FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

یا حیُّ یا قیّوم

 (کلیاتِ حفیظ تائب سے حمد و مناجات کا انتخاب)

               حفیظ تائب

جمع و ترتیب: محمد بلال اعظم

 

تو خالق ہر شے کا، یا حیُّ یا قیّوم
ہر پل تیرا رنگ نیا، یا حیُّ یا قیّوم

 

 

محامد

کس کا نظام  راہ نما ہے افق افق

کس کا دوام گونج رہا ہے افق افق

شانِ عیاں کس کی عیاں ہے جبل جبل

رنگِ جمال کس کا جما ہے افق افق

کس کے لئے نجوم بکف ہے روش روش

بابِ شہود کس کا کھُلا ہے افق افق

کس کے لئے سرودِ صبا ہے چمن چمن

کس کے لئے نمودِ ضیا ہے افق افق

مکتوم کس کی موجِ کرم ہے صدف صدف

 مرقوم کس کا حرفِ وفا ہے افق افق

کس کی طلب میں اہلِ محبت ہیں داغ داغ

کس کی ادا سے حشر بپا ہے افق افق

سوزاں ہے کس کی یاد میں تائبؔ نفس نفس

فرقت میں کسی کی، شعلہ نوا ہے افق افق

٭٭٭

 

یا رب! ثنا میں کعب ؓ کی دلکش ادا ملے

فتنوں کی دوپہر میں سکوں کی ردا ملے

حسّانؓ کا شکوہِ بیاں مجھ کو ہو عطا

تائیدِ جبرئیلؑ بوقتِ ثنا ملے

بوصیریؒ عظیم کا ہوں میں بھی مقتدی

بیماریِ الم سے مجھے بھی شفا ملے

جامیؒ کا جذب، لہجۂ قدسیؒ نصیب ہو

سعدیؒ کا صدقہ شعر کو اذنِ بقا ملے

دل بستگی ملے مجھے لطفؔ و امیرؔ کی

کافیؔ کے علم و عشق سے رشتہ مرا ملے

آئے قضا شہیدئؒ خوش بخت کی طرح

دُوری میں بھی حضوریِ احمد رضاؒ ملے

مجھ کو عطا ہو زورِ بیانِ ظفر علیؒ

محسنؒ کی ندرتوں سے مرا سلسلا ملے

حالیؒ کے درد سے ہو مرا فکر استوار

ادراکِ خاص حضرتِ اقبالؒ کا ملے

جو مدحتِ نبیؐ  میں رہا با مراد و شاد

اُس کاروانِ شوق سے تائبؔ بھی جا ملے

٭٭٭

 

جو اسمِ ذات ہویدا ہوا سرِ قرطاس

ہوا خیال منوّر، مہک گیا احساس

اُسی کے فکر میں گُم سُم ہے کائناتِ وجود

اُسی کے ذکر کی صورت ہے نغمۂ انفاس

اُسی کے ذکر سے ہے کاروانِ زیست رواں

اُسی کے حکم پہ ہے غیب و شہود کی اساس

اگر ہیں نعمتیں اُس کی شمار سے باہر

تو حکمتیں بھی ہیں اس کی ورائے عقل و قیاس

ہے ارتباطِ عناصر اُسی کی قدرت سے

اُسی کے لطف سے قائم ہے اعتدالِ حواس

کیے خلا میں معلّق ثوابت و سیّار

بغیرِ چوب کیا خیمۂ فلک کو راس

بسا وہ رگ و پے میں کائنات کے ہے

کچھ اِس طرح گلوں میں نہاں، ہو جیسے باس

ہر ایک مومن و منکر کا وہ ہے رزق رساں

ہر ایک بےکس و درماندہ کا ہے قدر شناس

بڑھائی اُس نے زن و آدمی کی یوں توقیر

انہیں بنایا گیا ایک دوسرے کا لباس

مجھے شریک کرے کاش ایسے بندوں میں

جنہیں نہ خوف و خطر ہے کوئی نہ رنج و ہراس

اُٹھا کے ہاتھ اُسی کو پکارتا ہوں مَیں

مقام جس کا ہے میری رگِ حیات کے پاس

کیا یہ خاص کرم اُس نے نوعِ انساں پر

بنا دیا جو حبیبؐ  اپنا غمگسارِ اناس

حبیبؐ  وہ جو بنا کائنات کا نوشاہ

رسولؐ  وہ جو ہوا اس کی شان کا عکّاس

حبیبؐ  وہ جو محمدؐ  بھی ہے تو احمدؐ  بھی

سکھا گیا جو خدائی کو حمد و شکر کا سپاس

نبیؐ  وہ جس کے لئے محملِ زمانہ رکا

نبیؐ  وہ جس نے کیا لا مکان میں اجلاس

کتاب اُس پہ اتاری تو وہ کتابِ مبیں

جو نورِ رُشد و ہدایت ہے، قاطعِ وسواس

اُسی نے مدحِ رسالت مآبؐ  کی خاطر

دیا گداز لب و لہجہ کو، زباں کو مٹھاس

کرم ہو شاملِ حال اُس کا تو ہے اک نعمت

وگرنہ کربِ مسلسل، طبیعت حسّاس

کوئی قریب سے کہتا ہے، مَیں ہوں تیرے ساتھ

ہجومِ غم میں کسی وقت بھی جو دل ہو اداس

تسلّیاں مجھے ہر آن کوئی دیتا ہے

نہ کر سکیں گے ہراساں مجھے کبھی غم و یاس

عجیب ذکرِ الٰہی میں ہے اثر تائبؔ

مٹائے زیست کی تلخی، بجھائے روح کی پیاس

٭٭٭

 

حمد کب آدمی کے بس میں ہے

ایک حسرت نَفس نَفس میں ہے

فکر کیا سوچ کر ہے بال کشا

جس کی پرواز ہی قفس میں ہے

دو جہاں جس کے تابعِ فرماں

کب کسی کی وہ دسترس میں ہے

ہے بقا اس کی ذات کو شایاں

جلوہ فرما وہ پیش و پس میں ہے

اس کی موجِ کرم سے ہی تائبؔ

زیست کی لہر خار و خس میں ہے

٭٭٭

 

زباں پر ہے نام اُس حیات آفریں کا

جو تنہا ہے روزی رساں عالمیں کا

وہ ربّ المشارق، وہ ربّ المغارب

وہی نور ہے آسمان و زمیں کا

تحیّات زیبا اُسی کے لئے ہیں

جو فرماں روا ہے یسار و یمیں کا

وہی ظلمتوں میں دکھاتا ہے راہیں

سہارا وہی قلبِ اندوہ گیں کا

پہاڑوں کو روئیدگی اُس نے بخشی

ہرا ہے شجر اُس سے جانِ حزیں کا

ہے الحمد ایمان کا حرفِ اوّل

یہی تو ہے سر رشتہ یائے یقیں کا

رسول اور نبی بھیج کر اس نے تائبؔ

دیا درس دنیا کو توقیرِ دیں کا

٭٭٭

 

الٰہی! شاد ہوں میں تیرے آگے ہاتھ پھیلا کر

مری اس کیفیت کو اپنی رحمت سے پذیرا کر

بھٹکتی آنکھ کو مرکوز فرما صبغۃ اللہ پر

دلِ بے تاب کو خوشبوئے یٰسیں سے شکیبا کر

مری بھیگی ہوئی پلکیں مخاطب ہیں تو بس تجھ سے

مری تقدیر کے تاریک غاروں میں اجالا کر

مرے چاروں طرف ہے رقصِ وحشت، روک دے اس کو

مرے اندر جو دشمن بڑھ رہا ہے، اُس کو پسپا کر

رسولِ پاکؐ کے رستے سے ہٹ کر خوار ہے امّت

امین اس کو فلاح و خیر کا پھر سے خدایا کر

فروغ اقدارِ پیمبرؐ  کا ہو پھر سے زمانے میں

پریشاں آدمیّت پر کرم کا باب پھر وَا کر

دعائے سیّدِؐ سادات سینے میں فروزاں ہے

حسیں کر دے مری دنیا، حسیں تر مرزی عقبا کر

ترے محبوبؐ  کی توصیف میں لب کھولتا ہوں میں

بہاراں آشنا یارب مری سوچوں کا صحرا کر

زوال آمادہ ہیں ہر چند اعصاب و قویٰ پھر بھی

جواں رکھ میری جذبوں کو، مرے لفظوں کو اُجلا کر

٭٭٭

 

تو خالق ہر شے کا، یا حیُّ یا قیّوم

ہر پل تیرا رنگ نیا، یا حیُّ یا قیّوم

تو اوّل بھی آخر بھی، تو ظاہر، تو باطن

سب میں رچ کر ب سے جدا، یا حیُّ یا قیّوم

تو ہے نورِ ارض و سما، یا قادر، یا ہادی

نور اپنے سے راہ دکھا، یا حیُّ یا قیّوم

نور کہ جیسے طاق کے اندر جلتا ایک چراغ

یا اک تارا ہیرے سا، یا حیُّ یا قیّوم

تو قدوس ہے، تو مومن ہے، تو رحمٰن و رحیم

احسن تیرے سب اسما، یا حیُّ یا قیّوم

پیدا کر کے انساں کو دی قرآں کی تعلیم

بخشے تو نے نطق و نوا، یا حیُّ یا قیّوم

تو نے فلک کو رفعت دی اور قائم کی میزان

تو ہی ملیکِ روزِ جزا، یا حیُّ یا قیّوم

تو نے زمیں کا فرش بچھا کر اس کو کیا سر سبز

تو ہی کفیلِ نشو نما، یا حیُّ یا قیّوم

وصف کہاں تک لکھے تیرے شاعر ہیچمدان

کیا تائبؔ، کیا اس کی ثنا، یا حیُّ یا قیّوم

٭٭٭

 

پرچمِ حمد اڑاتا ہوں میں

روح کو وجد میں پاتا ہوں میں

صبح دم پڑتا ہوں قرآنِ مجید

گیت خلّاق کے گاتا ہوں میں

اس کی آیات سے کرنیں لے کر

اپنے آفاق سجاتا ہوں میں

تازہ کاری کا عمل دیکھتا ہوں

جس طرف آنکھ اٹھاتا ہوں میں

نیّتوں کی جو خبر رکھتا ہے

اس کو احوال سناتا ہوں میں

جب بھی تاریکیاں گھیریں تائبؔ

مشعلِ ذکر جلاتا ہوں میں

٭٭٭

 

زمانے پہ چھائی ہے رحمت خدا کی

ہر اک شے سے ظاہر ہے قدرت خدا کی

رواں حکم اس کا زمیں پر فلک پر

دل و جاں پہ بھی ہے حکومت خدا کی

سخاوت کی اک موج سارے سمندر

عیاں ذرّے ذرّے سے وسعت خدا کی

چمن کی ہواؤں میں ہے اس کی خوشبو

جھلکتی ہے پھولوں میں رنگت خدا کی

بشر اس کے آگے نہ کیوں سر جھکائے

کہ دیتی ہے عظمت اطاعت خدا کی

خدائی میں ہیں رنگ وحدت کے سارے

بیاں کیسے تائبؔ ہو عظمت خدا کی

٭٭٭

 

دیں سکون تیرے نام یا عزیزُ یا سلام

دل کشا ترا کلام یا عزیزُ یا سلام

اپنے قُربِ خاص کا راستہ بتا دیا

دے کے سجدے کا پیام یا عزیزُ یا سلام

یا لطیفُ یا خبیر سُو بسو ہیں تیرے رنگ

تیرے عکس صبح و شام یا عزیزُ یا سلام

شب کے بعد دن چڑھے، دن کے بعد رات ہو

خوب ہے ترا نظام یا عزیزُ یا سلام

کائنات کو محیط تیری جلوہ ریزیاں

تیری رحمتیں ہیں عام یا عزیزُ یا سلام

اس کرم کا کر سکوں شکر کس طرح ادا

دل میں ہے ترا قیام یا عزیزُ یا سلام   ٭٭٭

 

اللہ تعالیٰ ہے جہانوں کا اجالا

ہر آن ہے روپ اس کا نیا اور نرالا

ہر موجِ نفس اس کی عنایات شاہد

ہر رنگِ سحر اس کی صداقت کا حوالہ

سیّاروں پہ آثارِ نمو اس کے کرشمے

صحرا میں جھلک اس کی دکھائیں گل و لالہ

جنگل میں شجر اس کی توجہ سے ہرے ہیں

ہر نوعِ خلائق کا وہی پالنے والا

کرتا ہے مداوا وہ پریشانیِ دل کا

دیتا ہے وہی عاجز و بیکس کو سنبھالا

حق اس کے محامد کے بیاں کیسے ہوں تائبؔ

وہ فہم سے برتر ہے، وہ ادراک سے بالا

٭٭٭

 

موجود بہر سمت ہے اک ذاتِ الہٰی

دیتی ہے گواہی یہی آیاتِ الہٰی

اجرامِ فلک ہوں کہ نباتات و جمادات

ہر چیز سمجھتی ہے اشاراتِ الہٰی

جتنے بھی کرشمے نظر آتے ہیں نمو کے

ہر آن کئے دیتے ہیں اثباتِ الہٰی

انساں کے حواس اُس کے ہی ارشاد سے قائم

گھیرے ہیں خلائق کو عنایاتِ الہٰی

آفاق در آفاق ہیں انوار اُسی کے

امکان در امکان نشاناتِ الہٰی

پابند عناصر ہیں اُسی ذات کے تائبؔ

فطرت میں بھی جاری ہیں ہدایاتِ الہٰی

٭٭٭

 

خدا کے نامِ نامی سے سخن ایجاد کرتا ہوں

کرم یہ بھی ہے اُس کا میں جو اُس کو یاد کرتا ہوں

اُس کے ذکر سے پاتا ہوں اطمینان کی دولت

اُسی کی آیتوں سے صحنِ جاں آباد کرتا ہوں

وہی زادِ نفس میرا، وہی فریاد رس میرا

میں جب کرتا ہوں، اُس کے سامنےفریاد کرتا ہوں

میں عکس اُسی کے پاتا ہوں ہر آئینے میں فطرت کے

میں اس کی حکمت و قدرت پہ دل سے صاد کرتا ہوں

مجھے اس میں خوشی اللہ کی محسوس ہوتی ہے

نبیؐ کی نعت سے جب اہلِ حق کو شاد کرتا ہوں

معافی مانگتا ہوں اپنے آقاؐ  کے وسیلے سے

میں اپنی جان پر جب بھی کوئی بیداد کرتا ہوں

متاعِ دنیوی سے جنسِ کاسد کے لئے تائبؔ

سکونِ قلب اپنا کیوں عبث برباد کرتا ہوں

٭٭٭

 

لائقِ حمد حقیقت میں ہے خلّاقِ جہاں

منتظر جس کے اشارے کے ہیں سارے امکاں

اس کے ارشاد سے ذرّوں میں توانائی ہے

اس کے الطاف سے ہے زیست کراں تا بہ کراں

اس کی قدرت کے مظاہر مہ و مہر و مرّیخ

بحر و بر، دشت و جبل، اس کی جلالت کے نشاں

بھیجتا رہتا ہے وہ ابر و ہوا کے قاصد

سبزہ و گل سے وہ بھرتا ہے زمیں کا داماں

نہ کوئی اس کے سوا حشر کے دن کا مالک

نہ کوئی اس کے سوا دہر میں مختارِ اماں

وہ کسی سے بھی نہیں اور نہ کوئی اس سے

اس پہ بھی رکھتا ہے ہر شخص سے وہ رشتۂ جاں

اس نے آدم کو دیا اپنی نیابت کا شرف

اس کے احسان بھلا سکتا ہے کیسے انساں

منکروں کا بھی وہی رزق رساں ہے تائبؔ

بے نیازی ہے حقیقت میں اسی کو شایاں

٭٭٭

 

تسبیح شب و روز رہے نامِ خدا کی

صورت ہے یہی خوب تریں حمد و ثنا کی

اللہ نے بخشی ہے اسے اپنی نیابت

محبوب کچھ اس درجہ ہوا آدمِ خاکی

ہر منظرِ ہستی میں سبھی رنگ ہیں اس  کے

ہر عالمِ فانی میں وہی ذات ہے باقی

انسان کا ٹوٹا ہوا دل اس کا ہے مسکن

اس تک ہے رسائی تو فقط حرفِ دعا کی

ذکر اس کا کھلاتا ہے سدا روح میں غنچے

محتاج مری طبع نہیں آب و ہوا کی

آئی نہ کمی اس کی عطاؤں میں کسی وقت

ہر چند کہ دانستہ بھی تائبؔ نے خطا کی

٭٭٭

 

نامِ حق سے جو پرچم کھلا حمد کا

رنگ چاروں طرف چھا گیا حمد کا

لحظہ لحظہ ہے شانِ الہٰی نئی

ذائقہ بھی ہے پل پل نیا حمد کا

نیم شب کو نجوم اس کی باتیں کریں

صبح دم چھیڑے نغمہ صبا حمد کا

شامل اس میں خلائق جہاں در جہاں

از ازل تا ابد سلسلہ حمد کا

اس کی تسبیح کرتے ہیں سب نجم و گُل

کارواں ہے رواں جا بجا حمد کا

نَو بنَو اس کے امکان آشوب میں

دَور چلتا رہے گا سدا حمد کا

اس کو پھیلانا چاہوں حدِ عمر تک

جب ملے لمحۂ دلکشا حمد کا

حمد کرنے میں احمد سا کوئی نہیں

جسکے دم سے ہے گلشن ہرا حمد کا

کیا خبر ہے کہ تائبؔ وہ مقبول ہو

جو بیاں رہ گیا اَن کہا حمد کا

٭٭٭

 

مناجاتیں

ربِ کعبہ! کھول دے سینہ مرا

دل ہو روشن، دیدہ ہو بینا مرا

جلوہ گر ہو دل میں عہدِ مصطفیؐ

یوں جلا پائے یہ آئینہ مرا

اس سے پھوٹے نغمۂ حُبِّ رسولؐ

ہو امینِ کیف سازینہ مرا

اس میں ہوں ایسے معانی کے گہر

مرا فن بن جائے گنجینہ مرا

زندگانی راہِ حق میں کام آئے

میرا جینا کاش ہو جینا مرا

٭٭٭

 

یا رب! ملی مجھے یہ نوا تیرے فضل سے

میں ہوں نبیؐ  کا مدح سرا تیرے فضل سے

تیرے حبیبِ پاکؐ  کی توصیف اور میں

جو کچھ کیا وہ میں نے کیا تیرے فضل سے

دامانِ احتیاط نہ چھوڑا بساط پر

پاسِ حدود مجھ کو رہا تیرے فضل سے

لغزش اگر ہوئی ہو کوئی اس کے باوجود

ہوں خواستگارِ عفوِ خطا تیرے فضل سے

آخر میں یہ دعا ہے کہ اے ربِّ ذوالجلال

مقبول ہو یہ رنگِ ثنا تیرے فضل سے

٭٭٭

 

کھل جائے مجھ پہ بابِ عنایات اے خدا

دیکھوں دیارِ نور کے دن رات اے خدا

باطن کی آنکھ کو بھی عطا روشنی کریں

ارض اللہ کے سعید مقامات اے خدا

حائل نہ ضعفِ جاں رہے کیفِ حضور میں

رفعت کنار ہو مری اوقات اے خدا

پاکیزہ ہو بدن بھی، مودّب ہو روح بھی

پوری ہوں سب کی سب مری حاجات اے خدا

ظاہر نہ کسی پہ ہو مرے دل کا ماجرا

پلکوں کی اوٹ میں رہے برسات اے خدا

سارا سفر رضا کا سفر کاش بن سکے

کعبہ سے پاؤں شوق کی خیرات اے خدا

کھل جائیں میرے دل میں نئے زندگی کے باب

دیکھوں عریشِ بدرؔ کے لمعات اے خدا

جا کر درِ حضورؐ  پہ پھر پیش کر سکوں

تازہ بتازہ نعت کے نغمات اے خدا

خوانِ کرم پہ بیٹھ کے افطارِ روزہ ہو

یوں اس فقیر کی ہو مدارات اے خدا

مابینِ عیرؔ و ثورؔ ہیں جتنے نشانِ خیر

تقدیر میں ہوں ان کی زیارات اے خدا

مسجد جو فتحؔ نام کی دیکھوں احدؔ کے ساتھ

ہوں وسعت آشنا مرے جذبات اے خدا

نذرِ سلام احدؔ کے شہیدوں کو پیش ہو

قسمت میں پھر کبھی ہوں وہ ساعات اے خدا

تاریخ گر مساجدِ طیبہؔ کو دیکھ کر

واضح ہو شانِ سیدِؐ سادات اے خدا

رکھتی ہے مسجدِ نبویؐ خاص امتیاز

پائے دل اس میں خاص ہی لذّات اے خدا

بیرِ اُریسؔ و رومہؔ، عرسؔ و بضاعہؔ سے

قسمت میں میری کچھ تو ہوں قطرات اے خدا

دیکھوں جو غارِ سجدہؔ، سکوں کی ملے نوید

کٹ جائے سارا عرصۂ ظلمات اے خدا

پھر ہو رسائی مبرکِ ناقہؔ تلک مری

پیدا ہوں ایسے پھر کبھی حالات اے خدا

ٹھیرا جہاں جہاں مہِ طیبہؔ کا کارواں

دیکھوں ان آنکھوں سے وہ مقامات اے خدا

تائبؔ فقیر کا رہے پھیرا سدا یہاں

میری یہی ہے عرض و مناجات اے خدا

٭٭٭

 

الطاف تیرے خلَق پہ ہیں عام اے کریم

تیرے سپرد ہیں مرے سب کام اے کریم

معبود و کارساز تجھے مانتا ہوں مَیں

مجھ پہ رہیں سدا ترے انعام اے کریم

ملّت کے بال و پر کو بچا ہر گرفت سے

پھیلے ہوئے ہیں چاروں طرف دام اے کریم

اقوامِ دہر اس سے سبھی فیض یاب ہوں

پھر ارتقاء پذیر ہو اسلام اے کریم

اخلاق کی مہک سے ہوں الفاظ مشکبار

پھیلاؤں یوں رسولؐ کا پیغام اے کریم

دیکھوں طلوعِ فجر کا منظر مدینے میں

مَکّہ کی وادیوں میں ہو گر شام اے کریم

تن سے نکل کے روح نثارِ حضورؐ ہو

تائبؔ کا ہو شہیدیؔ سا انجام اے کریم

دنیا کی کشمکش میں رہا ہوں میں بے قرار

خاکِ بقیع میں ملے آرام اے کریم

٭٭٭

 

بھیج سُکوں کا کوئی جھونکا

دل بے چین ہے بارِ الٰہا

وہ بحران ہے، دم گھٹتا ہے

آب و ہوا کا کوئی مداوا

تیرے فضل، تری رحمت سے

ذاتی غم ہے مجھ کو گوارا

سخت پریشاں رکھے لیکن

درد و الم ابنِ آدم کا

انساں کا انساں ہے دشمن

بجھا بجھا ہے چہرہ چہرہ

اس پر ملتِ بیضا کا غم

بنتا جاتا ہے جاں لیوا

اس اسلامی قوموں پر ہے

پردۂ امن میں ظلم ہمیشہ

مغربیوں کا دامِ معیشت

سخت بہت ہے ہوتا جاتا

یہ تشویش ہے سب سے بڑھ کر

دیس ہے ہر آفت کا نشانہ

دہشت گردی کے عفریت نے

خوف ہے ہر جانب پھیلایا

لوٹ کھسوٹ کی یلغاروں سے

ساری معیشت ہے تہ و بالا

وار سے فرقہ واریت کے

قصرِ اخوّت میں ہے لرزہ

شورش و سازش کی دیمک نے

چاٹ لیا ہے ہر منصوبہ

امن و اماں ہے درہم برہم

مہنگائی کا بول ہے بالا

مغرب کی زد میں ہے ثقافت

شرم و حیا کا سانس ہے اکھڑا

ہر انساں ہے بیکل و مضطر

مقصدِ زیست ہے بھولا بھالا

میرے خدا اس پاک وطن میں

دینِ محمدؐ کا ہو احیا

عدل و خیر کا دور آ جائے

ہر کوتاہی کا ہو ازالہ

پھولیں پھلیں اقدارِ ہدایت

نور شریعت کا ہو ہویدا

یل جہتی پیدا ہو جائے

صدق و صفا کا ہو پھر چرچا

ہر ہر موڑ پہ مدِّ نظر ہو

تیرے پاک نبیؐ کا شیوہ

نافذ ہو اسلام دلوں پر

حسنِ عمل کے سب ہو شیدا

حرمتِ خونِ بشر ہو روشن

ہر ہر دل میں درد ہو پیدا

جو عاشق ہیں ختمِ رسلؐ کے

وہ اپنائیں ان کا اسوہ

پائیں فروغ اقدارِ محبت

رنگ ہو ہمدردی کا گہرا

تیرہ و تار فضا سے یارب

پھوٹ پڑے سر سبز سویرا

ایک ہوں سارے اہلِ ایماں

زیرِ قیادت ان کے ہو دنیا

وہ اسلام کا رنگ جمائیں

ہو جائے ہر سمت اجالا

جذبۂ خدمت دل میں بسائیں

لہرائیں احساں کا پھریرا

ہر صورت ہو نکھری نکھری

ہر منظر ہو اجلا اجلا

٭٭٭

ٹائپنگ: محمد بلال اعظم

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید