گاندھی جی کے بندر
سلیم خان
فہرست مضامین
گاندھی جی کی عینک
(قسط اول)
ہندوستان کی ریاست مہاراشٹر میں وردھا کے مقام پر۱۹۳۶ء میں گاندھی جی نے اپنا ایک گھر بنایا تھا جو آگے چل کر سیوا گرام نام کے آشرم میں تبدیل ہو گیا۔ جب گاندھی جی حیات تھے تو اس آشرم سے گاؤں والوں کی سیوا کی جاتی تھی اب گاندھی جی کی سیوا بھاونا (خدمتِ خلق کا جذبہ) کی مانند یہ آ شرم بھی پرکھوں کی ایک یادگار بن چکا ہے جہاں ہر سال ۳ لاکھ زائرین گاندھی درشن کے لئے آتے ہیں اور ان کی نوادرات پر حیرت جتاتے ہیں۔ گاندھی آشرم میں ان کے استعمال کی اشیاء فی زمانہ نمائش کا سامان بنی ہوئی ہیں قوم کے نزدیک اس کی اہمیت اور ضرورت اس سے زیادہ نہیں ہے۔ اس سال سیوا گرام آشرم کے حکام اپنی ڈائمنڈ جوبلی کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ اچانک موصوف کی عینک کے چوری ہونے کی خبر منظرِ عام پر آئی ہے اور ذرائع ابلاغ پر چھا گئی۔ چوری کی اس واردات کو چھ ماہ تک صیغہ راز میں رکھا گیا تھا ایسا کیوں ہوا ؟اس کی تحقیق و تفتیش کر کے ناظرین کو حقیقت سے واقف کرانے کی ذمہ داری ’تول کے بول‘چینل نے مجھے سونپی اور اس کام کے لئے ہم سب سے پہلے معروف گاندھیائی مفکر اور دانشور شری سنکی لال اگروال کی خدمت میں جا پہنچے۔
گاندھی جی کے چشمے کی چوری کو اس قدر طویل عرصہ کیوں چھپایا گیا ؟ یہ سوال جب ہم نے سنکی لال اگروال سے پوچھا تو وہ کہنے لگا
لگتا ہے آپ گاندھیائی فلسفہ یات کے بارے میں نہیں جانتے ورنہ یہ سوال نہیں کرتے ؟
ہم نے اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا یہ بات درست ہے کہ ہم نہیں جانتے لیکن گاندھی جی کے اصول و نظریات کو اس دور میں کون جانتا ہے ؟
وہ ناراض ہو کر بولے ہمارے ہوتے ہوئے آپ یہ بات کہہ رہے ہیں یہ تو ہماری توہین ہے
ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ہم نے شرمسار ہو کر معذرت طلب کی اور کہا کہ اچھا تو آپ ہی گاندھیائی فلسفۂحیات کی روشنی میں اس تاخیر کی وجہ بتلا دیں
وہ بولے گاندھی جی کی چوکی پر تین بندر رکھے ہوتے تھے اور آج تک انہیں کسی نے چرانے کی جرأت نہیں کی، وہی اس بارے میں ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔
اچھا یہ یہ چوکی کیا ہوتی ہے ؟ہم نے حیرت سے پوچھا
وہ ہمارے اس سوال پر چونک پڑے اور بولے آپ چوکی نہیں جانتے ؟ ارے میز سمجھ لیں ایسی میز جس کے پیچھے کرسی نہ ہو ؟
اچھا تو کیا انسان اس کے پیچھے کھڑا ہو کر کام کرتا ہے ؟
ارے نہیں بیٹھ کر میرا مطلب زمین پر بیٹھ کر۔ گاندھی جی زمینی آدمی تھے اس لئے زمین پر بیٹھ کر اپنے سارے کام کیا کرتے تھے۔
گویا گاندھی جی انہیں آج کل کے سیاستدانوں کی طرح کرسی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ؟
جی نہیں وہ تو بے غرض مہاتما تھے
لیکن آپ ان نے بندروں کے بارے میں بتلا رہے تھے ؟ کیا وہ اب بھی حیات ہیں ؟ ان کی عمر کیا ہو گی؟ہم نے سوال کیا
یہ سن کر سنکی لال اگروال صاحب کا پارہ چڑھ گیا وہ بولے آپ تو بالکل جاہل اور کندۂ نا تراش معلوم ہوتے ہیں۔ وہ بندر کبھی بھی حیات نہیں تھے وہ تو ان کے مجسمے تھے جو نہ زندہ ہوتے ہیں اور نہ مرتے ہیں اسی لئے اب بھی موجود ہیں
اچھا تو وہ پتھر کے بت چشمے کی چوری کا راز فاش کریں گے ؟
ارے بھئی وہ بندر نہیں بولیں گے اور اگر بولیں بھی تو ہم ان کی زبان کیونکر سمجھ سکتے ہیں
تو پھر آخر اس سوال کا جواب کون دے گا ؟
میں دوں گا۔
اور وہ بندر کیا کریں گے ؟
وہ! وہ کچھ نہ کریں گے میں ان کی مدد سے جواب دوں گا ؟
اچھا تو آپ ان سے پوچھ کر جواب دیں گے ؟ لیکن ابھی تو آپ نے کہا کہ ان کی زبان آپ نہیں سمجھتے
ارے بھئی مدد کا مطلب پوچھنا نہیں ہوتا یہ کہہ کر انہوں نے اپنے میز کی دراز سے تین بندروں کے مجسمے کو نکالا اسپر کافی گردو غبار چڑھا ہوا تھا اسے صاف کیا اور پوچھا اچھا بتلاؤ کہ یہ کیا ہے ؟
یہ ! یہ تو وہی تین بندر ہیں جن کا ابھی آپ ذکر کر رہے تھے
اچھا یہ کیا کر رہے ہیں ؟
یہ سوال مشکل تھا ہم نے کہا یہ کچھ بھی نہیں کر رہے۔ اصلی بندر ہوتے تو کچھ نہ کچھ کرتے۔ یہ بے جان بندر کیا کر سکتے ہیں بھلا ؟
اصل میں تم صرف آنکھوں سے دیکھنے کا کام لیتے ہو دماغ سے سوچنے کا کام نہیں لیتے اسی لئے یہ جواب دے رہے ہو۔
مجھے ان کی بات پر غصہ آیا میں نے کہا صاحب میرا کام سوال کرنا ہے اور جواب دینا آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ پچھلے نصف گھنٹے سے میرے ایک معمولی سوال کا جواب دینے کے بجائے مجھے الجھائے ہوئے ہیں۔
تم کافی جلد باز اور بے صبر قسم کے انسان ہو مفکر نے متفکر ہو کر کہا۔ یہ پوری قوم گزشتہ نصف صدی سے اس بھول بھلیاں میں الجھی ہوئی ہے اور مطمئن ہے جبکہ تم صرف آدھے گھنٹے کے اندر بے چین ہو گئے۔
میں نے کہا صاحب اس سے پہلے کہ میں ان بندروں میں شامل ہو جاؤں آپ میرے سوال کا جواب دے دیں ورنہ یہ تین کے بجائے چار ہو جائیں گے۔
یہ تم نے پتہ کی بات کہی۔ گاندھی جی یہی چاہتے تھے کہ ساری قوم ان کی مانند ہو جائے۔
ان بندروں کی مانند ؟ ہم نے حیرت سے پوچھا
جی ہاں کیاتم نے ان بندروں کو کوئی معمولی چیز سمجھ رکھا ہے کیا ؟ اگر گاندھی جی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو جاتا تو آج کے سارے مسائل حل ہو چکے ہوتے بلکہ سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔
لیکن جناب مجھے اس دور کے سارے مسائل سے کیا غرض میرا تو ایک آسان سا مسئلہ ہے۔ اس بات کا پتہ چلانا کہ آخر گاندھی جی کے چشمے کی چوری کی خبر کو اتنے دنوں تک صیغۂ راز میں کیوں رکھا گیا؟ کیا اس سوال کا کوئی جواب آپ کے یا گاندھی جی کے ان تین بندروں کے پاس موجود ہے ؟
کیوں نہیں ایسا کوئی سوال نہیں ہے جس کا جواب ہم چاروں نہیں جانتے۔ دانشور صاحب نے بڑے فخر سے اپنے آپ کو ان بندروں کے ساتھ شامل فرما دیا۔
آپ لوگ تو سب جانتے ہی لیکن میں نہیں جانتا اس لئے برائے مہربانی مجھے بھی از خود یا ان کے توسط سے بتلا دیجئے۔
کاش کہ تم میں چھٹانک بھر عقل ہوتی اور تم اس کا استعمال کر کے خودبخود اپنے اس سوال کا جواب جان لیتے۔
یہ سن کر ہمارا پارہ چڑھ گیا اور ہم بولے ٹھیک ہے جناب ہم تو آپ جیسے دانشور پرشاد ہیں نہیں اور نہ ان بندروں جیسے عقلمند اس لئے اب اجازت دیجئے ہم اس سوال کا جواب کسی اور سے معلوم کر نے کی کوشش کر یں گے۔ اب ہمیں آپ اجازت دیں۔
یہ سن کر سنکی لال اگروال صاحب آگ بگولہ ہو گئے اور کہنے لگے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ یہاں سے سنتشٹ ( مطمئن) ہوئے بغیر چلے جائیں اور ساری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹتے پھریں کے ہم اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں یہ تو ہماری توہین ہے
لیکن حقیقت بھی ہے۔ ہم نے سر جھکا کر کہا
جی نہیں یہ حقیقت نہیں ہے ہم ہر سوال کا جواب جانتے ہیں ہم نے گاندھیائی فلسفہ کی تحقیق میں اپنی عمر کھپا دی ہے۔
اچھا اگر آپ واقعی جانتے ہیں تو جواب کیوں نہیں دیتے ؟
وہ بولے دیکھو یہ پہلا بندر کس حالت میں ہے ؟
ہم نے اسے غور سے دیکھا اور کہا یہ تو آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ اسے عینک کی کوئی ضرورت نہیں۔
وہ ڈانٹ کر بولے تم سے یہ کس نے پوچھا کہ اسے کس چیز کی ضرورت ہے اور کس کی نہیں جس قدر سوال کیا جائے اسی قدر جواب دو کیا سمجھے ؟
ہم نے کہا سرکار غلطی ہو گئی کاش کے ان میں سے کسی بندر نے سر پر بھی ہاتھ رکھا ہوتا؟
سر پر ؟سر پر کیا ہے ؟
اوپر تو نہیں اندر دماغ ہوتا ہے۔ ہم اس کا استعمال نہیں کرتے اور فاضل جواب نہ دیتے۔
خیر کوئی بات نہیں یہ بتاؤ کہ آنکھوں پر ہاتھ رکھنا کس بات کی علامت ہے ؟
ہم نے جواب دیا کچھ نہ دیکھنے کی علامت ہے صاحب۔ یہ بھی کوئی سوال ہے ؟
تمہارا جواب غلط ہے برخوردار۔ اگر یہ تمہاری طرح معمولی بندر ہوتا تو تمہاری بات صحیح ہو تی لیکن یہ گاندھی جی کا تربیت یافتہ بندر ہے اس لئے اس پر یہ اصول صادق نہیں آتا۔
اچھا تو اس بندرکے آنکھوں پر پٹی رکھنے کے معنیٰ کیا ہیں ؟ہم نے ایک بندرانہ سوال کیا۔
اس کے معنیٰ ہیں برا مت دیکھو؟
ہمیں اس جواب پر حیرت ہوئی ہم نے پوچھا کہ صاحب اگر کسی نے اپنی آنکھوں کو ڈھانپ لیا تو اسے کیسے پتہ چلے گا کہ اس کے سامنے جو کچھ ہے وہ اچھا ہے یا برا ہے ؟
میرے اس سوال پر وہ سنکی لال اگروال کچھ گھبرائے لیکن فوراً اپنے آپ کو سنبھال کر جواب دیا ارے بھئی اس بندر نے اپنی آنکھوں پر ہمیشہ سے ہاتھ نہیں رکھا ہوا ہے بلکہ جب کوئی برائی اس کے سامنے آتی ہے تو وہ ہاتھ رکھ لیتا ہے۔ اب تم ہی بتلاؤ گاندھی جی کی عینک کا چوری ہونا کوئی اچھی بات تھی یا بری بات؟
وہ تو بہت بری بات تھی جناب اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کے بارے بات کرنے کے لئے مجھے آپ تک کیوں بھیجا جاتا؟
تو کیا آپ کا چینل صرف بری باتوں کی اشاعت کے لئے قائم کیا گیا ہے ؟
یہ کس نے کہا؟آپ تو ہمارے چینل پر بیٹھ کرہ مارے ہی چینل پر دشنام طرازی کر رہے ہیں
اچھا تو کیا ایسا کرنے کے لئے میں کسی اور چینل پر جاؤں ؟ کیا آپ لوگ اس طرح کا مواد نشر نہیں کرتے ؟ انہوں نے معصومانہ سوال کیا۔
جی نہیں جناب ایسی بات نہیں آپ کو پوری آزادی ہے آپ تو بس یہ کریں کہ ہمارے چینل پر دوسروں پر من چاہے الزامات لگائیں۔ بہتان ترازی فرمائیں۔ ہم آپ کے اظہار رائے کی آزادی کا پورا احترام کریں گے لیکن اسی کے ساتھ وہ عینک والا معاملہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے انہیں یا دلایا۔
وہ بولے جی ہاں ! جب ہمارے آشرم کے ایک ملازم نے یہ برائی دیکھی تو اس نے اپنی آنکھیں موند لیں اور اس طرح دو ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ پھر اسے کچھ لوگوں نے ڈرایا کہ کہیں تجھ پر چوری کا الزام نہ دھر دیا جائے۔ یہ جان کر وہ ڈر گیا اور اپنی ملازمت بچانے کے لئے یہ بات سربراہِ آشرم کے گوش گذار کر دی۔
اچھا تو وہ سربراہ چار ماہ تک کیوں خاموش رہا؟
ارے بھئی وہ بھی گاندھی وادی آدمی ہے اس نے دوسرے بندر کے اسوہ پر عمل کر تے ہوئے اپنے کان بند کر دئیے۔ گاندھی جی نے بری بات کو سننے سے منع کر رکھا ہے۔
اچھا تو پھر کیا ہوا؟
دو ماہ کا عرصہ دیکھتے دیکھتے گزر گیا اور پھر آشرم کی ڈائمنڈ جوبلی منانے کی خاطر بورڈ آف ڈائرکٹرس کی میٹنگ میں یہ بات بتلا کر ڈائرکٹر صاحب اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے۔ اس لئے کہ وہ صرف اور صرف بورڈ کے سامنے جوابدہ ہیں۔
لیکن بورڈ نے اس سنگین واردات کو سننے کے بعد کیوں چپی سادھ لی ؟
سنکی لال اگروال صاحب مسکرائے اور بولے کاش کے تم نے تیسرے بندر کو غور سے دیکھا ہوتا تو یہ سوال نہیں کرتے۔
ہم نے چونک کر تیسرے بندر کی جانب دیکھا تو وہ منہ پر ہاتھ رکھے بیٹھا ہوا تھا ہمیں بڑی شرمندگی ہوئی ہم بولے اچھا تو پھر یہ راز فاش کیسے ہوا ؟
انہوں نے کہا وہ تو آشرم میں کام کرنے والے ایک گائیڈ نے زائرین کے سامنے اپنی رٹی رٹائی تقریر کرتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ جو آپ لوگ سامنے دیکھ رہے ہیں یہ گاندھی جی کی عینک ہے۔ چونکہ عینک وہاں پر موجود نہیں تھی ایک برطانوی سیاح نے جن کے خلاف گاندھی جی نے آزادی کی تحریک چلائی تھی اسے بھانپ لیا وہ کم بخت تو تھا ہی گاندھی جی کے نظریہ کا دشمن اس نے اخبار والوں کو یہ بات بتلا دی اور تم میرا وقت ضائع کرنے کے لئے چلے آئے
ہم نے کہا صاحب اس بات کا فیصلہ کرنا تو خاصہ مشکل ہے کہ کس نے کس کا وقت ضائع کیا ہے ؟خیر میں اس کے لئے بندروں سے رجوع کروں گا
وہ بولے مجھے امید ہے کہ تمہیں اپنے سارے سوالات کا جواب گاندھی جی کے فلسفہ کی روشنی میں مل گیا ہو گا ؟
ہم بولے جناب گاندھی جی تو کجا ان کے بندر بھی صد فی صد حق بجانب ہیں لیکن آپ کے ایک استنباط سے مجھے اختلاف ہے
اچھا ! وہ کیا؟
آپ نے دورانِ گفتگو کہا تھا اگر قوم گاندھی جی کے ان بندروں کی طرح بن جاتی تو نہ مسائل پیدا ہوتے اور نہ ان کے حل کی ضرورت پیش آتی
جی ہاں میں اب بھی یہ کہتا ہوں، سنکی لال اگروال (عرف)سنکیشور جی خوش ہو کر بولے لیکن اس میں غلط کیا ہے ؟
میرا خیال یہ ہے آج کے سارے مسائل کی وجہ یہی ہے کہ ساری قوم گاندھی کے بندروں کی طرح بن گئی ہے وہ برائیوں کو دیکھتی ہے تو ان سے چشم پوشی کرتی ہے وہ بری بات کوسن کر اسے روکنے کے بجائے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتی ہے اور اس کے خلاف لب کشائی نہیں کرتی منہ بھی بند ہی ہوتا ہے۔
ہماری اس بات کو سن کر سنکی لال اگروال صاحب نے اپنا ایک ہاتھ آنکھوں پر اور دوسرا منہ پر رکھ لیا۔ ہم نے آگے بڑھ کر اپنے دونوں ہاتھ ان کے کانوں پر رکھ کر کہا ناظرین اس گفتگو کو اپنے ذہن سے محو کر دیں اور ٹی وی کے سامنے اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے سماج میں پائی جانے والی برائیوں کے خلاف اقدام کریں
سنکی لال اگروال صاحب کے چہرے پرایک خوش مگیں مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی اس لئے کہ وہ نہ دیکھ رہے تھے۔ نہ سن رہے اور نہ بول ہی رہے تھے۔
٭٭٭
گاندھی جی کے بندر
(قسط دوم)
معروف گاندھیائی مفکر اور دانشور شری سنکی لال اگروال کے دفتر سے جب ہم نکلے تو ان کی میز پر سے تینوں بندر غائب تھے۔ ہم وہاں سے نکل کر سیدھے وردھا کے سیوا گرام پولس تھانے پہنچ گئے۔ دروازے پر سپاہی عجیب سنگھ بیٹھا اونگھ رہا تھا وہ گویا بیک وقت گاندھی جی کے تینوں بندروں کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا۔ نہ دیکھ رہا تھا نہ سن رہا تھا اور نہ ہی کچھ بول رہا تھا۔ ہم نے سوچا موقع غنیمت ہے ورنہ اس کی سیوا کے بغیر اندر حاضری ممکن نہیں ہوسکتی تھی۔ ویسے ہم لوگوں کو اپنے دفتر اس سرکاری افسران کی خدمت پر ایک محدود رقم خرچ کرنے کی پیشگی اجازت دے رکھی تھی اگر کوئی غیر معمولی مطالبہ کیا جاتا تو اس کی خصوصی اجازت لینی پڑتی تھی۔ پہلے اس کی نوبت کم ہی آتی تھی لیکن اب یہ معمولی بات ہو گئی تھی۔ قارئین کو یاد ہو گا ہم سیواگرام آشرم سے گاندھی جی کی عینک کی چوری اور اس شکایت میں تاخیر کی تحقیق و تفتیش کی مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔
پولس تھانیدار کھڑک سنگھ کا دفتر ویران پڑا تھا۔ ہم نے سوچا کہ تھانیدار صاحب بھی شاید اسی مہم پر کہیں باہر نکلے ہوئے ہیں اس خوش فہمی میں گرفتار ہم واپس لوٹے تو اچانک ہمیں آواز آئی ابے یہ تو اب بھی سورہا ہے؟ ہم نے چاروں طرف دیکھا ہمارے آس پاس نہ کوئی آدم نہ آدم زاد!ایک سپاہی تھا جو سورہا تھا پھر یہ آواز کیسی؟اس سے پہلے کہ ہم کسی نتیجے پر پہنچتے دوسری آواز آئی اوئے چپ کر ورنہ جاگ جائے گا تو مسئلہ ہو جائے گا۔ اس بار ہم نے کان لگا کر آواز کوسننے کی کوشش کی تو ہمیں محسوس ہو ا گویا یہ آوازیں ہمارے جھولے کے اندر سے آ رہی ہیں۔ ہمارے لئے یہ دلچسپ انکشاف تھا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے اپنے جھولے میں ہاتھ ڈالا تو ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جھولے کے اندر وہ تینوں بندر براجمان تھے۔ ہم نے ان میں سے ایک کو باہر نکالا تو وہ کمبخت اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا۔ ہم نے کڑک کر پوچھا تم کون ہو؟
وہ بولا صاحب میں۔ میں تان سین ہوں تان سین۔
اور تمہارے ساتھ یہ دونوں کون ہیں ؟
ان میں سے ایک تو نین سکھ ہے اور دوسرا مونی بابا ؟
اچھا تو یہ اندر باتیں کون کر رہا تھا ؟ وہ بولا صاحب یہ میں کیسے جان سکتا ہوں ؟ آپ تو دیکھ ہی رہے ہیں میرے دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھسی ہوئی ہیں۔
ہم نے سوچا بندر کی بات درست ہے ہمیں اس سے یہ سوال ہی نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اب ہم نے دوسرا ہاتھ جھولے میں ڈالا اور دوسرے بندر کو باہر نکال لیا اس نے اپنی آنکھوں کو ڈھانک رکھا تھا ہم سمجھ گئے یہ نین سکھ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا ہم نے پوچھا کیوں تم نے ابھی ابھی کچھ کہا یا نہیں ؟ وہ بولا صاحب آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں اس تان سین سے نہیں پوچھتے جو آپ کو بے وقوف بنا رہا ہے ؟
یہ الزام ہمارے لئے بڑا تضحیک آمیز تھا ہمیں بندر کی بات پر بہت غصہ آیا اور ہم اپنا بنیادی سوال بھول گئے۔ ہم نے پوچھا کیوں ؟بھلا یہ ہمیں کیوں کر بے وقوف بنا سکتا ہے ہم تو پہلے ہی سے اچھے خاصے احمق آدمی ہیں۔
نین سکھ بولا اچھا تو آپ اب بھی نہیں سمجھے اس کا مطلب ہے آپ نہ صرف بے وقوف بلکہ سچے آدمی بھی ہیں۔
ہم نے کہا ہو سکتا ہے لیکن یہ تو تم نے ہمیں دوسری بڑی گالی دے دی خیر یہ بتاؤ کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ؟
کامن سینس صاحب کامن سینس ! اگر یہ ہماری باتیں نہیں سن سکتا تو اس نے آپ کا سوال کیسے سن لیا؟اور آپ کو جواب کیسے دے دیا ؟
ایک معمولی سے بندر نے ہماری عقل کے چودہ طبق روشن کر دئیے تھے اور ہمیں ڈارون کے فلسفے پر یقین آنے لگا تھا لیکن اس سے پہلے کے ہم سنبھلتے تان سین بول پڑا۔ صاحب یہ جھوٹا ہے اول درجے کا ریا کار آپ اس کی ایک نہ سنیں آپ تو نہایت عقلمند آدمی ہیں۔ تان سین کی زبان سے اپنی تعریف سن کر ہم پسیج گئے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ اس کائنات کی سب سے عقلمند ہستی اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہ اس بندر کی ذات ہے جو ہمیں عقلمندی کا سپاس نامہ عطا کر رہی ہے ورنہ اس سے قبل ایسی غلطی کسی سے سرزد نہیں ہوئی تھی۔ ہم نے مسکرا کر پہلے بندر کا شکریہ ادا کیا اور کہا تمہاری بات درست ہے لیکن آخر تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ؟
تان سین مسکرایا اور بولا آپ عقل کے اندھے تو نہیں ہیں لیکن آپ کی بینائی کے بارے میں میرے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ کہیں آپ گاندھی جی کی عینک خود اپنے لئے تو تلاش نہیں کر رہے ؟
اپنے چہیتے بندر کی اس بات نے ہمیں چونکا دیا ہم نے کہا گاندھی جی کی عینک استعمال کریں میرے دشمن۔ میری تو آنکھیں ابھی تک صحیح سلامت ہیں ماشا اللہ۔
سو تو میں دیکھ رہا ہوں۔ بڑی خوبصورت غزال آنکھیں ہیں آپ کی لیکن میں اس کے اندر پائی جانے والی قوت بصارت کی بات کر رہا تھا۔
اپنی آنکھوں کی اس تعریف کے بعد ہم یکسر شرما گئے اور لجاتے ہوئے اٹھلا کر بولے کیسی باتیں کرتے ہو ؟ میری بصارت کو کیا ہو گیا ہے ؟ اچھی بھلی تو ہے۔
اچھا اگر ایسا ہے تو آپ دیکھ نہیں رہے کہ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ اب جس کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہو وہ بھلا کیسے دیکھ سکتا ہے کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا ؟
نین سکھ بولا جھوٹ اور سچ کے درمیان تمیز کرنے کی خاطر آنکھوں کی نہیں کان کی ضرورت پڑتی ہے میری تو آنکھیں بند ہیں لیکن اس کاذب نے کانوں پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود سب کچھ سن رہا ہے اور پٹر پٹر بول رہا ہے۔ نین سکھ کی بات نہایت معقول تھی لیکن چونکہ تان سین کے خلاف تھی جو ہماری تعریف اور توصیف بیان کرتا رہا تھا اس لئے اس کی دلیل کو تسلیم کرنا ہمارے لئے مشکل ہو گیا۔ آخر حقِ نمک بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے ؟ ہم نے کہا کہ بھائیو میں تم دونوں کے دلائل سے خاصہ کنفیوز ہو چکا ہوں اور فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ کون حق پر ہے کون باطل۔
میری یہ بات سن کر تان سین باغ باغ ہو گیا گویا اس کی من مراد پوری ہو گئی ہو۔ وہ بولا آپ واقعی نہایت حق پسند اور صاف گو صحافی ہیں۔ آپ خود اپنے خلاف بھی کسی حقیقت کا اعتراف کرنے سے نہیں کتراتے۔ ہم نے پھر ایک مرتبہ اپنی پیٹھ تھپتھپائی اور دعا کی کہ کاش یہ بندر حکومت کی اعلیٰ سطحی کمیٹی میں موجود ہوتا جو صحافیوں کی تکریم کرتی ہے اور انہیں اعزاز سے نوازتی ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو ہمیں بھی صحافت کے میدان میں پدم بھوشن نہ سہی پدم شری کا خطاب تو مل ہی جاتا۔ ہم نے شکر و احسان کے جذبات سے سرشار ہو کر اپنے پسندیدہ بندر کی جانب دیکھا اور اس کی زلفوں میں ہاتھ پھیرنے لگے۔
اس منظر کو دیکھ کر نین سکھ جس نے آنکھوں پر ہاتھ ر کھا ہوا تھا چراغ پا ہو گیا اور بولا جناب یہ آپ کو اپنی باتوں میں الجھا رہا ہے آپ کی بیجا تعریف بیان کر کے آپ کو بہلا پھسلا رہا ہے۔
یہ تہمت ہمارے لئے ناقابلِ برداشت تھی۔ ہم بولے دیکھو تم اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہو۔ ڈارون نے تمہارے بارے میں جو بھی کہا ہو لیکن تم یہ نہ بھولو کہ تم آخر ایک بندر ہو بندر کیا سمجھے۔
میری یہ تضحیک آمیز جھڑکی تان سین پر گراں گزری۔ اس لئے کہ وہ جو بھی تھا تو بالآخر ایک بندر ہی اور یہ اس کی ساری برادری کی توہین تھی۔ اس نے رسوائی کے اس کڑوے گھونٹ کو کسی طرح زہر مار کیا اور بولا جناب آپ اس احمق کے باعث ہماری برادری کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کریں اگر اپنے کنفیوژن کو دور ہی کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے تیسرے بھائی مونی بابا کا تعاون لیں جو آپ کے جھولے سے ہنوز بند ہے ؟
نین سکھ نے اس تجویز پر زوردار قہقہہ لگا کر کہا لو اس کی سنو یہ اس مونی کو اپنے حق میں گواہ بنا رہا ہے جس نے از خود اپنی زبان بند کر رکھی ہے۔ اس کے ایک منہ پر دو دو ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ دلیل بھی معقول تھی۔ نین سکھ ویسے تو ساری باتیں معقول کرتا تھا لیکن اس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ نہ صرف ہماری تعریف بیان کرنے سے احتراز کرتا تھا بلکہ وقتاً فوقتاً ہماری تذلیل بھی کر دیتا تھا۔ اس کے باعث ہمارے دل میں اس کے خلاف نفرت کے شعلے بھڑکنے لگے تھے جو اس کی ہر معقول بات کو جلا کر بھسم کر دیتے تھے۔
اس موقع پر تان سین پھر ہماری مدد کے لئے آگے آیا اور کہنے لگا اس عقل کے اندھے کو دیکھئے۔ کیا صحیح بات کو کہنے کے لئے بھلا زبان لازمی ہے ؟
ہمارے پاس اس سوال کا جو جواب تھا وہ اس نین سکھ کے حق میں تھا جو ہمارا دشمن تھا اور تان سین کے خلاف تھا جو ہمارا دوست تھا اس لئے ہم نے خاموش رہنے میں عافیت سمجھی۔ لیکن نین سکھ اس موقع پر خاموش نہیں رہا بلکہ بولا جناب عالی آپ اس کے سوال پر خاموش کیوں ہیں بولتے کیوں نہیں ؟ کیا انسان زبان پر تالا لگا کر سچ بات کہہ سکتا ہے ؟
اس سے قبل کہ ہم مجبور ہو کر اپنی من بھر بھاری زبان کو جنبش دیتے تان سین بول پڑا۔ دراصل یہ احمق آج بھی اس پتھر کے زمانے میں جی رہا ہے جب اظہار رائے کے لئے زبان کی مجبوری تھی، سائنسی ترقی سے بالکل بے بہرہ ہے بیچارہ۔
نین سکھ نے جب اپنے بارے میں بے بہرہ کا لقب سنا تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا اور چیخ کر بولا بہرہ ہو گا تو اور تیرا باپ۔ میری تو سماعت الحمد للہ سلامت ہے۔
تان سین مسکرایا اور بولا اس بیچارے کو اردو بھی ٹھیک سے نہیں آتی یہ اتنا بھی نہیں جانتا کہ بے بہرہ کسے کہتے ہیں اور بے بہرہ جو بھی ہو کم از کم بہرہ نہیں ہوسکتا۔ بے لگا دینے سے ہر لفظ اپنی ضد میں تبدیل ہو جاتا ہے مثلاً بے نقاب، بے ایمان، بے ادب، بے عقل، وغیرہ وغیرہ۔ ہم تان سین کی اس دلیل پر جھوم اٹھے اور کہا کیا بات کہی تم نے لاجواب دلیل ہے صاحب۔
ہماری اس تعریف سے کھسیا کر نین سکھ بولا اچھا تو تمہارے اپنے یعنی بے وقوف اور بے فضول کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
تان سین میری جانب دیکھ کر بولا دراصل بے وقوف کون ہے اور عقلمند کون ہے اس کا فیصلہ کرنے کے حقدار تو ہمارے صاحب ہیں لیکن چونکہ وہ ذرا کنفیوژ ہو گئے ہیں اس لئے میں ہمارے بھائی کی مدد لے رہا تھا لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بھائی ہے یا قصائی۔ پہلے تو یہ آپ کی توہین کر رہا تھا اب اپنے بزرگ مونی بابا کا مذاق اڑا رہا ہے۔
نین سکھ بولا اوئے چرب زبان بندر اپنی چاپلوس چونچ کو بند کر اور یہ بتلا کہ وہ جھولے کے اندر بند بیٹھا مونی کیسے اپنا فیصلہ سنائے گا ؟
تان سین بولا اب ہوئی نا کام کی بات اگر کوئی بات معلوم نہ ہو تو سمجھدار لوگوں سے پوچھا جاتا ہے۔ لیکن یہ کام ادب و تمیز کے ساتھ کیا جاتا ہے خیر کوئی بات نہیں جب تو نے پوچھ ہی لیا تو سن۔ فیصلے نہ صرف سنائے جاتے ہیں بلکہ انہیں تحریری شکل میں تم جیسے ڈھیٹ لوگوں کے منہ پر لکھ کر دے مار ا جاتا ہے اور ایسے میں منصف کو فیصلہ لکھنے کے بعد اپنا قلم توڑ دینا پڑتا ہے۔
ہم پھر ایک بار پہلے بندر کی شاندار دلیل پر جھوم اٹھے اور کہا کیا بات ہے ؟ کیا بات ہے میرے شیر ! تمہیں تو بندر کے بجائے لومڑی ہونا چاہئے تھا۔
نین سکھ بولا لومڑی کیوں ؟
اس لئے کہ اسی کو سب سے عقلمند جانور مانا جاتا ہے۔
تان سین کے چہرے پر میری اس تعریف سے پھر ایک بار ناگواری کے آثار نمودار ہو گئے وہ بولا صاحب ویسے آپ آدمی تو بہت نیک طبع ہیں لیکن بے جا مرعوبیت کا شکار ہیں۔
ہم نے پوچھا ارے بھئی ہم نے ایسی کون سی بات کہہ دی جو تمہارے حسنِ طبع پر گراں گزری ؟
تان سین بولا بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے آگے لومڑی اور شیر کس کھیت کی مولی ہیں۔ اس سے پہلے تو ہم بس حضرت انسان کو اپنے سے اعلیٰ و ارفع خیال کرتے تھے لیکن آپ سے ملنے کے بعد ہم اپنے اس خیال پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اپنے چہیتے بندر تان سین کی دیگر بہت سی باتوں کی طرح یہ بات بھی ہمارے سر کے اوپر سے نکل گئی لیکن ہم نے حسبِ عادت استفسار کرنے سے گریز کیا اور سوال کیا بھائی فیصلے تو عدالت میں یقیناً لکھے جاتے ہیں لیکن یہ تمہارا بھائی اپنا فیصلہ کیسے لکھے گا؟
یہ تو بڑا عجیب سوال آپ کر رہے ہیں ارے بھئی جیسے کو ئی پڑھا لکھا انسان لکھتا ہے اسی طرح لکھے گا۔ ہمارے مونی بھی کوئی کم عالم فاضل تھوڑے ہی ہیں وہ تو اس کی انکساری ہے جو انہوں نے اپنی تھیسس نہیں لکھی ورنہ انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینا آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی درسگاہوں کے لئے اعزاز کی بات ہوتی۔
نین سکھ بولا یار اب تو تم کچھ زیادہ ہی بول گئے کیا کیمبرج وغیرہ کی ڈگری پیڑوں کی شاخوں پر لٹکی ہوئی ہوتی ہیں جو کوئی لنگور پھدک کر اچک لے ؟
تان سین اس بات پر چراغ پا ہو گیا اور بولا تم جیسے احساسِ کمتری کا شکار لوگوں کی وجہ سے اس دنیا میں ہماری نسل عزت و توقیر سے محروم ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے ساری دنیا کی درسگاہوں پر ہمارا بول بالا ہوتا۔
ان دونوں بندروں کی لڑائی میں ہمیں غور و فکر کرنے کا نادر موقع مل گیا۔ ہم نے کہا تم کیسے گاندھی وادی بندر ہو جو عدم تشدد کا راستہ چھوڑ کر لڑائی جھگڑے پر تلے ہوئے ہو؟ہم نے بندر بانٹ کا پانسہ ڈالتے ہوئے کہا میں مانتا ہوں کہ تمہارا بھائی لکھنا پڑھنا جانتا ہے لیکن فی الحال میرے پاس قلم قرطاس بھی تو نہیں جو اس پر فیصلہ لکھوایا جا سکے۔
تان سین بولا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ویسے بھی آج کل لوگ قلم دوات سے لکھتے ہی کب ہیں ؟
نین سکھ نے حیرت سے پوچھا۔ اچھا اگر قلم دوات سے نہیں تو کس چیز سے لکھتے ہیں بھلا؟
بھئی زمانہ بدل گیا تان سین اکڑ کر بولا آجکل تو لوگ کمپیوٹر یا فون کے ‘کی بورڈ ’سے لکھتے ہیں اور کاغذ کے بجائے مانیٹر پر اسے پڑھ لیتے ہیں۔
ہاں ہاں وہ تو مجھے پتہ ہے لیکن کیا تمہارا مونی بابا بھی کمپیوٹر چلانا جانتا ہے ؟
آپ یہ کیسا سوال کر رہے ہیں کمپیوٹر تو کیا وہ ہوائی جہاز چلانا بھی جانتے ہیں لیکن چونکہ وہ اپنے منہ سے بولتے نہیں اس لئے کوئی ان کی قدر نہیں کرتا۔
تان سین اور مونی بابا کے آگے ہمیں اپنی کم مائے گی کا احساس ہوا ہم نے کمرے میں ایک جانب اپنا لیپ ٹاپ نکال کر کھولا اور جھولے سے مونی بابا کو نکال کر اس کے سامنے بٹھا دیا۔ مونی بابا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ لپک کر کمپیوٹر چلا دیا اور ایم ایس ورڈ کا صفحہ کھولا۔ کی بورڈ کی سیٹنگ کو بدل کر اسے اردو فونیٹک میں تبدیل کیا اور فیصلہ لکھنے کی ابتداء کر دی۔ سب سے اوپر درمیان میں لکھا شروع اللہ کے نام سے۔ پھر نیچے بائیں جانب کنارے تمہید لکھا اور اس کے آگے یوں لکھنے لگا۔ ہم سب ریا کار ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں لیکن دیکھتے نہیں۔ ہم سنتے ہیں مگر وہی جو ہم چاہتے ہیں اور ہم بولتے ہیں مگر وہ نہیں جو ہمیں بولنا چاہئے۔ اس بیچ پہرے پر بیٹھے ہوئے سپاہی کی آنکھ کھل گئی اس نے دیکھا سامنے ایک بندر کمپیوٹر پر کچھ لکھ رہا ہے اسے لگا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے بھیانک خواب گھبرا کراس نے پھر اپنی آنکھیں موند لیں اور خوابِ خرگوش میں کھو گیا۔
٭٭٭
انسان کے اندر چھپا ہوا بندر
(قسط سوم)
وردھا کے پولس تھانے میں حوالدار عجیب سنگھ نے اپنی آنکھیں بند کیں تو ہم نے عافیت کی سانس لی اور اپنے چہیتے بندروں کی جانب دیکھا۔ نین سکھ (یا مونی بابا؟)بے تکان اپنا فیصلہ ٹائپ کر رہا تھا۔ ہمیں لگا جلد ہی یہ قلم کے بجائے کمپیوٹر کو توڑ دے گا۔ اب ہماری نگاہ نین سکھ کی جانب اٹھی تو دیکھا کہ وہ بھی کنکھیوں میں فیصلے کو پڑھ رہا ہے اور تان سین کے لبوں پر حسبِ معمول مسکراہٹ رقص کر رہی ہے۔ ہم نے بھی مسکرا کر جواب دیا تو وہ بولا صاحب عجیب سنگھ کے دوبارہ سونے کو غنیمت جانئے اور یہاں سے بھاگ چلئے۔
کیوں کیا ہم کوئی چور ڈکیت ہیں جو تم ہمیں اس طرح سے ڈرا رہے ہو؟ نین سکھ بولا
کیا تم نہیں جانتے کہ جب دو بڑے لوگ بات کر رہے ہوں تو درمیان میں ٹپک پڑنا بد اخلاقی میں شمار ہوتا ہے۔ تان سین نے اپنی لن ترانی جاری رکھی۔
دیکھو تان سین میں نے ایک سیدھا سا سوال کیا تھا جس کا جواب دینے کے بجائے تم کچھ اور ہی بکواس کرنے لگے۔
یہ بکواس نہیں حقیقت ہے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ فی الحال ہم لوگ پولس والوں کے نرغے میں ہیں۔ کسی بھی وقت کھڑک سنگھ وارد ہوسکتا ہے بلکہ دوبارہ عجیب سنگھ بیدار بھی ہو سکتا ہے۔
ہوتا ہے تو ہو جائے اور آتا ہے تو آ جائے، ہمارے یہاں آنے کا مقصد ہی ان سے ملاقات کرنا ہے ؟ہم نے جواب دیا
تان سین بولا صاحب ہمیں احتیاط و ہوشیاری سے کام لینا چاہئے
احتیاط کیسا احتیاط؟ہم لوگ پولس تھانے میں ہیں یہاں کون سے خطرات ہو سکتے ہیں
اسی لئے تو احتیاط کی ضرورت ہے کہ ہم تھانے میں ہیں اس سے زیادہ خطرناک جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے ؟
کیا مطلب ہم نے حیرت سے پوچھا؟
تان سین بولا صاحب آپ صحافی ہیں اخبار لکھتے ضرور ہیں لیکن انہیں پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے ورنہ یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ آپ کو پتہ بھی ہے کہ یہ پولس والے عوام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں ؟
انہیں نہیں پتہ تو میں بتلائے دیتا ہوں نین سکھ بولا حالانکہ نہ میں اخبار پڑھ سکتا اور نہ ہی ٹی وی دیکھ سکتا ہوں
اوہو تم تو بڑے انتریامی ہو گئے ؟تان سین نے فقرہ کسا
اس میں انتریامی ہونے کی کیا بات ہے اگر انسان اپنے کان کھلے رکھے تو یہی کافی سے زیادہ ہے۔ میں نے سنا ہے پچھلے دنوں پولس والوں نے مدھیہ پردیش کے ضلع ستنا میں بیچ سڑک پر ایک نیم پاگل آدمی کو لاٹھیوں سے مار مار کر ہلاک کر دیا
اچھا تو گویا پولس والوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ شخص اگر نیم پاگل ہے تو وہ مکمل طور پر پاگل ہیں تان سین نے پھر چٹکی لی
نین سکھ بولا تم عجیب آدمی ہو ایک معصوم انسان کی جان گئی اور تم اس سے مزہ لے رہے ہو۔ تم بندر ہو کر بھی ان انسانوں سے گئے گزرے ہو گئے ہو جو وہاں تماش بین بن کر کھڑے ہوئے تھے
کون کہتا ہے کہ وہ خاموش تماش بین تھے ؟ میں نے تو سنا ہے اس ظلم کی ابتدا عوام ہی نے کی تھی پولس نے تو صرف یہ کیا کہ اسے انتہا تک پہنچا دیا۔ یہ بات مونی بابا نے اپنے فیصلے کے دوران سرخ رنگ میں لکھی اور ہمیں دکھلا کر مٹا دیا
تان سین بولا لیکن لوگ بیچارے کر ہی کیا سکتے تھے ؟
ہم نے کہا کیسی باتیں کرتے ہو تان سین ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہ ایک آزاد ملک ہے وہاں انسانی جان و مال کو دستوری تحفظ حاصل ہے بلکہ یہاں جمہوری نظام رائج ہے جو عوام کا اپنا ہے عوام کے ذریعہ قائم ہوتا ہے اور عوام کی خاطر چلایا جاتا ہے۔
یہ آپ کس ملک اور کن لوگوں کی بات کر رہے ہیں یہ تو میں نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ گزشتہ دنوں جب چار لوگ آندھرا پردیش کے ایس آر نگر میں ایک ایسے ہی قتل کی رپورٹ لکھوانے کے لئے تھانے پہونچے تو پولس والوں نے انہیں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا اب بھلا ایسے میں کون پولس کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت کرسکتا ہے ؟
ہم نے کہا یہ سب اس عظیم ملک کو بدنام کرنے کی خاطر اڑائی جانے والی بے بنیاد خبریں ہیں۔ تم نہیں جانتے ہمارے ملک میں عوام کے سامنے بڑے بڑے رہنماؤں کو ہاتھ پسار کر آنا پڑتا ہے۔
یقیناً انتخاب سے پہلے ایسا ہوتا ہے لیکن اس کے بعد جب یہی عوام ہاتھ پسار کر اپنے حقوق کی خاطر میدان میں آتی ہے تو کیا ہوتا ہے ؟نین سکھ نے پوچھا
تان سین بولا اب تم ہی بتلاؤ کہ کیا ہوتا ہے ؟
میں کیا بتلاؤں تم خود ہی یو ٹیوب پر نالندہ میں خواتین مظاہرین پر ہونے والی پولس کی بہیمانہ لاٹھی چارج کا مشاہدہ کر لو
اچھا یہ تمہیں کیسے پتہ چل گیا تم بھی ان خواتین کے ساتھ زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے ؟تان سین نے فقرہ کسا
نین سکھ بولا تم بھی انسانوں کی چاپلوسی کرتے کرتے بالکل عقل سے پیدل ہو گئے ہو میں نے خود یو ٹیوب پر اس فلم کو دیکھا، نہیں معاف کرنا سنا ہے
فلم دیکھی جاتی ہے یا سنی جاتی ہے ؟تان سین نے پوچھا
دونوں ہی باتیں ہوتی ہیں مجھ جیسے اندھے اسے سنتے ہیں اور تم جیسے بہرے اسے دیکھتے ہیں
یہ کون دیکھنے اور سننے کی باتیں کر رہا ہے ؟ عجیب سنگھ نیند ہی میں منمنایا
تینوں بندر پھدک کر پھر جھولے میں پہنچ گئے اور بولے صاحب نکل چلئے اس سے پہلے کہ یہ ہمیں نیند میں خلل کے سبب دہشت گرد بنا کر پوٹا کے تحت گرفتار کر لے۔ اس کے بعد ہم دہشت گرد ہیں یا نہیں یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری خود ہمارے ہی سر آن پڑے گی۔ آپ کی مدد کے لئے تو صحافیوں کی یو نین آ جائے گی ہم بندروں کا کیا ہو گا ہمارے لئے تو اس کل یگ میں نہ بجرنگ بلی ہے اور نہ بجرنگی۔ یہ مونی بابا بول رہا تھا گھبراہٹ کے مارے اس نے اپنا مون برت تو ڑ دیا تھا۔
ہم بھی ان بندروں کے دلائل سے اچھے خاصے مرعوب بلکہ خوفزدہ ہو چکے تھے اس لئے پہلے تو باہر آئے پھر پوچھا اب جانا کہا ں ہے ؟
تان سین بولا کیوں آپ کا کوئی گھر نہیں ہے کیا ؟ اگر نہیں تو گاندھی جی کی طرح کوئی آشرم بنا لیجئے ورنہ وہیں چلئے۔
ہم نے جھولے کے اندر ہاتھ ڈال کر اندازے سے تان سین کے سر پر ہاتھ پھیر کر اس کا شکریہ ادا کیا اور گھر آ گئے۔
دوسرے دن صبح جب ہم اپنے مہمان خانے میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بندر تو غائب ہیں ان کی جگہ ایک باریش سوامی بھگوا وستر دھارن کئے بیٹھے ہیں۔ سوامی جی کے بغل میں ایک مضحکہ خیز بزرگ سر پر گاندھی ٹوپی لگائے براجمان ہیں اور ایک کونے میں ایک شخص نصف آستین کا ڈیزائنر کرتا پہنے ہوئے اٹالین عینک میں فون پر گودھرا سے سالگرہ کی مبارکباد وصول کر رہا ہے۔ ہم نے سوچا یہ کون لوگ ہیں جو بلا اجازت ہمارے گھر میں گھس آئے اور انہوں نے ہمارے بندروں کو کہاں بھگا دیا؟ ہم نے انہیں پرنام کیا اور پوچھا۔ آپ لوگ کب، کیوں اور کہاں سے یہاں آن پہنچے ؟
عینک والے صاحب نے اپنی خشخشی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تم مجھے نہیں جانتے۔ امریکی انتظامیہ نے مجھے ہندوستان کی وزارتِ عظمیٰ کے لئے مناسب ترین امیدوار قرار دیا ہے اور تم تو جانتے ہی ہوہندوستانی عوام امریکہ سے کس قدر مرعوب ہے۔ اب تو بس انتخاب کا انتظار ہے جب وہ میرے نام پر مہر لگائیں گے اور میں ہندوستان کے تخت طاؤس کو برطانیہ سے واپس لا کر اس پر براجمان ہو جاؤں گا۔
عوام کوتو خیر بہلایا پھسلایا جا سکتا ہے لیکن تمہاری اپنی جماعت کے خواص کا کیا بنے گا؟ہم نے سوال کیا
بھئی دیگر خواص کی مانند ہمارے خواص بھی بکاؤ مال ہیں انہیں وزارت اور دولت کی قیمت پر خرید لیا جائے گا
وہ بھی ٹھیک ہے لیکن میرے وہ بندر کہاں چلے گئے ؟
حضور آپ نے مجھے نہیں پہچانا میں ہی تو ہوں آپ کا چہیتا تان سین
اچھا اور یہ دونوں حضرات کون ہیں ؟
یہ مونی بابا ہیں جو یوگا کرنے میں مصروف ہیں اور یہ گاندھی ٹوپی اپنے نین سکھ نے سر پر سجا لی ہے اس لئے آپ اسے پہچان نہیں پا رہے ہیں
لیکن راتوں رات میں یہ سب کیا ہو گیا۔ اس قدر انقلاباتِ زمانہ ایسی تیزی کے ساتھ پہلے تو برپا نہیں ہوتے تھے ؟ہم نے استفسار کیا
نین سکھ بولا آپ نے ٹھیک کہا زمانہ بدل گیا ہے۔ یہ کل یگ ہے کل یگ۔ پہلے جس کام کو کرنے کے لئے صدیاں درکار ہوتی تھیں اب وہ کام منٹوں میں ہو جاتے ہیں زمانہ جمل کے بجائے جیٹ کی رفتار سے دوڑ رہا ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن راتوں رات داڑھی و چوٹی کا اگ آنا اور دم کا غائب ہو جانا مجھے تو یقین نہیں آتا کہ یہ سب کیسے ہو گیا ؟
ارے بھئی ڈارون نے اپنی مرگِ مفاجات کے فلسفے میں یہی تو کہا تھا کہ جس چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی وہ جھڑ جاتی ہے اور جس کی ضرورت پیدا ہوتی ہے وہ نمودار ہو جاتی ہے۔
یہ سب فلسفے کی باتیں ہیں ان کا حقیقت سے کیا تعلق ؟ہم نے اپنی بے یقینی پر اصرار کیا
تعلق کیوں نہیں ؟ تان سین بولا پرانے لوگوں کو کتنے پہاڑے یاد ہوتے تھے اب کیلکولیٹر نے ان کی ضرورت کواس طرح ختم کیا کہ پہاڑ جیسے پہاڑے روئی کے گالے بن کر اڑ گئے۔
نین سکھ نے پہلی مرتبہ تان سین کی تائید کی اور بولا جی ہاں اس میں کیا شک ہے آپ ہی بتلائیے کہ پہلے آپ کو اپنے دفتر، گھر اور دوست و احباب تک کے ٹیلی فون نمبر زبانی یاد ہوتے تھے جبکہ اب آپ کو اپنا موبائل کا نمبر بھی یاد نہیں رہتا جو آپ کا حقیقی شریکِ حیات بن گیا ہے۔ گویا یادداشت کی ضرورت کم ہوئی تو اسے مشینوں نے نگل لیا۔
بندروں کے دلائل کا قائل ہونے کے بعد ہم نے پوچھا لیکن یہ یوگی بابا تو بہت بولتے تھے اب انہیں کون سا سانپ سونگھ گیا جو مون برت رکھ لیا۔
تان سین بولا آپ نے صحیح کہا جب آدمی بہت زیادہ بولنے لگے تو اس کی بولتی بند کر دی جاتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پہلے زمانے میں ہم لوگ بلیوں کو بانٹ کر اپنا کام چلاتے تھے لیکن آجکل ایک اطالوی بلی ہم لوگوں کو تگنی کا ناچ نچا رہی ہے۔ بابا ہندوستان کی سیاہ دولت کا شور مچاتے تھے جو بیرونِ ملک ہے۔ بلی نے یہ کیا کہ ان سے ان کی سفید دولت کا حساب مانگ لیا جو ملک کے اندر ہے۔ پھر کیا تھا ان کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے اور ایسے میں جب ان کا دستِ راست آگے آیا تو پتہ چلا کہ وہ نہ صرف نیپالی ہے بلکہ غیر قانونی طور پر ان کے آشرم میں عیش کر رہا ہے۔
تان سین کی باتیں سن کر مونی بابا کو غصہ تو بہت آیا لیکن وہ صبر کر گئے اور اپنے یوگ آسن سے باہر نہیں آئے سب کچھ چپ چاپ دیکھتے اور سنتے رہے لیکن کچھ نہیں بولے اب انہیں اس کی عادت ہو چکی تھی انہوں نے از خود اپنی زبان پر قفل لگا لیا تھا لیکن نین سکھ اسے برداشت نہ کر سکا اور بولا تان سین تم کیسے غدار بندر ہو انسانوں کو خوش کرنے کے لئے خود اپنی برادری کو بدنام کرتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہئے
شرم مجھ کو نہیں تم لوگوں کو ان کاموں پر آنی چاہئے جس کے عیاں ہونے سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ تان سین نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ تم خود باتیں تو بڑی بڑی کرتے ہو لیکن اپنی آنکھوں پرسے اس زعفرانی پٹی کو نہیں ہٹاتے جو تمہارے حامیوں نے باندھ رکھی ہے۔ وہ لوگ جو تم سے بولتے ہیں وہی تم لوگوں سے بولتے ہو۔
ان الزامات کو سن کر ہمارا دل دہل گیا اس لئے کہ ہم خود نین سکھ کے ساتھ پاکستان اور امریکہ جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ہم نے پوچھا میرے پیارے تان سین ویسے تو تمہاری ہر بات مجھے صحیح لگتی ہے لیکن پھر بھی ان سنگین الزامات کو میں بغیر ثبوت کے تسلیم نہیں کر سکتا۔
تان سین بولا ویسے تو ثبوت بے شمار ہیں لیکن میں دو مثالیں دیتا ہوں۔ اس نین سکھ نے پہلے حقِ معلومات کی تحریک چلا کر اپنی شہرت بڑھائی اور پھر بدعنوانی کا محاذ کھول کر بیٹھ گیا۔ اس دوران خود اس کے ساتھ بدعنوانی کے خلاف شور شرابا کرنے کے بجائے عملاً کام کرنے والی شہلا مسعود کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس بیچاری نے اسی کی شہ پر اپنی معلومات کا حق استعمال کر کے بدعنوانوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس نے شہلا کے بہیمانہ قتل پر اتنا بھی احتجاج نہیں کیا جتنا کہ کیجریوال پر لگے حقیقی الزامات کی حمایت میں کیا تھا۔ اس لئے کہ شہلا مسعود کے قتل کی سوئی زعفرانی ریاستی سرکار اور سنگھی رہنماؤں کی جانب مڑتی تھی۔ اسے چدمبرم اور چوہان کی ترنگی بدعنوانی دکھلائی دیتی ہے لیکن ریڈی اورامراسے نظر نہیں آتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ صرف بولتا اور سنتا ہے مگر دیکھتا اور سوچتا نہیں ہے۔ اپنے دماغ کا استعمال نہیں کرتا یہ تو بس بھوپوں ہے بھوپوں۔
تان سین کی لمبی تان سن کر نین سکھ تو بیچارہ بے ہوش ہو گیا لیکن مونی بابا نے اپنا برت توڑ دیا اور بولے اوئے تان سین میں نے تجھ جیسا نمک حرام نہیں دیکھا تو جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں سوراخ کرتا ہے۔ سب سے پہلے تو نے کیشو کے پیر چھوئے اور پھر اسی کے قدم اکھاڑ دئے۔ اس کے بعد توگاڑیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر اس کا گلا دبا دیا۔ اپنے بچپن کے دوست پنڈیا تک کو موت کے گھاٹ اتارنے سے تو نہیں ہچکچایا۔ اڈوانی کی رتھ کامہا رتھی بنا اور اب اسی کی ہوا نکال دی۔ امیت شاہ کے ذریعہ ونجارہ سے فرضی انکاؤنٹر کرواتا رہا اور پھر دونوں کو بلی کا بکرا بنا کر ٹھکانے لگا دیا۔ تجھے مسلمانوں کا ووٹ بنک نظر آتا ہے لیکن عشرت جہاں اور سہراب الدین کے خون کے دھبے نہیں دکھلائی دیتے کل تک تومسلمانوں کے قتل عام کو جائز قرار دے کر ہندوؤں کے ووٹ مانگتا رہا اور اب ان کی مسیحائی کا دم بھرنے لگا ہے۔ شرم تو تجھے آنی چاہئے بلکہ چلو بھر پانی میں تجھے ڈوب مرنا چاہئے۔ تو صرف اپنے مفادات کو دیکھتا ہے اور اس کے لئے بے تکان بولتا ہے۔ تجھے نہ تو فساد زدگان کی آہ وبکا سنائی دیتی ہے اور نہ ہی سنجیو بھٹ جیسے پولس افسر کے ضمیر کی آواز۔ تو سمجھتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی مدد سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دے گا لیکن یہ سب اس قدر آسان نہیں جتنا کے تو سمجھتا ہے۔
یوگی بابا کی تقریر سن کر نین سکھ کی آنکھیں کھل گئیں انہوں نے اپنی آنکھوں پر لگی پٹی کو اتارا اور بولے یوگی بابا آپ نے میری آنکھیں کھول دی ہیں دراصل ہم نے بنیادی غلطی یہ کی کہ ہم انسانوں سے مرعوب ہو گئے اور انسان بننے کی کوشش کرنے لگے یہی ہماری سب سے بڑٰی غلطی تھی یہ کہہ کر نین سکھ نے اپنی گاندھی ٹوپی کھڑکی سے باہر ہوا میں اچھال دی مونی بابا نے کہا تم نے صحیح کہا نین سکھ یہ چوٹی اور یہ چولہ یہ سب کچھ پاکھنڈ(منافقت) ہے۔ یہ ہمیں نہیں انسانوں ہی کو زیب دیتا ہے۔ یوگی بابا نے جیسے ہی سر پر ہاتھ پھیرا چوٹی غائب ہو گئی اور اندرسے وہی پرانا بندر نمودار ہو گیا جو چولے کی حاجت سے بے نیاز تھا۔ تان سین نے دو دیرینہ ساتھیوں کو اپنی پرانی حالت میں جاتے دیکھا تو اس صدمے کو برداشت نہ کرسکا اور کھڑکی سے باہر کود گیا۔
دوسرے دن گلی کے نکڑ پر جہاں تان سین کی لاش ملی تھی ہنومان چالیسا کا پاٹھ ہو رہا تھا ماروتی کے نئے مندر کا سنگِ بنیاد رکھا جا چکا تھا اور بے شمار نئے اور پرانے بندر جمع ہو کر جئے بجرنگ بلی کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔
٭٭٭