FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

ہند کہانی

 

(حصہ چہارم)

 

انتخاب و ترجمہ:  عامر صدیقی

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

اب بھی، آج بھی

 

بھونیشوری پانڈے

 

 

ٹورنٹو کے ایک میٹرنٹی ہوم میں ڈمپل نے اپنے پہلے بیٹے کو جنم دیا تھا، ابھی دو دن ہی ہوئے ہیں۔  بچے کی اور اس کی پوری جانچ، قاعدے کے مطابق ہو رہی ہے۔  وہ نرس کی مدد سے بچے کو دودھ پلانا سیکھ رہی ہے۔  یہ سب قدرتی ہوتے ہوئے بھی نوزائیدہ بچے کو دودھ پلانے میں اسے کچھ مشکل لگ رہا ہے۔  رات وہ سو نہیں پاتی، دن میں لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔  لیکن اس سے ملنے نہیں آیا تھا تو اس کا شوہر، بچے کا باپ۔  آخر کیوں ؟ یہی ایک سوال ڈمپل کو کھائے جا رہا ہے۔  وہ سمجھ نہیں پا رہی آخر کیوں ؟ اس کے برابر والے کمرے میں ایک خاتون نے، جو اسی کی ہم عمر ہے، ایک لڑکی کو جنم دیا ہے، اس بچی کا باپ اور خاندان کے دیگر افراد، سب باری باری وقت بے وقت دیکھنے چلے آتے ہیں۔  کبھی کچھ کھانے کی چیزیں لے کر، کبھی پھل وغیرہ لے کر۔  بچی کچھ کمزور ہے لیکن ٹھیک ہو جائے گی ماں کا دودھ پی کر۔  ان لوگوں نے تو بچی کے نام بھی کمل رکھ لیا ہے اور یہاں ڈمپل کا لاڈلا ابھی تک بے بی ڈمپل ہی کہلا رہا ہے۔

چوتھا دن لگا اور نرس نے آ کر کہا کہ سب ٹھیک چل رہا ہے، اگر ڈمپل چاہے تو گھر جا سکتی ہے۔

ڈمپل نرس کے کندھے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی، سسکیاں بندھ گئیں۔  وہ کچھ رک رک کر بولی۔  ’’گھر چلی جاؤں، پر گھر ہے کہاں ؟‘‘

شوہر تو ملنے تک نہیں آیا، اسی کی دہشت سے گھر کے باقی لوگوں کا بھی رویے اپنانے جیسا کہاں رہ گیا تھا۔  نہ وہ اپنے شوہر ہرپال کی باتوں میں آتی، نہ آج یہ سب دیکھنا پڑتا۔  پنجاب کے کھنہ شہر کی رہنے والی، وہ بی اے پاس کر چکی تھی۔  ہرپال یہاں سے شادی کے ارادے سے گیا تھا۔  اپنی پھوپھی سے کہا کہ ایک اچھی سی لڑکی جو پڑھی لکھی ہو دیکھیں۔  پھوپھی کو کیا خبر کسی کے من میں کیا ہے۔  وہ کوئی علمِ نجوم جاننے والی تو تھی نہیں۔  پڑوس میں رہتی ڈمپل انہیں اچھی لگی، سو انہوں نے بات چلائی۔  ہرپال بھی اس کے حسن میں اتنا مر مٹا کہ چٹ منگنی پٹ بیاہ ہو گیا۔  چلو ماں باپ تو گنگا نہائے، پر ڈمپل کے مستقبل میں کیا ہے، بھگوان کے سوا کون جانتا تھا۔  لیکن پیار میں سب اچھا لگتا ہے جب یہ پروان چڑھتا ہے۔  وہ کینیڈا آ گئی، چودہ مہینوں کے اندر ہی۔

ہرپال فیکٹری کے کام میں لگا تھا، تھوڑی بہت ٹیکنیکل ٹریننگ بھی ان چار سالوں میں لے چکا تھا، سو سب کام ٹھیک چل رہا تھا۔  آمدنی سے کوئی شکایت نہیں تھی۔  جب ڈمپل آئی تو اس نے سوچا پہلے خاندان میں اضافہ ہو جائے بعد میں سب دیکھا جائے گا۔  پر ہرپال چاہتا تھا کہ خاندان تو کبھی بھی بڑھا لیں گے، پہلے آمدنی بڑھا لیں۔  وہ روز ڈمپل کو پڑھائی کرنے کو کہتا۔  ادھر ڈمپل ماں بننے والی ہوئی، تو اس کی طبیعت کافی خراب رہنے لگی۔  اسے ہر وقت قے، نیند، کمزوری رہتی۔  وہ چاہتی شوہر اسے محبت سے چائے پلا دے۔  کبھی پیار کرتے کرتے سلا دے۔  وہ خود کچھ کر نہیں پاتی تھی، لیکن ہرپال پر تو نشہ چڑھا تھا کمائی کا۔  اس سے زبردستی کالج جانے کو کہنے لگا۔  نہ جانے پر پہلے طعنے بازی ہوئی پھر ہاتھا پائی تک نوبت آنے لگی۔  ادھر پیچھے وہ ماں بہنوں کو کچھ ٹھیک سے بتا نہیں سکتی تھی، کیونکہ فون ہرپال کے سامنے ہی ہوتا تھا۔  ایک دن پڑوسن نے فون کارڈ لا کر دیا اور اپنے گھر چلنے کو کہا۔  ہرپال کی غیر حاضری میں اس نے سب کچھ کہہ ڈالا۔  اس کا دل بڑا شرمندہ ہوتا اگر وہ ہرپال سے چھپا کر کچھ بھی کرتی۔  لیکن وہ کیا کرے ؟ ماں کو سب کچھ بتا دیا، مگر ہزاروں میل دور بیٹھی مخلص ماں بھی بیٹی کی بھوک پیاس نہیں مٹا سکی۔  رو دھو کر دن آگے چلنے لگے۔  ابھی آئی ہے واپس جا نہیں سکتی، ایک نند ہے، وہ کبھی کبھی آ جاتی، بھائی کو سمجھاتی پر کیا مرد اتنی جلدی کوئی بات سمجھتے ہیں بھلا؟

انہیں یہ کون سمجھائے کہ ایک کومل تن من کی بیٹی لا کر اس پر اتنی سختی کرنا کیا کسی گناہ سے کم ہے ؟ وہ اس پر اس طرح حق جماتے ہیں جیسے کوئی زمین کا ٹکڑا انہوں نے خرید لیا ہو اور اس پر وہ چاہے پانی سے سینچیں، چاہے جب اسے سوکھی زمین کی طرح چھوڑ دیں، ان کی مرضی، انہیں کون بتائے زمین بنی عورت، انتظار میں ہے ان کے پیار کی بارش کی۔

کرما پھل تو کھانا ہی ہو گا کبھی نہ کبھی۔ تعلق ہے شوہر بیوی کا کبھی کوئی کبھی کوئی اور اتنا مقدس تعلق اور اتنا ظلم، جاگو اے شوہروں جاگو۔

نرس نے بتایا کہ پاس کے کمرے میں جو دوسری عورت نے لڑکی کو جنم دیا ہے، اسے یرقان ہو گیا ہے۔  خاندان کے تمام افراد فکر کر رہے ہیں اور اسے دوسرے ہسپتال میں لے جانا پڑے گا. کچھ دن آئی سی یو میں رکھیں گے۔  والدین بے حال ہیں۔  بچی کا باپ تو ماں کا سایہ بھی نہیں چھوڑتا۔  ان کی شادی کو دو سال ہو چکے تھے، ان کے گھر کے باقی لوگ یہاں پہلے سے تھے۔  کمل کے والدین دونوں اپنے بڑے بھائی کے اسپانسر کرنے پر یہاں آئے تھے۔  ان پر قرض بھی چڑھا ہے، لیکن دونوں کے خیالات کا تال میل بڑھ گیا، زندگی کی سیڑھی آہستہ آہستہ چڑھنا چاہتے ہیں۔  عمر بھی کم نہیں مگر خاندان میں دلچسپی ہے۔  وہ لڑکی پا کر خوش ہیں۔  وقت دیکھ کر گزارا کر رہے ہیں۔

جب انہیں معلوم پڑا کہ ڈمپل کے پاس کوئی نہیں تو کمل کی ماں ویتا اس کا حوصلہ بڑھانے آئی۔  اس نے بتایا کہ یہاں خواتین کو سہارا دینے کیلئے بہت سی اسکیمیں ہیں۔  تم ہسپتال والوں سے پتہ کرو تو وہ تمہاری مدد کریں گے۔ تم ہمت سے کام لو۔  کیوں نہ تم اپنے بچے کے ساتھ ہی ایک دو اور بچوں کی بھی دیکھ بھال شروع کر دو۔  اس نے ایک دو اداروں کے نام بتائے اور کچھ فون نمبر دیئے اور چلی گئی۔

ڈمپل اپنے ایک ماہ کے بچے کے ساتھ اکیلی ہے، اسے فکر ہے، اپنے بچے کی فکر، ذہن میں ناراضگی ہے، غصہ ہے، اکثر سانس لیتی ہے تو ہائے نکل جاتی ہے۔  اس کے مسائل بہت سے ہیں گھر باہر کا کیسے دیکھے ؟ کب تک ایسے چلے گا۔  پیسے ہیں نہیں، شوہر ہے نہیں۔  لمبا اکیلا جیون اور ننھا بچہ۔  ایک الگ معاشرے کی تعمیر ہو گی ایسے میں۔  ممکن ہے ’’سنگل مدر‘‘ بن کر وہ اچھی پرورش کر لے۔  ہو سکتا ہے کسی غلط کام میں پھنس جائے۔  راستہ لمبا ہے۔

ایک دوپہر یوں ہی مارکیٹ میں ایک عورت سے ملاقات ہوئی، اس نے بتایا یہاں رینبو انڈیا کے نام سے ایک سماجی ادارہ ہے۔  وہ مدد کرتے ہیں، ان کے پاس تم جاؤ۔  ڈمپل ایڈریس اور ٹیلی فون نمبر لے کر گھر آ گئی۔  بچہ جب اچھی طرح سے سو گیا تب فون کیا۔  فون کی بہت گھنٹیاں بجیں، پر کسی نے اٹھایا نہیں۔  اس نے رسیور رکھ دیا۔  وہ سوچنے لگی مدد تو مل جائے گی پر اے ایشور، کیا پوری زندگی دوسروں کے رحم و کرم پر گزارنا پڑے گی؟ یہی لکھا ہے قسمت میں ؟ ہمت کر کے ایک بار پھر نمبر لگایا، اس بار دوسری طرف سے ایک خاتون بولیں اور ہمدردی سے باتیں کرنے لگیں۔  پتہ دیا اور اگلے ہفتے آنے کو کہا۔

اگلا ہفتہ تو پنکھ لگا کر سامنے اتر آیا۔  وہ کچھ دیر کیلئے خوشگوار خیالوں میں چلی گئی۔  ہر شخص کو رنگین خواب دیکھنے کی آزادی ہے، وہ انہی میں ڈوب گئی۔

جب دفتر پہنچی تو ذہن میں امید کے ساتھ نا امیدی بھی تھی، پر اس نے فیصلہ کیا وہ پیچھے نہیں ہٹے گی۔  اپنی پوزیشن سے جنگ کرے گی۔  اسے فتحیاب ہونا ہے۔  ایشور اس کے ساتھ ہے، وہ ایک مقدس ماں ہے۔  سوالات کے جوابات دیتے دیتے وہ دو بار رو پڑی۔  پانی پی کر، بقیہ سوالات کے جوابات دیئے کہ ہاں شوہر نے شادی تو کی ہے، لیکن بچہ نہیں چاہئے تو چھوڑ دیا ہے۔  اس حال میں پہنچ گئی ہوں کہ اب مدد درکار ہے، ایک بار اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کیلئے۔  کچھ کاغذ پڑھے، کچھ دستخط کئے، کچھ شرائط، قانون جاننے کے بعد ہی آفس کی انچارج جان پائے گی، سوچ پائے گی کہ کیا ہو پائے گا اور وہ پھر گھر چلی آئی۔

دفتر میں دوپہر کے کھانے پر باتیں چھڑ گئیں۔  کیا ہو رہا ہے معاشرے میں ؟ کون ذمے دار ہوں گے اس طرح کے رویوں کیلئے ؟ افریقہ جا کر طرح طرح کی امداد کرنے والے لوگوں، یتیم، بیمار بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھانے والے لوگ، ذرا یہیں دیکھو، کتنا کچھ پڑا ہے کرنے کو۔  اپنے چاروں طرف موجود، اپنی بہنوں کو سنبھالو، کیسی پریشانی میں دودھ پلا کر پال رہی ہیں۔  روز کنواں کھودو، پانی نکالو والے مسائل میں کیا بچوں کا مستقبل ہو گا؟ جب ماں ہی بے حد لاغر ہے، نہ دھن، نہ تن، نہ ہی من کچھ بھی تو کافی نہیں اس کے پاس، کیا دے پائے گی بچے کو؟

جاگو انسانوں جاگو! رحم کرنے والو اٹھو! جہاں ماں دکھی ہو گی کون خوش ہو گا؟ ایک دن آئے گا جب تمھیں اپنی کرنی پر افسوس ہو گا، کون جانے یہ بچے یا بچی اپنے دماغ میں معاشرے کے خلاف کون سی سوچیں پال رہے ہوں گے اور جب یہ اس معاشرے کا حصہ بنیں گے۔  سوچو! تب کیا ہو گا۔  تم نے ایک عورت سے نفرت نہیں کی پورے معاشرے میں زہریلا بیج بو دیا ہے۔

***

 

 

 

 

اب بس اور نہیں

سریتا برارا

 

سب لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔  کبھی کبھی تو اسے بھی لگتا ہے شاید لوگ سچ ہی کہہ رہے ہیں۔  کچھ بھی سوچنے لگتی ہے تو اس کا انگوٹھا اس کی انگلیوں کے پوروں پر ایک، دو، تین گننے لگتا ہے .۔  جیسے بچپن میں حساب کے سوالوں کو کرتے وقت وہ اپنی انگلی پر گنتی اور جمع تفریق کر لیا کرتی تھی۔  پر ایک، دو، تین گننے کے بعد جیسے اس کے دماغ پر تالا پڑ جاتا ہے۔  اس سے آگے وہ گن ہی نہیں پاتی۔  لیکن کیوں ؟ اسے اپنے آپ پر جھنجھلاہٹ ہونے لگتی ہے، پھر وہ واپس گننا شروع کر دیتی ہے، پھر یہ عمل بار بار دوہرایا جاتا ہے، گھنٹوں گھنٹوں جاری رہتا ہے۔  اس کا انگوٹھا اسی طرح اس کی انگلیوں پر ناچتا رہتا ہے۔  جب تک وہ بری طرح سے درد نہیں کرنے لگتا ہے۔

پھر وہ اٹھ کر باہر باغیچے میں چلی جاتی ہے۔  گیندے کے ایک پھول پر بیٹھی تتلی پر اس کی نظر پڑتی ہے۔  وہ اسے گھورنے لگتی ہے۔  اس کی آنکھوں کے سامنے اڑتی وہ تتلی اچانک چھوٹی سی بچی بن جاتی ہے۔  وہ اسے دھیمے دھیمے بنا شور کیے گود میں لینے کیلئے اس کی طرف بھاگنے لگتی ہے۔  تتلی دوسرے پھول پر جا بیٹھتی ہے، وہ پھر اس کے پیچھے پیچھے بھا گنے لگتی ہے۔  تتلی ایک اور پھول پر جا بیٹھتی ہے۔  اسے لگتا ہے وہ چھوٹی سی بچی اس کے ساتھ پکڑم پکڑا ئی کھیل رہی ہو، تتلی کبھی ایک پھول تو کبھی دوسرے پھول پر اور وہ اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہوئی، پھر تتلی اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔  بچی کہاں چلی گئی؟ وہ رونے لگتی ہے۔  پھر اسے اپنے پیٹ کے اندر کچھ گیلا گیلا سا محسوس ہونے لگتا ہے۔  اسے لگتا ہے اس کے پیٹ کے اندر خون بہہ رہا ہے۔  وہ وہیں گھاس پر لیٹ جاتی ہے اور اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ وہ ہسپتال کے ایک کمرے میں ایک بستر پر پڑی ہے۔  اس کی آنکھوں کے سامنے دھند سی چھائی ہے، اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا پر دبی دبی سی آوا زیں سنائی دینے لگتی ہیں۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

’’پھر لڑکی؟‘‘

’’ڈاکٹر صاحب، آپ اسے پیٹ سے گرا دیجئے۔  آپ جتنا پیسہ چاہیں لے سکتے ہیں۔ ‘‘ اس کا شوہر ڈاکٹر سے کہہ رہا ہے۔

’’ڈاکٹر صاحب! مجھے یہ بچی چاہیے۔  میں یہ بچی چاہتی ہوں۔ ‘‘ وہ چلانا چاہتی ہے، لیکن اس کی آواز اس کے حلق میں ہی پھنس جاتی ہے۔

’’اس بار تھوڑا مشکل ہے، پچھلی بار آپ اس کو وقت سے لے آئے تھے، پر اس بار جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔  کچھ ہو گیا تو میں مصیبت میں پڑ سکتا ہوں، مجھے جیل تک ہو سکتی ہے۔  ‘‘اس پرائیویٹ ہسپتال کا ڈاکٹر اس کے شوہر سے کہہ رہا ہے۔

اس کا شوہر پھر گڑگڑانے لگتا ہے۔

’’آپ فکر نہ کریں، آپ پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔  میری اوپر تک رسائی ہے۔  بس آخری بار یہ کام کر دیجئے۔  میں آپ کو منہ مانگی رقم دوں گا۔ ‘‘

’’اس بار میں اپنی بچی کو مارنے نہیں دوں گی۔  مجھے بچی چاہیے۔ ‘‘وہ پھر زور سے چلانا چاہتی ہے۔  پر اس کی چیخیں کسی قیدی کی طرح جیل کی سلاخوں سے ٹکرا کر دم توڑ دیتیں ہیں۔  وہ اٹھنا چاہتی ہے پر اٹھ نہیں پاتی۔  پھر چاروں طرف سناٹا چھا جاتا ہے۔

اس کی آنکھوں سے سب اوجھل ہو جاتا ہے، وہ اپنی آنکھیں کھولتی ہے۔ وہ پاگلوں کے ایک ہسپتال میں داخل ہے۔  کیا وہ سچ مچ پاگل ہو گئی ہے۔

پانچ سال پہلے جب اس کی شادی پاس والے گاؤں کے زمیندار کے بیٹے سے پکی ہوئی تھی تو سب اس کو کتنی قسمت والی سمجھ رہے تھے۔

’’ارے اس کے تو بھاگ کھل گئے سمجھو۔  وہاں تو اپنی بملا راج کرے گی راج۔ ‘‘ اس کی دادی نے کہا تھا۔

اس کے پتا کے پاس بہت تھوڑی سی زمین تھی۔  جس سے ان کا گزارا بھر ہو جاتا تھا۔  وہ آٹھویں کلاس میں تھی اور گاؤں کے سرکاری اسکول میں پڑھتی تھی۔  وہ پڑھنے میں اچھی تھی اور آگے پڑھنا چاہتی تھی۔  شاید اس کے پتا اسے آگے پڑھنے بھی دیتے۔  مگر جب اس کیلئے یہ رشتہ آیا تو انکار کرنے کا تو سوال ہی نہ تھا۔

’’ویسے بھی ہم نے کون سا اس سے نوکری کرانی ہے، جتنی جلدی ٹھکانے لگ جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ ‘‘ اس کی ماں کا کہنا تھا۔

سچ پوچھو تو اس نے بھی آگے پڑھنے کی ضد نہیں کی تھی۔  اسے معلوم تھا کہ اس کے لیے ایسا رشتہ ملنا مشکل تھا۔  اس کے پتا کے پاس زیادہ جہیز جمع کرنے کے لیے کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا۔

’’ہمارے بیٹے کو صرف گوری چٹی لڑکی چاہیے۔  ہمیں جہیز لینے کا کوئی لالچ نہیں ہے۔ ‘‘ لڑکے کے باپ نے رشتے کی بات کرتے ہوئے کہا تھا۔

اس کے سسرال والوں نے سچ مچ جہیز میں کچھ نہیں لیا تھا۔  بلکہ شادی کا مکمل خرچہ بھی خود ہی اٹھایا تھا۔  تب سب اس کے سسرال والوں کی کتنی تعریف کر رہے تھے۔

پھیروں کے بعد جب وہ اپنی سسرال گئی تو اسے لگا وہ واقعی قسمت والی ہے۔  سب اس سے بے انتہا محبت کرتے اور کمی تو اس گھر میں ویسے بھی کسی چیز کی نہیں تھی۔ اس کا شوہر اپنے والدین کا اکلوتا لڑکا تھا۔

جب وہ حاملہ ہوئی تو اس کے سسرال میں تہوار جیسا ماحول تھا۔  اس کی ساس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔  اس کا بے انتہا خیال رکھا جانے لگا۔  لیکن پھر ایک دن اچانک سب کچھ بدل گیا۔

اسے چیک کرنے پر پتہ چلا کہ وہ لڑکی کو جنم دینے والی ہے۔  وہ دل ہی دل میں ننھی سی بچی کے خواب دیکھنے لگی۔  پر اس کے سسر اور شوہر کو بیٹی نہیں جائداد سنبھالنے والا بیٹا چاہیے تھا۔  پھر ایک دن رات کے سناٹے میں اسے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں جانچ پڑتال کے بہانے لے جا کر اس کا بچہ گرا دیا۔  جب اسے بعد میں پتہ چلا تو وہ بہت روئی تھی۔  پر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔  اس کی ساس نے بملا کو بتایا کہ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا تھا۔

اس گھر میں لڑکیوں کو برداشت نہیں کیا جاتا۔  یہی اس کے خاندان کی روایت رہی ہے۔

میں بھی غریب گھر کی ہوں۔  میرے والدین بھی غریب تھے۔  ہمارے پاس ان لوگوں کی مرضی کے خلاف جانے کی طاقت نہیں تھی۔ پھر دونوں ساس بہو مل کر خوب روئیں۔

وہ پھر پیٹ سے ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ پھر ایک لڑکی کو جنم دینے والی ہے۔  . بملا اور اس کی ساس کی مخالفت کے باوجود، اس بار بھی وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا۔  اس کے دل کے اندر اور باہر جیسے سناٹا چھا گیا تھا۔  وہ واپس آئی تو زندہ لاش کی طرح ہی ہو گئی تھی۔  اگر اس کی ساس نہ ہوتی تو شاید وہ مر جاتی۔  پر اس کی ساس اس کا دکھ سمجھتی تھی۔  اس نے بملا کی صحت کی پوری ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔  نہ صرف وہ اس کے کھانے پینے کا پورا پورا خیال رکھتی۔  بلکہ اسے خوش کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کرتی۔  اس انتھک محنت نے بملا میں جان پھونک دی اور دھیرے دھیرے اس کی خاموشی ٹوٹنے لگی۔  سب کا خیال تھا کہ ماں بننے سے ہی بملا مکمل طور پر ٹھیک ہو پائے گی۔  اس کے شوہر نے اسے یقین دلایا کہ وہ اس بار پہلے جیسا کچھ نہیں کرے گا۔  بملا دوبارہ حاملہ ہوئی اور اس کے ساتھ ہی اس کے شوہر کی بیٹا حاصل کرنے کی خواہش پھر سے جاگ اٹھی۔  لیکن اس بار بملا محتاط ہو گئی تھی۔  اس نے شوہر کے ساتھ کہیں بھی باہر جانے سے انکار کر دیا تھا.۔  اسی طرح وقت گزرنے لگا اور ساتھ اس کے شوہر کی یہ جاننے کی بے چینی کہ اس کی بیوی کے پیٹ میں لڑکی ہے یا لڑکا۔  یہ تو طے تھا کہ بملا کسی پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس کسی حالت میں نہیں جائے گی اور سختی کی وجہ سے آس پاس کا کوئی بھی سرکاری ڈاکٹر اس طرح کا نہ تو چیک ہی کرے گا نہ کچھ بتائے گا ہی۔ پھر اسے ایک ترکیب سوجھی. بملا کو اس کی ماں پر مکمل یقین تھا۔  ماں کے ساتھ وہ ضرور باہر چلنے کے لیے تیار ہو جائے گی۔  اس نے سب سے پہلے ماں سے گاؤں سے کچھ دور ایک مندر میں جانے کی بات کی۔  ماں نے خود ہی بملا کو ساتھ لے جانے کی بات کی تھی۔  اسے کیا معلوم تھا کہ اس کا بیٹا ماں سے بھی چال چل رہا ہیں۔  بملا کے شوہر نے ڈرائیور کو دھیمے سے کچھ کہا اور گاڑی سیدھے اسی پرائیویٹ ہسپتال پر جا رکی۔  اس سے پہلے کہ بملا کچھ بو لتی اسے اسٹیچر پر زبردستی اندر لے جایا گیا۔  کچھ ہی پلوں میں اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا تھا۔  اسے صرف اپنے شوہر اور ڈاکٹر کی دھیمی دھیمی آوازیں سنائی پڑیں تھیں۔  اس کے بعد وہ اپنا ہوش کھو بیٹھی تھی۔

اس کا انگوٹھا پھر اس کی انگلیوں کے پوروں پر تیزی سے دوڑنے لگا تھا۔  ایک، دو، تین۔  وہ آگے کیوں نہیں گن پا رہی۔  کیا وہ واقعی پاگل ہی ہو گئی ہے۔

***

 

 

 

 

آمر

 

ڈاکٹر دیپتی گپتا

 

آنند کے گھر میں گھستے ہی جیسے طوفان سا آ جاتا ہے۔  دھڑ دھڑاتے ہوئے چلنا، چڑچڑاتے ہوئے بھاری بھرکم آواز میں زور زور سے بولنا، کمروں کے دروازوں اور آس پاس رکھے فرنیچر سے ٹکرانا۔  گھر میں اس کے آمد کا اعلان کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔  نہ جانے وہ کیوں ہر وقت بوکھلایا سا، جلدی میں رہتا ہے۔  کہیں جانا ہو تو وہ جلدی میں بھاگا بھاگا سا ہوتا ہی ہے۔  پر کہیں نہ جانا ہو تب بھی وہ جلدی میں ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح کی بے چینی میں۔  کیسی فطرت، کیسا عجیب مزاج ہے آنند کا، گھر کے تمام لوگ اس کے آنے پر غیر معمولی سا محسوس کرنے لگتے ہیں۔  ذرا ذرا سی بات پر وہ بھڑک اٹھتا ہے۔  کسی بھی بات پر بدک جاتا ہے۔  ماں، بابو جی، بیوی، چھوٹا بھائی، بچے، نوکر سب اس کے آمرانہ رویے سے تنگ ہیں۔  ماں سوچتی تھی کہ اس کا بیٹا شاید شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گا، پر وہ سدھرتا تو کیا، پہلے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ آنند کے اس تیکھے مزاج کا سب سے زیادہ شکار ہوتی ہے، اس کی بیوی رما۔  آنند کی پکار سنتے ہی رما ایسی گھبرا اٹھتی ہے کہ زمین پر پاؤں رکھ کر چلنے کے بجائے، وہ پنجوں پر دوڑ دوڑ کر اس کا حکم بجا لاتی ہے۔  اس کا کلیجا حلق کو آنے لگتا ہے، چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔

بچپن میں آنند بڑا سادہ مزاج اور نرم دل ہوا کرتا تھا، لیکن بڑے ہوتے ہوتے وہ نہ جانے کیوں ایسا مشکل مزاج اور سخت دل ہو گیا۔  اکثر وہ دوسروں کو ستانے کی حد تک سفاک ہو جاتا اور پھر کھوکھلی جیت سے پھولا نہ سماتا۔  تھل تھلے جسم والا ’’آنند سرن‘‘ اپنی ماں کو ہلکے ہلکے غصہ سے بھر دیتا۔  وہ آنند کو پر سکون کرنا چاہتی ہے، سمجھانا بھی چاہتی ہے، مگر سمجھا نہیں پاتی، کیونکہ وہ کچھ بھی سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں ہوتا۔  بابو جی اس کی بد لحاظی کے خوف سے اس سے دور رہتے اور چھوٹا بھائی ملند گھر میں گرما گرمی نہ چاہنے کی وجہ آنند سے بات کرنے سے کتراتا ہے۔  بچے بھی آنند سے خوفزدہ رہتے ہیں۔

پرسوں بابو جی سے گھر کے پیچھے کی زمین کے بارے میں کچھ بات کرتے کرتے اچانک آنند کو غصے کا ایسا دورہ پڑا کہ اس کی چیخ و پکار اور سرخ انگارہ آنکھیں دیکھ کر بابو جی کو لگا کہ وہ ان پر ہاتھ ہی نہ اٹھا بیٹھے کہیں۔  وہ تو ملند اور رما فوراً کمرے میں پہنچ گئے اور کسی طرح منتیں کر کر کے اس کا غصہ ٹھنڈا کیا۔  بابو جی تو اکثر بڑبڑاتے ہوئے ایشور سے شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ ایسی بد مزاج اور بد تمیز اولاد کسی دشمن کو بھی نہ ملے۔  ماں اکثر و بیشتر ہاتھ میں تسبیح لئے، رام رام جپتی گھر کے سکھ چین کی دعا کرتی رہتی ہے۔  لیکن آنند تو گھر میں تب آئے جب ’’آنند سرن‘‘ انہیں گھر میں آنے دے۔  اس نے تو سب کی زندگی جہنم بنا ڈالی ہے۔  اتنی زیادہ کڑواہٹ، اتنی زیادہ بغاوت، اس میں کیوں، کب اور کیسے سما گئی؟ رما اس بارے میں سوچتی ہے تو اسے کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔  ماں اور بابو جی اتنے محبت بھرے، تمیزدار، نیک اور ٹھنڈے مزاج کے، گھر میں کسی بات کی کمی نہیں، ہر لحاظ سے بہترین گھر۔  تعلیم و تربیت میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کی بابو جی نے۔  قسمت نے بھی آنند پر بڑی کرم نوازی کی اور وہ سافٹ ویئر کمپنی میں اعلی عہدے پر فائز ہوا۔  ازدواجی زندگی بھی خوشیوں اور قناعت بھری ہے۔  سگھڑ اور بردبار بیوی رما اور دو پیارے سے بیٹے۔ ایشور نے دل کھول کر آنند کو سب کچھ تو دیا ہے۔  پھر کیا وجہ ہے۔  اس کے بد مزاجی اور چڑچڑے پن کی؟ اس کا شدید مزاج سب کیلئے ایک پہیلی بنا ہوا ہے۔  بیٹے بڑے ہو رہے ہیں۔  رما کو ڈر ہے کہ اب گھر میں روز مسئلے کھڑا ہوا کریں گے آنند کے رویے کی وجہ سے۔  نوجوانی میں قدم رکھتے بیٹوں کی طرف سے مخالفت ہو گی۔

ایک طرف یہ سوچ کر رما دل ہی دل ڈرتی بھی ہے۔  تو دوسری طرف سر سے پاؤں تک خوشی کی ایک ٹھنڈی لہر اس کے اندر دوڑ جاتی ہے کہ چلو بچے ہی بڑے ہوتے ہوتے آنند کا دماغ ٹھکانے لگا سکیں کاش!۔  وہ کبھی تو چین کی کسی ایک سانس کا مزہ لے سکے۔  وہ شوہر کی بھڑکتی چلچلاتی فطرت کے سبب دھیرے دھیرے گھلتی جا رہی ہے۔  اس کی صلاحیتوں کو زنگ لگ گیا ہے۔  پر وہ اس کے سامنے منہ نہیں کھول پاتی۔  برسوں سے اسے دبنے کی عادت جو پڑ گئی ہے۔  اب بھلا بغاوت کرنا اس کے بس کی بات کہاں ؟ اس کا بیڑہ تو اب بس بچے ہی اٹھائیں گے۔  چھوٹا بیٹا بکل۔  اسے لگتا ہے کہ باپ کی آمریت کے خلاف بغاوت ضرور کرے گا۔  بکل میں اسے آنند پنپتا نظر آتا ہے۔  لیکن خاموشی کے ساتھ۔  بڑا بیٹا مکل، بکل کی الٹ سنجیدہ اور خاموش مزاج کا ہے۔  آنند کے مقابلے میں ہر لحاظ سے دونوں بیٹے بڑے تمیز دار، نیک دل اور سمجھدار ہیں۔  ہمیشہ بڑی سوجھ بوجھ سے باتیں کرتے ہیں۔

آج آنند جب سے آفس سے لوٹا ہے۔  اس کے بعد سے خاموش ہے اور بات بات پر تنک رہا ہے . ٹھیک ہے، تنک مزاجی تو اس کی روز کی عادت ہے لیکن ’’خاموشی‘‘ اسے کیسے گھیرے ہوئے ہے۔  اس بات کی سب کو حیرت ہے۔  اس سے بھی زیادہ خدشہ اس بات سے ہے کہ یہ کسی آنے والے ’’طوفان‘‘ سے پہلے کا ’’سناٹا‘‘ تو نہیں۔  اگلا دن، پھر تیسرا دن، آنند کی یہ حالت برقرار رہی، وہ آفس جاتا اور غصہ میں بھرا لوٹتا۔  اگر کوئی اس سے کچھ کہنے کی ہمت بھی کرتا تو وہ اس کے غیض و غضب کا شکار ہو جاتا۔ اس لئے اب اس سے کوئی بھی کچھ پوچھنا نہیں چاہتا تھا کہ وہ چپ چپ کیوں ہے ؟۔

ہفتہ کے دن اس بے چین خاموشی کا خلاصہ خود آنند نے ہی کر دیا۔  جب اس نے ماں بابو جی سے آنکھیں چراتے ہوئے یہ کہا کہ ’’وہ نوکری سے استعفیٰ دے آیا ہے۔ ‘‘ تو گویا ان پر آسمان گر پڑا ہو۔  وہ دونوں تو ایسے ہو گئے جیسے انہیں لقوہ مار گیا ہو۔  پھر بھی کسی طرح اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے بابو جی بولے، ’’پر کیوں۔ ‘‘

آنند غرایا، ’’کیوں سے کیا مطلب؟ وہ پانڈے کا بچہ، نہ جانے کیا سمجھتا ہے اپنے آپ کو؟ مجھ سے ایک ہی درجہ تو بلند ہے اور بنتا ہے دنیا کا ’’باس‘‘۔  جب دیکھو مجھے ٹوکتا رہتا تھا۔  میرے ہر کام میں بین بین کر خامی دکھاتا ہے۔  سو میں نے سارے جھگڑے کی جڑ ہی کاٹ دی اور دے مارا استعفیٰ مینیجر کے منہ پر۔ ‘‘

ہمت بٹور کر، ماں نے ٹوکتے ہوئے آنند سے کہا، ’’گھر گرہستی، پڑھتے بڑھتے بچے اور رما، ان سب کے اخراجات کا کیا ہو گا۔  یہ سب سوچے سمجھے بغیر دے دیا استعفی۔  یہ تو بڑی بھول کری تم نے۔  ہماری مت سوچو، پر ان کی تو سوچتا۔  آج تک میں یہ تو جانتی تھی کہ تو مغز پھرا ہے۔  پر تیرا مغز ہی نہیں ہے، یہ مجھے آج پتہ چلا۔ ‘‘

ماں کے منہ سے ایک ہی سانس میں روانی سے کہی ان کی بات سن کر آنند کے علاوہ آس پاس موجود دیگر تمام گھر والوں نے سکون اور اطمینان کا سانس لیا کہ اس بے لگام انسان کو اس کی غلطی کا احساس کرانے والا بھی کوئی ہے اس گھر میں۔  ساتھ ہی سب نے خاموشی بھی اختیار کر لی اور اپنا اپنا دل بھی تھام لیا کہ اب بھڑبھڑاتا آنند اس لتاڑ کو پا کر طوفان مچائے گا۔  لیکن آنند تو بس ماں کو تکتا رہ گیا۔  غصے سے سرخ ابلتی آنکھیں، تمتمایا ہوا چہرہ۔  اس کے اس روپ کو دیکھ کر رما کا دل کانپ اٹھا۔  تبھی آنند کا غصہ ٹیوشن سے واپس آئے بکل پر نکلا۔  اسے مارنے کیلئے جیسے ہی آنند نے ہاتھ اٹھایا۔  بکل فوراً تڑک کر بولا۔

’’ہاتھ تو میرے بھی ہے۔  دادی، پاپا کو سمجھا دو، کسی اور کا غصہ بے بات کے مجھ پر نہ اتاریں، ورنہ بہت برا ہو گا۔ ‘‘ یہ کھلی بغاوت دیکھ کر، آنند کا ہاتھ اٹھے کا اٹھا رہ گیا۔  آج دادی اور پوتے نے مل کر آنند کو اکٹھے ہی شکست دے دی۔  رما بڑی ہی فکر مند اور دکھی تھی کہ اب گھر گرہستی کی گاڑی کیسے کھنچے گی۔  اس پشتینی خوبصورت گھر کے بجائے اگر وہ سب کرائے کے گھر میں رہ رہے ہوتے تو منٹوں میں سڑک پر پہنچنے کی نوبت آ جاتی۔  بچوں کی تعلیم و تربیت ابھی باقی ہے۔  کل کو شادی بیاہ ہو گا تو کیسے کریں گے ہم۔  بابو جی کی پنشن سے ان کی اور ماں جی کی دوا دارو اور دیگر اخراجات چلتے ہیں۔  جب ملند بھیا بھی شادی کے بعد اپنی گرہستی کا بوجھ سنبھالیں گے تو تب ہماری گرہستی کیسے چلے گی؟ ابھی تو فی الحال ملند بھیا کی تنخواہ کا سہارا رہے گا۔  پر یہ تو آنند نے بہت ہی برا کیا۔  آج کل تو نوکری ڈھونڈے نہیں ملتی اور آنند نے لگی لگائی، اتنی اونچی اور اچھی نوکری پر لات مار دی۔ آنند غصے اور چڑچڑے پن کا اتنا غلام ہے کہ اس کی وجہ سے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی خراب کر رہا ہے۔  رما یہ سب من ہی من میں سوچ کر بے انتہا پریشان اور اکھڑی اکھڑی تھی۔

اب استعفیٰ کے بعد، آنند کو دن رات گھر میں جھیلنا، ریت میں کشتی کھینے کی مانند دوبھر ہو رہا تھا۔  اس کا مزاج پہلے سے بھی زیادہ تلخ اور شدید ہو گیا تھا۔  ساتھ ہی اسے ہائی بلڈ پریشر بھی رہنے لگا تھا۔  کل صبح صبح نوکر پر خوب برسا۔  چائے میں چینی کم تھی، بس اس نے موقع پایا اپنی بھڑاس نکالنے کا۔  گرم گرم چائے ہی نوکر پر پھینک دی. بیچارہ بھونچکا سا دیکھتا رہ گیا۔  دوپہر کو ماں اور رما سے بولا۔

’’ہم اب اس گھر میں کام نہیں کر پائیں گے۔  صاحب نے آج تو کھولتی چائے ہی پھینکی ہے ہم پر، پر کل تو ہمیں آگ میں ہی جھونک دیں گے۔  ماں جی ہمارا حساب کر دو۔  کہیں اور کام کر لیں گے۔  پر اب یہاں نہیں رہیں گے۔ ‘‘

یہ سن کر اس کے درد، اس کی جذبات کو لگی چوٹ کو سمجھتے ہوئے، رما اور ماں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وہ اتنا سہم گیا تھا اور ناراض ہو گیا تھا کہ قائل ہی نہیں ہوا، سو اس کا حساب کرنا پڑا۔

رات کو اپنے کمرے میں سوچ میں ڈوبے بابو جی ماں سے بولے، ’’کیا ہو گا اس گھرکا؟ یہ آنند ہمارا سکھ چین چھین کر ہی مانے گا۔  پہلے نوکری گئی، اب نوکر گیا۔  ایک ایک کر کے سبھی اٹھنے والے ہیں۔  اس کے گھر سے، اس منحوس کی وجہ۔  نہ جانے کون شیطان اس کی صورت میں ہمارے گھر میں پیدا ہوا ہے۔ ‘‘ لیٹے لیٹے ماں پلو سے آنسو پونچھ رہی تھی۔  چہرے پر ابھرا درد اور بھی گہرا ہو گیا تھا۔  ماں کو لگا جیسے کچھ بیماریاں ناقابل علاج ہوتی ہیں۔ ایسے ہی آنند بھی لاعلاج ہے۔ سارا گھر اس کی وجہ سے ذہنی مریض اور لاچار ہے۔  کب ٹھیک ہو گا آنند؟

آنند نے نوکری سے استعفیٰ کے بعد اپنی ڈگمگاتی اقتصادی حالت کو سنبھالنے کیلئے شیئرز کا کام شروع کیا۔  صبح دس بجے سے شام پانچ بجے تک گھر کے باہر احاطے میں بنے بڑے کمرے میں بیٹھنا، شیئرز کی بھاؤ کی جانچ پڑتال کرنا، اس نے کچھ رقم اپنی اور کچھ رقم اپنے سسر اور ان کے دوستوں کی لگائی۔  ملک میں سیاسی صورتحال کے اتار چڑھاؤ ہونے کی وجہ سے آنند شیئرز کا کام بھی اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتا رہا اور اوپر سے ایک ساتھی بروکر اس کو دو لاکھ روپے کی چوٹ دے گیا۔  بروکر کا راتوں رات اتنی بڑی رقم لے کر چمپت ہو جانا، مفلسی میں آٹا گیلا ہونے جیسا تھا۔  اس دھوکے سے آنند پر بڑا برا اثر پڑا۔  اس کا حوصلہ ٹوٹ گیا. ماں، بابو جی، رما، ملند سبھی مانتے تھے کہ آنند ایک ایک کر کے بدقسمتی کو گھر بلا کر پریشانیوں کا انبار لگا رہا تھا۔  سب سے زیادہ فکر تھی تیزی سے بڑے ہوتے ذہین بچوں کی تھی۔  پتہ نہیں کیسا دل و دماغ لے کر آیا تھا آنند؟ نہ اسے ماں اور بابو جی کی فکر تھی، نہ رما اور بچوں سے لگاؤ تھا اور بھائی کے تئیں محبت اور خیال تو شاید صفر ہی تھا۔  سخت سے سخت دل والے شخص کا بھی زندگی میں کسی سے تو لگاؤ ہوتا ہے۔  لیکن آنند تو نہ جانے کس مٹی کا بنا تھا۔  مکمل طور اپنے لئے جیتا تھا شاید۔  ویسے ماں اور بابو جی کی خدمت کا دعویٰ تو وہ اکثر کیا کرتا تھا۔  لیکن ضرورت پڑنے پر کچھ کرتا نہیں تھا۔  الٹا ان کے ساتھ زیادتی کرنے سے پیچھے نہ ہٹتا۔  اس نے جب سے نوکری چھوڑی تھی۔  تب سے پینے کی لت اور پال لی تھی۔  ضرورت سے زیادہ کھانا اور ہفتے میں پانچ دن اپنے کمرے میں چھپ چھپ کر پینا۔  اس پر، جب دل میں آئے، تب کسی کو بھی اپنے غصے کی بھٹی میں جھونک دینا، اس کا معمول بن گیا تھا۔  رما کے عذاب کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔  وہ تو دکھی ہو کر یہاں تک سوچ بیٹھتی تھی کہ نہ جانے پچھلے کس جنم میں کون سے گناہ کئے تھے، جو اسے ایسا ظالم، شیطانی مزاج کا شوہر ملا ہے۔  جو آمریت کے ساتھ ساتھ غلط عادات کا شکار بھی ہوتا جا رہا ہے۔  آہستہ آہستہ میاں بیوی میں رات دن جھگڑے اور بات بات پر تو تو میں میں ہونے لگی۔  ماں اور بابو جی، رما کا در د، اس کے دل کا بوجھ سمجھتے تھے۔  اپنے بیٹے کا آمرانہ پن اور حال ہی میں جنم لیتا اس کا نکما پن ان کی بہو کے ذہنی دباؤ کے لئے کافی تھا۔  لیکن وہ مجبور اور ہر لحاظ سے بے بس تھے۔

ہولی کا دن تھا۔  تہوار تو سکون سے منایا سب نے۔  لیکن دوپہر میں نہانے دھونے کے بعد، کھانے سے پہلے، آنند اپنے کمرے میں جا کر شراب گلاس میں ڈال کر پینے لگا تو برآمدے سے کپڑے سمیٹ کر، اچانک کمرے میں آئی رما نے اسے آہستہ سے ٹوک دیا کہ ’’دن میں شراب نہیں پیو گے، تو کچھ بگڑ تو نہیں جائے گا؟ ’’

بس آنند نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور رما کے منہ پر طمانچہ جڑ دیا۔  پھر کیا تھا جو تہوار اب تک گھر میں سکون سے گزر گیا تھا، کھانے کے وقت اس نے بھیانک شکل اختیار کر لی۔  گھر میں ایک کہرام مچ گیا۔  رما نے بھی طیش میں آ کر کمرے کی ایک دو چیزیں فرش پر پٹک دیں۔  بدلے میں آنند نے اس کے بال کھینچ کر، پیٹھ، کمر جہاں کہیں بھی بن پڑا تڑاتڑ مارنا شروع کر دیا۔  شور و غل، اٹھا پٹخ سن کر ملند، ماں، بابوجی اور بچے سبھی کمرے میں آ کھڑے ہوئے۔  ملند نے آنند کو پکڑ کر اسے دھکیلتے ہوئے پلنگ پر بیٹھا دیا۔  ماں رما کو گلے لگا کر دوسرے کمرے میں لے گئی۔  ’’اب یہ ہی ہونا باقی تھا اس گھر میں۔  عورت پر ہاتھ اٹھائے گا نالائق، وہ بھلے کی بات کہے، تو بھی اس خونخوار کو ناگوار لگتی ہے۔  اے ایشور اس سے تو ہمیں ہی اٹھا لے۔  اس لڑکے کو تو نہ ایشور کا خوف ہے۔  نہ ہمارا لحاظ، نہ بچوں کی فکر۔ ‘‘ ماں ناراض ہو کر بڑبڑاتی اور واویلا کرتی، رما کو تسلی دیتی، خود بھی سسک پڑی۔

اگلے دن پھر اسی طرح سورج نکلا، سویرا ہوا، سب اٹھے اور اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔  لیکن آنند کمرے سے نہیں۔ ماں کو فکر ہوئی۔  ماں تو ماں ہی ہوتی ہے۔  کل کے واقعے کے بعد رما کو آنند سے دور رکھنے کے خیال سے ماں خود ہی آنند کے کمرے میں گئی۔  کمبل ہٹا کر، اس کا ما تھا چھوا، اسے آہستہ سے ہلا کر پکارا تو، وہ بے جان سا، تھوڑا سا کسمسایا اور بولا، ’’ماں میرا سر چکرا رہا ہے۔  اٹھا نہیں جا رہا۔ ‘‘

اس کے منہ سے یہ سن کر ماں گھبرا گئی۔  فوری طور اس نے رما سے ڈاکٹر کو فون کر کے بلانے کو کہا اور بابو جی کو آنند کے پاس کھینچ کر لے گئی۔  ماں بابو جی دونوں بے چین سے، آنند کے پاس بیٹھے رہے۔  ماں آنند کے پاؤں سہلاتی رہی۔  رما بھی اس کی خدمت میں لگ گئی۔  تھوڑی دیر میں ڈاکٹر بھی آ گیا۔  سب سے پہلے اس نے بلڈ پریشر دیکھا۔  بہت بڑھا ہوا تھا۔  اتنا کہ کچھ بھی ہو سکتا تھا آنند کو۔  فوری طور دوائیں منگوا کر، وقت سے گولیاں کھانے کی ہدایت دے کر ڈاکٹر دو گھنٹے بعد، پھر آنے کے لئے کہہ کر چلا گیا۔  ڈاکٹر باہر گیٹ تک پہنچا ہی ہو گا کہ پانی کا ایک گھونٹ پینے کے لئے بیٹھا آنند اچانک بستر پر گر پڑا۔  ماں اور رما گھبراہٹ میں چلائیں۔  ملند اور مکل دوڑے دوڑے ڈاکٹر کے پیچھے گئے .۔  ڈاکٹر الٹے پاؤں لوٹا تو کیا دیکھتا ہے کہ آنند کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔  اسے زور کا ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔  ڈاکٹر نے فوری طور پر اپنے کلینک ایمبولینس کیلئے فون کیا۔  گھر میں ’’سوروٹرال‘‘ بھی نہیں تھی کہ آنند کی حالت کو بہتر کرنے کے لئے یہ گولی اس کے منہ رکھی جا سکتی۔  دیکھتے ہی دیکھتے اس کی حالت ایسی بگڑتی چلی گئی کہ سنبھل ہی نہ سکی۔  منٹوں میں وہ چیخنے چلانے والا انسان، گہری خاموشی اوڑھے سکون سے ’’اوپر‘‘ چلا گیا. جتنا بے چین وہ جیتے جی رہا، موت کے وقت اتنا ہی پر سکون ہو گیا۔  وہ کہرام مچانے والا آمر۔  بے یار و مددگار بستر پر پڑا تھا۔  گھر والے دکھ و غم تو تھے ہی، پر اس سے زیادہ اس کے یوں اچانک دنیا سے اٹھ جانے پر انہیں ایک عجیب سا دھکا لگا۔  پر ہونی کو بھلا کون ٹال سکا ہے۔

***

 

 

 

 

ایک کپ کافی

 

منوج کمار پانڈے

 

 

اسٹیج پر سُشما انتہائی خوبصورت لگ رہی تھی۔  طلسماتی دنیا بناتی ہوئی ایک جادوگرنی۔  وہی ہم میں اکیلی تھی، جو دولت اور شہرت دونوں کما رہی تھی۔  کئی بار یورپ میں اپنی پرفارمنس کر کے آ چکی تھی اور دو دن بعد ہی امریکہ جا رہی تھی۔  آج کی پرفارمنس، در اصل اسی کی گرینڈ ریہرسل تھی۔  وہ دنیا کے سبھی ملکوں میں اڑ رہی تھی اور ہمارے لئے نیپال بھی ابھی تک ودیش بنا ہوا تھا۔

سُشما کی پرفارمنس اچھی رہی، ایک دم چکاس۔  پرفارمنس ختم ہونے کے بعد میں نے سوچا کہ چلنے سے پہلے سُشما سے مل لوں، تب روانہ ہوں۔  میں اس سے ملنے کیلئے بڑھا، تو دیکھا کہ وہ لوگوں کے ہجوم میں گھری ہوئی تھی۔  ایسے میں مجھے اپنے گم ہو جانے کا ڈر ستانے لگتا ہے، پس میں نے اس سے فوری طور پر ملنے کا ارادہ ملتوی کیا اور سوچا کہ بعد میں موبائل زندہ باد۔

اس کے بعد بھی میرا بار بار دل ہوتا رہا کہ میں جاؤں اور اس سے ملوں۔  اسے ان کامیابیوں کیلئے بدھائی دوں۔  آخر اس نے ہمیں یاد تو کیا۔  بلایا تو سہی۔  پر میں احساس کمتری کی بے چینی میں گھرا رہا۔  پھر میں نے اس احساس سے نجات کا ایک حل نکالا۔  میں نے سوچا کہ میں چل کر اس سے ملوں اور بھارت ناٹیم اور فلمی گیتوں کے بے جوڑ اشتراک کیلئے اس کا استہزا اڑاؤں۔  یہ مایوسی سے پیدا ہوئی ایک نوع کی سفاکی تھی۔  میں ایسا کر بھی گزرتا، مگر مجھے لگا کہ وہ سمجھ جائے گی کہ میں ایسا کیوں کر رہا ہوں۔  پس میں باہر نکل آیا، جیب سے سگریٹ نکالی اور دھواں دھواں ہونے لگا۔

سامنے ہی گریما، بینو اور نبیلہ تھیں۔  سُشما کی چوکڑی کی باقی تین کڑیاں۔  اس چوکڑی کی پانچویں کڑی، کبھی میں ہوا کرتا تھا۔  میں نے دل ہی دل میں سُشما کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ہم چاروں کو بلایا۔  در اصل میں نے ان تینوں کو بہت دنوں کے بعد دیکھا تھا، یعنی کہانی کافی کی طلب سے بہت پہلے شروع ہوتی ہے۔

سُشما، نبیلہ، گریما، بینو اور میں۔  ہماری دوستی پورے ڈیپارٹمنٹ میں مشہور تھی۔  دین دنیا سے ایکدم الگ ہم آپس میں ہی گم رہتے۔  ہم کو دوستی کے لئے کبھی کسی اور کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوئی۔  ہم ہمیشہ ساتھ میں مگن رہتے۔  ساتھ پڑھتے، ساتھ اٹھتے بیٹھے، ساتھ میں چائے کافی پیتے، ساتھ میں فلم دیکھنے جاتے، ونڈو شاپنگ کرتے، آرچیز کی گیلری میں کارڈ چھانٹتے۔  بھلا کس کے لئے۔  ایسے ہی اپنے لئے، ہم سب کے لئے۔

میں اپنی ان پیاری دوستوں کے ساتھ اتنا رہتا کہ ڈیپارٹمنٹ کے لڑکے مجھے بھی لڑکی ہی مان کر چلتے اور ان چاروں کے ساتھ مجھے بھی چھیڑتے۔  مجھے کبھی کوئی اعتراض نہ ہوا۔  حقیقت میں، میں اپنی ان دوستوں ہی کے رنگ ڈھنگ میں ڈھل گیا تھا اور ان دنوں ان چاروں نے مجھے شاید ہی کبھی اپنے سے الگ سمجھا ہو۔  میرے سامنے کسی بھی قسم کی پریشانی شیئر کرنے میں، انہیں کبھی کوئی دقت نہیں ہوئی۔  ہم جتنی آسانی سے عامر خان اور ابھیشیک بچن کے بارے میں باتیں کر سکتے تھے، اتنی ہی آسانی سے ماہانہ پیریڈ کے دوران ہونے والی مشکلات پر بھی۔  ہم ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ہی نہیں گھومتے تھے، بلکہ ایک دوسرے کے سر، ہاتھ اور پاؤں بھی دباتے رہتے تھے۔

یہ تھی ہماری دوستی۔  اور ہماری چھوٹی چھوٹی دلچسپیاں۔ جیسے مجھے رسالوں اور اخبارات میں شائع ہونے والی کائنات کے اسرار سے متعلق اور تھوڑی عجیب و غریب اقسام کی تصاویر جمع کرنے کا شوق تھا۔  چاروں میں سے جو کوئی ایسی تصویر کہیں پاتا، کاٹ کر میرے لئے محفوظ کر لیتا۔ نبیلہ خوب فلمیں دیکھتی تھی۔  سُشما کو فلموں کا کوئی شوق نہیں تھا، پھر بھی ایسی ایک بھی فلم نہیں ہوتی تھی، جو ہم دیکھتے اور وہ ہمارے ساتھ نہ ہوتی۔  ایسے ہی سُشما کے ساتھ ہم بھارت ناٹیم اور کتھک بھی دیکھ آتے، بھلے ہمیں وہاں کچھ خاص سمجھ میں نہیں آتا تھا۔  بینو کو اُس کے بھائی نے گٹکے کی لت لگا دی تھی۔  وہ جب بھی گٹکا کھانے لگتی ہم چاروں گاتے۔۔  بھائی نہیں قصائی ہے۔  گٹکے کی لت لگائی ہے۔  تھک ہار کر بینو نے گٹکا چھوڑ ہی دیا۔  یہ اور بات ہے کہ آگے آنے والے دنوں میں، ہم نے سگریٹ کے سٹے بھی مارے۔

لیکن وقت بدلتا ہے اور اپنے ساتھ وہ ہمیں بھی بدلتا جاتا ہے۔  ہم ایسا کوئی انتظام نہیں کر سکے کہ ہم تمام عمر ایک ساتھ رہ پاتے، سو ہم آہستہ آہستہ بچھڑنے لگے۔  سب سے پہلے بینو نے ساتھ چھوڑا۔  وہ تحقیق کے لئے الہ آباد چلی گئی، کیونکہ اس کے پاپا کا ٹرانسفر الہ آباد ہو گیا تھا۔  ابھی اس کی تحقیق مکمل نہیں ہو پائی تھی کہ اس کے پاپا نے اس کی شادی کر دی اور وہ مس بینو سے مسز شرما بن کر لکھنؤ واپس آ گئی۔  اس نے تحقیق درمیان میں چھوڑ دی اور بی ایڈ کے لئے بنارس چلی گئی۔  بی ایڈ کر کے لوٹی تو دوبارہ تحقیق جوائن کی۔  ایسے ہی اس نے نیٹ بھی کیا اور اب پرائمری اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک، جاب کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔  سُشما ہماری دوست ہونے سے بھی بہت پہلے سے ہی بھارت ناٹیم سیکھ رہی تھی۔  اب وہی بھارت ناٹیم اس کے کام آ رہا ہے۔  اس نے بھارت ناٹیم کے ساتھ کچھ مقبول فلمی گیتوں کے فیوژن تیار کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے مارکیٹ میں ایک نشہ بن کر چھا گئی۔  ملک و بیرون ملک میں ایک کے بعد ایک شو۔  صرف گزشتہ ماہ ہی اس کا دوسرا البم مارکیٹ میں آیا، جو جیسے جادو کے زور سے دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گیا۔  گریما شادی کر کے دہلی چلی گئی اور ہاؤس وائف بن گئی۔ نبیلہ نے گزشتہ تین سالوں میں یونیک سے لے کر یونیورس تک سب کچھ چاٹ ڈالا ہے۔  پرتِیوگِتا درپن، پرتِیوگِتا کرن، ماہانہ یوجنا، کروک شیتر، دی ہندو سے لے کر روملا تھاپڑ، عرفان حبیب اور شیاماچرن دُوبے تک اس نے سب کچھ اس طرح ہضم کر ڈالا ہے کہ اس کا ہاضمہ خراب ہو گیا ہے۔  وہ مرکزی سول امتحانات سے لے کر ایس ایس سی تک کی تیاری، ایک ساتھ کر رہی ہے۔  کبھی پری، کبھی جی مینس، کبھی انٹرویو، بس اس کے آگے کچھ بھی نہیں۔  کبھی کی حاضر جواب چلبلی نبیلہ، پہلے والی نبیلہ لگتی ہی نہیں۔  کبھی ہم دونوں کی ترکی بہ ترکی خوب جمتی تھی، پر آج ہم دونوں کی ہی چمک غائب ہو چکی ہے۔ نبیلہ کی آنکھوں کے نیچے کالے سیاہ حلقے پڑ رہے ہیں۔  چہرے پر ہمیشہ دکھنے والا کھلنڈرا پن، پتہ نہیں کہاں گم ہو چکا ہے۔  وہی میں، جو پہلے بات بات پر بھڑک اُٹھتا تھا، اب ’’ کول‘‘ ہو گیا ہوں، کیونکہ میں ایک طرح کی ’’ فری لانسینگ‘‘ کر رہا ہوں، جس کے لئے ’’کول‘‘ ہونا پڑتا ہے۔  اس کے بِنا کوئی پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔

میں آج کل ایک کے بعد ایک این جی اوز کی سیر کر رہا ہوں۔  چھوٹے چھوٹے پروجیکٹس اور عارضی نوکریاں۔  نہ بے روزگاری مستقل ہے، نہ روزگار، بس کسی طرح زندگی چل رہی ہے، گھسٹ رہی ہے۔  اُدھر گھر میں پتا جی میری کسی نہ کسی طرح سے گھسٹتی زندگی میں، ایک اور ڈبہ جوڑنے پر تلے ہیں۔

ہم جو ایک زمانے میں اڑتے رہتے تھے۔  بڑی بڑی اونچائیوں، گہرائیوں کو ناپنے کا خواب دیکھا کرتے تھے۔  اب ان کے بارے میں سوچ کر بھی ہمارا جی گھبراتا ہے۔  دم الٹتا ہے۔  جیسے ہماری آنکھوں میں جان بچی ہی نہیں ہو۔  جیسے ہمارے پاس پیر ہی نہیں رہے ہوں۔  جیسے ہم مردہ مچھلیاں ہوں، جو مرنے کے بعد، سڑنے کے لئے، گہرائیوں سے اوپر سطح کی طرف اچھال دی گئی ہوں۔  جیسے ہم بہت بہت اوپر اڑ رہے ہوں اور کسی نے ہمارے پر ہی کاٹ دئے ہوں۔  گرنا ہم سب کی قسمت ہے۔  زیادہ سے زیادہ، یہ ہو سکتا ہے کہ نبیلہ آئی اے ایس کی کرسی پر گر جائے، پر اس دوران جو کچھ ہمارے نہاں خانوں میں مر گیا ہے، وہ تو مرا ہی رہے گا۔

سامنے تینوں کھلکھلا رہی تھیں اور خوش لگ رہی تھیں۔ جبکہ میں اپنے اندر اداسی کا ایک تھپیڑا جھیل چکا تھا۔  مجھے جرات نہیں ہوئی کہ میں ان لوگوں کے پاس جاؤں۔  میں نے دروازے کی طرف اپنے قدم بڑھائے ہی تھے کہ پیچھے سے آواز آئی۔

’’ارے حضور ایسی بھی کیا بے رخی۔  ذرا ایک نظر اِدھر بھی ڈالتے جاؤ۔ ‘‘ یہ نبیلہ تھی۔  ہمیشہ سے ایسی ہی۔

اب بچ کر نکلنا ممکن نہیں تھا۔  پہلے میں نے سوچا کہ کہہ دوں کہ میں نے ان سب کو دیکھا ہی نہیں تھا۔  لیکن فوراً ہی لگا کہ یہ گھسا پٹا اسٹائل تو یہاں چلنے سے رہا، سو انہیں، انہی کے انداز میں جواب دیتے ہوئے بولا، ’’ایک ساتھ تین تین پریوں سے ٹکرانے کی ہمت نہیں تھی نا اس لیے۔ ‘‘

’’ڈرو مت، ہم اپنی باری آپس میں طے کر لیں گے۔ ‘‘ یہ بینو تھی۔

’’یہ تو ٹھیک ہے، پر یہ بھی سوچا ہے کہ میرا کیا ہو گا؟‘‘

’’چپ کر بے شرم لڑکے۔  ’’ دوبارہ بینو بولی، ’’چلو کہیں باہر چلتے ہیں۔ ‘‘

’’کہاں ؟‘‘

’’کہیں بھی۔ ‘‘

’’تو سامنے کھڑا سگریٹ پی رہا تھا۔  میرا بھی بہت دل کر رہا ہے۔  مہینہ بھر تو ہو گیا ہو گا کم از کم۔ ‘‘ پھر سے نبیلہ بولی۔

’’چل کار میں بیٹھ کر پیتے ہیں۔ ‘‘ بینو نے کہا۔

’’نہیں بابا کار میں نہیں۔  ‘‘ یہ مسز گریما ہیں۔

’’کیوں ؟‘‘ بینو نے کہا۔

’’گھر جاتے ہی پاپا کو گاڑی لے جانی ہے۔  ‘‘ گریما نے کہا۔

’’ارے چل، انکل کو پتہ تھوڑے نہ چلے گا اور چل بھی گیا تو تو بھی تو ایک بچے کی ماں بن چکی ہے۔ ‘‘ بینو بولی۔

’’انکل کچھ کہیں گے تھوڑے ہی۔ ‘‘نبیلہ نے لقمہ دیا۔

’’نہ بابا۔  پاپا ویسے بھی کہاں کچھ کہتے ہیں۔  ان کا ایک نظر ڈالنا ہی کافی ہوتا ہے۔ ‘‘

’’کوئی پرابلم نہ ہو تو تم لوگ میرے کمرے پر چل سکتے ہو۔  یہیں پاس میں ہے۔ ‘‘ میں نے آفر کی۔

’’حضور بندہ پرور ہوا کیا ہے آپ کو؟ ہمیں بھلا کیوں پرابلم ہونے لگی۔  ہاں حضور کو ہو تو۔۔ ۔۔ ‘‘نبیلہ نے کہا۔

راستے میں سگریٹ کا پیکٹ اور سویٹی سپاری لیتے ہوئے ہم کمرے میں پہنچے۔  تھوڑی دیر بعد کمرے کے اندر دھواں ہی دھواں دکھائی دے رہا تھا۔

’’آہا! مجھے تو دو کش میں ہی چڑھ گئی۔  آج کتنے دنوں بعد پی رہی ہوں۔ ‘‘نبیلہ بولی، ’’سنیل تم بھی لو نا۔ ‘‘

’’نہیں میرا جی نہیں کر رہا ہے۔  میں نے ابھی تو پی تھی۔ ‘‘ میں نے کہا۔

”ارے چھوڑ نہ اُسے۔  تین تین لڑکیوں کے بیچ میں ہے، تو سگریٹ کیوں لے گا۔  لڑکی لے گا نا۔ ‘‘ بینو بولی۔

’’تین تین لڑکیاں۔  وہ بھی نشے میں۔ ‘‘نبیلہ مسکرائی۔

’’سگریٹ کا نشہ؟‘‘ میں نے کہا۔

’’نشہ تو نشہ ہے جانِ من۔  اپنے ساتھ ہمیشہ بہکنے کی گنجائش لے کر آتا ہے۔ ‘‘نبیلہ نے منطق جھاڑی۔

’’سنیل خوش رہ۔  تیرے بال بچے جئیں۔  تو نے تو مست کر دیا۔ ‘‘ بینو بولی۔

’’اوئے، بال بچوں کے لئے ایک عدد بیوی کی ضرورت ہوتی ہے۔  وہ کہاں ہے ؟‘‘ میں۔

’’ارے فکر کا ہے کو کرتا ہے، آ ہی جائے گی۔ ‘‘ بینو۔

’’ایسے ہی دیویوں کو چڑھاوا چڑھاتا رہ۔ ‘‘نبیلہ۔

’’اچھا چلو اٹھو بھی تم لوگ۔  ابھی چلتے ہیں۔  ابھی راستے میں بھی کچھ کام ہے اور آٹھ بجے تک پاپا کو گاڑی بھی دینی ہے۔ ‘‘ گریما۔

’’اتنی جلدی؟‘‘ میں۔

’’اور کیا ابھی تو ہم بیٹھے ہی ہیں۔ ‘‘نبیلہ۔

’’تو؟‘‘ گریما۔

’’آج اتنے دنوں بعد ہمیں ایک ساتھ ملنے کی خوشی ملی ہے، بس دھواں اڑا کر ہی الگ ہو جائیں گے ؟‘‘ بینو بولی، ’’چلو کہیں کافی ووفی پیتے ہیں۔ ‘‘

’’کافی! کہاں ؟‘‘ گریما۔

’’کہیں بھی۔  آس پاس کسی بھی اچھی جگہ۔ ‘‘ بینو۔

’’دیر نہیں ہو گی۔ ‘‘ گریما۔

’’چپ کر۔  پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ ‘‘نبیلہ۔

پل بھر بعد ہم گاڑی میں تھے۔  اور منہر کیفے کپورتھلہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔

’’اے بینو، سامنے اس آدمی کو دیکھ نہ، ایک دم بھوت لگ رہا ہے۔ ‘‘نبیلہ۔

’’ کہاں مجھے دکھا ؤ، میں نے بہت دنوں سے کوئی بھوت نہیں دیکھا۔ ‘‘ میں۔

’’کیوں، میں ہوں تو سامنے۔ ‘‘نبیلہ۔

’’تم تو ڈائن ہو۔  میں بھوت کی بات کر رہا تھا۔ ‘‘ میں۔

’’تو کبھی کبھی آئینہ دیکھ لیا کرو۔  ویسے تم یہ بتاؤ کہ کیا کوئی ڈائن میری جتنی حسین ہو سکتی ہے ؟‘‘نبیلہ۔

’’اور کیا۔  بلکہ چڑیلیں ہی اتنی حسین ہو سکتی ہیں کہ شکار اپنا لہو ٹپکاتا جگر لئے، خود بہ خود ان کے آگے پیچھے گھومے۔ ‘‘

’’اے گریما، دیکھ کے گاڑی چلا۔  تیرے تو بچہ بھی ہو گیا۔  میرا تو ابھی کنیا دان بھی نہیں ہوا۔ ‘‘نبیلہ۔

’’ کنواری دان تو ہوا ہے نا۔ ‘‘ بینو۔

’’ چپ بد تمیز۔ ‘‘نبیلہ۔

’’نبیلہ تو سنیما چل نہ کسی دن۔  کوئی فلم دیکھے کتنے دن ہو گئے۔ ‘‘ بینو۔

’’یار ایسی باتیں پبلک لی کیوں کہا کرتی ہے۔  کان میں کہا کر۔ ‘‘نبیلہ۔

’’نبی، تو پبلک کسے کہہ رہی ہے ؟‘‘ میں۔

’’میں نے کچھ نہیں سنا۔ ‘‘ گریما۔

’’تب ٹھیک ہے۔ ‘‘نبیلہ۔

’’کیا ٹھیک ہے، تم لوگ سنیما جانے کا پروگرام بنا رہے ہو، مجھے پوچھا بھی نہیں۔ ‘‘ میں۔

’’سنیما! یہ کیا ہے ؟‘‘ گریما، ’’وہی جس صنم کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں اور اندھیرے سے ہال میں، بہت سارے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر بڑے سے سفید پردے پر دیکھا جاتا ہے۔ ‘‘

’’بور مت کر صحیح بتا نہ کیا دیکھنا ہے تجھے۔ ‘‘ بینو۔

’’مجھے گرم مسالا دیکھنی ہے۔ ‘‘ میں۔

’’تجھے ہو کیا گیا ہے سنیل؟ تجھے اور کوئی فلم نہیں ملی۔  تجھے پتہ ہے نا کہ مجھے اکشے کمار کو دیکھ کر بھی قے آتی ہے۔ ‘‘نبیلہ۔

’’پتہ نہیں، پر آج صبح سے ہی میرے ساتھ کچھ گڑبڑ ہے۔  صبح sudoku بھی پورا نہیں بھر پایا۔ ‘‘ میں۔

’’سدھر جا بیٹا، اب بھی سدھر جا۔ ‘‘نبیلہ۔

منہر کیفے کے سامنے کہیں گاڑی پارک کرنے ہی جگہ نہیں تھی۔  گریما تھوڑا آگے بڑھ گئی اور آرین کے سامنے کار جا لگائی۔  گاڑی سے اتر کر ہم منہر کی طرف آ ہی رہے تھے کہ ’’اے دیدی جوڑی سلامت رہے ‘‘کہتا ہوا ایک لڑکا ہم لوگوں کے سامنے آ کھڑا ہوا۔  اس کے ہاتھ میں اسٹیل کا ایک کین تھا، جس میں سرسوں کا تیل پڑا ہوا تھا۔  سرسوں کے تیل میں نیچے دو چار سکے چمک رہے تھے۔  لڑکا بار بار منع کرنے کے باوجود ناٹک کر رہا تھا۔ نبیلہ سے اس کا ناٹک پن برداشت نہیں ہوا، تو اس نے ایک سکہ اس لڑکے کے کین میں ڈال دیا اور بولی، ’’اب چلتا بن۔ ‘‘

’’باپ رے، لکھنؤ تو لگتا ہے اب بھکاریوں کا ہی شہر ہو گیا ہے۔  جدھر جاؤ اُدھر بھکاری ہی بھکاری۔ ‘‘ گریما۔

’’لکھنؤ ہی کیوں یہ ملک ہی بھکاریوں کا ہو گیا ہے۔  دیکھتی نہیں ہو، ہمیشہ کوئی نہ کوئی منسٹر کٹورا لے کر امریکہ یا ورلڈ بینک کے سامنے کھڑا گھگھیاتا رہتا ہے۔  تم تو دہلی میں رہتی ہو، سارے بھکاریوں کے سرتاج وہیں رہتے ہیں۔ ‘‘ میں۔

’’بور نہ کرو سنیل۔ ‘‘نبیلہ۔

’’میں بتاؤں، ایک بار میں بھائی کے ساتھ امین آباد جا رہی تھی۔  بھائی ایک جگہ ٹریفک پر رکا، تو شنی کی کالی مورتی اور سرسوں کا تیل لئے، ایک لڑکا پاس آ گیا۔

’’۔۔ ۔  اے بابو، جوڑی سلامت رہے۔  سنیچر مہاراج کے لئے ایک روپیہ دان۔۔ ۔ ‘‘

’’ارے دور پھینک دو اسے۔ شنی تم پر سوار ہو رہا ہے۔  دیکھو کتنے کالے ہو گئے ہو تم۔  پچھلی بار ملے تھے تو کتنا صاف رنگ تھا تمہارا۔ ‘‘ بھائی زور سے ڈانٹنے والے انداز میں بولا۔  لڑکے سٹپٹا گیا اور تیل کا کٹورا اس کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا۔  وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگا، جیسے اس بیچ سچ مچ اور کالا ہو گیا ہو۔  اس دوران ٹریفک کھلا اور بھائی آگے بڑھ گیا۔  بھائی بہت دیر تک اس لڑکے پر ہنستا رہا۔  پر میں تو اداس ہو گئی۔  پتہ نہیں کیوں وہ لڑکا مجھے کئی دنوں تک یاد آتا رہا۔ ‘‘ بینو بولی۔

’’اور تو اور تجھے ایک دن وہ خواب میں بھی دکھا تھا نہ۔ ‘‘نبیلہ۔

’’ چپ اسٹوپڈ۔ ‘‘ بینو۔

’’ارے پاگل میں تیری ہی بات تو آگے بڑھا رہی ہوں۔ ‘‘نبیلہ۔

پاس میں پان کے خوانچے پر ہیپیوں کے بھیس میں چار لڑکے کھڑے تھے۔  اندازاً سولہ سے بیس کی درمیانی عمروں کے۔  ایک کی داڑھی مونچھ اگتی ہوئی، باقی بالکل چکنے، چاروں لڑکے سگریٹ پی رہے تھے اور آتی جاتی لڑکیوں کو دیکھ کر پتہ نہیں، کیا کیا باتیں کر رہے تھے۔  خود ستائش اور خورسندگی سے ان کے چہرے پھیل سکڑ رہے تھے اور ان کے کھڑے ہونے کا ا سٹائل کچھ اس طرح تھا کہ اس کے لئے انہیں شرطیہ کافی ریہرسل کرنی پڑی ہو گی۔

کسی کی جینز کٹی ہوئی، تو کوئی ٹی شرٹ الٹی پہنے۔ کانوں میں ائیر رنگز اور بندے اور ہاتھوں میں موٹی زنجیروں جیسی چیزیں، ان کی اداؤں کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو رہی تھیں۔  ان کے ہونٹ سسکاری لینے کے انداز میں مسلسل گول اور لمبے ہو رہے تھے۔  اس عمل میں ان کے سوکھنے والے ہونٹوں کو زبان بار بار تر رہی تھی۔

’’لکھنؤ میں کتنے لوفر بچے پیدا ہو گئے ہیں۔  کیا ہو گا ان سب کا؟‘‘ نبیلہ۔

’’کریں گے کیا، وہی ہو گا جو ہمارا ہو رہا ہے۔  کچھ کو تو وقت کی مشکلیں سدھار دیں گی، جو نہیں سدھریں گے، وہ سیاست دانوں اور پولیس کے چمچے بن کر ہمیں لوٹیں گے اور عیش کریں گے۔ ‘‘ میں۔

’’سنیل یہی دقّت ہے تمہاری۔  ہمیشہ سیاسی تبصرے کرنے لگتے ہو اور ہمیشہ سیاست دانوں کی طرح سطحی باتیں کیا کرتے ہو۔  کیا عیش کریں گے یہ، زیادہ سے زیادہ یہ سسٹم کی بساط پر کچھ مہرے بھر بن سکتے ہیں۔  اور سسٹم جب چاہے گا، ان کا سر قلم کر دے گا۔ ‘‘نبیلہ۔

’’کافی آ گئی۔  لو کافی پیو اور چپ کرو۔  اتنے دنوں بعد ملے ہیں، تو یہی جنگ کرنے کے لئے۔ ‘‘ بینو بولی۔

’’پتہ ہے نبی، پچھلی بار دہلی آئی تو اس کے پاس صرف دو دن تھے۔  جس میں سے ایک دن تو ایسے ہی بولتے، باتیں کرتے نکل گیا اور دوسرے دن کے لئے ہم نے تین آپشنز پر غور کیا۔  راجیش اپنے آفس ٹور پر تھا، سو ہم نے سوچا کہ ہم ڈسکو جائیں گے اور جی بھر کے ناچیں گے یا پھر ہم لال قلعہ جائیں گے۔۔ ۔ ‘‘ گریما۔

’’اور جھنڈا لہرائیں گے۔ ‘‘ میں۔

’’تم تو بیچ میں مت ہی بولو۔ ‘‘ گریما بولی، ’’پھر ہم کہیں نہیں گئے۔  ہم گھر پر ہی رہے۔  جی بھر کے دارو پی۔  اس سے زیادہ جی بھر کے باتیں کیں۔  فل والیوم میں گانے لگا کر ناچے۔  ناچتے ناچتے گرے اور سو گئے۔ ‘‘

پھر وہ تینوں آپس میں باتیں کرنے لگیں۔  پتہ نہیں کیوں میرا دل کر رہا تھا کہ میں وہاں سے اٹھوں اور نکل جاؤں۔  ہم انتہائی درجے کی بیکار باتیں کر رہے تھے۔  ہم آپس میں ایک دوسرے کے اتنے قریب رہے تھے اور آج ہم آپس میں طریقے سے بات بھی نہیں کر پا رہے تھے۔  بات چیت کے نام پر مسلسل ادھر ادھر گھوم رہے تھے اور ولگر ہو رہے تھے۔

میں ان تینوں سے ہٹ کر باہر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔  میرے سامنے ایک سترہ اٹھارہ سال کی معصوم سی لڑکی اسکوٹی پر بیٹھی تھی۔  اس کے بال چھوٹے تھے اور دونوں طرف کانوں پر چڑھے ہوئے تھے۔  وہ جینز اور جیکٹ پہنے ہوئے تھی۔  کبھی کبھار وہ یہاں وہاں دیکھتی پھر سامنے خلاؤں میں دیکھنے لگتی۔  میں بہت دیر تک اس لڑکی کو دیکھتا رہا اور اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا کہ لڑکی کیا سوچ رہی ہو گی۔  آخر کار میں نے ایک آسان سے جواب پر ٹِک کیا کہ وہ اپنے پریمی کی راہ دیکھ رہی ہو گی، پر فوری طور پر ہی میں نے اپنے اس جواب کو مسترد کر دیا۔  اب میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی اسے بلیک میل کر رہا ہو، شاید اسی لیے وہ گھڑی بھی نہیں دیکھ رہی ہے۔  چہرے پر کسی طرح کے انتظار کی بے چینی نہیں، کوئی جھنجلاہٹ نہیں، بس ایک معصوم سی مایوسی۔  ضرور یہی بات ہو گی۔  اسے انتظار تو ہو گا پر کسی ایسے شخص کا، جس سے وہ ملنا نہیں چاہتی، بلکہ وہ تو چاہتی ہو گی کہ وہ آئے ہی نہیں۔  کبھی نہ آئے۔  اس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے۔  اس کے اوپر بجلی گرے۔  کہیں سے ایک گولی آئے اور اس کے سینے کے پار ہو جائے۔  اس کا بیڑا غرق ہو جائے۔  پر شاید وہ اپنی ان خواہشات کی حقیقت جانتی ہو، اسی لیے اتنی خاموش، اتنی مایوس ہے۔

میں اس لڑکی کے لئے دکھی ہو گیا۔  دکھی ہوتے ہی وہ مجھے اور بھی معصوم اور پیاری لگنے لگی۔  ٹھیک اسی لمحے پتہ نہیں کہاں سے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ وہ اگر لڑکی نہ ہوتی یا پھر اتنی حسین اور معصوم نہ ہوتی، تب بھی کیا مجھے اس کے لئے دکھ ہوتا؟

’’سنیل تم لڑکیوں کو کب سے گھورنے لگے۔  گھورنا ہی ہے تو ہم تین کم ہیں کیا؟‘‘نبیلہ بولی۔

’’ چپ کرو۔  میں لڑکی کو بھلا کیوں گھوروں گا۔ ‘‘

’’کیوں، تم لڑکی کو نہیں گھورو گے، تب بھلا کسے گھورو گے ؟بائی دی وے، تم ادھر دیکھ کر کیا رہے تھے ؟‘‘نبیلہ۔

’’میں۔۔ ۔  مجھے لگ رہا ہے کہ اس کی اسکوٹی کے پچھلے ٹائر میں ہوا کم ہے۔  اوپر سے اس نے ہیلمٹ بھی نہیں پہن رکھا۔  اس کا چالان ہو گیا تو۔۔ ۔ ‘‘

’’اوئے ہو۔۔ ۔  بڑی تشویش ہو رہی ہے حضور کو اس کی۔  حضور بندہ پرور کبھی کبھی اس بندی کی بھی فکر کر لیا کریں۔ ‘‘ گریما۔

’’سنیل کیا تم اب بھی عجیب مگر حقیقی ٹائپ کی تصویریں جمع کرتے ہو؟‘‘ گریما۔

’’کبھی کبھی۔  کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ میں خود عجیب مگر حقیقی ٹائپ تصویر بنتا جا رہا ہوں۔ ‘‘

’’کون سی نئی بات کر رہے ہو۔  میں تو تمہیں جب سے جانتی ہوں، تب سے ایسے ہی ہو۔ ‘‘نبیلہ۔

’’اچھا تو بتا نبی، تیرا کیا حال؟۔  اب بھی تو عامر خان کی ویسی ہی دیوانی ہے ؟‘‘ میں۔

’’نہیں۔  اب فلمیں دیکھنے سنیما نہیں جا پاتی۔  کبھی کبھی گھر میں ہی ڈی وی ڈی لا کر دیکھ دیتی ہوں، پر اب ویسا کریز نہیں رہا۔  باہر نکلنا پیسے اور وقت دونوں کی بربادی ہے۔  اب اتنا وقت کہاں کہ برباد کریں۔ ‘‘نبیلہ۔

’’نبی ہو کیا گیا ہے ہم لوگوں کو؟۔  اس سنیل کو دیکھ کیسی منحوسوں جیسی بات کر رہا ہے۔  تیرے پاس عامر خان کے لئے بھی وقت نہیں بچا۔  خود میں۔۔ ۔  مجھے یاد نہیں آخری بار کب آرچیز گئی تھی۔۔ ۔  کب آئس کریم کھائی تھی۔۔ ۔  اور کب ہنسی تھی۔  ادھر سُشما کو دیکھ کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔  اس میں ایسا کیا تھا، جو ہم لوگوں میں نہیں تھا۔۔ ۔  کیا ہے اس میں ایسا سنیل، جو ہم چاروں میں کسی کے پاس نہیں ؟‘‘ بینو بولی۔

’’چھوڑ نہ بینو، تو جیلس ہو رہی ہے۔ ‘‘میں۔

’’نہیں میں جیلس نہیں ہو رہی ہوں۔  میں سمجھنا چاہتی ہوں۔  آج ہم جو جیسے ہیں، ایسے تو نہیں ہونا چاہتے تھے۔۔ ۔  پھر ایسے کیوں ہیں ہم؟۔  کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ سُشما کے بارے میں لوگ جو کچھ بھی کہتے ہیں، وہ سچ ہے۔ ‘‘

’’کیا کہتے ہیں ؟‘‘ میں، نبیلہ ایک ساتھ بولے۔

’’کہ وہ بیوروکریٹس اور منسٹرز کے لئے، ان کے بیڈ روموں میں بھی بھارت ناٹیم کرتی ہے۔ ‘‘

’’بینو مائنڈ یور لینگویج۔  تم جلن میں ولگر ہو رہی ہو اور واہیات باتیں کر رہی ہو۔  تم اپنی ناکامی کی فرسٹریشن سُشما پر کیوں نکال رہی ہو۔  ہم کچھ نہیں کر پا رہے ہیں تو اس میں اس کی کیا غلطی۔ ‘‘نبیلہ۔

’’غلطی ہے۔  آج اس کے پاس ہمارے لئے وقت نہیں ہے۔  کل کو وہ ہمیں پہچاننا بھی بند کر دے گی۔ ‘‘

’’تو۔۔ ۔  ہو سکتا ہے حقیقت میں اس کے پاس وقت کم ہو۔  تو ہی بتا۔۔ ۔  وہ لکھنؤ میں کتنا رہتی ہے اور یہ بتا بینو کہ کیا ہم سب اپنے لئے سُشما جیسا مقام نہیں چاہتے ؟‘‘نبیلہ۔

’’نبی، سُشما کو چھوڑ، وہ تو ابھی ساتھ بھی نہیں ہے نا۔ ‘‘بینو۔

’’تو؟‘‘نبیلہ۔

’’لیکن ہم ساتھ ہیں۔  کتنے دنوں کے بعد آج ایک ساتھ ہیں۔  چل کسی دن سنیما چلتے ہیں۔  ہم سب ساتھ ساتھ۔  ابھی گریما بھی آئی ہے۔۔ ۔۔  جو درمیان میں ہے ہی نہیں، چاہے جینوئن لی یا چاہے جان بوجھ کر۔۔ ۔  ہم کیوں کریں اس کی اتنی باتیں۔  میں نے کی، مجھ سے غلطی ہوئی۔  سُشما کی کلاس بدل گئی ہے اب۔  پر ہم تو ابھی ایک جیسے ہی ہیں۔  چل نہ کسی دن ہم سارا دن ساتھ ساتھ گزارتے ہیں۔ ‘‘ بینو نے کہا۔

’’پندرہ دن بعد ہی مجھے سول کا مینس دینا ہے۔  دے لوں پھر چلتے ہیں کسی دن۔ ‘‘نبیلہ۔

’’چھوڑ نبی یہ مینس ویمنس کا چکر۔۔ ۔ ‘‘ میں۔

’’کیوں چھوڑ دوں، وہی ایک طریقہ ہے جو مجھے اپنے مطلب کی زندگی دے سکتا ہے۔  روز دس دس گھنٹے پڑھائی کر رہی ہوں میں۔  گھر کے کام الگ۔  ابو مسلسل کہنے لگے ہیں کہ بند کرو پڑھائی وڑھائی۔  شادی کرو اور اپنے گھر جاؤ۔  سارے کزنز کی شادیاں ہوئی جا رہی ہیں۔  ان کو لگتا ہے کہ کل کو مجھے کوئی شوہر ہی نہیں ملے گا۔  آج کل کتابوں اور میگزینوں کے لئے بھی ابو سے پیسے مانگنے میں ڈر لگتا ہے کہ پھر وہی شادی بیاہ کا رونا شروع کر دیں گے۔  چلو شادی کرو اور قید ہو جاؤ۔  گھر، میاں اور بچوں کے بیچ۔ ‘‘

’’ واقعی وقت نے کتنا تبدیل کر دیا ہمیں۔  آج سے پانچ سال پہلے ہم ایگزام سے دو دن پہلے بھی دن بھر مٹرگشت کر سکتے تھے اور آج۔۔ ۔ ‘‘میں۔

’’تم پانچ سال پہلے کے ہی وقت پر کیوں جھول رہتے ہو؟۔ ہماری وہی غفلت ہمیں آج بھاری پڑ رہی ہے۔  تم جو دو دو پیسے کے کاموں کے لئے ایک سے دوسرے این جی اوز کا چکر لگایا کرتے ہو۔۔ ۔  چھوڑو زمانہ بہت بدل گیا ہے میری جان۔  اس پرانی مستی کی بات کرنے میں بھی آج خطرہ ہے۔ ‘‘نبیلہ۔

میرے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا۔  نبی ان لمحات کو لاپرواہی کہہ رہی تھی، جو ہماری زندگی کے سب سے خوبصورت لمحات تھے۔  کیا ہماری دوستی غلط تھی۔  یا ساتھ میں کی گئی ہماری مستیاں، بدمعاشیاں، پورے کئے گئے تمام شوق، کفر تھے ؟۔  کیا ہم آج اسی لئے تباہ ہو رہے ہیں، کیونکہ ہم نے حکومتِ ہند کے تمام کورسیز کا گہرائی سے مطالعہ نہیں کیا۔  نبی ایسا سمجھتی ہو تو سمجھے۔۔ ۔  میں نہیں مانتا۔

گریما کا فون آ گیا۔  وہ فوراً جانے کے لئے اٹھی۔  نبی کا گھر گریما کے راستے میں پڑتا ہے۔  گریما نے نبی سے کہا کہ وہ بھی ساتھ چلے، وہ اسے گھر چھوڑتی ہوئی نکل جائے گی۔  نبی فوری طور پر تیار ہو گئی۔  ہم ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور پھر الگ ہو گئے۔  نبی اور گریما نکل گئیں، تو میں اور بینو بھی کپورتھلہ چورا ہے کی طرف بڑھے۔  ہم دونوں ہی خاموش تھے۔  ایک گہری اداسی ہم پر طاری ہو چکی تھی۔  دونوں ہی اپنے اندر گھسے ہوئے تھے۔

’’رکشہ کر لیں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’نہیں، آؤ تھوڑا پیدل چلتے ہیں۔  پہلے خوب پیدل چلتی تھی۔  اب کوئی ساتھی نہیں ملتا۔ ‘‘ بینو بولی۔

’’سنیل، تھوڑا آہستہ چلو نا۔  تم لڑکے کتنا تیز چلتے ہو۔  پنکج کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔  ساتھ چلتے ہوئے وہ بار بار آگے نکل جاتا ہے۔  اسے بار بار ٹوکنا پڑتا ہے اور ٹوکنے پر کہتا ہے کہ آہستہ ہی تو چل رہا ہوں۔ ‘‘

’’کیا حال ہیں پنکج کے ؟‘‘

’’ٹھیک ہی ہے۔۔ ۔۔  سنیل کہیں کچھ ہو تو بتانا۔  میری ریسرچ بھی اب مکمل ہو گئی ہے۔  کوئی فیلو شپ یا اور کوئی کام، کسی این جی اوز میں ہی سہی۔  تمہارا جان پہچان تو تمام این جی اوز میں ہو گی۔  شادی کے بعد اب پاپا سے کچھ مانگتے اچھا نہیں لگتا۔  پنکج کو تم جانتے ہی ہو۔  ان لاز کو بھی لگتا ہے کہ روز روز بن سنور کر جاتی ہے۔  کمانا کچھ نہیں خرچے ہزار۔  کم از کم اپنا خرچ تو مجھے اٹھانا چاہیے۔ ‘‘

میں نے بھی اپنے حالات بیان کرنا شروع کئے۔

’’گھر میں سب سے بڑا ہوں۔ پتا جی اسی سال ریٹائر ہو رہے ہیں۔  ابھی انہیں دو بہنوں کی شادیاں بھی کرنی ہیں۔  بھائیوں کی پڑھائی کا خرچ الگ۔  سیدھے تو نہیں کہتے پر اشاروں میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ کم از کم بھائیوں کی پڑھائی کا خرچ اٹھا لوں۔  تم ہی بتاؤ، میرے لئے یہ ممکن ہے ؟‘‘

’’صرف چھ ہزار پاتا ہوں۔  اسی میں مکان کا کرایہ، کھانا پینا، روز کے اخراجات۔  اپنا ہی خرچ پورا نہیں پڑتا، گھر کی مدد کہاں سے کروں۔  دو ماہ بعد یہ پروجیکٹ بھی ختم ہو رہا ہے۔  کچھ نیا کام ہاتھ میں نہیں آیا، تو یہ چھ ہزار بھی ہاتھ سے جا رہے ہیں۔ ‘‘

ہم دونوں پھر سے خاموش ہو گئے۔  میٹروپولیٹن آیا تو ہم آٹو رکشہ میں بیٹھ گئے۔  مجھے لگا کہ مجھے اپنی پریشانیاں، اس سے نہیں کہنی چاہیے تھیں۔  شاید وہ بھی ایسا ہی کچھ سوچ رہی ہو۔

ایچ ایل آیا تو وہ بائے سنیل پھر ملتے ہیں، بولتی ہوئی اتر گئی۔

میں نے بھی بائے کہا۔

ابھی تھوڑی دیر بعد اراولی موڑ آئے گا اور میں بھی اتر جاؤں گا۔

***

 

 

 

اکلوتی بیوی

 

ارچنا سنہا جیا

 

 

آج کی شام ایک عجیب سا احساس لئے ہوئے ہے۔  ایسا لگ رہا ہے کہ پھر وہی بے بس شام زندگی میں دستک دے رہی ہے۔  جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔  ویسے دیکھا جائے تو یہ ایک عجیب بات تھی میں، گایتری یعنی میں اُسی ہسپتال میں اُسی بستر پر، اُسی کیبن میں دس دنوں سے بیمار پڑی ہوں۔  یہ محض اتفاق ہی تو تھا اور کیا تھا؟ مگر میری آنکھیں دھندلی ہو چلیں تھیں کیونکہ آنسوؤں نے ان میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔  ڈاکٹروں کے مطابق میں تین چار مہینوں سے زیادہ نہیں جینے والی تھی۔  ایک بڑی بیماری نے میرا دامن کو تھام رکھا تھا۔

میں بستر پر لیٹی لیٹی اپنی زندگی کے سارے گزرے لمحات کو جیسے کسی فلم کی طرح دیکھنے لگی تھی۔  ابھی میں شادی ہو کر اپنے سسرال میں داخل ہی ہوئی تھی کہ طرح طرح کی باتیں ہونے لگی تھیں۔  اس زمانے میں بھی میرے بابو جی نے اچھی خاصی جہیز کی رقم دی تھی۔  جس سے سب کی آنکھیں چکا چوند ہو گئی تھیں۔  شوہر کو سائیکل بھی ملی تھی۔  گاؤں کا مٹی کا وہ گھر اور میں شہری لڑکی۔  مجھے ذرا پریشانی تو ہوئی پر شوہر کا ساتھ، سب کچھ آسان کر دیتا تھا۔  جہاں شوہر پڑھے لکھے اور نوکری پیشہ تھے۔  وہیں میں نے صرف نویں پاس کی تھی۔  مجھے چار نندیں اور ایک دیور ملے، ساس نہیں تھیں۔  اور سسر، وہ تو ایشور کا سروپ تھے۔  میرے ذہن میں ایک خوف گھر کرتا جا رہا تھا کہ کہیں مجھے اپنی نندوں کے ساتھ گاؤں میں ہی نہ رہنا پڑے اور شوہر اکیلے ہی شہر نہ چلے جائیں۔  یہ ایشور کا کرم ہی تو تھا کہ مجھے شہر جانے کی اجازت مل گئی۔  شوہر سے دور رہنے کے تصور سے ہی میں پریشان ہو جاتی تھی۔

شہر کی رنگینیوں کے درمیان میں اپنے شوہر اور تیسری نند کے ساتھ آ کر رہنے لگی۔  نندوں کی شادیوں میں شوہر نے مکمل تعاون کیا۔  سسر لڑکے تلاش کر کے شادی طے کرتے رہے تھے اور میرے شوہر پیسے دے کر مدد کرتے رہے تھے۔  اور میں بڑی بھابھی ہونے کا فرض ادا کرتی رہی۔  بیٹی جب تک میکے میں رہتی ہے، اسے کسی ذمہ داری کا احساس تک بھی نہیں ہوتا، پر شادی ہونے کے بعد جیسے وہ اچانک بالغ ہو جاتی ہے۔  ایک نئے خاندان سے خود کا رشتہ جوڑنے میں اسے کچھ سمجھوتے بھی کرنے پڑتے ہیں، بہت سے خواہشات کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔  مگر شکر ہے کہ میرے سسر جی کی سوچ سلجھی ہوئی تھی۔  ’’دلہن وہیں رہے گی جس کے ساتھ اس کی شادی ہوئی ہے۔  اپنی بیٹیوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری میری ہی ہے۔ ‘‘

بابو جی شاید اپنی بیوی کے بچھڑنے کا درد سمجھتے تھے۔  ان کا انتقال پانچویں بچی کی پیدائش کے وقت ہوا تھا۔  بابو جی گاؤں پر ہی جوائنٹ فیملی میں رہتے تھے۔  جہاں ان کے بچوں کی دیکھ بھال بڑے بھائی کی بیوی کیا کرتی تھی۔  لہذا نندیں اگر میری ساڑیوں میں سے کچھ مانگ بیٹھتیں تو میں انکار نہیں کر پاتی تھی۔  بھلے وہ میری پسندیدہ ہی کیوں نہ ہو۔  کیونکہ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کا موقع فراہم کیا تھا، اور اسی بات کی میں ہمیشہ سے احسان مند تھی۔  ساتھ ہی دیور جی بھی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے ہمارے ساتھ رہنے لگے۔  ان سب کے دوران میرے بھی دو بچے ہو گئے۔  ہر گھر کی طرح ہمارے گھر میں بھی کچھ اتار چڑھاؤ ہوئے۔  پر وہ وقت بھی نہیں تھما، گزر ہی گیا۔

تبھی اچانک ایک میٹھی سی آواز کانوں میں پڑی، ’’ماتا جی الٹراساؤنڈ کے لئے چلنا ہے۔ ‘‘ میں چونک سی گئی، پھر میں نے کہا، ’’ ایشور نہ جانے کس غلطی کی سزا دے رہا ہے۔  چلو بٹیا۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں نے نرس کا ہاتھ تھاما۔

اس نے کہا، ’’ماں جی آپ تو بہت ہمت والی ہیں، میں تو اوروں کو آپ کی مثالیں دیتی ہوں۔  آپ کو تو ابھی پوتے کی شادی دیکھنی ہے۔ ‘‘ اس نے باتیں کرتے ہوئے مجھے وہیل چیئر پر بٹھایا۔  ہر ایک لمحہ جیسے بوجھ سا محسوس ہو رہا تھا۔  میں چلتے ہوئے سوچنے لگی کہ اگر شوہر بیمار ہو تو بیوی عبادت سمجھ کر ہر چھوٹی بڑی ذمے داری کو پورا کرتی ہے اور شوہر کی خدمت میں کوئی بھی کسر نہیں چھوڑتی ہے۔  مگر کوئی یہ بتائے کہ کیا شوہر، بیوی اس کی محبت، ہمدردی اور اس کی ان خدمات کا صلہ دے پائے گا؟۔  اسے بیوی کی خدمت عبادت کیوں نظر نہیں آتی؟

اگلی صبح میں بستر پر پڑے پڑے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی، تبھی نرس کیبن میں آئی، ’’ماں جی آپ کیسی ہیں ؟ آپ نے ناشتا کیا۔ ‘‘

’’ ہاں کر لیا۔ ‘‘ میں نے کہا۔

’’ آپ اپنے شوہر کے بارے میں اس دن کچھ بتا رہی تھیں کہ انہیں اِسی کیبن میں بھرتی کیا گیا تھا۔ ‘‘

’’ ہاں پر وہ اب نہیں ہیں۔  ان کی دونوں کڈنیاں ہی خراب ہو گئیں تھیں۔ ‘‘

’’اوہ! میں نے یہ کیا۔  معاف کر دیجئے۔ ‘‘

’’نہیں کوئی بات نہیں۔  مجھے ان کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ ‘‘

’’کل آپ کو ڈسچارج کر دیا جائے گا، پھر دس دن بعد آنا ہو گا۔  اب آپ آرام کیجئے۔ ‘‘

نرس دوا کھلا کر چلی گئی پر میرا دل کچھ بے چین سا ہو رہا تھا۔  ضدی ہو کر ماضی کی طرف بھٹکنے لگا۔  زندگی کے عکس میں سب کچھ صاف صاف نظر آ رہا تھا۔  وقت مٹھی میں تھامی ریت کی طرح پھسل چکا تھا۔  میں زندگی کے تجربات کو سیکھتے ہوئے، اپنے شوہر کے ساتھ وقت گزارنے لگی۔  وہ مجھ سے ہر کام میں رائے ضرور لیتے تھے۔  وقت گزرتا گیا بچوں کی شادیاں بھی ہو گئیں اور ہم دادا دادی بھی بن گئے۔ ا نہیں نوکری سے ریٹائر ہوئے چار پانچ ماہ ہی ہوئے تھے کہ ان کی دونوں کڈنیاں ہی خراب ہو گئیں۔  اب سب کچھ درہم برہم سا ہوتا نظر آنے لگا، گھر ہسپتال کے چکر شروع ہو گئے۔  میں پل پل ایک ڈر کے ساتھ رہنے لگی۔ پیسہ پانی کی طرح بہنے لگا تھا۔  ڈاکٹروں نے تین ماہ کے لئے ویلور بھیج دیا۔  وہاں میں ان کے ساتھ پل پل درد کو محسوس کر رہی تھی۔  دونوں لڑکے باری باری آتے جاتے تھے۔  ہم دونوں آپس میں ایک دوسرے سے ہنستے، روتے اور باتیں کرتے۔  ہماری دنیا ہی بدل چکی تھی۔  تین مہینوں کے بعد ہم واپس اپنے شہر آ گئے۔

مگر ان کی طبیعت مزید ناساز رہنے لگی۔  انہیں ہسپتال میں چیک اپ کے لئے دوبارہ بھرتی کرنا پڑا۔  صحت روزانہ گرتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔  ایک دن کچھ پیسوں کی ضرورت آن پڑی۔  میں نے ان سے چیک پر سائن کرنے کو کہا۔  بڑا بیٹا بھی ساتھ میں ہی کھڑا تھا۔  بیٹے کی نظر پاپا کے کانپتے ہاتھوں پر پڑی تو اس نے مجھ سے سائن کرنے کو کہا۔  میں نے آگے بڑھ کر قلم لینا چاہا۔  تبھی شوہر نے کہا، ’’ہمارا جوائنٹ اکاؤنٹ نہیں ہے۔ ‘‘ اتنا سنتے ہی میرے بیٹے کے غصے کا کوئی ٹھکانا ہی نہیں رہا۔  میرے بھی پیروں تلے سے زمین نکلتی سی لگ رہی تھی۔  جس شوہر کو دیوتا کی مانند سمجھتی رہی تھی۔  اسی کو مجھ پر اعتماد نہیں تھا۔  اب بیٹے نے فوراً جوائنٹ اکاؤنٹ کروانے کی جد و جہد شروع کر دی۔  شوہر کو بھی اب اس کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی۔  مگر میں ناراض رہنے لگی۔  میں نے شوہر سے کہا، ’’اب یہ سب کروانے کی کیا ضرورت ہے ؟ میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔  مجھ سے اپنی خدمت تو کروا ہی لی ہے، بچے بھی مل ہی گئے ہیں، گھر میں نے سنبھال ہی دیا ہے اور بھی کچھ کروانا ہے تو وہ بھی کروا لیجئے۔ ‘‘ اتنا کہنا تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے، میں بھی خوب روئی۔  روتے ہوئے میں نے معافی بھی مانگی، انہیں بھی اپنی غلطی پر افسوس ہوا۔  ان کی آنکھیں بھی نم ہوئیں۔  عجیب سی شام تھی، ان کی چنتا کسی چتا سے کم نہ تھی۔

اگلے دن میں منہ ہاتھ دھو کر باہر کسی کو بلانے گئی۔  تب وہ سو رہے تھے۔  میں جب لوٹ کر آئی تو نرس کے ساتھ دو ڈاکٹروں کو کھڑے دیکھا۔  ذہن میں سوال اٹھنے لگے میں نے پوچھا، ’’کیا ہوا سسٹر؟ سب ٹھیک ہے نا۔ ‘‘

نرس نے کہا، ’’ہاں آپ بیٹھیے بیٹے کو ابھی بلوایا ہے۔ ‘‘

’’بیٹے کو کیوں ؟‘‘ اتنا ابھی پوچھا ہی تھا کہ بیٹا سامنے آ گیا۔  ڈاکٹروں نے سر ہلاتے ہوئے ’’سوری‘‘ کہہ دیا۔  میں سمجھ گئی کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔  میں نے نزدیک آ کر ان کا ہاتھ چھوا، ان سے بات کرنے کی کوشش کی پر جیسے وقت ٹھہر چکا تھا۔  میں مایوس اور خاموش سی ہو گئی۔  میری ساری خوشی جیسے ہوا میں تحلیل ہو گئی۔  اور میں آج سے خود کو بے بس اور اکیلی محسوس کرنے لگی۔

اٹھارہ دنوں کے بعد گھر میں بینک اور کچھ کاغذات پر بحث ہونے لگی۔  دونوں بچوں کے سامنے ایک مسئلہ آ کھڑا ہوا۔  ان کو ثابت کرنا تھا کہ میں ہی ان کے والد کی بیوی ہوں۔  آج مجھے اپنی زندگی پر لعنت کرنے کا من کر رہا تھا۔  میں نے جس کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا تھا، وہی میری پہچان مانگ رہا تھا۔  میں نے غصے میں بچوں سے کہا، ’’مجھے روپے پیسے نہیں چاہئے۔  جاؤ انہی کو دے آؤ۔  وہ اپنے ساتھ یہ سب کیوں نہیں لے گئے ؟‘‘ بچوں نے سمجھانا شروع کیا اور مجھے پیار سے تھام لیا۔

اگلے دن ہم کورٹ اور بینک گئے۔  ساتھ ہی شوہر کے تین دوست بھی تھے جو گواہ کے طور پر ساتھ میں آئے تھے۔  ان کی گواہی سے یہ ثابت ہو پایا کہ میں اپنے شوہر کی اکلوتی بیوی ہوں۔  پھر کہیں جا کر کہیں میرا جوائنٹ اکاؤنٹ کا ثبوت مل سکا اور پیسوں کو محفوظ کیا گیا۔  کیسی ستم ظریفی ہے کہ جو بیوی ایک گھر کو کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے بغیر کسی لالچ اور خود غرضی کے۔  اسی کو اپنے وجود کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔

تبھی نرس نے آواز لگائی تو میں چونک گئی، ’’ماں جی آپ تیار نہیں ہوئیں، آپ کا بیٹا آپ کو گھر لے جانے آیا ہے۔ ‘‘

میں نے کہا، ’’ہاں بس دو منٹ دینا میں آئی۔  پر میں واپس جب آؤں تو اِسی کیبن میں اور اِسی بستر پر۔ ‘‘

’’اوہ ہو! آپ تو جذباتی ہو رہی ہو ماں جی۔ ‘‘

’’تم نہیں سمجھو گی بیٹی، یہ ایک عورت یعنی بیوی کی بھاؤنا ہے۔  اچھا ہے تم لوگ شادی نہیں کرتی ہو۔  تمہاری اپنی پہچان تو کہیں نہیں کھوتی ہے۔ ‘‘

***

 

 

 

 

اکثر یوں ہوتا ہے۔۔ ۔

 

شوانی کوہلی

 

کوئی شخص جب کسی اور کی الجھن کو حل کی کوشش کرتا ہے، پھر بھلے ہی وہ کوئی دوست ہو، رشتے دار ہو یا پھر کوئی اجنبی۔  یوں ہی کوئی ذہنی الجھن کو بانٹ رہا ہو اور جب آپ ان کی الجھن کو سنتے ہیں تو کہیں نہ کہیں سے اس میں آپ خود کو کھڑا پاتے ہیں۔  آپ کی زندگی کے کچھ پہلو کئی بار آپ کے سامنے یوں ہی آ جاتے ہیں، جنہیں آپ نے کبھی کسی کے ساتھ نہیں بانٹا ہوتا۔  کوئی بھی اس واقعہ سے واقف نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا کوئی گواہ ہوتا ہے۔  سوائے آپ کے یا خدا کے۔  ایسے ایک نہیں کئی واقعات نے ہر شخص کی زندگی میں دستک دی ہوتی ہے۔  جن کے تلخ گھونٹ صرف وہ شخص خود ہی پیتا ہے۔

سچتا۔  آپ کے لئے یہ صرف ایک نام ہے، لیکن اس سے ملنے پر، اس کی مشکل کو سننے پر، میں خود سے کہیں زیادہ اس سے واقف ہو گئی۔  دوپہر کے دو بجے تھے، سورج کی کرنیں درخت کی شاخوں اور پتیوں سے چھنتی ہوئیں، چمکے ہوئے تیز بجلی کے تار کی مانند مجھ پر پڑ رہی تھیں۔  قدرت کے اس اشارے سے لاعلم کہ یہ اس کا مجھ پر خاص کرم ہے، میں ان کرنوں کو صرف دھوپ سمجھ کر چہرے پر ہاتھ سے سائے کرتی رہی۔  مجھے اس بات کا ذرا سا بھی احساس نہیں تھا اور میں قدرت سے یوں ہی ناراض بیٹھی تھی۔

سچتا آئی، میرے پاس بیٹھی اور کچھ نہیں کہا۔  بس رونے لگی۔  اس رونے کی وجہ سے بے خبر تھی میں۔  بہت کہنے پر، منانے پر وہ کچھ خاموش سی ہوئی پر وہ سسکیاں پھر بھی بھرتی رہی۔  آس پاس کے لوگ کیا سوچیں گے، اسی بات سے پریشان ہو کر میں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا، ’’تو اب چپ کر جا ورنہ میں چلی۔ ‘‘

تھی تو وہ ایک کھوکھلی دھمکی ہی پر کام کر گئی۔  اس کے خاموش ہونے پر میں نے اسے پانی پلایا۔  اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے میں نے پوچھا، ’’ایسی کیا بات ہو گئی کہ اتنی بہادر اور نڈر لڑکی رو رہی ہے۔ ‘‘کیونکہ جہاں تک میں اسے جانتی تھی، ہوسٹل میں جب بھی اس سے ملاقات ہوتی تھی۔  وہ چہچہاہٹ، چلچلاتی اور اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتی ہی ملتی تھی۔  اسے دیکھ کر کوئی ذرا سا بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اسے کبھی کوئی دکھ بھی ہو سکتا ہے۔  پر کئی بار یہ بات بھی ذہن میں آتی تھی کہ ’’مسکراتے چہروں کے پیچھے اکثر خاموشیاں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ ‘‘ شا ید اسے سچ میں کوئی دکھ نہیں تھا یا پھر اسے دکھ چھپانے کے فن میں مہارت حاصل تھی۔

میری بات سن کر اس نے اپنا چہرہ ذرا سا اوپر کیا، تو اس کی آنسوؤں سے بھیگی آنکھیں گویا مجھ سے بہت کچھ کہہ رہی ہوں۔  پر ان الفاظ کو میں پڑھ نہیں پا رہی تھی۔  میں نے اسے بات کو صاف صاف کہنے کے لئے کہا۔

آخر لمبی سانس لیتے ہوئے سچتا بولی۔

’’سدھیر۔۔ ۔۔ ‘‘

’’سدھیر۔۔ ۔ ؟‘‘ یہ نام میرے لئے نیا تھا۔  سچتا سے ہوسٹل میں ملاقات ہوتی رہتی تھی، پر کبھی ہم اتنے خاص دوست نہ بن پائے تھے، ہوسٹل چھوڑنے کے کچھ سال بعد فیس بک پر ملے تھے، بس وہیں سے باتیں چلتی تھی اور پھر فون پر۔

’’سدھیر کون۔۔ ۔ ؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

’’تم اسے نہیں جانتیں۔  وہ میرے ساتھ پڑھتا تھا، کب ہم دونوں میں پیار ہو گیا پتہ ہی نہیں چلا۔ ‘‘ سچتا بولی۔

’’تو اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ ‘‘ میں نے پوچھا۔

میرے یہ کہنے کی دیر تھی کہ اس کی سسکیاں پھر شروع ہو گئیں۔  میں نے پھر سے کہا، ’’دیکھو سچتا اگر مسئلہ بتاؤ گی نہیں تو اس کا حل کس طرح مل پائے گا۔ ‘‘

سسکیوں کی رفتار سست ہوئی اور وہ بولی، ’’میں سدھیر کو چار پانچ سالوں سے جانتی ہوں۔ شادی کا وعدہ کیا تھا اس نے، لیکن اب اسے مزید وقت چاہیے۔ ‘‘

ماجرا کیا تھا، بڑی حد تک سمجھ میں آ چکا تھا۔  بس پھر کیا تھا، میرے اندر کا آتش فشاں پھٹ پڑا اور لاوا بن کر باہر آنے لگا۔  اس لمحے کے بعد سچتا بس مجھے سنتی رہی۔۔ ۔  بس سنتی رہی۔۔ ۔

شاید اس وقت میرے اندر کی سچتا کہیں بھڑک اٹھی تھی۔  کیونکہ کافی سالوں سے میں نے اسے سونے پر مجبور کیا ہوا تھا۔  میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ کبھی کسی کے سامنے آئے۔  کیونکہ بہت کم لوگ زندگی میں آپ کو سمجھتے ہیں اور مجھے سمجھنے والا شاید اس دنیا میں کوئی نہیں ہے، کوئی بھی نہیں۔  میرے لئے محبت کی تعریف اب مکمل طور پر بدل چکی تھی۔  جس محبت کو میں تحفہ مانتی تھی، آج اسے میں ایک ڈھکوسلا مانتی ہوں۔  صرف ایک ڈھکوسلا۔

سچتا کے چہرے پر صرف خاموشی تھی اور میرا چہرہ سرخ پڑ چکا تھا، آئینہ ہوتا تو شاید خود کو دیکھ کر رو پڑتی۔  نہیں جانتی تھی کہ میں نے سچتا سے جو کہا وہ کیوں کہا، کس حق سے کہا۔  جانتی ہوں تو صرف اتنا کہ اپنے اندر کی سچتا کو اس دن میں چھپا نہیں پائی۔

***

 

 

 

اُن کا درد

 

کرن راج پرُوہت نِتِلا

 

اس دن صبح وہ خبر سن کر ہی نروس ہو گئی۔ کیسے ؟ ارے بھگوان۔

یہ تو صاف ہی نظر آ رہا تھا۔  لیکن اتنی جلدی یہ واقعہ ہو جائے گا۔  ایسا سوچا نہ تھا۔

ان کا چہرہ آنکھوں کے آگے گھوم رہا تھا۔  حقیقت میں ہو چکے اس واقعہ پر یقین کرنے پر دل مان ہی نہیں رہا تھا۔  لیکن اس پر یقین کرنے کے بعد اور انسانیت کے ناطے یہ طے تھا کہ ایک بار تو ملنے مجھے وہاں جانا ہی ہے، ان کے دکھ کا تصور کر کے ہی تو یہ واقعہ ناقابل یقین لگ رہا تھا۔

آج جب وہ گاؤں قریب سے قریب آتے لگ رہا ہے تو دل بار بار بھر آ رہا ہے۔  اب تک کا راستہ اگرچہ سب نے باتوں میں ہی پار کرنے کی کوشش کی، لیکن سب کے دلوں میں ان کے لیے بے حد دکھ ہے اور سب ایک دوسرے سے اپنا درد چھپا کر مسلسل خوش بننے کی کوشش میں لگے ہیں۔  باتوں کا سلسلہ تھوڑا تھمتے ہی وہی چہرہ سب کے سامنے گھوم جاتا اور اس کے چہرے سے جڑے دوسرے چہروں کا درد بھی۔  تبھی کوئی بحث چھڑ جاتی۔  زبردستی کی، بے کار سی بحث یوں ہی لمبی سی ہوتی جاتی اور اس میں گزرتا وہ وقت چند لمحوں کے لیے ان کی یاد کو کم کر دیتا۔  تب لگتا وہ بھی کیا چند لمحوں کے لئے ہی سہی بھول پاتی ہو گی۔  جس کی زندگی کی بنیاد ہی وہ تھے۔

گاڑی سرپٹ دوڑ رہی ہے۔  اُن کو لے کر بھی کیا یہ گاڑی اسی راستے سے گزری ہو گی۔  میں یہی سوچنے لگی۔  وہ دوپہر، وہ ہوا، وہ دن اس گاؤں کا کیسا خوفناک رہا ہو گا۔  اس صدمے کو جھیلنے والوں کیلئے۔  جب اس منظر کو سوچنے سے ہی کنپٹی میں میں سائیں سائیں ہونے لگتی ہے۔  تو ان کی بیوی نے یہ کس طرح جھیلا ہو گا۔  صدمہ جھیلنے والے کی برداشت کی حد کیا ہو سکتی ہے۔  ہندو عورت کیلئے تو اس سے زیادہ بدقسمتی ہو ہی نہیں سکتی۔  تقدیر تو ایسے بکھر بکھر جاتی ہے کہ مکمل عمر سمٹتی ہی نہیں ہے۔  ایک ہی ہوا تیرتی ہے چاروں طرف دکھ، درد اور آنسو۔  ان کی بیوی ویران چہرہ لیے کتنی مصیبت میں ہو گی میں یہ اس کا بھرپور اندازہ لگا سکتی ہوں۔

اور کیوں نہیں لگا سکتی؟ کئی سال دوستی کے ساتھ گزارے ہیں ہم نے۔  چھوٹے چھوٹے سکھ دکھ میں ساتھ ساتھ چلے ہیں ہم۔  مکان کے کرائے کی پریشانی ہو یا کام والی کا مسئلہ، بچوں کی بیماری ہو یا ان کے تعلیمی مسائل، گھریلو مشکلیں ہوں یا خاندانی دشواریاں۔  ہر دم ساتھ رہے ہیں ہم۔

ہم وہاں جب منتقل ہو کر آئے تو وہ پہلے ہی سے رہتے تھے۔  بڑی سیدھی سادی زندگی گزارتے، سادہ زندگی پرسکون ماحول۔  نہ کسی سے لینا نہ کسی کو دینا۔  ایک ٹیچر کی تنخواہ میں وہ جتنے پیر پسار سکتے تھے، اس سے بھی کم میں زندگی گزارتے۔  محدود ذرائع میں زندگی گزارنا طے کر لیا تھا انہوں نے۔  بچوں کو بھی اسی سانچے میں ڈھالنا چاہتے تھے تاکہ مستقبل کے مشکل حالات میں بھی وہ نباہ کر سکیں۔  پر مستقبل کس نے جانا ہے اور کون جان پایا ہے ؟ ہمیشہ یہی بات کہتے۔  انہوں نے شاید وقت کی آہٹ پا لی تھی تبھی تو۔۔ ۔

جیسے جیسے گاؤں قریب آیا اور گاڑی نے گاؤں میں داخل ہونا شروع کیا تو ذہن لگاتار بھاری ہوتا رہا۔  اُن کا وہ سجا سنورا روپ یاد آتے ہی من ان کے ماضی میں بھٹکنے لگا۔  اسی گاؤں میں تو بیاہ کر کے آئی تھیں وہ۔

اٹھارہ سال کی لیکن انداز معصوم بچیوں سا۔  گیارہویں میں پڑھتی وہ دنیاداری سے بالکل انجان تھی۔  جیٹھانی نے تو گھونگھٹ اٹھاتے ہی جھٹ سے ڈھک دیا، ’’ بِیننی گڈی سی ہے بالکل جتن سے رکھنا دیور جی۔ ‘‘ اور پھر گڈی کا وہ گڈا بھی کیسے شرم سے لال گلابی ہو گیا تھا۔  اس نے دونوں بھولے پنچھیوں کی نظر اتاری تھی۔  دونوں کو پورا پورا وقت ساتھ گزارنے دیتی.۔  ساسو ماں اکثر ہی ڈانٹتی جیٹھانی کو کہ ارے سارا کام خود ہی کرتی رہو گی تو نئی دیورانی سر چڑھ کر بیٹھے گی۔  پھر نباہ کیسے ہو گا۔

لیکن وہ ہنس دیتی اور کہتی، ’’ ماں بچے ہی تو ہیں چہکنے دو۔  کام کے لئے تو پوری زندگی پڑی ہے۔  یہ وقت لوٹ کر تھوڑے ہی آئے گا۔ ‘‘ اور واقعی وہ وقت لوٹ کر نہ آیا۔  آہستہ آہستہ گڈی بِیننی میں پختگی آئی لیکن انہوں نے کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیا۔ جیٹھانی جی تو انہیں بڑی بہن سے بھی عزیز لگتی۔  ان جیٹھانی نے اس جوڑے کو ٹوٹنا پہلے پہل سنا ہو گا تو کیا وہ دکھ کے ساگر میں ڈوب نہیں گئی ہو گی۔

گاؤں کے چورا ہے میں گاڑی رکی۔  مجھے اترنے کا اشارہ ہوا۔  لیکن میرا دل تو دور اس چہرے سے جا ملا اور پیروں نے جیسے ہلنے سے انکار کر دیا۔  ویران نظروں سے مسلسل کہیں دیکھتی رہی۔  پھر ہوش میں آئی اور اپنے آپ کو گاڑی سے نیچے دھکیلا۔  وہ گھر سامنے ہی نظر آیا۔  یہیں ایسے ہی کبھی وہ دلہن بنی اتری ہو گی، شرمائی سی، لجائی سی۔  یہیں وہ اُن کو لے کر بھی آئی ہو گی۔  اپنی زندگی کا بھیانک روپ لئے۔  نڈھال سی صدمے سے سہمی بے جان چلی ہو گی اور۔۔ ۔۔  اور یہیں یہ جگہ۔  یہ بھی تو یہ سب جھیل رہی ہے۔  نہ جانے کتنے کتنے، کس کے کس کے درد پی کر پتھر ہو گئی ہے یہ زمین بھی۔  سب سہہ جاتی ہے پتھر بن کر۔  عورت کا درد دیکھ دیکھ کر وہ جڑ بن گئی لیکن انسان جڑ نہیں بن سکتا۔  اسے چلتے ہی جانا ہے۔  دکھ میں رو کر، درد پی کر اور سکھ میں ؟ سکھ تو کبھی ہوتا ہی نہیں ہے۔  ہر کوئی اس کا ذائقہ چکھے ایسی تقدیر نہیں ہوتی۔  ہو تو بھی دکھ کا خدشہ دہلیز پر دستک دیتا رہتا ہے۔  کہ کب داخل ہو جائے پتہ نہیں ؟ کتنی ہی اونچی دیواریں چنوا لے، کھڑکیاں تو ہوتی ہی ہیں۔  چپکے سے داخل ہو جاتا ہے۔  لیکن ان کے شاید لگن کے ساتھ ہی دکھ داخل ہو گیا تھا اور گھات لگا کر بیٹھ گیا تھا۔  جب دو بچوں کے ساتھ اپنی زندگی کو جنت سمجھے بیٹھی تھی کہ اس نے حملہ کر دیا۔

لیٹے لیٹے ایک دن ان کے شوہر کو سر میں درد اٹھا۔  ہتھوڑا جیسے اس کے واروں کو جھیلتے ہوئے وہ پسینے سے بھیگ گئے اور ہانپنے کانپنے لگے۔  یوں بھی ہندوستانی عورت کی زندگی ایک انجانے خدشے سے ہر دم ڈری رہتی ہے، وہ ہے شوہر کی صحت۔  اس کی ایک بھی بیماری کو وہ اس سے ہزار گنا زیادہ محسوس کرتی ہے۔  کیونکہ اس کی زندگی کا سکھ، سب رنگ روپ، عزت شہرت سب شوہر پر مکمل طور پر منحصر ہے۔  اس کا نہ رہنا بدقسمتی ہوتا ہے۔  اسی لیے اس کی زندگی ہمیشہ خدشات میں ہی گزر تی ہے۔  دکھ میں دکھی رہ کر اور خوشی میں دکھ کے تئیں خدشے میں رہتے ہوئے۔

یہی اس نے بھی سوچا ہو گا کہ یہ کیا ہو گیا انہیں ؟ ارے بھگوان انہیں جلدی ٹھیک کرنا۔  کچھ ہو نہ جائے۔  اس وقت تو وہ درد کچھ دوائیوں سے بیٹھ گیا۔  کئی دن ٹھیک رہا۔  لگا کہ شکر ہے بھگوان کا کہ ایک بار اٹھ کر رہ گیا۔  یہ سوچنا ہی تھا کہ اس درد نے پھر حملہ کیا۔  اسکول میں بیہوش ہو گئے درد سے تڑپ کر۔  دو لوگ اٹھا کر گھر لائے۔  یہ دیکھ کر وہ اندر تک دہل گئی۔  پھر جانچوں کا سلسلہ شروع ہوا۔  کچھ دن بعد اس سے کہا گیا کہ سب ٹھیک ہے، بس یوں ہی درد ہو گیا تھا۔

پر عورت اپنے شوہر کو پڑھ نہ سکے ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے ؟ وہ مطمئن نہ ہوئی۔  دل نہ مانا۔  اس کا ڈوبتا لہجہ کچھ اور ہی اشارہ کر رہا تھا۔  اگر سب بہت ہی ٹھیک ٹھاک ہوتا تو وہ ایسے کھوئے کھوئے یوں گم صم نہ رہتے۔  اس کا خود اپنا دل نہ بیٹھتا۔  انسان بیماری دور ہونے کے بعد کمزوری ہوتے ہوئے بھی راحت محسوس کرتا ہے۔  لیکن وہ اکثر ہی ہڑبڑا کر آنسو پونچھتے نظر آتے۔  اس کا سامنا کرنے سے، اس کی آنکھیں میں دیکھنے سے بھی کتراتے۔  وہ لاکھ قسمیں دے دے کر پوچھتی۔  وہ ہنس کر ٹال دیتے۔

ایک دن رپورٹ اس کے ہاتھ لگ گئی۔  وہ اسکول سے واپس آئے تو دہلیز پر پتھرائی آنکھیں، بکھرے بال لئے نڈھال سی بت بنی پڑی تھیں۔  دیکھ کر پیار امنڈ آیا۔  اٹھایا، ہلایا ڈلایا۔ لیکن وہ بس ٹکر ٹکر دیکھتی رہیں۔  کئی دنوں تک ایسے ہی رہی تھیں۔  میں اکثر مل آتی۔  انہیں ہوش ہی نہیں تھا۔  سدھ بدھ سب کھو بیٹھی تھیں۔  دماغ کے ٹیومر کا پتہ چلنے سے ہی یہ حالت ہو گئی تھی تو اگر وہ۔۔ ۔

اب گھر سے بھی بین کی آوازیں آنے لگی تھیں۔  اس میں ان کا بھی بین ہو گا؟ کتنا روئیں گی اپنی تقدیر پر؟ کوئی حد نہیں ہے رونے کی جب دکھ لا محدود ہو۔

میں بھاری قدموں سے ہی چل پا رہی تھی۔  وہ گھر بھی آ گیا.۔  جس کا ایک پہیہ چھوٹ چکا ہے۔  ایک پہیہ پر یہ گھر کتنا اور کس طرح اور کب تک چل پائے گا۔

وہ تو چلنے پھرنے میں کمزوری محسوس کرنے لگے تھے۔  وہ تو تب ہی زندگی سے بے جان ہو چکی تھی۔  بس گھسٹ رہی تھی۔  ان کے گھر آنے میں گھڑی بھر کی بھی دیر ہو جاتی تو بوکھلائی سی اپنے بال نوچنے لگتی۔  سنبھالے نہ سنبھلتی۔  ہم بھی کیا تسلی دیتے کہ گھبراؤ مت، کچھ نہیں ہو گا۔  جبکہ ہم خود خدشے میں رہتے

’’کوئی لاؤ۔  انہیں جلدی لاؤ۔  ارے ایک بار۔  دکھا دو۔  کہہ دو ٹھیک ہیں۔ ‘‘ اس کا شور سنا نہ جاتا۔  سست سست قدموں سے وہ آتے نظر آتے تو ہم بھی جیسے جی اٹھتے۔  اسے تو جیسے نئی زندگی مل جاتی۔  کام کے علاوہ کہیں جانے نہ دیتی۔  روز روز مر کر وہ جینا سیکھ گئی تھی۔  کہیں جاتے تو آنکھوں کے اوجھل ہونے سے لے کر۔  لوٹتے ہوئے نظر آنے تک دہلیز پر دعائیں کرتی بے چینی سے انتظار کرتی اور امید اور مایوسی میں ڈوبتی ابھرتی رہتی۔  انہیں آتا دیکھ پلو منہ میں دبا کر اندر دوڑ پڑتی۔

ان کے جانے کے بعد اس کا کیا ہو گا؟ کس طرح جھیلے گی؟ یہ سوچ سوچ کر وہ روتے، دکھی ہوتے۔  خود سے زیادہ انہیں اس کی اور بچوں کی فکر اندر ہی اندر کھائے جاتی۔  بیچاری قسمت کی ماری کیا تقدیر لے کر آئی ہے میرے پیچھے۔  ہر دم مرتے ہی رہنا۔  یہی دیکھا ہے ان مہینوں میں اس نے۔  ایک انہونی کا خدشہ ہر وقت ہی پھن پھیلائے رہتا کہ کہیں سچ نہ ہو جائے۔  ایک خاموشی بھائیں بھائیں کرتے منحوس سے پاؤں پھیلا رہی تھی اور آہستہ آہستہ بیماری نے بھی پاؤں پھیلانے شروع کر دیے تھے۔

ہاتھ آہستہ آہستہ کمزور سے ہونے لگے۔  شرٹ کے بٹن بند کرنا بھی بہت دشوار سا ہونے لگا۔  لیکن کس طرح کہے اور کس سے کہے ؟ بچے کچھ سہمے سہمے نظر آتے۔  کبھی کبھی ان کی اٹھکھیلیاں بیٹھے دیکھتے رہتے۔  آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔  ان کا بچپن جلد ہی گم ہو جائے گا۔  کبھی تعلیم کے لئے ڈپٹتے پر اگلے ہی لمحے سنبھل جاتے۔  کچھ ہی دنوں کی بات کے لئے کیوں ڈانٹوں، پڑھیں گے ہی، نہیں تو کس کا سہارا ہو گا ان کو۔  اپنی زندگی کی جنگ انہیں اکیلے ہی تو لڑنی ہے۔  والد کے سائے والی زندگی سے تو یہ جلد ہی محروم ہو جائیں گے۔  کچھ وقت کے لئے ہی سہی ان کا مسکراتا چہرہ تو دیکھ کر سیر ہو لوں۔  ان زہریلے لمحات سے ابھی سے دہشت زدہ نہیں کرنا چاہتے تھے بچوں کو۔  بغیر باپ کے بچے کس طرح قابل رحم ہو جاتے ہیں، یہ بہت سے خاندانوں میں دیکھا ہے پر اب ان بچے بھی۔۔ ۔

بیوی کو کس طرح بتائیں ؟ وہ تو پہلے ہی مردہ سی ہے۔  مستقبل قریب جان لے گی تو۔۔ ۔ ؟ کبھی سوچتے سب کچھ سچ بتا دیں اسے تاکہ صدمے کے لئے تیار رہے۔  دماغ کا در د، یہ چھٹپٹاہٹ خاموشی سے نہیں پی جاتی۔  بیوی سے جی بھر کر باتیں کرنا چاہتا ہوں، بہت کچھ اندر ہی اندر مچلتا ہے، اسے انڈیلنا چاہتا ہوں، بچوں کو گلے لگا کر محسوس کر کے، رو لینا چاہتا ہوں۔  اپنا پیار جتانا چاہتا ہوں۔  سوچ سوچ وہ پھڑپھڑا اٹھتے۔  لیکن پھر نہ جانے کیا سوچ کر رک جاتے۔  قدم آگے ہی نہیں بڑھتے۔ نہیں۔۔ ۔  نہیں۔۔ ۔۔  اس کو اور کتنا ماروں ؟ مرنا تو ہے ہی اسے تا عمر۔  بد نما لباس، سوکھی مانگ، ویران ہاتھ، سونی آنکھیں لیے کسی سائے سا نظر آنا۔  نہیں۔  وہ چیخ اٹھتے۔  جس سے اتنی محبت کرتے ہیں اسے اُتنا ہی دکھ دے کر جانا ہے۔  کتنی مجبور ہے وہ اور کتنے مجبور ہوں میں۔  ایک طرف وہ ہے جو اپنے شوہر کو لمحہ لمحہ مرتا دیکھ رہی ہے، جو اسے ہمیشہ سے ہی جان زیادہ عزیز لگے۔  دوسری طرف وہ ہیں، کہ جس کے ساتھ سکھ دکھ میں سنگ رہنے کے کئی کئی وعدے ان انمول لمحوں میں کئے۔  اب وہ ان سے کسی بھی قسم کا کوئی وعدہ نبھانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔  ان انمول قیمتی دنوں میں وہ تمام خوشیاں اس کے لیے لا کر دینے کی تمنا رکھتے تھے۔  ہمیشہ یہی سوچا کہ اپنی بیوی کو کبھی بھی دکھی نہیں کریں گے، چاہے حالات کیسے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں۔  لیکن اس پریشانی کے بارے میں تو انہوں نے سپنے میں بھی کلپنا نہیں کی تھی۔  پر اس پر کوئی زور بھی نہیں۔  عورت کی تمام خوشیوں کا محور اس کا شوہر ہی ہوتا ہے اور اب وہ ہی۔۔ ۔۔  سچ مچ عورتوں کی حالت پر تشویش ہوتی۔  کاش! سماج نے بیوہ عورتوں کے رہنے کی کوئی راہ نکالی ہوتی۔  وہ پریشان ہو جاتے۔  ارے بھگوان میرے اپنوں کو ہی اتنا بڑا دکھ دے گا۔  وہ روتے۔  ان کی بیماری پورے خاندان کو دکھ کے گڑھے میں دھکیلتی جا رہی تھی، لیکن سب بے بس تھے بہت بے بس۔

آہستہ آہستہ مایوسی بڑھنے لگی۔  ایسی حالت میں وہ صرف دیوار پر سر ٹکائے سونی درد بھری آنکھوں سے اسے تکتی رہتی جیسے اس کے چہرے کو پی جانا چاہتی ہو۔  اس طرح سے آنکھوں میں بسا لینا چاہتی ہو کہ کبھی آنکھوں سے اوجھل ہی نہ ہونے پائے۔  دونوں کی ہی آنکھوں سے کبھی آنسو ڈھلکتے اور کبھی وہ پتھر کی طرح بے جان ہو جاتے۔  بچے ماں کے پیچھے دبکے باپ کو خوف بھری آنکھوں سے دیکھتے رہتے۔  وہ کبھی انہیں اپنے پاس بٹھا کر اپنے کمزور کانپتے ہاتھوں سے سر پر ہاتھ پھیرتے، کچھ کہنا چاہتے لیکن گلا پہلے ہی رندھ جاتا۔  بیوی سے اب جمع پونجی کی بات کہنا چاہتے، لیکن کمزور ہوتی زبان سے صاف صاف کچھ کہہ نہ پاتے۔  اندر بھرا درد امنڈتا لیکن الفاظ ساتھ نہ دیتے۔

کہیں پڑھا کہ دماغ کے ٹیومر کا آپریشن ایک امید ہو سکتی ہے۔  یہ جان کر ہی جیسے وہ آدھی جی گئی۔  ڈاکٹر صاحب کے پیروں میں اپنے زیورات اور جمع پونجی رکھ دی۔  ہاتھ جوڑے، بہتی آنکھوں میں کیا خواہش تھی، یہ ڈاکٹر صاحب اچھی طرح سمجھتے تھے۔  روز ہی وہ ایسے مناظر سے اپنی آنکھیں اور دل نم محسوس کرتے ہیں اور ہر دکھ ایک سا درد بھرا احساس دیتا ہے۔  ڈاکٹر صاحب اس کے سر پر باپ کی مانند ہاتھ پھیر کر تسلی دیتے رہے۔  لیکن اس کی آنکھوں میں ڈاکٹر صاحب سے بہت امیدیں بھری تھیں۔  آخر ان کی امید دم توڑنے لگی جب اسے حقیقت سے واقف کرایا گیا۔  ’’بہن چند روز ہی باقی ہیں اب۔ ان کو رکھو ورنہ تم ان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گی۔ ‘‘ وہ صرف گم صم سی انہیں تکتی رہی۔  جب ڈاکٹر صاحب سر جھکائے آگے بڑھ گئے تو وہ بے ہوش ہو کر لڑھک گئی۔  جیسے بس ایک انہیں پر بھگوان کی مانند امید ٹکی تھی اور بھگوان کا سہارا ہٹتے ہی۔

ساتھ کھڑے تمام گھر والوں کا بھی لمبے عرصے سے رکا امید اور صبر کا دامن بھی اب چھوٹ گیا اور سب کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔  ان سب کے آنسوؤں میں اسے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی درگور ہوتی نظر آئی۔

ان دکھ بھرے دنوں کو بھی وہ گزرنے نہیں دینا چاہتی تھی۔  کسی بھی قیمت پر انہیں تھام کر یہ زندگی جینا منظور تھا۔  ان کی موجودگی ہی اب اس کے لئے کسی جنت کو پا لینے سے کم نہ تھی۔  بھگوان سے یہی دعا کرتی کہا گرچہ ایسے ہی رہیں، میں تا عمر خدمت کر لوں گی۔  پر ان بچوں کا سہارا اور میرا سہاگ نہ چھین۔  لیکن بھگوان کا دھیان کہیں اور ہی تھا، اس کی آواز ان تک پہنچی ہی نہیں تھی۔  اُس دن جب انہیں ہسپتال لے جایا جا رہا تھا تب لگ گیا تھا کہ یہ آخری بار ہے۔  ان کے بھائی نے اس کے گلے لگ کر زار زار روتے ہوئے کہا، ’’دیدی کچھ بات کرو جیجا جی سے، کچھ کہہ لو دل میں نہ روکو پھر شاید۔۔ ۔۔ ‘‘ تبھی تو وہ جھٹکے سے اٹھ کر ان کی طرف دوڑ پڑی۔  لیکن درمیان میں ہی کسی کٹے پیڑ کی طرح گر پڑی اور اور بے حس سی ہو گئی۔ اسٹیچر پر لیٹے انہیں اس کے پاس لایا گیا۔  کمزور لیکن آنسوؤں سے لبالب آنکھوں سے ایک ٹک دیکھا اور ایک گہری درد بھری سانس لے کر ہا تھ جوڑنے کی کپکپاتے ہاتھوں سے ناکام کوشش کی۔  دونوں بچوں کو کسی نے ان کی طرف کیا۔  تاکہ آخری بار ایک دوسرے کو دیکھ لیں۔  وہ پاپا، پاپا کہتے چیخ چیخ کر رونے لگے۔  زیادہ تو نہیں پر اتنا تو وہ معصوم سمجھ ہی گئے کہ کچھ برا ہونے والا ہے۔  انہوں نے اپنے بچوں کے سر پر کانپتا ہاتھ پھیرنا چاہا، لیکن دکھ سے چھلک رہے اس منظر سے آنکھیں پھیر لیں اور سسک پڑے۔  یہ دیکھ کر سب کا ہی دل درد پھٹنے سا ہو گیا۔

گھر کے خوفناک سے کمرے کے بعد میں چوک سے ملحق کمرے تک پہنچی۔  کمرے میں نیم اندھیرا تھا۔  منہ بھینچ کر جبڑے سخت کر لئے میں نے۔  ان کی ہمت بڑھاؤں گی، دل ہی دل سوچا میں نے۔  آنکھیں اندھیرے سے کچھ مانوس ہوئیں تو دیکھا ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ بے جان بے رنگ سا، کسی رشتے دار کی گود میں پڑا تھا۔  بھینچے جبڑے، ویران آنکھیں اور اکڑے ہوئے ہاتھ۔  بکھرے بکھرے ملگجے کپڑے۔  تبھی ایک عورت ان کے ناک کو دبا کر جبڑوں کو کھولنے کی مسلسل کوشش کرنے لگی۔  کسی نے کہا کہ ان چار دنوں میں پچاسوں بار جبڑے بھینچے ہیں۔  دکھ یا درد سے نبرد آزما ہوتے ہی جہاں جسم کی برداشت کی طاقت ختم ہونے لگتی ہے، وہاں جسم ایسا ہی خول اوڑھ کر درد یا دکھ کی سختی کو جھیلتا ہے۔  ان کے دل کے درد کی تو کوئی حد تھوڑی ہی ہے۔  مجھے لگا کہ ایسے میں ان کی دھڑکن بھی چل رہی ہے تو یہ بھی غنیمت ہے۔  ایسے میں برداشت اور ہمت کے لفظ بے معنی سے لگتے ہیں۔  کیا کہوں گی اس حالات میں دکھی مت بنو، سب ٹھیک ہو جائے گا؟ بیوہ عورت کی زندگی کو سماج کب ٹھیک سے چلنے دیتا ہے۔  کیا میں یہ جانتی نہیں۔

پھر اس عورت نے ان کے گال تھپتھپا کر کہا، ’’دیکھو اٹھو تیری جیجی آئی ہے۔  اٹھو۔  آنکھیں کھولنے کی کوشش کر و۔  تم سے ملنے آئی ہے۔  ایک بار آنکھ تو کھولو۔ ‘‘ یہ کہتے کہتے ہی وہ عورت پلو آنکھوں پر رکھ کر خود ہی سسکنے لگی۔  کچھ لمحوں بعد وہ عورت خود کو سنبھال کر پھر ان کو ہلا ڈلا کر اٹھانے کی کوشش کرنے لگی۔  میں بت بنے کھڑی ہی رہ گئی۔  لگا جیسے اب قدم اٹھ نہیں پائیں گے۔  ارے بھگوان ایسا حال ہو گیا ہے۔  ان کی تقدیر پر ترس کھاتے ہوئے اس کی بڑبڑاہٹ جاری تھی۔  آگے کی زندگی میں جتنی بھی پریشانیاں آنے والی تھی، اس کا احساس ہو رہا تھا۔  سن سن کر اور دیکھ دیکھ کر میرے دل کا بوجھ بڑھنے لگا۔  کسی نے کہا کہ ہوش میں بھی کم ہی رہی ہے اور ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا ہے تب سے۔  دل کھول کر روئی بھی نہیں ہے۔  سینے میں بوجھ بھرا ہوا ہے۔  لیکن پھوٹ پھوٹ کر نہیں رو رہی، دکھ سے پتھر ہو گئی ہے۔  ہر طرح سے رلانے کی کوشش کی پر بیکار۔  دونوں بچوں کی غم زدہ صورتیں دیکھ کر بھی ان کے آنسو نہیں امنڈ سکے۔  آنکھوں کی پتلیاں تک نہیں ہل رہی ہیں۔  ایسے کاٹھ بنی رہی تو کہیں پاگل پنے کا شکار نہ ہو جائے۔  بچوں کو کون سنبھالے گا؟ سچ ہی ہے چار دن ہی دکھ میں، دکھ بٹانے آتے ہیں لوگ، آخر تو جسم کا بوجھ پاؤں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔  ہمیشہ کا درد تو دل پر مگر خود ہی جھیلنا پڑے گا۔  عادت ڈالنی پڑے گی۔

ان کی یہ حالت دیکھ کر میرے دل کا غبار پھوٹ پڑنے کو تیار ہوا۔  ان کو دیکھتے دیکھتے میری نظر ان کے چہرے پر دھنسی پتھرائی آنکھوں پر اٹک گئی۔  ان کا درد میری آنکھوں میں بہہ نکلا۔  جذبات کا طوفان پل کے پل ان تک پہنچ گیا تبھی تو وہ پتھرائی آنکھیں ایک لمحے کے لئے جھپک گئیں۔  ہلیں ڈلیں وہ۔  دل کے اندر اندر کچھ پگھلا، کچھ احساس جاگا اور چہرے کی بھاؤ زندگی سی بھرنے سی لگی۔  چہرہ، جبڑہ، ہونٹ نرم پڑے۔  تھوڑا لرزے۔  آنکھیں دو تین بار جھپکیں اور آنکھوں سے گرم لاوے کا سوتا پھوٹ پڑا۔  میں نے اپنی پیاری سہیلی کو تھامنے کے لئے اپنی بانہیں پھیلا دیں۔

***

 

 

 

 

 

بدھا جی

شوانی کوہلی

 

’’اوئے ہیپی سنگھ۔  کیا حال چال ہے۔  کہاں رہتی ہو جی؟‘‘

’’کہیں نہیں جی۔  آپ بتاؤ۔  اتنے دنوں کے بعد یہاں کا رستہ کس طرح بھول گئیں۔  اب تو آپ جی دہلی والے ہو گئیں ہیں۔  کیوں جی ٹھیک کہا نا؟‘‘

اور دونوں کے چہروں پر ہنسی بکھر گئی۔ ْ ْ

’’اچھا جی، اب یہ بات ہو گئی ہمم۔۔ ۔ ‘‘

دونوں بہنوں کی طرح رہتی تھیں۔  ملاقات کو ابھی ایک سال ہی ہوا تھا۔  دونوں نے اپنے اپنے دلوں کا ہر ایک راز ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ لیا تھا۔  کیرتی نے تو اپنی زندگی کی پوری کتاب ہی ہرپریت کو پڑھا دی تھی۔  ہرپریت اور کیرتی کی زندگی میں کچھ ایسی باتیں ہوئیں تھیں جو وہ کسی اور کو بتا نہیں سکتی تھیں۔

’’میں تجھ سے ناراض ہوں ہیپی سنگھ تو نے اپنی سالگرہ کی پارٹی میں مجھے دعوت نہیں دی۔ ‘‘

’’اچھا۔۔ ۔  تو ٹھیک ہے تیری ناراضگی دور کرنے کے لئے ہم آج ہی اپنی فیوریٹ جگہ پر چلتے ہیں۔  یاد ہے نا۔ ‘‘

’’بالکل یاد ہے۔ ‘‘

’’تو چلیں پھر۔  اپنے ’’بدھا جی‘‘ کے پاس۔ ‘‘

ہرپریت اور کیرتی اکثر اپنے مسائل کے حل تلاش کرنے کے لئے ’’بدھا جی‘‘ کے پاس چلی جاتی تھیں۔  یہ کوئی سنت یا مہاتما نہیں تھے۔  بلکہ سنتوں کے سنت اور مہاتماؤں کے مہاتما تھے۔  ’’بدھا جی‘‘۔  جھیل کے کنارے ’’بدھا جی‘‘ ہمیشہ ان کی باتیں سنتے اور راستہ بھی دکھاتے۔

’’یاد ہے کیرتی۔  ہم ’’بدھا جی‘‘ کے پاس لاسٹ ٹائم کب گئے تھے ؟‘‘

’’ پندرہ اگست کو۔  انڈیپنڈینس ڈے منانے کے لئے اور اس دن ان کے پاس کوئی بھی نہیں تھا اور اسی دن میری ملاقات۔۔ ۔ ‘‘

اور اچانک سے خاموشی۔۔ ۔

’’آئی ایم سوری۔  میں نے تمہیں یہ بات یاد دلانے کے خیال سے نہیں کہا تھا۔  آئی ایم ویری سوری۔ ‘‘

’’نہیں یار، سوری کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔  میں جانتی ہوں تو میری سب سے اچھی دوست ہے اور تو ہمیشہ مجھے خوش ہی دیکھنا چاہتی ہے۔  پر ایک بات کی ہمیشہ میں رب سے شکایت کرتی ہوں کہ جن کا ساتھ لکھا ہی نہیں ہے تو رب ہمیں ان سے ملواتا ہی کیوں ہے ؟ ہار گئی ہوں میں۔  ہم اس راہ پر اکثر چلنا نہیں چا ہتے جہاں ہمیں پہلے ٹھوکر ملی ہو۔  شاید اسی لیے۔۔ ۔ ‘‘

اور کیرتی کے چہرے پر اداسی منڈلانے لگی۔

سکے کا پانسا پلٹتے ہوئے ہرپریت نے ماحول کو خوشگوار بناتے ہوئے کہا کہ۔

’’اور ایک بار تو میں بھی یہاں ملی تھی کسی سے پتہ ہے کون؟‘‘

’’کون؟‘‘

’’اپنے ہاسٹل کی وارڈن سے۔۔ ۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’ارے یار ہم ہا سٹل سے بھاگ کر جھیل پر آ گئے تھے اور ہاسٹل میں گارجین کے نام کی انٹری کر دی تھی۔  پتہ نہیں کس طرح وارڈن کو پتہ چل گیا اور وہ ہمیں سونگھتے ہوئے یہاں چلی آئی۔  آج تک میں اس غدار کو ڈھونڈ رہی ہوں۔  جس دن مل گیا چھوڑوں گی نہیں۔۔ ۔۔ ‘‘

ہرپریت نے باہر کا ماحول تو تبدیل کر دیا تھا۔  پر اندر کے طوفان کو کون شانت کرے۔  پرانی باتوں کو اکثر تھوڑا سا کریدنے سے ہی ان پر پڑی ساری دھول ہٹ جاتی ہے اور وہ زخم دوبارہ ہرے ہو جاتے ہیں۔

’’میں بھی اسی غدار کو ڈھونڈ رہی ہوں جو۔۔ ۔۔ ‘‘

ہم ہمیشہ سے ہی ماضی میں جیتے ہیں۔  حال اچھا ہوتے ہوئے بھی۔ مستقبل کو بہترین بنانے کی چاہ نہ ہوتے ہوئے۔ ہم ماضی میں کیا ہوا تھا اس کا افسوس کرتے رہتے ہیں۔  جبکہ ہونا کچھ یوں چاہئے کہ حال میں جیو اور مستقبل کو بہتر بناؤ۔  ہاں، اپنی طرف سے ایماندار رہو۔  تاکہ کبھی غداری کا اشارہ تمہاری طرف نہ ہو سکے۔

کیرتی اور ہرپریت آج اپنی کسی بھی پریشانی کو سنانے نہیں گئی تھیں۔  بلکہ ’’بدھا جی‘‘ سے اپنی خوشی بانٹنے گئی تھیں۔  کیرتی کا انتخاب دہلی میں ہو گیا تھا، پی ایچ ڈی کے لئے اور ہرپریت کو اپنی زندگی کا پہلا اور اہم ایوارڈ ملنے والا تھا۔  ہرپریت ایک این جی او میں کام کرتی تھی۔  بھولے بھٹکے ہوؤں کو صحیح راہ پر لانا ہی اس کا واحد مقصد تھا۔  اس این جی او میں اس سے بڑی عمر کے بہت سے تجربہ کار لوگ کام کرتے تھے۔  لیکن ہرپریت نے اپنی ایک الگ ہی شناخت بنائی تھی اور اسے چندی گڑھ سوشل ویلفیئر بورڈ کی جانب سے سب سے بیسٹ رضاکار کا ایوارڈ دیا جا رہا تھا۔  کیرتی کی زندگی کچھ پانچ سال کے لئے ٹھہر گئی تھی، اس طویل وقفے نے اس کی زندگی کو اب ایک نئی سمت دی ہے۔  اب وہ جس راہ پر چل رہی ہے۔  وہ اس کی اپنی راہ ہے، کسی کی کوئی دخل اندازی نہیں ہے۔  ہرپریت کرتی تو اپنے من کی ہی پر کئی بار اسے اپنے گھر والوں کے لئے اپنے من کو مارنا بھی پڑتا۔

کیرتی اور ہرپریت اپنی خوشیوں کی مالا میں سکون کے موتی پرو ہی رہے تھے۔  اچانک ایک دھندلا سا چہرہ صاف ہوتا، ان کی طرف بڑھتا گیا، ’’تم۔۔ ۔  تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ چلے جاؤ یہاں سے۔  میں تمہاری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی! ‘‘

’’میری ایک بار بات تو سن لو۔۔ ۔ ‘‘

’’میں نے کہا نا لِیو رائٹ ناؤ‘‘

’’کم از کم اس کی ایک بار بات تو سن لو۔ ‘‘

’’یہ تو کہہ رہی ہرپریت؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ میں کن مشکلوں میں تھی اور اکیلے میں نے کس طرح سب کا سامنا کیا تھا؟ اب میں خود کو دکھ نہیں دینا چاہتی اور ویسے بھی تمہیں یہاں بلایا کس نے ہے ؟ ہرپریت کیا تو نے اسے بلایا ہے ؟‘‘

’’نہیں یار۔  میں ایسی بھول کس طرح کر سکتی ہوں۔  درد کیا ہوتا ہے۔  میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ ‘‘

’’مجھے یہاں کسی نے نہیں بلایا ہے .۔  یہاں سے گزر رہا تھا تو دل کیا کہ کچھ وقت یہاں بیٹھ کر اپنی زندگی کے معنی تلاش کر لوں۔  تمہیں دیکھا تو۔۔ ۔۔ ‘‘

’’تو کیا؟ دیکھ لیا اب دفع ہو جاؤ یہاں سے۔  اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہہ دوں چلے جاؤ۔ ‘‘

’’پلیز تم چلے جاؤ یہاں سے۔  کیرتی پہلے ہی اس بات کو لے کر بہت پریشان ہے۔  اتنے سال ہو گئے پر ابھی تک وہ اس حادثے سے ابھر نہیں پائی ہے۔  چلے جاؤ یہاں سے۔ ‘‘

’’پر مجھے ایک بار بات کرنی تھی۔ ‘‘

’’کیا بات کرنی ہے تمہیں ہاں بولو۔  جب بات کرنی چاہئے تھی تب تو کی نہیں، اب جناب بات کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’دیکھو کیرتی۔ ‘‘

’’ لِیو آئی سیڈ لِیو۔ ‘‘

اور رگھو کو ایک ایسی نظروں کا سامنا کرنا پڑا۔  جس میں غصے کی لالی تو تھی ہی پر ساتھ ساتھ آنسو بھی چھلک رہے تھے۔  ایسا ایک ہی صورت میں ہوتا ہے۔  جب آپ کسی سے بے انتہا محبت کرتے ہوں اور وہ آپ کا ساتھ چھوڑ کر یوں چلا جاتا ہے کہ جیسے آپ سے کبھی ملاقات بھی نہ ہوئی ہو۔  کیرتی کی زندگی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔  رگھو نے اس کا ہاتھ تب چھوڑا۔  جب اسے اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اور آج جب وہ واپس آنا چاہتا ہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔  آج کیرتی کی زندگی میں جب ساری خوشیاں دستک دے چکی ہیں تو وہ کیوں اپنے ماضی کو پھر سے گلے لگائے اور ایسے ماضی کو جو کبھی ساتھ ہی نہیں تھا۔

آج رگھو اس حال اور مستقبل بننا چاہتا ہے۔  پر اب یہ ممکن نہیں ہے۔  اب کیرتی کی زندگی میں وہ ساری خوشیاں دستک دے چکی ہیں۔  جن کی وہ حقدار ہے۔  اگرچہ دیر سے ملیں پر ملیں ضرور۔  کیرتی اپنے حال کے ساتھ بہت خوش ہے۔  اپنے آدتیہ کے ساتھ۔

’’تم میری جگہ پر رہ کر سوچو تو سمجھ آ جائے گا کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟‘‘

’’نا میری جگہ پر کسی نے آ کر دیکھا اور نا ہی میں کسی کی جگہ پر آ کر سوچوں گی اور اب اگر تم ایک منٹ بھی یہاں رکے تو میں انسانیت کی حد بھی پار کر دوں گی۔ ‘‘

اور رگھو وہاں سے اپنا سا منہ لے کر چلا گیا۔

’’کیرتی میں جانتی ہوں تو نے جو کیا وہ آسان نہیں تھا۔  پر اتنی سختی سے۔ ‘‘

ہاں ہرپریت ’’بدھا جی‘‘ کہتے ہیں کہ

’’تھری تھنگس کین ناٹ بی لونگ ہڈن‘‘

دی سن

دی مون

اینڈ دی ٹروتھ

’’اور میری زندگی کا سچ بھی اب مجھ سے چھپا نہیں ہے۔  آج کا سچ آدتیہ ہے اور یہ سچ میں مان بھی چکی ہوں اور میں اس سچ سے بے انتہا پیار بھی کرتی ہوں۔  میں اور کچھ نہیں جاننا چاہتی اب۔

اتار چڑھاؤ زندگی کا حصہ ہیں اور ہمیں ان سے خود ہی نمٹنا ہوتا ہے۔  ہاں یہ بات صحیح ہے کہ ایک اچھے ہمسفر کے ہونے سے ان کا پتہ نہیں چلتا۔  میں آج تک یہی سوچتی رہی کہ میری محبت میں کمی تھی۔  لیکن نہیں، رگھو اس کے قابل نہیں تھا۔  یہ مشکل بھی میرے اندر تھی اور اس کا حل بھی۔  ہر مشکل کا حل ہمارے اندر ہی ہوتا ہے۔  ’’بدھا جی‘‘ کہتے ہیں نا۔۔ ۔

’’دے واز ناٹ ان دا اسکائی۔ د ے واز ان دا ہارٹ‘‘

***

 

 

 

 

چاندنی دھوپ

 

الکا چترانشی

 

زندگی میں کبھی کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے۔  جب انسان کو مجبوراً دوہری زندگی گزارنے کے لئے مجبور ہونا پڑتا ہے۔  چاہ کر بھی وہ باتیں زبان پر نہیں آ پاتیں جو ذہن میں ہوتی ہیں اور دوسروں کی خوشی کی خاطر وہ سب کہنا پڑتا ہے، جو وہ سننا چاہتے ہیں، لیکن ہم کہنا نہیں چاہتے، پھر بھی بولنا پڑتا ہے۔

ایسا ہی کچھ رینو کے ساتھ ہوا۔  ساس نہیں چاہتی تھی کہ ان کی بہو نوکری کرے، لیکن رینو کسی بھی شرط پر یہ نوکری چھوڑنے کو تیار نہیں تھی۔  آخر رینو نے اپنی ساس کو منا ہی لیا کہ وہ گھر اور دفتر کے درمیان مطابقت پیدا کر لے گی اور اس کی نوکری سے گھر کے کاموں میں کوئی بھی دقت نہیں آئے گی۔  اگر انہیں کبھی ایسا لگے کہ وہ دفتر کی وجہ سے گھر کے لئے وقت نہیں نکال پا رہی ہے۔  تو وہ بیشک اس کی نوکری چھڑوا دیں۔

یہیں سے شروع ہوتی ہے رینو کی دوہری زندگی جسے رینو بڑی ہی خوب صورتی کے ساتھ جی رہی ہے۔  من پریشان ہے پر اس کے کسی کونے میں خود کفیل ہونے کی جو خواہش دبی تھی، وہ آج پوری ہو رہی ہے۔  رینو جانتی ہے کہ کچھ حاصل کرنے کے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے، اسی لئے پریشانی کو چہرے پر پھٹکنے بھی نہیں دیتی چا ہے دفتر ہو یا پھر گھر۔

رینو کی صبح پانچ بجے شروع ہوتی ہے، نہانا دھو کر ناشتا بنانا، ساس کو اٹھنے پر چائے پہچانا، اپنا ٹفن پیک کرنا۔  سب اسی کو کرنا پڑتا ہے۔  دل تو نہیں کرتا کہ صبح اٹھ کر وہ سارے کام کرے، وہ تو چاہتی ہے کہ اٹھے اور نہا دھو کر جیسے ہی میز پر آئے لگا لگایا ناشتا ملے، جسے کھا کر وہ دفتر نکل جائے۔  لیکن نوکری کے لئے یہ سب کرنا ہی پڑتا ہے۔

آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔  رینو نے کیتلی میں چائے چھنی اور ٹرے میں رکھ کر ڈرائنگ ہال میں لے آئی۔ اس نے ساس کو بلایا۔

’’ماں جی آئیے، چائے تیار ہے۔ ‘‘ من میں تو آیا کہ کہے آ  بڈھی چائے پی لے دن بھر پڑے پڑے پلنگ توڑتی رہتی ہے۔  صبح وقت سے اٹھ نہیں سکتی، روز چائے کے لئے چلانا پڑتا ہے، بیسیوں آواز دوں گی تب آئے گی۔

’’لا بہو چائے دے دے۔ ‘‘ ماں جی نے کہا۔

’’آپ بیٹھیے ماں جی، لیجئے چائے تو میں نے کپ میں نکال دی ہے۔ ‘‘

ماں جی نے چائے پیتے ہوئے کہا، ’’بیٹی تیرے ہاتھ کی بنی چائے میں تو جادو ہے، پیتے ہی کیسے چستی کے آ جاتی ہے۔  آدھا کپ چائے اور دینا۔ ‘‘

رینو کیتلی سے چائے کپ میں ڈالتے ہوئے دل ہی دل میں بڑبڑا رہی تھی۔  کتنی ہوشیار ہے بڈھی عورت، مکھن بہت مار لیتی ہے۔  کام کرانا تو کوئی اس سے سیکھے۔  بیٹھے بیٹھے کھانے کو ملے تو تعریف مارنے میں جاتا ہی کیا ہے۔  مار بڈھی مار، میں تو نوکری کر ہی رہی ہوں۔  تو آرام کر۔

’’لیجئے ماں جی چائے۔  ماں جی آپ کے لئے پراٹھے اور مٹر کی سبزی بنا دی ہے۔  ابھی پروس دوں کہ آپ بعد میں کھائیں گی؟ ‘‘

’’نہیں بیٹی، میں تو بتانا ہی بھول گئی تھی کہ آج میرا وَرَت ہے۔  میرے لئے اب ناشتے میں مکھانے کی کھیر بنا دے اور وقت ہو تو دوپہر میں کھانے کے لئے دو پھلکے سینک دے اور پھریری آلو بنا دے۔  شام کو تو تم دفتر سے آ ہی جاؤ گی۔ ‘‘

’’جی ماں جی ابھی بنا دیتی ہوں۔ ‘‘کمال کی عورت ہے۔  کھا کھا کر ڈرم ہوئی جا رہی ہے۔  پھر بھی ایک دن صبر نہیں کر سکتی۔  رہے گی وَرَت میں اور تینوں ٹائم دبا کر کھائے گی۔  اس کے بعد بھی ظاہر یہ کرے گی کہ وَرَت کی وجہ سے بھوکی ہوں۔

گھڑی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو اسے لگا کہ پھر مر گئے، آج پھر بڈھی کی وجہ سے دیر ہو گی۔  فٹافٹ نکلو نہیں تو باس کی کھری کھوٹی سننی پڑ جائے گی۔

’’ماں جی آپ کے وَرَت کا سارا انتظام کر دیا ہے آپ کھا لیجیے گا۔  میں دفتر کے لئے نکلتی ہوں۔ ‘‘

’’اچھا بیٹا، اپنا خیال رکھنا اور ہاں دفتر سے آج وقت پر ہی آ جانا۔  مجھے شام کو پوجا بھی کرنی ہے۔  تم بھی اس میں میرے ساتھ رہو تو ٹھیک رہے گا۔ ‘‘

’’اچھا ماں جی میں کوشش کروں گی جلدی آنے کی۔ ‘‘ رینو ساس کے پاؤں چھو کر گھر سے نکل گئی۔

تم اپنا خیال رکھنا۔  ارے تیری دیکھ بھال سے فرصت ملے تب تو اپنے بارے میں سوچ سکوں۔  شام کو جلدی آ جانا۔  ماں جی کو پوجا کرنی ہے۔  پوجا والا کمرہ دھونا پڑے گا، جب میں آؤں گی تبھی تو دھلے گا۔  پھر ٹھونسنے کے لئے بھی تو کچھ اسپیشل چاہئے، وَرَت ہے نا، کہیں کم کھایا تو کمزوری آ جائے گی نا۔  رینو مسلسل سوچے جا رہی تھی۔

دفتر کے سامنے ٹیکسی سے اترنے پر اس نے گھڑی دیکھی، ’’تھینک گاڈ۔  ٹھیک وقت پر آ ہی گئی، ورنہ میری خیر نہیں تھی۔ ‘‘

’’ہیلو رینو۔  اتنی ہڑبڑاہٹ میں جلدی جلدی کہاں بھاگی جا رہی ہے۔  میں کب سے تجھے آوازیں دے رہی ہوں۔ ‘‘ اس کی دوست سیما نے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا۔

’’ہیلو سیما میں بھاگ نہیں رہی ہوں۔  میں نے تیری آواز سنی ہی نہیں۔  آج ٹریفک میں پھنس گئی تھی، اسی لئے تھوڑی ٹینشن تھی کہ کہیں لیٹ نہ ہو جاؤں۔ ‘‘

دونوں ایک ساتھ دفتر کی سیڑھیاں چڑھنے لگیں۔

بڑی جلدی تاڑ جاتی ہے۔  لیکن میں کوئی بے وقوف تھوڑی ہوں، جو اپنی ہنسی اڑوانے کیلئے تجھے بتا دوں کہ کیوں دیر ہو گئی۔  خود تو بڑی دودھ کی دھلی ہے نا، میں تو کام کرتی ہوں، اپنے کو دیکھ، تو نے تو گھر میں دو چولہے کرا دیئے ہیں۔  ویسے بھی تیری جنم کی عادت ہے۔  دوسرے کے پھڈّے میں ٹانگ اڑانے کی۔  ارے اپنی دیکھ، میری فکر چھوڑ۔

’’رینو، میری ایک فائل آج تم دیکھ لو، میرے پاس کام تھوڑا زیادہ ہے اور سر جلدی مانگ رہے ہیں۔ ‘‘

’’سوری سیما آج مجھے بھی کام ہے۔  گھر بھی تھوڑا جلدی جانا ہے۔  سوری آج نہیں۔ ‘‘

’’گھر جلدی جانا ہے ؟ کیوں کوئی خاص بات ہے کیا؟‘‘

’’نہیں کوئی خاص بات نہیں، بس ماں جی کا وَرَت ہے۔  اس کا تھوڑا سا سامان مارکیٹ سے لینا ہے۔  بس اور کچھ نہیں۔ ‘‘

’’کیوں رینو، تیری ساس تو دن بھر گھر میں اکیلے ہی تو رہتی ہے۔  وہ خود بھی تو لا سکتی ہے۔ ‘‘

’’لا تو سکتی ہیں، پر جب میں ہوں تو ماں جی کو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے، میں انہیں اتنا بھی آرام نہ دے سکوں تو بیکار ہے، میرا ان کے ساتھ رہنا، پھر تو وہ اکیلے ہی بھلی ہیں۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے رینو، میں اپنا کام کرتی ہوں۔ ‘‘

’’او کے سیما، برا مت ماننا پھر کبھی کر دو گی۔ ‘‘

زبان پر آ کر رک گیا نہیں تو دل تو کر رہا تھا کہ کہہ دوں فیشن ویشن کی وجہ سے کام میں من نہیں لگتا۔  نہیں لگتا تو گھر بیٹھ۔  میں تیرا کام کروں گی تو کیا توا پنی سیلری مجھے دے دے گی۔  دوسروں کی باتوں میں تو تیری جان اٹکی رہتی ہے۔  روز ایک فائل بھی نپٹاتی تو میز پر ڈھیر نہیں لگتا۔  اب باس کی ڈانٹ کھا، تبھی میرے کلیجے کو ٹھنڈک ملے گی۔  بڑی آئی مجھ سے کام کروانے والی۔

رینو فٹافٹ اپنی فائلوں نمٹانے لگ گئی۔  ابھی اسے کچھ لیٹر بھی ٹائپ کر کے پرنٹ آؤٹ نکالنے تھے۔  ان سب کاموں میں کب چار بج گئے پتہ ہی نہ چلا۔  وہ فائلوں سمیٹ ہی رہی تھی کہ سیما نے آواز دی۔

’’رینو ٹائم ہو گیا۔  کیا آج گھر نہیں جانا ہے ؟ تو تو کہہ رہی تھی کہ جلدی جائے گی۔ ‘‘

’’بس چل رہی ہوں۔  کیا کروں یار کام ہی اتنا تھا کہ جلدی ختم نہیں ہوا۔  ماں جی پوجا پر میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔  ابھی پھل اور پوجا کا سامان بھی لینا ہے۔  ماں ضرور پریشان ہو رہی ہوں گی کہ میں کہاں رہ گئی ہوں۔ ‘‘

رینو کہتے کہتے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ سارا سامان لے کر جیسے ہی گھر پہنچی، پورچ میں پھیلے پانی میں پھسل کر گر گئی۔  ہاتھ میں لیا سارا سامان پورچ میں بکھر گیا۔  کسی کے گرنے کی آواز سن کر اس کی ساس جیسے ہی باہر آئی تو دیکھا کہ رینو پورچ میں پھیلا سامان سمیٹ رہی ہے۔  انہوں نے دیکھا کہ پھسل کر گرنے کی وجہ سے رینو کے سارے کپڑے پانی سے بھیگ چکے تھے۔  فوری طور پر سہارا دے کر انہوں نے رینو اٹھایا۔  رینو کو چلنے میں تکلیف ہو رہی تھی۔  ماں جی اسے سہارا دے کر آہستہ آہستہ کمرے میں لے گئیں اور پھر بھاگ کر دوسرے کمرے میں جا کر کچھ تلاش کرنے لگیں۔  رینو نے گھر میں پھیلے پانی کو دیکھ کر سوچا بڈھی کر کیا رہی تھی جو اتنا پانی پھیل گیا۔  اوہ پوجا کا انتظام۔  یہ پوجا کرنے کے لئے گھر صاف کر رہی تھی کہ میری ٹانگ توڑنے کے لئے پانی پھیلا رہی تھی۔

تب تک رینو کی ساس ہاتھ میں ایک شیشی لئے کمرے میں آئیں اور انہوں نے رینو سے کہا، ’’لا بیٹی، پاؤں میں نورانی تیل لگا دوں، تیری موچ فوری ٹھیک ہو جائے گی۔ ‘‘

’’ارے ماں جی میں خود لگا لوں گی۔  آپ پریشان نہ ہوں تھوڑا درد ہے۔  تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

’’اپنے آپ کیسے ٹھیک ہو جائے گا؟ لاؤ میں تیل لگا کر مساج کر دوں۔ ‘‘ کہتے کہتے وہ رینو کے پاؤں میں تیل لگانے لگ گئیں۔  رینو کو آرام ملا اور وہ کرسی کی پشت پر ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر کے سوچنے لگی۔

کتنی فکر ہے اس بڈھی عورت کو اپنی۔  تبھی تو بڑے پیار سے تیل چپڑ رہی ہے۔  میں دو دن بھی لیٹ گئی تو اس کی تو نانی مر جائے گی کام کرتے کرتے۔  مکھن نہیں تو تیل ہی سہی، لگا لے، لگا لے۔  میں نہ اٹھی تو تیرے سارے کام کون کرے گا؟ سارے کام کرنے سے تو تھوڑا مساج کرنا ہی تیرے لئے بہتر ہے۔

رینو کو آرام سے لیٹا دیکھ کر جیسے ہی اس کی ساس اٹھی، رینو کی آنکھ کھل گئی اور وہ اٹھنے لگی۔  پر ماں جی نے ڈانٹ کر اسے لیٹنے کو کہا۔  تھوڑی دیر میں وہ ہلدی والا گنگنا دودھ اور کھانے کے لئے کچھ لے کر آئیں۔  رینو کو اپنے ہاتھ سے دودھ پلایا اور پوچھا، ’’اب کیسا درد ہے بیٹی؟ زیادہ تکلیف ہے تو ڈاکٹر کو بلا لاؤں ؟‘‘پھر اس کے پاس بیٹھ کر اس کے سر پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیرنے لگیں۔  پتہ نہیں رینو کو کیا ہوا کہ وہ اپنا سر ماں جی کی گود میں رکھ کر لیٹ گئی۔  آج اسے اپنی ماں کی یاد آ گئی۔  اس کی آنکھوں سے، نہ چاہ کر بھی کچھ موتی اس کے گالوں پر لڑھک گئے۔  اسے وہ لمحے یاد آ گئے، جب اس کی ماں اسی طرح سے اس کی تکلیف دیکھ کر پریشان ہو جایا کرتی تھیں۔  اس کی خدمت میں جی جان سے جٹ جاتیں۔  پھر انہیں اپنی فکر نہ رہتی۔  ہر پل اس کا خیال رکھنا، بار بار پوچھنا کہ کیا کھانے کامن ہے، درد تو نہیں، سر میں تیل ڈال دوں اور گود میں سر رکھ کر سہلانا۔  آج اسے اپنی ماں کی یاد آ گئی۔  کیوں آج تک وہ ساس میں ماں کو نہیں تلاش پائی؟ پھر آج کیا ایسا ہوا جو آنکھ نم ہو گئی۔  ان کا برتاؤ دیکھ کر۔  وہ انہیں اپنی ماں کیوں نہیں سمجھ پائی؟ ہر پل ان کے بارے میں برا سوچنا تو جیسے اس کی فطرت بن چکی تھی۔  وہ تو یہی سوچتی تھی کہ انہیں بہو نہیں، ایک نوکرانی چاہئے تھی۔  سو آج تک وہ نوکرانی ہی بنی رہی۔  اس نے بھی تو کوشش نہیں کی کہ وہ بہو سے بیٹی بنے۔

رینو کا سر سہلاتے سہلاتے آج ایک ماں کو اپنی بیٹی کی یاد آئی۔  رینو کے معصوم چہرے میں اسے گڑیا کا چہرہ یاد آ گیا۔  کتنا سفاک بن گیا تھا بھگوان۔  ایک ماں کی خوشی نہیں دیکھی گئیں۔  چھین لیں ساری خوشیاں۔  دس برس کی تو تھی، جب بھگوان نے اس سے اس کی گڑیا کو چھین لیا تھا۔  کتنے ارمان سجائے تھے۔  اسے کیا کیا سکھانا چاہتی تھی۔  تمام ارمان ایک پل میں چکنا چور ہو گئے۔  خواب جو گڑیا کو لے کر بنے تھے، وہ سارے خواب رینو نے تو پورے کر دیے، پھر بھی اسے اپنی گڑیا کیوں نہ بنا سکی؟ کتنا خیال رکھتی ہے رینو! ہر چیز مانگنے سے پہلے ہی لے کر کھڑی ہو جاتی ہے۔  جب وہ میرے دل کی باتیں بغیر بولے ہی سمجھ جاتی ہے تو میں کیوں نہ اس کے دل کی بات جان سکی؟ کیوں اسے اپنی بیٹی نہ بنا پائی؟

ماں جی کی آنکھوں سے نکلے موتی رینو کے ماتھے پر غیر ارادی طور سے گر پڑے۔  تب اسے لگا کہ ماں جی رو رہی ہیں، جب تک اس نے آنکھ کھولی، ماں جی کی دھوتی کا آنچل ان موتیوں کو سمیٹ چکا تھا۔  لیکن پھر بھی آج ماں کے چہرے سے بیٹی کے لئے فکر کے نشان صاف جھلک رہے تھے۔  اس سے رہا نہ گیا اور وہ پوچھ ہی بیٹھی، ’’ماں آپ رو رہی ہیں ؟‘‘

پھر ماں جی کا سر بھی آنکھوں کے ساتھ ساتھ بھیگ گیا۔  بولیں، ’’آج بھگوان نے مجھے میری بیٹی پھر سے لوٹا دی۔  اسی خوشی میں آنکھ نم ہو گئی۔ ‘‘

رینو کو بھی آج اپنی ماں مل گئی۔  من میں پچھتاوا تھا پھر بھی تسلی تھی کہ ماں کے بارے میں جو بھی سوچتی تھی، آج تک کسی سے نہ کہہ کر ٹھیک ہی کیا، نہیں تو اسے کبھی بھی اپنی ماں نہ مل پاتی۔  پھراسے اپنی بچکانی باتیں یاد آ گئیں جو وہ اپنی ماں جی کے بارے میں سوچتی تھی یا سوچنا اس کی فطرت بن گئی تھی۔  اس کے چہرے پر ہنسی کی لہر دوڑ گئی۔

ماں جی اس کے چہرے پر ہنسی دیکھ کر مسرور ہو گئیں۔  آج ایک ماں کو اس کی بیٹی اور ایک بیٹی کو اس کی ماں مل گئی تھی۔  دونوں ایک دوسرے کے چہروں کو دیکھ کر ہنس پڑیں۔

***

 

 

 

اعتراف

 

شوانی کوہلی

 

’’انسان غلطیوں کا پتلا ہے ‘‘ اور جو جانتے بوجھتے دوہرائی جائیں ؟ انہیں کیا کہا جائے گا؟ انسان کے ذہن پر کچھ باتوں کا گہرا اثر پڑتا ہے۔  خاص طور پر کر بچپن میں۔  ایک شاخ کی مانند ہوتا ہے بچپن۔  صحیح خوراک ملے تو شاخ تندرست اور پکی ہو جاتی ہے اور غلط خوراک ملنے پر وہ شاخ اوپر سے تو پکی نظر آتی، لیکن اندر سے کمزور، بے بس اور لاچار ہوتی ہے۔

’’ماں۔ ‘‘ اچانک تارا، ونیتا کو پکارتی ہوئی اٹھی۔

’’کیا ہوا بیٹا؟ تم اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟ کوئی برا سپنا دیکھ لیا کیا؟‘‘ونیتا اور شیلیش دونوں اپنے کمرے سے بھاگتے ہوئے آئے۔

’’ایسا لگا کہ میرے آس پاس کوئی تھا۔ ‘‘ تارا گھبرائی ہوئی بولی۔

بھیانک منظر دیکھنے کے بعد ایک عجیب سی کپکپاہٹ جسم کو جکڑ لیتی ہے۔  کسی بھیانک سائے کے نظر جانے سے جس خوف سے سامنا ہوتا ہے، وہ ویران راستوں پر موت کی ہلکی سی جھلک دکھاتا ہے۔  تارا ٹھیک انہی حالات سے گزر رہی تھی۔

’’پتہ نہیں کیا ہوا ہے میری بیٹی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ ‘‘

’’فکر نہ کرو، کچھ نہیں ہو گا تارا کو۔  کسی ڈراؤنے خواب میں تھی شاید۔  تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جائے گی۔  ایسا کرو، تم آج اس کے پاس ہی سو جاؤ۔ ‘‘

بیٹی کی فکر میں ونیتا کو رات بھر نیند نہیں آئی۔  تارا ساری رات ونیتا کے گلے لگ کر، اسے کس کے پکڑ کر سونے کے کوشش میں مصروف رہی۔  بچوں کی ذہن پر ایک بار جو کوئی واقعہ رقم ہو جائے تو وہ عمر بھر کے لئے اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے۔  وقت کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں، لیکن کچھ ایسے زخم بھی ہوتے ہیں، جو وقت کے ساتھ مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔  اس واقعے نے بھی تارا کے ذہن کو متاثر کیا۔  دن رات وہ اسی خوف میں جی رہی تھی، مر رہی تھی۔  کبھی اپنے ہی جسم پر سے ہاتھ مار مار کر کچھ جھاڑنے کی کوشش کرتی، کبھی اپنے چہرے کو بار بار دھوتی۔  ونیتا کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔  پھر وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہوتا دکھائی دیا۔  صرف دکھا ئی دیا۔

’’ماں، میں کھیلنے کے جاؤں۔ ‘‘

ونیتا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہا، اس نے شیلیش کو فون کر سب کچھ بتایا۔

’’چلو اب تو تمہاری فکر دور ہو گئی۔ ‘‘

’’ہاں شیلیش میں اب مطمئن ہوں۔ ‘‘

کچھ دن گزرنے پر ونیتا نے شیلیش سے باہر گھومنے کی فرمائش کی۔  تارا کو گھومنا بہت پسند ہے۔  ونیتا نے پوری کوشش کی کہ تارا اس صدمے سے ابھر کر سامنے آئے اور ایک ماں اس میں کامیاب بھی ہوئی۔  تارا کے اسکول کا نتیجہ آیا تھا۔  تارا نے اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔  یہ خوشی بھی اس کے زخم پر مرہم لگانے میں کامیاب ہوئی تھی۔  سب لوگ جب گھر لوٹے تو تھک کر چور ہو چکے تھے۔

’’میں تارا کو سلا کر آتی ہوں۔ ‘‘

’’آج تو تارا خود ہی سو جائے گی۔  وہ مطمئن ہے آج اور خوش بھی۔ ‘‘

’’ ہاں آج تو میں بھی مطمئن ہوں۔  میری بیٹی واپس آئی ہے۔ ‘‘

تارا اپنے کمرے میں سونے کے لئے چلی گئی۔  ونیتا اور شیلیش بھی مطمئن ہو کر چلے گئے۔  کوئی خوف نہیں، کوئی تشویش نہیں۔

رات کے تقریباً دو بجے۔  تارا کے خوف نے ایک بھیانک آواز کا روپ دھارا اور وہ چھٹپٹاتی ہوئی پورچ میں آ پہنچی۔

’’ماں وہ۔۔ ۔  اس نے مجھے۔۔ ۔  میں نے اسے وہاں۔۔ ۔  تمہارے کمرے کی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ ‘‘تارا دو بارہ پہلے کے طرح ہی اپنے کے جسم کو جھاڑنے لگی۔  اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔  خود کو چھونے کے احساس سے اسے گھن ہونے لگی۔  کسی نے اس کے جسم پر گندگی کی پرت چڑھا دی ہو جیسے۔

’’کون؟ کوئی نہیں ہے یہاں پر۔  کیا بات کیا ہے تار ا، بیٹا پوری بات بتا ماں کو۔ ‘‘ تارا کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے ونیتا نے اپنی ممتا کا آنچل اس پرتان دیا، تاکہ وہ اپنا ہر غم، ہر پریشانی بھول جائے۔  تارا نے ماں کے آنچل میں دنیا کی سب سے گہری اور پرسکون نیند لی۔  اگلے ہی دن ونیتا نے اپنی ماں سے بات کی۔  ماں کے کہنے پر ونیتا نے تارا کو کالی کے مندر والے پنڈت جی سے بھبھوت دلوائی اور کالی ماں کو ایک ماں ہونے کی دہائی دینے لگی۔

’’تو بھی تو ایک ماں ہے، تو پھر کس طرح اپنی ہی بیٹی کو تکلیف میں دیکھ سکتی ہے۔  تیری ہر مرضی کو آج تک مانتی آئی ہوں۔  آنکھیں بند کر کے ہر فیصلے کے سامنے ما تھا ٹیکا ہے۔  تیری چوکھٹ کے سوا کوئی نہیں ہے میرا ماں۔  سنبھال دے سب کچھ۔  سنبھال دے۔ ‘‘

گھر آتے ہی ونیتا نے تارا کو مندر کی بھبھوت کھلائی۔  آج تارا اپنے کمرے میں جانے کے خیال سے بھی ڈرنے لگی۔  ونیتا کی فکر نے ایک پلان ترتیب کیا۔  شیلیش کے گھر لوٹنے پر ونیتا نے مندر کی ساری بات بتا دی۔

’’پنڈت جی نے کہا ہے، تارا کو کالی مندر میں گیارہ دنوں تک ما تھا ٹیکنا ہو گا اور بھبھوت بھی دی ہے۔ ‘‘

’’اب کہاں ہے تارا؟‘‘

’’سو رہی ہے۔  بڑی مشکل سے سلایا ہے۔  نہ جانے کیا ہو گیا ہے میری بچی کو؟‘‘ اس کا بے جان پڑا جسم گرنے لگا۔  اگلی صبح تارا نے تھوڑا سا منہ نمکین کیا اور پورچ میں بیٹھ گئی۔  اتوار کا دن تھا۔  گلی کے تمام بچے چوک میں کھیل رہے تھے۔  تارا کی سہیلی راشی نے اسے آواز لگائی، ’’چل تارا کھیلنے چلتے ہیں۔  بہت دن ہو گئے تو کھیلنے نہیں آئی۔  چاچی، تارا کی طبیعت خراب تھی کیا؟‘‘

’’نہیں بیٹا، بس ایسے ہی تارا بیٹا کھیلنے جاؤ کھیلو گی تو دل ہلکا ہو جائے گا۔ ‘‘ ماں نے پریشان دل سے سمجھاتے ہوئے کہا۔

تارا اپنی سہیلی کے ساتھ چلی تو گئی، لیکن وہ پرچھائیاں اس کے ذہن میں کچھ ایسے نقش ہو گئی تھیں کہ ہر طرف اسے وہی نظر آ رہی تھیں۔

’’میں باقیوں جیسی کیوں نہیں ہوں ؟ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ؟ کیوں ہو رہا ہے ؟

تمام بچے کھیلتے رہے اور تارا اپنے سوالات میں الجھتے چلے چلی گئی۔  ایک نو سال کی بچی زندگی کے بڑے بڑے سوالوں کا جواب تلاش کر رہی ہے۔

مجھے ماں کو ساری بات بتانی ہو گی۔  جانے ایسی کیا بات تھی، جو تارا کو خیالات کی کھائی میں جانا پڑا۔  ماں بیٹی کے رشتے میں کبھی کوئی دوری نہیں ہوتی، کوئی دیوار نہیں ہوتی، کوئی فاصلہ نہیں ہوتا۔  ہوتا ہے تو صرف محبت اور اعتماد کا رشتہ۔  اسی محبت اور اعتماد کی بنیاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے بڑی ہمت کر کے وہ ونیتا کے پاس گئی۔  شیلیش بھی وہیں تھا۔  ایسی صورت میں بچہ صرف ماں کو اپنا مانتا ہے۔  تارا وہاں کچھ بھی نہیں کہہ سکی۔  سہمی سی لوٹ گئی۔  وہ جب جب خود کو دیکھتی اسی خوف سے کانپنے لگتی۔  کالی کے مندر والے پنڈت جی نے جیسا کہا تھا، ونیتا نے ٹھیک ویسا ہی کیا۔  لیکن کوئی فائدہ نہ ہو۔  جس نے جو جو کہا، اس نے وہ وہ کیا۔  ٹھیک ایک ہفتے بعد ویسا ہی واقعہ پھر ہوا۔  تارا چلائی، گھبرائی اور اپنے جسم کو دوبارہ جھاڑنے لگ گئی۔  اپنے چہرے کو پانی سے صاف کرتی، ہاتھ پاؤں سے کچھ یوں جھاڑتی کہ کسی پرت کو ہٹانا چاہتی ہو جیسے۔  ونیتا ایک لاچار ماں کی مانند سب دیکھتی رہی، پر کچھ کر نہیں پائی۔

’’دیکھو ونیتا میری بات کا برا مت ماننا۔  میں یہ نہیں کہتی کہ تارا بیمار ہے۔  لیکن دماغ کی تسلی کے لئے تم تارا کو کسی ماہرِ نفسیات کے پاس کیوں نہیں لے جاتیں ؟‘‘ونیتا کی دوست نے اسے مشورہ دیا۔

اب ونیتا کے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔  وہ تارا کو ماہرِ نفسیات کے پاس لے گئی۔  ماہرِ نفسیات نے اپنا کام شروع کیا۔  تارا کے اندر کا سارا خوف ونیتا کے سامنے رکھ دیا۔

’’میری بیٹی اتنی تکلیف میں ہے اور میں ماں ہونے کے باوجود اس کے درد کو محسوس نہیں کر پائی۔  کیسی ماں ہوں میں ؟ ارے ایسی ماں ہونے پر لعنت ہے۔ ‘‘

’’دیکھو ونیتا، سنبھالو خود کو۔  تارا کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے۔  اب بھی سب ٹھیک کر سکتی ہو تم۔ ‘‘ ماہرِ نفسیات ڈھارس دیتے ہوئے بولی۔

’’ہاں، میں اپنی بیٹی کو آزاد کرواؤں گی اس درد سے۔  میں، اس کی ماں !‘‘

سچ کے لئے حوصلہ کبھی ختم نہیں ہونا چاہئے۔  بھلے حالات جیسے بھی ہوں۔  حالات کے برعکس چلتے ہوئے انسان ہی اپنی منزل تک پہنچتے ہیں۔  اسی میں ان کی جیت ہے ونیتا نے بھی کچھ ایسا ہی سوچا۔

’’ڈھونڈو گے اگر۔  تبھی ملیں گے راستے

منزل کی فطرت ہے کبھی چل کر نہیں آتی‘‘

’’دیکھو بیٹا، تم اب بڑی ہو گئی ہو۔  کچھ چیزیں میرے اور تمہارے درمیان رہنی چاہئیں اور اگر تم نے کسی کو بھی بتانے کی کوشش کی تو مجھے تو تم اچھی طرح جانتی ہی ہو۔  ہے نا؟ ٹھیک ہے میری پیاری بچی۔ ‘‘ یہ آواز تارا کے اندر، مزید اندر گہرائی میں سمانے لگی۔

تارا پھر چلائی اور ونیتا سے آ کر لپٹ گئی۔

میں اپنی بیٹی کے ساتھ ہوں۔

گھر پہنچتے ہی ونیتا نے شیلیش کو پکارا۔

’’کیا ہوا؟ پھر کوئی بات ہو گئی کیا؟ مجھے لگتا ہے ہمیں تارا پاگل خانے بھجوا دینا چاہئے۔ ‘‘

تڑاک۔۔ ۔۔ ۔۔  .. ایک زوردار طمانچے کی آواز۔۔ ۔ !

’’مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔  تم اس حد تک گر سکتے ہو؟ تارا بیٹی ہے تمہاری!‘‘

’’ ہاں کیا میں نے یہ سب۔  نہیں ہے یہ میری بیٹی اور نہ ہی میں اس کا باپ ہوں۔  سوتیلے کبھی سگے نہیں ہو سکتے۔ ‘‘

تارا اس بات سے بے خبر تھی کہ شیلیش اس کا سگا باپ نہیں ہے۔  شیلیش نے اپنے دونوں گناہ قبول کئے !

***

 

 

 

دلدل

 

امر گوسوامی

 

 

مینک جی لفظوں کے کاریگر تھے۔  بہت اچھے کاریگر۔  وہ لفظوں کو گڑھتے، چھیلتے، کاٹتے اور تراشتے۔  انہیں روپ دیتے۔  کئی طرح کے روپ۔  لفظوں سے وہ پھول کھلاتے۔  فطرت کے راز بوجھنے کی کوشش کرتے۔  ان کے الفاظ غریبوں کے گھروں میں جا کر ان کے آنسو پونچھ آتے، لاچاروں کی لاٹھی بن کر کھڑے ہوتے۔  مینک جی کی کوشش ہوتی کہ ان کے الفاظ سہارا بنیں۔  اپنی شاعری کی اسی میں بڑھائی سمجھتے تھے۔  مینک جی لفظوں سے ہر قسم کے احساسات جگا سکتے تھے۔  ان کے لفظوں سے جو گزرتا، وہ کبھی ہنستا تو کبھی روتا۔  ان کے لفظوں سے کبھی اذان کی آواز مدھر سنائی دیتی تھی، تو کبھی مندر کی گھنٹیوں کی۔  مینک جی ان لوگوں میں تھے، جن کے لئے لفظ مقدس ہوتے ہیں۔  وہ لفظوں سے پیار کرتے تھے، ان سے لیڈروں کی طرح کھیلتے نہیں تھے۔  لفظوں کا اپمان ہوتے دیکھتے تو وہ خون کے آنسو روتے۔

الفاظ کی دنیا کے مینک جی کا اصلی نام اشرفی لال تھا۔  یہ نام انہیں طمع کا احساس دلاتا تھا۔  اپنا سا نہیں لگتا۔  انہوں نے اپنا شاعرانہ نام مینک رکھ لیا۔  اس سے انہیں سکون کا احساس ہوتا تھا۔  اور مینک یعنی چاند کے داغ کی وجہ سے یہ نام انہیں اس دنیا کی حقیقت کے قریب لگتا تھا۔  مینک جی جانتے تھے کہ زندگی میں سب کچھ بے داغ یعنی چوبیس قیراط کا نہیں ہوتا۔  ایسی کچھ خرابی واقع ہو ہی جاتی ہے، جو آدمی کو بائیس قیراط کا بنا دیتا ہے۔  بائیس قیراط کا آدمی ہی آج کی دنیا میں تیز اور ٹکاؤ سمجھا جاتا ہے۔

مینک جی اپنے بارے میں بھلے جانتے تھے کہ وہ اپنے خاندان کی نظروں میں بے داغ نہیں ہیں۔  وہ جانتے تھے کہ اپنی ماں سے لے کر اپنی بیوی اور بیٹے تک کا دل وہ وقت بوقت دُکھاتے رہے ہیں۔  ماں چاہتی تھی کہ بیٹا کوئی چھوٹا موٹا ہی سہی، افسر بن جائے۔  یا ڈاکٹر یا انجینئر۔  پر مینک جی کو آرٹس کی تعلیم راس آئی، کیونکہ اس میں ان کے شاعر بننے کی آسانی تھی۔  ماں اسی دکھ میں زندگی کی پتلی گلی سے آنکھیں موند کر اُس پار کھسک گئی۔  بیوی راجیشوری بھی مینک جی کے مزاج سے مایوس رہتی تھیں۔  وہ انہیں عام لوگوں سے کچھ عجیب سا پاتی تھیں۔  ایک شاعر کی بیوی ہونے کی وجہ سے معاشرے میں راجیشوری کو وہ عزت نہیں ملتی تھی، جو اسکینڈل میں ملوث، معطل شدہ انجینئر کی بیوی ہونے کے باوجود کانتا جی کو ملتی تھی۔ سپنا جی کو بھی ایسی ہی عزت ملتی تھی، جن کے شوہر مقامی ممبر اسمبلی کے ساتھ لگے رہتے تھے۔  مینک جی کا بیٹا پرَستُت بھی اپنے والد سے ناراض رہتا تھا۔  اسے اپنے باپ کے دیئے نام سے بڑی چڑ تھی۔  اس کے دوست نہ اس کا نام ٹھیک سے سمجھ پاتے تھے نہ بول پاتے تھے۔  وہ اس کا مذاق اڑاتے۔  کالج کے کچھ ٹیچر بھی اس کا نام لیتے وقت اپنی مسکراہٹ دبانے کی کوشش کرتے۔  ایک بار ہندی کے ایک ٹیچر نے نرالا جی کا حوالہ دیتے ہوئے جب کہا کہ شاعر تو پاگل ہی ہوتے ہیں، پھر اسے سن کر پرَستُت کی طرف دیکھ کر کچھ شریر لڑکے ہنسنے بھی تھے۔

جب کوئی بیٹا کھلے عام والد کی دلچسپیوں اور ان کی سمجھ پر انگلی اٹھانے لگے، تب سمجھ لیا جاتا ہے کہ بیٹا جوان ہو گیا ہے۔  پرَستُت نے اپنی ماں کو والد کے خلاف اپنی نا اتفاقی جتانا شروع کر دی تھی۔  راجیشوری دل ہی دل خوش ہوئی تھیں کہ بیٹا جوان ہو گیا ہے۔  وہ اس کی شادی کے بارے میں خیالی پلاؤ پکانے لگیں۔  انہوں نے سوچ لیا کہ جس دن پرَستُت کو اپنی ملازمت کی پہلی تنخواہ ملے گی، وہ اسی دن کانوینٹ میں پڑھی، کسی خوبصورت لڑکی سے اس کی شادی پکی کر دیں گی۔  پرَستُت کو بھی انہوں نے مینک جی کی مرضی کے خلاف کانوینٹ اسکول میں تعلیم دلائی تھی۔  راجیشوری نہیں چاہتی تھیں کہ پرَستُت بڑا ہو کر ٹھیٹ ہندی دان بن کر اپنا کیریئر بگاڑ لے۔

مینک جی کی لفظوں کی دنیا میں راجیشوری اور پرَستُت گھبراہٹ کی وجہ سے داخل ہی نہیں ہونا چاہتے تھے۔  مینک جی کی نظمیں ادب کی دنیا میں بھلے ہی سراہی جاتی رہیں، اُن کے ہی گھر میں نہیں پڑھی جاتی تھیں۔  اِن پر ایک غیر اعلانیہ سی پابندی لگی ہوئی تھی۔  یہ پابندی مینک جی کے اقتصادی زوال کو دیکھ کر لگی تھی۔  شادی کے ابتدائی دور میں راجیشوری نے اپنے شوہر کی نظمیں پڑھنے اور سننے میں بڑی دلچسپی دکھائی تھی۔  مگر بعد میں انہیں گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔  انہیں لگتا تھا کہ اگر اس شاعری کا چکر نہیں ہوتا تو مینک جی زیادہ عملی انسان ہوتے۔  اوروں کی طرح ان کا بھی اپنا بینک بیلنس ہوتا، اپنا مکان ہوتا۔  انہیں سال دو سال بعد کرائے مکان تبدیل نہیں کرنا پڑتا۔  مکان تبدیل کرنے میں راجیشوری کو سب سے زیادہ دقت مینک کی لائبریری سے ہوتی تھی۔  الماریوں میں بھری ڈھیر ساری کتابوں کو نکالنا، رکھنا، محفوظ کرنا، باندھنا، پھر انہیں نئے مکان میں جا کر کھول کر الماریوں میں دوبارہ ترتیب سے لگانا، تھکاوٹ بھرا کام ہوتا تھا۔  کتابوں کو رکھنے کے لئے الماریاں بھی ناحق خریدنی پڑی تھیں۔  اس کے علاوہ مزید اور کتابیں دو تین صندوقوں میں بھی ٹھونسی ہوئی تھیں، جنہیں کھول کر دیکھنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔  مینک جی کو جب کوئی کتاب ڈھونڈنی ہوتی، تب انہیں کھولا جاتا تھا۔  پھر تو اس دن چاروں طرف اس کمرے میں کتابیں ہی نظر آتیں، جنہیں دوبارہ صندوقوں میں ٹھونسنے کے لئے کبھی راجیشوری یا پھر پرَستُت کی ضرورت پڑتی۔ پرَستُت کو یہ ناخوشگوار کام کرنا پڑتا تو، بے حد بڑبڑاتا۔  مینک جی اس کے اس انداز پر مسکرا کر رہ جاتے تھے۔

مینک جی کو الماریاں، مجبوری میں کتابوں کی حفاظت کے لئے خریدنی پڑی تھیں۔  کچھ تو کتابوں کو چوہوں سے اور کچھ ان سے ملنے آئے دوست ادیبوں سے بچانے کے لئے۔  اس کے علاوہ کرائے کے مکانوں میں شوکیس اور وارڈ روب کی جگہ کے علاوہ کچھ اور رکھنے کے لئے دیواروں میں جگہ نہیں بنائی جاتی تھی۔  کتابوں کے پریمی کرایہ دار اتنے کم ہوتے تھے اور مالک مکان بھی چونکہ اس دیوانگی سے بچے ہوتے تھے تو اس لئے گھر میں کتاب سجا کر رکھنے کی جگہ بنانے کی بات کسی کے ذہن میں ہی نہیں آتی تھی۔  شوکیس اور کپڑے رکھنے کی الماری میں کتابیں نہیں رکھی جا سکتی تھیں۔  مینک جی کو کتابوں کے لئے ہر بار الگ ہی انتظام کرنا پڑتا۔  کچھ تو کتابیں خریدنے کی عادت کی وجہ سے اور کچھ ادبی دنیا کے شرکاء سے ملاقات میں ملتی رہنے کی وجہ سے، ان کے پاس کتابیں مسلسل بڑھتی رہتی تھیں۔  مینک جی کو کتابیں انتہائی عزیز تھیں۔  اگر وہ لوک کتھاؤں کے راکشس میں سے ایک ہوتے تو ان کی جان کسی کتاب میں ہی بسی ہوتی۔  کتابوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے الماریاں بھی بڑھتی۔  جب جب گھر میں کتابوں کے لئے نئی الماری خریدنے کی نوبت آتی، ایک چھوٹی موٹی مہابھارت چھڑ جاتی تھی۔

کبھی کبھی پرَستُت جھنجھلاتے ہوئے کہتا۔

’’بابا نے پورے گھر کو لائبریری بنا رکھا ہے۔  جہاں دیکھو کتابیں ہی کتابیں۔  لگتا ہے ہم گھر میں نہیں، کسی لائبریری میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ‘‘ مینک جی کہتے، ’’ ایسا لگتا ہو تو برا کیا ہے ؟ خاص طور پر اس کے لئے جسے اپنے کیریئر کے لئے پڑھنا ہی پڑھنا ہے۔  ایسے ماحول میں رہنے سے پڑھائی اچھی ہوتی ہے۔ ‘‘

پرَستُت کہتا، ’’اس دکھاوے کی لائبریری میں میرا دل کیا لگے گا۔  اس میں ایک بھی کتاب ایسی نہیں ہے جو میرے کیریئر میں مدد کرے۔  ایک بار یوں ہی خالی وقت میں ایک شاعری کی کتاب لے کر بیٹھ گیا۔  نظمیں تو اپنی سمجھ میں نہیں آئیں، جو کچھ اپنا پڑھا تھا، اسے بھولنے کی نوبت آ گئی۔ ‘‘

راجیشوری بولیں، ’’یہ سب چیزیں بھول کر بھی نہیں پڑھنا بیٹا۔  اپنے پتا جی کی طرح بگڑ جاؤ گے۔ ‘‘

مینک جی نے کہا، ’’تم سب پڑھے لکھے بیوقوف ہو۔  ہیرے کو پتھر سمجھتے ہو۔  میں اب کیا کہوں۔ ‘‘

’’کہو گے کیا؟‘‘ راجیشوری بولیں، ’’اس بار مکان تبدیل کرنے سے پہلے ان کتابوں کو ٹھکانے لگا دو۔  مجھ بار بار پیکنگ کرنا سہا نہیں جاتا۔  اس کے علاوہ جگہ تو یہ گھیرتی ہی ہیں۔  اپنے دو تین صندوق بھی اس میں پھنس گئے ہیں۔  ہم لوگ تو صرف انہیں ڈھونے کے لیے ہی رہ گئے ہیں۔  ایسے ڈھونے سے کیا فائدہ؟‘‘

مینک جی نے بھی سوچا بیوی سچ ہی کہہ رہی ہے۔  بنا کسی مقصد کے ڈھونا پڑے تو وہ بوجھ بن ہی جاتا ہے۔  اپنا مکان ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی۔  لیکن ان حالات میں تو یہ سب واقعی تکلیف دہ ہے۔

کافی دیر تک سوچنے کے بعد مینک جی نے فیصلہ کیا کہ اپنی لائبریری وہ کسی لائبریری کو دے دیں۔  گھر کا بوجھ بھی ختم ہو جائے گا، لائبریری والے بھی خوش ہو جائیں گے اور کتابیں قارئین تک بھی پہنچیں گی۔  ان کے پاس ایسی ایسی کتابیں ہیں، جو کسی بھی لائبریری کے لئے شہرت کا باعث بن سکتی ہیں۔  ہر کتاب ایک موتی ہے۔  موتیوں کی اس لڑی کو مناسب جگہ میں رکھنا ہی بہتر ہو گا۔

مینک جی شہر میں لائبریری تلاش کرنے نکل پڑے۔  انہیں تعجب ہوا کہ شہر میں کوئی لائبریری نہیں تھی۔  آزاد ہندوستان میں یہ نیا شہر بسا تھا۔  نئے شہر میں نئے امیر آ کر آباد ہوئے تھے۔  یہ امیر ہر عمر کے تھے۔  اپنی حیثیت اور پیشوں کا غلط استعمال کر کے بے تحاشہ دولت بٹور کر اس شہر میں انہوں نے بڑی بڑی کوٹھیاں کھڑی کی تھیں۔  سرمایہ دارانہ نظام سے بنی ان کوٹھیوں میں باہر اندھیرا اور اندر اجالا نظر آتا تھا۔  ان عمارتوں میں خوبصورت حسین کتے اور اپنے جسم کو متوازن رکھنے والی میمیں رہتی تھیں۔  ان کوٹھیوں کے خوبصورت دروازے پر بتوں کی طرح ساکت کھڑے دربان رہتے تھے۔  اس نئے آباد شہر کی سڑکیں بڑی خوبصورت تھیں، جن پر بجلی کے خوبصورت کھمبے لگے ہوئے تھے۔  خوبصورت مارکیٹیں تھیں۔  جن میں خوبصورت دکانیں تھیں۔  ان میں بہترین کتابوں کو چھوڑ کر دنیا بھر کا سامان ملتا تھا۔  گزشتہ دنوں فیشن کی کتابوں کی ایک دکان ضرور کھلی تھی۔  ان میں خوبصورت بنانے کی ترکیبوں سے بھری کتابیں اور واہیات غیر ملکی عورتوں کی تصاویر پر مبنی چکنے چٹے کور والے انگریزی کے سیکنڈ کلاس ناول بکتے تھے۔  انگریزی میں لکھی آسٹرولوجی اور کیریئر کو کامیاب بنانے والی کتابیں بھی وہاں مل جاتی تھیں۔  پر ادب کو چھوڑیئے، ہندی کی کوئی کتاب وہاں نظر نہیں آتی تھی۔  آزاد ملک کے نئے بنے شہر میں چاروں طرف انگریزی کی بھرمار تھی۔  شہر میں خوبصورت بنانے کے لئے ان گنت بیوٹی پارلر کھل گئے تھے۔  خوبصورت ڈیل ڈول بنانے کے لئے جم کھل گئے تھے۔  چستی پھرتی برقرار رکھنے کے لئے خوبصورت گولف کورس اور کلب کھل گئے تھے۔  دل کی بیماریوں اور ذیابیطس کے متاثرین کیلئے خوبصورت اسپتال بن گئے تھے، جن میں موجود ہر ڈاکٹر خود کو ماہر کہتا تھا۔  اتنی ساری خوبصورت چیزوں کے درمیان مینک جی کو ایک خوبصورت تو کیا ایک بدصورت لائبریری کی جھلک بھی نظر نہیں آئی۔  کچھ دانشوروں نے ضرور ایک کافی ہاؤس بنانے کی مانگ اٹھائی تھی۔  ویسے ان میں سے کچھ دانشوروں نے پیسوں کے بل پر امیر کلبوں میں خود کو داخلہ دلا لیا تھا۔  ان کلبوں میں ممبرز شراب پی کرتا ش کی چکنی گڈیوں سے اپنا دل بہلاتے تھے۔  ان کلبوں میں اس کے علاوہ اسنوکر، بلیرڈ، ٹیبل ٹینس اور لان ٹینس کھیلنے کی سہولت تھی۔  پر سب سے زیادہ دل ممبروں کا سیاسی بحث و مباحثے اور افواہوں میں لگتا تھا۔  اتنے اعلی درجے کے انتظامات میں کتابوں کی بات سوچی ہی نہیں جا سکتی تھی، نہیں تو کلبوں میں کیا لائبریری نہیں بنائی جا سکتی؟ پہلے تو کلبوں میں ضرور ہوتی تھی۔

اس دوران شہر میں کئی سائبر کیفے اور گیمنگ کیفے کھل گئے تھے۔  انگریزی فلمیں دکھائے جانے کے لئے دو سنیما ہال بھی کھل گئے تھے۔  نئی نسل انہی جگہوں میں اپنا وقت صرف کرنا زیادہ پسند کرتی تھی۔  مینک جی نے لائبریری کی تلاش سے مایوس ہو کر کئی سماجی مذہبی اداروں اور ٹرسٹ سے وابستہ لوگوں سے بھی بات کی۔  کسی میں بھی لائبریری کے لئے جوش نہیں تھا۔  وہ بولے۔

’’ارے صاحب، ادبی کتابیں پڑھنے کی اب کسے فرصت ہے ؟ اب تو لونڈے جنرل نالج کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں، اسی میں موٹا موٹا سب مل جاتا ہے۔  اسی کو پڑھ کر بہت سے لوگ چھپر پھاڑ کے لکھ پتی اور کروڑ پتی بھی بن چکے ہیں۔ ‘‘

مینک جی نے انہیں اس کے باوجود لائبریری بنانے کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی، اچھے ادب کے ذریعے اچھے معاشرے کی تعمیر پر بحث کی، خود کئی سو کتابیں لائبریری کے لئے مفت دینے کی بات کی، پر ان میں سے کوئی بھی مینک جی کی باتوں سے انسپائر نہیں ہوا۔  وہ تو رہنماؤں، اداکاراؤں، حکام، یہاں تک کہ بڑے سطح کے غنڈوں کی باتوں سے بھی انسپائریشن حاصل کرتے تھے۔  پر مینک جی جیسے قلم گھسیٹوں سے نہیں۔ مینک جی نے اس سلسلے میں ایک خط لکھ کر چار اخباروں کو بھی بھیجا۔  ایک اخبار نے ضرور اس خط کو کاٹ چھانٹ کر ’’ایڈیٹر کے نام خط‘‘ نامی کالم میں چھاپ دیا۔  مینک جی اپنے خط کی ’’ بونسائی ‘‘کو لے کر شہر کے مرکزی ایڈمنسٹریٹر سے ملے اور حکومت کے تعاون سے لائبریری بنانے کی مانگ رکھی۔  ایڈمنسٹریٹر نے اگلے مالی سال میں غور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔  مینک جی لوٹ آئے۔

اس طرح لائبریری کا ذکر کرتے، امکانات کی تلاش کرتے، تین ماہ گزر گئے۔  اس ایڈمنسٹریٹر کا تبادلہ ہو گیا۔  شہر میں ایک پر تعیش ہوٹل کھل گیا، جس کے بہترین بار کا افتتاح ایک غیر ملکی اداکارہ نے کیا، جو ایک فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں ہندوستان آئی تھی۔  شہر کے سبھی بھاری جیب والوں کو اس دن وہاں مدعو کیا گیا تھا، جنہوں نے وہاں جا کر ایک چھوٹا سا ہنگامہ مچایا۔  ہوٹل کے علاوہ ان چند مہینوں میں تین غیر ملکی فاسٹ فوڈ کے ریستوران کھلے، سرکاری زمین پر قبضہ کر کے پانچ مندر، دو مسجدیں اور ایک گرودوارہ بنایا گیا۔  دلت سینا نے ہلا بول کر ایک عوامی پارک کو امبیڈکر پارک کا نام دے کر اس کے بیچوں بیچ گوتم بدھ اور بابا صاحب کی مورتیاں لگا دیں۔  ہاں دو انگریزی اسکول بھی اپنی خوبصورت عمارتوں کے ساتھ ظاہر ہوئے تھے، جن میں بچوں کے داخلے کے لئے لوگ دل اور دولت لٹانے کے لئے تیار تھے۔  اتنا سب ہونے کے باوجود مینک جی کوئی لائبریری نہیں کھلوا پائے، جہاں اپنی کتابوں کا وہ استعمال کر پاتے۔  انہوں نے سرکاری اسکولوں کی لائبریریوں سے بھی رابطہ کیا۔  انہیں ہندی اور وہ بھی ادب کی کتابوں سے کوئی مطلب نہیں تھا۔  ان کا مطالبہ انگریزی کتابوں کا تھا، وہ بھی کیریئر سے متعلق۔

وہ جیسا کہ جانتے تھے کہ اس مکان کو بھی چھوڑنے کا وقت آ چکا تھا۔  مالک مکان نے نوٹس دیا تھا۔  اس دوران شہر میں مکانوں کا کرایہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ مینک جی کے لئے موجودہ مکان سے کسی چھوٹے مکان میں جانا ہی ممکن تھا۔  ہر بار مکان چھوڑنے کے بعد نئے مکان کا کرایہ بڑھ جاتا تھا  اور جگہ مزید کم ہو جاتی تھی۔  اس بار جو حالت تھی اس میں اپنا کچھ فرنیچر بیچے بنا مکان میں رہنا مشکل تھا۔

ہر بار مکان چھوڑنے کا وقت آنے پر مینک جی بے انتہا تناؤ میں جیتے۔  اپنا مکان نہ بنا سکنے پر راجیشوری انہیں ذمے دار مانتیں۔  مینک جی کو جلی کٹی سناتیں۔  بیٹا پرَستُت بھی پیچھے نہیں رہتا۔  وہ کہتا، ’’ اپنی زندگی تو سرکس کی زندگی ہو گئی ہے ماں۔  خیمے کھولو اور خیمے تانو۔ ‘‘

مینک جی کے پاس پڑھنے کی ایک بڑی میز تھی۔  راجیشوری نے کہا، ’’یہ میز بہت جگہ گھیرتی ہے، اسے فروخت کر دو۔ ‘‘

شادی کے وقت ملا، ڈبل بیڈ کا پلنگ بھی زیادہ جگہ گھیرتا تھا۔  اسے بھی فروخت کر ناطے پایا۔  کھانے کی میز بھی جگہ گھیر تی تھی۔  اسے بیچ کر ایک گول فولڈنگ ڈائننگ ٹیبل خریدنے کی بات سوچی گئی۔  کتابوں کی چار الماریوں میں سے تین الماریوں کو بھی فروخت کا فیصلہ کر لیا گیا۔  پڑھنے کی میز اور الماریاں مینک جی نے درجنوں میں سے پسند کر کے بڑے ارمان سے خریدی تھیں۔  انہیں خریدنے وقت انہوں نے اپنے کتنے ہی خرچوں کی کٹوتی کی تھی۔  مگر اب بیچنے کی لاچاری تھی۔

مینک جی نے اخبار میں فرنیچر کی فروخت کا اشتہار دے دیا۔  ساتھ ہی اپنی کتابیں بھی مناسب فرد یا ادارے کو بغیر قیمت دینے کی اطلاع بھی شائع کرا دی۔  کتابوں سمیت الماریاں دینے کی تجویز کو، انہوں نے موٹے حروف میں چھپوایا تھا۔  مگر شرط یہی تھی کہ لینے والا اس کا اہل ہو اور جو کتابوں کی حفاظت کرے۔

اشتہارات کے جواب میں ان سے فرنیچر خریدنے کے لئے بہت سے لوگ آئے۔  ان میں سے جسے جو فرنیچر پسند آیا، سستے داموں اٹھا کر لے گیا۔  کتابوں سمیت الماریاں لینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوا۔  ایک شخص اپنی دکان میں سامان رکھنے کے لئے انہیں لینا چاہتا تھا۔  بھری الماریاں اس کے لئے بیکار تھیں۔  مجبوراً ساری کتابیں نکال کر اسے خالی الماریاں آدھی سے بھی کم قیمت پر بیچ دی گئیں۔  پندرہ دن کے اندر فرنیچر نکل گیا۔  کتابیں رہ گئیں۔

مینک جی کے اندر کتنی تکلیف تھی، اسے وہ بتا نہیں پاتے تھے۔  کتابوں سے بچھڑنے کی بات سوچ کر وہ ان کتابوں سے جیسے مزید چپکتے جا رہے تھے۔  وہ دن بھر ان کتابوں کے درمیان بیٹھے، ان کے صفحات پلٹتے اور اپنے خیالوں میں ڈوب جاتے۔  ہر کتاب کو دیکھتے اور یاد کرتے کہ اسے انہوں نے کب اور کیسی تنگی کے دوران خریدا تھا۔  ایک کتاب تو کئی سالوں کی تلاش کرنے کے بعد انہیں ملی تھی۔  دو کتابیں ایسی تھیں، جنہیں خریدنے کے بعد ان کے پاس گھر واپسی کے پیسے کم پڑ گئے تھے۔  وہ اس دن گھر پیدل آئے تھے۔  ایک دن کچھ چیزیں خریدنے نکلے تھے، مگر کتاب کی دکان میں ایک مہنگی کتاب پسند آ گئی تو وہ چیزیں خریدنے کی بات بھول کر اس کو خرید لائے تھے۔  اس دن راجیشوری سے انہیں جھڑکیاں کھانے کو ملی تھیں۔  ایک کتاب کی وجہ سے تو ان کی ایک دوست سے ان بن بھی ہو گئی تھی۔  کچھ کتابیں تو انہیں کالج میں انعام میں ملی تھیں۔  کچھ دوستوں نے اپنے دستخط کر کے انہیں محبت سے دی تھیں۔  ہر کتاب پر وہ ہاتھ پھیرتے اور وہ کتاب جیسے بولنے لگتی۔  انہیں اس بات کی تکلیف تھی کہ اپنی کتابوں کے لئے انہیں ابھی تک کوئی قابل انسان نہیں ملا۔  ان کے ادبی دوست بھی ان کی مدد نہیں کر پائے۔  دو چار چنیدہ کتابیں لینے کے لئے تو وہ تیار تھے، پر ساری نہیں۔ مینک جی کو ایک بات یاد کر کے ہنسی آ گئی۔  ایک بار ان کے گھر میں ایک لڑکا کام کرنے آیا تھا۔  ان دنوں رامیشوری بیمار رہتی تھیں۔  ان کی مدد کے لئے اپنے ایک واقف کار کی سفارش پر اس کو رکھ لیا۔  وہ لڑکا کام کاج میں ٹھیک ہی تھا۔  دن گزر رہے تھے۔  ایک دن پرَستُت نے بازار میں کباڑی کی دکان پر اسے دو تین کتابیں بیچتے پکڑ لیا۔  پتہ چلا وہ اکثر مینک جی کی کتابوں کے ڈھیر سے ایک دو موٹی موٹی کتابیں چھانٹ کر باہر بیچ آتا اور ان پیسوں سے کچھ کھا پی آتا۔  مینک جی نے بھی جب دھڑکتے دل سے ڈھونڈا تو پتہ چلا، درجن سے زیادہ کتابیں وہ پار کر چکا تھا۔  اسے انہوں نے اسی دن ہاتھ جوڑ کر رخصت کیا اور قسم کھا لی کہ اب ایسے کسی چٹورے کو گھر میں نہیں گھسائیں گے۔  مینک جی کو اس وقت لگا کہ چلو اچھا ہوا، ان کی کتابیں کسی غریب کے کام آئیں۔  اس وقت تو یہ کتابیں واقعی پورے خاندان کے لئے بوجھ تھیں۔

مینک جی بوجھل دل سے بیٹھے تھے اور انہیں کوئی راہ نہیں سوجھ رہی تھی، تبھی ان کے فلیٹ کی گھنٹی بجی۔ پرَستُت نے دروازہ کھولا۔  باہر ایک شخص کھڑا تھا۔  اس نے کہا، ’’سنا ہے آپ کے یہاں کتابیں ہیں۔  میں انہیں لینے آیا ہوں۔ ‘‘

پرَستُت خوشی سے اچھل پڑا۔  اس نے کہا، ’’ اندر آئیے۔ ‘‘

اس کے اندر آنے کے بعد مینک جی سے کہا، ’’یہ کتابیں لینے آئے ہیں۔  دے دو۔ ‘‘ پھر پرَستُت نے پوچھا، ’’آپ کتابیں لے کس میں جائیں گے ؟‘‘

اس نے کہا ’’اپنا ٹھیلا ہے۔  رکشہ ٹھیلا۔ ‘‘

مینک جی نے پوچھا ’’آپ کرتے کیا ہیں ؟‘‘

’’جی کباڑی ہوں۔ ‘‘

مینک جی چونکے۔  بولے۔  ’’میں کتابیں ردی میں فروخت کرنا چاہتا ہوں، یہ آپ سے کس نے کہا؟‘‘

’’دن بھر اسی دھندے میں گھر گھر گھومتے رہتے ہیں بابو جی! پتہ چل گیا۔ ‘‘

’’یہ بہت اچھی کتابیں ہیں۔  انہیں ردی میں کیسے فروخت کیا جا سکتا ہے ؟‘‘

’’بابو جی، اس سے بھی اچھی کتابیں، نئی نئی کتابیں بھی لوگ ردی میں فروخت کرتے ہیں۔  کئی بار ہم لینا نہیں چاہتے تو کچھ لوگ یوں ہی دے دیتے ہیں۔ ‘‘

’’یوں ہی؟‘‘ مینک جی کے منہ سے نکلا۔  وہ خاموش ہو گئے۔  ’’ارے واہ، یوں ہی کیسے دے دیں ؟‘‘

کباڑی آیا دیکھ کر پرَستُت کی تاجرانہ عقل جاگ اٹھی۔ اس نے کہا، ’’ارے یہ ساری ٹاپ کی کہانیوں، ناول، شاعری کی کتابیں ہیں۔  ہر کتاب چوتھائی قیمت پر دیں گے۔  آپ آدھی قیمت پر فروخت دینا؟‘‘

’’ہم تو کلو میں خریدنے بابو۔  چار روپے کلو۔ ‘‘

کچھ دیر پرَستُت اور کباڑی میں مول تول چلتا رہا۔  کوئی بھی دبنے کے لئے تیار نہیں تھا۔  مینک جی عجیب نظروں سے دونوں کو دیکھتے رہے۔  اچانک وہ بولے، ’’جب ردی ہی ہے تو کیا بحث کرنا۔  جب بوجھ ہی ہے تو کیسا پیار۔  میں تو ان کتابوں کو مفت میں کسی قابل شخص کو دینے کے لئے تیار تھا۔  ٹھیک ہے، یہ جو دے دے، لے لو۔ ‘‘

آپ ریٹ مت خراب کیجیے پتا جی۔ ‘‘ پرَستُت نے کہا۔

راجیشوری باورچی خانے میں تھیں۔  وہ وہیں سے بولیں، ’’تمہارے پتا جی ساری زندگی ریٹ ہی خراب کرتے آئے ہیں۔  اگر یہ طریقے سے اپنے ہنر کو فروخت کر پاتے تو ہم اس سے بہتر زندگی جی سکتے تھے۔ ‘‘

مینک جی اٹھ کر اندر کمرے میں چلے گئے۔  انہوں نے اپنی آنکھیں موند لیں۔  انہیں لگا وہ اندھیرے کی دلدل میں پھنس گئے ہیں اور اس میں دھنستے جا رہے ہیں۔

***

 

 

 

ہرِیا کاکا

 

ڈاکٹر دیپتی گپتا

 

سبزی، پھل اور نہ جانے کتنی چیزوں کے چھوٹے بڑے تھیلے پیٹھ پر لادے ہرِیا کاکا کو دور سے آتے دیکھ کر ونی اورپاوس خوشی سے اچھلتے اس کے پاس پہنچ گئے۔  گھر کے سامنے دونوں جانب مرکزی دروازے تک پھیلے مخملی گھاس کے لان کے وسط میں سرخ پتھروں کا لہراتا راستہ بہت لمبا نہیں، تو اتنا چھوٹا بھی نہیں تھا کہ ہرِیا کاکا کا مرکزی دروازے سے گھر کے پورچ میں پہنچنے تک بچے صبر سے انتظار کر پاتے۔  وہ پلک جھپکتے ہی ہرِیا کاکا کے پاس پہنچے، ان تھیلوں کو چھوتے، اپنے ننھے ہاتھوں سے تھیلے پکڑنے کے لئے کاکا پر لپکتے، ہلچل مچاتے گھر میں گھسے اور بڑی ذمہ داری سے کاکا کی پیٹھ پر لدے تھیلوں کو اتروانے میں اس کی مدد کرنے لگے۔  ہرِیا کاکا ان دونوں بلاؤں کو سکون سے جھیلتا ہوا، بیچ بیچ میں آنکھیں دکھاتا ہوا کہ کہیں چیزیں نہ بکھر جائیں، خاموشی سے انہیں گھڑکتا سا، ایک ایک کر کے پورچ میں سامان سے بھرے تھیلوں کو فرش پر جمانے لگا۔  تھوڑی ہی دیر میں وہاں خاصا بازار سا پھیل گیا۔ ہرِیا ایک طرف سامان کو صفائی سے رکھتا، تو دوسری طرف ونی اور پاوس لفافوں کے منہ کھول کھول کر، ان میں جھانک کر جانچ پڑتال کرتے۔  دالوں اور مصالحوں کے پیکٹ ان کی ناک بھوں سکوڑنے کے لئے کافی تھے۔  دونوں کو اپنے مطلب کی کوئی بھی چیز ابھی تک نہیں مل پائی تھی۔  تبھی ہرِیا نے جیسے ہی پھل کے تھیلے کو کھولا، دو جوڑی شرارتی آنکھیں چمک اور لالچ سے بھر اٹھیں۔ رس بھرے انگوروں کو ونی اور پاوس گویا اپنی آنکھوں سے ہی نگلنے کو تیار، اپنی ننھی بانہیں آگے پھیلا کر ان گچھوں کو مٹھی میں بھرنے کے لئے بندروں کی طرح ٹوٹ پڑے، پر ہرِیا کاکا نے جھپٹ کر اپنے بڑی بڑی ہتھیلیوں سے ان انگور کے گچھوں کا کچھ اس طرح سے محاصرہ کیا کہ وہ دونوں انگور کا ایک بھی دانا نہ لے پائے اور نہ انگور کی درگت کر پائے۔  اپنے دوسرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے ونی اور پاوس کو پیار سے سبق پڑھاتے ہوئے، ہرِیا کاکا نے کہا، ’’کیا سکھایا تھا ماں جی نے، کیا بتایا تھا ٹیچر جی نے اور کیا سمجھایا تھا ہم نے بھی کہ بغیر دھوئے کچھ نہیں کھاتے۔  دور ہٹو دونوں، سب تمہارے لئے ہی ہے۔  پر ہم جرا نہلا دھلا کر انہیں صاف کر دیں۔  تب تم دونوں کو ان کو کھا سکتے ہو۔ ‘‘

دونوں انگوروں کو نہلانے دھلانے کی بات پر بڑے کھلکھلائے اور ہرِیا کاکا کے سُر میں سُر ملاتا پاوس بولا۔  ’’کون سے صابن سے نہلاؤ گے، میرے یا ونی کے ؟‘‘

’’ارے پاوس تو نے اپنی بنیان اور نیکر پلنگ کے نیچے کیوں پھینک رکھی ہے ؟‘‘

تبھی ماں جی جھنجھلاہٹ سے بھری ہوئیں، دھلی بنیان سے مٹی جھاڑتی ہوئیں، پورچ میں آئیں تو دونوں بھولے سے بن کر انہیں ایسے دیکھنے لگے، جیسے انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں . ماں جی نے دوبارہ دونوں کو دھمکاتے ہوئے کہا۔

’’کیوں پھینکتے ہو کپڑے اِدھر ادھر۔  نیکر تو اتنی دور پلنگ کے نیچے، دیوار کے پاس پھینکی ہے کہ میرے بس کا تو نہیں اسے نکالنا۔ ‘‘

پاوس نیچی نظریں کئے، ہولے سے شکایتی لہجے میں بولا، ’’مجھے وہ نیکر بالکل اچھی نہیں لگتی اور بنیان میں نے نہیں پھینکی، وہ تو اپنے آپ گر گئی تھی۔ ‘‘

’’تو کیا اٹھا نہیں سکتے تھے ؟‘‘ ماں جی بڑبڑائیں۔

پاوس اپنی ڈیوٹی کا حوالہ دیتے ہوئے بولا، ’’وہ ہرِیا کاکا آ گئے تھے نا مارکیٹ سے، انہیں لینے گیٹ پر جانا تھا نا۔ ‘‘

ہرِیا کاکا نے پاوس کی بھولی دلیل پر مسکراتے ہوئے، ماں جی کی موجودگی اور وقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، فٹا فٹ سبزیوں اور پھلوں کو بڑے بھگونے میں ڈال کر، نل کے نیچے دھونا شروع کر دیا۔  جیسے ہی ماں جی واپس کمرے میں مڑیں، ہرِیا نے شریر سے شریف بنے دونوں بچوں کو ایک ایک کیلا پکڑا کر کہا، ’’جاؤ، تھوڑی دیر میں انگور اور امرود دھو دیتے ہیں اور ہاں پلنگ کے نیچے سے نیکر بھی نکال کر جگہ پر رکھو۔  نہ نکلے تو ہم نکال دیں گے۔ ‘‘

آنگن کے دروازے کی کنڈی کھڑکی تو ہرِیا کاکا لپک کر وہاں پہنچے۔  انہیں پتہ تھا کہ اس دروازے کی کنڈی کھڑکھڑانے والی رمیا ہی ہوتی ہے، جو روز ماں جی کے پیروں پر تیل لگانے آتی ہے اور ساتھ ہی اپنے اور ہرِیا کے چھ بچوں میں سے کسی ایک بچے کی شکایت بھی اپنے پلو میں باندھ کر لاتی ہے۔  کیونکہ مالش کرنے سے پہلے، وہ جب پلو کے کونے کی گرہ کو کھولتی، اپنے کسی ایک بچے کی شکایت کرنی شروع کرتی ہے تو لگتا ہے کہ وہ اس گرہ میں ہی بندھی ہے، جسے وہ کھولتے کھولتے پورے طور پر ہرِیا کاکا کے حوالے کر دیتی ہے اور گرہ میں سے نکلی سپاری منہ میں رکھ کر، ہلکے پن کے احساس سے بھر اٹھتی ہے۔  پھر فوری طور پر ماں جی کے پیروں کے پاس بیٹھ کر کٹوری سے تیل لگانے میں جٹ جاتی ہے۔  ہرِیا کاکا بے دھیانی سے، لیکن اپنی بیوی کے ڈر کی وجہ سے، دھیان سے سننے کا ناٹک کرتے ہوئے، اپنے بچے کی شکایت سن کر، ایک بار پھر گھر کے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

ہرِیا کاکا نے گزشتہ چالیس سالوں سے اس گھر نمک کھایا ہے۔  جب وہ بجنور آئے تو اس گھر میں صاحب نے انہیں بھیا جی کو گودی کھلانے اور گھر کے جھاڑو پونچھا کے لئے رکھا تھا، تب ان کی عمر پندرہ سولہ برس رہی ہو گی۔  وہ دن اور آج کا دن، وہ کبھی اس گھر سے دور نہیں ہوئے۔  کتنے موسم آئے اور گئے، تیج تہوار منائے، بزرگوں کا اوپر جانا اور ننھے منوں کا گھر میں آنا، کیا کیا نہیں دیکھا ہرِیا کاکا نے۔  وہ تو گویا اس گھر کی جڑوں میں ایسے سما گئے ہیں کہ اس کے تنوں، شاخوں، پھولوں، پتیوں اور کونپلوں میں ان کی جان بستی ہے۔  بابوجی، ماں جی، بھیا جی، بہو رانی اور ان کے ننھے منے سلونے بچوں تک کا سکھ دکھ سب اُن کا ہے۔  گھر کے سب لوگ انہیں جی بھر کر عزت اور محبت دیتے ہیں۔  ہرِیا کاکا کے بغیر وہ سب ادھورے سے ہو جاتے ہیں۔  ونی اور پاوس کے لئے تو وہ کھلونا بھی ہیں، تو سکھانے والے گرو بھی، ماں باپ، دوست، سب کچھ ہیں وہ ان دونوں بچوں کے لئے۔  دونوں بچے اپنے وہ چنّے منّے راز اور وہ خاص باتیں ہرِیا کاکا کے ساتھ بانٹتے ہیں، جنہیں وہ ممی پاپا اور دادا دادی سے نہیں کہہ پاتے۔ کبھی کبھی تو ہرِیا کاکا، ونی اور پاوس کے لئے ایک ایسے عظیم مثالی ہیرو بن جاتے ہیں کہ ان سے کاکا کو اپنی جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔  ہرِیا کاکا کی طرح بیٹھنا، اٹھنا، چلنا، یہاں تک کہ چھپا کر ان کی روٹی پیاز اور گڑ بھی اکڑوں بیٹھ کر، انہی کے انداز میں کھانا، کاکا اور گھر والوں کے لئے تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔  کاکا کو بچوں کا روٹی کھا جانا گوارا ہے، پر ماں جی اور بہو رانی سے ان کی شکایت کرنا ذرا بھی گوارا نہیں۔  خالی چائے پی کر، بھوکے پیٹ بڑبڑاتے کام میں لگے رہیں گے، پر مجال ہے کہ بچوں کے خلاف ایک بھی لفظ ان کی زبان پر آ جائے۔  انہیں جان سے پیارے ہیں دونوں بچے۔  دونوں بچے ہی نہیں، بچوں کے باپ بھی۔  انہیں بھی تو وہ سنبھالے سنبھالے پھرتے تھے۔  دو سال کے بھیا جی کی انگلی پکڑے پکڑے انہیں گھمانا، گھنٹوں ان کے ساتھ کھیل میں مست رہنا۔  زمانہ بیت گیا۔  دو پیڑھیوں کو اپنی بانہوں میں کھلایا اور سلایا تھا ہرِیا کاکا نے۔  کبھی کبھی تو ہرِیا کاکا کو لگتا کہ پچھلے جنموں کا ضرور کوئی رشتہ ہے اس گھر سے۔

دو بجے تک ہرِیا کاکا کو میز پر دوپہر کا کھانا لگا دینا ہوتا ہے۔  بہو رانی رسوئی کے کاموں میں، دال سبزی روٹی بنانے میں صبح سے ہرِیا کاکا کے ساتھ لگی رہتی ہیں۔  جبکہ کاکا کی منشا ہوتی ہے کہ بہو رانی اتنا کام نہ کریں بلکہ تھوڑا آرام کریں۔  کاکا اپنے گول گول، پھولے پھولے پھلکوں کے لئے دور دور تک کے رشتہ داروں میں مشہور ہیں۔  بس ایک ہی کام انہیں آج تک ٹھیک سے نہیں آیا۔  آم کا اچار اور میٹھی چٹنی ڈالنا۔  ایک بار انہوں نے اپنا ہنر دکھانے کے چکر میں، کسی کو پاس نہیں پھٹکنے دیا اور آم کی میٹھی چٹنی مرتبان بھر کر ڈالی۔ آم کسنے سے لے کر، گڑ اور مصالحے وغیرہ ڈال کر، پکانے تک کا سارا کام کسی ماہر کی طرح بڑی صفائی سے، بڑے دل سے، خود اکیلے ہی کیا اور سب کچھ پھینک بھی بیٹھے، کیونکہ کچھ ہی دنوں میں وہ چٹنی پھپھوندی سے بھر کر سڑنے لگی تھی۔  اس کے بعد سے انہوں نے توبہ کر لی۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

دوپہر کے کھانے کے بعد کاکا دو تین گھنٹے رامواڑی میں اپنے گھر آرام کرنے، اپنے بچوں کے ساتھ مل بیٹھنے جاتے ہیں۔ شام کو پانچ بجے آہستہ آہستہ سست چال سے آتے، کاکا کو دیکھ کر بہو رانی اکثر ہنستی ہوئی کہتی کہ ’’ماں جی دیکھئے تو ذرا، ہرِیا کاکا چل رہے ہیں یا سو رہے ہیں۔ ‘‘

یہ بات تو صد فیصد درست ہے کہ ہرِیا کاکا شروع سے ہی سست قسم کے انسان ہیں، بڑے ہی آرام سے آہستہ آہستہ کام کرنا، ان کی اچھی عادت ہے یا بری، پر ان سے چٹرپٹر، تُرت پھرت کام نہیں ہوتا۔  اُن کی رمیا ان کے برعکس تیر کی طرح آتی اور جاتی ہے اور گھنٹوں کے کام منٹوں میں کر کے ہرِیا کاکا کی سست چال کے لئے انہیں دو چار تیکھی باتیں کہہ کر، انہیں بھن بھنا کر چلی جاتی ہے۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

چھن سے ڈرائنگ روم میں کچھ گرنے کی آواز آئی۔  ونی کا چینی گلدستے پر غلطی سے ہاتھ لگا اور وہ لڑھکتا ہوا فرش پر گر کر چکنا چور ہو گیا۔  اندر کمرے میں ماں جی جھنجھلائی سی بولیں۔  ’’کیا توڑ ڈالا، ارے شریروں ؟‘‘

بہو رانی اپنے کمرے سے دوڑی ہو ئی ڈرائنگ روم میں آئیں، تو اس انمول اور نازک گلدستے کو چور چور ہوا دیکھ کر ایک لمحے کو جیسے سُن سی ہو گئیں۔  پھر غصے میں بھر کر بولیں، ’’یہ کیسے گرا؟ کس نے توڑا؟‘‘

فوری طور پر ہرِیا کاکا نیچی نظریں کئے مجرم کا سا روپ اوڑھ کر بول اٹھے، ’’بہو رانی ہم میز صاف کر رہے تھے کہ ہمارا ہاتھ لگ گیا اور ہمارے سنبھالتے سنبھالتے بھی نیچے گر گیا۔ ‘‘

ونی، پاوس سہمے سے کبھی کاکا کو، کبھی ٹکڑوں میں بکھرے گلدستے کو، تو کبھی گلدستے کے ٹوٹنے سے دکھی اپنی ماں کی طرف ٹکر ٹکر دیکھے جا رہے تھے۔  کاکا کا اتنا بڑا جھوٹ بولنا ان کی سمجھ سے باہر تھا۔  پر دونوں کو اور خاص طور پر اصلی مجرم ونی کو بڑا اچھا لگا کہ کاکا نے ڈانٹ ڈپٹ پڑنے سے اور شاید ایک دو چپت سے بھی اس کی حفاظت کر لی تھی۔  ویسے ڈانٹ ڈپٹ ہرِیا کو بھی پڑی، ماں جی اور بہو رانی کی، لیکن بڑے انداز سے اور بڑی ہی شرافت سے۔  بہو رانی کے جاتے ہی کاکا نے ونی کو خاموش بیٹھے رہنے کا اشارہ کر کے، سارا کانچ سمیٹا۔  ونی بھی انتہائی فرمانبردار بنی، اپنے لٹکے پاؤں سوفے پر سمیٹ کر بیٹھ گئی۔  تبھی تعجب میں بیٹھا پاوس اچانک لپک کر ہرِیا کے پاس جا کر ان کے کانوں میں ہولے سے بولا، ’’اگر ماں جی نے مجھ سے پوچھا، تو میں بھی یہی بولوں کہ گلدستے پر ونی کا نہیں، کا کا ہاتھ لگا تھا؟‘‘

پاوس کی اس بھولی الجھن پر دل ہی دل ہنستے ہوئے کاکا نے، فوراً آنکھیں پھیلا کر اسے دھمکایا کہ ’’چپ رہو! ہمیں جھوٹا بنواؤ گے کیا؟ بڑے آئے ونی کے ہاتھ کی شکایت کرنے والے۔  یہ تمہارا والا ہاتھ لگ جاتا تو کیا تم فوری طور پر بتا دیتے ؟ بہن کو ڈانٹ پڑواؤ گے کیا؟‘‘

پاوس نفی میں سر ہلاتا، کاکا کی باتوں کو بغور ذہن میں اتارتا، کانچ کے ٹکڑوں کو اٹھانے میں مدد کرنے کے لئے، جیسے ہی بے صبر ہوا اسے کاکا کی ایک اور جھڑکی ملی، ’’اب تم اپنا ہاتھ کاٹو گے، خون نکالو گے کیا؟ ہٹو، پرے ہٹو۔ ‘‘

بڑے پیار سے کاکا کی ڈانٹ کھا کر دونوں بچے اسے احترام سے ایسے دیکھنے لگے، جیسے بھگت بھگوان کو دیکھتے ہیں۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

آج جڑواں بھائی بہن کا جنم دن ہے۔  ونی، پاوس سے پندرہ منٹ بڑی ہے اور وہ اکثر پاوس کو، لڑائی جھگڑا ہونے پر، اپنے پندرہ منٹ بڑے ہونے کا احساس کرایا کرتی ہے۔ مگر وہ پندرہ منٹ چھوٹا کبھی اس کے رعب میں نہیں آتا۔  صبح سے گھر میں چہل پہل اور کام کاج کا ایک مسلسل سلسلہ چل رہا ہے۔  نو بجے سے ہونْ شروع ہونے سے لے کر اس کے خاتمے تک اور رشتہ داروں اور مہمانوں کو پرساد دیتے اور ناشتا کراتے کراتے ہمیشہ ایک تو بج ہی جاتا ہے۔

شام کو دونوں بھائی بہن کے دوستوں کی پارٹی کا انعقاد ہوتا ہے۔  ہرِیا کاکا مہمانوں کو کھلاتے پلاتے، کمرے اور پورچ کے کونے کونے سے برتن سمیٹتے، انہیں دھوتے پونچھتے، بغیر تھکے کام میں پلے پڑے ہیں۔  وہ دونوں بچوں کے لئے تحفہ لائے ہیں، اسے تو وہ شام کی پارٹی میں ہی دیں گے۔ ہون میں تو بچوں کے منہ میں لڈو دے کر، سر پر ہاتھ پھیر کر، ڈھیر ساری دعائیں دینا، ان کا ہمیشہ کا اصول رہا ہے۔  اپنا تحفہ تو وہ سرخ کاغذ میں لپیٹ کر، ربن سے باندھ کر، پارٹی والے انداز میں، تمام بچوں کے سامنے کرسمس بابا کی طرح مخصوص طریقے سے لا کر، ونی اور پاوس کے سامنے اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ سارے بچے بے چینی سے انہیں گھیر کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ’’دیکھیں، کاکا نے اس بار کیا دیا ہے ؟‘‘

دیکھتے ہی دیکھتے شام ہو گئی اور پارٹی کے لئے ڈرائنگ روم مکمل طور سج سنور گیا۔  ونی اور پاوس بھی اپنی اپنی نئی پوشاکیں پہن کر تیار ہو گئے۔  ایک ایک کر کے بچوں کا بھی آنا شروع ہو گیا۔ ہرِیا کاکا نے بھی شام کو نیلے رنگ کی شرٹ، سفید پاجامہ پہن کر، بال بنا کر، ننھے مہمانوں کے استقبال اور ونی پاوس کو تحفہ دینے کیلئے سنوار لیا۔  تبھی ڈرائنگ روم میں کیک کاٹنے کے لئے بچوں کو سمیٹتے، بہو رانی کی پکار سن کر کاکا، ماں جی، بڑے صاحب، بھیا جی سب کمرے میں جا پہنچے۔  ونی اور پاوس نے بہت جوش اور زور سے موم بتیوں کو پھونک ماری اور دو موم بتیوں کی لو کو صفائی سے ٹمٹماتے چھوڑ کر، اپنے ننھے ہاتھوں سے، ربن اور گوٹے سے آراستہ چھری سے کیک کاٹ کر، خود ہی زور زور سے تالی مارنا شروع کر دی۔  ان کے دوستوں کی فوج نے ان کی تالیوں کی پیروی کرتے ہوئے کمرے کو ہپی برتھ ڈے ٹو یو کی آوازوں سے بھر دیا۔  ماں جی، بڑے صاحب، بہو رانی، بھیا جی نے باری باری دونوں بچوں کا منہ چومتے ہوئے، سر پر ہاتھ پھیر کر ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے اپنے اپنے تحفے دیے۔  پھر بھی ونی پاوس اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوئے۔  ان نظریں ہرِیا کاکا کو ان کے تحفے کے ساتھ تلاش کرنے میں لگ گئیں۔  کاکا بھی ان سے پیچھے نہیں تھے۔ بڑے منفرد طریقے سے پلیٹ میں چمکیلا کپڑا اور پھول بچھا کر، اس میں دو سرخ پیکٹ رکھے، وہ دونوں کے پاس آ کھڑے ہوئے اور سب بچے کیک سے زیادہ کاکا کے تحفے میں دلچسپی رکھنے کی وجہ سے اچک اچک کر دیکھنے لگے کہ کاکا ان پیکٹوں میں سے کیا نکال دیں گے ونی اور پاوس کو۔  کاکا نے آہستہ سے ایک پیکٹ کا ربن کھولا اور پیکٹ ونی کے سامنے سرکا کر کہا، ’’یہ اب تم کھولو بٹیا۔ ‘‘

ونی نے فخریہ انداز سے سب بچوں کی طرف دیکھا اور سرخ کاغذ کا ایک سرا کھول دیا، پھر مسکراہٹ روکتے ہوئے، پاس کھڑی سہیلی سے آنکھیں ملائیں اور کاغذ کا دوسرا سرا بھی پھاڑا۔  پاس کھڑے بچوں کی نظریں کاغذ کو بھیدتی ہوئیں اندر چھپے تحفے پر گڑ گئیں۔  اتنے میں ونی نے اسے جلدی سے کاغذ سے باہر نکالا اور سب کو ایسے دکھایا، جیسے فاتح کھلاڑی اپنی شیلڈ کو سارے ناظرین کو دکھاتا ہے۔  پر خود نے دیکھا نہیں کہ کیا ہے۔  دوستوں کو دکھانے کا جذبہ غالب تھا اس پر۔  کتاب کا عنوان تھا ’’رامائن پر مبنی بچوں کی کہانیاں۔ ‘‘ سارے بچے لپک کر، اسے ونی کے ہاتھ سے چھین کر دیکھنے کے لئے جذباتی ہونے لگے کہ تبھی ہرِیا کاکا نے سب کو آگاہ کیا۔

’’سب بچے لوگ دیکھو اب پاوس کے پیکٹ سے کیا نکلتا ہے۔ ‘‘

پاوس نے ضد کری کہ وہ ربن بھی اپنے آپ ہی کو کھولے گا۔  اس نے دوستوں کی توجہ خود پر مرکوز کرنے کیلئے، بہت آرام سے ربن کھولی۔  پھر ارد گرد سب پر نظریں گھمائیں۔  سب بچوں کی نظریں پاوس کی نظروں سے ملیں اور جیسے بولیں، ’’ جلدی سے دکھاؤ نہ کیا ہے پیکٹ میں ؟‘‘ پاوس نے بھی ونی کی طرح اپنے پیکٹ کا ایک ایک کونا بڑے سلیقے سے پکڑتے ہوئے سرخ کاغذ کے اندر سے، اپنے تحفے کو ایک جھٹکے سے باہر نکالا اور سچن ٹنڈولکر کے انداز میں ایک ہاتھ سے اوپر اٹھا کر سارے دوستوں کو، ایک عظیم کھلاڑی کے انداز میں دکھایا۔  اس کتاب پر عنوان تھا ’’مہابھارت پر مبنی بچوں کی کہانیاں۔ ‘‘ اس کے پاس کھڑے بچے، پاوس کی کتاب پر لپکنے لگے کہ دیکھیں کیسی کہانیاں ہیں، تصویریں بھی بنی ہیں کیا اندر؟ لیکن اس ایکشن کے لئے تیار ہرِیا کاکا نے دونوں بچوں کی کتابیں اپنی حفاظت میں لے کر بچوں کو کھانے پینے، ناچ گانے میں لگا دیا۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

اگلے دن صبح چائے پیتے وقت ماں جی اور بہو رانی ہرِیا کاکا کی سوجھ بوجھ کی تعریف کرتے ہوئے ان سے پوچھنے لگیں۔

’’تمہیں بچوں کے لئے اتنی اچھی کتابوں کا خیال کیسے سوجھا؟‘‘

ہرِیا کاکا کچھ خوش ہوتے، کچھ لجاتے، خود کو کام میں الجھاتے ہوئے بولے، ’’ارے ہمیں کون سجھائے گا۔  یہ دونوں شرارتی بچے ہی ہماری سوجھ بوجھ ہیں۔  دونوں بڑے سیانے ہیں۔  بڑی بڑی باتیں سوچتے ہیں۔  طرح طرح کے سوال کرتے ہیں۔  اس لیے ہم نے سوچا کہ اب یہ ان کے دل و دماغ کو ڈھالنے کی عمر ہے۔  اسی لیے ایسی کتاب دی جائے، جو انہیں اچھی چیزیں سکھائے۔ ‘‘

بہو رانی اور ماں جی اس تعلیم و تربیت سے مبرا، پر پڑھے لکھوں کو بھی مات دینے والے ذہین، سمجھدار ہرِیا کا منہ تکتی رہ گئیں۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

مالی چھٹی پر گیا تھا. باغ میں آم اور کٹھل لدے تھے۔  مالی آئے تو انہیں تڑوا کر کچھ ملنے والوں کے گھر اور باقی کو مارکیٹ میں سویرے نیلام کیا جائے۔  پر نہ جانے وہ سات دن گزر جانے پر بھی کیوں نہیں آیا؟ لہذا ہرِیا کاکا کو بڑے صاحب اور بھیا جی کا حکم ملا کہ وہ اگلے دن صبح چھ بجے تک آم اور کٹھل تڑوا کر مارکیٹ میں دے کر آئے۔  یہ سنتے ہی کاکا کا دماغ سٹک گیا۔  وہ دبی دبی آواز میں بڑبڑانے لگے۔

’’کیا ہم مالی ہیں ؟ وہ غیر ذمہ دار، مکار نمبر ایک، کام چور نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔  اب اس کا کام بھی ہم پر ہی آن پڑا۔  کل کو کہیں گے۔  جمعدار نہیں آیا، اس کا کام بھی ہرِیا تم ہی کر لو۔ ‘‘

غصے میں بھرا ہوا ہرِیا رات کام نمٹا کر چلا گیا۔  ماں جی، بہو رانی سب نے اس کے تنے تیور بھانپ لئے تھے۔  جاتے جاتے ہرِیا ماں جی سے بولا، ’’سویرے سویرے آنکھ کھلی تو ہم آئیں گے ورنہ دیکھی جائے گی۔ ‘‘

سویرا ہوا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہرِیا کاکا تڑکے چار بجے سے ڈنڈا لے کر آم اور کٹھل توڑنے میں جو لگے تو چھ بجے تک مزدوروں کو لا کر، ان کے ٹوکروں میں آم اور کٹھل بھر وا کر، منڈی میں فروخت بھی کر آئے۔  ملنے والوں کے لئے اچھے آم اور کٹھل چھانٹ کر اندر برآمدے میں رکھ دیئے۔  منڈی سے آ کر بڑے صاحب اور بھیا جی کو حساب بھی دے دیا۔

پورچ میں مونڈے پر بیٹھی ماں جی نے چائے کی چسکی بھرتے ہوئے، مسکراہٹ چھپاتے ہوئے جب ہرِیا سے پوچھا، ’’کہ تو تو آنے ہی والا نہیں تھا شاید اتنے تڑکے۔  پھر یہ سب کیسے اتنی جلدی، اتنا سب کر ڈالا ہرِیا؟‘‘

تو ہرِیا کاکا قلعہ جیتنے کے احساس سے بھرے بولے، ’’ارے ماں جی، آج تلک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ لوگوں میں سے کوئی ہمیں کچھ حکم دے اور ہم نہ مانیں۔  بھلے ہی ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے پر اس دماغ کا کیا کریں، یہ آپ لوگوں کا حکم مانے بغیر چین سے بیٹھتا ہی نہیں۔  اب کیا بتاؤں ماں جی رات کروٹیں بدلتے بیتی اور جب چار بج گیا تو رکا ہی نہیں گیا۔  جب کام کرنا ہے تو کرنا ہے۔ ‘‘

ماں جی کہیں کھوئی سی بولیں، ’’ہرِیا تیرے بغیر، اس گھر کا کیا ہو گا؟ کیسے چلے گا؟‘‘

’’ارے ماں جی آپ بھی کیسی بد دعا دے رہی ہیں ؟ بھلا ہم کہاں جا رہے ہیں ؟ یہیں جئیں گے، یہی مریں گے۔ ‘‘

ہرِیا کاکا ماں جی کا اعتماد بحال کرتے بڑے پیار سے بولے۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

ہرِیا کاکا یوں تو کبھی بیمار نہیں پڑتے تھے۔  پر کبھی ایک دو بار بخار کھانسی نے ان پر حملہ کرنے کی جرات بھی کی تو وہ اپنے کاموں سے اس وقت بھی پیچھے نہیں ہٹے۔  ایک بار جاڑے میں انہیں تیز بخار چڑھ گیا۔  سویٹر، مفلر، کوٹ خود پر لپیٹے، وہ آٹھ بجے دھند کو چیرتے آ پہنچے، اپنی ڈیوٹی بجا لانے۔  انہیں آج بھی یاد ہیں کہ بھیا جی نے ڈانٹتے ہوئے کہا تھا۔

’’کیا ضرورت تھی بخار میں آنے کی؟ اگر طبیعت زیادہ بگڑ گئی تو؟‘‘

ہرِیا کاکا کے منہ سے اچانک نکل پڑا تھا، ’’طبیعت اور زیادہ بگڑ جاتی، اگر گھر میں پڑے رہتے۔  یہاں آئے ہیں تو بخار بھاگ جائے گا اور کام میں دل بھی لگا رہے گا اور جب من چنگا، تو تن بھی چنگا، آپو آپ ہوئی جائے گا۔ ‘‘

یہ سن کر بھیا جی بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے تھے، ’’یہ اور ان کی انوکھی دلیلیں۔  ان سے تو کچھ بھی کہنا بیکار ہے۔ ‘‘

واقعی شام تک دیکھتے ہی دیکھتے کاکا کا بخار ایک سو ایک سے ننانوے تک آ گیا تھا۔  ادرک اور تلسی کی چائے پی پی کر بچوں، بہو رانی اور ماں جی سے پوچھ پوچھ کر انہوں نے اپنا علاج کر ہی لیا تھا۔  اگلے دن مکمل طور صحت مند ہو گئے تھے۔  پر اپنے کاموں سے بخار کے دوران بھی ذرا بھی نہیں ہٹے۔  اگرچہ ان کی یہ عادت گھر بھر میں کسی کو بھی نہیں بھاتی تھی۔  پر وہ اپنی ضد کے پکے تھے۔

آج ستر سال کے ہرِیا کاکا لقوے کی وجہ سے، اپنے آدھے بے جان جسم سے مجبور، پالنے پر پڑے رہتے ہیں۔  اس عمر میں بھی اپنے بیٹوں، بہوؤں اور بیوی رمیا کی خدمت کی وجہ سے، ان میں اتنی طاقت تو آ گئی ہیں کہ وہ آہستہ آہستہ اٹھ بیٹھ جاتے ہیں۔  ونی، پاوس بھی بڑے ہو گئے ہیں۔  پڑھ لکھ کر سیٹل ہو گئے ہیں۔  بڑے صاحب بھگوان کو پیارے ہو چکے ہیں۔

کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا، جب ہرِیا کاکا اپنے گذرے دنوں کو، ونی اور پاوس، بڑے صاحب، ماں جی، بھیا جی اور بہو رانی کو، اس گھر کو، اس کی دیواروں کو، اس کے آنگن کو یاد نہ کرتے ہوں اور یہ دعا نہ مانگتے ہوں کہ ’’اے بھگوان، اگلے جنم میں بھی بڑے صاحب اور ماں جی، ان کے بچوں اور ان کے بچوں کے بچوں کی خدمت کا موقع دینا۔ ‘‘

جب بھی بھیا جی، بہو رانی، ونی اور پاوس، کاکا کو دیکھنے بستی میں آتے ہیں، تو ان کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہتا۔

’’کاکا کیسے ہو؟‘‘ سننے پر محبت سے بھری ان کی ڈبڈباتی آنکھیں نہ جانے کیا کیا کہنے لگتیں۔

***

 

 

 

انتظار

 

آنند سونی آنند

 

 

سلوچنا تین بہنوں میں سب سے بڑی تھی اور پڑھنے لکھنے میں کافی تیز تھی۔  اس کی ماں کو گھر والے ہمیشہ طعنے مارتے تھے کہ اس نے لڑکے کو کیوں نہیں پیدا کئے۔  شاید سلوچنا کی قسمت میں بھائی اور ماں کی قسمت میں بیٹے کا سکھ لکھا ہی نہیں تھا۔  وہ جیسے جیسے بڑی ہو رہی تھی اس کا روپ نکھرتا جا رہا تھا۔  دس سال کی سلوچنا دیوالی کے تہوار پر اپنے پتا جی کا بڑے بیتابی سے انتظار کر رہی تھی کہ پتاجی آئیں گے اور وہ ان کے ساتھ بازار جائے گی اور خوب مٹھائی اور پٹاخے خریدے گی۔  لیکن قسمت کو شاید یہ منظور نہ تھا، خبر آئی کہ اس کے پتاجی کی سڑک حادثے میں موت ہو گئی ہے۔  یہ خبر سن کر گویا اس کے اور اس کی ماں کے اوپر مشکلات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔  گہرا صدمہ لگا۔  ان کے جسم بے جان ہو گئے تھے۔  پورا گھر رونے لگا تھا۔  وقت کے سفاک پنجوں نے اس کے سر سے باپ کا سایہ چھین لیا تھا۔  وہ اور اس کی ماں بری طرح ٹوٹ چکی تھیں۔  قسمت نے جو زخم دیا تھا وہ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔  لیکن وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔  جیسے جیسے وقت گزرتا گیا صدمہ کم ہونے لگا۔ مگر اس واقعہ نے اس کی ماں کے دل و دماغ پر ایسا گہرا اثر کیا کہ وہ بیچاری اپنی سدھ بدھ ہی کھو بیٹھی تھی اور دروازے کی طرف دیکھتی رہتی اور اپنے شوہر کے آنے کا انتظار کرتی رہتی تھی۔

سلوچنا جب یہ یاد کرتی تھی کہ پتاجی اس کو کتنا پیار کرتے تھے اور اسے کیسے اپنے کندھے پر بٹھا کر میلے گھمانے لے جایا کرتے تھے۔  اس کی ہر ضد کو کتنے پیار سے پورا کرتے تھے، تو اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آتے تھے۔  پتاجی کے سورگباش ہونے سے اس کے خاندان کی مالی حالت خراب ہو گئی تھی۔  اس نے کالج میں داخلہ لے تو لیا، مگر اس کے پاس فیس بھرنے کے بھی پیسے نہیں تھے۔ گھر کی مالی حالت اتنی خراب ہو گئی تھی کہ کالج کی فیس جمع کرنا تو دور کی بات دو وقت کے کھانے کا بھی بڑی مشکل سے بندوبست ہو پاتا تھا۔  اس محلے کے ایک امیر گھر کا لڑکا گریش جو اس کا بچپن کا دوست تھا اور اسے بہت پسند کرتا تھا۔  اس نے بھی اسی کالج میں داخلہ لیا تھا۔  سلوچنا کو فیس جمع کرنے کے فکر ستائے جا رہی تھی اور وہ اسی ادھیڑ بن میں بس سٹاپ کی طرف چلی جا رہی تھی۔  تبھی اس کو احساس ہوا ہے کہ اس کا کوئی پیچھا کر رہا ہے۔  اور وہ کوئی نہیں اس کے بچپن کا دوست گریش تھا۔

گریش نے سلوچنا سے کہا کہ اسے اس کے پتاجی کے بارے میں سن کر بہت دکھ ہوا۔  اور تم اتنی چنتا کیوں کرتی ہو؟ مجھے بتاؤ شاید میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں۔

سلوچنا نے کہا کہ نہیں، کوئی بات نہیں ہے۔

لیکن گریش کے بار بار کہنے پر سلوچنا نے اپنی فیس کے بارے میں بتایا تو گریش نے کہا کہ بس اتنی سی بات اور اس نے روپے نکالنے کے لئے اپنا پرس کھولا اور دو ہزار روپے نکال کر سلوچنا کو دینا چاہے۔  لیکن سلوچنا نے روپے لینے سے انکار کر دیا۔  گریش نے سلوچنا کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ تمہارے کیریئر کا سوال ہے۔  جب تمہارے پاس روپے ہو جائیں تو واپس لوٹا دینا۔  سلوچنا اس شرط پر روپے لینے کو تیار ہو گئی اور اس نے گریش کا شکریہ ادا کیا ساتھ ہی کہا کہ وہ تھوڑے تھوڑے کر کے پیسے واپس لوٹا دے گی۔  گریش بولا، مجھے انتظار رہے گا۔

سلوچنا بڑی اصولوں والی لڑکی تھی۔  وہ اب خود پڑھنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھانے لگی اور گھر پر ہی ایک چھوٹا سا بیوٹی پارلر بھی کھول لیا تھا۔  سلوچنا کے کندھوں پر بہنوں کی پڑھائی اور ماں کے علاج کی بھی ذمہ داری تھی۔  زندگی کی گاڑی آہستہ آہستہ چل پڑی تھی۔  لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔  اس کی ماں کو دل کا دورہ پڑا، فوری طور پر انہیں اسپتال لے جایا گیا۔  ڈاکٹر نے اس کی ماں کو آئی سی یو میں یہ کہہ کر لے گئے کہ ان کا آپریشن کرنا پڑے گا اور ایک لاکھ روپے کا انتظام کرنے کو کہا۔  سلوچنا کے لئے یہ رقم بہت بڑی تھی۔  وہ اتنی بڑی رقم کا انتظام کہاں سے کرے۔ وہ بہت فکر مند تھی۔  تبھی اس کے کندھے پر کسی نے پیچھے سے ہاتھ رکھا۔  وہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کے بچپن کا دوست گریش تھا، جو آج پھر فرشتہ بن کر اس کے سامنے کھڑا تھا۔  دوست نے ایک بار پھر سلوچنا کی مدد کی اور اس کی ماں کے علاج کیلئے پیسے کاؤنٹر پر جمع کرا دیے۔  سلوچنا نے گریش سے کہا کہ میں یہ احسان کس طرح اتار پاؤں گی۔  گریش اور سلوچنا آئی سی یو کے باہر ماں کا انتظار کرنے لگے۔  تبھی آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلتا ہے اور ڈاکٹر ایک المناک خبر سناتا ہے کہ وہ اس کی ماں کو نہیں بچا سکے۔  اس طرح اس کے سر سے اس کی ماں کا سایہ بھی ہٹ چکا تھا۔  وہ اب مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی۔  زندگی سے مایوس ہو چکی تھی۔  ایسے وقت میں ایک بار پھر گریش نے اسے سنبھالا اور اسے ڈھارس دلائی۔  وقت گزرتا گیا سلوچنا نے اب ایک بار پھر اپنے آپ کو سنبھالا۔  پھر اپنے گھر والوں کی پرورش میں لگ گئی۔

اسی درمیان گریش اور سلوچنا ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے تھے۔  وہ دونوں کے درمیان بہت بڑا سماجی فرق تھا۔  دونوں کی ذاتیں بھی مختلف تھیں۔  معاشرے کے ٹھیکیدار ہمیشہ ان باتوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔  مگر دونوں ایک دوسرے کو جی جان سے چاہنے لگے تھے۔ اور اس بات کے چرچے گریش کے گھر والوں کے پاس بھی پہنچ ہی گئے۔  پھر کیا تھا، گھر والے یہ رشتہ توڑنے کے لئے دباؤ بڑا رہے تھے۔  لیکن گریش کی تو نس نس میں سلوچنا بسی ہو ئی تھی۔  اس نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ اگر میں شادی کروں گا تو سلوچنا سے، ورنہ شادی ہی نہیں کروں گا۔  گھر والوں نے اسے دور اس کے ماموں کے پاس بھیج دیا۔  گریش نے جانے سے پہلے سلوچنا سے کہا کہ اس کا انتظار کرنا، دن، مہینے اور سال گزرتے گئے اور اس طرح پندرہ سال گزر گئے تھے۔  سلوچنا ٹوٹ چکی تھی، اس کی بہنیں بھی اب پڑھ لکھ کر بڑی ہو گئی تھیں۔  سلوچنا نے ان کی شادیاں کر دیں۔  لوگوں نے اس کو بھی مشورہ دیا کہ وہ بھی اب شادی کر لے، گریش اب اس کی زندگی میں کبھی نہیں آئے گا۔  ایسا سن کر بیچاری کے آنکھوں میں آنسو جھلک آتے تھے۔  اس کے چہرے کی چمک اب غائب ہو چکی تھی.۔  وہ اب بہت دبلی ہو گئی تھی۔  اس کی آنکھیں اندر کی طرف دھنس سی گئی تھیں۔  وہ اب بھی اپنے گریش کا انتظار کر رہی تھی۔  گریش شاید آج آئے گا یا شاید کل آئے گا اور اس مانگ میں سندور بھر کر اس کو اپنا لے گا۔  سلوچنا کی زندگی میں تنہائی نے گھر کر لیا تھا۔  وہ جاڑے کے دنوں میں اپنے آنگن میں دھوپ سینک رہی تھی، اسے عجیب سا لگنے لگا۔  تبھی اس کے نزدیک ایک نوجوان آیا۔  جس کے ہاتھ میں منگل سوتر اور سندور کی ڈبیا تھی۔  وہ آہستہ آہستہ سلوچنا کی طرف آ رہا تھا۔  وہ نوجوان کوئی اور نہیں اس کا گریش تھا۔  گویا آج سلوچنا کے پندرہ سالوں کا انتظار، ختم ہونے کا وقت آ گیا تھا۔  گریش نے اس کی مانگ میں سندور بھرا اور گلے میں منگل سوتر پہنایا اور کہنے لگا کہ اب ہم دونوں کو دنیا کی کوئی بھی طاقت الگ نہیں کر سکتی ہے۔  دونوں کی آنکھوں میں آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔  سلوچنا کی زندگی میں شاید یہ پہلی خوشی تھی۔  گریش نے کہا کہ سلوچنا اب اور انتظار نہیں، ہم دونوں اب ایک ساتھ رہیں گے ہمیشہ ہمیشہ۔ اب ہمارے درمیان میں ہمارا خاندان اور معاشرے کے ٹھیکیدار نہیں ہوں گے۔  اسی کے ساتھ دونوں ایک نئی زندگی کا آغاز کرنے اپنے نئے سفر پر، اوپر بہت اوپر نکل پڑے۔

***

 

 

 

 

کبھی کندھا بھیگا ہے آپ کا

 

ارچنا پڈا

 

 

کبھی کندھا بھیگا ہے آپ کا؟ یوں تو ہم سب دل بھگوتے ہیں، کبھی کبھی آنکھیں بھی بھیگ جاتی ہیں، یہ سب ’’اپنے ‘‘غم کی نشانیاں ہیں۔  لیکن بھیگا کندھا ایک علامت ہے ایک سہیلی یا دوست کے دکھ کی۔  کسی دوست کو آپ کی ضرورت ہوتی ہے تبھی بھیگتا ہے آپ کا کندھا۔

میری ایک سہیلی ہے بچپن کی۔  چلیں میں اس کا نام کرن کرتی ہوں ’’سونی‘‘۔  سونی آج کے معاشرے کی عورت کی ایک زندہ مثال ہے۔  والدین کو جس بیٹی کے کیریئر پر ناز ہو، ایسی ہے میری سونی۔  جب وہ بزنس پریزنٹیشنز کرتی ہے، تو کبھی کوئی اس کی کہی بات پر نہ نہیں کر سکتا، کبھی نہیں۔  امریکہ میں آ کر ایک ہندوستانی لڑکی، وہ بھی اکیلی، اتنے رعب سے رہ رہی ہے، بہت فخر کی بات ہے۔

سونی ہفتے کے سبھی دن جی بھر کے کام کرتی ہے۔  دن کیا ارے وہ تو رات رات بھر کام کرتی ہے۔  اپنے کام میں وہ بہت بہت مخلص ہے اور شاید ہمیشہ ہی رہتی ہے، اگر اس کی ملاقات ’’ڈبّا‘‘ سے نہیں ہوتی۔  جی ہاں بس یہی نام ان جناب کو صحیح سوٹ کرتا ہے۔  ویسے تو ان حضرت کا ایک بھلا سا نام بھی ہے، لیکن میرا دیا گیا یہ نام ان پر ایکدم موزوں بیٹھتا ہے۔

ہاں، تو ہمارے یہ ’’ڈبّا‘‘ جی بھی ایک جانی مانی ہستی ہیں اور اس پر شادی شدہ بھی ہیں۔  لیکن اپنے جوبن کا رنگ اور اثر گھر سے باہر آزمانے میں پیچھے نہیں رہتے اور بدقسمتی سے اس کا شکار بنی میری دوست سونی۔

جانے کیسا وقت ہے آج کل۔  کہتے ہیں عشق کبھی کیا نہیں جاتا، ہو جاتا ہے۔  پر ایسا بھی کیا عشق جسے نہیں ہونا چاہئے اور پھر بھی ہو۔  صحیح بات کی پیروی نہیں کرنی پڑتی اور غلطی کی کوئی صفائی چلتی نہیں۔ ہے نا؟

میں اسی بات سے خوش تھی کہ سونی خوش ہے۔۔ ۔  بہت خوش۔۔ ۔  چاہے وہ خوشی ادھار کی ہو۔

پر ہر ادھار کی ایک قیمت ہوتی ہے، اصل کے ساتھ سود بھی چکانا پڑتا ہے۔  سونی کو شاید معلوم نہیں تھا۔

اب فاسٹ فارورڈ آج تک۔۔ ۔

جمعے کی شام تھی۔  لوگ ویک اینڈ کے استقبال میں مصروف تھے۔  ابھی میں آرتی کا دیا لگا ہی رہی تھی کی فون بجا۔

’’ہیلو! آرچی، آج نا بہت ہی صحیح سِیٹنگ ہے، تُو جلدی ایولون آ جا۔  بہت مزے کریں گے۔  بالکل ہاسٹل جیسی مستی کریں گے۔ ‘‘ سونی بہت ہی زیادہ ایکسائٹڈ لگ رہی تھی، عام طور سے بھی زیادہ۔

’’ارے نہیں یار۔  ابھی تو آرتی بھی نہیں ہوئی ہے، کھانا بنا کر، بچوں کو کھلا کر، انہیں سلانا ہے۔  اور ممی باؤ جی کو بھی دیکھنا ہے۔  یو کیری آن۔  پھر کبھی۔ ‘‘

’’آرچی پرومس ڈرنک نہیں کریں گے۔  مجھے پتہ ہے تم ڈانس نہیں کرتیں پر تمہیں اچھا لگتا ہے نا، آج یہاں بالی ووڈ نائٹ ہے۔  خوب ڈانس کریں گے پرانے دنوں کی طرح پوری رات۔  بنداس۔  تم اپنا کام ختم کے کر کے آ جانا۔ ‘‘ سونی جب کہتی ہے تو ہمیشہ بڑے حق سے کہتی ہے۔

’’نہیں رے ! مجھے تین دن سے بخار ہے، آج ریسٹ کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘ میں نے کہا کیونکہ گھر اور آفس کے کاموں میں مجھے قطعی آرام نہیں مل پایا تھا اور بخار سے ابھی پوری طرح اٹھی نہیں ہوں میں۔

’’آرچی! یو سِک، بھاڑ میں جاؤ۔ ‘‘ سونی کی آواز میں ایک عجیب سی جھنجھلاہٹ تھی، یوں تو اس نے دفع ہونے کو کہا، لیکن جانے کیوں ایسے لگا بلا رہی ہو، کچھ کہنا چاہتی ہے پر کہہ نہیں پا رہی۔  شاید اس بات کا کوئی یقین نہ کرے پر کئی بار مجھے لگتا ہے، جیسے میں لوگوں کے ذہنوں کی بات سن سکتی ہوں، سب کی نہیں پر جو میرے نزدیک ہیں، دل کے قریب ہیں۔  ان کی ایک ایک بات سنائی دیتی ہے، ان کے بغیر کہے۔  پتہ نہیں کیسے اور جانے یہ اچھا ہے بھی یا نہیں، کبھی کبھی بہت پریشان کن ہوتی ہے۔  دل کی سن پانے یا سن لینے سے۔

سونی کی آواز آواز گونجتی ہی رہی، تمام کام ہو گیا گھرکا، پر وہ آواز گئی نہیں۔  سان فرانسسکو ہوتا تو شاید میں نہیں جاتی پر ایولون تو گھر کے قریب ہی تھا۔  سانتا کلارا کا ایک ہی تو ڈانس کلب ہے۔  میں نے سوچا مجھے اس سے ملنا چاہئے، مگر اب رات کے گیارہ بجے، پتہ نہیں وہ وہاں پر اب تک ہو گی بھی یا نہیں۔

اس کے سیل فون کا نمبر ملایا، پر لگا نہیں۔  شاید شور و غل میں سنائی نہیں دیا ہو گا۔

میں کنفیوز تھی۔  کبھی ڈانس کلب دیکھا نہیں تھا۔  پتہ نہیں تھا کہ اس میں اندر کس طرح جاتے ہیں۔  پر جانے وہ پکار کیسی تھی کہ بس اتنا ہی یاد ہے کہ میں اٹھی، گاڑی اسٹارٹ کی اور ایولون کے باہر گاڑی سے اتری۔  لاؤنج میں بڑے عجیب طرح کے لوگ ملے۔  من کیا واپس بھاگ جاؤں۔  دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کی میں اسے سن پا رہی تھی۔  میں سوچ رہی تھی میں یہاں کیوں آئی ہوں۔  کسی سے پوچھا بھی نہیں تھا گھر میں۔  نہ اِن سے، نہ ممی سے۔  نہ با ؤ جی سے۔  پر مجھے پتہ تھا کہ اگر میں پوچھتی تو کبھی آ نہیں سکتی تھی، کوئی اجازت نہیں دیتا اور مجھے آنا ہی تھا، کسی کو میری ضرورت تھی۔۔ ۔  شاید۔۔ ۔

جانے اور کیا کیا دیکھنا پڑتا اگر ایک واقف کار نہیں مل جاتے۔  انہیں دیکھ کر پہلے میں نے سوچا ارے باپ رے۔  یہ یہاں ! چلو میں کہیں چھپ جاؤں۔  لیکن پھر میں نے سوچا کہ کم از کم انہیں مجھ سے زیادہ یہاں کا علم ہو گا۔  ارے، یہ تو سونی کو بھی پہچانتے ہیں، شاید اسے تلاش کرنے میں میری مدد کریں گے۔

ویسے تو ان کا نام ’’ہری ہر‘‘ ہے پر امریکی انداز میں انہوں نے اسے ’’ہیری‘‘ کر دیا ہے۔  کیوں نہ کریں ؟ ارے بھائی جب سنسکار، شکل و صورت اور معمولات سب ہی ڈھل گئے ہیں تو نام کیا بڑی چیز ہے ؟

’’ہیلو ہیری۔  ہاؤ آر یو؟‘‘ اس ماحول میں، میں ان سے کیسے بات شروع کروں، سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

’’ارچنا، واٹ اے سرپرائز۔  تم یہاں، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ گھر میں کوئی جھگڑا ہوا ہے کیا؟‘‘

اس نے بڑے تعجب سے پہلے مجھے دیکھا۔  پھر میرے شلوار قمیض کو، جیسے کہہ رہا ہو کم سے کم کپڑے تو جگہ دیکھ کر پہنا کرو۔

’’ ارے نہیں، وہ در اصل۔۔ ۔  ایکچوئلی۔۔ ۔  میں سونیا گِل کو ڈھونڈ رہی تھی۔ ‘‘ میں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

’’او کے سنی بے بی۔  اچھا میں تمہیں لے چلتا ہوں اس کے پاس۔ ‘‘ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے ایک طرف چل پڑا۔  عام حالات میں، اس سے ہاتھ چھڑا کر اس کو ایک طمانچہ رسید کر دینا، میرا اولین خیال ہوتا۔  لیکن کہتے ہیں عورت کی ایک خاص صلاحیت ہوتی ہے۔  کسی کی نیت کو سمجھنے میں صرف ایک نظر ہی کافی ہوتی ہے۔  بندہ تیز تھا پر شریف تھا۔  تو میں خاموشی سے اس کا ہاتھ تھامے اس کے ساتھ چل دی۔  جیسے ہی اندر داخل ہوئے، بہت ہی تیز موسیقی نے کان پھاڑ دیے اور گانا بھی کیا صحیح گانا تھا۔

کرتا ہے فرانس میں ہالی ڈے، ایم بی اے پپو کے پاس ہے،

وعدوں کی گھڑی ہاتھوں میں، پرفیوم گُوچی والا،

پر پپو کانٹ ڈانس سالا۔۔ ۔

پپو ناچ نہیں سکتا۔۔ ۔

بہت سے لوگ بھارتی، گورے، کالے سب اپنے اپنے گروپوں میں ناچ رہے تھے۔  میں نے سوچا سونی بھی شاید ایسے ہی کسی گروپ میں ہو گی۔  پر سونی ڈرنک بار میں بیٹھی تھی۔  اکیلی، پسینے میں شرابور، شاید میرے آنے سے پہلے ہی خوب ڈانس کر چکی تھی۔  شراب کے کئی خالی گلاس سامنے رکھے تھے۔  اس کے کپڑے دیکھ کر میں حیران تھی کہ اتنا بھی پہننے کی کیا ضرورت تھی؟ اسے بھی اتار دیتی، ’’ہو کیئر اینی وے۔ ‘‘ مجھے دیکھتے ہی وہ کھڑی ہو گئی، اسی طرح جیسے بچپن میں، میں نے اس کی چوری پکڑ لی ہو اور وہ فوری طور پر یہ سوچ رہی ہوں کہ کیا بہانہ بنائے۔

مجھے کوئی بہانا نہیں چاہئے تھا، مجھے سونی چاہئے تھی اور چاہیے تھی اس کی خوشی۔

’’سونی ایک بات کرنی ہے، باہر آؤ۔ ‘‘ میں نے دھیرے سے کہا، پتہ نہیں کیوں میں سونی کی طرح حق سے نہیں کہہ پاتی ہوں۔

لیکن بغیر کچھ پوچھے، وہ باہر چل دی، میرے ساتھ۔

پر اب سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا پوچھوں ؟ کس طرح پوچھوں ؟ اس نے تو کچھ کہا نہیں تھا۔  بات شروع کیسے ہو؟

’’کیسی ہو تم؟‘‘ بہت ہی بھونڈے طریقے سے بات شروع کی میں نے اور کچھ سوجھا ہی نہیں مجھے۔

’’زیادہ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔  تم یہ دیکھنے آئی ہو کہ سونی مر تو نہیں گئی۔  میں تمہیں اچھی طرح سے جانتی ہوں۔  یو آر سچ اے شو آف، تم نے میرے بریک اپ کی خبر سنی ہے اور مجھے سنانے آئی ہو۔  بس گو ٹو ہیل، لیو می الون۔ ‘‘ اس نے بات اتنی سختی سے شروع کہ میری آنکھوں میں آنسو آتے آتے رہ گئے۔

’’نہیں سونی، مجھے تمہارے بریک اپ کے بارے میں معلوم نہیں تھا، پرومس۔ ‘‘ میں نے کہا۔  یہ کہتے ہوئے میں اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی اور پھر وہ بھی کچھ دیر میں میرے پاس آ گئی، جیسے جانتی ہو کہ میں وہاں آؤں گی، جیسے اسے بس میرا انتظار ہی تھا۔

پھر بھی ہمت کر کے میں بولی، ’’ چلو، چھوڑو! اچھا بتاؤ تم نے کوئی نیا گانا سنا ہے، یاد ہے جب ہم ایک ہی کمرے میں رہتے تھے اور پڑھائی کر کے جب تھک جاتے تھے، تب سافٹ میوزک چلا کر اسے سنتے سنتے سو جاتے تھے، کتنے اچھے دن تھے نا، ہے نا؟‘‘میں نے اسے ٹھنڈا کرنے کے مقصد سے بات کو تبدیل کرنا چاہا۔

پھر اس کے جواب کو سننے سے پہلے ہی میں نے سی ڈی پلیئر آن کر دیا۔  امرا ؤ جان ادا کی غزل چل رہی تھی۔

ہم دونوں خاموش بیٹھے تھے اور گانا بس گانا چل رہا تھا، پتہ نہیں وہ کیا سوچ رہی تھی پر چپ تھی۔

کب ملی تھی، کہاں بچھڑی تھی، ہمیں یاد نہیں۔۔ ۔

زندگی تجھ کو تو صرف خوابوں میں دیکھا ہم نے۔۔ ۔

جستجو جس کی تھی، اس کو تو نہ پایا ہم نے۔۔ ۔

اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے۔۔ ۔

اے ادا اور کیا سنائیں حال اپنا۔۔ ۔

عمر کا لمبا سفر طے کیا تنہا ہم نے۔۔ ۔

مجھے لگا کہ اس طرح کے گیت اس کے اور دکھی کر دیں گے۔  میں نے سی ڈی بدل دی۔  پتہ نہیں کون سا تھا۔  شاید نئے گیتوں کا ایک کلیکشن تھا۔  ایک گیت بہت ہی خوبصورت تھا ا س میں۔  پتہ نہیں کس فلم کا ہے پر اچھا لگتا ہے سننے میں۔  ہم جب خاموشی سے ساتھ بیٹھے تھے، بس ہم دونوں، اس رات کار میں۔  باہر بہت اندھیرا تھا۔  ایک گیت ختم ہوا اور پھر یہ گیت آیا۔  پتہ نہیں یہ رات اتنی خاموشی کیوں تھی؟ کوئی آواز نہیں تھی، بس گیت کے یہ الفاظ تھے۔

کہیں تو، ہو گی وہ دنیا جہاں تو میرے ساتھ ہے،

جہاں میں، جہاں تو اور جہاں بس تیرے میرے جذبات ہیں !

مجھے لگا، سونی کے گلے میں کوئی آواز رک سی گئی۔  میں کچھ سننا چاہتی تھی. کچھ بھی، مجھے کیا کرنا چاہئے۔

جانے کہاں وہ دنیا ہے، جانے وہ ہے بھی یا نہیں !

جہاں میری زندگی مجھ سے اتنی خفا نہیں۔۔ ۔

مجھے لگا کہ اس کا بولنا ضروری ہے ورنہ وہ سونی، اپنے ہی بوجھ سے دب جائے گی۔

جیسے ہی میں نے نظر اٹھائی سونی کی طرف، اس کی آنکھوں میں کچھ چمکتا دیکھا۔  گاڑی میں اندھیرا تھا۔  پر اب ایک عجیب سی نزدیکی سی آ گئی تھی، مجھے لگا وہ میرے پاس ہے، بہت پاس۔  پھر میرے کندھوں کو جیسے کسی نے چھوا۔  دیکھا تو سونی کا جھکا ہوا چہرہ تھا میرے کندھوں پر تھا اور جانے کیوں میرا کندھا بھیگ رہا تھا۔  پہلے لگا اسے روکوں، سمجھاؤں، پھر لگا نہیں اسے بہنے دینا چاہئے، یہ آنسو بھی ایک طرح کے میل ہوتے ہیں، اگر نکالے نہیں جاتے تو جمتے رہتے ہیں، اور نہ جانے کب تک ڈیرہ جمائے رہتے ہیں، ان کا باہر نکل جانا ہی بہتر ہے۔

گانا بجتا رہا، سونی روتی رہی، میں چپ رہی اور کندھا بھیگتا رہا۔

سناٹا تھا، جانے اندر چل رہی اتنی تیز چیخ باہر تک کیوں نہیں پہنچ رہی تھی۔

***

 

 

 

خواب

 

بھونیشوری پانڈے

 

 

اس رات دیپا جلدی سو گئی. اس کے بچے بلوغت سے پہلی والی عمر میں تھے، سارا دن ان کے ساتھ سی این ای میں گھومتے گھومتے وہ کافی تھک گئی تھی۔  مہیش آفس کی کسی ضروری کانفرنس کے لئے مونٹریال گئے ہوئے تھے۔  تھک کر شام گھر آئی تھی تو تھکاوٹ کی کئی وجوہات تھیں، پہلی تو سمجھ لیں کہ بچوں کی عمر، دوسری سمجھ لیں کہ اس کے ساتھ مہیش نہیں تھا، تیسری سمجھ لیں کہ کار چلا کر بھیڑ بھاڑ میں ایک گھنٹے تک پھنسے رہنا۔

جب گھر پہنچی تو سات بج چکے تھے۔  اس نے بچوں کو نہا لینے کو کہا اور خود اپنے غسل خانے میں جا کر نہانے لگی۔ نہانے کے لئے اس نے ایک زیادہ تیز مہک والا صابن نکال لیا اور سر دھو کر نہانے کے کام میں لگ گئی۔  جب وہ نہا رہی تھی تبھی پانی کی بو چھاڑ نے اسے ہلکا سا پر جوش کر دیا۔  وہ اچانک مہیش کے بارے میں سوچنے لگی۔  بوچھاڑ کے آگے چہرہ کر کے ہاتھ سے بالوں کو سہلانے لگی، بال شیمپو کنڈیشنر سے دھل کر صاف اور ریشم سے ملائم ہو چکے تھے۔  اس نے اچانک دوبارہ جسم پر صابن لگانا شروع کر دیا۔  وہ آدھے گھنٹے تک نہا کر کے جب باہر نکلی تو دیکھا بچے ٹی وی کے آگے بیٹھے تھے۔  کوئی بھی نہایا نہیں تھا۔  اسے غصے آ گیا۔  اس نے فوراً مہیش کو فون ملایا۔  وہ عجیب طریقے سے دل میں چھٹپٹا سی رہی تھی۔  اس نے جیسے ہی مہیش کی آواز سنی تو روہانسی ہو کر بولی، ’’تم کب آ رہے ہو، میں اور اب، ان بڑھتی ہوئی عمر کے بچوں کو اکیلے نہیں سنبھال سکتی۔  سنتے ہی نہیں ہیں، بس ہر وقت انہی کی خواہشیں پوری کرتے رہنے کے علاوہ، میرا کوئی وجود ہے یا نہیں۔  یہ پوری میری ذمہ داری تو نہیں ؟ تم کہاں ہو؟‘‘

اُدھر مہیش شاید کام جلدی پورا کر لینے کی پوزیشن میں تھا۔  پاس ہی ساتھی بھی تھے، ڈائریکٹر بھی تھے۔  اسے جلدی میں کوئی جواب نہ سوجھا، جانے کیوں کہہ دیا کہ دو دن اور لگ جائیں گے۔  بس فون رکھ دیا۔  وہ بھی تھکا ہوا تھا۔  گھر کا کھانا نہیں، گھر کا آرام نہیں، ورک لوڈ اتنا کہ بھاگم بھاگ میں، کبھی کا فی ڈونٹ تو کبھی سینڈوچ سلاد لے کر کھا لیا۔  اسے دیپا کے ہاتھ کی گرم دال سبزی کی یاد ستاتی تھی۔  وہ سوچتا کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ یہ ٹورنگ کی جاب نہ کرنی پڑے۔  بس ہیڈ کوارٹر میں ہی رہے، باہر کا کام کوئی دوسرا آدمی دیکھ لیا کرے جو تنہا ہو یا جسے آئے دن سفر کرنے کی خواہش۔  دیپا کی شادی کو ابھی پندرہ سال ہی ہوئے تھے۔  اور اس کی سالگرہ بھی آنے والی تھی۔  وہ اپنے دل میں سوچتی کہ دوسرے دن سے ہی مہیش اس کو فون کر کے بتائے گا کہ اس کے بغیر کتنا اکیلا محسوس کرتا ہے، نیند جلدی نہیں آ پاتی یا جلد از جلد کام ختم ہوتے ہی آنے کی بات کرے گا، پر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ ا اب تو یہ ان کا ملنا بچھڑنا ایک روٹین سابن گیا تھا۔  بچے بھی عادی ہو گئے تھے۔  پر جب اس طرح سے بات مکمل کئے بغیر ہی مہیش نے فون رکھ دیا تو دیپا اس دکھ بھری سچویشن میں رو پڑی۔

بچے باری باری اٹھ کر نہانے چلے گئے۔  ان کو اپنی غلطی کا ہلکا سا احساس تو ہوا۔  دیپا کچن میں آ کر کچھ کھانے پینے کا انتظام کرنے لگی۔  ٹیبل پر رکھ کر خود کچھ کھایا اور سونے چلی گئی۔  نیند جلد ہی آ گئی۔  رو نے کی وجہ سے آنکھیں جل رہی تھیں، پانی پیا اور جسم نڈھال ہو گیا۔  خواب میں کیا دیکھتی ہے ایک بڑا سا کمرہ ہے، وہ اسی کا تھا اور ایک عورت جو کہ اس کے ساتھ کام کرتی تھی، اس کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھے مار ڈالو میں اور برداشت نہیں کر سکتی، میرے شوہر مجھے چھوڑ دینے کی سوچ رہے ہیں۔  دیپا مجھے مار ڈالو۔  دیپا نے اسے مار ڈالا، بس پھر کیا تھا باری باری اس کے دروازے پر دستک ہوتی اور اس کے بھائی، بہن، دوست، رشتہ دار اسے اس بھیڑ میں دکھائی دینے لگے۔ سب کسی نہ کسی چیز سے بچنے کے لئے یا کسی نہ کسی کے خوف سے یا کچھ نہ مل پانے کے عذاب سے اداس تھے اور زندگی کا خاتمہ ہی انہیں ایک کامیاب اور سادہ طریقہ لگ رہا تھا۔  انہیں جب پتہ چلا کہ اس کمرے میں ایک عورت ہے، جو مار ڈالتی ہے تو سب اس کے دروازے پر آ لگے تھے۔

دیپا کے ہاتھ میں ایک مضبوط تیز چاقو تھا اور وہ جانے کس طرح پکڑ کر گردن پر پھراتی ہے اور آگے کھڑا شخص ڈھے سا جاتا ہے۔

ہاں اس ڈھے جانے کے بعد وہ سب زندہ بھی ہیں، کیونکہ سب دیواروں کے سہارا لے کر خاموش اور پرسکون ہو کر بیٹھتے جا رہے ہیں۔  کسی کو کسی کی پرواہ نہیں، کوئی گرمی سردی کی شکایت نہیں، سب چپ چاپ سے ہو کر بیٹھے ہیں۔  مارے گئے ہیں لیکن صورت سے سب پرسکون دکھائی دے رہے ہیں، جیسے سب کو مانگا گیا وردان مل گیا ہو۔

انہی مر جانے والوں کی بھیڑ میں اسے اپنے بچپن کی بہت سی سہیلیاں بھی نظر آئیں۔  اس نے انہیں دروازے کے اندر گھسیٹ لیا اور پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیا کر رہی ہو؟ وہ بولیں کہ ہم لوگوں کو پتہ چلا کہ وہاں ایک عورت ہے، وہ سب کو زندگی کے ان مشکلوں سے چھٹکارا دلا رہی ہے۔  تمہارے اوپر خودکشی کا الزام بھی نہیں لگے گا اور اس عورت پر قتل کا الزام بھی نہیں چل رہا۔  وہ تو فوراً سب کو مار رہی ہے۔  دیپا کا چہرہ تن گیا۔ آنکھیں پتھرا سی گئیں۔  اس کا بے ہوش دماغ بیدار ہوتا ہے اور کمرے میں وہ اپنے لوگوں کو تلاش کرنے لگی۔  جیسے انہیں دوبارہ زندہ کر کے وہ باہر کا راستہ دکھا دے گی۔  لیکن جس چہرے کو بھی وہ دھیان سے دیکھتی ہے وہ کسی اجنبی کا چہرہ ہی ہوتا، وہ کچھ فکر مند ہو گئی۔  بڑبڑاتے ہوئے بولی کہ میں نے تو انہیں یہاں نہیں بلایا۔  میں نے تو انہیں نہیں مارا کون لوگ ہیں یہ؟ کیوں آئے ہیں یہاں ؟ کمرے کے ایک کونے سے کچھ لوگوں کے خوب زور سے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں۔  دیپا نے ادھر دیکھا اسے اپنی ماں اور نانی نظر آئیں۔  دیپا وہیں چل پڑی۔  وہ چھوٹا سا کمرہ بھرا ہوا تھا اور اس کونے تک جانے کے لئے دیپا کو بڑی کوشش کرنی پڑی۔  احتیاط سے لوگوں کے درمیان سے نکلتے ہوئے وہ ماں کے پاس پہنچ گئی۔  ماں کہنے لگی، ’’ٹھیک کیا تم نے جو سب کو نجات دلا دی۔  اس دکھ بھری دنیا سے۔  سب کو تکلیفیں ہی تکلیفیں ہیں۔  جسے دیکھو وہیں نا خوش ہے۔ جو پاس ہے وہ ضروری نہیں، جو ہے نہیں اسی کا رونا ہے۔  بڑی بے ترتیبی سی ہے۔  ہر جگہ کوئی صحیح کوئی غلط ہے۔  تم اپنے آپ کو دیکھو۔  شوہر ہے، بچے ہیں، نوکری ہے، گھر ہے۔ سب صحت مند بھی ہیں۔  پر تم جینا نہیں چاہتی، کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔  پریشانی تو من کی ہے پر تن گھسٹتا ہے۔  اگر غم تن کا ہو تو دل روتا ہے کیا کرے ؟‘‘

اس کے ارد گرد کے لوگ احتیاط سے سن رہے تھے۔  وہ مرے نہیں تھے۔  مرنے آئے تھے۔  انہی کے درمیان اسے مہیش کا چہرہ نظر گیا تھا۔  وہ چونک پڑی۔  ارے مہیش کیوں یہاں چلا آیا۔  اسے کیا غم ہے۔  مہیش جب اس کے قریب آیا اداس لہجے میں بولا، ’’ ہے تکلیف۔  نیند کی دیوی مجھے معاف کرو اب۔  نہیں اور نہیں۔ ‘‘

دیپا ایک کھڑکی کے پاس ہی کھڑی تھی۔  اس نے اوپر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ خوبصورت نیلا آسمان ہے۔  اس میں پانچ سفید پرندے اڑ کر اس کی طرف آ رہے ہیں اور نیچے اترنے کے عمل میں وہ مہاتما بن گئے۔  سادھو کا بھیس دھار لیا۔  سیدھے زمین پہ اتر آئے اور دیپا کی طرف دیکھ کر کچھ کہنے لگے۔  دیپا کو اب کچھ سنائی نہیں پڑ رہا تھا۔  وہ بے چین ہو کر کھڑکی سے باہر جانا چاہتی تھی۔  لیکن اندر کے لوگ اسے پکڑے ہوئے تھے اور جانے نہیں دے رہے تھے۔  طاقت لگا کر کسی طرح دیپا کھڑکی کے باہر آ گئی۔  سفید پرندے جو مہاتما کے روپ میں بدل گئے تھے ان کے چہرے وہ لہروں کی وجہ سے دیکھ تو نہ سکی صرف اس کو اندازہ ہوا۔  اس نے پر سکون لہجے میں ان لوگوں نے کہا، ’’ بیٹی لوٹ جاؤ اپنی دنیا میں، بھاگنا ممکن نہیں، عمل تو کرنے ہی پڑتے ہیں۔  ان کے پھل بھی ملتے ہیں۔  یہ ایک ترتیب ہے۔ جس کا معلوم نہیں کہاں ہے آغاز، کہاں ہے آخر۔  پھر بھی کام کئے بغیر یہ کٹتا نہیں۔  اندر کی طاقت کو کھوجو، اس کے کہے پر چلو۔  کچھ بھی جھوٹ نہیں، کچھ بھی سچ نہیں۔  سر مدھم ہو گئے۔  پھر سر دھندلانے لگے اور اچانک اسے اپنے گھر میں لگی گھنٹی کی آواز سنائی پڑی۔  صبح ہونے کو تھی۔  مہیش تازہ دم چہرے اور تازی مہک کے ساتھ اس کے بستر کے پاس آ چکے تھے۔

***

 

 

 

ایک بزرگ جوڑے کا ویلنٹائن

 

ارون ارنو کھرے

 

عمر کی ساتویں دہائی کی دہلیز پر کھڑے رام وِبھوتی سنگھ نے ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اپنی نصف بہتر سُہاسنی کا ہاتھ ہولے سے دباتے ہوئے کہا۔

’’کل اپن بھی گھومنے چلتے ہیں۔  کسی پارک میں بیٹھیں گے۔  مال میں گھومیں گے۔ سنی لیون یا عمران ہاشمی کی کوئی فلم دیکھیں گے۔  پورا دن انجوائے کریں گے۔ اتواری لال کی چاٹ کھائیں گے اور چوک میں جا کر فتحِ لال کی قلفی فالودہ کو بھی ٹیسٹ کریں گے۔ ‘‘

بیوی شرمائی، لجائی اور ہاتھ چھڑانے کی بناوٹی کوشش کرتے ہوئے بولی۔  ’’اس عمر میں یہ سب کرنا کیا زیب دے گا۔ پوتے نواسے والے ہو گئے ہو۔  جب چلنے کے دن تھے تو چلے نہیں۔ ‘‘

’’تو اب چلتے ہیں۔ پتہ نہیں پھر جا پائیں یا نہیں۔ حسرت دل میں لئے رخصت ہو گئے، تو اگلے جنم کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ‘‘

’’آپ تو سٹھیا گئے ہیں، کچھ بھی بولتے ہیں۔ ‘‘سُہاسنی کی اس میٹھی جھڑکی سے وہ پر یقین ہو گئے کہ کل کا ان کا پلان سینٹ پرسینٹ ایپرووڈ ہے۔

دونوں صبح صبح ہی گھر سے ٹہلتے ہوئے پارک آ گئے۔ وہاں کافی گہما گہمی تھی۔  پھولوں کی دکان پر کافی بھیڑ جمع تھی۔ ایک ایک گلاب کا پھول دو دوسو روپے میں بیچا جا رہا تھا۔  انہوں نے بھی ایک لے لیا۔  قیمت سن کر سُہاسنی تنک گئی۔

’’ سچ مچ آپ کھسک گئے ہو۔ کیا ضرورت تھی پیسے لٹانے کی۔ ‘‘

رام وِبھوتی جی ماضی میں جا پہنچے اور بولے۔

’’ارے پگلی۔ یاد کرو، جب ہم اپنی شادی کی دوسری سالگرہ کے موقع پر، بسنت پنچمی کے دن گاندھی باغ میں گلابوں کی نمائش دیکھنے گئے تھے اور وہاں تمہیں کالا گلاب پسند آیا تھا، لیکن اس وقت تم نے گود میں سوئے چِنکو کی طرف دیکھتے ہوئے، تین روپے بھی نہیں خرچ کرنے دیے تھے۔ ہم کتنے شرمندہ ہوئے تھے اپنی لاچاری پر۔ سنتے ہیں اب تو نمائش بھی نہیں لگتی۔ سارے گلاب اسی دن توڑ لئے جاتے ہیں اور درختوں پر صرف کانٹے رہ جاتے ہیں چبھنے کے لئے۔ ‘‘

’’ہاں سب یاد ہے۔ اگر ہم حساب کتاب سے نہ چلے ہوتے، تو کیا ہمارا چِنکو آئی آئی ٹی میں پڑھ پاتا اور اتنا بڑا افسر بن پاتا۔ وہ بھی آپ کی طرح بینک میں بابو گیری کرتا یا کیشئر ہوتا۔ ‘‘

دونوں نے پارک کے کنارے پر کھڑے ہو کر نظریں گھمائیں۔ پارک کے ہر کونے میں جوڑے محبت کے لین دین میں مصروف تھے۔  ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔  ابھی چند قدم چلے ہی تھے کہ کسی ٹپوری ٹائپ دل جلے عاشق کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔ ‘‘کمال ہے بھائی۔  سوکھے تنے میں بھی کونپلیں پھوٹ پڑی ہیں۔ ‘‘

دونوں ان سنا کر کے پارک سے باہر نکل آئے اور سڑک کنارے لگی ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔  رام وِبھوتی جی دکھی دل سے بولے۔  ’’سُسی۔ میری وجہ سے تمہیں کتنی تکلیف دہ باتیں سننے کو ملیں۔ مجھے معاف کر دو۔ ‘‘

’’نہیں جی۔ وہ کون سا اپنا تھا، جس کی باتیں سن کر دکھ ہوتا۔ دکھ تو اس دن ہوا تھا، جب چِنکو کے باس گھر رات کے کھانے پر آئے تھے اور اس نے آپ سے اپنے کمرے میں ہی رہنے کے لئے کہا تھا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے سُہاسنی کی آنکھیں چھلچھلا گئیں۔

’’ارے وہ تو ہم بھی کہاں ان سے ملنا چاہتے تھے۔ بڑے لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کے طور طریقے بھی ہمیں کہاں آتے ہیں۔ پر ہاں۔ بہو پر ضرور مجھے غصہ آیا تھا۔ ڈنر کے لئے تم نے کتنے لذیذ پکوان بنائے تھے۔  سب تعریف کر رہے تھے۔ لیکن بہو نے یہ کہہ کر کہ مہاراج نے بنائے ہیں، تمہاری توہین کی تھی۔ ‘‘

’’سب یاد ہے مجھے۔ آپ کی تو عادت ہے ہر چھوٹی چھوٹی بات پر پارہ چڑھانے کی۔ آپ تو سب چھوڑ کر واپس گاؤں چلنے کو تیار تھے۔ آپ نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ بچارے بِٹّو کا کیا ہو گا۔ پیدائش سے ہی وہ ہم سے کتنا مانوس ہے۔ ہمارے بغیر وہ ذرا سی دیر بھی نہیں رہتا ہے۔ ‘‘

’’ ہاں، مجھے جلدی غصہ آ جاتا ہے۔ تمہاری جتنی برداشت نہیں ہے۔ چِنکو ہماری اکلوتی اولاد ہے۔ اس کی صحیح طرح پرورش ہو۔ اس لئے تم نے دوسری اولاد کی بھی خواہش نہیں کی۔ چِنکو کی شادی بھی اس کی مرضی سے کی۔ جب وہ تمہیں نظر انداز کرتا ہے، تو مجھے بہت غصہ آتا ہے۔ تم نے دو ساڑیوں میں اپنی زندگی گزار دی۔ کرایہ کا سوچ کر، سالوں میکے نہیں گئیں۔ بہو حاملہ ہوئی تو دن رات تم اس کی خدمت میں لگی رہیں۔ پر اس نے کبھی تم کو ایک کپ چائے بھی بنا کر نہیں پلائی۔ اس وقت بھی نہیں، جب دو دن تم بیمار ہو گئی تھیں۔ ‘‘

’’بڑے گھر سے آئی ہے۔ نوکری بھی کرتی ہے۔ تھک جاتی ہے۔ ہم تو گھر میں ہی رہتے ہیں۔ ‘‘

’’تم بھی ساٹھ سال سے اوپر ہو گئی ہو۔ دن بھر بِٹّو کتنا دوڑاتا ہے تمہیں۔ کیا مجھے معلوم نہیں۔ روز رات میں مجھ سے چھپا کر اپنی کمر سینکتی رہتی ہو۔ اور کہتی ہو کہ تم تھکتی نہیں ہو۔ ‘‘

’’آپ اب بھی بڑے وہ ہیں۔  سب کچھ چھپ چھپ کر دیکھتے رہتے ہیں۔ تانک جھانک کی عادت گئی نہیں ابھی تک۔ ‘‘

کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ پھر سُہاسنی بولی، ’’اس جولائی سے بِٹّو بھی پلے اسکول میں جائے گا۔ میں نے بہو کو چِنکو سے کہتے سنا تھا۔ ‘‘

’’اچھا۔ پر ہمیں تو کسی نے بتایا نہیں۔ کیا ہم واقعی میں آؤٹ آف ڈیٹ ہو گئے ہیں۔ ‘‘

’’آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں۔ بِٹّو اسکول جائے گا، تو اسے لانے لے جانے کی ذمہ داری تو آپ ہی رہے گی۔ جب وقت آئے گا، تو دونوں بتائیں گے بھی اور سمجھائیں گے بھی۔ ‘‘

’’اب مجھے کیا سمجھائیں گے۔ کیا چِنکو اپنے آپ پڑھ لکھ کر بڑا ہو گیا۔ ‘‘

’’آپ بھی بات کا کتنا غلط مطلب نکال لیتے ہیں۔ آپ انگریزی اتنی اچھی نہیں ہے نہ۔ اس لئے بھی آپ کو اسکول کے قاعدے قانون جاننا ضروری ہیں کہ نہیں۔ ‘‘

’’تم مجھے ہر بار پچھاڑ دیتی ہو۔ پر ہم نے بھی تو چِنکو کو کانونٹ اسکول میں ہی پڑھایا ہے۔ ‘‘

’’سوری۔ معاف کرنا مجھے۔ ‘‘

دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ کچھ فاصلے پر ایک خوانچے والا آواز لگا رہا تھا، ’’ چنا جور گرم۔  ‘‘رام وِبھوتی جی نے گھڑی دیکھی۔ شام کے چھ بج رہے تھے۔ انہوں نے چنے کی ایک پڑیا لی اور دونوں ایک ایک دانہ چباتے ہوئے گھر کی طرف چل دیئے۔

***

 

 

 

انتخاب

 

ارون ارنو کھرے

 

ریاست کی جوائنٹ اسکول ہاکی ٹیم کے انتخاب کا عمل چل رہا تھا۔ مختلف اضلاع سے پینتیس لڑکوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ ان میں سے سولہ لڑکوں کا انتخاب نیشنل اسکول کامپیٹیشن کے لئے کیا جانا تھا۔ تمام کھلاڑیوں کو تین ٹیموں میں تقسیم کیا گیا تھا، جن کو آپس میں میچ کھیل کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا تھا۔ چیف کوچ رحمان قریشی، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اہم گیم آفیسر رتی لال یادو اور حکومت کے گیم ڈیپارٹمنٹ کے نمائندے وامن راؤ ناگپورے کو سولہ کھلاڑیوں کے حتمی انتخاب کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

میچوں کے اختتام کے بعد تمام سلیکٹرز اسٹیڈیم کی کینٹین میں ملے۔ وامن راؤ نے اپنی جیب سے ایک فارم نکالا اور ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولے۔  ’’وزیرِ کھیل کی طرف سے دو لڑکوں کے نام آئے ہیں۔  بھونیش کمار اور سشیل چوکسے۔ دونوں ان کے علاقے کے ہیں۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ وزیر صاحب نے کہا ہے، تو دونوں کو ٹیم میں لینا ہی پڑے گا۔ ‘‘ رحمان بولے۔ یادو جی نے بھی رضامندی میں سر ہلایا۔

’’ایک ناما سپورٹس ڈائریکٹر آشیش سنگھ نے بھی دیا ہے۔ ان کے کسی رشتہ دار کے بیٹے پریکشت سنگھ۔ ‘‘ وامن راؤ بولے۔

’’ان کا بھی نام لکھ لو۔ ‘‘ رحمان نے کہا۔

’’سر دو نام ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری اور جوائن ڈائریکٹر صاحب نے دیئے ہیں۔ ‘‘ رتی لال یادو نے ناموں کی پرچی سب کے سامنے رکھی۔ ان کا بھی انتخاب بلا مقابلہ ہو گیا۔

’’ٹریژری کے بابو شیش راؤ کے بیٹے بھیم راؤ کو بھی لینا پڑے گا ٹیم میں۔ ورنہ ہمارے بل بھی پاس نہیں ہوں گے۔  مسئلے ہوتے رہیں گے۔ ‘‘ رتی لال نے پرانے تجربے کی بنیاد پر اپنی بات رکھی۔  بات میں دم تھا سو سب نے فوری طور پر مان لی۔

’’چھ لوگوں کا انتخاب تو ہو ہی چکا ہے۔ ایک نام ڈاکٹر صاحب سے لے لیتے ہے اور باقی بچے نو لوگ، تین تین لوگوں کے نام ہم آپس میں فائنل کر لیتے ہیں۔ ‘‘ رحمان کی یہ تجویز سب کو پسند آئی۔

ڈاکٹر صاحب نے فون پر اپنے پسندیدہ کھلاڑی کا نام نوٹ کرا دیا۔

رتی لال نے اپنی ذات برادری کے تین نام طے کرے۔ وامن راؤ نے بھی اپنے دو رشتہ داروں اور کالونی کے ایک لڑکے کا نام کمیٹی کے سامنے رکھا۔ رحمان نے ایک مسلمان اور دو کمسن چھوکروں کے نام رکھے۔ ٹیم کا انتخاب ہو گیا تھا۔  چنانچہ سب نے دستخط کئے اور ایک اسٹیٹمنٹ جاری کیا۔ اپنی ٹیم پر ایک گول بھی اسکور نہ ہونے دینے والے اور سب سے قابل اعتماد گول کیپر کے طور پر ابھرے پی رنگا ناتھ کو میڈیکلی ان فٹ ہونے کی وجہ سے نہیں لیا جا سکا۔  سب سے زیادہ گول کرنے والے پربھجوت سنگھ بھی ڈسپلن کی وجہ سے ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے۔  ان کے خلاف متفقہ طور پر مناسب کار روائی کرنے کیلئے کیس ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن کو بھیجنے کی سفارش کی گئی۔

٭٭٭

 

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل