FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

یادش بخیریا

اور دوسرے مضامین

 

 

 

 

 

مشتاق احمد یوسفی

انتخاب از ‘چراغ تلے‘

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

کافی

 

میں ‌نے سوال کیا "آپ کافی کیوں ‌پیتے ہیں؟”

انھوں نے جواب دیا "آپ کیوں نہیں پیتے؟”

"مجھے اس میں سگار کی سی بو آتی ہے۔”

"اگر آپ کا اشارہ اس کی سوندھی سوندھی خوشبو کی طرف ہے تو یہ آپ کی قوتِ شامہ کی کوتاہی ہے۔”

گو کہ ان کا اشارہ صریحاً میری ناک کی طرف تھا، تاہم رفعِ شر کی خاطر میں ‌نے کہا

"تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیتا ہوں کہ کافی میں سے واقعی بھینی بھینی خوشبو آتی ہے۔ مگر یہ کہاں کی منطق ہے کہ جو چیز ناک کو پسند ہو وہ حلق میں انڈیل لی جائے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کافی کا عطر کیوں نہ کشید کیا جائے تاکہ ادبی محفلوں میں ایک دوسرے کے لگایا کریں۔”

تڑپ کر بولے "صاحب! میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا، تاوقتیکہ اس گھپلے کی اصل وجہ تلفظ کی مجبوری نہ ہو۔۔۔۔۔کافی کی مہک سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک تربیت یافتہ ذوق کی ضرورت ہے۔ یہی سوندھا پن لگی ہوئی کھیر اور دھُنگارے ہوئے رائتہ میں ہوتا ہے۔”

میں نے معذرت کی "کھُرچن اور دھُنگار دونوں سے مجھے متلی ہوتی ہے۔”

فرمایا "تعجب ہے! یوپی میں تو شرفا بڑی رغبت سے کھاتے ہیں”۔

"میں نے اسی بنا پر ہندوستان چھوڑا۔”

چراندے ہو کر کہنے لگے "آپ قائل ہو جاتے ہیں تو کج بحثی کرنے لگتے ہیں۔”

جواباً عرض کیا "گرم ممالک میں بحث کا آغاز صحیح معنوں میں ‌قائل ہونے کے بعد  ہی ہوتا ہے۔ دانستہ دل آزاری ہمارے مشرب میں گناہ ہے۔ لہٰذا ہم اپنی اصل رائے کا اظہار صرف نشہ اور غصہ کے عالم میں ‌کرتے ہیں۔ خیر، یہ تو جملہ معترضہ تھا، لیکن اگر یہ سچ ہے کہ کافی خوش ذائقہ ہوتی ہے تو کسی بچے کو پلا کر اس کی صورت دیکھ لیجئے۔”

جھلا کر بولے "آپ بحث میں معصوم بچوں کو کیوں گھسیٹتے ہیں؟”

میں بھی الجھ گیا "آپ ہمیشہ ‘بچوں‘ سے پہلے لفظ ‘معصوم‘ کیوں لگاتے ہیں؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کچھ بچے گناہ گار بھی ہوتے ہیں؟ خیر، آپ کو بچوں پر اعتراض ہے تو بلی کو لیجئے۔”

"بلی ہی کیوں؟ بکری کیوں نہیں؟” وہ سچ مُچ مچلنے لگے۔

میں نے سمجھایا "بلی اس لئے کہ جہاں تک پینے کی چیزوں کا تعلق ہے، بچے اور بلیاں بُرے بھلے کی کہیں بہتر تمیز رکھتے ہیں۔”

ارشاد ہوا "کل کو آپ یہ کہیں ‌گے کہ چونکہ بچوں اور بلیوں کو پکے گانے پسند نہیں آسکتے اس لیے وہ بھی لغو ہیں۔”

میں نے انہیں یقین دلایا "میں ہرگز یہ نہیں کہ سکتا۔ پکے راگ انھیں ‌کی ایجاد ہیں۔ آپ نے بچوں کا رونا اور بلیوں کا لڑنا۔۔۔۔۔”

بات کاٹ کر بولے "بہرحال ثقافتی مسائل کے حل کا نتیجہ ہم بچوں اور بلیوں ‌پر نہیں چھوڑ سکتے۔”

آپ کو یقین آئے یا نہ آئے، مگر یہ واقعہ ہے کہ جب بھی میں نے کافی کے بارے میں استصوابِ رائے کیا اس کا انجام اسی قسم کا ہوا۔ شائقین میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے اُلٹی جرح کرنے لگتے ہیں۔ اب میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں ‌کہ کافی اور کلاسیکی موسیقی کے بارے میں استفسارِ رائے عامہ کرنا بڑی ناعاقبت اندیشی ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بد مذاقی ہے جیسے کسی نیک مرد کی آمدنی یا خوب صورت عورت کی عمر دریافت کرنا (اس کا مطلب یہ نہیں کہ نیک مرد کی عمر اور خوب صورت عورت کی آمدنی دریافت کرنا خطرے سے خالی ہے)۔ زندگی میں صرف ایک شخص ملا جو واقعی کافی سے بیزار تھا۔ لیکن اس کی رائے اس لحاظ سے زیادہ قابلِ التفات نہیں کہ وہ ایک مشہور کافی ہاؤس کا مالک نکلا۔

ایک صاحب تو اپنی پسند کے جواز میں ‌صرف یہ کہ کر چپ ہو گئے کہ

چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافی لگی ہوئی

میں ‌نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے "دراصل یہ عادت کی بات ہے۔ یہ کم بخت کافی بھی روایتی چنے اور ڈومنی کی طرح‌ایک دفعہ منہ سے لگنے کے بعد  چھڑائے نہیں چھوٹتی۔ ہے ناں؟”

اس مقام پر مجھے اپنی معذوری کا اعتراف کرنا پڑا کہ بچپن ہی سے میری صحت خراب اور صحبت اچھی رہی۔ اس لئے ان دونوں ‌خوب صورت بلاؤں سے محفوظ رہا۔

بعض احباب تو اس سوال سے چراغ پا  ہو کر ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔ ایمان کی بات ہے کہ چھوٹے الزام کو سمجھ دار آدمی نہایت اعتماد سے ہنس کر ٹال دیتا ہے مگر سچے الزام سے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اس ضمن میں جو متضاد باتیں سننا پڑتی ہیں، ان کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔

ایک کرم فرما نے میری بیزاری کو محرومی پر محمول کرتے ہوئے فرمایا:

‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ہائے ‌کم‌بخت تو نے پی ہی نہیں

ان کی خدمت میں حلفیہ عرض کیا کہ دراصل بیسیوں گیلن پینے کے بعد  ہی یہ سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ دوسرے صاحب نے ذرا کھل کر پوچھا کہ کافی سے چِڑ کی اصل وجہ معدے کے وہ داغ (Ulcers) تو نہیں جن کو میں ‌دو سال سے لیے پھر رہا ہوں اور جو کافی کی تیزابیت سے جل اٹھے ہیں۔

اور اس کے بعد  وہ مجھے نہایت تشخیص ناک نظروں سے گھورنے لگے۔

استصوابِ رائے عامہ کا حشر تو آپ دیکھ چکے۔ اب مجھے اپنے تاثرات پیش کرنے کی اجازت دیجئے۔ میرا ایمان ہے کہ قدرت کے کارخانے میں کوئی شئے بے کار نہیں۔ انسان غور و فکر کی عادت ڈالے (یا محض عادت ہی ڈال لے) تو ہر بری چیز میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور نکل آتی ہے۔ مثال کے طور پر حقہ ہی کو لیجئے۔ معتبر بزرگوں سے سنا ہے کہ حقہ پینے سے تفکرات پاس نہیں پھٹکتے۔ بلکہ میں تو یہ عرض‌ کروں گا کہ اگر تمباکو خراب ہو تو تفکرات ہی پر کیا موقوف ہے، کوئی بھی پاس نہیں پھٹکتا۔ اب دیگر ملکی اشیائے خورد و نوش پر نظر ڈالیے۔ مرچیں کھانے کا ایک آسانی سے سمجھ آ جانے والا فائدہ یہ ہے کہ ان سے ہمارے مشرقی کھانوں کا اصل رنگ اور مزہ دب جاتا ہے۔ خمیرہ گاؤ زبان اس لیے کھاتے ہیں کہ بغیر راشن کارڈ کے شکر حاصل کرنے کا یہی ایک جائز طریقہ ہے۔ جوشاندہ اس لیے گوارا ہے کہ اس کے نہ صرف ایک ملکی صنعت کو فروغ ہوتا ہے بلکہ نفسِ امارہ کو مارنے میں ‌بھی مدد ملتی ہے۔ شلغم اس لیے زہر مار کرتے ہیں کہ ان میں وٹامن ہوتا ہے۔ لیکن جدید طبی ریسرچ نے ثابت کر دیا ہے کہ کافی میں سوائے کافی کے کچھ نہیں ہوتا۔ اہل ذوق کے نزدیک یہی اس کی خوبی ہے۔

معلوم نہیں کہ کافی کیوں، کب اور کس مردم آزار نے دریافت کی۔ لیکن یہ بات وثوق کے ساتھ کہ سکتا ہو‌ں کہ یونانیوں کو اس کا علم نہیں تھا۔ اگر انھیں ذرا بھی علم ہوتا تو چرائتہ کی طرح یہ بھی یونانی طب کا جزوِ اعظم ہوتی۔ اس قیاس کو اس امر سے مزید تقویت پہنچتی ہے کہ قصبوں میں کافی کی بڑھتی ہوئی کھپت کی غالباً ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عطائیوں نے”اللہ شافی اللہ کافی” کہ کر مؤخر الذکر کا سفوف اپنے نسخوں میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔ زمانہ قدیم میں اس قسم کی جڑی بوٹیوں کا استعمال عداوت اور عقدِ ثانی کے لیے مخصوص تھا۔ چونکہ آج کل ان دونوں باتوں کو معیوب خیال کیا جاتا ہے، اس لیے صرف اظہارِ خلوصِ باہمی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

سنا ہے کہ چائے کے باغات بڑے خوبصورت ہوتے ہیں۔ یہ بات یوں بھی سچ معلوم ہوتی ہے کہ چائے اگر کھیتوں میں پیدا ہوتی تو ایشیائی ممالک میں اتنی افراط سے نہیں ملتی بلکہ غلہ کی طرح غیر ممالک سے درآمد کی جاتی۔ میری معلوماتِ عامہ محدود ہیں مگر قیاس یہی کہتا ہے کہ کافی بھی زمین ہی سے اگتی ہو گی۔ کیونکہ اس کا شمار ان نعمتوں میں نہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں پر آسمان سے براہِ راست نازل کرتا ہے۔ تاہم میری چشمِ تخیل کو کسی طور یہ باور نہیں آتا کہ کافی باغوں کی پیداوار ہو سکتی ہے۔ اور اگر کسی ملک کے باغوں میں یہ چیز پیدا ہوتی ہے تو اللہ جانے وہاں کے جنگلوں میں ‌کیا اُگتا ہو گا؟ ایسے اربابِ ذوق کی کمی نہیں جنھیں کافی اس وجہ سے عزیز ہے کہ یہ ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتی۔ مجھ سے پوچھئے تو مجھے اپنا ملک اسی لیے اور بھی عزیز ہے کہ یہاں کافی پیدا نہیں ہوتی۔

میں مشروبات کا پارکھ نہیں ہوں۔ لہٰذا مشروب کے اچھے یا برے ہونے کا اندازہ ان اثرات سے لگاتا ہوں جو اسے پینے کے بعد  رو نما ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے میں نے کافی کو شراب سے بدرجہا بدتر پایا۔ میں نے دیکھا ہے کہ شراب پی کر سنجیدہ حضرات بے حد غیر سنجیدہ گفتگو کرنے لگتے ہیں جو بے حد جاندار ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے کافی پی کر غیر سنجیدہ لوگ انتہائی سنجیدہ گفتگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے سنجیدگی سے چڑ نہیں بلکہ عشق ہے۔ اسی لیے میں ‌سنجیدہ آدمی کی مسخرگی برداشت کر لیتا ہوں، مگر مسخرے کی سنجیدگی کا روا دار نہیں۔ شراب کے نشے میں لوگ بلا وجہ جھوٹ نہیں بولتے۔ کافی پی کر لوگ بلا وجہ سچ نہیں بولتے۔ شراب پی کر آدمی اپنا غم اوروں کو دے دیتا ہے مگر کافی پینے والے اوروں کے فرضی غم اپنا لیتے ہیں۔ کافی پی کر حلیف بھی حریف بن جاتے ہیں۔

یہاں ‌مجھے کافی سے اپنی بیزاری کا اظہار مقصود ہے۔ لیکن اگر کسی صاحب کو یہ سطور شراب کا اشتہار معلوم ہوں تو اسے زبان و بیان کا عجز تصور فرمائیں۔ کافی کے طرفدار اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہ بے نشے کی پیالی ہے۔ بالفرضِ محال یہ گزارشِ احوال واقعی یا دعویٰ ہے تو مجھے ان سے دلی ہمدردی ہے۔ مگر اتنے کم داموں میں آخر وہ اور کیا چاہتے ہیں؟

کافی ہاؤس کی شام کا کیا کہنا! فضا میں ہر طرف ذہنی کہرا چھایا ہوا ہے۔ جس کو سرمایہ دار طبقہ اور طلبا سرخ سویرا سمجھ کر ڈرتے اور ڈراتے ہیں۔ شور و شغب کا یہ عالم کہ اپنی آواز تک نہیں سنائی دیتی اور بار بار دوسروں سے پوچھنا پڑتا ہے کہ میں نے کیا کہا۔ ہر میز پر تشنگانِ علم کافی پی رہے ہیں۔ اور غروبِ آفتاب سے غرارے تک، یا عوام اور آم کے خواص پر بقراطی لہجے میں بحث کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کافی اپنا رنگ لاتی ہے اور تمام بنی نوعِ انسان کو ایک برادری سمجھنے والے تھوڑی دیر بعد  ایک دوسرے کی ولدیت کے بارے میں ‌اپنے شکوک کا سلیس اردو میں اظہار کرنے لگتے ہیں، جس سے بیروں کو کلیتہً اتفاق ہوتا ہے۔ لوگ روٹھ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ:

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ گھر جائیں گے

گھر میں بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

کافی پی پی کر سماج کو کوسنے والے ایک اٹلیکچوئل نے مجھے بتایا کہ کافی سے دل کا کنول کھل جاتا ہے اور آدمی چہکنے لگتا ہے۔ میں ‌بھی اس رائے سے متفق ہوں۔ کوئی معقول آدمی یہ سیال پی کر اپنا منہ نہیں ‌بند رکھ سکتا۔ ان کا یہ دعویٰ بھی غلط نہیں ‌معلوم ہوتا کہ کافی پینے سے بدن میں چستی آتی ہے۔ جبھی تو لوگ دوڑ دوڑ کر کافی ہاؤس جاتے ہیں اور گھنٹوں وہیں بیٹھے رہتے ہیں۔

بہت دیر تک وہ یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ کافی نہایت مفرح ہے اور دماغ کو روشن کرتی ہے۔ اس کے ثبوت میں انہوں ‌نے یہ مثال دی کہ "ابھی کل ہی کا واقعہ ہے۔ میں دفترسے گھر بے حد نڈھال پہنچا۔ بیگم بڑی مزاج ہیں۔ فوراً کافی کا TEA POT لا کر سامنے رکھ دیا۔”

میں ذرا چکرایا "پھر کیا ہوا؟” میں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

"میں نے دودھ دان سے کریم نکالی” انھوں نے جواب دیا۔

میں نے پوچھا "شکر دان سے کیا نکلا؟”

فرمایا "شکر نکلی، اور کیا ہاتھی گھوڑے نکلتے؟”

مجھے غصہ تو بہت آیا مگر کافی کا سا گھونٹ پی کر رہ گیا۔

عمدہ کافی بنانا بھی کیمیا گری سے کم نہیں۔ یہ اس لیے کہ رہا ہوں ‌کہ دونوں ‌کے متعلق یہی سننے میں آیا ہے کہ بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔ ہر ایک کافی ہاؤس اور خاندان کا ایک مخصوص نسخہ ہوتا ہے جو سینہ بہ سینہ، حلق بہ حلق منتقل ہوتا رہتا ہے۔ مشرقی افریقہ کے اس انگریز افسر کا نسخہ تو سبھی کو معلوم ہے جس کی کافی کی سارے ضلعے میں دھوم تھی۔ ایک دن اس نے ایک نہایت پر تکلف دعوت کی جس میں اس کے حبشی خانساماں نے بہت ہی خوش ذائقہ کافی بنائی۔ انگریز نے بہ نظر حوصلہ افزائی اس کو معزز مہمانوں ‌کے سامنے طلب کیا اور کافی بنانے کی ترکیب دریافت پوچھی۔

حبشی نے جواب دیا "بہت ہی سہل طریقہ ہے۔ میں بہت سا کھولتا ہوا پانی اور دودھ لیتا ہوں۔ پھر اس میں ‌کافی ملا کر دم کرتا ہوں۔ ”

"لیکن اسے حل کیسے کرتے ہو۔ بہت مہین چھنی ہوتی ہے۔”

"حضور کے موزے میں چھانتا ہوں۔”

"کیا مطلب؟ کیا تم میرے قیمتی ریشمی موزے استعمال کرتے ہو؟” آقا نے غضب‌ ناک ہو کر پوچھا۔

خانساماں ‌سہم گیا "نہیں سرکار! میں آپ کے صاف موزے کبھی استعمال نہیں کرتا۔”

سچ عرض کرتا ہوں ‌کہ میں کافی کی تندی اور تلخی سے ذرا نہیں گھبراتا۔ بچپن ہی سے یونانی دواؤں کا عادی رہا ہوں اور قوتِ برداشت اتنی بڑھ گئی ہے کہ کڑوی سے کڑوی

گولیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا!

لیکن کڑواہٹ اور مٹھاس کی آمیزش سے جو معتدل قوام بنتا ہے وہ میری برداشت سے باہر ہے۔ میری انتہا پسند طبیعت اس میٹھے زہر کی تاب نہیں لا سکتی۔ لیکن دقت یہ آن پڑتی ہے کہ میں میزبان کے اصرار کو عداوت اور وہ میرے انکار کو تکلف پر محمول کرتے ہیں۔

لہٰذا جب وہ میرے کپ میں شکر ڈالتے وقت اخلاقاً پوچھتے ہیں :

"ایک چمچہ؟”

تو مجبوراً یہی گزارش کرتا ہوں ‌کہ میرے لیے شکر دان میں کافی کے دو چمچ ڈال دیجئے۔

صاف ہی کیوں نہ کہہ دوں کہ جہاں ‌تک اشیائے خورد و نوش کا تعلق ہے، میں ‌تہذیب حواس کا قائل نہیں۔ میں ‌یہ فوری فیصلہ ذہن کی بجائے زبان پر چھوڑنا پسند کرتا ہوں۔ پہلی نظر میں جو محبت ہو جاتی ہے، اس میں بالعموم نیت کا فتور کارفرما ہوتا ہے۔ لیکن کھانے پینے کے معاملے میں ‌میرا یہ نظریہ ہے کہ پہلا ہی لقمہ یا گھونٹ فیصلہ کن ہوتا ہے۔ بد ذائقہ کھانے کی عادت کو ذوق میں تبدیل کرنے کے لیے بڑا پٍتا مارنا پڑتا ہے۔ مگر میں اس سلسلہ میں برسوں ‌تلخیِ کام و دہن گوارا کرنے کا حامی نہیں، تاوقتیکہ اس میں بیوی کا اصرار یا گرہستی کی مجبوریاں شامل نہ ہوں۔ بنا بریں، میں ہر کافی پینے والے کو جنتی سمجھتا ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو لوگ عمر بھی ہنسی خوشی یہ عذاب جھیلتے رہے، ان پر دوزخ اور حمیم حرام ہیں۔

کافی امریکہ کا قومی مشروب ہے۔ میں اب بحث میں نہیں الجھنا چاہتا کہ امریکی کلچر کافی کے زور سے پھیلا، یا کافی کلچر کے زور سے رائج ہوئی۔ یہ بعینہ ایسا سوال ہے جیسے کوئی بے ادب یہ پوچھ بیٹھے کہ "غبارِ خاطر” چائے کی وجہ سے مقبول ہوئی یا چائے "غبارِ خاطر” کے باعث؟ ایک صاحب نے مجھے لا جواب کرنے کی خاطر یہ دلیل پیش کی امریکہ میں تو کافی اس قدر عام ہے کہ جیل میں ‌بھی پلائی جاتی ہے۔ عرض کیا کہ جب خود قیدی اس پر احتجاج نہیں کرتے تو ہمیں ‌کیا پڑی کہ وکالت کریں۔ پاکستانی جیلوں ‌میں ‌بھی قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جائے تو انسدادِ جرائم میں کافی مدد ملے گی۔ پھر انھوں نے بتایا کہ وہاں لا علاج مریضوں کو بشاش رکھنے کی غرض سے کافی پلائی جاتی ہے۔ کافی کے سریع التاثیر ہونے میں کیا کلام ہے۔ میرا خیال ہے کہ دمِ نزع حلق میں پانی چوانے کی بجائے کافی کے دو چار قطرے ٹپکا دیے جائیں تو مریض کا دم آسانی سے نکل جائے۔ بخدا، مجھے تو اس تجویز پر بھی کوئی اعتراض نہ ہو گا کہ گناہ گاروں کی فاتحہ کافی پر دلائی جائے۔

سنا ہے کہ بعض روادار افریقی قبائل کھانے کے معاملے میں جانور اور انسان کے گوشت کو مساوی درجہ دیتے تھے۔ لیکن جہاں ‌تک پینے کی چیزوں کا تعلق ہے، ہم نے ان کے بارے میں کوئی بری بات نہیں ‌سنی۔ مگر ہم تو چینیوں کی رچی ہوئی، حسِ شامہ کی داد دیتے ہیں کہ نہ منگول حکمرانوں کا جبر و تشدد انہیں پنیر کھانے پر مجبور کر سکا کہ امریکہ انہیں کافی پینے پر آمادہ کر سکا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان کی نفاست نے سخت قحط کے زمانے میں ‌بھی فاقے اور اپنے فلسفے کو پنیر اور کافی پر ترجیح‌دی۔

ہمارا منشا امریکی یا چینی عادات پر نکتہ چینی نہیں۔ ہر آزاد قوم کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے منہ اور معدے کے ساتھ جیسا سلوک چاہے، بے روک ٹوک کرے۔ اس کے علاوہ جب دوسری قومیں ہماری رساول، نہاری اور فالودے کا مذاق نہیں اڑاتیں تو ہم دخل در ماکولات کرنے والے کون؟ بات دراصل یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ‌پیاس بجھانے کے لیے پانی کے علاوہ ہر رقیق شئے استعمال ہوتی ہے۔ سنا ہے کہ جرمنی (جہاں قومی مشروب بیئر ہے) ڈاکٹر بدرجۂ مجبوری بہت ہی تندرست و توانا افراد کو خالص پانی پینے کی اجازت دیتے ہیں، لیکن جن کو آب نوشی کا چسکا لگ جاتا ہے، وہ راتوں ‌کو چھپ چھپ کر پانی پیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پیرس کے کیفوں ‌میں ‌رنگین مزاج فن کار بورژوا طبقہ کو چڑانے کی غرض‌سے کھلم کھلا پانی پیا کرتے تھے۔

مشرقی اور مغربی مشروبات کا موازنہ کرنے سے پہلے یہ بنیادی اصول ذہن نشین کر لینا ازبس ضروری ہے کہ ہمارے یہاں ‌پینے کی چیزوں میں کھانے کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اپنے قدیم مشروبات مثلاً یخنی، ستو اور فالودے پر نظر ڈالئے تو یہ فرق واضح‌ہو جاتا ہے۔ ستو اور فالودے کو خالصتاً لغوی معنوں ‌میں ‌آپ نہ کھا سکتے ہیں اور نہ پی سکتے ہیں۔ بلکہ اگر دنیا میں ‌کوئی ایسی شئے ہے جسے آپ با محاورہ اردو میں بیک وقت کھا اور پی سکتے ہیں تو یہی ستو اور فالودہ ہے جو ٹھوس غذا اور ٹھنڈے شربت کے درمیان نا قابلِ بیان سمجھوتہ ہے، لیکن آج کل ان مشروبات کا استعمال خاص خاص تقریبوں میں ‌ہی کیا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اب ہم نے عداوت نکالنے کا ایک اور مہذب طریقہ اختیار کیا ہے۔

آپ کے ذہن میں ‌خدا نخواستہ یہ شبہ نہ پیدا ہو گیا ہو کہ راقم السطور کافی کے مقابلے میں چائے کا طرف دار ہے تو مضمون ختم کرنے سے پہلے اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا از بس ضروری سمجھتا ہوں۔ میں ‌کافی سے اس لیے بیزار نہیں ہوں ‌کہ مجھے چائے عزیز ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کافی کا جلا چائے بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس

ایک وہ ہیں ‌کہ جنہیں ‌چائے کے ارماں ‌ہوں ‌گے

٭٭٭

 

 

 

سنہء

 

اوروں کا حال معلوم نہیں، لیکن اپنا تو یہ نقشہ رہا کہ کھیلنے کھانے کے دن پانی پت کی لڑائیوں کے سن یاد کرنے، اور جوانی دیوانی نیپولین کی جنگوں کی تاریخیں رٹنے میں کٹی۔ اس کا قلق تمام عمر رہے گا کہ جو راتیں سکھوں کی لڑائیوں کے سن حفظ کرنے میں گزریں، وہ ان کے لطیفوں کی نذر ہو جاتیں تو زندگی سنور جاتی۔ محمود غزنوی لائق صد احترام سہی، لیکن ایک زمانے میں ہمیں اس سے بھی یہ شکایت رہی کہ سترہ حملوں کی بجائے اگر وہ جی کڑا کر کے ایک ہی بھرپور حملہ کر دیتا تو آنے والی نسلوں کی بہت سی مشکلات حل ہو جاتیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ پیدا ہی نہ ہوتیں (ہمارا اشارہ مشکلات کی طرف ہے)۔

اولاد آدم کے سر پر جو گزری ہے، اس کی ذمہ داری مشاہیر عالم پر عائد ہوتی ہے۔ یہ نری تہمت طرازی نہیں بلکہ فلسفہ تاریخ ہے، جس سے اس وقت ہمیں کوئی سروکارنہیں۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ بنی نوع آدم کو تواریخ نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا مورخین نے۔ انھوں نے اس کی سادہ اور مختصر سی داستان کو یادگار تاریخوں کا ایک ایسا کیلنڈر بنا دیا جس کے سبھی ہندسے سرخ نظر آتے ہیں۔ چنانچہ طلبا بوجوہ معقول ان کے حق میں دعائے مغفرت نہیں کر سکتے اور اب ذہن بھی ان تعینات زمانی کا اس حد تک خوگر ہو  چکا ہے کہ ہم وجودانسانی کا تصور بلا قید سن و سمبت کر ہی نہیں سکتے :

"جوسن نہ ہوتے توہم نہ ہوتے، جو ہم نہ ہوتے تو غم نہ ہوتا” معلوم ایسا ہوتا ہے کہ مورخین سن کو ایک طلسمی طوطا سمجھتے ہیں جس میں وقت کے ظالم دیو کی روح مقید ہے۔ کچھ اسی قسم کے عقیدے پر میل بورن کے خضر صورت آرچ بشوپ مانکس نے تین سال پہلے طنز کیا تھا کہ جب ان کی ۹۳ ویں سالگرہ پر ایک اخبار کے رپورٹر نے اپنی نوٹ بک نکالتے ہوئے بڑے گمبھیر لہجے میں دریافت کیا:

"آپ کے نزدیک ۹۳ کی عمر تک پہنچنے کی اصل وجہ کیا ہے؟”

"برخوردار! اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میں 1845 میں پیدا ہوا تھا”

میٹرک کے امتحان سے کچھ دن قبل مرزا عبد الودود بیگ نے اس راز کو فاش کیا (ہر چند کہ طلبا اس کو کھولا نہیں کرتے)کہ شقی القلب ممتحن بھی سن ہی سے قابو میں آتے ہیں۔ چنانچہ زیرک طالب علم ہر جواب کی ابتدا کسی نہ کسی سن سے کرتے ہیں۔ خواہ سوال سے اس کا دور کا تعلق بھی نہ ہو۔ ذاتی مشاہدے کی بنا پر عرض کرتا ہوں کہ ایسے ایسے غبی لڑکے جو نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی میں کبھی تمیز نہ کر سکے، آج تک چنگیز خاں کو مسلمان سمجھتے ہیں، محض اس وجہ سے فرسٹ کلاس آئے کہ انھیں قتل عام کی صحیح تاریخ اور پانی پت کی حافظہ شکن جنگوں کے سن ازبر تھی۔ خود مرزا، جو میٹرک میں بس اس وجہ سے اول آ  گئے کہ انھیں مرہٹوں کی تمام لڑائیوں کی تاریخیں یاد تھیں، پرسوں تک اہلیہ بائی کو شیوا جی کی رانی سمجھے بیٹھے تھے۔ میں نے ٹوکا تو چمک کر بولے :

"یعنی کمال کرتے ہیں آپ بھی! اگر شیوا جی نے شادی نہیں کی تو نانا فرنویس کس کا لڑکا تھا؟”

ترقی یافتہ ممالک میں مارچ کا مہینہ بے حد بہار آفرین ہوتا ہے۔ یہ وہ رت ہے جس میں سبزہ اوس کھا کھا کر ہرا ہوتا ہے اور ایک طرف دامن صحرا موتیوں سے بھر جاتا ہے تو دوسری طرف

موجہ گل سے چراغاں ہے گزرگاہ خیال

اس تمہید دل پذیر سے میرا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بر عکس پس ماندہ ممالک میں اس مست مہینے میں پت جھڑ ہوتا ہے اور

بجائے گل چمنوں میں کمر کمر ہے کھاد

توجہ صرف اس امر کی جانب دلانا چاہتا ہوں کہ بر صغیر میں یہ فصل گل آبادی کے سب سے معصوم  اور بے گناہ طبقے کے لیے ہرسال ایک نئے ذہنی کرب کا پیغام لاتی ہے، جس میں چار سال سے لے کر چوبیس سال کی عمر تک کے سبھی مبتلا نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ سالانہ امتحانوں کا موسم ہوتا ہے۔ خدا جانے محکمہ تعلیم نے اس زمانے میں امتحانات رکھنے میں کونسی ایسی مصلحت دیکھی، ورنہ عاجز کی رائے میں اس ذہنی عذاب کے لیے جنوری اور جون کے مہینے نہایت مناسب رہیں گے۔ یہ اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ کلاسیکی ٹریجڈی کے لیے خراب موسم انتہائی ضروری تصور کیا  گیا ہے۔

بات سے بات نکل آئی، ورنہ کہنا یہ چاہتا تھا کہ اب جو پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں تو یک گونہ افسوس ہوتا ہے کہ عمر عزیز کی پندرہ سولہ بہاریں اور میوہ ہائے باغ جوانی اسی سالانہ جانکنی کی نذر ہو گئے۔ یادش بخیر! وہ سلونا موسم جس کو اگلے وقتوں کی زبان میں ’جوانی کی راتیں، مرادوں کے دن‘ کہتے ہیں، شاہ جہان کے چاروں بیٹوں کی لڑائیاں اورفرانس کے تلے اوپر اٹھارہ لوئیوں کے سن ولادت و وفات یاد کرنے میں بسر ہوا اورتنہا فرانس کا سفر کیا مذکور۔ برطانیہ کی تاریخ میں بھی چھ عدد جارج اور آٹھ آٹھ ایڈورڈ اور ہنری گزرے ہیں، جن کی پیدائش اور تخت نشینی کی تاریخیں یاد کرتے کرتے زبان پر کانٹے اور حافظے میں نیل پڑ گئے تھے۔ ان میں ہنری ہشتم سب سے کٹھن اور کٹھور نکلا۔ اس لیے کہ اس کی اپنی تخت نشینی کے علاوہ ان خواتین کی تاریخ وفات بھی یاد کرنا پڑی جن کو اس نے اپنے اوپر حلال کر رکھا  تھا اور جنھیں باری باری تختہ نصیب ہوا۔

قیاس کہتا ہے کہ تاریخی نام رکھنے اور تاریخ وفات کہنے کا رواج اسی مشکل کو حل کرنے کی غرض سے پھیلا ہو گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی مدد سے حافظے کو ایسی تاریخیں یاد رکھنے میں آسانی ہوتی ہے، جن کا بھول جانا ہی بہتر ہوتا۔ بعض شعراء بہ نظر احتیاط ہرسال اپنا قطعہ تاریخ وفات کہہ کر رکھ لیتے ہیں تاکہ مرنے کی سندرہے اور وقت ضرورت پس ماندگان کے کام آئے۔ کون واقف نہیں کہ مرزا غالب نے جو مرنے کی آرزو میں مرتے تھے، متعدد بار اپنی تاریخ رحلت کہہ کر شاگردوں اور قرض خواہوں کو خوامخواہ ہراساں کیا ہو گا۔ لیکن جب قدرت نے ان کو مرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کیا تو یہ کہہ کر صاف ٹال گئے کہ وبائے عام میں مرنا ہماری کسر شان ہے۔

مارچ 1942 کا ذکر ہے۔ بی، اے کے امتحان میں ابھی ایک ہفتہ باقی تھا۔ میں روہیلوں کی لڑائیوں سے فارغ ہو کر مرزا عبد الودود بیگ کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ جھوم جھوم کر کچھ رٹ رہے ہیں۔ پوچھا "خیام پڑھ رہے ہو؟”

کہنے لگے "نہیں تو! ہسٹری ہے۔”

"مگر آثار تو ہسٹیریا کے ہیں!”

اپنی اپنی جگہ دونوں سچے تھے۔ انھوں نے غلط نہیں کہا، اگرچہ میرا خیال بھی صحیح نکلا کہ وہ شعرسے شغل فرما رہے ہیں۔ البتہ شعر پڑھتے وقت چہرے پر مرگی کی سی کیفیت میں نے قوالوں کے سوا کسی اور کے چہرے پراس سے پہلے نہیں دیکھے تھے۔ پھر خود ہی کہنے لگے "چلو ہسٹری کی طرف تواب بے فکری ہو گئی۔ قبلہ نانا جان نے پچاس مشاہیر کی تاریخ ولادت و وفات کے قطعے کہہ کر میرے حوالے کر دئے ہیں۔ جن میں سے آدھے حفظ کر چکا ہوں۔” اس کے بعد  انھوں نے تیمور لنگ کی پیدائش اور رنجیت سنگھ کی رحلت کے قطعات بطور نمونہ گا کر سنائے۔

گھر پہنچ کر تخمینہ لگایا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ فی کس دو قطعات کے حساب سے اس شاہنامہ ہند کے چار سو مصرعے ہوئے اوراس میں وہ ذیلی قطعات شامل نہیں جن کا تعلق دیگر واقعات و موضوعات (مثلاً جانا پرتھوی راج کا سوئمبر میں بھیس بدل کر اور لے بھاگنا سنجوگتا کو گھوڑے پر۔ آنا نادر شاہ کا ہندوستان میں واسطے لینے کوہ نور ہیرا برابر انڈے مرغابی کے۔ داخل ہونا واجد علی شاہ کا پہلے پہل مٹیا برج میں معہ چھ بیگمات کے اور یاد کرنا بقیہ بیگمات کو) یا تاریخی چھٹ بھیوں (ثانوی ہیرو) مثلاً رانا سانگا، ہیموں بقال، نظام سقہ وغیرہ سے تھا۔ ایک قطعہ میں تو ضلع جگت پر اتر آئے تھے۔ یہ اس نیم تاریخی حادثے سے متعلق تھا، جب نور جہاں کے ہاتھ سے کبوتر اڑ گیا اور جہانگیر نے اس کو (یعنی نور جہان کو) پہلی بار”خصم گیں” نگاہوں سے دیکھا۔

حالانکہ دماغی طور پر میں پانی پت کی لڑائیوں میں بری طرح زخمی ہو چکا تھا، لیکن آخری قطعہ کوسن کر میں نے اسی وقت دل میں فیصلہ کر لیا کہ امتحان میں با عزت طریقے سے فیل ہونا اس اوچھے ہتھیار سے ہزار درجہ بہتر ہو گا۔ بہرحال مرزا نے ایک ہفتے بعد اس کلید کامیابی کو امتحان میں بے دریغ استعمال کیا، جس میں انھیں دو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بڑی دشواری تو یہ کاپی میں قطعات اور حروف ابجد کاحساب دیکھ کر کمرہ امتحان کا نگراں، جو ایک مدراسی کرسچین تھا، بار بار ان کے پاس لپک کر آتا اورسمجھاتا کہ اردو کا پرچہ کل ہے۔ مرزا جھنجھلا  کر جواب دیتے کہ یہ ہمیں بھی معلوم ہے تو وہ نرمی سے پوچھتا کہ پھر یہ تعویذ کیوں لکھ رہے ہو؟ پایان  کار مرزا نے وہیں کھڑے کھڑے اس کو فن تاریخ گوئی اور استخراج سنین کے رموز و نکات سے غلط انگریزی میں آگاہ کیا۔ حیرت سے اس کا منہ ٧ کے ہندسہ کی مانند پھٹا کا پھٹا رہ گیا۔ حروف و اعداد کو بہکی بہکی نظروں سے دیکھ کر کہنے لگا:

"تعجب ہے کہ تم لوگ ماضی کے واقعات کا پتہ بھی علم نجوم سے لگا لیتے ہو!”

اس مجسم دشواری کے علاوہ دوسری دقت یہ ہوئی کہ ابھی پانچوں سوالات کے جملہ بادشاہوں، راجاؤں اور متعلقہ جنگوں کے عدد اور سن بہ سہولت تمام نکلے بھی نہ تھے کہ وقت ختم ہو گیا اور نگراں نے کاپی چھین لی۔ بڑی منت و سماجت کے بعد مرزا کو کاپی پر اپنا رول نمبر لکھنے کی اجازت ملی۔

جیسا کہ عرض کر چکا ہوں، مجھے سن یاد نہیں رہتا اور مرزا کو وہ واقعہ یاد نہیں رہتا جو اس سن سے متعلق ہو۔ فرض کیجئے۔ مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ فرانسیسی انقلابیوں نے کسی صدی کے آخر میں قلعہ باستیل کا محاصرہ کیا تھا۔ لیکن سن یاد نہیں آتا۔ اب مرزا کو یقیناً  اتنا یاد ہو گا کہ 1799 میں کچھ گڑبڑ ضرور ہوئی تھی۔ لیکن کہاں ہوئی اور کیوں ہوئی۔یہ وہ بغیر استخارہ کیے نہیں بتا سکتے۔ چنانچہ مارچ 1942 ہی کا ذکر ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی کمزوری پر افسوس کر رہے تھے اور لقمہ دیتے جاتے تھے۔ وہ اس طرح کہ وہ مجھے روس کی بیوہ ملکہ کیتھرین اعظم کا سن ولادت اور تاریخ تاج پوشی وغیرہ بتا رہے تھے اور میں ان کو اس کے منہ بولے شوہروں کے نام رٹوا رہا تھا۔ اچانک مرزا بولے یار! یہ بڑے مر کے بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

میں نے کہا "کارلائل کا قول ہے کہ تاریخ مشاہیر کی سوانح عمری ہے۔”

کہنے لگے "سچ تو کہتا ہے بچارا! تاریخ بڑے آدمیوں کا اعمال نامہ ہے جو غلطی سے ہمارے ہاتھ تھما دیا گیا۔ اب یہ نہ پوچھو کس نے کیا کیا، کیسے کیا اور کیوں کیا۔ بس یہ دیکھو کہ کب کیا۔”

عرض کیا "دیکھو تم پھرسن اور سمبت کے پھیر میں پڑ گئے۔ ایک مفکر کہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔”

بات کاٹ کر بولے "بھئی تم اپنے اچھے بھلے خیالات بڑے آدمیوں سے کیوں منسوب کر دیتے ہو؟لوگ غور سے نہیں سنتے۔”

مکرر عرض کیا "واقعی ایک مفکر کہتا ہے کہ عظیم انقلابات کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی۔ تم دیکھو گے زبردست تبدیلیاں ہمیشہ دبے پاؤں آتی ہیں۔ تاریخی کیلنڈر میں ان کا کہیں ذکر نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ سکندر نے کس سن میں کون ساملک فتح کیا۔ لیکن یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ بن مانس کون سے سن میں انسان بنا۔ اتنا تو اسکول کے بچے بھی بتا دیں گے کہ سیفو کب پیدا ہوئی اورسقراط نے کب زہر کا پیالہ اپنے ہونٹوں سے لگایا لیکن آج تک کوئی مورخ یہ نہیں بتا سکا کہ لڑکپن کس دن رخصت ہوا۔ لڑکی کس ساعت نایاب میں عورت بنی۔ جوانی کس رات ڈھلی۔ ادھیڑ پن کب ختم ہوا اور بڑھاپا کس گھڑی شروع ہوا۔ ”

کہنے لگے "برادر! ان سوالات کا تعلق تاریخ یونان سے نہیں، طب یونانی سے ہے۔”

سنہ عیسوی سے کہیں زیادہ مشکل ان تاریخوں کا یاد رکھنا ہے جن کے بعد میں "قبل مسیح ” آتا ہے۔ اس لیے کہ یہاں مورخین گردش ایام کو پیچھے کی طرف دوڑاتے ہیں۔ ان کو سمجھنے اور سمجھانے کے ذہنی شیش آسن کرنا پڑتا ہے جو اتنا دشوار ہے جتنا الٹے پہاڑے سنانا۔ اس کو طالب علم کی خوشی قسمتی کہیے کہ تاریخ قبل میلاد مسیح نسبتاً مختصر اور ادھوری ہے۔ اگرچہ مورخین کوشاں ہیں کہ جدید تحقیق سے بے زبان بچوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیں۔ بھولے بھالے بچوں کو جب یہ بتایا جاتا ہے کہ روم کی داغ بیل ۷۵۳ قبل مسیح میں پڑی تو ننھے منے ہاتھ اٹھا کر یہ سوال کرتے ہیں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو یہ پتہ کیسے چل گیا کہ حضرت عیسیٰ کے پیدا ہونے میں ابھی ۷۵۳ سال باقی ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ ۷۵۳ ق۔ م کو ساتویں صدی شمار کریں یا آٹھویں۔ عقل مند استادان جاہلانہ سوالات کا جواب عموماً خاموشی سے دیتے ہیں۔ آگے چل کہ جب یہی بچے پڑھتے ہیں کہ سکندر۳۵۶ ق۔ م میں پیدا ہوا اور ٣٢٣ ق۔ م میں فوت ہوا تو وہ اسے کتابت کی غلطی سمجھتے ہوئے استاد سے پوچھتے ہیں کہ یہ بادشاہ پیدا ہونے سے پہلے کس طرح مرا؟ استاد جواب دیتا ہے کہ پیارے بچو! اگلے وقتوں میں ظالم بادشاہ اسی طرح مرا کرتے تھے۔

کلاسیکی شاعر اور انشا پرداز کچھ سوچ کر چپ ہو جانے کہ نازک فن سے آشنا ہے۔ بالخصوص ان مقامات پر جہاں لطف گویائی کو لذت خموشی پر قربان کر دینا چاہیے۔ وہ اس "جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں” زندگی کو وقت کے پیمانوں سے نہیں ناپتا اور سن و سال کی الجھنوں میں نہیں پڑتا۔ چنانچہ وہ یہ صراحت نہیں کرتا کہ جب مصر کو انطونی نے اور انطونی کو قلوپطرہ نے تسخیر کیا تو اس گرم و سیزر چشیدہ ملکہ کی کیا عمر تھی۔ شیکسپیئر محض یہ کہہ  کر آگے بڑھ جاتا ہے کہ وقت اس کے لا زوال حسن کے سامنے ٹھہر جاتا ہے، اور عمر اس کا روپ اور رس نہیں چرا سکتی۔ اس کے برخلاف مورخین نے دفتر کے دفتر اس لا یعنی تحقیق میں سیاہ کر ڈالے ہیں کہ اپنے صندلی ہاتھوں کی نیلی نیلی رگوں پر اترانے والی اس عورت کی اس وقت کیا عمر ہو گی۔ اب ان سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ جب خود انطونی نے امور سلطنت اور سن ولادت کے بارے میں تجاہل عارفانہ سے کام لیا تو آپ کیوں اپنے کو اس غم میں خواہ مخواہ ہلکان کیے جا رہے ہیں؟ اسی طرح جس وقت ہمارا انشا پرداز اس جنسی جھٹ پٹے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہے جب دھوپ ڈھل جاتی ہے مگر دھرتی بھیتر ہی بھیتر میٹھی میٹھی آنچ میں تپتی رہتی ہے، تو اپنی پسندکے جواز میں بس اتنا کہہ کر آنکھوں ہی آنکھوں مسکرا دیتا ہے کہ "چڑھتی دوپہر سے ڈھلتی چھاؤں زیادہ خوش گوار ہوتی ہے۔”

اس اعتبارسے ان خواتین کا کلاسیکی طرز عمل لائق تحسین و تقلید ہے، جو اپنی پیدائش کی تاریخ اور مہینہ ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ لیکن سن بھول جاتی ہیں۔

اور یہ واقعہ ہے کہ حافظہ خراب ہو تو آدمی زیادہ عرصہ تک جوان رہتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وقت احساس بذات خود ایک آزار ہے، جس کو اصلاحاً بڑھاپا کہتے ہیں۔ ڈاکٹر جانسن نے غلط نہیں کہا "یوں تو مجھے دو بیماریاں ہیں۔ دمہ اور جلندھر۔ لیکن تیسری بیماری لا علاج ہے اور وہ ہے عمر طبعی!” لیکن غور  کیجئے تو عمر بھی ضمیر اور جوتے کی مانند ہے، جن کی موجودگی کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ تکلیف نہ دینے لگیں۔ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا کہ اگر سن پیدائش یاد رکھنے کا رواج بیک گردش چرخ نیلوفری اٹھ جائے، تو بال سفید ہونے بند ہو جائیں گے۔ یا اگر کیلنڈر ایجاد نہ ہوا ہوتا تو کسی کے دانت نہ گرتے۔ تاہم اس میں کلام نہیں کہ جس شخص نے بھی ناقابل تقسیم رواں دواں وقت کو پہلی بار سکینڈ، سال اور صدی میں تقسیم کیا، اس نے انسان کو صحیح معنوں میں پیری اور موت کا ذائقہ چکھایا۔ وقت کو انسان جتنی بار تقسیم کرے گا، زندگی کی رفتار اتنی ہی تیز اور نتیجۃً موت اتنی ہی قریب ہوتی جائے گی۔ اب جب کہ زندگی اپنے آپ کو کافی کے چمچوں اور گھڑی کی ٹک ٹک سے ناپتی ہے، تہذیب یافتہ انسان اس لوٹ کر نہ آنے والے نیم روشن عہد کی طرف پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا ہے، جب وہ وقت کا شمار دل کی دھڑکنوں سے کرتا تھا اور عروس نو رات ڈھلنے کا اندازہ کانوں کے موتیوں کے ٹھنڈے ہونے اور ستاروں کے جھلملانے سے لگاتے تھے :
نہ گھڑی ہے واں نہ گھنٹہ نہ شمار وقت و ساعت

مگر اے چمکنے والو! ہو تمھیں انھیں سجھاتے

کہ گئی ہے رات کتنی

٭٭٭

 

 

چارپائی اور کلچر

 

ایک فرانسیسی مفکرّ کہتا ہے کہ موسیقی میں مجھے جو بات پسند ہے وہ دراصل وہ حسین خواتین ہیں جو اپنی ننھی ننھی ہتھیلیوں پر ٹھوڑیاں رکھ کر اسے سنتی ہیں۔ یہ قول میں نے اپنی بریّت میں اس لیے نقل نہیں کیا کہ میں جو قوّالی سے بیزار ہوں تو اس کی اصل وجہ وہ بزرگ ہیں جو محفلِ سماع کو رونق بخشتے ہیں۔ اور نہ میرا یہ دعویٰ کہ میں نے پیانو اور پلنگ کے درمیان کوئی ثقافتی رشتہ دریافت کر لیا ہے۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ پہلی بار بان کی کھّری چارپائی کی چرچراہٹ اور ادوان کا تناؤ دیکھ کر بعض نو وارد سیّاح اسے سارنگی کے قبیل کا ایشیائی ساز سمجھتے ہیں۔ کہنا یہ تھا کہ میرے نزدیک چارپائی کی دِلکشی کا سبب وہ خوش باش لوگ ہیں جو اس پر اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہیں۔ اس کے مطالعہ سے شخصی اور قومی مزاج کے پرکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس لیے کہ کسی شخص کی شائستگی و شرافت کا اندازہ آپ صرف سے لگا سکتے ہیں کہ وہ فرصت کے لمحات میں کیا کرتا ہے اور رات کو کِس قِسم کے خواب دیکھتا ہے۔

چارپائی ایک ایسی خود کفیل تہذیب کی آخری نشانی ہے جو نئے تقاضوں اور ضرورتوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے نِت نئی چیزیں ایجاد کرنے کی قائل نہ تھی۔ بلکہ ایسے نازک مواقع پر پُرانی میں نئی خوبیاں دریافت کر کے مسکرا دیتی تھی۔ اس عہد کی رنگا رنگ مجلسی زندگی کا تصّور چارپائی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کا خیال آتے ہی ذہن کے افق پر بہت سے سہانے منظر اُبھر آتے ہیں۔اُجلی اُجلی ٹھنڈی چادریں، خس کے پنکھی، کچّی مٹّی کی سن سن کرتی کوری صُراحیاں، چھڑکاؤ سے بھیگی زمین کی سوندھی سوندھی لپٹ اور آم کے لدے پھندے درخت جن میں آموں کے بجائے لڑکے لٹکے رہتے ہیں۔ اور اُن کی چھاؤں میں جوان جسم کی طرح کسی کسائی ایک چارپائی جس پر دِن  بھر شطرنج کی بساط یا رمی کی پھڑ جمی اور جو شام کو دستر خوان بچھا کر کھانے کی میز بنا لی گئی۔ ذرا غورسے دیکھئے تو یہ وہی چارپائی ہے جس کی سیڑھی بنا کر سُگھڑ بیویاں مکڑی کے جالے اور چلبلے لڑکے چڑیوں کے گھونسلے اتارتے ہیں۔ اسی چارپائی کو وقتِ ضرورت پٹیوں سے بانس باندھ کراسٹیریچر بنا لیتے ہیں اور بجوگ پڑ جائے تو انھیں بانسوں سے ایک دُوسرے کو اسٹیریچرکے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مریض جب گھاٹ سے لگ جائے تو تیمار دار مؤخر الذِکر کے وسط میں بڑاساسوراخ کر کے اوّل الذِکر کی مشکل آسان کر دیتے ہیں۔ اور جب ساون میں اُودی اُودی گھٹائیں اُٹھتی ہیں تو ادوان کھول کر لڑکیاں دروازے کی چوکھٹ اور والدین چارپائیوں میں جھُولتے ہیں۔ اسی پر بیٹھ کر مولوی صاحب قمچی کے ذریعہ اخلاقیات کے بنیادی اُصول ذہن نشین کراتے ہیں۔ اسی پر نو مولود بچّے غاؤں غاؤں کرتی، چُندھیائی ہُوئی آنکھیں کھول کر اپنے والدین کو دیکھتے ہیں اور روتے ہیں اور اسی پر دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پیاروں کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔

اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ بعض حضرات اس مضمون کو چارپائی کا پرچہ ترکیب  استعمال سمجھ لیں گے تو اس ضمن میں کچھ اور تفصیلات پیش کرتا۔ لیکن جیسا کہ پہلے اشارہ کر چکا ہُوں، یہ مضمون اس تہذیبی علامت کا قصیدہ نہیں، مرثیہ ہے۔ تاہم بہ نظرِ احتیاط اِتنی وضاحت ضروری ہے کہ:

ہم اس نعمت کے مُنکر ہیں نہ عادی

نام کی مناسبت سے پائے اگر چار ہوں تو مناسب ہے ورنہ اس سے کم ہوں، تب بھی خلقِ خدا کے کام بند نہیں ہوتے۔ اسی طرح پایوں کے حجم اور شکل کی بھی تخصیص نہیں۔ انھیں سامنے رکھ کر آپ غبی سے غبی لڑکے کو اقلیدس کی تمام شکلیں سمجھا سکتے ہیں۔ اور اس مہم کو سر کرنے کے بعد آپ کو احساس ہو گا کہ ابھی کچھ شکلیں ایسی رہ گئی ہیں جن کا صرف اقلیدس بلکہ تجریدی مصّوری میں بھی کوئی ذکر نہیں۔ دیہات میں ایسے پائے بہت عام ہیں جو آدھے پٹُیوں سے نیچے اور آدھے اُوپر نِکلے ہوتے ہیں۔ ایسی چارپائی کا اُلٹا سیدھا دریافت کرنے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ جس طرف بان صاف ہو وہ ہمیشہ "اُلٹا” ہو گا۔ راقم الحروف نے ایسے ان گھڑ پائے دیکھے ہیں جن کی ساخت میں بڑھئی نے محض یہ اصول مد نظر رکھا ہو گا کہ بسولہ چلائے بغیر پیڑ کو اپنی قدرتی حالت میں جوں کاتوں پٹیوں سے وصل کر دیا جائے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہماری نظر سے خراد کے بنے ایسے سڈول پائے بھی گزرے ہیں جنھیں چوڑی دار پاجامہ پہنانے کو جی چاہتا ہے۔ اس قسم کے پایوں سےمنٹو مرحوم کو جو والہانہ عشق رہا ہو گا اس کا اظہار انھوں نے اپنے ایک دوست سے ایک میم کی حسین ٹانگیں دیکھ کر اپنے مخصوص انداز میں کیا۔ کہنے لگے :

"اگر مجھے ایسی چار ٹانگیں مل جائیں تو انھیں کٹوا کر اپنے پلنگ کے پائے بنوا لوں۔”

غور کیجئے تو مباحثے اور مناظرے کے لیے چارپائی سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ اس کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ فریقین آمنے سامنے نہیں بلکہ عموماً اپنے حریف کی پیٹھ کا سہارا لے کر آرام سے بیٹھتے ہیں۔ اور بحث و تکرار کے لیے اس سے بہتر طرزِ نشست ممکن نہیں، کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ فریقین کو ایک دوسرے کی صورت نظر نہ آئے تو کبھی آپے سے باہر نہیں ہوتے۔ اسی بنا پر میرا عرصے سے یہ خیال ہے کہ اگر بین الاقوامی مذاکرات گول میز پر نہ ہوئے ہوتے تو لاکھوں جانیں تلف ہونے سے بچ جاتیں۔ آپ نے خود دیکھا ہو گا کہ لدی پھندی چارپائیوں پر لوگ پیٹ بھر کے اپنوں کی غیبت کرتے ہیں مگر دل برے نہیں ہوتے۔ اس لیے کہ سبھی جانتے ہیں کہ غیبت اسی کی ہوتی ہے جسے اپناطسمجھتے ہیں۔ اور کچھ یوں بھی ہے کہ ہمارے ہاں غیبت سے مقصود قطع محبت ہے نہ گزارش احوال واقعہ بلکہ محفل میں

لہو گرم رکھنے کاہے اِک بہانہ

لوگ گھنٹوں چارپائی پر کسمساتے رہتے ہیں مگر کوئی اٹھنے کا نام نہیں لیتا۔ اس لیے کہ ہر شخص اپنی جگہ بخوبی جانتا ہے کہ اگر وہ چلا گیا تو فوراً اًس کی غیبت شروع ہو جائے گی۔ چنانچہ پچھلے پہر تک مرد ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈالے بحث کرتے ہیں اور عورتیں گال سے گال بھڑائے کچر کچر لڑتی رہتی ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ مرد پہلے بحث کرتے ہیں، پھر لڑتے ہیں۔ عورتیں پہلے لڑتی ہیں اور بعد میں بحث کرتی ہیں۔ مجھے ثانی الذکر طریقہ زیادہ معقول نظر آتا ہے، اس لیے کہ اس میں آئندہ سمجھوتے اور میل ملاپ کی گنجائش باقی رہتی ہے۔

رہا یہ سوال کہ ایک چارپائی پر بیک وقت کتنے آدمی بیٹھ سکتے ہیں تو گزارش ہے کہ چارپائی کی موجودگی میں ہم نے کسی کو کھڑا نہیں دیکھا۔ لیکن اس نوع کے نظریاتی مسائل میں اعداد و شمار پر بے جا زور دینے سے بعض اوقات عجیب و غریب نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ آپ نے ضرور سنا ہو گا کہ جس وقت مسلمانوں نے اندلس فتح کیا تو وہاں کے بڑے گرجا میں چوٹی کے مسیحی علما و فقہا اس مسئلہ پر کمال سنجیدگی سے بحث کر رہے تھے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔

ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ تنگ سے تنگ چارپائی پربھی لوگ ایک دوسرے کی طرف پاؤں کیے اَ اِ کی شکل میں سوتے رہتے ہیں۔ چنچل ناری کا چیتے جیسا اجیت بدن ہو یا کسی عمر رسیدہ کی کمان جیسی خمیدہ کمر۔ یہ اپنے آپ کو ہر قالب کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ اس میں بڑی وسعت ہے بلکہ اتنی لچک بھی ہے کہ آپ جس آسن چاہیں بیٹھ اور لیٹ جائیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ بیٹھنے اور لیٹنے کی درمیانی صورتیں ہمارے ہاں صدیوں سے رائج ہیں ان کے لیے یہ خاص طور پر موزوں ہے۔ یورپین فرنیچر سے مجھے کوئی چڑ نہیں، لیکن اس کو کیا کیجئے کہ ایشیائی مزاج نیم درازی کے جن زاویوں اور آسائشوں کا عادی ہو چکا ہے، وہ اس میں میسر نہیں آتیں۔ مثال کے طور پر صوفے پر ہم اکڑوں نہیں بیٹھ سکتے۔ کوچ پر دستر خوان نہیں بچھا سکتے۔ اسٹول پر قیلولہ نہیں کر سکتے۔ اور کرسی پر، بقول اخلاق احمد، اردو میں نہیں بیٹھ سکتے۔

ایشیا نے دنیا کو دو نعمتوں سے روشناس کیا۔ چائے اور چارپائی! اور ان میں یہ خاصیت مشترک ہے کہ دونوں سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔ اگر گرمی میں لوگ کھری چارپائی پر سوار رہتے ہیں تو برسات میں یہ لوگوں پر سوار رہتی ہے اور کھلے میں سونے کے رسیا اسے اندھیری راتوں میں برآمدے سے صحن اور صحن سے برآمدے میں سر پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ پھر مہاوٹ میں سردی اور بان سے بچاؤ کے لیے لحاف اور توشک نکالتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ سردی رُوئی سے جاتی ہے یادُوئی سی۔ لیکن اگر یہ اسباب ناپید ہوں اورسردی زیادہ اور لحاف پتلا ہو تو غریب غربا محض منٹو کے افسانے پڑھ کر سو رہتے ہیں۔

عربی میں اونٹ کے اتنے نام ہیں کہ دور اندیش مولوی اپنے ہونہار شاگردوں کو پاس ہونے کا یہ گُر بتاتے ہیں کہ اگر کسی مشکل یا کڈھب لفظ کے معنی معلوم نہ ہوں تو سمجھ لو کہ اس سے اُونٹ مراد ہے۔ اسی طرح اُردو میں چارپائی کی جتنی قسمیں ہیں اس کی مثال اورکسی ترقی یافتہ زبان میں شاید ہی مل سکیں :۔

کھاٹ، کھٹا، کھٹیا، کھٹولہ، اڑن کھٹولہ، کھٹولی، کھٹ، چھپرکھٹ، کھرّا، کھری، جِھلگا، پلنگ، پلنگڑی، ماچ، ماچی، ماچا، چارپائی، نواری، مسہری، منجی۔

یہ نا مکمل سی فہرست صرف اردو کی وسعت ہی نہیں بلکہ چارپائی کی ہمہ گیری پر دال ہے اور ہمارے تمّدن میں اس کا مقام و مرتبہ متّعین کرتی ہے۔

لیکن چارپائی کی سب سے خطرناک قسم وہ ہے جس کے بچے کھچے اور ٹوٹے ادھڑے بانوں میں اللہ کے برگزیدہ بندے محض اپنی قوت ایمان کے زور سے اٹکے رہتے ہیں۔ اس قسم کے جھلنگے  کو بچے بطور جھولا اور بڑے بوڑھے آلہ تزکیہ نفس کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اونچے گھرانوں میں اب ایسی چارپائیوں کو غریب رشتے داروں کی طرح کونوں کھدروں میں آڑے وقت کے لیے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ خود مجھے مرزا عبد الودود بیگ کے ہاں ایک رات ایسی ہی چارپائی پر گزارنے کا اتفاق ہوا جس پر لیٹتے ہی اچھا بھلا آدمی نون غنہ (ں) بن جاتا ہے۔

اس میں داخل ہو کر میں ابھی اپنے اعمال کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ یکایک اندھیرا ہو گیا، جس کی وجہ غالباً یہ ہو گی ایک دوسرا ملازم اوپر ایک دری اور بچھا گیا۔ اس خوف سے کہ دوسری منزل پر کوئی اورسواری نہ آ  جائے، میں نے سر سے دری پھینک کر اُٹھنے کی کوشش کی تو گھٹنے بڑھ کے پیشانی کی بلائیں لینے لگی۔ کھڑ بڑ سن کر مرزا خود آئے اور چیخ کر پوچھنے لگے بھائی آپ ہیں کہاں؟ میں نے مختصراً اپنے محل وقوع سے آگاہ کیا تو انھوں نے ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچا۔ انھیں کافی زور لگانا پڑا۔ اس لیے کہ میرا سر اور پاؤں بانوں میں بری طرح الجھے ہوئے تھے اور بان سر سے زیادہ مضبوط ثابت ہوئی۔ بمشکل تمام انھوں نے مجھے کھڑا کیا۔

اور میرے ساتھ ہے، مجھ سے کچھ پہلے ہی، چارپائی بھی کھڑی ہو گئی!

کہنے لگے "کیا بات ہے؟ آپ کچھ بے قرار سے ہیں۔ معدے کا فعل درست نہیں معلوم ہوتا۔ ”

میرے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ دوڑ کر اپنا تیار کردہ چُورن لے آئے اور اپنے ہاتھ سے میرے منہ میں ڈالا۔ پھنکی منہ میں بھر کر شکریہ کے دو چار لفظ ہی کہنے پایا ہوں گا کہ معاً نظر ان کے مظلوم منہ پر پڑ گئی جو حیرت سے کھلا ہوا تھا۔ میں بہت نادم ہوا۔ لیکن قبل اس کے کہ کچھ اور کہوں انھوں نے اپنا ہاتھ میرے منہ پر رکھ دیا۔ پھر مجھے آرام کرنے کی تلقین کر کے منہ دھونے چلے گئے۔

میں یہ چارپائی اوڑھے لیٹا تھا کہ ان کی منجھلی بچی آ نکلی۔ تتلا کر پوچھنے لگی:

"چچا جان! اکڑوں کیوں بیٹھے ہیں؟”

بعد ازاں سب بچے مل کر اندھا بھینسا کھیلنے لگے۔ بالآخر ان کی امی کو مداخلت کرنا پڑی۔

"کم بختو! اب تو چپ ہو جاؤ! کیا گھر کو بھی اسکول سمجھ رکھا ہے؟”

چند منٹ بعد کسی شیر خوار کے دہاڑنے کی آواز آئی مگر جلد ہی یہ چیخیں مرزا کی لوریوں میں دب گئیں جن میں ڈانٹ ڈانٹ کر نیند کو آنے کی دعوت دے رہے تھے۔ چند لمحوں بعد مرزا اپنے نقش فریادی کو سینہ سے چمٹائے میرے پاس آئے اور انتہائی لجاجت آمیز لہجے میں بولے :

"معاف کیجئے! آپ کو تکلیف تو ہو گی۔ مگر منّو میاں آپ کی چارپائی کے لیے ضد کر رہے ہیں۔ انھیں دوسری چارپائی پر نیند نہیں آتی۔ آپ میری چارپائی پر سو جائیے، میں اپنی فولڈنگ چارپائی  پر پڑا رہوں گا۔”

میں نے بخوشی منو میاں کا حق منو میاں کو سونپ دیا اور جب اس میں جھولتے جھولتے ان کی آنکھ لگ گئی تو ان کے والد بزرگوار کی زبان تالو سے لگی۔

اب سنئے مجھ پر کیا گزری۔ مرزا خود تو فولڈنگ چارپائی پر چلے گئے مگر جس چارپائی  پر مجھ کو خاص منتقل کیا گیا۔ اس کا نقشہ یہ تھا کہ مجھے اپنے ہاتھ اور ٹانگیں احتیاط سے تہہ کر کے بالترتیب سینہ اور پیٹ پر رکھنی پڑیں۔ اس شب تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے یوں دو چشمی ھ بنا، یونانی پروقراط کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کے پاس دو چارپائیاں تھیں۔ ایک لمبی اور دوسری چھوٹی۔ ٹھنگنے مہمان کو وہ لمبی چارپائی پرسلاتا اور کھینچ تان کر اس کاجسم چارپائی کے برابر کر دیتا۔ اس کے برعکس لمبے آدمی کو وہ چھوٹی چارپائی دیتا اور جسم کے زائد حصوں کو کانٹ چھانٹ کر ابدی نیند سلا دیتا۔

اس کے حدود اربعہ کے متعلق اتنا عرض کر دینا کافی ہو گا کہ انگڑائی لینے کے لیے مجھے تین چار مرتبہ نیچے کودنا پڑا۔ کودنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اس کی اونچائی”درمیانہ” تھی۔ یہاں درمیانہ سے ہماری مراد وہ پست بلندی یا موزوں سطح مرتفع ہے، جس کو دیکھ کر یہ خیال پیدا ہو کہ:

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

گو کہ ظاہر بین نگاہ کو یہ متوازی الاضلاع نظر آتی تھی مگر مرزا نے مجھے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ بارش سے پیشتر یہ مستطیل تھی۔ البتہ بارش میں بھیگنے کے سبب جو کان آ گئی تھی، اس سے مجھے کوئی جسمانی تکلیف نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ مرزا نے از راہ تکلف ایک پائے کے نیچے ڈکشنری اور دوسرے کے نیچے میرا نیا جوتا رکھ کرسطح درست کر دی تھی۔ میرا خیال ہے کہ تہذیب کے جس نازک دور میں غیور مرد چارپائی پر دم توڑنے کی بجائے جنگ میں دشمن کے ہاتھوں بے گور و کفن مرنا پسندکرتے تھے، اسی قسم کی مردم  آزار چارپائیوں کا رواج ہو گا۔ لیکن اب جب دشمن سیانے اور چارپائیاں زیادہ آرام دہ ہو گئے ہیں، مرنے کے اور بھی معقول اور با عزت طریقے دریافت ہو گئے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے ہاں ایک اوسط درجہ کے آدمی کی دو تہائی زندگی چارپائی پر گزرتی ہے۔ اور بقیہ اس کی آرزو میں! بالخصوص عورتوں کی زندگی اسی محور کے گرد گھومتی ہے جو بساطِ محفل بھی ہے اور مونسِ تنہائی بھی۔ اس کے سہارے وہ تمام مصائب انگیز کر لیتی ہیں۔ خیر مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کر لیتے ہیں مگر عورتیں اس لحاظ سے قابل ستائش ہیں کہ انھیں مصائب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ مئی جون کی جھلسا دینے والی دوپہر میں کنواریاں بالیاں چارپائی کے نیچے ہنڈیا کلہیا پکاتی ہیں اور اوپر بڑی بوڑھیاں بیتے ہوئے دونوں کو یاد کر کے ایک دوسرے کا لہو گرماتی رہتی ہیں (قاعدہ ہے کہ جیسے جیسے حافظہ کمزور ہوتا جاتا ہے، ماضی اور بھی سہانامعلوم ہوتا ہے!) اسی پر بوڑھی ساس تسبیح کے دانوں پر صبح و شام اپنے پوتوں اورنواسوں کو گنتی رہتی ہے اور گڑگڑا گڑگڑا  کر دعا مانگتی ہے کہ خدا اس کا سایہ بہو کے سر پر رہتی دنیا تک قائم رکھے۔ خیر سے بہری بھی ہے۔ اس لیے بہو اگر سانس لینے کے لیے بھی منہ کھولے تو گمان ہوتا ہے کہ مجھے کوس رہی ہو گی۔ قدیم داستانوں کی روٹھی رانی اسی پر اپنے جوڑے کا تکیہ بنائے اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑتی تھی اور آج بھی سہاگنیں اسی کی اوٹ میں ادوان میں سے ہاتھ نکال کر پانچ انگلی کی کلائی میں تین انگلی کی چوڑیاں پہنتی اور گشتی نجومیوں کو ہاتھ دکھا کر اپنے بچوں اورسوکنوں کی تعداد پوچھتی ہیں۔ لیکن جن بھاگوانوں کی گود بھری ہو، ان کے بھرے پرے گھر میں آپ کو چارپائی پر پوتڑے اور سویاں ساتھ ساتھ سوکھتی نظر آئیں گی۔ گھٹنیوں چلتے بچے اسی کی پٹی پکڑ کر میوں میوں چلنا سیکھتے ہیں اور رات برات پائینتی سے قدمچوں کا کام لیتے ہیں۔ لیکن جب ذرا سمجھ آ جاتی ہے تو اسی چارپائی پر صاف ستھرے تکیوں سے لڑتے ہیں۔ نامور پہلوانوں کے بچپن کی چھان بین کی جائے تو پتہ چلے گا کہ انھوں نے قینچی اور دھوبی پاٹ جیسے خطرناک داؤ اسی محفوظ اکھاڑے میں سیکھے۔

جس زمانے میں وزن کرنے کی مشین ایجاد نہیں ہوئی تھی تو شائستہ عورتیں چوڑیوں کے تنگ ہونے اور مرد چارپائی کے بان کے دباؤ سے دوسرے کے وزن کا تخمینہ کرتے تھے۔ اس زمانے میں چارپائی صرف میزان جسم ہی نہیں بلکہ معیار اعمال بھی تھی۔ نتیجہ یہ کہ جنازے کو کندھا دینے والے چارپائی کے وزن کی بنا پر مرحوم کے جنتی یا اس کے برعکس ہونے کا اعلان کرتے تھے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہمارے ہاں دبلے آدمی کی دنیا اور موٹے کی عقبیٰ عام طور خراب ہوتی ہے۔

بر صغیر میں چند علاقے ایسے بھی ہیں جہاں اگر چارپائی کو آسمان کی طرف پائینتی کر کے کھڑا کر دیا جائے تو ہمسائے تعزیت کو آنے لگتے ہیں۔ سوگ کی یہ علامت بہت پرانی ہے گو کہ دیگر علاقوں میں یہ عمودی (١)نہیں، افقی (۔) ہوتی ہے۔ اب بھی گنجان محلوں میں عورتوں اسی عام فہم استعارے کا سہارا لے کر کوستی سنائی دیں گی۔ "الٰہی!تن تن کوڑھ ٹپکے۔ مچمچاتی ہوئی کھاٹ نکلے!” دوسرا بھر پور جملہ بد دعا ہی نہیں بلکہ وقت ضرورت نہایت جامع و مانع سوانح عمری کا کام بھی دے سکتا ہے کیونکہ اس میں مرحومہ کی عمر، نا مرادی، وزن اور ڈیل ڈول کے متعلق نہایت بلیغ اشارے ملتے ہیں۔ نیز اس بات کی سند ملتی ہے کہ راہی ملک عدم نے وہی کم خرچ بالا نشین وسیلہ نقل و حمل اختیار کیا جس کی جانب میر اشارہ کر چکے ہیں :

تیری گلی سے سدا اے کشندہ عالم

ہزاروں آتی ہوئی چارپائیاں دیکھیں

قدرت نے اپنی رحمت سے صفائی کا کچھ ایسا انتظام رکھا ہے کہ ہر ایک چارپائی کو سال میں کم از کم دو مرتبہ کھولتے پانی سے دھارنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جو نفاست پسند حضرات جان لینے کا یہ طریقہ جائز نہیں سمجھتے وہ چارپائی کو الٹا کر کے چلچلاتی دھوپ میں ڈال دیتے ہیں۔ پھر دن بھر گھر والے کھٹمل اور محلے والے عبرت پکڑتے ہیں۔ اہل نظر چارپائی کو چولوں میں رہنے والی مخلوق کی جسامت اور رنگت پرہی سونے والوں کی صحت اور حسب نسب کا قیاس کرتے ہیں (واضح رہے کہ یورپ میں گھوڑوں اور کتوں کے سوا، کوئی کسی کاحسب نسب نہیں پوچھا جاتا) الٹی چارپائی کو قرنطینہ کی علامت جان کر راہ گیر راستہ بدل دیں تو تعجب نہیں۔ حد یہ کہ فقیر بھی ایسے گھروں کے سامنے صدا لگانا بند کر دیتے ہیں۔

چارپائی سے پر اسرار آوازیں نکلتی ہیں، ان کا مرکز دریافت کرنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا کہ برسات کی اندھیری رات میں کھوج لگانا کہ مینڈک کے ٹرانے کی آواز کدھر سے آئی یا کہ یہ تشخیص کرنا کہ آدھی رات کو بلبلاتے ہوئے شیر خوار بچے کے درد کہاں اٹھ رہا ہے۔ چرچراتی ہوئی چارپائی کو میں نہ گل نغمہ سمجھتا ہوں، نہ پردہ ساز، اور نہ اپنی شکست کی آواز! در حقیقت یہ آواز چارپائی کا اعلان صحت ہے کیونکہ اس کے ٹوٹتے ہی یہ بند ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک خود کار الارم کی حیثیت سے یہ شب بیداری اور سحر خیزی میں مدد دیتی ہے۔ بعض چارپائیاں اس قدر چغل خور ہوتی ہیں کہ ذرا کروٹ بدلیں تو دوسری چارپائی والا کلمہ پڑھتا ہوا ہڑبڑا  کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ اگر پاؤں بھی سکیڑیں تو کتے اتنے زور سے بھونکتے ہیں کہ چوکیدار تک جاگ اٹھتے ہیں۔ اس یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ لوگ رات بھر نہ صرف ایک دوسرے کی جان و مال بلکہ چال چلن کی بھی چوکیداری کرتے رہتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو  پھر آپ ہی بتائیے کہ رات کو آنکھ کھلتے ہی نظرسب سے پہلے پاس والی چارپائی پر کیوں جاتی ہے ۔

٭٭٭

 

 

 

یادش بخیریا

 (NOSTALGIA کا ترجمہ (بروزن مالیخولیا۔ ہسٹیریا)

 

یادش بخیر! مجھے وہ شام کبھی نہ بھولے گی جب آخر کار آغا تلمیذ الرحمن چاکسوی سے تعارف ہوا۔ سنتے چلے آئے تھے کہ آغا اپنے بچپن کے ساتھیوں کے علاوہ، جواب ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے، کسی سے نہیں ملتے اورجس سہمے سہمے انداز سے انھوں نے مجھ سے مصافحہ کیا، بلکہ کرایا اس سے بھی یہی ہویدا تھا کہ ہر نئے ملاقاتی سے ہاتھ ملانے کے بعد  وہ اپنی انگلیاں ضرور گن لیتے ہوں گے۔ دشمنوں نے اڑا رکھی تھی کہ آغا جن لوگوں سے ملنے کے متمنی رہے ان تک رسائی نہ ہوئی اور جو لوگ ان سے ملنے کے خواہش مند تھے، اُن کو منہ لگانا انھوں نے کسرِ شان سمجھا۔ انھوں نے اپنی ذات ہی کو انجمن خیال کیا، جس کا نتیجہ یہ ہُوا کہ مستقل اپنی ہی صحبت نے ان کو خراب کر دیا۔ لیکن وہ خُود اپنی کم آمیزی کی توجیہ یُوں کرتے تھے کہ جب پُرانی دوستیاں نبھانے کی توفیق اور فُرصت میسر نہیں تو نئے لوگوں سے مِلنے سے فائدہ؟ رہے پُرانے دوست، سو اُن سے بھی ملنے میں زیادہ لُطف، عافیت محسُوس کرتے۔ اس لیے کہ وہ نفسیات کے کسِی فارمُولے کی گمراہ کُن روشنی میں اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ مِل کے بچھڑنے میں جو دُکھ ہوتا ہے، وہ ذرا دیر مِل بیٹھنے کی وقتی خوشی سے سات گنا شدید اور دیر پا ہوتا ہے اور بیٹھے بٹھائے اپنے دکھوں میں اضافہ کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ سُنا یہ ہے کہ وہ اپنے بعض دوستوں کو محض اس بناء پر محبوب رکھتے تھے کہ وہ ان سے پہلے مر چکے تھے اور ازبسکہ ان سے ملاقات کا امکان مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا تھا، لہٰذا ان کی یادوں کو حنوط کر کے انھوں نے اپنے دل کے ممی خانے میں بڑے قرینے سے سجارکھا تھا۔

لوگوں نے اتنا ڈرا رکھا تھا کہ میں جھجکتا ہُوا آغا کے کمرے میں داخل ہُوا۔ یہ ایک چھوٹا سا نیم تاریک کمرہ تھا جس کے دروازے کی تنگی سے معاً خیال گزرا کہ غالباً پہلے موروثی مسہری اور دُوسری بھاری بھر کم چیزیں خوب ٹھسا ٹھس جما دی گئیں، اس کے بعد دیواریں اٹھائی گئی ہوں گی۔ میں نے کمال احتیاط سے اپنے آپ کو ایک کونے میں پارک کر کے کمرے کا جائزہ لیا۔ سامنے دیوار پر آغا کی رُبع صدی پُرانی تصویر آویزاں تھی۔ جس میں وہ سیاہ گاؤن پہنے، ڈگری ہاتھ میں لیے، یونیورسٹی پر مُسکرا رہے تھے۔ اس کے عین مقابل، دروازے کے اُوپر دادا جان کے وقتوں کی ایک کاواک گھڑی ٹنگی ہُوئی تھی جو چوبیس گھنٹے میں صرف دو دفعہ صحیح وقت بتاتی تھی۔ (یہ پندرہ سال سے سوا دو بجا رہی تھی) آغا کہتے تھے کہ اِس گئی گزری حالت میں بھی یہ ان "ماڈرن” گھڑیوں سے بدرجہا بہتر ہے جو چلتی تو چوبیس گھنٹے ہیں مگر ایک دفعہ بھی ٹھیک وقت نہیں بتاتیں۔ جب دیکھو ایک منٹ آگے ہوں گی یا ایک منٹ پیچھے۔

دائیں جانب ایک طاقچے میں جو فرش کی بہ نسبت چھت سے زیادہ نزدیک تھا، ایک گراموفون رکھا تھا، جس کی بالا نشینی پڑوس میں بچوں کی موجودگی کا پتہ دے رہی تھی، ٹھیک اس کے نیچے چیڑ کا ایک لنگڑا اسٹول پڑا تھا، جس پر چڑھ کر آغا چابی دیتے اور چھپّن چھُری اور بھائی چھیلا پٹیالے والے کے گھسِے گھسائے ریکارڈ سنتے (سُننے میں کانوں سے زیادہ حافظے سے کام لیتے تھے) اس سے ذرا ہٹ کر برتنوں کی الماری تھی جس میں کتابیں بھری پڑی تھیں ان کے محتاط انتخاب سے ظاہر ہوتا تھا کہ اُردو میں جو کچھ لِکھا جانا تھا وہ پچیس سال قبل لِکھا جا چکا ہے۔ (اُسی زمانے میں سُنا تھا کہ آغا جدید شاعری سے اِس حد تک بے زار ہیں کہ نئے شاعروں کو ریڈیو سیٹ پر بھی ہُوٹ کرنے سے باز نہیں آتے۔ اکثر فرماتے تھے کہ ان کی جوان رگوں میں روشنائی دوڑ رہی ہے) آتش دان پرسیاہ فریم جڑا ہُوا الوداعی سپاس نامہ رکھا تھا جو  اُن کے ماتحتوں نے پندرہ سال قبل پُرانی دِلّی سے نئی دِلّی تبادلہ ہونے پر پیش کیا تھا۔ اسی تقریب میں یادگار کے طور پر آغا نے اپنے ماتحتوں کے ساتھ گروپ فوٹو بھی کھنچوایا جس میں آغا کے علاوہ ہر شخص نہایت مطمئن و مسُرور نظر آتا تھا۔ یہ پائینتی ٹنگا تھا تاکہ رات کو سونے سے پہلے اور صُبح اُٹھنے کے بعد آئینۂ ایّام میں اپنی ادا دیکھ سکیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت آغا تین درویش صُورت بزرگوں کے حلقے میں مہابلی اکبر کے دور کی خوبیاں اور برکتیں نہایت وارفتگی سے بیان کر رہے تھے۔ گویا سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ ابو الفضل کے قتل تک پہنچتے تو ایسی ہچکی بندھی کہ معلوم ہوتا تھا انھیں اس واردات کی اطّلاع ابھی ابھی ملی ہے۔ اس حرکت پر وہ شیخو کو ڈانٹ ڈپٹ کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں پہلا درویش بول اُٹھا: "اماں چھوڑو بھی۔ بھلا وہ بھی کوئی زمانہ تھا۔ جب لوگ چار گھنٹے فی میل کی رفتار سے سفر کرتے تھے۔ اور رؤسا تک جمعہ کے جمعہ نہاتے تھے۔” اس کا مُنہ آغا نے یہ کہہ  کر بند کر  دیا کہ حضرت اُس سُنہری زمانے میں ایسی سڑی گرمی کہاں پڑتی تھی؟ پھر پروفیسر شکلا نے آغا کی ہاں میں ہاں مِلاتے ہُوئے ارشاد فرمایا کہ ہمارے سمے میں بھی بھارت درش کی برکھا رُت بڑی ہی سُندر ہوتی تھی (مجھے بعد میں پتہ چلا کہ ہمارے سمے سے ان کی مراد ہمیشہ چند رگُپت موریہ کا عہد ہوتا تھاجس پر وہ تین دفعہ "تھیسس” لکھ کر نا منظور کروا چکے تھے) اس مقام پر چگی ڈاڑھی والا درویش ایکا ایکی اوچھا وار کر گیا۔ بولا "آغا! تم اپنے وقت سے ساڑھے تین سو برس بعد پیدا ہوئے ہو۔” اس پر آغا، شکلا جی کی طرف آنکھ مار کر کہنے لگے کہ "تمھارے حساب سے یہ غریب تو پُورے دو ہزار سال لیٹ ہو گیا۔ مگر میں تم سے ایک بات پُوچھتا ہوں۔ کہ کیا تم اپنے تئیں قبل از وقت پیدا ہونے والوں میں شمار کرتے ہو؟ کیا سمجھے؟”

شکلا جی شرماتے لجاتے پھر بیچ میں کُود پڑے "اگر تمہارا مطلب وہی ہے جو میں سمجھا ہُوں تو بڑی ویسی بات ہے۔”

یہ نوک جھونک چل رہی تھی کہ پہلا درویش پھر گمبھیر لہجے میں بولا "قاعدہ ہے کہ کوئی دور اپنے آپ سے مطمئن نہیں ہوتا۔ آج آپ اکبر اعظم کے دور کو یاد کر کے روتے ہیں۔ لیکن یقین ہے کہ اگر آپ اکبر کے عہد میں پیدا ہوتے تو علاء الدین خلجی کے وقتوں کو یاد کر کے آبدیدہ ہوتے۔ اپنے عہد سے غیر مطمئن ہونا بجائے خود ترقّی کی نشانی ہے۔”

"سچ تو یہ ہے کہ حکومتوں کے علاوہ کوئی بھی اپنی موجودہ ترقّی سے مطمئن نہیں ہوتا”

چُگی ڈاڑھی والے درویش نے کہا۔

میں نے پہلے درویش کو سہارا دیا

"آپ بجا فرماتے ہیں۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے سے سو فی صد مطمئن ہے تو سمجھ لیجئے کہ یہ گھرانا رُو بہ زوال ہے۔ برخلاف اس کے، اگر کوئی بیٹا اپنے باپ کو دوستوں سے ملانے سے شرمانے لگے تو یہ علامت ہے اِس بات کی کہ خاندان آگے بڑھ رہا ہے۔”

"مگراس کو کیا کیجئے کہ آج کل کے نوجوان مطلب کی خاطر باپ کو بھی باپ ہی مان لیتے ہیں! کیا سمجھے؟” آغا نے کہا۔

سب کو بڑا تعجب ہوا کہ آغا پہلی ملاقات میں مُجھ سے بے تکلّف ہو گئے۔۔۔ اتنے کہ دوسری صُحبت میں انھوں نے مجھے نہ صرف اپنا پہلونٹی کا شعر بڑے لحن سے سُنایا بلکہ مجھ سے اپنے وہ اداریے بھی پڑھوا کر سُنے جو سترہ اٹھارہ سال پہلے اُنھوں نے اپنے ماہ نامے "سُرودِ رفتہ” میں پُرانی نسل کے بارے میں مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع کیے تھے :

"قارئین کا اڈیٹر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ”

یہ ربط ضبط دن بدن بڑھتا گیا۔ میں اس تقّربِ خاص پر نازاں تھا گو کہ حاسدوں کو۔۔اور خود مجھے بھی۔۔اپنی سیرت میں بظاہر کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی تھی جو آغا کی پسندیدگی کا باعث ہو۔ خیر ایک روز اُنھوں نے خود یہ عقدہ حل کر دیا۔ فرمایا تمھاری صورت عین مین ہمارے ایک ماموں سے مِلتی ہے جو میٹرک کا نتیجہ نکلتے ہی ایسے رُو پوش ہُوئے کہ آج تک مفقود الخبر ہیں۔”

انگریزوں کا وطیرہ ہے کہ وہ کسی عمارت کو اس وقت تک خاطر میں نہیں لاتے جب تک وہ کھنڈر نہ ہو جائے۔ اسی طرح ہمارے ہاں بعض محتاط حضرات کِسی کے حق میں کلمۂ  خیر کہنا روا نہیں سمجھتے تا وقتیکہ ممدُوح کا چہلم نہ ہو جائے۔ آغا کو بھی ماضی بعید سے، خواہ اپنا ہو یا پرایا، والہانہ وابستگی تھی۔ جس کا ایک ثبوت ان کی 1927ء ماڈل کی فورڈ کار تھی جو انھوں نے 1955ء میں ایک ضعیف العمر پارسی سے تقریباً مفت لی تھی۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ چلتی بھی تھی اور وہ بھی اِس میانہ  روی کے ساتھ محلّے کے لونڈے ٹھلِوے جب اور جہاں چاہتے چلتی گاڑی میں کُود کر بیٹھ جاتے۔ آغا نے کبھی تعّرض نہیں کیا۔ کیونکہ اگلے چوراہے پر جب یہ دھکڑ دھکڑ کر کے دم توڑ دیتی تو یہی سواریاں دھکّے لگا لگا کر منزِل مقصُود تک پہنچا آتیں۔ اس صورت میں پٹرول کی بچت تو خیر تھی ہی، لیکن بڑا فائدہ یہ تھا کہ انجن بند ہو جانے کے سبب کار زیادہ تیز چلتی تھی۔ واقعی اس کار کا چلنا اور چلانا معجزۂ فن سے کم نہ تھا اس لیے کہ اس میں پٹرول سے زیادہ خون جلتا تھا۔ آغا دل ہی دِل میں کُڑھتے اور اپنے مصنُوعی دانت پِیس کر رہ جاتے۔ لیکن کوئی یہ کار ہدیتاً لینے کے لیے بھی رضامند نہ ہوتا۔ کئی مرتبہ تو ایسا ہُوا کہ تنگ آ کر آغا کار کو شہر سے دُور کِسی پیپل کے نیچے کھڑا کر کے راتوں رات بھاگ آئے۔ لیکن ہر مرتبہ پولیس نے کار سرکاری خرچ پر ٹھیل ٹھال کر آغا کے گھر بحفاظت تمام پُہنچا دی۔

غرضیکہ، اس کار کو علیٰحدہ کرنا اِتنا ہی دُشوار نِکلا جتنا اس کو رکھنا۔ پھر یہ بات بھی تھی کہ اِس سے بہت تاریخی حادثوں کی یادیں وابستہ تھیں جن میں آغا بے عزّتی سے بری ہُوئے تھے۔ انجام کار، ایک سُہانی صبح فورڈ کمپنی والوں نے اُن کو پیغام بھیجا کہ یہ کار ہمیں لوٹا دو۔ ہم اس کو پبلسٹی کے لیے اپنے قدیم ماڈلوں کے میوزیم میں رکھیں گے اور اس کے بدلے سالِ رواں کے ماڈل کی بڑی کار تمھیں پیش کریں گے۔ شہر کے ہر کافی ہاؤس میں آغا کی خوش نصیبی اور کمپنی کی فیاضی کے چرچے ہونے لگے۔ اور یہ چرچے اُس وقت ختم ہُوئے جب آغا نے اس پیش کش کو حقارت کے ساتھ مستردکر دیا۔

کہنے لگے "دو لُوں گا!”

کمپنی خاموش ہو گئی اور آغا مُدتوں اس کے مقامی کارندوں کی نا اہلی اور ناعاقبت اندیشی پر افسوس کرتے رہے۔ کہتے تھے "لالچی کہیں کے! پانچ سال بعد تین دینی پڑیں گی!دیکھ لینا!”

وہ خلوصِ نیّت سے اس دور کو کلجگ کہتے اور سمجھتے تھے۔ جہاں کوئی نئی چیز، کوئی نئی صُورت نظر پڑی اور اُنھوں نے کچ کچا کے آنکھیں بند کیں اور یادِ رفتگاں کے اتھاہ سمندر میں غڑاپ سے غوطہ لگایا۔ اور کبھی ایسا نہیں ہُوا کہ کندھے پر ایک آدھ لاش لادے برآمد نہ ہُوئے ہوں۔ کہیں کوئی بات بارِ خاطر ہُوئی اور اُنھوں نے "یادش بخیر’ کہہ کر بِیتے سمے اور بچھڑی ہُوئی صُورتوں کی تصویر کھینچ کے رکھ دی۔ ذرا کوئی امریکی طور طریق یا وضع قطع ناگوار گزری اور اُنھوں نے کولمبس کو گالیاں دینی شروع کیں۔ وہ فی الواقع محسوس کرتے کہ ان کے لڑکپن میں گنّے زیادہ میٹھے اور ملائم ہوا کرتے تھے۔ میرے سامنے بارہا اتنی سی بات منوانے کے لیے مرنے مارنے پر تُل گئے کہ اُن کے بچپنے میں چنے ہر گز اتنے سخت نہیں ہوتے تھے۔ کہتے تھے آپ نہ مانیں، یہ اور بات ہے، مگر ٹھوس حقیقت ہے کہ گزشتہ پندرہ بیس سال میں قطب مینار کی سیڑھیاں گھِسنے کی بجائے اور زیادہ اُونچی ہو گئی ہیں۔ اور اس کے ثبوت میں اپنے حالیہ سفر دہلی کا تجربہ ہانپ ہانپ کر بیان کرتے۔ چونکہ ہم میں کسی کے پاس پاسپورٹ تک نہ تھا، اس لیے اس منزل پر بحث کا پلّہ ہمیشہ اُن کے حق میں جھُک جاتا۔ من جملہ دیگر عقائد کی، اُن کا ایمان تھا کہ بکری کا گوشت اب اِتنا حلوان نہیں ہوتا جتنا ان کے وقتوں میں ہُوا کرتا تھا۔ ممکن ہے اس میں کچھ حقیقت بھی ہو مگر وہ ایک لمحے کو یہ سوچنے کے لیے تیار نہ تھے کہ اس میں دانتوں کا قصُور یا آنتوں کا فتور بھی ہو سکتا ہے۔ وُہ ریشے  دار گوشت کو قصائی کے بے ایمانی سے زیادہ بکری کی اپنی بد اعمالیوں سے منسُوب کرتے۔ چنانچہ بعض اوقات خلال کرتے کرتے اس زمانے کو یاد کر کے اُن کا گلا رندھ جاتا جب بکریاں اللہ میاں کی گائے ہُوا کرتی تھیں۔

ہم نے انھیں نشہ کرتے نہیں دیکھا۔ تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ میرے لڑکپن میں سرولی آم خربوزے کے برابر ہوتے ہیں۔ ہم نے کبھی اس کی تردید نہیں کی۔ اس لئے کہ ہم اپنے گئے گزرے زمانے میں روزانہ ایسے خربوزے بکثرت دیکھ رہے تھے جو واقعی آم کے برابر تھے! بات سرولی پرہی ختم ہو جاتی تو صبر آ جاتا، لیکن وہ تو یہاں تک کہتے تھے کہ اگلے وقتوں کے لوگ بھی غضب کے لمبے چوڑے ہوتے تھے۔ ثبوت کے طور پر اپنے تایا ابّا کی رسولی کے سائز کا حوالہ دیتے جو مقامی میڈیکل کالج نے اسپرٹ میں محفوظ کر رکھی تھی۔ کہتے تھے آپ صرف اِسی سے اُن کی صحّت کا اندازہ کر  لیجیے۔ یہ سُن کر ہم سب ایک دُوسرے کا مُنہ دیکھنے لگتے، اس لیے کہ اوّل تو ہمارے بُزرگ اُن بُزرگوں کے مقابلے ابھی بچے ہی تھے۔ دوم، ہم سے کِسی کے بُزرگ کی رسولی ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی تھی۔

اس کلجگ کا اثر جہاں اور چیزوں، خصوصاً اشیائے خورد و نوش، پر پڑا، وہاں موسم بھی اس کے چنگل سے نہ بچ سکا۔ اوائل جنوری کی ایک سرد شام تھی۔ آغا نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا، کیا وقت آ لگا ہے! ورنہ بیس سال پہلے جنوری میں اس کڑاکے کی سردی نہیں پڑتی تھی کہ پنج وقتہ تیمّم کرنا پڑے۔ چگّی ڈاڑھی والے درویش نے سوال کیا، کہیں اس کی وجہ تو نہیں کہ تم اس زمانے میں عید کی نماز پڑھتے تھے؟ لیکن بہت کچھ بحث و تمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ محکمہ موسمیات کے ریکارڈسے آغا کو قائل کیا جائے۔

آغا دونوں ہاتھ گھٹنوں میں دے کر بولے "صاحب!ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ بیس برس پہلے اِتنی کم سردی پڑتی تھی کہ ایک پتلی سی دُلائی میں پسینہ آنے لگتا تھا اور اب پانچ سیر رُوئی کے لحاف میں بھی سردی نہیں جاتی! کیا سمجھے؟”

وہ کُچھ اور دلائل بھی پیش کرنا چاہتے تھے لیکن اُن کی کٹکٹی بندھ گئی اور بحث ایک دفعہ پھر انہی کے حق میں ختم ہو گئی۔

قدیم نصابِ تعلیم کے وہ بے معترف و مدّاح تھے۔ اکثر کہتے کہ ہمارے بچپن میں کتابیں اتنی آسان ہوتی تھیں کہ بچّے، اُن کے والدین بھی سمجھ سکتے تھے۔ اسی رو میں اپنی یونیورسٹی کا ذکر بڑی للک سے کرتے اور کہتے کہ ہمارے وقتوں میں ممتحن اِتنے لائق ہوتے تھے کہ کوئی لڑکا فیل نہیں ہو سکتا تھا۔ قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلاتے کہ ہماری یونیورسٹی میں فیل ہونے کے لیے غیر معمُولی قابلیت درکار تھی۔ جس شہر میں یونیورسٹی واقع تھی، اسے وہ عرصے سے اُجڑا دیار کہنے کے عادی تھے۔ ایک دن میں نے آڑے ہاتھوں لیا۔ "آغا! خُدا سے ڈرو! وہ شہر تمھیں اُجاڑ دکھائی دیتا ہے؟ حالانکہ وہاں کی آبادی پانچ ہزار سے بڑھ کر ساڑھے تین لاکھ ہو گئی ہے!”

"مسلمان ہو؟”

"ہوں تو۔”

"دوزخ پر ایمان ہے؟”

"ہے۔”

"وہاں کی آبادی بھی تو روز بروز بڑھتی جا رہی ہے! کیا سمجھے؟”

اختر شیرانی کی ایک بڑی مشہور نظم ہے جس میں انھوں نے یارانِ وطن کی خیر و عافیت پُوچھنے کے بعد ، دیس سے آنے والے کی خاصی خبر لی ہے۔ اِس بھولے بھالے سوال نامے کے تیور صاف کہہ رہے ہیں کہ شاعر کو یقینِ واثق ہے کہ اُس کے پردیس سِدھارتے ہی نہ صرف دیس کی ریت رسم بلکہ موسم بھی بدل گیا ہو گا۔ اور ندی نالے اور تالاب سب ایک ایک کر کے سُوکھ گئے ہوں گے۔ آغا کو اپنے آبائی گاؤں چاکسُو (خُورد) سے بھی کُچھ اِسی نوع کی توقّعات وابستہ تھیں۔

چاکسُو (خورد) دراصل ایک قدیم گاؤں تھا جو چاکسُو کلاں سے چھوٹا تھا۔ یہاں لوگ اب تک ہوائی جہاز کو چیل گاڑی کے نام سے یاد کرتے تھے۔ لیکن آغا اپنے لعابِ ذہن سے اس کے گردا گرد یادوں کا ریشمی جالا بُنتے رہے، یہاں تک کہ اُس نے ایک تہ دار کوئے کی شکل اختیار کر لی جِسے چیر کر (آغا کا تو کیا ذکر) جمیع باشندگانِ چاکسُو باہر نہیں نِکل سکتے تھے۔ ادھر چند دنوں سے وہ ان تنگ و تاریک گلیوں کو یاد کر کے زار و قطار  رو رہے تھے، جہاں بقول ان کے جوانی کھوئی تھی۔ حالانکہ ہم سب کو ان کی سوانح عُمری میں سوانح کم، اور عُمر زیادہ نظر آتی تھی لیکن جب اُن کے یادش بخیریا نے شدّت اختیار کی تو دوستوں میں یہ صلاح ٹھہری کہ ان کو دو تین مہینے کے لیے اسی گاؤں میں بھیج دیا جائے جس کی زمین اُن کو حافظے کی خرابی کے سبب چہارم آسمان دکھائی دیتی ہے۔

چنانچہ گزشتہ مارچ میں آغا ایک مدّت مدید (تیس سال) کے بعد اپنے گاؤں گئے۔ لیکن وہاں سے لوٹے تو کافی آزردہ تھے۔ انھیں اس بات سے رنج پہنچا کہ جہاں پہلے ایک جوہڑ تھا جس میں دن بھر بھینسیں اور ان کے مالکوں کے بچّے پڑے رہتے تھے، وہاں پر اب ایک پرائمری اسکول کھڑا تھا۔ اس میں انھیں صریحاً چاکسُو کلاں والوں کی شرارت معلوم ہوتی تھی۔ جُوں توُں ایک دن وہاں گزارا اور پہلی ٹرین سے اپنی پُرانی یونیورسٹی پہنچے۔ مگر وہاں سے بھی شاموں شام واپس آئے۔ بے حد مغموم و گرفتہ دل۔ انھیں یہ دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی کہ یونیورسٹی اب تک چل رہی ہے! ان جیسے حسّاس آدمی کے لیے بڑے دُکھ اور اچنبھے کی بات تھی کہ وہاں مارچ میں اب پھُول کِھلتے ہیں اور گلاب سُرخ اورسبزہ ہرا ہوتا ہے۔ دراصل ایک مثالی "اولڈ بوائے” کی طرح وہ اس وقت تک اس صحّت مند غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ساری چونچالی اور تمام خوش دِلی اور خوش باشی ان کی نسل پر ختم ہو گئی۔

آغا کی عمر کا بھید نہیں کھلا۔ لیکن جن دِنوں میرا تعارف ہُوا، وُہ عمر کی اس کٹھن گھاٹی سے گزر رہے تھے جب جوان اُن کو بوڑھا جان کر کتراتے اور بوڑھے کل کا لونڈا سمجھ کر مُنہ نہیں لگاتے تھے۔ جن حضرات کو آغا اپنا ہم عمر بتاتے رہے، اِن میں سے اکثر اُن کو مُنہ در مُنہ چچا کہتے تھے۔ خیر، اُن کی عمر کچھ بھی ہو، مگر میرا خیال ہے کہ وہ اُن لوگوں میں سے تھے جو کبھی جوان نہیں ہوتے۔ جب کبھی وہ اپنی جوانی کے قصّے سنانے بیٹھتے تو نوجوان ان کو یکسر فرضی سمجھتے۔ وہ غلطی پر تھے۔ کیونکہ قصّے ہی نہیں، ان کی ساری جوانی قطعی فرضی تھی۔ ویسے یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ اس لیے کہ بعض اشخاص عمر کی کِسی نہ کسی منزل کو پھلانگ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر شیخ سعدی کے متعلق یہ باور کرنے کو جی نہیں چاہتا کہ وہ کبھی بچّہ رہے ہوں گے۔ حالی جوان ہونے سے پیشتر بُڑھا گئے۔ مہدی الافادی جذباتی اعتبارسے، ادھیڑ پیدا ہوئے اور ادھیڑ مرے۔ شبلی نے عمرِ طبیعی کے خلاف جہاد کر کے ثابت کر دیا کہ عشق عطیّہ قدرت ہے۔ پیر و جواں کی قید نہیں۔

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

اور اختر شیرانی جب تک جئے دائمی نوجوانی میں مبتلا رہے اور آخر اِسی میں انتقال کیا۔ اِس سے اختر شیرانی کی تنقیض یا  آغا کی مذّمت مقصُود نہیں کہ میرے کانوں میں آج بھی آغا کے وہ الفاظ گونج رہے ہیں جو انھوں نے ٹیگور پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہے تھے "برا مانو یا بھلا۔ لیکن جوان مولوی اور بوڑھے شاعر پر اپنا دِل  تو نہیں ٹھکتا۔ کیا سمجھے؟”

اُن کی شادی کے متعلق اتنی ہی روایتیں تھیں جتنے ان کے دوست! بعضوں کا کہنا  تھا کہ بی۔ اے کے نتیجے سے اس قدر بد دل ہُوئے کہ خود کشی کی ٹھان لی۔ بوڑھے والدین نے سمجھایا کہ بیٹا خود کشی نہ کرو، شادی کر لو۔ چنانچہ شادی ہو گئی۔ مگر ابھی سہرے کے پھُول بھی پوری طرح نہ مُرجھائے ہوں گے کہ یہ فکر لاحق ہو گئی کہ بچپن انھیں اسیر پنجہ عہد شباب کر کے کہاں چلا گیا اور وہ اپنی آزادی کے ایّام کو بے طرح یاد کرنے لگے۔ حتّیٰ کہ اُس نیک بخت کو بھی رحم آ گیا اور وہ ہمیشہ کے لیے اپنے میکے چلی گئی۔

اس سے مہر بخشوانے کے ٹھیک پندرہ سال بعد ایک مُسِن خاتون کو محض اس بِنا پر حبالہ نکاح میں لائے کہ پنتیس سال اور تین شوہر قبل موصُوفہ نے چاکسو میں اُن کے ساتھ اماوس کی رات میں آنکھ مچولی کھیلتے وقت چٹکی لی تھی۔ جس کا نِیل ان کے حافظے میں جُوں کا تُوں محفوظ تھا۔ لیکن آغا اپنی عادت سے مجبُور تھے۔ اس کے سامنے اپنی پہلی بیوی کی اٹھتے بیٹھتے اس قدر تعریف کی کہ اس نے بہت جلد طلاق لے لی۔ اتنی جلد کہ ایک دِن انگلیوں پرحساب لگایا تو بچاری کی ازدواجی زندگی، عِدّت کی میعاد سے بھی مختصر نکلی! آغا ہر سال نہایت پابندی اور دھُوم دھام سے دونوں طلاقوں کی سالگرہ منایا کرتے تھے۔ پہلی طلاق کی سلور جوبلی میں راقم الحروف کو بھی شرکت کا اِتفاق ہُوا۔

دوسری خانہ بربادی کے بعد شادی نہیں کی، اگرچہ نظر میں آخری دم تک سہرے کے پھُول کِھلتے اور مہکتے رہے۔

یُوں ترنگ میں ہوں تو انھیں ہر عاقل و بالغ خاتون میں اپنی اہلیہ بننے کی صلاحیت نظر آتی تھی۔ ایسے نازک و نایاب لمحات میں وہ کتابوں کی الماری سے بیئر پینے کا ایک گلاس نکالتے جو ایک یادگار نمائش سے دُودھ پینے کے لیے خریدا تھا۔ اب اس میں سکنجبین بھرکے جُرعہ جُرعہ حلق میں اُنڈیلتے رہتے اور ماضی کے نشہ سے سرشار ہو کر خُوب بہکتے۔ اپنے آپ پر سنگین تہمتیں لگاتے اور عورت ذات کو نقصان پُہنچانے کے ضمن میں ٥٥ سالہ منصوبوں کا اعلان کرتے جاتے۔ پھر جیسے جیسے عُمر اور نا تجربہ کاری بڑھتی گئی وہ ہر خاموش خاتون کو نیم رضا مند سمجھنے لگے۔ نہ جانے کیوں اور کیسے انھیں یہ اندیشہ ہو چلا تھا کہ حوّا کی ساری نسل انہی کی گھات میں بیٹھی ہے۔ مگر کسی اللہ کی بندی کی ہمّت نہیں پڑتی کہ اُن کی پُر غرور گردن میں گھنٹی باندھ دے۔ لیکن سوائے آغا کے سب جانتے تھے کہ وہ صنفِ نازک کے حضُور ہمیشہ سر تا پا ! بن کر گئے جب کہ انھیں مجسّم ؟ ہونا چاہیے تھا۔ ایک دن چُگی ڈاڑھی والے درویش نے دبی زبان سے کہا کہ آغا تم دہلیز ہی چُومتے رہ گئے۔ دستک دینے کی ہمّت تمھیں کبھی نہیں ہُوئی۔ ہنسے۔ کہنے لگے، میاں! ہم تو درویش ہیں۔ اِک گھونٹ لیا، دِل شاد کیا، خوش بخت ہُوئے اور چل نِکلے۔ ملنگ کے دِل میں سبیل پر قبضہ کرنے کی خواہش نہیں ہوتی۔

سینما دیکھنے کے شائق تھے۔ اگرچہ اس کے مواقع بہت کم ملتے تھے۔ صرف وہ تصویریں چاؤ سے دیکھتے جِن میں اُن کے زمانے کی محبوب ایکٹرسیں ہیروئن کا رول ادا کر رہی ہوں۔ مگر دِقّت یہ تھی کہ ان کے چہرے یا تو اب اسکرین پر نظر ہی نہیں آتے تھے، یا پھر ضرورت سے زیادہ نظر آ جاتے تھے۔ اُن میں سے جو حیات تھیں، اور چلنے پھرنے کے قابل، وہ اب ہیروئن کی نانی اور ساس کا رول نہایت خوش اسلوبی سے ادا کر رہی تھیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ آغا کو کیا دِل چسپی ہو سکتی ہے۔ البتہ چھٹے چھماہے "پکار” یا "ماتا ہری” قسم کی فِلم آ جاتی تو آغا کے دِل کا کنول کھِل جاتا۔ چُگی ڈاڑھی والے درویش کا بیان ہے کہ آغا گریٹا  گاربو پر محض اِس لیے فریفتہ تھے کہ وہ انہی کی عُمروں کی تھی۔ ہرچند  اس قبیل کی فلمیں دیکھ کر ہر تندرست آدمی کو اپنی سماعت اور بصارت پر شبہ ہونے لگتا۔ لیکن آغا کو ان کے مناظر اور مکالمے ازبر ہو چکے تھے اور وہ اس معاملے میں، ہماری آپ کی طرح، اپنے حواس خمسہ کے چنداں محتاج نہ تھے۔ یہ باسی فلمیں دیکھتے وقت انھیں ایک باڑھ پر  آئے ہوئے بدن کی جانی پہچانی تیز اور تُرش مہک آتی جو اپنے ہی وُجود کے کسی گوشے سے پھُوٹتی ہُوئی محسوس ہوتی تھی۔

باسی پھُول میں جیسے خوشبو، پھُول پہننے والے کی

ان کے مِٹتے ہُوئے نقوش میں اور ان مقامات پر جہاں پچیس سال پہلے دِل بُری طرح دھڑکا تھا، انھیں ایک بچھڑے ہُوئے ہمزاد کا عکس دکھائی دیتا جو وقت کے اُس پار انھیں بُلا رہا تھا۔

سب جانتے تھے کہ آغا کی زندگی بہت جلد ایک خاص نقطے پر پُہنچ کر ساکن ہو گئی۔ جیسے گراموفون کی سُوئی کسی میٹھے بول پر اٹک جائے۔ لیکن کم احباب کو علم ہو گا کہ آغا اپنے ذہنی ہکلے پن سے بے خبر نہ تھے۔ اکثر کہا کرتے کہ جس وقت میرے ہم سن کبّڈی میں وقت ضائع کرتے ہوتے، تومیں اکیلا جوہڑ کے کنارے بیٹھا اپنی یاد داشت سے ریت اور گارے کا لال قلعہ بناتا جسے میں نے پہلی بار اُس زمانے میں دیکھا تھا جب حلوا سوہن کھاتے ہُوئے پہلا دُودھ کا دانت ٹوٹا تھا۔ بڑے ہو کر آغا نے شاہ جہانی شغل (ہمارا اشارہ حلوا سوہن سے دانت اکھاڑنے کی طرف نہیں، تعمیر قلعہ جات کی طرف ہے) ترک نہیں کیا۔ بس ذرا ترمیم کر لی۔ اب بھی وہ یادوں کے قلعے بناتے تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب بہتر مسالہ لگاتے اور ریت کے بجائے اصلی سنگِ مرمر وافر مقدار میں استعمال کرتے۔ بلکہ جہاں صرف ایک سِل کی گنجائش ہوتی، وہاں دو لگاتے۔ نیز بُرج اور مینار نقشے کے مُطابق بے جوڑ ہاتھی دانت کے بناتے۔ مدّت العمر شیشے کی فصیلوں پر اپنی منجیق نصب کر کے وہ بالشتیوں کی دُنیا پر پتھراؤ کرتے رہے۔ اِن قلعوں میں غنیم کے داخل ہونے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ بلکہ اپنے نکلنے کا بھی کوئی راستہ نہیں رکھا تھا۔

یہ نہیں کہ انھیں اس کا احساس نہ ہو۔ اپنا حال ان پر بخوبی روشن تھا۔ اس کا علم مجھے یُوں ہوا کہ ایک دفعہ باتوں ہی باتوں میں یہ بحث چل نکلی کہ ماضی سے لگاؤ ضعف پیدا کرتا ہے۔ پہلے درویش (جن کا روپیہ ان کی جوانی سے پہلے جواب دے گیا) نے تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ جتنا وقت اور روپیہ بچّوں کو "مُسلمانوں کے سائینس پر احسانات ” رٹانے میں صرف کیا جاتا ہے، اس کا دسواں حصّہ بھی بچوں کو سائینس پڑھانے میں صرف کیا جائے تو مسلمانوں پر بڑا احسان ہو گا۔ غور کیجئے تو امریکہ کی ترقی کا سبب یہی ہے کہ اس کا کوئی ماضی نہیں۔ چُگی ڈاڑھی والا درویش گویا ہُوا "قدیم داستانوں میں بار بار ایسے آسیبی صحرا کا ذکر آتا ہے، جہاں آدمی پیچھے مڑ کر دیکھ لے تو پتّھر کا ہو جائے۔ یہ صحرا ہمارے اپنے من کے اندر ہے، باہر نہیں!” پہلے درویش نے بپھر کر دیو مالا سے منطقی نتیجہ نکالتے ہُوئے کہا۔ "اپنے ماضی سے شیفتگی رکھنے والوں کی مثال ایک ایسی مخلوق کی سی ہے جِس کی آنکھیں گُدّی کے پیچھے لگی ہُوئی ہوں۔ چھان بین کیجئے تو بات بات پر یاد ایّامیکہ، اور ’یادش بخیر‘ کی ہانک لگانے والے وہی نکلیں گے جن کا مستقبل نہیں۔”

آغا نے یک لخت ماضی کے مرغزاروں سے سرنکال کر فائر کیا۔ "یادش بخیر کی بھی ایک ہی رہی۔ اپنا تو عقیدہ ہے کہ جسے ماضی یاد نہیں آتا اس کی زندگی میں شاید کبھی کچھ ہُوا ہی نہیں۔ لیکن جو اپنے ماضی کو یاد ہی نہیں کرنا چاہتا وُہ یقیناً لوفر رہا ہو گا۔ کیا سمجھے؟”

مُدتیں گزریں۔ ٹھیک یاد نہیں بحث کِن دِل آزار مراحل سے گزرتی اس تجریدی نکتے پر  آ پہنچی کہ ماضی ہی اٹل حقیقت ہے۔ اس لیے کہ ایک نہ ایک دن یہ اژدہا حال اور مستقبل دونوں کو نِگل جائے گا۔ دیکھا جائے تو ہر لمحہ اور ہر لحظہ، ہر آن اور ہر پل ماضی کی جیت ہو رہی ہے۔ آنے والا کل آج میں اور آج گزرے ہُوئے کل میں بدل جاتا ہے۔ اس پر پہلے درویش نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ ایشیا کا حال اس شخص جیسا ہے جس نے

گئے جنم کی تمنّا میں خود کشی کر لی

مشرق نے کبھی پل کے رُوپ سُروپ سے پیار کرنا نہیں سیکھا۔ جینا ہے تو پِھسلتے سرسراتے لمحے کو دانتوں سے پکڑو۔ گزرتے لمحے کو بے جھپک چھاتی سے لگاؤ، اس کی نس نس میں ماضی کا نیم گرم خُون دوڑ رہا ہے۔ اسی کی جیتی جیتی کوکھ سے مستقبل جنم لے گا۔ اور اپنی چھل بل دکھا کر آخر اسی طرف لوٹے گا۔

یہاں چُگی ڈاڑھی والے درویش نے اچانک بریک لگایا "آپ کے ننّھے مُنّے لمحے کے نجیب الطرفین ہونے میں کیا کلام ہے۔ لیکن بیتی ہُوئی گھڑیوں کی آرزو کرنا ایسا ہی ہے جیسے ٹوتھ پیسٹ کو واپس ٹیوب میں گھُسانا! لاکھ یہ دنیا ظلمت کدہ سہی۔ لیکن کیا اچّھا ہو کہ ہم ماضی کے دھُندلے خاکوں میں چیختے چنگھاڑتے رنگ بھرنے کی بجائے حال کو روشن کرنا سیکھیں۔”

آغا نے ایک بار پھر تُرپ پھینکا۔ "بھئی ہم تو باورچی خانے پر سفیدی کرنے کے قائل نہیں!”

بات یہ ہے کہ بہت کم لوگ جی داری سے ادھیڑ پن کا مقابلہ کر پاتے ہیں۔ غبی ہوں تو اس کے وجود سے ہی منحرف۔ اور ذرا ذہین ہوں تو پہلا سفید بال نظر پڑتے ہی اپنی کایا کو ماضی کی اندھی سُرنگ کے خنک اندھیروں میں ٹھنڈا ہونے کے لیے ڈال دیتے ہیں۔ اور وہاں سے نکلنے کا نام نہیں لیتے جب تک کہ وقت ان کے سروں پر برف کے گالے نہ بکھیر دی۔ بال سفید کرنے کے لیے اگرچہ کسی تیاگ اور تپسیا کی ضرورت نہیں۔ تاہم ایک رچی بسی با وقار سُپردگی کے ساتھ بوڑھے ہونے کا فن اور ایک آن کے ساتھ پسپا ہونے کے پینترے بڑی مشکل سے آتے ہیں۔ اور ایک بڑھاپے پر ہی موقوف نہیں۔ حُسن اور جوانی سے بہرہ یاب ہونے کا سلیقہ بھی کچھ کچھ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب واہ ایک گہری آہ اور آہ ایک لمبی کراہ میں بدل چکی ہوتی ہے۔

قدرت کے کھیل نرالے ہیں۔ جب وہ دانت دیتی ہے تو چنے نہیں ہوتے۔ اور جب چنے دینے پر آتی ہے تو دانت ندارد۔ آغا کا المیہ یہ تھا کہ جب قُدرت نے ان کو دانت اور چنے دونوں بخشے تو انھوں نے دانتوں کو استعمال نہیں کیا۔ لیکن جب دانت عدم استعمال سے کمزور ہو کر ایک ایک کر کے گِر گئے تو انھیں پہلی دفعہ چنوں کے سوندھے وجود کا احساس ہُوا۔ پہلے تو بہت سٹ پٹائے۔ پھر دانتوں کو یاد کر کے خُود روتے اور دُنیا کو رُلاتے رہے۔ عبارت آرائی برطرف، امر واقعہ یہ ہے کہ آغا نے بچپن اور جوانی میں بجز شطرنج کے کوئی کھیل نہیں کھیلا۔ حد یہ کہ جُوتے کے تسمے بھی کھڑے کھڑے اپنے نوکروں سے بندھوائے۔ مگر جُونہی پچپن کے پیٹے میں آئے، اس بات سے بڑے رنجیدہ رہنے لگے کہ اب ہم تین قِسطوں میں بھی ایک بیٹھک نہیں لگا سکتے۔ اس میں وہ قدرے غلو سے کام لیتے تھے۔ کیونکہ ہم نے بچشمِ خود دیکھا کہ نہ صرف ایک ہی ہلّے میں  اڑ اڑا کے بیٹھ جاتے، بلکہ اکثر و بیشتر بیٹھے ہی رہ جاتے۔ اِس لحاظ سے چُگی ڈاڑھی والے درویش بھی کچھ کم نہ تھے۔ زندگی بھر کیرم کھیلا اور جاسوسی ناول پڑھے۔ اب اِن حالوں کو پہنچ گئے تھے کہ اپنی سال گرہ کے کیک کی موم بتیاں تک پھُونک مار کر نہیں بُجھا سکتے تھے۔ لہٰذا ان کے نواسے کو پنکھا جھل کر بُجھانا پڑتی تھیں۔ اس کے علاوہ نظر اتنی موٹی ہو گئی تھی کہ عورتوں نے ان سے پردہ کرنا چھوڑ دیا۔ عُمر کا اندازہ بس اس سے کر لیجئے کہ تین مصنوعی دانت تک ٹوٹ چکے تھے۔

بایں سامانِ عاقبت، شکلا جی اور آغا کے سامنے اکثر رُباعی کے پردے میں اپنی ایک آرزو کا برملا اظہار کرتے جِسے کم و بیش سے اپنا خُون پلا پلا کر پال رہے تھے۔

خلاصہ اس دائمی حسرت کا یہ تھا کہ ننانوے سال کی عُمر پائیں اور مرنے سے پہلے ایک۔۔ بس ایک بار۔۔مجرمانہ دست درازی میں ماخوذ ہوں۔ ایک دفعہ زکام میں مُبتلا تھے۔ مجھ سے فرمائش کی "میاں!میری رُباعی ترنّم سے پڑھ کرسُناؤ۔” میں نے تامّل کیا، فرمایا "پڑھو بھی۔ شرع اور شاعری میں کاہے کی شرم!”

گو آغا تمام عمر رہین ستم ہائے روزگار رہے لیکن چاکسو کی یاد سے ایک لحظہ غافل نہیں رہے۔ چنانچہ ان کی میّت آخری وصیّت کے مطابق سات سو میل دُور چاکسو خورد لے جائی گئی۔ اور چاکسو کلاں کی جانب پاؤں کر کے اُسے قبر میں اُتارا گیا۔

لاریب وہ جنتی تھے۔ کیونکہ وہ کسی بُرے میں نہیں تھے۔ اُنھوں نے اپنی ذات کے علاوہ کبھی کسی کو گزند نہیں پہنچایا۔ ان کے جنتّی ہونے میں یُوں بھی شبہ نہیں کہ جنت واحد ایسی جگہ ہے جس کا حال اور مستقبل اس کے ماضی سے بہتر نہیں ہو سکتا!

لیکن نہ جانے کیوں میرا دِل گواہی دیتا ہے کہ وہ جنّت میں بھی خوش نہیں ہوں گے اور یادش بخیر کہہ کر جنتّیوں کو اسی جہان گذراں کی داستان پاستاں سُنا سُنا کر للچاتے ہوں گے جِسے جیتے جی دوزخ سمجھتے رہے۔

٭٭٭

 

 

 

پڑیے گر بیمار

 

تو کوئی نہ ہو تیمار دار؟ جی نہیں! بھلا کوئی تیمار دار نہ ہو تو بیمار پڑنے سے فائدہ؟ اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو؟ توبہ کیجئے!مرنے کا یہ اکل کھرا دقیانوسی انداز مجھے کبھی پسند نہ آیا۔ ہو سکتا ہے غالب کے طرفدار یہ کہیں کہ مغرب کو محض جینے کا قرینہ آتا ہے، مرنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ اور سچ پوچھئے تو مرنے کا سلیقہ کچھ مشرق ہی کا حصہ ہے۔ اسی بنا پر غالب کی نفاست پسند طبیعت نے ۱۲۷۷ھ میں وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھاکہ اس میں ان کی کسر شان تھی۔ حالانکہ اپنی پیشن گوئی کو صحیح ثابت کرنے کی غرض سے وہ اسی سال مرنے کے آرزو مند تھے۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں با عزت طریقے سے مرنا ایک حادثہ نہیں، ہنر ہے جس کے لیے عمر بھر ریاض کرنا پڑتا ہے۔ اور اللہ اگر توفیق نہ دے تو یہ  ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔ بالخصوص پیشہ ور سیاستدان اس کے فنی آداب سے واقف نہیں ہوتے۔ بہت کم لیڈر ایسے گزرے ہیں جنھیں صحیح وقت پر مرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ ہر لیڈر کی زندگی میں، خواہ کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو، ایک وقت ضرور آتا ہے جب وہ ذرا جی کڑا کر کے مر جائے یا اپنے سیاسی دشمنوں کو رشوت دے کر اپنے آپ کو شہید کرا لے تو وہ لوگ سال کے سال نہ سہی، ہر الیکشن پر ضرور دھوم دھام سے اس کا عرس منایا کریں۔ البتہ وقت یہ ہے کہ اس قسم کی سعادت دوسرے کے زور بازو پر منحصر ہے۔ اور سعدی کہہ گئے ہیں کہ دوسرے کے بل بوتے پر جنت میں جانا عقوبت دوزخ کے برابر ہے۔ پھر اس کا کیا علاج کہ انسان کو موت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔

بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ ورنہ سر دست مجھے ان خوش نصیب جواں مردوں سے سروکار نہیں جو جینے کے قرینے اور مرنے کے آداب سے واقف ہیں۔ میرا تعلق تو اس مظلوم اکثریت سے ہے جس کو بقول شاعر

جینے کی ادا یاد، نہ مرنے کی ادا یاد

چنانچہ اس وقت میں اس بے زبان طبقہ کی ترجمانی کرنا چاہتا ہوں جو اس درمیانی کیفیت سے گزر رہا ہے جو موت اور زندگی دونوں سے زیادہ تکلیف دہ اور صبر آزما ہے۔ یعنی بیماری! میرا اشارہ اس طبقہ کی طرف ہے جسے

سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے صحت کے سوا

میں اس جسمانی تکلیف سے بالکل نہیں گھبراتا جو لازمہ علالت ہے۔ اسپرین کی صرف ایک گولی یا مارفیا کا ایک انجکشن اس سے نجات دلانے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اس روحانی اذیت کا کوئی علاج نہیں جو عیادت کرنے والوں سے مسلسل پہنچتی رہتی ہے۔ ایک دائم المرض کی حیثیت سے جو اس درد لا دوا کی لذت سے آشنا ہے، میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مارفیا کے انجکشن مریض کے بجائے مزاج پرسی کرنے والوں کے لگائے جائیں تو مریض کو بہت جلد سکون آ جائے۔

اردو شاعری کے بیان کو باور کیا جائے تو پچھلے زمانے میں علالت کی غایت "تقریب بہر ملاقات” کے سوا کچھ نہ تھی۔ محبوب عیادت کے بہانے غیر کے گھر جاتا اور ہر سمجھ دار آدمی اسی امید میں بیمار پڑتا تھا کہ شاید کوئی بھولا بھٹکا مزاج پرسی کو آ نکلے۔

علالت بے عیادت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

اس زمانے کے انداز عیادت میں کوئی دل نوازی ہو تو ہو، میں تو ان لوگوں سے ہوں جو محض عیادت کے خوف سے تندرست رہنا چاہتے ہیں۔ ایک حساس دائم المرض کے لیے "مزاج اچھا ہے؟” ایک رسمی یا دعائیہ جملہ نہیں بلکہ ذاتی حملہ ہے جو ہر بار اسے احساس کمتری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ میں تو آئے دن کی پرسش حال سے اس قدر بے زار ہو  چکا ہوں کہ احباب کو آگاہ کر دیا ہے کہ جب تک میں بقلم خود یہ اطلاع نہ کر  دوں کہ آج اچھا ہوں۔ مجھے حسب معمول بیمار ہی سمجھیں اور مزاج پرسی کر کے شرمندہ ہونے کا موقع نہ دیں۔

سناہے کہ شائستہ آدمی کی یہ پہچان ہے کہ اگر آپ اس سے کہیں کہ مجھے فلاں بیماری ہے تو وہ کوئی آزمودہ دوا نہ بتائے۔ شائستگی کا یہ سخت معیار تسلیم کر لیا جائے تو ہمارے ملک میں سوائے ڈاکٹروں کے کوئی اللہ کا بندہ شائستہ کہلانے کا مستحق نہ نکلے۔ یقین نہ آئے تو جھوٹ موٹ کسی سے کہہ دیجئے گا کہ مجھے زکام ہو گیا ہے۔ پھر دیکھئے، کیسے کیسے مجرب نسخے، خاندانی چٹکلے اور فقیری ٹوٹکے آپ کو بتائے جاتے ہیں۔ میں آج تک یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ اس کی اصل وجہ طبی معلومات کی زیادتی ہے یا مذاق سلیم کی کمی۔ بہرحال بیمار کو مشورہ دینا ہر تندرست آدمی اپنا خوش گوار فرض سمجھتا ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ننانوے فی صد لوگ ایک دوسرے کو مشورے کے علاوہ اور دے بھی کیا سکتے ہیں؟

بعض اوقات احباب اس بات سے بہت آزردہ ہوتے ہیں کہ میں ان کے مشوروں پر عمل نہیں کرتا۔ حالانکہ ان پر عمل پیرا نہ ہونے کا واحد سبب یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میرا خون کسی عزیز دوست کی گردن پر ہو۔ اس وقت میرا منشا صلاح و مشورہ کے نقصانات گنوانا نہیں (اس لیے کہ میں دماغی صحت کے لیے یہ ضروری سمجھتاہوں کہ انسان کو پابندی سے صحیح غذا اور غلط مشورہ ملتا رہے۔ اسی ذہنی توازن قائم رہتا ہے) نہ یہاں ستم ہائے عزیزاں کا شکوہ مقصود ہے۔ مدعا صرف اپنے ان بہی خواہوں کو متعارف کرانا ہے جو میرے مزمن امراض کے اسباب و علل پر غور کرتے اور اپنے مشورے سے وقتاً فوقتاً مجھے مستفید فرماتے رہتے ہیں۔ اگر اس غول میں آپ کو کچھ جانی پہنچانی صورتیں نظر آئیں تو میری خستگی کی داد دینے کی کوشش نہ کیجئے، آپ خود لائق ہمدردی ہیں۔

سر فہرست ان مزاج پرسی کرنے والوں کے نام ہیں جو مرض کی تشخیص کرتے ہیں نہ دوا تجویز کرتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ منکسرمزاج ہیں۔ دراصل ان کا تعلق اس مدرسہ فکر سے ہے جس کے نزدیک پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ یہ اس شکم آزار عقیدے کے مبلغ و موید ہیں کہ کھانا جتن اپھیکا سیٹھا ہو گا، صحت کے لیے اتنا ہی مفید ہو گا۔ یہاں یہ بتانا بے محل نہ گا کہ ہمارے ملک میں دواؤں کے خواص دریافت کرنے کا بھی یہی معیار ہے۔ جس جس طرح بعض خوش اعتقاد لوگوں کا ابھی تک یہ خیال ہے کہ ہر بد صورت عورت نیک چلن ہوتی ہے، اسی طرح طب قدیم میں ہر کڑوی چیز کو مصفی خون تصور کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں انگریزی کھانے اور کڑوے قدحے اسی امید میں نوش جان کیے جاتے ہیں۔

اس قبیل کے ہمدردان صحت دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ایک وہ غذا رسیدہ بزرگ جو کھانے سے علاج کرتے ہیں۔ دوسرے جو علاج اور کھانے دونوں سے پرہیز تجویز فرماتے ہیں۔ پچھلی گرمیوں کا واقعہ ہے کہ میری بائیں آنکھ میں گوہانجنی نکلی تو ایک نیم جان جو خود کو پورا حکیم سمجھتے ہیں، چھوٹتے ہی بولے :

"فم معدہ پر ورم معلوم ہوتا ہے۔ دونوں وقت مونگ کی دال کھائیے۔ دافع نفخ و محلل ورم ہے۔”

میں نے پوچھا "آخر آپ کو میری ذات سے کون سی تکلیف پہنچی جو یہ مشورہ دے رہے ہیں؟”

فرمایا "کیا مطلب؟”

عرض کیا "دو چار دن مونگ کی دال کھا لیتا ہوں تو اردو شاعری سمجھ میں نہیں آتی اور طبیعت بے تحاشا تجارت کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس صورت میں خدا نخواستہ تندرست ہو بھی گیا تو جی کے کیا کروں گا؟”

بولے "آپ تجارت کو اتنا حقیر کیوں سمجھتے ہیں؟ انگریز ہندوستان میں داخل ہوا تو اس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں ترازو تھی۔”

گزارش کی "اور جب وہ گیا تو ایک ہاتھ میں یونین جیک تھا اور دوسری آستین خالی لٹک رہی تھی!”

بات انھیں بہت بری لگی۔ اس لیے مجھے یقین ہو گیا کہ سچ تھی۔ اس کے بعد تعلقات اتنے کشیدہ ہو گئے کہ ہم نے ایک دوسرے کے لطیفوں پر ہنسنا چھوڑ دیا۔ استعارہ و کنایہ برطرف۔ میرا اپنا عقیدہ تو یہ ہے کہ جب تک آدمی کو خواص کی غذا ملتی رہے، اسے غذا کے خواص کے بکھیڑے میں پڑنے کی مطلق ضرورت نہیں۔ سچ پوچھیے تو عمدہ غذا کے بعد کم از کم مجھے تو بڑا انشراح محسوس ہوتا ہے اور بے اختیار جی چاہتا ہے کہ بڑھ کر ہر راہ گیر کو سینے سے لگا لوں۔ دوسرا گروہ قوت ارادی سے دوا اور غذا کا کام لینا چاہتا ہے اورجسمانی عوارض کے علاج معالجہ سے پہلے دماغ کی اصلاح کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ یہ حضرات ابتدائے مرض ہی سے دوا کے بجائے دعا کے قائل ہیں اور ان میں بھاری اکثریت ان سترے بہترے بزرگوں کی ہے جو گھگیا گھگیا کر اپنی درازی عمر کی دعا مانگتے ہیں اور اسی کو عین عبادت سمجھتے ہیں۔ اس روحانی غذا کے لیے میں فی الحال اپنے آپ کو تیار نہیں پاتا۔ مجھے اس پر قطعاً تعجب نہیں ہوتا کہ ہمارے ملک میں پڑھے لکھے لوگ خونی پیچش کا علاج گنڈے تعویذوں سے کرتے ہیں۔ غصہ اس بات پر آتا ہے کہ وہ واقعی اچھے ہو جاتے ہیں۔

کچھ ایسے عیادت کرنے والے بھی ہیں جن کے انداز پرسش سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیماری ایک سنگین جرم ہے اور وہ کسی آسمانی ہدایت کے بموجب اس کی تفتیش پر مامور کیے گئے ہیں۔ پچھلے سال جب انفلوئنزا کی وبا پھیلی اور میں بھی صاحب فراش ہو گیا تو ایک ہمسائے جو کبھی پھٹکتے بھی نہ تھے، کمرہ علالت میں بہ نفس نفیس تشریف لائے اور خوب کرید کرید کر جرح کرتے رہے۔ بالآخر اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کر راز دارانہ  انداز میں کچھ ایسے نجی سوالات کیے جن کے پوچھنے کا حق میری نا چیز رائے میں بیوی اور منکر نکیر کے علاوہ کسی کو نہیں پہنچتا۔

ایک بزرگوار ہیں جن سے صرف دوران علالت میں ملاقات ہوتی ہے۔ اس لیے اکثر ہوتی رہتی ہے۔ موصوف آتے ہی برس پڑے اور گرجتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں۔ پچھلے ہفتے کا ذکر ہے۔ ہلہلا  کر بخار چڑھ رہا تھا کہ وہ آ دھمکے کپکپا کر کہنے لگے : "بیماری آزادی میں بھی بڑی غیریت برتتے ہو، برخوردار! دو گھنٹے سے ملیریا میں چپ چاپ مبتلا ہو اور مجھے خبر تک نہ کی۔ ”

بہتیرا چاہا کہ اس دفعہ ان سے پوچھ ہی لوں کہ "قبلہ کونین! اگر آپ کو بر وقت اطلاع کرا دیتا تو آپ میرے ملیریا کا کیا بگاڑ لیتے؟”

ان کی زبان اس قینچی کی طرح ہے جو چلتی زیادہ ہے اور کاٹتی کم۔ ڈانٹنے کا اندازایسا ہے کہ جیسے کوئی کودن لڑکا زور زور سے پہاڑے  یاد کر  رہا ہو۔ مجھے ان کی ڈانٹ پر ذرا غصہ نہیں آتا۔ کیونکہ اب اس کا مضمون ازبر ہو گیا ہے۔ یوں بھی اس کینڈے کے بزرگوں کی نصیحت میں سے ڈانٹ اور ڈاڑھی کو علیٰحدہ کر دیا جائے، یا بصورت نقص امن، ڈانٹ میں سے ڈنک نکال دیا جائے تو بقیہ بات (اگر کوئی چیز باقی رہتی ہے ) نہایت لغو معلوم ہو گی۔

ان کا آنا فرشتہ موت کا آنا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام روح قبض کرتے وقت اتنی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے ہوں گے۔ زکام انھیں نمونیہ کا پیش خیمہ دکھائی دیتا ہے اور خسرہ میں ٹائیفائڈ کے آثار نظر آتے ہیں۔ ان کی عادت ہے کہ جہاں محض سیٹی سے کام چل سکتا ہے، وہاں بے دھڑک بگل بجا دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ایک ہی سانس میں خدا نخواستہ سے انا للہ تک کی تمام منزلیں طے کر لیتے ہیں۔ ان کی مظلوم ڈانٹ کی تمہید کچھ اس قسم کی ہوتی ہے :

"میاں!یہ بھی کوئی انداز ہے کہ گھر کے رئیسوں کی طرح

نبض پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

بیکاری بیماری کا گھر ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

بیمار مباش کچھ کیا کر۔ ”

مصرع کا جواب شعرسے دیتا ہوں :

کمزور میری صحت بھی، کمزور مری بیماری بھی

اچھا جو ہوا کچھ کر نہ سکا، بیمار ہوا تو مر نہ سکا

یہ سن کر وہ بپھر جاتے ہیں اور اپنے سن و سال کی آڑ لے کر کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان میں وہ بے نقط سناتے ہیں کہ زندہ تو درکنار، مردہ بھی ایک دفعہ کفن پھاڑ کر سوال و جواب کے لیے اٹھ بیٹھے۔ تقریر کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ راقم الحروف جان بوجھ کر اپنی تندرستی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے۔ میں انھیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر خود کشی میرا منشا ہوتا تو یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہیں جیتا، بلکہ آنکھ بند کر کے ان کی تجویز کردہ دوائیں کھا لیتا۔

آئیے، ایک اور مہربان سے آپ کو ملاؤں۔ ان کی تکنیک قدرے مختلف ہے۔ میری صورت دیکھتے ہی ایسے ہراساں ہوتے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ان کا معمول ہے کہ کمرے میں بغیر کھٹکھٹائے داخل ہوتے ہیں اور میرے سلام کا جواب دئیے بغیر تیمار داروں کے پاس پنجوں کے بل جاتے ہیں۔ پھرکھسر پھسر ہوتی ہے۔ البتہ کبھی کبھی کوئی اچٹتا ہوا فقرہ مجھے بھی سنائی دے جاتا ہے۔ مثلاً:

"صدقہ دیجئے۔ جمعرات کی رات بھاری ہوتی ہے۔”

"پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”

"آدمی پہچان لیتے ہیں؟”

یقین جانئے۔ یہ سن کر پانی سر سے گزر جاتا ہے اور میں تو رہا ایک طرف، خود تیمار دار میری صورت نہیں پہچان سکتے۔

سرگوشیوں کے دوران ایک دو دفعہ میں نے خود دخل دے کر بقائمی ہوش و حواس عرض کرنا چاہا کہ میں بفضل تعالیٰ چاق و چوبند ہوں۔ صرف پیچیدہ دواؤں میں مبتلا ہوں۔ مگر وہ اس مسئلہ کو قابل دست اندازی مریض نہیں سمجھتے اور اپنی شہادت کی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ میرے اعلان صحت اور ان کی پر زور تردید سے تیمار داروں کی میری دماغی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ یوں بھی بخار سو ڈگری سے اوپر ہو  جائے تو میں ہذیان بکنے لگتا ہوں جسے بیگم، اقبال گناہ اور رشتے دار وصیت سمجھ کر ڈانٹتے ہیں اور بچے ڈانٹ سمجھ کرسہم جاتے ہیں۔ میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا یہ حضرت مزاج پرسی کرنے آتے ہیں یا پرسا دینے۔ ان کے جانے کے بعد میں واقعی محسوس کرتا ہوں کہ بس اب چل چلاؤ لگ رہا ہے۔ سانس لیتے ہوئے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ روایتی ہچکی نہ آ جائے۔ ذرا گرمی لگتی ہے تو خیال ہوتا ہے کہ شاید آخری پسینہ ہے اور طبیعت تھوڑی بحال ہوتی ہے تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہوں کہ کہیں سنبھالا نہ ہو۔

لیکن مرزا عبد الودود بیگ کا انداز سب سے نرالا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ انھیں میری دلجوئی مقصود ہوتی ہے یا اس میں ان کے فلسفہ حیات و ممات ہونے کو دل نہیں چاہتا۔ تندرستی وبال معلوم ہوتی ہے اورغسل صحت میں میں تمام قباحتیں نظر آتی ہیں، جن سے غالب کو فکر وصال میں دو چار ہونا پڑا

کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں، ہو تو کیوں کر ہو

اکثر فرماتے ہیں کہ بیماری جان کا صدقہ ہے۔ عرض کرتا ہوں کہ میرے حق میں تو یہ صدقہ جاریہ ہو کر رہ گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے خالی بیمار پڑ جانے سے کام نہیں چلتا۔ اس لیے کہ پسماندہ ممالک میں

فیضان علالت عام سہی، عرفان علالت عام نہیں

ایک دن میں کان کے درد میں تڑپ رہا تھا کہ وہ آ نکلے۔ اس افراتفری کے زمانے میں زندہ رہنے کے شدائد اور موت کے فیوض و برکات پر ایسی موثر تقریر کی کہ بے اختیار جی چاہا کہ انہی کے قدموں پر پھڑپھڑا  کر اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دوں اور انشورنس کمپنی والوں کو روتا دھوتا چھوڑ جاؤں۔ ان کے دیکھے سے میرے تیمار داروں کی منہ کی رہی سہی رونق جاتی رہتی ہے۔ مگر میں سچے دل سے ان کی عزت کرتا ہوں۔ کیونکہ میرا عقیدہ ہے کہ محض جینے کے لیے کسی فلسفہ کی ضرورت نہیں۔ لیکن اپنے فلسفہ کی خاطر دوسروں کو جان دینے پر آمادہ کرنے کے لیے سلیقہ چاہیے۔

چونکہ یہ موقع ذاتی تاثرات کے اظہار کا نہیں۔ اس لیے میں مرزا کے انداز عیادت کی طرف لوٹتا ہوں۔ وہ جب تندرستی کو ام الخبائث اور تمام جرائم کی جڑ قرار دیتے ہیں تو مجھے رہ رہ کر اپنی خوش نصیبی پر رشک آتا ہے۔ اپنے دعوے کے ثبوت میں دلیل ضرور پیش کرتے ہیں کہ جن ترقی یافتہ ممالک میں تندرستی کی وبا عام ہے وہاں پر جنسی جرائم کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ میں کان کے درد سے نڈھال ہونے لگا تو  انھوں نے مسئلہ مسائل بیان کر کے میری ڈھارس بندھائی:

"میاں ہمت سے کام لو۔ بڑے بڑے نبیوں پر یہ وقت پڑا ہے۔”

میں درد سے ہلکان ہو چکا تھا۔ ورنہ ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا کہ خدا مارے یا چھوڑے، میں بغیر دعویٰ نبوت یہ عذاب جھیلنے کے لیے ہر گز تیار نہیں۔ علاوہ ازیں، قصص الانبیاء میں نے بچپن میں پڑھی تھی اور یہ یاد نہیں آ رہا تھا کہ کون سے پیغمبر کان کے درد کے باوجود فرائض نبوی انجام دیتے رہے۔

اس واقعہ کے کچھ دن بعد میں نے از راہ تفنن مرزاسے کہا "فیرینک ہیرس کے زمانے میں کوئی صاحب استطاعت مرداس وقت تک ’جنٹلمین‘ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا جب تک وہ کم از کم ایک مرتبہ نا گفتہ بہ جنسی امراض میں مبتلا نہ ہوا ہو۔ یہ خیال عام تھا کہ اس سے شخصیت میں لوچ اور رچاؤ پیدا ہوتا ہے۔ ”

تمباکو کے پان کا پہلاگھونٹ پی کر کہنے لگے "خیر!یہ تو ایک اخلاقی کمزوری کی فلسفیانہ تاویل ہے مگراس میں شبہ نہیں کہ درد اخلاق کوسنوارتا ہے۔ ”

وہ ٹھیرے ایک جھکی۔ اس لیے میں نے فوراً یہ اقرار کر کے اپنا پنڈ چھڑایا کہ "مجھے اس کلیہ سے اتفاق ہے۔ بشرطیکہ درد شدید ہو اورکسی دوسرے کے اٹھ رہا ہو۔ ”

پچھلے جاڑوں کا ذکر ہے۔ میں گرم پانی کی بوتل سے سینک کر رہا تھا کہ ایک بزرگ جو اسی کے پیٹے میں ہیں خیر و عافیت پوچھنے آئے اور دیر تک قبر و عاقبت کی باتیں کرتے رہے جو میرے تیمار داروں کو ذرا قبل از وقت معلوم ہوئیں۔ آتے ہی بہت سی دعائیں دیں، جن کا خلاصہ یہ تھا کہ خدا مجھے ہزاری عمر دے تاکہ اپنے اور ان کے فرضی دشمنوں کی چھاتی پر روایتی مونگ دلنے کے لئے زندہ رہوں۔ اس کے بعد جانکنی اور فشار گور کا اس قدر مفصل حال بیان کیا کہ مجھے غریب خانے پر گور غریباں کا گمان ہونے لگا۔ عیادت میں عبادت کا ثواب لوٹ چکے تو میری جلتی ہوئی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھا جس میں شفقت کم اور رعشہ زیادہ تھا اور اپنے بڑے بھائی کو (جن کا انتقال تین ماہ قبل اسی مرض میں ہوا تھا جس میں میں مبتلا تھا) یاد کر کے کچھ اس طرح آب دیدہ ہوئے کہ میری بھی ہچکی بندھ گئی۔ میرے لئے جو تین عدد سیب لائے تھے وہ کھا چکنے کے بعد جب انھیں کچھ قرار آیا تو وہ مشہور تعزیتی شعر پڑھا جس میں ان غنچوں پرحسرت کا اظہار کیا گیا ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔

میں فطرتاً رقیق القلب واقع ہوا ہوں اور طبیعت میں ایسی باتوں کی سہار بالکل نہیں ہے۔ ان کے جانے کے بعد "جب لاد چلے بنجارا” والا موڈ طاری ہو جاتا ہے اور حالت یہ ہوتی ہے کہ ہر پرچھائیں بھوت اور ہر سفید چیز فرشتہ دکھائی دیتی ہے۔ ذرا آنکھ لگتی ہے تو بے ربط خواب دیکھنے لگتا ہوں۔ گویا کوئی "کالک” یا با تصویر نفسیاتی افسانہ سامنے کھلا ہوا ہے۔کیا دیکھتا ہوں کہ ڈاکٹر میری لاش پر انجکشن کی پچکاریوں سے لڑ رہے ہیں اور لہولہان ہو رہے ہیں۔ ادھر کچھ مریض اپنی اپنی نرس کو کلورو فارم سنگھا رہے ہیں۔ ذرا دور ایک لا علاج مریض اپنے ڈاکٹر کو یاسین حفظ کرا رہا ہے۔ ہر طرف ساگو دانے اور مونگ کی دال کی کھچڑی کے ڈھیر لگے ہیں۔ آسمان بنفشی ہو رہا ہے اور عناب کے درختوں کی چھاؤں میں، سنا کی جھاڑیوں کی اوٹ لے کر بہت سے غلمان ایک مولوی کو غذا بالجبر کے طور پر معجونیں کھلا رہے ہیں۔ تا حد نظر کافور میں بسے ہوئے کفن ہوا میں لہرا رہے ہیں۔ جا بجا لوبان سلگ رہا ہے اورمیرا سر سنگ مرمر کی لوح مزار کے نیچے دبا ہوا ہے اور اس کی ٹھنڈک نس نس میں گھسی جا رہی ہے۔ میرے منہ میں سگرٹ اور ڈاکٹر کے منہ میں تھرمامیٹر ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو کیا دیکھتا ہوں کہ سر پر برف کی تھیلی رکھی ہے۔ میرے منہ میں تھرمامیٹر ٹھنسا ہوا ہے اور ڈاکٹر کے ہونٹوں میں سگرٹ دبا ہے۔

لگے ہاتھوں، عیادت کرنے والوں کی ایک اور قسم کا تعارف کرا دوں۔ یہ حضرات جدید طریق کار برتتے اور نفسیات کا ہر اصول داؤں  پر لگا دیتے ہیں۔ ہر پانچ منٹ بعد پوچھتے ہیں کہ افاقہ ہوا یا نہیں؟ گویا مریض سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ عالم نزع میں بھی ان کی معلومات عامہ میں اضافہ کرنے کی غرض سے RUNNING COMMENTARY کرتا رہے گا۔ ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کس طرح مریض پر ثابت کر دیں کہ محض انتقاماً  بیمار ہے یا وہم میں مبتلا ہے اور کسی سنگین غلط فہمی کی بنا پر اسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ ان کی مثال اس روزہ خور کی سی ہے جو انتہائی نیک نیتی سے کسی روزہ دار کا روزہ لطیفوں سے بہلانا چاہتا ہو۔ مکالمہ نمونہ ملاحظہ ہو:

ملاقاتی: ماشاءاللہ! آج منہ پر بڑی رونق ہے۔

مریض: جی ہاں! آج شیو نہیں کیا ہے۔

ملاقاتی: آواز میں بھی کرارا پن ہے۔

مریض کی بیوی: ڈاکٹر نے صبح سے ساگودانہ بھی بند کر  دیا ہے۔

ملاقاتی : (اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر) بیگما!یہ صحت یاب ہو جائیں تو ذرا انھیں میری پتھری دکھانا جو تم نے چار سال سے اسپرٹ کی بوتل میں رکھ چھوڑی ہے (مریض سے مخاطب ہو کر) صاحب!یوں تو ہر مریض کو اپنی آنکھ کا تنکا بھی شہتیر معلوم ہوتا ہے۔ مگر یقین جانیے، آپ کا شگاف تو بس دو تین انگل  لمبا ہو گا، میرا تو پورا ایک بالشت ہے۔ بالکل کھنکھجورا معلوم ہوتا ہے۔

مریض: (کراہتے ہوئے )مگر میں ٹائیفائڈ میں مبتلا ہوں۔

ملاقاتی: (ایکا ایکی پینترا بدل کر) یہ سب آپ کا وہم ہے۔ آپ کو صرف ملیریا ہے۔

مریض: یہ پاس والی چارپائی، جواب خالی پڑی ہے، اس کا مریض بھی اسی وہم میں مبتلا تھا۔

ملاقاتی: ارے صاحب!مانئے تو! آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ اٹھ کر منہ ہاتھ دھوئیے

مریض کی بیوی: (روہانسی ہو کر) دو دفعہ دھو چکے ہیں۔ صورت ہی ایسی ہے۔

اس وقت ایک دیرینہ کرم فرما یاد آ رہے ہیں، جن کا طرز عیادت ہی اور ہے۔ ایساحلیہ بنا کر آتے ہیں کہ خود ان کی عیادت فرض ہو جاتی ہے۔ "مزاج شریف!” کو وہ رسمی فقرہ نہیں، بلکہ سالانہ امتحان کاسوال سمجھتے ہیں اورسچ مچ اپنے مزاج کی جملہ تفصیلات بتانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک دن منہ کا مزہ بدلنے کی خاطر میں نے "مزاج شریف!” کے بجائے "سب خیریت ہے؟” سے پرسش احوال کی۔ پلٹ بولے "اس جہان شریت میں خیریت کہاں؟” اس مابعد  الطبیعاتی تمہید کے بعد کراچی کے موسم کی خرابی کا ذکر آنکھوں میں آنسو بھر  کر ایسے انداز سے کیا گویا ان پر سراسر ذاتی ظلم ہو رہا ہے، اور اس کی تمام تر ذمہ داری میونسپل کارپوریشن پر عائد ہوتی ہے۔

آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض عورتیں شاعر کی  نصیحت کے مطابق وقت کو پیمانہ امروز و فردا سے نہیں ناپتیں بلکہ تاریخ و سنہ اور واقعات کاحساب اپنی یادگار زچگیوں سے لگاتی ہیں۔ مذکور الصدر دوست بھی اپنی بیماریوں سے کیلنڈر کا کام لیتے ہیں۔ مثلاً شہزادی مارگریٹ کی عمر وہ اپنے دمے کے برابر بتاتے ہیں۔ سوئز سے انگریزوں کے نہر بدر کیے جانے کی تاریخ وہی ہے جو ان کا پتا نکالے جانے کی! میرا قاعدہ ہے کہ جب وہ اپنی اور جملہ متعلقین کی عدم خیریت کی تفصیلات بتا کر اٹھنے لگتے تو اطلاعاً اپنی خیریت سے آگاہ کر دیتا ہوں۔

بیمار پڑنے کے صد با نقصانات ہیں۔ مگر ایک فائدہ بھی ہے، وہ یہ کہ اس بہانے اپنے بارے میں دوسروں کی رائے معلوم ہو جاتی ہے۔ بہت سی کڑوی کسیلی باتیں جو عام طور پر ہونٹوں پر لرز کر رہ جاتی ہیں، بے شمار دل آزار فقرے جو "خوف فساد خلق”سے حلق میں اٹک کر رہ جاتے ہیں، اس زمانے میں یار لوگ نصیحت کی آڑ میں "ہو الشافی” کہہ کر بڑی بے تکلفی سے داغ دیتے ہیں۔ پچھلے سنیچر کی بات ہے۔ میری عقل ڈاڑھ میں شدید درد تھا کہ ایک روٹھے ہوئے عزیز جن کے مکان پر حال ہی میں قرض کے روپیہ سے چھت پڑی تھی، لقا کبوتر کی مانند سینہ تانے آئے اور فرمانے لگے :

"ہیں آپ بھی ضدی آدمی! لاکھ سمجھایا کہ اپنا ذاتی مکان بنوا لیجئے مگر آپ کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔”

طعنے کی کاٹ درد کی شدت پر غالب آئی اور میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، "بھائی!میری عقل تو اس وقت کام نہیں کرتی۔ خدارا! آپ ہی بتائیے، کیا یہ تکلیف صرف کرایہ داروں کو ہوتی ہے؟”

ہنس کر فرمایا "بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ کرائے کے مکان میں تندرستی کیوں کر ٹھیک رہ سکتی ہے۔”

کچھ دن بعد جب انہی حضرت نے میرے گھٹنے کے درد کو بے دودھ کی چائے پینے اور رمی کھیلنے کا شاخسانہ قرار دیا تو بے اختیار ان کا سر پیٹنے کو جی چاہا۔

اب کچھ جگ بیتی بھی سن لیجئے۔ جھوٹ سچ کا حال خدا جانے۔ لیکن ایک دوست اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ دو ماہ قبل ان کے گلے میں خراش ہو گئی، جو ان کے نزدیک بد مزہ کھانے اور گھر والوں کے خیال میں سگرٹ کی زیادتی کا نتیجہ تھی۔ شروع میں تو انھیں اپنی بیٹھی ہوئی آواز بہت بھلی معلوم ہوئی اور کیوں نہ ہوتی؟ سنتے چلے آئے ہیں کہ بیٹھی ہوئی (HUSKY) آواز میں بے پناہ جنسی کشش ہوتی ہے۔ خدا کی دین تھی کہ گھر بیٹھے آواز بیٹھ گئی۔ ورنہ امریکہ میں تو لوگ کوکاکولا کی طرح ڈالر بہاتے ہیں جب کہیں آواز میں یہ مستقل زکام کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا جب ذرا افاقہ محسوس ہوا تو انھوں نے راتوں کو گڑگڑا گڑگڑا کر، بلکہ خنخنا  خنخنا کر دعائیں مانگیں :

"بار الہٰا! تیری شان کریمی کے صدقے! یہ سوزش بھلے ہی کم ہو جائے، مگر بھراہٹ یونہی قائم رہے!”

لیکن چند دن بعد جب ان کا گلا خالی نل کی طرح بھق بھق کرنے لگا تو انھیں بھی تشویش ہوئی۔ کسی نے کہا "لقمان کا قول ہے کہ پانی پیتے وقت ایک ہاتھ سے ناک بند کر لینے سے گلا کبھی خراب نہیں ہوتا۔”

ایک صاحب نے ارشاد فرمایا "سارا فتور پھل نہ کھانے کے سبب ہے۔ میں تو روزانہ نہار منہ پندرہ فٹ گنا کھاتا ہوں۔ معدہ اور دانت دونوں صاف رہتے ہیں۔” اور ثبوت میں انھوں نے اپنے مصنوعی دانت دکھائے جو واقعی بہت صاف تھے۔

ایک اور خیر خواہ نے اطلاع دی کہ زکام ایک زہریلے وائرسVIRUSسے ہوتا ہے جو کسی دوا سے نہیں مرتا۔ لہذا جوشاندہ پیجئے کہ انسان کے علاوہ کوئی جاندار اس کا ذائقہ چکھ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔

بقیہ روداد انہی کی زبان سے سنئے :

"اور جن کرم فرماؤں نے از راہ کسر نفسی دوائیں تجویز نہیں کیں۔ وہ حکیموں اور ڈاکٹروں کے نام اور پتے بتا کر اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہو گئے۔ کسی نے اصرار کیا کہ آیورویدک علاج کراؤ۔ ‘بڑی مشکل سے انھیں سمجھایا کہ میں طبعی موت مرنا چاہتا ہوں۔ کسی نے مشورہ دیا کہ ’حکیم نباض ملت سے رجوع کیجئے۔ نبض پر انگلی رکھتے ہی مریض کا شجرہ نسب بتا دیتے ہیں (اسی وجہ سے کراچی میں ان کی طبابت ٹھپ ہے) قارورے پر نظر ڈالتے ہی مریض کی آمدنی کا اندازہ کر لیتے ہیں۔‘ آواز اگر ساتھ دیتی تو میں ضرور عرض کرتا کہ ایسے کام کے آدمی کو تو انکم ٹیکس کے محکمہ میں ہونا چاہیے۔

غرضیکہ جتنے منہ ان سے کہیں زیادہ باتیں! اور تو اورسامنے کے فلیٹ میں رہنے والی اسٹینوگرافر (جو چست سویٹر اور جنیزپہن کر، بقول مرزا عبد الودود بیگ، انگریزی کا S معلوم ہوتی ہے) بھی مزاج پرسی کو آئی اور کہنے لگی ’حکیموں کے چکر میں نہ پڑییے۔ آنکھ بند کر کے ڈاکٹر دلاور کے پاس جائیے۔ تین مہینے ہوئے، آواز بنانے کی خاطر میں نے املی کھا کھا  کر گلے کاناس مار لیا تھا۔ میری خوش نصیبی کہئے کہ ایک سہیلی نے ان کا پتہ بتا دیا۔ اب بہت افاقہ ہے۔‘

"اس بیان کی تائید کچھ دن بعد مرزا عبد الودود بیگ نے بھی کی۔ انھوں نے تصدیق کی ڈاکٹر صاحب امریکی طریقہ سے علاج کرتے ہیں اور ہر کیس کو بڑی توجہ سے دیکھتے ہیں۔ چنانچہ سینڈل کے علاوہ ہر چیز اتروا کر انھوں نے اسٹینوگرافر کے حلق کا بغور معائنہ کیا۔ علاج سے واقعی کافی افاقہ ہوا اور وہ اس سلسلے میں ابھی تک پیٹھ پر بنفشی شعاعوں سے سینک کرانے جاتی ہے۔”

مجھے یقین ہے کہ اس طریقہ علاج سے ڈاکٹر موصوف کو کافی افاقہ ہوا ہو گا!

٭٭٭

ٹائپنگ: منصور قیصرانی، شمشاد خان

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل