FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مقالات و مضامین جلالی

حصہ سوم

برہان الحق جلالی

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

مکمل کتاب پڑھیں……..

علامہ اقبال اور عشق مصطفےﷺ

عشق: ۔

عشق عربی زبان میں گہری چاہت و محبت کو کہتے ہیں۔ عشق وہ والہانہ جذبہ ہے جو انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ جذبہ بناوٹ، عیاری، امید لالچ و حرص سے پاک ہوتا ہے۔ یہ جذبہ انسان کو ایک لمحے میں اس بلندی اور آفاقیت تک لے جاتی ہے۔ اس قوت سے یقین و ایمان میں پختگی آتی ہے۔ اور اسی جذبہ کے تحت ایمان با الغیب پر یقین آ جاتا ہے۔

سر دلبراں میں رقم ہے کہ،

’’عشق ایک مقناطیسی کشش ہے جو کسی کو کسی کی جانب سے ایذا پانا، وصال سے سیر ہونا، اس کی ہستی میں اپنی ہستی کو گم کر دینا یہ سب عشق و محبت کے کرشمے ہیں۔‘‘

عاشقی چیست؟ بگو بندہ جاناں بودن

دل بدست دگرے دادن و حیراں بودن

حضورﷺ سے عشق: ۔

جب یہ تعلق یا کشش سیدنا محمد مصطفیﷺ سے ہو تو پھر وہ عشق کمال حاصل کرتا ہے۔ ان کی ہستی تو ایک بحر ذخائر کے مانند ہے ایسا بحر کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں ایسا بحر کہ جس کی موجیں آسمان کو چھوتی ہیں۔ جس کی تعلیمات محبت و الفت، اخوت و مساوات، بردباری اور رواداری کا درس دیتی ہیں۔ جو لوگوں کو حیات نو عطا کرتی ہیں۔ جن کے اخلاق کے بارے رب کائنات فرماتا ہے کہ

’’اے حبیب (ﷺ )بے شک تو اخلاق کے بلند درجے پر ہے۔‘‘

جن کو نبوت سے پہلے امین اور صادق کے خطاب سے نوازا گیا اقبال کو اس عظیم ہستی سے عشق تھا اور اس آفتاب کے نور سے مفکر پاکستان عاشق صادق قلندر لاہوری رحمہ اللہ کی شاعری منور و مزین ہے۔

می ندانی عشق و مستی از کجا ست؟

ایں شعاع افتاب مصطفی ست

مولانا عبد السلام ندوی ’اقبال کامل‘ میں لکھتے ہیں،

’’ڈاکٹر صاحب کی شاعری محبت وطن اور محبت قوم سے شروع ہوتی ہے اور محبت الٰہی اور محبت رسول پر اس کا خاتمہ ہوا۔‘‘

محبت مصطفے ٰﷺ عین ایمان ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث مبارکہ سے اطاعت و اسوۂ رسولﷺ کی اہمیت و فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: فرما دیجئیے، اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہوں کو بخشے گا۔ ( آل عمران)۔ متعدد احادیث میں رسول اللہﷺ کی محبت کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔ بخاری و مسلم کی مشہور حدیث ہے: تم میں سے کوئی بھی ایمان میں اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ میری محبت اس کے دل میں اس کے باپ، بیٹے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر نہ ہو جائے۔

قرآن کریم کی انہی آیات اور سیرت پاک کے گہرے مطالعہ نے علامہ اقبال کو ایک سچا عاشق رسول بنایا۔ ایک ایسا عاشق رسول کہ اسمِ محمدﷺ سنتے ہی جن کی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی شروع ہو جاتی۔ اقبال کو حضورﷺ سے جو والہانہ عشق و محبت ہے اس کا اظہار ان کی اردو اور فارسی کے ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ اقبال کی انفرادیت ہے کہ انہوں نے اردو فارسی دونوں زبانوں میں مدح رسول اکرمﷺ کو ایک نئے اسلوب اور نئے آہنگ کے ساتھ اختیار کیا۔

خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا

خو شا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا

شاعری کا مرکز و محور: ۔

علامہ اقبال کی شاعری نے اپنی شاعری کا مرکز و محور عشق رسولﷺ ہی کو بنایا۔ انہوں نے نہ صرف عشق رسول کا درس دیا بلکہ آپ خود بھی سچے اور پکے عاشق رسولﷺ ہیں۔ انہوں نے محبت رسولﷺ کی تعلیم و تربیت اپنے والدین سے حاصل کی۔

والد صاحب کی کمال تربیت: ۔

علامہ اقبال نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’رموز بیخودی‘‘ میں ایک واقعہ لکھا کہ ’’ایک دفعہ کوئی سائل بھیک مانگتا ہوا ان کے گھر کے دروازے پر آ کھڑا ہوا اور باوجودیکہ اسے کئی بار جانے کے لیے کہا گیا، وہ اڑیل فقیر ٹلنے کا نام نہ لیتا تھا۔ اقبال ابھی عنفوان شباب میں تھے۔ اس کے بار بار صدا لگانے پر انہیں طیش آ گیا جس کی وجہ سے جو کچھ اس کی جھولی میں تھا، زمین پر گر کر منتشر ہو گیا۔ والد ان کی اس حرکت پر بے حد آزردہ ہوئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، فرمایا: قیامت کے دن جب رسول اللہﷺ کے گرد غازیانِ اسلام، حکماء، شہداء، زہاد، صوفیہ، علماء اور عاصیانِ شرمسار جمع ہوں گے تو اس مجمع میں اس مظلوم گدا کی فریاد آنحضورﷺ کی نگاہِ مبارک کو اپنی طرف مرتکز کر لے گی اور آنحضورﷺ مجھ سے پوچھیں گے کہ تیرے سپرد ایک مسلم نوجوان کیا گیا تھا تاکہ تو اس کی تربیت ہمارے وضع کردہ اصولوں کے مطابق کرے، لیکن یہ آسان کام بھی تجھ سے نہ ہو سکا کہ اس خاک کے تودے کو انسان بنا دیتا، تو تب میں اپنے آقا و مولا کو کیا جواب دوں گا؟ اتنا ظلم نہ کر اور خدا را میرے مولاﷺ کے سامنے مجھے یوں ذلیل نہ کر۔ تو تو چمن محمدیﷺ کی ایک کلی ہے، اس لیے اسی چمن کی نسیم سے پھول بن کر کھل، اور اسی چمن کی بہار سے رنگ و بو پکڑ، تاکہ آنحضورﷺ کے اخلاق کی خوشبو تجھ سے آ سکے۔‘‘

حرام اشیاء سے اجتناب: ۔

علامہ اقبال عملی زندگی میں بھی سیرت رسولﷺ اور احکام رسولﷺ پر عمل پیرا رہے اور حرام کو ہمیشہ ترک کرتے۔ ایک دفعہ ان کو دردِ گردہ کی شدید تکلیف ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے نہ معلوم کس بنا پر کھانے کے بعد ’’برانڈی کا ایک پیگ‘‘ بطور دوا تجویز کیا لیکن حضرت علامہ نے اس سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا: ’’قیام یورپ کے دوران بھی جس چیز کو میں نے کبھی منہ نہ لگایا، اب اس معمولی سی تکلیف کے لیے کیسے استعمال کر سکتا ہوں، اور میں تو موت سے بچنے کے لیے بھی کسی حرام چیز کا سہارا لینے کا روا دار نہیں ہو سکتا۔‘‘

اس کے بعد وہ کافی عرصے تک دردِ گردہ کی شدید تکلیف برداشت کرتے رہے۔ لیکن کبھی بھی ’’برانڈی کے پیگ‘‘ کا نسخہ استعمال کرنے کا خیال تک نہ آیا۔ آخر حکیم نابینا کے علاج سے گردوں کی پتھری پیشاب کے ساتھ تھوڑی تھوڑی کر کے خارج ہو گئی۔

شاعری میں اسمائے مصطفے ٰﷺ کا استعمال: ۔

علامہ اقبال نے محبت رسولﷺ اور عشق مصطفیﷺ کا اظہار اپنے اشعار میں بہت سے مقامات پر کیا ہے۔ اپنی اردو شاعری میں انہوں نے خاتم النبییّن حضرت محمد رسول اللہﷺ کو متعدد اسماء سے یاد کر کے آپؐ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔ محمد، احمد، مصطفیٰ، دانائے سبل، ختم الرّسل، مولائے کل، اول، آخر، قرآں، فرقاں، یٰسیں، طٰہٰ، رسول، رسول عربی، نبی مرسل، شہِ یثرب، مولائے یثرب، رحمۃ للعالمین، رسول عربی، رسول ہاشمی، رسول امیں، رسول مختار، نبی عفت، حضورِ رسالت مآب، حضور سروَرِ عالم، صاحبِ ’مازاغ‘، صاحبِ یثرب، مدفونِ یثرب، امیر عرب، بدر و حنین کے سردار، رفعت شان، رفعنا لک ذکرک اور بہت سے اسماء مبارک پر مشتمل اشعار زبان زد عام ہیں۔ ان اسماء اور القاب مبارک کے استعمال سے جہاں علامہ اقبال کی شاعری کو جلا ملی وہاں علامہ اقبال کا عشق مصطفےﷺ بھی واضح ہوتا ہے۔

اشعار میں لفظ محمدﷺ کا استعمال: ۔

رسول اللہﷺ کا پیارا رسیلا اسم مبارک ’’محمدﷺ‘‘ کو علامہ اقبال نے استعمال کیا ان میں سے چند اشعار بطور مثال پیش کیے جا رہے ہیں:

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تمھیں پاس نہیں

علامہ اقبال کا یہ شعر زبان زد عام ہے:

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

احمد نام کا استعمال: ۔

حضور نبی اکرمﷺ کا ایک اسم مبارک ’’احمدؐ‘‘ ہے۔ علامہ اقبال نے اس اسم کے ساتھ ملت کا لفظ جوڑ کا استعمال کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:

عشق کا دل بھی وہی، حسن کا جادو بھی وہی

اُمت احمد مرسلؐ بھی وہی، تو بھی وہی

کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو

ملت احمد مرسلؐ کو مقامی کر لو!

لفظ مصطفیﷺ کا استعمال: ۔

دین کے اتمام کے لیے علامہ اقبال نے بہت پیارے نام اسم مبارک ’’مصطفیٰؐ‘‘ سے اپنے کلام کو شان بخشی۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

اگر قبول کرے، دینِ مصطفی، انگریز

سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است

ختم نبوتﷺ اور علامہ اقبال: ۔

علامہ اقبال نے ختم نبوتﷺ کو بھی شاعری میں موضوع بنایا۔ حضور نبی اکرمﷺ کے ختم نبوت کو اشعار میں یوں استعمال کیا:

وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا

اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے

ملّتِ ختمِ رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

دیگر اسماء النبیﷺ کا اشعار میں استعمال: ۔

علامہ اقبال نے کچھ اور اسماء النبیﷺ بھی اپنے اشعار میں جا بجا استعمال کیے ہیں۔ چند امثال پیش خدمت ہیں:

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر

وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

عشق مصطفے کا درس: ۔

اقبال اپنے اردو اور فارسی کلام میں اس حقیقت کا شدت سے اظہار کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کے افراد کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عشق محمد کا جذ بہ ہی ہے جو دل مسلم کو قوی تر کرتا ہے اور اسے حرارت اور سوز سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ چناں چہ ملت کی حالت زار دیکھ کر ان کی نظر بارگاہ رسالت کی طرف اٹھ جاتی ہے، فرماتے ہیں

شیراز و ہو امت مرحوم کا ابتر

اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے

وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں

پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے

ہر چند ہے بے قافلہ در اصلہ و زاد

اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے

اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمد

آیات النبی کا نگہبان کدھر جائے

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ علامہ اقبال کے پیغام کو عام کیا جائے اور آئندہ آنے والی نسلوں میں عشق رسولؐ کی شمع روشن کریں۔ صرف یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے امت مرحومہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کر سکتی ہے۔ علامہ اقبال کی خواہش یہ تھی کہ وہ اپنا نور بصیرت آئندہ آنے والی نسلوں میں منتقل کر دے۔

خدایا! آرزو میری یہی ہے

مرا نورِ بصیرت عام کر دے

اللہ علامہ اقبال کی قبر انور پہ کروڑہا رحمتیں نازل فرمائے آمین

٭٭٭

استاد محترم اور استاد محترم کا مقام مرتبہ

خالق کون و مکاں نے تخلیق انسان کو احسن التقویم ارشاد فرمایا ہے، مصوری کا یہ عظیم شاہکار دنیائے رنگ و بو میں رب کائنات کی نیابت کا حق عطا کیا۔ اشرف المخلوقات، مسجود ملائکہ اور خلیفۃ اللہ سے متصف حضرت انسان نے یہ ساری عظمتیں، شانیں اور رفعتیں صرف اور صرف علم کی وجہ سے حاصل کی ہیں علم، عقل و شعور، فہم و ادراک، معرفت اور جستجو وہ بنیادی اوصاف تھے جن کی وجہ انسان باقی تمام مخلوقات سے اعلیٰ اور ممتاز قرار پایا۔

یہ حقیقت ہے کہ علم کا حصول درس اور مشاہدہ سمیت کئی خارجی ذرائع سے ہی ممکن ہوتا ہے، ان میں بنیادی و مرکزی حیثیت استاد ہی کی ہے، جس کے بغیر صحت مند معاشرہ تشکیل پانا نا ممکن ہے، معلّم ہی وہ اہم ہستی ہے جو تعلیم و تربیت کا مرکز و محور ہوتا ہے۔

سنگ بے قیمت تراشا اور جوہر کر دیا

شمع علم و آگہی سے دل منور کر دیا

دین اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطا کیا۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرمﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔ خود رسالت مآبﷺ نے ’’انما بعثت معلما‘‘ فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیا تک عزت و تعظیم و توقیر اور رفعت و بلندی کے اعلیٰ منصب پر فائز فرما دیا۔ درس و تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ دنیا نے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے اس کے بلند مقام سے عطاء کیا ہے۔ کسی بھی انسان کی فلاح و کامیابی کے پیچھے ایک بہترین استاد کی بہترین تعلیم و تربیت ہی کار فرما ہوتی ہے۔

معلّم کائناتﷺ نے انسانیت کی راہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو معلّم و مربّی بنا کر بھیجا، ہر نبی شریعت کا معلّم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک فن کا ماہر اور معلّم بھی ہوتا تھا جسے حضرت آدمؑ دنیا میں زراعت، صنعت و حرفت کے معلّم اوّل تھے، کلام کو ضبط تحریر میں لانے کا علم سب سے پہلے حضرت ادریسؑ نے ایجاد کیا، حضرت نوحؑ نے لکڑی سے چیزیں بنانے کا علم متعارف کروایا، حضرت ابراہیمؑ نے علم مناظرہ اور حضرت یوسفؑ نے علم تعبیر الرؤیا کی بنیاد ڈالی۔ خاتم الانبیاءﷺ نے معلّم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘ (بخاری۔ 5027)

معلّم کے لیے نبی کریمﷺ کی بشارت حضرت ابو ہریرہؓ نے ان الفاظ میں روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ؛غور سے سنو، دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہے البتہ اللہ کا ذکر اور وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ سے قریب کریں یعنی نیک اعمال، عالم اور طالب علم (یہ سب چیزیں اللہ کی رحمت سے دور نہیں ہیں)۔ (ترمذی۔ 2322)

استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے۔ معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے، باعث تخلیق کائنات مخبر صادقﷺ نے استاد کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سکھانے والے پر اللہ، ان کے فرشتے، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔ (ترمذی۔ 2675)

اساتذہ کے لیے حضور نبی کریمﷺ نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچا یا۔ (ابو داؤد۔ 366)

خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آ جاتے ہیں۔ ایک کورے کاغذ جیسے بچے سے لے کر ایک کامیاب و کامران انسان تک کا سارا سفر انہی اساتذہ کرام کے مرہون منت ہوتا ہے۔ وہ ایک طالب علم میں جو رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔ جیسے سنوارنا چاہیں سنوار سکتے ہیں . استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی دکھاتا ہے۔ استاد ہی قوم کے نوجوان کو علوم و فنون سے آراستہ پیراستہ کرتا اور اس قابل بناتا ہے کہ وہ ملک اور قوم کی پریشانیوں اور ذمہ داریوں کو نبھا سکیں۔ استاد نوجوانوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کرتا ہے۔

انسان کو اس کی ذات سے آگہی ایک استاد ہی کراتا ہے۔ خدا کی ذات کا انکشاف بھی استاد ہی کراتا ہے۔ ایک بہترین استاد وہی ہوتا ہے جو صرف کتابوں کا علم ہی نہیں دیتا ہے بلکہ کردار سازی، شخصیت سازی بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔

کون ہیں ہمارے اساتذہ؟

ہمارے اساتذہ وہ ہیں جب کلاس روم میں داخل ہوئے تو ان کی تمام توجہ ہماری جانب مبذول ہو جاتی ہے وہ ہر طالب علم کا نام لے کر اس کا حال احوال پوچھتے ہیں اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اسے حل کرنے میں ذاتی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں، ان کے پڑھانے کا انداز اتنا پیارا اور مشفقانہ کہ ہر بات دل اور دماغ پر نقش ہو جاتی، وہ انتہائی دوستانہ انداز میں بات کرتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے سامنے شفقت کا سمندر بہہ رہا ہے کسی طالبعلم کو کوئی سزا دینا تو دور کی بات، ڈانٹ تک نہ پلاتے۔ کوئی غلطی کرتا تو اسے انتہائی پیار سے سمجھاتے ہیں۔ اکثر طالب علم کی ظاہری حالت دیکھ کر اس کے حالات کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ اگر کوئی طالبعلم دو چار دن تک فیس جمع نہیں کرواتا تو اپنی جیب سے ادائیگی کرتے ہیں اور کئی غریب طلبہ کی مدد بھی کرتے ہیں۔ وہ ہم طلبہ کو بھی نصیحت کرتے ہیں کہ اپنے آس پاس کی خبر رکھا کرو کوئی طالبعلم کتب یا یونیفارم خریدنے کی سکت نہ رکھتا ہو تو اسے اپنی گرہ سے کتابیں اور یونیفارم خرید کر دیتے اور اس نیکی کا ذکر کبھی نہیں کرتے، دل اور دماغ میں اتر جانے والی یہ شخصیات آج بھی اپنی عادات پر قائم ہیں

ہم ان سے ملنے جاتے ہیں تو کھڑے ہو کر ملتے ہیں اپنے برابر بٹھاتے ہیں میں بھی ہم اپنے دوستوں کو فخر سے بتاتے ہیں کہ یہ ہیں ہمارے اساتذہ، ہمارے آئیڈیل یہ ہیں ہمارے محسن۔

وہ اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنے استاد کی عزت کرو گے تو علم کے وہ موتی نصیب ہوں گے جن کی چمک دمک سے تمہاری شخصیت خیرہ ہو جائے گی۔ آج کے دور کے بڑے مسائل جھوٹ، غیبت اور خود غرضی ہیں اور ان اخلاقی امراض کا اثر بچوں پر بھی ہوتا ہے۔

وہ نصیحت کرتے ہیں کہ بُری صحبت سے بچو، اچھی، نیک صحبت اختیار کرو

حضرت شیخ سعدی نے فرمایا

صحبت صالح ترا صالح کند

صحبت طالع ترا طالع کند

استاد کسی بھی قوم یا معاشرے کا معمار ہوتا ہے۔ وہ قوم کو تہذیب و تمدن، اخلاقیات اور معاشرتی اتار چڑھاؤ سے واقف کرواتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ استاد کا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی قوم کا مستقبل اس قوم کے استاد کے ہاتھ میں ہوتا ہے، استاد ہی قوم کو تربیت دیتا ہے، وہی اسے بتاتا ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔ گویا کسی بھی قوم کو کوئی حکومت تربیت نہیں دیتی بلکہ ایک استاد تربیت دیتا ہے۔ خدا لگتی بات کی جائے تو قوم کی تباہی یا قوم کی سرفرازی دونوں کا باعث استاد ہی ہوتا ہے۔

معلّم انبیاء علیہم السلام کا نائب و وارث ہے۔ ہمارے اساتذہ ہمارے والدین اگر کسی کام سے ہمیں روکتے ہیں تو ان کے سامنے ہمارا مستقبل ہوتا ہے وہ ہمارے بھلے کے لئے روک ٹوک کرتے ہیں در اصل ان کی روک ٹوک ہمارے لئے باعث رحمت ہے۔

کسی نے کیا خوب کہا کہ

ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت

ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت

اگر ہمیں کوئی مقام حاصل کرنا ہے تو استاد کے مقام کو سمجھنا ہو گا۔

٭٭٭

مسکراہٹ سنت نبویﷺ

آج ہر کوئی غمگین ہے ہر کوئی ڈپریشن کا شکار ہے اگر ہم اپنے روز مرہ زندگی اور معاملات و معمولات میں ہم اگر صرف ایک مسکراہٹ کا اضافہ کر لیں تو ’’سنت، تجارت، سہولت اور برکت‘‘ کا ایک امتزاج سامنے آ جائے گا۔

ایک اور تحقیق کے مطابق مسکراہٹ دل کی صحت کو بھی بہتر بناتی ہے، جس کی وجہ پر تناؤ پیدا کرنے والے واقعات کے دوران مسکرانے سے دل کی دھڑکن معمول پر آ جاتی ہے خادم رسول اللہﷺ حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں: ’’آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس صرف دنیاوی مفاد کی خاطر آتا تھا، مگر شام ہونے سے پہلے پہلے اسے دین اسلام دنیا و ما فیہا سے بڑھ کر محبوب اور عزیز از جان ہو جاتا تھا۔ وجہ کیا تھی آقا نامدار مدنی تاجدار تاجدار ختم نبوتﷺ کا برتاؤ آپ کا حسن سلوک آپ کا لب و لہجہ تھا۔‘‘

’’حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبیﷺ سے زیادہ مسکرانے والا کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘’

أخرجہ الترمذی فی السنن، کتاب المناقب، باب فی بشاشۃ النبیﷺ ، 5 / 601، الرقم: 3641، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 191، الرقم: 17750، والبیھقی فی شعب الإیمان، 6 / 251، الرقم: 8047،۔

فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے۔ اسلام مضبوط ہو چکا تھا۔ تمام قبائل عرب فوج در فوج دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ انہی ایام میں قبیلہ عبد القیس کا ایک وفد بھی رسول اللہﷺ سے ملنے آیا۔ ابھی یہ لوگ سواریوں سے اترے نہیں تھے کہ رسول اللہﷺ ان کے استقبال کے لیے آگے بڑھے۔ انہیں خوش آمدید کہا: ’’بہت خوب ہے آپ لوگوں کا آنا! عزت و سرخروئی کے ساتھ آئے ہو!‘‘

آپ کا یہ خیر مقدمی سلوک دیکھ کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔ وہ اپنی سواریوں سے کود کر اُترے۔ رسول اللہﷺ کو سلام کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے لگے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ النجم میں ارشاد فرمایا

وانہ ہو اضحک و ابکی

ترجمہ: اور بے شک وہ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے۔

ہم اگر سیرت نبویﷺ کا مطالعہ کریں تو ہزار ہا مسائل اور مشکلات کے باوجود ہمیں پیارے آقاﷺ کے چہرہ انور پر مسکراہٹ اور تبسم کا دیدار ہوتا ہے۔

حضورﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ فطری انداز میں رہتے، ہنسی و مزاح میں بھی شریک ہوا کرتے اور غم پریشانی میں بھی شریک ہوا کرتے۔ کیونکہ خوشی پر مسکراہٹ اور ہنسنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے نعمت ہے اور پریشانی پر غم اللہ کی طرف سے امتحان ہے۔

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے اُس وقت کی روایت ہے جب وہ غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اُنہوں نے بیان فرمایا: (توبہ قبول ہونے کے بعد) جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرۂ انور خوشی سے جگمگا رہا تھا اور آپﷺ جب بھی مسرور ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرۂ مبارک یوں نور بار ہو جاتا تھا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرۂ انور ہی سے آپ کی خوشی کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

أخرجہ البخاری فی الصحیح، کتاب المناقب، باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم، 3 / 1305، الرقم: 3363، وأیضًا فی کتاب المغازی، باب حدیث کعب بن مالک ص، 4 / 1607، الرقم: 4156، ومسلم فی الصحیح، کتاب التوبۃ، باب حدیث توبۃ کعب بن مالک وصاحبیہ، 4 / 2127، الرقم: 2769

حضرت علی بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی سواری کے لیے گھوڑا لایا گیا۔ آپ نے جب اس کی رکاب میں پاؤں رکھا تو بسم اللّٰہ کہا، پھر اس کی پیٹھ پر سوار ہوئے تو الحمد للّٰہ فرمایا، پھر سواری کی دعا پڑھی، پھر تین بار الحمد للّٰہ اور اللّٰہ اکبر کہا اور پھر یہ دعا پڑھی:

سبحانک انی ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لایغفر الذنوب الا انت۔

’’یارب تو پاک ہے بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، تو مجھے بخش دے تیرے سوا کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر آپ ہنس پڑے۔

میں نے پوچھا ’یا امیر المومنین! آپ کس بات پر ہنسے؟‘ فرمایا ’میرے سامنے ایک بار حضور انورﷺ نے ایسا ہی کیا تھا اور پھر آپ ہنسے تھے وجہ پوچھنے پر آقاﷺ نے فرمایا تھا: ’’جب بندہ کہتا ہے ’یارب میرے گناہ بخش دے‘ اور بزعمِ خویش یہ سمجھتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی میرے گناہ معاف کرے گا اور کوئی بخشنے والا نہیں تو اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے۔‘‘ اس بات پر حضورﷺ بھی مسکرائے تھے اور اس سنت کی پیروی میں سیدنا علیِ مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بھی مسکرائے۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ مسکرانا پیارے نبیﷺ کی سنت مبارک ہے اور شمع رسالت کے پروانے کس طرح سے آپ کی محبت و الفت میں آپ کی ایک ایک ادا کو ادا کرنے میں مخلص تھے۔

: أخرجہ البخاری فی الصحیح، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار، 5 / 2402، الرقم: 6202، ومسلم فی الصحیح، کتاب الإیمان، باب أخر أہل النار خروجًا، 1 / 174، الرقم: 186، والترمذی فی السنن، کتاب صفۃ جھنم، باب منہ، 4 / 712، الرقم: 2595،

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مجھے اچھی طرح

معلوم ہے کہ سب سے آخر میں جہنم سے کون نکالا جائے گا یا سب سے آخر میں کون جنت کے اندر داخل ہو گا۔ یہ آدمی اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا جہنم سے باہر نکلے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا، جنت میں داخل ہو جا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا تو اُسے گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے، چنانچہ وہ واپس لوٹ کر عرض گزار ہو گا: اے ربّ! وہ تو بھری ہوئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا، جنت میں چلا جا۔ لہٰذا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ جنت میں جا کر اُسے پھر گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے۔ پس وہ واپس لوٹ کر پھر عرض کرے گا: اے ربّ! میں نے تو وہ بھری ہوئی پائی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا اور جنت میں داخل ہو کیونکہ تیرے لیے جنت میں دنیا کے برابر بلکہ اُس سے دس گنا زیادہ حصہ ہے، یا فرمایا: تیرے لیے دس دنیاؤں کے برابر حصہ ہے۔ وہ عرض کرے گا: (اے اللہ!) کیا مجھ سے مزاح کرتا ہے یا مجھ پر ہنستا ہے؟ حالانکہ تو حقیقی مالک ہے۔ (حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے دیکھا کہ اِس پر حضور نبی اکرمﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپﷺ کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے۔ آپﷺ فرماتے تھے: ’’یہ اہلِ جنت کے سب سے کم درجہ والے شخص کا حال ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

امام عسقلانی نے فرمایا: یہ کہا گیا ہے کہ آپﷺ صرف آخرت کے اُمور میں ہنسا کرتے تھے اگر کوئی معاملہ دنیا سے متعلق ہوتا تو اُس پر آپﷺ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے۔

آپﷺ کی خدمت میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دعا فرما دیجئے کہ حق تعالیٰ شانہ مجھے جنت میں داخل فرما دے، آپﷺ نے فرمایا کہ جنت میں بوڑھی عورت داخل نہیں ہو سکتی!!۔ وہ عورت رونے لگی، آپﷺ نے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہو گی بلکہ حق تعالیٰ جل شانہ سب اہل جنت عورتوں کو نوعمر کنواریاں بنا دیں گے۔

آقا کریمﷺ کا مزاح بھی ایسا ہوتا تھا کہ جس میں ذرا برابر جھوٹ کی آمیزش نہ ہوتی تھی۔

‘حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوا اُس وقت سے حضور نبی اکرمﷺ نے مجھے کبھی ملنے سے نہیں روکا، آپﷺ جب بھی مجھے دیکھتے تو چہرۂ انور تبسم ریز ہو جاتا۔ میں نے آپﷺ سے گذارش کی کہ میں جم کر گھوڑے پر سواری نہیں کر سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا دستِ مبارک میرے سینے پر مارا اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! اِسے جما دے اور اِسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے۔‘‘

أخرجہ البخاری فی الصحیح، کتاب الجھاد، باب مَن لا یَثْبُتُ علی الخَیْلِ، 3 / 1104، الرقم: 2871، وأیضًا فی کتاب الأدب، باب التبسم والضحک، 5 / 2260، الرقم: 5739، ومسلم فی الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بلا شبہ نبی اکرمﷺ ہم سے اتنے مل جل جاتے تھے کہ ایک مرتبہ میرے چھوٹے بھائی کو کہا: اے عمیر کے باپ! تمہارا نغیر کیسا ہے۔ امام ابو عیسیٰ (ترمذی) فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ مزاح بھی فرما لیا کرتے تھے، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی اکرمﷺ نے ایک بچے کی کنیت ابو عمیر رکھی، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اس میں کوئی امر مانع نہیں کہ بچے کو پرندہ دیا جائے کہ وہ اس سے کھیلے، کیونکہ نبی اکرمﷺ نے اسے فرمایا: ’’یا ابا عمیر ما فعل النغیر‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ اس بچے کے پاس ایک نغیر تھی جس سے وہ کھیلتا تھا وہ نغیر مر گئی تو اس بچے کو افسوس ہوا، چنانچہ نبی اکرمﷺ نے اس سے دل لگی اور خوش طبعی کرتے ہوئے فرمایا: ’’یا ابا عمیر ما فعل النغیر‘‘۔

حضرت انسِ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسولﷺ سے سواری طلب کی تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا تو سائل نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا تو رسولﷺ نے فرمایا کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے؟)

(سنن ترمذی 333، 1989، وقال: حسن صحیح)، صحیح بخاری (6129)

ملاحظہ فرمائیے۔ آپﷺ نے یہاں سائل سے مزاح بھی فرمایا اور اس میں حق اور سچائی کی رعایت بھی فرمائی۔ سواری طلب کرنے پر آپ نے جب اونٹنی کا بچہ مرحمت فرمانے کا وعدہ فرمایا تو سائل کو تعجب ہوا کہ مجھے سواری کی ضرورت ہے اور اونٹنی کا بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس پر سواری کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے تعجب کو دور کرتے ہوئے اور اپنے مزاح کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں تجھے سواری کے قابل اونٹ ہی دے رہا ہوں مگر وہ بھی تو اونٹنی ہی کا بچہ ہے۔

الغرض مزاح ایک سنتِ مستحبہ ہے جو لوگ اسے اپنی وقار اور شان کے خلاف سمجھتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں اگر ہم اپنی زندگی میں مسکراہٹ والے پہلو کو لازم کر لیں تو ہماری کی زندگی آرام و سکون والی زندگی اور ڈپریشن سے آزاد زندگی ہو جائے گی۔

٭٭٭

احادیث نبویﷺ اور ختم نبوت

قرآن و سنّت احادیث نبویﷺ سے ثابت ہے کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضرت محمد رسول اللہﷺ پر ختم کر دیا گیا۔ آپﷺ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی شخص کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ قرآن مجید کی سورۃ احزاب آیت نمبر 40 میں ہے:

ترجمہ: ’’محمد (ﷺ ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور وہ خاتم النبیین ہیں۔‘‘

خاتمیت کے گواہ کے طور پر صرف مذکورہ آیت نہیں ہے بلکہ اسی سلسلے میں قرآن مجید میں نصوص ششگانہ ہیں جو پیغمبر اسلامﷺ کی خاتمیت پر گواہی دیتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کی خاتمیت کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں جو اس بات کی وضاحت اور تاکید کرتی ہیں کہ آقا کریمﷺ خاتم النبیین ہیں۔

اس آیتِ کریمہ کی متفقہ تفسیر سے ثابت ہوا کہ خاتم النبیین کا مطلب آخر النبیین ہے اور اسی پر اہلِ اسلام کا اجماع ہے۔

ساری امت کا اس پر اجماع ہے اور تمام علما و مفسرین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہیں کہ ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ آپﷺ کے بعد نہ کسی قسم کو کوئی نبی ہو گا اور نہ کسی قسم کا کوئی رسول ہو گا۔ اس پر بھی اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل یا کوئی تخصیص نہیں، لہذا اس کا منکر یقیناً اجماع امّت کا منکر ہے۔

قرآن مجید، احادیثِ صحیحہ اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے کہ رسول کریمﷺ آخری نبی اور آخری رسول ہیں، آپ کے بعد قیامت تک نہ کوئی رسول پیدا ہو گا اور نہ کوئی نبی پیدا ہو گا۔

حضرت محمدﷺ نے متواتر احادیث میں اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا اور ختم نبوت کی ایسی تشریح بھی فرما دی کہ اس کے بعد آپﷺ کے آخری نبی ہونے میں کسی شک و شبہ اور تاویل کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

عقیدہ ختم نبوت قرآن مجید کی ایک سو آیات سے ثابت ہے اور دو سو دس احادیث نبویہﷺ میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے مگر یہاں اختصار کے مد نظر صرف چند احادیث نبویہﷺ ذکر کر رہا ہوں۔

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے (سیدنا) علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا:

أما ترضی أن تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی إلا أنہ لانبوۃ بعدی

کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہ مقام ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ (صحیح مسلم: ۲۳/ ۴۰۴۲، ترقیم دارالسلام: ۰۲۲۶)

سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ میرے چند نام ہیں: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ میرے ذریعے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائیں گے اور میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب (سب کے بعد آنے والا) ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ (صحیح بخاری: ۲۳۵۳، ۶۹۸۴ والزہری صرح بالسماع عندہ، صحیح مسلم: ۴۵۳۲، دار السلام: ۵۰۱۶، ۷۰۱۶، مشکوۃ صفحہ 515)

امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ (ثقہ بالاجماع اور جلیل القدر تابعی) نے العاقب کی تشریح میں فرمایا: ’’الذی لیس بعدہ نبی‘‘ وہ جس کے بعد کوئی نبی (پیدا) نہ ہو۔ (صحیح مسلم، ترقیم دار السلام: ۷۰۱۶)

سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

وأنا المقفیٰ

اور میں مقفیٰ (آخری نبی) ہوں۔ (شمائل الترمذی بتحقیقی: ۶۶۳۔ ۷۶۳ وسندہ حسن، کشف الاستار للبزار۳/ ۰۲۱ح ۸۷۳۲)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے۔ (ترمذی صفحہ 209 جلد 2)

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

اور بے شک میری اُمت میں تیس کذاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے۔ اور میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (سنن ابی داود: ۲۵۲۴ و سندہ صحیح)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

بے شک میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جس نے بہت اچھے طریقے سے ایک گھر بنایا اور اسے ہر طرح سے مزین کیا، سوائے اس کے کہ ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ (چھوڑ دی) پھر لوگ اس کے چاروں طرف گھومتے ہیں اور (خوشی کے ساتھ) تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اینٹ یہاں کیوں نہیں رکھی گئی؟ آپ (ﷺ ) نے فرمایا: پس میں وہ (نبیوں کے سلسلے کی) آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔

(صحیح بخاری: ۵۳۵۳، صحیح مسلم: ۲۲/ ۶۸۲۲، دار السلام: ۱۶۹۵)

حضورﷺ کی ختم نبوت پہ ایک دلیل یہ ہے کہ جب کسی نبی یا رسول نے آنا تھا تو اس وقت موجود کتاب الٰہی میں خوشخبری دی گئی۔ مگر قرآن کریم کہیں بھی ایسی خوشخبری نہیں کہ اب کوئی نبی یا رسول ائے گا جو اس بات پہ دلیل ہے کہ حضورﷺ آخری نبی قرآن پاک آخری کتاب اور ہم آخری امت ہیں۔

٭٭٭

حمدیہ کلام کا عظیم شاہکار۔۔ ۔ دست قدرت

حمد ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ‘‘تعریف‘‘ کے ہیں۔ اردو کے علاوہ حمد باری تعالیٰ، کئی زبانوں میں لکھی جاتی رہی ہے جیسے عربی، فارسی، اردو وغیرہ۔ خداوندِ کریم کی تعریف و توصیف ہر زبان اور ہر مذہب میں پائی جاتی ہے پھر چاہے وہ نظم کی شکل میں ہو یا نثر میں یا کسی بھی انداز میں ہو سکتی ہے۔ حمدیہ کلام شاعری کی قدیم صنف ہے جس کی کئی محاسن و صفات ہیں

’’حمد ثنائے جمیل ہے‘‘ اس ذات باری تعالیٰ کی جو خالق سماوات و الارض ہے۔ جس کی کارفرمائی کے ہر گوشے میں حسن و کمال کا نور ہے۔ پس اس مبداء فیض کی خوبی و کمال اور اس کی بخشش و فیضان کے اعتراف میں جو بھی تحمیدی و تمجیدی نغمے گائے جائیں گے ان سب کا شمار حمد میں ہو گا۔ حمد در اصل خدا کے اوصاف حمیدہ اور اسمائے حسنیٰ کی تعریف ہے۔

خداوندِ کریم اپنی لاریب و پاک و منزہ کتاب قرآن پاک میں سورۃ لقمان کی آیت 27 میں یوں فرماتے ہیں کہ: زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے) ختم نہ ہوں گی۔ بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے۔

اللہ کی تعریف و توصیف ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے۔ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ عربی کا لفظ ’’حمد‘‘ اللہ تعالیٰ کی تحمید و تمجید کے لیے مختص ہو گیا ہے۔ جس کے لیے حمدیہ شاعری نے ایک مستقل صنف سخن کی صورت اختیار کر لی ہے۔ صرف عربی، فارسی ہی نہیں دیگر زبانوں میں بھی اس کا ذخیرہ موجود ہے۔ حمد چونکہ کوئی مشاہداتی صنف نہیں ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ قرآنِ مجید کا مطالعہ کیے ہوئے ہوں اور چونکہ خدا کی ستائش دیگر دوسرے مذاہب میں بھی موجود ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ آپ ان مذہبی کتابوں سے بھی واقف ہوں۔ حمد میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے ساتھ اس کے صفات کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر زبان کے شاعروں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کو پیش نظر رکھا ہے اور اسے یاد کیا ہے۔ اردو زبان میں جب سے شاعری کا آغاز ہوا تبھی سے حمد لکھی گئی لیکن حمد سے زیادہ توجہ نعت پر دی گئی ہے۔ حمد کی دینی اور ادبی قدر و قیمت کی وجہ سے یہ صرف ہمارے مضطرب جذبات کی تسکین کا سامان، احساس جمال، خوف خدا، بصیرت و بصارت کی توثیق یا شاعری برائے شاعری نہیں ہے بلکہ ادب میں اس کی مستقل صنفی حیثیت ہے۔ غزل گو، مرثیہ گو، رباعی گو یا مثنوی و قصیدہ نگار شعرا نے حمد پر باضابطہ یا خصوصی توجہ نہیں دی بلکہ عقیدت اور بسم اللہ کے طور پر رسم پوری کرتے رہے ہیں۔

اردو شاعری میں چیدہ چیدہ افراد کو حمدیہ کلام لکھنے کی سعادت میسر آئی جن میں ایک چمکتا دمکتا نام خالد جوہری صاحب کا ہے جو کہ مایہ ناز ادیب بھی ہیں مایہ ناز شاعر اور ماہر تعلیم بھی ہیں اور جنہوں نے حمدیہ کلام پر مشتمل کتاب دست قدرت تحریر فرمائی ماہ اگست جشن آزادی پاکستان کے حوالے سے منعقدہ مقابلہ جات کے موقع پر آپ نے مجھے اس کتاب سے نوازا۔ جوہری صاحب کا کمال فن ہے کہ رب تعالیٰ سے اپنی عقیدت و محبت کو سادہ الفاظ میں بیان کیا ہے۔ آپ کی شاعری میں حمدیہ کلام کی تمام تر صفات جمع ہیں آپ کی شاعری میں اکثر اشعار قرآن پاک کا مفہوم بیان کرتے نظر آتے ہیں۔

خالد جوہری صاحب کی شاعری میں بے حد وسعت موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جوہری صاحب کو شاعری میں بہت کمال عطاء کیا ہے۔ خالد جوہری صاحب نے حمدیہ کلام کے تمام تر تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کمال عجز و انکسار کا پیکر بن کر رب کائنات کے جلال و جمال کا اقرار و اظہار کچھ ایسے دلکش انداز میں کیا ہے کہ قاری پڑھ کر جھوم اٹھتا ہے۔

دست قدرت میں فطری مناظر کو اللہ کی تخلیقات کو چاہے وہ سورج ہو چاند ہو زمین ہو یا آسمان، خشکی ہو یا تری، صحرا ہوں یا میدان گل و خار، نظام لیل و نہار، خزاں و بہار، چاند ستارے، دریا موج کنارے، غنچہ و گل، طوطی و بلبل، کڑکتے بادلوں، بلند کہساروں، گرتی آبشاروں، برگ و ثمر کا ذکر کر کے شان ربوبیت بیان کو بیان کیا ہے۔ رب کائنات کی صفات اور اسماء کا اظہار بھی بڑے عمدہ طریقے سے کیا ہے۔ وہ بڑی عمدگی سے اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں کو اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں۔ جوہری صاحب نے حمدیہ کلام میں ایسا کلام پیش کیا ہے جس میں اللہ کی حمد کو بیان کیا گیا اور نعت مصطفیﷺ کو بھی ساتھ حصہ بنایا گیا

خدا کا ذکر کرے ذکر مصطفی نہ کرے

ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے

جوہری صاحب نے تشبیہات استعارات اور تلمیح کا کمال استعمال کیا ہے۔

دست قدرت میں اللہ کے جمال کو بیان کیا گیا ہے اللہ رب العزت کے جلالیت کو بھی بیان کیا گیا ہے اللہ کی رحمانیت و رحمیت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اللہ کی ستاری اللہ کی جباریت اللہ کی قہاریت کو بیان کیا گیا ہے۔ الغرض حمدیہ کلام کا عظیم شاہکار دست قدرت ہے چند ایک افراد کو یہ توفیق ملی کہ وہ حمدیہ کلام پہ کام کریں اللہ خالد جوہری صاحب کی کاوش کو قبول فرمائے آمین

٭٭٭

سیرت النبیﷺ کے روشن پہلو

رب کائنات نے جب حضرت انسان کو پیدا کیا تو سب کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیاء و رسل کو بھیجا۔ سب سے آخر میں آقائے نامدار حضورﷺ کو بھیجا اور اللہ نے آپ کی زندگی ہمارے سامنے کھلی کتاب کی طرح رکھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے‘‘ (الاحزاب 21)

اس فرمان میں واضح ہے کہ سید المرسلین، رحمۃ للعالمین، امام المرسلین، خاتم النبیین جناب محمدﷺ کی ذات اقدس ہی ہے کہ جن کی حیات مبارکہ تمام نوع انسانی کے لیے ایک مکمل لائحہ عمل اور ضابطہ حیات ہے، آپﷺ ہی وہ فرد کامل ہیں جن میں اللہ رب العزت عز و جل نے وہ تمام صفات جمع کر دی ہیں جو انسانی زندگی کے لیے مکمل ضابطہ حیات بن سکتے ہیں، کیونکہ آپﷺ اپنی قوم میں اپنے رفعت کردار، فاضلانہ اخلاق اور کریمانہ عادات کے سبب سب سے ممتاز ہیں، مزید یہ کہ نبی کریمﷺ سب سے زیادہ با مروت، سب سے بڑھ کر اعلیٰ ظرف، سب سے زیادہ عاجزی و انکساری کے مالک، سب سے بڑھ کے پیکر خلوص و محبت، سب سے زیادہ خوش اخلاق، سب سے زیادہ معزز ہمسائے، سب سے بڑھ کر دور اندیش، سب سے بڑھ کر رحمدل، سب سے زیادہ راست گو، صاف گو، سب سے زیادہ نرم مزاج، سب سے زیادہ پاک نفس، سب سے بڑھ کر شریف النفس، سب سے زیادہ خیر اندیش سب سے زیادہ نیک، سب سے بڑھ کر پابند عہد اور، سب سے بڑھ کر سخی، سب سے بڑھ کر متقی و پرہیزگار، سب سے بڑھ کر منصف و عادل، سب سے بڑے امانت دار یہ سب صفات رب کائنات نے آپ کے اندر جمع کیں۔ حتی کہ آپﷺ کی قوم نے آپﷺ کا لقب ہی صادق و امین رکھا اور ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کی صداقت و دیانت و امانت سے متاثر ہو کر ہی آپﷺ سے عقد نکاح فرمایا۔

اللہ رب العزت نے نبیﷺ کو بڑے اعلیٰ اخلاق سے نوازا تھا، یہ آپ کا اعلیٰ اخلاق ہے تھا کہ جس نے دشمن کو دوست، بیگانے کو اپنا سخت دل کو نرم خو بنا دیا تھا نبیﷺ کے اسی بلند اخلاق کی تعریف اللہ رب العزت نے ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ:

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم: 4)

(اور بیشک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے )

مؤطا امام مالک میں نبیﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’میں بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں‘‘

نبی کریمﷺ کا بچپن، جوانی اور بڑھاپا آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ یعنی آپﷺ کی مکمل زندگی ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو بچپن ہی سے بری محفلوں، بری صفات، بری عادات و اطوار اور منا ہی و منکرات سے بچائے رکھا۔

’’نبیﷺ نہ گالی دینے والے اور نہ بے ہودہ گوئی کرنے والے اور نہ ہی لعنت کرنے والے تھے اگر آپﷺ کو ہم میں سے کسی پر غصہ آتا صرف اتنا فرماتے اس کو کیا ہو گیا ہے اس کی پیشانی خاک آلود ہو‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ نبیﷺ کے خدمت گزار فرماتے ہیں کہ میں نے دس برس تک نبیﷺ کی خدمت کی: ’’اس مدت میں آپﷺ نے مجھے اُف تک نہ کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا یہ کام کیوں نہ کیا؟ (صحیح البخاری (8/ 14)

یہ آپﷺ کا اخلاق ہی تھا کہ جس نے لوگوں سے ظلمت و جہالت کو نکال کر نور صداقت اور معرفت الٰہی کو متمکن کر دیا تھا۔

آپﷺ کی پاکیزہ سیرت کیسی تھی،

جب اللہ نے آپﷺ کو نبوت سے نوازا تو آپﷺ پہلے سے بھی زیادہ اللہ رب العزت کی عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئے۔ صحیح البخاری میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ رات کو تہجد کی نماز میں اس قدر قیام فرمایا کرتے کہ آپﷺ کے قدم مبارک میں ورم پڑ جاتا اور آپﷺ کو اس بارے میں کہا جاتا تو فرمایا کرتے:

أَفَلاَ أَکُونُ عَبْدًا شَکُورًا (صحیح البخاری (2/ 50)

’’کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘

خاتم النبیین سید المرسلین بنی کریمﷺ کے تقویٰ کا عالم یہ تھا کہ آپﷺ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے: ’’اے اللہ میں ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن کھانے کو ملے۔ بھوک میں تیرے سامنے گڑگڑایا کروں اور تجھ سے مانگا کروں اور کھا کر تیری حمد و ثنا کیا کروں (حلیۃ الاولیاء جلد ۸ ص 133)

سیدہ عائشہ ام المؤمنین بیان فرماتی ہیں کہ آپﷺ نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اور اسی طرح ایک اور روایت میں اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ کے گھر والے ایک ایک مہینہ اس طرح گزارتے کہ گھر میں آگ نہ سلگائی جاتی اور ہمارا کھانا یہی ہوتا کھجور اور پانی (ابن ماجہ جلد سوم ص 527)

نبی کریمﷺ سب سے بڑھ کر سخی متقی و پرہیز گار تھے۔ نبی کریمﷺ ایک بار نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تکبیر ہو چکی تھی، مگر آپﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو وہیں چھوڑا اور گھر تشریف لے گئے تھوڑی دیر کے بعد واپس آئے اور نماز پڑھائی۔ کسی نے اس بے وقت گھر تشریف لے جانے کی وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا میرے گھر میں ایک سونے کا ٹکڑا پڑا رہ گیا تھا میں نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ گھر میں پڑا رہے اور میں فوت ہو جاؤں۔ (آپ نے وہ ٹکڑا غریبوں میں بانٹا اور نماز پڑھانے چلے گئے)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبیﷺ کی دریا دلی اور سخاوت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں جس نے بھی کوئی چیز آپﷺ سے مانگی، آپ نے انکار نہ کیا بلکہ دے دی۔ ( بخاری)

ایک شخص کو آپﷺ نے اتنی بکریاں دیں کہ جس سے دو پہاڑوں کے درمیان والی زمین بھر گئی۔ وہ شخص اپنی قوم کے پاس جا کر کہنے لگا میری قوم کے لوگو! مسلمان ہو جاؤ کیونکہ محمدﷺ اتنا کچھ دیتے ہیں پھر محتاجی کا ڈر نہیں رہتا۔ (مسلم جلد 6 ص 31 )

نبیﷺ شجاعت و بہادری میں بھی بہت بلند و بالا مقام رکھتے تھے۔ آپﷺ سب سے بڑھ کر بہادر و دلیر تھے نہایت کٹھن اور مشکل حالات میں بھی جبکہ اچھے اچھے بہادروں دلیروں اور جانبازوں کے پاؤں اکھڑ جاتے گئے مگر آپ اپنی جگہ ثابت قدم رہتے اور پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھتے جایا کرتے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب زور کا رن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھے تو ہم رسول اللہﷺ کی آڑ لیا کرتے تھے آپﷺ سے بڑھ کر کوئی دشمن کے قریب نہ ہوتا تھا۔

(شفاء شریف علامہ قاضی عیاض 1/89 بحوالہ الرحیق المختوم)

اگر ہم غزوات کی طرف نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ آپﷺ نے ٹکراؤ اور تصادم سے احتراز کیا، مکی زندگی ہو یا مدنی زندگی آپ نے بلا تفریق سب سے صلح جوئی کا راستہ اختیار کیا، مخالف فریق کی شرائط کو تسلیم کیا، اگرچہ وہ خود آپﷺ کے اور آپﷺ کے صحابہ کے خلاف تھیںِ، پھر بھی آپ نے اس حد تک جا کر بھی یہ بتا دیا کہ میں کسی قیمت میں تصادم نہیں چاہتا۔ مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر جو شرائط لکھی گئیں وہ بظاہر مسلمانوں کے مفاد کے خلاف تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی سے ”خیر“ پیدا فرما دی۔ آپ نے ہمیشہ امن و سلامتی کی تمنا فرمائی۔ جہاں تک جنگوں کا سوال ہے وہ بھی مسلمانوں پر مسلط کی گئیں، جب کفار و مشرکین نے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا ارادہ کر لیا تو مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی، رب تعالیٰ کی طرف سے مدنی دور میں جنگ کی اجازت دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اجازت دشمن کی جنگی تیاریوں اور ان کی طرف سے ہونے والے مذہبی جبر کے باعث دی گئی۔ حضورﷺ نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ”عافیت“ کا سوال کیا اور اسی بات کی تلقین فرمائی۔ فتح مکہ کے دن جب کسی نے اسے جنگ و سزا کا دن قرار دیا تو آپ نے فرمایا نہیں یہ رحمت کا دن ہے، حالانکہ فتح مکہ کے روز کفار آپ کے سامنے محکوم قوم کی حیثیت رکھتے تھے لیکن آپ نے اس دن بھی ٹکراؤ سے پرہیز کیا بلکہ سب کو معاف فرما دیا۔

جب حضور اکرمﷺ کے کسی فرمان کے بغیر کوئی تحریک انجام دی گئی ہو، اور جب جب ایسا کیا گیا تو خدا عز و جل کی جانب سے فوراً تنبیہ کر دی گئی تھی، جیسا کہ احد اور حنین کا معاملہ تھا، خود جناب رسولﷺ جب مدینہ منورہ سے فوج روانہ کرتے تھے یا آپ ساتھ سفر فرماتے، تو اپنے اصحاب کو تلقین کرتے تھے، جیسا کہ حضرت سلیمان بن بریدہ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ جب کسی شخص کو کسی لشکر یا کسی سریہ کا امیر مقرر فرماتے تو اسے خاص اس کے اپنے نفس کے بارے میں اللہ عز و جل کے تقویٰ کی اور اس کے بعد مسلمان ساتھیوں کے بارے میں خیر کی وصیت فرماتے۔ پھر فرماتے: اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں جنگ کرو، جس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ان سے لڑائی کرو۔ غزوہ کرو، خیانت نہ کرو، بد عہدی نہ کرو، ناک، کان وغیرہ نہ کاٹو، کسی بچے کو قتل نہ کرو۔۔ ۔ (مسلم: ۲؍۸۲۔ ۸۳)

اسی طرح آپﷺ آسانی برتنے کا حکم کرتے ہوئے فرماتے، آسانی کرو، سختی نہ کرو۔ لوگوں کو سکون دلاؤ، متنفر نہ کرو۔ اور جب رات میں آپ کسی قوم کے پاس پہونچتے تو صبح ہونے سے پہلے چھاپہ نہ مارتے، نیز آپﷺ نے کسی کو آگ میں جلانے سے نہایت سختی کے ساتھ منع کیا۔ اسی طرح باندھ کر قتل کرنے اور عورتوں کو مارنے اور انہیں قتل کرنے سے بھی منع کیا، لوٹ پاٹ سے روکا؛ حتیٰ کہ آپﷺ نے فرمایا: لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں۔ اسی طرح آپﷺ نے کھیتی باڑی تباہ کرنے، جانور ہلاک کرنے اور درخت کاٹنے سے منع فرمایا، سوائے اس صورت میں کہ اس کی سخت ضرورت آن پڑے، اور درخت کاٹے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو۔ فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ نے یہ بھی فرمایا: کسی زخمی پر حملہ نہ کرو، کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرو، اور کسی قیدی کو قتل نہ کرو۔ نبی اکرمﷺ نے یہ سنت بھی جاری فرما دی کہ سفیر کو قتل نہ کیا جائے؛ نیز آپﷺ نے معاہدین (غیر شہری) کے قتل سے بھی نہایت سختی سے روکا، یہاں تک فرمایا: جو شخص کسی معاہد کو قتل کرے گا، وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلے سے پائی جاتی ہے۔

(الرحیق المختوم: ۶۷۸ و مابعدہا۔ نبی رحمت: ۳۳)

اقرح بن حابس نے دیکھا کہ آپﷺ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو پیار کر رہے ہیں تو ایک صحابی نے کہا اللہ کے نبیﷺ میرے دس بچے ہیں میں نے کبھی ان کو پیار نہیں کیا۔ آپﷺ نے فرمایا جو رحم نہ کرے گا۔ ( بچوں، یتیموں، عاجزوں اور ضعیفوں پر) اللہ بھی رحم نہ کرے گا اس پر۔

ہم نبیﷺ کی سیرت کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔ صحابہ کرام رحم مادر سے رضی اللہ عنہ کا لقب لے کر نہیں آئے تھے۔ بلکہ انہوں نے نبیﷺ کے اسوہ اور سیرت کو اپنایا تھا۔ اور اللہ نے ان کو جنت کے سرٹیفکیٹ دے دئے۔ دنیا میں بھی کامیاب آخرت میں بھی کامیاب۔

آج مسلمان ذلیل ہیں، خوار ہیں، بے کس ہیں، بے بس ہیں، مظلوم ہیں، مجبور ہیں، تو اس کا سب سے بڑا سبب قرآن و حدیث سے بیگانگی اور اسوہ رسول سے ” چشم پوشی“ ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے اور نبیﷺ اسوہ پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔

٭٭٭

صدیق اکبرؓ

حقیقت کی زبان صدیق اکبر

صداقت کا بیان صدیق اکبر

وہ حق کا ترجماں صدیق اکبر

نبی کا راز داں صدیق اکبر

کبھی نہ ساتھ چھوڑا مصطفیٰ کا

جہاں آقا وہاں صدیق اکبر

نبی کے نام پر سب کچھ فدا ہے

محبت کا نشان صدیق اکبر

نیازی میں اور ان کے وصف لکھوں

کہاں میں اور کہاں صدیق اکبر

جن خوش نصیبوں نے ایمان کے ساتھ سرکارِ عالی وقارﷺ کی صحبت پائی، چاہے یہ صحبت ایک لمحے کے لئے ہی ہو اور پھر اِیمان پر خاتمہ ہوا، انہیں صحابی کہا جاتا ہے۔ یوں تو تمام ہی صحابۂ کرام رضیَ اللہُ عنہم عادل، متقی، پرہیز گار، اپنے پیارے آقاﷺ پر جان نچھاور کرنے والے اور رضائے الٰہی کی خوش خبری پانے کے ساتھ ساتھ بے شمار فضائل و کمالات رکھتے ہیں لیکن ان مقدس حضرات کی طویل فہرست میں ایک تعداد ان صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی ہے جو ایسے فضائل و کمالات رکھتے ہیں جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں اور ان میں سرِ فہرست وہ عظیم ترین ہستی ہیں کہ جب حضرت سیّدنا علیُّ المرتضیٰ رضیَ اللہُ عنہ سے پوچھا گیا کہ: رسولُ اللہﷺ کے بعد (اس اُمّت کے) لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں؟ تو حضرت سیّدنا علی رضیَ اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ۔

(بخاری، ج 2، ص 522، حدیث: 36717)

حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کی ذاتِ گرامی سے متعلق چند ایسے فضائل و کمالات پڑھئے جن میں آپ رضیَ اللہُ عنہ لاثانی و بے مثال ہیں۔

ثَانِیَ اثْنَیْنِ: اللہ پاک نے آپ رضیَ اللہُ عنہ کیلئے قرآٰنِ مجید میں ’’صَاحِبِہٖ‘‘یعنی ”نبی کے ساتھی“ اور ”ثَانِیَ اثْنَیْنِ“(دو میں سے دوسرا) فرمایا، یہ فرمان کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا۔

آپ رضیَ اللہُ عنہ کا نام صدیق آپ کے رب نے رکھا، آپ کے علاوہ کسی کا نام صدیق نہ رکھا۔ جب کفّارِ مکّہ کے ظلم و ستم اور تکلیف رَسانی کی وجہ سے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے مکّۂ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو آپ رضیَ اللہُ عنہ ہی سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم کے رفیقِ ہجرت تھے۔ اسی ہجرت کے موقع پر صرف آپ رضیَ اللہُ عنہ ہی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم کے یارِ غار رہے۔

(تاریخ الخلفاء، ص: 46 ملتقطاً)

حضرت عباس سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، میں نے جس کو بھی اسلام کی دعوت دی اُس نے پہلے انکار کیا سوائے ابو بکر کے کہ انہوں نے میرے دعوتِ اسلام دینے پر فوراً ہی اسلام قبول کر لیا اور پھر اس پر ثابت قدم رہے۔ (تاریخ الخلفاء: ۹۸، ابن عساکر)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، بیشک اپنی صحبت اور مال کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر مجھ پر احسان کرنے والا ابو بکر ہے۔ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن اسلامی اخوت و موّدت تو موجود ہے۔ آئندہ مسجد میں ابو بکر کے دروازے کے سوا کسی کا دروازہ کھلا نہ رکھا جائے۔ (بخاری، ج 1، ص 177، حدیث: 466، تفہیم البخاری، ج 1، ص 818)۔

دوسری روایت میں یہ ہے کہ ابو بکر کی کھڑکی کے علاوہ (مسجد کی طرف کھلنے والی) سب کھڑکیاں بند کر دی جائیں۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو خلیل بناتا۔ لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں اور تمھارے اِس صاحب کو للہ تعالیٰ نے خلیل بنایا ہے۔ (مسلم کتاب فضائل الصحابۃ)

خلیل سے مراد ایسا دِلی دوست ہے جس کی محبت رگ و پے میں سرایت کر جائے اور وہ ہر راز پر آگاہ ہو، نبی کریمﷺ نے ایسا محبوب صرف اللہ تعالیٰ کو بنایا۔ رب تعالیٰ نے بھی آپ کو اپنا ایسا محبوب و خلیل بنایا ہے کہ آپ کی خلّت سیدنا ابراہیمؑ کی خلّت سے زیادہ کامل اور اکمل ہے۔ (اشعۃ اللمعات)

جنّت میں پہلے داخلہ: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے ارشاد فرمایا: جبریلِ امین علیہِ السَّلام میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر جنّت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری اُمّت جنّت میں داخل ہو گی۔ حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے عرض کی: یَا رسولَ اللہ! میری یہ خواہش ہے کہ میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ ہوتا، تاکہ میں بھی اس دروازے کو دیکھ لیتا۔ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے فرمایا: ابو بکر! میری اُمّت میں سب سے پہلے جنّت میں داخل ہونے والے شخص تم ہی ہو گے۔ ابو داؤد، ج  4، ص 280، حدیث: 4652)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، جس وقت ہم غار میں تھے۔ میں نے اپنے سروں کی جانب مشرکوں کے قدم دیکھے تو عرض کی، یا رسول اللہﷺ! اگر ان میں سے کسی نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا، اے ابو بکر! تمہارا ان دو کے متعلق کیا خیال ہے جن میں کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔ (مسلم کتاب فضائل الصحابۃ، فضائل الخلفاء لابی نعیم، ص 38، حدیث: 10، بخاری، ج  2، ص 591، حدیث: 3904)

پیارے نبیﷺ نے ایک دفعہ حضرت صدیق رضیَ اللہُ عنہ سے فرمایا: تم میرے صاحب ہو حوضِ کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔

(ترمذی، ج  5، ص 378، حدیث: 3690)

شفیعِ اُمّتﷺ نے حضرت سیّدنا جبریلِ امین علیہِ السَّلام سے اِسْتِفْسار فرمایا: میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا؟ تو سیّدنا جبریلِ امین علیہِ السَّلام نے عرض کی: ابو بکر (آپ کے ساتھ ہجرت کریں گے)، وہ آپ کے بعد آپ کی اُمّت کے معاملات سنبھالیں گے اور وہ اُمّت میں سے سب سے افضل اور اُمّت پر سب سے زیادہ مہربان ہیں۔

(جمع الجوامع، ج 11، ص 39، حدیث: 160)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ہمیں صدقہ کا حکم فرمایا۔ اس وقت میرے پاس کافی مال تھا، میں نے کہا کہ اگر کسی روز میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سبقت لے جا سکا تو آج کا دن ہو گا۔ پس میں نصف مال لے کر حاضر ہو گیا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ گھر والوں کے لئے کتنا چھوڑا ہے؟ عرض گزار ہوا کہ اس کے برابر۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا سارا مال لے آئے تو فرمایا، اے ابو بکر اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ عرض گزار ہوئے، ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔ میں نے کہا، میں ان سے کبھی نہیں بڑھ سکتا۔ (ترمذی، ابو داؤد،)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی للہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا، تمہیں للہ تعالیٰ نے آگ سے آزاد کر دیا ہے۔ اس دن سے ان کا نام عتیق مشہور ہو گیا۔ (ترمذی، حاکم)

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، میں وہ ہوں کہ زمین سب سے پہلے میرے اوپر سے شق ہو گی، پھر ابو بکر سے، پھر عمر سے، پھر بقیع والوں کے پاس آؤں گا تو وہ میرے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ پھر میں اہلِ مکہ کا انتظار کروں گا، یہاں تک کہ حرمین کے درمیان حشر کیا جائے گا۔ (ترمذی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، میرے پاس جبریل آئے تو میرا ہاتھ پکڑا تاکہ مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھائیں جس سے میری امت داخل ہو گی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ! میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کے ساتھ ہوتا، تاکہ اس دروازے کو دیکھتا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا، اے ابو بکر! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گے۔ (ابو داؤد)

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، انبیاء کے علاوہ سورج کبھی کسی ایسے شخص پر طلوع نہیں ہوا جو ابو بکر سے افضل ہو۔ (الصواعق المحرقۃ: ۱۰۳، ابو نعیم)

حضرت سلیمان بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، اچھے خصائل تین سو ساٹھ ہیں۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! ان میں سے مجھ میں کوئی خصلت موجود ہے؟ فرمایا، اے ابو بکر! مبارک ہو۔ تم میں وہ سب اچھی خصلتیں موجود ہیں۔ (الصواعق المحرقۃ: ۱۱۲، ابن عساکر)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، میری امت پر واجب ہے کہ وہ ابو بکر کا شکریہ ادا کرے اور ان سے محبت کرتی رہے۔ (تاریخ الخلفاء: ۱۲۱، الصواعق المحرقۃ: ۱۱۲، ابن عساکر)

حضرت معاذ بن جبلؓ  سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک مسئلہ میں میری رائے دریافت فرمائی تو میں نے عرض کی، میری رائے وہی ہے جو ابو بکر کی رائے ہے۔ اس پر آقا کریمﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں کہ ابو بکر غلطی کریں۔ (تاریخ الخلفاء: ۱۰۷، ابو نعیم، طبرانی)

حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے پوچھا، یہ بتاؤ کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے کہا، آپ۔ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، نہیں! سب سے زیادہ بہادر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ سنو! جنگِ بدر میں ہم نے نبی کریمﷺ کے لیے ایک سائبان بنایا تھا۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس سائبان کے نیچے نبی کریمﷺ کے ساتھ کون رہے گا، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مشرک نبی کریمﷺ پر حملہ کر دے۔ خدا کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا تھا کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہاتھ میں برہنہ تلوار لیے ہوئے نبی کریمﷺ کے پاس کھڑے ہو گئے اور پھر کسی مشرک کو آپ کے پاس آنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ اگر کوئی ناپاک ارادے سے قریب بھی آیا تو آپ فوراً اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس لیئے آپ ہی سب سے زیادہ بہادر تھے۔ (تاریخ الخلفاء: ۱۰۰، مسند بزار)

اللہ ہم کو ان عظیم ہستیوں کے نقش قدم پہ چلائے اور ملک پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت فرمائے آمین

٭٭٭

پردہ اسلام اور عورت

آج ہر روز اخبارات عصمت فروشی کے واقعات سے بھرے ھوتے ہیں کہ آج فلاں علاقہ میں عصمت فروشی کا واقعہ رونما ہو گیا، پولیس مصروف تفتیش ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔

قارئین گرامی:

اس طرح کے واقعات رونما ہونے کے بعد تو ہماری آنکھ کھلتی ہے۔ تو اس سے بہتر ہو گا کہ ہم اس طرح کے واقعات ہونے کی جو وجہ ہے اس کو جان کر ہم اس کا سد باب کریں۔ تاکہ اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہونے پائیں۔ مگر اب روشن خیالی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہر طرف حیاء اور غیرت کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔ بہرحال المختصر ان عصمت فروشی کے واقعات کا سد باب نہیں کیا جا رہا۔ اس قسم کے واقعات کی وجہ صرف بے پردگی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔

فیشن کی چلی کچھ ایسی ہوا

کہ عورت کے رخ سے پردہ اٹھ گیا

ہمارے اندر غیرت ختم ہو چکی ہے اور حیاء بھی ختم ہو چکی ہے۔ ہمارے اسلاف میں ہمارے آباء و اجداد میں جو غیرت شرم و حیاء تھی۔ اب وہ ہمارے اندر دم توڑ چکی ہے۔ اب ہر طرف بے حیائی و بے شرمی کا دور دورہ ہے۔ آج پاکستان کے ہر کوچے ہر گلی میں سینما گھر بن گئے ہیں۔ آج وہی نوجوان جو کل تک تلاوت قرآن کرتے تھے۔ وہ ہر وقت گانا گانے، موسیقی، لہو و لعب، سینماء بینی میں مصروف نظر آتا ہے۔ ہم نے اپنی اسلامی تہذیب و تمدن کو بلا دیا ہے۔ اسلامی شکل و صورت کو چھوڑ کر اغیار کی شکل و صورت کو اپنا لیا ہے۔

بقول حضرت علامہ اقبال:

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلمان ہیں جہنیں دیکھ کے شرمائیں یہود

آج مغربی استعمار کی آزاد خیالی، مادہ پرستی، عریانی و فحاشی کے طوفان پرنٹ میڈیا اور آن دی میڈیا کی سحر انگیزی اور دل فریبی کی یلغار نے اسلامی ورثہ کو بڑا متاثر کیا ہے۔ اور ڈرامہ کلچر اور فلمی کلچر نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ جتنی بے حیائی و فحاشی الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پھیلا رہا ہے۔ اس کی حد نہیں اس لیے تو سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ اب پاکستان سے ہمیں جنگ کرنے کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔ کیونکہ ہمارے ڈش اور ٹی وی کلچر نے یہ جنگ جیت لی ہے۔

آج ہر طرف عورت ماڈرن لباس پہنے نظر آتی ہے۔ آج ہر طرف عورت باریک لباس پہن کر برہنہ پھرتی نظر آئے گی۔ اور بے شرم و بے حیاء لڑکیاں، بے حیاء لڑکوں کے ساتھ موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر گشت کرتی ہیں۔

جب کبھی غیرت انسان کا سوال آتا ہے

اے فاطمہ مجھے تیرے پردے کا خیال آتا ہے

آئیے دیکھیں کہ اسلام پردہ کے بارے میں کیا کہتا ہے!

پہلے آیات قرآنی کو دیکھتے ہیں۔

آیات مبارکہ:

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

۱: واذا ساًلتموھن متاعا فسئلوھن من وراء حجاب

(پارہ ۲۲، سورہ احزاب، آیت نمبر ۵۳)

اے ماہ نبوت کے پروانو! اگر تمہیں اپنے محبوب کے اہل خانہ سے کوئی چیز مانگنی ہی پڑے تو پردہ کے پیچھے سے مانگو۔

ان آیات میں اگرچہ یہ الفاظ خاص امہات المومنین کے لیے ہیں۔ تاہم دلالت کے اعتبار سے یہ احکام تمام عورتوں کے لیے ہیں۔

مفسرین کرام کہتے ہیں کہ، کسی آیت کا شان نزول خاص اور اس کا حکم عام ہوتا ہے۔

اب پردہ کا حکم نص قطعی سے ثابت ہو گیا۔

دوسری آیہ کریمہ:

۲: یایھا الذین اٰمنوا لاتدخلوا بیوت النبی الا ان یوذن لکم

(پارہ ۲۲، سورہ احزاب آیت نمبر ۵۳)

اے ایمان والو: نبی کے گھر میں نہ داخل ہونا مگر یہ کہ تمہیں اجازت دی جائے۔

۳: ولا یضربن بارجلھن

(پارہ ۱۸، سورۃ النور، آیت نمبر ۳۱)

وہ عورتیں جنہوں نے پازیب پہنی ہوئی ہو وہ زور دار طریقے سے پاؤں زمین پر نہ ماریں۔

۴: یایھا الزین اٰمنوا لاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم

(پارہ ۱۸، سورۃ النور، آیت نمبر ۲۷)

اے ایمان والو: اپنے گھروں کے علاوہ اور گھروں میں داخل نہ ہوا کرو

۵: یایھا النبی قل لازواجک وبنتک ونساء المومنین یدنین علیھن من جلابیبھن

اے غیب دان نبی! آپ اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنے اوپر چادر یا برقعہ ڈال دیا کریں۔

یہ چند آیات مبارکہ تھیں اس کے علاوہ اور بھی آیات مبارکہ ہیں کہ جن میں پردہ کا حکم ہے۔ بہرحال اب ہم احادیث نبویہؐ کی طرف آتے ہیں۔ کہ احادیث مبارکہؐ اس بارے میں کیا کہتیں ہیں؟

احادیث نبویہؐ:

۱: فرمان نبویؐ ہے۔ الحیاء من الایمان

حیاء ایمان سے ہے۔

(ابو داود، جلد دوم، صفحہ ۳۰۵، مطبوعہ مجتبائی کتب خانہ)، (بخاری شریف، جلد دوم، صفحہ ۹۰۳، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

آقا کریمؐ نے ارشاد فرمایا

۲: حیاء خیر کو لاتا ہے:

(صحیح بخاری شریف، جلد دوم، صفحہ ۹۰۳ مطبوعہ قدیمی)

۳: حیاء زینت ہے

(کتسف الخفاء للعجلونی، حدیث۲۲۴۴)

اسلام میں عورت کے بارے میں اتنی احتیاط ہے کہ حدیث نبویؐ ہے۔

۴: حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ تم میں سے جن کے شوہر گھر پر نہ ہوں ان عورتوں پر داخل نہ ہو۔ کیونکہ شیطان تمہارے خون میں گردش کرتا ہے۔

(ترمذی شریف جلد اول صفحہ ۱۴۰ مطبوعہ فاروقی کتب خانہ)

وہ عورتیں جو زیب و زینت کر کے نکلتی ہیں ان کے بارے میں ارشاد نبویؐ ہے۔

۵: حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ عورتوں کا زیب و زینت کر کے نکلنا ان کی مثال قیامت میں ایسی ہے جس کے لئے کوئی نور نہ ہو گا۔

(ترمذی شریف۔ جلد اول۔ صفحہ ۱۳۹مطبوعہ ایضاً)

۶: حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک وہ عورت جو خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ ایسی ایسی ہے یعنی زانیہ ہے۔

(ترمذی شریف، جلد ۴۔ صفحہ ۳۲۱ حدیث ۲۷۹۵ دار الفکر)

مفسر قرآن حضور حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمیؒ فرماتے ہیں اس حدیث کے تحت کہ: کیونکہ وہ خوشبو کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے کیونکہ زنا حرام ہے لہذا اسباب زنا بھی حرام ہیں۔

(مراۃ المناجیح جلد دوم صفحہ ۱۷۱ضیاء القرآن)

۷: حضورؐ نے قیامت کی نشانیوں میں ایک زنا کے ظاہر ہونے کا بھی ذکر کیا ہے۔

(مسلم شریف، جلد ۱، ص ۳۴ ۰قدیمی)

۸: آقا کریمؐ نے دیور سے بھی پردہ لازمی قرار دیا ہے۔

(صحیح مسلم شریف، حدیث نمبر ۳۳۰۷)

۹: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا عورت سراپا شرم کی چیز ہے سب سے زیادہ اللہ کے نزدیک اپنے گھر کی تہہ میں ہوتی ہے جب باہر نکلے شیطان اس پر نگاہ ڈالتا ہے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جمعہ کے دن کھڑے ہو کر کنکریاں مار کر عورتوں کو مسجد سے نکالتے۔

(جامع ترمذی حدیث نمبر  ۲۳۰۵)

۱۰: ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں اور ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا حضورؐ کی خدمت میں حاضر تھیں کہ اچانک حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پردے کا حکم ہو چکا تھا۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ان سے پردہ کرو۔ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہؐ یہ نا بینا ہیں ہمیں یہ نہ دیکھ رہے ہیں اور نہ کوئی ہم کلامی ہے۔ یہ سن کر رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کیا تم دونوں بھی نا بینا ہو کیا تم ان کو نہیں دیکھ رہی ہو۔

(جامع ترمذی، جلد ۴، صفحہ ۳۵۶، حدیث نمبر ۲۷۸۷، دار الفکر بیروت)

اب ایک صحابی رسول کی غیرت کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت ابو السائب فرماتے ہیں کہ ایک نوجوان صحابی رسول کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ایک بار جب وہ اپنے گھر تشریف لائے تو یہ دیکھ کر انہیں بڑی غیرت آئی کہ ان کی دلہن گھر کے دروازے پر کھڑی تھی۔ مارے جلال کے نیزہ تان کر اپنی دلہن کی طرف لپکے وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئیں۔ اور رو کر پکاریں۔ اے میرے سرتاج مجھے مت مارئیے۔ میں بے قصور ہوں ذرا اندر جا کر دیکھیں کہ مجھے کس چیز نے باہر نکالا ہے؟ چنانچہ جب وہ صحابی اندر تشریف لے گئے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خطرناک سانپ کنڈلی مار کر بیٹھا ہے۔ تو آپ نے زوردار وار کر کے سانپ کو زخمی کر دیا سانپ نے آپ کو ڈس لیا سانپ تڑپ تڑپ کر مر گیا وہ صحابی اس سانپ کے زہر سے فوت ہو گئے

(ابو داود، جلد ۴، صفحہ ۴۶۵ حدیث نمبر ۵۲۵۷، دار الحیاء بیروت)

ہم نے صحابی رسول کی غیرت کا واقعہ ملاحظہ کیا انہوں نے اپنی بیوی کا گھر کے دروازے پر کھڑا ہونا بھی برداشت نہ کیا اور آج ہم ہیں کہ ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بازاروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔

ساغر صدیقی نے کہا تھا کہ

کل جہنیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر

آج وہ رونق بازار نظر آتی ہیں

اکبر اٰلہ آبادی نے کیا خوب کہا تھا کہ

بے پردہ مجھ کو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر زمیں میں ”غیرت قومی” سے گڑ گیا

پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ کدھر گیا

کہنے لگیں کہ ”عقل” پہ مردوں کے پڑ گیا

(اسلامی زندگی، ص ۹۳)

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی زیب و زینت دیکھ کر ارشاد فرمایا تھا کہ اگر رسول اللہؐ اس بناؤ سنگھار کو دیکھ لیتے تو عورتوں کا مسجد میں آنا بند کر دیتے۔

(مسلم شریف، جلد اول۔ کتاب الصلوٰۃ، حدیث نمبر ۹۰۳)

حضرت علامہ ابن حضر مکی ہیتمی نقل فرماتے ہیں۔ معراج کی رات سرور کائنات شاہ موجوداتؐ نے جو بعض عورتوں کے عذاب کے ہولناک مناظر ملاحظہ فرمائے ان میں یہ بھی تھا کہ ایک عورت بالوں سے لٹکی ہوئی تھی اس کا دماغ گھول رہا تھا سرکارؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یہ عورت اپنے بالوں کو غیر مردوں سے نہیں چھپاتی تھی۔

(الزواجر جلد ۲، ص ۹۷۔ ۹۸، دار المعرفہ بیروت)

با حیاء و باشرم ماں کا واقعہ:

حضرت ام خلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہا پردہ کیے منہ پر نقاب ڈالے اپنے شہید بیٹے کی معلومات حاصل کرنے کے لیے بارگاہ نبوتؐ میں آئیں تو کسی نے کہا کہ آپ اس حالت میں اپنے بیٹے کی معلومات لینے آئی ہیں کہ آپ کے چہرے پر نقاب ہے وہ فرمانے لگیں! اگر میرا بیٹا جاتا رہا تو کیا ہوا میری حیاء تو نہیں گئی (سبحان اللہ)

(سنن ابو داود، جلد ۳، ص ۹، حدیث نمبر  ۲۴۸۸، دار الحیاء بیروت)

میری معزز ماؤں بہنو!

حضرت ام خلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان میں ہمارے لیے بہت سبق ہے اگر غور کیا جائے تو:

زیب و زینت کرنے والیوں کیلیے گڑھا:

سرکار کون و مکاںؐ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے کچھ لوگ ایسے دیکھے جن کی کھالیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں میرے استفسار پر بتایا گیا (آپ کا پوچھنا تعلیم امت کے لیے تھا ورنہ آپ کو کس چیز کا علم نہیں) یہ وہ لوگ ہیں جو ناجائز اشیاء سے زینت حاصل کرتے تھے اور میں نے ایک گڑھا دیکھا جس سے چیخ و پکار کی آواز آ رہی تھی میرے دریافت کرنے پر بتایا گیا یہ وہ عورتیں ہیں جو ناجائز اشیاء کے ذریعے زینت کیا کرتی تھیں۔

(تاریخ بغداد، جلد ۱ ص ۴۱۵)

یاد رہے کہ آجکل عورتیں مردوں (نامحرموں) کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر نکلتی ہیں اور بے حیائی پھیلاتی ہیں اور ہماری مائیں، بہنیں کچھ نام نہاد پیروں (جو شریعت سے نابلد ہوتے ہیں) کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتی ہیں اور ان کے پاؤں دباتی ہیں ان کے ہاتھ دباتی ہیں، یہ سب حرام ہے۔

آقا کریمؐ کا بیعت لینا:

آقا کریمؐ عورت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے بغیر فقط زبان سے بیعت لیتے تھے

(بہار شریعت، حصہ ۱۶، ص ۷۸)

مرد اور عورت آپس میں ہاتھ نہیں ملا سکتے آجکل پارکوں میں شاپنگ سینڑوں میں، کالجوں میں، سوئمنگ پولوں میں، کلبوں میں مرد و عورت ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر، بغلوں میں بغلیں ڈال کر پھرتے ہیں یہ سب حرام ہے۔

سر میں کیل کا ٹھونکا جانا بہتر:

آقائے دوجہاںؐ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کے سر میں کیل ٹھونک دیا جانا بہتر ہے اس سے کہ کسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں

(المعجم الکبیر جلد ۳۵، ص ۲۱۲، حدیث نمبر ۴۸۷)

آجکل بے پردگی کی جو خرابیاں سامنے آ رہی ہیں وہ بیان سے باہر ہیں کچھ خرابیاں میں حسب ذیل درج کیے دیتا ہوں

۱۔ عورتوں کا بالکل باریک لباس پہننا اور نیم برہنہ حالت میں ہونا۔

۲۔ عورتوں کا رقص کرنا اور مردوں کے ساتھ رقص کرنا یہ مکروہ ترین کام ہے

۳۔ ساحل سمندر پر اور دریاؤں اور نہروں کے کنارے پر مردوں کے ساتھ مخلوط ہو کر پھرنا خوش گپیوں میں مشغول ہونا۔

۴۔ بیویوں کا خاوندوں پر حکم چلانا ان کو اپنے ماتحت کرنا۔

۵۔ ٹرین، ہوائی جہاز میں بے پردگی کے ساتھ اجنبی مردوں کے ساتھ سفر کرنا۔

۶۔ کلبوں میں جانا سینماؤں میں جانا۔

۷۔ عورتوں کا بطور سوسائٹی گرل مخرب اخلاق کاموں میں مشغول رہنا

۸۔ اجنبی مردوں کے ساتھ کھیل کھیلنا۔

۹۔ دوپٹہ کو بطور سکارف استعمال کرنا۔

۱۰۔ عورتوں کا خوشبو وغیرہ لگا کر بازاروں میں جانا۔ (وغیرہ، وغیرہ)

بہرحال اس کے علاوہ اور بہت سی خرافات، خرابیاں بے حیائی و فحاشی و عریانی کے کام پاکستان میں ہو رہے ہیں حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ ان کا سد باب کرے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اسوۂ رسولؐ پر عمل کرنے کی توفیق دے بے حیائی و فحاشی کو رو کنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین

٭٭٭

دسمبر لہو لہو، سانحہ پشاور

انسانیت کو پاؤں کے نیچے کچل دیا

ان ظالموں نے دین کا چہرہ بدل دیا

صفدریہ حادثہ بھی ہوا ارضِ پاک میں

کلیوں کو پھُول بننے سے پہلے مَسل دیا

سولہ دسمبر 2014 ء کا سورج طلوع ہوا تو اپنے ساتھ ان گنت غم لے کر آیا۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ یہ دن ملک کی تاریخ میں ایک اور دلخراش سانحے کے طور پر لکھا جائے گا۔ پشاور میں سفاک دہشتگردوں نے مہکتے ہوئے پھول جیسے بچوں کو خون میں نہلا دیا۔

کسی بھی گُلستان کی رونق وہاں کے مہکتے پھولوں کے دم سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ باغ کی رونق کو برقرار رکھنے کے لئے ہی مالی ان پھولوں کو انتہائی نگہداشت میں رکھتا ہے۔ لیکن اگر کوئی پتھر دل انسان ان پھولوں کو توڑ کر مسل دے تو باغ کی رونق کے ساتھ ساتھ پھولوں کی مہک بھی دم توڑ جاتی ہے اور گُلستان تباہ حال قبرستان کا سا منظر پیش کرتا ہے۔ سکول کے شہید بچے بھی اس گلستان کے وہ غنچے تھے کہ جو ابھی کھلے بھی نہیں تھے کہ کچھ سفاک درندوں نے ان کلیوں مسل کر گلستان کی مہک کو تہہ خاک ملا دیا۔

آٹھ برس گزرنے پر بھی قوم رنج و غم سے روتی ہوئی نظر آتی ہے۔ قوم یہ سوال کرتی ہے کہ آخر ان معصوم بچوں سے کیا غلطی سرزد ہوئی تھی جو ان کے جسموں میں بے دردی سے بارود اتارا گیا۔ ان معصوموں نے کسی کا کیا بگاڑا کہ اڑنے سے پہلے ہی ان کے پر کاٹے گئے؟ کیا وجہ تھی کہ ننھے پھولوں کو کلاشنکوف کی بے رحم گولیوں نے بھون ڈالا؟

ہلاکو اور چنگیز کے قتل عام کے قصے تو سنے تھے لیکن تاریخ میں کہیں بھی ہمیں سوائے سانحہ کربلاء کے، ایسی بربریت کی مثال نہیں ملتی جہاں چھوٹے، معصوم بچوں کو اتنی بے دردی سے موت کی آغوش میں اتارا گیا ہو۔ وہ مائیں جن کے جگر گوشے اسکول سے واپس نہیں آئے، آج تک ان کی راہیں دیکھ رہی ہیں۔

” پھول تو کچھ دن بہار جاں فزاء دکھلا گئے

حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے‘‘

آئیے، ہم سب مل کر اے پی ایس کے ان ننھے شہیدوں کو یاد کریں

آنکھیں برستی ہیں، جگر چھلنی ہیں آج ماؤں کے

گریا پھیلا ہوا ہے، ہر سو رنگ سرخ ہیں ہواؤں کے

گل ہوئے چراغِ آشیاں، کمر ٹوٹی ہے بزرگوں کی

بھیگے پلو ہیں میری ماں، بہنوں کی رداؤں کے

٭٭٭

نکاح مشکل کیوں ہوا؟

اللہ رب العزت نے انسان کو کروڑہا نعمتوں سے نوازا ہے۔ اگر ہم اللہ کی نعمتیں گننا چاہیں تو انہیں شمار نہیں کر سکیں گے۔ حضور نبی کریمﷺ نے زندگی و موت کے تمام معاملات میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ انسانی ضَروریات میں سے کھانے پینے کے ساتھ ایک اہم ضَرورت نِکاح بھی ہے۔ اسلام نے نکاح کو عبادت اور ایمان کی حفاظت کا ایک بہترین ذریعہ بھی قرار دیا ہے۔ اسلامی زندگی میں شادی کا تصور بہت آسان ہے، نبیِّ کریمﷺ ، صحابَۂ کرام اور اولیا و علماء نے اس فریضے کو سادگی سے انجام دے کر ہمارے لئے بہترین نمونہ پیش فرمایا۔

نکاح کر دو

نبیِّ پاکﷺ تو ہمیں اس بات کا دَرْس دیتے ہیں کہ جب کوئی ایسا شخص تمہیں نکاح کا پیغام دے جس کا دین اور اَخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے (اپنی لڑکی کا) نکاح کر دو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد برپا ہو گا اور بہت بڑا فساد برپا ہو گا۔ (ترمذی، ج 2، ص 344، حدیث: 1086) مفتی احمد یار خان علیہ رحمہ اس کے تحت فرماتے ہیں: جب تمہاری لڑکی کے لئے دیندار عادات و اَطْوار کا درست لڑکا مل جائے تو محض مال کی ہَوَس میں اور لکھ پتی کروڑ پتی کے انتظار میں جوان لڑکی کے نکاح میں دیر نہ کرو، اگر مالدار کے انتظار میں لڑکیوں کے نکاح نہ کئے گئے تو ادھر تو لڑکیاں بہت کنواری بیٹھی رہیں گی اور ادھر لڑکے بہت سے بے شادی رہیں گے جس سے زنا پھیلے گا اور زنا کی وجہ سے لڑکی والوں کو عار و ننگ ہو گی، نتیجہ یہ ہو گا کہ خاندان آپس میں لڑیں گے قتل و غارت ہوں گے جس کا آج کل ظُہور ہونے لگا ہے۔ ( مراٰۃ المناجیح، ج 5، ص 8)

ہمارا المیہ ہے کہ ہم نے اس کو مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے نکاح جیسی سنّت کو حرام رسم و رَواج، ناجائز پابندیوں اور فضول خرچیوں سے مشکل سے بھی مشکل تر بنا دیا ہے، اس سے لوگوں کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ شادی کو ہم نے ان رسومات کے ذریعے مشکل بنا دیا ہے آج رشتہ کرنے کا معیار یہ بن چکا ہے کہ لڑکا کتنا ہی آوارہ قسم کا کیوں نہ ہو، اس میں دینداری نام کی بھی نہ ہو، بد اخلاق بد کردار ہو، تعلم یافتہ نہ بھی ہو، نہ کوئی ہنر ہاتھ میں ہو، پھر بھی لڑکی والوں کا رشتہ تلاش کرنے کا معیار یہ بن چکا ہے کہ اس کی دولت، زمین، کھیتی، پیسہ، بنگلہ، گاڑی، اسٹیٹس دیکھا جاتا ہے۔ اسلام نے نکاح کو آسان بنایا ہے مگر ہم نے اس کو مشکل بنا دیا ہے۔ خدارا نکاح کو آسان بنائیے۔  

٭٭٭

عدم برداشت کی وجوہات و نتائج

معاشرے کی عمارت اخلاقیات، تحمل، رواداری اور پیار و محبت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جب یہ خصوصیات معاشرے سے چلی جائیں تو وہ معاشرہ تباہی و بربادی کی طرف سرعت سے گامزن ہو جاتا ہے۔ انسانی معاشرے میں بشر کی عزت و توقیر احترام قطعی طور پر لازم ہے۔ جب کسی شخص، قوم، نسل اور قبیلے کی تضحیک اور استہزا و مذاق کیا جاتا ہے عدم برداشت سے کام لیا جاتا ہے تو رد عمل کے طور پر وہاں نفرت، حسد، بغض و انارکی اور عناد و دشمنی جنم لیتی ہے جو معاشرتی زندگی کو لڑائی جھگڑے کی طرف گامزن کر دیتا ہے۔

غرور و تکبر دوسروں کی عزت نفس کو پامال کرنے کا دوسرا نام ہے۔ متکبر شخص اپنی اصلاح پر توجہ منعطف کرنے کے عوض دوسروں کی اصلاح کے لئے کمر بستہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی انا کو شکست دینے کی بجائے دوسروں کی انا کو للکارنے میں مصروف رہتا ہے۔

اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے دوسرے کے گریبان کو پکڑنے اس کو تار تار کرنے میں مگن رہتا ہے اس طرح وہ معاشرے کو ٹھیک کرنے کی بجائے بگاڑنے کا موجب بنتا ہے۔

یہی گمبھیر ناگفتہ بہ صورت حال ہمارے معاشرے کو بھی درپیش ہے جہاں عدم برداشت کا رجحان اس تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اس کے باعث تشدد پسند سرگرمیاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ لوگوں میں قوت برداشت نہیں، محض چھوٹی چھوٹی باتوں پر تشدد پہ اتر آتے ہیں۔ متشدد واقعات اکثریت میں دیکھنے میں آ رہے ہیں، اگر سوشل میڈیا کو دیکھا جائے تو سوشل میڈیا پر تو اس حوالے سے کئی وڈیوز بہت تیزی سے وائرل ہوتی ہیں۔

چند روز پہلے ایک چھوٹی سی بچی کو چائے میں پتی زیادہ ڈالنے پر خاتون نے جس بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اسی طرح ایک شہر میں ایک آدمی بازار کے بیچوں و بیچ تقریباً دو سو افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ چاہے اس نے کوئی جرم کیا یا نہ کیا یہ کام اداروں کا ہے کہ وہ تحقیقات کریں۔

معاشرہ اس وقت زمانہ عدم برداشت اور سیاسی و معاشرتی اخلاقی اقدار سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں کے رویوں میں صبر و تحمل اور قوت برداشت نہیں ہے رویوں میں شدت پسندانہ رویہ اور عدم برداشت اس حد تک غالب آ چکے ہیں کہ ہمارے رویوں اور اخلاقی اقدار کی گراوٹ کے باعث احترام آدمیت کا جنازہ نکل چکا ہے۔

ایک وقت تھا جب مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کے درمیان مناظرے اور مباحثے ہوا کرتے تھے لوگ ایک دوسرے کی بات کو تحمل مزاجی کے ساتھ سنتے، حسن ادب کے ساتھ اختلاف رائے بھی کرتے لیکن انسانوں کے عزت و احترام کو کبھی بھی اپنے رویوں اور اخلاقی اقدار کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے کھونے نہیں دیا جاتا تھا۔

اب جو موجودہ صورتحال ماضی کے بالکل بر عکس ہے۔

اگر ہم عدم برداشت کی وجوہات کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ اس سی اخلاقی، معاشی اور سماجی مسائل عدم برداشت کو جنم دے رہے ہیں ہر معاشرے میں مختلف مزاج کے حامل لوگ بستے ہیں کچھ لوگ جذباتی اور کچھ قدرے معتدل مزاج کے ہوتے ہیں بعض افراد فطرتاً انتہائی جذباتی واقع ہوتے ہیں اور کسی بھی صورت حال میں اپنے اندر اٹھنے والے غم و غصے کے جذبات کو قابو کرنا ان کے لیے انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایسی شخصیات بھی ہوتی ہیں جو کسی مشکل سے مشکل ترین صورتحال میں بھی جذبات سے نہیں بلکہ صرف دماغ سے کام لیتی ہیں۔

اکثر یہ ہوتا ہے کہ جذباتی لوگ ذرا سی بات پر سیخ پا ہو جاتے ہیں اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں آپے سے باہر ہو جاتے ہیں جس سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

جب یہ دونوں رویے آمنے سامنے آ جائیں تو عین ممکن ہے کہ منفی جذبات رکھنے والا شخص مثبت سوچ رکھنے والے انسان کے اندر موجود روا داری کو بھی اپنے منفی رویہ سے ختم کر دے اور نتیجتا اس طرح عدم برداشت کا وائرس چھوت کی بیماری کی طرح ایک سے دوسرے کے ساتھ لگتے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر تباہ و برباد کر دیتا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں چھوت کی یہ بیماری اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اس کی علامات آپ کو جا بجا نظر آئیں گی۔ ٹیلی ویژن کی اسکرین سے لے کر اصل زندگی کے مناظر تک اور اخبارات کے صفحات سے لے کر برقی صفحات تک جا بجا غیر شائستہ اور اکھڑ انداز گفتگو سے آپ کا واسطہ پڑے گا۔

مذکورہ بالا واقعات ہمارے سماجی رویوں میں در آئی عدم برداشت اور تشدد کی روش کی بھرپور عکاسی کرنے کے لئے کافی ہیں۔

بلا شبہ اخلاقی انحطاط کا یہ عالم، لمحہ فکریہ ہونے کے ساتھ تشویش ناک بھی ہے۔ ہمارے مہذب لوگ ان تمام واقعات پر صحیح، غلط کی تمیز کرنے کی صلاحیت بخوبی رکھتے ہیں اور غلط کو نہ صرف غلط کہتے بلکہ اس کی بھرپور مذمت بھی کرتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب وہ خود کسی ایسی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں تو وہ بھی برداشت کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔

یہ معاشرتی دو عملی کیوں؟ یہ سوال، جواب کا متقاضی ہے۔

ہر معاشرے میں بسنے والے ارکان الگ الگ شخصیات کے مالک ہوتے ہیں۔ بعض افراد فطرتاً انتہائی جذباتی واقع ہوتے ہیں اور کسی بھی صورت حال میں اپنے اندر اٹھنے والے غصے کے جذبات کو قابو کرنا ان کے لیے انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے اس کے برعکس ایسی شخصیات بھی ہوتی ہیں جو کسی مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی جذبات سے نہیں بلکہ صرف اور صرف دماغ سے کام لیتی ہیں۔

شاید ہی کوئی دن ایسا ہو، جب آپ روڈ پر سفر کریں دوران ایسا کوئی جذباتی مظاہرہ نہ دیکھیں۔ ہر آدمی ٹریفک کے قوانین ایک طرف پر رکھ کر آگے نکلنے کی کوشش میں نظر آئے گا، دوسرے کو جگہ دینا گوارا نہیں کرے گا، تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔ ہر کوئی غصہ میں نظر آتا ہے، ایک دوسرے کو گھور کر دیکھنا آستینیں چڑھانا معمول بن گیا ہے۔

عدم برداشت کی ایک وجہ انصاف کی عدم فراہمی ہے اگر فوری انصاف ہو فوری سزائیں ہوں تو شاید ایسے واقعات میں کچھ کمی آ جائے۔

مشتعل ہجوم پر اگر فوری طور پر قابو پا لیا جائے یا معاشرے کے زندہ انسانوں میں کسی کا ضمیر زندہ ہو تو شاید ان واقعات کو رونما ہونے سے روکا جا سکے پر تشدد واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے اس کو نشان عبرت بنایا جائے معمولی جرائم میں ملوث لوگوں کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کرنے کی بجائے اس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اگر مشورہ ہی ہجوم میں سے کوئی دے دے تو بھی پڑھے لکھے مشتعل ہجوم سے بہت سے لوگوں کی جان بچائی جا سکتی ہے۔

ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ ایک معاشرے میں بے حسی اور تشدد اس وقت جنم لیتا ہے جب اس معاشرے میں انصاف کا حصول نا ممکن، تشدد، عدم برداشت اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فرسٹریشنز بڑھ جائیں تو قتل جیسے جرائم مرتکب ہوتے ہیں۔

اگر واقعہ شعب ابی طالب کا جائزہ لیں تو یہ سارا واقعہ صبر و تحمل اور برداشت کا نمونہ ہے اگر ہم خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کی سیرت مبارکہ کا جائزہ لیں تو اس میں بردباری و برداشت کا عملی نمونہ ہے محسن انسانیت، قائد تمدن، امن عالم کے نقیب اعظم حضرت محمدﷺ کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ وہ واحد منبع ہے جس سے عالم اسلام بلکہ ساری دنیا کی زندگی اور انسانی معاشرے کی سعادت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔

آپﷺ کی ذات با برکات پر بے شمار درود و سلام ہوں۔ خاتم النبیین مختار کون و مکاں آقائے دو جہاںﷺ نے اپنے تحمل و برد باری اور بے پایاں شفقت و برداشت سے دنیا کو امن و امان کا خطہ بنا دیا۔ آپﷺ کی تعلیمات عالیہ اور لائے ہوئے نظام میں دنیا کی فلاح و بہبود پوشیدہ ہے۔ اسی پر چل کر ہم تباہی سے بچ سکتے ہیں۔

موجودہ دور میں امن عالم تقریباً بالکل مفقود ہو چکا ہے۔ اخوت و بھائی چارہ، ایثار و قربانی اور تحمل و برداشت کے جذبے مجروح ہو رہے ہیں۔

فلسطین، بوسنیا، لبنان، کشمیر اور دنیا کے دیگر خطوں میں مسلمانوں کا لہو کتنا ارزاں ہے۔ بین الاقوامی دہشت گردی ہو یا فرقہ واریت یا اسلحہ کا مقابلہ سب عدم برداشت کی ہی قبیح ترین شکلیں ہیں۔ قومی سطح پراور بین الاقوامی سطح پر عالمی طاقتوں کی طرف سے ظاہر ہونے والا عدم برداشت کا رجحان لاقانونیت اور انارکی کا سبب بنتا ہے۔ مختلف ممالک میں ان کی عسکری مداخلت و بربریت اور عدم برداشت کی شکل ہے۔

عدم برداشت کے اس رجحان کو ہم تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں روک سکتے ہیں۔

اسلام میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کا کوئی تصور نہیں، دینی تعلیمات سے ہمیں بلا تفریق و امتیاز احترام انسانیت کا درس ملتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں امن و امان کے قیام، ملک ومملکت کے استحکام اور پر امن بقائے باہم کے لیے ضروری ہے کہ تحمل و برداشت، عفو و درگزر، حلم و برد باری، رواداری اوراعتدال پسندی کو فروغ دیا جائے۔ معاشرے سے غربت، جہالت، بے روزگاری اور لا قانونیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے اسوہ نبویﷺ کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔

اللہ پاکستان کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنائے اور پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل