FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

حیرت

رشید سندیلوی

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

مکمل کتاب پڑھیں ………..

حیرت

رشید سندیلوی

 

مجموعہ : حیرت

صنف  : غزلیں (چار شعروں کی غزلیں)

شاعر : رشید سندیلوی

انتساب : والد گرامی جناب غلام غوث غم

سال : جنوری 2023

1

 

تیری باتیں اچھی لگتی تھیں

ٹھنڈی راتیں اچھی لگتی تھیں

ہم اک ریل پہ گاؤں جاتے تھے

اور ملاقاتیں اچھی لگتی تھیں

دھیما لہجہ تھا ہم سب کا سو

میٹھی باتیں اچھی لگتی تھیں

بچے پڑھ لکھ کر سو جاتے تھے

ڈھلتی راتیں اچھی لگتی تھیں

 

2

 

ہو گئے خاک نشیں خاک اڑانے والے

خود ہی مٹنے لگے آثار مٹانے والے

اس کی جانب ہوا مائل تو اچنبھا کیا ہے

آ کے دیکھیں اسے اک بار زمانے والے

رخ کو بدلا ہے کمیں گاہ میں ایسے اس نے

سب ہی ناکام ہوئے تیز نشانے والے

اپنی آنکھوں سے تجھے کیسے مکمل دیکھیں

کتنے عاجز ہیں یہ تصویر بنانے والے

 

 3

 

آستینوں میں سانپ پلتے ہیں

سائے اہرام سے نکلتے ہیں

 یہ نشیمن جلانے والے بھی

اپنی آتش میں آپ جلتے ہیں

کاش خود کو ہی روک لیتے ہم

کفِ افسوس اب بھی ملتے ہیں

دھوپ بنتے ہیں اور کبھی سایہ

رنگ ایسے بھی وہ بدلتے ہیں

 

4

 

اب سرِ رہ نہیں ملوں گا میں

لا مکاں میں کہیں ملوں گا میں

کر کے تسخیر کہکشائیں سب

تجھ کو زیرِ زمیں ملوں گا میں

آج ظاہر ہوں دیکھ لیجے مجھے

کل کو پردہ نشیں ملوں گا میں

اپنا زادِ سفر اٹھا لینا

وقتِ رخصت یہیں ملوں گا میں

 

 5

 

خواہشِ آبِ بقا نے مارا

ہم کو سیلابِ بلا نے مارا

ہم جنہیں جھک کے ملا کرتے تھے

ان کو اپنی ہی انا نے مارا

غوطہ زن پانیوں میں ڈوب گئے

گل کو گلشن کی ہوا نے مارا

تیغِ دشمن سے جو بچ نکلے تھے

ان کو اپنوں کی جفا نے مارا

 

6

 

اس سے بچھڑ کے دور تو جانا پڑا مجھے

کوہِ گراں کو سر پہ اٹھانا پڑا مجھے

کوئی بھی راستے میں مرا ہمسفر نہ تھا

جنگل کے بیچ رستہ بنانا پڑا مجھے

سورج بجھا تو یار سبھی گھر کو چل دیے

ایسے میں اک چراغ جلانا پڑا مجھے

چاروں طرف سے لشکری خنجر بدست تھے

نیزہ اٹھا کے دفعتاً آنا پڑا مجھے

 

7

 

نذرِ میر تقی میر

حسنِ مہتاب سرِ شام دکھاتا ہے میاں

بام پر آ کے کوئی مجھ کو بلاتا ہے میاں

 

دن نکلتا ہی نہیں شب کے پری خانوں میں

اپنے چہرے کو جو زلفوں میں چھپاتا ہے میاں

 

دن تو کاموں میں کسی طور گزر جاتا ہے

رات ڈھلتی ہے تو اک خوف سا آتا ہے میاں

 

کون دیتا ہے یہ دستک مرے دروازے پر

 کون مرقد پہ چراغوں کو جلاتا ہے میاں

 

8

 

اب کوئی معجزہ نہیں ہو گا

دستِ عیسیٰ عطا نہیں ہو گا

نفرتوں کے مہیب جنگل میں

پیار کا راستہ نہیں ہو گا

 ہم بھی کانٹوں پہ سو ہی جائیں گے

اب یہاں رت جگا نہیں ہو گا

مار ڈالیں گے وسوسے ہم کو

دل اگر آئینہ نہیں ہو گا

 

9

 

چمکتے چاند کا امشب نظارہ کر لیا میں نے

کسی کے عشق میں دل پارہ پارہ کر لیا میں نے

ذرا دور اپنے حجرے سے نکل کر میں کہاں جاتا

دکھوں کے ساتھ ہنس ہنس کر گزارہ کر لیا میں نے

خدا کا شکر تیری یاد کا جلتا رہا دیپک

 اگر بجھنے لگا روشن دوبارہ کر لیا میں نے

 مجھے جب ملنے آتا تھا کسی کے ساتھ آتا تھا

سو رفتہ رفتہ دشمن کو گوارہ کر لیا میں نے

 

10

 

ڈوبے ہیں زندگی کے گرد و غبار میں

 مارا ہے ہم کو لا کے دشتِ تا تار میں

اٹھے جو نیند سے تو سب کچھ بدل گیا

کچھ لوگ سو رہے تھے صدیوں سے غار میں

ممکن نہیں دوا ہو کوئی جنون کی

بڑھ جاتا ہے خلل سا اکثر بہار میں

تیرے سفر کے بارے میں جانتا نہیں

چکر لگا رہا ہوں اپنے مدار میں

 

11

 

ایک لمبے سفر پہ جانا ہے

اور کچھ بوجھ بھی اٹھانا ہے

پورا ہو گا مرا سفر کیسے

 راہ میں اس کا آستانہ ہے

تیرے در پر ہی ایستادہ ہوں

جب تلک میرا آب و دانہ ہے

ہو نے لگتی ہے سب تھکن کافور

عاشقی ایسا شامیانہ ہے

 

12

 

جس کا شہرہ تھا بہت دل کی مسیحائی کا

اس نے دیکھا نہیں عالم مری تنہائی کا

تُو تو اترا ہی نہیں ذات کی پنہائی میں

تجھ کو اندازہ نہیں جھیل کی گہرائی کا

گل کی ٹہنی کے لچکنے کی اگر بات کریں

ذکر ہوتا ہے ہمیشہ تری انگڑائی کا

جس کو نفرت کے بھی آداب نہیں آتے تھے

ڈھول کیوں بجتا رہا اس کی شناسائی کا

 

13

 

آئینہ توڑ کے حیرت میں پڑا رہتا ہوں

عکس چننے کی جسارت میں پڑا رہتا ہوں

ایک منظر میں کئی روپ نظر آتے ہیں

کبھی وحدت کبھی کثرت میں پڑا رہتا ہوں

دن تو دفتر میں کسی طور گزر جاتا ہے

رات زخموں کی اذیت میں پڑا رہتا ہوں

دوست آتے ہیں تو رونق بھی چلی آتی ہے

ورنہ میں درد کی حالت میں پڑا رہتا ہوں

 

 

14

 

کوئی حاجت روا نہیں ہوتا

دوست بھی آشنا نہیں ہوتا

دو پرندوں کی یہ کہانی ہے

عشق میں تیسرا نہیں ہوتا

اس طرح بھی ستارے ملتے ہیں

بیچ میں فاصلہ نہیں ہوتا

وقت زنجیر ڈال دیتا ہے

آدمی بے وفا نہیں ہوتا

 

15

 

ناصر کاظمی کے نام

دل تو میرا اداس ہے مرشد

شہر کیوں بد حواس ہے مرشد

 

حالتِ وجد ہی میں رہنے دو

اک یہی التماس ہے مرشد

 

ترے کہنے پہ رقص کرتا ہوں

تو ہی سجدہ شناس ہے مرشد

 

وہی اوہام دل کو ڈستے ہیں

وہی خوف و ہراس ہے مرشد

 

 

16

 

زیست گزری نہیں گزاری ہے

لمحہ لمحہ یہ مجھ پہ بھاری ہے

میں نے جانا ہے سوئے کرب و بلا

اور کمزور سی سواری ہے

اس کو دیکھے ہوئے ہے جگ بیتا

ایک وحشت سی مجھ پہ طاری ہے

اپنی نظمیں ذرا سنا مجھ کو

پھر تمنّائے اشک باری ہے

 

17

 

میں بجھ رہا تھا دوبارہ جلا دیا اس نے

ذرا سی خاک کو اونچا اڑا دیا اس نے

میں روشنی لئے پھرتا ہوں یہ جو سینے پر

چراغِ درد کا تمغہ سجا دیا اس نے

پرندے روتے ہوئے آ کے گلے ملتے ہیں

شجر کی شاخ کو خنجر بنا دیا اس نے

وہ میرا شہر کہ جس میں وفا شعاری تھی

بڑے قرینے سے کوفہ بنا دیا اس نے

 

18

 

نیند آنکھوں سے دور ہے جاناں

 تیرے غم کا سرور ہے جاناں

تیرے ہونٹوں سے رس ٹپکتا یے

تیرے چہرے پہ نور ہے جاناں

تیرے لہجے میں کیوں اداسی ہے

کچھ تو دل میں ضرور ہے جاناں

آپ بھی پاس آ نہیں سکتے

اور گاؤں بھی دور ہے جاناں

 

19

 

میں نے ڈھونڈے تھے پناہوں کے سہارے کیسے

اس نے دشمن مرے خیمے میں اتارے کیسے

آپ حساس تھے نازک تھے وفا پیشہ تھے

آپ کی سمت سے آتے ہیں شرارے کیسے

موج دریا سے بچانے کی یہ منطِق کیسی

آدمی ڈوب گیا ہو تو کنارے کیسے

میں کسی پیڑ میں پوشیدہ پیمبر تو نہیں

پھر مرے جسم پہ چلتے ہیں یہ آرے کیسے

 

20

 

روشن اگر چراغ نہ میری لحد پہ تھا

اس کا مکان بھی تو اندھیرے کی زد پہ تھا

مسمار کرنے آئے ہیں میرے وجود کو

 یاروں کو اعتراض مرے خال و خد پہ تھا

آنسو بہے تو چہرہ سلامت نہیں رہا

جیسے کوئی چراغ ہواؤں کی زد پہ تھا

آنکھوں میں تیرا عکس بکھرتا چلا گیا

طوفان پانیوں میں کوئی شد و مد پہ تھا

 

21

 

میں جب بھی ان کو سناتا ہوں غم کے افسانے

بڑے ہی ناز سے لگتے ہیں زلف سلجھانے

اب اس مقام پہ ہم کو انّا نے دے مارا

کہ جس مقام پہ اپنے ہوئے ہیں بیگانے

بہارِ ابر سے پیڑوں کی گود خالی ہے

مگر وہ راکھ پہ بارش لگے ہیں برسانے

 کسی بھی بات پہ میں نے زباں نہیں کھولی

اسی سکوت سے پھیلیں گے میرے افسانے

 

22

 

یوں تو تاروں بھرا فلک دیکھوں

تیری لیکن نہ اک جھلک دیکھوں

جب تو آئے غریب خانے پر

روشنی رنگ اور مہک دیکھوں

اب نہ نشے میں وہ خماری ہے

اب نہ بادل میں وہ کڑک دیکھوں

جب بھی تاریخ پر نظر ڈالوں

آتش و خون کی جھلک دیکھوں

 

23

 

آخر وہ شوخ زلفِ معنبر سنور گئی

آنگن میں آ کے شام مسلسل ٹھہر گئی

جوشِ جنوں بلند تھا میرا بھی عشق میں

پھر رفتہ رفتہ میری بھی آواز مر گئی

پہلے تو عزم شق ہوا میرے وجود کا

پھر یوں ہوا کہ تیغِ بھی گِر کر بکھر گئی

اب دل میں اس کا درد بھی باقی نہیں رہا

ندی سی جو چڑھی تھی وہ آخر اتر گئی

 

24

 

کوئی اپنا نہیں ہونے والا

 زخم اچھا نہیں ہونے والا

عمر بے تاب گزاری میں نے

دل شگفتہ نہیں ہونے والا

ایسے لکھا گیا ہوں پیچیدہ

میں خلاصہ نہیں ہونے والا

تیرے در پر ہی کیوں چلے آئے

جب مداوا نہیں ہونے والا

 

25

 

دل شناس کافی ہے

اک قیاس کافی ہے

اس غریب خانے میں

 سبز گھاس کافی ہے

بوئے گل سے کیا مطلب

 اس کی باس کافی ہے

گو کہ ہنس رہا ہوں میں

دل اداس کافی ہے

 

26

 

اپنے آنگن میں اندھیرا نہیں ہونے دیتے

میرے بچے مجھے تنہا نہیں ہونے دیتے

تشنگی میں بھی انا رکھی سلامت ہم نے

اپنی گردش کو پیالا نہیں ہونے دیتے

عالمِ وجد میں بھی آنکھ کھلی رکھتے ہیں

اپنے جوبن کا نظارہ نہیں ہونے دیتے

مر تو جاتے ہیں مگر گھر کی حفاظت کے لئے

اپنی دیوار کو رستہ نہیں ہونے دیتے

 

27

 

وقت رخصت ذرا سا رونے دو

اپنا تکیہ مجھے بھگونے دو

سینہ کوبی سے تھک گیا ہوں میں

تھوڑی سی دیر مجھ کو سونے دو

اپنی قسمت سے لڑ نہیں سکتا

ہونے والا ہے جو بھی ہونے دو

سبزہ اترے گا ان زمینوں پر

خواب آنکھوں میں اپنی بونے دو

 

28

 

اپنا ساماں اٹھا کے چلتا ہے

مجھ کو پتھر بنا کے چلتا ہے

رستہ دیتے ہیں بحر و بر اس کو

کشتیاں جو جلا کے چلتا ہے

دوست ہے یا کہ میرا دشمن ہے

ساتھ خنجر چھپا کے چلتا ہے

میرا ہمزاد اب قدم بہ قدم

اپنی ایڑی اٹھا کے چلتا ہے

 

29

 

خامشی سے نہ گفتنی کہنا

ایسے رودادِ زندگی کہنا

اہلِ مرداں کا یہ تصوف ہے

زخم کھا کر علی علی کہنا

اس کے ہونٹوں کو میکدہ لکھنا

اس کی آنکھوں کو نرگسی کہنا

روشنی کو ہی روشنی سمجھو

 تیرگی کو ہی تیرگی کہنا

 

30

 

کوئی پیغام آ بھی سکتا ہے

آنے والا تو جا بھی سکتا ہے

 ظلمتِ شب ہے یہ چٹان نہیں

 شمع کوئی جلا بھی سکتا ہے

 جھکنے والا مزارِ مرشد پر

خاکِ پا کو اٹھا بھی سکتا ہے

وہ جو منہ میں زباں نہیں رکھتا

چار باتیں سنا بھی سکتا ہے

 

31

 

جب ملا مجھ کو محبت سے ملا

ایک رغبت بڑی شدت سے ملا

سر پہ پھرتا ہے ہما سا کوئی

 یہ صلہ مجھ کو ریاضت سے ملا

ایک رنگت میں کئی رنگ اس کے

کبھی وحدت کبھی کثرت سے ملا

میری حاجت کو کوئی کب سمجھا

جو ملا اپنی ضرورت سے ملا

 

32

 

جب بھی دیکھا ہے تری زلف کو برہم دیکھا

ہم نے سورج کو ترے شہر میں مدھم دیکھا

ہم بھی بیٹھے تھے وہاں ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ

تیرے کوچے میں تو ہر شخص کو پرنم دیکھا

یوں تو دیکھے تھے بڑے ہم نے یہاں شعلہ نوا

 تیری گفتار کا اک اور ہی عالم دیکھا

 تیری چوکھٹ پہ تو اب وہ بھی کھڑی ہے پیاسی

 نہ تھا جس آنکھ نے برسات کا موسم دیکھا

 

33

 

ریل سیٹی سی جب بجاتی ہے

 روح بھی میری کانپ جاتی ہے

جب کوئی ہیر گنگناتا ہے

میری آواز بھیگ جاتی ہے

گھر کی دیوار پر لگی مورت

چوکھٹے سے نکل بھی آتی ہے

کتنا اچھا ہے شام کا منظر

جیسے مہندی دلہن لگاتی ہے

 

34

 

کربِ اندوہِ نہانی کم ہے

میری آشفتہ بیانی کم ہے

خط میں پوشیدہ ہیں ساری باتیں

اور پیغام زبانی کم ہے

 نعمتِ حرفِ غنا ہے پھر بھی

میرے دریا کی روانی کم ہے

اپنے ساحل پہ پہنچ جاؤں گا

راہ آسان گرانی کم ہے

 

35

 

زندگی کے حادثوں پر مسکرا دیتے ہیں لوگ

شمع بجھ جائے تو داغوں کو جلا دیتے ہیں لوگ

کون کہتا ہے کہ مٹ جاتے ہیں زخموں کے نقوش

آگ بجھتی ہے تو شعلوں کو ہوا دیتے ہیں لوگ

کون رکھتا ہے کسی کے اپنے دل میں خد و خال

وقت پڑتا ہے تو صورت بھی مٹا دیتے ہیں لوگ

اب یہ دنیا وارداتِ عشق سے ہے نا شناس

عشق کے پروردہ کو پاگل بنا دیتے ہیں لوگ

 

36

 

اپنے محور پہ گھومنا میرا

اور ستاروں کو ڈھونڈنا میرا

کیا بتاؤں میں شامِ تنہائی

 غم کی رسی سے جھولنا میرا

وقتِ رخصت ترا وہ رک جانا

اور مڑ مڑ کے دیکھنا میرا

یہ مرے خون کی روانی ہے

ہر گھڑی تجھ کو سوچنا میرا

 

37

 

کہاں گیا ہے وہ بادل غبار کر کے مجھے

ہوا بھی روٹھ گئی تار تار کر کے مجھے

جنوں میں پھول نہیں پتھروں کی بارش نے

دریدہ چھوڑ دیا سنگ سار کر کے مجھے

کہیں بھی ساقی کے در پر مجھے قرار نہیں

نشے پلائے ہیں دیوانہ وار کر کے مجھے

 کسی کے سرخ لبوں کا طلسم ہے شاید

گزر گئی ہے صبا پُر بہار کر کے مجھے

 

38

 

درسِ ہستی تو عاجزانہ تھا

 پر وہ انداز تاجرانہ تھا

آگ روشن ہوئی رگِ جاں میں

سرد موسم بڑا سہانہ تھا

دعویٰ بھی دوستی کا کرتے تھے

 اور رویہ منافقانہ تھا

زندگانی نہیں تھی سنگ و خشت

نرم شاخوں پہ آشیانہ تھا

 

39

 

نقش پانی پہ میں بناؤں گا

ایک تعمیرِ نو اٹھاؤں گا

 کچھ یہاں یوں بھی برقرار نہیں

ایک دن سب کو چھوڑ جاؤں گا

قہقہے آنسوؤں میں ڈوبیں گے

ہجر کا واقعہ سناؤں گا

اپنے احباب تم بلا لینا

میں پرندوں کو ڈھونڈ لاؤں گا

 

40

 

عجیب خواب مجھے رات بھر ستاتے ہیں

کسی کھنڈر کی کوئی داستاں سناتے ہیں

کوئی بھی خواب میسر نہیں ہے دنیا میں

عذاب کھینچ کے ہم لوگ مر ہی جاتے ہی

یہ منطقہ تو کوئی موت کا جزیرہ ہے

چلو فلک پہ کوئی آشیاں بناتے ہیں

ترے وصال پہ سیف الملوک پڑھتے تھے

ترے فراق میں اب ہیر گنگناتے ہیں

 

41

 

کچھ تو نفرت نے مار ڈالا ہے

 کچھ محبت نے مار ڈالا ہے

کچھ سمے اور جی ہی لیتے ہم

گھر کی حالت نے مار ڈالا ہے

تیری نفرت مجھے نہ مار سکی

تیری الفت نے مار ڈالا ہے

اس نگر کے مکینوں کو مری جاں

دردِ ہجرت نے مار ڈالا ہے

 

42

 

تیری مورت بنا کے بیٹھا ہوں

رنگ سارے ملا کے بیٹھا ہوں

برق و باراں پہ کوئی دوش نہیں

اپنی کٹیا جلا کے بیٹھا ہوں

آنے والا ہے فیصلہ کوئی

اپنی گردن جھکا کے بیٹھا ہوں

لوٹ آؤں گا اس مدار پہ میں

 دائرہ سا بنا کے بیٹھا ہوں

 

43

 

تیری آواز سے اک آگ سی لگ جاتی تھی

سوز اور ساز سے اک آگ سی لگ جاتی تھی

اب تو جلتے ہی نہیں آگ سے ہم اور کبھی

حسن اور ناز سے اک آگ سی لگ جاتی تھی

اب نہ نظموں میں شرارے ہیں نہ غزلوں میں لہو

پہلے الفاظ سے اک آگ سی لگ جاتی تھی

اب تو انجام کی خنکی میں دبے جاتے ہیں

پہلے آغاز سے اک آگ سی لگ جاتی تھی

 

44

 

اک سانحہ ہونے والا ہے

کوئی ذات ڈبونے والا ہے

کل شاید تخت نشیں ہو گا

 جو فرش پہ سونے والا ہے

اشکوں کی بارش سے کوئی

 داغوں کو دھونے والا ہے

ملتا تھا مجھ کو ہنس ہنس کر

اب چھپ کر رونے والا ہے

 

45

 

یادِ ماضی کوئی عذاب نہیں

عہدِ رفتہ ترا جواب نہیں

مجھکو ہی کم دکھائی دیتا ہے

اس کے منہ پر کوئی نقاب نہیں

وہ پری ہے یا اپسرا کوئی

دیکھنے کی ذرا بھی تاب نہیں

تیرے جانے کا رنج ہے مجھکو

تجھ سے ملنے کا اضطراب نہیں

 

 

46

 

شاعری اختتام کو پہنچی

زندگی اختتام کو پہنچی

پھول نوچے گئے ہیں شاخوں سے

عاشقی اختتام کو پہنچی

مشعلِ آس بجھ گئی آخر

روشنی اختتام کو پہنچی

دمِ آخر سبھی اکیلے تھے

 دل لگی اختتام کو پہنچی

 

47

 

جو بھی آتا ہے دکھاتا ہے نظارہ اپنا

میں بھی کاندھوں پہ لئے پھرتا ہوں لاشا اپنا

میرے احباب مری راکھ کو نت چھانتے ہیں

میں نے شعروں میں سمویا ہے خلاصہ اپنا

اپنے ترکے پہ سدا ناز رہا ہے مجھ کو

نعمتِ غیر کو میں نے نہیں سمجھا اپنا

پوششِ اطلس و کمخواب مرا خواب نہیں

اچھا ہوتا ہے مرے دوست لبادہ اپنا

 

48

 

کج ادائی کی باتیں کرتے ہیں

 خود نمائی کی باتیں کرتے ہیں

 گھر میں اپنے بلا کے دشمن کو

آشنائی کی باتیں کرتے ہیں

بے زبانوں کو قید کر کے وہ

لب کشائی کی باتیں کرتے ہیں

بزمِ رنداں میں پی پلا کر وہ

پارسائی کی باتیں کرتے ہیں

 

49

 

رستہ تدبیر سے نکل آیا

عکس تصویر سے نکل آیا

آنکھ نے ایسی گریہ زاری کی

خون زنجیر سے نکل آیا

غالبِ خستہ کی تلاش میں تھا

رابطہ میر سے نکل آ یا

 چھٹنے والے ہیں جنگ کے بادل

کام تحریر سے نکل آیا

 

50

 

تیرے دروازے تک میں آؤں گا

پھر کہیں اور چلا جاؤں گا

حسنِ یوسف کا ہی گماں ہو گا

رخ سے پردہ میں جب ہٹاؤں گا

یہ عداوت کا کھیل ٹھیک نہیں

پیار کے گیت گنگناؤں گا

مجھ سے مل کر تجھے ملے گا کیا

میں فقط آئینہ دکھاؤں گا

 

51

 

ہر خطا کو معاف کرتا رہا

 آئینہ اپنا صاف کرتا رہا

کچھ تو وہ بھی پرے رہا مجھ سے

 میں بھی کچھ انحراف کرتا رہا

زنگ لوہے سے کب اترتا ہے

دل کو ہر چند صاف کرتا رہا

مجھ کو کعبہ نظر نہیں آیا

عمر بھر میں طواف کرتا رہا

 

52

 

بہت ہی تیز ہوا تھی خراب رستہ تھا

ہمارے گرد قضا تھی خراب رستہ تھا

 خلا میں ایک طرف تو بڑے دھماکے تھے

کہیں خفیف صدا تھی خراب رستہ تھا

میں اپنی ذات کو جب بھی تھا ڈھونڈنے نکلا

کوئی عجیب فضا تھی خراب رستہ تھا

کوئی بھی خوف نہیں تھا کھلے سمندر میں

مگر جو زلف خفا تھی خراب رستہ تھا

 

53

 

اپنا لہجہ کرخت اس نے کیا

تن مرا لخت لخت اس نے کیا

بالکونی میں ہی کھڑے رہ کر

آدمی کو درخت اس نے کیا

 امن پر ہی یقین تھا میرا

مجھ کو خنجر بدست اس نے کیا

میرا دل کتنا نرم و نازک تھا

پھر یہ ریشم بھی سخت اس نے کیا

 

54

 

رت جگے خواب مرے قاتل ہیں

میرے ارباب مرے قاتل ہیں

ایک نکتے پہ سدا رکتے نہیں

اہلِ سیماب مرے قاتل ہیں

 اوس کے قطرے مسیحا ہیں مگر

خشک سیلاب مرے قاتل ہیں

ان سے بڑھ کر نہیں سادہ کوئی

 کتنے نایاب مرے قاتل ہیں

 

55

 

گل کو بادِ صبا میسر ہے

آدمی کو خدا میسر ہے

زندگی ہے تو سو وسیلے ہیں

سانس ہے تو ہوا میسر ہے

مار ڈالے گا ہم کو سناٹا

کوئی دم تو نوا میسر ہے

خوش نصیبی مری ملاحظہ ہو

مجھ کو صبر و رضا میسر ہے

 

56

 

لب بنائے گئے نفاست سے

بات کرتا ہے کس سلاست سے

اپنا پیغام ہی محبت ہے

ہم کو یارا نہیں سیاست سے

زلفِ جاناں کے ہی اسیر ہیں ہم

خوف آتا نہیں حراست سے

پیش ہے اپنی جاں کا نذرانہ

ہم سپاہی ہیں اس ریاست کے

 

57

 

وہ نہ آئے گا یہ ہے اندازہ

پھر بھی کھولا ہے گھر کا دروازہ

میرے تنکے سنبھالنے والے

 کون دیکھے گا میرا شیرازہ

دشتِ تنہائی میں لہو رو کر

دے رہا ہوں میں تجھ کو آوازہ

رنگ پھولوں سے اڑ ہی جاتے ہیں

مٹ ہی جاتا ہے دھوپ میں غازہ

 

58

 

راستے مختصر نہیں ہوتے

سلسلے مختصر نہیں ہوتے

شہر بستے اجڑتے رہتے ہیں

حادثے مختصر نہیں ہوتے

شمع کے رات بھر سلگنے سے

رتجگے مختصر نہیں ہوتے

لاکھ ہوں قربتیں مگر پھر بھی

واہمے مختصر نہیں ہوتے

 

59

 

رات بھی آنکھوں میں کٹ جاتی ہے اکثر

 زیست بھی چپکے سے گھٹ جاتی ہے اکثر

چھِن کے آ جاتی ہیں مہ کی ساری کرنیں

دھوپ یوں زنداں سے ہٹ جاتی ہے اکثر

سخت جانی ہے نَبَردِ جاں بھی کوئی

موت آ کر بھی پلٹ جاتی ہے اکثر

کچھ ستارے ٹوٹ کر ہیں گر بھی جاتے

چاند کی گاڑی بھی پھٹ جاتی ہے اکثر

 

60

 

میں تیری سر زمین کا بندہ نہیں رہا

پتھر پہ کوئی نقش کنندہ نہیں رہا

میری تمام زیست محبت میں کٹ گئی

اب لوگ بولتے ہیں میں زندہ نہیں رہا

ہر شخص قید ہے کسی اپنے ہی خول میں

اس شہرِ بے وفا میں پرندہ نہیں رہا

اب انشراح کا بھی نہیں فائدہ کوئی

ان زخموں کا شمار ہی کندہ نہیں رہا

 

61

 

خواب در خواب جانتے ہیں مجھے

میرے مہتاب جانتے ہیں مجھے

شہرِ کوفہ کو چھوڑ آیا تھا

دُرِ نایاب جانتے ہیں مجھے

میں یہاں چھپ کے تو نہیں بیٹھا

سارے احباب جانتے ہیں مجھے

یہ بھی اس قحط میں غنیمت ہے

 دوست احباب جانتے ہیں مجھے

 

62

 

اک مسافر مری خواہش میں امڈ آیا ہے

جیسے آنسو کوئی بارش میں امڈ آیا ہے

ایک پردے پہ بنا آیا ہوں چہرہ اس کا

شہر کا شہر نمائش میں امڈ آیا ہے

 اس نے دیکھی ہی نہیں آنچ مرے لہجے کی

میرا لہجہ بھی تو پرسش میں امڈ آیا ہے

اپنی تنہائی کے دوزخ سے نکل کر امشب

چاند دریا کی پرستش میں امڈ آیا ہے

 

63

 

زخمِ ہجرت اب سمجھا

دردِ الفت اب سمجھا

بات تک نہیں کرتے

حرفِ نفرت اب سمجھا

ہر کوئی بروٹس تھا

یہ حقیقت اب سمجھا

 الوداع کیا اس کو

وقتِ رخصت اب سمجھا

 

64

 

درد و فرقت میں غزل ہوتی ہے

رنج و محنت میں غزل ہوتی ہے

جب بھی میں تجھ سے بچھڑ جاتا ہوں

کس مہارت میں غزل ہوتی ہے

سات رنگوں کا توازن دیکھو

حسنِ فطرت میں غزل ہوتی ہے

 جزو باقی بھی ضروری ہیں مگر

غم کی شدت میں غزل ہوتی ہے

 

65

 

جانے والے ذرا چہرہ تو دکھاتے جانا

اپنے دریا سے مری آگ بجھاتے جانا

رنگ اور نقش نگاری کے کسی جادو سے

دامنِ آب پہ تصویر بناتے جانا

میں نے پایا ہے رفاقت کا حسیں تاج محل

اس عجوبے کو زمانے سے بچاتے جانا

عالمِ وجد میں پڑھ کر مرے اشعارِ غزل

میرے مرقد پہ بھی دو اشک بہاتے جانا

 

66

 

فضائے شہر ہوا مشکبار کرتا ہوا

گزر رہا ہوں خزاں کو بہار کرتا ہوا

 عداوتوں کی چٹانیں گراتا جاتا ہوں

 محبتوں پہ فقط انحصار کرتا ہوا

جنوں کے دشت سے نکلا ہوں ایک لمحے میں

غبارِ غم کو خط رہگزار کرتا ہوا

ہمیشہ زندہ رہے میری روشنی کا سفر

میں چل رہا ہوں ستارے شمار کرتا ہوا

 

67

 

زخم دل کا رفو نہیں ہوتا

عشق بے آبرو نہیں ہوتا

 جان دے کر بھی اس زمانے میں

 ہر کوئی سرخرو نہیں ہوتا

تیرے در پر کبھی نہیں آتا

میں اگر با وضو نہیں ہوتا

وہ جگہ بتکدہ سمجھتا ہوں

جہاں اللہ ہو نہیں ہوتا

 

68

 

لب ہلائے نہ استخارہ کیا

اولیں عشق پر گزارہ کیا

ایک منظر میں لاکھ منظر تھے

ہم نے ہر سو ترا نظارہ کیا

 تیر و تلوار توڑ سکتے تھے

ہم نے مرنا مگر گوارہ کیا

اس نے تو بار ہا بلایا ہمیں

عشق ہم نے نہیں دوبارہ کیا

 

69

 

ہر تعلق کو یہاں توڑ کے جا سکتے ہیں

راہ میں دوست مجھے چھوڑ کے جا سکتے ہیں

جن پہ تکیہ ہے بھروسہ ہے یقیں ہے مجھ کو

وہ کسی وقت بھی منہ موڑ کے جا سکتے ہیں

میرے احباب نہ دیکھیں گے مرے رونے کو

چشمِ نمناک کو وہ پھوڑ کے جا سکتے ہیں

بے وفائی مری قسمت تو نہیں ہو سکتی

جانے والے مرا دل جوڑ کے جا سکتے ہیں

 

70

 

چاند تارے خلا اور میں

رو رہے ہیں ہوا اور میں

چیختے ہیں بیابانوں میں

بانسری کی صدا اور میں

 ذات کے بیکراں خطے میں

مل رہے ہیں خدا اور میں

کب تلک رنج و غم کھینچتا

مضمحل ہو گیا اور میں

 

71

 

اپنی اوقات میں خوش رہتا ہوں

میں مضافات میں خوش رہتا ہوں

 آنسو چھپ جاتے ہیں مرے ایسے

بھیگی برسات میں خوش رہتا ہوں

میرے حالات مرے اپنے ہیں

اپنے حالات میں خوش رہتا ہوں

پہلے میں سائے سے ڈر جاتا تھا

اب تو جنات میں خوش رہتا ہوں

 

72

 

تمہارے حسن کا میں اعتراف کرتا ہوں

جو گرد شیشے پہ ہے اس کو صاف کرتا ہوں

تمہارا نام کبھی زندگی کا حاصل تھا

تمہارے نام سے اب اختلاف کرتا ہوں

خدا کا شکر کہ مجھ کو یہ فیض حاصل ہے

مزارِ پیرِ مُغاں کا طواف کرتا ہوں

بس ایک وصف مری ذات میں نمایاں ہے

کہ دوستوں کی خطائیں معاف کرتا یوں

 

73

 

نجدِ الفت میں قدم رکھا تھا

دشتِ حیرت میں قدم رکھا تھا

تیرا ملنا ہی بڑی نعمت تھی

میں نے جنت میں قدم رکھا تھا

باغ میں جگنو چمک اٹھے تھے

اس نے عجلت میں قدم رکھا تھا

 چار سو پھیلی تھی اک تنہائی

فرشَ خَلوَت میں قدم رکھا تھا

 

74

 

شام کا وقت تھا بچھڑنے کا

پھر سے امکاں نہیں تھا ملنے کا

یہ اچانک ہی دل کا بجھ جانا

اک اشارہ ہے کوچ کرنے کا

چہرے بچوں کے روک لیتے ہیں

جب بھی سوچا ہے گھر سے جانے کا

ایسا الجھا ہوں کارِ دنیا میں

وقت ملتا نہیں ہے رونے کا

 

75

 

جہاں بھی دھوپ کڑی تھی شجر اگاتے رہے

ہمارے لوگ نئی بستیاں بساتے رہے

ہمیں تو مل نہ سکا قرب کا نشاں کوئی

تمہارے نام پہ جان و جگر جلاتے رہے

وہ کوئی خواب تھا یا وہم کا تسلسل تھا

عجیب سائے ہمیں رات بھر بلاتے رہے

تمہاری راہ میں جو رحمتوں کے چشمے تھے

بڑی فراخی سے پانی ہمیں پلاتے رہے

 

76

 

آنکھیں ہر وقت نئے خواب دکھاتی ہیں مجھے

تلخیاں دہر کی مٹی میں ملاتی ہیں مجھے

 نیند میں چلتا ہوں میں قاف کی جانب اکثر

رات کو پریاں نمایاں نظر آتی ہیں مجھے

کوئی جمنا کے کنارے پہ مجھے لے جائے

دھڑکنیں ہجر کا سنگیت سناتی ہیں مجھے

آنکھ میں کوئی سلامت نہ رہا نقش و نگار

کچھ شبیہیں ہیں کہ بہتر نظر آتی ہیں مجھے

 

77

 

ہم سے وہ گفتگو نہیں کرتے

چہرہ بھی رو برو نہیں کرتے

آنسوؤں سے چراغاں کرتے ہیں

چاند کی جستجو نہیں کرتے

 تیری الفت میں ڈوبنے والے

 اور کوئی آرزو نہیں کرتے

کام سارے ہی یار کرتے ہیں

دشمنی بھی عدو نہیں کرتے

 

78

 

اپنے ملبے میں دب چکا ہوں میں

لوگ کہتے ہیں مر گیا ہوں میں

آپ تو پُر سکون رہتے ہیں

غم کی سولی پہ جھولتا ہوں میں

ریل کی پٹڑیاں نہیں ملتیں

یہ حقیقت بھی جانتا ہوں میں

مرے ہی قتل میں ملوث ہیں

جن کے ہاتھوں کو چومتا ہوں میں

 

79

 

ڈر کے اترا نہیں تھا پانی میں

پھر بھی میں ڈوب گیا پانی میں

چاند پھر سطح پر نہیں ابھرا

رہ گیا عکس اس کا پانی میں

جسم پر آبلے نکلتے ہیں

زیر ایسا ملایا پانی میں

میں نے راتوں کو روشنی دی تھی

کتنا مشکل تھا جلنا پانی میں

 

80

 

اس کو وحشت میں پکارا میں نے

چاند دیکھا نہ ستارہ میں نے

ڈوب جائے نہ مسافر کوئی

بوجھ کشتی سے اتارا میں نے

بھیک قربت کی نہیں مانگی تھی

کر لیا ہجر گوارا میں نے

اپنی ہی دھن میں سدا چلتا رہا

کوئی سمجھا نہ اشارہ میں نے

 

81

 

پھر وہی کرب و بلا ہے درپیش

 ہم کو کوفے کی ہوا ہے درپیش

صبح کو ہوتی ہے زنجیر زنی

شام کو آہ و بکا ہے درپیش

وزن ہے اور نہ کشش ہے باقی

یہ زمیں ہے کہ خلا ہے درپیش

ایک دریا کو پاٹ آیا ہوں

ایک دریا ہے دوبارہ درپیش

 

82

 

 آنکھ کھلتی ہے آہ و زاری سے

جسم کاٹے ہے کوئی آری سے

اپنے کنبے سے ملنے جاؤں گا

عید سے پہلے پہلی لاری سے

قہقہے اضطراب دیتے ہیں

چین ملتا ہے اشک باری سے

میں بھی مضطر ملول رہتا ہوں

تنگ ہے وہ بھی بیقراری سے

 

83

 

دل کے داغوں سے بھی چراغاں کر لیتا ہوں میں

اپنے ویرانے کو گلستاں کر لیتا ہوں میں

شب ہائے زمستاں ہو یا پت جھڑ کا موسم ہو

ترے ذکر سے جشنِ بہاراں کر لیتا ہوں میں

اپنی بربادیوں پر میں نے رونا نہیں سیکھا

مردہ دل کو پھر سے شاداں کر لیتا ہوں میں

 چاند اور تاروں کی کب حاجت رہتی ہے مجھکو

اپنی کٹیا کو ہی درخشاں کر لیتا ہوں میں

84

اس کی آتش میں فنا ہونے کو ہوں

اپنی مٹی سے جدا ہونے کو ہوں

 مر کے بھی میں روشنی پھیلاؤں گا

اپنے مرقد کا دیا ہونے کو ہوں

ہاتھ اب اٹھتے نہیں وقتِ دعا

میں سراپا خود دعا ہونے کو ہوں

چھوڑ کر اس آگہی کی سر زمیں

پھر جنوں میں مبتلا ہونے کو ہوں

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل