فہرست مضامین
گپ شپ
محمد اسد اللہ
انتساب
اپنے نواسے محمد زید معروفی
اور
نواسی حمنہ فاطمہ کے نام
شناس نامہ
نام : محمّد اسد اللہ
والد کا نام : محمد مشرف
مقامِ پیدائش : وروڈ، ضلع امراوتی (مہاراشٹر)
تاریخِ پیدائش : 16جون 1958
تعلیم : ایم ۔ اے۔ (اردو، عربی، انگریزی، فارسی )، بی ایڈ، پی ایچ ڈی، ڈپلوما ان جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن۔
تحقیق کا موضوع : اردو انشائیہ کا تاریخی و تنقیدی جائزہ ۔
ذریعہ روزگار : تدریس
ملازمت : مولانا ابوالکلام آ زاد جو نئیر کالج، گاندھی باغ، ناگپور
پتہ : 30 ۔ گلستان کالونی، پانڈے امرائی لانس(ویسٹ )، جعفر نگر، ناگپور440013
فون نمبر : +91 9579591149
ای میل : zarnigar2006@yahoo.com
بلاگ : http://bazmeurdu.blogspot.com
تصانیف
1۔ جمالِ ہم نشیں (مراٹھی مزاحیہ ادب کے تراجم )1985
2۔ بوڑھے کے رول میں (انشائیے )1991
3۔ پر پرزے ( طنزیہ و مزاحیہ مضامین)1992
4۔ دانت ہمارے ہونٹ تمہارے ( مراٹھی مزاحیہ کہانیوں کے تراجم )1996
5۔ ہوائیاں ۔ ( مزاحیہ مضامین، ریڈیو نشریات)1998
6۔ صبحِ زرنگار (مرتّبہ یک بابی ڈرامے ) 2001
7۔ پرواز ( مرتّبہ کوئز )2005
8۔ خواب نگر (بچوں کے لئے نظمیں )2008
9۔ پیکر اور پرچھائیاں (تحقیقی و تنقیدی مضامین)2012
10۔ گپ شپ (بچوں کے لئے کہانیاں و مضامین )2013
انعامات و اعزازات
- مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادیمی ممبئی کے انعامات
- اردو مراٹھی خدمات کے لئے سیتو مادھو پگڑی ایوارڈ( 1997 )
جمالِ ہمنشیں ( 1986)
پر پرزے ( 1993)
ٕ یک بابی ڈرامے
دولہا لے لو دولہا (اوّل، بہترین اسکرپٹ) 1998
اسٹاف روم (، بہترین اسکرپٹ) 1999
- ہوائیاں (1999 مغربی بنگال اردو اکاڈیمی کا انعام۔
خواب نگر ( 2013) احمد جمال پا شا ایوارڈ، بہار اردو اکاڈیمی پٹنہ کا انعام
- ناگپور یو نی ورسٹی میں ایم اے( عربی ) کے امتحان میں امتیازی کامیابی پر
1۔ ایچ ایم ملک گولڈ میڈل، 2۔ پرگیا گنپت را ؤ گولڈ میڈل،
3۔ یاسر عافات گولڈ میڈل۔
- ایم اے( عربی ) کے امتحان میں مہاراشٹر میں امتیازی کامیابی پر انجمن اسلام ممبئی کی
جانب سے انعام ۔
- مہاتما پھلے بھارتیہ ٹیلینٹ ریسرچ اکاڈیمی ایوارڈ 2008
- ودربھ مسلم گو رو پرسکار، ناگپور 2008
- مہاتما جیوتی با پھلے فیلو شپ ایوارڈ 2008
- ڈاکٹر چندر موہن تُلناتمک ساہتیہ راشٹریہ سنمان، 2009
- منی رتنم شکشک گو رو پرسکار، 2011
- آل انڈیا افسانہ نویسی مقابلہ (بہترین کہانی عورت) تیسرا انعام 2005
- بیسٹ ٹیچرس ایوارڈ آ ف یو نائیٹید اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن، ناگپور 2003
* ریاستی آ درش شکشک پرسکار، مہاراشٹر ٹیچرس کونسل، ناگپور2009
* تعلیمی سفر ریاستی ایوارڈ، اوصاف گرو آف نیوز پیپرس، لاتور 2012
* ساہتیہ ساگر اُپادھی، مہاتما پھلےٹیلینٹ ریسرچ اکادیمی، ناگپور 2013
* ساہتیہ رتن، راشٹریہ ساہتیہ کلا و سنسکرتی پریشد، ہلدی گھاٹی، راجستھان 2013
سماجی سر گر میاں
- 1۔ سیکریٹری، ادبستان، ناگپور
- 2۔ صدر، انجمن ترقّیِ اردو، شاخ، ناگپور
- 3۔ صدر، العروج ایجوکیشنل فرنٹ، ناگپور
- 4۔ سیکریٹری، گلستان کا لونی ویلفیر ایسو سی ایشن، ناگپور
- 5۔ ۔ سابق سیکریٹری، ینگ مسلم پروگریسیو ایسوسی ایشن، وروڈ
- 6۔ سابق خازن، حسن بشیر پبلک لائبریری، وروڈ
- 7۔ رکن، یشونت راو پرتِشٹھان، ناگپور
- 8۔ مہاراشٹر راشٹر بھاشا سبھا، پونے، شاخ، ناگپور
- 9۔ مراٹھی بو لی ساہِتیہ سنگھ، ناگپور
- 10۔ بھارتیہ دلِت ساہِتیہ اکادمی، ناگپور
11۔ رکن، برار مسلم لٹریری فورم، امراؤتی
مجلسِ ادارت میں رکنیت
- 1۔ مدیر، مُجلّہ تہذیب الکلام، ناگپور، چھ شمارے (2000 تا 2011 )
- 2۔ رکن، مجلسِ ادارت، مشاہیرِ برار، (جلد دوّم )
- 3۔ رکن، مجلسِ ادارت، کماربارتی، 2007 ، (اردو کی درسی کتاب برائے جماعت دہم )
مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آ ف سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن، پونہ 4۔ رکنِ مجلسِ ادارت مجلہ عروج، بیادگار125 سالہ جشنِ یومِ تاسیس، انجمن حامیِ اسلام، ناگپور 2013
5۔ رکن، اسٹینڈنگ کمیٹی، بال بھارتی، پونے،
انتخابات ا ور درسی کتابوں میں شمولیت
1۔ بائیسکل کی رفاقت میں (انشائیہ)
مشمولہ : تعارفِ اردو، برائےجماعت نہم، مہاراشٹر ایجوکیشن بورڈ پونے1994
2۔ پیڑ نہ کٹنے پائے (نظم)
مشمو لہ : بال بھارتی، برائے جماعت دوم، پونے 2013
3۔ پریس کئے ہوئے کپڑے (انشائیہ)
مشمو لہ : منتخب انشائیے، مرتبہ، سلیم آغا قزلباش، لاہور 1984
4۔ انڈر لائن (انشائیہ )
مشمو لہ : نئے انشائیے، مرتبہ، سلیم آغا قزلباش، لاہور 1992
یہ کہانی نہیں ۔ ۔ تہذیب و تربیت کا نسخہ ہے
ڈاکٹر عبدالرحیم نشتر
ڈاکٹر محمد اسد اللہ نے اپنی کہانیوں کے مجموعے کو گپ شپ نام دیا ہے۔ یعنی فضول اور بے کار باتیں یا ایسی بات چیت جس کا حاصل وقت گزاری کے سوا کچھ نہ ہو ۔ یہ نام ان کہانیوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے کیونکہ یہ کہانیاں محض ٹائم پاس کی کہانیاں نہیں ہیں ۔ ہر کہانی پڑھنے والے کے ساتھ ہو جاتی ہے اور قاری کو محظوظ ہی نہیں کرتی، اسے فکر و عمل کی دعوت بھی دیتی ہے ۔ سارے کر دار اسے اپنے گرد و پیش دکھائی دینے لگتے ہیں اور ہر واقعہ اسے دیکھ بھا لا محسوس ہو تا ہے ۔ مصنف نے حقیقتوں اور صداقتوں کو خوبصورت زبان، دلکش بیان اور موثر پیرایۂ اظہار کے ساتھ اس طرح پیش کیا ہے کہ منہ سے بے ساختہ کلماتِ تحسین نکل پڑتے ہیں ۔
ہم نے ورق الٹا اور جی میاں کی کہانی پڑھی۔ اچھی کہانی کی خوبی یہ ہے کہ اسے پڑھنا یا سننا شروع کریں تو بس پڑھتے یا سنتے ہی چلے جائیں، جب تک کہانی پوری نہ ہو ۔ ہم نے دیکھا، جی میاں ایک چھوٹے سے قد کے اور عجیب و غریب ڈیل ڈول کے مالک ہیں ۔ سب ان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ان کی دلچسپ باتیں اور انوکھی ادائیں دیکھ کر لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں ۔ ذراسے بدن پر مٹکے جیسا سر دیکھ کر ہی دیکھنے والوں کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے اور ایسے عالم میں جی میاں کے ماں باپ کی وفات ہو جاتی ہے ۔ جی میاں کے پاس نہ علم و ہنر ہے نہ ہی گزر بسر کر نے کی کوئی صلاحیت ڈاکٹر محمد اسد اللہ اس بے ڈول بے ہنگم اور بے کار قسم کے بچے کی کہانی سناتے سناتے پڑھنے والے (بچوں اور بڑوں ) کے دل و دماغ میں یہ بات اتار دیتے ہیں کہ دنیا کے کارخانے میں کوئی چیز، کوئی پرزہ حقیر، فالتو اور فضول نہیں ہے۔ دنیا خدا نے بنائی ہے اور اس کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بھی بے کار نہیں ۔ ۔ اور ۔ ۔ آدمی تو ساری مخلوقات سے بہتر اور اعلیٰ ہے ۔ وہ بھلا بے کار کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کہانی بستی اور جنگل کے کرداروں کے ساتھ نہایت دلچسپ اور دلپذیر پیرائے میں چونکانے والے واقعات کے ساتھ اپنے خاتمے کو پہنچتی ہے اور بچوں میں عزم و حوصلہ جگاتی ہوئی نیز اپنی قدر و قیمت آنکنے اور جانچنے کا درس دیتی ہوئی اس طرح ختم ہوتی ہے کہ قاری پھر سے اسی کہانی کو پڑھنے میں لگ جائے ۔ گپ شپ کی دوسری کہانیاں بھی یہی خوبی اور خصوصیت رکھتی ہیں ۔
ڈاکٹر محمد اسد اللہ نے انشائیہ نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں قدم رکھا تھا اور انشائیہ نگار ی میں اپنی ایک پہچان بنا لی تھی ۔ وہ بڑے خلاق اور ذہین انشائیہ نگار تھے اگر انھوں نے تنقید، تحقیق، تراجم، مزاح نگاری، شاعری اور افسانہ نویسی کے راستوں پر خود کو نہ ڈالا ہوتا تو وہ اس وقت ہند و پا ک کے ممتاز اور قد آور انشائیہ نگار تسلیم کئے جاتے۔ حالیہ بر سوں میں انھوں نے بچوں کے لئے بھی تواتر سے لکھ ہے ۔ گپ شپ میں ا ن کی جو کہانیاں شامل ہیں انھیں ادبِ اطفال کے جوہری نظر انداز نہ کر سکیں گے ۔ ان کہانیوں سے ادبِ اطفال کا ایک زبردست تخلیقی فنکار وارد ہو رہا ہے ۔ ان کی بے پناہ تخلیقی صلاحیت سے بچوں کے ادب میں گراں قدر اضافے کی امید کی جا سکتی ہے ۔
اس مجموعے کی ساری کہانیاں خالص بچوں کی کہانیاں ہیں ۔ انھیں پڑھ کر بچے نہ صرف راحت اور مسرت محسوس کریں گے بلکہ ان کے دل و دماغ میں کوئی بات، کوئی نصیحت بھی گھر کر چکی ہو گی ۔ یہ کہانیاں سبق آموز ہی نہیں، ادب آموز اور تہذیب آموز بھی ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مصنف کہیں بھی، کسی بھی کہانی میں بوڑھے کے رول میں نمو دار نہیں ہو تا، نہ جلاد مولو ی اور مدرس کے روپ میں دکھائی دیتا ہے ۔ وہ تو نہایت چابکدستی سے واقعات کو اس طرح پیش کر تا چلا جاتا ہے کہ ہر کہانی کسی فلم یا ٹی وی سیریل کی طرح اسے مسحور کرتی چلی جاتی ہے ۔ باتوں باتوں میں کہیں کسی واردات کے ذریعے اور کہیں کسی مختصر سے مکالمے کی صورت پند و نصیحت بھی کر گزرتا ہے ۔ آٹھواں عجوبہ، کوشش اور گفٹ پڑھتے ہوئے ننھے قارئین محظوظ بھی ہو ں گے اور دل مسوس کر بھی رہ جائیں گے ۔ چھوٹ کا چکر، اتنی سی بات اور گھڑی کی چوری بھی بہت اچھی اور دلچسپ اور کامیاب کہانیاں ہیں ۔ پیپل کا خط پپو کے نام، دوڑ اور ایک طالبِ علم کی ڈائری لکھ کر مصنف نے ثابت کر دیا ہے کہ انھیں کہانی پن کے ساتھ، کہانی کے انداز میں، کہانی کے تمام تر تقاضوں کے ساتھ کہانی لکھنا آتا ہے ۔
کوشش کہانی ہی نہیں بچوں کی تہذیب تربیت کا نسخہ بھی ہے۔ آٹھواں عجوبہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ معافی اور در گزر ہی بہترین انتقام ہے ۔ عفو و درگزر سے کام لینے والا اپنے اخلاق اور کردار کی مضبوطی سےبڑے سے بڑے مخالف کو اپنا مونس اور موافق بنا سکتا ہے ۔
اتنی سی بات، میں حرص و طمع اور دولت مندی کے غرور کا فطری انجام دکھا کر ان سے بچنے کی تلقین ہے ۔ گفٹ میں شگفتہ اور مزمل کی بڑی شاندار سبق آموز کہانی ہے ۔ مزمل نے اپنی بہن کے کمپاس بکس پر قبضہ جما لیا تھا اور کسی طرح واپس کر نے کو تیار نہ تھا۔ لیکن ایک کہانی سے اس کی کایا پلٹ ہو جاتی ہے ۔ شگفتہ نے اسکول جانے سے پہلے اپنا بیگ نکالا اور کتابیں رکھنے لگی تو اس نے دیکھا اس میں کمپاس بکس رکھا ہوا تھا ۔ شگفتہ نے حیرت اور مسرت ظاہر کی تو مزمل بہن کے دئے ہوئے پلاسٹک کے رنگ برنگے بلاکس سے گھر بناتے ہوئے بولا، گفٹ ہے آپ کے لئے، اس وقت مزمل کے چہرے پر معصوم سی مسکراہٹ تھی ۔
آج کل کہانی کے نام پر عجیب و غریب تحریریں پڑھائی جا رہی ہیں لیکن جو لوگ گپ شپ میں شامل کہانیوں کا مطالعہ کریں گے وہ انھیں ان کے ہنر کی داد دئے بغیر نہیں رہیں گے ۔ برسوں بعد بچوں کی کہانیوں کا تخلیقی مجموعہ سامنے آیا ہے ۔ والدین سے خیر مقدم کی اور اپنے بچوں کو تحفتاً کتاب پیش کر نے کی سفارش کی جاتی ہے ۔
11 دسمبر 1913
اپنی بات
یہ کتاب لکھی تو گئی ہے بچوں ہی کے لئے، بڑے بھی پڑھ لیں تو کچھ ہرج نہیں، ایسی کتابیں پڑھنے کے لئے ہی نہیں لکھنے کے لئے بھی چھوٹا بننا پڑتا ہے، اور یہ کام ذرا مشکل ہے ۔ ایسے ماحول میں جہاں لوگ باگ بڑا بنے کے لئے نہ جانے کیا کیا کر بیٹھتے ہیں اور اپنی اصلی بلندی بھی گنوا دیتے ہیں ۔
ڈھیر ساری چیزیں اور بڑے بڑے عہدے حاصل کر لینا بلند مرتبے اور عظمت کی دلیل نہیں ہے بلکہ کر دار کی بلندی ہی ہمیں خدا کے نزدیک لے جاتی ہے اور انسانوں کی نظر میں بھی اونچا اٹھاتی ہے۔ یہی اس زندگی کا مقصد ہے۔ اچّھی کتابیں اس مقصد کے حصول میں ہماری مدد کرتی ہیں ۔ زندہ دلی اور طنز و مزاح سے بھر پور شگفتہ تحریریں، جہاں ہمیں زندگی کی اونچ نیچ سمجھاتی ہیں، وہیں اس دکھ بھری دنیا میں زندگی کو خوش گوار بنانے میں بھی مدد گار ثابت ہو تی ہیں ۔
’گپ شپ ‘میں ہلکی پھلکی کہانیاں، طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے علاوہ ایک ڈراما بھی شامل ہے۔ اس سے قبل بچوں کی نظموں کا مجموعہ خواب نگر”شائع ہوا تھا جسے بہار اردو اکادیمی نے انعام سے نوازا۔ ہمارے لئے تو اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اسے بچوں نے قبولیت کی سند عطا کی۔ ان نظموں کو پسند کیا، تنہائی میں گنگنایا ا، سکولوں میں بر سرِ محفل اپنی مترنم آواز سے سنوارا۔ ہماری محنت کا حاصل یہی ہے۔
وہ بزرگانِ ادب جو خود بھی درجن بھر اصناف میں طبع آزمائی کے لئے مشہور ہیں، ہماری ان کتابوں کو دیکھ کر حیران ضرور ہیں کہ اچھّا جناب !اب آپ بچوں کے ادب کے میدان میں بھی قلم کے گھوڑے دوڑانے لگے!
تو عرض یہ ہے کہ ابتدا تو ہم نے یہیں سے کی تھی، انشائیوں اور طنز و مزاح کے چند مجموعے پیش کر کے اسی رنگ میں بچوں کے لئے بھی کچھ لکھ دیا تو کیا برا کیا؟
اگر آپ اس کتاب میں موجود تحریروں میں شگفتگی اور طنز و مزاح کی کیفیت پر غور فرمائیں تو اسےبھی اسی اسلوب اور طرز نگارش کی توسیع پائیں گے جس نے ہمیں ادبی دنیا میں متعارف کروایا تھا۔
مشہور جدید شاعر اور ادبِ اطفال کی ایک فعال شخصیت ڈاکٹر عبدالرحیم نشتر صاحب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ اس کتاب کے لئے پیش لفظ تحریر کیا۔
میں مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادیمی، ممبئی کا شکریہ ادا کر تا ہوں جس کی مالی اعانت سے یہ کتاب منظرِ عام پر آئی اور اس اکادمی کے رکن جناب افتخار احمد صاحب کا بھی شکریہ ادا کر نا لازمی ہے جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت پر نیک خواہشات کا اظہار فر مایا۔
میرے بیٹے محمد انس نے اس کے اندرونی صفحات کے لئے تصاویر اور سرِ ورق بنایا، توصیف احمد نے کمپیوٹر کمپوزنگ کی۔ میں ہر دو جہاں میں ان کی کامرانی کے لئے دعا گو ہوں ۔
جی میاں کی کہانی
جی میاں کا قد بہت ہی چھوٹا تھا ۔ رہتے بھی تھے و ہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ۔ ان کے مختصر قد کی وجہ سے بہت دنوں تک چھوٹے چھوٹے بچّے ان کے ساتھ مزے سے کھیلتے رہے ۔ وقت کے ساتھ وہ بچّے بڑے ہو گئے تو بچّوں کی دوسری کھیپ ان کی دوست بن گئی ۔ پھر وہ بھی بڑے ہو گئے مگر جی میاں جو ں کے توں رہے ۔ ان کے لئے جیسے وقت رک سا گیا تھا۔ شریف لوگ انھیں دیکھتے اور مسکرا کر رہ جاتے شریر بچّے اپنی شرارتوں سے باز نہ آ تے، ان کامذاق اڑاتے ۔ جی میاں کبھی تو اس مذاق کو بھی مذاق میں اڑاتے اور اکثر مزہ لیتے ۔ ان کی دلچسپ باتیں اور انوکھی ادائیں دیکھ کر لوگ لو ٹ پوٹ ہو جاتے ۔ قد ان کا بھلے ہی چھوٹا سا تھا مگر دماغ بڑا پا یا تھا ۔ اسی مناسبت سے اس کا گھر یعنی جی میاں کا سر اچّھا خاصہ بڑا تھا ۔ ذراسے بدن پر مٹکے جیسا سر دیکھ کر ہی دیکھنے والوں کی ہنسی چھوٹ جا تی تھی ۔
ایک وقت ایسا بھی آ یا کہ سب کو ہنسانے والے جی میاں کی آنکھوں میں آ نسو آ گئے ۔ اچانک ان کے والد چل بسے ۔ ابھی ان کے آ نسو تھمے بھی نہ تھے کہ ان کی والدہ اللہ کو پیارے ہو گئیں ۔ جی میاں اس بھری پری دنیا میں اکیلے رہ گئے ۔ ماں باپ نے اپنے جیتے جی کبھی انھیں کسی پریشانی کا منہ نہ دیکھنے دیا ۔
والدین کے انتقال کے بعد جی میاں کو دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہونے لگا۔ جی میاں کے والد درزی تھے ۔ بیٹے کو یہ کام آ تا نہ تھا۔ جب پریشانیاں بڑھنے لگیں تو ایک دن جی میاں نے اپنے پڑوسی جمّن میاں سے کہا ــ، ’چچا ! اب تو گھر میں کچھ بھی نہیں بچا ۔ بابا جو ر وپیہ پیسہ چھوڑ کر گئے تھے سب اٹھ گیا ۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کچھ محنت مزدوری کر کے اپنا گزارا کریں ۔ ہو سکے تو ہمیں کوئی اچّھا سا کام دلا دو ‘۔ ’ شیخ جمّن نے کہا ۔ تم کام کرو گے ؟ ‘
اور پھر وہ خوب ہنسا ۔ لگاتار دو دنوں تک ہنستا ہی رہا ۔
اب تک لوگ جی میاں کے عجیب و غریب ڈیل ڈول کو دیکھ ہنستے مسکرا تے تھے مگر جی میاں کا دل ہی کچھ ایسا تھا کہ انھوں نے کسی کی ہنسی کا کبھی برا نہیں مانا مگر آج شیخ جمّن کی ہنسی سے ان کے دل پر جیسے چھریاں چل گئیں ۔ وہ جانتے تھے شیخ ان کے قد پر نہیں ان کی بے بسی پر ہنس رہا ہے ۔
دو دن بعد شیخ جمّن نے اپنی بے لگام ہنسی کو روکا اور کہنے لگا’ میاں چھٹکے ! تم کیا کام کرو گے ؟اتنے سے آدمی کو کون کام دے گا؟اور کرو گے کیا آخر ؟‘
میں اپنے بابا کی طرح کپڑے سیا کروں گا ۔ ‘جی میاں نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا۔
’ ہا۔ ہا۔ ہا کپڑے! لوگ سلوائیں گے تم سے کپڑے؟ ارے وہ تمہیں پا جامہ سینے کو دیں گے اور تم نیکر سی دو گے، شیروانی سینے بیٹھو گے اور جیکٹ بنا دو گے۔ ‘
’اچّھا تو میں محنت مزدوری کروں گا ۔ ‘
’لوگ ٹوکروں میں مٹّی اٹھائیں گے تم کٹوروں میں اٹھانا ۔ ‘
جمّن میاں کی کٹیلی باتیں سن کر جی میاں مایوس ہو کر وہاں سے چل دئے ۔ ‘پھر ایک دکاندار سے پوچھا ’ کیا تم مجھے اپنی دکان میں نو کر رکھو گے ؟‘
دکاندار نے انھیں سر سے پیر تک حیرت سے دیکھا اور کہا، ’ کیا تمہیں میری دکان سرکس دکھائی دیتی ہے ۔ ‘
جی میاں کا دل ٹوٹ گیا ۔ انھیں محسوس ہوا کہ وہ اس دنیا میں ایک فالتو قسم کی چیز ہیں ۔ ایسی بے کار زندگی سے تو بہتر ہے کہ آ دمی مر جائے ۔ یہ سوچ کر جی میاں گاؤں سے باہر گئے جہاں سے ریلوے لائین گذرتی تھی ۔ وہ ریل کی پٹری پر لیٹ گئے کہ آ ج خود کو ختم ہی کر لیں گے ۔ اس دن ٹرین بھی لیٹ تھی ۔ گھنٹہ بھر وہیں پڑے رہے ریل نہیں آئی ۔ اسی دوران ایک بوڑھا فقیر ادھر سے گذرا۔ اس نے انھیں اس حال میں دیکھا تو پوچھا، ’ میاں جی یہاں کیوں پڑے ہو ؟ ‘
جی میاں نے اسے اپنے جی کا حال کہہ سنایا۔ بوڑھے فقیر نے انھیں یہ کہہ کر ڈھارس بندھائی، ’ دیکھو ! یہ دنیا خدا نے بنائی ہے اور اس کا چھوٹے سے چھوٹا ذرّہ بھی بے کار نہیں تم تو آدمی ہو، جو ساری مخلوقات سے بہتر اور اعلیٰ ہے، تم کیسے بے کار ہو سکتے ہو ۔ خدا نے تمہارے اندر بھی کوئی ایسی چیز ضرور رکھی ہے جس سے دنیا والوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اس گاؤں والوں نے تمہاری قدر نہیں کی تو کیا ہوا ۔ دیکھو ادھر آ گے ایک بہت بڑا جنگل ہے، اس کے پار ایک بستی ہے تم وہاں جاؤ، شائد تمہیں وہاں کوئی کام مل جائے ۔
اس بوڑھے کی باتیں سن کر جی میاں کے اندر ہمّت پیدا ہوئی اور وہ خدا کا نام لے کر جنگل کے پا ر بستی کی طرف چل پڑے ۔ جنگل بہت ہی گھنا تھا۔ پرندوں اور جانوروں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ پیڑوں پر پھل جھول رہے تھے ۔ جی میاں چلتے چلتے تھک گئے ۔ بھوک بھی لگنے لگی تھی ۔ کچھ پیڑوں پر چڑھ کر انھوں نے پھل توڑے اور پیٹ کی آ گ بجھائی ۔ کچھ دیر آ رام کیا۔ پھر آ گے بڑھے تھوڑی دور جانے پر انھوں نے دیکھا کہ جنگل کے درمیان ایک پنجرہ رکھا ہے ۔ آس پاس کچھ رسّیاں اور سامان بکھرا ہوا ہے۔
پنجرہ کے قریب پہنچے تو ایک زور دار دہاڑ سن کر اچھل پڑے ۔ پنجرہ میں ایک شیر بند تھا۔ جی میاں کو دیکھ کر لگا زور زور سے دھاڑنے ۔ پھر جی میاں نے ایک عجیب و غریب سی آواز سنی ۔ جیسے کوئی ان سے کہہ رہا ہو ۔ جی میا ں نے ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی نہ تھا ۔ جلد ہی پتہ چل گیا کہ یہ شیر کی آواز تھی اور پنجرہ سے آ رہی تھی ۔ شیر ان سے کہہ رہا تھا۔
’ اے بھائی مجھے پنجرہ سے نکالو، اے بھائی مجھے پنجرہ سے نکالو ۔ ‘
’ ارے تم بولتے بھی ہو؟‘جی میاں نے شیر سے پوچھا۔
’ہاں بھائی کیا کروں، ایسی مصیبت آپڑی ہے کہ بولنا پڑرہا ہے، خدا کے لئے مجھے اس پنجرہ سے نکالو، میں زندگی بھر تمہارا احسان نہیں بھولوں گا۔ ‘ شیر اپنے دونوں پنجے جوڑ کر ان کے آ گے گڑگڑایا ۔
’ مگر یہ تو بتاؤ تم اس پنجرہ میں بند کیسے ہوئے ؟‘ جی میاں نے پو چھا ۔
شیر بولا، ’ ارے کیا بتاؤں، ادھر سر کس والے آئے تھے ۔ انھوں نے مجھے پکڑ کر اس پنجرہ میں بند کر دیا اور دوسرے جانور ڈھونڈنے جنگل میں چلے گئے ۔ اب وہ واپس آئیں گے اور مجھے اپنے ساتھ شہر لے جائیں گے اور ہنٹر دکھا کر سرکس میں نچوائیں گے ۔ مجھ پر رحم کرو یہ دروازہ کھول کر مجھے آ زاد کر دو۔ ‘
’ نا میاں شیر، میں تمہیں باہر نہیں نکال سکتا ۔ مجھے اپنی امّی کی سنائی ہوئی وہ کہانی اچّھی طرح یا د ہے ۔ اس کہانی میں بھی ایک شیر ایک گڑھے میں اسی طرح پھنسا تھا اور ایک آدمی سے بڑی منّت سماجت کی تھی کہ مجھے اس گڑھے سے باہر نکالو، میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا ۔ اور اس آ دمی نے جب اس شیر کو باہر نکالا تو پتہ ہے اس شیر نے کیا کیا ۔ اسی آ دمی کو کھانے دوڑا ۔ میں تمہیں باہر نکال کر مصیبت مول لینا نہیں چاہتا ۔ ‘ جی میاں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تو شیر گڑگڑایا۔ ’ بھائی معاف کرنا، جس شیر کی تم بات کر رہے ہو، دراصل وہ میرے پر دادا کے نگڑ دادا تھے میں ان کی اولاد ضرور ہوں مگر احسان فراموش نہیں ہوں ۔ میری بات پر بھروسہ رکھو میں پنجرہ سے باہر نکلتے ہی دم دبا کر چپ چاپ چلا جاؤں گا۔ ‘
جی میاں سیدھے سادے آ دمی تھے، شیر کی میٹھی میٹھی باتوں میں آ گئے اور پنجرہ کا دروازہ کھول دیا۔ شیر باہر آ یا اور پنجے جھاڑ کر انگڑائی لی اور دھاڑنا شروع کر دیا۔ ’ میں تو اب تمہیں کھاؤں گا‘ جی میاں نے حیران ہو کر کہا، ’مگر تم نے تو وعدہ کیا تھا کہ میرا احسان کبھی نہ بھولو گے ‘ ۔
شیر نے کہا، ’ مجھے اس قدر بھوک لگی ہے کہ کوئی وعدہ یاد نہیں ۔ ان دونوں میں تکرار ہو نے لگی، اسی دوران ایک لومڑی وہاں سے گذر رہی تھی۔ رک کر بولی، ’ تم لوگ اس طرح کیوں لڑ رہے ہو ۔ ‘
جی میاں نے لو مڑی کو اپنی پوری کہانی سنادی اور کہا، ’اب یہ شیر میاں، مجھے کھانا چاہتے ہیں ۔ ‘
’مگر ایک بات بتاؤ، اتنے سے پنجرے میں اتنا بڑا شیر آ خر سمایا کیسے ؟ ‘لومڑی کا یہ جملہ سن کر شیر اچھل پڑا ۔
’ اے مکّار لومڑی! مجھے الّو سمجھتی ہے؟ مجھے اچّھی طرح یاد ہے وہ کہانی، تمہاری نانی کی پر نانی کی نگڑ نانی نے بھی اسی طرح میرے دادا کے پر دادا کے نگڑ دادا کو پنجرہ میں گھسنے کے لئے کہا تھا اور پھر پنجرہ کا دروازہ بند کر دیا تھا، میں اس پنجرہ میں اب بالکل نہیں جاؤں گا۔ ‘
اس پر جی میاں نے آ گے بڑھ کر کہا ’ خیر کوئی بات نہیں، تم نہ سہی، میں ہی اس پنجرہ میں جا کر لو مڑی کو دکھا دیتا ہوں، چلے گا؟‘
’ ہاں، یہ چلے گا ۔ آ خر تم نے مجھ پر احسان کیا ہے، تمہاری اتنی بات تو ماننی پڑے گی ۔ یہ سنتے ہی جی میاں پنجرے میں داخل ہوئے اور فوراً اندر سے زنجیر چڑھا دی ۔ اب شیر کی سمجھ میں جی میاں کی چالاکی آئی ۔ وہ دہاڑ نے لگا ۔ ‘جی میاں نے کہا، شیر جی اب تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ اب میں اس پنجرے میں محفوظ ہوں ۔ ‘
یہ دیکھ کر لومڑی بولی، ’ارے میں تو سمجھتی تھی لومڑی ہی اس دنیا کا سب سے چالاک جانور ہے مگر اب پتہ چلا انسان سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ ‘
شیر آ گ بگولہ ہو کر بولا، ’ بدمعاش لومڑی! تم ہی بیچ میں آ کر کباب میں ہڈّی بنی ہو، میں تیر خون پی جاؤں گا ۔ ‘ اور شیر اس پر جھپٹا مگر لومڑی پھرتی سے بچ نکلی اور شیر اس کے پیچھے ہو لیا۔
بہت دیر بعد سرکس والے آئے اور پنجرہ میں شیر کی جگہ ایک بونے کو بیٹھا ہوا دیکھ کر حیران ہوئے۔ ہنسے بھی اور افسوس بھی کر نے لگے کہ شیر ہاتھ سے نکل گیا۔
ان میں سے ایک بو لا شیر نہیں ملا تو کیا ہوا ہماری سر کس میں ایک بو نے جو کر کی جگہ تو خالی ہے، چلو اسی کو اٹھا کر لے چلتے ہیں، بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی، شیر نہیں جو کر ہی سہی۔
سب کو یہ خیال پسند آ یا ۔ پھر یہ ہوا کہ سرکس والے جی میاں کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ اوراس طرح جی میاں کو اچّھی بھلی نو کری مل گئی او ر سر کس کو ایک بو نا جو کر، تنخواہ ملنے لگی، جی میاں خوش ہوئے، جس نئے شہر میں گئے مشہور ہوئے۔ اب وہ جہاں جاتے ہیں مو ج اڑاتے ہیں ۔ کیا پتہ کسی دن آپ کے شہر میں بھی آ دھمکیں اور آپ ان کی مزیدار حرکتیں کر لوٹ پوٹ ہو جائیں ۔
٭٭٭
چھوٹ کا چکّر
شیخ چاند بیوپار ی سون پور میں رہتا تھا ۔ اس کی ایک دکان تھی ۔ دکان کس قسم کی تھی یہ بتانا ذرا مشکل ہے کیونکہ اس ایک دکان میں کئی دکانیں مو جود تھیں ۔ گاؤں کے لوگ کہا کر تے تھے کہ شیخ چاند کی دکان میں صرف شیرنی کا دودھ ہی نہیں ملتا، اس کے علاوہ ہر چیز مل جاتی ہے ۔ دکان پر ایک پرانا سا بورڈ لگا تھا جو زنگ لگ جانے کی وجہ سے ہر سال قسطوں میں کم ہوتا جاتا تھا۔ کسی زمانے میں اس بورڈ پر’ شیخ چاند اینڈ سنس‘ لکھا ہوا تھا ۔ اب صرف چاند پڑھا جا سکتا تھا ۔
شیخ چاند تھا بڑا دلچسپ آدمی، بظاہر بیوقوف قسم کا، چہرے سے تو ایسا ہی لگتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ کچھ معاملات میں بڑا چالاک بھی تھا ورنہ بدّھو پن سے بھلا اس کا کاروبار اتنا کیسے پھیلتا ؟، کبھی تو اس کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے کہ لوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنس پڑتے کبھی اس کی اپنی حماقتوں کی وجہ سے وہ لوگوں کی ہنسی کا نشانہ بنتا ۔ اتنا بڑا کاروبار ہونے کے باوجود وہ بلا کا کنجوس تھا ۔ ہر وقت اس کے سر پر یہ فکر سوار رہتی تھی کہ کس طرح دو پیسے بچائے جائیں ۔ گاؤں کے لوگ اس کی بیوقوفیوں کے قصّے مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے ۔ ان میں یہ لطیفہ بھی تھا کہ مرنے بعد شیخ چاند خدا کے حضور میں پہنچا تو اس کے نامہ اعمال میں نیکیاں اور برائیاں دونوں کا پلڑا برابر تھا ۔
خدا نے اس سے پوچھا ’بتاؤ شیخ چاند! اب تمھیں جنّت میں بھیجا جائے یا جہنّم میں ‘۔ شیخ چاند نے جواب دیا، ’اے خدا، میں کیا بولوں، بس جدھر بھی دو پیسے کا فائدہ ہو اُدھر بھیج دے ۔ ‘
سبھی کو پتہ تھا کہ دنیا میں بھی شیخ چاند اسی راستے پر جائے گا جدھر دو پیسے کا فائدہ ہو لیکن ہمیشہ روپئے پیسے میں فائدہ دیکھنے والوں کے ساتھ جو ہوتا آ یا ہے اس کے ساتھ بھی ہوا کر تا تھا۔ شیخ چاند نے سو بار ٹھوکر کھائی مگر کچھ نہ سیکھا۔ اب بھی شیخ چاند کے گھر سانپ نکل آئے تب بھی وہ اسی فکر میں رہتا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، لیکن قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اس کے ساتھ اکثر معاملہ الٹا ہو تا؛سانپ بھی اپنی جان بچا کر نکل جاتا اور بیچارے کی لاٹھی بھی ٹوٹ جاتی اور شیخ چاند یہ صدمہ لے کر بیٹھ جاتا کہ ایک اور نقصان ہو گیا ۔
ایک مرتبہ شیخ چاند کو زبردست زکام ہوا اس نے چھینک چھینک کر سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔ سب لوگ پریشان ہو گئے۔ گھر کے لو گوں نے ا س سے کہا کہ تم کسی ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتے شیخ چاند نے کہا، ’ علاج تو کر رہا ہوں ‘ ۔ مگر سبھی جانتے تھے کہ وہ ڈاکٹر کو اپنا مرض اس لئے نہیں دکھا تا کہ وہاں پیسے خرچ کرنے پڑیں گے ۔ بیوی کے بار بار سمجھانے پر شیخ چاند نے سوچا ایسا کچھ کر نا چاہئے کہ ڈاکٹر سے علاج بھی ہو جائے اور جیب پر بھی بار نہ پڑے ۔ اسے پتہ تھا کہ ڈاکٹر بھوتڑا ہر صبح سیر کے لئے نکلتے ہیں اور پوسٹ آفس کے سامنے والی سڑک سے جاگنگ کر تے ہوئے گزرتے ہیں ۔ اس دن وہ صبح سویرے اٹھا او ر اس راستے پر ہو لیا جدھر سے ڈاکٹر صاحب
جا تے تھے۔
راستہ میں اسے یاد آیا کہ اس کا ملازم جو دیر تک سونے کا عادی تھا ایک دن کہنے لگا ’میری سمجھ میں نہیں آتا لوگ اتنی جلدی بسترکیوں چھوڑ دیتے ہیں، ارے زندگی کا مزہ تو دیر تک سونے میں ہے ۔ ‘اور شیخ چاند نے اسے سمجھا یا تھا ’ ارے سونے سے کیا ملتا ہے ۔ زندگی سونے کے لئے تھوڑی ملی ہے ۔ مجھے دیکھ صبح جلدی اٹھ کر دکان کھولتا ہوں تو چائے پتّی شکر خرید نے والوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے کتنی کمائی ہو جاتی ہے جو دیر سے دکان کھولتے ہیں انھیں کچھ نہیں ملتا‘۔ تھوڑی دیر بعد جب ڈاکٹر صاحب اس راستے پر آ تے ہوئے دکھائی دئے تو شیخ چاند دوڑتے دوڑتے ان کے قریب آ یا۔ ڈاکٹر صاحب اچھلتے کودتے چل رہے تھے ۔ شیخ چاند نے بھی انہیں کی طرح جاگنگ شروع کر دی ۔ ان کے قریب پہنچ کر انھیں سلام کیا ۔ ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں کبھی بیوی بچّوں کے علاج کے لئے وہ جاتا رہتا تھا اس لئے ڈاکٹر صاحب جانا پہچانا پہرہ دیکھ کر مسکرائے ۔
شیخ چاند نے ڈاکٹر صاحب سے پو چھا : ڈاکٹر صاحب !کیا آپ روزانہ سیر کے لئے نکلتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے مختصر جواب دیا ـ’ ہاں ‘۔
شیخ چاند نے کہا ’ آجکل صبح تو بڑی سردی ہوا کر تی ہے‘ ۔ پھر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے پو چھا ۔ ’ڈاکٹر صاحب !یہ بتائیے کبھی آپ کو زکام بھی ہو ا ہے؟‘
ڈاکٹر صاحب نے کہا، ’ ہاں، اکثر ہو تا رہتا ہے‘۔ شیخ چاند نے پو چھا ’ تب آپ کیا کر تے ہیں ؟ اب ڈاکٹر صاحب کا ما تھا ٹھنکا ۔ انھیں کچھ یا دآ یا کہ شیخ چاند کچھ اسی قسم کاسوال ا ن سے اس سے پہلے بھی پوچھ چکا ہے ۔ انھوں نے اسے اپنی عینک کے اوپر سے اسے گھور کر دیکھا اور کہا، ’چھینکتا ہوں اور کیا؟ ‘
مفت میں دوائی کا نام معلوم کر نے کی اس کی ترکیب ناکام ہو گئی تو شیخ چاند نے دھیرے دھیرے پیچھے ہٹنے ہی میں خیریت سمجھی ۔
شیخ چاند کو اچّھے کھانوں کا بہت شوق تھا ۔ گھر میں اس کی چٹپٹے کھانوں کی خواہش پوری نہیں ہو تی تھی اسی لئے وہ جب مال لانے شہر جاتا تو کسی ہوٹل میں ضرور جاتا ۔ وہاں بھی کفایت اور سستے کے چکّر میں کتنی ہی ہو ٹلوں میں پوچھ تاچھ کرتا ۔ اکثر سستے ہو ٹل ڈھونڈنے میں، رکشے سے سفر کر تے ہوئے ؛اتنی رقم خرچ کر بیٹھتا جس میں کسی اچّھے ہو ٹل میں کھانا کھایا جا سکتا تھا، مگر سستا کھانا کھا کر اسے عجیب سی خوشی ہوتی۔
ایک دن وہ شہر میں کسی مناسب ہوٹل کی تلاش میں بھٹک رہا تھا کہ اس کی نظر ایک ہوٹل کے سامنے لگے بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا ۔
’ آئیے، بن داس کھائیے، پیسے کی کوئی چنتا نہیں، بل آپ کو نہیں دینا ہے، وہ آپ کا پو تا دے گا ‘۔
شیخ چاند بہت خوش ہوا اور اندر داخل ہو کر بیرے سے پوچھا ’یہ جو لکھا ہے کہیں مذاق تو نہیں ‘۔ بیرے نے کہا ’بالکل نہیں آپ جو کچھ کھائیں گے ہم اس کا بل
آپ کے پو تے ہی سے وصول کریں گے ۔ ‘شیخ چاند نے جو چیزیں زندگی میں کبھی نہ چکھی تھیں منگوائیں اور خوب سیر ہو کر کھایا ۔ جب وہ باہر نکلنے لگا تو بیرے نے اس سے کہا ’ صاحب بل تو دیتے جائیے ‘ ۔ شیخ چاند نے کہا’ ارے !تم نے تو کہا تھا ’ ہم اس کھانے کا بل آپ کے پو تے ہی سے وصول کریں گے۔ ‘
’ہاں، ہاں ‘ بیرا بولا ’ ہم آپ کا بل آپ سے تھوڑا ہی مانگ رہے ہیں، یہ تو آپ کے دادا جی کا بل ہے ؛ انھوں نے جو کھانا یہاں کھایا تھا، وہ تو آپ ہی کو دینا ہو گا نا۔ ‘ یہ سن کر شیخ چاند نے اپنا سر تھام لیا ۔
اسی طرح ایک مرتبہ جب وہ ایک بڑے شہر میں کھانے کی تلاش میں مختلف ہو ٹلوں کے بورڈ پڑھتا جا رہا تھا، تو اس کی نظر ایک ہو ٹل کے اندر دروازے پر پڑی جہاں ایک چھوٹا سا بورڈ لگا تھا اور اس پر لکھا تھا ۔ ’ چالیس فی صد چھوٹ ‘۔ اور دوسرے دروازے پر’ ساٹھ فی صد چھوٹ‘ کا بورڈ تھا ۔
شیخ چاند فوراً ساٹھ فی صد چھوٹ والے دروازے میں داخل ہو گیا ۔ جب وہ آگے بڑھا تو بہت خوش تھا کہ یہ ہوٹل ابھی تک اس کی نظر سے کیسے چھپا رہا ۔ اس نے سوچا اب وہ ہمیشہ یہیں آ یا کرے گا، مگر یہ کیا !اس کے سامنے پھر دو دروازے تھے۔ ایک پر لکھا تھا، اسّی فی صد چھوٹ اور دوسرے پر سو فی صد چھوٹ کا بورڈ نظر آ یا ۔ شیخ چاند نے سوچا یہ ہو ٹل تو کمال کا ہے پھر وہ تیز قدموں سے سو فیصد چھوٹ والے دروازے میں داخل ہو گیا اور آ گے بڑھا ۔ تھوڑی دور جا نے کے بعد شیخ چاند چکرا گیا۔ پہلے تو اس کی سمجھ میں نہ آ یا کہ وہ کہاں پہنچ گیا ہے، غور کیا تو پتہ چلا، وہ اسی ہو ٹل کے سامنے والی سڑک پر کھڑا تھاجس میں داخل ہوا تھا۔
اب شیخ چاند کو وہاں سے اپنے گھر واپس جانے کی سو فی صد چھوٹ حاصل تھی ۔
٭٭٭
اتنی سی بات
بابو جی ! میں ایک نوٹ ہوں ۔ کاغذ کا ایک بے جان سا ٹکڑا ۔ اتنے سے کاغذ کے ٹکڑے کی بھلا کیا اہمیت ۔ میری قیمت میرے اوپر لکھی ہے۔
’سو روپئے ‘۔ یوں تو کسی بھی چیز پر کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے ۔ مگر چیزیں اپنی قیمت خود طے نہیں کرتیں ۔ کبھی لوگ اور کبھی حالات چیزوں کی قیمت طے کرتے ہیں ۔ دام گھٹاتے اور بڑھاتے ہیں ۔ آئیے ! میں آپ کو اپنی کہانی سناؤں !
مجھے اپنے بچپن کے سبھی واقعات تو ٹھیک طرح سے یاد نہیں، بس اتنا ضرور یاد ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے، بنجاروں کی طرح بھٹکتا پھر رہا ہوں ۔ کبھی کسی کی جیب میں کبھی کسی کے پرس میں ۔ کبھی کوئی آ کر اٹھا لے جاتا ہے تو میں نئے سفر پر چل پڑتا ہوں ۔
ایسے ہی ایک سفر کی بات ہے، جب میں رامو حلوائی کی دکان جا پہنچا ۔ ایک آدمی نے مٹھائی خریدی اور مجھے اس کے حوالے کر دیا ۔ حلوائی نے مجھے روپیوں کے گلّہ میں ڈال دیا جہاں اور بھی ڈھیر سارے نوٹ پڑے تھے ۔ ان نوٹوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میری خیریت پوچھنے لگے ۔ کسی نے پوچھا ’کہاں کہاں سے ہو کر آیا ہوں ‘ ؟۔ میں انھیں اپنے سفر کا حال سناتا رہا۔ دکان میں گاہک آتے جاتے رہے ۔ تھوڑی دیر بعد ایک غریب لڑکی اپنے چھوٹے سے بھائی کو اپنے کاندھے پر اٹھائے ہوئے وہاں آئی اور گڑگڑا کر حلوائی سے کھانے کے لیے کچھ مانگنے لگی۔ ’بابوجی! ہم بھائی بہن صبح سے بھوکے ہیں کچھ کھانے کو دو۔ ‘
’کھانے کو دو ؟ تیرے پاس پیسے ویسے ہیں چھوکری ؟ رامو نے پوچھا ۔
’ناہیں بابا ۔ ہمارے ماں باپ دونوں گجر گئے ۔ ہمارا کوئی نہیں ۔ ہمارے پاس پیسے بھی نہیں ۔ ‘
’ چل بھاگ یہاں سے ۔ چلے آتے ہیں نہ جانے کہاں کہاں سے کوئی لنگر کھول رکھا ہے کیا؟ پیسے ہو تو بات کرو، نہیں تو چلو آگے‘۔ رامو حلوائی نے اسے جھڑک کر بھگا دیا ۔
میرا جی چاہا کہیں سے میرے پر لگ جائیں اور میں اڑ کر اس غریب لڑکی کے ہاتھوں میں پہنچ جاؤں ۔ مگر یہ میرے بس میں نہیں تھا ۔
اس رات رامو حلوائی نے دکان بند کی تو تمام نوٹوں کو اپنی جیب میں بھر کر گھر لے گیا ۔ آدھی رات گذری ہو گی کہ دھیرے دھیرے پانی کی بوندیں پڑنے لگیں ۔ ہوا سے درختوں کے پتّوں کی سر سرا ہٹ سنائی دینے لگی ۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ غریب لڑکی اور اس کا بھوکا بھائی سسک سسک کر رو رہے ہیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش ہونے لگی ۔ بادل اتنے گہرے تھے کہ صبح ہو نے پر بھی ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ پورا دن گزر گیا مگر بارش نے رکنے کا نام نہیں لیا۔ دوسرے دن شور سنائی دیا کہ گاؤں کی ندی میں باڑھ آئی ہے اور گاؤں کے قریب ہی واقع بند ٹوٹ گیا ہے، گاؤں بہنے لگا۔ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ رامو حلوائی اپنے روپیوں اور زیورات کی پیٹی لے کر اپنی تین منزلہ بلڈنگ پر چڑھ گیا ۔ آس پاس کے چھوٹے موٹے گھر پانی میں ڈوب چکے تھے ۔ دو تین دن بعد پانی کم ہو ا۔ کئی لوگ اور مویشی پانی میں ڈوب کے ختم ہو گئے تھے ۔ گھروں اور دکانوں کا سارا سامان بہہ چکا تھا ۔
رامو حلوائی اپنی بیوی اور بچّوں کے ساتھ کھانے کی تلاش میں نکلا ۔ دو دن سے انھیں کچھ بھی نصیب نہ ہوا تھا ۔ رامو نے نوٹوں اور زیورات کے صندوق میں ہاتھ ڈال کر مجھے نکالا ۔ اور خود بیوی بچّوں کو ایک پیڑ کے نیچے بٹھا کر کھانے کی تلاش میں نکل پڑا ۔ وہ لوگوں کو مجھے دکھا کر کہتا تھا :’یہ سو کا نوٹ لے لو اور کھانے کی کوئی چیز ہو تو مجھے دو ۔ یہ سو روپئے کا نوٹ لے لو، دو روٹیاں دے دو ‘۔ مگر سب لوگ اسی کی طرح دانہ دانہ کے محتاج در در بھٹک رہے تھے۔
بابو جی ! مجھے اپنے اوپر لکھے ہوئے ہندسوں اور لفظوں پر ہمیشہ فخر محسوس ہوا ہے لیکن زندگی میں مجھے پہلی مرتبہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ میرے اوپر ایک جھوٹ لکھا ہوا ہے ۔ میں سو روپئے کا نوٹ نہیں کاغذ کا ایک حقیر ٹکڑا ہوں ۔
تھوڑی دیر بعد فضا میں گڑ گڑ اہٹ سنائی دی ۔ سب نے آسمان کی طرف دیکھا ۔ ایک ہیلی کوپٹر ان مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے آیا تھا۔ جب وہ لوگوں کے سروں پر سے گذرنے لگا تو اس سے کھانے کے پیکیٹس گرنے لگے۔ لوگ انھیں حاصل کرنے کے لیے پاگلوں کی طرح دوڑ رہے تھے ۔ رامو حلوائی جو اپنی دکان پر بیٹھے بیٹھے ہاتھی کی طرح موٹا ہو گیا تھا وہ بھلا کیسے دوڑ پاتا مگر پیٹ کی مجبوری نے اسے بھی دوڑ نے پر مجبور کر دیا ۔ اپنے تھل تھلے جسم کے ساتھ بے تحاشا دوڑتے دوڑتے وہ دو بار بری طرح گرا ۔ اس کے گھٹنے زخمی ہو گئے ۔ دھوتی پھٹ گئی، مگر وہ کھانے کی تلاش میں ادھر ادھر ما را مارا پھرتا رہا ۔ بڑی مشکل سے کھانے کے دو چار پیکٹ حاصل کر پایا اور انھیں لے کر وہ اپنے بیوی بچّوں کے پاس پہنچا تواس نے مجھے بڑی حقارت سے دیکھا ۔ بابو جی لوگ نوٹوں کو تو ہر جگہ لالچ اور محبت بھری نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں، مگر یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے رامو حلوائی جیسے دولت کے لالچی شخص کی نفرت بھری نظروں کا سامنا کرنا پڑا ۔
دوسرے دن اس علاقہ میں امدادی کیمپ لگایا گیا جہاں سے لوگوں کو کھانا کپڑا وغیرہ ملنے لگا ۔ اس سیلاب سے لٹے پٹے لوگوں کی لمبی قطار میں رامو حلوائی بھی اپنے بیوی بچّوں کے ساتھ لاچار کھڑا تا تھا ۔ میں اس وقت بھی اس کی جیب میں موجود تھا ۔ مگر اس کے کسی کام نہ آ سکتا تھا ۔ رامو حلوائی اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا اور اس کے پیچھے وہی لڑ کی اپنی بھائی کو کاندھے پر سوار کیے کھڑی تھی جسے کچھ دن پہلے رامو حلوائی نے اپنی دکان سے جھڑک کر بھگا دیا تھا ۔ اس لڑکی کے کانوں میں وہ جملے گونج اٹھے۔ ۔
’ چل بھاگ یہاں سے ۔ چلے آتے ہیں نہ جانے کہاں کہاں سے کوئی لنگر کھول رکھا ہے کیا؟ پیسے ہو تو بات کرو نہیں تو چلو آگے‘۔
’چلو آگے‘، رامو حلوائی کو کسی نے پیچھے سے دھکّا دیا ۔ رامو حلوائی بھی شاید ان ہی جملوں میں کھویا ہوا تھا ۔ لوگ آگے بڑھ رہے تھے ۔ اس لڑکی نے رامو حلوائی کو دھیان سے دیکھا اس کی نظریں جیسے اس سے پوچھ رہی تھیں، ’کیا آج تمہارے پاس بھی پیسہ نہیں ہے ؟جو ہماری طرح یہاں کھڑے ہو ‘
رامو حلوائی نے نظریں جھکا لیں ۔ شرم کی وجہ سے یا اس لڑکی کی تیکھی نظروں سے بچنے کے لئے ۔ پھر وہ آسمان کی طرف دیکھ کر بڑبڑایا : اے اوپر والے! میری سمجھ میں آ گیا، دنیا میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہے، مگر اتنی سی بات سمجھانے کے لیے اتنی بڑی باڑھ بھیجنے کی کیا جرورت تھی ‘۔
٭٭٭
گھڑی کی چوری
انجم کی دسویں سالگرہ تھی ۔ اس خوشی میں شریک ہونے کے لئے اس بار ا س کے ماموں بھی وہاں موجود تھے ۔ اس موقع پر انھوں نے انجم کو ایک نہایت قیمتی اور خوبصورت گھڑی تحفہ میں دی جسے دیکھ کر وہ باغ باغ ہو اٹھا ۔ اس چھوٹی سی بستی میں ویسی گھڑی تو کسی نے کبھی دیکھی نہ ہو گی۔ اس میں وقت بتانے کے لئے چھوٹے بڑے کانٹوں کو گھومنے پھرنے کی بھی ضرورت نہ تھی ۔ یہ کام اس میں موجود ہندسے کیا کرتے تھے۔ گھڑی دیکھ کر کسی نے یہ چبھتا ہوا سا جملہ جڑ دیا ۔’یہ تو پرانی گھڑیوں سے زیادہ پڑھی لکھی معلوم ہوتی ہے ‘۔ ماموں نے کہا، ’آجکل تو لوگ اسی قسم کی ڈیجیٹل گھڑیوں کو پسند کرتے ہیں ‘۔
انجم کبھی گھڑی کو کلائی پر سجاتا کبھی دوستوں کو دکھاتا ۔ ہر آدھے گھنٹہ بعد اس میں الارم بج اٹھتا ۔ آواز ایسی پیاری کہ بار بار سننے کو جی چاہے ۔ نئے لوگ اسے سن کر چونک اٹھتے تو انجم کو بڑا مزہ آتا ۔
ایک دن دوپہر میں انجم کو گھڑی کا خیال آیا ۔ ادھر ادھر ڈھونڈا گھڑی نہ ملی تووہ گھبرا گیا ۔ اتنی قیمتی چیز اچانک گم ہو گئی ۔ ماموں پوچھیں گے تو کیا جواب دوں گا۔ اسے یاد آیا کہ صبح پڑوس کے جمّن میاں کی بیوی نصرت خالہ اور ان کے دو بچّے انجم کے گھر آئے تھے ۔ وہ لوگ کبھی کبھار دادی جان کی خیریت پوچھنے چلے آتے تھے۔ جمّن میاں رکشہ چلا کر کسی طرح گزر بسر کیا کرتے ۔ آمدنی بہت کم تھی اور گھر میں چھوٹے بڑے آٹھ بچّے جو ایک ایک چیز کو ترستے رہتے ۔ جمّن میاں بھلا ان سب کی خواہشات کیسے پوری کرتے ؟وہ ان کی تعلیم کا بھی مناسب انتظام نہیں کر پائے تھے ۔ ڈھیر سارے لوگوں سے بھری زندگی کی گاڑی کو بھی وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی رکشہ کی طرح کسی طرح اونچائی پر چڑھائے چلے جا رہے تھے ۔
انجم کو یقین ہو گیا کہ ا ن ہی بچّوں نے گھڑی پر ہاتھ صاف کیا ہے ۔ اس نے ارادہ کیا کہ فوراً نصرت خالہ سے جا کر بات کرے پھر خیال آیا، اس طرح وہ لوگ گھڑی کہیں چھپا دیں گے ۔ یہ بات طے تھی کہ گھڑی چوری ہوئی تھی ورنہ آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی اس کی آواز ضرور سنائی دیتی ۔ اس نے جاسوسوں کی طرح سوچنا شروع کیا ۔ اچانک یہ خیال آیا کہ چلو نصرت خالہ کے گھر کچھ دیر رک جائیں ۔ آدھے گھنٹہ بعد جب گھڑی کا الارم سنائی دے گا تو وہ لوگ رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں گے۔ ان کے گھر گھڑی ہو گی تو بچ نہیں سکتے ۔ انجم پورے جوش کے ساتھ اس مہم پر روانہ ہونے ہی والا تھا کہ اس کی امّی کی آواز دوسرے کمرے سے سنائی دی ۔ ’انجم یہ دیکھو تمہاری گھڑی یہاں تکیہ کی نیچے پڑی ہے‘۔ انجم بری طرح چونکا ۔ تکیہ اٹھا کر تو دیکھا ہی نہیں تھا ۔ اس نے امّی سے پوچھا ’امّی !ہر بار تو اس کا الارم سنائی دیتا ہے اس بار کیوں سنائی نہیں دیا؟‘۔ امّی نئے کہا، ’ارے اس کا کوئی بٹن دب گیا ہو گا ۔ کبھی ایسا ہو جاتا ہے ۔ ابّو اسے دوبارہ سیٹ کر دیں گے ‘۔
انجم گھڑی پا کر خوش تو ہوا مگر اس کے دل میں ایک کانٹا سا کھٹکتا رہا کہ جمّن میاں کی غریبی نے اسے ان کے بارے میں کیا کیا سوچنے پر مجبور کیا ۔ کتنی بدگمانیاں کیں ۔ اسے اپنے آپ پر شرم آنے لگی۔
٭٭٭
آٹھواں عجوبہ
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں چھٹی کلاس میں تھا اس سال ہمارا اسکول شروع ہوا تو ہماری کلاس میں ایک نئے لڑ کے کا داخلہ ہوا۔ نام تھا اس کا جنید ۔ مجھے میرے دوست عامر نے بتایا کہ جنید کے والد ڈبلیو سی ایل میں ملازم ہیں اور ابھی ابھی ان کا بھوپال سے یہاں ٹرانسفر ہوا ہے ۔
ٍ جنید بہت ہی دبلا پتلا تھا ۔ لگتا تھا ذرا پھونک ماریں گے تو اڑ جائے گا۔ رنگ سانولا، آنکھیں نیپالی لوگوں جیسی چھوٹی چھوٹی سی، بال گھنگرالے، پتہ نہیں کیوں پہلی مرتبہ اسے دیکھ کر مجھے لگا جیسے میں کسی چوہے کو دیکھ رہا ہوں ۔ وہ تمام طلبا ء سے ذرا الگ قسم کا تھا ۔ اس کے دبلے پن کے باوجود ایسا محسوس نہیں ہو تا تھا کہ وہ کمزور ہے۔ کسی حد تک گٹھا ہو ا بدن، چوہے جیسی چستی پھرتی اس میں تھی۔ ایک تو وہ اجنبی اور حلیہ سب سے جدا لڑکوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور ستانا شروع کر دیا۔
پہلے ہی دن جب وہ سیڑھوں کے پاس کھڑا تھا میری کلاس کے سارے لڑکے جو وہاں سے گذر رہے تھے، جاتے جاتے اس کے سر پر ٹپّو مارتے جا رہے تھے ۔ دوسرے دن چھٹّی کے دوران وہ باہر نکلا تو اس کی پیٹھ پر کا غذ کا پر زہ چپکا ہوا تھا جس پر لکھا تھا ’نیپالی چوہا ‘۔
سبھی جانتے تھے کہ یہ حرکت اسامہ کی تھی ۔ اسامہ ہماری کلاس کا سب سے زیادہ شریر بلکہ خطرناک طالبِ علم تھا۔ پو ری کلاس پر اپنی دھاک جمائے ہوئے تھا۔ جہاں کسی
نے اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کیا تووہ اس کا دشمن بن جاتا تھا۔ ہم سب گھبرا گئے کہ اب اس نے نہ جانے کیوں جنید کو اپنا نشانہ بنا لیا تھا ۔ شاید نیا طالبِ علم دیکھ کر اسے نئی شرارت سوجھی تھی ۔ اسامہ خوب موٹا تازہ تھا ا سے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے بڑے سے تکئے میں خوب ٹھونس ٹھونس کر روئی بھر دی ہو ۔ البتّہ وقت پڑے تو تیزی سے بھاگنا اس کے بس کی بات نہ تھی ۔ سومو پہلوانوں جیسادکھائی دیتا تھا۔ طاقت تو کچھ زیادہ نہ تھی، بس اپنے مو ٹاپے اور شرارتوں کے بل پر سب کو ڈراتا رہتا تھا۔
دو چار دن گذرے ہوں گے کہ اسکول اسیمبلی میں پیش درس کے بعد اعلان کیا گیا کہ کل کسی لڑکے کا بیگ گم ہو گیا ہے، کسی کو نظر آئے تو آفس میں اطلاع دے۔ اس دن چھٹّی کے دوران چند بچّوں نے چپراسی کو بتایا کہ اسکول کے کنارے ایک درخت کی شاخوں پر کسی کا بیگ لٹکا ہوا ہے ۔ چپراسی نے چڑھ کر اسے نکالا تو پتہ چلا وہ جنید ہی کا کھویا ہو بستہ تھا۔ دھیرے دھیرے جنید کے ساتھ شرارتوں کا سلسہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ جنید یہ سب چپ چاپ سہتا رہا، اس کی طرف سے اس سلسلہ میں کوئی جوابی کاروائی نہیں ہوئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب چھوٹے چھوٹے بچّے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے ۔
ان دنوں، اسامہ جو اب تک صرف اپنی کلاس کے لڑکوں سے لڑتا رہتا تھا، بڑی کلا س کے طلباء سے بھی الجھنے لگا تھا۔ اس کی شکایتیں بار بار اساتذہ تک پہنچتی تھیں ۔ اسے دیکھ کر دوسرے لڑکے بھی لڑائی جھگڑے کر نے لگے تھے ۔ کئی ٹیچرس یہ سوچتے تھے کہ ایسی گندی مچھلی کو جو سارا تالاب گندہ کر سکتی ہے نکال باہر کر نا چاہئے لیکن اسامہ کے والد اس شہر کے نامی گرامی لو گوں میں تھے اسکول مینیجمنٹ سے ان کے بڑے اچّھے تعلّقات تھے اس لئے اس پر ہاتھ ڈالنا اتنا آ سان نہ تھا۔ ٹیچرس بھی امیر باپ کی اس بگڑی اولاد کے آ گے مجبور تھے پھر بھی سبھی چاہتے تھے کے اسکول کے ماحول میں رہ کر وہ سدھر جائے اسی لئے گاہے بگاہے اسے سمجھاتے رہتے تھے ۔
ایک ہفتہ بعد ایک دن جب ہم اسکول سے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے، راستے میں کئی لڑکے کھڑے نظر آئے ۔ ان کے تیور کچھ اس قسم کے تھے گویا وہ کسی کا انتظار کر رہے تھے اور اس کی پٹائی کر نا چاہتے تھے ۔ ہم لوگ تھوڑی دیر وہاں رکے اس کے بعد ساری گڑ بڑ شروع ہو گئی شاید ان بدمعاش لڑکوں کو ان کا شکار مل گیا تھا ۔ سب مل کر اسے پیٹنے لگے ان کے ہاتھوں میں ہا کی اسٹکس اور بیلٹ تھے۔ وہ سب مل کر اسکول کے کسی لڑکے کی پٹائی کر رہے تھے ۔ یہ منظر اتنا بھیانک تھا کہ طلبا کی وہاں رکنے کی ہمّت ہی نہ ہوئی ۔
دوسرے دن جب ہم اسکول پہنچے تو پتہ چلا اسامہ کی حرکتوں سے پریشان بڑی کلاس کے طلباء نے جب کئی بار ٹیچرس سے اس کی شکایت کی اور اسکول کی طرف سے کوئی کاروائی نہ ہوئی تو انھوں نے خود ہی اسے سبق سکھانے کا ارادہ کیا ۔ اس شام اسے سب نے مل کر گھیرا اور بری طرح پیٹ دیا ۔ پٹائی کر کے بڑی کلاس کے لڑکے چلے گئے تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ مارے ڈر کے سارے لڑکے غائب ہو چکے تھے ۔ سوائے جنید کے جو یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ اسامہ خون میں لت پت تھا اور اٹھنے کے قابل بھی نہ تھا ۔ سب کے جانے کے بعد جنید نے اسے کسی طرح اٹھا کراسکول پہنچایا ۔
دو تین دن بعد جب اسامہ اسکول آیا تو اس کے ہاتھ پاؤں پر پٹّیاں بندھی تھیں اور سرپر چوٹ کے نشانات تھے ۔ اسکول کے پی۔ ٹی۔ آئی انیس سر کا پیریڈ تھا۔ کوئی اجنبی، شاید کسی اسٹوڈنٹ کے والد ان سے ملنے آئے تھے ۔ دیر تک کلاس سے باہر دروازے پر کھڑے ان سے باتیں کر تے رہے اور پھر انیس سر انھیں کلاس میں لے کر آئے اور طلبا سے مخاطب ہو کر کہنے لگے، ’یہ شیخ اکرام صاحب ہیں، ہماری کلاس میں جو جنید ہیں ان کے والد، یہ آپ لوگوں سے کچھ کہنا چاہتے ہیں ‘۔ اس کے بعد جنید کے والد نے نرم لہجے میں طلبا سے کہنا شروع کیا’ بچّو! میرا بیٹا جنید آپ کے ساتھ پڑھتا ہے ہم لوگ اس شہر میں نئے آئے ہیں ۔ مجھے کئی دنوں سے یہ شکایت مل رہی ہے کہ آپ لوگوں میں سے کچھ لڑکے اسے پریشان کر رہے ہیں اور وہ خاموشی کے ساتھ بر داشت کر رہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ آپ سے ڈرتا ہے اور اسے بدمعاش لڑکوں سے نمٹنا نہیں آتا ۔ میں آپ کو بتا دوں کہ وہ کراٹے کا ماہر ہے اور بچّوں کے کراٹے کے مقابلوں میں نیشنل چیمپین ہے اور کراٹے کے مقابلوں میں کئی انعامات حاصل کر چکا ہے ۔ اس کی کراٹے کلاس میں اسے یہ سکھایا جاتا ہے کہ اپنی طاقت کا غلط استعمال نہ کریں اور نہ بدلہ لیں ۔ اسی لئے وہ خاموش ہے لیکن تمہاری زیادتیاں حد سے بڑھنے لگیں اور وہ شروع ہو گیا تو تم مشکل میں پڑ جاؤ گے، اس لئے بہتر ہے اسے ستانا چھوڑ دو ‘۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے ۔
اسامہ نے اپنے سر پر بندھی پٹّیوں کے نیچے سوجھی ہوئی آنکھیں پھاڑ کر ڈری ڈری نظروں سے جنید کو دیکھا وہ اپنے ڈیسک پر اس طرح خاموش اور مطمئن بیٹھا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔
اسامہ کی نظروں میں ڈر بھی تھا شکر گذاری بھی اور حیرت بھی جیسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ اس کے سامنے ہو۔
٭٭٭
کوشش
دسمبر کا مہینہ تھا اور شہر بھر کے اسکولوں میں کھیل کود اور تحریری و تقریری مقابلوں کی بہار آئی ہوئی تھی ۔ فرحانہ کا شمار اس کے اسکول کی بہترین مقرّرین میں ہوا کرتا تھا ۔ یوں بھی وہ بہت باتونی لڑکی تھی، بلا کی ذہین اور خوبصورت بھی ۔ ہرقسم کے تقریری مقابلوں اور مباحثوں میں اسے اسکول کی نمائندگی کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ صالحہ اس کی ہم جماعت تھی ۔ فرحانہ کی ان سب خوبیوں کے باوجود نہ جانے کیوں کلاس ٹیچر نے صالحہ کو مانیٹر بنا رکھا تھا، یہ بات فرحانہ کو ہمیشہ کھٹکتی تھی ۔
سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ اچانک ایک عجیب سا واقعہ پیش آیا ۔ شہر کے کسی اسکول میں تقریری مقابلہ ہونے والا تھا ۔ فرحانہ کا نام اسکول کی جانب سے بھجوا دیا گیا ۔ ابھی تقریر کو چار پانچ دن باقی تھے کہ اچانک فرحانہ نے طبیعت خراب ہونے کا بہانہ بنا کر وہاں جانے سے انکار کر دیا ۔ کلا س ٹیچر نے فیصلہ سنا دیا کہ اس کی جگہ اب صالحہ جائے گی ۔ صالحہ نے سنا تو اس کے پیروں تلے کی زمین کھسک گئی ۔ اس نے زندگی میں کبھی تقریر نہیں کی تھی ۔ تقریر کے عنوان پر نظر ڈالی تو اسے محسوس ہوا وہ چکرا کر گر پڑے گی ۔ اسقدر مشکل عنوان کہ اپنے طور پر سے کچھ کہنا چاہے تو ایک لفظ نہ بول سکے۔
صالحہ کی سہیلیوں نے اسے بتایا کہ فرحانہ اسی مشکل عنوان کی وجہ سے تقریر یاد نہ کر پائی اور انکار کر دیا ۔ ـ’ تمہارا نام بھی ٹیچر کو اسی نے سجھایا کہ تم بھی تقریر نہ کر سکو اور سب کے سامنے خوب بے عزّتی ہو ‘۔ شبانہ نے یہ کہ کر صالحہ کے رہے سہے حواس بھی اڑا دئے ۔ ان ہی دنوں اسکول میں کئی مضامین کا ڈھیر سارا ہوم ورک دیا گیا تھا وہ سارا کام بھی پہاڑ بن کر کھڑا تھا ۔ اس حالت میں اس کی امّی اسے یہ کہ کر ڈھارس بندھاتی رہیں کہ تمہیں انعام تھوڑا ہی جیتنا ہے تم بس کسی طرح تقریر کر لو ۔ نہ ٹیچر اس کی پریشانی سمجھنے کو تیّار تھیں نہ گھر میں کوئی اس کی حالت کا اندازہ کرنے والا تھا اسے محسوس ہوا وہ بالکل اکیلی ہے۔
آخر وہ دن آپہنچا ۔ ہال میں اس کی امّی اور ابّو دونوں موجود تھے لیکن ان کا ہونا نہ ہونا اس کے لئے برابر تھا ۔ تقریری مقابلہ شروع ہوا اور سب سے پہلے جس مقرّر کے نام کا اعلان کیا گیا اسے سنتے ہی صالحہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا یہ اسی کا نام تھا ۔ تبھی اس کے ابّو کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجنے لگے :جو گھبرا گیا اس نے سب کچھ کھو دیا۔ صالحہ نے اپنے آپ کو سنبھالا اور دھیرے دھیرے مائک کی طرف بڑھنے لگی ۔ وہاں پہنچ کر جو کچھ یاد تھا وہ سب اگل دیا ۔ اس کے بعد اس کا ذہن کورے صفحہ کی طرح صاف تھا ۔ وہ رک گئی اور آگے کے جملے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔ اسے کچھ لڑکیوں کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں جن میں فرحانہ کی ہنسی نمایاں تھی۔ گھبرا ہٹ میں اسے کچھ بھی سجھائی نہ دیا تو وہ کچھ دیر خاموش کھڑی رہی اور اسٹیج سے اتر آئی ۔ تقریر کے بعد امّی ابّو سے سامنا ہوا تو اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ اس نے اسی دن فیصلہ کر لیا کہ اب وہ کبھی تقریر نہیں کرے گی ۔
اس واقعہ کا اس کے دل و دماغ پراتنا بر اثر پڑا کہ وہ ہمیشہ خاموش رہنے لگی۔ کلاس روم میں کسی سوال کا جواب دینے کے لئے کھڑی ہوتی تو اس محسوس ہوتا گویا مائک اس کے سامنے رکھا ہے اور پورا ہال لوگوں سے بھرا ہوا ہے اور اسے زور زور سے ہنسنے کی آواز سنائی دے رہی ہے ۔ گھبراہٹ سے وہ پسینہ پسینہ ہو جاتی ۔ ایک دن اس کی کلاس ٹیچر نے اس کے ابّو، ارشاد صاحب کوبلوا بھیجا اور اس کی یہ حالت بتائی ۔ اس کے ابّو کہنے لگے گھر پر تو ایسی کوئی بات نہیں ہوتی، ہاں وہ کچھ گم سم سی رہنے لگی ہے ۔ ا س شام صالحہ کے والد اور والدہ میں اس مسئلہ پر کچھ بات چیت ہوئی اور پھرجیسے یہ معاملہ ختم سا ہو گیا ۔ دو چار دن گزر گئے ۔ اس دوران صالحہ کے ابّو کسی گہری سوچ میں رہے ۔ پھر ایک رات جب کھانے سے فارغ ہونے کے بعد سب لوگ چھت پر ٹہل رہے تھے صالحہ کے ابّو نے کہا :’آؤ کوئی کھیل کھیلتے ہیں ۔ ‘
’کون سا کھیل؟‘آصف نے پوچھا۔
’ایسا کرتے ہیں عدالت عدالت کھیلتے ہیں، ہم جج بن جائیں گے اور تم لوگ باری باری وکیل بن کر مقدمہ لڑو گے۔ ‘
صالحہ کی امّی نے کہا:’ مگر یہ تو بتائیے آخر مجرم کون بنے گا، آپ تو پہلے ہی جج بن بیٹھے ‘۔
’مجرم۔ ۔ مجرم ؛‘ ابّو نے ادھر ادھر دیکھا ان کی نظر آصف کے جوتوں پڑی، ’ہاں یہ رہا مجرم، یہ جوتا۔ سبھی جانتے تھے کہ اس گھر میں اکثر جوتے ادھر ادھر پڑے رہتے تھے۔ صالحہ کے ابّو اکثر چیختے رہتے کہ ان جوتوں کو کوئی ان کے لئے مقرر کی گئی جگہ رکھتا کیوں نہیں ؟
اسی پر صالحہ کے دونوں بھائیوں میں لڑائی ہوا کرتی ۔ امتیاز نے موقع کا فائدہ اٹھا کر فوراً اعلان کر دیا:’آصف کے جوتوں کو عدالت میں حاضر کیا جائے ۔ ‘
امّی ہمیشہ آصف کی طرف داری کیا کرتی تھیں اس لئے وہ وکیلِ صفائی بن گئیں ۔ صالحہ کو معلوم تھا کہ اس کے ابّو کو جوتوں کا ادھر ادھر پڑے رہنا بالکل پسند نہیں اور وہ جج بھی تھے اس لئے صالحہ نے جوتوں کے خلاف مورچہ سنبھال لیا ۔ عدالت کی کاروائی شروع ہوتے ہی صالحہ کی بڑی بہن نازیہ نے جوتوں کے خلاف فردِ جرم پڑھنی شروع کی ۔
آصف کے جوتوں پر سب سے پہلا الزام یہ ہے کہ وہ گھر میں ہمیشہ ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، دوسرا الزام یہ کہ ربڑ کے پاپوش پر تلوں میں لگی مٹّی اور گرد صاف کئے بغیر ہی گھر میں داخل ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے گھر میں ریت مٹّی اور گندگی داخل ہو جاتی ہے ۔ اور تیسرے یہ وہ شو ریک پر کبھی نہیں پائے جاتے جہاں انہیں ہمیشہ ہونا چاہئے ۔ ‘
الزام پڑھے جانے کے بعد امّی جوتوں کا بچاؤ کرنے کے لئے آگے بڑھیں ۔ ’مائی لارڈ، جوتوں پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ سراسر بے بنیاد ہے ۔ جوتے لا وارثوں کی طرح ادھر ادھر پڑے رہتے ہیں تو اس کے قصور وار جوتے کس طرح ہو سکتے ہیں یہ ذمّہ داری تو جوتا پہنّے والے کی ہے۔ ‘
جوتوں کے مالک محمّد آصف عدالت میں حاضر ہو ں ‘ ۔ امتیاز نے ہانک لگائی ۔
صالحہ نے آصف پر لگائے گئے الزامات دہرائے تو جج صاحب یعنی ارشاد صاحب نے پوچھا :’کیا تم اپنے جوتوں کی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہو ‘۔
’جی ‘، آصف نے کہنا شروع کیا ۔ ’ میں جوتو ں کی صفائی میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ گھر میں پالش کی ڈبیا ختم ہو گئی ہے اور آپ امّی کے بار بار یاد دلانے کے باوجود آپ بازار سے پالش کی ڈبیا لانے میں ناکام رہے ہیں ۔ اس لئے جوتوں کی ٹھیک طرح سے صفائی نہیں ہو پا رہی ہے ۔ ‘
’آرڈر، آرڈر، تم عدالت کی توہین کر رہے ہو ۔ ‘صالحہ کے ابّو پاس پڑا لکڑی کا ڈنڈا میز پر زور زور سے ٹھونکتے ہوئے بولے ۔ ’ مسٹر آصف کیا تم پر لگایا گیا الزام تمہیں منظور ہے ؟‘
’حضور ! اسکول میں کتابوں کا بوجھ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ مجھے جوتے سنبھالنے کی فرصت ہی نہیں مل پاتی ۔ ‘صالحہ نے فوراً ٹوکا :’جج صاحب، یہ اپنی کتابیں بھی ٹھیک سے نہیں رکھ پاتے میں ہی انھیں سنبھال کر رکھتی ہوں، اور یہ اکثر کھیل میں مگن رہتے ہیں ۔
اسی طرح دیر تک جرح چلتی رہی ۔ سب اس انوکھے کھیل میں کھوئے رہے۔ عدالت پھر دوسرے دن کے لئے ملتوی کر دی گئی ۔ د و تین دن تک یہی ہوتا رہا۔ کسی کو مجرم بنا کر اس پر الزام لگائے جاتے، کوئی وکیل بنکر اسے بچانے کی کوشش کرتا ۔ کوئی گواہ بنتا ۔ ایک رات ارشاد صاحب نے یہ اعلان کیا کہ آج بجائے عدالت کے مباحثہ ہو گا۔
’بحث کس بات پر ہو گی ؟‘ امتیاز نے پوچھا ۔
’کوئی اچھّا سا عنوان مقرر کر لیتے ہیں ؟
کچھ سوچ کر صالحہ کی امّی نے ایک عنوان پیش کیا : ’گھر سنبھالنے میں امّی کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے یا ابّو کو ‘۔
آئندہ شام جب گھر میں پڑوس سے بٹّو، انجم اور رانی بھی آئے ہوئے تھے، مباحثہ شروع ہوا ۔ بٹّو کو صدرِ جلسہ بنا دیا گیا اور رانی مہمانِ خصوصی کی کرسی پر براجمان ہو گئی ۔ آصف نے امّی کی حمایت میں تقریر شروع کی ۔ جنابِ صدر، معزز مہمانانِ خصوصی، اور لایقِ احترام امّی، ابّو اور حاضرین!
میں آج اپنی امّی کی حمایت میں اپنے خیالات پیش کرنے کے لئے آپ کے سامنے حاضر ہوں ۔
میں اپنی تقریر کی ابتدا حضور کی اس حدیث سے کرتا ہوں کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنّت ہے ۔ اور وہ ہماری امّی ہی ہیں جن کی وجہ سے ہمارا گھر جنّت کا نمونہ بنا ہوا ہے ۔ اس حقیقت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ امّی کی وجہ سے ہی ہمارے گھر کی گاڑی چلتی ہے ۔ وہ نہ ہوں تو کسی کو ایک وقت کا کھانا تو در کنار ایک بوند چائے بھی نہیں مل سکتی، اس بات کو تو ہمارے ابّو بھی مانتے ہیں ۔ امّی نہ ہوں تو گھر کی کوئی چیز ٹھکانے نہیں رہتی ۔ امّی اگر ہر ایک کو ٹوکتی اور بولتی نہ رہے تو گھر کا سارا نظام بگڑ جائے ۔
ابّو تو زیادہ تر گھر سے باہر ہی رہتے ہیں اور گھر آنے کے بعد بھی ٹی۔ وی اور اخبار میں کھوئے رہتے ہیں ۔
اب صالحہ کی باری تھی ۔ اس نے ابّو کی موافقت میں بولنا شروع کیا ـ’ ابھی میرے فاضل بھائی نے امّی کی ذمّہ داریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، میں امّی کے مرتبہ اور عزّت و احترام کو دل سے تسلیم، کرتی ہوں اور ان کی اتنی ہی عزّت بھی کرتی ہوں اور یہ بھی جاسنتی ہوں کہ میں اپنے چمڑے کی جوتیاں بنا کر بھی انھیں پہنا دوں تو ماں کے احسانات کا حق ادا نہیں ہو سکتا لیکن حقیقت کا اقرار اپنی جگہ ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارا گھر ایک گاڑی کی طرح ہے اور امّی اور ابّو اس کے دو پہیّے ہیں ۔ آپ اچھّی طرح جانتے ہیں کہ ایک پہیّہ والی گاڑی تو صرف سرکس میں ہی چلتی ہے ۔ یہاں امّی گھر سنبھالتی ہیں تو ابّو آفس ۔ ان کی تنخواہ ہماری اس گھر کی گاڑی میں پیٹرول کا کام کرتی ہے ۔ گھر سے باہر کتنے ہی کام ہیں جن کے لئے ہمیں ابّو پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ اسی لئے میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ابّو کی اہمیت بھی امّی سے کسی طرح کم نہیں ۔
اس کے بعد یہ ہونے لگا کہ ان بچّوں کو ہر شام کوئی نیا موضوع دیا جاتا جس پر سب اپنی رائے پیش کرتے اور مباحثہ ہوتا ۔ کبھی موضوع ہوتا ٹوتھ پیسٹ اہم ہے یا برش کبھی اس بات پر بحث ہوتی کہ اگر اختیار دیا جائے تو آپ شمع بننا پسند کریں گے یا جگنو ؟کیوں ؟اور کبھی اس بات پر دلیلیں پیش کرتے کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم بہتر ہے یا اردو بعض اوقات سبزی خوروں اور گوشت خوروں کا مقابلہ ہوتا تو کبھی سائنس اور آرٹس کا۔
چند مہینوں تک گھر میں یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ دھیرے دھیرے صالحہ اس قابل ہو گئی کہ وہ کسی بھی موضوع پر ذراسی تیّاری میں دس پندرہ منٹ تک آسانی کے ساتھ بول سکتی تھی ۔ اس دوران وہ رسائل، کتابیں اور اخبارات کا مطالعہ بھی کرتی رہی تھی اس کی عام معلومات بھی اچھّی خاصی تھی ۔
دیوالی کی چھٹّیاں شروع ہونے والی تھیں ۔ ان دنوں اردو پڑھانے والی ٹیچر چھٹّی پر گئی ہوئی تھیں چند مہینوں کے لئے ایک نئی ٹیچر کا تقرّر ہوا تھا ۔ ایک دن وہ کلاس میں آئیں تو بجائے سبق پڑھانے کے انھوں نے بورڈ پر ایک عنوان لکھا، ’تندرستی ہزار نعمت ہے ‘۔ اور کلاس کی سبھی لڑکیوں سے کہا ؛ آپ میں سے ہر ایک کو باری باری اس موضوع پر جس قدر بول سکتی ہیں بولنا ہے۔ جو کچھ نہیں بول سکتیں انھیں بھی کم از کم چار جملے ضرور ادا کرنے ہیں ۔ ورنہ اپنی جگہ کھڑا رہنا ہے ۔ جب صالحہ کی باری آئی تو اس نے اپنے خیالات پیش کرنے شروع کئے اور سبھی اسے حیران نظروں سے دیکھتے رہے۔ اس کے شاندار اندازِ بیا ن اور خود اعتمادی کو دیکھ ٹیچر نے اس کی خوب تعریف کی اور کہا در اصل یہ تو ایک ٹیسٹ تھا ۔ شہر کے مشہور انعامی تقریری مقابلہ کے لئے کسی طالبہ کے انتخاب کے لئے ۔ اور یہ فی البدیہہ تقریری مقابلہ شہر کے ایک بڑے ہوٹل میں منعقد ہو گا ۔ ہر سال یہ ایک مباحثہ کی شکل میں ہوا کرتا تھا اور عام طور پر فرحانہ اس میں رٹی رٹائی تقریر کرنے پہنچ جاتی ۔ اس بار جب ٹیچر نے اسے کلاس میں دئے گئے موضوع پر اپنے خیالات پیش کرنے کو کہا تو وہ خاموش کھڑی رہی ۔ اس تقریری مقابلہ کے لئے صالحہ کو چن لیا گیا تو وہ بری طرح چڑ گئی اور اپنی جگہ کھڑی ہو کر ٹیچر سے کہنے لگی :میڈم اس مقابلہ کے لئے تو ہر سال ہمارا نام بھیجا جاتا ہے ۔ ٹیچر نے دھیرے سے مسکرا کر کہا : اس بار صرف نام نہیں بھیجا جائے گا، بولنے والوں کو بھیجا جائے گا، اور تم نے تو اس موضوع پر ایک جملہ تک نہیں کہا وہاں جا کر کیا کرو گی ـ؟
آخر وہ دن آ پہنچا جب ایک شاندار ہال میں منعقد کئے گئے تقریری مقابلہ میں شریک ہونے کے لئے پہنچی اس کے امّی ابّو بھی ساتھ تھے ۔ اس کے نام کا اعلان کیا گیا تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ اسٹیج کی طرف بڑھی ۔ اس کے حصّہ میں جو پرچی آئی اس پر عنوان درج تھا :’زندگی زندہ دلی کا نام ہے‘ ۔ صالحہ نے اپنے مخصوص انداز میں بولنا شروع کیا جیسے جیسے وہ بولتی رہی ہال تالیوں سے گونجتا گیا ۔
تمام تقریریں ختم ہونے کے بعد جب نتائج کا اعلان کیا گیا تو وہ مارے خوشی کے اچھل پڑی، اسے پہلے انعام کا مستحق قرار دیا گیا تھا۔
٭٭٭
پیپل کا خط پپو کے نام
پیارے پپو !
ابھی ابھی ٹھنڈی ہوا چلی تھی، میں نے تمہیں آواز دی تھی ۔ اپنے پتّوں کی ہزاروں ہتھیلیوں بجا بجا کر تمہیں پکارا مگر تم نے میری ایک نہ سنی۔ اسی لئے اپنے پتّوں پر لکھا ہوا یہ خط تمہیں بھیج رہا ہوں ۔
تم سوچ رہے ہوں گے بھلا ایک درخت کو کیا ضرورت پیش آئی کہ وہ پپو کو خط لکھے ؟ تم تو جانتے ہو دوست ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے ہیں ۔ سارے پیڑ پودے انسانوں کے دوست ہی تو ہیں اور سچّاد وست وہی جو مصیبت کے وقت کا م آئے۔
دوست کچھ دیر پہلے تم میری چھاؤں میں بیٹھے تھے ۔ ایک لکّڑہارا میرے بھائی یعنی آم کے پیڑ کو کاٹ رہا تھا ۔ تم کیسے پتّھر دل اسے ٹک لگائے دیکھتے رہے ۔ اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں ۔ اس ظالم کوسمجھایا نہیں کہ پیڑ کاٹے جائیں گے تو انسانوں کو اس کی کتنی بھا ری قیمت چکانی پڑے گی ۔ ذرا سوچو ہم انسانوں کے لئے کس قدر
کا ر آ مد ہیں ۔
ہم جیتے جی لکڑیاں مہیّا کرتے ہیں ۔ بے رحمی سے کاٹ دئے جاتے ہیں تب بھی پیچھے نہیں ہٹتے ۔ ہماری لکڑیاں مکانوں کی چھت میں لگتی ہیں اور سائیبان بن کر سب کو راحت پہنچاتی ہیں ۔ ذرا سوچو جس آ رام دہ کر سی پر تم بیٹھے ہوئے یہ خط پڑھ رہے ہو وہ بھی تو لکڑی ہی کی بنی ہے ۔ یہ حکایت تو تم نے سنی ہو گی کہ صندل کے پیڑ پر کوئی کلہاڑی چلائے تو وہ لکڑی اس کلہاڑی کو بھی خوشبو دار بنا دیتی ہے۔ خود دھوپ میں تپ کر انسانوں کو سایہ دینے والے پیڑ انسانیت کا کتنا بڑا درس دیتے ہیں ۔ ہماری شاخوں پر کھلے پھول فضا کو معطّر کر دیتے ہیں ۔ تمہارے ارد گرد بکھرے ہوئے حسین مناظر کی یہ ساری خوبصورتی ہمارے ہی دم قدم سے ہے ۔
ہم سر سے پیر تک انسانیت کی خدمت میں جٹے ہوئے ہیں ۔ ہماری جڑیں، پتّیاں، پھول، تنہ، اور چھال سے نہ جانے کتنی دوائیں بنائی جا تی ہیں ۔ ربڑ سے بنی بے شمار چیزیں تم رات دن استعمال کرتے ہو بتاؤ یہ ربڑ آتا کہاں سے ہے ۔ درختوں ہی سے نا؟ آج دنیا بھر میں فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے ۔ اس کی روک تھام کرنے سے انسان قاصر ہیں مگر اس زمین کی سلامتی اور اس کی فضا کے تحفّظ کے معاملے میں بھی ہم نباتات سب سے آ گے ہیں ۔
برسات کے پانی سے بہنے والی مٹّی کو زمین پر اگنے والی گھاس تھامے رہتی ہے ۔ بارش کے پا نی کو پیڑ پودے جذب نہ کریں تو سیلاب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ ہماری جڑیں مضبوط پنجوں کی طرح زمین کے کٹاؤ کا عمل روک کر مٹّی کی حفاظت کر تی ہیں ۔ درختوں کی پتّیاں جھڑ جاتی ہیں تو کھاد بن کر زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں ۔ ہماری لکڑیاں ایندھن کے طور پر کام آ تی ہیں ۔ اور کہیں ضروری ساز و سامان بن کر فائدہ مند ثابت ہو تی ہیں ۔ پرانے زمانے میں ہتھیار سے لے کشتیوں تک میں لکڑی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ لکڑی نہ صرف دفتروں اور گھروں کی استعمال کی چیزوں میں لگتی ہے بلکہ سجاوٹ کے کام بھی آ تی تھی ۔
لکڑی کے بنے جھولے اور کھلونے سے لے کر چتا میں جلنے والی، تابوت اور قبروں میں استعمال ہو نے والی لکڑی بھی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک درختوں نے ہر قدم پر انسان کا ساتھ نبھایا ہے ۔
دیکھو! وہ لکّڑہارا کلہاڑی اٹھائے ہوئے ایک کے بعد دوسرا پیڑ کاٹتا چلا جا رہا ہے ۔ آج ان درختوں کی کل میری باری ہے ۔
اے دوست! کیا اس مصیبت کے وقت بھی تم کام نہ آؤ گے ؟ جاؤ اس بے وقوف کو سمجھاؤ کہ ہو پیڑوں پر نہیں خود اپنے پیروں پر کلہاڑی چلا رہا ہے۔ درخت
ا س زمیں کے پاؤں ہی نہیں ہاتھ بھی ہیں ۔ فضاؤں میں پھیلے ہوئے یہی دعاؤں کے ہاتھ خدا سے بارشیں مانگتے ہیں ۔ یہ دھرتی کاجسم بھی ہے اور روح بھی ۔ ہماری پتّیوں سے یہ زمیں سانس لیتی ہے ۔ یہ پیڑ پو دے نہ ہوں گے تو زمین زندگی سے محروم ہو جائیگی۔ خدا کے لئے ہمیں زندگی سے محروم نہ کرو ۔ خدا حافظ ۔
تمہاری مدد کا منتظر
پیپل کا پیڑ
٭٭٭
دوڑ
دوڑ کو انگریزی میں ر یس Raceکہا جا تا ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب ریس کا نام سنتے ہی لوگوں کا ذہن گھڑ دوڑ کی طرف دوڑ نے لگتا تھا اور ریس میں ہارنے جیتنے والوں کے ذہنوں میں گھوڑوں کے نمبر کلبلانے لگتے تھے ۔ اب کھیل اور کمائی کے اور بھی کئی ذرائع لو گوں کو مل گئے ہیں ۔ گھوڑوں کے علاوہ ریس کے لئے ہر زمانے میں اونٹ، بیل، ہاتھی وغیرہ مختلف جانوروں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
آئیے ہم دوڑ کے ان مقابلوں کی بات کریں جو عام طور پر اسکولوں میں ہوا کر تے ہیں ۔ نہ صرف تعلیمی ریکارڈ کے معاملے میں بلکہ کھیلوں کے ریکارڈ کے معاملے میں بھی شہر کے تعلیمی ادارے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر تے ہیں ۔ طلباء بھی نت نئے مقابلوں میں شریک ہو کر اپنے جوہر دکھاتے ہیں ۔
رننگ:
اس مقابلے میں ہو تا یہ ہے کہ تمام کھلاڑی ایک ہی صف میں محمود و ایاز کی طرح کھڑے ہو جا تے ہیں اور سیٹی بجتے ہی سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑے ہو تے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسکولوں سے بار بار بھاگنے والے طلباء ہی اس مقابلے میں اوّل آتے ہیں ۔ وہ تو اسکول کی پڑھائی اور تعلیمی مشقوں سے بچنے کے لئے بھاگتے ہیں اور امتحان میں منہ کی کھاتے ہیں ۔ دراصل آپ کی طاقت، دوڑنے کی مشق اور سانسوں پر قابو رکھنے کی صلاحیتآپ کو کامیابی کے قریب پہنچاتی ہے ۔
دوڑ کی اسی مشق کے لئے کچھ شریر بچے گلی کے خطرناک کتوں کو چھیڑ کر اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں، اس طرح نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں مجبوراً بھاگنا پڑتا ہے ۔ اس قسم کی آٹھ دس دن کی مشق انھیں بہترین رنر بنا دیتی ہے ۔ آپ یہ طریقہ نہ اختیار کریں، ممکن ہے آپ کے محلے کے کتے آپ کو دوڑانے سے زیادہ آپ کو نوچ کھانے میں دلچسپی رکھتے ہوں ۔ (کتے ہو تے ہی بھانت بھانت کے ہیں )۔
انسانوں ہی کی طرح کتے بھی دوڑ میں حصہ لینا چاہتے ہیں مگر بیچارے پریکٹس کے لئے ترستے رہتے ہیں ۔ اسی لئے وہ اجنبیوں کو دیکھ کر بھونکتے ہیں کہ شاید یہ اجنبی آ دمی ہمیں مشق کرا دے گا ( جان پہچان والوں کے متعلق تو انھیں علم ہو تا ہے کہ یہ بالکل ناکارہ ہیں ۔ )مگر افسوس کہ کوئی اجنبی کسی کتے کا کبھی پیچھا نہیں کر تا جبکہ کتے ہر شریف و غیر شریف آ دمی کو رننگ کی مشق کروانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔ بس ذرا چھیڑنے کی دیر ہو تی ہے۔ واقعی انسان کتنا خود غرض ہے ۔ انسان اور کتے میں یہی تو فرق ہے ۔
تین پاؤں کی دوڑ:
اس دوڑ میں کھلاڑی تین پیروں سے دوڑتے ہیں ۔ آپ پریشان نہ ہوں کہ ہمارے تو دو ہی پیر ہیں ہم اس کھیل میں کس طرح شامل ہوں گے ۔ در اصل ہو تا یہ ہے کہ دو ٹانگوں والے دو کھلاڑیوں کی جوڑیاں بنا دی جا تی ہیں ۔ 2+2 =4 ہوئے پھر کسی رومال یا دستی کے ذریعے ہر جوڑی کی ایک ایک ٹانگ وضع کر دی جا تی ہے، یعنی دو کھلاڑیوں کی ایک ایک ٹانگ آپس میں جوڑ کر باندھ دی جا تی ہے ۔ پھر انھیں حکم دیا جا تا ہے کہ دوڑو ۔ ایسا کر نا اس لئے ضروری ہے کہ دوڑنے سے پہلے انھیں تین ٹانگوں میں تبدیل نہ کیا گیا تو اسے تین ٹانگوں کی دوڑ کون کہے گا اسے تو سب چوپایوں کی دوڑ کہیں گے ۔
کھلاڑ ی بچوں کو ان کی حرکتوں کے سبب ان کے اساتذہ اور والدین جو چاہے کہیں، ہم بھلا ان کے کون ہیں جو کوئی ایسا ویسا لفظ ان کے لئے زبان پر لائیں ۔
پوٹیٹو ریس :
لفظ Potatoیعنی آ لو، آپ کو اس وہم میں مبتلا کرسکتا ہے کہ ہو نہ ہو سائنس دانوں نے کوئی ایسی ترکیب ڈھونڈ نکالی ہے جس کے سبب اب ایسےآ لو پید ا ہو نے لگے ہیں جو نہ صرف چل پھر سکتے ہوں بلکہ دوڑ میں حصّہ لے کر انعام بھی حاصل کر تے ہوں ۔ آپ نے غلطی سے اس قسم کے چند آلو کھا لئے تو پھر آپ کے پیٹ کے کیا کہنے۔ اطمینان رکھئے ایسا کچھ بھی نہیں ۔ پوٹیٹو ریس سے ایک ایسی ریس مراد ہے جس میں کھلاڑی چمچے میں آ لو رکھ کر چمچہ دانتوں میں پکڑ کر دوڑتا ہے جو کھلاڑی آلو زمین پر گرائے بغیر دوڑتا رہے انعام کا مستحق سمجھا جا تا ہے ۔ اس پریشانی کے عالم میں سب سے آ گے نکلنے والا اوّل انعام پا تا ہے ۔ پہلے یہ رس گلّہ ریس ہوا کرتی تھی ۔ اس میں یہ ہو نے لگا تھا کہ کھلاڑیوں کو اپنے آپ پر قابو رکھنا بڑا مشکل ہو جا تا تھا۔ رس گلّے زمین پر گر نے کے بجائے غلطی سے ان کے حلق میں گر پڑتے تھے ۔ اسی لئے اسے پوٹیٹو ریس میں تبدیل کر نا پڑا ۔ اب غلطیوں کا امکان نہیں رہا ۔
لیمو ریس :
یہ بھی کچھ اسی قسم کی دوڑ ہے، بس اس فرق کے ساتھ کہ کھلاڑی بجائے آ لو کے لیمو چمچے میں اٹھائے دوڑتا ہے ۔ اور لو گوں کو شاید ان دونوں مقابلوں میں کوئی فرق محسوس نہ ہو ۔ صرف ہمیں یہ لگتا ہے کہ اس ریس میں ذرا منجھے ہوئے کھلاڑیوں کو شریک نہیں کیا جاتا کہ کہیں وہ لیمو کو اتنی دیر تک چمچے میں لئے نہ دوڑتے رہیں کہ لیمو اچار میں تبدیل ہو جائے اور اسے دیکھ کر خود اس کھلاڑی کے منہ میں پانی بھر آئے ۔
بورا دوڑ :
اس ریس میں بظاہر بورے دوڑتے ہوئے نظر آ تے ہیں ۔ غور سےاوپر سے نیچے تک دیکھیں تو ان بوروں میں کھلاڑی بھی دکھائی دیں گے ۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک ایک کر کے کھلاڑیوں کو الگ الگ بوروں میں ڈال دیا جاتا ہے اور بوروں کو ان کی کمر پر باندھ دیتے ہیں ۔ اس طرح جب وہ سمندر سے بر آ مد ہو نے والی جل پر یوں کی طرح جن کا ذکر آپ نے کہانیوں میں سنا ہو گا، جن کا آ دھا دھڑ انسان کا اور بقیہ جسم مچھلیوں کا ہو تا ہے، یہ کھلاڑی بھی جب آ دھا انسان اور آدھا بورا بن جاتے ہیں تو انھیں دوڑایا جاتا ہے ۔ کھلاڑی مینڈکوں کی طرح پھدک پھدک کر دوڑتے ہیں ۔ جو سب سے زیادہ پھدک سکتا ہے اسے کامیابی حاصل ہو تی ہے ۔ (عام زندگی میں بھی اب اکثر ایسا ہی ہو نے لگا ہے ۔ )
لگتا ہے یہ کھیل ہم نے مینڈکوں سے لیا ہے نیا آ دمی ان ننھے کھلاڑیوں کو دیکھے تو سوچے گا کہ یہ اسکول کے شرارتی بچّے ہیں جن کی اچھل کود سے تنگ آ کر ان کے ٹیچرس نے انھیں بورے میں قید کر دیا ہے مگر یہ پھر بھی باز نہیں آتے۔ شاید مشہور شاعر مرزا غالب ؔنے بھی بورا دوڑ کے ایسے ہی کسی مقابلے کو دیکھ کر ہی کہا ہو گا۔ آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہو نا۔
چیئرریس :
جس طرح سرکس میں چابک کی آواز پر گھوڑے ایک میز کے گرد دوڑتے ہیں اسی طرح چار پانچ کر سیاں میدان میں لگا دی جا تی ہیں او رسیٹی کی آواز پر ان کے گرد کھلاڑی طواف کر تے ہیں ۔ کھلاڑیوں کی تعداد سے ایک کر سی جان بوجھ کر کم رکھی جاتی ہے ۔ سیٹی کی آواز تھمتے ہی کھلاڑیوں کو لپک کر پھرتی سے کرسی پر قبضہ کر نا ہو تا ہے ۔ جو اس میں ناکام رہا وہ کھیل سے باہر نکل جا تا ہے ۔ اس کھیل کے دوران کھلاڑی یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی اس کھیل میں شامل ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی آ بادی کا ایک بڑا حصہ ا س دلچسپ کھیل کو اپنے ا پنے ڈھنگ سے کھیل رہا ہے ۔ بس اسے دیکھنے کے لئے نظر چاہئے۔
فاسٹ سائکلنگ :
فاسٹ سائکلنگ میں تیزی سے سائیکل چلانے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن اس سے مراد کسی دن بھیڑ میں کسی شخص سے ٹکرا کر تیزی سے سائیکل سمیت بھاگ کھڑا ہونا نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس قسم کی مشق اس مقابلے میں مفید ثا بت ہو سکتی ہے۔ عام دوڑ کے مقابلوں ہی کی طرح یہ بھی ایک مقابلہ ہے جس میں کھلاڑی
اپنی سائیکلوں کے ساتھ شریک ہوا کرتے ہیں ۔ بعض کھلاڑی اس قدر فاسٹ سائکلنگ کا مظاہرہ کر تے ہیں کہ راستے ہی میں تھک کر چور ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو ان کی سائکلیں بھی چور چور ہو جا تی ہیں ۔
سلو سائکلنگ:
جو طلباء فاسٹ سائکلنگ نہیں کر پاتے وہ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو جائیں اور چلنا پھر نا بھی نہ چھوڑ بیٹھیں، اس لئے سلو سائکلنگ کے مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں ۔ سلو سائکلنگ میں عام طور پر وہی طلباء کامیاب ہو تے ہیں جو اگر صبح اسکول کے لئے نکلیں تو چھٹّی ہو تے ہو تے وہاں پہنچ کر حاضری لگا آئیں ۔
ہمیں یقین ہے یہ کھیل ہم نے کچھووں سے سیکھا ہے اور شاید انسانوں کو یہ سکھانے کے لئے اسے کھیلوں میں شامل کیا ہے کہ زندگی میں مقابلہ صرف تیز دوڑنے والوں میں نہیں ہے ۔ آپ یہ کہہ کر اس مقابلہ آ رائی کی دنیا میں جان نہیں بچا سکتے کہ میں تیز نہیں دوڑ سکتا ۔ مقابلہ آپ کے لئے بھی ہے اور کامیابی کے مواقع آپ کا بھی انتظار کر رہے ہیں ۔
جانوروں سے ہم اور بھی بہت کچھ سیکھا ہے آخر لونگ جمپ اور ہائی جمپ کے مقابلے دیکھ کر کون نہ کہے گا کہ یہ بندروں کی استادی کا نتیجہ ہے ۔
لنگڑی :
نام سے ظاہر ہے کہ یہ لڑکیوں کا کھیل ہے۔ کاش لڑکوں کے لئے بھی اسی قسم کا کھیل ہوتا اور نام ہوتا اس کا لنگڑا مگر اس نام سے پہلے ہی ایک آ ٓ م مشہور ہے جو گرمیوں کے موسم میں خوب چلتا ہے ۔ لڑکے بھی اس کھیل میں شریک ہوں تو انھیں لنگڑی ہی کے نام سے کھیلنا پڑے گا۔ اس کھیل میں کھلاڑی کو دوڑتے وقت ایک پیر اوپر اٹھا کر دوڑنا ہوتا ہے ۔ اس طرح باری باری دونوں پیروں کی اچھی طرح ورزش ہو جا تی ہے۔ لڑکیاں ایک زمانے سے یہ کھیل کھیل رہی ہیں ۔ شاید اسی مشق کی کرامت ہے کہ اب زندگی کی ہر دوڑ میں عورتوں نے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔
ہم ان سب کھیلوں کے بارے میں سوچیں تو یہی سبق ملتا ہے کہ انسان خواہ وہ مرد ہو، عورت ہو لنگڑا ہو، سست رفتار ہو بہر حال زندگی کی دوڑ میں شامل ہے ۔ اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی مصیبت کیوں نہ لگی ہو، اسے کسی نے حالات کے بورے ٹھونس کر باندھ دیا ہو، منہ میں دبے چمچے میں آلو ہو لیمو ہو رس گلّہ ہو یا کوئی اور مصیبت ساتھ لگی ہو، وہ پیدل ہو یا سائیکل، اونٹ، گھوڑا کشتی یا کسی بھی قسم کی سواری پر سوار ہو، وہ اس دوڑ کے میدان میں ہے جس کا نام زندگی ہے۔ اور زندگی کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ خود کو اپاہج سمجھ کر بیٹھا رہے۔ اسے بہر حال دوڑنا ہے البتہ صحیح منزلوں کی تلاش شرط ہے ۔
٭٭٭
ایک طالبِ علم کی ڈائری
۱؍ جنوری
صبح اپّی نے مجھے جھنجھوڑ کر جگایا کہ اٹھو، آج ایک جنوری ہے اور تم سوئے پڑے ہو تب مجھے اسکول ٹیچر کی بات یاد آئی کہ سوال پوچھنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے ۔ میں نے لحاف میں ۹۰ درجے کا ذاویہ قائمہ بناتے ہوئے گردن باہر نکالی اور پوچھا :اپّی کیا شیر خرمہ بن چکا ہے ؟ اپّی بولیں ’ آج کیا عید ہے جو تمہارے لئے شیر خرمہ بنے گا ؟تم ذرا باہر آؤ ڈیڈی تمہیں شیر خرمہ پلانے کے لئے تیّار بیٹھے ہیں ۔ کل تم نے شرما جی کی سائیکل کی ہوا نکال دی تھی نا! انھوں نے ڈیڈی سے تمہاری شکایت کر دی ہے۔ میں نے سوچا جب شیر خرمہ نہیں بنا تو ایک جنوری ہو نے سے کی فائدہ ؟ یوں بھی جنوری میں غضب کی سردی ہوا کر تی ہے ۔ سردی میں درجۂ حرارت یعنی Temperature کم ہو جا تا ہے مگر اپّی نے بتایا کہ ابّو کا درجہ حرارت بہت بڑھا ہوا ہے ۔ سائنس ٹیچر نے بتا یا تھا کہ شدید ٹیمپریچر پر چیزیں پگھلنے لگتی ہیں ۔ لیکن یہ کیا؟آ دمی کا درجۂ حرارت بڑھ جائے تو وہ برسنے لگتا ہے ۔ ایسا کیوں ہو تا ہے ؟ سائنس ٹیچر سے پوچھنا پڑے گا۔
۲۸؍ فروری
صبح سویرے مجھے پتہ چلا کہ آج ۲۸ فروری یعنی مہینے کا آخری دن ہے ۔
یہ سوچ کر مجھے عجیب سی خوشی ہوئی کہ تمام مہینوں میں فروری سب سے ٹھگنا مہینہ ہے ۔ اس بات کا افسوس بھی ہوا کہ اس کے بعد آ نے والے مہینے تیس یا اکتیس دن کے ہوں گے ۔ پتہ نہیں مہینے اور کیلینڈر بنانے والوں کو اتنے بڑے بڑے مہینے بنا کر کیا مل جاتا ہے ۔ فروری ہی کی طرح دوسرے مہینے بھی۲۸ دنوں کے بلکہ اس سے بھی مختصر ہو تے تو ممکن تھا سال بھر میں دو سال ہوا کرتے۔ اسی حساب سے ہماری عمر بھی دگنی ہوتی ۔ مانا کہ اس میں خطرہ یہ بھی ہے کہ سال بھر میں دو سالانہ امتحانات ہو تے ۔ (ایک امتحان کینسل بھی کیا جا سکتا ہے ) ۔ اسی طرح کیلنڈر بنانے والوں کا بھی فائدہ ہوتا، ان کے کیلنڈر زیادہ بکتے یعنی سال میں دو بار ۔ مگر ہم بچّوں کی سنتا کون ہے!
۱۵؍ مارچ
میرا کلاس فیلو فاروق بہت ہی توہّم پرست ہے ۔ آج دوپہر میں وہ میرے گھر آ یا اور کہنے لگا چلو ہم ساتھ بیٹھ کر پڑھائی کریں ۔ پڑھنے بیٹھے تو کہنے لگا ۔ ’پہلے اہم سوالات نکال لیتے ہیں ۔ ‘ میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے مگر اہم سوالات نکالیں گے کیسے؟ اس پر وہ رازدارانہ لہجے میں بولا، ’ میرے پا س اس کی ایک ترکیب ہے۔ پڑھتے پڑھتے جس سوال پر چھینک آ جائے بس وہ سوا ل امتحان میں آ یا سمجھو۔ وہی اہم سوال ہے اس پر Imp لکھ لو ۔
Imp کیوں لکھیں ۔ میں نے پو چھا ۔ کہنے لگا ارے بدّھو اتنا بھی نہیں معلوم Imp یعنی Important کا شارٹ فارم ہے ۔ ‘
’لیکن Imp کے معنی کچھ اور ہیں ‘ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی، ’ہماری انگریزی کی کتاب میں ایک اسٹوری ہے Imp and the farmer اسے سمجھاتے ہوئے سر نے Imp کے معنی چھوٹا شیطان بتائے تھے ۔
اس پر فاروق ہاتھ ہوا میں لہرا کر بولا ’ ہوا کرے، سوالات کو تو Imp کے بجائے Devil کہنا چاہئے۔ مجھے تو شیطان سے اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا سوالات سے لگتا ہے۔
میں نے فاروق سے پوچھا ۔ چھینک تو کبھی کبھار ہی آ تی ہے زیادہ چھینکیں اس وقت آ تی ہیں جب زکام ہو جائے ۔
’اس کا بھی علاج ہے ہمارے پاس، یہ کہہ کر فاروق نے اپنی جیب سے ایک پڑیا نکالی اور اسے کھولا، ’ میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ بولا یہ نسوار ہے اسے چھینکنی بھی کہتے ہیں ۔
ایک چٹکی بھر نسوار نکالی اور اسے سونگھنے کے بعد قریب رکھی ہوئی کتاب اٹھا کر اس کے ورق الٹنے لگا۔ جہاں چھینک آ تی وہاں Impلکھ کر پھر اوراق الٹنے لگتا ۔ جب پو ری کتاب پر جگہ جگہ اہم سوالات کے نشان لگا لئے تو کتاب مجھے تھما دی یہ کہہ کر کہ’ لو سارے امپارٹنٹ سوالات پر نشان لگ گئے۔ ‘
میں نے کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھا تو میرا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا ۔ وہ کتاب ہماری نہیں، چھوٹے بھائی کی تھی جو پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ ہم لوگ آ ٹھویں میں تھے ۔ میں نے فاروق کو بتایا تو کہنے لگا، ’کوئی بات نہیں اس کے کام آئیں گے ۔ ‘
۱؍اپریل
آج میں نے انجم کو فون کیا اور کہاکہ تم چاندنی چوک پر آؤ تمہیں آئسکریم کھلائیں گے ۔ وقت اور جگہ مقرر ہو گئی وہ کہنے لگا تم بھی آ نا نہ بھولنا ۔
میں چاندنی چوک پر اس کا ایک گھنٹہ تک انتظار کر تا رہا ۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ اسے بھی معلوم تھا آج ایک اپریل ہے ۔
۲۳ ؍ مئی
آج عتیق اور میں سائیکل سے کیمپ کے علاقے میں سیر کر رہے تھے ایک جگہ میری سائیکل کی چین ٹوٹ گئی تب مجھے پیدل چلنا پڑا عتیق سے میں نے کہا ساتھ چلتے ہیں مگر وہ نہ مانا اور اپنی سائیکل اٹھا کر چل دیا ۔ میں اپنی سائیکل گھسیٹ کر چلتا رہا۔ دس منٹ چلنے کے بعد میں نے دیکھا کوئی راستے کے کنارے اپنی سائیکل درست کر رہا ہے میں قریب پہنچا تو دیکھا وہ عتیق تھا ۔ پوچھنے پر پتہ چلا سائیکل پنکچر ہو گئی۔ اس کی سائیکل سے میری سائیکل کا دکھ نہ دیکھا گیا ۔ انسان واقعی بڑا بے درد ہو تا ہے ۔
۲۰؍ جون
لیجئے چھٹّیاں ختم ہوئیں ۔ آج ہمارا اسکول کھل گیا ۔ میں نے کل اپنی پیاری بلّی کے بچّے کو سمجھا دیا تھا کہ اب ہم اس کے ساتھ نہیں کھیل سکیں گے۔ مگر پچھلے دو مہینو ں میں وہ مجھ سے اتنی زیادہ ہل گئی ہے کہ میں جہاں جاؤں دوڑی چلی آ تی ہے ۔ آج صبح میں اسکول کے گیٹ پر پہنچا تو دیکھاوہ میرے پیچھے پیچھے چلی آئی تھی ۔ میں کیا کرتا اسے اٹھا کر پیار سے چمکارا اور اٹھا کر بستے میں رکھ لیا اور کلاس میں چلا گیا۔ اتّفاق دیکھئے کہ اس دن عیں اس وقت جب میڈم پڑھا رہی تھیں پمپی کو بھوک لگی اور میڈم جب اسلم کی کسی شرارت پر برسنے لگیں اور ڈانٹ کر اس سے پو چھا آ خر تم میں اور جانور میں کیا فرق ہے ؟ تو پمپی نے بیگ میں بیٹھے بیٹھے جواب دیا ’میاؤں ۔ میاؤں ‘ ۔ جواب بالکل صحیح تھا پھر بھی میڈم نے میرے بیگ کی تلاشی لی اور مجھے پمپی سمیت کلاس سے باہر نکال دیا۔
۲۹؍ جولائی
آ ج چھٹّی تھی ۔ میں ندی میں خوب تیرتا رہا ۔ اسلم کو تیر نا نہیں آتا اس لئے وہ ندی میں اترنے سے گھبراتا ہے، وہ ہمیشہ یہ کہتا کہ جب مجھے اچّھی طرح تیر نا آ جائے گاتو ندی میں اتروں گا ۔ اس بے وقوف کو کون سمجھائے کہ جب تک وہ ندی میں اترے گا نہیں بھلا تیرنا سیکھے گا کیسے ؟کل ہم اسے اس بہانے سے ندی کنارے تک لائے کہ چلو تمہیں جل مرغی دکھائیں ۔ ندی پر پہنچتے ہی اسے پکڑ کر زبردستی دو چار غوطے دئے ۔ اب وہ اپنے کان پکڑتا ہے کہ کبھی ندی کے قریب بھی نہ جائے گا ۔ کوئی جل مرغی دکھائے یا جل بکری ۔
۶؍ اگست
ہماری کلاس میں ایک لڑکا امجد بالکل بدّھو ہے ۔ ٹیچرس کی ساری باتیں اس کے سر سے گزر جا تی ہیں ۔ ٹیچر سوال پوچھے تو خاموش کھڑا رہتا ہے۔ پٹائی ہو تو اس کے کپڑوں کی دھول جھڑ جاتی ہے ۔ بس ہر وقت بیٹھا اونگھتا رہتا ہے ۔
آج اختر سر نے نباتات، جمادات، حیوانات اور معدنیات کے بارے میں معلومات دینے کے بعد فاروق سے پو چھا جمادات کی کوئی مثال بتاؤ تو میرے منہ سے امجد کا نام نکل گیا تو سب ہنس پڑے ۔ اختر سر نے پوچھا اچّھا یہ بتاؤ اسکول کی گھنٹی کیا ہے ؟ کسی نے جواب دیا معدنیات ۔ اس کے بعد انھوں نے پو چھا، اب یہ بتاؤ تم لوگ کیا ہو؟پوری کلاس ایک ساتھ چیخ پڑی’انسانات ! ‘
اختر سر ہنسنے لگے اور کہا، ’ نہیں، تم لو گ حیوانات ہو، اس پر سب شور مچانے لگے نہیں ہم حیوانات نہیں ہیں ۔
سنا ہے کسی طالبِ علم نے اپنے والد سے بھی یہ شکایت کر دی کہ کلاس ٹیچر ہم سب کو بلا وجہ حیوانات کہتے ہیں ۔
۱؍ ستمبر
آ ج ہماری اسکول کی پکنک ایک ڈیم پر گئی جہاں قریب ہی ایک بڑا گھنا جنگل تھا ۔ اس جگہ ہم نے ہرن مور اور بندر دیکھے ۔ اعجاز اور انور کہیں دور نکل گئے تھے انھیں ایک ہاتھ بھر لمبا کالاسانپ نظر آ یا تو ڈر کر واپس آ گئے ۔ ہم نے دیکھا ایک پیڑ پر بہت سے بندر کود پھاند میں مصروف تھے ۔ ہمیں اپنی طرف آ تا دیکھ کر ایک بندریا اپنے چھوٹے سے بچّے کو اپنے پیٹ سے چمٹا کر اس پیڑ سے اس پیڑ پر چھلانگیں مارتی ہوئی غائب ہو گئی ۔
بندروں کو دیکھ کر شاہد سر نے بتایا کہ ایک فلسفی ڈارون یہ کہا کر تا تھا کہ انسان بندر کی اولاد ہے ۔ اس پر ندیم کہنے لگا، ’سرکل ایک آ دمی اپنے ہی بیٹے کو پیٹ رہا تھا اور اسے گدھے کی اولاد کہہ رہا تھا ۔ کیا وہ بھی فلسفی ہے؟ اس پر سر نے اسے ڈانٹ دیا کہ بیہودہ باتیں نہیں کیا کرتے ۔
جنگل میں گھومنے پھر نے کے بعد کھانا پکانے کے لئے لکڑیاں جمع کر نے کے لئے ذرا دور نکل گئے ۔ ہر طرف خاموشی تھی ۔ ڈر بھی لگ رہا تھا ۔ صرف ہمارے پیروں تلے سوکھے پتّوں کی کھڑ کھڑاہٹ سنائی دی رہی تھی ۔ اچانک ایک درخت کے نیچے پہنچے تو اس پر بیٹھے بندر ہمیں دیکھ کر زور زورسے چیخنے لگے ۔ اسلم سے میں نے وجہ پو چھی تو بولا لگتا ہے اپنے پو توں کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں ۔
۳؍ اکتوبر
میں نے احمد سر سے پو چھا کہ ہمیں یہ بتا یا گیا ہے کہ انسان حضرت آ دم علیہ السلام کی اولاد ہے اور سائنس ٹیچر کہتے ہیں ڈارون کا یہ خیال تھا کہ انسان بندر کی اولاد ہے۔ احمد سر کہنے لگے، ڈارون ایک یہودی سائنس داں تھا ۔ اس کا یہ خیال ہی ہے ۔ سنا ہے اس نے افریقہ کے جنگل سے کچھ ہڈّیاں جمع کر کے ایک جھوٹ کے ذریعے دنیا کو دھوکا دینے کی کو شش کی تھی، یہ ایک سازش تھی۔ بعد کے سائنس دانوں نے اس کی پول کھول دی مگر یہ بات اتنی عام نہیں ہوئی، سچ یہی ہے کہ انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہے ۔ احمد سر کی باتیں سن کہ بشیر سر بھی ہمارے قریب آ گئے اور کہنے لگے۔ بچّو! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بندر ترقی کر کے انسان بنا ہو لیکن تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ اپنی کرتوت کے سبب انسان بندر بن گئے ہوں ۔ ہم سب انھیں حیرت سے دیکھنے لگے ۔ انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ قرآن میں لکھا ہے کہ ایک قوم جنھیں اصحابِ سبت کہا گیا ہے جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کی تو خدا کا عذاب آ یا اور وہ سب نا فرمان لوگ اللہ کے حکم سے بندر بن گئے ۔
۳۰؍ نومبر
امّی نے بڑے بھیّا کے ساتھ بندھوانے کے لئے لڈّو بنا کر کچن میں رکھے تھے ۔ مجھے پتہ چل گیا۔ میں ایسی جگہ تلاش کر نے لگا جہاں لڈّو چھپائے جا سکیں ۔ اوپر والا کمرہ اس کام کے لئے ٹھیک تھا۔ میں پا نی پینے کے بہانے کچن میں جا جا کر چار چار لڈّو جیب میں بھر تا اور وہاں رکھتا گیا۔ آپی مجھ سے پوچھتی رہی کہ تمہیں آج اتنی پیاس کیوں لگ رہی ہے مگر میں انھیں یہ کیسے بتاتا کہ گھی سے بنی چیزیں کھانے سے پیاس لگتی ہی ہے۔
۲؍ دسمبر
لعنت ہے اس ڈائری پر اور ڈائری ایجاد کر نے والے پر۔ ابھی کل بھیّاکا ایک دوست آ یا اور امّی اس کے ہاتھوں بھیّا کے لئے ہو سٹل لڈّو بھجوانے کے لئے جو ڈبّہ کھو لا تو گھر میں کہرام مچ گیا۔ سارے لڈّو غائب ۔ پوچھ تاچھ ہوئی مگر میں تو صاف بچ نکلا یہ کہہ کر کہ کچن میں تو سارا وقت اپّی ہی رہتی ہیں مجھے کیا پتہ ؟ اس پر اپّی نے بہت شور مچایا کہ میں نے تو لڈّو چکھے تک نہیں ۔ کچھ پتہ نہ چلا تو بات آئی گئی ہو گئی۔ مگر امّی کو مجھ پر تھوڑا شک ضرور تھا۔
آج کمبخت یہ ڈائری اپّی کے ہا تھ الگ گئی ۔ دوسروں کی ڈائری پڑھنا بری بات ہے مگر اپّی نے نہ صرف یہ غلط کام کیا بلکہ ۳۰؍ نومبر والا صفحہ امّی کے سامنے لے جا کر رکھ دیا اس کے بعد کیا ہوا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ تو میں ہی جانتا ہوں ۔
آ ج کے بعد میں ہمیشہ کے لئے توبہ کر رہا ہوں ۔
لڈّو کھانے سے؟
جی نہیں ۔
لڈّو چرانے سے ؟
جی نہیں ۔
پھر؟
ڈائری لکھنے سے۔
٭٭٭
محاوروں کی دنیا
محاوروں کی دنیا عجیب و غریب ہے، ہمارے شاعروں کی طرح جنھیں کہنا کچھ ہو تا ہے اور کہتے کچھ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجئے، اس سوال میں وہ طلبا بری طرح فیل ہو تے ہیں جو عید کے چاند کو واقعی عید کا چاند سمجھتے ہیں ۔ جب انھیں اس محاورے کا صحیح مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو کبھی کبھار یا ایک مدّت بعد دکھائی دے تو بیچارے حیران ہو کر اپنا سر اتنی دیر تک کھجاتے ہیں، کہ عید کا چاند دکھائی دے جائے ۔
اسی قسم کا ایک اور محاورہ ہے، سر آنکھوں پر، اس کے معنی ہیں دل و جان سے یا بڑی خوشی سے ۔ اسی طرح سر آنکھوں پر بٹھانا، یہ محاورہ کسی کی آؤ بھگت کرنے کے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس محاورہ میں نہ سر سے سروکار ہے نہ آنکھوں سے ۔ اگر کوئی شخص یہ خوش خبری سنائے کہ وہ مہمان بن کر آپ کے گھر آ رہا ہے تو بظاہر یہ کہنے کا رواج ہے ـ ۔ ـ’’ ضرور تشریف لائیے، آپ کی آمد سر آنکھوں پر ‘ ‘یہ اور بات کہ آپ کا دل اندر ہی اندر درج ذیل تراکیب کا ورد کر رہا ہو گا ۔ ’’برے پھنسے، ہو گیا ستّیاناس، گئے کام سے، آ گئی شامت، بن گیا گھر والوں کا کچومر، اب تو ہو گئے دیوالیہ، یہ مصیبت میرے ہی گلے پڑنی تھی، جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو وغیرہ وغیرہ ۔ پھر آپ کا ذہن اس بن بلائے مہمان سے بچنے کی تراکیب سوچنے لگے گا ۔
کل ہی کی بات لیجئے، ہمارے دوست نقیب مجتبیٰ نے جب یہ خبر ہمیں سنائی کہ’’ کوئی صاحب آپ سے ملنے کے لئے آ رہے ہیں تو‘‘ ہم نے کہا، خوش آ مدید، ان کا آ نا سر آنکھوں پر ۔ یہ سن کر انھوں نے یہ فقرہ چست کیا، ’ ’مگر وہ بیٹھیں گے کسی ایک ہی پر ‘‘۔
اب ہم انھیں کیسے سمجھائیں کہ وہ صاحب ہمارے کرایہ دار ہیں ہمارے گھر کی بالائی منزل پر (یعنی ہمارے سر پر ) کرائے سے رہتے ہیں ۔ اور ہم ہر ماہ کرایہ کے انتظار میں ان کی راہوں میں آنکھیں بچھائے رہتے ہیں ۔ سر آنکھوں پر، کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آ نے والے صاحب یا تو سر ہو کر رہیں گے یا
آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں گے ۔
کسی کو آنکھو ں پر بٹھانے یا اس کے راستے میں آنکھیں بچھانے کا خیال خالص شاعرانہ ہے ۔ دیگر محاوروں کی طرح اسے بھی عملی شکل دینے کی کوشش کی گئی، تو سارا مزہ کر کرا ہو جائے گا ۔ محاورے تو بس زبان کا چٹخارہ ہیں، مزہ لینے کے لئے ۔ یہ صابن کے جھاگ سے بنے بلبوں کی طرح ہیں اک ذرا چھوا اور غائب ۔ عام طور پر دسترخوان پر یہ شعر لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
اے بادِ صبا کچھ تو نے سنا مہمان جو آ نے والے ہیں
کلیاں نہ بچھانا راہوں میں ہم پلکیں بچھانے والے ہیں
کسی کو دیکھ کر مارے حیرت کے آنکھیں کتنی ہی کیوں نہ پھیل جائیں وہ اس قدر وسیع نہیں ہو سکتیں کہ ان پر کوئی تشریف فرما ہو سکے ۔ سر آنکھوں پر اس محاورہ کو عملی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو خالقِ حقیقی نے یہ کام پہلے ہی کر رکھا ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ سر کا مرتبہ آنکھوں سے بلند ہے ۔ آنکھیں دھوکہ کھا سکتی ہیں مگر عقل جس کا ٹھکانہ سر ہے، اس دھوکہ کو بھانپ لیتی ہے اور اپنے بچاؤ کا راستہ نکال لیتی ہے ۔
سر کی جگہ اگر آنکھیں ہوا کرتیں تو ہم دن میں آ سمان بادل پرندے اور دھنک دیکھا کرتے، رات میں ستارے گنتے ۔ زندگی ایک سفر ہے اور انسان ٹھہرا مسافر۔ اسی لئے خدا نے آنکھیں ہمارے سر پر اس انداز سے فٹ کی ہیں کہ ہم منزلوں پر نظر جمائیں، راستے کی اونچ نیچ پر نظر رکھیں اور چلتے رہیں ۔ آنکھیں سر کے پیچھے اس لئے نہیں لگائیں کہ جو گذر گیا اس کا ماتم فضول ہے۔ ہر وقت اپنے ماضی میں کھوئے رہنا کوئی اچّھی بات نہیں ۔ گاہے بگاہے پیچھے مڑ کر دیکھ لینا مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔ اسی لئے گردن میں مڑنے کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے ۔ سر تسلیم خم کر دینا یعنی اپنے پورے وجود کو جھکا دینا ہے ۔ سر جو پورے جسم کا کنٹرول روم ہے جھک جائے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ ہمارے سر کو جو بلند مرتبہ عطا کیا گیا ہے اس کے پیشِ نظر اس کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ جھکے تو بس اپنے بنانے والے کے آ گے ۔ ہر کس و ناکس کے آگے ما تھا ٹیکنے والے یوں بھی سب کی نظروں سے گر جاتے ہیں، اسی لئے آن بان سے جینے والے خدا کے سوا کسی کے آ گے سر جھکانے کے بجائے اسے کٹانا پسند کرتے ہیں ۔ سر واقعی ہے ہی ایسی چیز !
٭٭٭
بچپن کی یادیں
بچپن ہماری زندگی کا یقیناً سنہرا دور ہے ۔ اس کی حسین یادیں تا عمر ہمارے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں جگمگا تی رہتی ہیں ۔ انگریزی کے مشہور شاعر جان ملٹن نے اسے جنّتِ گمشدہ یعنی کھوئی ہوئی جنّت کہا ہے ۔ جب بھی ہم اپنے بچپن کے بارے میں سوچتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ کاش ہم ایک بار پھر چھوٹے سے بچّے بن
جائیں ۔ بچپن میں ہم گھر بھر کے دلارے اور سب کی آنکھ کے تارے تھے ہر کوئی ہمیں لاڈ پیار کیا کر تا تھا ۔ بچپن کی سہانی یادیں اس قدر دلکش ہو ا کر تی ہیں کہ انھیں یاد کر کے شاعر بے اختیار پکار اٹھتا ہے ۔
یادِ ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
میں جب بھی اپنے بچپن کے بارے میں سوچتا ہوں تو اپنے والدین کی وہ بے لوث محبّت اور شفقت یا د آ تی ہے ۔ نانا نانی، دادا دادی کا دلار اور ان کا ہمارے لیے فکر مند رہنا ۔ ہماری تعلیم و تربیت اور کھانے پینے کی دیکھ بھال کر نا، بھائی بہنوں کا ستا نا، اسکول کے کاموں میں ہماری مدد کر نا، سب یاد آ تا ہے اور یا د آ تے ہیں، بچپن کے وہ سارے دوست جن کے ساتھ ہم گھنٹوں کھیلا کرتے تھے۔ بچپن کے کھیل اس قدر دلچسپ ہوا کر تے تھے کہ دوستوں کے ساتھ یا میدان میں کھیلتے ہوئے ان میں مگن ہو کر کھا نا پینا اور اپنے گھر جانا بھی بھول جاتے تھے ۔ بچپن ہر قسم کی فکر، دشمنی کینہ، کپٹ اور برائیوں سے پاک ہوا کر تا ہے اسی لیے تو بچوں کو فرشتہ کہا جاتا ہے ۔
میں ہمارا گھر جس جگہ واقع تھا ۔ اس کے قریب ایک ندی اور وسیع میدان تھاجس کے پیچھے گھنا جنگل تھا۔ میدان میں ہم طرح طرح کے کھیل کھیلا کرتے اور کبھی اپنے دوستوں کے ساتھ جنگل میں نکل جاتے، جہاں بیریوں کی جھاڑیاں اور املی کے بڑے بڑے پیڑ تھے ۔ جنگل سے املی اور بیر چنتے اور دوسرے پھل پھول جمع کر لاتے ۔ اکثر وہاں ہمیں اتنی دیر ہو جاتی کہ واپسی پر گھر میں امّی کی ڈانٹ سننی پڑ تی۔ امّی کی ڈانٹ تو اور بھی کئی باتو ں پر کھاتے رہے مگر اصل ڈر لگتا تھا ابّو کی ڈانٹ سے اسکول نہ جانے اور نماز نہ پڑھنے پر تو یاد ہے کبھی مار بھی پڑی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دن جب ہم بیر کی تلاش میں جھاڑیوں میں گھوم رہے تھے ۔ میرے ساتھ میرے دوست امجد، اسلم اور ماجد بھی تھے ۔ امجد اچانک’’ سانپ سانپ ‘‘کہہ کر چیخ پڑا ۔ یہ سنتے ہی ہمارے پیروں تلے کی زمین نکل گئی اور جب ہم سب نے قریب ہی زمین پر ایک بڑا کالاسانپ رینگتا ہوا دیکھا تو بد حواس ہو کر سب وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔ گھر پہنچنے تک پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ اس کے بعد کئی دنوں تک جنگل جانے کی کسی کی ہمّت نہیں ہوئی ۔
اسی طرح ایک مر تبہ عید کی خریداری کے لیے امّی اور ابّو کے ساتھ بازار گئے تھے ۔ شاپنگ کر تے کرتے امّی اور ابّو آ گے نکل گئے اور میں ایک دکان پر کھلو نے دیکھنے میں کھویا رہا ۔ جب ہو ش آ یا تو گھبر کر ادھر ادھر ڈھونڈتا رہا ۔ بہت دیر تک رو تا ہوا بھٹکتا رہا ۔ آ خر قریب کی ایک مسجد سے جب اعلان ہو ا تو کچھ لوگ مجھے وہاں پہنچا آئے جہاں امی اور ابّو میرا بیچینی سے انتظار کر رہے تھے ۔
بچپن کی یادوں میں دوستوں کے ساتھ ہو نے والی لڑائیاں بھی ہم کبھی نہ بھول پائیں گے ۔ اسکول میں نئے نئے دوست بن گئے تھے۔ ان کے ساتھ خوب شرارتیں کرتے ۔ ذرا سی بات پر کٹّی کر بیٹھتے، لیکن زیادہ دنوں تک اس حالت میں دوست سے دور رہنا مشکل ہو جاتا اور کسی نہ کسی بہانے سے دوستی کر بیٹھتے ۔ بچپن ان تمام برائیوں سے دور تھا جو انسان سے خوشیاں چھین لیتی ہیں ۔ ہمارے دلوں میں کسی
کے لیے برائی نہ تھی ۔ بچپن ایسی ہی معصوم یا دوں سے عبارت ہے ۔ اسی لئے ہر شخص کے دل میں کبھی نہ کبھی یہ خیال ضرور آ تا ہے کہ کاش اس کے بچپن کے وہ سہانے دل کسی طرح لو ٹ آئیں ۔ لیکن یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں ۔
اب بھی بچپن کے دوست یاد آ تے ہیں ۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات یاد آ تے ہیں تو ان کے چھن جانے کا افسوس ہو تا ہے ایسا محسوس ہو تا ہے جیسے ہم سے ہمارا بچپن نہیں کوئی قیمتی سرمایہ چھن گیا ہو۔ کاش پھر سے لوٹ آئیں بچپن کے وہ سہانے دن !
٭٭٭
آزادی
(یک بابی ڈرامہ)
منظر
(ڈرائنگ روم میں دو ٹیبل اور دو کر سیاں دیوار سے لگی ہوئی ہیں ۔ ایک ٹیبل پر پلیٹ میں تین سیب رکھے ہیں ۔ قریب ہی ٹیلی فون ہے ایک گوشہ میں رکھے ہوئے چھوٹے ٹیبل پر پنجرہ میں طوطا ہے اور ٹیبل کے نیچے ایک بڑی گیند پڑی ہے۔ دادا جان کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہیں ۔ طوطے کی ٹائیں ٹائیں سنائی دیتی ہے۔
………… طوطے کی آواز: مٹّھو میاں پڑھو، مٹّھو میاں پڑھو)
دادا : اے خدا کے بندے آدھے گھنٹے سے پڑھ ہی تو رہا ہوں اور تمہاری طرح ٹائیں ٹائیں کر کے تھک گیا ہوں مگر اس گھر میں کوئی میری سنتا بھی ہے۔ (دروازہ کی طرف دیکھ کر )ارے ببلو، عائشہ کوئی ہے ۔ چائے تیّار ہو چکی ہو تو لے آؤ ۔ اس بوڑھے کی تو اس گھر میں کسی کو فکر ہی نہیں ۔
ببلو: ( چائے لے کر آتا ہے )لیجئے دادا جان آپ کی چائے ۔
دادا :ہاں شاباش بیٹا! چائے کے بغیر تو میرا دم نکلا جا رہا تھا ۔ (چائے پیتے ہوئے طوطے کی طرف دیکھ کر ) بیٹا، تم نے اس بے زبان کو بھی کچھ دانا پانی دیا کہ نہیں ؟اور اسے یہاں کیوں رکھ دیا ۔ کوئی طوطے کو ڈرائینگ روم میں رکھتا ہے بھلا؟گیلری میں اچّھی ہو ا کھا رہا تھا ۔
ببلو : دادا جان وہاں اسے سردی لگ جائے گی ۔ دیکھئے نا کیسے پر سمیٹ کر بیٹھا ہے ۔
دادا جان : میں تو کہتا ہوں بیٹا کسی دن تم اسے اڑا دو ۔ کیوں بیچارہ بے زبان کی بد دعا لیتے ہو ۔ خدا نے اسے آزاد پیدا کیا تھا ۔ تم نے اسے لوہے کے پنجرہ میں قید کر دیا ۔
ببلو : نہیں دادا جان قید وید کچھ نہیں ۔ دیکھئے نا کتنے مزہ سے رہتا ہے ۔ کھاتا ہے ہم اسے گاجر، ٹماٹر، لڈّو کیسی شاندار چیزیں کھلاتے ہیں ۔ باہر تھوڑی ملیں اسے یہ سب چیزیں ۔
دادا جان : بھئی جس خدا نے پیٹ دیا ہے وہ دانہ پانی بھی دے گا ۔ آزادی تو آزادی ہوتی ہے۔ میں تمہیں کیسے سمجھاؤں ۔ کیا تم اسے پنجرہ میں کھلا آسمان دے سکتے ہو، جس میں وہ اپنے ساتھوں کے ساتھ اڑ سکے، کیا اسے وہ آزاد ہوا دے سکتے ہو جس میں وہ پنکھ پسار کر جدھر چاہے چلا جائے، کیا تم اسے وہ زندگی دے سکتے ہو جسے کوئی دروازہ کوئی دیوار نہ روک سکے ؟
ببلو: دادا جان !طوطا آپ کی طرح یہ سب تھوڑا ہی سوچتا ہے ۔ وہ تو یہاں بہت خوش ہے کیوں مٹّھو میاں خوش ہو نا؟ بو لو بولو!
طوطے کی آواز: مٹّھو میاں پڑھو، ٹّھو میاں پڑھو۔
ببلو : دیکھئے بول رہا ہے نا ۔
دادا: ارے یہ بھی تو سمجھو وہ کیا بول رہا ہے ۔ مٹّھو میاں پڑھو، مٹّھو میاں پڑھو۔ یعنی تم ابھی جاہل ہو ۔ ببلو میاں تم پڑھو اور سمجھو کہ آزادی کیا ہوتی ہے اور مجھے رہا کر دو ۔
(کال بیل کی آواز )دیکھو شاید رکشہ والا آ گیا۔ میں چلتا ہوں ۔ (چھڑی اٹھاتے ہیں ۔ ببلو باہر جا کر آتا ہے )
ببلو: رکشہ والا آ گیا۔
دادا: اچّھا، تمہاری امّی تو جا چکی ہیں ۔ باجی بھی تیّار ہیں دیکھو تم گھر میں اکیلےرہو گے ۔ ذرا دیکھ بھال کر رہنا اور وہ تمہارے شریر دوستوں کی ٹولی کو گھر میں نہ گھسنے دینا ۔
ببلو: جی داددا جان ۔
عائشہ: (اندر سے آتی ہے )گھسنے نہ دینا کیا دادا جان اس نے تو انھیں باقاعدہ دعوت دے رکھی ہے کہ خوب موج مستی کریں گے ۔
ببلو : دیکھئے نا یہ ہمیشہ میرے پیچھے پڑی رہتی ہے ۔ جب تمہاری سہیلیاں آتی ہیں اور ان کے لیے پکوڑے، شربت، اور کسٹرڈ بنتا ہے تب کچھ نہیں ۔
عائشہ: میری سہیلیاں تمہارے دوستوں کی طرح بندروں کی ٹولی نہیں ہے جو سارے گھر کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیں، آوارہ کہیں کے ۔ چلئے دادا جان میں بھی آپ ہی کے ساتھ چل رہی ہوں ۔
دادا: ہاں چلو ۔ اور ببلو تم یہ دروازہ بند کر لو ۔
ببلو: السلام علیکم دادا جان ۔
دادا جان : وعلیکم السلام، ۔ ۔ ۔ اور باجی کو آداب نہیں کہو گے؟، تمہارا جھگڑا اپنی جگہ دعا سلام اپنی جگہ
ببلو: آداب باجی!
عائشہ: خدا حافظ ۔
( دونوں جاتے ہیں )
(تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلتا ہے۔ چنگو منگو اندر آتے ہیں )
چنگو : لیجئے صاحبان قدر دان ! چنگو اینڈ منگو کمپنی کے پاپڑ ۔
منگو : ببلو ! تمہاری ممی ہیں گھر پر ؟ پوچھو تو پاپڑ خریدنا ہے کیا ؟
ببلو: نہیں، ممی اسکول گئی ہیں کچھ خریدنا نہیں ہے۔ چلو تم لوگ ابھی جاؤ بعد میں آنا۔
چنگو : ارے آج ہم ایک نیا آئیٹم لائے ہیں، خریدو گے ؟
ببلو: ایٹم ہو کہ ایٹم بم ۔ کچھ نہیں خریدنا، تم لوگ نکلو یہاں سے ۔
منگو: بھئی بہت تھک گئے ہیں، بھوک بھی غضب کی لگی ہے، ارے پانی پلاؤ، کچھ کھلاؤ ۔
چنگو : ارے ! اس طرف تو سیب بھی رکھا ہے ۔
ببلو : اے! سیب کو ہاتھ نہیں لگانا۔ میرے دا دا جان کے لئے ہے وہ ۔ (منگو ببلو کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور چنگو آگے بڑھ کر ٹیبل پر رکھا سیب اٹھا کر کھاتا ہے )
میں کہہ رہا ہوں اسے ہاتھ نہیں لگا نا اور تم بد معاش کہیں کے ۔ ۔
منگو : ارے جانے دو یار، بھوکا ہے بے چارہ، اچّھا، تم یہ بتاؤ تمہارے گھر فون ہے کیا، ذرا لال بلڈنگ والی آنٹی سے بات کرنا ہے۔
چنگو : منگو فون ہے ! مو بائیل ہے موبائیل ۔ یہ ٹیبل پہ رکھا ہے ۔ آنٹی کو بتا دے کہ ہم لوگ پاپڑ لے کر آ رہے ہیں ۔
منگو : ( ببلو کو چھوڑ کر فون کی طرف بڑھتا ہے ۔ ) جھوٹ بولتے ہوئے شرم نہیں آئی، فون رکھتے ہو اور کہتے ہو فون ہیں ہے ۔
ببلو : چنگو! سیب رکھ دے میرے دادا جان کے ہیں وہ ۔ نکل جاؤ تم لوگ یہاں سے ۔
چنگو: اے زیادہ دادا گیری مت دکھا، تجھے پتہ ہے ہم لوگ کون ہیں انگریزوں کے زمانے کے سپاہی ہیں، تجھے مار مار کے ہندستان بنا دیں گے ۔
ببلو: دیکھو یہاں غنڈہ گردی نہ کرو ورنہ۔ ۔ ۔
منگو: ورنہ کیا ۔ ۔ ۔ ورنہ کیا کر لے گا ؟بہت بہادر سمجھتا ہے خود کو، بہادر شاہ سمجھتا ہے اپنے آپ کو ۔ ۔
چنگو : بیٹا !تجھے مار مار کے یہیں سلادیں گے ۔ تیرے خون سے یہ فرش رنگین بنا دیں گیَ۔
منگو: تیرے گھر کو ہم رنگون بنادیں گے ۔ ( چنگو موبائیل چھوڑ کر ببلو کا گریبان پکڑ لیتا ہے ) ہم تجھے اسی گھر میں قید کر دیں گے ۔
آتی، فون رکھتے ہو اور کہتے ہو فون ہیں ہے ۔
ببلو : چنگو! سیب رکھ دے میرے دادا جان کے ہیں وہ ۔ نکل جاؤ تم لوگ یہاں سے ۔
چنگو: چلو اسے یہیں قید کر کے نکل جاتے ہیں ۔ آ جا منگو ۔
( دونوں دروازہ کی طرف بڑھتے ہیں )
ببلو: نہیں نہیں !مجھے بند مت کرو !ارے رکو ! بد معاشو!
( دونوں باہر جاکر دروازہ باہر سے بند کر دیتے ہیں )
ببلو: ارے دروازہ کھولو ۔ کوئی ہے؟ یہ لوگ مجھے اندر قید کر کے چلے گئے ۔ ارے کوئی ہے! یہاں سے تو آواز بھی باہر نہیں جاتی ۔
(کمرہ میں ٹہلنے لگتا ہے۔ اپنے آپ سے کہتا ہے)
امّی بھی شام میں آئیں گی ۔ دادا بھی ڈاکٹر کے ہاں چلے ہوں گے ۔ (روتے ہوئے آ کر کرسی پر بیٹھتا ہے ۔ تبھی کال بیل کی آواز سنائی دیتی ہے )کوئی آیا ہے ۔ دروازہ باہر سے بند ہے (چیخ کر) دروازہ باہر سے بند ہے۔
پوسٹ مین: پوسٹ مین ۔ ( ایک خط دروازہ کے اندر گرتا ہے)
ببلو: پوسٹ مین، کہیں چلا نہ جائے ارے دروازہ کھولو، پوسٹ مین دروازہ باہر سے بند ہے ۔ دروازہ کھولو ۱ ( لگتا ہے پوسٹ مین بھی چلا گیا ۔ یہ گھر تو میرے لیے قید خانہ بن گیا ( طوطے کی طرف دیکھ کر) دیکھ طوطے آج میں بھی تیری طرح اس گھر کے پنجرہ میں قید ہو گیا ہوں ۔ یہ تو میرا گھر ہے پھر بھی جی چاہتا ہے دیواریں توڑ کر نکل جاؤ ں ۔ تم یہاں کب سے قید ہو ۔ دادا سچ ہی کہتے تھے، میں نے قید کر کے تم پر ظلم کیا ہے ۔ مجھے معاف کر دو طوطے مجھے معاف کر دو ( رونے لگتا ہے ۔ تھوڑی دیر بعد ادھر ادھر ٹہلتا ہے) ارے ہاں میں کسی کو فون کر کے بلا سکتا ہوں ۔ نازیہ آنٹی۔ ۔ نہیں ۔ ۔ شمیم انکل، وہ دونوں تو آ فس گئے ہوں گے ۔ زاہد۔ ۔ ، نہیں ان کے گھر کا تو فون کٹ چکا ہے۔ اب تو صرف انجم آ نٹی بچی ہیں ۔ (فون کرتا ہے) انجم آ نٹی! میں ببلو بول رہا ہوں ۔ آپ پلیز جلدی میرے گھر آ جائیے، مجھے میرے دوستوں نے میرے گھر میں قید کر دیا ہے۔ (سسکنے لگتا ہے ) ۔ ۔ ۔ ، کیا آپ نہیں آ سکتیں ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کب سیڑھوں سے گر گئیں ۔ ۔ ۔ زیادہ چوٹ تو نہیں آئی۔ ۔ کیا؟فریکچر، اوہ ! کیا گھر میں اور کوئی نہیں ہے ( فون رکھ دیتا ہے ) اب تو یہاں کوئی نہیں آئے گا ۔ (کال بیل کی آ واز پر چونک کر اٹھتا ہے ) دروازہ باہر سے بند ہے (چیخ کر دروازہ باہر سے بند ہے دروازہ کھولو !
( دروازہ کھلتا ہے، دادا اندر آ تے ہیں )
دادا : ارے یہ دروازہ باہر سے کس نے بند کیا تھا ؟ اور تم اندر۔ ۔ ۔ ؟
ببلو : میرے دوست یہاں آئے تھے اور ۔ ۔ ۔ ( داداسے لپٹ کر رونے لگتا ہے )
دادا : دوست ؟اور تمہیں باہر سے بند کر کے چلے گئے؟ ۔ دشمن ہیں تمہارے دشمن! میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہا تھا، ان شیطانوں کو اندر نہ آ نے دینا ۔ آ ج میں دوا خانہ گیا تو پتہ چلا ڈاکٹر نہیں ہے ۔ اس لئے میں جلدی چلا آ یا ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر، سنبھالو اپنے آپ کو۔ ۔ میں ذرا کپڑے بدل لوں ۔ ۔
( اندر جا تے ہیں ببلو ان کے جانے کے بعد کچھ سوچتا ہے اور طوطے کا پنجرہ باہر لے جاتا ہے اور پھر واپس خالی پنجرہ لا کر رکھ دیتا ہے ۔ )
دادا: ( اندر آ تے ہوئے ) اور بیٹا تم نے صبح سے کچھ کھایا پیا کہ نہیں، کچھ تھا کہ نہیں تمہارے کھانے کے لئے؟
ببلو : کھانے کے لیے تو بہت کچھ تھا دادا جان، مگر مجھے آج پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ اگر کسی کو قید کر دیا جائے تو دنیا کی کوئی نعمت اچّھی نہیں لگتی ۔
دادا: یہی تو میں تمہیں سمجھاتا رہا ہوں بیٹے کہ تم اس طوطے کو ۔ ۔ ۔ ۔ ( پنجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے ) ارے تمہارا طوطا کہاں گیا ؟
ببلو : میں نے اسے اڑا دیا ۔ ۔ دادا جان آ ج میری سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ آزادی کیا ہو تی ہے۔ آج میں نے طوطے کو آ زاد کر دیا ۔
دادا : شاباش میرے لال شاباش!( دادا ببلو کو لپٹا لیتے ہیں )۔
( پر دہ گر تا ہے )
٭٭٭
ریل کے ڈبّے میں
(ڈراما)
(منظر: ریلوے کمپارٹمنٹ )
(کردار ۔ ۔ شکیل، پرویز، مسافر، ٹکٹ چیکراورپولس انسپکٹر )
پرویز : (ریل کے ڈبے میں داخل ہو تے ہوئے۔ اس کے ساتھ شکیل بھی ہے ) ارے آ جاؤ، یہ ڈبّہ بالکل خالی ہے ۔ بہت اچّھے! کیا بات ہے ۔ ڈبّہ بالکل خالی !۔ ۔ ۔ ۔ ، مجھے تو لگتا ہے زندگی میں میں پہلے بار ایک ایسی ٹرین میں چڑھا ہوں جو پوری طرح خالی ہے شکیل، تیرے دماغ کی طرح ۔
شکیل: میرے دماغ کی طرح نہیں، تیرے پاکٹ کی طرح ۔ ویسے اس میں حیرانی کی بات ہے ؟ٹرین رکنے کے بعد تو ٹرین خالی ہو ہی جاتی ہے ۔
پرویز: میں چلتی ہوئی ٹرین کی بات کر رہا ہوں ۔ ہماری ساری ٹرینیں اس طرح ٹھنسی ہوئی ہو تی ہیں جیسے سارا ہندوستان ان ہی میں بسا ہو ۔ پہلے یہ گاؤں میں بستا تھا، نہرو جی نے کچھ ایساہی کہا تھا نا!
شکیل: نہرو جی نے نہیں گاندھی جینے کہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ، آو بھئ اپنا سامان جما لیں ۔
پرویز: مجھے تو یقین ہی نہیں ہو رہا ہے کہ ہم ٹرین میں سفر کر رہے ہیں ۔ لگتا ہے سپنا دیکھ رہا ہوں ۔
شکیل: اسی لئے کہتا ہوں زیادہ سپنے مت دیکھا کر، نہیں تو حقیقت کو بھی سپنا ہی سمجھتا رہے گا اور ٹرین چھوٹ جائے گی ۔
پرویز: کچھ بھی کہو یار ۔ یہ ٹرین کا ڈبّہ نہیں مٹی کے تیل کا ڈبہ لگ رہا ہے ۔ اس میں بھی گیس کے سوا کچھ نہیں ہو تا۔
شکیل : پاگل ! گیس سلنڈر میں ہو تی ہے، تیل کے ڈبے میں گیس کہاں سے آئے گی ۔
پرویز : پیارے !ڈبّہ خالی ہو تا ہے، آج کل مٹی کے تیل کا شارٹیج چل رہا ہے نا، اس لئے اس میں ہوا ہی ہوتی ہے، اپنے کوایکسٹرا اسمارٹ مت سمجھ کر ۔
شکیل: اوہ ہوا سے یاد آ یا ۔ کھڑکیاں کھول دیتے ہیں ہو ا آئیگی ۔
پرویز: نہیں نہیں ! کھڑکیاں مت کھولنا، اگلے اسٹیشن پر گاڑی رکی تو پورا ہندوستان اسی ڈبّے میں سما جائے گا۔
شکیل: یہ بات بھی صحیح ہے ۔ ۔ ۔ ، پرویز کبھی تم نے سوچا ہے ہم ٹرین سے باہر ہوتے ہیں تو کیا سوچتےہیں ؟
پرویز: کیا سوچتےہیں ؟
شکیل: یہی نا کہ ڈبے میں بیٹھے لوگ ہم پر رحم کریں ۔ ہمیں اندر کم از کم اند پیر رکھنے ہی کو جگہ دے دیں ۔ مگر جب کسی طرح اندر گھس جا تے ہیں تو ایک دم بدل جا تے ہیں سوچتے ہیں اب کوئی بھی اندر نہیں آ نا چاہئے ۔ کتنا مطلبی ہے نا انسان !
پرویز : لائف ہی ایسی ہے کیا کریں ۔ ہم مجبور ہیں ۔ اور اندر آنے والا بھی کیا کر تا ہے؟ اس کو بیٹھنے کو سیٹ کا تھوڑا سا کو نا دو تو ایسا ہاتھی جیسا پھیل کے بیٹھتا ہے کہ تمہارا اپنی سیٹ پر بیٹھنا حرام کر دیتا ہے۔ اسی لئے تو آ ج کل لوگ برے کام کر نے سے اتنانہیں ڈرتے جتنا نیکی سے ڈرتے ہیں ۔
شکیل: بالکل صحیح ہے ۔ ۔ ۔ ، مگر یہ ٹرین کی رفتار کیوں کم ہو نے لگی؟ کیا کوئی اسٹیشن؟ مگر اتنی جلدی کیسے آ گیا؟
پرویز : اسٹیشن نہیں ہو گا، گاڑی یوں ہی رک گئی ہے، اپنی گاڑی اکثر ایسے ہی رک جا تی ہے ۔ شاید کراسنگ ہو گا۔
شکیل: خالی ڈبّہ دیکھ کر تو لگتا نہیں تھا کہ یہ انڈین ریلوے ہے مگر اب اس گاڑی کے لچّھن دیکھ کر یقین ہو نے لگا ہے کہ یہ وہی ہے ۔
(ایک دیہاتی قسم کا آ دمی اندر داخل ہوتا ہے)
پرویز : اے تم کہاں گھسے چلے آ رہے ہو، تم ہو کون؟
مسافر : صاحب جی! میں آدمی ہوں ۔
شکیل: ارے تو ہم کب کہہ رہے ہیں تم بکری کا بچّہ ہو؟۔ ۔ ۔ ویسے صورت سےلگتے تو نہیں ہو ؟
مسافر : کیا؟
پرویز : خیر چھوڑو۔ ۔ ۔ ، یہ کوئی اسٹیشن تو ہے نہیں، تم چڑھے کیسے ؟
مسافر : ٹکٹ لیا ہے صاحب ۔ مجھے بھوپال جا نا ہے ۔
شکیل: ہم پوچھ رہے ہیں یہ کوئی اسٹیشن نہیں ہے تم یہاں سے چڑھے کیسے؟
مسافر: صاحب جی یہ کوئی قانون تو نہیں ہے کہ اسٹیشن آئے تبھی چڑھو۔
پرویز : اب تم ہمیں قانون پڑھاؤ گے ۔ یہ تمہارے گھر کی کھیتی ہے ۔
شکیل: بیٹا ہمیں قانون نہ بتاؤ ہم خود قانون ہیں ۔ ہم دونوں تجھے چلتی ٹرین سے اٹھا کر پھینک دیں گے ۔
پرویز : کسی کو پتہ بھی نہ چلے گا سمجھے ؟
مسافر: یہ تو جنگل کا قانون ہے ۔ دیکھئے صاحب ٹرین سبھی کی ہے ۔ پورا ڈبّہ خالی ہے ۔ ہنسی خوشی سفر کٹے تو اچّھا ہے۔ لیجئے گاڑی چل پڑی (ٹرین چلنے کی آواز ۔ مسافر اپنا سامان سیٹ کے اوپر رکھنے لگتا ہے )
پرویز: اچھے چلے جا رہے تھے۔ پہلی بار خالی ٹرین کے مزے لوٹتے ہوئے۔ یہ آ گیا کباب میں ہڈّی بن کر ۔
شکیل: میرا تو جی چاہتا ہے زنجیر کھینچ کر بلواؤں پولس کو اور کھلا دوں اسے حوالات کی ہوا۔
پرویز: مگر ہم اس کا جرم کیا بتائیں گے ؟
شکیل: جرم کیا بتا نا ہے ؟ اس کی تو صورت ہی مجرموں جیسی ہے ۔
پرویز : مگرقانون منہ دیکھ کے فیصلے نہیں کر تا ۔
شکیل: سچ کہہ رہے ہو ؟واقعی سچ کہہ رہے ہو ؟ ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، پھر لو گوں کو انصاف کیوں نہیں ملتا؟
مسافر : ( ان کی طرف مڑ کر )صاحب جی ! دنیا توہے ہی نا انصافیوں کی جگہ، سچّا انصاف تو اوپر ہی ہو گا۔
پرویز : ابے تو فلسفہ مت بگھار بڑا آ یا ۔ بیٹھ ادھر ۔
شکیل: ویسے یہ آیڈیا ہے بڑا یکسائیٹنگ۔ ۔ ۔ ، ہم نے کبھی ٹرین کی زنجیر نہیں کھینچی ۔ چلو آ ج تجربہ کر لیتے ہیں ۔
پرویز : اگر پکڑے گئے تو پانچ سو روپئے دینے پڑیں گے۔
شکیل: کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے ۔
پرویز : مگر ہمیں کیا ملے گا؟
شکیل: تجربہ ۔
مسافر: تجربہ بڑی چیز ہے ۔ صاحب جی
پرویز : ارے تمہیں بیچ میں بولنے کے لئے کس نے کہا .
مسافر : صاحب کیا یہ بھی آپ کا قانون ہے کہ جب آپ بولنے کو کہیں تب ہی بولوں ۔
شکیل: ہاں، بہت بولتا ہے یار یہ آ دمی !(مسافر سے )ایسا اسبق سکھائیں گے تمہیں، کہ بولتی بند ہو جائیگی۔
(مسافر اپنا بیگ کھول کر کچھ ڈھونڈنے میں مصروف ہو جا تا ہے )
پرویز : ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ میرے پاس دوسو روپئے ہیں ۔
(شرٹ کی اوپر کی جیب سے دو نوٹیں نکال کر دکھا تا ہے )
شکیل: (اسی طرح نوٹیں نکال کر دکھا تے ہوئے)اور میری جیب میں تین سو ۔
پرویز : تو ہو جائے، ( کنکھیوں سے اس مسافر کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں جو بظاہر اپنے کام میں مصروف ہے )
شکیل: آئیڈیا اچّھا ہے ۔ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام ۔
پرویز : ابے تم ہمیشہ صحیح جگہ غلط محاورے استعمال کر تے ہو ۔ یوں کہو ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ آئے چوکھا ۔
شکیل: کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیںِ ؟
پرویز : اوکھلی میں سر دے ہی دیا ہے تو موسلوں سے کیا ڈرنا ۔
شکیل: موسل تو ہرگز نہیں پڑیں گے پیار ے، ایک کاٹھ کا الّو ہے ہمارے
پاس۔ ۔ ۔ ۔ ، تو ہو جائے
پرویز : نیکی اور پوچھ پوچھ !
(شکیل اوپر چڑھ کر ٹرین کی زنجیر کھیچتا ہے ۔ ذرا دیربعد دھیرے دھیرے ٹرین کے رکنے کی آواز )
مسافر : ارے صاحب جی یہ کیا کیا آپ نے ۔
شکیل : ارے بھئی ہم تو تجربہ کر رہے ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ زنجیر کھینچنے پر ٹرین
کیسے رکتی ہے ۔
مسافر : آپ کو پتہ ہے نہ اس پر جرمانا لگتا ہے ۔
پرویز : ہمیں سب پتہ ہے، اب اکاؤنٹ مت پڑھاؤ ۔ تم کسی کالج میں لکچرر تو نہیں ہو ۔
شکیل : تم کر تے کیا ہو ۔
مسافر : کام تلاش کر تا ہوں صاحب، غریب آ دمی ہوں ۔ دانے دانے کا محتاج ہوں ۔ بھوپال جا رہا ہوں ۔ (ہاتھ سے اوپر اشارہ کر تے ہوئے )شاید اوپر والا روزی کا کوئی بندوبست کر دے ۔
پر ویز : تمہارا بندوبست تو ہم ہی کر دیں گے ۔ چین سے بیٹھ کر دو روٹی کھانا ۔ (دونوں ہنستے ہیں )
مسافر : آپ نے یہ اچھا نہیں کیا صاحب۔ ابھی ٹی سی آ کر جھمیلا کرے گا۔ کتنے مسافر اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے بے چین ہوں گے، آپ کے کارن ٹرین لیٹ ہو گی
شکیل : تم کیوں بے چین ہو رہے ہو، تمہیں تمہاری منزل تک یہ ٹرین نہیں، ہم پہنچائیں گے۔
مسافر : کیا مطلب ! صاحب آپ کے ارادے کچھ اچھے معلوم نہیں ہو تے ۔
پرویز : ارادے تو ہمارے اچھے ہیں، مگر انجام تمہارا برا ہو نے والا ہے ۔
شکیل: اس ڈبّے میں آ کر تم نے مصیبت کودعوت دی ہے ۔
(ٹکٹ چیکر اور ایک پولس انسپکٹر داخل ہو تے ہیں )
ٹکٹ چیکر:زنجیر اسی ڈبّے میں سے کھیچی گئی ہے، کس نے کھیچی؟
پرویز : ہاں صاحب یہیں سے کھینچی گئی ہے ؟
شکیل: اور یہ رہا وہ آدمی ۔ گرفتار کر لیجے اسے۔
انسپکٹر : ا ے ! کون ہو تم ؟
مسافر : صاحب میں مسافر ہوں ۔
ٹکٹ چیکر : وہ تو سبھی ہو تے ہیں ۔ مگر یہ بتاؤ زنجیر تم ہی نے کھینچی ہے ؟
مسافر : ہاں صاحب میں نے ہی کھینچی ہے ۔
(پرویز اورشکیل چونک کر پہلے ایک دوسرے کو اورپھر مسافر کو حیرانی سے دیکھتے ہیں )
ٹکٹ چیکر : مگر یہ بتاؤ، تم نے چلتی ٹرین کو کیو ں رکوایا؟
مسافر: صاحب کیا بتاؤں ؟ان دونوں بدمعاشوں نےمجھے خوب پیٹا ۔
شکیل: ابے کیا بکتا ہے ۔
مسافر : صاحب سچ بول رہا ہوں ۔ مجھ غریب کو اکیلا دیکھ کر پٹائی کی اور میرے پانچ سو روپئے بھی چھین لئے ۔
پرویز : جھوٹ بولتا ہے
مسافر : یقین نہ آ تا ہو تو آپ خود چیک کر لیجئے۔ پیسے چھین لئے اور دونوں نے اور
آپس میں بانٹ لئے ۔
(شکیل کی طرف اشارہ کر کے) اس آ دمی نےتین سو لئے او ر(پرویز کی طرف اشارہ کر کے) ا س آ دمی نےدو سو ۔
شکیل: جھوٹا الزام لگا رہا ہے یہ ہم پر ۔
مسافر : ان کی شرٹ کے اوپر کی جیب میں ہی ابھی چھین کر رکھے ہیں ۔
پرویز : ارے صاحب یہ جھوٹ بول رہا ہے ۔
ٹکٹ چیکر : ابھی پتہ چل جائے گا، انسپکٹر صاحب ان کی تلاشی لیجئے۔
(انسپکٹر تلاشی لیتا ہے اور دونوں کی جیب سے اتنی ہی رقم نکلتی ہے ۔ )
انسپکٹر : چلو دونوں بدمعاش کہیں کے ۔ صورت سے تو بڑے شریف دکھائی دیتے ہو اور یہ کر توت !
شکیل : صاحب ہم بے قصور ہیں
پرویز : یہ آ دمی ہمیں پھنسا رہا ہے ۔ (پولس اور ٹکٹ چیکر دونوں کو پکڑکر لےجاتےہیں ۔ ان کے پیچھے مسافر بھی جاتا ہے)
مسافر ( ہاتھ اٹھا کر اوپر کی طرف اشارہ کر تے ہوئے ): واہ رے اوپر والے !
(پر دہ گرتا ہے ۔ )
٭٭٭
تشکر:مصنف جنہوں نے کتاب کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید