یہ ہفتہ کیسے گزرے گا
حفصہ صدیقی
اک چھوٹی سی لڑائی کس طرح ایک بڑی سرگرمی دریافت کرنے کا سبب بنی۔
میچ کے درمیان اشتہار جب کچھ زیادہ ہی لمبے ہو گئے تو ثوبان نے چینل تبدیل کر دیا۔ دوسری طرف کوئی ڈرامہ آ رہا تھا، رفیدہ صاحبہ تو ڈراموں کی دیوانی تھیں۔ انہوں نے ٹی وی پر نظریں جما دیں، تھوڑی دیر بعد ثوبان نے دو بارہ میچ لگا دیا۔۔۔ کیا ہے ڈرامہ لگاؤ نا۔۔۔ رفیدہ جو اب ڈرامے میں محو ہو چکی تھیں۔ ایک دم تکلیف میں آ گئیں۔ کوئی نہیں میں نے اشتہار کی وجہ سے چینل تبدیل کیا تھا میں نہیں لگاؤں گا ڈرامہ۔۔۔
کیوں، لگاؤ نا۔۔۔ رفیدہ کا اصرار کرنے کا ایک مخصوص انداز تھا۔ میں نہیں لگاؤں گا۔ ثوبان کے لہجے میں سختی آ گئی۔
میں امی سے شکایت کروں گی۔۔۔ امی۔۔۔ امی ۔۔۔ انہوں نے کسی وقفے کے بغیر امی کو آواز دینا شروع کر دی۔
"کیا ہے۔۔۔ کیا بات ہے لڑائی کیوں ہو رہی ہے۔” امی جو کچن میں روٹیاں پکا رہی تھیں، انہوں نے وہیں سے پوچھا۔
"ثوبان کو دیکھیں ڈرامہ نہیں لگا رہا۔”
"بھئی امی۔۔۔ ٹی وی میں نے کھولا تھا۔ میں اپنی مرضی کا چینل لگاؤں گا۔ رفیدہ تم نے ہوم ورک کر لیا۔ میں ابھی چیک کروں گی۔” امی نے کچن سے ہی پوچھا۔
"صرف ریاضی کا رہ گیا ہے۔ ثوبان کو منع کریں نا۔”
یہ کیا تم ثوبان ثوبان کرتی رہتی ہو بڑا بھائی ہے تمہارا۔ بھائی کہا کرو۔ یہ امی کی پرانی عادت تھی، حکومت وقت کی طرح اصل ایشوز کے بجائے غیر ضروری ایشوز اٹھاتی تھیں۔
"میں نہیں کہوں گی بھائی وائی۔ یہ مجھے تنگ کیوں کرتا ہے۔”
"ثوبان یہ تم ہر وقت میچ کیوں دیکھتے رہتے ہو۔۔۔ تمہیں بھی کچھ پڑھنا وڑھنا نہیں ہے”
"میں نے صبح ہی ہوم ورک کر لیا تھا۔ یہ لوگ تو دیر سے سو کر اٹھتے ہیں۔” امی اب روٹی پکا کر ٹی وی لاؤنج میں آ چکی تھیں۔
"ثوبان تم دکھاؤ اپنا ہوم ورک کیا کیا ہے۔ چپکے سے الٹا سیدھا کر کے کاپی بستے میں رکھ لیتے ہو۔ میچ اور کرکٹ سے فرصت ملے تو کچھ کرو۔”
"امی میچ اور کرکٹ ایک ہی تو ہوتے ہیں۔”
زید جو ابھی تک پوری بحث سے لاتعلق تھے انہوں نے ٹکڑا لگایا۔
"میں تو تم سب سے عاجز ہوں۔”
"امی صرف میں اچھی ہوں نا!!” رفیدہ کو اپنے اچھے ہونے کا اس قدر یقین تھا کہ ہر جھگڑے کے بعد اچھے ہونے کی تصدیق کا سرٹیفیکیٹ لینا کبھی نہیں بھولتی تھیں۔
رات میں ابو گھر آئے تو سارا مقدمہ ابو کی عدالت میں پیش ہو گیا۔
"یہ رفیدہ ناں۔۔۔ ۔ بہت ہی چغل خور ہے۔”
ثوبان نے زید کے کان میں سرگوشی کی۔
"دیکھیں دیکھیں ابو ثوبان مجھے گندی بچی کہہ رہا ہے۔”
"میں نے کب کہا ۔۔۔ ؟” اچانک حملے سے ثوبان گھبرا گئے۔
"جی ہاں! ابھی تم نے زید سے کہا تھا۔ ابو میں تو اچھی بچی ہوں نا!!”
"ہاں میری بیٹی بہت اچھی ہے۔۔۔ ۔۔۔ ” یہ کہتے ہوئے ابو کی بھی ہنسی نکل گئی۔ آج تو یہ مقدمہ جلدی ہی نمٹ گیا۔ اگلے دن ابو گھر پہنچے تو اب امی تینوں بچوں کے مقدمے کی فائل تیار کیے بیٹھی تھیں۔
"بھئی مجھ سے نہیں سنبھلتے آپ کے بچے۔۔۔ ہر وقت لڑتے رہتے ہیں اور لڑائی کا موضوع "ٹی وی” ہی ہوتا ہے۔”
اس دن بچے حسب معمول ٹی وی دیکھ رہے تھے اور ابو انٹرنیٹ پر "براؤزنگ” میں مصروف تھے۔
"بھئی کھانا کھا لیں۔ کتنی دیر سے میں نے کھانا لگایا ہوا ہے۔”
ابھی سب کھانے کے لیے بیٹھے ہی تھے کہ ابو نے ایک دھماکہ کیا۔
"کل سے تم لوگوں کا ٹی وی بند۔۔۔ ۔”
"کیوں ابو کیا حکومت نے پابندی لگا دی ہے۔” ثوبان اپنی عمر سے ٹی وی کی وجہ سے کافی اوپر جا چکے تھے۔
ابھی میں نیٹ دیکھ رہا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ ٹی وی کی وجہ سے ۱۸ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بچے دو لاکھ تشدد کے مناظر دیکھ چکے ہوتے ہیں اور وہ ہر سال نو سو گھنٹے ٹی وی دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں۔
"ابو ہم تو نہیں دیکھتے۔۔۔” زید نے فوراً خود کو ان لاکھوں بچوں سے علیحدہ کر لیا۔
” ابو میں تو صرف میچ دیکھتا ہوں۔۔۔ ۔” ثوبان کیوں پیچھے رہتے۔”
"اچھا!!” امی کا اچھا کافی لمبا تھا۔
"میچ نہیں ہو گا تو کارٹون، کارٹون نہیں تو عینک والا جن۔۔۔ ۔۔۔ کچھ نہ کچھ تو آپ لوگوں کی دلچسپی کا آتا ہی رہتا ہے۔”
اور سنیں اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ روزانہ بچے کسی نہ کسی اسکرین، مطلب یہ کمپیوٹر یا ٹی وی یا موبائل پر مصروف ہی رہتے ہیں۔”
"ابو یہ ہمارے بارے میں نہیں ہے۔” ثوبان نے پھر احتجاج کیا۔
"بس میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم تجرباتی طور پر ایک ہفتہ ٹی وی کے بغیر گزاریں گے اور وہ بھی گرمیوں کی چھٹیوں کا پہلا ہفتہ یعنی پیر سے آپ کی گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو رہی ہیں اور پیر سے ٹی وی کے بند کرنے کا ہفتہ شروع ہوگا۔”
"پھر میں گندے کام کروں گا۔۔۔” زید ہمیشہ تخریبی کاروائیوں کی طرف آ جاتے تھے۔
"تو کیا ہم صرف پڑھائی کریں اور کرکٹ کھیلیں گے؟” ثوبان کی پریشانی میں بھی اضافہ ہو گیا۔
"بھئی دیکھو میں تم لوگوں سے ہمیشہ کے لیے ٹی وی چھوڑنے کو نہیں کہہ رہا۔۔ اس کو تم لوگ چھٹیوں کی ایک سرگرمی سمجھ لو۔”
"پھر تو آپ ہمیں کوئی انعام دیں گے۔” زید بغیر لالچ کے کوئی کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔
"ایک صورت ہے انعام کی۔” ابو بولے۔
"وہ کیا؟”
"تم لوگ اس پورے ہفتے ڈائری لکھو۔۔۔ ۔۔ جس کی ڈائری اچھی ہوگی اسے انعام ملے گا۔”
:مگر میں کیسے لکھوں گی؟” رفیدہ کو ابھی ٹھیک سے لکھنا نہیں آیا تھا۔
"تم تو اگر زبان بند کر لو میرا انعام تم ہی لے لینا۔” ثوبان کو رفیدہ کے بولنے سے ہمیشہ تکلیف ہوتی تھی۔
"آپ انعام کیا دیں گے؟” امی کو نئی پریشانی لاحق ہو گئی۔
"آپ ہمیشہ نان ایشوز پر کیوں بات کرتی ہیں۔” امی، ابو کے سرکاری مذاکرات شروع ہو چکے تھے۔
"پہلے آپ لوگ بتائیں آپ راضی ہیں؟”
ابو بچوں کی مرضی کے بغیر کچھ کرنے کے قائل نہیں تھے۔
"مجھے منظور ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔” ثوبان ایک دم جوش میں آ گئے۔
"مجھے بھی۔۔۔ ۔۔۔ ۔” زید کے اندر بھی جوش پیدا ہو گیا تھا۔
"اور مجھے بھی۔۔۔ ۔۔۔ ” رفیدہ ویسے بھی دونوں بھائیوں کے نقش قدم پر چلنے کی حتیٰ المقدور کوشش کرتی تھیں۔ حالانکہ جب ٹی وی بند ہوتا تو وہ دیکھتیں کیسے۔
پیر کا دن چھٹی شروع ہوئے تیسرا اور موسم گرما کی چھٹیوں کا پہلا دن تھا۔ چھٹی والے دن ثوبان صبح ہوم ورک کرتے تھے اس کے بعد وہ بےساختہ ٹی وی کی طرف بڑھے مگر ٹی وی کے اوپر "ایک ہفتہ ٹی وی کے بغیر” کا نوٹس آویزاں تھا۔
"ثوبان تم نے فجر کی نماز پڑھی تھی؟” امی کچن میں ناشتہ بنا رہی تھیں۔ انہوں نے وہی سے پوچھا۔
"جی صبح ابو کے ساتھ پڑھ آیا تھا۔”
"تو قرآن کھول لو۔ میرا خیال ہے جب سے تم نے قرآن مکمل کیا ہے اس کے بعد ناظرہ تو بھول ہی چکے ہو۔”
ثوبان کو وقت گزارنے کی یہ ترکیب پسند آئی۔ ثوبان کے قرآن سے فارغ ہونے تک زید اور رفیدہ بھی جاگ چکے تھے۔
"ثوبان تم سو گئے تھے تو ابو یہ پیپر دے کر گئے تھے۔ ابو کہہ رہے تھے کہ ٹی وی کے بغیر ہفتہ گزارنے کا منصوبہ ہے۔ ثوبان جن کیلئے یہ تصور ہی محال تھا کہ وہ کمپیوٹر اور ٹی وی کے بغیر ایک ہفتہ کیسے گزاریں گے۔” ابو کے دیئے گے منصوبہ سے کچھ ڈھارس بندھی۔
"زید ہم لوگوں کے پاس کیرم بورڈ بھی تھا نا وہ نکالتے ہیں۔” ابو کے دئیے گئے منصوبے میں کچھ دیر بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر انڈور گیم کھیلنا شامل تھا۔ آج پہلی دفعہ ثوبان کو کیرم کھیلنے میں مزہ آ رہا تھا کیونکہ اس وقت وہ کمپیوٹر اور ٹی وی دونوں کے قریب نہ جانے کہا تہیہ کر چکے تھے۔
دوپہر کو کھانا کھا کر مسجد جانے کا وقت ہوتا ہے۔ مسجد سے آنے کے بعد تھوڑی دیر کھیلنا روز ہی کا معمول تھا اس لیے یہ اتنا مشکل وقت نہیں تھا مگر شام کو تو اکثر بچوں کے پروگرام آتے ہیں۔ اب کیا کیا جائے، اس کے لیے ایک دفعہ پھر ابو کا دیا ہوا "پھرا” کام آیا ہے۔ "باغبانی” گھر کے پچھلے حصے میں کچی زمین کبھی لان یا کیاری ہوا کرتی ہو گی مگر اب تو کرکٹ نے اسے واقعی کرکٹ کا میدان بنا دیا تھا۔ ابو اور امی جو بھی سبزیاں اور پھول کے پودے لگاتے وہ کرکٹ کی نذر ہو جاتے تھے۔ ابو کا کہنا تھا کہ اس کیاری کی حالت درست کی جا سکتی ہے۔ زید کو تو اس قسم کے کاموں کا بہت ہی شوق تھا۔ دونوں نے ماضی کے اس لان سے سوکھے پتے اور کاٹھ کباڑ ہٹانا شروع کیا۔ رفیدہ بھی اپنے ساز و سامان کے ساتھ آ موجود ہوئیں۔
کیا ہے تم جاؤ یہاں سے۔۔۔ ثوبان کو اپنے کاموں میں مداخلت بالکل پسند نہیں تھی۔
"میں بھی کام کروں گی، میں سب کام کرتی ہوں۔” رفیدہ نے اپنی تعریف کے ساتھ ضرورت کا احساس دلانے کی کوشش کی۔
"ہاں بڑا کام کرتی ہیں۔۔۔ کیا کرتی ہو تم۔۔۔ ۔”
"میں ابو کو پانی پلاتی ہوں۔”
ثوبان اس وقت تندہی سے کام میں مصروف تھے۔ اس لیے بحث میں پڑے بغیر وہ اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔
شام میں ابو اپنے ساتھ کہانیوں کی ڈھیر ساری کتابیں لائے تھے۔ ثوبان اور زید اب ساری نمازیں مسجد میں پڑھ رہے تھے کیوں کہ نماز کے وقت کوئی اہم کھیل یا کارٹون یا پروگرام نہیں دیکھنا ہوتا تھا۔
سب سے مشکل وقت مغرب کے بعد کا تھا اس وقت تو کمپیوٹر یا ٹی وی دونوں میں سے کوئی ایک ضروری ہوتا تھا، کتابیں بھی پڑھنے میں مزا نہیں آ رہا تھا۔ اچانک ثوبان کو یاد آیا کہ گھر میں کاغذ سے مختلف چیزیں بنانے والی کتاب پڑی ہے۔ اب اس کتاب کی تلاش میں کتابوں کی الماری کی شامت آئی بالآخر کاغذ سے چیزیں بنانے کے فن پر کتاب مل گئی۔
دونوں کے ہاتھ ایک نیا مشغلہ آیا۔ پہلا دوسرا دن گزر گیا مگر تیسرے دن صبح اٹھنے کے بعد ثوبان نے ٹی وی کی طرف رخ کیا مگر ٹی وی پر لگے نوٹس نے ابو سے کیا ہوا وعدہ یاد دلایا۔ تھوڑی دیر کہانی کی کتابیں پڑھنے کے بعد کمپیوٹر گیم کی یاد آئی مگر اس پر بھی ٹی وی والا نوٹس لگا ہوا تھا۔ اس ہفتے میں میں اپنا چھٹیوں کا ہوم ورک مکمل کر لیتا ہوں۔ ثوبان نے دل میں سوچا، بعد میں تو خوب ٹی وی دیکھوں گا اور کمپیوٹر گیم کھیلوں گا، اس خیال کے تحت ثوبان فوراً ہوم ورک لے کر بیٹھ گئے ہوم ورک کرتے ہوئے وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور ظہر کی اذان ہو گئی۔ نماز کے بعد مسجد، مسجد کے بعد تھوڑی دیر کھیل پھر باغبانی، عصر اور مغرب کی نماز، مغرب کی نماز کے بعد تیسرے دن کھانے کے بعد ان کہانی کا بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔ ابو کے مشورے کا خیال آیا یعنی اپنا چھوٹا سا رسالہ بنانے کا، اب کیا تھا اخبار کی ٹوکری خالی کر دی گئی اس میں سے تصاویر لطیفے کہانیاں، خبریں وغیرہ کاٹنا شروع کر دیں۔ دو دن کے اندر ثوبان اور زید کا خوبصورت سا رسالہ تیار تھا۔
یہ ہفتہ جو شروع میں سزا لگ رہا تھا۔ اب ثوبان، زید دونوں کو اس میں مزا آنے لگا تھا۔ ان چند دنوں میں کئی کئی قسم کی سرگرمیاں دریافت ہو چکی تھیں۔ ایک ہفتے کے بعد دونوں نے ابو کو ایک ہفتے کی ڈائری پکڑاتے ہوئے کہا "اب ہم ٹی وی کے بغیر ایک مہینہ گزاریں گے۔”
"لو بھئی یہ پہلے مجرم ہیں جو اپنی سزا میں توسیع کی درخواست کر رہے ہیں۔” امی نے بھی پہلی دفعہ اصل ایشو پر بات کی۔
"مگر تم ایک مہینہ کیوں گزارو گے؟” ابو کو حیرت ہو رہی تھی۔
"اس لیے کہ پیچھے جو ہم کیاری بنا رہے تھے ابھی صرف اس کی زمین نرم ہوئی ہے ہمیں اس میں بیج ڈالنا ہے اور جب کونپل نکل آئے گی تو اس کی دیکھ بھال کرنی ہو گی۔” ثوبان نے بات کا آغاز کیا۔
"اور جو رسالہ ہم نے اخبار کی کہانیوں اور تصویروں کو کاٹ کر بنایا تھا اب ہم خود اپنی کہانیوں اور اپنے ہاتھ کی تصاویر سے تیار کریں گے۔” زید بھی پر جوش انداز میں بولے۔
"اور مجھے ڈھیر ساری کہانیاں پڑھنی ہیں اور آپ کو ہمیں پکنک پر لے جانا ہے۔”
اب دیکھنا ہے ثوبان اور زید کتنے دن ٹی وی نہیں دیکھیں گے۔ آپ بھی ایک ہفتہ ٹی وی کے بغیر گزار کر دیکھیں۔۔۔ ۔۔ چھٹیوں کا۔
٭٭٭
ٹائپنگ : مقدس
پروف ریڈنگ: فہیم اسلم ، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید