FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

 

 

فہرست مضامین

یہ اِنسان

                   اور دوسری نظمیں

 

 

مجموعۂ نظم

 

                   ماجد صدیقی

 

 

آنچ

 

میرے دونوں ہاتھوں میں سیماب تھا پہلے

دونوں ہاتھ اک اوک کی صورت

جسے اُٹھائے رکھتے تھے

ہاتھوں میں اِک بُعد ہوا کیا جانوں ؟۔ ۔ ۔ کیسے !!

اب اِک ہاتھ میں

سامنے کے اپنے اِس ہاتھ میں

جو سیماب بچا دیکھوں میں

(وہ سیماب جسے میں سونا کرنا چاہوں )

میری اک اک پور کی بُن سے ٹپکا چاہے

اور میں مہوّس اپنے خارج سے

اُس آنچ کو دھونڈ رہا ہوں

جس سے بچا کھچا پارہ آسانی سے

سونے کا نادر معیار اپنا سکتا ہے

اور جو مرے ضمیر کے نام سے

میرے دل کی اِک اِک تہہ میں پوشیدہ ہے

(سقوط ڈھاکہ کے بعد کا ایک احساس)

٭٭٭

 

 

 

 

میرے گھر کا فرش

 

مرے اجداد نے پکّا کر ڈالا تھا

میں چاہوں بھی

تو اِس کے، اِس پختہ صحن میں

کوئی پودا، کوئی بیج لگا نہیں سکتا

میرے فکر، مرے وجدان کا

کوئی پر تو

میری نظر کے

آنگن میں لہرا نہیں سکتا

میرے نصیب کا اک اک موسم

گزرے برسوں کی زنجیروں میں اُلجھا ہے

پچھلے برس کی بات تو

پھر زرا قصّہ ہے

اب کی بہار بھی

مرا کالر۔ ۔ ۔ میرا گلداں

میرے اپنے گھر کے گلوں سے بیگانہ ہے

اور اب کے بھی

اپنے اس ماحول کی خاطر

میرے پاس

فقط بازار سے

لائے گلوں کا نذرانہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اثاثہ

(اپنے والد محمد ابن علی کی لوح مزار)

 

 

میں ابنِ علی ہوں

محمدؐ سا اسمِ مبارک

مری زندگانی کا عنوان رہا ہے

میں اُمّی تھا لیکن

مراقلب سرچشمۂ آگہی تھا

اثاثہ مرا

ایک جہدِ مسلسل

وفا اور ایثار کی تازگی تھا

جسے میں نے اپنے لہو کی

تپش کا تحرکّ دیا ہے

مرے فکر و وجدان کے آئینے پر

کسی بھی الم کی کدورت نہیں ہے

مری قبر پر فاتحہ پڑھنے والے

ذرا امُڑ کے اُس سمت بھی دیکھ لینا

مرا یہ اثاثہ

مرے خون میں

اب بھی موجود ہے گر

تو میری لحد پر

کسی تحفۂ گل کی

عود اور عنبر کی

واللہ

ہرگز ضرورت نہیں ہے

(۱۵ مئی ۱۹۷۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

اٹھارہ دسمبر ۴۷ء

 

(کے حسن میر کے مستعفی ہونے پر)

 

میں نغمہ ریز تھا

آغاز صبحِ کاذب سے

کہ ڈھل چکی شبِ تاریک و نحس

سر سے مرے

مگروہ نغمۂ جاں

جس کی آرزو ہے مجھے

وہ ایک نغمۂ جاں

جس کی جستجو ہے مجھے

چھپا ہوا ہے کہیں نورِ صبح صادق میں

کرن کرن سے مجھے

جس کی لَے اٹھانا ہے

خراج ملنا ہے جس کو

ابھی ہنر سے مرے

مرے ظہور کی

اُس صبح کا طلوع کہاں

کہ چاروں اور ہے

اک کہر نامرادی کی

بڑی اُداس فضا ہے

جنوں کی وادی کی

شجر شجر ہے نگوں سار، جا بجا تنہا

ردائے کہر میں وہ شہ شجر بھی لپٹا ہے

کہ ایک شاخ پہ جس کی

ہے گھونسلا ہے میرا

خدا کرے کہ اسے یہ مہیب تنہائی

کسی تبر، کسی تیشے سے

کر نہدے دو چار

کہ منکشف ہیں کچھ ایسی ہی

صبح کے آثار

خدا کرے مرا نغمہ نہ ناتمام رہے

خدا کرے میری اُمید کو دوام رہے

٭٭٭

 

 

 

 

اعزاز

 

(بنام ماؤزے تنگ)

 

اپنی حدوں میں

اپنے عہد کی۸ باگیں

اپنے ہاتھ میں لے کر

تو نے پیار کا اِک اِک جذبہ

اپنی زیست کا اِک اِک لمحہ

اپنے فکر کا اِک اِک جوہر

اپنے دیس کے اِک اِک فرد

اور اِک اِک فرد کے

حال اور استقبال کی خاطر

وقف کیا تھا

تو نے قدوقامت کو اپنے

(خاک سے

انسانوں کا رشتہ پختہ کر کے )

مہتاب و مریخ سے بھی آگے

لے جا کر

اس دنیا کے اِک اِک اوج کو

اپنے درود دہلیز پہ

جھکنے پر مجبور کیا ہے ماؤ!

تُو نے زیست کے ہر شعبے کو

آج کے دور کی قوّت

اور توانائی ڈی

لیکن تجھ پھر

سوئے فلک

بڑھنے کے ’’کاج‘‘ میں

انسانوں پر ظلم و تشدّد کا

کوئی الزام نہیں ہے

تیرے نام کسی جانب سے

کوئی بھی دُشنام نہیں ہے

تُو وہ شخص ہے

جس کی موت پہ

تیرے وطن کا اِک اِک باسی

گریاں ہے تو

قابلِ استعجاب نہیں ہے

لُطف کی بات تو یہ ہے ماؤ!

تیری موت پہ، تیرے وطن سے

صدہا میل پہ بیٹھے

مجھ ناچیز کے ہاتھ میں

میرا قلم بھی

سوگ میں تیرے

اپنا سر نیہوڑائے کھڑا ہے

اے تاریخ بتا تو مجھے تو

کون ترا فرزند ہے ایسا

جس کو یہ اعزاز ملا ہے

٭٭٭

 

 

 

اور اگر اِس جانب

 

میرے ذہن میں

اک تصویر ابھرتی ہے

جس کا منظر منظر ایک کہانی ہے

اِک جانب

آندھی کے اُڑیتے آنچل ہیں

چھاجوں اُڑتی دھُول

بگولوں کی صورت

ہر پودے ہر ایک شجر کے

درپے ہے

اور اس وادی کے بجوار ذرا ہٹ کر

کچھ ٹیلے ہیں

بانجھ زمینوں کی صورت

دوسری جانب

دل دل میں اِک آشا ہے

یہ بگڑی رُت اچھی بھی ہو جائے گی

بپھری آندھی، اُڑتی دھُول کے

پہلو سے

نکلے بادل ہر جانب لہرائیں گے

اور وادی کے

سارے پھول، شجرہ، سبزہ

موسم بھر کو پھر تازہ ہو جائیں گے

پھر بھی جانے دل کو کیسا کھٹکا ہے

کانوں سے اِک سرگوشی ٹکراتی ہے

’’اِس وادی کے

پودے، پھول، شجر، سبزہ

اس بپھری آندھی کا لقمہ ٹھہریں گے

وادی بَین کرے گی اپنے جوبن کا

موسم پل پل ہریالی کو ترسے گا

اور اگر اِس جانب

بھٹکا اَبر کوئی

آیا بھی تو ٹیلوں پر ہی برسے گا‘‘

٭٭٭

 

 

 

اور پھر اگلی رات

 

میرا بّچہ

(اپنے ننھے سے پیکر میں

آنے والی کتنی ہی نسلوں کا باوا)

کھیلتے کھیلتے

ٹینکوں اور جہازوں سے

میرے دئیے

کھلونوں کی پروازوں سے

جانے کس فردا کے ڈر سے

آنکھوں کو پھیلاتا ہے اور

مٹھیاں اپنی

زور سے بھینچ کے

دیکھتے دیکھتے

راحت سے یا استعجاب سے

پتھر سا تن جاتا ہے

میں اُس کو جھنجھوڑنے دوڑوں

تو اِس سارے خواب کا خیمہ

جگہ جگہ سے

آنے والے دنوں کے صحن کا

دروازہ بن جاتا ہے

اور پھر اگلی رات

مِرا اندیشہ یونہی

جانے کتنی بار

مری پھیلی آنکھوں میں

اِس منظر کو رہ رہ کر دہراتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پھانس

 

سڑکوں پر پھرتا اک پاگل

اپنے ہاتھوں کو رہ رہ کر لہراتا ہے

فکر و خیال کی تہ میں اٹکی

بیری پھانس کو

اپنے ہونٹوں پر لاتا ہے

جانے وہ کیسی

بے رحم تڑپ تھی جس نے

اس کے مُونس لفظوں کو

اس کی گُدی سے کھینچ لیا ہے

اور اب اُس کے

بے کل جذبے

اُن لفطوں

ٹہنی سے جھڑتے اُن پتّوں کی

اک تازہ ترتیب کی دھُن میں آوارہ میں

جانے کون سا مشفق لمحہ

اُن نوچے لفظوں کو

اُس کی گدی تک لوٹائے گا

جانے کون سا نکھرا موسم اِن جھڑتے پتوں کو

اِک تازہ ترتیب دلائے گا

جانے کون سا دستِ مسیحا

اُس کے فکر و خیال میں اٹکی

پھانس کو آن ہٹائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

پیامِ تعزّیت

 

(یہ نظم ان جذبات و احساسات کا شعری رُوپ ہے جن کا اظہار ماؤزے تنگ کی وفات پر پاکستان کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے کیا گیا تھا)

 

عظیم انسان! تجھ سے فرزند

سینکڑوں کیا ہزاروں برسوں میں

ایک ہی بار پیدا ہوتے ہیں

اور جہاں بھر کورام کرتے

بفیضِ وجدان،

اپنی تاریخ

اپنے ہاتھوں سنوارتے ہیں

عظیم انسان!

تیری عظمت کو ناپنا

سہل تو نہیں ہے

کہ تو وہ انسان ہے

جس نے کاوش کی

برق رفتاریوں سے

تاریح کو سکڑنے پہ

جیسے مجبور کر دیا ہے

عظیم انسان!

تیری کاوش کے

معترف ہیں کوڑوں انساں

کہ تو نے پہلو سے

انقلابِ عظیم ترکے

جنم نہ پایا

اُس انقلابِ عظیم تر کو جنم دیا ہے

وہ انقلابِ خیال افروز

جس کی بنیاد ایک ایسے نظام پر ہے

کہ جس نے دُنیا ہلا کے رکھ دی

عظیم انسان!

تیرا مرنا فنا نہیں ہے

کہ جب تلک اِس جہاں میں سورج کی روشنی ہے

تیرے خیالات کی شعاعیں

جہان و اہلِ جہان کی رہنما رہیں گی

عظیم انسان!

تیری یادوں سے

کیا نہ ہو گی زیادتی یہ

کہ ذکر تیرا

حدوں میں بس چین ہی کی

ہونٹوں کو تمتمائے

بجا ہے سچ ہے

کہ تیری ارض وطن کے

اسی کروڑ انساں

ترے پروں میں سمٹ گئے تھے

مگر نگاہوں میں اہلِ دُنیا کی بھی تو

رُتبہ وہی ہے تیرا

عظیم انسان!

آج مرنے پہ

تیرے نوحہ کناں جہاں ہے

طولع فردا کے بعد لیکن

لبوں پہ اہلِ جہال کے

تیری ثنا کے نغمے رواں رہیں گ

عظیم انسان!

میرا دل بھی

کرڑوں اہلِ وطن کے ہمراہ

تیرے ماتم میں ہے فسردہ

عظیم انسان! ترے وطن میں

بسوئے راہِ عدم

ترے کوچ سے فقط کچھ ہی روز پہلے

زمیں کو جس زلزلے نے دہلا کے رکھ دیا تھا

یہ موت تیری تو

بڑھ کے اُس سے

کہیں بہ شدّت

مہیب تر ایک زلزلہ ہے

عظیم انسان!

اوج کردار ہے

عروجِ صفائے انساں

مگر نشاں تیری عظمتوں کے

کہ پس مناطر میں جن کے

جرأت ہے

کامرانی ہے، حوصلہ ہے

نرالے انداز کے نشاں ہیں

عظیم انساں !

تری تراشیدہ راہِ عظمت

مفادِ انساں کی ترجماں ہے

خلافِ انسان، سامراجی نحوستوں کو

پیامِ عبرت ہے

فتح و نصرت کا اک نشاں ہے

ترا سفر۔ ۔ ۔ کیا کہوں !!

تخیّل تھا

خواب تھا یا کوئی تھا نغمہ

تری وفاؤں کو

میرے اہلِ وطن

سبھی ہیں سلام کرتے

٭٭٭

 

 

 

تیرے خیال

 

جس طرح نغمہ و سرود کی گونج

پہلوئے یار میں لپکتی ہے

باس جیسے فسردہ پھولوں کی

گوشتۂ ذہن میں مہکتی ہے

ٹوٹ کرگل سے برگِ گل جیسے

یار کی سیج پر بکھرتے ہیں

بس یونہی بعدِ وصل تیرے خیال

پیار کی گود میں اترتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

چادر

 

 

اِس بستی کے اِس آنگن سے

اُس آنگن تک

اِک بھرپور شجر کا گہرا سا یہ تھا

ہوتے ہوتے

پھر اِک دن ایسا بھی آیا

ہاتھوں میں بے رحم رُتوں کا

آرا لے کر

برق اور رعد نے اپنا پنا زور دکھایا

اور شجر دو نیم ہوا

اُس آنگن کا حال تو اَب

سورج ہی جانے

اس آنگن میں، موسم کی تندی سے اِس دو نیم شجر سے

اک پتّا بھی جھڑتا ہے تو میرا دامن

دستِ دعا کی صورت

میرے ہاتھوں میں تن جاتا ہے

جیسے اِس دو نیم شجر کی ٹہنی ٹہنی

رنگ اور رس کے روپ میں

شیرِ مادر ہے

جیسے اِس دو نیم شجر کا اِک اِک پتّا

میری تمناؤں کے سر کی چادر ہے

چادر۔ ۔ ۔

جس کا سایہ

میری ماں سے میری بیٹی تک کے

سر پر ہے

چادر جو زینب کی چادر جیسی ہے

چادر جو سر سے اُترے تو

کرب و بلا کے قصے

صدیوں کے آنگن تک

جاتے ہیں

خیر ہو ماجد

یہ کیسے اندیشے ہیں جو

لمحہ لمحہ

تیرے ذہن کی

پرتوں میں لہراتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

چودہری یہ کہتا ہے

 

چوھدری یہ کہتا ہے

مولوی کے بیٹے نے

میرے گھر کے خُوردے سے

کل تلک نمو پائی

اور اب جواں ہو کر

رُستمِ زماں ہو کر

روز میرے کوچے سے

سیم و زر کے نشے میں

جھومتے گزرتا ہے

اُس کو کیا خبر لیکن

میرے اِس ارادے کی

سوچ کے لبادے کی

آج شب سے پہلے ہی

میں اُسی کی نخوت کے

تیز دھار خنجر سے

شق کروں گا تن اُس کا

پل کی پل میں رکھ دوں گا

دھونک کر بدن اُس کا

طرف روپ دے کر میں

سوچ کے لبادے کو

اُس کی اپنی ساعت تھی

کل سے پھر ہر اِک لمحہ

آخرش مرا ہو گا

جو بنا تھا پانی پر

بلبلہ۔ ۔ ۔ پھٹا ہو گا

(سیون ٹیز کے وسط میں لکھی گئی ایک نظم)

٭٭٭

 

 

 

 

حرفِ دُعا

 

میں بَرسوں سے دیکھ رہا ہوں

اپنی دھرتی کی اِک اِک تہ

وقت کے ہاتھوں

اُوپر سے نیچے نیچے سے اُوپر ہوتی

اِس دھَرتی کی پَرتوں سے

سکہ نکلے تو مَیں روتا ہوں

اس دھرتی کی پرتوں سے

تانبا نکلے تو میں روتا ہوں

اس دھرتی کی پرتوں سے

سونا نکلے تو میں روتا ہوں

میری نظر اس سکے پر

اس تانبے، اس سونے پر

جو سکہ ہو، تانبا ہو، سونا ہو، جو ہو

جُر اس کے اپنے عنصر کے

اس کی ذات میں

اور نہ کوئی عنصر جھلکے

لیکن شاید میری

اس خواہش کے کرب کو

اور ابھی کتنے ہی

کالے برسوں کی

پیہم شدّت درپیش رہے گی

جانے کب سیماب صفت

وہ خالص مایہ

میری نظر کے

برسوں سے پیاسے سانچوں میں آ کے ڈھلے گی

وہ مایہ، میں یافت سے جس کی

جانے کب سیماب صفت

وہ خالص مایہ

میری نظر کے

برسوں سے پیاسے سانچوں میں آکے ڈھلے گی

وہ مایہ، میں یافت سے جس کی

آج تلک محروم رہا ہوں

وہ مایہ میں جس کی خاطر

آج تلک اِک حرفِ دعا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

خدا کرے

 

(شہید خدمت ڈاکٹر متین صدیقی کے نام جنہوں نے سیونٹیز کے دوران جنرل ہسپتال راولپنڈی میں ایک مہک وائرس کے مریض کے علاج میں اپنے آپ کو اس بیماری سے متاثر کیا اور اپنے پیشے کی راہ میں جان دے دی)

 

 

متین۔ ۔ ۔ پیشہ ترا

جراحت پئے شفا تھا

متین۔ ۔ ۔ انسانیت کی خدمت

تری محبت کی ابتدا تھا

ترے ارادے کا مدعّا تھا

علیل اور ناتواں لہو کو

ہمیشہ تُو نے

بدن بدن سے نکال

باہر کیا اور اُس سے

شفا کے گوہر

نجانے کتنے گھروں کے

صحنوں پہ تو نے وارے

شفا کی خاطر

جراحتوں کی نزاکتوں کو سمجھنے والے

سلام کرتا ہوں

تیرے احساسِ فرض کو میں

کہ تُو نے اپنے لہو کی قیمت پہ

ایک جاں کو بچانا چاہا

تو اپنی جاں تک نثار کر دی

خدا تری اِس مثالِ یکتا کو

اور ذہنوں میں بھی بسائے

ہماری چاروں طرف جو عیّاریوں کا

اک جال سا بچھا ہے

وہی کہ آ کاس بیل بن کر

پنپتی شاخوں کے درمیاں ہے

کسی کا دستِ شفیق

تیری شہادتِ بے مثال کو

منتہائے صدق و صفا سمجھ کر

خدا کرے

اُن رگوں تلک بھی پہنچنے پائے

کہ جن میں

کتنے طویل برسوں سے

ناتواں اور علیل و فاسد

لہو رواں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

خواب

 

 

میں اک مرغِ سحروں ہوں جس کی

اندیشوں نے

آ نکھ نہ لگنے دی تو میں نے

وقت سے پہلے ہی اعلانِ سحر کر ڈالا

مجھ کو مجرم کہنے والے

میرے اندیشوں کی عمر بھی

دیکھ تو آخر

جس کا اِک اِک پل ہے

صدی صدی پر بھاری

میں نے تو سوتے میں ہی

اک خواب ہے دیکھا

لوگوں کو تو جاگتے میں بھی

جانے کیا کیا

خواب نظر آیا کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دل کہتا ہے

 

 

میں کٹیا کی

جس روزن سے جھانک رہا ہوں

اس سے چمن کا اِک اِک بُوٹا، اِک اک پودا

اک بے رحم خزاں کے ہاتھوں

چپکے چپکے

عریانی اور ویرانی کی زد میں آ کر

گلشن کی زیبائش سے

عاری لگتا ہے

پھر بھی نجانے دل کو

کس رُت کی ڈھارس ہے

دل کہتا ہے

’’دو رافق کے اُس پہلو سے

وقت نئی کروٹ بھی لے گا

برگ اور بار کے جھڑ جانے سے

پودے بوٹے اور شجر

جل بھن نہیں جاتے

باغ کی مٹی بانجھ

نہیں ہو جایا کرتی

تو کیوں وقت کی اُڑتی دھُول کو

سانسوں سانسوں پھانک رہا ہے

تو کا ہے کو مایوسی میں

روزن روزن جھانک رہا ہے ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

کھلونا

 

(یہ نظم اس معصوم بچّی کی وفات کی خبر پڑھ کر لکھی گئی۔ جس کا نام حنا نسیم تھا اور جس کے والد ماجد کو اس بچّی کی بیماری کا واسطہ دے کر بھارت کی بہیمانہ قید سے خصوصی عرضداشت پر رہا کرایا گیا۔ لیکن جب باپ اپنے شہر لاہور پہنچا تو حنام نسیم بند حیات سے رہائی پا چکی تھی۔)

 

 

میرے میٹھے مرے پیارے اُبّو

آپ کیوں روٹھ گئے ہیں مجھ سے

آپ کی اپنی حناؔ ہوں میں تو

آپ کیوں مجھ سے خفا ہیں ابّو

آپ کیوں مجھ سے جدا ہیں ابّو

جتنی ہم جولنیں میری ہیں یہاں

سب کے ابّو ہیں گھروں میں اپنے

گودیوں میں جو اُٹھاتے ہیں اُنہیں

تھپکیوں سے جو سلاتے ہیں اُنہیں

اپنے سینوں سے لگاتے ہیں اُنہیں

اپنے کندھوں پہ سجاتے ہیں اُنہیں

آپ کیوں مجھ سے خفا ہیں ابّو

آپ کیوں رُوٹھ گئے ہیں مجھ سے

آپ کیوں مجھ سے جدا ہیں ابّو

میں کہ بستر سے لگی رہتی ہوں

ٹافیاں بھی مجھے مل جاتی ہیں

اور گُڑیائیں بھی امھّی میری

لا کے دیتی ہے مجھے روز نئی

جھنجھنے، پھول، سکوٹر، ٹینکر

اور میسر ہیں کھلونے بھی سبھی

آپ سے کوئی کھلونا بھی

نہ مانگوں میں تو

آپ کیوں مجھ سے خفا ہیں ابّو

میں نے دیکھا کہ بستر سے لگے

لوگ قبروں میں پہنچ جاتے ہیں

میں بھی بستر سے لگی ہوں ابّو

میں کہ خود ایک کھلونا تھی کبھی

آپ کے ہاتھ میں سجنے والا

آپ کیوں بھول گئے ہیں مجھ کو

آپ کیوں مجھ سے خفا ہیں ابّو

آپ کیوں مجھ سے جُدا ہیں ابّو

کہیں ایسا تو نہیں ہے ابّو

آپ بھی مجھ سا کھلونا بن کر

کسی نادان کے ہاتھوں میں سجے

مجھ کو بہلانے نہیں آ سکتے

میں بھی دیکھو گی نہ اب آپ کی راہ

مں کہ اب خود بھی خفا آپ سے ہوں

میں کہ برسوں سے جُدا آپ سے ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

کتبہ

 

(زبانِ حیات محمد خان شیر پاؤ)

 

 

اے میری سر زمیں !

اے میری جانِ جاں !

تیرے پہلو میں میری لحد کا نشاں

اک نگینہ ہے تیری تواریخ کا

یہ نگینہ گراں تر ہے کوہ نور سے

تختِ طاؤس سے

میرے والاد۔ ۔ ۔ عزم و ارادہ مرا

اس لحد کے نشاں ہی میں محفوظ ہے

اور میرا لہو

جو نچھاور ہوا ہے تیری آن پر

ایک تشنہ دعا کے یہ الفاظ ہیں

’’اے وطن

تیرے آئندہ ادوار کی نگلیاں

جب بھی کوئی انگوٹھی پہننے لگیں

جب بھی رکھیں نشانی کوئی

سینت کر

اس نگینے کی

ایثار کی راہ کے اِس دفینے کی

میری لحد کی

پرکھ سے نہ غافل رہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کیا کہو گے

 

یہ جذبۂ خیر و شر بھی کیا ہے

کہ جب بھی بیدار ہو تو انسان کو

مثلِ خاشاک

اپنے ہمراہ لیتا جائے

بجا ہے وہ ایک کشتِ ویراں تھی

اور مجھے ایک ابرِ باراں سمجھ کے مدّت سے منتظر تھی

کہ میری نَم سے اُسے بھی

آتی رُتوں کی خاطر

ملے گا حصہ کوی تو آخر

وُہ میرے پہلو میں یُوں دبک کر سمٹ رہی تھی

کہ جیسے میں نے

اسے نہ اَب کے بھی

قابلِ الفات جانا

تو اُس کا پیکر

ہوا کی لہروں پہ احتجاجاً بکھر کے

تحلیل ہو چکے گا

وہ اک مجسم سوال سی جب

ادائے نسوانیت کا

سارا سہاگ لے کر

مری نظر میں اُتر چکی تو

نہ جانے کیسے

مری متانت

مہیب وحشت کے ایک طوفاں میں بہہ چکی تھی

میں اس پہ لپکا

میں اس پہ جھپٹا

کہ جیسے فطرت یہی مری تھی

مگر اِسے

کیا کہوں کہ میرا وجود بھی جب

ہوا کی لہروں پہ احتراماً بکھر کے

تحیل ہو رہا تھا

تو میرے اندر کی ایک جنبش نے

ایک اندازِ جارحانہ سے

مجھ کو اُس پُرفتن فضا سے

نئی فضا میں دھکیل ڈالا

مرے خا الوں میں وحشتیں تھیں

مری رگوں میں تمازتیں تھیں

مری نگاہوں میں تھے شرارے

مرے نفس میں دبازتیں تھیں

یہ سارا کچھ ہو چکا تھا لیکن

مرے ہی اندر سے

اس طرح کی بھی

اِک صدا کا وجود ابھرا

کہ وہ زمینیں

جنہیں کھرے آسماں کے نیچے

جگہ ملی ہو

سِسک سِسک کر

اگر کسی ابرِ بامروّت کو کھینچ لائیں

تو اُن دعاؤں کی مستجابی کو

کیا کہو گے

کہ جن کا حاصل یہی وہ لمحہ تھا

جس نے تم کو بھگا دیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

لطف لبوں کا

 

(ایک نظم۔ ۔ ۔ ناہید اختر کے نام)

 

 

طلوعِ صبح بہاراں ہے یا صدا تیری

ہے لفظ لفظ میں سمٹی ہوئی حیا تیری

 

نمودِ فن میں بھی لطفِ حجاب ہے کیا کیا

ہے تیری آنکھ کی مستی عجب ردا تیری

 

ہر ایک گیت قد و رُخ کا آئینہ ہے ترے

ہے حرف حرف میں شامل ادا ادا تیری

 

پھر ہے لطف لبوں کا ترے، لیے ہر سو

یونہی تو والا و شیدا نہیں صبا تیری

 

یہ رہگزر ہے یہ منزل نہیں ترے فن کی

گئی رُتوں کا ترفّع ہے ابتدا تیری

 

یہ لَے کا حُسن ترا ضم نہ ہو سکے گا کہیں

پھبن الگ ہے تری اور چھب جُدا تیری

 

تمام رفعتیں سجدے تجھے کریں آخر

نظر بھی اوج پہ رکھے اگر خُدا تیری

٭٭٭

 

 

 

 

لہُو لہُو

 

(شکیب جلالی مرحوم کے نام)

 

لہو لہو ترا پیرہینِ حیات بھی تھالہو لہو ہے ترے بعد داستان تیری

لہو لہو ہیں تری شوخ دشنگ تحریریں

لہو لہو ترے ہر لفظ کا حسیں پیکر

لہو لہو ہیں تیری بے مثال تصویریں

لہو لہو پسِ ہر حرف ہے زباں تیری

لہو لہو ہے ترے بعد داستاں تیری

یہ ارضِ پاک

کہ جس کے زوالِ پیہم سے

چٹخ کے ٹوٹ گیا تو

مثالِ شیشہ و جام

یہ ارضِ پاک

کہ جس کی پناہ میں آ کر

نہ سایۂ شجر راہ بھی ملا تجھ کو

یہ ارضِ پاک

کہ بے سائباں جسے پا کر

کیا نثار لہو جس پہ تو نے اپنا تمام

چٹخ کے ٹوٹ گیا

تو مثالِ شیشہ و جام

یہ ارضِ پاک

کہ اب بھی امین ہے تیری

مثالِ تخم سمایا ہے جس میں تیرا لہو

یہ ارضِ پاک

فراموش کیا کرے گی تجھے

ترے لہو سے ملے گی کبھی

اسے بھی نمو

مثالِ تخم سمایا ہے جس میں تیرا لہو

شہید اوجِ وطن کس کو در میاں لاؤں

کسے وکیل کروں

میں مقدّمے کا ترے

جو تیری یاد میں دیکھے

بحالِ زاد مجھے

مری اُمید بھی

تجھ تخم زیر خاک سی ہے

وہ دور آئے گا

جس کا ہے انتظار مجھے

مگر یہ دَور بھی

اے کاش اپنے سر سے ٹلے

کسے وکیل کروں

میں مقدّمے کا ترے

نشان حالی و اقبال ہے نہ تمغۂ فیض

شہید اوجِ وطن!

نذر کیا کروں میں تجھے

بنامِ اہلِ سلم

کچھ بھی تو نہیں ہے یہاں

کوئی سند ہے

نا اعزاز ہی ریاضت کا

نہ ان کی زیست نمایاں

نہ قبر ہی کا نشاں

ہے تیری طرح مرے پاس کیا

کہ دوں میں تجھے

شہید اوجِ وطن!

نذر کیا کروں میں تجھے

ندیمؔ ہو کہ وہ ماجدؔ، منیرؔ ہو کہ امامؔ

ہر ایک لب پہ

رواں ہے یہی بیان کھُلا

یہی ہے وردِ زباں عالیؔ و حناؔ کے بھی

ہر ایک اہل قلم ہمزباں اِنہی کا ہے

یہی وظیفۂ جاں ہے محدثہؔ کا بھی

’’لہُو لہُو ہوں سلاخوں سے

سر کو ٹکرا کر

شکیبؔ بابِ قفس

کیا ہوں کس آن کھلا‘‘

ہر ایک لب پہ رواں ہے

یہی بیان کھلا

(۱۹۶۷ء کا ایک احساس)

(احمد ندیم قاسمی، راقم، منو بھائی، اختر امام رضوی)

٭٭٭

 

 

 

 

مبارک باد

 

(برادرم مسعود الحسن بھٹی کے، ایم این اے، ہونے پر)

 

متاعِ درد یہ ذوقِ سفر مبارک ہو

طویل شب کی شگفتہ سحر مبارک ہو

 

ہُوا ہے جو بھی وہ صدقہ ترے ریاض کا ہے

کلاہ جس پہ سجی ہے وہ سر مبارک ہو

 

ہر ایک بُن میں مہکتا ہے جن کی خوں تیرا

یہ رُت یہ رنگ یہ لطف شجر مبارک ہو

 

نئی اُڑان ہو بے مثل اس فصا میں تری

چمن میں تازگیِ بال و پر مبارک ہو

 

یہ ضو دلائی ہے ظلمتے بطن سے جس نے

گہر بکھیرتی وہ چشمِ تر مبارک ہو

 

خلافِ ظلم رہیں تیز دھڑکنیں دل کی

یہ رختِ شوق یہ تاب نظر مبارک ہو

 

یہ ذکر یار یہ فکر و نظر کا سرمایہ

تمہیں بھی ماجد بے سیم و زر مبارک ہو

٭٭٭

 

 

 

 

معیار

 

دیکھ مری ماں

باپ کی شفقت سے

محروم تار بچّہ میں

تیرے لاڈ سے بگرا بچّہ

جو کچھ کھاؤں جو کچھ پہنوں

وہ سارا کچھ

اب میری اک کمزوری ہے

اس کھاجے، اس پہناوے کو

تو نے جو معیار دیا ہے اُس معیار سے میں اب

نیچے آ نہیں سکتا

تو چاہے چکّی پیسے یا چرخہ کاتے

لوگوں کے برتن مانجھے

یا خاک اُڑائے

یا خیرات اورقرض کے سِکّے

اپنے دامن میں بھر لائے

مرے لباس کی

شکن شکن ابھری ہی رہے گی

تیرا ما تھا چاہے شکن شکن ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

میرا گھر

 

(اواخر ۵۷ء کی ایک نظم)

 

وہ چوبارہ

یہ چوبارہ

چاروں جانب

چوبارے ہی چوبارے ہیں

اور مرا گھر

جس کی چھت بھی ناپختہ ہے

پل پل جیسے میرا بَیری بنتا جائے

چوباروں میں گھِرتا جائے

میرا گھر

کھٹمل، جھینگر، مچھّرہیں جس میں

میرا گھر۔ ۔ ۔ جس کی دیواریں

ہر موسم، ہر رُت کی سیم سے

کھُرتی جاویں

میری رُوح کو

پنجرے کے پنچھی کی صورت

روز بروز

نئی ایک قید میں پھانس رہا ہے

میں سورج کے چہرے تک کو ترس گیا ہوں

اور اگر بولے سے سورج

میرے گھر میں جھانک بھی لے تو

دیکھتے دیکھتے۔ ۔ ۔ میرے پڑوسی

راتوں رات۔ ۔ ۔ نیا چبارہ

اُس جانب بنوا دیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ناتمام

 

 

دو ہی بار تجھے میں نے

اک راہ پہ آتے دیکھا تھا

تو مجھ کو پہچان سکے گی

مشکل ہے یہ بات

تو چندا کی چاندنی ہے

اور میں ہوں کالی رات

٭٭٭

 

 

 

 

نہیں نہیں

 

 

چمن میں جو بھی شجر سرفراز ہوتا ہے

ہوا کا ہاتھ ہو یا برق ورعد کا ہو تبر

اُسی شجر کی بن و بیخ سے الجھتا ہے

فرازِ کوہ بھی

رہتا ہے سرگراں اُس سے

اُسی کو سبزۂ رہ بھی عدو سمجھتا ہے

جو سربلند ہے

پستی کو کد اُسی سے ہے

مگر نشیب سے جس کو بھی

اَوج ملتا ہے

وہ چاہتا ہے

کہ ہر پست سرفراز رہے

وہ چاہتا ہے کہ

ہر ناتواں قوی ہو جائے

وہ چاہتا ہے کہ

کالر پہ آسماں کے سجے

ہر ایک پھول

سرِ شاخ جو بھی کھلتا ہے

کچھ اور ہی

مگر آداب ہیں گلستاں کے

کچھ اور ہی

مگر اندازِ اِس فضا کے ہیں

نموملی ہے سدا دستِ زور آور کو

قلم ہوئے ہیں وہی ہاتھ

جو دُعا کے ہیں

نہیں نہیں مگر اِس سے تو

کچھ نہیں ہوتا

وہی شجر کہ چڑھا ہے

جو اپنے اوج کی بھینٹ

اُسی کی راکھ ہے

وہ تخم جس کے پہلو سے

ہزارہا شجرِ سایہ دار نکلے گا

ہزارہار شجرِ سرفراز پھوٹے گا

ہزارہا شجرِ تاجدار نکلے گا

وہ جس کی موت پہ

ستّر کروڑ دِل دھڑکے

ہیں جس کے سوگ میں تر

اِس سے بھی سوا آنکھیں

احاطۂ چمنِ حق میں اُس شجر کا بدل

یہیں کہیں سے

گلستاں کے ہاتھ آئے گا

ہوا غروب افق میں

جو آفتاب امشب

وہ آفتاب نئی صبح ساتھ لائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

یاور کے نام

 

(دوسرے مارشل لاء سے پہلے لکھی گئی ایک نظم)

 

 

مرے ننھے بچّے

تری گدگدی سے

مری مسکراہٹ نہیں لوٹ سکتی

میں پتھر نہیں ہوں

مگر میری آنکھیں

کسی سخت سے سخت تر کانچ میں منقلب ہو چکی ہیں

مری خامشی عہد کی خامشی ہے

کہ یہ کچھ دنوں ہی کا قصّہ نہیں ہے

مری زندگی کے چہل سال

شاہد اسی بات کے ہیں

کہ اس سرزمیں پر

مرے خواب، میرے قیافے

مری آرزوئیں

سبھی دمبدم ریزہ ریزہ ہوئے ہیں

مرے ننھے بچّے !

یہ باتیں تو بالا ہیں تیری سمجھ سے

مگر کیا کروں میں

کہ ضبط سخن بھی تو بس میں نہیں ہے

مجھے یاد پڑتا ہے

جب بھی میں تجھی سا کھلونا کبھی

اپنے ماں با کا تھا

تو اسکول جاتے ہوئے میرا بستہ

مہاجن مرے گاؤں کا

چھین لیتا تھا مجھ سے

وہ کہتا تھا

’’لڑکے !‘‘

ترا باپ مسلم ہے

اور مسلموں کا نصیبہ ہے

مقروض رہنا

یہ باتیں تو بالا ہیں تیری سمجھ سے

مگر جان لے تو

کہ مقروض لوگوں کے بچّوں کو

اِس آرزو کا کوئی حق نہیں ہے

کہ وہ علم سی قیمتی چیز کا

خواب دیکھیں

اور اس خواب کو پورا کرنے میں

ماں باپ کو اور مقروض کر دیں

مرے ننھے بچّے !

یہ سب کچھ ہوا پر

مرا باپ مجھ کو

پڑھانے سے ہرگز نہ تھا باز آیا

یہاں تک کہ اب میں

ترا باپ

صاحب جنوں، صاحبِ علم

اہل ہنر ہوں

مگر وائے قسمت

کہ یہ ظاہری رتبۂ فضل ہی

میری منزل نہیں تھا

مرے ننھے بچّے !

جواں ہو کے جب تُو

انہی غیر لفظوں سے مانوس ہو گا

تو تجھ پر کھلے گا

کہ میری یہ باتیں

مری وارداتیں

مرا یہ تخاطب

مرا یہ تلاطم

مری صَوت، میری صدا

تیری جاگیر ہو گی

مرے ننھے بچّے !

مجھے اس امر کا بھی پختہ یقیں ہے

کہ جب فکرِ بالغ تجھے مل چکے گی

تو تیری انا

اپنے ابّو کی صورت نہ زنجیر ہو گی

مرے حرف تیرے گلے کا

وہ تعویذ ہوں گے

کہ میری ریاضت کی

چھاپ جن پر

یہ الفاظ

جن کی وساطت سے

میں اپنے جذبات

اپنے خیالات

تیرے لئے

تیری بہنوں

ترے بھائی کے واسطے

اور تیرے وطن کے

ہزاروں کروڑوں ہی افراد کے

نام پر

مدتوں سے سپرد قلم کر رہا ہوں

یہ الفاظ جن کا احاطہ نہیں ہے

یہ الفاظ جو

میرے انفاس کا آئنہ ہیں

یہ الفاظ جو میری جاں

میری روحِ رواں ہیں

یہ الفاظ جو اس قدر اَن گنت ہیں

کہ تفصیل میں اِن کی

جاؤں تو شاید

تجھے دل کی اک بات بھی کہہ نہ پاؤں

مرے ننھے بچّے !

مجھے جو بھی کچھ تجھ سے کہنا ہے

بس اس قدر ہے

کہ بعدِ چہل سال بھی میں

اگر مضمحل ہوں

تو اِس کا سبب

میری ارض وطن کی وہی نصیبی ہے

جس سے مرا آج تک واسطہ ہے

خُدا تجھ کو

اور تیرے ہم عہد لوگوں کو

ایس نہ پھر دن کھائے

کہ میں نے تو اب تک

تمّنا کے ایلبم میں جو کچھ سجایا ہے

سارے کا سارا ہی

اِک عکسِ صحرا

مرقّع سرابوں کا

نقشِ جراحت ہے

نوحہ مرے اپنے ماحول کا ہے

کہ بچپن میں جب

آنکھ میری کھلی تو

غلامی کا ٹیکہ

جبیں پر مری تھا

غلامی کہ جس کی

نحوست کے سائے میں

قلب و جگر

ذہن و ادراک

ہمّت

بصیرت

حمیّت

سبھی خوبیاں

ایک حبسِ مسلسل میں

پروان چڑھتی ہیں

اور سبزۂ زیر سنگ گراں کی طرح

بندگی، بے کسی اور بے چارگی کی فضاؤں میں

دم توڑ دیتی ہیں اکثر

مجھے یاد پڑتا ہے

جب میری آنکھوں میں

اک روشنی سی دمکنے لگی تھی

تو میں نے یہ دیکھا

کہ صدیوں سے

ترتیب پاتے ہوئے

میرے پیکر میں

اک تازگی

ایک آسودگی

ایک رم

اک لپک

دیکھتے دیکھتے جیسے در آئے ہیں

میں نے اک دن اچانک ہی دیکھا

کہ آنگن میں میری تمنّاؤں کے

آسماں سے ستارے، مہ و مہر

نور اور راحت کے تحفے سنبھالے

بہ لطف و کرم

جیسے یکبارگی ہی اُتر آئے ہیں

مرے ننھے بچّے !

یہ وہ دن تھا جب میری ارض وطن

سامراجی لٹیروں کے چُنگل سے

محبوس شاہیں کی صورت لپک کر

سرِ شاخِ لطف بقا

مسکرانے لگی تھی

یہ وہ دن تھا جب میری ارضِ وطن

ایک آزاد خطّے کی صُورت میں

زیرِ فلک جگمگانے لگی تھی

مجھے یاد پڑتا ہے

جب میں

جوانی کے شہ زور زینے پہ

چڑھنے لگا تھا

تو مجھ میں

مہینوال کی

اپنے دھیدو کی

مرزے کی

ساری توانائیاں

ساری طراریاں

ساری بیتابیاں

مجتمع تھیں

مرے ابتدائی سبھی گیت

رانجھے کی مُرلی کی تانوں سے ہرگز نہ کم تھے

مگر جب اٹھاون میں

میری زمیں

مغویہ لڑکیوں کی طرح

اہل دُنیا کی تنقیص کا

اک نشانہ بنی

اور مرے ہم وطن

ایک دیوالیے باپ کے

ننگ و ناموس سے

عاق بیٹوں کی صورت

گنہگار ٹھہرے

ہاں اسی خاک اولیٰ کے

زخموں کو گننے لگا تھا

نمِ اشک سے

اپنی غمناک آنکھوں کے پھیلے ہوئے اوک ’’مِننے ‘‘ لگا تھا

مرے ننھے بچّے !

وہ دن اور اب یہ کڑے پل

کہ میں جن میں

تجھ سے مخاطب ہوں

میرے شب و روز

صبحیں، مسائیں

اسی ایک چلے میں ہی کٹ رہی ہیں

کہ جب تو جواں ہو

تو میری جوانی کا سایہ تلک بھی

نہ تیری جوانی کے آنگن میں پہنچے

مرے ننھے بچّے !

تجھے کیا بتاؤں

کہ ارضِ وطن کے تقدس، تفاخر

فروغ اور بقا کی تمّنا میں، میں نے

نہ کس کس کو اپنا خداوند سمجھا

پیمبر نہ کس کس کو

اہلِ وطن کی مسرت کا جانا

نہ کس کس کو

اپنے خیالوں میں رُتبہ دیا خضر جیسا

مرے ننھے بچّے !

تجھے جب وطن کی تواریخ کا علم ہو گا

تو میری کتابوں میں

کچھ ایسے ابواب بھی

تیرے نوٹس میں آئیں گے

جو میری اندھی تمناؤں کا

ایک حاصل ہیں

میری وہ اولاد ہیں

جن کو میں آج سے

اس لئے عاق کرنے پہ آیا

کہ میری نگاہِ رسا

آخرش

ایک والا و شیدا

وفا کیش انسان ہی کی نظر تھی

مرے ننّھے بچّے !

اٹھاون سے اب تک

مرے بیس سالوں کی تاریخ

میرے وطن کی وہ تاریخ ہے

میرے وطن کی وہ تاریخ ہے

؁جس کے قصّے

کسی ٹوٹے پھوٹے ہوئے

آئینے کا تصور ہیں

فکر اور وجدان کی انگلیوں میں

اترتی ہوئی کرچیاں ہیں

اٹھاون سے اب تک کی تاریخ کے

جانے کتنے ورق ہیں

کہ جن کی سیاہی سے

میری قیادت کا مکرور یا منعکس ہے

یہ باسٹھ کا سن ہے

کہ پہلو میں جس کے

نصب چھتر ہے

ایک آمر کی گنجلک انا کا

کہ جن کی سیاہی سے

میری قیات کا مکرور یا منعکس ہے

یہ باسٹھ کا سن ہے

کہ پہلو میں جس کے

نصب چھتر ہے

ایک آمر کی گنجلک انا کا

اسی چھتر کے زیر سایہ

مرے دیس کی بیخ و بن

میرے جمہوری کی اپنی رائے کا پرچم

کہ پہلے ہی جو سرنگوں تھا

نُچا اور پھٹا

ریزہ ریزہ۔ ۔ ۔ پڑا ہے

اور اس کی جگہ

دستِ جمہور یں۔ ۔ ۔ جو کہ شل ہے

فقط ایک ہی فرد کی آرزوؤں کا ضامن

بنامِ بقا

ایک دسور تازہ

کھلونوں کی صورت تھمایا گیا ہے

ـ(وہ باسٹھ تھا اور اب

یہ سڑسٹھ کا سن ہے

کہ جس کی حدوں میں

مری ارض کے محسنوں کو

سرِ عام نیچا دکھایا گیا ہے )

یہ پینسٹھ ہے اک اور سالِ خجستہ؟

کہ جس کی رگوں میں

بنامِ ظفر

بے سروپاسی نصرت کا

بے نام سم میں بجھا

ایک افیونی ٹیکہ لگایا گیا ہے

یہ پینسٹھ کا سن ہے

کہ جس کی حدوں میں

پڑے رن کا مقصد تو

جانے خدا ہی

مگر جو بھی کچھ

میرے جمہور کے

ناتواں بازوؤں نے

بزورِ ارادہ کیا۔ ۔ ۔ کر دکھایا

وہ سارا ہی کچھ

ایک آمر کی اپنی بقا کے لئے

بھاڑ میں جھنک چکا ہے

یہ پینسٹھ سے آگے کی سرحد ہے

جس کے کناروں پہ

آمر بہ آمر نیا سلسلہ ہے

تعیّش

تفاخر

تجاہل کی اک اور طرفہ فضا ہے

مگر اب کہ

اِس کھیل کو ایک عرصہ ہوا ہے

نگاہوں سے لے کر

یہ اذہان ماندہ

نئی اک حرارت کا پرچم کھلا ہے

مرے اس وطن کا

مرے اس بدن کا

رُوأں ایک اک سنسنانے لگا ہے

برسوں کی سوزش سے

ترتیب پاتا ہوا

اک الاؤ جلا ہے

الاؤ۔ ۔ ۔ کہ جو مجتمع ہو کے

سڑسٹھ سے لے کر

انہتر کے عرصے پہ

یوں تن گیا ہے

شجر جس طرح کوئی

آکاس بیلوں میں گھرنے لگا ہو

مگر وہ وراثت

زمینِ وطن کی شکستہ قیادت

نئے ایک آمر کے ہاتھوں میں

باوصفِ شور و شغب جا چکی ہے

زبانوں کا لاوا دبکنے لگا ہے

نگاہوں کا غیظ و غضب تھم گیا ہے

زمینِ وطن جیسے سُن ہو گئی ہے

صدائے طلب پھر کہیں کھو گئی ہے

انہتر سے آگے اکہتر تلک کا

عجب فاصلہ ہے

کہ وہ تاج جس کی وراثت کا حق

جب اسی مک و ملت کے

حق ناشناسوں سے

چھننے لگا ہے

تو سفّاک ٹولے کے رہبر نے

اپنے تحفّظ کو

حرص و ہوا کی اسیری میں گھر کے

مرایہ بدن

میرا پیار وطن

اپنی تحریص و نخوت کے آرے سے

اک آنِ واحد میں شق کر دیا ہے

دسمبر اکہتر کے یہ دن

مری ساری تاریخ کا

ایک باب سیہ ہیں

بغاوت اگر ایک پہلو سے

مبنی بحق ہے

تو ہمراہ اس کے برابر کی

سازش ہے

مکروریا ہے

مرے اپنے گھر ہی میں

میرے بڑوں کی

حماقت،

ہوا و ہوس

عاقبت نا اندیشی سے

وہ رن پڑا ہے

کہ بہرِ تحفظ

عوض نان نفقے کے

باہر سے مانگے کے

باہر سے مانگے کا

اک ایک ہتھیار

میریہی پیاروں کے

مجروح سینوں پہ

چلنے لگا ہے

دھواں

گڑ گڑاہٹ

دنا دن کڑکتی ہوئی

میرے ہی پیاروں کے

مجروح سینوں پہ

چلنے لگا ہے

دھواں

گڑ گڑاہٹ

دنا دن کڑکتی ہوئی

چیختی۔ ۔ ۔ بین کرتی فضائیں ہیں

آہ بُکا ہے

مرے ہاتھ ہی

میرے اپنے لہو میں

اترنے لگے ہیں

مرے اپنے بھائی

مری اپنی ماؤں

مری اپنی بہنوں کے سر کی ردائیں

اڑانے لگے ہیں

مرا جسم اک بھر بھری خاک بن کر

بکھرنے لگا ہے

اگر ایک جانب

سرِ عام میرے بدن سے

مرا حون بہایا گیا ہے

تو اُس سمت

مجھ کو ہی میدان میں لا کر

خُدا جانے کتنی ہی قرنوں کا حاصل

مری آبروؤں کا

میری انا کا

فراز اشنا سر جھکایا گیا ہے

مری خاک کی سرحدوں کی نگہدار

قوّت کے سینے میں

اُترے حلف کا علم

خاک و حوں میں ملایا گیا ہے

ادھر اک نیا دور ہے

جو افق سے ابھرنے لگا ہے

معیشت کے صنعت کے نعرے

سماجی مساوات کے غلغلے ہیں

نیا اک علم ہے

کہ جمہور کے دستِ محروم ہیں

جو سجایا گیا ہے

مرے دیس کا ایک اک فرد

اک منتظر رُت کی جانب سے

سونپے گئے

سارے دعوؤں کے

وعدوں کے بنیر

اٹھائے کھڑا ہے

اکہترکی اس سمت کا

ایک پُرسحر منظر کھلا ہے

ہر اک شخص

شورِ قیامت سے باہر نکل کر

محلاتِ عالی پہ نظریں جمائے

یہی سوچتا ہے

کہ یہ دَور جو آ چکا ہے

بڑی مدّتوں بعد

لایا گیا دور یہ

سارے جمہور کا ہے

بڑوں اور چھوٹوں میں

مظلوم و ظالم میں

مجبور و جابر میں

صدیفوں سے جو فرق

یکسانیت سے مروّج چلا آ رہا ہے

وہ فرق اب کسی طور بھی

اپنے مابین رائج نہیں رہ سکے گا

مگر وہ طلسمی محلات

جن میں پہنچ کر

ہر اک صاحب درد

اپنے بدن کے لبادے کو

اک کینچلی جانتا ہے

نئے دور کے سب تقاضوں کو بھی

اپنے آداب میں

ڈھالنے لگ گئے ہیں

یہاں تک کہ

خاموشیوں کے لبوں پر

یہی اک صدا ہے

’’یہ کیا ہو گیا ہے ‘‘

کہ جو کل تلک ناروا تھا

وہی اب روا ہے

قیادت کہ جو سارے جمہور کی

مادرِ مہرباں ہے

اسیر تغافل ہوئی جا رہی ہے

جو اولاد کو ناسمجھ اور انجان ٹھہرا کے

اس کے لبوں میں

وہی چوسنی دے کے

جو سالہا سال سے

اس کا مقدرور ٹھہری

کہیں کھو گئی ہے

قیادت کہ جو سارے جمہور کی

مادرِ مہرباں ہے

فقط اپنے ذاتی تحفّظ

بقا،

تمکنت،

اورمحلات کی ہو گئی ہے

مگر وقت جو

سحت بے رحم منصف ہے

کب چُوکتا ہے

مرے ننھے بچّے !

زرا دی یکھ میری زباں

میرا حرفِ رواں

کیوں ٹھٹکنے لگا ہے

ذرا دیکھ

باہر گلی میں عجب شور سا ہے

یہ آواز کیا ہے ؟

کہیں پتھروں، اینٹ روڑوں کو

اعجازِ دوراں کے ہاتھوں

زباں تو نہیں مل گئی ہے

ذرا دیکھ

یہ وقت ہی تو نہیں ہے

کہ جو بھولے بسرے ہوئے

کل کی باتوں کو دہرا رہا ہے

یہ کیا ماجرا ہے ؟

یہ گولوں کی گھمگار کیسی ہے ؟

دستِ ہوا میں یہ کیا زہر سا ہے

کہ میں تو کہیں دُور کھویا ہوں

پر میری آنکھوں میں آنسو ہیں

میرا گلا جیسے پھٹنے لگا ہے

مرے ننّھے بچّے !

تو معصوم ہے

میں تجھے کیا بتاؤں

مری مصلحت کی زباں

فہم سے تیرے بالا بھی ہو تو

مجھے معذرت کا کوئی حق نہیں ہے

میں چُپ ہوں

مری خاموشی عہد کی خامشی ہے

مرے ننّھے بچّے !

تو کا ہے کو ضد سے نہیں باز آتا

مرے ننّھے بچّے !

تری گدگدی سے

مری مسکراہٹ نہیں لوٹ سکتی

٭٭٭

 

 

یہ انسان

 

تو کہ ایک ایک تار نظر سے فروزاں ہے میرے خدا

تو کہ خاموش سانسوں کے سازوں کے پردوں کے

ایک ایک ریشے میں جلوہ نُما ہے

تو کہپ ایک ایک دھڑکن کے

حسنِ تناسب کی جاں

موسموں کی زباں

ذرّے ذرّے میں پوشیدہ

سرِّ نہاں ہے

تو کہ جس کی رضا سے مرے ہاتھ، میری زباں

میری آنکھوں کی یہ پُتلیاں

دشت در دشت لمبے سفر پہ

مرے سر پہ سایہ کناں ہیں

توہ ادراک و وجدان کی

سر زمیں کا مکیں

میرے ہر لحظہ بیدار تخمِ یقیں کا

خدا ہے

تو کہ میرے ضمیرِ درخشندہ کا

چشمہِ مہر ہے

نقطۂ ابتدا ہے

تو کہ میری نظر سے

ہر اک چیز کو دیکھتا ہے

تو کہ پل پل مرے منہ سے جھڑتی صدا کی ادا ہے

تو کہ میرے لبوں کے

میاں بولتا ہے

تو کہ منصور کے بعد

ہر آشنا کی زباں کے تلے

حرفِ بے تاب بن کر رُکا ہے

تو کہ شوخ اور شنگ۔ ۔ ۔ اور

سنجیدہ افکار کے پیکرِ دل نشیں پر

کہیں جھلملاتی کرن ہے

کہیں جھلملاتی ردا ہے

کہیں نُور کا ایک ہالہ

کہیں روشنی کا تنا سائباں ہے

تو کہ دستِ صبا میں

گلو در گلو حسنِ ترتیب پائی

صدا کا نشاں ہے

تو کہ دستِ ہنرمند کی

جنبشِ آخری کا مرقع ہے

مرغ اور ماہی کی پرواز و جنبش کا اک ولولہ ہے

گردش مہر و مہ کے توازن پہ

قادر ہے

خوشبو کو شاحوں میں

شاخوں کو خوشبو میں

نِت گُوندھتا ہے

تو کہ کلیوں کے ہونٹوں کی

دھیمی کھنک

تخمِ زیرِ زمیں کی چٹک ہے

تو کیہ ابرِ رواں سے اُتر کر

صدف کے دہن سے جھلکتی ہوئی رقص کرتی ہوئی

جھلملاتی دمک ہے

تو کہ ہر چشمِ بینا پہ مُنکشف بھی مگر لاپتہ ہے

تو کہ میری نظر، چشمِ تر، فکر و وجدان

میری زبان و سماعت کی ایک ایک بُن میں

رچا ذائقہ ہے

تجھ سے میں اپنا احوال کہنے کو

کیوں مضطرب ہوں

تو کہ ہر بھید ہر راز ہر بات کو

جانتا ہے

میں کہ اک بلبلہ ہوں

پھٹوں بھی تو پھٹنے کا حق

تو نے مجھ کو دیا ہے

جانتا ہوں کہ تجھ سے شکایت مری

میری بے دانشی ہے صریحاً خطا ہے

پر یہ تیرا خطاکار

میں کہ اک بلبلہ ہوں

پھٹوں بھی تو پھٹنے کا حق

تو نے مجھ کو دیا ہے

جانتا ہوں کہ تجھ سے شکایت مری

میری بے دانشی ہے صریحاً خطا ہے

پر یہ تیرا خطاکار

جس تُند اور تیز لاوے کے آگے کھڑا ہے

اس کے آگے وجود اس کا

تنور کے منبہ میں اک قطرۂ آب ہیک

تیری تخلیق کی اِک اکائی ہے جو

نقش فریاد کا ہے

تجھ سے باعجزو با تمکنت پوچھتا ہے

تو کہ میری نگاہوں کی

ایک ایک تہ میں بسا ہے

میں کہ تیری رضا سے

ہوا اور پانی

اناج اور آتش سے

نُور اور ظلمت سے

کسبِ نمو کر رہا ہوں

میں کہ اپنے لئے

دامنِ لطف جاں کو

بہ تدبیرِ ناقص رفو کر رہا ہوں

میں کہ اپنے نہ ہونے سے

پہلے کے

پُرلطف لمحات کی جستجو کر رہا ہوں

میں نہیں جانتا

میرے ہونے نہ ہونے کا

کیا مدعا ہے

میں کہ ہونا مرا عین تیری رضا ہے

پھر بھی اے ربِّ عالی!

میری جاں کے والی

مری عزّت و آبرو کے محافظ

مرے جیتے لمحوں کے واحدِ نگہدار میرے خدا

میرا جینا

نگاہوں میں میری ہی

کیوں ہو چلا ہے خطا

میں کہ تیرے ہُنر کا مرقع

ترے فکرو ادراک کی

اک اکائی ہوں میرے خدا

میں کہ اپنے حریمِ نگاہ میں

دُہائی ہوں میرے خدا

کیسے مانوں کہ مجھ نقشِ بے مثل کی

اپنے بے مثل خلآق کے

فہم و وجدان سے آشنائی نہ ہو

مجھ دُہائی کی تجھ تک رسائی نہ ہو

بس اِسی اک سہارے پہ

میرے خدا

آج میں

اپنے لمحات و روز و شب و ماہ کے

گرد آلود چہرے کو لے کر

ترے سامنے ہوں کھڑا

میں۔ ۔ ۔ کہ میری رسائی

قمر سے بھی آگے

ترے عرشِ عالی کی رفعت تلک ہے

میں۔ ۔ ۔ کہ ہم جنس میرے

غلاظت کے جوہڑ کے جوہڑ بلو کر

دہن اور شکم کو سکوں بخشتے ہیں

میں کہ ہم جنس میرے

ہر اک گام پر

مجھ فرو مایہ کو

نت نیا ایک کربِ دروں بخشتے ہیں

میں کہ خود اپنے دامن میں

پیہم سُلگتا ہوا اِک شر ر ہوں

میں کہ خود پا سے تا فرق

اک آہ ہوں

پا سے تا فرق

اک مبتلائے فغاں

چشم تر ہوں

میں کہ میری نگاہں کے

تلووں میں

صدوں کے پیہم سفر کی

کسیلی چبھن ہے

چبھن۔ ۔ ۔ ان مناظر کی

میں جن کو ہر گام، ہر موڑ پر

دکھتا آ رہا ہوں

میں کہ میرے خیالوں کے

صفحات پر

ٹیڑھی میڑھی لکیروں کا

اک جال سا ہے

جال اُن ٹیڑھی میرھی لکیروں کا

جو میرے ہاتھوں پہ موجود ہیں

پر مرے ذہن سے منعکس ہو کے

میری ہی راہوں کو اُلجھا رہی ہیں

میں کہ اپنے ہی آنگن میں جھانکوں

تو نت اِک نیا غم نیا روگ

بپھرے بگولوں کی مانند

میرے سکوں کے شجر کو

گرفتار کرنے پہ ہر دم تُلا ہے

میں کہ دیر و زو فردا و امروز کی

آہنی بیڑیوں میں گھرا

جانبِ منزلِ بے نشاں

گامزن ہوں

میں کہ خود چیتھڑا ہوں

مگر سوچتا ہوں

کہ رُوئے زمیں پر

ہر اک جسمِ عریاں کا

میں پیرہن ہوں

میں کہ خود میری شاخوں پہ

ہے گرد ایسی

کہ جیسے گدا کے تن خشک پر

کوئی گدڑی سجی ہو

میں۔ ۔ ۔ کہ اپنے خیالوں میں

شاہوں کے جسموں پہ

سجتی قباؤں کی پہلی شکنِ ہوں

میں کہ۔ ۔ ۔ میرے لہو کی لجاجب

مرے ہمرہوں کے لبوں سے

لپکتی ہوئی التجا ہے

میں کہ میرے لہو کی تمازت

مختار لوگوں کے ایواں منّور ہیں

شاہوں کے چہروں پہ

مجھ سے ضیا ہے

میں۔ ۔ ۔ کہ میری نگاہوں میں

تپتی سلاخیں لہو کی

جہاں بھی کہیں جا کے رُکتی ہیں

رُک کر پلٹتی ہیں

منظر کی حدّت سے کچھ اور تپ کر

مرے دل کو تازہ پیام اجل

دمبدم دے رہی ہیں

میں کہ میں ہوں جسے صفحۂ دہر پر

پھر اُبھرنا نہیں ہے

میں کہ۔ ۔ ۔ میری نگاہوں کو

جو زاویہ

اتنے برسوں کی پیہم ریاضت سے

تُو نے دیا ہے

میں۔ ۔ ۔ تری دَین

تیری عطا کو نہ برتوں تو میرے خدا

یہ بھی کفرانِ نعمت سے

کم تونہیں ہے

اور اگر

میرے اس حاسۂ دردمندی کی نعمت کی بنیاد پر

تیرا پر تو ہے

سایہ تیرا۔ ۔ ۔ تو لے پھر

مرا ایک اک حرف بے دم

ترے سامنے

اپنے سینے کو شق کر کے

تخمِ تہ خاک کی مثل پھٹنے لگا ہے

تو لے یہ قلم عالمِ سجدہ ریزی میں

شکوؤں کے گوہر پرونے لگا ہے

تو لے

جو بھی کچھ میری آنکھوں میں

چُبھتا ہے

میرا جُنون

اُس کو تحریر کے پیکروں میں

سمونے لگا ہے

یہ اک پنکھری ہے تروتازہ و نو شگفتہ

سرشاخِ فرخندہ و سرکشیدہ

جہاں میں ترے

آنکھ کھلتے ہیں جس پر

جھکی ہے کسی دستِ گلچیں کی

جابر ہتھیلی

وہ ابرِ رواں سے گری بوند اور

ریگ کے خشک حلقوم میں

ہست سے بود کی گھٹیوں میں کہیں کھو گئی ہے

وہ مہر درخشاں کی پہلی کرن

بطنِ شبنم میں اُتری ہے ایسی

کہ شبنم کا پیکر ہوا ہو گیا ہے

وہ بجلی کا کوندا

کسی شاخِ سرسبز کا

پیرہن لے اڑا ہے

وہ مکھی سے مکڑے نے

جبڑے کو اپنا رفو کر لیا ہے

وہ چِڑیا کے بچّے یہ جھپٹا ہے کوّا

وہ شہباز نے فنِ پرواز دِکھلا کے

کنجشک کو در گلو کر لیا ہے

یہ دریا کہ موجوں کی

حدّت سے بپھرا

تموّج، تلاطم کے نشّے میں

دھُت ہے

یہ دریا بھی آخر

سمندر کی دہلیر پر سر رگڑنے لگا ہے

سمندر کہ خود

مہر کے وار سے تِلملاتا ہوا آسماں تک گیا ہے

ہواسے خلا تک

ہوا کے مکینوں میں اِک کھلبلی ہے

تہِ آب مچھلی

کسی اپنی ہم جنس مچھلی کی

جانِ فرد مایہ سے کھیلتی ہے

تہِ آسماں، برسرِ خاک

کیا کیا مناظر ہیں !

کیا کیا بتاؤں !!

کہیں میش و گاؤ پہ گرگِ گرسنہ کی یلغار دیکھوں

کہیں شیر کے سر پہ

وحشت کے ہاتھوں

نرالی فضیلت کی دستار دیکھوں

کہیں لہلہاتی ہوئی کھیتیوں پر

فلک سے برستے ہوئے

تُند ژالوں کی بوچھاڑ دیکھوں

وہ آندھی اٹھی ہے

وہ طوفان بپھرا ہے

کتنے شجر سرنگوں ہو گئے ہیں

وہ بادل سے چھاجوں

برستا ہے پانی

وہ پانی سے کتنے مکانوں کے پیکر

بُروئے زمیں

بے ستوں ہو گئے ہیں

اِدھر ہیں مکیں ان مکانوں کے

جن کو

ہمیشہ اِسی روگ کا سامنا ہے

’’یہ میں ہوں

یہ میری بہن ہے

یہ بھائی ہے میرا

یہ میں جس کو

آسائشوں کی طلب میں

نہ ایماں عزیز اور نہ اپنا لہو ہی

یہ میری بہن

جس کے اپنے بکھیڑے ہیں

لحظہ بہ لحظہ لہو پینے والے

یہ اُس کی توقع کے صحرا میں

کتنی تمنّاؤں کے

سر دلاشے پڑے ہیں

وہ لاشے کہ مجھ کو

ہر اک گام پر گھورتے ہیں

یہ بھائی ہے میرا

کہ جس کے نصیبوں میں

وہ کچھ بھی شامل نہیں ہے

جسے میرا پائے

طلب خاکِ پا جانتا ہے

یہ میں ہوں

یہ میری بہن ہے

یہ بھائی ہے میرا

یہی ایک چکر

ہر اک ذی نفس کے

قدم میں پڑا ہے ‘‘

گراں ہے کہیں

اپنے آبا کی خدمت

کوئی اپنی اولاد سے مُنفعل ہے

کوئی اپنے ہونے نہ ہونے کے احساس میں گھر کے

میری طرح پابۂ گل ہے

اِدھر میری تہذیب کی

نرم نازک ردا ہے

کہ جس سے اُدھر

جھانک کر دیکھتا ہوں

تو وحشت ہی شحت کا

ظلمت ہی ظلمت کا جنگل اُگا ہے

وہ زردانے بے نواؤں کی

چیخوں سے

اپنے تلذد کو سازِ ہوس پر

نئے ایک سر گم کو پیکر دیا ہے

وہ دستِ ستمگر نے

مظلوم کے نرخوں سے

اپنی قبا پر نئے پھول ٹان کے

وہ کوئی فرومایہ

انصاف کی بھیک کے رنج میں

پاؤں سے تابہ سر اک تحیّر میں گُم

قیدخانے کے دیوار و در سے

اِدھر جھانکتا ہے

وہ اپنے لہُو کی تپش سے کسی نے

کسی کی رگوں کا لہُو پی لیا ہے

وہ اک دستِ مکّار آگے بڑھا ہے

وہ اک بے گنہ اپنی پونجی سے پل؁بھر کو غافل ہوا ہے

وہ قینچی چلی ہے

وہ ظلمت جہالت کا پردہ تنا ہے

کوی لوٹتا ہے کوئی لُٹ گیا ہے

وہ اِک ابنِ آدم وہ ہم جنس میرا

وہ جس کا لہُو

صبح سے تابہ شب

رگ بہ رگ کھولتا ہے

وہ سُورج کی گرمی میں

جس کا تنِ نرم

آہن سے بھی سخت تر ہو گیا ہے

وہ بچّے بِلکتے ہیں جس کے

کہ اُس کی کمائی کی چادر

جو سر پر تنے تو نہ پیروں کو پہنچے

جو پیروں کو پہنچے تو سر تلملائے

وہ اک ابنِ آدم وہ ہم جنس میرا

ہر اک راہ، ہر گام پر ڈگمگائے

اُدھر کچھ سگانِ تنو مند بھی ہیں

کہ اِک ابن آدم کے

ہمدم ہوئے ہاں

سگانِ تنومند۔ ۔ ۔ جن کے لہو میں

کسی اِبن آدم

کسی کیا

ہزاروں ہی ابنائے آدم کے ہاتھوں سے

نوچے

نوالوں کی حدّت رچی ہے

کہیں گھوڑ سواروں کے نیزوں پہ

لاکھوں ہزاروں کے سودے

کہیں ابنِ آدم کی آنتوں میں ناسور محرومیوں کے

بٹیروں کے ریچھوں کے کُتوں کے دنگل پہ

انساں کے ہاتھوں کہیں زر کی بارش

کہیں بیوگاں کے گھروندوں سے

جلتے دلوں کا دھُواں اُٹھ رہا ہے

کہیں گھوڑ سواروں کی

دوڑوں کے منظر

کہیں دوڑ ابنائے آدم کے ہی درمیاں ہے

کوی نسل کے ناز میں منہمک ہے

کوئی رنگ کو اپنی عظمت کا بنیر بنا کر

بڑھا جا رہا ہے

کوئی دانش و عقل کے زعم میں ہے

کوئی اپنے خوں کی تمازت سے

اپنے مقابل کے ہر شخص کو

روندتا ہے

کہیں دانش و فکر کی کھیتیوں میں

رموز اور اسرار کے تخمِ پنہاں

نئے پھُول، تازہ ثمر دے رہے ہیں

کہیں شق ہے ذرّے کا سینہ

تو اُس سے

پئے ابنِ آدم نئی قوّتوں کے

علم بن رہے ہیں

کہ انسان۔ ۔ ۔ جس کو ہے احساس اپنی فرومائے گی کا

اسی خوف سے قوتوں کی طلب میں

لئے ایک انبوہ اپنی جلو میں

پہاڑوں چٹانوں کو سر کر رہا ہے

کہیں چاند کے فرق پر جا کے اپنے قدم دھر رہا ہے

کہیں اُس کے

اپنے تسلط کی سرحد پہ

پہرہ ہے اُس کی ہوس کا کچھ ایسا

کہ اُس نے حدوں کی بُن و بیخ

اپنے ہی ہم جنس

خوں سے اٹھائی ہوئی ہے

کسی کو کسی ہم نفس سے الجھنے پہ اکسا رہا ہے

کسی کو نئے مشو رے دے رہا ہے

کسی کے لئے اسلحہ لا رہا ہے

کہی خاک اور خوں میں

لتھڑے ہوئے

پیکران فرد مایہ پر ہنس رہا ہے

کسی ایک خطے پہ بارود کی

چادریں تانتا ہے

کسی ایک خطے کے محتاج لوگوں کا رازق بنا ہے

یہ انسان یہ تیرا شہکار میرے خدا

اپنی بے مائے گی اپنی بے دانشی کو کہاں تک

چھپاتا رہے گا

کہاں تک یہ

فرعون و شدّ ادونمرود بن کر

بن نوع انساں کو

اپنا اناؤں کی چوکھٹ پہ

سجدے کراتا رہے گا

کہاں تک یہ تہذیب کے نام پر

روز ترتیب پاتی

تواریخ کے ہر ورق پر

جہالت کے اور جارحیت کے

جنگل گاتا رہے گا

کہاں تک یہ انسان

یہ تیرا شہکار میرے خدا

خونِ ہم جنس کے قطرے قطرے کو

قدموں کی سیڑھی بنا کر

نئی رفعتوں تک لپکتارہے گا

کہاں تک اِسے جسم کے

اقتضا کے جنوں میں

ابھی خوار ہونا ہے

اوروں کو بھی خوار کرنا ہے

ہمراہ اپنے

کہاں تک اِسے رُوح کی

عظمتوں، رفعتوں سے تعرض رہے گا

کہ اب ددرو وہ کون سا آئے گا میرے خدا

جس میں انسان عاروں سے

اس خطۂ ارض کی

ایک ہی جست میں

سارے جہل اور ضلالت کی پابندیوں سے نکل کر

خلاؤں کی پہنائیوں سے گزرتا ہوا

سطحِ ماہتاب پر جلوہ گر ہو سکے گا

اور ماہتاب پر بھی پہنچ کر یونہی

بھولے بھٹکے پرندوں کی مانند

ایک ایک ٹکڑی میں

اس خطۂ ارض کے ہم نشینوں کو

تقسیم کرتا رہے گا

کہاں تک یہ انسان

یہ تیرا شہکار میرے خدا

اپنی عظمت سے

آنکھیں چراتا رہے گا

کہاں تک یہ انسان، آدم کا بیٹا

یہ ہابیل و قابیل کے خوں کی کھیتی

نکل کر بہتِ بریں سے زمیں پر

زمیں سے تہِ خاک جاتے ہوئے

بعد میں آنے والوں کی تضحیک کے

دُکھ اُٹھاتا رہے گا

کہاں تک یہ اپنا لہو چاٹ کر

روز و شب کی تہوں میں سماتا رہے گا

کہاں تک یہ تہذیب کے نام پر

روز ترتیب پاتی

تواریخ کے ہر ورق پر

جہالت کے اور جارحیت کے جنگل اگاتا رہے گا

٭٭٭

تشکر: یاور ماجد جنہوں نے اس کی ٹیکسٹ فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید