کہاوتیں
سرور عالم راز
تقریب
سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لئے ہم مصوری تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئے
(غالبؔ)
زمانہ اس قدر تیز رفتاری سے بدل رہا ہے کہ اکثر اس کے قدم بقدم چلنا دُشوار ہو جاتا ہے۔ جو کل تھا وہ آج نہیں ہے اور جو اس لمحہ ہے وہ اگلے لمحہ صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔ زندگی بدل رہی ہے، معاشرے بدل رہے ہیں، اقدار بدل رہی ہیں، پرانی روایات اور صورتیں پامال ہو رہی ہیں اور کوئی وقت جاتا ہے کہ ان کا نام و نشان بھی ڈھونڈے سے نہیں مل سکے گا۔ طوفانی رفتار سے بدلتی ہوئی اِس دُنیا نے اپنی لپیٹ میں ہر چیز کو لے لیا ہے اور اس کی گرفت سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ جو وقت کی آواز پر لبیک کہنے میں کوتاہی کرے گا اور اس کا ساتھ نہیں دے گا اُس کا نام آئندہ تاریخ میں نظر آ جائے تو آ جائے ورنہ شاید اتنا بھی اس کی تقدیر میں نہیں ہو گا۔ زمانہ یوں ہی کروٹیں بدلتا رہے گا اور انسانی زندگی اور تاریخ ہمیشہ اسی طرح تغیر پذیر رہے گی۔ یہی قانون فطرت ہے اور قانون فطرت ازلی ہے۔ یہ نہ کسی کی خواہشات و ضروریات کا پابند ہے اور نہ ہی اس کو بدلا جا سکتا ہے ؎
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں سکوں محال ہے قدرت کے کار خانے میں
ایسے حالات میں جب کہ نئی اقدار، تہذیب، ثقافت، ادب، آرٹ، سائنس غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ کی لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر صورت انسان کو انگشت بدنداں کئے ہوئے ہے کہاوتوں کا ذکر کچھ عجیب سا معلوم ہو تو مقام حیرت نہیں ہے۔ موجودہ نسل کے بہت سے لوگوں نے تو کہاوتیں سنی بھی نہیں ہیں اور ان کے لئے کہاوت، ضرب الامثال، محاور ے اور روزمرہ ایک معمہ سے کم نہیں ہیں۔ جو چیز ان کو فضول یا بے فیض معلوم ہوتی ہے اس کی چھان بین، شیرازہ بندی، تحقیق، افادیت، تاریخ اور دیگر جزویات سے نئی نسل کو بے نیاز ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ کہاوتیں ایک تیزی سے گزرتے ہوئے دَور کی نشانی بن کر رہ گئی ہیں اور گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ ان کا گردِ کارواں بن جانا عین ممکن نظر آتا ہے۔ چنانچہ یہ سوال فطری طور پر ذہن میں آتا ہے کہ کہاوتوں کی کتاب کی کیا ضرورت اور افادیت ہے جو اِن پر وقت صرف کیا جائے؟
کہاوتیں ، ضرب الامثال، روزمرہ اور محاورے ہر زبان کا ایک اٹوٹ، نا گزیر اور دلچسپ حصہ ہوتے ہیں۔ دُنیا کی شاید ہی کوئی ایسی زبان ہو گی جس میں کسی نہ کسی صورت و حد تک ان کا استعمال نہ ہوتا ہو۔ جس طرح شعر و شاعری میں صنائع و بدائع، تراکیب و بندش، تشبیہات و استعارات، الفاظ کی نشست وبرخواست وغیرہ لطف زبان و بیان، معنی آفرینی، اثر پذیری، چاشنی اور چٹخارے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اسی طرح نثر میں کہاوتیں، ضرب الامثال اور محاور ے بھی مستعمل ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ منظومات میں ان کا استعمال نہیں ہوتا ہے۔ منظومات ( خصوصاً قصائد، ہجویات، مثنوی، مراثی، شہر آشوب، واسوخت وغیرہ) میں ان کا استعمال عام ہے۔ فی زمانہ ان اصناف سخن کی جانب لوگوں کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے چنانچہ کہاوتیں اور ضرب الامثال وغیرہ آج کی منظومات میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ یہ دَور غزل کا دَور ہے اور غزل اپنے رنگ و آہنگ، زبان و بیان، موضوعات اور انداز سخن کی وجہ سے کہاوتوں اور ضرب الامثال کے لئے زرخیز میدان فراہم نہیں کرتی ہے۔ جدید غزل تو اس معاملہ میں کچھ زیادہ ہی بے نیاز ثابت ہوئی ہے کہ پرانی روایات سے اس کو بہت کم علاقہ ہے۔ البتہ محاورہ ایسی چیز ہے جس کے بغیر زبان و بیان کا تصور مشکل ہے۔ بغیر محاوروں کی بیساکھی کے کوئی زبان دو قدم بھی نہیں چل سکتی۔ چنانچہ کیا نثر اور کیا نظم اُردو ادب بھی محاوروں کی دولت سے مالا مال ہے۔
پرانے زمانہ میں کہاوتیں اور ضرب الامثال بہت مقبول تھیں اور عام بول چال کے علاوہ ہمارے ادب کا بھی ایک اہم حصہ ہوا کرتی تھیں۔ لوگوں کی روز مرہ کی زندگی سیدھی سادی تھی، آج کل کی طرح سامان آسائش میسر نہیں تھے اور نہ ہی ضروریات زندگی بہت زیادہ یا پیچیدہ تھیں۔ لوگ اپنی تہذیبی، سماجی و لسانی روایات و زَمین سے بہت قریب ہوا کرتے تھے اور انہیں اپنی خاندانی روایات اور معاشرتی اقدار کا بھی بہت خیال رہتا تھا۔آج کی طرح جدیدیت کی وَبا اُس وقت تک اِس بُری طرح نہیں پھیلی تھی اور لوگوں کو رشتوں کی قدرو قیمت، چھوٹوں کی عزت، بزرگوں کا احترام،اقربا کی حرمت، زبان و بیان کے آداب اور آپس کے روابط و مراسم کی پاسداری کا شدت سے احساس تھا۔
اب سے چند سال قبل تک اُردو ادب (خصوصاًسماجی منظومات، مثنویوں، افسانوں، انشائیوں ، ناولوں اور خاکوں ) میں جا بجا کہاوتوں اور ضرب الامثال کا دلفریب اور ماہرانہ استعمال نظر آتا تھا۔ یہ عبارت میں صرف زیبِ داستاں کے لئے ہی استعمال نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان سے بات میں زور، لطف اور چٹخارہ بھی پیدا کیا جاتا تھا۔ نیز ان کے ذریعہ تحریر کی معنویت اور ا ثر پذیری میں نمایاں اضافہ بھی ہوتا تھا۔ اب اول تو ایسی کہانیاں اور افسانے ہی کم نظر آتے ہیں جو ہمارے معاشرہ کی قدیم روایتوں سے وابستہ ہوں اور دویم یہ کہ اس مشینی دور میں جب جدیدیت نے ترقی پسندی کے نام پر چاروں طرف اپنے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں بھلا کہاوتوں کی جانب متوجہ ہونے کی کس کو فرصت یا فکر ہے؟ اب نہ وہ لوگ باقی ہیں اور نہ وہ باتیں ؎
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اس مرحلہ پر محاور ہ، کہاوت اور ضرب المثل کی تعریف، ان کی مختصر تشریح اور ان کے مابین فرق و امتیاز کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ عام طور پر محاورہ اور کہاوت کا فرق تو کم و بیش لوگوں پر ظاہر ہے لیکن ضرب المثل اور کہاوت کے درمیان فرق و تفاوت اکثر لوگوں کے ذہن میں کچھ مبہم سا ہے۔
محاورہ الفاظ کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جس کے الفاظ کی ترتیبِ معین ہوتی ہے اور شکل یا ہیئت مقرر۔ محاورہ کا ستعمال نظم اور نثر دونوں میں نہایت عام ہے اور ان کے بغیر زبان و بیان کی فصاحت و بلاغت کا تصور ممکن نہیں ہے۔ محاورہ تحریر کی معنویت بڑھاتا ہے اور اس میں چاشنی،نکھار اور جاذبیت پیدا کرتا ہے۔یہ بڑے سے بڑے مضامین کو چند الفاظ کے مختصر کوزے میں بند کرنے کا کردار ادا کرتا ہے اور عام تحریر و تقریر کو ادب لطیف کے مقام پر فائز کرتا ہے۔محاوروں کی ترتیبِ الفاظ یا شکل میں تصرف عام طور پر ان کے آہنگ و اثر پذیری کو نسبتاًکم یا ختم کر دیتا ہے اور اکثر محاورہ کے حق میں سم قاتل ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’عقل کے ناخن لینا‘‘ ہوش میں آنے یا سمجھ سے کام لینے کے معنی میں لکھا جاتا ہے۔ اس کو بدل کر اگر ’’ہوش کے ناخن کترنا‘‘ لکھا جائے تو یہ بے معنی، غلط اور ٹکسال باہر ہو جائے گا۔ محاور ے کا استعمال زبان میں استعاراتی انداز سے ہوتا ہے یعنی محاور ے کے الفاظ اپنے لغوی معنی سے ہٹ کر کسی اور ہی مضمون یا حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ محاور ے کے الفاظ اکثر مجازی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’پاؤں توڑکے بیٹھ جانا‘‘ مایوس ہو جانا، ہمت ہار جانا، کوشش نہ کرنا کے معنی میں لکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں پاؤں توڑنا اپنے اصل معنی نہیں رکھتا ہے۔ اسی طرح ’’عقل کے گھوڑے دَوڑانا‘‘( فکر تدبر کرنا، سوچ بچار کرنا) کو گھوڑے دوڑانے سے لغوی نسبت نہیں ہے۔ البتہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ محاوروں کے الفاظ سے ان کے اصل معانی کا واضح اشارہ ملتا ہے جیسے پاؤں کا ٹوٹ جانا معذوری اور عقل کے گھوڑے دوڑانا سوچ کی تیز رفتاری پر دلالت کرتا ہے۔
محاور ے عام طور پر مصدری حالت میں ہوتے ہیں یعنی ان سے کسی فعل کا صدور ظاہر ہوتا ہے۔ اُردو کے قاعدے کے مطابق اُس کے مصادر ’’نا‘‘ پر ختم ہوتے ہیں (آنا، رونا، بکھرنا، رینگنا )۔ چناچہ اُردو کے تقریباً سبھی محاور ے بھی ’’نا‘‘ پر ہی ختم ہوتے ہیں مثلاً آنکھیں دکھانا (غصہ کا اظہار کرنا) ، آنکھیں لڑانا (عشق بازی)، سورج کو چراغ دکھانا (کسی بڑے شخص کی تعریف میں کسی چھوٹے شخص کا کچھ کہنا)، اللّے تللّے اُٹھانا (فضول خرچی ) وغیرہ۔ ایک بات اور غور طلب ہے کہ محاورہ اپنے معنی بیان کرنے میں مکمل فقرہ یا جملہ نہیں ہوتا بلکہ اپنے ما فی الضمیر کی تکمیل و ترسیل کے لئے کسی دوسری الحاقی عبارت یا جملے کا محتاج ہوتا ہے۔مثال کے طور پر ’’ڈنڈے بجانا‘‘ آوارہ گردی یا بے کار مار ے مارے پھرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔اس کا پورا مطلب بات کو کسی الحاقی عبارت سے پورا کرنے پر ہی ادا ہوتا ہے جیسے ’’فلاں شخص دن رات ڈنڈے بجایا کرتا ہے۔‘‘
کہاوت عام طور پر کسی سبق آموز واقعہ کی جانب اشارہ کرتی ہے، پند و نصیحت کرتی ہے، انسانی فطرت و خصلت کی صورت گری دل نشیں اور بعض اوقات شوخ اور چٹخارہ دار زبان میں کرتی ہے یا انسانی زندگی کے حقائق سے پردہ اُٹھاتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ جس واقعہ، حادثہ، سانحہ یا تاریخی حکایت کی جانب کہاوت میں اشارہ کیا گیا ہو وہ گردش زمانہ سے اُڑائی ہوئی وقت کی دھول میں ایسا دَب گیا ہو کہ اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا ہو۔ کہاوتوں کی اصل یا ماخذ معلوم کرنا کہ کس کہاوت نے کس طرح جنم لیا یا کون سا واقعہ اس کی نمود کا سبب ہوا مشکل ہی نہیں بلکہ اکثر نا ممکن ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی سند یا دستاویزی ثبوت کی عدم موجودگی میں لوگوں نے اکثر کہاوتوں کے پیچھے قیاس سے فرضی قصے، حکایتیں یا واقعات گھڑ لئے ہیں۔ یہ قصے من گھڑت ضرور ہیں لیکن کہاوت میں ان کا کردار کافی اہم ہے کیونکہ ایک تو یہ زیب داستان کا کام دیتے ہیں اور دوسرے ان کی مدد سے قاری ایک لمحہ کے لئے اس مصنوعی اور فرضی دُنیا میں پہنچ سکتا ہے جہاں سے کہاوت کا خمیر اٹھا ہے اور وہ اس ممکنہ صورت حال کو اپنی چشم تصور سے دیکھ سکتا ہے جس پر کہاوت مبنی ہو سکتی ہے۔
کہاوتیں اکثر اپنے لغوی یا لفظی معنوں سے ہٹ کر بھی اپنا مفہوم ادا کرتی ہیں یعنی ان کے الفاظ سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے لیکن ان سے مقصود کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’ آدھا تیتر، آدھا بٹیر‘‘ ایک کہاوت ہے جو بظاہر کسی جانی پہچانی چیز کی جانب اشارہ نہیں کر رہی ہے کیونکہ ایسا کوئی پرندہ ہے ہی نہیں جو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہو۔ اس کہاوت سے در اصل ایسا آدمی مقصود ہے جو ہر لمحہ رنگ بدلتا ہو اور اپنی خصلت میں ڈانوا ڈول یا غیر معتبر ہو۔ یہ خصوصیت کہاو توں کی دل پذیری کا ایک نہایت اہم اور خوشنما پہلو ہے۔ اس طرح کہاوتیں زبان کی وسعت اور معنویت میں خوبصورت اضافہ کرتی ہیں ، بیان میں نکھار، چٹخارہ اور تیکھا پن پیدا کرتی ہیں اور چند الفاظ میں بڑی سے بڑی بات کہہ جاتی ہیں۔ یہ حقیقت اظہر من اشمس ہے کہ اُردو کئی زبانوں کے اجتماع اور باہمی ربط و ضبط سے وجود میں آئی ہے۔ ساتھ ہی اس نے مقامی زبانوں اور بولیوں سے بھی گہرے اور ہمہ گیر اثرات قبول کئے ہیں۔ چنانچہ اُس میں علاقائی اور مقامی زبانوں اور بولیوں کی کہاوتیں بھی ملتی ہیں، شستہ اور ثقہ اُردو بھی دکھائی دیتی ہے اور عربی و فارسی سے مستعار لی ہوئی کہاوتیں بھی ضرب الامثال کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ اس طرح کہاوتیں اُردو کی اُن گہری لسانی، تہذیبی، ثقافتی، ادبی اور معاشرتی روایات کی پاسدار ہیں جو اس کے خمیر کا جزو لا ینفک ہیں۔
کہاوتیں عام طور سے ایک مکمل اور جامع بیان یا فقرہ کی شکل میں ہوتی ہیں اور مصدری حالت میں شاذ و نادر ہی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے مطلب کی ادائیگی میں کسی الحاقی جملہ یا عبارت کی محتاج نہیں ہوتی ہیں بلکہ متعلقہ عبارت میں معنویت اور نکھار پیدا کرتی ہیں۔مثال کے طور پر ’’شروعات ہی غلط ہوئی‘‘ کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ ’’ بسم اللہ ہی غلط ہوئی‘‘ تو بات کا مزا ہی بدل جاتا ہے۔ کہاوتیں مصرعوں یا شعروں کی شکل میں بھی ہو سکتی ہیں جب کہ محاور ے کبھی اس صورت میں نہیں ہوتے۔ ایسے مصرعے یا شعر ضرب الامثال کہلاتے ہیں۔ کہاوتوں اور ضرب الامثال کو متبادل یا ایک ہی چیز تصور کیا جاتا ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ کہاوتیں اپنے لب و لہجہ، انداز فکر و بیان اور مضامین میں عوامی ہوتی ہیں کیونکہ عوام ہی ان کی نمود و پرداخت کے ذمہ دار ہیں۔ بہت سی کہاوتیں دیہاتوں کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں اور وہیں کی زبان میں ہوتی بھی ہیں۔ گویا کہاوتوں کا تعلق معاشرہ کی کم تعلیم یافتہ آبادی سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہاوتیں دیکھئے ’’گھی بنائے سالنا، بڑی بہو کا نام؛ کام کا نہ کاج کا،دُشمن اناج کا؛ ناچ نہ آئے آنگن ٹیڑھا، ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ، جاٹ مرا تب جانئے جب تیرھویں ہو جائے، بھُس میں ڈال چنگاری جمالو دور کھڑی۔‘‘ صاف ظاہر ہے کہ ایسی کہاوتوں کا خمیر عوام کا مرہون منت ہے۔ وہی ایسی باتیں کر سکتے ہیں اور جن واقعات یا باتوں کی جانب کہاوتوں میں اشارہ ہے وہ انھیں کی زندگی میں پیش بھی آتے ہیں۔
ضرب الامثال اُن فقروں یا جملوں کو کہتے ہیں جو اپنی فطرت میں تو کہاوت ہی ہوتے ہیں لیکن جن کی زبان، لب و لہجہ اور انداز سخن معاشرہ کے نسبتاً زیادہ تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ طبقہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ بھی انسانی تجربات و مشاہدات پر مبنی ہوتے ہیں اور ایک مدت تک اپنے مخصوص حلقہ میں استعمال ہوتے رہنے کے بعد مثالوں کے طور پر قبول عام حاصل کر لیتے ہیں اور ضرب الامثال کہلاتے ہیں۔ یہ اکثر اپنے لفظی معنی کے بجائے دوسرے مجازی معنی ادا کرتے ہیں۔ضرب المثل پورا جملہ یا فقرہ ہوتی ہے اور اپنے معنی کی تکمیل کے لئے کسی اور جملے یا فقرے کی محتاج نہیں ہوتی۔ضرب الامثال اکثر اُردو یا فارسی مصرعوں یا شعر کی شکل میں بھی ہوتی ہیں۔ اُردو میں مستعمل بہت سی فارسی کہاوتیں ضرب الامثال کی تعریف میں ہی آتی ہیں۔ ’’خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را ؛ وزیرے چنیں بادشاہے چناں ؛ لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘‘ ضرب الامثال کی مثالیں ہیں ۔
روز مرہ الفاظ اور فقروں کی اُس مخصوص ترتیب کو کہتے ہیں جو اہل زبان اور فصحا نے مخصوص معنی بیان کرنے کے لئے اختیار کر لی ہے۔ادب و شعر میں روزمرہ کااستعمال فصاحت و بلاغت کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ روزمرہ میں الفا ظ کی ترتیب بدلی نہیں جا سکتی۔ اگر ایسا کیا گیا تو وہ درجۂ فصاحت سے گر جائے گا اور اپنی معنی بھی کھو بیٹھے گا۔ مثال کے طور پر ’’نو دو گیارہ ہونا‘‘ عام طور پر رفو چکر ہونا یا بھاگ کھڑے ہونا کے معنی میں مستعمل ہے۔ یہ روزمرہ ہے اور فصحا اسی طرح بولتے ہیں۔ اگر اس میں الفاظ کی ترتیب بدل کر ’’دو نو گیارہ‘‘ کہا جائے یا الفاظ بدل کر ’’پانچ سات بارہ ‘‘ کہیں تو یہ روزمرہ بے معنی اور ناقابل قبو ل ہو جائے گا۔ اسی طرح ’’انیس بیس کا فرق ہے‘‘ (یعنی بہت ذرا سا فرق ہے)میں اگر الفاظ بدل کر’’ اٹھارہ انیس کا فرق ہے‘‘ یا ’’دو تین کا فرق ہے‘‘ کہا جائے تو روزمرہ درجۂ فصاحت سے گر جائے گا اور ناقابل قبول ہو جائے گا۔روزمرہ کی مثالیں اشعار میں بھی ملتی ہیں مثلاً ایک شعر ہے ؎
نہ میں سمجھا، نہ آپ آئے کہاں سے پسینہ پوچھئے اپنی جبیں سے
اگر اسی مضمون کو ’’اپنی پیشانی سے پسینہ پوچھئے‘‘ کہہ کر ادا کیا جائے تو وہ غلط ہو گا اور روزمرہ میں شمار نہیں ہو گا۔
کہاوتیں اور ضرب الامثال قوم کی تہذیب، ثقافت اور معاشرتی زندگی کی جیتی جاتی تصویریں ہوا کرتی ہیں اور ان کی جڑیں اس کی سماجی، تہذیبی، لسانی،اجتماعی اور انفرادی زندگی میں بہت گہر ی ہوتی ہیں ۔ گویا کہاوتیں اپنی زمین سے براہ راست وابستہ ہوتی ہیں اور اپنے وقت کے مخصوص ماحول، معاشرہ، رہن سہن کے انداز، مقامی بولیوں اور روایتوں وغیرہ کی عکاسی کرتی ہیں۔ ہر زبان میں کہاوتیں عوام و خواص کی زندگی کی آئینہ دار ہوتی ہیں اور ان میں ملک و ملت کی زندگی کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔ اُردو کی کہاوتیں مختلف حوالوں سے اپنا ایک منفرد اور جامع مقام رکھتی ہیں۔ اگر غور سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے توسط سے ہم اپنی سماجی جڑوں کی بہت سی شاخوں کی شناخت کر سکتے ہیں ۔ اکثر ایک کہاوت کے چند الفاظ وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جو سینکڑوں الفاظ سے ادا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اور پھر کہاوت کا لطفِ زبان و بیان اور چٹخارہ الگ رہا۔ جن لوگوں نے اپنے گھر میں بزرگوں کو دیکھا اور باتیں کرتے سنا ہے وہ اِس حقیقت سے بخوبی آشنا ہوں گے۔
اب سے چند سال قبل تک خواتین میں تعلیم کا رواج عام نہیں تھا۔ خاص طور سے گھر کی بزرگ(جنھیں عرف عا م میں ’’ بڑی بوڑھیاں ‘‘کہا جاتا تھا) اکثر بے پڑھی لکھی ہی ہوا کرتی تھیں۔نہ صرف عورتوں کی تعلیم ہی اس وقت عام نہیں تھی بلکہ ان کا گھروں سے بلا وجہ باہر بے تکلفی سے آنا جانا بھی کم کم ہی تھا۔ اس میں ہندو مسلمان کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ اب سے ساٹھ ستر سال قبل تک بر صغیر ہند و پاک میں کیا ہندو اور کیا مسلمان سب خواتین سلیقہ سے سر اور بدن ڈھک کر گھر سے نکلتی تھیں۔ یہ نیک بیبیاں جب آپس میں مل بیٹھتی تھیں تو مزے مزے کی باتوں سے اپنا اور دوسروں کا دل بہلایا کرتی تھیں۔ ہر محلہ میں ایسی چوپالیں تقریباً روز ہی جمتی تھیں جہاں بڑی بوڑھیاں اور ان کی بہو بیٹیاں اِدھرا ُ دھر کی گپ شپ میں وقت گذارتی تھیں۔ عام طور سے اس گپ شپ کے دوران مل جل کر کوئی
کام (مثلاً اناج بیننا، بَڑیاں بنانا،اچار ڈالنا وغیرہ )بھی ہوتا رہتا تھا۔ یہ بیٹھکیں آج کے اخبار، ریڈیو اور ٹی وی کا کام انجام دیا کرتی تھیں۔ یعنی ان سے دل بہلاوے کا سامان مہیا ہوتا تھا، تیری میری برائی ہوتی تھی، خبر رسانی بھی ہوا کرتی تھی اور محلہ بھر کی افواہیں بھی آناً فاناً دنیا بھرمیں مشتہر ہو جاتی تھیں۔ اگر کہاوتوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار ایسی مثالیں نظر آئیں گی جن کا لب و لہجہ، موضوع اور اندازِ بیان ایسی ہی ہستیوں اور خصوصاً بزرگ خواتین کی زبان، مخصوص بولی اور اُن کی زندگی کے گو ناگوں تجربات کی آئینہ دار ہیں۔
کہاوتیں مختلف طرح کی ہوتی ہیں ۔ اُردو کی بعض کہاوتیں فارسی اور عربی کہاوتوں کا یا تو چربہ ہیں یا ان کا ترجمہ۔ کچھ کہاوتیں اپنی فطرت اور خمیر میں عوامی ہوتی ہیں یعنی ان کا استعمال بازار یا عوام میں تو بلا تکلف ہوتا ہے لیکن وہ مہذب اور ثقہ حلقوں میں قابل استعمال تو کیا لائق اعتنا بھی نہیں سمجھی جاتی ہیں۔ پہلے زمانے میں مردوں اور عورتوں میں بے تکلف میل جول کا رواج عام نہیں تھا بلکہ اس کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ عورتیں عموماً گھروں میں ہی رہا کرتی تھیں ۔ شادی بیاہ، تہوار اور دوسرے سماجی کاموں کے رسم و رواج انہیں کی عملداری میں ہوا کرتے تھے۔ مردوں کا عمل دخل ان معاملات میں بہت کم تھا۔ اس طرح در اصل عورتوں کا ایک ضمنی یا ذیلی لیکن نہایت اہم معاشرہ عام اور وسیع تر معاشرہ کے اندر پیدا ہو گیا تھا اور عورتوں کے رسم و رواج نے ہی نہیں بلکہ ان کی زبان اور محاوروں نے بھی مختلف سطحوں پر اپنی ایک مخصوص شکل اختیار کر لی تھی۔ چنانچہ سینکڑوں کہاوتیں ایسی ملتی ہیں جو صرف عورتوں سے ہی مخصوص ہیں اور انہیں کی زبان میں بھی ہیں۔ ان کہاوتوں سے مرد کم و بیش واقف تو تھے لیکن وہ انہیں آپس کی بول چال یا ادب و شعر میں استعمال نہیں کرتے تھے۔ بہت سی کہاوتیں ایسی بھی ہیں جو دیہاتی زندگی سے وابستہ ہیں اور شہر کے رہنے والے جن سے بہت کم واقف تھے۔ آج کے شہریوں کے لئے تو وہ ایک معمہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اِس مضمون میں اُردو میں عام طور سے مستعمل کہاوتوں کو جمع کیا گیا ہے۔ یہاں کہاوتوں کو ان کی مختلف اقسام میں بانٹنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے بلکہ صرف کہاوت بیان کر کے اس کے مختصر معنی اور محل استعمال لکھ دئے گئے ہیں تاکہ ’’سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔‘‘
زیر نظر کتاب میں اور اس موضوع پر دستیاب دوسری کتابوں میں جو فرق ہے اس کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ وہ باتیں جو زیر نظر کتاب کو دیگر کتابوں سے ممتاز و ممیز کرتی ہیں درج ذیل ہیں۔
(۱) اس موضوع پر موجود بیشتر کتابوں میں کہاوتیں ، محاور ے،ضرب الامثال سب شامل کر دئے گئے ہیں۔ ان کو الگ الگ لکھنے اور بیان کرنے کی کوشش کم کی گئی ہے چنانچہ اکثر مروجہ کتابوں میں سے صرف کہاوتوں کا استخراج آسان نہیں ہے بلکہ کافی وقت اور محنت کا طلبگار ہے۔ یہ کتاب صرف اُردو میں مستعمل کہاوتوں پر ہی مشتمل ہے۔ اس میں محاور ے شامل نہیں کئے گئے ہیں۔
(۲) بہت سی کہاوتیں کتابوں میں ایسی زبان میں بیان کی گئی ہیں جو یا تو کسی علاقے سے مخصوص ہے یا اب عام طور پر مستعمل نہیں ہے۔ ایسی کہاوتوں میں اصطلاحات اور الفاظ بھی ایسے ملتے ہیں جن سے عام اُردو داں واقف نہیں ہے۔ اس صورت میں یہ کہاوتیں اپنی اہمیت کے باوجود بیسود ہو جاتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب ان کو کوئی سمجھتا اور بولتا ہی نہیں ہے تو ان کو کتابوں میں رکھنے سے فائدہ نہیں ہے۔ ایسی کہاوتیں اِ س کتاب میں شامل نہیں کی گئی ہیں۔
(۳) اس کتا ب کی ترویج و ترتیب میں اس کا دھیان رکھا گیا ہے کہ صرف وہ کہاوتیں شامل کی جائیں جو یا تو ہمارے یہاں اب بھی مستعمل ہیں یا کتابوں میں نظر آ جاتی ہیں یا ان کو پڑھ کر عام اُردو داں ان کے مطلب و مقصد تک آسانی سے پہنچ سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ ایسی ضرور ہیں جو بیک نظر عام فہم نہیں ہیں لیکن مختصر وضاحت سے عام فہم ہو جاتی ہیں۔
(۴) اُردو زبان و اَدب پر فارسی زبان و اَدب کا گہرا اثر ہے۔ چنانچہ بہت سی ضرب الامثال فارسی مصرعوں اور شعروں کی صورت میں اُردو میں مستعمل رہی ہیں اور اب ہماری کہاوتوں کے خمیر کا حصہ بن چکی ہیں۔ ہر چند کہ فارسی کا ذوق اور استعمال اب اُردو اسکولوں اور اہل اُردو میں بہت کم رہ گیا ہے لیکن یہ فارسی ضرب الامثال ہماری کہاوتوں کی تہذیب کا اتنا اہم اور دلچسپ حصہ ہیں کہ ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ چند منتخب فارسی ضرب الامثال بھی کتاب میں شامل کر لی گئی ہیں اور ترجمے کے ساتھ ان کی مناسب وضاحت اور محل استعمال دے دئے گئے ہیں۔
(۵) کہاوت عوامی روایت ہے۔ یہ اکثر و بیشتر عوامی ماحول میں ہی پیدا ہوتی ہے اور اسی میں مدتوں استعمال کے بعد نکھار پاتی ہے۔ کچھ کہاوتیں گھروں میں پیدا ہوتی ہیں اور اوسط گھرانہ کی بود و باش اور رہن سہن کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان میں وہ کہاوتیں بہت نمایاں ہیں جن کی نشو و نما میں عورتوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ کچھ کہاوتیں بازار میں پیدا ہوتی ہیں کیونکہ بازار ایسی جگہ ہے جہاں کم تعلیم یافتہ عوام نہ صرف کثیر تعداد میں موجود ہوتے ہیں بلکہ آپس کی بول چال،شور شرابہ، لین دین، لڑائی جھگڑا، گالم گلوج اور تکا فضیحتی میں بھی سرگرم رہتے ہیں۔ بازاری کہاوتوں کی زبان بھی بازاری ہوتی ہے اور نازیبا اور فحش بھی ہو سکتی ہے۔ کہاوتوں کی کچھ کتابوں نے اس سلسلہ میں احتیاط نہیں کی ہے اور فحش اور غیر شائستہ کہاوتیں بھی شامل کر لی ہیں۔ زیر نظر کتاب میں ایسی تمام کہاوتوں سے مکمل احتراز کیا گیا ہے۔ غیر مہذب اور فحش کہاوتوں کی شمولیت سے کتاب کی افادیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی ادبی اور تہذیبی حیثیت اور معیار و وَقار پر حرف آتا ہے۔
(۶) بعض کہاوتوں کے پس منظر کے طور پر تاریخی واقعات، مذہبی قصے یا فرضی حکایات بیان کی جاتی ہیں جن کی صداقت ثابت و قائم کرنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ ایسی روایات و حکایات کی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ کئی کئی شکلیں نظر آ جاتی ہیں۔ ان سب شکلوں کا لکھنا طوالت کا باعث ہوتا ہے کیونکہ قصے کی ایک ہی شکل پس منظر واضح کر نے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ چنانچہ یہاں ایسے قصوں اور حکایتوں کی صرف ایک ہی شکل اختصار کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔
اِس کتاب کی تالیف و اشاعت کے متعدد اہم مقاصد ہیں۔ کہاوتوں کا یہ مجموعہ نئی نسل کو اُردو زبان و ادب میں مستعمل کہاوتوں اور ضرب الامثال سے متعارف کرانے میں معاون ہو گا۔ اس کوشش کا مقصد ایک طرف اگر نئی نسل کو اپنی روایات و اقدار اور تیزی سے غائب ہوتی ہوئی کہاوتوں اور ضرب الامثال سے متعارف کرانا ہے تو دوسری جانب ان کہاوتوں کی حفاظت بھی منظور ہے۔ اب ایسے لوگ جو انہیں استعمال کرتے ہیں یا ان سے واقف ہیں روز بروز کم ہوتے جاتے ہیں اور وہ دن دور نہیں ہے جب یہ کہاوتیں ہماری بہت سی روایات کے ساتھ پرانی کتابوں میں ایک بھولا ہوا قصۂ پارینہ بن کر رہ جائیں گی اور یہ ہماری زبان اور تہذیب کے لئے نہایت عظیم نقصان ہو گا۔
کہاوتوں کی اس کتاب کے مقاصد مختصراً یوں بیان کئے جا سکتے ہیں :
(۱) اپنے اُس تہذیبی، معاشرتی اور لسانی سرمایہ کی حفاظت جو کہاوتوں کی صورت میں موجود ہے۔
(۲) نئی نسل کو اس ورثہ سے آگاہ کرنا تاکہ وہ اس کی مناسب حفاظت اور استحکام کی جانب توجہ کر سکے۔
(۳) امکانی حد تک اُس قرض کا اعتراف جو کہاوتوں کے سلسلہ میں اُردو پر دوسری زبانوں کا ہے۔ یعنی جہاں یہ معلوم ہو جائے کہ کوئی کہاوت کسی دوسری زبان کے توسط سے آئی ہے اس کی نشاندہی کر دی جائے۔ ممکن ہے کہ مستقبل کا مورخ ان اشاروں کو اپنے کام میں استعمال کر سکے۔
رازؔ ا ہل دل سے اب تک یہ عقیدت ہے مجھے شعر کے پردہ میں حالِ دل کہے جاتا ہوں میں
(رازؔ چاندپوری)
٭٭٭
آ۔کی کہاوتیں
(۱ ) آبنوس کا کندہ : کُندہ یعنی بھاری ٹکڑا۔آبنوس ایک سخت اور سیاہ قسم کی لکڑی کو کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے سیاہ فام( بالکل کالے) آدمی کو آبنوس کا کُندہ کہتے ہیں۔
( ۲ ) آب آب کر مر گئے، سرہانے دَھرا رہا پانی : اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ کوئی شخص ہندوستان سے باہر گیا اور وہاں سے فارسی سیکھ کر واپس آیا۔ اپنی فارسی دانی پر اس کو بہت ناز تھا۔اتفاق سے وہ بیمار ہو گیا اور طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ وہ پیاس کی شدت میں ’’آب آب‘‘ کہہ کر پانی مانگتا رہا لیکن کوئی اس کی بات نہ سمجھ سکا اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہو گیا حالانکہ پانی اُس کے سرہانے ہی رکھا ہوا تھا۔ اس مناسبت سے گویا کہاوت میں تنبیہ ہے کہ گفتگو ہمیشہ ایسی زبان میں کرنی چاہئے جس کو لوگ سمجھتے ہوں۔ اپنی قابلیت کے زعم میں ایسی زبان استعمال کرنا سرا سر نادانی ہے جس سے لوگ نا واقف ہوں۔
(۳) آ بنی سر آپنے، چھوڑ پرائی آس : آ بنی سر آپنے یعنی مصیبت اپنے سر پر آ ہی پڑی ہے۔ ایسے میں کسی اور سے اُمید لگانی بیکار ہے۔ جو کچھ کرنا ہے خود ہی کرنا اور بھگتنا ہے۔
(۴) آ بیل مجھے مار : کسی مصیبت کو جان بوجھ کر اپنے سر پر بلانا ایسا ہی ہے جیسے راہ چلتے بیل کو چھیڑ کر حملہ کی دعوت دی جائے۔ اس حوالے سے یہ کہاوت حماقت یا کم عقلی کا استعارہ ہے۔
(۵) آب آید، تیمم برخواست : پانی اگر مل جائے تو پھر تیمم کرنے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ اجازت۔گویا اگر کسی رعایت کی وجہ ہی باقی نہ رہے تو پھر وہ رعایت بھی اٹھ جاتی ہے، یا زیادہ اہم چیز مل جائے تو کم اہم چیز کی مانگ اور ضرورت نہیں رہ جاتی۔
( ۶ ) آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے : بڑے کارنامے آبِ زر یعنی سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۷ ) آپ جانیں اور آپ کا ایمان : یعنی آپ اپنی نیت دیکھ کر خود ہی فیصلہ کریں کیونکہ نتائج کے بھی آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ اسی کہاوت کی ایک دوسری شکل ہے کہ’’ آپ جانیں اور آپ کا کام۔‘‘
( ۸ ) آپ سے آتی ہے تو آنے دو : یہ کہاوت ایسے موقع پر استعمال کی جاتی ہے جب کوئی شخص کسی نا جائز چیز کو اپنے لئے جائز قرار دینے کا حیلہ تلاش کر رہا ہو۔ اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ ایک مولوی صاحب کے گھر میں پڑوسی کا مرغ آ گیا۔ ان کی بیوی نے مرغ پکڑ لیا اور ذبح کر کے پکا بھی لیا۔ جب مولوی صاحب شام کو کھانے پر بیٹھے تو مرغ دیکھ کر پوچھا کہ ’’یہ کہاں سے آیا؟ ‘‘ بیوی کے بتانے پر انھوں نے فرمایا کہ ’’یہ تو حرام ہے، بھلا میں کسی اور کا مال اس طرح نا جائز طور پر کیسے کھا سکتا ہوں ؟ ‘‘ بیوی نے جواب دیا کہ’’ سو تو ٹھیک ہے لیکن سالن تو ہمارے ہی پیسوں کا بنا ہوا ہے۔اس میں کیا قباحت ہے؟ ‘‘ مولوی صاحب کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور انھوں نے بیوی سے کہا کہ وہ اُن کو صرف سالن نکال دے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا لیکن احتیاط کے باوجود ایک بوٹی پیالے سے لڑھک کر مولوی صاحب کی پلیٹ میں آ گری۔ بیوی نے اس کو نکالنا چاہا تو مولوی صاحب نے کہا کہ’’ نہیں نہیں ! جو بوٹی آپ سے آتی ہے اُس کو آنے دو۔ ‘‘ بیوی نے کہا کہ’’ وہ مرغ بھی تو آپ سے ہی ہمارے گھر آ گیا تھا۔‘‘ مولوی صاحب کی نیت تو پہلے ہی ڈانوا ڈول تھی۔ فوراً بیوی کی بات پر راضی ہو گئے اور دونوں مفت کا مرغ ہضم کر گئے۔
(۹) آپ کھائے، بَلّی کو بتائے : کوئی شخص غلط کام تو خود کرے لیکن اپنے آپ کو معصوم ظاہر کرنے کے لئے نام دوسروں کا لے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
(۱۰) آپ میاں صوبیدار، گھر بیوی جھونکے بھاڑ : یعنی آپ خود تو شان سے بڑے آدمی بنے پھرتے ہیں لیکن بیوی گھر میں خستہ حال ہے۔ جب کوئی شخص شیخی تو بہت بگھارتا ہو لیکن اندر سے کھوکھلا ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۱۱) آپ کی جوتیوں کا صدقہ ہے : یعنی جو کچھ بھی ہے وہ آپ کی ہی بدولت ہے اور اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ ’’جوتیوں کا صدقہ‘‘ سے مراد ہے کہ آپ کے لئے یہ سب کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی۔اس کہاوت سے ایک لطیفہ منسوب ہے۔ ایک شخص نے کچھ دوستوں کی دعوت کی۔ جب سب مہمان دسترخوان پر بیٹھ چکے تو اُس نے نوکر کو الگ لے جا کر حکم دیا کہ سب کے جوتے بازار میں چپکے سے لے جا کر بیچ دے اور اس رقم سے کھانا خرید لائے۔چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ لوگوں کے سامنے جب کھانا آیا تو انھوں نے اُس کی تعریفوں کے پل باندھ دئے۔ وہ شخص ہنستا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ’’حضور! بھلا میں کس لائق ہوں۔ یہ سب آپ کی ہی جوتیوں کا صدقہ ہے۔‘‘ جب کھانا ختم ہوا اور مہمان جانے لگے تو انھیں اپنے جوتے غائب ملے۔ اُس ستم ظریف نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ ’’بھائی! میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ سب آپ کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔‘‘
( ۱۲ ) آپ ہارے، بہو کو مارے : یعنی اپنی ناکامی میں قصور تو خود اپنا ہے لیکن الزام کسی دوسرے کمزور شخص کو دیا جا رہا ہے۔
(۱۳) آپ کا نوکر ہوں ، بینگن کا نہیں : مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دربار کے نو رتنوں میں ایک بیربلؔ بھی تھے۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک دن بادشاہ کے کھانے میں بینگن آئے۔ ان کو کھا کر شہنشاہ اکبر نے بینگن کی بہت برائی کی کہ ’’یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے،نہ صورت اچھی اور نہ ہی مزا۔‘‘ وہ جیسے جیسے بینگن کی برائیاں بیان کرتے جاتے خوشامدی درباری ان کی ہاں میں ہاں ملاتے جاتے تھے۔ ان میں بیربلؔ سب سے پیش پیش تھے کہ’’ حضور! بالکل صحیح فرمایا، بینگن سے زیادہ ناکارہ تو کھانے کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔‘‘ اس کے کچھ دن بعد پھر بینگن بادشاہ کے سامنے آئے لیکن اب کی بار اُس نے بینگنوں کی خوبیوں کے پل باندھ دئے۔بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملانے والوں میں اس بار بھی بیربلؔ سب سے آگے تھے۔ بادشاہ نے اُن سے اِس منافقت کا سبب پوچھا تو بیربلؔ نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ ’’ جہاں پناہ! میں آپ کا نوکر ہوں، کوئی بینگن کا نوکر تھوڑی ہوں۔‘‘
( ۱۴ ) آپ کاج مہا کاج : کاج یعنی کام۔ جو کام خود کیا جائے وہ سب سے اچھا ہوتا ہے۔ دوسرے کے کئے کا اعتبار نہیں۔
( ۱۵ ) آپ آئے، بھاگ آئے : بھاگ(ہندی :بھاگیہ) آنا یعنی قسمت کھل جانا۔ کسی کی تعریف مقصود ہو تو یہ کہتے ہیں۔
( ۱۶ ) آپ بھلے تو جگ بھلا : ہر آدمی دوسروں کو اپنا جیسا ہی سمجھتا ہے۔ اگر کوئی خود اچھا ہے تو اسے ہر شخص بھلا دکھائی دیتا ہے۔
( ۱۷ ) آپ جانیں آ پ کا کام : ہر شخص اپنا کام بہتر سمجھتا ہے۔ دوسروں کی جانب سے دخل دَر معقولات کا کوئی جواز نہیں ہے۔
( ۱۸) آپ ڈوبے تو ڈوبے دوسرے کو بھی لے ڈوبے : کوئی شخص اپنی بربادی کا سامان خود ہی کرے اور ساتھ ہی کسی اور کو بھی لے ڈوبے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
( ۱۹) آپ سے دور یا آپ کی جان سے دُور : یہ عورتوں کی زبان ہے۔ جب کسی مصیبت کا ذکر ہوتا ہے تو یہ فقرہ کہا جاتا ہے یعنی ’’خدا نہ کرے کہ ایسا برا وقت آپ پر آئے۔‘‘
( ۲۰ ) آپ کا گھر ہے : یہ استقبالیہ فقرہ ہے یعنی یہ خانۂ بے تکلف ہے۔
(۲۱) آٹے میں نمک کے برابر : آٹے میں نمک کا مزا بالکل ہی نہیں ہوتا۔ اسی حوالے سے اگر کوئی خصوصیت کسی چیز میں برائے نام ہو تو اس کو’’ آٹے میں نمک کے برابر‘‘ کہتے ہیں۔
(۲۲) آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہونا : حقیقت حال معلوم ہونا۔ سر پرسے کسی کا سایۂ فیض اٹھ جانے کے بعد صحیح حالات معلوم ہونے کی وعید دی جائے تب بھی یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۲۳) آٹے کا چراغ، گھر میں رکھوں تو چوہا کھائے باہر رکھوں تو کوّا لے جائے : آٹے کا دِیا (چراغ) بنایا جائے تو اس کی طرف سے فکر رہتی ہے کہ گھر میں چوہے کھا جائیں گے اور باہر کوّا اٹھا کر لے جائے گا۔ اسی مناسبت سے اگر کسی چیز پرسب کی ہی بری نظر ہو اور اس کی حفاظت مشکل ہو جائے تو یہ کہاوت کہتے ہیں۔
( ۲۴ ) آٹے کا چراغ، اندر رکھو تو چوہا کھائے،باہر رکھو تو کوّا لے جائے : اگر گندھے ہوئے آٹے کا دِِیا(چراغ) بنایا جائے تو گھر کے باہر اسے کوّا لے اُڑے گا اور گھر کے اندر چوہا کھا جائے گا۔گویا ہر طرح مشکل ہی مشکل ہو گی۔ یہ کہاوت ایسے وقت بولی جاتی ہے جب سہولت کی کوئی صورت نظر نہ آئے۔
( ۲۵ ) آٹے کے ساتھ گھن بھی پستا ہے : گھُن ان کیڑوں کو کہتے ہیں جو گیہوں میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ اگر آٹا پیسا جائے تو ساتھ ہی گھن بھی پس جائے گا۔ اس حوالے سے مطلب یہ ہوا کہ بڑے آدمی کا نقصان ہو تو اس کے ساتھ چھوٹا بھی نقصان اٹھاتا ہے۔
( ۲۶ ) آٹھوں گانٹھ کُمیت : چالاک اور دنیا ساز آدمی کے لئے کہا جاتا ہے۔ کہاوت کی وجہ تسمیہ معلوم نہ ہو سکی کہ آٹھوں گانٹھ کمیت کس رعایت سے کہا گیا ہے۔
( ۲۷ ) آج کے تھُپے آج ہی نہیں جلتے : یہاں گوبر کے تھُپے ہوئے اُپلوں کی جانب اشارہ ہے کہ تازہ اُپلے جلائے نہیں جا سکتے۔ انہیں سُکھانا ضروری ہے۔ یعنی ہر کام میں صبر ضروری ہے، ہوتے ہوتے ہی کام ہوتا ہے۔
(۲۸) آج مرے کل دوسرا دن : دنیا عموماًکسی شخص کو اُس کی زندگی میں ہی یاد کرتی ہے۔ مرنے کے بعد شاذ و نادر ہی کوئی اُسے یاد کرتا ہے۔کسی کے مر جانے سے دنیا کا کوئی کام نہیں رکتا چنانچہ کوئی وفات پا جائے تو کل کا دِن عام دنوں کی طرح ہی ایک دن ہو گا۔
(۲۹ ) آج وہ کل ہماری باری ہے : یعنی موت سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ یہ ایک شعر کا دوسرا مصرع ہے:
موت سے کس کو رُستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے
( ۳۰) آدھی روٹی، ڈیڑھ پا شکر : کلو گرام سے پہلے تولنے کے لئے بر صغیر ہند و پاک میں سیر استعمال ہوتا تھا۔ ایک کلو میں دو سیرسے ذرا سازیادہ وزن ہوتا ہے اور ایک سیر کے چار پاؤ ہوتے تھے۔ پا اِسی کا مخفف ہے۔ ڈیڑھ پا یعنی ڈیڑھ پاؤ۔ مطلب یہ ہے کہ تماشا تو دیکھو کہ آدھی روٹی کھانے میں ڈیڑھ پاؤ شکر استعمال ہو رہی ہے یعنی اصل چیز تو اتنی کم ہے لیکن اس پر اوپری خرچ اس قدر زیادہ کیا جا رہا ہے۔
( ۳۱ ) آدھی کو چھوڑ ساری کو جائے، آدھی رہے نہ پوری پائے : جو تھوڑ ے پر صبر و شکر نہیں کرتا اور ہوس میں زیادہ کی طرف دوڑتا ہے وہ اکثر نہ صرف یہ کہ زیادہ نہیں پاتا بلکہ اپنے پاس سے بھی کھو بیٹھتا ہے۔
(۳۲ ) آدمی جانے بسے سے، سونا جانے کَسے سے : بسے سے یعنی قریب رہ کر، کسے سے یعنی کسوٹی پر کس کے۔ کسوٹی ایک طرح کا پتھر ہوتا ہے جس پر سونا گھسا جاتا ہے اور اُس نشان کی تیزی سے سونے میں ملاوٹ کا اندازہ کیا جاتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ جب تک کسی کے ساتھ رہا نہ جائے اس کی اصلیت اور خصلت کا پتا نہیں چلتا جیسے بغیر کسوٹی پر کَسے سونا نہیں پرکھا جا سکتا۔
( ۳۳ ) آدھے سیر کے برتن مین سیر نہیں سماتا : کلو گرام سے پہلے تولنے کے لئے سیراستعمال ہوتا تھا جو تقریباً آدھے کلو گرام کے برابر ہوا کرتا تھا۔کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ کم اہل آدمی سے بڑے کام کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے۔
( ۳۴ ) آدمی کا شیطان آدمی ہے : کوئی شخص اپنی بری عادات لے کر پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ دوسرے آدمیوں کی صحبت میں ہی خراب ہوتا ہے۔
( ۳۵ ) آدھی کو چھوڑ ساری کو جائے،آدھی ملے نہ ساری پائے : یہ کہاوت لالچ کی اُس صورت کے حوالے سے ہے جہاں زیادہ فائدہ کے لالچ میں انسان کم فائدہ کو چھوڑ دیتا ہے۔ پھر اس کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگتا اور وہ ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔
(۳۶ ) آدھا تیتر، آدھا بٹیر : یعنی ڈانوا ڈول، غیر معتبر، ایسا شخص جو کبھی ایک رنگ میں نظر آتا ہو اور کبھی دوسرے میں۔
( ۳۷) آدمی آدمی انتر، کوئی ہیرا کوئی کنکر : انتر یعنی فرق۔ ہر شخص ایک سا نہیں ہوتا ہے۔ آدمی آدمی میں فرق ہوتا ہے۔ کوئی ہیرے کی طرح بے بہا اور بلند مرتبہ ہوتا ہے اور کوئی کنکر کی طرح بے وقعت اور گرا پڑا۔
( ۳۸ ) آدمی کیا جو آدمی نہ پہچانے : دانشمند وہی ہے جو آدمی آدمی میں تمیز کر سکے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۳۹ ) آر یا پار : اپنے مقصد میں یا تو کامیابی ہو گی یا ناکام رہیں گے، بہر کیف اِدھر یا اُدھر آج فیصلہ ہو جائے گا۔
(۴۰ )آڑے وقت کا گہنا ہے : آڑے وقت (یعنی سخت وقت) میں آدمی گھر کا گہنا (زیور) وغیرہ بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ لاچاری کے عالم میں جو چیز کام آ سکے اس کو’’ آڑے وقت کا گہنا ‘‘کہتے ہیں۔
( ۴۱ ) آسمانی گولا : گولاجیسے توپ کا گولا، آسمانی گولا یعنی آسمانی یا غیبی مصیبت، ناگہانی مشکل
( ۴۲ ) آسمان کا تھوکا اپنے منھ پر ہی آتا ہے : یعنی بزرگوں کی برائی کرنے کا خراب نتیجہ برائی کرنے والے کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ کوئی آسمان پر نفرت سے تھوکے تو اس کا تھوک لازماً خود اسی کے منھ پر آ کر گرے گا۔ کہاوت میں آسمان کی جگہ چاند بھی کہا جاتا ہے۔
( ۴۳) آستین کا سانپ ہونا : یہ قرین قیاس نہیں کہ کوئی اپنی آستین کے اندر زہریلا سانپ پال سکتا ہے۔ لیکن کہاوت کا مطلب یہی ہے کہ اگر آستین میں پالا ہوا سانپ اپنے مالک اور محسن کو ڈَس لے تو یہ محسن کشی ہوئی۔ چنانچہ ایسا شخص جو کسی دوسرے کے احسانات سے دبا ہوا ہو اور اپنے محسن کے ساتھ بد دیانتی یا ظلم کرے ’’آستین کا سانپ‘‘ کہلائے گا۔
(۴۴) آس پاس برسے، دلّی پڑے ترسے : دلّی ملک کا دارالخلافہ ہونے کی حیثیت سے یہاں استعارہ ہے اہم کام یا عزیز و اقارب کا۔ مطلب یہ ہے کہ ایرے غیرے تو فیض اٹھا رہے ہیں لیکن اپنے ترس رہے ہیں۔ اسی معنی کو اہم کام پر بھی منطبق کر سکتے ہیں۔
(۴۵) آسمان سے گرا، کھجور میں اٹکا : کوئی چیز اگر آسمان سے گرے اور کھجور کے درخت میں اٹک جائے تو وہ ہماری دسترس سے بدستور دور ہی رہتی ہے۔ ایک مشکل سے نکل کر کسی دوسری مشکل میں کوئی آدمی یا کوئی کام پھنس جائے تو اس کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے اور ایسے ہی موقع پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۴۶) آّفت کا پرکالہ : یعنی شریر، شوخ یا فتنہ پرداز آدمی، ایسا شخص جو نچلا نہ بیٹھتا ہو۔
( ۴۷ ) آگ اور پھوس کی کیا دوستی : آگ اور پھوس ایک دوسرے کی ضد ہیں کیونکہ آگ پھوس کو جلا دیتی ہے سو ان کی دوستی کا کیا سوال۔ اسی طرح دو متضاد مزاج کے آدمی بھی مل جل کر گزر نہیں کر سکتے۔
(۴۸) آگ لگے تو بجھے جل سے، جل میں لگے تو بجھے کیسے : پانی میں اگر آگ لگ جائے تو اس کو بجھانا کارے دارد۔ یعنی جب مسئلہ کا حل یا بہتری کی صورت ہی ہاتھ سے نکل جائے تو مسئلہ کا علاج کیسے ہو سکتا ہے۔محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۴۹) آگ کے مول : یعنی نہایت مہنگا۔
( ۵۰) آگے پڑے کو شیر بھی نہیں کھاتا : شیر گرے پڑے مُردہ جانور کے بجائے خود شکار کرنا پسند کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عاجزی کرنے سے ظالم دشمن بھی درگزر کر دیتا ہے۔
( ۵۱ ) آگ لگے پر کنواں کھود رہے ہیں : یعنی مصیبت جب سر پر آ کھڑی ہوئی تو نجات کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی آگ لگ جانے کے بعد کنواں کھودنا شروع کرے کہ پانی نکلے گا تو آگ بجھا دی جائے گی۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۵۲ ) آگ کھائے انگارے اُگلے : جس کی تربیت اور صحبت خراب ہو گی اس کی عادات اور خصلت بھی ویسی ہی ہو جائیں گی۔ اچھی طبیعت اچھی تربیت و صحبت اور بری طبیعت بری تربیت و صحبت کا نتیجہ ہوتی ہے۔
( ۵۳ ) آگے جاتے گھٹنے ٹوٹیں، پیچھے دیکھتے آنکھیں پھوٹیں : کہاوت کا مطلب ہے کہ ہر طرح نقصان ہی نقصان ہے، نہ آگے کی جانب بڑھ سکتے ہیں اور نہ پیچھے واپس جا سکتے ہیں۔
(۵۴) آم کے آم، گُٹھلیوں کے دام : کوئی آم کھائے اور پھر گٹھلیاں بھی اچھے داموں بک جائیں تو اس سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے؟ یہ کہاوت تب استعمال ہوتی ہے جب کوئی شخص کسی چیز سے مستفید ہو لے اور پھر اسی چیز کے کسی کمتر پہلو کے طفیل مزید فائدہ اٹھائے۔
( ۵۵) آمدن بہ اِرادت، رفتن بہ اِجازت : یعنی کسی کا پاس جانا اپنی مرضی اور ارادے سے ہوتا ہے لیکن اس سے رخصت ہونا میزبان کی اجازت پر منحصر ہوتا ہے۔
(۵۶) آم کھانے سے کام ہیں نہ کہ پیڑ گننے سے : آم کھانے والے کو آموں سے مطلب ہونا چاہئے نہ کہ اس سے کہ آم کے پیڑ باغ میں کتنے ہیں۔ اسی طرح دانش مند آدمی کو فضولیات چھوڑ کر اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔
( ۵۷) آنتیں گلے پڑ گئیں : یعنی بہت مشکل میں گرفتار ہو گئے۔ بڑی آزمائش دَرپیش ہے۔
( ۵۸ ) آنکھ کے اندھے، نام نین سُکھ : نین سکھ یعنی جس کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک محسوس ہو۔ مطلب یہ ہے کہ دعویٰ تو بہت کچھ ہے لیکن اصلیت کچھ اَور ہی کہتی ہے۔ اسے ’’ڈھول میں پول‘‘ بھی کہتے ہیں۔
(۵۹) آنکھ کا اندھا، گانٹھ کا پورا : یعنی ایسا آدمی جس کو سامنے کی بات نظر نہ آئے اور وہ جانتے بوجھتے نقصان اٹھانے میں کوئی قباحت محسوس نہ کرے۔ یہاں گانٹھ سے مراد لباس یا چادر کے پلّو میں بندھی وہ پوٹلی نما گرہ ہے جس میں لوگ روپے پیسے باندھ لیتے ہیں۔ گانٹھ کا پورا یعنی اُس کے پاس روپے پیسے کی کمی نہیں ہے اور آنکھ کا اندھا سے مراد ہے کہ عقل کی کمی ضرور ہے۔
( ۶۰ ) آنکھوں کے ناخن لو : ناخن لینا یعنی ناخن کترنا۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ سمجھ داری سے کام لو، دانشمندانہ نظر پیدا کرو۔
( ۶۱ ) آنے پائی سے بیباق کر دیا : پرانے وقتوں میں ایک روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے اور ایک آنے میں چار پیسے۔ اسی طرح ایک پیسے میں تین پائیاں ہوا کرتی تھیں۔ یہاں آنے پائی سے ایک ایک پیسا مراد ہے گویا سارا پیسہ ادا کر دیا اور قرض چکا دیا۔
( ۶۲ ) آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند ؛ وہ پیالہ ٹوٹ گیا اور وہ ساقی بھی نہیں رہا۔ یعنی اب وہ پچھلا وقت باقی نہیں رہا اور زمانہ بدل کر کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔
( ۶۳) آنکھوں کا کاجل چرا لیتا ہے : نہایت شاطر اور چالاک ہے، اپنا کام ایسی صفائی سے کر جاتا ہے کہ گمان بھی نہیں ہوتا۔
(۶۴) آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں : یعنی بے حد بھوک لگ رہی ہے۔ قل ہو اللہ پڑھنا یہاں روزمرہ کا استعمال ہے۔ اگر قل ہو اللہ کی جگہ کسی اور سورۃ یا آیۃ کا نام لیا جائے تو غلط ہو گا اور بات نہیں بنے گی۔
(۶۵) آنکھوں دیکھے مکّھی نہیں نگلی جاتی : محاورہ میں ’’ مکھی نگلنا‘‘ کسی مکروہ کام یا بات کو طوعاً و کرہاً قبول کر لینے کو کہتے ہیں ۔ آنکھوں دیکھی یعنی سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی غلط چیز صاف نظر آ رہی ہے تو سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے اُس کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ دودھ میں مکھی پڑی ہوئی نظر آ جائے اور ہم اس کو دیکھنے کے بعد بھی نگل جائیں۔
(۶۶) آنکھوں کی سوئیاں رہ گئی ہیں : یہ کہاوت ایک کہانی سے ماخوذ ہے۔ ایک شہزادہ کے جسم میں جادو کی بے شمار سوئیاں چبھو دی گئیں اور وہ ان کے اثر سے بے ہوش ہو گیا۔ اس کو جگانے کے لئے یہ ضروری تھا کہ جسم کی ساری سوئیاں نکال لی جائیں ۔ اتفاق سے ایک شہزادی کا گزر وہاں سے ہوا اور وہ شہزادہ کو دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو گئی۔شہزادے کو جگانے کے لئے شہزادی نے اُس کے جسم سے سوئیاں نکالنی شروع کیں۔ ہر روز وہ کچھ سوئیاں نکال دیتی یہاں تک کہ صرف آنکھوں کی سوئیاں رہ گئیں۔ اس دن شہزادی کو کسی ضرورت سے کہیں جانا پڑا تو اس کی خادمہ نے موقع دیکھ کر شہزادے کی آنکھوں کی سوئیاں نکال دیں۔ شہزادہ پر سے جادو کا اثر زائل ہو گیا اور وہ جاگ گیا۔خادمہ کو دیکھ کر وہ سمجھا کہ یہ احسان اسی نے کیا ہے۔چنانچہ اُس نے خوش ہو کر خادمہ سے شادی کر لی۔ جب شہزادی واپس آئی تو وہ سر پیٹ کر رہ گئی۔کہانی کے آخر میں شہزادہ کو اصل صورت حال معلوم ہو جاتی ہے اور وہ شہزادی سے شادی کر کے اسے اپنی ملکہ بنا لیتا ہے اور خادمہ کو سزا ملتی ہے۔ اسی حوالہ سے یہ کہاوت ایسے موقع پراستعمال ہوتی ہے جب کسی کام کے پورے ہونے میں ذرہ بھر ہی کسر رہ جائے۔
( ۶۷) آنا نہ پائی،نری پاؤں گِھسائی : پہلے زمانے میں ایک روپیہ میں سولہ آنے ہوتے تھے، ایک آنے میں چار پیسے اور ایک پیسے میں تین پائی۔اس طرح پائی ایک نہایت کم قیمت سکہ ہوا۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ یہ ایسا کام ہے جس میں دوڑ دھوپ بہت ہے لیکن بالکل بے کار و بیسودکیونکہ اس میں کچھ ملنا ملانا نہیں ہے۔
( ۶۸ ) آندھی کے آم : آندھی میں درخت سے پکے ہوئے جو آم گر جائیں وہ ہر آنے جانے والے کے لئے مفت کی ضیافت ہیں۔ چنانچہ مفت کی چیز کو آندھی کے آم کہا جاتا ہے۔
(۶۹) آنکھ اوٹ پہاڑ اوٹ : اگر کوئی نظروں سے کچھ دنوں کے لئے غائب ہو جائے تو لوگ اس کو بہت جلد ایسے بھول جاتے ہیں جیسے وہ کسی پہاڑ کے پیچھے جا کر چھپ گیا ہو۔اسے’’آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل‘‘ بھی کہتے ہیں۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۷۰ ) آنکھیں ہو گئیں اوٹ، دل میں آئی کھوٹ : کوئی شخص تھوڑی سی دیر کے لئے بھی نظروں سے غائب ہو جائے تو اس کے مال کی جانب لوگ بری نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں کہ کسی طرح اس پر قبضہ کر لیا جائے۔
( ۷۱) آنکھ کے آگے ناک، سوجھے کیا خاک : یعنی آنکھوں پرتو پردہ پڑا ہوا ہے،پھر نظر کیسے آسکتا ہے؟ ایک لطیفہ اس کہاوت سے منسوب ہے۔ ایک نکٹے نے لوگوں کے طعنوں سے عاجز ہو کر یہ کہنا شروع کیا کہ اس کو اللہ نظر آتا ہے۔لوگوں نے جب پوچھا کہ ’’ہمیں کیوں نظر نہیں آتا؟‘‘ تو اس نے جواباً کہا کہ ’’تمھاری آنکھوں کے آگے ناک کی آڑ لگی ہوئی ہے جو اللہ کو دیکھنے کی راہ میں حائل ہے۔‘‘ کچھ بے وقوف لوگوں نے اس کی باتوں میں آ کر اپنی ناک کٹوا لی لیکن اللہ پھر بھی نظر نہیں آیا۔ نکٹے نے ان سے کہا کہ ’’بہتر یہ ہے کہ تم بھی میری ہاں میں ہاں ملاؤ ورنہ دُنیا تمھاری حماقت پرہنسے گی۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور چند اور لوگوں نے ناکیں کٹوا لیں۔
( ۷۲ ) آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل : اگر کوئی شخص کچھ دنوں کے لئے نظر نہ آئے تو لوگ اس کو بھول جاتے ہیں جیسے وہ کسی پہاڑ کی اوٹ میں جا بیٹھا ہے۔
( ۷۳) آنکھ بچی مال دوستوں کا : دوسروں کے مال پر نیت خراب کرنے پر کہا جاتا ہے یعنی اِدھر مالک کی نگاہ چوکی اور اُدھر لوگ مال لُوٹ کر چل دئے۔
( ۷۴) آنکھوں کی برائی بَھوں کے آگے : آنکھ اور بَھوں کا بہت قریبی ساتھ ہے۔ ایک دوست کی برائی دوسرے دوست سے کرنا گویا آنکھ کی برائی بھوں کے آگے کرنے کے مترادف ہے۔
( ۷۵) آنکھوں کا پانی مر گیا ہے: بے شرم یا بے حیا ہو گیا ہے۔ کسی کی شرم نہیں رہ گئی۔
( ۷۶ ) آنکھوں دیکھا نہ کانوں سنا : ایسی انہونی بات جو اس سے پہلے کسی نے نہ تو دیکھی ہو اور نہ ہی سنی ہو۔
( ۷۷ ) آنکھوں پر ٹھیکر ی رکھ لی : ٹھیکری یعنی ٹوٹے گھڑے کا چھوٹا سا ٹکڑا جو ہلکا بھی ہوتا ہے اور چپٹا بھی۔ مطلب یہ ہے کہ مسئلہ سے جان بوجھ کر انجان بن گئے ہیں یا بے غیرتی اختیار کر لی۔ محل استعمال ظاہر ہے۔
( ۷۸ ) آوے کا آوا خراب ہے : اینٹیں جب بھٹے میں جلائی جاتی ہیں تو ان کی کھیپ یا گھان کو آوا کہتے ہیں۔ آوے میں اچھی بری سبھی طرح کی اینٹیں تیار ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ آوے کی ساری اینٹیں خراب نکل جاتی ہیں۔ اسی مناسبت سے اگر آدمیوں کا کوئی گروہ یا پورا خاندان بد قمار اور خراب اشخاص پر مشتمل ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۷۹ ) آئینہ میں اپنا منھ تو دیکھو : یعنی تم اس کے مستحق نہیں ہو، نا اہل ہو۔
( ۸۰) آئی تھی آگ کو، رہ گئی رات کو : اس کہاوت میں ایک بد اطوار عورت کا بیان ہے جوہمسایہ کے یہاں آگ لینے گئی اور پھر رات وہیں رُک گئی۔ اس حوالے سے یہ کہاوت تب بولی جاتی ہے جب کوئی شخص کسی اچھے کام کی نیت ظاہر کرے لیکن پھر موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے مفاد کا کوئی دوسرا نا مناسب اور گھٹیا کام کر گزرے۔
( ۸۱) آئی تو روزی، نہیں تو روزہ : یعنی شدید غربت ہے۔ کسی دن کچھ کما لیا تو روٹی کا سہارا ہو گیا ورنہ فاقہ ہی کرنا ہو گا۔
( ۸۲ ) آئی گئی میرے ہی سر : آئی گئی یعنی ہر مصیبت یا الزام۔گویا ہم ایسے بد قسمت ہیں کہ سارا الزام ہمارے ہی سر آتا ہے۔
(۸۳ ) آئے کی خوشی نہ گئے کا غم : بے نیازی کے اظہار کے لئے کہتے ہیں یعنی اگر کوئی ملنے آ جائے تو اُس کی آمد سے خوشی نہیں ہوتی اور اگر کوئی چلا جائے تو اس کی جدائی کا غم نہیں ہوتا۔
٭٭٭
الف۔کی کہاوتیں
(۱ ) اب سے دُور : یہ عورتوں کی زبان ہے۔ اگر کسی مصیبت کا ذکر مطلوب ہو جو کسی عزیز پر گزر چکی ہو تو کہتے ہیں کہ ’’اب سے دور جب تمھارے ساتھ ایسا ہوا تھا۔‘‘ اس میں یہ دعا بھی مخفی ہے کہ اَ للہ نہ کرے کہ پھر تم ایسی مشکل سے دو چار ہو۔
(۲) اب کھائی تو کھائی،ا ب کھاؤں تو رام دُہائی : یہ عورتوں کی زبان ہے۔ رام دہائی یعنی خدا کی پناہ۔ اگر کسی کام کا انجام برا ہو تو اس کو دوبارہ کرنا حماقت ہے۔ چنانچہ اگر کسی معاملہ میں نقصان اٹھانا پڑے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے کہ ایساکام دوبارہ نہیں کروں گا۔
(۳) اب پچھتائے کیا ہوت ہے جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت : یہ عوامی کہاوت ہے۔ جب کام خراب ہو جائے تواُس پر کفِ افسوس ملنے سے کیا حاصل؟ بہتری کی صورت تو اَوّل وقت ہی اختیار کرنی چاہئے تھی۔ یہی اس کہاوت میں کہا گیا ہے کہ جب چڑیاں سارا کھیت کھا کر چوپٹ کر چکیں تو اب افسوس سے کیا ملے گا؟ مناسب تدبیر کرنے کا وقت تو چڑیوں کے آنے سے قبل تھا۔ ایسے ہی معنی میں ایک اور کہاوت ہے کہ’’ سانپ تو گذر گیا اب لکیر کیا پیٹنا؟‘‘
(۴) ابھی دلّی دور ہے : یعنی ابھی منزل مقصود بہت دور ہے، کامیابی کی صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس کہاوت کے پس منظر میں یہ حکایت بیان کی جاتی ہے کہ بادشاہ دہلی غیاث الدین تغلق کو حضرت نظام الدین اولیاء سے بغض تھا۔جب وہ بنگال کی مہم سے واپس آ رہا تھا تو اس نے ایک قاصد کے ذریعہ حضرت نظام الدین کو یہ پیام بھیجا کہ وہ بادشاہ کے دہلی پہنچنے سے پہلے شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ حضرت موصوف نے فرمایا کہ ’’بابا ! ہنوز دلی دُور است‘‘۔ یعنی ایسی بھی کیا جلدی ہے، پہلے دہلی پہنچ لے پھر دیکھا جائے گا کہ اللہ کا کیا حکم ہے۔ شومیِ قسمت سے بادشاہ راستہ ہی میں محل کی ایک دیوار سے دب کر مر گیا اور اسے دہلی دیکھنا نصیب نہ ہوا۔
( ۵ ) ابھی منھ کی دال نہیں جھڑی : یعنی ابھی بچپن یا نا تجربہ کاری کا زمانہ ہے۔ چڑیا کا بچہ جب انڈے سے نکلتا ہے تو اس کی چونچ کی دونوں جانب ایک سفید یا ہلکا پیلا داغ ہوتا ہے جس کو دال کہتے ہیں۔ عمر کے ساتھ یہ داغ مٹ جاتا ہے۔ اس کو دال کا جھڑنا کہتے ہیں۔
( ۶ ) اب ستونتی بنے، لُوٹ کھایا سنسار : ستونتی یعنی نیک اور وفا شعار۔ کوئی شخص دوسروں کو لوٹ کھسوٹ چکے اور پھر نیکی اور دیانت داری کا دعوی ٰ کرے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
(۷ ) ابر کو دیکھ کر گھڑے پھوڑ دئے : یعنی بادل دیکھ کر اس اُمید پر گھڑے توڑ دئے کہ اب تو پانی مل ہی جائے گا،گھڑوں کی کیا ضرورت ہے؟ ایک موہوم اُمید پر اپنے وسائل کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
(۸ ) ابھی مونڈے مانڈے سامنے آئے جاتے ہیں : ایک شخص بال کٹوانے کے لئے حجام کے سامنے بیٹھا اور اس سے پوچھا کہ ’’میرے سر پر کتنے بال ہیں ؟‘‘ حجام نے مسکرا کر جواب دیا کہ ’’ججمان جی! گھبراتے کیوں ہو۔ ابھی مونڈے مانڈے سامنے آئے جاتے ہیں۔‘‘ کوئی شخص اپنے کاموں کے انجام سے باخبر نہ ہو تو تنبیہ کے طور پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۹ ) ابھی دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے : بچوں کے دودھ کے دانت ان کی کم عمری اور نا تجربہ کاری کی نشانی ہیں۔ یہ کہاوت ایسے شخص کے لئے کہی جاتی ہے جو اپنے تجربوں میں نا پخت اور غیر آزمودہ ہو۔
(۱۰ ) اپنا رکھ، پرا یا چکھ : اپنا مال بچا بچا کر رکھ اور دوسرے کی پونجی طرح طرح سے خرچ کر۔ یہ بھی دُنیا کا ایک دستور ہے۔
(۱۱ ) اپنے ہی تن کا پھوڑا ستاتا ہے : اپنا یا اپنے عزیزوں کا دُکھ ہی زیادہ تکلیف دیتا ہے۔ غیروں کا دُکھ کم ہوتا ہے۔
(۱۲) اپنی پیٹھ اپنے تئیں دکھائی نہیں دیتی ہے : یعنی جس طرح اپنی پیٹھ کوئی شخص نہیں دیکھ سکتا اُسی طرح اپنے عیب بھی اُسے نظر نہیں آتے۔
(۱۳) اپنا ہاتھ جگناتھ : جو کام خود کر لیا جائے وہی سب سے اچھا ہوتا ہے۔دوسروں پر بھروسہ کرنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے اور اکثر آتی بھی ہے۔ ’’آپ کاج، مہا کاج’’ کا بھی یہی مطلب ہے۔
( ۱۴ ) اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں دِکھتا، دوسروں کی آنکھ کا تنکا دکھائی دے جاتا ہے : شہتیر یعنی درخت کا کٹا ہوا تَنا۔ مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی چھوٹی موٹی غلطیاں تو بہت آسانی سے دکھائی دے جاتی ہیں لیکن اپنی بڑی سے بڑی غلطی نظر نہیں آتی۔
(۱۵ ) اپنے منھ میاں مٹّھو بننا : یعنی خودستائی، اپنے منھ سے اپنی تعریف کرنا۔ خود کو بڑھا چڑھا کر بتانا۔ بر خود غلط ہونا۔
( ۱۶ ) اپنا مارے گا تو پھر چھاؤں میں بٹھائے گا : چھاؤں یعنی سایہ۔ اگر کوئی اپنا خفاہوتواس کے دل میں قربت کی وجہ سے پھر بھی تھوڑی بہت ہمدردی ہوتی ہے جب کہ غیر سے ایسی اُمید نہیں ہوتی۔
(۱۷) اپنا سکّہ کھوٹا تو پرکھنے والے کو کیا دوش : اگر کوئی شخص کھوٹے سکّے کو لینے سے انکار کر دے تو اُس کا کوئی قصور نہیں۔ اسی طرح اگر اپنا موقف کمزور ہو یا اپنا آدمی ناکارہ تو اُسے مسترد کرنے پر دُنیا کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔
(۱۸) اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ: یعنی من مانی کرنا۔ ڈفلی ایسی چھوٹی ڈھولکی کو کہتے ہیں جس پر ایک ہی طرف کھال چڑھی ہوتی ہے۔ یہ کہاوت تب کہی جاتی ہے جب ہر شخص اپنی اپنی کہہ رہا ہو اَور کوئی کسی کی سننے کو تیار نہ ہو۔
( ۱۹) اپنی داڑھی سب پہلے بُجھاتے ہیں : اپنی فکر آدمی پہلے کرتا ہے اور اس کے بعد ہی کسی اور کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ کہاوت اسی حقیقت کو ایک دلچسپ مثال سے واضح کر رہی ہے کہ اگر کئی اشخاص کی داڑھیوں میں ایک ساتھ آگ لگ جائے تو ہر ایک اپنی داڑھی کی فکر پہلے کرے گا۔
( ۲۰ ) اپنی گانٹھ نہ ہو پیسا تو پرایا آسرا کیسا : یعنی اگر آدمی میں خود کوئی اہلیت نہیں ہے تو وہ دوسروں پر کیسے بھروسا کر سکتا ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ اپنے ہاتھ خالی ہوں اور دوسروں کے بل بوتے پر کام کی اُمید کی جائے۔
( ۲۱ ) اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا لی : یعنی اپنی رائے کی پخ میں دوسروں کو مطلق نظر انداز کر دیا اور اپنے طور پر ہی کام کیا۔ اس صورت حال سے آپس میں نفاق و افتراق بڑھنے کا بہت امکان ہوتا ہے لہٰذا اس سے پرہیز بہتر ہے۔
( ۲۲ ) اپنی گئی کا دُکھ نہیں، جیٹھ کی رَہی کا دُکھ ہے : یہ کہاوت ایسے شخص کے بارے میں کہی جاتی ہے جس کو اپنے نقصان کی اتنی فکر نہیں ہوتی جتنی اس کی کہ دوسروں کا نقصان کیوں نہیں ہو رہا ہے۔ ایک کہانی اس کہاوت سے منسوب ہے۔ ایک عورت کی گائے کھو گئی۔ اڑوس پڑوس کے لوگ جب اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے تو وہ کہتی کہ میری گئی سو گئی لیکن میرے جیٹھ کی تو ایک بھی نہ کھوئی۔ گویا جیٹھ کا نقصان اپنی گائے کی واپسی سے زیادہ اس کے لئے اطمینان اور سکون کا سامان پیدا کرتا۔
( ۲۳) اپنی موت اپنے ہاتھوں بلائی : یعنی اپنا نقصان آپ ہی کیا۔ اسی معنی میں ’’ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لی‘‘ بھی کہتے ہیں۔
(۲۴) اپنے گھر میں کُتا بھی شیر ہوتا ہے : اپنے دوستوں اور حامیوں کی پشت پناہی حاصل ہو تو کمزور شخص بھی خود کو مضبوط اور طاقت ور محسوس کرتا ہے اور ایسا ہی ظاہر بھی کرتا ہے۔
(۲۵) اپنی عزت اپنے ہاتھ : آدمی کو خود اپنی عزت کا خیال رکھنا چاہئے اور دوسروں سے توقع نہیں کرنی چاہئے کہ وہ اس کی عزت کا پاس کریں گے۔ وہ ایسی بات کیوں کرے کہ لوگوں میں بے عزتی کا باعث ہو۔
( ۲۶ ) اپنا اُلوسیدھا کیا : یعنی اپنا مطلب نکال لیا اور دوسرے کے نفع نقصان کی فکر نہ کی۔
( ۲۷ ) اپنی ٹانگ کھولئے، آپ ہی لاجوں مریے : راز کی باتیں خود ہی عام کر دی جائیں تو شرم بھی خود ہی اُٹھانی پڑتی ہے۔ نہ کسی کو دَرونِ خانہ راز بتائے جائیں اور نہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔
( ۲۸ ) اپنے حلوے مانڈے سے کام : حلوہ مانڈہ یعنی کھانا پینا، فائدہ۔ کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں کسی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ہمیں تو بس اپنا فائدہ دیکھنا ہے۔ یہاں خود غرضی کی جانب اشارہ کر کے انداز بیان سے کہاوت اس عادت کی مذمت کر رہی ہے۔
( ۲۹) اپنے مرے کو سب سائے میں رکھتے ہیں : جس طرح اپنے گھر کی میت کو ہر شخص سائے میں رکھتا ہے اسی طرح اپنوں کی حمایت اور مدد بھی ایک فطری بات ہے۔ کہاوت اسی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
( ۳۰ ) اپنا بل اپنا بل، پرا یا بل پاپ، نہ پھل : یعنی اپنے بل بوتے پرکیا گیا کام سب سے اچھا ہوتا ہے۔ دوسروں کے بل پر جو کام کیا جائے اس میں خرابی ہی خرابی ہوتی ہے، اچھائی کوئی نہیں ہوتی۔
( ۳۱ ) اپنا دھن اپنا دھن، پرایا دھن پاپ،نہ پُن : اپنی دولت یا طاقت کے صحیح استعمال میں فائدہ ہی فائدہ ہے جب کہ دوسرے کے بل بوتے پر کچھ کرنا پاپ (عذاب) کا موجب تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے پُن (نیکی) کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔
( ۳۲ ) اپنا پیٹ کتا بھی پال لیتا ہے : اوچھے سے اوچھا آدمی بھی کسی نہ کسی طرح کام چلا ہی لیتا ہے۔کہاوت میں اشارہ یہ ہے کہ کام جو بھی کیا جائے وہ نیک نامی کا ہونا چاہئے۔
( ۳۳) اپنی دہی کو کون کھٹا کہتا ہے : حلوائی کبھی اپنی دہی کو کھٹا نہیں بتاتا ورنہ اس سے کون دہی خریدے گا؟ فطرت کا یہی تقاضا ہے کہ آدمی اپنی چیز کی برائی نہیں کرتا۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
(۳۴) اپنی نیند سوتے ہیں ، اپنی نیند جاگتے ہیں : یہ فقرہ بے فکری اور بے اعتنائی کے اظہار کے لئے بولتے ہیں۔ یعنی ہم کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔
(۳۵) اتنی گرمی کہ چیل انڈا چھوڑ رہی ہے : یہ کہاوت بھی گرمی کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔چیل اگر انڈے پر بیٹھی ہو تو آسانی سے اُسے چھوڑ کر نہیں جاتی۔ گرمی کی بے تحاشہ شدت کی تصویر کشی کرنی ہو تو یہ کہاوت بولتے ہیں یعنی چیل کو اپنے آنے والے بچوں کی بھی پروا نہیں اور اُسے سایے کی تلاش ہے۔
( ۳۶ ) اِتنے کی بُڑھیا بھی نہیں جتنے کا لہنگا پھٹ گیا : یعنی بُڑھیا کا لہنگا بُڑھیا سے زیادہ مہنگا اور دل پسند تھا۔ اگر کسی کام میں اصل رقم سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑ جائے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۳۷) اُتّم سے اُتّم ملے اور ملے نیچ سے نیچ : اُتّم یعنی اعلیٰ۔ شرفا شریف لوگوں کی صحبت تلاش کرتے ہیں اور ذلیل اپنے ہی جیسے لوگوں میں خوش رہتے ہیں۔ اسی معنی کو ایک شعر یوں بیان کرتا ہے:
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر، باز با باز
(ہم جنس پرندے ایک دوسرے کے ساتھ اُڑتے ہیں، کبوتر،کبوتروں کے ساتھ پرواز کرتا ہے اور باز دوسرے بازوں کے ہمراہ)
( ۳۸) اتنی سی جان، گز بھر کی زبان : کوئی شخص عمر یا رتبہ میں کم ہو لیکن بد زبان ہو تواُس کے لئے یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۳۹) اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ جانا : یہ پرانے زمانے کی عورتوں کی کہاوت ہے۔اس کا مطلب ذرا سی بات پر رُوٹھ کر چارپائی پکڑ لینا ہے۔ عورتیں اپنی بات منوانے کی ضد میں منھ لپیٹ کر چارپائی پر خاموش پڑ رہتی ہیں اور جب تک بات پوری نہ ہو ضد پر اَڑی رہتی ہیں۔ اس کو’’ اَن سَٹ پاٹی لے کر پڑ جانا‘‘ بھی کہتے ہیں۔اٹواٹی کھٹواٹی یعنی چھوٹی چارپائی۔ اِ س طرز بیان میں طنز اور حقارت کا پہلو بھی نکلتا ہے۔
( ۴۰ ) اُ ٹھتے جوتی، بیٹھتے لات : اٹھتے بیٹھتے یعنی ہر وقت۔ جوتی اور لات بے عزتی کا استعارہ ہیں۔گویا کہاوت کا مطلب ہے کسی کے ساتھ ہر وقت بے عزتی کا سلوک کرنا۔
(۱) اُٹھاؤ چولھے ہونا : ایسا چولھا جس کو اُٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھا جا سکے’’ اُٹھاؤ چولھا‘‘ کہلاتا ہے مثلاً انگیٹھی۔ کہاوت سے مراد ایسا آدمی ہے جس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ نہ ہو یا جو ذرا سی بات پر اپنا موقف بدل دے یعنی نا قابل اعتبار۔
( ۴۱ ) اُجڑے گاؤں سے ناتا کیا : یعنی جب کسی کو چھوڑ دیاتو پھر اس سے کوئی تعلق رکھنا کیا معنی رکھتا ہے؟
( ۴۲) اچھوں کے اچھے ہی ہوتے ہیں : اچھے لوگوں کی اولاد بھی اچھی ہوتی ہے یعنی صحبت اور تربیت کا اثر ضرور ہوتا ہے۔
(۴۳) اُدھار کھائے بیٹھے ہیں : دل میں کسی کے دُشمن ہیں، کسی کا برا چاہتے ہیں۔
( ۴۴) اِدھر یا اُدھر : یعنی کسی نہ کسی طرف ایک فیصلہ ہو جائے۔ کوئی لگی نہ رہ جائے۔
( ۴۵ ) اَدَھر میں چھوڑ گیا : اَدَھر یعنی آدھے راستے یا بیچوں بیچ۔ اَدَھر میں چھوڑ گیا یعنی ایسی حالت میں چھوڑ گیا کہ نہ اِدھر کے رہے اور نہ اُدھر کے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
(۴۶ ) اِدھر کُنواں ، اُدھر کھائی : کوئی شخص دو مصیبتوں کے درمیان پھنس جائے اور جائے مفر نہ ہو تو یہ کہاوت بولتے ہیں۔
( ۴۷ ) اُدھار محبت کی قینچی ہے : کسی سے قرض لینا آپس کی محبت کے لئے بہت خطرناک ہوتا ہے۔ گویا قرض ایسی قینچی ہے جو باہمی تعلقات کو بہ آسانی کاٹ سکتی ہے۔’’ قرض مقراض محبت ہے‘‘ بھی اسی معنی میں مستعمل ہے۔
(۴۸) ازار بندی رشتہ : یعنی سُسرالی رشتہ۔ازار بندی عوامی استعارہ ہے۔
( ۴۹) اُڑتی چڑیا پہچانتے ہیں : یہ فقرہ بہت چالاک شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ یہ اتنے تیز ہیں کہ اُڑتی چڑیا کو دیکھ کر پہچان لیتے ہیں کہ یہ چڑیا ہے یا چڑا۔
( ۵۰) اُڑتی چڑیا کے پر گنتے ہیں : یہ کہاوت بھی انھیں معنوں میں کہی جاتی ہے جن میں ’’ اُڑتی چڑیا پہچانتے ہیں ‘‘ مستعمل ہے۔
(۵۱) اڑھائی ہاتھ کی ککڑی اور نو ہاتھ کا بیج : یعنی ماں سے کہیں زیادہ تیز و طرّار اُس کا بچہ نکلا۔ گویا یہاں بیج سے مراد بچہ ہے اور ککڑی سے اس کی ماں۔
( ۵۲ ) اُڑ کے منھ میں کِھیل نہیں گئی : کھیل یعنی مکا کا بھنا ہوا دانا جو پھول کر ہلکا ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اب تک کچھ بھی نہیں کھایا اور مکمل فاقہ سے ہیں۔
( ۵۳ ) اِسے چھُپاؤ، اُسے دِکھاؤ : یعنی دو شخص اتنے ہم شکل ہیں کہ ایک کو چھُپا کر اُس کی جگہ دوسرے کو دِکھا دیا جائے تو لوگ تمیز نہیں کر سکتے۔
(۵۴) اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے : کسی بات یا کام کا صلہ فوراً ہی مل جائے تو یہ کہاوت استعمال ہوتی ہے۔ یہ نظیرؔ اکبر آبادی کے ایک شعر کا دوسرا مصرع ہے:
( ۵۵ ) اَسّی برس کی عمر، نام میاں معصوم : اتنی عمر آ گئی لیکن اب تک بچے ہی بنے ہوئے ہیں۔
( ۵۶ ) اس برتے پر تتا پانی : اتنی کم حیثیت اور باتیں اتنی بڑی بڑی ؟ اسے ’’کس برتے پر تتّا پانی‘‘ بھی کہتے ہیں۔
( ۵۷) اُس کی جوتی،ا ُسی کا سر : یعنی غلط کام کرنے والے نے جو گستاخی یا توہین آمیز بات کی تھی وہ لوٹا کر اسی کے منھ پر مار دی گئی۔ اس طرح وہ جوتا جو اُس نے کسی کی بے عزتی کی نیت سے اُٹھایا تھا خود اسی کے سر پر پڑ کر اس کی بے عزتی کا سبب بن گیا۔
( ۵۸ ) اُستاد بیٹھے پاس، کام آئے راس : کسی علم میں بھی بغیر قابل اور ماہر فن استاد کے مہارت اور کمال حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
( ۵۹) استنجے کا ڈھیلا ہیں : کسی کی برائی مقصود ہو تو یہ کہاوت بولتے ہیں، یعنی نہایت بے وقعت اور بے ذوق ہیں۔سنجیدہ اور ثقہ حلقوں میں اس کے استعمال سے پرہیز کیا جاتا ہے گویا خالص عوامی کہاوت ہے۔
(۶۰) اشرفیاں بانٹیں اور کوئلہ پر مہر لگائیں : پرانے زمانے میں سونے کا ایک سکہ َ اشرفی کہلاتا تھا۔ کسی چیز پر مہر لگانے سے مراد اُس کو ایسا سر بمہر کر دینا ہے کہ اُس تک آسانی سے ہر ایک کی رسائی ممکن نہ ہو۔ اگر کوئی شخص اپنی قیمتی چیزوں کی قدر نہ کرے اور فضولیات پر بہت وقت اور پیسہ صرف کرے تو کہتے ہیں کہ’’ اشرفیاں بانٹی جا رہی ہیں اور کوئلوں پر مہر لگی ہوئی ہے۔‘‘
(۶۱) اصل سے جفا نہیں، کم اصل سے وفا نہیں : اصل یعنی نیک، با اصول شخص۔ ایسے شخص سے زیادتی یا اس کی حق تلفی بری بات ہے جب کہ بے اصول اور بد خو آدمی سے اچھا سلوک کرنے سے قبل آگے پیچھے کی سوچ لینا بہتر ہے۔
( ۶۲ ) اطلس میں مونجھ کا بخیہ : اطلس ایک قسم کا بہت قیمتی کپڑا ہوتا ہے جب کہ ناریل کی مونجھ بہت موٹی اور گھٹیا ہوتی ہے۔ کہاوت کا مطلب ہے بے جوڑ یانامناسب بات۔اس معنی میں ’’ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند‘‘ بھی کہتے ہیں۔
( ۶۳ ) اکیلا گھر شیطان کا گھر : خالی گھر کی ویرانی سے دل ہراساں ہوتا ہے جیسے اس پر شیطان قابض ہو گیا ہو۔
( ۶۴) اَکل کھُرّا : خود غرض اور انتہائی بے مروت شخص کو کہتے ہیں۔
( ۶۵ ) اکیلا ہنستا بھلا،نہ روتا : تنہا آدمی کسی حال میں بھی اچھا نہیں لگتا، نہ تو وہ ہنستا ہی بھلا لگتا ہے اور نہ روتا۔
(۶۶) اکیلا چَنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا : چنے، مکا وغیرہ بھوننے والے کو بھڑ بھونجا کہتے ہیں کیونکہ جس چولھے میں وہ چنے بھونتا ہے وہ بھاڑ کہلاتا ہے۔ بھاڑ ایک زمیں دوز چولھا ہوتا ہے جس میں بہت سی ریت گرم کی جاتی ہے۔اِس گرم ریت کو کچے چنوں پر ڈال کر ان کو بھونا جاتا ہے۔ بیک وقت بہت بڑی مقدار میں چنے نہیں بھونے جا سکتے کیونکہ ریت کی گرمی ان کے لئے ناکافی ہو سکتی ہے۔ بھاڑ کی اس ناکامی کو اس کا پھوٹنا کہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ صرف ایک ہی چنے سے بھاڑ نہیں پھوٹ سکتا۔ اسی پر قیاس کیجئے کہ بہت سے ایسے کام ہوتے ہیں کہ ایک شخص کے بس کی بات نہیں ہوتے اور کئی اشخاس کی اجتماعی کوشش سے ہی کچھ ہو سکتا ہے۔ یہ کہاوت ایسے ہی کام اور موقع کے لئے مستعمل ہے۔
(۶۷ ) اَگاڑی تمھاری، پچھاڑی ہماری : یعنی اگلا حصہ تمھارا اَور پچھلا ہمارا۔ اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ دو بھائیوں نے مل کر ایک بھینس خریدی۔ بڑا بھائی بہت چالاک اور فریبی تھا جب کہ چھوٹا سادہ لوح اور بھولا بھالا تھا۔ بڑے بھائی نے کہا کہ’’ کیوں نہ بھینس کی خدمت ہم دونوں برا بر برابر بانٹ لیں۔ تم اس کا اگلا حصہ لے لو اور میں پچھلا لئے لیتا ہوں۔‘‘ چھوٹا بھائی راضی ہو گیا ۔چنانچہ وہ بھینس کو چارہ دینے لگا اور بڑا بھائی اُس کے فضلے کی صفائی کے علاوہ اُس کا دودھ بھی ہڑپ کر نے لگا۔ یہ کہاوت ایسی تجاویز پر بولی جاتی ہے۔
( ۶۸) اگلا گرا، پچھلا ہوشیار : قطار میں چلتے ہوئے آدمیوں میں سے اگر آگے چلتا ہوا شخص ٹھوکر کھا کر گر پڑے تو اس کے پیچھے آنے والوں کو ہوشیار ہو جانا چاہئے، گویا دوسروں کے تجربے سے فائدہ اٹھانا دانشمندی کی نشانی ہے۔
( ۶۹ ) اُلٹے بانس بریلی کو : ہندوستان میں بریلی شہر بانس کی تجارت کی منڈی ہے۔ اگر کوئی شخص بانس برائے فروخت بریلی بھیجے تو یہ حماقت ہو گی کیونکہ وہاں تو اس کی کمی نہیں۔ چنانچہ اگر کوئی شخص کسی جگہ وہ چیز بھیجے جس کی وہاں افراط ہے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۷۰ ) اللہ دے اور بندہ لے : یعنی ہر طرح سے اللہ کی نعمتوں کی ایسی بہتات ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی ہے۔
( ۷۱) اللہ ہی اللہ ہے : یعنی کچھ نہیں ہے،بس اللہ کا نام رہ گیا ہے۔
( ۷۲ ) اللہ کا نام ہے : یہ کہاوت بھی اسی معنی میں بولی جاتی ہے جس میں ’’اللہ ہی اللہ ہے‘‘ مستعمل ہے۔
( ۷۳) الخاموشی نیم رضا : بات کے جوا ب میں خاموشی کا مطلب نیم رضا مندی ہوتا ہے۔ اگر بات پسند نہ ہو تو اِنسان جواباً کچھ ضرور کہتا ہے۔
( ۷۴) اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے : غلطی کرنے والا اگر اپنی غلطی پکڑنے والے کو ہی الزام دینے لگے اور اس کے پیچھے پڑ جائے تو یہ مضحکہ خیز بات ہوئی۔ایسے ہی موقع پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
( ۷۵) الٹی چھری سے حلال کرتے ہیں : یعنی بہت ظلم کرتے ہیں۔ اس کو’’ کُند چھری سے حلال کرنا‘‘ بھی کہتے ہیں ۔
( ۷۶ ) الف کے نام بے نہیں جانتے : جاہل مطلق کے لئے کہا جاتا ہے کہا لف بے کی بھی تمیز نہیں ہے۔
(۷۷) الف کے نام لٹھ ہیں : یہ کہاوت بھی جاہل مطلق کے لئے کہی جاتی ہے۔ا لف اور لٹھ کی ظاہری مشابہت کی وجہ سے شاید یہاں لٹھ استعمال کیا گیا ہے۔
( ۷۸) اللہ اللہ خیر سلّا : یعنی چلئے خیر سے کام مکمل ہو گیا۔
( ۷۹) اللہ میاں کی گائے : گائے اپنی فطرت میں ً حلیم اور سیدھی ہوتی ہے۔ چونکہ اللہ سے رحم و کرم وابستہ ہے اس لئے اللہ میاں کی گائے ایسی گائے ہو گی جو سیدھے پن اور بردباری میں سب پر سبقت لے گئی ہو۔ چنانچہ یہ کہاوت ایسے شخص کے لئے استعمال ہوتی ہے جو نہایت شریف،سیدھا سادا اور حلیم الطبع ہو۔
( ۸۰) اُلو کا پَٹّھا : یعنی حد سے زیادہ احمق آدمی۔ پٹھا یعنی بیٹا،گویا وہ خاندانی احمق ہے۔
( ۸۱) اُلو کی دُم فاختہ : یہ فقرہ بھی احمق مطلق کے لئے بولا جاتا ہے۔ اُلو اور فاختہ کی دُم کی مطابقت کی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔
( ۸۲ ) اللہ نے پانچ انگلیاں برابر نہیں رکھیں : جس طرح اللہ کی بنائی ہوئی پانچ انگلیاں ایک سی نہیں ہیں اسی طرح انسان بھی الگ فطرت اور خصلت لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ محل استعمال ظاہر ہے۔
( ۸۳ ) اللہ کو دیکھا نہیں، عقل سے تو پہچانا ہے : اَللہ کو کسی نے نہیں دیکھا ہے لیکن اس کی قدرت چاروں جانب ایسی ظاہر ہے کہ اس کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اسی مناسبت سے اگر کسی بات کا کوئی عینی شاہد تو نہ ہو لیکن تمام دیگر شواہد ایک ہی جانب اشارہ کر رہے ہوں تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۸۴ ) امیر کی دائی سیکھی سکھائی : دائی یعنی ملازمہ۔یہاں یہ کمتری کا استعارہ ہے۔کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ امیر آدمی کا نوکر بھی چالاک ہوتا ہے۔
( ۸۵) ان کا باوا آدم ہی نرالا ہے : ان کی دُنیا ہی انوکھی ہے گویا یہ سب سے الگ اور منفرد ہیں۔
(۸۶ ) اندھا اندھے کو راہ دکھا رہا ہے : ایک اندھا دوسرے اندھے کو بھلا راستہ کیسے دکھا سکتا ہے۔ کہاوت کا مطلب یہی ہے کہ ایک کم علم یا جاہل دوسرے کم علم یا جاہل کو کچھ سکھا نہیں سکتا۔ نہ اِسے آتا ہے اور نہ وہ سمجھ سکتا ہے۔
(۸۷ ) اِن کا آپس میں قارورہ ملتا ہے : حکیم تشخیصِ مرض کے لئے مریض کے قارورہ (پیشاب) کا معائنہ کرتے ہیں۔ دو آدمیوں کا قارورہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی آپس میں ساز باز ہے یا یہ ایک سی طبیعت اور فطرت کے مالک ہیں۔
( ۸۸) ا نگلی کٹوا کر شہیدوں میں داخل : یعنی چھوٹا سا کام کر کے بڑے لوگوں کی فہرست میں نام لکھوانے کی کوشش۔ اس کو ’’لہو لگا کر شہیدوں میں داخل: بھی کہتے ہیں۔محل استعمال کہاوت سے ظاہر ہے۔
( ۸۹) اندھے کے کندھے لنگڑا چڑھا، بن گیا دونوں کا کام : مل جل کر عقل مندی سے کیا جائے تو کم اہل آدمیوں کے لئے بھی مشکل کام آسان ہو جاتا ہے۔ اس کو یہ کہاوت یوں واضح کرتی ہے کہ ایک گاؤں میں آگ لگ گئی اور لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ دو آدمی پیچھے رہ گئے۔ان میں ایک لنگڑا تھا جو بھاگ نہیں سکتا تھا اور دوسرا اندھا جس کو دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ایسی مصیبت کے وقت لنگڑا آدمی اندھے کے کندھے پر بیٹھ گیا اور اُسے راستہ بتا کر خطرہ سے نکال لایا اور اس طرح دونوں کی جان بچ گئی۔
(۹۰) اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں : ہر اندھے آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش اس کے بھی آنکھیں ہوتیں ۔ اسی مناسبت سے کسی شخص کی من مانی مراد پوری ہو جائے تو کہتے ہیں کہ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں ، یعنی سب کچھ تو مل گیا، اب اَور کیا چاہئے۔
(۹۱) اندھیر نگری، چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی، ٹکے سیر کھاجا : یعنی ایسی جگہ جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو یا ایسی حکومت جہاں ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہو، حاکم وقت نا اہل اور کارندے نالائق ہوں۔ یہ فقرہ ایک لوک کہانی سے لیا گیا ہے۔ ایک گرو اپنے چیلے کے ساتھ سفر کو نکلے تو ان کا گزر ایک ایسی بستی سے ہوا جس کا نام اندھیر نگری تھا اور جہاں کا حاکم چوپٹ راجاؔ کہلاتا تھا۔ اندھیر نگری کے بازاروں میں چھوٹی بڑی ہر چیز بھاجی (ترکاری) سے لے کر کھاجا (اعلیٰ قسم کی ایک مٹھائی) تک ایک ٹکے (نہایت چھوٹا سکّہ) میں ایک سیر (تقریباً آدھا کلو گرام)ملتی تھی۔چیزوں کی ایسی ارزانی دیکھ کر چیلے کا جی للچا گیا اور اس نے گروجی کے سمجھانے کے باوجود وہیں ٹھہر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ جلد ہی وہ کھا پی کر موٹا تازہ ہو گیا۔ ایک دن وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک دوکان کی دیوار اچانک کسی طرح گر گئی اور ایک راہ گیر دب کر مر گیا۔چوپٹؔ راجا کو خبر ہوئی تو اس نے اُس راج کی پھانسی کا حکم دے دیا جس نے دیوار بنائی تھی۔ راج نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’مہاراج، قصور میرا نہیں اِس بھشتی کا ہے جس نے گارے میں پانی زیادہ ڈال کر اس کو کمزور کر دیا تھا۔ ‘‘ راجا کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور اس نے راج کے بجائے بھشتی کی پھانسی کا حکم صادر کر دیا۔ اتفاق سے بھشتی بہت دُبلا پتلا تھا۔ اس نے عرض کی کہ ’’حضور میری گردن اتنی پتلی ہے کہ پھندا اُس کے لئے بہت بڑا ہو گا۔بھلا مجھ کو پھانسی دینے سے کیا ملے گا۔ پھانسی تو کسی موٹے آدمی کو ملنی چاہئے۔ ‘‘ راجا چوپٹؔ نے فوراً کسی موٹے آدمی کی تلاش کا حکم دے دیا۔اتفاق سے شہر میں وہی چیلہ سب سے زیادہ موٹا تھا چنانچہ اسے پکڑ کر پھانسی کے تختے کی طرف لایا گیا۔ یہ دیکھ کر گروجی نے کوتوال سے کہا کہ ’’میرے چیلے کے بجائے مجھے پھانسی دے دو۔ میری گردن بھی موٹی ہے۔‘‘ کوتوال نے حیرت سے پوچھا ’’گروجی! بھلا آپ کیوں پھانسی چڑھنا چاہتے ہیں۔‘‘ گروجی نے کہا ’’بیٹا! آج کا دن اتنا مبارک ہے کہ جو پھانسی چڑھے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ ‘‘ یہ سن کر کوتوال کہنے لگا کہ ’’یہ بات ہے تو پھر میں ہی کیوں نہ جنت میں جاؤں۔ پھانسی مجھ کو دی جائے گی۔ ‘‘ راجا کا وزیر وہیں کھڑا تھا۔اُس نے یہ سُن کر کہا کہ ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم مجھ سے پہلے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ پھانسی میں چڑھوں گا۔ ‘‘ چوپٹؔ راجا صاحب نے یہ سب دیکھا تو غصہ میں آ گئے اور فرمایا کہ ’’میرے ہوتے ہوئے کس کی مجال ہے کہ جنت میں پہلے داخل ہو جائے۔ پھانسی پر میں خود چڑھوں گا۔‘‘ چنانچہ چوپٹؔ راجہ کو پھانسی دے دی گئی۔ گرو جی نے اس چال سے اپنے چیلے کی جان بچا لی اور اس کو سمجھایا کہ ’’بیٹا اندھیر نگری رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ا س کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔‘‘ چنانچہ دونوں وہاں سے کہیں اور چلے گئے۔
( ۹۲ ) انسان کی قدر مرنے کے بعد معلوم ہوتی ہے : کہاوت کا مطلب اور محل استعمال ظاہر ہیں۔ کسی شاعر نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی پیارے یاد آوے گی تجھے میری وفا میرے بعد
( ۹۳) اندھا ہاتھی اپنی فوج کو ہی مارے: جس طرح اندھے جنگی ہاتھی کو دوست دشمن کی تمیز نہیں ہوتی ہے اس طرح نادان آدمی سے اپنوں کو ہی نقصان پہنچتا ہے کیونکہ اس کو بھی تمیز کم ہوتی ہے۔
( ۹۴) اندھا امام، ٹوٹی مسیت : مسیت عوامی زبان میں مسجد کو کہتے ہیں۔ آدمی کی جیسی حیثیت ہوتی ہے ویسا ہی مقام اس کو ملتا ہے جیسے اندھے امام کو ٹوٹی مسجد دے دی جاتی ہے کیونکہ اس کو مسجد کی حالت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے۔
(۹۵) اندھے کے ہاتھ بٹیر آنا : بٹیر فاختہ کے برابر ایک پرندہ ہے جس کو پکڑنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اگر کسی نا اہل شخص کو اتفاقاً کوئی غیر متوقع فائدہ پہنچ جائے تو کہتے ہیں کہ اندھے کے ہاتھ بٹیر آ گئی۔
(۹۶) اندھا بانٹے ریوڑیاں ، اپنوں اپنوں کو دے : اندھا آدمی صرف اپنے قریب کے لوگوں کو ہی پہچانتا ہے چنانچہ اگر وہ ریوڑیاں بانٹے گا تو اپنوں کو ہی دے گا۔ لہٰذا اگر کوئی شخص کسی انعام یا احسان کو اپنے دوستوں اور عزیزوں تک ہی محدود رکھے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
(۹۷) اندھوں میں کانا راجا : کم اہلوں کے بیچ اگر کوئی شخص ایسا آ جائے جو تھوڑی بہت قابلیت رکھتا ہو تو وہ ایسا ہی ہو گا جیسے اندھوں کے ملک میں کوئی کانا آدمی راجا بن جائے کہ کم سے کم وہ دیکھ توسکتا ہے۔ یہ کہاوت ایسے ہی وقت استعمال ہوتی ہے۔
(۹۸) اِن تِلوں تیل نہیں ہے : اگر تل خراب ہوں تو کولہو میں پیل کر اِن سے تیل نہیں نکالا جا سکتا۔یہ کہاوت ایسے انسان پر صادق آتی ہے جو ناکارہ ہو۔
(۹۹) اُنیس بیس کا فرق ہونا : یعنی دو چیزوں میں بہت ہی کم فرق ہونا۔
(۱۰۰) انگور کھٹے ہیں : یہ کہاوت ایک لوک کہانی سے لی گئی ہے۔ ایک لومڑی نے انگور کی بیل پر انگور دیکھے تو ان کو کھانے کے لالچ میں اس نے چاہا کہ کسی طرح ان تک پہنچ جائے۔ بہت کودی اور اُچھلی لیکن انگوروں تک نہ پہنچ سکی۔ جب ہر طرح سے کوشش کر کے ہار گئی تو کھسیانی ہو کر بولی کہ ’’اونھ! یہ انگور تو یوں بھی کھٹے ہیں۔ان کو کیا کھاؤں۔‘‘ چنانچہ اگر کوئی چیزکسی شخص کو ہزار کوشش پر بھی نہ مل سکے اور وہ اس میں اپنے نفس کی تسکین کے لئے کوئی فرضی برائی ڈھونڈ نکالے تو اس کہاوت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
( ۱۰۱ ) اندھے کی لکڑی ہے: یعنی اکلوتا اور فرمانبردار بیٹا۔ جس طرح اندھے کے لئے اس کی لاٹھی یا لکڑی کارآمد ہوتی ہے اسی طرح فرمانبردار بیٹا والدین کے لئے نعمت ہے۔
(۱۰۲ ) اندھوں نے ہاتھی کو چھوا، سب نے الگ الگ دیکھا : قصہ مشہور ہے کہ چار اندھوں نے پوچھا کہ’’ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔‘‘ ان کو ایک ہاتھی کے پاس کھڑا کر دیا گیا۔ ایک نے سونڈ چھوئی اور کہا کہ’’ ہاتھی تو ایک موٹے سانپ کی طرح ہوتا ہے‘‘۔ دوسرے نے اس کے دانت چھوکر اس کو سخت اور خطرناک بھالے کی طرح بتایا۔ تیسرے نے ہاتھی کے پیروں پر ہاتھ پھیرے اور اس کو ستون کی شکل کا سمجھا جب کہ چوتھے نے اُس کا بدن چھوا اور کہا کہ ’’ہاتھی تو ایک دیوار کی طرح ہوتا ہے۔‘‘ ہاتھی پوری طرح کسی کی بھی سمجھ میں نہ آیا۔ یہی حال ایسے لوگوں کاہے جو مسئلہ کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے بلکہ اس کے کسی حصے کو ہی پورا مسئلہ سمجھ کر اس پر خیال آرائی کیا کرتے ہیں۔
( ۱۰۳ ) انسان اَن کا کیڑا ہے : اَن یعنی اناج۔ا َناج کے کیڑے کی طرح انسان بھی بغیر اناج کے زندہ نہیں رہ سکتا۔
( ۱۰۴ ) اندھے کے آگے روئے، اپنے بھی نین کھوئے : اندھے کے آگے دُکھڑا رونے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ کسی کو نہیں دیکھ سکتا۔ اس میں اپنی ہی آنکھوں کا نقصان ہے۔گویا جو شخص آپ کے مسائل سے بیگانہ ہو اس سے شکایت کرنا بیکار ہے۔
( ۱۰۵) اندر کی سانس اندر، باہر کی سانس باہر : شدید خوف وہراس یا حیرت میں انسان ہکا بکا کھڑا کا کھڑا رہ جاتا ہے گویا سانس تک لینا بھول جاتا ہے۔ ایسے وقت یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۱۰۶) اندھا گائے، بہرا بجائے : اگر اندھے گانے والے کی سنگت کوئی بہرا کر رہا ہو تو اندھا یہ نہ سمجھ سکے گا کہ ساز کس رُخ پر جا رہا ہے اور بہرے کو صحیح سنگت کے لئے گانا نہیں سنائی دے گا۔ لہٰذا دونوں کا گانا بجانا بے سود ہو گا۔ اگر دو آدمی مل کر ایسا کام کرنا چاہیں جس میں وہ ایک دوسرے کی صلاحیت سے نا واقف ہوں تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۱۰۷) اندھے کو دن رات برابر ہے : اندھے آدمی کو دن اور رات کی تمیز نہیں ہوتی ہے۔اسی طرح کم عقل آدمی کے لئے بھی اچھی بری بات ایک سی ہوتی ہے۔
( ۱۰۸) انگلی پکڑ کر پُہنچا پکڑ لیا : پہنچا یعنی کلائی۔ مطلب یہ ہے کہ ذرا سی رعایت کا ملنا تھا کہ زیادہ کی جانب لپک پڑے۔
( ۱۰۹) اوچھے کے گھر کھانا، جنم جنم کا طعنہ : کم ظرف میزبان کے گھر دعوت کھانا خطرہ سے خالی نہیں کیونکہ وہ ہر موقع پر اپنا احسان جتانے سے نہیں چوکے گا اور طعنے الگ دے گا۔
( ۱۱۰ ) اونٹ سستا ہے، پٹا مہنگا ہے : اگر کوئی چیزخودتوسستی ہو لیکن اس کے لوازمات مہنگے ہوں تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ اگر کسی اچھی چیز کے ساتھ کوئی کم درجہ چیز بھی لینی پڑ جائے تب بھی کہاوت استعمال ہوتی ہے۔ کہاوت کا پس منظر ایک کہانی ہے۔ایک شخص کا اونٹ بھاگ گیا۔ جب وہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے پریشان ہو گیا تو اس نے غصہ میں قسم کھا لی کہ’’ اگر اونٹ مل گیا تو کم بخت کو اپنے پاس نہیں رکھوں گا اور اسے پانچ روپے میں فروخت کر دوں گا۔‘‘ اتفاق سے دوسرے ہی دن اونٹ مل گیا۔اس کے دل میں لالچ آئی کہ کسی طرح قسم بھی پوری ہو جائے اور اونٹ بھی بچ جائے۔ اس نے اونٹ کے گلے میں ایک خوبصورت پٹّا ڈال دیا اور بازار میں لوگوں کو بتایا کہ’’ اونٹ کی قیمت پانچ روپے ہی ہے لیکن پٹّا پانچ سو روپے کا ہے۔‘‘ کوئی شخص اس قیمت پر یہ سوداکر نے کو تیار نہیں ہوا اور اس طرح اس کا اونٹ بچ گیا۔
( ۱۱۱ ) اونٹ چڑھے پر کتا کاٹے : یعنی مصیبت آنے والی ہوتی ہے توکسی نہ کسی صورت آ ہی جاتی ہے۔اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے اونٹ پر بیٹھنے کے بعد بھی کتا کاٹ کھائے۔
( ۱۱۲ ) اوس سے پیاس نہیں بجھتی : یعنی چیز بہت کم ہو تو کام نہیں چلتا ہے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۱۱۳ ) اَوّل خویش، بعدہٗ دَرویش : سب سے پہلے خود،پھر اس کے بعد فقیر یعنی سب سے اہم خود اپنی ذات ہے، دوسرے اس کے بعد آتے ہیں۔اسی معنی میں ’’خیرات اپنے گھرسے شروع ہوتی ہے‘‘ بھی بولتے ہیں۔
(۱۱۴) اوکھلی میں سر دیا تو موسل کا کیا ڈر : پہلے زمانہ میں ہر گھر میں موسل اور اوکھلی مسالہ، تل وغیرہ کوٹنے کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ اگر کوئی شخص جانتے بوجھتے اپنا سراوکھلی میں ڈال دے (یعنی کوئی مصیبت اپنے سر خود ہی بلائے )تو پھر اُس کو موسل (یعنی اپنی غلطی کے فطری انجام )کا ڈر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ تو پیش آ کر ہی رہے گا۔
(۱۱۵) اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ : اگر کوئی شخص اونگھ رہا ہو اور اس کو ٹھیل دیا جائے یعنی ہلکا سا دھکا دے دیا جائے تو لیٹ کر سونے میں اُسے ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔ گویا ٹھیلنا اس کے لئے سونے کا بہانہ بن جاتا ہے اور وہ دھکا دینے والے کو اپنی سستی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ یہی حال ایسے شخص کا ہے جو کسی کام میں طرح طرح سے آنا کانی کر رہا ہو اور اُس کو ٹالنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہو۔
(۱۱۶) اوچھے کو پدوی ملے، ٹیڑھو ٹیڑھو جائے : یہ سنت کبیرؔ کے ایک ہندی دوہے کا مصرع ہے۔ اوچھے یعنی کم ظرف۔ ہندی میں پدوی، خطاب، عہدہ یا گدّی کو کہتے ہیں۔ٹیڑھو یعنی ٹیڑھا۔ کہاوت کا یہ مطلب ہوا کہ اگر کسی کم ظرف آدمی کو کوئی عہدہ یا اعلیٰ مقام مل جائے تو اس کا دماغ خراب ہوتے دیر نہیں لگتی اور وہ اپنی نئی عزت کا بوجھ سنبھال نہیں سکتا۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
(۱۱۷) اونٹ کی داڑھ میں زیرہ : زیرہ کا دانہ بہت چھوٹا ہوتا ہے اور اگر وہ اونٹ کے منھ میں ہو تو اونٹ کو اس کا احساس بھی نہیں ہو گا۔ لہٰذا کسی کے سامنے کوئی کھانے کی چیز نہایت قلیل مقدار میں رکھی جائے تو کہیں گے کہ’’ یہ تو ایسا ہے جیسے اونٹ کی داڑھ میں زیرہ۔‘‘
(۱۱۸) اونٹ رے اونٹ، تیری کون سی کل سیدھی؟ : اونٹ بہت ٹیڑھا میڑھا اور بھونڈا جانور ہے۔ لفظ کل یوں تو مشین یااس کے پرزہ کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں اس سے مراد اُونٹ کے جسم کا عضو ہے۔ اگر کسی شخص کی ہر بات ہی بے سر پیر کی ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے یعنی کبھی تو کوئی تُک کی بات کر لیا کرو۔
(۱۱۹) اونچی دوکان، پھیکا پکوان : کسی کا نام بہت بڑا ہو لیکن کام بہت معمولی تو یہ کہاوت بولتے ہیں یعنی نام تو بہت سن رکھا تھا لیکن اصلیت کچھ بھی نہ نکلی۔ اسی معنی میں یہ شعر بھی مستعمل ہے:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
( ۱۲۰ ) اوچھے کے گھر تیتر، باہر باندھوں کہ بھیتر: کم ظرف آدمی کو ذرا سی دولت یا نام و نمود مل جائے تو اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کس طرح سے اسے دُنیا پر ظاہر کرے جیسے کسی اوچھے کے ہاتھ ایک تیتر آ جائے اور وہ یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ اس کو گھر کے باہر نمائش کے لئے رکھوں یا گھرکے اندر۔
( ۱۲۱ ) اوروں کی تجھ کو کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو : نبیڑنا یعنی بھگتنا یا حل نکالنا۔ دوسروں کے مسائل میں خواہ مخواہ الجھنا دانشمندی کی نشانی نہیں ہے۔اس سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی پہلے اپنے مسائل حل کر لے۔
( ۱۲۲ ) ایک آم کی دو پھانکیں ہیں : یعنی بالکل ہم شکل و ہم طبع ہیں جیسے آم کی دو قاشیں ہوتی ہیں۔کوئی فرق نہیں ہے۔
( ۱۲۳) ایک سے دو بھلے اور دو سے بہتر چار : ہر کام میں ایک سے دو رائے بہتر ہوتی ہیں اور اگر مزید مل جائیں تو وہ اور بھی اچھی بات ہے۔
( ۱۲۴) ایک حمام میں سب ننگے : یعنی سبھی ایک سی حالت میں ہیں۔کوئی کسی سے بہتر نہیں ہے۔ جب آدمیوں کا پورا گروہ کسی جرم یا غلط کام میں ملوث ہو اور کسی کا ہاتھ برائی سے صاف نہ ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۱۲۵ ) ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی ہے : جس طرح تالی کے لئے دو ہاتھ درکار ہوتے ہیں اسی طرح جھگڑے فساد کے لئے بھی دو فریقوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی شخص سارا الزام دوسرے فریق پر رکھے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۱۲۶ ) ایک جان دو قالب ہیں : آپس میں بہت محبت ہے۔ ایسا ساتھ ہے جیسے جسم و جان میں ہوا کرتا ہے۔
(۱۲۷ ) اینٹ سے اینٹ بجا دی : بالکل تباہ و برباد کر دیا، تہس نہس کر دیا۔
(۱۲۸) ایرا غیرا، نتھو خیرا : یعنی بلا تمیز و امتیاز ہر شخص۔ اَیرا غیرا یعنی غیر شخص۔ ایرا غیرا میں تحقیر کا پہلو ہے۔ نتھو اور خیرا مخفف ہیں بالترتیب ہندو اور مسلم ناموں کے۔ ان سے مراد ہے ہر شخص۔
(۱۲۹) ایسے غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ : گدھے کے سینگ نہیں ہوتے۔ اگر کوئی شخص اچھا خاصہ بیٹھے بٹھائے غائب ہو جائے یا وقتِ ضرورت نظر ہی نہ آئے تو کہتے ہیں کہ وہ توایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
( ۱۳۰) ایران توران ایک کر دیا : یعنی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی،بُری محنت کی۔
( ۱۳۱) ایک منھ ہزار باتیں : جہاں جائیں ایک ہی بات کا چرچا ہو رہا ہے۔
( ۱۳۲) ایک دَر بند،ہزار دَر کھلے : یعنی روزی کا ایک ذریعہ بند ہوتا ہے تو اَللہ اس کے بجائے ہزار دروازے اور کھول دیتا ہے۔ گویا روزی کسی نہ کسی طرح ملتی ہی رہتی ہے۔
( ۱۳۳) ایک رنگ آتا ہے، ایک جاتا ہے : اضطرابی کیفیت ہے اور پریشانی کے عالم میں چہرہ رنگ بدل رہا ہے۔ اس کو ’’چہرہ پر ہوائیاں اُڑنا‘‘ بھی کہتے ہیں۔
( ۱۳۴) ایک کرے، دَس بھریں : یعنی جرم یا غلطی تو ایک شخص کرے اور اس کا خمیازہ بہت سے لوگوں کو اٹھانا پڑے۔ محل استعمال ظاہر ہے۔
( ۱۳۵) ایں خانہ ہمہ آفتاب است : یہ گھر تو سارا کا ساراآفتاب کی طرح روشن ہے یعنی سب ایک ہی جیسے ہیں۔یہ کہاوت اچھائی اور برائی دونوں کے لئے بولی جاتی ہے۔
( ۱۳۶) ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند : یہ کام تو بس تو ہی کر سکتا تھا اور مرد ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔بہادری یا بڑے کام کرنے والے کی تعریف میں یہ کہاوت بولتے ہیں۔
(۱۳۷) ایک پَر کے سَو کوّے بناتا ہے : بہت چالاک اور شاطر ہے کہ ذرا سی بات کو بڑھا چڑھا کر اپنا مطلب نکال لیتا ہے۔ کہاوت کا ایک مطلب ’’بات کا بتنگڑ بنانا‘‘ بھی ہے۔
( ۱۳۸) ایک سر ہزار سَودا : سودا یعنی فکر و پریشانی۔ آدمی کی ایک جان کے ساتھ سیکڑوں فکریں لگی ہوئی ہیں۔
( ۱۳۹) ایک تو دیوانہ، اِس پر آئی بہار : مشہور ہے کہ دیوانے آدمی کی دیوانگی بہار آنے پر بڑھ جاتی ہے۔ یہ کہاوت تب بولی جاتی ہے جب کسی شخص کا غصہ یا ایسی ہی کوئی اور خراب عادت کسی خارجی اور غیر متعلقہ وَجہ سے بڑھ جائے۔
( ۱۴۰) ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دِگر : یہ بھی عشق کے دوسرے غموں کے ساتھ ایک اور غم لگا ہوا ہے۔ یہ کہاوت تب بولی جاتی ہے جب صبر و شکر کے طور پر یہ کہا جائے کہ جہاں اتنی مصیبتیں ہیں وہاں یہ ایک اور سہی۔
(۱۴۱) ایک انار، سو بیمار : طاقت پہنچانے کی غرض سے مریض کو انار کا مقوی رس پلایا جاتا ہے۔ اگر انار ایک ہی ہو اور مریض کئی تو پھر یہ سوال پیدا ہونا یقینی ہے کہ کس کو کتنا دیا جائے یا دیا بھی جائے کہ نہیں۔ جب آدمی تو ایک ہی ہو لیکن اس کی خدمات کی بہت سے اشخاص کو ضرورت ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۱۴۲) ایک ہی تھالی کے چٹّے بٹّے : یعنی ایک ہی خصلت کے لوگ جو ملی بھگت سے کام کریں اور اپنا ہی مفاد پیش نظر رکھیں۔ ’’ایک ہی آوے کے برتن‘‘ بھی اسی معنی میں ایک اور کہاوت ہے۔
(۱۴۳) ایسے لا کر رکھ دیاجیسے سوت کا لونڈا : یہ عورتوں کی زبان ہے۔ اگر کسی آدمی کی دو یا دو سے زیادہ بیویاں ہوں تو وہ ایک دوسرے کی سوت (سوکن) کہلاتی ہیں۔ ایسی عورتوں میں فطری طور پر رقابت اور حسد کا شدید جذبہ ہوتا ہے۔ لونڈا یعنی کم سن بچہ۔ ظاہر ہے کہ ایک سوت کو دوسری سوت کی اولاد سے محبت نہیں ہو تی۔ لہٰذا اگر کسی شخص کے سامنے کوئی چیز بے دلی سے لا کر رکھ دی جائے تو کہتے ہیں کہ’’ ایسے لا کر رکھ دیا جیسے سوت کا لونڈا۔‘‘
( ۱۴۴) ایسی گرمی جس میں ہرن کالے ہوتے ہیں : نا قابل برداشت گرمی کے لئے کہتے ہیں کہ اتنی سخت گرمی ہے کہ ہرن اس سے کالے پڑے جا رہے ہیں۔ ’’ اتنی گرمی کہ چیل انڈا چھوڑ رہی ہے‘‘ بھی اسی معنی میں بولا جاتا ہے۔
( ۱۴۵ ) ایک پنتھ دو کاج : ایک ہی ترکیب سے دو مسئلے حل ہو گئے، ایک تیر سے دو شکار ہو گئے۔
( ۱۴۶ ) ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی ہے : جس طرح تالی کے لئے دو ہاتھ درکار ہوتے ہیں اسی طرح جھگڑے فساد کے لئے بھی دو فریقوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی شخص سارا الزام دوسرے فریق پر رکھے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۱۴۷ ) ایک دن مہمان، دوسرے دن مہمان، تیسرے دن بے ایمان : مستقل کسی کے گھر مہمان رہنا میزبان کے لئے قیامت ہوتا ہے۔ چنانچہ بزرگوں نے کہا ہے کہ مہمان کو تیسرے دن میزبان کا شکریہ ادا کر کے رخصت ہو جانا چاہئے۔
( ۱۴۸ ) ایک جھوٹ سو جھوٹ کو جنم دیتا ہے : ایک جھوٹ کو سچ بنانے کے لئے بہت سے جھوٹ اور بولنے پڑتے ہیں۔
( ۱۴۹ ) ایک سچ سو جھوٹ کو ہرائے : اگر ایک مرتبہ سچ بول دیا جائے تو اوّل تو یہ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ کس سے کیا کہا تھا اور دوم یہ کہ ایک جھوٹ بول کر بار بار جھوٹ بولنے کی بھی حاجت نہیں رہ جاتی ہے۔
( ۱۵۰ ) ایک انڈا، وہ بھی گندا : اگر کسی کے ایک ہی اولاد ہو اور وہ بھی نا خلف نکل جائے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۱۵۱) ایک آوے کے برتن ہیں : آوا یعنی گھان، ایک مرتبہ کی تیار کی ہوئی چیز۔ مطلب یہ ہے کہ سب کے سب ایک ہی خصلت کے ہیں جیسے ان کی ساخت و پرداخت ایک ہی وقت میں ہوئی ہو۔ اس کو’’ ایک ہی تھالی کے چٹّے، بٹّے ہونا‘‘ بھی کہتے ہیں۔
( ۱۵۲ ) ایک آنچ کی کسر ہے : کام پورا ہونے تھوڑی سی کسر رہ گئی ہے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۱۵۳) ایک پاؤں اندر، ایک پاؤں باہر : یعنی اتنا مصروف کہ ایک پاؤں گھر کے اندر ہے اور ایک باہر۔مستقل سفر میں ہے۔
(۱۵۴) ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی ہیں : یعنی ایک جگہ برابر کے دو بہادر نہیں رہ سکتے۔ جلد یا بدیر ایک کو پیچھے ہٹنا ہی ہو گا۔
( ۱۵۵ ) ایک نہیں ستّر بلائیں ٹالتی ہے : ہر بات پر بلا سمجھے بوجھے ہاں کہہ دینا اپنے اوپرم شکلات کو بلانے کے برابر ہے۔ بہتر یہ ہے کہ موقع کی مناسبت دیکھ کر کام سے انکار کر دیا جائے کیونکہ ایک نہیں سے بے شمار آنے والی بلائیں ٹل سکتی ہیں۔
( ۱۵۶) ایک چُپ سو کو ہراتی ہے : اگر مستقل باز پرس کے جواب میں خاموشی اختیار کر لی جائے تو بہت سے مشکلوں سے بچا جا سکتا ہے۔
( ۱۵۷ ) ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کرتی ہے : جس طرح ایک سڑی مچھلی سے سارا تالاب گندا ہو جاتا ہے اسی طرح ایک خراب آدمی سارے معاشرہ کی خرابی اور بدنامی کا باعث ہو سکتا ہے۔
٭٭٭
ب۔کی کہاوتیں
( ۱) با اَدب با نصیب، بے اَدب بے نصیب : کہاوت کے معنی اور موقع استعمال ظاہر ہیں۔ اَدب انسانی تعلقات کی بنیاد ہے اور اس کے بغیر کوئی تعلق معتبر نہیں ہے۔
(۲) باپ سے بیر، پُوت سے سگائی : پُوت یعنی بیٹا، سگائی یعنی شادی۔ اگر کوئی شخص کسی سے تعلق منقطع کر لے لیکن اس کے قریبی عزیزوں سے بدستور یگانگت رکھے تو یہ کہاوت بولتے ہیں ۔ اس کہاوت میں طنز اور غصہ دونوں کا پہلو نکلتا ہے۔
( ۳) باپ مارے کا بیر ہے : باپ مارے کا یعنی باپ کو قتل کرنے کا۔ گویا ایسی دشمنی ہے جیسے ایک شخص نے دوسرے کے باپ کو قتل کر دیا ہو۔
( ۴) بات رہ جاتی ہے اور وقت گزر جاتا ہے : وقت تو بہر حال گزر ہی جاتا ہے لیکن انسان کی کی ہوئی نیکی یا بدی اس کے بعد لوگوں کو یاد رہ جاتی ہے۔ کہاوت میں نیک کام کرنے کی تاکید مخفی ہے۔
(۵) بات کا بتنگڑ بنا دیا : بتنگڑ یعنی بہت بڑی بات۔یعنی ذرا سی بات کو بڑھا چڑھا کر ایک ہنگامہ بر پا کر دیا۔ اسی مطلب کے لئے دو کہاوتیں اور بولتے ہیں ’’ سوئی کا بھالا بنا دیا‘‘ اور ’’ رائی کا پربت بنا دیا‘‘۔
(۶) بات بدلی، ساکھ بدلی : آدمی کی زبان پر اس کی ساکھ قائم ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی بات پر قائم نہ رہے تو اس کی ساکھ نہیں رہتی۔
( ۷) بات پوچھیں بات کی جڑ پوچھیں : کسی معاملہ کی کھوج میں بال کی کھال نکالی جائے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۸) بات لاکھ کی، کرنی خاک کی : یعنی بات تو بہت بڑھا چڑھا کر کی لیکن کر کے کچھ بھی نہ دکھا یا۔ اسی مضمون کا شعر دیکھئے:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا
(۹) بارہ برس دلّی میں رہے اور بھاڑ جھونکا : اگر کوئی شخص عرصہ تک اَچھے اِمکانات سے دوچار رَہے لیکن اُن سے کچھ حاصل نہ کرے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ دلّی کا ذکر وہاں میسر معاشی امکانات اور اس کی تہذیبی مرکزیت کی مناسبت سے کیا گیا ہے۔
( ۱۰ ) بارہ برس بعد گھورے کے بھی دن پھر جاتے ہیں : گھورا یعنی کُوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ۔ وقت کے ساتھ اس مقام پر بھی کوئی کام کی چیز بن جاتی ہے۔ کہاوت کا مطلب یہی ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ کب کسی بدقسمت آدمی کی قسمت بدل جائے گی۔کہاوت میں یہ نصیحت بھی مخفی ہے کہ کسی کو تحقیر سے نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ کل اس کی حیثیت بدل سکتی ہے۔
( ۱۱ ) باڑھ کاٹے، نام تلوار کا : باڑھ یعنی تلوار کی دھار۔ تلوا رکی کاٹ اُس کی باڑھ ہی کرتی ہے لیکن نام تلوار کا ہوتا ہے۔ کہاوت کا مطلب یہی ہے کہ کام تو کوئی اور کر رہا ہے لیکن نام کسی اور کا ہو رہا ہے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۱۲) باڑھ ہی جب کھیت کھائے تو رکھوالی کون کرے : باڑھ یعنی وہ خاردار جھاڑی جو کھیت کے اِرد گرد اُس کو جانوروں سے محفوظ رکھنے کے لئے لگائی جاتی ہے۔ جب مال کا چوکیدار ہی چوری کرنے لگے تو پھر کس کا بھروسا کیا جائے؟یہ کہاوت تب بولی جاتی ہے جب کوئی ایسا شخص دھوکا دے یا چوری کرے جس کو معتبر سمجھا گیا تھا۔
(۱۳) باسی کڑھی میں اُبال آیا : یہ کہاوت دو مختلف معانی میں استعمال ہوتی ہے:
(ا) باسی کڑھی میں اُبال بہت جلدی آتا ہے اور اُتنی ہی جلدی بیٹھ بھی جاتا ہے۔چنانچہ اگر کسی شخص کو غصہ بہت جلد آتا ہو اور ذرا سی دیر میں اُتر بھی جاتا ہو تو اس کو ’’باسی کڑھی میں اُبال ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
(ب) پرانے اور بھولے بسرے قضئے یاد کر کے انھیں فساد اور تفرقے کی بنیاد بنایا جائے تو اس وقت یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۱۴) باسی بچے، نہ کتّا کھائے : یعنی چیز بالکل نپی تلی اور ضرورت کے عین مطابق ہو تاکہ ضائع نہ جائے۔ اس کی مثال ایسے کھانے سے دی گئی ہے جو نپا تلا پکایا جاتا ہے اور باسی ہو کر کتوں کی نذر ہونے سے بچ رہتا ہے۔
( ۱۵) بال برا بر فرق نہیں : یعنی دو چیزوں میں ذَرّہ برابر بھی فرق نہیں ہے، تقریباً ایک ہی جیسی ہیں۔
( ۱۶ ) بال بال بچ گئے : بال بال یعنی بہت کم، گویا بس بچ ہی گئے ورنہ نقصان یقینی تھا۔
( ۱۷ ) بال بال موتی پروئے : سولہ سنگھار کئے، بہت بنے سنورے۔
( ۱۸) با مسلماں اللہ اللہ، با برہمن رام رام : یہ کہاوت خوش اخلاق اور وسیع القلب انسان کے بیان میں ہے کہ مسلمان سے ملتا ہے تو سلام یا اَللہ اَللہ کر لیتا ہے اور ہندو برہمن کو رام رام کہہ کر سلام کر لیتا ہے۔
( ۱۹ ) بائیں ہاتھ کا کھیل ہے : عام طور سے لوگوں کے لئے بائیں ہاتھ سے کام کرنا دشوار ہوتا ہے۔ اگر کسی کے لئے کوئی کام بہت آسان ہو تو کہتے ہیں کہ یہ تو اُس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے یعنی اس کے لئے بہت آسان ہے۔
(۲۰) بتیس دانتوں میں زبان ہے : انسان کی زبان بتیس دانتوں میں ایسی گھری ہوئی ہے جیسے چاروں طرف دشمنوں کا نرغہ ہو۔ کہاوت ایسے شخص کی حالت بیان کر رہی ہے جو مخالفین سے گھرا ہوا ہو۔
( ۲۱ ) بچھو کا منتر نہ جانے، بانبی میں ہاتھ ڈالے : بانبی یعنی بچھو کا بِل۔ مشہور ہے کہ کچھ لوگوں کوایسا منتر آتا ہے جس سے بچھو کا زہر اثر نہیں کرتا۔ وہ کوئی احمق ہی ہو سکتا ہے جو ایسے منتر سے تو نا واقف ہے لیکن بچھو کے بِل میں ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص مسئلہ کا حل تو نہ جانتا ہو لیکن کام اپنے ذمہ لینے پر مصر ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۲۲) بچھڑا کھونٹے کے بل کودتا ہے : گائے کا بچھڑا رسی اور کھونٹے کے سہار ے شوخی سے اچھلتا کودتا ہے۔ اسی طرح آدمی بھی کسی کی پشت پناہی کے بل پر ہی شرارت کرتا ہے۔ محل استعمال ظاہر ہے۔
(۲۳) بچھو کا ڈنک ہے : شرارتی اور فتنہ پرداز آدمی کے لئے کہا جاتا ہے جو ہرکس وناکس کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔
( ۲۴) بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی جئے گا : لنڈورا یعنی بغیر دُم کے۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک بلی نے ایک چوہے پر لپک کر حملہ کیا۔ چوہا بھاگ کر اپنے بِل میں گھس گیا لیکن اس کی دُم بلی کے پنجوں میں کٹ کر رہ گئی۔ بلی نے چاپلوسی سے کام نکالنا چاہا اور چوہے سے بولی ’’میاں چوہے! تم باہر آ جاؤ تو ہم دونوں مل کر کھیلیں گے اور تم اپنی دُم بھی مجھ سے لے لینا۔‘‘چوہا اس کی چال سمجھ گیا۔ اس نے بلی کو جوا ب دیا کہ ’’ بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی جی لے گا۔‘‘ اگر کسی کام میں کوئی معمولی سی کمی رہ جائے تو کام کی تکمیل کی خاطر بڑا خطرہ مول لینے کی سفارش یا تنبیہ پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
( ۲۵ ) بد اچھا بدنام برا : برا آدمی ایک مرتبہ نظروں مین نہ بھی آئے لیکن بدنام شخص کو ہر ایک جانتا ہے اور اس کو برا سمجھتا ہے چاہے اس سے کوئی گناہ سرزدہوا ہویا نہیں ہوا ہو۔
( ۲۶ ) بدھیا مری بلا سے، آگرہ تو دیکھ لیا : بدھیا یعنی بھینس۔ ایک دھوبی اپنی بھینس پر بیٹھ کر آگرہ تاج محل دیکھنے گیا۔ واپسی میں اس کی بھینس مر گئی۔لوگوں نے پوچھا تو اس نے یہ کہاوت دہرا دی۔ یعنی نقصان تو بہت ہوا لیکن دلی آرزو تو پوری ہو گئی۔
(۲۷ ) بدلی کی دھوپ جب نکلے تیز : بادلوں کے چَھٹ جانے پر جو دھوپ نکلتی ہے وہ بہت تیز ہوتی ہے۔ اسی طرح ایسے شخص کا غصہ بھی تیز اور خطرناک ہوتا ہے جو اس کو دیر تک دبائے بیٹھا رہے۔
( ۲۸ ) برے وقت کا کوئی ساتھی نہیں ہوتا : اگر کسی پر برا وقت پڑے تو سب لوگ ساتھ چھوڑ کر اپنی اپنی رَاہ لیتے ہیں اور کسی کو اُس کا دُکھ بٹانے سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ کہاوت اِسی انسانی فطرت کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
( ۲۹) بر سر فرزند آدم ہر چہ آید بگزرد : یعنی انسان پر کیسا ہی برا وقت آئے بہر کیف گزر ہی جاتا ہے۔ کہاوت میں صبر و شکر کی تلقین مخفی ہے کہ آدمی کو ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہئے۔
(۳۰) بُرے دن دیکھ کر نہیں آتے : کسی پر برا وقت یہ دیکھ کر نہیں آتا کہ وہ پہلے سے ہی کتنی مشکلات کا شکار ہے۔
(۳۱ ) برساتی مینڈک : برسات میں بے تحاشہ مینڈک نکل آتے ہیں۔ اسی مناسبت سے برساتی مینڈک سے مراد ایسے لوگوں سے ہے جو وقت سازگار دیکھ کر اپنے مطلب کے لئے آ جاتے ہیں۔ یعنی مطلب کے یار، خود غرض۔
(۳۲ ) بڑے بول کاسرنیچا : بڑا بول یعنی غرور کی بات۔مطلب یہ ہے کہ غرور انجام کار سب کے سامنے ذلیل ہو کر رہتا ہے۔
( ۳۳) بڑا بول نہ بولئے، بڑا لقمہ نہ کھائیے : بڑی بات اور بہت اچھا کھانا جو دوسروں کو دکھا کر کھایا جائے غرور کی علامت ہیں۔ دونوں سے بچنا ضروری ہے کیونکہ غرور کا سر آخر کار نیچا ہوتا ہے۔
( ۳۴ ) بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ : یعنی بزرگ تو خیر جیسے تھے ویسے تھے ہی لیکن ان کی اولاد تو ان سے بھی بڑھ گئی۔ کوئی شخص اپنے پچھلے کام کرنے والوں سے زیادہ ناکارہ ثابت ہو تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
( ۳۵) بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال : بزرگی تو عقل سے ہوا کرتی ہے، عمر سے نہیں۔
(۳۶) بسم اللہ کرو : یعنی اللہ کا نام لو اور کام کی ابتدا کرو۔
(۳۷) بسم اللہ ہی غلط ہوئی : یعنی کام کی شروعات ہی غلط ہو گئی۔
(۳۸) بِس کی گانٹھ ہے : بِس یعنی زہر۔یہ کہاوت بھی اسی معنی میں بولی جاتی ہے جس میں ’’بچھو کا ڈنک ہے‘‘ استعمال ہوتی ہے۔
(۳۹) بغلی گھو نسا : دوست سے مدد اور سہارے کی امید کی جاتی ہے۔ اس مناسبت سے ایسا دوست جو فریب کار اور دغا باز ہو بغلی گھُونسا کہلاتا ہے۔
( ۴۰) بغل میں بچہ شہر میں ڈھنڈورا : ڈھنڈورا یعنی مسلسل ڈھولک بجانا۔پرانے زمانے میں جب ٹی وی، لاؤڈ اسپیکر وغیرہ کچھ نہیں تھا تو شہر کے لوگوں کو ڈھنڈورے کے ذریعہ سرکاری خبریں پہنچائی جاتی تھیں۔ ڈھنڈورا چوراہے پر پیٹا جاتا تھا اور لوگ جمع ہو کر ڈھنڈورچی سے سرکاری اعلان سن لیا کرتے تھے۔ جب کوئی چیز آنکھوں کے سامنے ہو لیکن اس کی تلاش چاروں طرف زور و شور سے کی جا رہی ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۴۱) بکری کا سا منھ چلتا ہے : بکری مستقل کھاتی رہتی ہے۔یہ کہاوت ایسے آدمی کے بارے میں کہی جاتی ہے جو ہر وقت کھاتا رہتا ہو۔
( ۴۲) بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی : یعنی ایک نہ ایک دن تو بکرے کو ذبح ہونا ہی ہے۔بکری اپنے بچہ کوکب تک محفوظ رکھ سکتی ہے۔ کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ برا آدمی آخر کار اپنے انجام کو ضرور پہنچتا ہے۔
( ۴۳) بگلا بھگت : یعنی مکار،چالاک،دھوکہ باز۔ بگلا سفید ہوتا ہے، اس مناسبت سے بگلا بھگت وہ شخص ہو گاجو اپنی سفید پوشی سے لوگوں کو دھوکا دے۔
(۴۴) بگڑا شاعر مرثیہ گو : مرثیہ گوئی کو اُردو شاعری میں واللہ اعلم کیوں بڑا فن نہیں سمجھا جاتا ہے۔ مرثیہ گو کے بارے میں قدرے تحقیر سے کہا جاتا ہے کہ شاعری پر قدرت نہیں ہے اس لئے مرثیہ گوئی پر اکتفا کر رہے ہیں۔ یعنی شاعر بگڑ کر مرثیہ گو ہو گیا ہے۔
( ۴۵) بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا : بھاگوں یعنی خوش قسمتی سے۔ چھینکا اُس رَسّی کی جھولی کو کہتے ہیں جس میں سالن یا دودھ کا برتن رکھ کر باورچی خانہ کی چھت سے لٹکا دیتے ہیں تاکہ چوہوں اور بلی سے حفاظت رہے۔ بلّی کی خوش قسمتی سے اگر چھینکا ٹوٹ جائے تو اس کے وارے نیارے ہیں۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ حسن اتفاق سے کام بن ہی گیا۔
( ۴۶ ) بلی چوہے خدا کے واسطے نہیں مارتی : یعنی ہر شخص اپنی غرض کا بندہ ہوتا ہے اور اسی مقصد سے کام کرتا ہے جیسے بلی چوہوں کا شکار اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کرتی ہے،ا َ للہ واسطے نہیں کرتی۔
( ۴۷) بلی سے چھیچھڑوں کی رکھوالی : ظاہر ہے کہ بلّی سے چھیچھڑوں کی رکھوالی کروانے کا کیا انجام ہو گا۔ اگر کسی شخص کا ذاتی مفاد کسی کام کے نہ ہونے سے وابستہ ہے تو اسے اُس کام کا ذمہ دار بنا دینا حماقت ہے۔ایسے موقع پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۴۸ ) بلی جب گرتی ہے تو پنجوں کے بل : بلّی کو اُونچائی سے پھینکئے تو وہ ہمیشہ پنجوں کے بل گرتی ہے اور چوٹ سے بچ جاتی ہے۔ اسی طرح انسان بھی نقصان کی امکانی صورت میں ہمیشہ ایسے ذرائع اختیار کرتا ہے جس میں اس کو کم سے کم نقصان اٹھانا پڑے۔
(۴۹) بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا : جب گھروں میں ریفریجریٹر نہیں ہوتے تھے تو باورچی خانے کی چھت سے عموماً رسی سے بنی ہوئی ایک جھولی لٹکی رہتی تھی جس کو ’’چھینکا‘‘ کہتے تھے۔ رات کو دودھ یا سالن کی ہانڈی اس میں رکھ دی جاتی تھی۔اس طرح ایک تو کھلی ہوا میں رہنے سے چیز کے خراب ہونے کا امکان کم ہو جاتا تھا اور دوسرے وہ چوہوں اور بلی کی دسترس سے بھی بچ جاتی تھی۔ بلی کے بھاگوں یعنی قسمت سے اگر چھینکا ٹوٹ جائے تو گویا یہ بلی کی خوش قسمتی ہوئی۔ چنانچہ اگر کسی شخص کی خوش قسمتی سے کوئی ان ہونی بات اس کے حق میں ہو جائے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔از راہ تفنن طبع چھینکے کی مناسبت سے ایک شعر دیکھئے۔ خیال رہے کہ چھینکے سے چیز اُتارنے کے لئے ہاتھ اوپر اُٹھانے کی ضرورت ہے:
ان سے چھینکے سے کوئی چیز اُتروائی ہے کام کا کام ہے، انگڑائی کی انگڑائی ہے
( ۵۰ ) بلّی پہلے دن ہی ماری جاتی ہے : یعنی جھگڑے یا فساد کے انسدا د کی فکر اوّل روز ہی کی جاتی ہے۔ دیر لگ جائے تو معاملہ ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ اس کہاوت سے ایک قصہ منسوب ہے۔ دو بھائیوں کی ساتھ ساتھ ہی شادی ہوئی۔ کچھ دنوں کے بعد دیکھا گیا کہ چھوٹے بھائی کی بیوی تو نہایت فرمانبردار اور خدمت گزار ہے لیکن بڑے بھائی کی بیوی نہایت نک چڑھی اور جھگڑالو ہے اور شوہر کی جان ضیق میں ڈال رکھی ہے ۔ ایک دن بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی سے پوچھا کہ ’’ کیا بات ہے کہ تمھاری بیوی ایسی خاموش اور نیک بخت ہے جب کہ میری بیوی ایسی ناکارہ اور بد زبان ہے؟‘‘ چھوٹے بھائی نے کہا کہ ’’بھائی صاحب ! شادی کے بعد جب میں حجلۂ عروسی میں داخل ہوا تو اُسی وقت کہیں سے ایک بلی کمرہ میں گھس آئی۔ قریب ہی کونے میں ایک ڈنڈا رکھا ہوا تھا۔ میں نے انتہائی غضب ناک ہو کر ڈنڈا گھما کر جو بلی کو رسید کیا تو وہ وہیں جاں بحق ہو گئی۔ بیوی کے دل پر میرے غصہ کی دہشت ایسی بیٹھی کہ وہ اب کسی بات پر مجھ سے اختلاف نہیں کرتی ہے۔‘‘ بڑے بھائی نے یہ باتیں غور سے سنیں۔ اُسی رات جب وہ اپنے کمرہ میں گیا تو اتفاق سے ایک بلی وہاں گھس آئی۔ اُس نے کونے میں کھڑا ایک ڈنڈا اُٹھا کر بلی کو ایسا رسیدکیا کہ وہ وہیں گر کر مر گئی۔ یہ دیکھ کر بیوی کو غصہ آ گیا اور اُس نے اپنے خاوند کی اچھی خاصی مرمت کر ڈالی۔ دوسرے دن بڑے بھائی نے چھوٹے سے بتایا کہ اُس کا بتایا ہوا نسخہ تو کسی کام نہ آیا۔ چھوٹے بھائی نے مسکرا کر کہا ’’بھائی صاحب! بلی پہلے ہی روز ماری جاتی ہے!‘‘ محل استعمال کا اسی سے قیاس کر لیجئے۔
(۵۱ ) بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا : کہاوت کے ساتھ ایک فرضی قصہ منسوب ہے۔ ایک بلی مستقل چوہوں کا شکار کئے جا رہی تھی۔ چوہوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس مصیبت سے کس طرح نجات حاصل کی جائے۔ آخر سب سر جوڑ کر بیٹھے۔ ایک چوہے نے تجویز پیش کی کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دی جائے تو اس کے آنے کی ٹَن ٹَن سُن کر چوہے بھاگ کر اپنی جان بچا سکیں گے۔ تجویز کو سب نے بہت پسند کیا۔ اتنے میں ایک چوہے نے پوچھا کہ’’ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟‘‘ یہ سن کر چاروں جانب سناٹا چھا گیا۔ گویا کسی مشکل کا حل تجویز کرنا جس قدر آسان ہوتا ہے اسی قدر اس پر عمل در آمد دشوار بلکہ نا ممکن ہو سکتا ہے۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ تجویز کے ہر پہلو پر غور کر لیا جائے اور پھر اس کو پیش کیا جائے۔
( ۵۲) بندر کے ہاتھ ناریل تھما دیا : بندر کے ہاتھ میں ناریل دے دیا جائے تو وہ اُسے بے مصرف گھما پھرا کر دیکھے گا لیکن کچھ کر نہ سکے گا۔ اسی طرح وہ آدمی جو کسی کام کا شعور نہیں رکھتا ہو اس کو انجام نہیں دے سکتا ہے۔اگر ایسے آدمی کو کوئی مشکل کام دے دیا جائے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۵۳) بندر سے کیا آشنائی : یعنی کم عقل اور بے مروت کی دوستی کا کیا بھروسا۔ دوستی معتبر آدمی سے رکھنی چاہئے۔
(۵۴) بندر کیا جانے اَدرک کا سواد : سواد یعنی مزا۔ ظاہر ہے کہ بندر کو اَدرک کے مزے کی تمیز نہیں ہوتی ہے۔ اسی طرح نادان اور بے علم آدمی کو عقل کی باتیں سمجھنے کا شعور نہیں ہوتا چنانچہ اس سے ایسی باتیں کرنا بے سود ہے۔
( ۵۵) بندر کے ہاتھ آئینہ دے دیا : بندر کے ہاتھوں میں آئینہ آ جائے تو وہ حیرت سے اس میں اپنی صورت دیکھتا ہے۔ چنانچہ کہاوت کا یہی مطلب ہے کہ بے وقوف اور ناسمجھ سے ایسے کام کی اُمید کی جو وہ جانتا ہی نہیں ہے۔ استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
(۵۶) بنئے کا بیٹا کچھ دیکھ کر گرتا ہے : یہاں کچھ سے مراد زمین پر پڑا ہوا روپیہ ہے۔ بنئے کا ہوشیار بیٹا سڑک پر یونہی نہیں گرتا بلکہ اس بہانے زمین پر پڑا ہوا روپیہ اٹھا لیتا ہے۔ کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ چالاک اور عیار آدمی کا کوئی کام اپنے فائدے سے خالی نہیں ہوتا ہے۔
(۵۷) بندر بانٹ کرنا : یعنی دو اشخاص کے درمیان کسی شے کی ایسی تقسیم کرنا جس سے فریقین کو تو کچھ نہ ملے لیکن تقسیم کرنے والا سارا مال ہڑپ لے۔ اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ ایک بار دو کووّں کو ایک روٹی مل گئیا ور اس کی تقسیم میں ان میں جھگڑا ہونے لگا۔ وہ دونوں ایک بندر کے پاس روٹی کی تقسیم کے لئے گئے۔ بندر نے روٹی کے دو ٹکڑے کئے لیکن ایک کوّے نے کہا کہ اُس کا ٹکڑا دوسرے کے ٹکڑے سے چھوٹا تھا۔ اس پر بندر نے دوسرے ٹکڑے سے ایک نوالہ کاٹ کر کھا لیا۔ لیکن ایسا کرنے سے اب وہ ٹکڑا پہلے ٹکڑے سے چھوٹا ہو گیا۔ کوّوں نے پھر شکایت کی تو بندر نے پھر بڑے ٹکڑ ے میں سے ایک نوالہ کتر کر کھا لیا جس سے پہلا ٹکڑا چھوٹا ہو گیا۔ کوّے شکایت کرتے رہے اور بندر روٹی کھاتا رہا یہاں تک کہ آخر میں بندر کے پاس روٹی کا نہایت چھوٹا سا ٹکڑا رہ گیا۔ اس نے کہا کہ ’’اب یہ تو اتنا چھوٹا ہو گیا ہے کہ اس کے دو ٹکڑے ہو ہی نہیں سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے وہ آخری ٹکڑا بھی منھ میں رکھ لیا اور کوّے ایک دوسرے کا منھ دیکھتے رہ گئے۔ اسی کو’’ بندر بانٹ‘‘ کہتے ہیں ۔
(۵۸) بندر کو ہلدی کی گرہ مل گئی تو پنساری بن بیٹھا : کسی نا اہل آدمی کو ذرا سی کوئی چیز مل جائے تو وہ اس چیز کا ماہر نہیں بن جاتا ہے۔ کہاوت میں کم ظرفوں کی جانب اشارہ ہے کہ اِن کی ذرا سی داد یا تعریف ہو جائے تو خود کو سب سے اچھا اور برتر سمجھنے لگتے ہیں۔
(۵۹) بن مانگیں موتی ملیں اور مانگے ملے نہ بھیک : ایسی صورتِ حال جب بغیر مانگے تو دولت اور شہرت حاصل ہو جائے لیکن اگر مانگا جائے تو خیرات بھی نہ ملے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۶۰ ) بندھی مٹھی لاکھ برابر: جب تک مٹھی بند رہے آدمی کا بھرم قائم رہتا ہے جیسے لاکھ روپے اس کے ہاتھ میں ہوں۔ مٹھی کے کھلتے ہی بھرم ٹوٹ سکتا ہے۔اسی طرح خاموشی کے ٹوٹتے ہی انسان کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے۔
( ۶۱ ) بنیا بھولتا ہے تو زیادہ ہی بتاتا ہے : بنیا اپنی فطرت اور تربیت میں چالاک اور خودغرض ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ سودے کی بھول چوک میں بھی اپنے فائدہ کی صورت نکال لیتا ہے۔یہ کہاوت مطلب پرست اور شاطر لوگوں کے لئے کہی جاتی ہے۔
(۶۲ ) بنی کے سو ساتھی،بگڑی کا کوئی نہیں : اچھے وقت سب ساتھ دیتے ہیں لیکن برے وقت چھوڑ دیتے ہیں۔
( ۶۳) بوڑھا اور بچہ برابر : بوڑھا اور بچہ اپنی عادتوں میں بہت کچھ ایک سے ہوتے ہیں۔
( ۶۴) بوٹی دے کر بکرا لے لیا : یعنی تھوڑے کے بدلے میں بہت وصول کر لیا۔
( ۶۵ ) بویا نہ جوتا، اللہ میاں نے دیا پوتا : یعنی بغیر محنت ہی سب کچھ مل گیا، گھر بیٹھے بٹھائے دولت مل گئی۔
( ۶۶ ) بوڑھی گھوڑی لال لگام : بوڑھی گھوڑی پر لال لگام پھبتی نہیں ہے۔ کوئی عمر رسیدہ عورت سنگھار کر کے خود کو جوان ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
(۶۷) بوڑھے توتے نئے سبق نہیں پڑھتے : نئی باتیں سیکھنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔جس طرح بوڑھے توتے کو نئی بات سکھانا مشکل ہوتا ہے اسی طرح عمر رسیدہ لوگوں میں بھی نئی باتیں سیکھنے کی صلاحیت کم رہ جاتی ہے۔
(۶۸) بوڑھ منھ مہاسے، لوگ دیکھیں تماشے : چہرے پر مہاسے نکلنا اوائل شباب کی نشانی ہے۔کسی کو بڑھاپے میں مہاسے نکلیں تو لوگ اس پر ہنسیں گے کہ ان پر بڑھاپے میں جوانی آئی ہے۔ چنانچہ کسی کے ساتھ کوئی انہونی بات ہو تو یہ کہاوت بولتے ہیں۔
( ۶۹) بہتے دریا میں ہاتھ دھولو : آسانی سے میسر چیز سے فائدہ اٹھانا ایسا ہی ہے جیسے بہتے دریا میں ہر شخص ہاتھ منھ دھو لے۔اسی معنی میں ’’ بہتی گنگا میں ہاتھ دھولو‘‘ بھی کہتے ہیں۔ گنگا ہندوؤں کا مقدس دَریا ہے۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے مراد بہت کم کوشش سے بہت سی نیکی کمانا ہے۔
( ۷۰) بہت ٹیڑھی کھیر ہے : قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے ایک اندھے سے پوچھا کہ’’ کھیر کھاؤ گے؟‘‘ اُس نے جواباً پوچھا کہ ’’کھیر کیا ہوتی ہے‘‘۔ اُس شخص نے کہا کہ ’’حلوہ کی طرح میٹھی اور رنگ میں سفید‘‘۔ اندھے نے دریافت کیا کہ ’’سفید کا کیا مطلب ہے؟‘‘۔ اُس شخص نے کہا ’’جیسے بگلا۔‘‘ اندھے آدمی نے حیرانی سے پوچھا کہ ’’یہ بگلا کیا ہوتا ہے؟‘‘۔ اُس شخص نے ہاتھ کو بگلے کی شکل میں ٹیڑھا کر کے اندھے کے سامنے کر دیا۔ اندھے نے ٹٹول کر اس کا ہاتھ چھوا اور بولا ’’بھائی یہ تو بہت ٹیڑھی کھیر ہے۔ ہم سے نہیں کھائی جائے گی۔‘‘ اسی مناسبت سے اگر کوئی کام مشکل اور پیچیدہ ہو تو اس کو ٹیڑھی کھیر کہتے ہیں۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۷۱ ) بہت قریب، زیادہ رقیب : جو شخص جتنا قریبی تعلق رکھتا ہے اُتنا ہی زیادہ وہ رشک وحسد کا شکار ہو سکتا ہے۔
( ۷۲) بہرا روٹی کی پَٹ پَٹ سن لیتا ہے : یعنی ہر شخص اپنے مطلب کی بات بالکل اسی طرح سن لیتا ہے جیسے بہرا آدمی روٹی پکانے کی آواز فوراً سُن لیتا ہے۔
( ۷۳) بہوؤں سے چور پکڑواتا ہے : بزدل اور کم ظرف آدمی کے لئے کہتے ہیں کہ ایساگیا گزرا ہے کہ چور آ جائیں تو خود تو پکڑتا نہیں اپنی بہوؤں سے کہتا ہے کہ جاؤ اس کو پکڑو۔
( ۷۴) بھاگتے چور کی لنگوٹی : کنجوس آدمی سے تھوڑی سی خیرات بھی مل جائے تو اس کو غنیمت جاننا چاہئے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ جو مال ڈوب رہا ہو اگر اس میں سے کچھ بچ رہے تو غنیمت ہے یا کنگال مقروض سے قرض کا تھوڑا سا حصہ بھی واپس مل جائے تو اس کو بہت جاننا چاہئے۔ اسی معنی میں ’’ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی‘‘ بھی مستعمل ہے۔
( ۷۵) بھُس کے مول مَلِیدہ : بھُس یعنی گھاس پھوس۔ملیدہ دودھ اور روٹی سے بنایا جاتا ہے۔کہاوت کا مطلب یہ ہے کے اچھی اور قیمتی چیز سستے داموں مل گئی۔استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۷۶) بھیڑ کی لات کیا، عورت کی بات کیا : بھیڑ کی لات میں زیادہ چوٹ نہیں ہوتی اور عورت کی بات کا اعتبار کم ہوتا ہے۔ کہاوت اسی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
(۷۷) بھلے گھوڑے کو ایک چابک کافی ہے اور بھلے آدمی کو ایک بات : اگر گھوڑا سیدھے سبھاؤ کا ہو تو وہ چابک کے ایک اشارہ پر مالک کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔لیکن اَڑیل گھوڑا چابک پر چابک کھاتا ہے اور دو لتیاں مارے جاتا ہے۔ اسی طرح بھلے آدمی کو ایک اشارہ کافی ہوتا ہے۔ محل استعما ل معنی سے قیاس کیا جا سکتا ہے۔
( ۷۸) بھوک میں گُولر بھی پکوان : گولر ایک خود رو درخت کا پھل ہے جو عام طور سے کوئی نہیں کھاتا۔ ظاہر ہے کہ آدمی بھوکا ہو تو گولر بھی مزے دیتا ہے۔ کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر جو بھی ہاتھ آ جائے وہ غنیمت ہے۔
(۷۹) بھیگی بلّی بننا : بھیگی ہوئی بلی کی صورت سے بے بسی اور بزدلی ٹپکتی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے سامنے بزدلی کا مظاہرہ کرے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
( ۸۰) بھاڑے کا ٹٹو ہے : بھاڑا یعنی کرایہ، ٹٹو یعنی چھوٹے قد کا گھوڑا۔ کم اصل آدمی جو پیسے لے کر چھوٹا موٹا کام کر دے بھاڑے کا ٹٹو کہا جائے گا۔ بھاڑے اور ٹٹو کہنے میں تحقیر کا عنصر شامل ہے۔
(۸۱) بھینس کے آگے بین بجانا : یعنی نا اہل آدمی سے دانشمندی کی بات کرناایسا ہی ہے جیسے کوئی بھینس کے آگے بین بجائے اور اس سے داد کی اُمید رکھے۔ اسی معنی میں ’’ بھینس کے آگے بین بجائے، بھینس کھڑی پگرائے‘‘ بھی کہتے ہیں۔ دیہاتی زبان میں پگرانا بغیر سمجھے بوجھے سر ہلانے کو کہتے ہیں۔
( ۸۲) بھیک مانگے، آنکھ دکھاوے : یعنی حال تو یہ ہے کہ خود بھیک مانگتا ہے لیکن دماغ ایسے ہیں کہ لوگوں سے رعونت سے پیش آتا ہے۔ یہ کہاوت کم حیثیت لیکن بد دماغ شخص کے لئے کہی جاتی ہے۔
( ۸۳) بھونی مچھلی جل میں پڑی : بھنی ہوئی مچھلی پانی میں گر جائے تو کھانے لائق نہیں رہتی۔ کہاوت کا یہی مطلب ہے کہ اچھا خاصہ کام ہو گیا تھا لیکن ذرا سی خرابی یا غفلت نے اسے بگاڑ دیا۔
( ۸۴) بھان متی کا سوانگ : سوانگ یعنی بہروپ،بناوٹی چہرہ۔بھان متی ایک فرضی کردار ہے۔کہاوت کا مطلب ہے فضول اور از کار رفتہ بہروپ اور تماشہ۔ ایسا عام طور پر لوگوں کو فریب دینے کے لئے کیا جاتا ہے۔
(۸۵) بھُس میں چنگاری ڈال جمالوؔ دور کھڑی : اناج کاٹ کر اس کے دانے نکال لئے جائیں تو بھُوسا بچ رہتا ہے۔ بھُس اسی بھوسے کا مخفف ہے۔جمالوؔ ایک فرضی عورت ہے جس کی فطرت میں شرارت اور فتنہ پردازی ہے۔ جب کوئی شخص کوئی فتنہ دوسروں کے نقصان سے بے نیاز ہو کر صرف تماشہ دیکھنے کی خاطر کھڑا کر دے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۸۶) بھان متی نے کنبہ جوڑا، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا : روڑا یعنی کنکر پتھر۔ اگر بے مصرف اور بے جوڑ چیزوں کو ملا کر کام نکالنے کی کوشش کی جائے یا کسی گروہ میں ایسے لوگ ہوں جو آپس میں بنیادی اختلافات رکھتے ہوں تو یہ کہاوت بولتے ہیں۔
(۸۷) بھاری دیکھا پتھر، چوم کر چھوڑ دیا : یعنی جب کام انتہائی مشکل اور محنت طلب نظر آیا تو اس کو دُور سے ہی سلام کر کے ہاتھ جھاڑ کر الگ کھڑے ہو گئے۔جب کوئی مشکل کام سے جان چھڑائے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۸۸ ) بھول چوک لینی دینی : بیوپاریوں کے درمیان پیسے کا لین دین مستقل رہتا ہے۔ اس میں کسی فریق کی جانب سے غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ اس لئے لین دین کے بعد وہ کہتے ہیں ’’ بھول چوک لینی دینی‘‘ یعنی اگر کہیں غلطی ہو گئی ہے تو وہ نا دانستہ ہے اور اس سے آئندہ نمٹ لیا جائے گا۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
(۸۹) بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا : بھڑ کے چھتے کو چھیڑنے کے نتیجہ میں ہزاروں بھڑیں آدمی سے لپٹ جاتی ہیں۔ یعنی فسادی اور بد قمار لوگوں کو خواہ مخواہ نہیں چھیڑنا چاہئے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
(۹۰) بھری تھالی میں لات ماردی : بھری تھالی یعنی سامنے رکھی ہوئی نعمت۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ خوش قسمتی سے ملی ہوئی نعمت کو ٹھکرا دیا گویا اللہ کی نا شکری کی۔
(۹۱) بھات چھوڑے، ساتھ نہ چھوڑے : بھات پکے ہوئے چاولوں کو کہتے ہیں۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ ایسی پکی دوستی ہے کہ نقصان بھی ہو جائے تو تعلق خاطر منقطع نہیں کریں گے۔
(۹۲) بھیڑ چال : بھیڑ ایک کے پیچھے ایک اندھا دھند چلتی ہے۔ بھیڑ چال یعنی بے سوچے سمجھے تقلید۔
(۹۳) بیوقوف دوست سے، عقل مند دشمن بھلا : موقعِ استعمال کہاوت کے معنی سے ظاہر ہے۔
(۹۴ ) بیاہ نہیں کیا لیکن برات میں تو گئے ہیں : یعنی ایسے گئے بیتے بھی نہیں ہیں کہ مکمل ناکارہ ہوں۔ کام کچھ نہ کچھ تو جانتے ہی ہیں۔
( ۹۵) بے تلی کا لوٹا : اگر لوٹے میں تلی یعنی پیندا نہ ہو تو وہ جہاں تہاں لڑھکتا پھرتا ہے۔ چنانچہ بے تلی کا لوٹا ایسے آدمی کے لئے بولا جاتا ہے جس کا اعتبار نہ ہو۔
( ۹۶) بیکار مباش، کچھ کیا کر : مباش فارسی ہے یعنی مت رہ۔ بیکار یا خالی بیٹھے رہنا عقل مندی کی نشانی نہیں ہے۔ خالی بیٹھنے سے بہتر ہے کہ کچھ نہ کچھ کیا جائے۔ اسی معنی میں بیکار سے بیگار بھلی بھی کہا جاتا ہے۔
(۹۷) بیکاری سے بیگار بھلی : بیگار یعنی بغیر معاوضہ کا کام۔ صاحب اختیار لوگ کمزور لوگوں سے بیگار کرا لیتے ہیں اور وہ بیچارے معاوضہ بھی نہیں مانگ سکتے۔ کہاوت کا یہ مطلب ہے کہ بیگار بھی بیکار بیٹھے رہنے سے بہتر ہے۔
( ۹۸) بے دال کا بودم : بودم میں سے د نکال دیں تو بوم بچ رہتا ہے جس کے معنی اُلو ہیں۔ کسی کو گھما پھرا کر احمق کہنا ہو تو اس کو ’’بے دال کا بودم‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ محل استعمال ظاہر ہے۔
(۹۹) بے وقت کی راگنی : ہندوستانی کلاسیکل موسیقی میں راگوں کے اوقات مقرر ہیں۔ مثلاًسہ پہر کو راگ ’’سارنگ ‘‘ اور رات کے پچھلے پہر راگ ’’کیدارہ‘‘ گاتے ہیں ۔ کسی راگ کو اس کے معینہ وقت سے ہٹ کر گانا’’ بے وقت کی راگنی‘‘ کہا جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کوئی کام یا بات بالکل بے موقع کرے تو یہ کہاوت کہی جائے گی۔
( ۱۰۰) بے سر پیر کی باتیں : بکواس، فضول باتیں۔
٭٭٭
پ۔ کی کہاوتیں
(۱) پاگل کے سر کیا سینگ ہوتے ہیں ؟ : پاگل اپنی حرکات سے الگ پہچانا جاتا ہے۔ یہ فقرہ طنزاً بولا جاتا ہے۔
( ۲) پانچ دو سات ہو گئے : یعنی آپس میں مل بیٹھے۔ یہ’’ نو دو گیارہ ہو گئے‘‘ کہاوت کا الٹا ہے۔ نو دو گیارہ ہونے کے معنی بھاگ کھڑا ہونا ہیں جب کہ پانچ دو سات ہونے کے معنی گٹھ جوڑ کر لینے کے ہیں۔
(۳) پانی پیجئے چھان کر اور پیر کیجئے جان کر : یعنی پانی پینے سے پہلے دیکھ لینا چاہئے کہ صاف ہے یا نہیں اور کسی کو اپنا پیر و مرشد بنانے سے قبل جانچ پڑتا ل کر لینی چاہئے کہ کس رتبہ کا آدمی ہے۔ایسا نہ کرنے میں نقصان کا خطرہ ہے۔ یہ کہاوت تنبیہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
( ۴) پانی سے پہلے پل باندھ رہے ہیں : اس سے پہلے کہ مسئلہ سر پر آ جائے اس کے علاج کی صورت کر رہے ہیں ۔ یہ دانشمندی کی نشانی ہے۔پانی سر پر آ جائے تو اس وقت پل باندھنا کیا معنی رکھتا ہے؟
( ۵) پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی ہیں : جس طرح ایک ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہیں اسی طرح کوئی دو شخص بھی بالکل یکساں نہیں ہیں۔
(۶ ) پانڈے جی پچھتاؤ گے، وہی چنے کی کھاؤ گے : جب کوئی شخص ضد میں کسی کام سے انکار کر دے لیکن بعد میں مجبور ہو کر اس پر بصد اکراہ راضی ہو جائے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے کہ ایک پنڈت جی کو چنے کی روٹی اور دال سخت ناپسند تھے۔ ایک دن جب بیوی نے ان کے سامنے چنے کی دال اور روٹی رکھی تو پنڈت جی نے کھانے سے انکار کر دیا۔بیوی نے سمجھایا کہ ’’گھر میں اس وقت اور کچھ پکا نے کو نہیں ہے۔‘‘ لیکن وہ نہ مانے اور غصہ میں بھنائے ہوئے گھر سے نکل گئے۔ شام تک بھوک نے اتنا برا حال کر دیا کہ ہار کر گھر واپس آئے اور خاموشی سے کھانے کی چٹائی پر بیٹھ گئے۔ بیوی مطلب سمجھ گئی اور اس نے دال روٹی ان کے سامنے رکھ دی۔ پانڈے جی نے بحالت مجبوری اسی سے پیٹ کی آگ بجھائی۔
(۷) پانی پی کر ذات کیا پوچھنا : کسی کے گھر پانی پینے کے بعد اس کی ذات پوچھنا حماقت ہے۔ یعنی جب کسی کا حسن سلوک قبول کر لیا تو اس کی نسبت مین میخ نکالنا مناسب نہیں ہے۔
(۸) پانی سر سے اُونچا ہو گیا : یعنی معاملہ اب اپنے قابو اور اختیارسے باہر ہو گیا ہے۔
( ۹ ) پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں : یعنی ہر طرح سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔
(۱۰ ) پاؤں مین جوتی نہ سر پر ٹوپی : یعنی بالکل مفلس، قلّاش اور پھٹے حالوں ہیں۔
(۱۱ ) پاؤں رکھتے کہیں ہیں ، پڑتا کہیں ہے : یعنی شدید کمزور ی کا عالم ہے کہ قدم رکھنا کہیں چاہتے ہیں اور پڑتا کہیں اور ہے۔
( ۱۲) پائے مرا لنگ نیست، ملک خدا تنگ نیست : یعنی نہ تو میں پیروں سے لنگڑا ہوں اور نہ ہی اَللہ کی یہ دُنیا مجھ پر تنگ ہے۔ جب کسی کو خود اعتمادی اور خود اختیاری کا اظہار مقصود ہوتا ہے تو یہ کہاوت بولتے ہیں۔
(۱۳ ) پائی چیز، پرائی چیز : یعنی کوئی چیز پڑی مل جائے تو وہ پانے والے کی نہیں ہو جاتی۔ اس کا اصل مالک وہی رہتا ہے جس کے پاس سے وہ گر گئی تھی۔
(۱۴) پتا چلتا ہے پوری دیگ کا بس ایک چاول سے : یہ ایک شعر کا پہلا مصرع ہے ؎
پتا چلتا ہے پوری دیگ کا بس ایک چاول سے اٹھا کر ایک قطرہ نبضِ طوفاں دیکھ لیتے ہیں
دیگ کے گلنے کا اندازہ ایک آدھ چاول سے ہو جاتا ہے۔ اسی طرح آدمی کی خصلت بھی اس کی چھوٹی موٹی باتوں سے ظاہر ہو جاتی ہے۔
(۱۵) پتھر میں جونک نہیں لگتی : یعنی ظالم اور بد اطوار آدمی پرکسی بات کا بھی اثر نہیں ہوتا۔
( ۱۶ ) پتھر کی لکیر : نہ مٹنے والی بات، سدا قائم رہنے والی چیز۔
( ۱۷) پتھر پوجے ہر ملے تو میں پوجوں پہاڑ : ہَر یعنی ہَری، بھگوان، خدا۔مطلب یہ ہے کہ اگر پتھر پوجنے سے مجھ کو خدا مل جائے تو میں پہاڑ پوجنے کے لئے تیار ہوں۔ گویا پتھر پوجنے سے کچھ حاصل نہیں ہے۔
(۱۸) پتھر سے چکی بھلی، پیس کھلائے سنسار : صرف پتھر کسی کام کا نہیں ہوتا جب کہ چکی سے اناج پیس کر ایک دنیا فیض یاب ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسا شخص جو اپنی تعلیم و تربیت و طبیعت سے دوسروں کے کام آتا ہو اُس شخص سے بہتر ہے جو اَن گھڑ اور بے فیض ہے۔
( ۱۹ ) پتہ کھڑکا اور دل دھڑکا : شدید خوف وہراس میں آدمی پتہ کھڑکنے کی آواز سے بھی چونک جاتا ہے۔
( ۲۰ ) پتھر تلے کا ہاتھ : بھاری پتھر کے نیچے ہاتھ دب جائے تو نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔چنانچہ یہ کہاوت انتہائی مجبوری و لاچاری ظاہر کرنے کے لئے بولی جاتی ہے۔
( ۲۱ ) پرایا سیر پنسیری برابر : کلوگرام سے پہلے تولنے کے لئے سیراستعمال ہوتا تھا جو تقریباً آدھے کلو کے برابر تھا۔پنسیری یعنی پانچ سیر۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ دوسروں سے تھوڑا بہت بھی فائدہ حاصل ہو جائے تواس کو بہت جاننا چاہئے۔
( ۲۲ ) پرندہ پر نہیں مار سکتا : یعنی پابندیاں اتنی سخت ہیں کہ پرندہ بھی آنا چاہے تو نہیں آسکتا۔استعمال ظاہر ہے۔
( ۲۳) پڑھیں فارسی بیچیں تیل : یعنی پڑھ لکھ کر تو عالم فاضل ہو گئے لیکن کام کرنے کے نام صفر ہے۔ تیل بیچنے سے تحقیر مراد ہے کہ ایسی تعلیم کس کام کی جس سے معاش کا انتظام بھی نہ ہو سکے۔
( ۲۴) پڑوسن کے مینھ برسے گا تو او لتیاں ٹپکیں گی : اولتی بارش کی اس دھار کو کہتے ہیں جو چھت کے کنارے سے بارش میں ٹپکتی ہے۔ اگر ہمسایہ میں بارش ہو تو اپنے گھر کی اولتیاں تو کم سے کم ٹپکیں گی ہی۔ کہاوت کا یہی مطلب ہے کہ دوستوں اور عزیزوں کو کوئی فائدہ ہو گاتواس کا کچھ نہ کچھ حصہ قریبی لوگوں کو بھی مل سکتا ہے۔محل استعمال اسی پر قیاس کر لیجئے۔
( ۲۵ ) پڑھوں میں ان پڑھ جیسے بگلوں میں کوا : سفید خوبصورت بگلوں کے درمیان ایک کوّا آ بیٹھے تو عجیب لگے گا۔اسی طرح پڑھے لکھوں کے درمیان اَن پڑھ آدمی بھی بے جوڑ نظر آتا ہے۔
(۲۶ ) پڑھے نہ لکھے،نام محمد فاضل : یعنی ایسا آدمی جو مطلق جاہل ہو لیکن نام سے علم کا بادشاہ ظاہر ہو۔
( ۲۷ ) پُن کی جڑ سدا ہری : پُن یعنی نیک کام۔ نیک کام ہمیشہ بار آور ہی رہتا ہے اور اس پر کبھی ادبار طاری نہیں ہوتا۔
( ۲۸) پنچ ملے کیجئے کاج، جیتے ہارے نہ آوے لاج : پنچ ملے یعنی آپس کے مشورے سے۔ آپس کی صلاح مشورے سے کام کیا جائے تو ناکامی کی حالت میں کسی ایک شخص کو ندامت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔
( ۲۹ ) پنچ کہیں بلّی تو بلّی ہی سہی : پنچ یعنی پنچایت کے اراکین۔اگر لوگوں کی اکثریت کسی بات پر متفق ہو جائے تو غلط بات بھی سچ ہو جاتی ہے اور اس کو ماننا نا گزیر ہو جاتا ہے۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص کے گھر میں رات کو چور گھس آیا اور کمرے میں چوری کرنے گیا۔ اس شخص کی آنکھ کھل گئی اور اس نے چپکے سے کمرہ کی کنڈی باہر سے لگا دی کہ چور نکل کر بھاگ نہ سکے۔ چور نے گھبرا کر اس اُمید پر بلی کی طرح طرح میاؤں میاؤں کہنا شروع کیا کہ وہ شخص اسے بلی سمجھ کر دروازہ کھول دے گا اور وہ بھاگ نکلے گا۔لیکن اُس شخص نے بلی کی آواز سن کر کہا کہ ’’پنچ کہیں بلّی تو بلّی ہی سہی‘‘ یعنی صبح ہونے دو تو پنچوں کوب لا لوں گا۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ تو بلّی ہی ہے تو میں مان کر تجھ کو چھوڑ دوں گا۔
(۳۰ ) پوپلے سے ہڈی نہیں چبتی : پوپلا یعنی جس کے منھ میں دانت نہ ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ کمزور شخص سے مشکل کام کی اُمید فضول ہے۔
( ۳۱ ) پوتڑوں کے امیر : یعنی پشتینی امیر، خاندانی امیر۔ پوتڑ۱بچپن کا استعارہ ہے یعنی کوئی آج کے امیر نہیں ہیں۔
( ۳۲ ) پُوت کے پاؤں پالنے میں نظر آ جاتے ہیں : پُوت یعنی بیٹا۔ پالنا یعنی جھولا۔ مطلب یہ ہے کہ بچہ کے مستقبل کے آثار شروع میں ہی ظاہر ہو جاتے ہیں ۔
( ۳۳ ) پہلے آؤ، پہلے پاؤ : دُنیا میں جو پہلے اپنا حق مانگے اُس کو مل جاتا ہے اور جو بعد میں آئے اس کو بعد میں ملتا ہے یا ملتا ہی نہیں ہے۔ کسی شاعر نے اس حقیقت کو کیا ہی خوبصورت انداز میں نظم کیا ہے ؎
یہ بزم مے ہے،یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی جو بڑھ کر ہاتھ میں لے لے یہاں مینا اُسی کا ہے
( ۳۴) پہلے لکھ اور پیچھے دے، پھر بھولے تو مجھ سے لے : ہر معاہدے کی باقاعدہ لکھا پڑھی ہونی چاہئے تاکہ غلط فہمی کا امکان ہی نہ رہے۔ چونکہ پیسہ کے لین دین میں زیادہ خطرہ ہوتا ہے اس لئے یہاں اس کی مثال دی گئی ہے۔
( ۳۵ ) پہلے گھر میں ،پھر مسجد میں : یعنی جب اپنی اور اعزا و اقربا کی ضروریات پوری ہو جائیں تب خیرات یا داد و دہش کا رُخ باہر والوں کی جانب ہونا چاہئے۔
( ۳۶ ) پھول باغ میں ہی خوب کھلتا ہے : یعنی ہر چیز اپنی جگہ ہی اچھی لگتی ہے۔ پھول باغ میں جتنا اچھا لگتا ہے اتنا گلدستہ میں نہیں لگتا۔
(۳۷) پھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان : پِھٹ پڑے یعنی لعنت ہے اس پر۔ ایسا بھاری زیور کس کام کا جس سے کان کی لوئیں پھٹ جائیں۔ کوئی بات بظاہر اچھی ہو لیکن اُس کے نتائج خوشگوار نہ ہوں تو یہ کہاوت بولتے ہیں۔
(۳۸) پھونک مارو تو اُڑ جائے : بہت نازک و ناتواں شخص کو کہتے ہیں ۔
( ۳۹ ) پِھر ہوا پھُر : پِھر یعنی جو بات کل پر ٹال دی جائے۔ پھُر یعنی جو چشم زدن میں اُڑ جائے۔ کل پر جو بات ٹال دی جائے وہ پوری نہیں ہوتی کیونکہ کل تو کبھی آتا ہی نہیں ہے۔
( ۴۰ ) پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے : نہایت احتیاط کرتا ہے، ہوشیاری سے سوچ سمجھ کرکام کرتا ہے۔
(۴۱ ) پیا میرا اَندھا،کس کے لئے کروں سنگھار : اگر شوہر نا بینا ہو تو بیوی کا سنگھار کرنا بیکار ہے کیونکہ جس کے لئے بنا سنورا جاتا ہے وہ اس کو دیکھ ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر لوگ کسی کے علم و فن سے بے بہرہ ہیں تو اُس کا اپنے علم و فن کا مظاہرہ کرنا بیکار ہے۔
( ۴۲) پیسا رکھنے سے بڑھتا نہیں ہے : دولت کو تجوری میں بند رکھا جائے تو اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتاالبتہ تجارت اور لین دین سے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی حال علم اور فن کا ہے کہ ان کو خود تک محدود رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ دوسروں تک پہنچانے سے ان میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوتا ہے۔
( ۴۳) پیٹ میں پڑا چارہ، کودنے لگا بے چارہ : جانور کا پیٹ بھرا ہو تو اس کو کلیلیں سوجھتی ہیں۔ یہی حال آدمی کاہے کہ پیٹ بھرے پر اُسے شرارت سوجھتی ہے۔ بھوک میں یہ خیال کہا ں۔
(۴۴) پیٹ کا کتّا : جس کو ہر وقت اپنے فائدے کی ہی سوجھے۔ کُتّا کہنے سے تحقیر ظاہر ہوتی ہے۔
( ۴۵) پیسہ تو رنڈی کے پاس بھی ہوتا ہے : بازاری کہاوت ہے۔ یعنی محض دولت مند ہونا شرافت کی نشانی نہیں ہے۔
( ۴۶ ) پیش از مرگ واویلا : یعنی موت سے پہلے ہی ماتم۔ حادثہ ہونے سے قبل ہی خواہ مخواہ شور مچایا جائے تو یہ کہاوت بولتے ہیں ۔
( ۴۷) پیٹ میں چھریاں بھری ہیں : چھری یعنی بغض و عناد۔ پیٹ میں بھری یعنی چھپی ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ دل بغض و عناد سے بھر۱ ہوا ہے۔
( ۴۸ ) پیٹ میں پاؤں ہیں : یعنی ظاہر میں جیسے نظر آ رہے ہیں ویسے نہیں ہیں بلکہ اصلیت کچھ اور ہی ہے۔ محل استعمال ظاہر ہے۔
(۴۹ ) پیٹ میں پڑے تو عبادت سوجھے : یعنی آدمی بھوکا ہو تو اس کو عبادت کا خیال نہیں آتا۔
(۵۰ ) پیٹ کے گُن کون جانے : پیٹ کے گُن یعنی اصل خصلت۔ آدمی کی جو عادتیں منظر عام پرنہ ہوں ان کو سوائے اللہ کے کون جانتا ہے۔ ظاہر حالات پر حقیقت کو قیاس کرنا دانش مندی نہیں ہے۔
(۵۱) پیروں میں مہندی لگائے بیٹھے ہیں : کوئی پیروں میں مہندی لگا لے تو وہ اُس کے رنگ لانے تک چلنے پھرنے سے معذور ہو جائے گا۔ کوئی شخص کہیں نہ جانے کے بہانے بنائے تو طنزاً یہ کہاوت بولتے ہیں۔
( ۵۲ ) پیٹ میں سے پاؤں نکالے : یعنی بڑے ہو کر انداز بدل گئے۔یہ فقرہ ایسے شخص کے لئے کہا جاتا ہے جوشروع میں بے ضرر دکھائی دے لیکن آگے چل کر اس کے چھپے ہوئے گُن سامنے آ جائیں۔
( ۵۳ ) پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے،کنواں پیاسے کے پاس نہیں آتا : ضرورت مند خود ہی ضرورت رفع کرنے والے کے پاس جاتا ہے۔ دوسرا شخص اُس کے پاس اپنی خدمت پیش کرنے نہیں آتا ہے۔
( ۵۴ ) پیٹ میں داڑھی ہے : داڑھی عمر اور سمجھ کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ کوئی اپنی عمر سے زیادہ چالاکی دکھائے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے یعنی اس کے ظاہر پر مت جاؤ، یہ بچپن سے ہی چالاک ہے۔
٭٭٭
[…] حصہ اول یہاں دیکھیں […]