FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

زمرد کا خواب

جدون ادیب

زمرد سوات کے ایک دور دراز گاؤں میں اپنے ماں باپ اور بہن مرجان کے ساتھ رہتا تھا۔ ان کا گاؤں ایک پہاڑی درے کے پاس واقع تھا۔ یہاں سے نزدیکی قصبے کا فاصلہ بہت زیادہ تھا۔ وہاں پہنچنے کے لیے چار پانچ گھنٹے کا دشوار راستہ طے کرنا پڑتا تھا اور سوات شہر تک پہنچنے میں بارہ سے چودہ گھنٹے لگ جاتے تھے۔ اس گاؤں میں ضروریات زندگی بہت محدود تھیں۔ بجلی، گیس تو تھی نہیں، پانی بھی نزدیکی چشمے سے بھر کر لانا پڑتا تھا، البتہ یہاں کی زمین زرخیز تھی اور بارشیں بھی خوب ہوتی تھیں۔ اس لیے زمینوں سے فصل اور درختوں سے پھل بڑی مقدار میں حاصل ہوتے تھے۔ کھیتی باڑی اور مویشی پالنا گاؤں والوں کا ذریعہ معاش تھا۔ نزدیکی جنگل سے جلانے کے لیے لکڑیاں مل جاتی تھیں۔ یہاں زندگی کچھ مشکل تھی، مگر گاؤں کے لوگ ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔ وہ سخت جان لوگ تھے اور ہر مشکل کا مقابلہ مردانہ وار کرتے تھے۔

زمرد گاؤں کے دوسرے لوگوں کی طرح فجر کی نماز سے پہلے اٹھ جاتا تھا۔ وہ نماز پڑھ کر مدرسے جا کر سبق پڑھتا، پھر آ کر ناشتا کرتا اور اپنی بکریوں اور گائے کو چرانے لے جاتا۔ دوپہر کو واپس آتا تو کھانا کھا کر کھیتوں میں چلا جاتا اور اپنے بابا کا ہاتھ بٹاتا۔ سہ پہر کو وہ اپنے مویشیوں کو جنگل کی طرف چرانے لے جاتا اور اسی دوران جنگل سے لکڑیاں جمع کرتا۔ وہ واپسی پر لکڑیوں کا ایک بڑا سا گھٹا سر پر اٹھا لاتا تھا۔

اس گاؤں میں صاف آب و ہوا اور شفاف پانی کی وجہ سے بیماریاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اکثر لوگ جڑی بوٹیوں سے ٹھیک ہو جاتے تھے۔ ضرورت پڑنے پر قصبے کی ڈسپنسری سے دوا لاتے، مگر بہت زیادہ طبعیت خراب ہونے کی صورت میں شہر جانا پڑتا تھا۔

ایک دن زمرد شام کو لوٹا تو اس نے ماں کو گھر کے باہر پریشان حالت میں اپنا انتظار کرتے پایا۔ اس نے جلدی سے بکریوں کو سائبان کے نیچے کھڑا کیا، گائے کو باندھا اور ماں کے پاس آیا۔ ماں نے بتایا کہ اس کے بابا کو تیز بخار ہو گیا ہے۔ وہ جا کر اپنے ماموں سے دوا لے آئے۔

زمرد کے ماموں اکثر شہر جاتے رہتے تھے اور وہاں سے کچھ دوائیں لے آتے تھے، جو ضرورت پڑنے پر گاؤں والوں کے کام آتی تھیں۔ زمرد اندر آیا۔ اس کے بابا نڈھال سے نظر آ رہے تھے۔ وہ کئی دن سے بیمار تھے اور دیسی نسخوں سے انھیں افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے بابا کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ ان کا بدن بہت تپ رہا تھا۔ اس نے بابا کے ماتھے کا بوسہ لیا اور تیزی سے گھر سے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد لوٹا تو اس کے ہاتھ میں کچھ گولیاں تھیں، جو اس کے ماموں نے فوری طور پر کھانے کے لیے بھیجی تھیں۔ اندھیرا چھا چکا تھا۔ زمرد کی ماں نے اس کے بابا کو دودھ کے ساتھ گولیاں دیں۔ اس دوران زمرد نے مغرب کی نماز پڑھ لی اور ادھر اس کی ماں نے اس کے لیے اور بیٹی مرجان کے لیے کھانا نکال دیا۔ آج دونوں سے اچھی طرح کھانا نہیں کھایا گیا۔ مرجان بابا کی لاڈلی تھی۔ وہ اپنے بابا کو اس حال میں دیکھ کر سخت افسردہ تھی۔ مرجان چند لقمے کھا کر اٹھ گئی۔ زمرد نے بھی کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس رات زمرد کو بہت دیر سے نیند آئی۔ وہ گہری نیند میں تھا، جب رات کے پچھلے پہر اس کی ماں نے اسے جگا دیا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تو دیکھا کہ اس کے بابا کی طبعیت خراب ہو رہی ہے۔ ایک بار پھر ان کا بدن آگ کی طرح تپ رہا تھا اور وہ تکلیف سے کراہ رہے تھے۔ ماں کی ہمت ختم ہوتی جا رہی تھی اور وہ شوہر کے ماتھے پر بار بار گیلا کپڑا رکھتی تھیں اور پھر رونے لگتی تھیں۔ اس لمحے زمرد نے اپنے آپ کو بہت بے بس محسوس کیا، لیکن پھر وہ اٹھا، چادر اٹھائی، بندوق کندھے پر لگائی۔ درانتی اپنے کالر میں پھنسا کر کمر پر لٹکائی اور ٹارچ اٹھا کر ماں اور بابا کے کمرے میں آ گیا۔ ماں نے اسے حیرت سے دیکھا۔ زمرد آہستہ سے بولا: "اماں! میں قصبے جا رہا ہوں۔ صبح تک وہاں پہنچ جاؤں گا۔ بابا کی دوا لے کر آؤں گا۔”

ماں کو ایک لمحے کے لیے حوصلہ ہوا۔ انھیں اپنے بیٹے پر فخر محسوس ہوا، لیکن پھر وہ فکرمند لہجے میں بولیں: "مگر بیٹے! اتنی رات گئے؟ پھر ڈسپنسری بھی تو آٹھ بجے کھلتی ہے۔ تم فجر پڑھ کر چلے جانا۔”

"نہیں ماں!” زمرد عزم سے بولا: "میں اسی وقت جاؤں گا، تاکہ فجر کے وقت قصبے میں پہنچ جاؤں۔ جتنی جلدی ممکن ہوا، میں دوا لے کر لوٹ آؤں گا۔”

ماں نے کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر زمرد نے ماں کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور سر جھکایا۔ ماں نے ایک گہری سانس لی اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ ساتھ ہی کچھ پڑھ کر پھونکا۔ زمرد نے بابا کی طرف غور سے دیکھا۔ وہ اب سو چکے تھے۔ اس نے بابا کے ماتھے پر ہاتھ رکھا، بابا کے ہاتھوں کو چوما اور ان کے پیروں کو چھو کر تیزی سے باہر نکل آیا۔

گھر سے نکل کر وہ قصبے جانے والے راستے پر پہنچا تو اس نے ٹارچ روشن کر لی۔ اور کچھ دور گیا تھا تو اسے ایک انجانا سا خوف محسوس ہوا۔ اسے لگا کہ کوئی پراسرار طاقت اسے گھر لوٹنے کے لیے کہہ رہی ہے۔ اس نے سر کو جھٹکا اور آگے بڑھ گیا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ اگر اسی رفتار سے چلتا رہا تو فجر کی نماز قصبے کی مسجد میں پڑھ لے گا۔ اس نے سوچا کہ وہ ڈسپنسری کے چوکیدار سے مسجد میں ملاقات کر لے گا، اس سے کہے گا کہ وہ ڈاکٹر سے اس کے بابا کے لیے دوا لا دے۔ اسے یقین تھا کہ چوکیدار اس کی مدد ضرور کرے گا۔ وہ ناہموار راستوں پر قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ٹارچ کی روشنی اپنے اردگرد بھی ڈال لیتا تھا، تاکہ کسی جنگلی جانور یا سانپ وغیرہ سے اچانک سامنا نہ ہو جائے۔ چلتے چلتے ایک بار اس نے ٹارچ کو اپنے دائیں جانب گھمایا تو ذرا نیچے ایک کھائی میں اسے کوئی چیز چمکتی ہوئی نظر آئی۔ اس نے ٹارچ کی روشنی اس چمکتی چیز پر مرکوز کی اور کھائی کے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ ایک لمحے کے لیے اس نے سوچا کہ آگے بڑھ جائے، مگر پھر اسے خیال آیا کہ اس کے پاس ابھی تھوڑا وقت ہے، اس چمک دار چیز کو دیکھ لینا چاہیے۔ یہ سوچ کر وہ احتیاط سے نیچے اترنے لگا۔ اس جگہ پر کانٹے دار جھاڑیاں تھیں۔ اس نے درانتی کی مدد سے راستہ بنایا اور کھائی میں اتر گیا اور چمک دار چیز اٹھا لی۔ وہ سبز رنگ کا پتھر تھا اور گرد سے اٹا ہوا تھا۔ زمرد نے اپنی قمیض سے پتھر کو صاف کیا تو وہ اور چمکنے لگا۔ زمرد کو اندازہ ہو گیا کہ یہ کوئی قیمتی پتھر ہے۔ اس نے پتھر کو اپنی جیب میں ڈالا اور کھائی سے نکل کر دوبارہ اپنے راستے پر پہنچ گیا اور ایک بار پھر تیزی سے قصبے کی طرف روانہ ہو گیا۔

زمرد جب قصبے میں داخل ہوا تو فجر کی اذان ہو رہی تھی۔ اس نے قصبے کی مسجد میں جا کر وضو کیا۔ وہیں اس کی ملاقات ڈسپنسری کے چوکیدار سے ہو گئی۔ زمرد نے اسے اپنے بابا کی حالت بتائی اور اس سے مدد کی درخواست کی۔ چوکیدار نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب بھی مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں۔ نماز پڑھنے کے بعد وہ چوکیدار کے ساتھ مسجد سے باہر آیا تو ڈاکٹر صاحب سے بھی ملاقات ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمدردی سے اس کی بات سنی اور اسے اپنے گھر لے جا کر دوا دے دی۔ ڈاکٹر صاحب نے اصرار کر کے اسے ناشتہ کروایا۔ وہ ناشتا کر کے تیزی سے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہ اب بہت تیزی سے چل رہا تھا۔ اندھیرا ختم ہو گیا تھا، راستہ صاف تھا اور کوئی خطرہ بھی نہیں تھا۔

زمرد تیز رفتار سے چلتا ہوا تین گھنٹے بعد اپنے گاؤں پہنچ گیا۔ جب وہ اپنے گھر جانے والے راستے پر بڑھا تو اسے بہت سارے لوگ اپنے گھر کی جانب جاتے دکھائی دیے۔ زمرد کا ماتھا ٹھنکا اور اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ دوڑتا ہوا اپنے گھر پہنچا تو دیکھا کہ گاؤں کے لوگ وہاں جمع تھے۔ اسے دیکھ کر اس کے ماموں نے اسے گلے لگایا اور بتایا کہ اس کے بابا کا انتقال ہو گیا ہے۔ شدت غم سے اس کا دل پھٹنے لگا۔ وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ماموں کو دیکھتا رہا، پھر وہیں گر کر بے ہوش ہو گیا۔ جب اسے ہوش آیا تو اس کے بابا کا جنازہ اٹھایا جا رہا تھا۔ یہ سب اس کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا۔ وہ پھٹی پھٹی نظروں سے سارا منظر دیکھ رہا تھا اور چپکے چپکے رونے لگتا تھا۔ گاؤں کے لوگ اسے رونے سے منع کرتے اور سمجھاتے جاتے تھے کہ رونے سے مرنے والے کی روح کو تکلیف ہوتی ہے، وہ حوصلہ رکھے، کیوں کہ مرد رویا نہیں کرتے، مگر وہ کیا کہتا، بار بار اس کی آنکھیں امنڈ جاتی تھیں۔ اس نے اپنے بابا کے جنازے کو کاندھا دیا تو اسے لگا کہ بابا کی موت نے اس سے سب کچھ چھین لیا ہے، اس کا بچپن بھی چھن گیا اور اسے وقت سے پہلے بڑا بنا دیا تھا۔

جلد ہی یہ مشکل وقت بھی گزر گیا۔ آخر یہ صدمہ بھلانا پڑا۔ معمولات زندگی پھر رواں دواں ہو گئے۔ بابا کی وفات کے دو ماہ بعد اس کی ماں گھر کی صفائی کر رہی تھی کہ انھیں وہی پتھر نظر آیا، جو زمرد کو کھائی سے ملا تھا۔ زمرد کھیتوں پر تھا۔ اس کے ماموں اس وقت گھر آ گئے۔ زمرد کی ماں نے وہ پتھر اپنے بھائی کو دکھایا تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور وہ بولے: "یہ تو بہت اعلا قسم کا زمرد پتھر ہے۔ یہ کہاں سے آیا؟” زمرد کی ماں سوچتے ہوئے بولیں : "ایک بار زمرد نے بتایا تھا کہ جس رات وہ اپنے بابا کی دوا لینے قصبے گیا تھا، اسے یہ پتھر ایک کھائی سے ملا تھا۔ پھر نہ اسے خیال رہا اور میں دھیان سے پائی۔”

زمرد کے ماموں پر جوش لہجے میں بولے: ” میری بہن! اللہ نے تمہارے سارے دکھ دور کر دیے ہیں۔ یہ اتنا قیمتی پتھر ہے کہ ہم اس کی قیمت کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ تمھاری غربت اب ختم ہو گئی ہے۔ میں شہر سے جوہری کو بلوا کر لے آؤں گا یا یہ پتھر خود شہر لے جاؤں گا۔ مجھے امید ہے کہ اس کی قیمت لاکھوں میں ہو گی یا شاید اس سے بھی زیادہ۔”

زمرد گھر آیا تو اسے اس بات کا پتا چلا۔ ایک عرصے بعد گھر میں خوشی کی گھڑی آئی تھی۔ اس رات زمرد، مرجان اور ان کی ماں آنکھوں میں نئے خواب لے کر سوئے مگر خواب میں انھیں اپنے بابا نظر آئے، جو بیماری کی حالت میں تڑپ رہے تھے۔ مرجان اور زمرد نے بھی خواب میں اپنے بیمار بابا کو دیکھا۔

وہ ایک سوگوار صبح تھی۔ مرجان اور زمرد اپنے بابا کو اور ان کی ماں اپنے شوہر کو خواب میں دیکھ کر ایک بار پھر دکھی تھے۔ وہ خواب میں بھی بیمار نظر آتے تھے۔ زمرد اور اس کی ماں دونوں ایک ہی بات سوچ رہے تھے۔ آخر زمرد دل کی بات زبان پر لے آیا اور بولا: "اماں! اگر گاؤں میں ڈسپنسری ہوتی تو شاید بابا اتنے تکلیف اٹھا کر نہ مرتے!”

"ہاں میرے بچے!” ماں نے اپنے آنسو پونچھے: "خدا سب کے سہاگ سلامت رکھے۔ ان کے بچوں پر باپ کا سایہ قائم رکھے۔ کاش! گاؤں میں کوئی اسپتال ہوتا!”

زمرد بولا:” اماں! میرا دل چاہتا ہے، یہ پتھر بیچ کر جو پیسے ملیں، اس سے ہم گاؤں میں اسپتال بنا دیں۔ ہمارے بابا تو نہیں بچے، دوسروں کے تو محفوظ رہیں گے۔”

"ہاں بیٹے! یہی کرنا چاہیے، تاکہ تمہارے بابا کی روح کو سکون ملے۔”

زمرد کے ماموں نے پہلے تو اس فیصلے کی مخالفت کی، مگر تینوں کے اصرار دیکھ کر ان کی مدد کو تیار ہو گئے۔ ماموں نے بھاگ دوڑ کی۔ ایک فلاحی تنظیم ایک عرصے سے یہاں ڈسپنسری قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی، مگر محدود سرمائے کی وجہ سے رک جاتی تھی۔ ماموں نے ان سے بات کی۔ تنظیم نے کچھ رقم اپنے پاس سے لگانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ زمرد بیچ کر ایک بڑی رقم ملی۔ حکومت سے اسپتال اور سڑکی تعمیر کی منظوری بھی مل گئی۔ گاؤں والوں نے بھی اس کار خیر میں حصہ لیا۔ سب کی کوششوں سے اسپتال کھل گیا۔ جس دن اسپتال کا افتتاح ہوا، اس دن گاؤں والوں اور قرب جوار کے گاؤں والوں کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ سب زمرد اور اس کے گھر والوں کے احسان مند تھے کہ انھوں نے ایثار کیا تھا۔ وہ چاہتے تو اپنے لیے ہر سہولت حاصل کر سکتے تھے، مگر انھوں نے سب فائدے کو ترجیح دی تھی۔ ان کے گھر کو بہت عزت اور وقار حاصل ہوا۔ حکومت نے اسپتال کا نام زمرد کے نام پر رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر زمرد نے درخواست دی کہ اسپتال کا نام اس کی بہن مرجان کے نام پر رکھا جائے اور اس کی درخواست منظور ہو گئی۔ مرجان بابا کی لاڈلی تھی۔ زمرد کو یقین تھا کہ اس فیصلے سے اس کے بابا کی روح کو سکون ملے گا۔

اسپتال کے افتتاح کے دن زمرد کے لیے ایک خوش خبری اور تھی۔ اسے اسپتال کے پیڑ پودوں اور صفائی کے نگراں کی حیثیت سے سرکاری نوکری دے دی گئی تھی۔ وہ اسپتال جو اس کے خوابوں اور قربانی کی یادگار تھا، اسے سجانے اور سنوارنے کی ذمے داری اسے ہی سونپی گئی تھی۔

اس دن کے بعد زمرد کو اپنے بابا کئی بار خواب میں نظر آئے، مگر اب وہ بیمار نظر نہیں آئے۔ وہ خوش و خرم نظر آتے تھے۔ اسپتال سے گاؤں والے قائدہ اٹھاتے تھے اور ایک نہ نظر آنے والے مقام پر ان کے بابا کی خوشی اور مقام میں اضافہ ہو جاتا تھا۔
٭٭٭
ٹائپنگ: مقدس حیات
پروف ریڈنگ  اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید