، یعنی دنیا میں رسوائی اور فضیحت اور آخرت میں عذاب۔ اللہ کے اس بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ منافق کو اللہ فوراً سزا نہیں دیتا بلکہ اسے ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے اور منافق اور زیادہ منافق بنتا چلا جاتا ہے۔
۱۰۔ شیطان کے معنی شریر و سرکش کے ہیں۔ یہ لفظ جنوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور ان انسانوں کے لئے بھی جو اس خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہاں شیطانوں سے مراد یا تو وہ کفار ہیں جو اپنے کفر کو سب پر ظاہر کرتے تھے یا وہ منافقین مراد ہیں جو ان میں رئیس سمجھے جاتے تھے۔
۱۱۔ اردو کے محاورے میں بنانے کے معنی احمق بنانا ہے۔
۱۲۔ یعنی جب پیغمبر نے نور ایمان پھیلایا تو اہل بصیرت پر تو ساری حقیقتیں روشن ہو گئیں مگر منافق جو نفس پرستی میں اندھے ہو رہے تھے ان کو اس روشنی میں کچھ نظر نہ آیا۔
۱۳۔ حق بات سننے کے لئے بہرے، حق گوئی کے لئے گونگے، حق بینی کے لئے اندھے۔
۱۴۔ یعنی باطل سے حق کی طرف اور کفر سے ایمان کی طرف نہ پلٹیں گے۔
۱۵۔ یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لینے سے وہ ہلاکت سے بچ جائیں گے لیکن بچ نہیں سکتے کیونکہ اللہ انہیں گھیرے ہوئے ہے۔
۱۶۔ پہلی مثال ان منافقین کی تھی جو اسلام کے قطعی منکر تھے۔ اور کسی فائدے کی خاطر مسلمان بن گئے تھے۔ اور دوسری مثال ان منافقین کی ہے جو شک اور تذبذب میں مبتلا تھے۔ کچھ حق کے قائل بھی تھے مگر ایسے بھی نہیں کہ اس کی خاطر تکلیف اٹھائیں اور مصیبت برداشت کریں۔ اس مثال میں بارش سے مراد اسلام ہے یہ منافقین جب اسلام کی مادی کامیابیاں دیکھتے ہیں تو ان کے قدم اسلام کی طرف بڑھنے لگتے ہیں اور جب مشکلات کے بادل چھا جاتے ہیں تو یہ ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
۱۷۔ یعنی اللہ اگر چاہتا تو ان کی بینائی سلب کر لیتا جس طرح پہلی قسم کے منافقین کی بصارت اس نے سلب کر لی۔ مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ جو کسی حد تک دیکھنا چاہتا ہو اسے اتنا بھی دیکھنے نہ دے۔ چنانچہ جس قدر حق دیکھنے کے لئے وہ تیار تھے اسی قدر بینائی اللہ نے ان کے پاس رہنے دی۔
لوگو، عبادت کرو اپنے رب کی جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان سب کو جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ (وہی تو ہے) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنا دیا اور آسمان سے پانی اتارا اور اس سے تمہارے کھانے کے لئے پھل پیدا کئے۔ پس (جب) تم (یہ بات) جانتے (بوجھتے) ہو تو (دوسروں کو) اللہ کا ہمسر نہ ٹھہراؤ۱۸۔ اور اگر تم اس (کتاب کی سچائی کے بارے میں) شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے تو کوئی ایک سورت ہی اس جیسی تم بھی بنا لاؤ اور اپنے حمایتیوں کو بھی اللہ کے مقابلے میں بلا لو اگر تم سچے ہو۔ پھر اگر تم یہ نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (اور وہ) کافروں کے لئے تیار ہوئی ہے۱۸۔ اور (اے پیغمبر) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل (بھی) کئے ان کو خوشخبری سنا دو کہ ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ جب وہاں کا کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ یہ تو پہلے بھی (کھانے کے لئے) مل چکا ہے۲۰ اور (یہ اس لئے کہیں گے کہ) ان کے مشابہ پہلے (دنیا میں) ان کو ملے ہوں گے۔ ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان (باغوں) میں ہمیشہ (ہمیشہ) رہیں گے۔ بلا شبہ اللہ کسی مثال کے بیان کرنے میں (ذرا بھی) نہیں شرماتا (چاہے وہ مثال) مچھر کی ہو یا اس سے بھی بڑھ کر (کسی اور حقیر چیز کی) ۲۱ جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، وہ تو یہ سمجھتے ہیں کہ کہ یہ مثال بالکل ٹھیک ہے (اور) ان کے رب (ہی) کی طرف سے (ہے) اور جن لوگوں نے کفر (کا راستہ) اختیار کیا ہے وہ (سن کر) کہتے ہیں کہ اللہ کا اس مثال سے کیا مطلب تھا۔ ایسی مثال سے اللہ بہتیروں کو گمراہ کرتا ہے اور ایسی ہی مثالوں سے بہتیروں کو ہدایت دیتا ہے، اور اس سے گمراہ کرتا (بھی) ہے تو صرف فاسقوں کو۲۲۔ جو اللہ کے عہد۲۳ کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جن (تعلقات) کو جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے۲۴ انہیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۲۵۔ یہی لوگ (آخرکار) نقصان اٹھائیں گے۔ (لوگو!) کس طرح تم اللہ کا انکار کر سکتے ہو حالانکہ (پہلے) تم بے جان تھے تو اس نے تم میں جان ڈالی پھر (وہی) تم کو مارتا ہے، پھر (وہی) تم کو (قیامت میں دوبارہ) زندہ کرے گا، پھر اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ وہی تو ہے جس نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے پیدا کیں، پھر وہ آسمان (کے بنانے) کی طرف متوجہ ہوا تو سات آسمان ہموار بنا دیئے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ۲۹ ؏ ۳
۱۸۔ یعنی جب تم اس بات کو جانتے ہو کہ ان تصرفات کا بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی کرنے والا نہیں تو اس صورت میں کب زیبا ہے کہ اللہ کے مقابلہ میں دوسروں کو معبود بناؤ۔
۱۹۔ یعنی تمہارے ساتھ بت بھی دوزخ کا ایندھن بنیں گے یعنی وہاں صرف تم ہی دوزخ کا ایندھن نہ بنو گے بلکہ وہ بت بھی تمہارے موجود ہوں گے جنہیں تم نے اپنا معبود و مسجود بنا رکھا ہے، ان کو دوزخ میں پھینکنے سے مقصود در اصل ان کو عذاب دینا نہیں بلکہ ان کے پرستاروں کے عذاب میں اضافہ کرنا ہو گا، اس طرح ان کے پرستاروں کو دکھایا جائے گا کہ جن کی تم پرستش کیا کرتے تھے، ان کی یہاں کیا گت بن رہی ہے۔
۲۰۔ یعنی شکل میں ان پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے جن سے وہ دنیا میں آشنا تھے۔ البتہ لذت میں وہ ان سے بدرجہا زیادہ بڑھے ہوئے ہوں گے۔ اور جنتی انہیں کھا کر زیادہ خوش ہوں گے۔
۲۱۔ قرآن میں لوگوں کو سمجھانے کے لئے جا بجا مچھر، مکھی، مکڑی وغیرہ کی تمثیلات ہیں۔ اس قسم کی آیات سن کر مخالفین اسلام اعتراض کرتے تھے کہ یہ کیسا کلام الٰہی ہے جس میں حقیر چیزوں کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ اس اعتراض کا جواب یہاں دیا گیا ہے۔
۲۲۔ فاسق وہ ہے جو دائرہ اطاعت سے باہر نکل جائے یعنی نافرمان۔ فسق کے اصل معنی خروج کے ہیں، قرآن میں یہ لفظ معروف سے منکر اور اطاعت سے نافرمانی کی طرف نکل جانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ معروف سے منکر اور اطاعت سے نافرمانی کی طرف نکل جانے کے مختلف مدارج ہو سکتے ہیں، منکر چھوٹا بھی ہو سکتا ہے اور بڑا بھی۔ اسی طرح نافرمانی معمولی درجے کی بھی ہو سکتی ہے اور بغاوت کے درجے کی بھی۔ چنانچہ قرآن میں یہ لفظ معمولی نافرمانی سے لے کر کفر و بغاوت تک سب کے لئے استعمال ہوا ہے بلکہ زیادہ تر اس کا استعمال ان بڑی نافرمانیوں ہی کے لئے ہوا ہے جن کے ساتھ ایمان جمع نہیں ہو سکتا۔
۲۳۔ اللہ کے عہد سے مراد اس کا وہ مستقل فرمان ہے جس کی رو سے تمام انسانوں پر اس کی بندگی عائد ہوتی ہے اور مضبوط باندھ لینے سے اشارہ ’عہد الست‘ کی طرف ہے جو روز ازل تمام نوع انسانی سے اس فرمان کی پابندی کا لیا گیا تھا۔ ملاحظہ ہو سورة اعراف آیت ۱۷۲۔
۲۴۔ جن تمدنی و معاشرتی روابط و تعلقات پر انسان کی اجتماعی و انفرادی فلاح کا انحصار ہے اور جسے درست رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے انہیں یہ لوگ کاٹتے ہیں۔
۲۵۔ قرآن کی اصطلاح میں زمین میں فساد برپا کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ زمین کا نظم و نسق اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین کے مطابق چلانے کی بجائے اس کو من مانے طریقے پر چلایا جائے۔ اس زمین کا اصلی حکمران اللہ تعالیٰ ہے اور انسان کی حیثیت اس کے نائب کی سی ہے لہذا زمین کے امن کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس میں اللہ کا ہی قانون چلے۔ اگر اس کے کسی حصے میں اللہ کا قانون نافذ نہیں ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اس حصے میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے اور یہ چیز پوری زمین کے لئے خطرہ ہے۔
اور (اے پیغمبر! وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں (اپنا) ایک نائب بنانے والا ہوں (تو فرشتے) بولے، کیا تو زمین میں ایسے شخص کو (نائب) بنانا چاہتا ہے جو اس میں فساد برپا کرے اور خونریزیاں کرے؟ تیری حمد (و ثنا) کے ساتھ تیری تسبیح و تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں۲۶۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا، میں وہ (مصلحتیں) جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (اس کے بعد اللہ نے) آدمؑ کو سب (چیزوں) کے نام بتا دیئے پھر ان (چیزوں) کو فرشتوں کے سامنے پیش کر کے فرمایا ہم کو ان (چیزوں) کے نام بتاؤ اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو۔ وہ بولے، تو پاک (ذات) ہے جو تو نے ہم کو بتا دیا ہے اس کے سوا ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ بیشک تو ہی علم والا (اور) حکمت والا ہے۔ (پھر اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو) حکم دیا کہ اے آدمؑ، تم فرشتوں کو ان (چیزوں) ۲۷ کے نام بتا دو۔ پھر جب آدمؑ نے فرشتوں کو ان (چیزوں) کے نام بتا دیئے تو (اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف مخاطب ہو کر) فرمایا، کیا ہم نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمانوں کی اور زمین کی (سب) پوشیدہ چیزیں ہم کو معلوم ہیں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو اسے بھی ہم جانتے ہیں؟۔ اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس۲۸ نے انکار کیا اور تکبر میں آ گیا اور نافرمانوں میں سے ہو گیا۔ پھر ہم نے آدمؑ سے کہا، (اے آدمؑ) تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور اس میں جہاں کہیں سے تمہارا جی چاہے با فراغت کھاؤ (پیو) مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ تم ظالموں میں (شمار) ہو گے۲۹۔ پھر (ایسا ہوا کہ) شیطان ان کو (بہلا پھسلا کر) جنت سے ہٹا لے گیا اور جس (مزے) میں تھے اس سے ان کو نکلوا چھوڑا۔ اور ہم نے حکم دیا (تم سب یہاں سے) اتر جاؤ۳۰ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۳۱ اور (اب) زمین میں تمہارے لئے ایک (خاص) مدت تک ٹھکانا اور سامان (زیست) ہے۔ پھر آدمؑ نے اپنے رب سے (معذرت کے) کچھ کلمات سیکھ لئے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کر لی۳۲۔ بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ ہم نے حکم دیا کہ تم سب (کے سب) یہاں سے اتر جاؤ پھر۳۳ اگر تمہیں ہماری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو لوگ ہماری ہدایت کی پیروی کریں گے ان پر (آخرت میں) نہ تو (کسی قسم کا) خوف (طاری) ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو لوگ نافرمانی کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے وہی دوزخی ہوں گے (اور) وہ ہمیشہ (ہمیشہ) دوزخ میں رہیں گے۔ ۳۹ ؏ ۴
۲۶۔ تسبیح کے معنی پاکی بیان کرنا اور سرگرمی کے ساتھ کام کرنا۔ تقدیس کے معنی ہیں، تقدس کا اظہار اور پاکی بیان کرنا۔
۲۷۔ اشیاء کا علم انسان کو ان کے ناموں کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ آدم کو سب چیزوں کے نام بتانا گویا ان کو تمام اشیاء کا علم دینا تھا۔
۲۸۔ ابلیس کے معنی ہیں انتہائی مایوس۔ یہ کوئی فرشتہ نہ تھا بلکہ جن تھا اسی کو شیطان بھی کہا جاتا ہے۔ فرشتوں کو آدم کے آگے سجدہ کروانے کے معنی یہ تھے کہ وہ تمام مخلوق بھی آدم کی تعظیم کرے جو فرشتوں کے زیر انتظام تھی۔ اس مخلوق میں سے صرف ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا۔
۲۹۔ ظلم حق تلفی کو کہتے ہیں۔ ظالم وہ ہے جو کسی کا حق تلف کرے۔ اللہ کی نافرمانی سے تین بنیادی حقوق تلف ہوتے ہیں۔ اول اللہ کا حق کیونکہ وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے۔ دوم ان تمام چیزوں کے حقوق جن کو اس نے اس نافرمانی کے ارتکاب میں استعمال کیا۔ چاہے وہ اس کے اپنے اعضاء ہوں یا دوسرے انسان اور اشیاء ان کا اس پر یہ حق تھا کہ وہ صرف اللہ کی ہی مرضی کے مطابق ان کو استعمال کرے مگر جب اس کی مرضی کے خلاف ان کو استعمال کیا تو در حقیقت ان پر ظلم کیا۔ سوم خود اپنا حق کیونکہ اس پر اس کی ذات کا یہ حق ہے کہ اسے تباہی سے بچائے مگر اللہ کی نافرمانی کر کے اپنے آپ کو سزا کا مستحق بناتا ہے تو در اصل اپنی ذات پر ظلم کرتا ہے۔
۳۰۔ یعنی جنت سے اتر جاؤ۔ خطاب محض آدم اور حوا سے نہیں بلکہ ابلیس سے بھی ہے، اسی لئے خطاب میں صیغہ تثنیہ کا نہیں جمع کا ہے۔
۳۱۔ دنیا میں انسان بھی انسان کا دشمن ہے لیکن اصل دشمنی تو ذریت آدم سے ذریت ابلیس کو ہے۔ انسانوں کے درمیان بھی اگر دشمنی و عداوت ہوتی ہے تو وہ بھی شیطان کی کوششوں سے ہوتی ہے ورنہ اولاد آدم کے اندر فطری ربط و تعلق در اصل اخوت و محبت کا ہے۔
۳۲۔ توبہ کے معنی رجوع کرنے اور پلٹنے کے ہیں۔ بندہ کی طرف سے توبہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ نافرمانی سے باز آ گیا اور اطاعت کی طرف پلٹ آیا اور اللہ کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے شرمسار بندے کی طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہو گیا۔
۳۳۔ یہ حکم دوسری مرتبہ بطور سزا و عتاب کے نہیں مل رہا ہے اس لئے کہ خطا تو معاف ہو چکی ہے بلکہ یہ نتیجہ ہے شجر ممنوع کا پھل کھا لینے کا، اس کے طبعی اثرات کی بنا پر اب جنت میں قیام کی گنجائش نہ تھی۔
اے بنی اسرائیل۳۴ ہمارے وہ احسانات یاد کرو جو ہم تم پر کر چکے ہیں اور اس عہد کو پورا کرو۳۵ جو (تم نے) ہم سے کیا ہے ہم اس عہد کو پورا کریں گے۳۶ جو (ہم نے) تم سے کیا ہے اور ہم ہی سے ڈرتے رہو۔ اور اس (قرآن) پر ایمان لاؤ جو ہم نے (اب) نازل کیا ہے اور اس (کتاب تورات) کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس ہے اور تم ہی (سب سے) پہلے اس کے انکار کرنے والے نہ بن جاؤ اور ہماری آیات کو تھوڑی قیمت پر نہ بیچ ڈالو۳۷ اور ہم ہی سے ڈرتے رہو اور سچ کو جھوٹ کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو اور جان بوجھ کر حق بات کو نہ چھپاؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور (نماز میں) جھکنے والوں کے ساتھ تم بھی جھکا کرو۔ کیا تم (دوسرے) لوگوں سے نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنی خبر نہیں لیتے حالانکہ تم کتاب (الٰہی) کی تلاوت کرتے ہو؟ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ اور صبر اور نماز کا سہارا پکڑو۳۸ اور البتہ نماز شاق ہے مگر ان پر نہیں جو عاجزی کرتے ہیں (اور) جو سمجھتے ہیں کہ (آخرکار) وہ اپنے رب سے ملنے والے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ ۴۶ ؏ ۵
۳۴۔ بنی اسرائیل کے لفظی معنی ہیں اسرائیل کے بیٹے۔ اسرائیل کے معنی ہیں اللہ کا بندہ۔ یہ یعقوبؑ کا لقب تھا اور بنی اسرائیل یعنی یہود نسل یعقوب ٹھہرے۔ مدینہ منورہ اور اس کے قرب و جوار میں یہودیوں کی بڑی تعداد آباد تھی۔ اس لئے ان کو خطاب کیا جا رہا ہے۔
۳۵۔ یعنی اطاعت الٰہی و اطاعت انبیاء کا عہد۔
۳۶۔ یعنی دنیوی و اخروی فوزو فلاح سے ہمکنار کرنے کا عہد۔
۳۷۔ حق کو کسی دنیوی مادی مصلحت کی بنا پر چھوڑ دینا حق فروشی ہے اس کے معاوضے میں انسان خواہ دنیا بھر کی دولت لے لے بہرحال وہ تھوڑی قیمت ہی ہے کیونکہ حق سے زیادہ گراں کوئی چیز نہیں۔
۳۸۔ ” لفظ صبر ” کے اصل معنی روکنے کے ہیں یعنی نفس کو گھبراہٹ، مایوسی اور دل برداشتگی سے بچا کر اپنے موقف پر جمائے رکھنا۔ اس کا قرآنی مفہوم یہ ہے کہ بندہ پوری طمانیتِ قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے عہد پر ڈٹا رہے اور اس کے وعدوں پر یقین رکھے اور راہ حق میں اس کو جن مشکلات سے بھی دوچار ہونا پڑے ان کو ذرہ برابر بھی وقعت نہ دے۔
صبر کے اصل معنی قرآن نے خود بھی واضح کر دیئے ہیں، چنانچہ سورة بقرہ میں فرمایا (وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ۱۷۷) 2۔ البقرة: 177) (۱۷۷) (اور ثابت قدمی دکھانے والے سختی میں تکلیف میں اور لڑائی کے وقت) یہاں صبر کے تین مواقع کا ذکر کیا گیا ہے یعنی غربت، بیماری اور جنگ، غور کیجئے تو تمام مصائب و شدائد کے سرچشمے یہی تین ہیں۔ ان سے بچنا نفس کے لئے نہایت شاق ہے اس لئے وہ نسخہ بھی بتادیا ہے جو اس مشکل کام کو آسان بنا سکتا ہے۔ یہ نسخہ صبر اور نماز کے دو جزوں پر مشتمل ہے۔ صبر کا تعلق اخلاق و کردار سے اور نماز کا تعلق عبادات سے ہے۔ انسان کے اندر مشکلات کے خلاف حق پر ڈٹے رہنے کی صفت موجود نہ ہو تو وہ کوئی اعلیٰ کام تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا، لیکن مشکلات و موانع کے خلاف کسی صحیح موقف پر ڈٹے رہنے کی صفت انسان کے اندر آسانی سے نہیں پیدا ہوتی بلکہ ریاضت سے پیدا ہوتی ہے جس کا طریقہ نماز ہے۔ آدمی اگر ایک صحیح راہ پر چلنے کا عزم کر لے اور اس پر چل کھڑا ہو اور ساتھ ہی برابر اپنے رب کو یاد رکھے اور اس سے مدد مانگتا رہے (جس کی بہترین شکل نماز ہے) تو اس کے عزم کی قوت ہزار گنا بڑھ جاتی ہے اور کوئی مشکل سے مشکل حالت بھی اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا ہونے نہیں دیتی۔ اگر حالات کی نزاکت سے آدمی کے پاؤں لڑکھڑانے لگیں تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا وہ تعلق جو نماز کے واسطے سے قائم ہوا ہے اس کو گرنے سے بچا لیتا ہے۔
اے بنی اسرائیل، ہمارے وہ احسانات۳۹ یاد کرو جو ہم تم پر کر چکے ہیں اور اس بات کو بھی کہ ہم نے تم کو دنیا جہان (کے لوگوں) پر فوقیت دی تھی۔ اور اس دن سے ڈرو۴۰ جب کوئی شخص کسی شخص کے کچھ کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہو گی اور نہ کسی سے معاوضہ لیا جائے گا اور نہ لوگوں کو (کہیں سے) کچھ مدد مل سکے گی۔ اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات دی جو تم کو سخت ایذا پہنچاتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا تھا، پھر ہم نے تم کو تو نجات دی اور فرعون والوں کو تمہارے دیکھتے (دیکھتے) غرق کر دیا۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰؑ سے چالیس راتوں والا وعدہ کیا تھا تو تم اس کے پیچھے (پرستش کے لئے) بچھڑے کو لے بیٹھے اور تم (سخت) ظالم تھے۴۱۔ مگر اس کے بعد بھی ہم نے تمہیں معاف کر دیا تاکہ تم شکر گزار بنو۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰؑ کو کتاب (تورات) اور فرقان عطا کی تاکہ تم ہدایت پاؤ۴۲ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم (کے لوگو) تم نے بچھڑے (کی پرستش) کے اختیار کرنے سے اپنے اوپر (بڑا ہی) ظلم کیا ہے لہذا (اب) اپنے خالق کی جناب میں توبہ کرو اور اپنے اشخاص کو قتل کرو۴۳۔ اس میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے۔ چنانچہ اس نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا (اور) ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب تم نے موسیٰؑ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے جب تک کہ ہم کھلم کھلا اللہ کو (تم سے کلام کرتا ہوا) نہ دیکھ لیں، اس پر تم کو بجلی نے آ دبوچا اور تم دیکھتے (کے دیکھتے) رہ گئے۔ پھر تمہارے مر جانے کے بعد ہم نے تم کو زندہ کیا تاکہ تم شکر گزار بنو۔ اور ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا اور من و سلویٰ ۴۴بھی اتارا (اور کہا کہ) جو پاک چیزیں ہم نے تم کو دی ہیں انہیں کھاؤ اور انہوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے۴۵۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا کہ اس بستی میں (جو تمہارے سامنے ہے) داخل ہو جاؤ اور اس میں جہاں سے چاہو خوب کھاؤ (پیو) اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا اور کہتے جانا حطۃ۴۶ ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے۔ مگر جو بات ان سے کہی گئی تھی اسے ظالموں نے بدل کر کچھ اور ۴۷کر دیا تو ہم نے ظلم کرنے والوں پر ان کی نافرمانی کی سزا میں آسمان سے عذاب نازل کیا۔ ۵۹ ؏ ۶
۳۹۔ احسانات یہ تھے کہ انہیں علم حق سے نوازا گیا تھا اور اقوام عالم کا امام اور رہنما بنایا گیا تھا مزید برآں انبیاء اور رسل جہاں تک کہ نسل کا تعلق ہے نسل اسرائیل ہی میں مسلسل پیدا ہوتے رہے، چنانچہ یعقوبؑ سے لے کر عیسیٰؑ تک چار ہزار نبی ان میں آ چکے تھے۔
۴۰۔ یعنی روز قیامت سے
۴۱۔ جب موسیٰؑ اپنی قوم کو فرعون کے پنجہ غضب سے نکال لائے تو اب اللہ کی مشیت یہ ہوئی کہ اس قوم کو ایک پورا قانون شریعت اور دستور زندگی عطا ہوا۔ چنانچہ موسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ نے چالیس روز کے لئے کوہ طور پر طلب فرمایا۔
۴۲۔ یعنی وہ چیز جس سے حق اور باطل، حلال اور حرام کے درمیان فرق کیا جا سکے۔ مراد کتاب تورات ہی ہے جسے فرقان سے تعبیر کر کے اس کے ایک اور پہلو کو واضح کر دیا ہے۔
۴۳۔ یعنی اپنے ان لوگوں کو قتل کرو جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی۔
۴۴۔ من و سلویٰ قدرتی غذائیں تھیں جو بنی اسرائیل کو مہاجرت کے زمانے میں جزیرہ نمائے سینا میں چالیس سال تک ملتی رہیں۔ من سوکھے دھنیے کی مانند تھا اور سلویٰ ایک قسم کا بٹیر۔
۴۵۔ یعنی ان نعمتوں کو پا کر شکر گزار بننے کی بجائے ان کی ناقدری اور اللہ کی نافرمانی کرتے رہے۔
۴۶۔ یعنی ہمارے گناہ معاف فرما۔
۴۷۔ یعنی حِطّۃ کی بجائے از راہ تمسخر حِنْطَۃ کہنے لگے جس کے معانی ہیں گیہوں۔
٭٭٭
حصہ اول
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل