فہرست مضامین
ہاتھ کی صفائی
(اردو محفل آن لائن مشاعرہ 2016ء کی پیروڈیز)
امجد علی راجا
صفائی
گزشتہ دنوں استادِ محترم اعجاز عبید صاحب کی زیرِ صدارت اردو محفل کا سالانہ عالمی اردو مشاعرہ منعقد ہوا۔* منتظمین کی دن رات کی محنت اور جانفشانی کی بدولت تمام محفلین کو اس مشاعرے سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا، مشاعرہ کے منتظمین محمد خلیل الرحمٰن، مقدس حیات ، محمد بلال اعظم، محمد تابش صدیقی اور حسن محمود جماعتی بھرپور داد و تحسین اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ابن سعید کی تکنیکی معاونت کی بدولت مشاعرہ کا نظم و نسق مسلسل قائم و دائم رہا ان کے لئے خصوصی شکریہ اور دعائیں۔
شعراء کرام نے اپنے خوبصورت تخلیقات سے اس مشاعرے کو جو حسن و رعنائیت بخشی یقیناًَ قابلِ ستائش ہے۔ تمام شعراء کو ایک بار پھر بہت ساری داد۔
مجھے تمام شعراء کرام کی تخلیقات نے اتنا متاثر کیا کہ صرف داد پیش کرنے سے تسلی نہ ہوئی، سوچا کسی اور انداز میں تمام شعراء کرام کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے۔ کسی کلام کی پیروڈی ہونا اس کلام کی عمدگی کی دلیل ہوتا ہے، اس لئے میں نے شعراء کرام کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے اسی طریقہ کا انتخاب کیا۔ استادِ محترم الف عین صاحب (اعجاز عبید) نے ہمیشہ کی طرح میرے سر پر دستِ شفقت رکھا اور میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کی اصلاح فرما کر اس کوشش کو انجام تک پہنچایا جس کے لئے میں ان کا شکرگزار ہوں۔
تو پیش ہے آپ کی خدمت میں اردو محفل "سالانہ عالمی مشاعرہ 2016” کی پیروڈیز، میری ’ہاتھ کی صفائی‘ کی مثال کے طور پر۔
چونکہ میرا پیش کردہ کلام بھی مزاحیہ تھا اس لئے اسے بھی شامل کرنا مناسب سمجھتا ہوں
٭٭٭
*اس کی مکمل تفصیل ’گلدستہ اردو محفل مشاعرہ ۲۰۱۶ء‘ کے نام سے بزم اردو لائبریری میں شائع کی جا چکی ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ اصل کلام پڑھنے کے لیے اس گلدستے کا مطالعہ کریں۔ ا۔ع
ترتیب
پیروڈیز پیش کرنے کی ترتیب حروف تہجی کے مطابق کچھ یوں ہے۔
اعجاز عبید صاحب
امجد علی راجا
ایمان قیصرانی صاحبہ
حسن محمود جماعتی صاحب
سید سجاد اطہر موسوی صاحب
ظہیر احمد ظہیر صاحب
عباس صوابین صاحب
بشیر الدین فاتح صاحب
فیصل عظیم فیصل صاحب
سید کاشف (سید کاشف اسرار احمد) صاحب
لا المیٰ صاحبہ
مانی عباسی صاحب
محمد احمد صاحب
محمد بلال اعظم صاحب
محمد خلیل الرحمٰن صاحب
محمد فائق صاحب
مریم افتخار صاحبہ
مزمل شیخ بسمل صاحب
منیب احمد فاتح صاحب
منیر انور صاحب
نور سعدیہ شیخ صاحبہ
ابن منیب صاحب
نوید ظفر کیانی صاحب
واسطی خٹک صاحب
٭٭٭
اعجاز عبید
محکمہ ختم پُلس کا جو کبھی ہو جائے
عین ممکن ہے جرائم میں کمی ہو جائے
تیل وہ آپ کو دوں گا کہ طبق روشن ہوں
ٹنڈ پر زلف اُگے، اور گھنی ہو جائے
مجھ پہ لٹو تری جاناں ہے بتاتا کیسے
ڈر رہا تھا نہ تری دل شکنی ہو جائے
وصل کی رات بُلا کر نہ وہ آیا اب تک
اصطبل میں نہ کہیں شب بسری ہو جائے
ہاتھ میں میرے قلم، دست میں اس کے چمچہ
آج بیگم سے نہ شمشیر زنی ہو جائے
پوری شادی میں یہی خوف رہا دل میں مرے
پہلی بیوی نہ کہیں آ کے کھڑی ہو جائے
گھر بسا، کل یہ جوانی نہ رہے، کس کو پتا
کب خزاں دیدہ تری گلبدنی ہو جائے
گھر کے سب کام کرائیں، مجھے طعنے تو نہ دیں
ہم سے بیگم نہ کہیں بے ادبی ہو جائے
آپ نے خود ہی لٹیروں کو بنایا رہبر
دیکھتے جائییے کب راہ زنی ہو جائے
٭٭٭
امجد علی راجا
زلفِ دراز شان ہے حسن و جمال کی
نسوانیت ادھوری ہے اس کو نکال کر
بیگم! اسی کی چھاؤں میں رہتے ہیں عاشقین
رسوا کرو نہ زلف کو سالن میں ڈال کر
__________________________________
کتابوں میں بہت نقصان اٹھا کر
دکاں پر رکھ لئے جوتے جرابیں
چراغ علم یوں روشن کیا پھر
سر فٹ پاتھ رکھ دیں سب کتابیں
__________________________________
چار دفتر میں ہیں، اک گھر میں ہے اور اک دل میں ہے
چھ حسینوں میں گھرا امجد بڑی مشکل میں ہے
ذکر سن کر چھ حسینوں کا نہ گھبرا جانِ من
اک حسینہ کے لئے اب بھی جگہ اس دل میں ہے
ساس کے پہلو میں بیوی کو جو دیکھا، ڈر گیا
یا الٰہیٰ خیر ہو خنجر کفِ قاتل میں ہے
دے رہا تھا لیڈروں کو گالیاں جو جو بھی وہ
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ”
میں تو سمجھا تھا کہ جاں لیوا ہے بیماری مری
موت کا سامان لیکن ڈاکٹر کے بل میں ہے
دیکھ کر کل رات فیشن شو میں بوفے حسن کا
آ گئے ہم گھر مگر دل اب بھی اس محفل میں ہے
میری دل جوئی کو آنے لگ پڑیں ہمسائیاں
فائدہ کیا کیا مرا بیگم تری کِلکِل میں ہے
دیکھئے، رشوت نہیں لایا، سفارش بھی نہیں
ایک بھی خوبی بھلا اس کی پروفائل میں ہے ؟
آپ جو فائل دبا کر بیٹھے ہیں دو ماہ سے
آپ کا نذرانہ عالی جا! اسی فائل میں ہے
ہے غلط فہمی کہ خوش فہمی مگر لگتا ہے یہ
ذکرِ امجد اب تو اردو کی ہر اک محفل میں ہے
__________________________________
ایک جنجال ہے سسرال مرا، سو بورنگ
اس پہ شوہر بھی نہ قابو میں ہوا، سو بورنگ
مر گئے چھوڑ کے دولت کے خزانے دادا
جشن کے بدلے ہوئی قل کی دعا، سو بورنگ
گولڈ کی رنگ، آئی فون، نہ پرفیوم کوئی
پیار میں اس نے بس اک پھول دیا، سو بورنگ
گو کہ افسر ہے مگر ہے وہ بہت نالائق
اپنے خرچے پہ وہ حج کرنے گیا، سو بورنگ
چھ مہینے سے وہ چپکی ہے اسی لڑکے سے
آج کے فاسٹ زمانے میں وفا، سو بورنگ
شعر تو کہتے ہیں بجلی کے اجالے میں مگر
ان کے ہر شعر میں جلتا ہے دیا، سو بورنگ
ڈش کوئی مرغ کی کھائے تو کوئی بات بھی ہو
دال پہ کرتا ہے وہ شکر ادا، سو بورنگ
میں نے لکھا اسے اردو میں محبت نامہ
ہائے، انگریز کی بچی نے کہا، سو بورنگ
میری پر لطف غزل بزم میں سن کر لوگو
کس چھچھورے نے لگائی ہے صدا، "سو بورنگ”
٭٭٭
ایمان قیصرانی
زبان بند ہو بیگم کی وہ دوائی دے
علاج ورنہ مرا کر کہ کم سنائی دے
دیا تھا ووٹ جسے گر مجھے دکھائی دے
تو سارے شہر میں تھپڑ مرا سنائی دے
یہی تو حسن کی فطرت ہے عصر حاضر میں
تجھے فقیر کرے کاسۂِ گدائی دے
پُلس میں، کورٹ میں، ہیں عورتیں وکالت میں
بتائیے مجھے، شوہر کہاں دہائی دے
محلے بھر کی خواتین اسی کے گن گائیں
جو لا کے ہاتھ میں بیگم کے سب کمائی دے
کلاس میں مرے بچے نے فلسفہ جھاڑا
رضاعی ماں تو وہی ماں ہے جو رضائی دے
پُلس کو چور نے حصہ دیا تو کہنے لگے
تمہارے ہاتھ میں مالک بہت صفائی دے
٭٭٭
حسن محمود جماعتی
بیویاں ہیں جو چار پہلو میں
درد و غم ہیں ہزار پہلو میں
وہ نہ امید سے اگر ہوتی
کیوں چھپاتی اچار پہلو میں
پیار کتنا تجھے کروں بیگم
تین کاندھے پہ چار پہلو میں
لطف بارش کا تب ہی آتا ہے
جب بھڑکتی ہو نار پہلو میں
جب سے دولت ملی ہے دوبارہ
لوٹ آئے ہیں یار پہلو میں
ناقص العقل تخت شاہی پر
اور جاہل گنوار پہلو میں
کتنی ناکام چاہتیں میری
جانے کتنے مزار پہلو میں
ساتھ اس کے کزن بھی آیا ہے
پھول کے سنگ خار پہلو میں
٭٭٭
سیدسجاداطہرموسوی
ٹھونستا خوب ہے مہمان خدا خیر کرے
کم نہ پڑ جائیں کہیں نان خدا خیر کرے
روٹھ کے جا تو رہی ہے مری بیگم میکے
لے نہ جائے کہیں سامان، خدا خیر کرے
سب لٹیروں کو حکومت نے وزارت دے دی
چور سے مل گئے دربان خدا خیر کرے
جینز میں گھس کے وہ ٹانگوں کو پھنسا بیٹھی ہے
جینز پھٹنے کا ہے امکان خدا خیر کرے
چھوڑ کے آنا تھا محبوبہ کو اس کے گھر تک
چھوڑ آیا ہے گریبان خدا خیر کرے
اس برس بھی نہیں سیلاب سے بچنے کا پلان
ایک ہفتے سے ہے باران خدا خیر کرے
ملک میں حال زراعت کا بھی بے حال ہوا
مر گئے بھوک سے دہقان خدا خیر کرے
قوم کی توڑ دی مہنگائی نے پہلے ہی کمر
آ گیا اس پہ یہ رمضان خدا خیر کرے
٭٭٭
ظہیر احمد ظہیر
دیکھی پراگرس تو مجھے حوصلہ ملا
دسویں مجھے ملی تب اسے دوسرا ملا
ٹانگیں ہی کھینچتے ہیں یقیناً یہاں کے لوگ
جو شخص بھی ملا ہے زمیں پر گرا ملا
شادی ہوئی تو اس کی کسی تیسرے کے ساتھ
میرے رقیب سوچ ذرا، ہم کو کیا ملا
ہم کیسے سیکھ پاتے بھلا کھا کے ٹھوکریں
جو بھی ملا فراڈیہ سب سے جدا ملا
میرے حسیں صنم کا سیاسی مزاج ہے
جب بھی ملا وہ ہم سے تو کچھ غیر سا ملا
اس بار بھی یقینی وزارت ہے اس کے پاس
لیڈر مرا ضرور حکومت سے جا ملا
انصاف، روزگار کہ بجلی انہوں نے دی
دوبارہ ووٹ دینے کا کچھ بھی صلہ ملا؟
میرے وطن کا حال بھی مجھ سے جدا نہیں
جو بھی ملا ہے آج تلک، بے وفا ملا
٭٭٭
عباس صوابین
اور کوئی بھی غم نہیں ہوتا
وزن کیوں میرا کم نہیں ہوتا
لوگ آٹو گراف مانگتے ہیں
جیب میں جب قلم نہیں ہوتا
بد دعا کس کی ہے سیاست کو
کوئی بھی محترم نہیں ہوتا
پوچھ لو تم کسی بھی انساں سے
زہر انساں میں کم نہیں ہوتا
شرم آتی نہیں سبھی کو یہاں
سب کی گردن میں خم نہیں ہوتا
کون الجھے گا اپنی بیگم سے
ہر کسی میں تو دم نہیں ہوتا
تم کو سگرٹ ملے گی یا نسوار
جیبِ مسلم میں بم نہیں ہوتا
٭٭٭
بشیر الدین فاتح
شرم سے پانی پانی ہیں ہم کس کو بلائیں تھانے میں
ٹُن حالت میں پُلس نے ہم کو پکڑا ہے مے خانے میں
ٹِک کر بیٹھ نہیں پاتا ہے آخر جان سے جاتا ہے
چیر کے دیکھو آخر کون سا کیڑا ہے پروانے میں
فلمی گانوں کے شاعر اب ڈانس کے ماہر بن جائیں
بول کہاں ہوتے ہیں اب تو ڈانس ہی ڈانس ہے گانے میں
کپڑے جوتے سیر سپاٹے، ایزی لوڈ بھی بھول گئی
جانے کیا تاثیر ہے ایسی لوگوں کے بہکانے میں
پہلے محبوبہ پھر لیڈر آخر میں پھر پیر فقیر
ہم نے ساری عمر ہی دے دی لوگوں کو نذرانے میں
رہبر ہم ہر بار بنا لیتے ہیں خود قزاقوں کو
برسوں پھر نقصان اٹھایا کرتے ہیں ہرجانے میں
شاور لے کر پیچھے پڑ جاتے ہو سیاستدانوں کے
امجد جیل میں جاؤ گے تم یا پھر پاگل خانے میں
٭٭٭
سید کاشف
کسی بھی مرد کا بیگم سے کب ہے مال بچا
سمجھ لے بات ذرا، مال دے کے بال بچا
کچن تمام ہی بیگم نے مجھ پہ پھینک دیا
مگر کمال مرا دیکھ، کیا کمال بچا
فضول میں ہی تو شادی کو لے کے بیٹھ گیا
ابھی بھی وقت ہے اپنے تو ماہ و سال بچا
فلاحی مرکز و ملّا اسی کی تاک میں ہیں
یہ گوشت سے بھی بہت قیمتی ہے، کھال بچا
خدا کا شکر سلیکشن نہیں پُلس میں ہوئی
خدا کا شکر میں رشوت سے بال بال بچا
امیر شہر چکن کھا کے ہم پہ جھپٹے گا
میں اپنی چٹنی بچاؤں تو اپنی دال بچا
٭٭٭
لا المیٰ
ہے ملتانی اگر مٹی
دکھائے گی اثر مٹی
ہمارے ملک کا عالم
ادھر مٹی ادھر مٹی
الرجی ہو گئی ہم کو
یہاں شام و سحر مٹی
ذرا بھی شرم ہوتی تو
نہ ہو جاتے بشر مٹی؟
ہوئے کیوں پیٹ میں کیڑے
نہیں کھائی اگر مٹی
گدھا کیا لے لیا میں نے
مرا اب ہر سفر مٹی
نہ پہنچے صنف نازک تک
تو شاعر کا ہنر مٹی
٭٭٭
مانی عباسی
کزن کو چھوڑ دے گی وہ یہی امکان ہوتا تھا
یہی امکان جینے کا مرے سامان ہوتا تھا
وہ شادی کر کے میڈم سے، بنا پھرتا ہے اب صاحب
وہ لڑکا ان کے دفتر کا کبھی دربان ہوتا تھا
سپارہ پڑھنے جاتے تھے سبھی خالہ کے گھر بچے
وہیں سلطانہ پڑھتی تھی وہیں سلطان ہوتا تھا
جو ٹھرکی تھے دکانیں چوڑیوں کی کھول لیتے تھے
اگرچہ ایسے بزنس میں بہت نقصان ہوتا تھا
نہ کرکٹ بورڈ میں پہلے یہ مامے تھے نہ چاچے تھے
جو اچھی گیم کرتا تھا وہی کپتان ہوتا تھا
لٹیرے، چور، ڈاکو اب منسٹر بن گئے سارے
ٹھکانہ ایسے لوگوں کا کبھی زندان ہوتا تھا
اسے بھی پڑ گیا چسکا اب اوپر کی کمائی کا
کرپشن ختم کرنے کا جسے ارمان ہوتا تھا
جہنم میں ہوا داخل تو مردہ چیخ کر بولا
کچھ ایسا ہی تھا دنیا میں جو پاکستان ہوتا تھا
٭٭٭
محمد احمد
مس ورلڈ تم کو روز بناتا ہے آئینہ
اللہ کتنا جھوٹ دکھاتا ہے آئینہ
سج دھج کے آئینے سے سبھی لے رہے ہیں داد
گھر میں سبھی کو فول بناتا ہے آئینہ
میک اپ کے تیر کرتے ہیں ہر روز قتلِ عام
ہر روز لڑکیوں کو سجاتا ہے آئینہ
جب دیکھتا ہے ٹوٹی ہوئی ناک وہ رقیب
پھر اس کو میرا چہرہ دکھاتا ہے آئینہ
اس پر تو پارلر سے بھی زیادہ یقین ہے
میک اپ میں نقص ہو تو دکھاتا ہے آئینہ
دلکش ادا و ناز خرامی، نگاہِ مست
انداز لڑکیوں کوسکھاتا ہے آئینہ
دادی کے دور کا ہے خدارا بدل بھی دو
دادی سا عکس میرا دکھاتا ہے آئینہ
ہوتی ہے شکل دیکھنے لائق غرور کی
اوقات جب کسی کو دکھاتا ہے آئینہ
٭٭٭
محمد بلال اعظم
کب حکومت سے ہیں بیگم ترے ہتھیار جدا
ایک سی کاٹ ہے لیکن ہے ہر اک وار جدا
یوں تو سسرال مرا کم نہیں تھیٹر سے مگر
ایک سالی مری ان سب سے ہے فنکار جدا
کیوں غریبوں کو امیروں کے مساوی کر دیں
کیوں نہ ہوں ملک میں تعلیم کے معیار جدا
نور تو خیر سے پہلے بھی نہیں تھا رخ پر
راز پانامہ کے کھلنے سے ہے پھٹکار جدا
لوگ کہتے ہیں تو کہتے رہیں لوٹا ہم کو
آج تک ہم سے ہوئی ہے کوئی سرکار جدا
صرف لندن میں ہی ممکن ہے علاج ان سب کا
حکمراں ہوتے ہیں سب قوم سے بیمار جدا
قوم کے مال کو جو مالِ غنیمت سمجھے
ساری دنیا سے ہے امجد مری سرکار جدا
٭٭٭
محمد خلیل الرحمٰن
رہ گئی تھی جو کمی شیطان میں
پائی جاتی ہے سیاستدان میں
اختلاف رائے بیگم کے حضور؟
"یوں بھی آتے ہیں کبھی میدان میں”
بوریاں مہنگائی کی لادے ہوئے
آ گیا رمضان پاکستان میں
مولوی کی ڈگڈگی سنتے نہیں
یہ کمی اک رہ گئی ایمان میں
دشمن انسان ہیں دونوں یہاں
فرق کیا شیطان میں سلطان میں
اڑ گئے حوروں کی جانب طالبان
پھٹ کے کب جاتے ہیں قبرستان میں
٭٭٭
محمد فائق
یہ کس نے کہا شعر سنانے کو چلے تھے
بیگم تجھے میکے سے منانے کو چلے تھے
شرمندہ مجھے کر گئی، بلی تو گئی بھاگ
ہم رات جو بیوی کو ڈرانے کو چلے تھے
پھر شام تلک ہوش میں وہ آ نہیں پائے
بیگم کو سویرے جو جگانے کو چلے تھے
محبوب کی شادی میں لگانی تھیں قناتیں
اس بار بھی یہ فرض نبھانے کو چلے تھے
ہم کھا کے تری ڈانٹ کہاں جاتے ہیں باہر
بیگم بخدا ہم تو نہانے کو چلے تھے
٭٭٭
مریم افتخار
منٹوں کا فاصلہ تھا، لمحوں میں طے ہوا ہے
پھسلا تھا میں وہاں پر، لیکن پڑا یہاں تھا
کھانا ہڑپ گیا میں تنہا ہی تیرے گھر کا
ادلے کا بدلہ صاحب، کل میں بھی میزباں تھا
کوٹھی کا ذکر کیوں ہے ہر بات میں سسر جی
دیکھا گیا جہاں میں، وہ باس کا مکاں تھا
میرا وکیل جیتا اس گھر کا کیس لیکن
اب اس کا گھر بنا وہ جو میرا آشیاں تھا
میں کیوں بچاؤں اس کو پِٹنے دو لڑکیوں سے
میں پِٹ رہا تھا کل جب، وہ شخص تب کہاں تھا
بیگم سے تنگ آ کر پہنچا وکیل کے گھر
دیکھا تو وہ بھی آگے بیگم کے بے زباں تھا
٭٭٭
مزمل شیخ بسمل
تمہیں اب کیا بتاؤں میں ؟
تمہیں اب کیا بتاؤں میں ؟
کہ میں نے جیل کی ہر شام کس مشکل سے کاٹی ہے
اندھیری کوٹھری میں ایک لوٹا ہی تو ساتھی ہے
دعا کرنا مرا رب سے کہ جیلر کو سلا دینا
خدایا آج کی چھترول سے مجھ کو بچا لینا
تمہیں اب کیا بتاؤں میں ؟
کہ مجھ کو شوق تھا بچپن سے ہی دولت کمانے کا
کبھی کچھ چھین لینے کا کبھی سب کچھ چرانے کا
مرے ابا کے آگے جب مری تعریف ہوتی تھی
تو جوتا ان کا ہوتا تھا مری تشریف ہوتی تھی
تمہیں اب کیا بتاؤں میں ؟
کہ میں دل پھینک عاشق تھا حسیناؤں پہ مرتا تھا
نظر جو بھی کہیں آتی وہیں اظہار کرتا تھا
نجانے کیوں مجھے دن میں ہی وہ تارے دکھا دیتیں
پھر اس پر اک ستم یہ بھی کہ ابا کو بتا دیتیں
تمہیں اب کیا بتاؤں میں ؟
کہ کالج کے زمانے میں سیاستدان ہوتا تھا
پروفیسر بھی ڈرتے تھے میں اک طوفان ہوتا تھا
کبھی دنگے میں کرواتا کبھی ہڑتال ہوتی تھی
پھراس کے بعد تھانے میں مری پڑتال ہوتی تھی
تمہیں اب کیا بتاؤں میں ؟
کہ قسمت میں نہیں تھی پھر کہاں سے نوکری ملتی
نہیں تھی نوکری میری کہاں سے چھوکری ملتی
مری بارات کچھ ہی دیر میں تھانے میں لیٹی تھی
جسے گھر سے بھگایا تھا پُلس والے کی بیٹی تھی
تمہیں اب کیا بتاؤں میں ؟
کہ پسٹل بھی ملا، گاڑی ملی، دولت ملی مجھ کو
سیاسی کارکن بنتے ہی طاقت بھی ملی مجھ کو
پُلس نے دھر لیا مجھ کو بھلا یہ کیا کرپشن ہے
پچاسی ووٹ ڈالے ہیں تو کیا، آخر الیکشن ہے
تمہیں اب کیا بتاؤں میں ؟
مقدر کا ہے یا پھر سوچ کا یہ کھیل ہے یارو
میں تنہا ہوں مری دنیا فقط یہ جیل ہے یارو
ستم مجھ پر ہوئے کیا کیا، تمہیں اب کیا بتاؤں میں
کہاں چھتر مجھے پڑتے ہیں تم کو کیا دکھاؤں میں
تمہیں اب کیا بتاؤں میں ؟
٭٭٭
منیب احمد فاتح
ہو ہی جائے نہ رقیبوں سے جدل کچھ مت سوچ
کوچۂ حسن سے جلدی سے نکل کچھ مت سوچ
کب تلک بیٹھ کے روئے گا صبا کو پاگل
خود ہی آتی ہے تو آنے دے کنول کچھ مت سوچ
فطرتِ حسن سمجھنے کی تو کوشش بھی نہ کر
عشق ہو جائے گا منٹوں میں پزل کچھ مت سوچ
شکر کر رب کا ادا اور سکوں سے سوجا
لوگ کیوں رات کو سنتے ہیں غزل کچھ مت سوچ
عقدِ ثانی کا پتہ کل کو نہ بیوی کو چلے
کل کی کل سوچیں گے جب آئے گا کل، کچھ مت سوچ
سوچ والوں کی جگہ ہے نہ ضرورت ہے یہاں
تو کہیں فوج سے جائے نہ نکل، کچھ مت سوچ
صاحبِ فکر سخنور سے ہوئے بور سبھی
سوچ کر لکھنے کی اب سوچ بدل، کچھ مت سوچ
تو نے لُوٹا تھا کسی کو، وہ تجھے لُوٹ گئی
دوست دنیا ہے مکافاتِ عمل کچھ مت سوچ
کام آئے گی یہ اوپر کی کمائی امجد
نوٹ رکھ جیب میں فی الفور نکل کچھ مت سوچ
٭٭٭
منیر انور
بیگم سے تم ڈرتے ہو، کچھ شرم کرو
میری کاپی کرتے ہو، کچھ شرم کرو
اچھی خاصی وائن کے اس دور میں تم
چرسیں پی پی مرتے ہو کچھ شرم کرو
ہٹے کٹے بندے ہو ڈاکے ڈالو
جیبیں صرف کترتے ہو کچھ شرم کرو
اس کے بچے تم کو ماموں کہتے ہیں
پھر بھی وہاں سے گزرتے ہو، کچھ شرم کرو
بڑ بڑ بڑ بڑ بڑ بڑ بڑ بڑ بڑ بڑ بڑ
کتنی بڑ بڑ کرتے ہو، کچھ شرم کرو
٭٭٭
نور سعدیہ شیخ
ہو گیا، ہونا تھا مجھ پر ظلم جو
ہار میری ہو گئی تقدیر سے
کَس کے میں شادی میں باندھا جا چکا
مت ڈرا ہمدم مجھے زنجیر سے
٭٭٭
ابن منیب
اب تو سب لوگ بے اماں ٹھہرے
چور ڈاکو جو پاسباں ٹھہرے
چھ حسینوں سے ہاتھ دھو بیٹھا
کیا خبر اب نگہ کہاں ٹھہرے
دشمنوں کی کسے ضرورت ہے
دوست ہی جب ہوں راز داں ٹھہرے
مل گئے ہیں سبھی ثمر ان کو
اپنے حصے میں امتحاں ٹھہرے
ان کی چھ گاڑیوں کے چکر میں
کارواں کے ہیں کارواں ٹھہرے
داستاں عشق کی چلی ہے وہاں
ہم سے عاشق جہاں جہاں ٹھہرے
مار بیگم سے کیوں پڑی ہم کو
کیا بتائیں کہ بے زباں ٹھہرے
٭٭٭
نوید ظفر کیانی
وہی پیسے بچا رکھے ہوئے ہیں
جو بیگم سے چھپا رکھے ہوئے ہیں
دماغوں میں جنوں بن کر ہے بائیو
بغل میں کیمیا رکھے ہوئے ہیں
زمانہ پھاڑ دیتا ہے تو ہم بھی
گریباں اب کھلا رکھے ہوئے ہیں
لبوں پر باندھ کر رو مال اپنا
"کسی کو بے نوا رکھے ہوئے ہیں”
پتہ ہے واپڈا کا حال ہم کو
سو ہم گھر میں دیا رکھے ہوئے ہیں
ہوا ناراض پہلا پیار ہم سے
سو اب ہم دوسرا رکھے ہوئے ہیں
اسمبلی میں مچا کر غل غپاڑا
سیاسی دبدبہ رکھے ہوئے ہیں
حکومت کو کوئی امید ہو گی
ابھی کاسہ اٹھا رکھے ہوئے ہیں
٭٭٭
واسطی خٹک
"شرارتیں بھی، محبت بھی، بدگمانی بھی”
عجب نمونہ ہے صاحب مری زنانی بھی
نہیں ہے ساس ہی بد نام ساری بستی میں
زبانِ عام بہو کی ہے بدزبانی بھی
چڑیل بھی نظر آتی ہے سب کو حور پری
کمال حسنِ نظر رکھتی ہے جوانی بھی
بس اتنا فرق ہے ڈنڈے ہیں پتھروں کی جگہ
تمہاری جیسی ہے مجنوں مری کہانی بھی
ہیں تین بیویاں پہلے سے تین صوبوں سے
بیاہ لایا ہوں اس بار اک پٹھانی بھی
صنم بھی مطلبی ہے اور چڑچڑی بیگم
بَلا ملی ہے زمینی بھی آسمانی بھی
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید