فہرست مضامین
- گئے خواب کہاں
- حمد باری تعالیٰ
- نعت شریف
- نعت شریف
- مولا علیؓ علیؓ
- میرا حسینؓ
- ماں کہتی تھی
- پیر سیّد نصیرالدین نصیرؒ آف گولٹرہ شریف
- کب دیکھیں گے
- کربِ تنہائی
- ہاتھ سینے پہ دھَرا ہے تو دھَرا رہنے دو
- تعلق جس سے ہوتا ہے پُرانا، ٹوٹ جاتا ہے
- دل میں حسرت ہے کہ پیدا ہوں وہ امکاں جاناں
- مجھ کو تاریک و سیہ رات پہ رونا آیا
- بے وفا ہو کے بے وفا نہ لگے
- کسی کی محفل میں لگے ہم کو جگہ اپنی ہے
- رُک گئی آس کی بارات خدا خیر کرے
- سر زمیں کیسی بنی کس دیس میں رہنے لگے
- ہر رشتے میں دھوکہ دیکھوں
- اِک سے ہم نے آس لگائی کیا پایا؟
- خوابوں کی تعبیر بھی دیکھوں
- یہ زندگانی کس لیے؟
- رہو زمیں پر ارادہ رَکھو تنے ہوئے آسمان جیسا
- سنتے رہے ہر بات وہ اوروں کی زبانی
- گزرا ہے وہ پھر کرب کی اِک ڈور ہلا کر
- چُپ چاپ سے ہستی کو بِکھرتا ہوا دیکھوں
- مَیں نے خوش ہو کے ہر اِک الزام اپنے سَر لیا
- دل سمجھائیں آخر کب تک
- آشنا کوئی ہونے والا ہے
- ہر طرف سے ہی اکیلا ہوں مگر کیا کیجے
- مرے ہمسفر مرے معتبر مرے راہ بَر مرے چارہ گر
- وہ کون تھے ڈھونڈوں دنیا میں جنھیں جان سے پیارا مَیں بھی تھا
- زندگانی اِک خوشی کا ہے سفر کہنا پڑا
- بے لوث کوئی اپنا طرفدار نہ دیکھوں
- جو زندگانی سے پایا وہ سب ہی ہار چلے
- خواب آنکھوں میں بساتا ہی چلا جاتا ہوں
- جب چمک ملی جب حِرص بڑھی ظُلمت کو ضیا ہم کہتے رہے
- تھے اکیلے، رہے تنہا تنہا یہاں چاہے جتنے بھی ہم آئینے دیکھتے
- میں نے کیں اتنی خطائیں وہ خطا یاد نہیں
- کچھ بھی نہیں سمجھے لوگ یہاں
- درد دنیا سے چھُپا لو یہی سرمایہ ہے
- اب بھی اُس کا یہ ساتھ ممکن ہے
- آ جاؤ مرے پاس ذرا شام سے پہلے
- پیدا ہوئے کچھ لوگ گلابوں کے لیے ہیں
- داغ فرقت کے مرے دل پہ ذرا رہنے دو
- زندگی ایک پیہم سفر جس میں ہیں امتحاں امتحاں
- جس نے بھی ترے غم کی تلاوت نہیں سیکھی
- دیئے جذبے وفاؤں کے خدا نے مجھ کو کافی ہیں
- کیوں لگی دل کی لگی دل نہ جلا جلدی سے
- وہی ہیں آنکھ میں اب جیسے کوئی خواب سے لوگ
- دل میں جو بسا صاحبِ اسرار کہاں ہے
- جانے پہنچے ہیں کہاں پر سلسلے اُس بات کے
- پہلے سے وہ اب اُن کے بھی تیور نہیں ملتے
- دل اُسی اِک ذکر سے آباد ہونا چاہیے
- یہ دِل حزیں رہے مضطرب کسی دکھ نے اس کو رُلا دیا
- ہے سرور اِک غضب کا ملا اِک سکوں تھکن میں
- میں چاہتا ہوں کہ مجھ کو بھی میرے خواب ملیں
- دل میں حسرت ہے ہمارے لیے بولے کوئی
- یہ دل ہم آزما دیکھیں
- جو بھولے سے کل اپنا ہی عکس دیکھا
- مرے ارمان سب دل کے ہیں آنکھوں میں اُمڈ آئے، کرم ہم پہ وہ فرمائے
- پھولوں کی طرح ہے وہ صباؤں کی طرح ہے
- اُڑتے ہیں ہواؤں میں ملے اُن سے ہیں جب سے
- سدا کھوئے سے رہنے کی یہ عادت چھین لے مولا
- چھُپ چھُپ کے وہ قاتل سی نگاہ دیکھ رہا ہوں
- لکھا تھا لوح کا، دل میرا لخت لخت ہوا
- زمانے کی نگاہوں میں سیاست بڑھتی جاتی ہے
- ذرا سانس لے لیں، سنبھل دیکھتے ہیں
- میرے لیے وہ دھوپ میں بادل کہاں بنا
- کوئی بتلائے قریں میرے وہ دَر کتنا ہے
- نہ آرزوؤں کا خون کرنا کہیں ہمیں تم بھلا نہ دینا
- ہم اسی نام کی دن رات صدا دیتے ہیں
- نہ بھاگ تو اِدھر اُدھر کہ سانپ آستیں میں ہے
- ہے کون جو اِس کان میں رس گھول رہا ہے
- اب نہ رُکنے سے رُکے گا یہ حسینی کارواں اِن کوفیوں کے درمیاں
- جب سے وہ جاناں ہو گئے
- اپنی بسر نہ ہو، وہ عبادت کیے بغیر
- ولولے، جذبات نہ ہوں تو ملے منزل کہاں
گئے خواب کہاں
فیصلؔ زمان چشتی
تشکر: کتاب ایپ
ڈاؤن لوڈ کریں
حمد باری تعالیٰ
مخلوق ہیں خالق سے عطا مانگ رہے ہیں
سخیوں کے سخی تجھ سے دُعا مانگ رہے ہیں
چوکھٹ پہ تری جِنّ و مَلک، اِنس پڑے ہیں
چھوٹے بڑے سب شاہ و گدا مانگ رہے ہیں
ہر ایک ہی موسم کا تُو ہر رُت کا خُدا ہے
رُخ پھیر خزاؤں کا، صبا مانگ رہے ہیں
اوصاف سبھی کھو دیے عصیاں کے سبب سے
جو عرش پہ پہنچے وہ نوا مانگ رہے ہیں
ماضی ہمیں لوٹا دے وہی وقت سنہرا
ہم پھر سے وہی غارِ حرا مانگ رہے ہیں
دِل میں شہِ کونینؐ کی چاہت کو بَسا دے
ہم تجھ سے یہ کب ارض و سما مانگ رہے ہیں
کر دے تُو عطا رومیؓ و جامیؓ سی بصیرت
بیمار ہے روح تجھ سے شفا مانگ رہے ہیں
پھر ہم کو ملے ایک حسینؓ ابنِ علی سا
رستہ جو دکھائے وہ ضیا مانگ رہے ہیں
وہ روح ملے جس کی زمانوں پہ نظر ہو
ہو جس میں بقا ایسی فنا مانگ رہے ہیں
نادان ہیں، بھٹکے ہیں بیابانوں میں فیصلؔ
بھولے ہیں تو منزل کا پتہ مانگ رہے ہیں
٭٭٭
نعت شریف
منظر کبھی آنکھوں میں ہو طیبہ کی فضا کا
دیکھوں میں کبھی کاش اثر اپنی دُعا کا
معبود کی پہچان ہوئی آپؐ کے در سے
اِک آپ نے دنیا کو بتایا ہے خُدا کا
اُمّت مری اُمّت مرے اللہ مری اُمّت
عالم کو دیا آپ نے دستور وفا کا
انداز اَمر کر دیے سب آپ کے، ربّ نے
قرآن گواہ ہے تری اِک ایک اَدا کا
دنیا کو ہے پھر آپ کی اِک بار ضرورت
بدلا ہوا پھر رُخ ہے زمانے کی ہَوا کا
اِک نظرِ کرم ہو کہ سبھی کھوٹے، کھرے ہوں
یہ وقت ہے پھر آپ کی اُمّت کی بقا کا
اب اُسوۂ شبیرؓ کی تقلید عطا ہو
ہر گام ہے اِک معرکہ پھر کرب و بَلا کا
الفاظ میں ممکن نہیں رُتبہ وہ سمیٹوں
اعزاز ہے حاصل اُنہیں محبوبِ خدا کا
نائب کا لقب آپؐ کی نسبت سے ہے فیصلؔ
مضبوط ہے رشتہ وہی بندے سے خُدا کا
٭٭٭
نعت شریف
اب جہاں میں نہ کچھ ذرا چاہوں
اُن کو چاہا ہے اور کیا چاہوں
نقش آنکھوں میں ایک اُن کا رہے
اِن نگاہوں سے وہ وفا چاہوں
اُن کی چوکھٹ سے ہی رہے نسبت
دِل کا اُن سے ہی رابطہ چاہوں
لوگ کہہ دیں ہے اُن کا دیوانہ
اس سے اعزاز کیا بڑا چاہوں
دیکھ لوں روبرو حضورؐ کو مَیں
اپنی قسمت کی انتہا چاہوں
دو جہاں ہی مرے سنور جائیں
ایک نظرِ کرم ذرا چاہوں
اُن کی چاہت میں خود فنا کر لوں
اپنی ہستی کی وہ بقا چاہوں
ایک خواہش ہے اِک تمنّا ہے
ساتھ محشر میں آپؐ کا چاہوں
دردِ دنیا نکال دے دل سے
دل میں بس آپؐ کی جگہ چاہوں
اُن کا دیدار ہی تو درماں ہے
مَیں ہوں بیمار اب شفا چاہوں
اُن سے پاتا ہے فیض اِک عالم
مَیں بھی کملی میں اب جگہ چاہوں
ڈگمگایا ہوں دہر میں فیصلؔ
اُن کی رحمت کا آسرا چاہوں
٭٭٭
مولا علیؓ علیؓ
ظلمت کی شب میں نور، اُجالا علیؓ علیؓ
دشتِ بلا میں ایک سہارا علیؓ علیؓ
درپیش ہو حرارتِ ایماں کا جو سفر
دل سے لگاؤ ایک ہی نعرہ علیؓ علیؓ
جن پہ شہِ ولایتِ حق کے قدم لگے
کہتا ہے آج تک وہی رستہ علیؓ علیؓ
ملتا ہے پنجتن کی عنایت سے با خدا
مانگو خدا سے آج ہی صدقہ علیؓ علیؓ
کتنا ہوں خوش نصیب کہ لجپال وہ ملا
سب پہ کرم تمہارا ہے مولا علیؓ علیؓ
پھولوں نے خوشبوؤں نے یہ کلیوں نے بھی کہا
گلشن میں جا بجا ہُوا چرچا علیؓ علیؓ
زیرِ لحد فرشتے بھی پھر ساتھ ہو گئے
نعرہ وہاں جو ہم نے لگایا علیؓ علیؓ
دیکھو غدیرِ خْم میں علیؓ کے مقام کو
اس روز سے سبھی کا ہے مولا علیؓ علیؓ
خیبر نہ بھول پایا، وہ ضربِ کمال تھی
صدیوں سے کہہ رہا ہے کہ واہ واہ علیؓ علیؓ
پڑھنے کو تیرا نام تو ہر لب ہے بیقرار
گونجا ہے کیسی شان سے نعرہ علیؓ علیؓ
جنّت بنا دی رب نے تو جاگیرِ پنجتن
پائے وہی جو بن گیا تیرا علیؓ علیؓ
مشکل کشا لقب بھی ہے زیبا فقط تمہیں
دکھ میں تڑپ کے دل نے پکارا علیؓ علیؓ
رب سے کہوں گا میں تو علیؓ کا ملنگ ہوں
لکھنا کفن پہ اِس کا ہے مولا، علیؓ علیؓ
نطق و دہن میں ایک حلاوت سی آ گئی
جب بھی زباں سے ہم نے نکالا علیؓ علیؓ
دیں کے فلک پہ روشنی دینے کے واسطے
مہتاب ہے نبیؐ تو ستارا علیؓ علیؓ
اُن کی ہی ذات علم و عمل میں کمال ہے
پیاسا ہے یہ جہان تو دریا علیؓ علیؓ
لاکھوں کی ایک بات ہی کہتا ہوں مختصر
فیصلؔ غلام اور ہے آقا علیؓ علیؓ
٭٭٭
میرا حسینؓ
حق و باطل کی کھُلی اِک داستاں میرا حسینؓ
حرمتِ اسلام کا ہے پاسباں میرا حسینؓ
اِک سعادت ہے ترا کردار ماہِ کربلا
رہتی دنیا تک رہے گا جاوداں میرا حسینؓ
کربلا میں موت بھی حیرت بداماں رہ گئی
صبر و ہمت کا ہے بحرِ بے کراں میرا حسینؓ
رسمِ شبیری ادا کر ظلمتوں کے عہد میں
استعارہ حق کا اور حق کی زباں میرا حسینؓ
جو مٹانے آئے تھے وہ بے نشاں ہیں حشر تک
تا قیامت اس جہاں میں ضو فشاں میرا حسینؓ
اُن کے پیغامِ اٹل سے ہوں سبھی اب فیضیاب
آسمانِ حق پہ اِک ابرِ رواں میرا حسینؓ
بات جب دیں کی بقا کی اُن پہ آ کر رُک گئی
پھر نہ دیکھے کوئی بھی سود و زیاں میرا حسینؓ
یہ مشیّت تھی خدا کی، کربلا وہ آ گئے
ورنہ کوفی تھے کہاں اور تھا کہاں میرا حسینؓ
آشکار اس در نے کی ہے معنویت صبر کی
عزم و استقلال کا اِک آسماں میرا حسینؓ
حضرتِ عباسؓ سا بھائی کہاں سے مل سکے
کربلا کو دے گیا شیرِ جواں میرا حسینؓ
اِک وہی نقشِ کفِ پا ہے ہماری آرزو
ہم وہیں جائیں گے جائے گا جہاں میرا حسینؓ
جس کی اِک اِک بوند میں پنہاں ہیں اسرارِ جہاں
لکھ گیا وہ داستانِ خونچکاں میرا حسینؓ
اَمر ہے اُن کی وفا اسلام سے اب حشر تک
کلمۂ حق پڑھ گیا نوکِ سناں میرا حسینؓ
پھر یزیدِ وقت کی للکار کا ہے سامنا
سوچتا ہوں کاش ہوتا اب یہاں میرا حسینؓ
اُن کے غم میں ڈوب کر پاؤ گے رمزِ دو جہاں
آسمانِ معرفت کی کہکشاں میرا حسینؓ
دینِ نانا کے لیے کیا کیا نہ وہ سہتے گئے
تشنگی، تیغِ عدو، ضربِ سناں میرا حسینؓ
اس یزیدی عہد میں کب تک جئیں کیسے جئیں
ہر بشر کی ہے دہائی ہے کہاں میرا حسینؓ
نورِ عینِ فاطمہؓ، پسرِ علیؓ، سبطِ نبیؐ
کتنی پیاری نسبتوں کے درمیاں میرا حسینؓ
جس کے دامن میں سبھی مظلوم پائیں آسرا
تاقیامت بن گیا ہے وہ اَماں میرا حسینؓ
ہر تیقّن کے لیے اِک نام کافی ہے وہی
دہرِ ظلمت میں بنے حق کی اذاں میرا حسینؓ
زندگی کی ہر مسافت میں ہیں وہ پیشِ نظر
میری منزل اور میرِ کارواں میرا حسینؓ
وقت ہے یہ اِبتلا کا کربلا پھر سج گیا
ڈھونڈتا پھرتا ہے فیصلؔ ہے کہاں میرا حسینؓ
٭٭٭
ماں کہتی تھی
دور آنکھوں سے نہ جاؤ مجھے ماں کہتی تھی
اِک جھلک اپنی دکھاؤ مجھے ماں کہتی تھی
اپنی ہی جان پہ سہہ لوں گی ترے نام کے دکھ
اشک آنکھوں میں نہ لاؤ مجھے ماں کہتی تھی
میرے الزام بھی سر لے کے بھرم رکھتی تھی
سر تم اپنا نہ جھکاؤ مجھے ماں کہتی تھی
تو کہیں جائے تو حافظ ہو خدا پاک تیرا
لوٹ کے خیر سے آؤ مجھے ماں کہتی تھی
تو جو روتا ہے تو آنسو وہ مرے ہوتے ہیں
دل کو صدمے نہ دکھاؤ مجھے ماں کہتی تھی
پاس آئے ہو تو اپنی یہ تھکن بھی دے دو
حالِ دل اپنا سناؤ مجھے ماں کہتی تھی
کیسا رشتہ ہے کہ ماں صدقے ہو واری جائے
دکھ نہ اس دل میں بساؤ مجھے ماں کہتی تھی
تجھ سے کچھ اور نہیں مجھ کو تقاضا واللہ
اپنا چہرہ ہی دکھاؤ مجھے ماں کہتی تھی
غم سبھی ڈال دے فیصلؔ تُو مری جھولی میں
مجھ کو خوش ہو کے دکھاؤ مجھے ماں کہتی تھی
٭٭٭
پیر سیّد نصیرالدین نصیرؒ آف گولٹرہ شریف
کرب میں آرام میں مُضطر اکیلا چھوڑ کر
کیوں چلے دشتِ بلا میں ہم کو تنہا چھوڑ کر
اِس چمن میں ہر طرف اب رُت خزاں کی چھا گئی
آپ کی فرقت اچانک اِک قیامت ڈھا گئی
تم کہاں پر جا بسے آنگن یہ سُونا چھوڑ کر
آپ ہم سب میں نہیں آتا نہیں ہے یہ یقیں
ڈھونڈلیں ہم آپ سا ماہِ جبیں ممکن نہیں
کس کو اب دیکھیں گے ہم چہرہ تمہارا چھوڑ کر
ہم شکستہ حال، بے بس، دل بڑے بے چین ہیں
آپ کے دیدار کو ترسے یہ بھیگے نین ہیں
چل دیئے کس دیس ساجن ہم کو روتا چھوڑ کر
عکس تھا مہرؒ و محی الدینؒ کا میرا نصیرؒ
اب جہاں ڈھونڈے گا لے کے مشعلیں تم سا نصیرؒ
ہم کہاں جائیں ترا نقشِ کفِ پا چھوڑ کر
تیری فرقت سے مری ہستی بکھر کر رہ گئی
میری ہر اک آرزو اِن آنسوؤں میں بہہ گئی
اس طرح جاتا ہے کوئی جاں سے پیارا چھوڑ کر
جن کے بِن ہم ایک لمحہ اِک گھڑی جیتے نہیں
جو ہماری جاں کے مالک اور ہیں دل کے مکیں
کیوں چلے جاتے ہیں وہ ہم کو خدایا، چھوڑ کر
تیرے اپنے، یار، سنگی، معتقد ہیں سوگوار
ڈھونڈتے پھرتے ہیں تیری ہم نشینی کی بہار
ایسے جاتا ہے کہاں کوئی مسیحا، چھوڑ کر
معرفت کے جام تو سب کو عطا کرتا رہا
آپ کی محفل میں کوئی تشنہ لب رہتا نہ تھا
کیوں گئے ساقی مرے عالم کو پیاسا چھوڑ کر
رحمتیں خالق کی برسیں تیری روحِ پاک پر
مرحبا یا سیّدی کی تھی صدا افلاک پر
خُلد میں تم جا بسے ہم سب کی دنیا چھوڑ کر
عکس اُن کا اب نظام الدین کی صورت میں ہے
اُس گھرانے سے محبت خون میں فطرت میں ہے
آشنائی اُن سے فیصلؔ ہے زمانہ چھوڑ کر
٭٭٭
کب دیکھیں گے
ظلمت کی ہے شب تاریک و سیہ ہم اس کی سحر کب دیکھیں گے
ظالم پہ گرے بجلی بن کر سب ایسی نظر کب دیکھیں گے
منجدھار میں ہم اُس پار کہاں اِس قافلے کا سالار کہاں
اپنوں کی عنایت دربدری بھٹکائیں ہمیں اغیار کہاں
منزل کی طرف جو جاتا ہے ہم ایسا سفر کب دیکھیں گے
ایوانوں میں اِک لرزہ ہو جِسے تخت کی بھی نہ پروا ہو
ایمان بنے خدمت جس کا ایسا تو اِک دل والا ہو
یہ سنگریزے بے وقعت ہیں ہم لعل و گہر کب دیکھیں گے
معمول بنا خود کُشیوں کا لاچار یہاں ہر اِک بندہ
جس کو دیکھا آزردہ ہے ہو کون مداوا دکھیوں کا
جو گھر مثلِ فردوس بنے دیوار وہ دَر کب دیکھیں گے
ہر سمت تڑپتے لاشے ہیں آلام کے بڑھتے سائے ہیں
خودکش حملے روکو جس نے کئی جلتے دیپ بُجھائے ہیں
اپنوں کے مسائل جو سمجھیں وہ اہلِ ہنر کب دیکھیں گے
اُجڑا ہے چمن ترے ہاتھوں سے جس کا رشتہ ہے سانسوں سے
اِس گلشن کی بربادی کو دیکھا اپنی اِن آنکھوں سے
پھر بھی اس دل میں ہے خواہش ہم برگ و ثمر کب دیکھیں گے
اِسلام کو ہے چھوڑا ہم نے قرآن سے منہ موڑا ہم نے
مغرب کی ادائیں اپنائیں آئین اپنا توڑا ہم نے
رب سے ہے نبیؐ سے پھر شکوہ رحمت کی نظر کب دیکھیں گے
ہر سمت سے اب یلغار ہوئی اُمّت کی حالت زار ہوئی
سب سے ارزاں ہے خون اس کا دکھ سہہ سہہ کے لاچار ہوئی
جو بدر و حنین ہیں اُترے تھے پھر وہ لشکر کب دیکھیں گے
سب دست و گریباں ہیں باہم لڑوائے ہمیں سارا عالم
اب اپنا یقین بھی نہیں محکم کس میں ڈھونڈوں عملِ پیہم
حسرت ہے پھر بھی، باطل کو ہم زیر و زبر کب دیکھیں گے
کوئی عمرؓ سا اب شاہکار بنے کوئی خالدؓ کی تلوار بنے
کوئی ایوبیؒ للکار بنے کوئی اقبالیؒ افکار بنے
آنکھیں فیصلؔ پتّھرا سی گئیں پھر وہ لشکر کب دیکھیں گے
٭٭٭
کربِ تنہائی
میں زندگی کے سفر میں اب تک
پھرا ہوں گمنام راستوں پر
چلا ہوں برفاب وادیوں میں
کٹھن سے پُر خار جنگلوں میں
نجانے کیسی مسافتوں میں
مگر میں حیران رہ گیا ہوں ہر اک سفر میں
میں سوچتا ہوں کہ
کرب تنہائیوں کا پھر بھی نہ کم ہوا ہے
یہ بات کیا ہے
تو پھر اچانک جواب دل نے ہی دے دیا ہے
ملے ہیں لاکھوں ہزاروں مجھ کو اسی سفر میں
مگر تھے اکثر ہی لوگ اُن میں
بہت ہی کم اُن میں پائے انساں
میں اب تو اس کو کہوں گا ایسے
کہ آیا قحط الرجال جس میں
کہاں سے انسان ڈھونڈ لائیں
مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے
میں اس جہاں میں پھروں اکیلا
ہر اک طرف سے ہے خوف مجھ کو
میں دیکھتا ہوں کہ اس نگر میں
ہیں سب پریشاں ہیں سب پشیماں سبھی ہیں نالاں
ہر اِک گریزاں ہے دوسرے سے
یہ اپنی سب بد گمانیاں ہیں
میں سب کے دل میں ہی چور دیکھوں
ہیں سب کے دل مضطرب، پریشاں، دکھوں میں لپٹے
میں سب کی سوچوں میں کرب کی کرچیاں سی پاؤں
ہے وسوسوں کی چبھن سی دل میں
ہر ایک شاکی ہے دوسرے سے
وفا جہاں سے اب اُٹھ گئی ہے
کسی کو کوئی نہ اپنا جانے
ہر ایک دل پر ہوس ہے چھائی
سو ایسی حالت میں درد اپنے نہ ہوں گے تھوڑے
اَلم جو محسوس کر رہے ہیں
اُسی میں سب لوگ ڈھل رہے ہیں
یہ درد دھیرے ہی دھیرے سب کو جلا رہا ہے
ہے اس کا اک ہی علاج اب تو
نکال پھینکیں دلوں سے اپنی کدورتیں سب
سبھی کے دکھ درد ہم بٹائیں
سبھی کے ہم لوگ کام آئیں
ہر ایک کو اپنا جانیں اب کے
ہر اِک خوشی میں ہر اِک غمی میں
جو دوسروں کو شریک کر لیں
یہ دل محبت کے آبِ زم زم سے پاک کر لیں
سبھی جو اخلاص میں نہائیں
یہ اپنے اپنے دلوں کے اندر جو نفرتیں ہیں
اُنھیں مٹائیں
محبتوں کا لباس پہنیں
وفاؤں کی خوشبوئیں لگائیں
یہ کربِ تنہائی کم کریں ہم
ہر ایک چھت پر خلوص والے دیئے جلائیں
چلو کہ آئیں!
٭٭٭
ہاتھ سینے پہ دھَرا ہے تو دھَرا رہنے دو
اپنا بنتا ہی نہیں اُن سے گلہ، رہنے دو
حبسِ افکار گھٹن اور بڑھا دیتی ہے
کوئی دروازہ تو امکاں کا کھُلا رہنے دو
خود جو ایثار کریں گے تو سحر پھیلے گی
ظلمتِ شب کو مرا دل ہی جَلا رہنے دو
کیوں دُعاؤں سے تُو تقدیر بدلنا چاہے
جو ہے یزداں کو پسند اُس کو لکھا رہنے دو
جس کی مہکار خزاؤں میں معطر رکھے
میرے آنگن میں وہی پھول کھِلا رہنے دو
میری خاطر نہ کرو کوئی تکلّف جاناں
اپنا اُٹھتا ہوا یہ دستِ دُعا رہنے دو
ہم جو بولیں گے کہانی وہی دُہرائیں گے
ہم ہیں خاموش تو خاموش ہُوا رہنے دو
ریزۂ حرف کو مضمون بنایا جس نے
جذبۂ شوق وہی دل میں بَسا رہنے دو
پھر نہ پاؤ گے کہیں وحشتِ ہستی کا علاج
اپنا دامن جو بچا ہے تو سِلا رہنے دو
ہم کو جو کچھ بھی ملا اُسی کو مقدر سمجھا
دکھ مرے نام جو ہیں اُن کو مرا رہنے دو
دیکھنا عکس کہیں اُن کا نہ دھندلا جائے
اشک آنکھوں میں ہمیشہ نہ بھرا رہنے دو
اپنا ہو گا کبھی فیصلؔ صفِ شاہاں میں شمار
آ کے بیٹھے گا مرے سر پہ ہُما، رہنے دو
٭٭٭
تعلق جس سے ہوتا ہے پُرانا، ٹوٹ جاتا ہے
جِسے چاہیں رہے قائم وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے
مجھے اب خواب سارے ہی ڈراؤنے سے نظر آئیں
کبھی آ جائے جو سپنا سہانا ٹوٹ جاتا ہے
جسے پڑھنا مری عادت مرا ایمان بن جائے
مری یادوں کی تسبیح سے وہ دانا ٹوٹ جاتا ہے
ہوئی اب بے توازن اس طرح سے زندگی اپنی
کریں تانا جو ہم سیدھا تو بانا ٹوٹ جاتا ہے
سہاروں کی اِسے ہر گام پر رہتی ضرورت ہے
بشر جتنا بھی ہو مضبوط تنہا ٹوٹ جاتا ہے
یہ قسمت ایسے روٹھی ہے ہُوا اب حال یہ فیصلؔ
ہمیں اچھا جو لگتا ہے کھلونا ٹوٹ جاتا ہے
٭٭٭
دل میں حسرت ہے کہ پیدا ہوں وہ امکاں جاناں
تم کو ہی یاد رہیں سارے وہ پیماں جاناں
دیکھ کب سے سرِرا ہے تیرے سائل بیٹھے
کوئی اُمید بندھا کوئی ہو درماں جاناں
سب کو اب گھُور اندھیروں سے ہی اُمیدِ کرن
کتنا خوش فہم ہُوا آج کا انساں جاناں
مَیں نے دو گام ہی بس ساتھ تمہارا چاہا
مَیں نے مانگا تو نہیں تختِ سلیماں جاناں
تو نے جو کچھ بھی کہا اُف نہ زباں پر لائے
تو نے جیسا بھی رکھا تیرا ہے احساں جاناں
تیرے وعدوں سے ہی قائم ہے اُمیدوں کا چمن
ایک خواہش ہے نہ اُجڑے یہ گُلستاں جاناں
دیکھو رُسوائیوں کے سارے سبب ختم ہوئے
دل کی وحشت ہی کرے چاک گریباں جاناں
دل کو سمجھایا بہت پر یہ سمجھتا ہی نہیں
ہو کے دِیوانہ کرے کیسی یہ باتاں جاناں
اب تو وہ بات بھی کہہ دے جو ہے لب پر میرے
دیکھوں کب تک مَیں یہی موسمِ ہجراں جاناں
اب تو ایسے ہیں پھنسے گردشِ دوراں میں یہاں
غمِ دنیا کہاں فیصلؔ غمِ جاناں، جاناں
٭٭٭
مجھ کو تاریک و سیہ رات پہ رونا آیا
اُس کی بخشی ہوئی سوغات پہ رونا آیا
سارے سپنے بھی گئے تیرے وہ اپنے بھی گئے
ایسے بِگڑے ہوئے حالات پہ رونا آیا
وہ عدُو مجھ کو سمجھتے ہیں، ستم تو یہ ہے
اپنے بے لوث سے جذبات پہ رونا آیا
جب وہ سمجھے ہی نہیں میری غزل کے معنی
اپنے لکھے ہوئے نغمات پہ رونا آیا
کس کو حاصل ہے ہُوا اِن میں دوامِ کامل
مجھ کو شاہوں کے محلّات پہ رونا آیا
تم نے غیروں کی طرح بات کی غیروں جیسی
ایسی بے کیف ملاقات پہ رونا آیا
پوچھ نہ حال مرا، دل کی بھی حالت وہ ہے
ایسے بِکھرے ہیں کہ ہر بات پہ رونا آیا
ہر طرف آگ لگی میرے چمن میں فیصلؔ
ہم کو اس شہرِ خرابات پہ رونا آیا
٭٭٭
بے وفا ہو کے بے وفا نہ لگے
چاہے جیسا ہے وہ بُرا نہ لگے
مجھ کو تنہائیوں نے یوں گھیرا
میرا کوئی بھی اب مِرا نہ لگے
بھول جاؤں ہر ایک رشتے کو
مجھ کو اپنی یہی دُعا نہ لگے
رو بھی پڑتے ہیں ہنس بھی دیتے ہیں
اب تو اپنا بھی کچھ پتہ نہ لگے
ہر طرف رنگ و نور بِکھرا ہے
جانے کیا بات ہے جِیا نہ لگے
یہ عنایت ہے ربِّ کعبہ کی
کوئی ظالم مجھے خدا نہ لگے
کیسی منزل ہے یہ وفاؤں کی
بے وفائی کا کچھ بُرا نہ لگے
ایک عالم نگاہ نے دیکھا
کوئی مجھ سا ترے سوا نہ لگے
اپنی اِقدار بھی رکھیں زندہ
اِتنی دنیا کی بھی ہَوا نہ لگے
تلخ اِتنی حقیقتیں دیکھیں!
اب تو زاہد بھی پارسا نہ لگے
زِندگانی سے یوں اُلجھ بیٹھا
دیکھ فیصلؔ بھی پہلے سا نہ لگے
٭٭٭
کسی کی محفل میں لگے ہم کو جگہ اپنی ہے
دل بھی جانے کہ وہی جائے پنہ اپنی ہے
پھر ہے بے چین سی دھڑکن میرے دل کے اندر
کس کو پھر ڈھونڈتی پھرتی یہ نگہ اپنی ہے
ہر کوئی دن کے اُجالوں کا ہی مالک دیکھا
کون کہتا ہے کہ یہ رات سیہ اپنی ہے
خس و خاشاک کیا تیرا نشیمن اُس نے
پھر بھی نازاں ہو کہ یہ تیز ہَوا اپنی ہے
دل کے موسم سے نکلتے ہیں یہ سارے موسم
اپنے گُلشن میں خزاں اور صبا اپنی ہے
کوئی سنتا ہی نہیں درد کے ماروں کی صدا
یہ جو پھر لوٹ کے آئی ہے نوا اپنی ہے
تیرا جذبہ تیرا احساس ہے ریزہ ریزہ
روز جیتی ہے جو مَر مَر کے انا اپنی ہے
اپنی ہی ذات کا ملزم بھی ہوں منصف بھی ہوں
دیکھ دنیا میں یہ جینے کی ادا اپنی ہے
ہوں گے کس دیس میں اُجلی سی قباؤں والے
داغ ہی داغ ہیں جس پر وہ قبا اپنی ہے
ختم ہونے پہ نہیں آئی کہانی فیصلؔ
ایسا لگتا ہے کہ رودادِ گنہ اپنی ہے
٭٭٭
رُک گئی آس کی بارات خدا خیر کرے
دل میں اٹکی ہے وہی بات خدا خیر کرے
اس چمن کے تو سبھی پھول ہیں مرجھائے ہوئے
دل پہ سب نے ہے رکھا ہاتھ خدا خیر کرے
سب کی اب ہوش و خِرد ماری گئی ہے دیکھوں
بات سوچی وہی دن رات خدا خیر کرے
دیر تک خود کو سنبھالا ہے مگر کیا کیجے
اب مچلنے لگے جذبات خدا خیر کرے
سوچ کر جن کو دلِ زار ہے اُمید فزا
جلد آ جائیں وہ لمحات خدا خیر کرے
اِتنا میٹھا بھی نہیں چاہیے اِس صبر کا پھل
کب ملے گی ہمیں سوغات خدا خیر کرے
ایک مہنگائی کی ہے لُوٹ اِدھر لیٹ ہیں وہ
بگڑے جاتے ہیں یہ حالات خدا خیر کرے
تیرے باعث ہی بنے ہیں دلِ ویراں میں سبھی
میرے سپنوں کے محلّات خدا خیر کرے
ہم کو اِک دھڑکا لگا رہتا ہے انجانا سا
تیری اچھی ہیں روایات خدا خیر کرے
یونہی نہ روگ بنا اس کو تو فیصلؔ اپنا
ہو ہی جائیں گی عنایات خدا خیر کرے
٭٭٭
سر زمیں کیسی بنی کس دیس میں رہنے لگے
اب تو اپنے شہر میں بھی اجنبی لگنے لگے
اپنے پن کی اپنی باتیں نہ رہیں اپنوں میں اب
جو بھی دل کے پاس تھے وہ دُور سے ہونے لگے
اس جہاں کے لوگ بھی پہنچے ہیں کیسے دَور میں
خون کے دھبوں کو دیکھو خون سے دھونے لگے
ہر طرف اِک آگ دہکی، سرد جذبے ہیں مگر
پاس تھی ہمت مگر اس کو بھی ہم کھونے لگے
قہر میں اور شدّتوں میں کون ہے اپنا یہاں
لوگ سارے نفرتوں کے بیج ہی بونے لگے
دَور ہے یہ اِبتلا کا رب سے مانگو مغفرت
خوابِ غفلت میں مگر فیصلؔ سبھی سونے لگے
٭٭٭
ہر رشتے میں دھوکہ دیکھوں
تلخ ہر اِک کا لہجہ دیکھوں
کل تک شمعِ محفل تھا جو
آج وہ تنہا تنہا دیکھوں
دل کے شہر میں چلنے والا
ایک اُسی کا سکّہ دیکھوں
پہچانو کہ قریہ قریہ
کس کو مارا مارا دیکھوں
کس کے در پر آ بیٹھا ہوں
دامن پھیلا پھیلا دیکھوں
آنکھوں پر غفلت کے پردے
آج کا انساں کیسا دیکھوں
سوچتا ہوں پھر سے وہ باتیں
دل اپنا پھر زندہ دیکھوں
پیکر اپنا یاد نہیں ہے
خود کو اتنا بکھرا دیکھوں
کس کو دیکھ لیا ہے تم نے
روح میں جشن بپا سا دیکھوں
بِک جائے کاغذ کے بدلے
انساں کتنا سستا دیکھوں
دل کے ویرانے میں فیصلؔ
کس کا آیا سایا دیکھوں
٭٭٭
اِک سے ہم نے آس لگائی کیا پایا؟
دل کو اِک اُمید بندھائی کیا پایا؟
اِس بستی میں کون تِری فریاد سُنے
سُنتا ہے اب کون دُہائی کیا پایا؟
کتنے پُر رونق سے چہرے مرجھائے
مایوسی ہر سمت ہے چھائی کیا پایا؟
اُس اِک نام سے جو دل میں بج اُٹھتی تھی
بند ہوئی ہے وہ شہنائی کیا پایا؟
دیکھ لیا اِن شاہوں کو فیاضوں کو
سمجھا اِن کو حاتم طائی، کیا پایا؟
دل کے روگ تو دل میں ہی رہ جاتے ہیں
ایسے من میں بات بسائی کیا پایا؟
دیوانوں جیسی باتیں ہیں سوچوں کیوں
مجھ سے کہتی ہے تنہائی کیا پایا؟
کتنے خواب سجائے تھے اِن آنکھوں میں
ہم نے سالوں خاک اُڑائی کیا پایا؟
ایسے ہی جذباتی مصرعے لکھتا ہوں
فیصلؔ دل میں آگ لگائی کیا پایا؟
٭٭٭
خوابوں کی تعبیر بھی دیکھوں
ہاتھوں میں تقدیر بھی دیکھوں
ہر اِک سمت سے جو کامل ہو
اِک ایسی تصویر بھی دیکھوں
جو ظالم کی گردن پکڑے
عدل کی وہ زنجیر بھی دیکھوں
میرے شاہ پہ جو لگتی ہو
ایسی اِک تعزیر بھی دیکھوں
جو ڈر سے نہ زرد ہوئی ہو
اب تو وہ تحریر بھی دیکھوں
جو آئی وِرثہ میں مجھ تک
درد کی وہ جاگیر بھی دیکھوں
میرے حق میں میری خاطر
اِک نکلی شمشیر بھی دیکھوں
میں اُس کی تقدیر کے آگے
اپنی اِک تدبیر بھی دیکھوں
بنے سہارا گرتی چھت کا
فیصلؔ وہ شہتیر بھی دیکھوں
٭٭٭
یہ زندگانی کس لیے؟
یہ زہر خوانی کس لیے؟
پتّھر ہوئے جذبے سبھی
آنکھوں میں پانی کس لیے؟
ہستی مری مٹ ہی چکی
اب مہربانی کس لیے؟
ذوقِ جنوں جس میں نہ ہو
ایسی جوانی کس لیے؟
گُلشن بیاباں بن گیا
اب باغبانی کس لیے؟
دل تو فتح نہ کر سکے
پھر حکمرانی کس لیے؟
دل کا چمن ویراں ہوا
اب رُت سہانی کس لیے؟
قسمت کا گر ملنا ہے تو
یہ جانفشانی کس لیے؟
جینے کی حسرت نہ رہی
اب زندگانی کس لیے؟
سب کچھ تو فیصلؔ پاس ہے
نقلِ مکانی کس لیے؟
٭٭٭
رہو زمیں پر ارادہ رَکھو تنے ہوئے آسمان جیسا
ہو ریزہ ریزہ وجود پھر بھی یہ حوصلہ ہو چٹان جیسا
ہو ہمتوں کا کمال تجھ میں ہوں رشکِ عالم تمہاری باتیں
ہو عزم راسخ ترا ہمیشہ عقاب کی سی اُڑان جیسا
ہو قول تیرا ہر ایک پکا گواہی جس کی یہ دے زمانہ
تمہاری باتوں کا حشر نہ ہو حکومتوں کے بیاں جیسا
کسی کے زر پر نظر نہ ٹھہرے ہو اپنے بازو پہ ہی بھروسہ
خدا کرے نہ ترا جہاں بھی ہو کرگسوں کے جہان جیسا
جیو زمانے میں ایسے ڈھب سے کہ جس پہ نازاں ہو ایک عالم
تمہاری ہستی تمہارا پیکر لگے گا اچھے گمان جیسا
وہ جس کی چاہت ترے بدن میں رواں دواں ہے لہو ہو جیسے
اسی کی چاہت سے آنکھیں روشن وہ دل کی دھڑکن وہ جان جیسا
کسی کو غمخوار سا سمجھ کر نہ حال اپنا سنانا فیصلؔ
وگرنہ تیرا بھی حال ہو گا کھُلے ہوئے بادبان جیسا
٭٭٭
سنتے رہے ہر بات وہ اوروں کی زبانی
حسرت رہی ہم سے نہ سنی رام کہانی
اب حال ہوا یہ کہ کوئی حال نہیں ہے
دریاؤں سے ملتی تھی کبھی اپنی روانی
خوشبو تو ہر اِک رنگ میں خوشبو ہی رہے گی
چاہت تو ہے چاہت وہ نئی ہو کہ پرانی
گُلشن سے تو گزرے تھے مگر ہوش ہی کب تھا
ہم کو نہیں معلوم کہ کب آئی جوانی
اُن سے ہی تو قائم ہوئے رشتے سبھی میرے
دنیا جنہیں کہتی تھی مرا دشمنِ جانی
یہ شدّتِ احساس کی ہے کونسی منزل
آہیں مرے دل میں نہ رہا آنکھ میں پانی
یہ کرب یہ سوچیں یہ جہاں بھر کی نگاہیں
یہ رسمِ وفا پھر بھی تو ہم نے ہے نبھانی
چُپ چاپ تھا لیکن مَیں سبھی دیکھ رہا تھا
فیصلؔ ہوئی کس لب سے کہاں زہر فشانی
٭٭٭
گزرا ہے وہ پھر کرب کی اِک ڈور ہلا کر
پچھتائے بہت ہم تو ترے سامنے آ کر
دنیا نے مسرّت کا لیا چھین وہ لمحہ
صدیوں جسے ڈھونڈا تھا بہت اشک بہا کر
تعبیر کسی طرح سے تم پا نہیں سکتے!
پتّھرائی ہوئی آنکھ میں وہ خواب سجا کر
تقدیر کو نہ ٹال سکا کوئی جہاں میں
بچ پائیں نہ ہم لوگ دُعا کر یا دوا کر
سچائی کو مرنے سے بچا بول کے سچ ہی
ذمہ ہے ترے قرض اِسے اَب تو ادا کر
اِس درد کو روؤں یا میں اُس کو دکھ کی دوا لوں
ہر روز نئی آگ میں اب تُو ہی جلا کر
فانی ہے جہاں سارا کوئی بھی نہیں دائم
سب لوگ گزرتے ہیں یہ احساس دلا کر
اندازِ تغافل ترا، لے جان ہماری
ہم لوگ تمہارے ہیں تُو ہم سے ہی ملا کر
جاری ہوا فرمان یہ شاہوں کے لبوں سے
اب تو ہے سزاوار خطا کر یا وفا کر
آئے گا جوانمرد جو بدلے گا زمانہ
آشاؤں کے رکھے ہیں بہت دیپ جلا کر
بُجھتے سے دیئے کی طرح فیصلؔ سرِ راہے
تیرے لیے بیٹھا ہے ذرا دیکھ لیا کر
٭٭٭
چُپ چاپ سے ہستی کو بِکھرتا ہوا دیکھوں
خود کونہ کسی طور سنبھلتا ہوا دیکھوں
سنتے ہیں کہ انسان کے ہیں رُوپ ہزاروں
اپنا بھی کبھی رنگ بدلتا ہوا دیکھوں
جس شخص کی پرواز لگی رشکِ زمانہ
آج اس کو بلندی سے مَیں گِرتا ہوا دیکھوں
وہ حال ہوا ایک ہی خواہش سے کہ اب تو
اِس دل کو تمنّاؤں سے ڈرتا ہوا دیکھوں
حالات کی سنگینی کا ادراک ہوا تو
پہلو میں دلِ زار اُچھلتا ہوا دیکھوں
ہے کون پریشان زمیں پر مرے فیصلؔ
تاروں کو فلک سے مَیں اُترتا ہوا دیکھوں
٭٭٭
مَیں نے خوش ہو کے ہر اِک الزام اپنے سَر لیا
کتنی آساں زندگی تھی کتنا مشکل کر لیا
میرے آنگن میں سبھی نے سنگ پھینکے، بے خطر
ناتواں تھا شہر والوں نے مجھے ہی دھَر لیا
لوہے کو لوہا ہی کاٹے عقل مندوں نے کہا
نہ ملا مرہم تو دُکھ سے زخم اپنا بھر لیا
اب کسی سے دشمنی نہ کر سکیں گے ٹوٹ کر
زندگی میں مصلحت کا رنگ اتنا بھر لیا
جو نہ جانیں ہے وفا کیا اور دل کیا چیز ہے
کیسی کیسی ہستیوں سے پیار تم نے کر لیا
جب تلک وہ پاس ہے ہر چیز پر ہے دسترس
چاندنی کو خوشبوؤں کو قید ہم نے کر لیا
رب کو اپنی جان دینی ہے فقط اِک بار ہی
دوستوں کے ہاتھ سے سو بار ہم نے مَر لیا
جنبشِ ابرو سے ہی جاں سے گزر جاتے مگر
مارنے کے واسطے ہاتھوں میں کیوں خنجر لیا
جو مکیں دل کے ہوئے اُن کا رویّہ دیکھ کر
ضبط دل پر کر لیا آنکھوں میں پانی بھر لیا
دیکھ لو یہ بات ہے سود و زیاں سے ماورا
زندگی گروی رکھی اور کوچۂ دلبر لیا
دل میں اِک شیطان فیصلؔ پالتے ہیں لاڈ سے
ہم نے کیوں عرفات میں ہاتھوں میں پھر پتھّر لیا
٭٭٭
دل سمجھائیں آخر کب تک
اشک بہائیں آخر کب تک
کون بشارت دے گا ہم کو
خاک اُڑائیں آخر کب تک
سحر کو آنکھیں ترس رہی ہیں
دیپ جلائیں آخر کب تک
بات ہماری سمجھ لے جاناں
ہم چِلّائیں آخر کب تک
آنے والے کب آئیں گے
راہ سجائیں آخر کب تک
دل کا ربط بھی چیز ہے کوئی
یاد نہ آئیں آخر کب تک
تلخ حقیقت، ایک حقیقت
دل بہلائیں آخر کب تک
سامنا سب کا کرنا ہو گا
گھر نہ جائیں آخر کب تک
من کا آنگن سُونا سُونا
پھول کھلائیں آخر کب تک
لوگ ملے انسان نہ پائے
شہر بسائیں آخر کب تک
کب ہو گی یہ ختم مسافت
چلتے جائیں آخر کب تک
کٹ جائے گا گھُور اندھیرا
آس لگائیں آخر کب تک
پیڑ گِرا کر اِترائیں گی
تیز ہوائیں آخر کب تک
محرومی کو درد کو فیصلؔ
گلے لگائیں آخر کب تک
٭٭٭
آشنا کوئی ہونے والا ہے
رابطہ کوئی ہونے والا ہے
آسماں پر ستارے اُلجھے ہیں
فیصلہ کوئی ہونے والا ہے
روح بے چین دل پریشاں ہے
سانحہ کوئی ہونے والا ہے
حُکمرانی ملی یزیدوں کو!!
کربلا کوئی ہونے والا ہے؟
زُعم ہر اِک کو ہے بڑائی کا
معرکہ کوئی ہونے والا ہے
اُن کے گِنوا دیے ستم اُن کو
سیخ پا کوئی ہونے والا ہے
بے ضمیروں کو مل گئی دولت
پارسا کوئی ہونے والا ہے
اُس کی آنکھیں بتا رہی ہیں مجھے
بے وفا کوئی ہونے والا ہے
درد و غم کی ہَوا چلی پھر سے
ہم نوا کوئی ہونے والا ہے
خود پہ قابو نہ پا سکا فیصلؔ
آپ کا کوئی ہونے والا ہے
٭٭٭
ہر طرف سے ہی اکیلا ہوں مگر کیا کیجے
اتنی ہے بھیڑ کہ تنہا ہوں مگر کیا کیجے
ہر طرف آگ ہے دہکی ہوئی تنہائی کی
اپنے ہی گھر میں پرایا ہوں مگر کیا کیجے
جن کے پتھّر کے ہیں احساس اُنھیں کیا معلوم
کیسے اب ٹوٹ کے بکھرا ہوں مگر کیا کیجے
اُن کی نظروں میں رہی کوئی نہ وقعت اپنی
لوگ کہتے ہیں کہ اچھّا ہوں مگر کیا کیجے
میرے کچھ کام نہ آیا یہ مرا اوج و کمال
آسمانوں کا ستارا ہوں مگر کیا کیجے
اب تو ہر چیز میں صورت ہے اُنھی کی صورت
کتنا مصروف میں رہتا ہوں مگر کیا کیجے
مرے احوال سے دنیا کو غرض کچھ بھی نہیں
حالِ دل خون سے لکھتا ہوں مگر کیا کیجے
اُس کے بِن کون سنبھالے گا مِری ہستی کو
ایک مدت سے میں بکھرا ہوں مگر کیا کیجے
اب نہ آئیں گے ہمیں چھوڑ کے جانے والے
اُن کی راہوں میں جو بیٹھا ہوں مگر کیا کیجے
ہر کوئی چہرے سے پڑھتا ہے کتابِ ہستی
میں تو ہر رنگ میں افشا ہوں مگر کیا کیجے
خود کو پالوں جو اگر، پالوں گا ساری دنیا
ایسے لمحے کو ترستا ہوں مگر کیا کیجے
دیکھ ہے زیرِ زمیں تیرا ٹھکانہ فیصلؔ
اب فلک پہ جو مَیں اُڑتا ہوں مگر کیا کیجے
٭٭٭
مرے ہمسفر مرے معتبر مرے راہ بَر مرے چارہ گر
نہیں تُو اِدھر بھلا ہے کِدھر گیا میں بکھر ہوا در بدر
وہ محبتیں، وہ رفاقتیں، وہی صحبتیں، وہی چاہتیں
میں ہوں ڈھونڈتا وہی رات دن کسی بَد کی گھر کو لگی نظر
جسے چاہتے ہیں وہ ہے نہاں میں ہوں مدتوں سے رواں دواں
سبھی بے بصر بنے راہبر کہاں منزلیں گئے ہم کدھر
یہ اُسی کی سب ہیں عنایتیں جو حقیقتیں سبھی وا ہوئیں
مَیں جھکاؤں اس کے ہی در پہ سر کہیں جس کو مالکِ بحر و بر
جسے اپنا ہم نے ہے کہہ دیا جسے دھڑکنیں بھی ہیں سونپ دیں
نہیں دیکھا پھر تو اِدھر اُدھر وہ نبھایا رشتہ ہے عمر بھر
میرے رتجگے مری کاوشیں کہیں بھی مقام نہ پا سکیں
میں گیا بکھر یہی سوچ کر کٹی عمر اور رہے بے ثمر
یہ مصیبتیں ہیں یا سازشیں جو مجھے نصیب میں مل گئیں
جہاں ناؤ جائیں وہیں بھنوّر سبھی کوششیں مری بے اثر
یہ عطا ہے ربِّ کریم کی وہی حوصلوں کو سوا کرے
میرا آشیاں تو ہمیشہ سے ہی رہا ہواؤں کے دوش پر
یہ مِرا وطن جہاں ہم مکیں بنی کربلاؤں کی سرزمیں
رہے رنج و غم میں یہ جاں مری جنھیں سوچ کر رہے آنکھ تر
یہ جہاں تو ایک ہے اِمتحاں ذرا بچ بچا کے نکل میاں
نہ تو بن سنور یہاں پل دو پل یہاں پر قیام ہے مختصر
تو ہے ایک فیصلِؔ بے نوا تو غلام بن اُسی شاہ کا
جو خدا کے بعد ہے معتبر مِری بات اتنی ہے مختصر
٭٭٭
وہ کون تھے ڈھونڈوں دنیا میں جنھیں جان سے پیارا مَیں بھی تھا
جن کی قربت مل جانے پر اِس چرخ پہ اُڑتا مَیں بھی تھا
ہر گام پہ ہی دُکھ درد ملے ہر موڑ پہ ہے اِک کرب و بلا
ہرجائی سی اس دنیا میں اِک درد کا مارا مَیں بھی تھا
سب موسم بھی اب بیت گئے سب خواہشیں بھی دم توڑ گئیں
تھی دل میں تمنّا ساون کی کبھی تپتا صحرا مَیں بھی تھا
ہم آمنے سامنے تھے لیکن اِک نظر کسی نے نہ دیکھا
پوچھا نہ کسی نے حال مرا حالانکہ بیٹھا مَیں بھی تھا
ہم چُپ سے رہے اس دنیا میں سب سمجھے خالی سینہ ہے
جو جذبوں کو سلگاتی ہے اس آگ میں جلتا مَیں بھی تھا
مرا حال نہاں ہے دنیا سے سب درد چھپائے بیٹھے ہیں
جو روٹھ گئے جو چھوڑ گئے کبھی اُن کا اپنا مَیں بھی تھا
تکیہ کرنا اِک جُرم یہاں معصوم مرا احساس بنا
جو جان نکال کے چلتے بنے انھیں جاں سمجھتا مَیں بھی تھا
تیزی سے وقت گزرتا رہا بڑھتی گئی ماتھے کی شکنیں
مجھ پر بہتان لگاتے ہیں کہتے ہیں ہنستا مَیں بھی تھا
مرے حال کو دیکھا ہے تم نے مرا ماضی بھی دیکھا ہوتا
پتھر بھی نہیں لگتا اَب تو کبھی ایک ستارا مَیں بھی تھا
آیا وہ موسمِ زرد کوئی سب بِکھر گئے سب بِچھڑ گئے
اِس موسمِ ہجراں سے پہلے اُس شجر کا پتّہ مَیں بھی تھا
بس سانسیں چلتی ہیں اپنی کوئی آن نہیں پہچان نہیں
فیصلؔ کس کو بتلاؤں کہ دنیا میں آیا مَیں بھی تھا
٭٭٭
زندگانی اِک خوشی کا ہے سفر کہنا پڑا
اِک سرائے یہ جہاں ہے اِس کو گھر کہنا پڑا
مصلحت کی اوڑھ کے چادر سبھی ہم سو گئے
رات کی تاریکیوں کو بھی سحر کہنا پڑا
اب تو ہر رشتے میں ہی باریکیاں اتنی بڑھیں
دوستوں سے بھی گِلہ اب سوچ کر کہنا پڑا
آڑے آئی وقت کی قِلت ہمیں تو ہر جگہ
قصۂ غم بھی ہمیں اب مختصر کہنا پڑا
چشم پوشی ہے صِفَت اور جھوٹ ہے اب اِک ہنر
سوئے جو غفلت میں اُن کو باخبر کہنا پڑا
اتنی واضح تو حقیقت اب نظر آنے لگی
بے خودی میں بھی سبھی کچھ دیکھ کر کہنا پڑا
عقل اب ماری گئی ہے یہ نہیں ہے مصلحت
بھٹکے لوگوں کو یہاں پر راہبر کہنا پڑا
کیسا کیسا ہم نے بولا جھوٹ توبہ ہے مری
جو ہوئے رُسوا اُنہیں کو معتبر کہنا پڑا
یہ بھی تیرا جاں بچانے کا عجب انداز ہے
دشمنِ جاں کو بھی فیصلؔ چارہ گر کہنا پڑا
٭٭٭
بے لوث کوئی اپنا طرفدار نہ دیکھوں
مِرے لیے لہرائے جو تلوار نہ دیکھوں
جیسا وہ رکھیں مجھ سے روا پر ہے یہ خواہش
ہو جائیں وہ رُسوا سرِبازار، نہ دیکھوں
آنکھوں میں ہوس دل میں ہوس مال کی خواہش
لوگوں کی وہ پہچان وہ معیار نہ دیکھوں
معراج پہ پہنچے یہ تعلق مرا اُس سے
رستے میں جو حائل ہے وہ دیوار نہ دیکھوں
دُکھ لے کے جہاں بھر کے جو لوٹائے گا خوشیاں
دنیا میں کوئی ایسا تو غمخوار نہ دیکھوں
ہر سمت تمنّاؤں کے لاشے ہی تو دیکھے
لوگوں میں کوئی صاحبِ اسرار نہ دیکھوں
اعمال کو دیکھا ہے تو شرمندہ ہے فیصلؔ
خود جیسا کوئی بھی تو گنہ گار نہ دیکھوں
٭٭٭
جو زندگانی سے پایا وہ سب ہی ہار چلے
جہاں سے لے کے فقط ہم دلِ فگار چلے
خزاں رسیدہ ازل سے ہیں زرد زرد وجود
اکیلے چھوڑ کے ہم کو نہ اب بہار چلے
قدم قدم پہ ملے ہیں ملال و رنج و مُحن
کہاں پہ چھوڑ کے ہم کو ہیں غمگسار چلے
یہ زندگی تو ہے جیسے زمینِ کرب و بلا
حسینیت کے ہیں پیرو سو ہم گزار چلے
وہ جس نے چھین لی ہم سے متاعِ عزم و یقیں
اُس ایک شخص کا کر کے ہم اعتبار چلے
تِری نگاہِ کرم پر یقین اتنا ہے
تمہارے در پہ ہی آئے گناہگار چلے
وہ بزمِ ناز جہاں پر کھُلیں بھرم سب کے
ہم اپنا لے کے گریباں بھی تار تار چلے
ہر ایک گام پہ جاں مفت میں گنوا دینا
رہِ وفا میں تو کوئی نہ کاروبار چلے
یہیں کہیں سے وہ محوِ خرام گذرا تھا
ہوا یہ جھوم کے پھر کیوں نہ مُشکبار چلے
یہ عشق عقل و خِرد سے ہے ماورا دیکھا
یہ بے خودی کی ہیں راہیں اُنھیں پکار چلے
ہر ایک آن اُسے ڈھونڈتی رہیں آنکھیں
کہاں پہ لے کے وہ دل کا سکوں قرار چلے
حسیں بُتوں کے پُجاری جو کل تلک دیکھے
وہی ہیں لوگ یہ بن کے جو دیندار چلے
اذیّتوں کی کہانی کو یوں سمجھ فیصلؔ
ستم کی آر ہے دل کے جو آر پار چلے
٭٭٭
خواب آنکھوں میں بساتا ہی چلا جاتا ہوں
مشکلیں اپنی بڑھاتا ہی چلا جاتا ہوں
کیسے یہ روگ ہیں جن کا تو مداوا ہی نہیں
خاک ہستی کی اُڑاتا ہی چلا جاتا ہوں
جب سے دیکھی ہے اندھیروں کی طلب لوگوں میں
دل میں دیواریں گراتا ہی چلا جاتا ہوں
منزلیں دُور ہوئیں شوق ہے پھر بھی دل میں
اپنے ارمان سجاتا ہی چلا جاتا ہوں
کھول لیتا ہوں سنہری سی وہ یادوں کی کتاب
خود کو کچھ دیر رُلاتا ہی چلا جاتا ہوں
جو بھی محفل ہو ہمارا یہی معمول بنا
اشک آنکھوں سے بہاتا ہی چلا جاتا ہوں
اُن کی جب بات چلے درد سے خوشبو آئے
محفلِ کرب سجاتا ہی چلا جاتا ہوں
اپنے احساس کی شدّت میں اثر اتنا ہے
ہر طرف آگ لگاتا ہی چلا جاتا ہوں
آج کل جُرم بنا بَد کو بُرا کہنا بھی
سب کو احساس دلاتا ہی چلا جاتا ہوں
اب نہ آئیں گے کبھی لوٹ کے جانے والے
پھر بھی اُن کو میں بُلاتا ہی چلا جاتا ہوں
جسم آزاد ہوئے روح مقیّد اب تک
کس کا میں جشن مناتا ہی چلا جاتا ہوں
مجھ کو معلوم ہے درماں نہیں کوئی فیصلؔ
زخم پھر بھی مَیں دکھاتا ہی چلا جاتا ہوں
٭٭٭
جب چمک ملی جب حِرص بڑھی ظُلمت کو ضیا ہم کہتے رہے
احساس کی دولت کھونے سے صَر صَر کو صبا ہم کہتے رہے
اُس کو تھا ناز تعلق پر اُس کی چاہت میں سب چھوڑا
اُس چاند کی آس پہ آنگن میں نہ دیپ بُجھا ہم کہتے رہے
بازاری سی اِس دنیا میں کوئی دل والا اب تک ملا
یہ لوگ بڑے ہرجائی ہیں نہ آنکھ ملا ہم کہتے رہے
یہ تاجروں کی اِک بستی ہے گھاٹے کا سودا کون کرے؟
دنیا سے نہ راہ و رسم بڑھا پاؤ گے سزا ہم کہتے رہے
اب کر نہ گلہ دل کو نہ جلا بہتر ہے کہ سب کچھ دل سے بھُلا
اُس کے لیے اپنی ہستی کی نہ خاک اُڑا ہم کہتے رہے
تجھ کو ہیں بتوں سے اُمیدیں اُس مالک سے کوئی آس نہیں
در در پہ جھُکنا چھوڑ بھی دے ہے ایک خدا ہم کہتے رہے
اب نام ترا بھی لگتا ہے صدیوں کی مسافت ہو جیسے
اپنی اُلفت سے دل میرا تو کر نہ رِہا ہم کہتے رہے
گھر جب تنکوں کے ہوں فیصلؔ طوفانوں سے یارانہ کیا؟
سب کچھ ہی اُڑالے جائے گی یہ تیز ہوا ہم کہتے رہے
٭٭٭
تھے اکیلے، رہے تنہا تنہا یہاں چاہے جتنے بھی ہم آئینے دیکھتے
زندگانی کی سنسان راہوں پہ وہ کون تھا جس کو ہم ڈھونڈتے دیکھتے
ایک کھنڈر بیابان ہوتی گئی زندگی دل کی ویران ہوتی گئی! !
اتنی فرصت ہمیں تو ملی نہ یہاں اپنے بارے میں بھی سوچتے دیکھتے
دل میں اپنے تو آہ و فغاں ہی رہے اور قسمت سے شکوہ کناں ہی رہے
بے حسوں سے کئے تھے سبھی معاملے حالانکہ ہم بھی تھے جاگتے دیکھتے
روز دیکھوں نئے بحرِ ظلمات کو میں بدل پاؤں نہ بگڑے حالات کو
میرے ارماں بکھرتے رہے روز و شب کتنے آنکھوں سے ہم سانحے دیکھتے
سامنے سب اندھیرے سے ہیں چھاگئے دل کے اندھوں کی بستی میں ہم آ گئے
چشمِ بینا کوئی نہ ملی ہے اِدھر کس سے آنکھوں کو ہم مانگتے دیکھتے
کیا یہ کم ہے کہ جذبۂ اُلفت ملا روح کو ذائقہ حلاوت ملا
اوج ایسا بھی قسمت نے پایا نہیں جس کو چاہا اُسے سامنے دیکھتے
جو دیا زندگی نے وہ احسان ہے دل نہ مانے مگر دل تو نادان ہے
گردشوں نے ہمیں اتنی مہلت نہ دی اپنی تقدیر کے زاویے دیکھتے
آپ کا دور ہم ہیں کہ پا نہ سکے دل کی باتوں کو لب پہ تو لا نہ سکے
ایک حسرت مری زندگی کی رہی جلوے محفل میں ہم آپ کے دیکھتے
بات قسمت کی ہے کس کو کیا مل گیا ایک ہنستا رہا اِک تڑپتا رہا
آرزو تھی کہ ہم پاس محبوب کے بولتے، بیٹھتے، چاہتے، دیکھتے
درد کا ہم کو کوئی نہ درماں ملا زندگی کو فقط زخمِ ہجراں ملا
چارہ گر کوئی فیصلؔ نہ ہم پا سکے عمر گذری ہے راہ دیکھتے دیکھتے
٭٭٭
میں نے کیں اتنی خطائیں وہ خطا یاد نہیں
جس کی کاٹی ہے کڑی اتنی سزا، یاد نہیں
مجھ کو ہر روز نئی ایک مصیبت چاہے
ایسی مشکل ہے، رہی مجھ کو دعا یاد نہیں
اتنے رُسوا ہوئے اب خود سے بھی پردہ چاہیں
مجھ کو اب نام و نسب اپنا پتہ یاد نہیں
سارے اپنے سے لگیں کوئی نہ اپنا لیکن
اپنے لوگوں کا کوئی بھی تو گلہ یاد نہیں
کیں ہیں رد اس نے سبھی میری وفائیں دیکھو
اس پہ کرتی تھی اثر اپنی صدا یاد نہیں
چھائے ہر سمت سے اب حُزن و اَلم کے بادل
مانگا اپنے لیے میں نے تو ہے کیا، یاد نہیں
کتنے خود غرض بنے کتنے ہی ہم پست ہوئے
فِکر روزی میں رہا ہم کو خدا یاد نہیں
اتنا بِکھرا ہوں رہا یاد نہ کوئی پیکر
کب ہوا کون ہوا مجھ سے جُدا یاد نہیں
اب کِسی نام سے دل کو نہ ملے چین و سکوں
کِن درختوں پہ ترا نام لکھا یاد نہیں
مجھ کو اب گردشِ دوراں نے وہ اُلجھایا ہے
اپنے گُلشن میں خزاں تھی یا صبا یاد نہیں
نام اُس کا لگے صدیوں کی مسافت جیسے
خشک ٹہنی پہ کبھی پھول کھِلا یاد نہیں
یوں ہوا تیرے تصوّر میں تری گلیوں میں
تو ہی خود سامنے کب آن ملا یاد نہیں
اب تو اس تیرہ شبی کو ہی مقدّر سمجھوں
چاند فیصلؔ کبھی آنگن میں رہا یاد نہیں
٭٭٭
کچھ بھی نہیں سمجھے لوگ یہاں
اب تک نہیں جاگے لوگ یہاں
جن کی ہستی میں ڈوب گئے
ساگر سے گہرے لوگ یہاں
وہ اُٹھ جائیں سب تھم جائے
ہیں ایسے ایسے لوگ یہاں
دل پر کچھ کیا نہیں سہتے ہیں
غربت کے مارے لوگ یہاں
کیا کہہ جائیں معلوم نہیں
بن سوچے سمجھے لوگ یہاں
پتھّرا سی گئیں آنکھیں جن کی
ہیں راہیں تکتے لوگ یہاں
ہر شخص ہی داؤ کھیلے گا
پائے نہ سچے لوگ یہاں
قسمت کا لکھا پایا سب نے
آپس میں اُلجھے لوگ یہاں؟
جن کو دیکھیں اب یاد آئے
نہیں اب وہ ملتے لوگ یہاں
جو روٹھ گئے اِس نگری سے
کیوں وہ یاد آئے لوگ یہاں
رُسوا ہو گئے اس دنیا میں
کئی ہنستے ہنستے لوگ یہاں
جن کا ہے ذِکر کتابوں میں
کب دیکھیں ویسے لوگ یہاں
جو عاری تھے ہر جذبے سے
ہم نے وہ چاہے لوگ یہاں
چُپ رہتے ہیں ڈر کے مارے
سب اپنے جیسے لوگ یہاں
غمخوار بھی ہوں دِلدار بھی ہوں
ایسے نہ پائے لوگ یہاں
فیصلؔ یوں چُپ چُپ رہنے سے
تم کو نہ سمجھے لوگ یہاں
٭٭٭
درد دنیا سے چھُپا لو یہی سرمایہ ہے
خود کو کچھ دیر سنبھالو یہی سرمایہ ہے
آئے چوکھٹ پہ تری دکھ بھی سوالی بن کر
اِن کو سینے سے لگا لو یہی سرمایہ ہے
چند لمحوں میں سمٹ آیا ہے صدیوں کا اَلم
خود کو جی بھر کے رُلا لو یہی سرمایہ ہے
ہم کو آثار بتاتے ہیں بہار آئی ہے
تم بھی اِک پھول کھِلا لو یہی سرمایہ ہے
اشک آنکھوں میں اُتر آئے ہیں غم ایسا ہے
اِن کو پلکوں پہ سجا لو یہی سرمایہ ہے
چاند دیکھا ہے لبِ بام بڑی دیر کے بعد
اپنے ارمان مٹا لو یہی سرمایہ ہے
جن کا نام آئے تو فیصلؔ یہ جہاں مہک اُٹھے
دل میں وہ یاد بسالو یہی سرمایہ ہے
٭٭٭
اب بھی اُس کا یہ ساتھ ممکن ہے
اِن دکھوں سے نجات ممکن ہے
اِک تصوّر رہے وہ پیشِ نظر
کٹ بھی سکتی ہے رات، ممکن ہے
دین و دنیا لُٹا دیں پل بھر میں
ایسی بھی واردات ممکن ہے
خود بھی پیاسا ہو چودہ صدیوں سے
اب تلک وہ فرات، ممکن ہے
جن پہ تھا ناز وہ نہ اب دیکھوں
کس سے اب التفات ممکن ہے
چاہ دل میں نہ جینے کی کچھ ہو
ایسی مِل جائے مات ممکن ہے
وہ اگر ساتھ اب ہمارا دیں
پی لوں آبِ حیات ممکن ہے
میرے ہر دُکھ کا جو مداوا ہو
پالوں ایسی بھی ذات ممکن ہے
اُن کے وعدے نہ ہو سکیں پورے
بیت جائے حیات ممکن ہے
کاکلِ ناز گر وہ لہرائیں
دن میں ہو جائے رات ممکن ہے
اب بھی مایوس مَیں نہیں فیصلؔ
اُن سے بھی التفات ممکن ہے
٭٭٭
آ جاؤ مرے پاس ذرا شام سے پہلے
مجھ سے یہی اِک کر دو وفا شام سے پہلے
ہر سمت سے گھیریں گے تمہیں گھور اندھیرے
ڈھونڈو وہی مٹی کا دیا شام سے پہلے
دن سارا بھرے شہر کی اِک ایک گلی میں
مل پایا نہ ہستی کا پتہ شام سے پہلے
قابل ہے اگر تیری گدائی کا یہ خاکی
مالک مجھے گھر اپنے بُلا شام سے پہلے
اس تیرگیِ شب سے نہ دل میرا سیہ ہو
مقبول ہو یہ میری دُعا شام سے پہلے
ہو جائے جو سرزد کوئی نیکی سرِ را ہے
ہم مانگتے ہیں اس کی جزا شام سے پہلے
جو لوگ اکٹھے ہوئے لالچ کی بِنا پر
ہو جائیں گے وہ لوگ جُدا شام سے پہلے
وہ شخص اندھیروں میں بھی روشن سا رہے گا
جو شام کی سوچوں میں رہا شام سے پہلے
اِس سمت سرِشام وہ آ جائیں گے فیصلؔ
تُو اپنے در و بام سجا شام سے پہلے
٭٭٭
پیدا ہوئے کچھ لوگ گلابوں کے لیے ہیں
ہم لوگ تو آئے ہی عذابوں کے لیے ہیں
معلوم ہیں پائیں گے نہ ہم لالہ و گُل کو
اپنے یہ مقدّر تو سرابوں کے لیے ہیں
کچھ پوچھنے کا ہم کو ملا حق نہ کبھی بھی
ہم آئے فقط دینے جوابوں کے لیے ہیں
معلوم نہ کر پائیں گے مفہوم و معانی
یہ شعر مرے بند کتابوں کے لیے ہیں
شاہوں کے گناہوں پہ قوانین بھی چُپ ہیں
یہ مجھ سے سبھی خانہ خرابوں کے لیے ہیں
رستے سے ہٹا دیتے ہیں اِک خار سمجھ کر
لگتا ہے فقط ہم تو ثوابوں کے لیے ہیں
کہہ دو سبھی چڑیوں سے نشیمن میں رہیں اب
آزاد فضائیں تو عقابوں کے لیے ہیں
کچھ لوگ لبِ بام نہ آئیں تو ہے بہتر
کچھ چہرے تو ہوتے ہی حجابوں کے لیے ہیں
بغلوں میں چھُرے لے کے پھریں اپنے یہ لیڈر
ہم لوگ اُنھی سارے قصابوں کے لیے ہیں
خوش رنگ نما آس پہ اِک عمر بِتا دی
فیصلؔ کی بنی آنکھیں ہی خوابوں کے لیے ہیں
٭٭٭
داغ فرقت کے مرے دل پہ ذرا رہنے دو
اُن کے غم میں مجھے جینے دو مجھے جینے دو
اُس ہنر مند کی اب بخیہ گری بھی دیکھیں
چاک دامن ہے ذرا، اس کو ہی اب سینے دو
میں نے جذبات کو شعروں سے زباں بخشی ہے
جام سقراط کے حصے کا مجھے پینے دو
ایک رحمان کا ہے دوسرا شیطان کا ہے
ہر گھڑی سامنے رہتے ہیں مرے زینے دو
تم نے صدیوں سے مری لوٹیں بہاریں ظالم
اپنے حصّے کی خزاں کو تو مجھے لینے دو
ایک ہی میان میں رہ پائیں نہ شمشیریں دو
اُن کو پایا ہے تو اب خود کو ذرا کھونے دو
اُس کو سوچا تو سبھی درد مرے جاگے ہیں
اُس کی یادوں میں ذرا کھُل کے مجھے رونے دو
٭٭٭
زندگی ایک پیہم سفر جس میں ہیں امتحاں امتحاں
لوگ ہرجائی ہیں پاؤ گے نہ کوئی مہرباں مہرباں
دیکھو حالات کی اس کڑی دھوپ میں سُکھ کا سایہ نہیں
دور تک نہ ملے راحتِ جان کا سائباں سائباں
اپنا سر کوئی جتنا بھی اُونچا رکھے اُتنا چھوٹا لگے
روزِ اوّل سے ہی کہہ رہا ہے ہمیں آسماں آسماں
جتنی بجلی گری تند آندھی چلی پر یہ قائم رہا
کتنی آنکھوں میں چُبھتا کھٹکتا رہا آشیاں آشیاں
دل مودّب ہوا آنکھ پُرنم ہوئی لرزہ طاری ہوا
ہم کہاں آ گئے کس کا ہے مل گیا آستاں آستاں
تُو جو ہے نالہ خواں کس کو فرصت یہاں کون تیرا بتا
شہر بھر میں کوئی تیری سُنتا نہیں داستاں داستاں
ایسے دست و گریبان سب لوگ ہیں الحفیظ الاماں
پیرہن، خلعتیں ہم نے دیکھی سبھی خونچکاں خونچکاں
تجھ کو جو کچھ ملا تھا مقدر ترا شکوہ کِس بات کا
ورنہ ہم نے بھی خوابوں میں دیکھی فقط کہکشاں کہکشاں
زندگی کے پڑاؤ کئی کر لیے خود کو نہ پا سکے
ایسا لگتا ہے کہ عمر اپنی گئی رائے گاں رائے گاں
اور ہمت نہیں خستہ سی جان ہے کچھ توقّف کرو
اور دُکھ نہ دکھا میں تو پہلے سے ہوں ناتواں ناتواں
جانے کیا لوگ تھے کیا عجب لوگ تھے کیا سے کیا ہو گئے
جانِ محفل تھے وہ دل کی دھڑکن کے تھے درمیاں درمیاں
رہبرانِ وطن پاسباں نہ بنے بس لُٹیرے بنے
منزلوں کے قریں اس وجہ سے لُٹے کارواں کارواں
کچھ گِلہ نہ کیا خامشی کی قبا لے لی جذبات پر
لوگ سچے ہیں فیصلؔ کو جو کہہ رہے بے زباں بے زباں
٭٭٭
جس نے بھی ترے غم کی تلاوت نہیں سیکھی
وہ لاکھ کہے اُس نے محبت نہیں سیکھی
مانگا نہیں دنیا سے کبھی بدلہ وفا کا
بازار میں رہتے ہیں تجارت نہیں سیکھی
لوگوں نے کدُورت میں بھی ہیں نام کمائے
ہم ہیں کہ ابھی کرنی محبت نہیں سیکھی
ایسے تو ستمگر نے مری ’’مَیں ‘‘ کو مٹایا
بُزدل بنے ایسے کہ بغاوت نہیں سیکھی
ہم سے ہیں خفا سب ہی کہ سادہ سے جو ٹھہرے
اس دور میں رہ کے بھی سیاست نہیں سیکھی
دن رات بس اِک نام کا ہی وِرد کروں میں
بعد اس کے کوئی اور عبادت نہیں سیکھی
سائے کی طرح خوف ہیں اب ساتھ ہمارے
بچوں نے بھی اب ڈر سے شرارت نہیں سیکھی
یہ ظرف بھی اللہ کی عطا ہے جسے دے دے
مالک کا کرم مجھ پہ کہ نفرت نہیں سیکھی
کچھ لوگوں کی صحبت کا یہ اعجاز ہے فیصلؔ
احسان تو کرتے ہیں عداوت نہیں سیکھی
٭٭٭
دیئے جذبے وفاؤں کے خدا نے مجھ کو کافی ہیں
چراغِ اُلفتِ یاراں جلانے مجھ کو کافی ہیں
تم اِتنے رابطے رکھو جنھیں تا دم رکھو زندہ
نئے رشتے نہیں بنتے پُرانے مجھ کو کافی ہیں
علاجِ وحشتِ جاں کا کوئی گُر مجھ کو بتلائے
نہیں آوارگی کا ڈر ٹھکانے مجھ کو کافی ہیں
اِدھر یادوں کا میلہ ہے اُدھر ہے گردشِ دوراں
ابھی تو سلسلے ایسے بھلانے مجھ کو کافی ہیں
ابھی تو مِل نہیں سکتی وہ رہ جس پر الم نہ ہو
ابھی تو خار رستوں سے ہٹانے مجھ کو کافی ہیں
ملیں تم کو ابھی کیسے جو خوابِ زندگانی ہیں
ابھی گوہر وہ آنکھوں میں سجانے مجھ کو کافی ہیں
جو رستے پر ہمیں لائے جو منزل کا پتہ بھی دے
ابھی تو رہنما ایسے بنانے مجھ کو کافی ہیں
جنھیں پانے کی خواہش میں رگوں میں تند و تیزی ہے
لہُو اُن آرزوؤں کے بہانے مجھ کو کافی ہیں
جو دل کے ہیں قریں فیصلؔ جنھیں سمجھا ہے جاں اپنی
فریب اُن مہربانوں سے بھی کھانے مجھ کو کافی ہیں
٭٭٭
کیوں لگی دل کی لگی دل نہ جلا جلدی سے
ایک چنگاری کو شعلہ نہ بنا جلدی سے
وہ جو مجھ کو غمِ ہستی سے کرے بیگانہ
مجھ کو ساقی وہی اِک جام پلا جلدی سے
اس سے پہلے کہ مرے شوق میں وہ ذوق نہ ہو
مجھ کو اپنا ہی تو دیوانہ بنا جلدی سے
مہرباں میرے گزارش ہے نوازش کر دے
اور تڑپا نہ مجھے سامنے آ جلدی سے
میرے اللہ جو مرے دل میں لگی رہتی ہے
سب کے سینوں میں وہی آگ لگا جلدی سے
لوگ ظالم ہیں فسانہ سا بنا لیتے ہیں
دل کے آزار تبسّم میں چھُپا جلدی سے
رات جتنی ہو سیہ ایک کِرن کافی ہے
دورِ ظُلمات میں پھیلے گی ضیا جلدی سے
کیسے کٹ پائے گی اب تیری مسافت، سوچوں
راہ مشکل، تو ہُوا آبلہ پا جلدی سے
تم تو کہتے تھے کہ جی پائیں گے نہ ان کے بِنا
کر دے پورا تُو وہی عہدِ وفا جلدی سے
ہم اکیلے تھے خزاؤں نے بھی منہ موڑا تھا
ساتھ اُن کا ہے تو پھر آئی صبا جلدی سے
اب یہ لگتا ہے کِسی کو ہوئی اُلفت مجھ سے
کتنا گہرا ہے چڑھا رنگِ حِنا جلدی سے
جس مسافت میں میسّر تری ہمراہی تھی
وہ سفر جیسا بھی تھا ختم ہوا جلدی سے
اُن کی محفل ہے ذرا دل پہ ہے قابو رکھنا
یہ تو آغاز ہے نہ ہوش لُٹا جلدی سے
چاروں جانب سے ہی طوفان و حوادث دیکھوں
اپنی توقیر بچا اوڑھ قبا جلدی سے
بحرِ آلام میں ناؤ یہ رواں رہتی ہے
میرے ہمدرد نیا زخم لگا جلدی سے
دل یہ چاہے کہ رہے اور فریبِ نظری
دے نہ اب یار تو فیصلؔ کو دغا جلدی سے
٭٭٭
وہی ہیں آنکھ میں اب جیسے کوئی خواب سے لوگ
وہ ہمسفر مرے ہمدم وہ ہمرکاب سے لوگ
وہ جن کی یاد میں سانسیں مہک مہک اُٹھیں
ہماری سوچ میں بسنے لگے گلاب سے لوگ
نقاب کوئی اُلٹ دے تو حشر برپا ہو
یہ آس پاس جو رہتے ہیں با حجاب سے لوگ
وگرنہ ساتھ کیوں چلتا ہے کب فقیروں کے
ہمارے ساتھ ہیں سب نیتِ ثواب سے لوگ
اُنھوں نے یاد بھی آنا تو ایک ناز کے ساتھ
کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں گے وہ نواب سے لوگ
ترے وصال کی اُمید پر رہیں زندہ
دِل فگار کا سکھ چین ہیں جناب سے لوگ
وہ جن سے تم نے تعلق ہے سمجھا لاحاصل
وفا کریں گے نبھائیں گے وہ خراب سے لوگ
بڑے بڑے سے ہیں دیکھے فرعون صفت یہاں
ہمارے سر پہ مسلّط ہوئے عذاب سے لوگ
ہر ایک رات اماوس کی رات لگتی ہے
کہاں گئے ہیں نہ پاؤں وہ ماہتاب سے لوگ
لگیں وہ دُور سے خوش رنگ و خوشنما فیصلؔ
رہِ وفا میں تو پائے سبھی سراب سے لوگ
٭٭٭
دل میں جو بسا صاحبِ اسرار کہاں ہے
ڈھونڈوں نہ ملے کوچۂ دلدار کہاں ہے
جس کے لیے سورج سے بھی کر بیٹھے عداوت
دھوپ آئی تو وہ سایۂ دیوار کہاں ہے
دل نے ہے فقط مانگی گدائی ترے در کی
دولت کا وہ شہرت کا طلبگار کہاں ہے
وہ میری نگاہوں کا فقط حسنِ نظر ہے
کچھ رنگ ہیں بکھرے سے، وہ شہکار کہاں ہے
جس کے لیے قربان کی توقیر بھی اپنی
ڈھونڈوں وہی اب صاحب دستار کہاں ہے
وہ حشر میں کر دیں گے کرم اور شفاعت
رحمت ہی پکارے گی گنہ گار کہاں ہے
چاہت میں رہی چاہ نہ اخلاص وفا میں
پھولوں میں فقط رنگ ہیں مہکار کہاں ہے
جس میں مجھے سپنوں کے خریدار ملیں گے
اب تک نہیں معلوم وہ بازار کہاں ہے
آیا وہ خیال عقل کی پَرتیں بھی کھلیں ہیں
اُس شخص کو پھر سوچنا بیکار کہاں ہے
حسرت نہ رہی کوئی بھی کھو کر اُنھیں فیصلؔ
ڈھونڈوں میں تمنّاؤں کا دربار کہاں ہے
٭٭٭
جانے پہنچے ہیں کہاں پر سلسلے اُس بات کے
راہ میں حائل ہوئے کیا مسئلے اُس بات کے
ہم اُمیدوں کے چمن میں رہ رہے ہیں آج تک
تک رہے ہیں مدتوں سے راستے اُس بات کے
کوئی جا کر اُن کو کہہ دے کچھ کریں اِن کا خیال
ہر جگہ پر سُن رہا ہوں تبصرے اُس بات کے
دَور مایوسی کا ہے لیکن خدا کا شکر ہے
دل میں اُمیدوں کے گُل کھِلتے رہے اس بات کے
ہر طرف اِک شور و غُل اُس بات کا ہوتا رہے
منزلوں کی سمت جائیں قافلے اس بات کے
اِک وٹامن ہے ہمارے واسطے اُن کا خیال
مل رہے ہیں ہم کو کتنے حوصلے اُس بات کے
چہ مگوئی کے سمندر میں سبھی ہیں غوطہ زن
اب سُنوں ہیں ہر جگہ پر تذکرے اُس بات کے
جاں فزا باتیں کرے ہر شخص ہے یہ آرزو
سلسلے لگنے لگے کتنے بھلے اُس بات کے
ٹھہر جاؤ آس رکھو ہے یہی تو زندگی
دل سنبھالو نہ بنو تم دل جلے اس بات کے
ہم یہ چاہیں جب تلک وہ آرزو پوری نہ ہو
ہر طرف برپا رہیں وہ معرکے اس بات کے
دل نشیں لگنے لگا سارا جہاں دیکھو ذرا
آنکھ میں جب بھی بسائے خواب سے اس بات کے
اب کرم کر دو خدارا ملتمس ہے اِک جہاں
دیکھ لو پورے ہوئے سب ضابطے اس بات کے
مَیں بہت پُرعزم تھا لیکن میں فیصلؔ کیا کروں
دور سے ہونے لگے ہیں فاصلے اس بات کے
٭٭٭
پہلے سے وہ اب اُن کے بھی تیور نہیں ملتے
یادوں میں بھی اب ہم کو وہ اکثر نہیں ملتے
ہے کون مقیّد جو کرے وقتِ رواں کو
اِک بار جو کھو جائیں وہ منظر نہیں ملتے
انسان تو انسان ہیں کیسے اُنھیں پائیں
ہم کو جو موافق ہیں وہ پتھّر نہیں ملتے
بس ایک تمنّا کے لیے عمر بِتا دی
ہم ایسے جہاں بھر میں تو خودسَر نہیں ملتے
خوشیاں بھی ملیں ہم کو تو ملفوف دکھوں میں
ہم جیسے مقدّر کے سکندر نہیں ملتے
ہیں نام بڑے دیکھے مگر ظرف ندارد
دریا جہاں گرتے ہیں وہ ساگر نہیں ملتے
بدلا وہ زمانہ کہ سبھی رنگ ہیں بدلے
اب گودڑیوں میں کہیں گوہر نہیں ملتے
وہ جام ملیں جن سے بڑھے تشنہ لبی اور
جو پیاس گھٹاتے ہیں وہ ساغر نہیں ملتے
اب شعبدہ بازی کا فقط رنگ جہاں میں
دل پہ جو کریں راج وہ ساحر نہیں ملتے
ہم خاک نشیں تیری فلک پہ ہیں اُڑانیں
رُتبے میں کبھی ہم تو برابر نہیں ملتے
فیصلؔ ہمیں آواز نہ دو وقت گیا اب
ہم لوگ ہیں وہ جو کہ مکرّر نہیں ملتے
٭٭٭
دل اُسی اِک ذکر سے آباد ہونا چاہیے
کچھ دلِ ناشاد کو بھی شاد ہونا چاہیے
جس جگہ ممکن ہو تیری وحشتِ جاں کا علاج
اُن جزیروں میں تمہیں آباد ہونا چاہیے
جس طرح سے اس نے رکھا ہے خیالِ بے کساں
والیِ ارضِ وطن جلّاد ہونا چاہیے
استعماری طاقتوں کی قید میں اپنا وطن
ساحروں سے اب اِسے آزاد ہونا چاہیے
زندگی میں زندہ رہنے کے لیے زندہ دِلو
خواہشوں کا اِک جہاں آباد ہونا چاہیے
کچھ تو ہم کو بھی قفس میں رہنے کا دے دیں جواز
آپ کے جیسا مرا صیّاد ہونا چاہیے
صبح کا بھولا جو واپس آنا چاہے شام کو
راستہ گھر کا تو اس کو یاد ہونا چاہیے
نفرتوں کے کوہ سے جُوئے محبت لی نکال
نام فیصلؔ کا بھی اب فرہاد ہونا چاہیے
٭٭٭
یہ دِل حزیں رہے مضطرب کسی دکھ نے اس کو رُلا دیا
ہوئے اپنی ذات سے بے خبر جو تھا پایا سب ہی لُٹا دیا
نہ یہ حال اپنا بتا سکا نہ میں زخم اپنے دِکھا سکا
لکھا دل پہ حالِ سِتمگری اُنھیں آنسوؤں نے مٹا دیا
تری جستجو میں رہے مگن نہ جوانی نہ رہا بانکپن
مرے مہرباں نے بھلا کیا مری خاک کو بھی اُڑا دیا
رگِ جاں سے جو ہے قریب تر جو ہے وسوسوں سے باخبر
مرے مصطفیٰؐ مرے راہنما تو نے ایسا مجھ کو خدا دیا
کروں کیا کہ لب ہوئے میرے چُپ نہ میں سہہ سکوں جو ہے یہ تڑپ
نہ ہو بانس نہ بجے بانسری دِل بے قرار جلا دیا
کوئی آس ہے نہ ہی پاس ہے ہوئی زندگی بھی اُداس ہے
میں اُن آرزوؤں کا کیا کروں جنہیں تھپکیوں سے سُلا دیا
وہ کرم بھی تھا ذرا جوش میں رہا دل نہ میرا بھی ہوش میں
یوں بِلک اُٹھیں مری خواہشیں جیسے سویا بچہ جگا دیا
بڑے ضبط سے لیے کام ہیں کیے ہمتّوں کو سلام ہیں
مری ذات ٹوٹ کے رہ گئی کِسے ہم نے دل سے بھُلا دیا
جو ہے با وفا اُسے دوسزا اسی رسم نے ہے تباہ کیا
جنہیں پار جانا تھا اُن کو ہم نے ہمیشہ کچا گھڑا دیا
٭٭٭
ہے سرور اِک غضب کا ملا اِک سکوں تھکن میں
میں چلا ہوں کس کی جانب کہ ہے رقص سا بدن میں
یہ جو مٹی کا دیا ہے کرے چاک ظلمتوں کو
ہے بلا کی ایک جرأت اسی چھوٹی سی کرن میں
کبھی ہنس کے بات کرتے کبھی دل کا حال سُنتے
ہیں سبھی جواب پنہاں تیرے لہجے کی تھکن میں
سبھی روند ڈالے رشتے زر و مال کی ہوَس میں
ذرا غور سے تو سوچو کوئی جیب ہے کفن میں
مرے نوحہ خواں جوانو! کرو تھوڑا سا تدبّر
ہے مرا سوال اتنا کیا نہیں ملا وطن میں
ہے یہ پُر خلوص جذبہ کرو قدر مری چاہ کی
نہیں شائبہ رِیا کا میرے شوق میں لگن میں
نہ کوئی بات لب پہ لاؤ یہ بھرم بھی مرا رکھ لے
ہیں لکھے جواب سارے تیرے ماتھے کی شکن میں
تری خامشی میں فیصلؔ تیرے درد بولتے ہیں
تیری داستاں عیاں ہے تیرے چاکِ پیرہن میں
٭٭٭
میں چاہتا ہوں کہ مجھ کو بھی میرے خواب ملیں
جدھر جدھر سے بھی گزروں وہاں گلاب ملیں
ہمیں خوشی بھی ملے تو وہ لاکھ پردوں میں
زمانے بھر کے جو غم ہیں وہ بے حجاب ملیں
وہ اور ہیں جنہیں ملتے رہے گل و لالہ
ہر اک سفر میں ہمیں تو فقط سراب ملیں
کرم ہوئے تو وہ اتنے کہ انگلیوں پہ گِنیں
سِتم ملیں جو ہمیشہ تو بے حساب ملیں
یہاں یہ رنج و اَلم ہیں وہاں کرم ہی کرم
کبھی نصاب سے میرے نہ وہ نصاب ملیں
جسے بھی دیکھا اُسی کے ہی ہو رہے ہم تو
ہمیں تو لوگ ہمیشہ ہی لاجواب ملیں
کوئی بھی رُت ہو، وہی مہربان ساتھ رہے
مری نگاہ کو فیصلؔ نہ اب عذاب ملیں
٭٭٭
دل میں حسرت ہے ہمارے لیے بولے کوئی
اپنی قسمت پہ جو تالے ہیں وہ کھولے کوئی
ہم کو اب تک نہ ملا کوئی یہاں قدر شناس
جوہری ہم کو ملے ہیرے کو تولے کوئی
عمر گزری ہے مگر کوئی نہ آہٹ، دستک
دل کے اِن بند دریچوں کو بھی کھولے کوئی
جو گِرا پھر نہ اُٹھا بن گیا دستور یہاں
شہر والوں سے کہو اب تو نہ ڈولے کوئی
ایک خواہش ہے کہ یہ خواب نہ بکھریں اب کے
اپنے ارمان بھی تسبیح میں پرو لے کوئی
میں نے ہر چہرے پہ اُمید کی کرنیں دیکھیں
سب کی معصوم تمنائیں نہ رولے کوئی
اتنی اقدار کی پامالی ہے اللہ توبہ
خوں کے چھینٹوں سے یہاں داغ بھی دھو لے کوئی
ایک وہ ہیں کہ جنہیں یاد رہا کچھ بھی نہیں
کچھ ذرا سوچ کے آنکھوں کو بھگو لے کوئی
ہم تو پہلے سے ہی اپنوں کے ڈسے بیٹھے ہیں
زندگانی میں نئے زہر نہ گھولے کوئی
کوئی غمخوار کہاں کس کو سنائیں بپتا
چارہ گر دیکھے مرے دل کے پھپھولے کوئی
ہم کسی شخص کے ہیں رحم و کرم پر فیصلؔ
چاہے جتنا بھی ستائے ہمیں رولے کوئی
٭٭٭
یہ دل ہم آزما دیکھیں
ذرا سا مسکرا دیکھیں
سدا ہجراں ہے قسمت میں
ہمارا حوصلہ دیکھیں
جو مالک ہیں دل و جاں کے
اُنھی کا راستہ دیکھیں
بھروسہ ہے وہ ناؤ کا
اُسے ہی ناخدا دیکھیں
یہ دل جلنا روایت ہے
یہ جاں اپنی جَلا دیکھیں
ہمیں منزل ملے شاید
کسی رستے پہ جا دیکھیں
گریباں جب بھی ہم جھانکیں
اُسے ہی با خدا دیکھیں
ندامت سے وہ دھندلائے
کوئی جب آئینہ دیکھیں
ذرا جھانکیں تو ماضی میں
یہ دل اپنا رُلا دیکھیں
سوا ہو تشنگی دل کی
کوئی جب بھی گھٹا دیکھیں
مرے مولا مری آنکھیں
اسی کو ہی سدا دیکھیں
تری خواہش کے ہاتھوں پر
وہی رنگِ حنا دیکھیں
مٹے اب راج ظلمت کا
اندھیرے میں ضیا دیکھیں
ہے من مندر میں وہ مورت
اُسی کو دیوتا دیکھیں
جلے گورِ تمنّا پر
کوئی ایسا دِیا دیکھیں
فقط جس کو سمجھ پائے
اُسی کو ماورا دیکھیں
کہاں بے لوث جذبے ہیں؟
جہاں کو کیا ہُوا دیکھیں
دِلوں میں بُت سجائے ہیں
تمنّا ہے خدا دیکھیں
سبھی ڈاکو، لٹیرے ہیں
کوئی تو رہ نما دیکھیں
وہی ہو ربط پھر دل کا
وہی پھر سلسلہ دیکھیں
وہ منظر نہ رہے فیصلؔ
بتاؤ اب کہ کیا دیکھیں
٭٭٭
جو بھولے سے کل اپنا ہی عکس دیکھا
تو چہرے پہ وحشت کا ہی رقص دیکھا
یہ آزادی کیسی کہ ہے روح مقفّل
یہ کیسی صبا جس میں ہے حبس دیکھا
کئی آئے مد و جذر، زلزلے بھی
مکیں اپنے دل کا وہی شخص دیکھا
ہوا ناتواں اتنا اب ابنِ آدم
جہاں بھر میں ابلیس کا رقص دیکھا
سہے ظلم جاں پر مگر لب نہ کھولے
یہی ہم نے فیصلؔ میں ہے نقص دیکھا
٭٭٭
مرے ارمان سب دل کے ہیں آنکھوں میں اُمڈ آئے، کرم ہم پہ وہ فرمائے
ذرا ہم کو تسلّی ہو پریشاں دل سنبھل جائے، کرم ہم پہ وہ فرمائے
ہے جس کا انتظار اب تک بنا جو خواب آنکھوں کا لگے ہم ستاروں سا
اُسی وعدۂ لیلیٰ سے کوئی اس دل کو بہلائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
خدا کا واسطہ تجھ کو خیال اپنا کرو صاحب یہ دامن بھی بھرو صاحب
سبھی ہیں حسرتیں تشنہ وہی سیراب کر جائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
وہ جب تک نہ نظر ڈالیں ادھورا ہے سنگھار اپنا رہے جھوٹا ہر اک سپنا
تمنّاؤں کی دلہن کو بڑے زیور ہیں پہنائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
چمکتے ہیں سدا ماہ و نجم میری بصارت میں ترے وعدوں کی صورت میں
ہماری خواہشوں کا چاند اب دیکھو نہ گہنائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
تمنّا وصل کی دن رات بستی ہے نگاہوں میں عیاں سب میری آہوں میں
مگر کب تک خیالوں میں کوئی دل اپنا بہلائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
مری اِن آرزوؤں کے بڑے دربار ہیں دل میں چُبھے کئی خار ہیں دل میں
تمناؤں کے لاشے کتنے اس دل میں ہیں دفنائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
کتابِ زندگانی کا اچانک کیسا باب آیا یہ کیسا انقلاب آیا
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے وہ ہیں نقش دھندلائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
حیاتِ بحرِ امکاں میں بڑھے درد و اَلم اتنے لکھے میرا قلم کتنے
بہت ہے کربِ تنہائی رہے دن رات غزلائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
جو اِس دل کی مُرادیں ہیں وہ بَر آئیں تو اچھا ہے سنبھل جائیں تو اچھا ہے
یہ پتھّر ہو گئیں آنکھیں خدا وہ دن بھی دِکھلائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
ذرا آہ و بکا کا ہم جہاں آباد کرتے ہیں سبھی فریاد کرتے ہیں
یہ ہے دستور دنیا کا جو روتا ہے وہی ہائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
یہ مانا ہے کہ وعدوں سے طبیعت کو سکوں آئے جنوں کو چین سا آئے
مرا ساقی مرا ہمدم فقط باتوں سے بہلائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
تو اپنی گریہ زاری سے لگا دے درد کی ضربیں دکھا دے اپنی وہ چوٹیں
وہ پتھّر ہو اگر پانی تُو اِک فرہاد کہلائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
محل شاخِ بُریدہ پر سبھی اپنے بنا ڈالے مقدّر پر بھی ہیں تالے
حقیقت تلخ ہے لیکن جسے دل نہ سمجھ پائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
سبھی خوش باش ہیں فیصلؔ تمہیں کیا عارضہ لاحق ہو رنجیدہ یونہی ناحق
دلِ ناشاد کیوں تیرا سبھی کو ہی رُلا جائے کرم ہم پہ وہ فرمائے
٭٭٭
پھولوں کی طرح ہے وہ صباؤں کی طرح ہے
لگتا وہ دسمبر کی ہواؤں کی طرح ہے
اُس شخص سے ہی بات کریں، چند ہیں لمحے
جس شخص کی ہر بات دعاؤں کی طرح ہے
انجانا سا اِک چین ملے یاد میں اس کی
احساس وہ اِک ٹھنڈی سی چھاؤں کی طرح ہے
میدان کھلے، کھیت بڑے، ظرف کشادہ
انداز ترا اپنے ہی گاؤں کی طرح ہے
خود غرض ہے خود بین ہے کُل خود کو جو سمجھے
صحراؤں میں وہ بھٹکی صداؤں کی طرح ہے
پایا نہ سکوں اس نے مگر عمر ہے گزری
وہ لہجہ بھی شوریدہ ہواؤں کی طرح ہے
مرضی ہے کہ وہ دشت پہ برسے یا نہ برسے
ہم تشنہ ہیں وہ کالی گھٹاؤں کی طرح ہے
جس کو نہ ملے چاہت و اُلفت کے خزانے
وہ شاہ بھی دنیا کا گداؤں کی طرح ہے
ہے اِس کا بھرم عزت و توقیر ہماری
دھرتی سے ہمیں پیار بھی ماؤں کی طرح ہے
٭٭٭
اُڑتے ہیں ہواؤں میں ملے اُن سے ہیں جب سے
خوش فہم ہیں اُمید لگا لیتے ہیں سب سے
پایا نہ سکوں دل نے وہ اندوہ بھی ویسے
حاصل نہ ہوا کچھ بھی ہمیں جشنِ طرب سے
لوٹے بھی تو کیا جب نہ رہا زادِ سفر بھی
آ جاؤ یہ سمجھاتے رہے بات ہیں کب سے
اندازِ جہاں بانی ذرا سیکھ خدارا
تجھ سے تو کوئی کام بھی ہوتا نہیں ڈھب سے
بن مانگے جو ہر چیز مجھے دان ہے کرتا
کہتا نہیں لوگوں سے مَیں ہوں مانگتا رب سے
ظالم کی کرامت ہے یا ہے صبر کی معراج
نکلی نہیں اک آہ بھی اب تک میرے لب سے
سورج سے گِلہ ہے کہ وہ کیوں چھوڑ گیا ہے
شکوہ کریں کیا کوئی بھی تاریک سی شب سے
جس در کی غلامی کی فرشتوں کو بھی حسرت
اُس در پہ اگر جاؤ تو سو بار ادب سے
دے جاؤ ہمیں اب تو کوئی جھوٹی تسلّی
کچھ تو کہو بیمار سے اُس جان بہ لب سے
یہ گردشِ دوراں یہ پریشانیاں فیصلؔ
پہچان ہوئی اُن سے فقط تیرے سبب سے
٭٭٭
سدا کھوئے سے رہنے کی یہ عادت چھین لے مولا
مری ہستی میں جو پنہاں ہے وحشت چھین لے مولا
نجانے اُس وجہ سے کتنے ہی نقصان دیکھے ہیں
مری فطرت سے احساسِ محبت چھین لے مولا
اگر سب لوگ پتّھر کے بنائے تم نے دنیا میں
ہوئی پیدا جو جذبوں میں حرارت چھین لے مولا
سبھی مظلوم سے بندے بھی ہیں تیری ہی تخلیقیں
جو ظالم کو ہے دی تم نے رعایت چھین لے مولا
اگر میری ریاضت نے ہے ہونا سعیِ لاحاصل
مرے تن میں جو پیدا کی ہے ہمت چھین لے مولا
تری سب نعمتوں کا شکر میں کیسے بجا لاؤں
مرے لب پہ جو ہے حرفِ شکایت چھین لے مولا
ہمیں وہ راہ دکھلا دے جو منزل کا پتہ دے دے
ہمیں عزّت عطا کر دے یا غیرت چھین لے مولا
جو لوگوں کے لیے پیدا کریں محشر سی بے چینی
جو ظالم کے ہے بازو میں قیامت چھین لے مولا
اگر لہجے کی نرمی کو زمانہ بزدلی سمجھے
جو فیصلؔ کے دہن میں ہے حلاوت چھین لے مولا
٭٭٭
چھُپ چھُپ کے وہ قاتل سی نگاہ دیکھ رہا ہوں
کیسے ہوا یہ شہر تباہ دیکھ رہا ہوں
جب ظلم جواں تھا سبھی مبہوت کھڑے تھے
جب کچھ نہ بچا سب کو گواہ دیکھ رہا ہوں
حالات کے طوفاں میں جس پر ہو بھروسہ
اپنے لیے وہ جائے پناہ دیکھ رہا ہوں
سونامیِ حالات سے کچھ سیکھ نہ پائے
پھر سے وہی اعمالِ سیاہ دیکھ رہا ہوں
انصاف کرو خود ہی کہ کیا چیز ہے برتر
میں تیرا کرم، اپنے گناہ دیکھ رہا ہوں
اب لینا ہے کیا تم نے اُسی دشمنِ جاں سے
پھر سے تمہیں کیوں چشمِ براہ دیکھ رہا ہوں
اِس طرح سے ظلمت کا تقدّس جو کریں گے
دھرتی کو میں بے آب و گیاہ دیکھ رہا ہوں
کیوں پھر سے تباہی کا طلبگار ہے فیصلؔ
آنکھوں میں تری اس کی ہے چاہ، دیکھ رہا ہوں
٭٭٭
لکھا تھا لوح کا، دل میرا لخت لخت ہوا
زہے نصیب کہ تیرے ہی وہ بدست ہوا
وہ کیا خطا ہے کہ جس کی سزا نہ ختم ہوئی
ہر ایک شخص کا لہجہ بھی ہے درشت ہوا
میرا تو نامۂ اعمال اِک ندامت ہے
ترے کرم سے ہی لیکن بلند بخت ہوا
یہ رتجگے، یہی آنسو، یہ انتظار و اَلم
وفا کی راہ میں اپنا فقط یہ رَخت ہوا
قدم قدم پہ بچھائے جو مہربانوں نے
یہ زندگی اُنھی کانٹوں کا ایک تخت ہوا
حیاتِ گردشِ دوراں نے یوں بگاڑا ہے
ملے اَلم ہیں تو پھر دل بھی مَست مَست ہوا
یہ مدتوں کی ریاضت کے بعد راز کھُلا
لکھا ہے میرے مقدّر میں سنگ و خشت ہوا
مرے نصیب کے تارے بھی گردشوں میں رہے
یہ کس کی زلف میں اُلجھا ہے میرا بخت ہوا
خمیر اِس کا اُٹھا ہے وفا کی مٹّی سے
کسی بھی رُت میں نہ فیصلؔ جفا سرشت ہوا
٭٭٭
زمانے کی نگاہوں میں سیاست بڑھتی جاتی ہے
بڑے سادہ تھے ہم سمجھے محبت بڑھتی جاتی ہے
کسی کے اِک اشارے پر لُٹا بیٹھے جو دیں، دنیا
مری اُن غم کے ماروں سے عقیدت بڑھتی جاتی ہے
جسے اب تک نہیں سمجھا، بِنا جس کے اُدھورا ہوں
مرے دل میں وہ نادیدہ محبت بڑھتی جاتی ہے
کوئی بے لوث نہ دیکھا ہر اِک مطلب کا مارا ہے
بشر کی زندگی میں اب سیاست بڑھتی جاتی ہے
مرا جس دن سے احساسِ محبت روح میں اُترا
اُسی دن سے مرے دل میں سکینت بڑھتی جاتی ہے
اُدھر حالات کی تلخی سے بگڑے کام سب اپنے
اِدھر درد و اَلم کی بھی طوالت بڑھتی جاتی ہے
جنہیں پاگل کہے دنیا جو دیوانے کسی کے ہیں
اُنھی دوچار لوگوں سے عقیدت بڑھتی جاتی ہے
محبت کم ہوئی دنیا میں کیسی اب ہوائیں ہیں
کدُورت کی عداوت کی نحوست بڑھتی جاتی ہے
فریبِ زندگی صدیوں سے کھاتے آئے ہیں فیصلؔ
مگر جاگے ہیں خوابوں سے حقیقت بڑھتی جاتی ہے
٭٭٭
ذرا سانس لے لیں، سنبھل دیکھتے ہیں
ملے گا دکھوں کا بھی حل، دیکھتے ہیں
سنا ہے کہ طاقت ہی ہے رازِ دنیا
ذرا ہم بھی لہجہ بدل دیکھتے ہیں
وہ اپنوں کے لطف و کرم کا ہے مارا
وہ ہے کیسے حالوں میں، چل دیکھتے ہیں
یہاں جس کی لاٹھی وہی بھینس پائے
سو اطوار اپنے بدل دیکھتے ہیں
وجہ کیا ہے جذبے ہوئے سرد سارے
ہوئے کیسے احساس شل دیکھتے ہیں
کوئی اُن سا مل جائے ممکن نہیں ہے
ذرا اُن کا لیکن بدل دیکھتے ہیں
کہاں میں کہاں ہے ترا ساتھ فیصلؔ
وہ سوکھی ندی میں کنول دیکھتے ہیں
٭٭٭
میرے لیے وہ دھوپ میں بادل کہاں بنا
مرہم، سکوں، قرار وہ صندل کہاں بنا
اُس کا خیال، خواب نہ دھڑکن میں بس سکا
مَیں بھی کسی کی آنکھ کا کاجل کہاں بنا
اتنا بھی ہم نے ٹوٹ کے چاہا کہاں اُسے
سوچوں کی وہ خیال کی دلدل کہاں بنا
دردِ جدائی میں وہ کہاں پہ ہوا نڈھال
میری مفارقت میں وہ پاگل کہاں بنا
دُکھ میں وہ اِک اَماں ہے تو مشکل میں سائباں
جیسا ہے ماں کا ویسا بھی آنچل کہاں بنا
اُس کے نہیں ہیں دل میں ہیں دنیا کے واہمے
مَیں قیس کی طرح سے بھی بے کل کہاں بنا
اب بھی مرے وجود میں ’’مَیں‘‘ کی پکار ہے
فیصلؔ تمہاری ذات کے قابل کہاں بنا
٭٭٭
کوئی بتلائے قریں میرے وہ دَر کتنا ہے
اپنی منزل سے رہا دُور سفر کتنا ہے
ہم کو اک بار عطا پھر ہو وہ دیدار و نگاہ
ہم بھی دیکھیں کہ رہا ذوقِ نظر کتنا ہے
پھر نئی ایک مسافت کی طرف لوگ چلے
یہ نہ دیکھا کہ بچا زادِ سفر کتنا ہے
اپنے آنے کا پتہ اور نہ جانے کی خبر
اس زمانے میں تو لاچار بشر کتنا ہے
سب کچھ اپنا ہی جَلا بیٹھے تو معلوم ہوا
اُس کی نیّت میں، ارادوں میں شرر کتنا ہے
ہم نے مانا کہ یہ سپنے ہیں ضیاعِ ہستی
دل کو اِک چین ملا اِن میں مگر کتنا ہے
جن پہ بکھری ہوئی یادیں ہیں مرے اپنوں کی
دل کو اُن رستوں پہ ہی شوقِ سفر کتنا ہے
بعد طوفان کے اب سہمے ہیں سب پِیر و جواں
سب کی آنکھوں میں نہاں خوف و خطر کتنا ہے
پھر اُسی موڑ پہ اک اور لٹیرا دیکھوں
شوق لُٹنے کا مری جاں کو اِدھر کتنا ہے
تم کو معلوم کہاں کربِ فراقِ یاراں
اپنی ہستی میں مَچا اس پہ غَدر کتنا ہے
دل جو تڑپے تو تڑپ اُٹھے زمانہ فیصلؔ
ہم بھی دیکھیں کہ رکھے آہ اثر کتنا ہے
٭٭٭
نہ آرزوؤں کا خون کرنا کہیں ہمیں تم بھلا نہ دینا
تمہارے رحم و کرم پہ ہم ہیں کوئی بڑی اب سزا نہ دینا
بڑے کٹھن راستوں پہ چل کے جمع کیا ایک ایک تنکا
مری اُمیدوں کے آشیاں کو تم اپنی ضد سے جلا نہ دینا
وہ جس کا دھڑکا ہر ایک رُت میں ہمارے دل کو لگا رہا تھا
وہ جس سے ڈرتے رہے ہیں ابتک وہ بات کہہ کر رُلا نہ دینا
یہ دیکھ لو منتظر نگاہیں بنا ہوا چہرہ یہ سوالی
جو سپنے آنکھوں میں بس چکے ہیں تم ان پر مٹی کو پا نہ دینا
ہیں خواب سارے بسائے دل میں نظر کی جنبش کا منتظر ہوں
جو خواہشوں کے دیئے جلائے وہ دیپ سارے بُجھا نہ دینا
ہوئی یہ ہستی تو زخم خوردہ لگاؤ مرہم عنایتوں کا
ڈسے ہوئے ہیں حکومتوں کے نئی کوئی اب سنا نہ دینا
دُہائی فیصلؔ کی سن لو تم بھی کرو مسیحائی اب خدارا
ہوئے ہیں گھائل سے جاں بہ لب سے وہ تیر ظلمی چلا نہ دینا
٭٭٭
ہم اسی نام کی دن رات صدا دیتے ہیں
تیر ہر روز اندھیرے میں چلا دیتے ہیں
ولولے شوق سَوا، آنکھ ہے پُر نم پُر نم
دل کے احوال ہی منزل کا پتہ دیتے ہیں
جرم اپنا بھی یہ کیا کم ہے، جئے جاتے ہیں
بس اسی بات کی اب لوگ سزا دیتے ہیں
جتنے فرعون ملے اتنے ہیں انسان کہاں
مجھ کو ہر روز نیا، لوگ خدا دیتے ہیں
خود کو احساس محبت کا دلانے کے لیے
دل کو ہر روز ہی تھوڑا سا جلا دیتے ہیں
جب بھی چاہت کا کیا صاحبِ کامل سے سوال
کچھ توقّف کیا اور پھر یہ کہا، دیتے ہیں
ایسی دنیا ہے وہ بے درد زمانہ دیکھوں
جب لگے آگ تو سب اس کو ہَوا دیتے ہیں
وہ جو آیا ہے مسافت سے تھکا ماندہ ہے
اس پرندے کو وہ ٹہنی سے اُڑا دیتے ہیں
جب بچھڑتا ہے کوئی ہم تو فصیلِ جاں کی
کوئی مضبوط سی دیوار گِرا دیتے ہیں
اپنی ہستی کو تو اِک روز بکھر جانا تھا
ایسی باتوں کا نہیں اُن کو گلہ دیتے ہیں
جب بھی ملتا ہے کوئی ماہِ جبیں تو دل میں
آرزووں کا نیا پھول کھلا دیتے ہیں
پھر تو بن جائے گا وہ میرا مقدّر شاید
نام پیشانی پہ اُن کا ہی لکھا دیتے ہیں
شب کو ارمان چمکتے ہیں ستارے بن کر
ہم چراغوں کو سرِ شام بُجھا دیتے ہیں
میرے سب ہی تو بھَرم میرے خدا نے رکھے
لوگ دنیا کے تو فیصلؔ مجھے کیا دیتے ہیں
٭٭٭
نہ بھاگ تو اِدھر اُدھر کہ سانپ آستیں میں ہے
نہ روز جی نہ روز مَر کہ سانپ آستیں میں ہے
جو مہرباں ہیں قدرداں وہی گرائیں بجلیاں
بچا سکا نہ اپنا گھر کہ سانپ آستیں میں ہے
خدا کا ہے کرم ہُوا نقاب سب اُلٹ گئے
یہ سوچ کر ہے آنکھ تر کہ سانپ آستیں میں ہے
قدم قدم پہ سازشوں کے جال ہیں لگے ہوئے
عقاب سی رکھو نظر کہ سانپ آستیں میں ہے
نہیں ہے دوش غیر پر کیا دھرا ہے آپ کا
نہیں رہا میں بے خبر کہ سانپ آستیں میں ہے
تجھے نہ ڈھونڈنا پڑے گا اب عدُو جہان میں
کہیں نہ اب تو کر سفر کہ سانپ آستیں میں ہے
جنہیں دیا تھا خون کل اُنہیں ہے خوں کی پیاس پھر
گئی ہے میری آنکھ بھر کہ سانپ آستیں میں ہے
نہ پوچھ گچھ کسی سے کر کہ بھید سب عیاں ہوئے
اِدھر ہی اب ذرا ٹھہر کہ سانپ آستیں میں ہے
نہ کر سکے کوئی بھی درماں عارضے ہیں وہ لگے
یہ دیکھ میرے چارہ گر کہ سانپ آستیں میں ہے
وہ اعتبار خوں ہوئے کہاں سے اپنا پن ملے
میں رو پڑا ہوں دیکھ کر کہ سانپ آستیں میں ہے
ہر اِک سفر میں پورے کر تقاضے احتیاط کے
رکھو قدم بھی پھونک کر کہ سانپ آستیں میں ہے
٭٭٭
ہے کون جو اِس کان میں رس گھول رہا ہے
لگتا ہے وہی جانِ غزل بول رہا ہے
ہے دانہ جہاں دام بھی پھیلا وہیں دیکھوں
یہ طائرِ دل بھی وہیں پَر تول رہا ہے
شاہوں کی سی فطرت تُو کبھی پا نہیں سکتا
ہاتھوں میں ہمیشہ ترے کشکول رہا ہے
جس شخص کی باتوں میں تھی جھرنوں سی روانی
اب کون اسی لہجے میں پھر بول رہا ہے
دنیا کے لیے ہوں گے یہ زر، لعل و جواہر
میرے لیے دکھ تیرا ہی انمول رہا ہے
دیکھی ہیں قطاروں سے بچھڑتی ہوئی کونجیں
کچھ آج نہیں، کل جہاں اِک غول رہا ہے
پھر آنکھ پھڑکتی ہے خدا خیر کرے گا
اُٹھتا مرے دل میں وہی اک ہول رہا ہے
معلوم نہیں کس نے اُنھیں بات وہ کہہ دی
جو لفظ زباں پر بھی ابھی ڈول رہا ہے
اب تیری خبر آئے گی اخبار میں فیصلؔ
جس طور زمانے سے تو اب بول رہا ہے
٭٭٭
اب نہ رُکنے سے رُکے گا یہ حسینی کارواں اِن کوفیوں کے درمیاں
کربلا والوں کی نسبت سے بنے ہم تو چٹاں اِن کوفیوں کے درمیاں
سونت کر شمشیر اپنی سربکف ہو کے رہو اور ساتھ اپنے لے چلو
گھوڑے، نیزے، ڈھال، بھالے اور سب تیر و کماں اِن کوفیوں کے درمیاں
کوئی اب لائے کہاں سے آسماں سے حوصلے دیکھے نہ پھر وہ معرکے
چاہیے غازیؓ سا اور شبیرؓ سا عزمِ جواں اِن کوفیوں کے درمیاں
اپنی اپنی راہ لے کے سب کے سب چلتے بنے غم فرقتوں کے دے چلے
تُو اکیلا جس کے نیچے، دیکھ لے وہ آسماں اِن کوفیوں کے درمیاں
اب مقدر کے تھپیڑوں سے ملیں گی منزلیں بیکار ہیں سب حُجتّیں
میری قسمت، کھُل گیا ہے ناؤ کا اب بادباں اِن کوفیوں کے درمیاں
تلخیِ حالات میں ظلمت کی کالی رات میں دشمن بھی سارے گھات میں
عزم و استقلال کی پھر بھی لکھیں گے داستاں اِن کوفیوں کے درمیاں
صبر ورثہ ہے شجاعت ہی فقط پہچان ہے اور عزمِ عالیشان ہے
جائے گی اپنی کوئی بھی نہ ریاضت رائے گاں اِن کوفیوں کے درمیاں
حق ہے یا باطل، جہاں میں دو فقط ہیں راستے لیکن ہیں ان میں فاصلے
رسمِ شبیری ادا کر دیں گے تو ہو گا نشاں اِن کوفیوں کے درمیاں
دیکھ لو اجداد اپنے ہیں سبھی بتلا گئے اُمت کو سب سمجھا گئے
کر دو سب قربان حق پر دیکھ نہ سود و زیاں اِن کوفیوں کے درمیاں
تم کسی قیمت پہ چھوڑو نہ وہ اِک نقشِ قدم تھامو اُنھی کا ہی عَلم
ہاتھ کٹ جائیں، کٹے سر، حق نہ چھوڑے یہ زباں اِن کوفیوں کے درمیاں
کربلا ہے پھر بپا مولاؓ میرے دیکھو ذرا پھیلا ہوا دستِ دُعا
ڈھونڈتا ہے آپ کو پھر آپ کا فیصلؔ زماں اِن کوفیوں کے درمیاں
٭٭٭
جب سے وہ جاناں ہو گئے
ہم تب سے ناداں ہو گئے
کچھ فاصلے ہم نے رکھے
کچھ وہ گریزاں ہو گئے
راہِ طلب میں جو ملے
اِس دل کا ارماں ہو گئے
اُردو ادب کے دن بُرے
ہم بھی غزل خواں ہو گئے
سب ہی غلط مجھ سے ہوا
وہ شہرِ خوباں ہو گئے
رُسوائیاں قسمت جو تھیں
کیوں پھر پریشاں ہو گئے
جن پتھروں پر وہ چلا
لعلِ بدخشاں ہو گئے
ذرّے غبارِ راہ کے
اب ماہِ تاباں ہو گئے
کوئی اِدھر آیا نہیں
خانۂ ویراں ہو گئے
جو عرش پر آباد ہیں
وہ جزوِ ایماں ہو گئے
یہ حال کیسا اب بنا
آئینے حیراں ہو گئے
قدرت کا ہے یہ بھی ستم
ہم لوگ انساں ہو گئے
وہ حال ہے فیصلؔ کہ ہم
گورِ غریباں ہو گئے
٭٭٭
اپنی بسر نہ ہو، وہ عبادت کیے بغیر
جائیں کہیں نہ ہم تو زیارت کیے بغیر
دنیا کے پیچ و خم ہوں کہ دِیں کا معاملہ
کچھ بھی نہ پا سکیں گے محبت کیے بغیر
زاہد ذرا سی چھُوٹ دو اُلفت کے باب میں
جنت نہ پاؤ گے یہ سخاوت کیے بغیر
اُن کا دھرم ہی کینہ و بُغض و حسد بنا
کچھ لوگ رہ نہ پائیں عداوت کیے بغیر
چلتا رہا ہے ایسے ہی صدیوں سے سلسلہ
اب نہ چلے گی بات عنایت کیے بغیر
وہ اِک خیال دل سے بھُلانا عذاب ہے
پر جی نہ مانے ایسی شرارت کیے بغیر
مَیں ہوں گناہ گار یا مجرم ہیں آپ بھی
کیسے یہ فیصلہ ہو سماعت کیے بغیر
جینا سکھا دیا تھا ستمگر نے اس طرح
ہم نے گزار لی ہے شکایت کیے بغیر
اُس کو تو ایک پل بھی نہ فیصلؔ سکوں ملا
سپنوں کے شہرِ ناز کو غارت کیے بغیر
٭٭٭
ولولے، جذبات نہ ہوں تو ملے منزل کہاں
مَیں کہاں ناؤ کہاں جانے گیا ساحل کہاں
وہ تو خود ہی احتراماً خم ہوئی گردن مری
ورنہ اتنا زور آور بازوئے قاتل کہاں
تلخیِ حالات کی تپتی دوپہریں دیکھ لیں
اب رہی رِم جھِم کہاں وہ پیار کا بادل کہاں
شہر میں اِک ہُو کا عالم خوف کے پہرے کڑے
سائیں سائیں ہر طرف بجتی کوئی پائل کہاں
اب حقیقت بال کھولے سامنے ہے ناچتی
آنکھ سے مستی گئی دل بھی رہا پاگل کہاں
وہ تو اپنی تُند خوئی نے بگاڑے کام سب
پر طبیعت اس کے ذکرِ خیر پر بوجھل کہاں
عادتاً ہی اس کی راہوں سے نظر ہٹتی نہیں
راہِ اُلفت چھوڑنے پہ دل ہوا مائل کہاں
ہر طرف بے چین نظروں سے اُسے ہی ڈھونڈنا
جس کی جلوت دل میں ہے وہ رونقِ محفل کہاں
اور بھی ہیں آرزوئیں جو ہیں تِشنہ اب تلک
عشق اپنی زندگی کا اب رہا حاصل کہاں
سامنے اُس کے رکھو دل کو ذرا اوقات میں
اتنے پاگل مت بنو یہ اُلفتِ اوّل کہاں
نفرتوں کے سیل میں چاہت سے جذبے بہہ گئے
تلخیوں کی شدّتیں ہیں پیار کا صندل کہاں
یار لوگوں نے بچھائے خار جس کے ہر طرف
خود کو نکلا ڈھونڈنے دیکھو گیا فیصلؔ کہاں
٭٭٭
ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں