FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               مختلف  مصنفین

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

بھیا کا روزہ

ڈز کی آواز سے سلیم بھیا چونک پڑے۔

کم بخت اتنے پٹاخے چلا رہے ہیں جیسے ہمیں معلوم ہی نہیں کہ کل پہلا روزہ ہے۔

اچھا تو بھائی جان! آپ کو معلوم ہے کہ کل پہلا روزہ ہے۔ باجی ثریا نے شرارت کے لہجے میں کہا۔

لو! یہ بھی کوئی بھولنے کی بات ہے۔ بھیا بولے۔

لیکن بھیا! آپ تو ہر سال بھول جاتے ہیں۔ طاہر بولا۔

کیسے ؟

پورے تیس کے تیس روزے رکھ کر۔ نجمہ مسکراتے ہوئے بولی۔

اوں ! یہ بات ہے …. تم سب بہن بھائی مل کر میرا مذاق اڑا رہے ہو…. لیکن میں تم کو بتائے دیتا ہوں کہ اب کی دفعہ میں تیس کے اکتیس روزے نہ رکھوں تو میرا نام سلیم نہیں۔

بھائی جان! نجمہ بولی۔ تو اب کی دفعہ آپ عید کے دن بھی روزہ رکھیں گے ؟

اس پر ہم سب مسکرا پڑے اور بھیا کھسیانے ہو کر باہر نکل گئے۔

سحری کے وقت ہم سب بھیا کو جگانے گئے تو معلوم ہوا کہ بھیا نے سحری کھا لی ہے …. امی سے پوچھا تو وہ بولیں۔ سلیم کو جگایا تو تھا۔ سحری بھی کھا چکا ہے۔ لیکن کہتا تھا کہ پرویز، طاہر، نجمہ اور ثریا کو صرف یہی ہی بتایا کہ سلیم نے سحری نہیں کھائی۔ وہ آٹھ پہر کا روزہ رکھے گا۔

صبح سات بجے کے قریب ہم مولوی صاحب سے قرآن مجید کا سبق پڑھ رہے تھے کہ بھیا سلیم بھی منہ لٹکائے اندر داخل ہوئے۔

سلیم میاں روزہ رکھا ہے ؟ مولوی صاحب نے بھیا سے پوچھا۔

ہاں ! رکھا تو ہے …. لیکن آٹھ پہر کا طاہر نے مولوی صاحب کی بات کا جواب دیا۔

کیوں ؟

تاکہ تیس روزے پندرہ دنوں میں پورے ہو جائیں۔ نجمہ مسکراتے ہوئے بولی۔

مولوی صاحب نے قہقہہ لگایا اور بھیا چیخ کر بولے۔

مولوی صاحب آپ بھی ان کے ساتھ مل کر میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ میں روزے سے ہوں۔ نہیں تو ان کو بتا دیتا۔ اتنا کہہ کر بھیا باہر نکل گئے۔

مولوی صاحب کے جانے کے بعد نجمہ بولی۔ مجھے تو بھیا کے روزے پر کچھ شک معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے اس کی تائید کی۔

لیکن یہ کیسے معلوم ہو کر بھیا روزے سے ہیں۔ میں بولا۔

وہ ترکیب نہ کریں ؟ طاہر بولا۔

کونسی؟ باجی بولیں۔

وہی جو پچھلے سال آپ سے کی تھی۔

ٹھیک ہے۔ نجمہ بولی اور ہم بازار کی طرف چل دیے۔

یہ پھل اور مٹھائی کہاں سے آئے ہیں میرے کمرے میں ؟ بھیا کمرے میں داخل ہو کر بولے۔

آپ کے دوست حمید دے گئے ہیں اور کہہ گئے ہیں کہ ہم ابھی آتے ہیں۔ میں بولا۔

بہتر اب تم جاؤ۔ حمید آئیں تو انہیں اندر بھیج دینا۔

دروازہ کھولو سلیم! طاہر اپنی آواز بدلتے ہوئے بولا۔

کون ہے ؟ بھیا اندر سے بولے۔

میں ہوں حمید۔

اچھا حمید! تم آ گئے ؟ ذرا آہستہ بولو بھائی! میں دروازہ کھولے دیتا ہوں۔ ادھر ادھر دیکھو کہیں کوئی چھپا تو نہیں !

کوئی نہیں۔ دروازہ کھولو۔

دروازہ کھلتے ہی ہم سب اندر گھس گئے۔ بھیا کی طرف دیکھا تو وہ منہ میں لڈو رکھے منہ بند کیے کھڑے تھے۔

کیا ہو رہا تھا بھائی جان! طاہر بولا۔

کچھ نہیں ! لڈو کھا رہے تھے۔ باجی بولیں۔

نہیں ! نجمہ بولی۔ میں بتاتی ہوں۔ بھیا روزے کو دو حصوں میں تقسیم کر رہے تھے۔

وہ کیوں ؟ میں بولا۔

تاکہ تیس روزے پندرہ دنوں میں پورے ہو جائیں۔

٭٭٭

 

بادشاہ سلامت پھٹ گئے

الٹا نگر کے بادشاہ سلامت جب اینڈتے اکڑتے دربار میں داخل ہوئے تو نقیب نے کڑک کر کہا…. با ادب، با ملاحظہ ہوشیار۔ شہنشاہ معظم۔ اعلیٰ حضرت فرماں روائے الٹا نگر تشریف لاتے …. اور پکارنے والا ابھی پوری بات بھی نہ کہنے پایا تھا کہ بادشاہ سلامت دھڑام سے وزیر اعظم کے قدموں میں گر پڑے۔ وزیر اعظم نے چار پانچ سپاہیوں کی مدد سے حضور کو بڑی دقت سے اٹھایا۔ آپ ہانپتے ہوئے اٹھے اور ڈانٹ کر بولے۔ یہ کون بدتمیز ہمارے سامنے گر پڑا؟وزیر اعظم سرکھجا کر بولے۔ میرے خیال میں تو حضور خود ہی گر پڑے تھے۔ ار۔ معاف۔

کون ہم؟ یعنی مابدولت؟ چیخ کر بولے۔

ٹھہر جا! تجھے اس گستاخی کا ہم ابھی مزا چکھاتے ہیں۔ کوئی ہے ؟ دو سپاہیوں نے آ کر سلیوٹ لگائی۔ لے جاؤ اسے۔ بادشاہ سلامت نے سپاہیوں کو حکم دیا۔ اور اس کی ناک میں بھس بھر دو۔ سپاہیوں نے کچھ دیر کی تو آپ نے اچھل کر فرمایا۔

میں کہتا ہوں۔ لے جاؤ۔ اور پھر دھڑام سے نیچے گر پڑے۔

اصل میں بات یہ تھی کہ الٹا نگر کے بادشاہ سلامت اتنے موٹے تھے کہ بس بہت ہی موٹے تھے۔ ایک تو بے تحاشا موٹاپا، اور دوسرے آپ کی دہنی ٹانگ بائیں ٹانگ سے کچھ چھوٹے تھی اس لیے بادشاہ سلامت کو ذرا سی بھی ٹھوکر لگتی تو آپ بھد سے نیچے گر پڑتے اور فٹبال کی طرح زمین پر لڑھکتے پھرتے۔ اس وقت آپ کے سامنے کسی کا آ جانا غضب ہی ہو جاتا۔ گرنے کا سارا غصہ اس پر اتارتے اور جب تک اس کی ناک میں بھس نہ بھروا دیتے ، تب تک چین نہ لیتے ، چنانچہ کوئی درباری ایسا نہ تھا جس کی ناک میں بھس نہ بھرا گیا ہو۔

جسم موٹا ہونے کے ساتھ ساتھ بادشاہ سلامت کی عقل بھی بہت موٹی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ بادشاہ سلامت کسی کرسی پر بیٹھے اور وہ آپ کے بوجھ سے چرچرا کر ٹوٹ جاتی تو بادشاہ سلامت نہ صرف کرسی بنانے والے کی بلکہ اس کے پورے خاندان کی ناک میں بھس بھروا دیتے۔ اس لیے ملکہ نے محل کی ساری کرسیاں اور مسہریاں لوہے کی بنوا دی تھیں۔ لیکن اس پر بھی کبھی نہ کبھی ایک آدھ کرسی یا مسہری بادشاہ سلامت کے بوجھ سے ٹوٹ ہی جاتی۔ یہ دیکھ کر بعض آدمی تو سوچنے لگتے کہ حضور بادشاہ سلامت موٹے یا زیادہ ہیں یا بھاری۔

بادشاہ سلامت کے بے تحاشا موٹاپے اور اوندھی عقل سے ویسے تو ساری رعایا ہی پریشان تھی۔ مگر وزیر اعظم اور ملکہ کی تو جان آفت میں تھی۔ اور جب سے بادشاہ سلامت نے وزیر اعظم صاحب کی ناک میں بھس بھروایا تھا، تب سے تو وہ اور بھی ڈرنے لگے تھے اور ہر وقت ایسی تجویزیں سوچتے رہتے کہ کسی طرح بادشاہ سلامت کا موٹاپا ختم ہو۔ تاکہ اس کی اور رعایا کی جان اس مصیبت سے چھوٹے۔

ایک دن ملکی عالیہ بادشاہ سلامت کے لیے چائے بنا رہی تھیں کہ وزیر اعظم گھبرائے ہوئے تشریف لائے اور کراہتے ہوئے بولے۔

ارے ملکہ عالیہ! آپ نے کچھ اور بھی سنا؟

کیا؟ ملکہ ہڑ بڑا کر اس زور سے انہیں کہ چائے کی کیتلی چولہے پر سے گرتے گرتے بچی۔

کیا بتاؤں حضور!…. وزیر اعظم پیٹھ کھجا کر بولے۔ حضور بادشاہ سلامت نے تو لوگوں کی زندگیاں حرام کر دی ہیں۔

کچھ کہو گے بھی کہ…. ملکہ خفا ہونے لگیں۔

کہوں کیا حضور؟ وزیر اعظم نے منہ بسور کر کہا۔ کسی کم بخت نے حضور سے یہ کہہ دیا کہ شہر کے تمام بچے آپ کو موٹو شاہ کہتے ہیں۔ بس آپ نے فوج کو حکم دے دیا کہ وہ سارے شہر کے بچوں کو پکڑ کر ان کی ناک میں بھس بھر دے۔

یہ تو بڑی بری بات ہوئی۔ ملکہ نے ڈرتے ہوئے کہا۔ اس سے تو رعایا میں بے چینی پھیل جائے گی۔

جی ہاں ! اور کچھ عجب نہیں کہ لوگ حکومت کے خلاف بغاوت کر دیں۔ وزیر اعظم صاحب بولے۔

بغاوت….؟ ملکہ سہم گئیں۔

جی ہاں ! بغاوت…. وزیر اعظم نے جوش میں آ کر میز پر مکا لگایا اور جب چوٹ لگی تو ہاتھ سہلانے لگے۔

تو پھر کیا کیا جائے ؟ ملکہ نے پوچھا۔

وزیر اعظم سوچ کر بولے۔ میرے خیال میں تو بادشاہ سلامت کے دبلا ہونے کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ آپ حضور کو روٹی ذرا کم دیا کریں۔

ملکہ تن فن کر بولیں۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ بادشاہ سلامت میری بھی ناک میں بھس بھروا دیں ؟

ارے نہیں ملکہ عالیہ! وزیر اعظم سٹپٹا کر بولے۔ دراصل، پھر ہمیں کوئی اور ہی تدبیر سوچنی پڑے گی۔

اتنے میں ایک نوکر بھاگا ہوا آیا اور بولا۔ حضور بادشاہ سلامت فرما رہے ہیں کہ چائے ابھی تک نہیں آئی۔

ملکہ جلدی سے بولیں۔ کہنا شکر ختم ہو گئی تھی۔ بازار سے منگائی ہے۔ ابھی آتی ہے۔ نو کر چلا گیا تو ملکہ وزیر اعظم سے بولیں۔ الو کی طرح میرا منہ کیا تک رہے ہو۔ کچھ بولو نا؟

وزیر اعظم نے پہلے کچھ دیر سوچا اور پھر ایک دم خوشی کا نعرہ مار کر بولے۔ آہا! ملکہ عالیہ! ایک بڑی اچھی ترکیب دماغ میں آئی ہے۔ شہر سے کچھ دور جو پہاڑ ہے ، اس میں ایک بڑا زبردست جادوگر رہتا ہے۔ اگر اس سے مدد طلب کی جائے تو شاید وہ کوئی ایسی دوا یا منتر بتا دے ، جس سے بادشاہ سلامت کا موٹاپا کم ہوسکے۔

ملکی خوشی سے ہاتھ ملتے ہوئے بولیں۔ بس بس بالکل ٹھیک ہے۔ تم آج ہی اور ابھی اس کے پاس جاؤ۔

وزیر صاحب نے جھک کر سلام کیا اور چلے آئے۔

اب یہ بھی کچھ اتفاق تھا کہ بادشاہ سلامت جتنے موٹے تھے۔ وزیر اعظم صاحب اتنے ہی دبلے پتلے اور دھان پان تھے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر میرا بھی دبلا پن دور ہو جائے تو میں ذرا سا موٹا ہو جاؤں تو کیا ہی بات ہو۔ یہ سوچ کر خوشی سے اچھل پڑے اور جادوگر کو سارا حال کہہ سنایا۔

اچھی بات ہے۔ جادوگر اپنی خوف ناک آنکھیں گھما کر بولا۔ یہ لو موٹا ہونے کی دوا۔ اگر چھپکلی بھی کھائے تو پھول کر ہاتھی ہو جائے اور یہ لو دبلا ہونے کی دوا۔ اگر اسے ہاتھی بھی کھائے تو پسو بن جائے۔

وزیر اعظم خوش خوش دونوں دوائیں لے کر چلے آئے ، مگر آ کر یہ بھول گئے کہ موٹا ہونے کی دوا کون سی ہے اور دبلا ہونے کی کون سی۔ بھولے سے بادشاہ سلامت والی دو تو خود چڑھا گئے اور اپنے والی دوا بادشاہ سلامت کو دودھ میں ملا کر پلا دی اور نتیجہ کا انتظار کرنے لگے۔

تھوڑی دیر بعد انہوں نے دیکھا کہ بادشاہ سلامت کا پیٹ پھول رہا ہے ، گھبرا کر بولے۔ ارے حضور! آپ کا پیٹ!

بادشاہ سلامت جھلا کر بولے۔ کم بخت میرا پیٹ دیکھ رہا ہے ، تو اپنے آپ کو تو دیکھ۔ وزیر اعظم صاحب نے گھبرا کر اپنے اوپر نظر ڈالی۔ تو یہ دیکھ کر ان کی روح فنا ہو گئی کہ وہ اور دبلے پتلے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اب انہیں اپنی غلطی معلوم ہوئی، مگر اب کیا ہوسکتا تھا، کچھ دیر بعد بادشاہ سلامت تو پھول کر غبارہ ہو گئے اور وزیر اعظم سوکھ کر ہڈیوں کا پنجر۔

جب سارا گوشت گھل گیا اور صرف ہڈیاں ہی باقی رہ گئیں تو اب وزیر اعظم نیچے کو گھٹنا شروع ہوئے اور گھنٹا بھر کے بعد آپ کا قد دو فٹ رہ گیا اور بادشاہ سلامت کی توند چھت سے جا لگی۔

اور پھر اتنے زور کا دھماکا ہوا کہ سارا شہر ہل گیا۔ تمام فوج، امرا اور لوگ باگ دور پڑے۔ آ کر کیا دیکھتے ہیں کہ بادشاہ سلامت تو پھٹے پڑے ہیں اور ان کے پاس ایک چیونٹی رینگ رہی ہے۔ یہ وزیر اعظم تھے جو گھٹتے گھٹتے چیونٹی کے برابر رہ گئے تھے۔

٭٭٭

 

منشی منقی نے شیر مارا

منشی منقی تھے تو ڈیڑھ پسلی کے ، دھان پان انسان کہ پھونک مارو تو ہوا میں کٹی ہوئی پتنگ کی طرح لہرائیں لیکن اکڑ باز اتنے کہ رستم زماں گاماں پہلوان سے بھی کشتی لڑنے کو تیار، شیخ چلی فوجی اور اسپین کے ڈان کیو ہوٹے کی تو کہانیاں ہی پڑھی تھیں لیکن منشی منقی کا سا شیخی باز جیتا جاگتا انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا اور نہ شاید کبھی دیکھنا نصیب ہو۔

اب یہ تو خدا ہی کو پتا ہو گا کہ منشی جی کس نسل اور کس ذات کے تھے لیکن وہ خود اپنے آپ کو مغل بتاتے تھے اور کہتے تھے کہ دنیا میں صرف دو ہی آدمی ایسے رہ گئے ہیں جن کی رگوں میں مغلوں کا خالص خون دوڑ رہا ہے ، ایک تو قصبہ فتح پور کے جاگیردار نواز مرزا جہاں دار اور دوسرے خود منشی منقی، نواب صاحب خاندان مغلیہ کا آخر چراغ کہلاتے تھے اس لیے لوگوں نے منشی منقی کا لقب خاندان مغلیہ کی آخری موم بتی رکھ دیا تھا۔

منشی صاحب کا اصل نام تو کچھ اور تھا لیکن وہ قصبے بھر میں منشی منقی کے نام سے مشہور تھے شاید اس لیے کہ ان کی شکل منقی سے ملتی جلتی تھی، یا پھر یہ ان کی چڑ تھی، وہ محکمہ جنگلات میں منشی تھے اور میرے چچا جان کے ماتحت، لیکن منشی جی سے ہمارے خاندان کے بہت پرانے تعلقات تھے ، اس لیے ان دونوں میں افسری اور ماتحتی کی کوئی تمیز نہ تھی، منشی جی اتوار کے اتوار ہمارے گھر آتے ، بیٹھک میں محفل جمتی، چائے پانی چلتا اور ساتھ ہی منشی جی کی زبان ایسے فراٹے بھرتی کہ رکنے کا نام نہ لیتی، وہ اپنے خاندان کی جرات اور دلیری کے وہ وہ کارنامے سناتے کہ سننے والوں کی عقل چکرا کر رہ جاتی۔

ایک ایسی ہی محفل میں، ایک دن، منسی جی مغلوں کی بہادری اور شجاعت کی داستانیں سنا رہے تھے کہ ایک دم جلال میں آ گئے اور بولے ، ارے میاں، بابر کے ساتھ میرے دادا کے دادا کے دادا نہ ہوتے تو پانی پت کے میدان میں اسے ابراہیم لودھی کے مقابلے میں ہرگز فتح نہ ہوتی۔

وہ کیسے منشی جی، چچا جان نے پوچھا۔

وہ ایسے منشی جی بولے ، کہ جوں ہی ابراہیم لودھی کی فوج نے مغل فوج پر حملہ کیا، میرے دادا کے دادا کے دادا نے ایک دم مشین گن کا فائر کھول دیا اور پلک جھپکتے میں لودھی کی فوج کے دس ہزار جوانوں کو بھون کر رکھ دیا۔

میں اس وقت ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ بابر کے زمانے میں توپ تو ایجاد ہو چکی تھی اور انہی توپوں کی مدد سے اس نے صرف بارہ ہزار فوج سے ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی تھی، لیکن مشین گن ایجاد نہیں ہوئی تھی، چچا جان اور ان کے دوست تو خاموش رہے مگر میں بول پڑا۔

لیکن منشی جی، اس وقت مشین گن تھی کہاں، مشین گن تو امریکا کے ایک شخص گیٹلنگ نے 1861ء میں ایجاد کی تھی اور بابر اس سے تین سو سال پہلے ہی مرگیا تھا۔

منشی منقی نے مجھے گھور کر دیکھا، اپنی کچیا ڈاڑھی سہلائی اور پھر آنکھیں نکال کر بولے ، لاحول والا قوۃ، تو تمہیں یہ پڑھایا جاتا ہے اسکول میں، ارے میاں، اسی لیے تو ہماری قوم نے ترقی نہیں کی لو جی، یہ چھوکرے سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جتنی ایجادیں ہوئی ہیں وہ سب امریکا، یورپ والوں نے کی ہیں، ہم نے کچھ کیا ہی نہیں۔ ارے برخوردار، امریکا اور یورپ نے جو چیزیں آج ایجاد کی ہیں وہ ہمارے باپ دادا نے سیکڑوں برس پہلے بنا لی تھیں۔ لو بھلا، یہ صاحب زادے کہتے ہیں کہ اس زمانے میں مشین گن نہیں تھی، ارے میاں، اس زمانے میں تو ہوائی جہاز بھی تھے اور بھاپ سے چلنے والے بحری جہاز بھی جو سمندروں کی چھاتی پر مونگ دلتے پھرتے تھے ، تم نے الف لیلہ کی کہانیوں میں اڑن قالینوں اور اڑن کھٹولوں کے متعلق نہیں پڑھا ہے ، یہ اڑن کھٹولے کیا تھے ، یہ ہوائی جہاز تھے اور ان میں جٹ انجن لگے تھے ، لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے انہیں جادو کی چیزیں سمجھتے ہیں اور سنو، علامہ اقبال نے کہا ہے۔

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم

بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

اب بتاؤ کہیں بحر یعنی سمندر میں گوڑے دوڑ سکتے ہیں، اقبال جیسا لائق شاعر ایسی بات ہرگز نہیں کر سکا اصل میں اس سے مراد بھاپ سے چلنے والے جہاز ہیں، جہاز۔ کیا سمجھے۔

چچا جان نے ہنسی روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ان کے ہونٹوں کا بند توڑ کر نکل ہی گئی، دوسرے لوگ بھی ہنسنے لگے ، میں نے مسکرا کر گردن جھکا لی۔

تو یہ تھے منشی منقی اور یہ تھیں ان کے مزے دار باتیں اب سنیے ، انہی دنوں ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے آس پاس کی ساری بستیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، ہمارے قصبے سے چار پانچ میل پرے جنگل شروع ہو جاتا تھا اور اس کے اردگرد بہت سے چھوٹے موٹے گاؤں آباد تھے ، اس جنگل میں خدا جانے کہاں سے ایک بھوکا ننگا شیر آ گیا اور لگا گاؤں والوں کے ڈھور ڈنگروں پر ہاتھ صاف کرنے۔ کسان ڈر کے مارے ، سر شام ہی ڈنگروں کو لے کر گھر لوٹ آتے تھے اور بڑے سے بڑا جی دار جوان بھی رات کو باہر نکلنے کی جرات نہ کرتا تھا۔

جب شیر کسانوں کی بہت سی بھیڑ بکریاں اور گائیں ہڑپ کر گیا تو انہوں نے دہائی مچا دی اور ہوتے ہوتے یہ خبر علاقے کے ڈپٹی کمشنر تک پہنچی، انہوں نے چچا جان کو حکم دیا کہ ہفتے کے اندر اندر اس خبیث شیر کو زندہ یا مردہ ہماری خدمت میں پیش کیا جائے۔

یہ سن کر چچا جان کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی، انہوں نے کبھی خواب میں شیر کا شکار نہ کیا تھا، عمر بھر تیتر بٹیر یا زیادہ سے زیادہ خرگوش مارے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ ان کے پاس وہ بندوق تھی ہی نہیں جس سے شیر کا شکار کیا جاتا ہے ، وہ بہت گھبرائے اور فوراً اپنے دوستوں کی میٹنگ بلائی، اس میٹنگ میں منشی منقی بھی تھے۔

منشی صاحب نے چچا جان کی باتیں بڑے غور سے سنیں اور پھر کہا کہ جنگل میں جگہ جگہ پھندے یا جال لگا دیے جائیں اور جب شیر کسی پھندے میں پھنس جائے تو اسے بوری میں بند کر کے ڈپٹی کمشنر صاحب کو بھیج دیا جائے ، منشی جی نے بڑی سنجیدگی سے بتایا کہ ملکہ نور جہاں کے پہلے شوہر، شیر فگن نے اسی ترکیب سے شیر مارا تھا اور یہ ترکیب اسے منشی جی نکے کسی دادا نے بتائی تھی، ترکیب تھی تو ٹھیک لیکن اس کے لیے بہت سے جالوں اور پھندوں کی ضرورت پڑتی اور پھر سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ شیر کو بوری میں کون بند کتا، اس لیے چچا جان اور ان کے دوستوں نے منشی جی کی یہ ترکیب رد کر دی۔

جب منشی جی چلے گئے تو چچا جان نے دوستوں سے صلاح کی اور آخر طے یہ ہوا کہ ہم جنگل میں ضرور جائیں گے ، درختوں پر مچان بھی بنائیں گے لیکن شیر ہرگز نہیں ماریں گے کیوں کہ وہ ہم سے نہیں مرے گا، بس دو تین دن یوں ہی مچانوں پر بیٹھ کر واپس آ جائیں گے اور ڈپٹی صاحب سے کہہ دیں گے کہ جناب، یہ موذی شیر ہمارے بس کی بات نہیں، اسے مارنے کے لیے تو کینتھ اینڈرسن اور جم کاربٹ جیسے تجربہ کار شکاریوں کی ضرورت ہے ، لہٰذا انہیں تار دے کر انگلستان سے بلوا لیا جائے۔

یہ فیصلہ کر کے سب نے اطمیمان کی سانس لی اور دوسرے دن صبح کو، بوریا بستر باندھ کر جنگل کی طرف روانہ ہو گئے ، میری چھٹیاں تھی، میں نے چچا جان کی خوشامد کی کہ مجھے بھی لیے چلیے ، پہلے تو انہوں نے انکار کیا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ ہمیں کون سا سچ مچ کا شکار کرنا ہے ، مان گئے ، برسات کا موسم تھا اس لیے منشی منقی نے اپنی چھتری، جس پر بھیانک رنگ کا کالا سیاہ کپڑا چڑھا ہوا تھا، ساتھ لے لی۔

ایک گھنٹے بعد ہم لوگ جنگل کے قریب ایک گاؤں میں پہنچے ، چچا جان نے دیہاتیوں کو بتایا کہ اب ہم آ گئے ہیں اور انشاء اللہ شیر کو مار کر ہی واپس جائیں گے ، لہٰذا فکر کی کوئی بات نہیں، بس تم اتنا کرو کہ ہمیں تین چار ہٹے کٹے جوان دے دو جو جنگل میں جا کر ہمارے لیے مچان بنا دیں اور ایک موٹا تازہ بکرا بھی لادو تاکہ شیر اس کی بو سنگھ کر مچانوں تک آ جائے اور ہم اسے ڈز سے گولی مار دیں، ایک دیہاتی نے بتایا کہ اس نے شیر کو کل رات جنگل میں برساتی نالے کے پاس ٹہلتے ہوئے دیکھا تھا اور وہ وہیں کہیں چھپا بیٹھا ہو گا لہٰذا اسی جگہ مچان بنائے جائیں۔

دیہاتی ہماری پارٹی کو جنگل میں اس جگہ لے گئے جہاں برساتی نالا تھا۔ اس نالے کے کنارے دو اونچے اونچے درخت تھے ، انہی درختوں پر انہوں نے ہمارے لیے مچان بنا دیے۔

منشی جی کی رائے تھی کہ بکرے کو باندھا نہ جائے کھلا چھوڑ دیا جائے ، وہ جنگل میں گھومتا پھرے اور شیر اس کی طرف لپکے تو وہ دوڑ کر مچان تک آ جائے اور ہم شیر کو گولی مار دیں لیکن افسوس چچا جان نے منشی جی کی یہ تجویز بھی نہیں مانی، کیوں کہ اس کے لیے بکرے کو ٹریننگ دینے کی ضرورت تھی اور اس ٹریننگ میں سال چھ مہینے لگ جاتے۔

خیر صاحب، بکرے کو ایک جھاڑی سے باندھ دیا گیا اور سب لوگ کھانا کھا کر مچانوں پر چڑھ کر بیٹھ گئے ، چاندنی رات تھی، ہر چیز صاف نظر آ رہی تھی، شمال کی طرف مچان پر چچا جان، ان کا ایک دوست اور میں بیٹھا تھا اور جنوب کی طرف والے مچان پر منشی منقی اور ایک صاحب براجمان تھے ، اسی مچان کے پاس بکرا بندھا ممیا رہا تھا۔

میرے خیال میں دس گیارہ کا وقت ہو گا کہ بکرا زور سے ممیایا، ساتھ ہی قریب کی ایک  جھاڑی میں سرسراہٹ ہوئی۔ پھر جھاڑی میں سے کسی جانور کا سر نکلا، اس کے بعد دھڑ اور پھر دم، یہ شیر تھا، میری روح فنا ہو گئی، ڈرتے ڈرتے چچا جان اور ان کے دوست کی طرف دیکھا ان دونوں کی حالت بھی غیر تھی۔

شیر آہستہ آہستہ ٹہلتا ہوا بکرے کی جانب بڑھا، بے چارے بکرے کا خوف سے خون خشک ہو گیا تھا اور وہ بت بنا شیر کو دیکھ رہا تھا، شیر چند سیکنڈ بکرے کو دیکھتا رہا، پھر بڑے مزے سے جمائیاں لیتا ہوا اس درخت کی طرف بڑھا جس پر منشی منقی بیٹھے تھے ، ابھی وہ درخت سے چند گز کے فاصلے پر تھا کہ دھم کی آواز آئی، منشی منقی درخت سے لڑھک کر زمین پر گر پڑے تھے۔

میں اس وقت کا منظر بیان نہیں کر سکتا، شیر غصے سے دم ہلا رہا تھا اور اس سے دس بارہ گز کے فاصلے پر منشی منقی چھتری ہاتھ میں لیے مٹک مٹک کر اسے دھمکا رہے تھے ، دھت دھت، ابے دھت، انہوں نے چھتری شیر کی طرف اس طرح تان رکھی تھی جیسے وہ کوئی بندوق ہو۔

منشی جی کبھی دایاں پیر زمین پر مارتے اور کبھی بایاں، اس دوران میں ان کی چھتری کا رخ شیر کی طرف رہا اور وہ منہ سے دھت دھت کی آوازیں بھی نکالتے رہے۔

شیر پندرہ بیس سیکنڈ خاموش کھڑا دم ہلاتا رہا۔ منشی جی اسی طرح دھت دھت کرتے اور پینترے بدلتے بکرے کے پاس پہنچ گئے ، برے کی جان پر بنی ہوئی تھی اس نے گردن جھکا کر ٹکر جو مارے تو منشی جی پانچ فٹ اوپر اچھل پڑے اور اس کے ساتھ ہی ان کا کمر بند ٹوٹ گیا، اب وہ ایک ہاتھ سے پاجامہ پکڑے ہوئے تھے اور دوسرے ہاتھ سے چھتری، ساتھ ہی دھت دھت، ابے دھت، کہے جا رہے تھے ، اگر چچا جان میری کوکھ میں کہنی نہ ماتے تو میری ہنسی نکل گئی ہوتی۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیر اب منشی منقی کے ناچ سے اکتا گیا تھا، وہ تھوڑی دیر تو کھڑا دم ہلاتا رہا۔ ایک دو مرتبہ اس کے منہ سے غوں غاں کی آواز بھی نکلی، پھر اس نے اگلے پنجوں سے مٹی کریدی، پچھلی ٹانگیں سمیٹیں اور ایک خوف ناک چیخ مار کر منشی منقی پر چھلانگ لگا دی۔ منشی جی بھی غافل نہیں تھے ، شیر ابھی آدھے ہی راستے میں تھا کہ انہوں نے کھٹاک سے چھتری کھولی اور اس کا رخ شیر کی طرف کر دیا۔

شیر نے ایسا خوفناک ہتھیار پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، چھتری کے اچانک کھلنے اور اس کے کالے کپڑے سے وہ ایسا بوکھلایا کہ راستے ہی میں الٹی قلابازی لگائی اور دل ہلا دینی والی چیخیں مارتا ہوا جھاڑیوں میں غائب ہو گیا، اس کی پہلی دہاڑ ایک فرلانگ کے فاصلے پر سنائی دی، پھر دو فرلانگ پر اور اسی طرح دور ہوتے ہوئے بالکل غائب ہو گئی۔

ہم اپنی اپنی جگہ سہمے بیٹھے تھی، لیکن منشی جی برابر ہنکارے جا رہے تھے ، ابے ، ایک ہی جھونک میں بھاگ گیا، مرد ہے تو میدان میں آ، قسم ہے دادا جان کی، وہ خبر لوں گا کہ عمر بھر یاد رکھے ، مغل بچہ ہوں مغل بچہ، مذاق نہیں۔

پہلے چچا جان مچان سے اترے اور پھر دوسرے لوگ، انہوں نے منشی جی کو کاندھوں پر اٹھا لیا اور زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے گاؤں میں آئے۔

اس دن سے شیر ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ، ہم دو تین روز گاؤں میں رہے اور پھر گھر واپس آ گئے جب ایک ہفتے تک کسی کا ڈھور ڈنگر غائب ہونے کی خبر نہ آئی تو چچا جان نے ڈپٹی صاحب کو کہلا بھیجا کہ شیر زخمی ہو کر جنگل سے بھاگ گیا ہے ، لہٰذا اب تشویش کی کوئی بات نہیں۔

اس واقعے کے بعد منشی منقی کی اکڑ اور بڑھ گئی، وہ سارے شہر میں اینڈے اینڈے پھرتے اور سینہ پھلا کر بڑے فخر سے کہتے ، یوں ہی تو نہیں کہتا تھا کہ مغل بچہ ہوں، میرے ایک ہی گھونسے نے شیر کا کچومر نکال دیا، اب وہ کبھی ادھر نہیں آئے گا، اگر آ گیا تو میرا نام بدل دینا۔

اور سچ مچ شیر اس جنگل میں پھر کبھی نہیں آیا اور نہ لوگوں کو منشی جی کا نام بدلنے کی ضرورت پڑی وہ بدستور منشی منقی ہی کہلاتے رہے۔

٭٭٭

 

ملا جی کے کارنامے

آپ نے ملا نصر الدین کا نام تو سنا ہو گا۔ یہ شخص ترکی کا ایک مسخرہ تھا جس طرح ہمارے ہاں ملا دو پیازہ اور شیخ چلی کے لطیفے مشہور ہیں، اسی طرح ترکی میں ملا نصر الدین کے لطیفے بڑے مزے لے لے کر بیان کیے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں ملا نصر الدین یوں تو نہایت عقل مند اور عالم فاضل شخص تھا مگر لوگوں کی اصلاح اور تفریح کے لیے بے وقوف بنا رہتا اور ایسی ایسی حرکتیں کرتا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔

ملا نصر الدین کے پڑوس میں ایک مال دار یہودی رہتا تھا جو اتنا کنجوس تھا کہ کبھی کسی غریب اور محتاج کو ایک پیسہ نہ دیتا تھا۔ ملا نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا کہ خدا نے تمہیں دولت عطا کی ہے ، اسے غریب اور مفلس لوگوں پر خرچ کیا کرو، لیکن اس نے ملا کی کوئی نصیحت نہ سنی۔ آخر ملا نصر الدین نے اسے سزا دینے کے لیے ایک ترکیب سوچی۔

ایک روز صبح سویرے وہ نماز پڑھ کر زور زور سے دعا مانگنے لگا۔

یا اللہ، اگر تو مجھے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی بھیج دے تو میں اسے محتاجوں پر صرف کر دوں۔ لیکن اگر اس میں سے ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو ہرگز قبول نہ کروں گا۔

یہودی نے یہ دعا سنی تو سوچا کہ ملا بڑا ایمان دار بنتا ہے ، اس کی ایمانداری آزمانی چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے تھیلی میں نو سو ننانوے اشرفیاں بھریں اور عین اس وقت جب کہ ملا نصر الدین دعا مانگ رہا تھا، اشرفیوں سے بھری ہوئی تھیلی اس کے صحن میں پھینک دی۔

ملا نصر الدین نے لپک کر تھیلی اٹھا لی اور اس میں سے اشرفیاں نکال نکال کر گننے لگا۔ کل نو سو ننانوے اشرفیاں تھیں، ملا نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہنے لگا۔

یا اللہ، میں تیرا شکر گزار ہوں کہ تو نے میری دعا قبول فرما لی، ایک اشرفی کم ہے تو کوئی بات نہی، یہ اشرفی پھر کبھی دے دینا۔

یہودی نے جب ملا نصر الدین کے یہ الفاظ سنے تو سخت پریشان ہوا اور دل میں کہنے لگا کہ یہ ملا تو بہت چالاک ہے۔ اس نے دھوکے سے میری اشرفیاں ہتھا لیں وہ بھاگا بھاگا ملا کے پاس آیا اور کہنے لگا تم بہت بے ایمان شخص ہو۔ لاؤ، میری اشرفیاں واپس کرو۔ تم نے تو کہا تھا کہ ہزار میں سے ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو واپس کر دوں گا، لیکن اب تم نو سو ننانوے اشرفیاں قبول کرنے پر تیار ہو۔

ملا نصر الدین غصے سے کہنے لگا، تم کون ہوتے ہو مجھ سے اشرفیاں مانگنے والے ، یہ تو میرے خدا نے مجھے بھیجی ہیں، جاؤ، اپنا کام کرو۔

یہودی سیدھا قاضی کی عدالت میں گیا اور ملا کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ قاضی صاحب نے یہودی کو حکم دیا کہ ملا نصر الدین کو بلا لاؤ، ہم ابھی فیصلہ کر دیں گے۔

یہودی نے ملا نصر الدین کے پاس آ کر کہا، چلو، تمہیں قاضی صاحب بلاتے ہیں۔ ملا نے جواب دیا، تم دیکھ رہے ہو کہ میرا لباس پھٹا پرانا ہے ، میں اس شرط پر جانے کے لیے ت یار ہوں کہ تم مجھے اچھے اچھے کپڑے لا کر دو، یہودی نے یہ شرط بھی منظور کر لی اور صاف ستھرے کپڑے ملا کو لا کر دے دیے۔

ملا نصر الدین یہ بیش قیمت لباس پہن چکا تو کہنے لگا، میاں یہودی، کیا اتنا قیمتی لباس پہن کر پیدل ہی قاضی کی عدالت میں جاؤں، لوگ دیکھیں گے تو دل میں کیا کہیں گے ، جاؤ اپنا گھوڑا لے آؤ، اس پر سوار ہو کر جاؤں گا۔

مرتا کیا نہ کرتا، یہودی نے اپنا گھوڑا بھی ملا کے حوالے کر دیا اور ملا صاحب نہایت شان و شوکت سے گھوڑے پر سوار ہو کر قاضی کی عدالت میں پہنچے ، مقدمہ پیش ہوا، قاضی صاحب نے دونوں کو غور سے دیکھا۔ ملا نصر الدین کا قیمتی لباس اور سواری کا گھوڑا بھی انہوں نے دیکھا اور یہودی کا لباس بھی اور یہ بھی محسوس کیا کہ وہ پیدل آیا ہے ، یہودی نے جب سارا قصہ سنایا تو قاضی صاحب نے ملا نصر الدین سے پوچھا۔

ملا صاحب، تم اس کے الزام کا کیا جواب دیتے ہو، ملا نے جواب دیا، حضور، یہ یہودی میرا پڑوسی ہے اور بڑا جھوا شخص ہے ، ابھی تو یہ کہتا ہے کہ میں نے اس کی نو سو ننانوے اشرفیاں ہتھیا لی ہیں اور کچھ دیر بعد کہے گا کہ یہ لباس جو میں پہنے ہوئے ہوں وہ بھی اسے کا ہے۔

یہ سنتے ہی یہودی چلا اٹھا، ہاں جناب، یہ لباس بھی میرا ہے ، میں نے اسے پہننے کے لیے دیا تھا۔

ملا نے کہا سن لیا آپ نے ، یہ لباس بھی اس کا ہو گیا اور ابھی دیکھیے یہ کہہ دے گا کہ گھوڑا بھی اسی کا ہے۔

یہودی غصے سے چیخ اٹھا، ہاں حضور، یہ گھوڑا بھی میرا ہی ہے ، ملا نے مجھ سے سواری کے لیے مانگا تھا۔

قاضی نے جو یہ باتیں سنیں تو یہودی کو ڈانٹ پھٹکار کر نکال دیا اور مقدمہ خارج کر دیا۔

یہودی روتا پیٹتا ملا نصر الدین کے گھر پہنچا اور اس کی بڑی منت سماجت کی۔ ملا نے اس شرط پر اس کی اشرفیاں لباس اور گھوڑا واپس کیا کہ وہ آدھی اشرفیاں غریبوں میں بانٹ دے گا اور آئندہ بھی نادار لوگوں کی مدد کرتا رہے گا۔

ملا نصر الدین کے گھر میں بیری کا ایک درخت تھا جس پر بڑے میٹھے بیر لگتے تھے ، وہ انہیں دیکھ دیکھ کر بڑا خوش ہوتا اور بڑے فخر سے کہا کرا کہ ساری دنیا میں اتنے بڑے اور میٹھے بیر کہیں نہیں ہوں گے۔ ایک روز اس نے اچھے اچھے بیر چھانٹ کر ایک تھالی میں سجائے ، تھالی سر پر رکھی اور بادشاہ کے محل کی طرف چل دیا کہ جا کر اسے یہ تحفہ دے۔

راستے میں بیروں نے تھالی کے اوپر لڑھکنا اور ناچنا شروع کر دیا، ملا کو بار بار تھالی کا توازن درست کرنا پڑتا تھا، مگر بیر تھے کہ نچلے نہ بیٹھتے تھے ، کبھی ادھر کو لڑھکتے ، کبھی ادھر کو، ملا بیروں کی شرارت سے تنگ آ گیا اور ایک جگہ رک کر کہنے لگا۔

کم بختو، اگر تم نے ناچنا اور لڑھکنا بند نہ کیا تو میں تم سب کو ہڑپ کر جاؤں گا۔

یہ کہہ کر اس نے ایک مرتبہ پھر ترتیب سے بیروں کو رکھا اور تھالی سر پر رکھ کر آگے چل پڑا، لیکن بیروں نے پھر تھرکنا شروع کر دیا اب تو ملا کو بڑا طیش آیا، راستے ہی میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔

اچھا کم بختو، تم یوں نہ مانو گے ، لو، اب تماشا دیکھو،

یہ کہہ کر اس نے ایک ایک کر کے بیروں کو کھانا شروع کر دیا، جب ایک بیر باقی رہ گیا تو ملا نے اس سے کہا، اگر تمہیں ایک موقع اور دیا جائے تو کیا خاموش سے چلو گے۔

بے چارہ بیر اپنے ساتھیوں کا حشر دیکھ چکا تھا، اس لیے وہ چپ چاپ تھالی میں پڑا رہا اور ملا نصر الدین اسے لے کر بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا، اس روز بادشاہ سلامت کا موڈ بہت اچھا تھا، انہوں نے ملا نصر الدین کا تحفہ مزے لے لے کر کھایا اور خوب تعریف کی۔ پھر ملا نے بادشاہ کو دلچسپ لطیفے سنائے جنہیں سن کر اس کے پیٹ میں بل پڑ گئے ، شام ہوئی تو ملا نے رخصت ہونے کی اجازت طلب کی، بادشاہ نے اس کی تھالی، ہیروں جواہرات سے بھر دی اور ملا ہنسی خوشی گھر آ گیا۔

ایک ہفتے تک وہ بڑا خوش رہا، اس کے بعد پھر اسے ہیروں کا لالچ ہوا، وہ سوچنے لگا کہ اس مرتبہ  بادشاہ سلامت کے لیے کیا چیز لے جاؤں، یکایک اس کی نظر اپنے گھر میں لگے ہوئے سرخ سرخ چقندروں پر پڑی، ملا خوش سے اچھل پڑا اور اس نے یہی تحفہ بادشاہ کے پاس لے جانے کا فیصلہ کر لیا، اس نے جلدی جلدی ڈھیر سارے چقندر توڑ کر اپنی تھالی میں سجائے ، تھالی کو سر پر رکھا اور بادشاہ کے محل کی طرف چل پڑا۔

راستے میں اسے ایک دوست ملا جس کا نام حسن تھا، اس نے پوچھا، ملا صاحب، اتنے شاندار چقندر تم کس کے لیے لے جا رہے ہو۔

بادشاہ سلامت کو تحفے میں دینے کے لیے۔

تحفہ اور وہ بھی چقندروں کا، ملا جی، تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا، حسن نے کہا۔

کیوں، کیا ہوا، کیا چقندر بادشاہوں کو تحفے میں دیے جانے کے لائق نہیں، ملا نے پوچھا۔

یہ کہہ کر اس نے چقندروں کو غور سے دیکھا، اب اسے محسوس ہوا کہ واقعی چقندر اس قابل نہیں کہ بادشاہ کو تحفے میں دیے جا سکیں۔ اس نے حسن سے پوچھا، بھائی تم ہی کچھ بتاؤ، میں ان کے بجائے اور کیا چیز لے جاؤں۔

انجیر لے جاؤ، پکے ہوئے رس دار۔

ارے واہ، یہ تو تم نے خوب بتایا ملا نے کہا غضب خدا کا، مجھے پہلے کیوں خیال نہ آیا کہ بادشاہ کے پاس انجیر لے جانے چاہئیں۔

وہ الٹے پاؤں بازار کی جانب چلا اور ایک دکان دار سے چقندروں کے عوض پکے پکے رس دار انجیر لے لیے۔ اب سنو، اس روز بادشاہ سلامت کا مزاج بہت گرم تھا، درباری امیر اور وزیر سب سہمے ہوئے تھے ، ملا حسب معمول اچھلتا کودتا بادشاہ کے سامنے پہنچا اور تھالی اس کے آگے رکھ دی۔

کیا ہے اس میں، بادشاہ نے گرج کر پوچھا۔

حضور، انجیر ہیں، آپ کے لیے لایا ہوں، ذرا چکھ کو تو دیکھیے۔

بادشاہ کے غصے کا پارہ اور گرم ہو گیا، اس نے کڑک کر سپاہیوں کو آواز دی اور انہیں حکم دیا کہ یہ سب انجیر ملا کے پھینک پھینک کر مارو اور خوب زور زور سے ، ملا نے یہ حکم دیا تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا، لیکن سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور انجیر مار مار کر اس کا منہ سجا دیا، جب انجیر ختم ہو گئے تو سپاہیوں نے اسے چھوڑ دیا اور وہ تیر کی طرح وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔

راستے میں ملا کو حسن ملا۔ ملا فوراً اس کے گلے سے لپٹ گیا اور کہنے لگا، پیارے بھائی، اگر میں تمہاری نصیحت نہ مانتا تو میری ہڈی پسلی ایک ہو جاتی، خدا تمہیں جزائے خیر دے۔

حسن نے ملا کی یہ حالت دیکھی تو اسے سخت تعجب ہوا اور کہنے لگا آخر کچھ بتاؤ تو کیا واقعہ پیش آیا۔

ارے بھائی، بس بال بال بچ گیا، خدا تمہارا بھلا کرے ، میں نے تمہاری نصیحت مان لی۔

کون سی نصیحت، حسن نے جھنجھلا کر پوچھا۔

ارے بھائی، وہی چقندروں کے بجائے انجیر لے جانے کی، اف خدایا، اگر میں وہ بڑے بڑے لوہے جیسے سخت چقندر لے جاتا اور بادشاہ کے سپاہی وہ مجھ پر پھینکتے تو سچ مانو، میرا تو کچومر ہی نکل جاتا، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں نے تمہاری رائے پر عمل کیا۔۔۔۔۔ ورنہ چقندر۔۔۔۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔۔۔۔ پیارے بھائی، اللہ تمہیں اس کا اجر دے۔

٭٭٭

 

نانی ٹخو

گھنگھور گٹھا تلی کھڑی تھی، پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی، ہمارے گھر زنانہ میلاد شریف تھا اور ملانیاں ابھی تھوڑی دیر ہوئی مولود پڑھ کے گئی تھیں، جو رشتے کی عورتیں دور محلے کی تھیں، انہیں امی نے روک لیا تھا کہ بہن، اس وقت کہاں جاؤ گی۔۔۔ نہ رکشا نہ تانگا اور پھر مینہ کا ہر دم دھڑکا، صبح کو چلی جانا۔

آسمان پر بادل گرج رہے تھے اور بجلی ایسی لپکیں مار رہی تھی کہ زمین سے لگ لگ جاتی تھی، اس ڈر سے کہ کہیں بارش نہ آ جائے ، چارپائیاں برآمدے میں بچائی گئی تھیں۔ بائیں طرف کونے میں ہمارا پلنگ تھا۔ ہمارے برابر ہماری خالہ زاد بہن سیما کا، اس کے بعد نانی ٹخو کا اور پھر امی اور دوسری عورتوں کے ، اب ان نانی ٹخو کا حال سنو۔

یہ نانی ٹخو سارے شہر کی نانی تھیں، ساٹھ سال سے زیادہ عمر ہو گی۔ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت، کمر جھک کر زمین کو لگ گئی تھی، چلتیں تو ایسے ، جیسے آٹھ کا ہندسہ لڑھکتا ہوا چلا جا رہا ہے ، شہر میں کہیں شادی بیاہ ہو تو نانی ٹخو سب سے پہلے موجود چاہے جان پہچان ہو یا نہ ہو، لوگ انہیں نانی سیدانی کہتے تھے مگر ہم بچوں نے ان کا نام نانی ٹخو رکھا تھا۔

گیارہ بج چکے تھے مگر باتوں کی کھچڑی پک رہی تھی۔ ایکا ایکی امی کو کچھ خیال آیا اور وہ ہم سے بولیں، بیٹا سعید صبح کو جا کر اس موئے ٹال والے سے کہنا کہ ساری گیلی لکڑیاں ہمارے گھر ہی ڈال گیا ہے توبہ آنکھیں پھوٹ گئیں پھونکتے پھونکتے اور لکڑیاں تھیں کہ جلنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔

ہم بولے امی، یہ صحبت خان بڑا لڑاکا آدمی ہے ، لوگ اسے مصیبت خان کہتے ہیں، زیادہ تین پانچ کرو تو کہتا ہے خو بھئی، لکڑی گیلا ہے کیا ہوا۔ چولہے میں جلے گا تو سوکھ جائے گا۔

سیما بولی، تو آپ اس سے لاتے ہی کیوں ہیں، دو قدم آگ بڑھ کر دوسری ٹال سے لے آیا کیجئے۔

جی ہاں، زیان ہلا دینا بہت آسنا ہے اور کرنا بہت مشکل، ہم نے کیا، آپ ہی اسکول سے آتے وقت لیتی آیا کیجئے نا۔

لیجئے خالہ جان، سیما ہاتھ نکال کر بولی۔ بھلا کہیں لڑکیاں بھی لکڑیاں لاتی ہیں۔

جی ہاں، لڑکیاں ہوائی جہاز چلا سکتی ہیں، توپوں اور بندوقوں سے لڑسکتی ہیں، لکڑیاں کیوں نہیں لا سکتیں، اور پھر لکڑی اور لڑکی میں فرق ہی کتنا ہے۔ کاف کو یے سے ملا دو تو لڑکی بن گئی اور لام سے ملا دو تو لکڑی۔

اس پر اتنے زور کا قہقہہ پڑا کہ برآمدے کی چھت ہلنے لگی۔ امی نے بڑے پیار سے ہماری طرف دیکھا اور انجم آپا سے بولیں، بڑا سمجھ دار بچہ ہے ماشاء الہ چھٹی جماعت میں فسٹ آیا ہے۔ اپنے ابا سے تو ایسی بحثیں کرتا ہے کہ بے چارے حقہ لے کر بیٹھک میں بھاگ جاتے ہیں پر بیٹی، ہے بہت شریر۔

انجم آپا بولیں، اے خالہ، تیز دماغ کے بچے شریر ہوا ہی کرتے ہیں۔

واہ، رٹا لگا کے فسٹ آئے تو کیا آئے ، سیما منھ بنا کر بولی، اس طرح تو طوطا بھی فسٹ آسکت ہے ایک دن بڑا مزہ آیا، خالہ جان، ذرا سنیئے۔ آپ کمرے میں بیٹھے جھوم جھوم کر جغرافیہ رٹ رہے تھے ، مان سون ہوائیں بارش برساتی ہیں۔ بارش برماتی ہیں۔ میں نے کہا بھائی جان، بارش برسانا تو سنا تھا، یہ برمان کیا ہوا۔ بولے بکو مت، کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے۔ میں نے کتاب دیکھی تو واقعی میں چھپائی کی غلطی سے برسنا کی "س” موٹی ہو کر "م” بن گئی تھی۔ ہی ہی ہی۔۔۔

ہم نے غصے سے کہا۔ امی، اسے سمجھا لیجئے۔ ایسا نہ ہو کرہ میری تلوار تڑپ کر نیام سے باہر نکل آئے اور میدان جنگ میں کشتوں کے پشتے لگ جائیں۔

اے بیٹے ، خدا کا نام لے ، امی بولیں، کسی بری فالیں منھ سے نکالتا ہے ، ویسے ہی سنا ہے جنگ چھڑنے والی ہے۔ چل، بتی بجھا دے اور پنکھا تیز کر دے ، نیند آ رہی ہے ، موا حبس کتا ہے ، اری ناصرہ، تجھے ہوا آ رہی ہے۔

ناصرہ باجی پرلے کونے میں سے بولیں، ہاں، کبھی کبھی کوئی بچا کچھا جھونکا آ ہی جاتا ہے ، ارے سعید، یہ پرویز کی سیٹی اپنے پاس رکھ لے ورنہ صبح اٹھتے ہی بجا بجا کر سب کو جگا دے گا۔

ہم نے سیٹی لے کر تکیے کے نیچے رکھ لیل اور بتی بجھا کر لیٹ گئے۔ مگر نیند کوسوں دور تھی۔ اتنا بڑا برآمدہ اور ایک پنکھا، پسینے چھوٹ رہے تھے ، تھوڑی دیر بعد سب سوگئے اور برآمدہ ہلکے ، بھائی، سریلے اور بے سرے خراٹوں سے گونجنے لگا۔ ان میں نانی ٹخو کے خراٹے سب سے بلند تھے۔ وہ ایسی ڈراؤنی آوازیں نکال رہی تھیں جیسے بلیاں لڑ رہی ہوں۔

ہم نے بے چینی سے کروٹ بدلی تو سیما بولی، بھائی جان جاگ رہے ہو۔

تمہیں بھی نیند نہیں آتی۔ ہم نے پوچھا۔

نیند کیا خاک آئے ، وہ بولی، ایک تو گرمی اور اوپر سے نانی ٹخو کے خراٹے۔ کوئی کہانی سنائیے۔

کہانی سناؤں کہ تماشا دکھاؤ۔

یہ کہہ کر ہم نے نانی ٹخو کی طرف دیکھا۔ وہ چت لیٹی بالکل سے خبر سو رہی تھیں اور سانس کے ساتھ ان کے ہونٹ ایسے پھڑ پھڑا رہے تھے جیسے لوہار کی دھونکنی سے بھٹی میں شعلے پھڑ پھڑاتے ہیں۔

تماشا۔۔۔۔ وہ کہنی کے بل اٹھ کر بولی، تماشا کیا۔

ایسا دلچسپ اور مزے دار کہ تم نے کبھی نہ دیکھا ہو۔ ہم نے کہا اور تکیے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

دکھائیے۔ وہ آہستہ سے بولی۔ اندھیرے میں اس کی آنکھیں حیرت اور دلچسپی سے چمک رہی تھیں۔

پہلے وعدہ کرو کہ بھانڈا نہیں پھوڑو گی کیوں کہ جوتے کھانے کا خطرہ ہے۔

جوتے پڑے تو دونوں آدھوں آدھ کر لیں گے۔ وہ بولی، شروع کے تم کھا لینا اور آخر کے میں۔

آخر کے کیوں، ہم نے پوچھا۔

بولی، آخر میں مارنے والے کے ہاتھ جو تھک جاتے ہیں۔

بڑی ہوشیار ہو، پھر بھی امتحان میں تھرڈ ہی آتی ہو،

تمہاری طرح رٹا جو نہیں لگاتی جناب۔۔۔۔۔۔ دماغ سے کام لیتی ہوں۔۔۔ اچھا، چھوڑو، ان باتوں کو، تماشا دکھاؤ۔

ہم نے تکیے کے نیچے سے سیٹی نکالی اور چپکے سے سیما کے پلنگ پر چلے گئے۔ نانی ٹخو کو تن بدن کا ہوش نہ تھا۔ ایسی سو رہی تھیں جیسے اب کبھی نہیں اٹھیں گی۔ ہم نے سیٹی ان کے منہ میں ٹھوسی اور دونوں ہونٹ بند کر دیے۔ بے چاری کا پوپلا منہ تھا، سیٹی ہونٹوں سے ایسے چپک گئی جیسے لیئی لگا دی گئی ہو، اب جو نانی ٹخو سانس لیتی ہیں تو آواز نکلتی ہے ، پھرررر پیں۔ پھرررر پیں۔ سیما کا یہ حال کہ ہنسی روکے نہ رکے۔

ہم جلدی سے اپنے پلنگ پر آ گئے اور ایسے بن گئے جیسے پتا ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے ، ادھر نانی ٹخو برابر پھر رررر پیں۔ پھرررر پیں کیے جا رہی تھیں۔

یکایک نانی ٹخو نے ایک لمبی سی سانس لی اور سیٹی میں سے ایسی زور کی آواز نکلی کہ امی گھبرا کر اٹھ بیٹھیں، انہوں نے حیرت سے نانی ٹخو کو دیکھا اور بولیں اے نانی، او نانی، یہ کیا کر رہی ہو۔

نانی ٹخو بولیں۔ پھرررر پیں۔

اس پر امی کا پارہ چڑھ گیا۔ چلا کر بولیں۔ اے بی، ذرا اس بڑھیا کو تو دیکھو۔ یہ عمر اور یہ چونچلے ، اے نانی، سیٹی بجانے کے لیے یہ رات ہی رہ گئی تھی، سارے گھر کی نیند حرام کر دی لے کے۔

یہ کہہ کر انہوں نے نانی ٹخو کو زور سے جھنجھوڑا۔ وہ سمجھیں کوئی آفت آ گئی ہے۔ جلدی سے جوتیاں ہاتھ میں لیں اور ہو ہو کرتی صحن میں دوڑنے لگیں۔ شور سن کر تمام عورتیں جاگ گئیں، انہوں نے سمجھا کوئی چور گھس آیا ہے سب بے تحاشا چیخنے لگیں۔ اس چیخم دھاڑ میں بچوں کی بھی آنکھ کھل گئی اور انہوں نے ایسی دہائی دی کہ سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔

غل غپاڑے کی آواز بیٹھک میں گئی تو ابا جان ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے ، ان دنوں ڈاکے بہت پڑ رہے تھے ، وہ سمجھے ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا ہے۔۔۔۔ جھٹ بندوق لے کر اندر گھس آئے۔ کچھ دیر ہکا بکا کھڑے نانی اور امی کو گھورتے رہے پھر بولے ، لاحول ولاقوۃ۔۔۔۔ یعنی یہ کیا ہو رہا ہے ، حد ہو گئی، میں کہتا ہوں یہ پاگلوں کی طرح شور کیوں مچا رہی ہو۔

امی ہانپتی ہوئی بولیں، اس بڑھیا نے تو قیامت برپا کر دی۔ غضب خدا کا۔ ایک تو سیٹی بجا رہی تھی اور میں نے روکا تو بھاگنا شروع کر دیا۔

سیٹی بجا رہی تھی، ابا جان تعجب سے بولے ، لاحول ولاقوۃ، دماغ چل گیا ہے اس کا۔

سیما منہ میں دوپٹا ٹھونسے ہنسی روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آخر اس سے ضبط نہ ہوسکا تو کھل کھلا کر ہنس پڑی۔

ابا جان نے مڑ کر حیرت سے اسے دیکھا اور بولے ، اس کا کیا مطلب۔۔۔۔۔ سچ سچ بتا کیا معاملہ ہے ، ورنہ یاد رکھ، میری بندوق بھری ہوئی ہے۔

بندوق کا نام سنا تو سیما کی روح فنا ہو گئی، جلدی سے تھوک نگل کر بولی، ب ب ب بات یہ ہے ، خ خ خالو جان، کہ نانی ٹخو کے منہ میں بھائی جان نے ، سیٹی ٹھونسی تھی اور۔

اے ہے ، امی نے سر پر ہاتھ مار کر کہا تو یہ سعید صاحب کی کارستانی تھی۔

کہاں ہے یہ سعید کا بچہ، ابا جان نے ہماری طرف بڑھتے ہوئے کہا اور پاس آ کر کان پکڑ کر جو کھینچا تو ہم ایک دم اسٹینڈ اپ ہو گئے۔ چل، میرے پاس بیٹھک میں سونا، شیطان کہیں کا۔

اس دن سے نانی ٹخو ہمارے گھر کبھی نہیں آئیں۔ خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔

٭٭٭

 

اور ہم نے کار خریدی

ان دنوں کا ذکر ہے جب ہم نے اپنے باس اور بیگم سے پریشان ہو کر کراچی کا سفر اختیار کیا۔ کراچی میں دیکھنے کی بہت سی چیزیں ہیں مثلاً سمندر، اونٹ، کوفیو وغیرہ، تجربہ کار لوگ جانتے ہیں کہ کراچی میں اپنی سواری کے بغیر گھومنا اپنی جیب اور صحت دونوں کو خطرے میں ڈالنا ہے اور چوں کہ ہم طبعاً احتیاط پسند واقع ہوئے ہیں اس لیے ہم نے سوچا کہ اگر کراچی گھومنے کے لیے ایک سیکنڈ ہینڈ کار خریدی جائے۔ یہ سوچ کر ہم ایک بہت بڑے شوروم میں جا پہنچے جو شوروم کم اور کاروں کا جمعہ بازار زیادہ لگ رہا تھا۔ بازار میں داخل ہوتے ہی ہماری نظر ایک غیر معمولی کار پر پڑی۔ کار پر نگاہ پڑتے ہی ہم نے ایک زور دار قہقہ لگایا۔ جو ہماری زندگی کا آخری قہقہہ ثابت ہوا۔ کیوں کہ کار خریدنے کے بعد تو دوسرے ہم پر قہقہہ لگاتے رہے۔ مزاحیہ شاعر عبدالکریم بھونپو جو اس وقت ہمارے ساتھ تھے اور جن کی خیر خواہی پر ہم پختہ ایمان رکھتے تھے ہمیں جوش دلانے کے لیے ٹھنکتے ہوئے بولے۔ یہ کار تم خرید رہے ہو یا میں خرید لوں۔ ہم نے جلدی سے کہا۔ نہیں، نہیں ہم خرید رہے ہیں، اور یوں صاحب ہم نے چھ ہزار روپے میں چھ میٹر لمبی تین میٹر اونچی اور سولہ سو کلو گرام کی ہلکی پھلکی کار خرید لی جس کا نام اس کے بنانے والوں نے مرکری فورڈ رکھ چھوڑا تھا۔ ہم نے کار فروخت کرنے والے سے جب کار کی تاریخ پیدائش پر روشنی ڈالنے کو کہا تو پتا چلا کہ دوسری جنگ عظیم کے زمانے کی ہے ، اس ضمن میں ہم نے مزید تحقیق نہیں کہ ورنہ کار کا مالک یہ بھی ثابت کر دیتا کہ دوسری عالمی جنگ دراصل اسی کام کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔

کراچی میں ہمارا قیام اپنے ایک پرانے دوست کے یہاں تھا۔ ہم نے کار ان کے اپارٹمنس احاطے میں کھڑی کر دی۔ ہمارے یہ دوسر غیر ملکی اشیا کے استعمال کے شدید مخالف ہیں۔ ایک مرتبہ ان کے کسی رشتے دار نے انہیں جاپانی ریفریجریٹر کا پانی پلا دیا۔ اس کے بعد سے موصوف نے ریفریجریٹر کے استعمال کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور انتقاماً اس رشتے دار کے گھر کی طرف پاؤں کر کے سونے لگے۔ رات کو ہمارے دوست دفتر سے آتے ہی ہم سے بولے۔ اس کار کو آپ اور جگہ لے جا کر کھڑی کر دیں کیوں کہ اپارٹمنٹس کی انتظامیہ نے اپارٹمنٹس کے آس پاس کاٹھ کباڑ جمع کرنے پر پابند عائد کر دی ہے۔ اپنی نئی نویلی کار کی شان میں ایسے گستاخانہ بیان پر ہمیں بے حد غصہ آیا۔ کار کی شار میں ایسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ توہین آمیز باتیں اگر ہمارے کسی ماتحت نے کہی ہوتیں تو ہم اس کو کبھی کا دفتر سے نکال چکے ہوئے اور یہ باتیں اگر ہماری بیگم نے کہی ہوتیں تو ہم خود ان کے گھر سے نکل چکے ہوئے۔ مگر یہاں واسطہ ماتحت اور بیگم سے نہیں، دوست سے تھا۔ اور دوست بھی وہ جسے ہماری میزبانی کا شرف پہلی بار نصیب ہوا تھا۔

جو پچھلے چند برسوں میں بیسیوں مرتبہ ہمیں خط لکھ کر دھمکی دے چکا تھا کہ اگر تم نے جلد ہی شرف میزبانی نہ بخشا تو میں قریبی تھانے میں تمہارے خلاف ہتک دوستی کی رپٹ درج کروا دوں گا اور جو پچھلے چند روز سے ہمیں دیکھ دیکھ کر اس قدر خوش ہو رہا تھا اس کا چہرہ مسرت کی سرخی سے کشمیری سیب ہو چکا تھا، چنانچہ ہم خاموش رہے بلکہ مسکرا دیے۔ ابھی اس واقعے کو تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ محلے کے کچھ بچے آئے اور بولے۔ انکل اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کی کار میں آنکھ مچولی کھیل لیں۔ دل میں تو آیا، کہہ دیں کہ نا مرادو یہ کار ہے کوئی پبلک اسکول نہیں مگر پھر یہ سوچ کر انہیں اجازت دے دی کہ بچے کبوتروں کا بک جیسے فلیٹوں سے اکتائے ہوئے ہیں ذرا کشادہ جگہ پر کچھ دیر کھیلیں گے تو ان کا دل بہل جائے گا۔ ابھی کچھ دیر گزری تھی کہ ان بچوں میں سے ایک پانچ چھ سالہ بچہ ہاتھ میں ہتھوڑا اٹھائے ہوئے ہمارے پاس آیا اور بولا۔ انکل یہ لیجئے آپ کی کار کی چابی۔ کار کی سیٹ پر پڑی ہوئی تھی۔ ہتھوڑا لے کر جی چاہا کہ اس سے اپنا سر پھوڑ لیں یا اس بچے کے والدین کو تلاش کریں جن کی ناقص تربیت کی وجہ سے اس گستاخ کو ہماری کار کے خلاف زہر اگلنے کی جرات ہوئی۔ کراچی میں ہم پردیسی تھے ، سو خون کے گھونٹ پی کر چپ ہو رہے۔

اگلے روز ہم اپنے ایک رشتے دار سے ملنے کے لیے لیاقت آباد گئے اور ہم نے انہیں بڑے چاؤ سے اپنی کار دکھائی۔ وہ صاحب کار دیکھ کر بولے۔ میرے دادا ابا نے بھی اسی ماڈل کی ایک کار خریدی تھی۔ جسے تین مہینے چلانے پر اتنا خرچ آ گیا کہ کار گیراج کے اندر پہنچ گئی اور ہمارا خاندان سڑک پر آ گیا۔ کیا پتھراؤ کرنے کے لیے۔ ہم نے ان کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔ نہیں بھیک مانگنے کے لیے۔ انہوں نے بے مزہ ہوتے ہوئے جواب دیا۔ اور اپنی بات جاری رکھی۔ یہ تو خدا کا کرم ہو گیا کہ دادا جی کو جلد ہی عقل آ گئی اور انہوں نے کار کو مستقل طور پر گیراج ہی میں رہنے دیا۔ دادا جی کے انتقال کے بعد سات ہزار روپے میں خریدی ہوئی کار سات سو روپے میں فروخت ہوئی اور اس کی فروخت کے دو ہفتے بعد ہی خریدار کار کو دھکیلتا ہوا لے کر ایا اور کہنے لگا۔ کار آپ رکھ لیں، رقم بے شک واپس نہ کریں۔ باتیں کرتے کرتے ہمارے باتونی رشتے دار کی نظر اچانک کار پر پڑے ہوئے ایک گڑھے پر گئی۔

ارے شانی صاحب، وہ چیخے۔ یہ تو وہی کام ہے۔ پھر پانے کام کے نچلے حصے کو انگلیوں سے مروڑتے ہوئے بولے۔ نمبر تو مجھے یاد نہیں، لیکن دادا جی نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ ہمارے گھر کے افراد نے کار کے ایک مخصوص حصہ اتنی بار سر پھوڑا تھا کہ وہاں ایک گڑھا بن گیا تھا۔ یہ وہی گڑھا ہے۔ ہاں ہاں بالکل وہی، یہ وہی کار ہے ، چند لمحے بعد انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور تسلی دینے کے انداز میں کہنے لگے۔ تم فکر نہ کرو انشاء  اللہ میں ہر ماہ تمہاری مالی کفالت کے لیے کچھ نہ کچھ روپے بھیجتا رہوں گا، کیوں کہ اب تمہاری تنخواہ تو اس کار کے پیٹ میں جایا کرے گی، ان کی اس تقریر اور تسلیم کا ہم پہ شمہ برابر اثر نہ ہوا کیوں کہ ہم جانتے تھے کہ اکثر رشتہ داروں کو ترقی کرتا دیکھ کر خوش نہیں ہوتے۔

کراچی میں ابھی ہمارے قیام کو پانچواں دن تھا کہ لاہور سے بیگم کا فون آیا۔ وہ سخت ناراض تھیں۔ بولیں، سنا ہے آپ نے کار خرید لی۔ فورا کار سمیت پہنچئے ، میرے بھتیجے کی لڑکی کا عقیقہ ہے۔ اس میں شرکت کرنی ہے۔ اس گفتگو سے اتنا تو مجھ پر واضح ہو گیا کہ مجھ سے زیادہ کار کا وہاں پہنچنا ضروری ہے۔ ہمارے ایک قریبی دوست نے جو محکمہ ریلوے میں ملازم ہیں مجھ سے کہا کہ تم پریشان کیوں ہوتے ہو تم لاہور پہنچو میں پیچھے سے روانہ کرا ہوں۔

میرے لاہور پہنچتے ہی کار کے بارے میں بڑی تشویشناک خبریں ملنے لگیں مثلاً یہ کہ ریلوے انتظامیہ نے کار کو بحفاظت لاہور پہنچانے کی ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد کار کو ایک جاننے والے صاحب کے حوالے کیا گیا جو لاہور جا رہے تھے اور جب وہ صاحب کار پر سوئے لاہور روانہ ہوئے تو ناظم آباد چورنگی تک کامیابی سے چلنے کے بعد کار ہاتھی کا پاؤں ہو گئی اور کراچی کی اس مصروف ترین شاہراہ پر ایک گھنٹے تک ٹریفک معطل رہا۔ ایک گھنٹے بعد کار کو کرین کی مدد سے ایک مکینک کی دکان پر پہنچایا گیا۔ جس کے بعد ان صاحب نے کار سے با عزت علیحدگی اختیار کی اور اب وہ مرکری  فورڈ ان ہی دوست کے پاس ہے جن کے پاس ہم چھوڑ کے آئے تھے۔

ایک رات ڈیڑھ بجے کراچی سے ہمارے دوست کی بیوی نے فون پر سسکیوں بھری آواز میں ہمیں اطلاع دی۔ بھائی صاحب آپ کے دوست صبح سویرے کار لے کر گئے تھے اور شام گئے تک واپس نہیں لوٹے۔ ڈھونڈنے پر گاڑی تو مل گئی، مگر ان کا کہیں پتا نہیں ہے ، خدا کے لیے آپ اس کار کا کچھ کیجئے ، ورنہ ہمارا ہنستا مسکراتا خاندان تباہ و برباد ہو جائے گا، اگلے روز ہم نے کراچی فون کیا تو معلوم ہوا کہ کار پانچ چھ گھنٹے چلنے کے بعد راستے میں کہیں خراب ہو گئی تھی لیکن چوں کہ وہ شہر بھر میں مشہور ہو گئی تھی اس لیے شہر کا کوئی مستر اسے ٹھیک کرنے پر تیار نہیں ہو رہا تھا۔ ہمارا دوست ساری رات ورکشاپوں کے چکر لگاتا رہا ہم نے جب پوچھا کہ وہ جو ہمارے دوست کے گھر کے سامنے ایک مستر صاحب تھے ان سے مدد کیوں نہیں مانگی تو جواب ملا، اللہ دتہ ایک ہفتہ ہوا اپنی بیوی بچوں سمیت محلہ چھوڑ کر کسی نامعلوم جگہ پر جا کر رہنے لگا ہے محلہ چھوڑ کر جانے کی وجہ اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ آخر بار اسی نے کار کی مرمت کی تھی۔

چھ ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد وہ دن آ پہنچا جب کار کراچی سے لاہور کے لیے روانہ ہوئی اور بیس دن بعد لاہور پہنچی، کس طرح پہنچی اس کا قصہ طولانی ہے۔ مختصراً اتنا سن لیجئے کہ ڈرائیور نے کار پر بیٹھنے سے پہلے ہمارے ٹرانسپورٹرز دوست سے کہا۔

میں نے بہت دنوں تک آپ کی خدمت کی ہے اگر مجھے کچھ ہو جائے تو میرے بیوی بچوں کا خیال رکھئے گا۔ ہمارے دوست نے اسے تسلی کے ساتھ ساتھ ایک خط بھی تھما دیا جس میں اس نے راستے میں پڑنے والی اپنی کمپنی کی تمام برانچوں کو ہدایت کی کہ کار کو جہاں کہیں بھی جس قسم کی مدد کی ضرورت ہو فراہم کی جائے۔

بالآخر کار کراچی سے لاہور کے لیے روانہ ہوئی اور ہمیں ہر روز فون پر اس طرح کی اطلاعات ملنا شروع ہو گئی کہ کار نے آج رکے بغیر دس میلے تک کا سفر کیا۔ آج کار فلاں شہر سے کامیابی کے ساتھ گزر گئی۔ آج کار فلاں جگہ پہنچ کر لیٹ سکتی تھی لیکن نامعلوم وجواہت کی بناء پر اس نے صرف بیٹھنے پر اکتفا کیا۔

کار لے کر آنے والا ڈرائیور سر سے پاؤں تک دھول میں اٹا ہوا تھا۔ اس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور اس کا شہر عمر قید کی سزا کاٹ کر جیل سے نکلنے والے قیدی جیسا ہو رہا تھا، اس وقت ہم دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے ہماری آنکھوں میں ڈرائیور کی حالت دیکھ کر غم کے ، اور ڈرائیور کی آنکھوں میں کار سے نجات پانے پر خوشی کے آنسو تھے۔

کار کو آئے ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ ہمارا خاندانی گوالا ہمارے پاس آیا اور بولا، بابو جی سنا ہے کہ آپ اپنی کار کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ اگر آپ پانچ سو روپے کے علاوہ 20 کلو چارے کا خرچ برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں تو آپ کی کار کے چلنے کی ضمانت دیتا ہوں، مگر وہ کس طرح ہم نے حیرت سے پوچھا۔ اس نے کہا

آپ میرا بھینسا خرید کر کار میں جوت لیں۔ مجھے پیسہ مل جائے گا اور آپ کی کار چل جائے گی۔

لاہور میں ہماری کار کا شمار بہت جلد تاریخی عجائبات میں ہونے لگا۔ شہر کے قابل دید مقامات شالامار باغ نیز بادشاہی مسجد کے بعد ہماری کار کا نام لیا جانے لگا، رفتہ رفتہ کار کی شہرت اتنی پھیلی کہ کار کو میوزیم میں رکھنے کا مشورہ دیا جانے لگا۔ اس مشورے پر ہم نے اب تک عمل نہیں کیا۔ کار اب بھی ہمارے پاس ہے اور اب ہماری شہرت اس کار کے حوالے سے ہے اور یہ کس حالت میں ہے اس کا اندازہ آپ اس واقعے سے لگا سکتے ہیں جس کو سنانے کے بعد میں آپ سے اجازت چاہوں گا۔ کیوں کہ مکینک کے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔

ایک محلے دار نے جنہیں ہر طرح کے اوسط سے بڑی دلچسپی ہے ہم سے ایک دن پوچھا، گاڑی کے تیل کی اوسط کیا ہے۔ اس سے قبل کہ ہم جواب دیتے۔ برابر میں کھڑے ہوئے ہمارے چار سالہ بچے کے جواب دیا ایک لیٹر میں 17 کلو میٹر۔ محلے دار نے تعجب کرتے ہوئے کہا۔ کمال ہے صاحب اتنی پرانی کار اور تیل کا اوسط اتنا کم۔ یہ سن کر ہمارا بچہ فوراً بولا، انکم کمال کی کوئی بات نہیں ہے کار 4 کلو میٹر پیٹرول اور 13 کلو میٹر دھکے سے چلتی ہے۔

٭٭٭

 

ٹنکو میاں نے نانی اے ہے کی مدد کی

               احمد حاطب صدیقی

ٹنکو میاں بھی۔۔۔۔ بس کیا بتائیں۔۔۔۔ ایک عجیب ہی تماشا تھے۔

ان کا نام تو ان کے دادا جان نے مرزا اظہر خان خاناں رکھا تھا مگر جتنا لمبا چوڑا اور بھاری بھرکم ان کا نما تھا خود اتنے ہی چنے منے سے تھے ، اسی لیے محلہ بھر میں ٹنکو میاں کے نام سے مشہور تھے۔

گول گول آنکھیں ہر وقت شرارت سے ناچتی رہتی تھیں، چہرے پر ہر وقت معصومیت اور ایک مسکراہٹ سی طاری رہتی، ان کو جاننے والے تو ان کی رگ رگ سے واقف تھے ، لیکن جو لوگ انہیں اچھی طرح جانتے نہیں تھے وہ یہی سمجھتے تھے کہ ٹنکو میاں بھی ویسے ہی سیدھے سادے اور بھولے بھالے ہیں جیسے دوسرے بچے ہوتے ہیں۔

اللہ جانے کس حیم نے ان کو یہ مشورہ دے دیا تھا:

اسکاؤٹ بن جاؤ، صحت کے لیے بہت مفید ہے۔

اس ننھی سی جان کو اسکول والے اسکاؤٹ تو بنا نہیں سکتے تھے۔ آفت مچانے اور ضدم ضدا کرنے پر ان کو کب بنا لیا گیا۔ کیوں کہ ان کی عمر گل 11 سال تھی اور 11 سال سے کم عمر کے بچے اسکاؤٹ نہیں بن سکے۔ وہ کب کہلاتے ہیں۔

کب بن جانے کے بعد ان کی صحت کو تو کیا فائدہ پہنچتا، اس قدر گولو مٹولو تھے کہ صحت کو مزید فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جاتی تو کسی غبارے کی طرح دھماکے سے پھٹ جاتے ، البتہ خود ضعیفوں اور کمزوروں ہی کے لیے نہیں اچھے خاصے صحت مند افراد کے لیے ایک مستقل خطرہ بن گئے تھے۔

کب ہونے کے باوجود اپنے آپ کو اسکاؤٹ ہی کہتے تھے۔

آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ اسکاؤٹ بچے نیکی کے کام کرتے ہیں اور روزانہ کم از کم ایک نیک کام ضرور کرتے ہیں۔ انتہائی تیز طراز ہونے اور شرارتوں میں اعلیٰ درجہ کی مہارت رکھنے کی وجہ سے اپنے دوسرے کب ساتھیوں کے خودبخود سردار بن گئے تھے۔ وہ بے چارے بھی ان کی سرداری کو تسلیم کرنے پر مجبور تھے اور تسلیم نہ کرتے تو کیا کرتے ، ان کو اپنے ہاتھ پیر تھوڑا ہی تڑوانے تھے۔

ایک روز اپنے ساتھیوں کو لے کر اسکاؤٹ ماسٹر صاحب کے پاس گئے اور ان سے پوچھا۔

سر! اسکاؤنٹ لوگ نیکی کے کام کیسے کرتے ہیں۔

ماسٹر صاحب انہیں دیکھ کر مسکرائے۔ پھر سمجھاتے ہوئے کہتے لگے۔

دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔۔۔۔ مثلاً اگر محلہ میں کسی کے گھر میں بڑے بچے نہیں ہیں تو اس کا سودا سلف لا دیا۔ کوئی بیمار ہے تو ڈاکٹر صاحب کو بلالائے اور ان کی دوائیں لا دیں۔۔۔۔ سڑک کے کنارے اگر کوئی بوڑھا شخص کھڑا ہے تو ہاتھ پکڑ کر اسے سڑک پار کرا دی۔ مطلب یہ کہ جو کام تم آسانی سے دوسروں کی مدد کے لیے کر سکو، وہ کر لو۔

یہ باتیں سن کر وہ سعادت مندی سے سر ہلاتے ہوئے جیسے سب کچھ سمجھ گئے ہوں، چلے آئے ، اگلے روز اسکاؤٹ ماسٹر کو ان کی ٹولی پھر نظر آئی۔ انہوں نے آواز دے کر بلایا۔ تاکہ ان سے پوچھیں کہ انہوں نے نیکی کا کوئی کام کیا بھی یا نہیں۔

نیکی کا کام تو انہوں نے کیا، لیکن جو نیکی فرمائی، اس سے آپ بھی واقف ہوں گے ، کیوں کہ اب تو یہ قصہ پورے پاکستان میں ایک لطیفے کی طرح مشہور ہو چکا ہے۔

جب یہ لوگ دوڑتے ہوئے ماسٹر صاحب کے پاس پہنچ گئے ، تو انہوں نے مسکرا کر ان سے پوچھا۔

آپ میں سے کسی نے نیکی کا کوئی کام کیا۔

جی ہاں، سر، ان سب نے ایک ساتھ جواب دیا۔

شاباش، ماسٹر صاحب خوش ہو گئے اور پوچھا، آپ لوگ باری باری بتائیں کہ کیا نیک کام کیا۔

سر، ہم چاروں نے ایک بڑھیا کو سڑک پار کرائی۔ انہوں نے ایک ساتھ پوچھا۔

چاروں، ماسٹر صاحب حیرت سے بولے۔ چاروں نے کس طرح سڑک پار کرائی۔

سر ہم نے بوڑھی اماں کو اٹھا کر سڑک پار کرائی تھی، چاروں نے ایک ساتھ جواب دیا۔

اوہ، اچھا، اچھا، تو کیا وہ بڑی بی چلنے پھرنے سے معذور تھیں۔ پھر تو تم لوگوں نے بہت اچھا کیا۔

ماسٹر صاحب شاباش دینے لگے تو ٹنکو میاں نے ہچکچاتے کچھ کچھ ہکلاتے ہوئے کہا کہ۔

سر!۔ اصل میں وہ بڑی بی سڑک پار کرنا ہی نہیں چاہتی تھیں، لیکن ہمیں تو نیکی کرنی تھی، ہم نے ان کی پرواہ کیے بغیر ان کو پکڑ کر اٹھایا اور سڑک پار کرا دی۔

ہائیں، ماسٹر صاحب اچانک غصہ میں لال پیلے ہو گئے۔

ماسٹر صاحب نے پہلے تو انہیں مرغا بنا لیا، پھر ایک ایک بید رسید کر کے انہیں اس نیکی کا انعام عطا فرمایا، جب ان کا غصہ ذرا ٹھنڈا ہوا تو انہوں نے بچوں کو پھر سمجھایا کہ۔

کوئی چاہے یا نہ چاہے ، اسے پکڑ کر زبردستی پار کروا دینا، نیکی نہیں ہے ، سڑک پار کروانا اس وقت نیکی کہلائے گا، جب کوئی ضعیف یا معذور شخص خود سڑک پار کرنا چاہتا ہو۔ آئندہ اس طرح زبردستی کی نیکی مت کرنا۔

پہلی ہی نیکی ٹنکو میاں اینڈ کمپنی کے اس طرح گلے پڑ گئی تو وہ محتاط ہو گئے ، نتیجہ یہ نکلا کہ اگر کسی بس اسٹاپ پر کوئی بڑی بی یا بڑے میاں خود بھی ان سے کہتے کہ:

اے بیٹا، ذرا مجھے سڑک پار کرا دو۔

تو یہ چار کے چاروں پہلے باقاعدہ ان کا انٹرویو لیتے۔

کیا آپ سچ مچ سڑک پار کرنا چاہتے ہیں۔

ہاں بیٹے ، مجھے سڑک کے اس پار ڈاکٹر کے یہاں جانا ہے۔

جناب سچ سچ بتائیے ، آپ اپنی مرضی سے سڑک پار کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

اے تو کیا میں جھوٹ بولوں گا، لڑکے تمہارا دماغ تو صحیح ہے۔

تو ہم آپ کو سڑک پار کرا دیں، سچی!، مذاق تو نہیں کر رہے۔

اور اتنے میں بڑے میاں آپے سے باہر ہو کر اپنی لاٹھی کھینچ کر ان کو مارنے کو دوڑتے کہ۔

دیکھو، یہ ذرا ذرا سے چھوکرے میرا مذاق اڑا رہے ہیں، ان کے ماسٹروں نے یہی سکھایا ہے ، اماں ابا نے یہی تربیت کی ہے ، ٹھہرو تو سہی ابھی نکالتا ہوں تمہارا مذاق۔

اور یہ ون ٹو تھری کے بغیر وہاں سے ریس شروع کر دینے پر مجبور ہو جاتے۔ اگر اتفاق سے کوئی ہنس مکھ بزرگوار ان کے انٹرویو کو ان کا بھولپن اور معصومیت سمجھ کر ان باتوں پر مسکراتے ہوئے سڑک پار کرنے پر تیار بھی ہو جاتے تو یہ بیچ سڑک میں پہنچ کر وہیں رک جاتے اور ان سے ایک بار پھر کہتے کہ۔

اب بھی سوچ لیجئے ، آپ سچ مچ سڑک پار کرنا چاہتے ہیں یا ہم آپ کو واپس وہیں لے چلیں۔

اس پر تو ان بڑے میاں کو ایسا تاؤ آتا کہ وہ جھنجھلا کر ان مسخروں کو وہیں دھکا دیتے ہوئے تیز رفتار گاڑیوں اور اپنے انجام کی پرواہ کیے بغیر اکیلے سڑک کے دوسرے کنارے کی طرف دوڑ لگا دیتے۔

ان کو بھی آتی ہوئی گاڑیوں سے بچنے کے لیے مختلف سمتوں میں بھاگنا پڑتا۔

اب ٹنکو میاں نے سوچا کہ سڑک پار کروانا تو بڑی خطرناک قسم کی نیکی ہے۔

حالاں کہ ایسی بات نہیں، خطرناک حرکتیں تو وہ خود ہی کرتے تھے ، اگر سلیقہ سے کام لینے تو یوں اپنی نیکیاں برباد کرنے کے بجائے لوگوں کی دعائیں لیتے۔

ہاں تو اب انہوں نے سوچا کہ محلے والوں کے ساتھ نیکیاں کرنی چاہئیں۔

چھٹی کا دن تھا۔ صبح سویرے انہوں نے یونیفارم پہنا اور نکل کھڑے ہوئے ، سب سے پہلے خالہ خوش مزاج کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا، خالہ خوش مزاج کے یہاں کوئی بچہ نہیں تھا، لیکن محلے بھر کے بچوں سے وہ بڑی خوش مزاجی سے پیش آتی تھیں۔ اسی وجہ سے ان کا یہ نام پڑ گیا۔

خالہ نے دروازہ کھولا اور ٹنکو میاں کو دیکھتے ہی ٹھٹھک کر رہ گئیں۔

یا الہٰی، کہو ٹنکو میاں کیسے آئے ، امی نے بھیجا ہے۔

جی نہیں، خالہ جان میں آپ کی مدد کرنے کے لیے آیا ہوں۔

خالہ نے غور سے ان کو اور ان کے یونیفارم کو دیکھا، ٹنکو میاں کو بھلا خالہ نہ جانتیں، وہ تو ان سے اچھی طرح واقف تھیں۔ بہت سنجیدہ سا منہ بنا کر کہنے لگیں کہ:

بہت بہت شکریہ، ٹنکو میاں، میں اس وقت بہت مصروف ہوں اور میرے پاس تم سے اپنی مدد کروانے کی فرصت نہیں۔ خدا حافظ۔

یہ کہہ کر خالہ نے دروازہ بند کر لیا۔

ٹنکو میاں نے برا سا منہ بنایا اور ہنھ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔

پروفیسر اوقیانوس کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ پروفیسر صاحب جغرافیہ کے ماہر تھے ، ان کا اصل نام تو شائد ہی کسی کو یاد ہو، سب ان کو پروفیسر اوقیانوس کہتے تھے ، ان کے گھر میں بچہ تو کیا کوئی بھی نہیں رہتا تھا وہ اکیلے ہی تھے۔

کھلا ہوا دروازہ دیکھ کر ٹنکو میاں گھر میں داخل ہو گئے ، حالاں کہ یہ کوئی نیکی نہیں، بلکہ بہت بری بات ہے ، کسی کے گھر میں بغیر پوچھے داخل نہیں ہونا چاہیے۔

پروفیسر صاحب اپنے پڑھنے لکھنے کے کمرے میں ایک اسٹول پر چڑھے ہوئے تھے اور اپنی کتابوں کی الماری کے سب سے اوپر والے خانے سے پرانی پرانی کتابیں نکال کر ان کی گرد جھاڑ رہے تھے۔

ٹنکو میاں کے آنے کی انہیں خبر بھی نہ ہوئی اور وہ اسی طرح اپنے کام میں مصروف رہے۔ ٹنکو میاں پہلے تو چپ چاپ کھڑے ان کو دیکھتے رہے پھر اچانک اپنی سیٹی جیسی آواز میں بولے۔

پروفیسر صاحب، کیا میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔

پروفیسر صاحب بے چارے اچانک ایک غیر متوقع آواز سن کر ڈگمگا سے گئے۔ گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ میں جو پیچھے مڑ کر دیکھا تو ٹنکو میاں کی شکل پر نظر پڑی بدحواسی میں اپنا توازن قائم نہ رکھ سکے اور اپنے اسٹول سمیت اڑا اڑا دھڑم ٹنکو میاں کے قریب ہی ڈھے گئے۔

ٹنکو میاں نے جو یہ منظر دیکھا تو پروفیسر صاحب کے جواب کا انتظار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور الٹے قدموں وہاں سے دوڑ لگا دی۔

اگلے ہی کونے پر نانی اے ہے کا گھر تھا۔ نانی اپنا ہر جملہ اے ہے سے شروع کرتی تھیں، اسی وجہ سے ہر کوئی ان کو نانی اے ہے کہتا تھا۔ ان کے گھر میں بھی ان کے علاوہ کوئی نہیں رہتا تھا۔ ٹنکو میاں نے نانی کے گھر کا دروازہ بند پا کر اس پر دستک دی۔ دروازہ کھلا اور نانی سر پر دوپٹہ اچھی طرح لپیٹے ، ہاتھ میں جھاڑو لیے نظر آئیں۔ ٹنکو میاں پہلے تو انہیں دیکھ کر ڈر گئے کہ کہیں نانی اپنی مدد سے پہلے ہی ان جھاڑو سے مرمت نہ شروع کر دیں۔ لیکن جب نانی اس کو دیکھ کر مسکرائیں تو ان کی ہمت بڑھی اور انہوں نے کہا۔

نانی اماں، آپ کو کوئی کام تو نہیں، میں آپ کی مدد کرنے کے لیے آیا ہوں !۔ نانی اماں یہ سن کر خوش ہو گئیں۔ ٹنکو میاں کی بلائیں لیتے ہوئے بولیں۔

اے ہے ، کتنا اچھا بچہ ہے ، ٹنکو، جا میرے لال ذرا دوڑ کر دکان سے ایک درجن انڈے اور مکھن کی ایک ٹکیا لے آ۔ یہ لے پیسے۔

ٹنکو میاں مارے خوشی کے باچھیں کھل گئیں، چلو کوئی تو نیکی کا کام ملا، وہ دوڑتے ہوئے بیکری تک گئے اور دوڑتے ہوئے واپس آئے۔ ان کے ایک ہاتھ میں انڈوں کا تھیلا اور دوسرے ہاتھ میں مکھن کی ٹکیہ تھی۔ اسی طرح دوڑتے ہوئے وہ نانی اے ہے کے گھر میں بھی گس گئے۔ مگر انہوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ نانی اپنے گھر کا فرش دھونے میں مصروف تھیں، ان کو جوتا گیلے اور چکنے فرش پر پھسلا اور انہوں نے سکس کے مسخروں کی طرح ایک شاندار قلابازی کھائی، سر نیچے ، پاؤں اوپر، انڈے ان کے ہاتھوں سے چھوٹ کر پہلے تو اڑتے ہوئے چھت تک گئے پھر واپس نیچے آئے تو عین نانی اے ہے کے سر پر گرکپر پھوٹ بہے۔

نانی اے ہے نے سر پر ہاتھ پھیرا تو ان کا ہاتھ انڈوں کی زردی اور سفیدی میں لتھڑ گیا۔ وہ بے چاری بس۔

اے ہے۔۔۔۔۔ اے کر کے رہ گئیں۔ ٹنکو میاں نے زمین پر سے مکھن کی ٹکیا اٹھا کر کرسی پر رھی اور اپنی کمر سہلاتے ہوئے بولے کہ۔

خدا کا شکر ہے کہ مکھن نہیں ٹوٹا

مگر نانی اے ہے ، یہ بات سن کر ذرا بھی خوش نہیں ہوئیں، خفا ہو کر بولیں۔

اے ہے ، لڑکے کیسی بے وقوفی کی بات کر رہا ہے ، کہیں مکھن بھی ٹوٹتا ہے ، لیکن اگر مکھن بھی ٹوٹ سکتا تو تو اس کو بھی توڑ چکا ہوتا۔

اب ٹنکو میاں نے وہاں سے رفو چکر ہو جانے ہی میں عافیت سمجھی کہنے لگے۔

میں اب جا رہا ہوں۔

نانی اے ہے بولیں۔

اے ہے ، اب میں تیری مدد کرتی ہوں۔

یہ کہہ کر انہوں نے جھاڑو اٹھایا اور سٹ سٹ ٹنکو میاں کے پیچھے رسید کر دیا۔ ٹنکو میاں نے دروازے سے چھلانگ لگا دی۔ باہر گلی میں پروفیسر اوقیانوس لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے چلے جا رہے تھے ، ٹنکو میاں ان کے قدموں میں آگرے۔ پروفیسرایک بار پھر اس بلا کو اپنے قدموں میں دیکھ کر گھبرا گئے اور ٹنکو میاں کے اوپر سے کود گئے پھر غرا کر بولے۔

کیوں میاں لوگوں کے گھروں سے اس طرح نکلتے ہیں۔

اب ٹنکو میاں ان کو کیا بتاتے کہ وہ نکلے نہیں تھے ، نکالے گئے تھے ، وہ تو پروفسیر صاحب کے ہاتھ آنے سے بچنے کے لیے اٹھ کر سر پٹ اپنے گھر کی طرف دوڑ گئے۔

لیکن آپ کو یہ سن کر خوشی ہو گی کہ ٹنکو میاں کی نیکی کا جذبہ پھر بھی سرد نہیں ہوا، انہوں نے اور بھی کارنامے سر انجام دیے کیا کریں بے چارے تمیز اور سلیقہ سے کام ہی نہیں لے سکتے۔

٭٭٭

 

ہمارے پڑوسی

               رؤف پاریکھ

سنتے ہیں کہ اچھے پڑوسی اللہ کی نعمت ہیں، لیکن یہ بات شاید ہمارے پڑوسیوں نے نہیں سنی۔ ہم نہیں کہتے کہ ہمارے پڑوسی اچھے نہیں ہیں۔ صرف آپ کے سامنے ایک نقشا سا کھینچتے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہمارے پڑوسی کیسے ہیں۔

سب سے پہلے مرزا صاحب کو لیجئے۔ یہ حضرت ریڈیو بجانے کے بہت شوقین ہیں، بلکہ یوں لگتا ہے کہ مارکونی صاحب کو ریڈیو ایجاد کرنے کا خیال مرزا صاحب کے ذوق و شوق کو دیکھ کر ہی آیا تھا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو چوبیس گھنٹوں میں سے کوئی بائیس گھنٹے ان کا ریڈیو بجتا ہے بلکہ چیختا ہے اور پورے زور و شور سے چیختا ہے۔ ان کو غالباً ریڈیو کی آواز کم کرنے کا طریقہ نہیں معلوم، اسی لیے تمام محلے والوں نے اپنے اپنے ریڈیو بیچ کر روئی کے بنڈل خرید لیے ہیں اور روئی نکال نکال کر کانوں میں ٹھونستے رہتے ہیں۔ ان کے ریڈیو پر دنیا بھر کے دور دراز کے ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہونے والے پروگرام پورا محلہ (روئی ٹھونسنے کے باوجود) آسانی سے سن لیتا ہے۔ البتہ قریب کھڑے ہوئے آدمی کی آواز نہیں سنائی دیتی۔

قریشی صاحب بھی کچھ اسی قسم کا شوق رکھتے ہیں۔ انہیں موسیقی سے بہت لگاؤ ہے۔ لیکن فرصت انہیں آدھی رات کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے ، اسی لیے یہ ٹھیک اسی وقت ستار، ہارمونیم اور طبلہ بجانا شروع کرتے ہیں جب مرزا صاحب کا ریڈیو بند ہوتا ہے۔ اس طرح ہمارے محلے میں چوبیس گھنٹے بجلی، پانی اور گیس کی سہولت کے ساتھ موسیقی بھی چوبیس گھنٹے دستیاب ہے۔

محلے میں آدمی رات کو رونق میں مزید اضافہ اس وقت ہو جاتا ہے۔ جب جمالی صاحب کے دوستوں ج کی محفل جمتی ہے۔ اس محفل میں خوب خوب قہقہے لگائے جاتے ہیں اور وہ ادھم مچا ہے کہ توبہ ہی بھلی، کبھی کبھی ان کے دوستوں میں سے کوئی صاحب تانیں بھی اڑاتے ہیں۔ اس سارے ہنگامہ ہاؤ سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ محلے میں رات بھر کوئی چور پاس پھٹک تک نہیں سکتا۔

اس سارے شور شرابے پر جلالی صاحب البتہ بہت خفا ہوتے ہیں۔ جلالی صاحب کئی سال یورپ میں رہ چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ یورپ کے کسی شہر میں یہ سارا شور و غل ہو تو فوراً پولیس آ جائے اور ان بدتمیزوں کو پکڑ کر لے جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپ میں لوگ رات دس بجے کے بعد سیڑھیاں بھی دبے قدموں چڑھتے اترتے ہیں تاکہ گھروں میں سوئے ہوئے لوگوں کی نیند خراب نہ ہو لیکن اس کا کیا علاج کہ ابھی جلال صاحب کی موٹر سائیکل میں سائلنسر یعنی شور کم کرنے والا آلہ نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حضرت جب موٹر سائیکل پر سوار ہو کر آتے جاتے ہیں تو پھٹ پھٹ کا ایک ایسا کان پھاڑ دینے و الا شور سنائی دیتا ہے کہ قبر میں پڑے مردے بھی سن لیں تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں یا کم از کم کروٹ تو ضرور لیں۔ ہمارا جی چاہتا ہے کہ ان سے پوچھیں کہ اگر ایسی موٹر سائیکل یورپ کے کسی شہر میں چلائی جائے تو کیا ہو۔ کیا وہاں پولیس ایسے بدتمیزوں کو انعام دیتی ہے۔

نازک صاحب بھی مزے کے آدمی ہیں۔ انہیں جانور پالنے کا شوق ہے۔ ان کے گھر کے باہر ایک بکرا دو بھینسیں اور ایک ہرن بندھا رہتا ہے۔ گھر کے صحن میں مور اور بطخیں ہیں اور گھر میں کسی جگہ طوطے ، چڑیاں، بلبلیں اور نہ جانے کون کون سے پرندے پال رکھے ہیں۔ غرض گھر کیا ہے اچھا خاصا چڑیا گھر ہے۔ نازک صاحب ان تمام حیوانات کی غلاظت اور اپنے گھر کا کوڑا بڑی پابندی سے روزانہ گھر سے باہر سڑک پر پھینکتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ شہر میں گندگی بڑھتی جا رہی ہے ، لوگ صفائی کا خیال نہیں کرتے ، وغیرہ وغیرہ۔

ہمارے ایک اور پڑوسی طفیلی صاحب کی عادت ہے کہ وہ اکثر چیزیں ادھار مانگتے ہیں۔ مثلاً استری، اخبار، جھاڑو، برتن، کتابیں، تھوڑی سی چائے کی پتی، ذرا سا آٹا، صرف ایک انڈا، معمولی سا نمک، چٹک بھر کالی مرچیں وغیرہ اور بے چارے اکثر واپس کرنا بھول جاتے ہیں۔ ایک دفعہ وہ ہماری بجلی کی استری کئی دن تک استعمال کرتے رہے اور ہم بڑی مشکل سے مانگ کر واپس لائے تو اگلے دن آ موجود ہوئے کہا "ہماری” استری واپس کیجئے۔ خاصی مغز مارے کے بعد انہیں یاد آیا کہ وہ استری ان کی نہیں اصل میں ہماری تھی اور کافی عرصے سے ان کے گھر میں رہنے کی وجہ سے انہیں اپنی لگنے لگی تھی۔

ہمارے پڑوسیوں کی فہرست خاصی لمبی ہے اور ان سب کی دلچسپ عادتیں بیان کی جائیں تو دفتر کے دفتر بھر جائیں لیکن ہم یہ سوچ کر اس مضمون کو ختم کیے دیتے ہیں کہ آخر ہم بھی تو کسی کے پڑوسی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ان کو بھی ہم سے کچھ شکایتیں ہوں۔ اگرچہ ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی پڑوسی کو ہماری وجہ سے کوئی تکلیف نہ ہو، کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس شخص کی شرارتوں سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں وہ مومن نہیں۔

نونہال دوستو! امید ہے کہ آپ وہ سب نہیں کرتے ہوں گے جو ہمارے پڑوسی کرتے ہیں۔

دلشاد خان پوری پر کیا گزری

               قاسم بن نظر

اس رات غالباً دو بجے کا عمل ہو چلا تھا اور میں نیم نیند کے عالم میں کروٹیں بدل رہا تھا۔ اگر عوام کی فلاح و بہبود کا خیال نہ ہوتا تو میں یہ کبھی نہ بتاتا کہ کروٹیں بدلتے رہنے کی ایک سنگین وجہ بجلی کی عدم موجودگی تھی، جبکہ باہر موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ اچانک دروازے پر زوردار دستک ہوئی اور میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ مجھے سو فیصد شک تھا کہ کسی نے میرے ہی دروازے پر دستک دی ہے۔

اس موسلا دھار بارش میں کون آ ٹپکا؟ بہرحال جبکہ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ اور پیر کو پیر سجھائی نہ دیتا تھا، کسی طرح اپنے اندازوں اور مفروضوں کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے دروازے تک گیا۔ دروازے میں بنائے گئے ایک ایمرجنسی سوراخ سے باہر دیکھنے کی کوشش کی اور آنے والے کا چہرہ دیکھ کر دم بخود رہ گیا، بلکہ یوں کہیے کہ دم نکلتے نکلتے رہ گیا۔ یہ عزت مآب محترم و مکرم، معزز مہمانِ گرامی جناب دلشاد خانپوری صاحب تھے۔ یہ خود اپنے آپ کو ملک کے چوٹی کے ادیبوں میں شمار کرواتے ہیں۔ کئی کتابیں لکھ چکے ہیں، مگر شائع کوئی بھی نہ ہوئی۔

میں نے فوراً دروازہ کھول دیا۔ وہ برساتی کوٹ میں ملبوس تھے۔ ایک ہاتھ میں چھتری تھی اور دوسرے ہاتھ میں ایک تھیلے نما بریف کیس تھا۔ اندر داخل ہوتے ہوئے انہوں نے کہا "ارے میاں ! دروازہ کھولنے میں اتنی دیر کر دی۔ اگر طوفانی بارش میں مجھے کوئی حادثہ پیش آ جاتا تو قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان اُٹھانا پڑتا”۔

"کاش ایسا ہی ہوتا "۔ میں بڑبڑایا، مگر انہوں نے یہ بڑبڑاہٹ سن لی تھی "کیا کہہ رہے ہو میاں ؟” انہوں نے استفسار کیا۔ میں نے بات بناتے ہوئے کہا "اگر آپ کو اپنی جان کا اتنا ہی خیال تھا تو اتنی بارش میں نکلنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟”

وہ بولے "جیسا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ میں ایک نئی کتاب لکھے ڈال رہا ہوں۔ مگر موضوع کچھ ایسا ہے کہ میرے اکیلے کے بس کا روگ نہیں "۔

میں نے تھوڑا برہم ہو کر کہا "مگر ایسی کیا آفت آ گئی کہ رات کے دو بجے بارش میں چلے آئے "۔

دلشاد خانپوری نے کہا "بھئی پبلشر نے فوراً کتاب مانگی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس کا ارادہ ہی نہ بدل جائے۔ اس لئے میری تو دنوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں "۔

"اور آپ نے سوچا کہ اسی لئے دوسروں کی نیندیں بھی حرام کرتا چلوں "۔

"اور کیا؟” دلشاد خانپوری کا دل شاد ہو گیا”۔ اسی لئے میں نے اپنے ایک اور بے جگری دوست منور کو بھی فون کر کے بلا لیا ہے "۔

"کہاں ؟”

"اپنے گھر پر….”

"مگر آپ تو یہاں ہیں "۔

"لو بھلا بتاؤ۔ یہ تو حالات ہیں میرے دماغ کے۔ مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میں تو خود تمہارے گھر پر جانے والا ہوں "۔

"اچھا جیسا کہ آپ نے ایک بیان داغا کہ نئی کتاب کا موضوع آپ کے اکیلے کے بس کا روگ نہیں تو میں اس سلسلے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں "۔

"بھئی پہلے تو ایک کپ گرما گرم چائے پلادو”۔

"اتنے گھپ اندھیرے میں نہ تو مجھے پتی کا پتہ ہو گا نہ شکر کی خبر ہو گی۔ میرے پوچھنے کا مطلب تھا کہ کتاب کے بارے میں کچھ انکشافات کیجئے ، تاکہ رائے عامہ ہموار ہو جائے "۔

"بھئی پبلشر نے جس موضوع پر کتاب مانگی ہے وہ ہے "خطوط لکھنے کے مروجہ طریقے "۔ اس موضوع پر مجھے خط لکھنے کے آداب، جدید خطوط پر استوار کرنے ہیں "۔

تب میں سمجھا کہ اتنے "خشک” موضوع پر کتاب لکھے کے لئے طوفانی بارش میں ان کا بھیگتے ہوئے آنا بالکل بجا تھا۔ دلشاد خانپوری دوبارہ گویا ہوئے۔ "میں اپنی کتاب کے چند اقتباسات تمہیں سناتا ہوں، تاکہ میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے "۔

"میں نے گھبرا کر کہا "مگر منور کو تو آ جانے دیجئے ورنہ میں یہ بوجھ اکیلا اپنے دل پر سہہ نہ سکوں گا”۔

"مگر میں اب منور کے آنے کا انتظار نہیں کر سکتا”۔

"مگر لائٹ کے آنے کا انتظار تو آپ کو کرنا ہی پڑے گا”۔

میں نے اندھیرے میں تیر چلا کر دلشاد خانپوری کو ایک سنگین جرم کا ارتکاب کرنے سے روکنے کی آخری کوشش کی، مگر یہ بھی بے سود ثابت ہوئی، کیونکہ وہ کہہ رہے تھے "ناممکن…. مجھے اپنے الفاظ زبانی یاد ہیں "۔

اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ دلشاد خانپوری نے اپنا خیالِ ناقص پیش کیا "یہ یقیناً منور کا فون ہو گا اور مجھے بے چینی سے یاد کر رہا ہو گا”۔

میں نے فون اُٹھایا تو دلشاد خانپوری کی چھٹی حس کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا، کیونکہ دوسری طرف منور ہی تھا، مگر دلشاد خانپوری کا آدھا خیال غلط تھا، کیونکہ منور دلشاد خانپوری کو کوسنے دے رہا تھا۔

"کیا میں اس رات میں کچھ برا ہی سنوں گا؟” میں بے چارگی سے سوچنے لگا۔ بہرحال منور کو میں نے دلشاد خانپوری کے موجودہ جائے وقوع کے بارے میں بتایا اور فون رکھ کر اس کی متوقع تشریف آوری کا انتظار کرنے لگا۔ منور کے آنے تک میرے اور دلشاد خانپوری کے درمیان جو نوک جھونک ہوئی وہ کچھ یوں تھی۔

میں : "قبلہ! آج کل کے دور میں جبکہ ای میل اور ایس ایم ایس کا زمانہ ہے۔ آپ کو خط لکھنے کے طریقوں پر کتاب چھاپنے کے بارے میں کیا سوجھی؟”

وہ: "بھئی جب کھانا پکانے کی ترکیبوں پر کتابیں چھپ سکتی ہیں تو خط لکھنے کے طریقوں پر کتابیں کیوں نہیں چھپ سکتیں اور جہاں تک میری معلومات ہیں، اس ضخیم و ثقیل موضوع پر مجھ سے پہلے کسی نے ایسی کتاب لکھنے کی غلطی نہ کی ہو گی، لہٰذا میں ہی وہ پہلا موجد ہوں گا….”

میں : "ادیب….”

وہ: "ہاں ہاں …. جو کہ اس موضوع پر کتاب لکھ رہا ہے "۔

میں : "مگر کیا ایسے موضوع پر آپ کی کتاب کوئی بزنس کر سکے گی؟ جس سے عوام کو کوئی دلچسپی نہ ہو”۔

وہ: "جب تک کتاب نہیں چھپے گی عوام کو دلچسپی کیسے ہو گی اور کتاب چھپ جانے دو۔ یہ ہیری پوٹر کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گی”۔

میں : "آپ نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ مجھ غریب سے آپ اپنی کتاب کے سلسلے میں کیا کام لینا چاہتے ہیں "۔

"کام تو سارا پایہ تکمیل تک پہنچ چکا۔ بس میں چاہتا تھا کہ اپنے راز دانوں کو یہ کتاب سنا کر اپنی کتاب کو جملہ غلطیوں سے پاک کر لوں۔ آخر کو یہ میری دسویں غیر مطبوعہ کتاب ہے "۔

میں : "لیکن اس گھپ اندھیرے میں آپ سیکڑوں غلطیاں کیسے درست کریں گے ؟”

وہ: "مبالغہ آرائی کی بھی حد ہوتی ہے ، میرے مسودے میں اِکا دُکا غلطیاں ہی ہوں گی۔ اس سے زیادہ ہرگز نہیں "۔

میں : "تو پھر یہ کام صبح پہ رکھ چھوڑیے اور مجھے بھی سکون سے جی لینے دیجئے "۔

وہ: "واہ، یہ خوب رہی تم سکون میں رہو اور مہمان جو کہ خدا کی رحمت ہے ، وہ زحمت میں رہے کہ حالِ دل کس کو سنایا جائے "۔

میں نے کھڑے ہو کر کہا "تو میں ایسا کرتا ہوں کہ ایک شمع روشن کر دیتا ہوں تاکہ آپ اپنے مسودے کے ساتھ ساتھ میرے چہرے پر وہ تاثرات بھی دیکھ سکیں جو آپ کی کتاب کے قارئین کے چہرے پر نمایاں ہوں گے "۔

میں اندھیرے میں ناحق کسی موم بتی کے بچے کھچے ٹکڑے کی تلاش میں جت گیا، اگرچہ مجھے معلوم تھا کہ یہ تلاش کسی دریافت پر نتیجہ خیز ثابت نہ ہو گی، مگر یہ کام دلشاد خانپوری کا گھٹیا مسودہ سننے سے بہتر تھا اور اس میں مجھے کسی دوسرے کا خطرہ بھی نہ تھا۔

جتنی دیر میں کسی ٹوٹی پھوٹی موم بتی کی تلاش میں سرگرداں رہا، دلشاد خانپوری کے مندرجہ ذیل مکالمے میرے ذہن کے کسی گوشے میں پتھر پر لکیر کی طرح پیوست ہو گئے۔

"ارے میاں، موم بتی ڈھونڈ رہے ہو یا ازاربند کی لکڑی”۔

"بھئی ایک آدھ موم بتی تو جیب میں بھی رکھی جا سکتی ہے ، بجلی کا کیا بھروسہ کب دھوکہ دے جائے "۔ (اور آپ کا کیا بھروسہ کہ کب دھوکے سے ٹپک پڑیں )

"بھئی ماچس کی فکر نہ کرنا ماچس میرے پاس ہے ، اگرچہ بارش میں ساری گیلی ہو چکی ہیں "۔

"بھئی موم بتی تلاش کر رہے ہو یا اندھیرے میں سوئی تلاش کر رہے ہو”۔

"بھئی کہیں دوسرے کمرے میں جا کے سو تو نہیں گئے کہ میں اکیلا بیٹھا اُلو کی طرح جاگتا رہوں۔ میری بات پر اچھا تو کہہ دو کم از کم”۔

"جتنی دیر میں موم بتی ملے گی اتنی دیر میں تو سورج نکل آئے گا”۔

اس سے تو اچھا تھا کہ میں تمہیں اپنے دولت خانے بلا لیتا۔ کم از کم وہاں ایمرجنسی لالٹین تو موجود ہے "۔

اسی اثناء میں دروازہ دھڑا دھڑ بجنے لگا۔ میں سجھ گیا کہ یہ منور ہے جو دلشاد خانپوری کے جرم کی سزا دروازے کو دے رہا ہے۔ اس کے انداز سے مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ منور، دلشاد خانپوری کی جان لینے کے درپے ہے اور اگر واقعی وہ اسی موڈ میں تھا تو میں اس کو اس اقدام سے باز رکھنے کی غلطی ہرگز نہ کرتا۔ میں پہلے کی طرح دروازے تک پہنچ جانا چاہتا تھا، مگر اس سے پہلے کہ میں دروازے تک پہنچتا، دلشاد خانپوری کی ایک دل خراش چیخ برآمد ہوئی۔ ساتھ ہی ان کی ہائے ہائے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ وہ راستے میں موجود کسی شے سے متصادم ہو چکے تھے اور زمین بوس ہو گئے تھے ، چونکہ میں زمین پر پڑی ہوئی چیزیں اُٹھانے کا قائل نہ تھا، لہٰذا صدر دروازے پر پہنچا اور منور کی موجودگی کی تصدیق کر کے دروازہ کھول دیا۔ منور بھیگی بلی بنا ہوا تھا (محاورتاً نہیں حقیقتاً)

"دلشاد خانپوری صاحب نے میری خوب بھاگ دوڑ کرائی”۔ منور اندر داخل ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ "کہاں ہیں وہ؟ میرا دل چاہ رہا ہے کہ ان کا منہ نوچ لوں "۔ وہ بھیگی بلی بنے ہونے کا عملی مظاہرہ بھی کرنا چاہتا تھا، مگر میں نے کہا۔

"اب انتقام لینے کی ضرورت نہیں۔ قدرت انہیں پہلے ہی سزا دے چکی ہے "۔ ہمیں اندھیرے میں دلشاد خانپوری کی زندہ لاش ڈھونڈنے میں چنداں دشواری پیش نہ آئی، کیونکہ منور ایک ایسی ٹارچ لایا تھا جس میں ایک کیپ بھی تھا۔ (بعد میں اس نے جب بتایا کہ یہ کیپ کانوں میں پہنی جاتی ہے تو میں مزید ششدر رہ گیا کہ سر پر پہننے والی چیز کانوں میں کیسے پہنتے ہیں، مگر اس نے وضاحت کی کہ یہ کان کن لوگ پہنتے ہیں )

دلشاد خانپوری کی دائیں ٹانگ میں فریکچر واقع ہونے کا احتمال تھا، کیونکہ وہ کرسی سے یوں ٹکرائے تھے جیسے منور سے ملنے کی بے تابی میں راستے میں آنے والی کرسی کو فٹ بال کی طرح لات مار کر ہٹانا چاہ رہے ہوں۔ دلشاد خانپوری اپنی ٹانگ پکڑے ہائے ہائے کر رہے تھے۔ ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ گھر میں (میرے ) طبی امداد کا جملہ سامان موجود نہ تھا اور صبح تک انہیں درد کی اذیت سے دوچار رہنا تھا۔

وہ اپنی ہائے ہائے کا بے سُرا راگ الاپ رہے تھے۔ یہاں تک کہ منور کو کہنا پڑا "دلشاد خانپوری صاحب، اس بے سروپا قصے کے بجائے اگر آپ اپنی پہلی قابلِ اشاعت کتاب سے ہی کچھ سنا دیں تو ہمارے فرشتے بھی آپ کے مشکور و ممنون ہوں گے "۔

یہ سننا تھا کہ دلشاد خانپوری کا درد فوراً رفوچکر ہو گیا اور وہ بول اُٹھے "ارے نامعقول! اگر تم پہلے ہی اپنی خواہش کا اظہار کر دیتے تو میں اتنی دیر تک تڑپنے سے بچ جاتا”۔

میں سمجھ گیا کہ اب ہمارے تڑپنے کی باری شروع ہو گئی ہے۔ دلشاد خانپوری نے اپنا بریف کیس اُٹھایا اور جونہی انہوں نے بریف کیس کھولا ایک دیو قسم کا چوہا اُچھل کر ان کی گود میں جا بیٹھا۔ اسے دلشاد خانپوری کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنا چاہئے تھا جو دلشاد خانپوری کی تحریریں پڑھنے والے سوچا کرتے ہیں، کیونکہ نہ جانے کب سے وہ "خطوط لکھنے کے مروجہ اور جدید طریقے ” کے مسودے سے مغز ماری کر رہا تھا۔ دلشاد خانپوری بہرحال بے ہوش ہو چکے تھے اور چوہا انہیں "ایسوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے ” کا سبق دے کر بھاگ چکا تھا (دُم دبا کر)۔ بہرحال پو پھٹنے تک دلشاد خانپوری کو ہوش میں لانے کی کتنی ترکیبیں زیر استعمال رہیں سب ناکام ثابت ہوئیں۔ صبح کاذب کے وقت دلشاد خانپوری کو ہوش آیا اور اپنے آپ کو زندہ پاکر انہیں بڑی خوشی ہوئی۔

صبح کے پُر نور اُجالے میں انہوں نے اپنے بریف کیس کی تفتیش کی تو اس میں ایک سوراخ نظر آیا۔ جہاں سے چوہے کی آمدورفت ہوئی تھی اور اس میں موجود کتاب کا مسودہ ایسا دکھائی دیتا تھا جیسے آثار قدیمہ کی بوسیدہ تحریریں ملی ہوں۔ دلشاد خانپوری کو بڑا دُکھ تھا کہ اس مسودے کی انہوں نے فوٹو اسٹیٹ نہیں کرائی تھی، مگر ساتھ ہی مجھے اس بات کی بڑی خوشی تھی کہ ایک ہزار افراد یہ دُکھ اُٹھانے سے بچ گئے تھے (مگر صرف اس وقت تک جب تک دلشاد خانپوری دوسری کتاب نہ لکھ لیں )۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.vshineworld.com/urdu/library/stories/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید