FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

کھنڈوہ میں اُردو شعر و ادب کے پچاس سال

 

 

 

                مظفرؔ حنفی

(یہ ای بک کتاب  ’نگارشاتِ مظفر حنفی سے علیحدہ شائع کی جا رہی ہے)

( مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے سیمینار منعقدہ کھنڈوا میں پڑھا گیا)

 

 

 

 

 

 

کھنڈوہ میں اردو شعر و ادب کی تاریخ خاصی طویل ہے۔ چونکہ برہان پور بھی بطور تحصیل کھنڈوا کا ایک حصہ رہا ہے اس لیے یہاں کی ادبی روایت کی کڑیاں ہاشم برہان پوری تک ملتی ہیں جو قدیم دور کے اہم شاعر اور ممتاز ترین مرثیہ گو ہیں، جب اردو دکن میں ارتقاء کی ابتدائی منزلیں طے کر رہی تھی اور شمالی ہند میں اس کا چلن مفقود تھا۔ ، ہاشم برہان پوری سے اختر آصف تک کئی صدیوں کا فاصلہ ہے اور اس طویل مدت میں اس سرزمین نے نور محمد نوابؔ کھنڈوی جیسے صاحب دیوان شعراء بھی پیدا کیے اور ظہیر الدین مدنی و ڈاکٹر فرید شیخ جیسے نثر نگار اور نامور محققین بھی۔ دارالسرور برہانپور شعر و ادب کی اتنی طویل اور وقیع روایت کا حامل ہے کہ اپنی جگہ ایک آزاد و مبسوط مقالے کا موضوع بنتا ہے۔ میں اپنے اس پرچے کو کھنڈوہ خاص کے شعراء اور ادباء کے جائزے تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ انیسویں صدی کے اواخر میں کھنڈوہ کے غالباً پہلے صاحبِ دیوان شاعر نواب کھنڈوی شاگرد داغؔ کا دور بھی اپنی جگہ خاصا اہم ہے۔ چونکہ اس موضوع پر ایک علیحدہ مقالہ اس سیمینار میں پیش کیا جانے والا ہے اس لیے میں اپنے اس جائزے کو نواب کھنڈوی کے بعد مطلعِ ادب پر نمودار ہونے والی نسل کے تذکرے سے شروع کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔

شاعروں اور ادیبوں کا فرداً فرداً ذکر چھیڑنے سے پیشتر عرض کرنا چاہوں گا کہ بحیثیت مجموعی کھنڈوا کے اردو داں عوام، جن کی تعدیاد یہاں کی کل آبادی کے ایک ثلث پر مشتمل ہے۔ مزاجاً اردو ادب خصوصاً شاعری سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور بلا مبالغہ بھوپال اور برہانپور کے بعد کھنڈوہ مدھیہ پردیش کا تیسرا شہر ہے جہاں آئے دن مقامی اور کل ہند نوعیت کے مشاعرے منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ اب سے بینتیس چالیس سال قبل اس قسم کے مشاعروں کا انعقاد کرنے والوں میں سیٹھ مظہر الدین مرحوم، ڈاکٹر ممتاز احمد خوشترؔ، علیم فکری اور ظفرؔ کھنڈوی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ ۱۹۶۰ء کے بعد یہاں کل ہند مشاعروں اور ادبی نشستوں کاسلسلہ جاری رکھنے والوں میں لطیف سیٹھ، حسن بشیر مرحوم، ڈاکٹر خورشید احمد صدیقی، قاضی انصار، قاضی حسن رضا، اقبال احمد، عبد الستار ٹیلر، اختر قریشی، علی راشد اور حفاظت کھنڈوی وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں جنھوں نے انجمن ترقی اردو کی مقامی شاخ اور کھنڈوہ کی دوسری ادبی انجمنوں کے ذریعے وقتاً فوقتاً بڑے پیمانے پر کل ہند مشاعرے، اردو کنونشن اور کانفرنسیں اس شہر میں منعقد کیں۔ عوام میں شعر و ادب کا ذوق عام کرنے کا فریضہ بہت کچھ رسالہ’ بہارستان‘ اور ماہنامہ ’ نئے چراغ‘ نے انجام دیا۔ اوّل الذکر پرچہ اُردو نارمل اسکول کھنڈوہ کے استاد شارق نیازی کی ادارت میں آزادی سے قبل جاری ہوا تھا جو ۱۹۵۶ء تک کھنڈوہ سے نکلتا رہا۔ ’ نئے چراغ‘ ۱۹۵۹ء میں جاری  ہوا تھا اور ڈاکٹر خورشید احمد صدیقی، ڈاکٹر مسرت حسین، سیٹھ مظہر الدین، اقبال احمد، لطیف سیٹھ، خان بہادر سید حفاظت علی وغیرہ کی معاونت سے کھنڈوہ میں پہلی بار ایک اردو بوائز ہائر سکنڈری اسکول قائم کیا گیا جس نے اس سخت پُر آشوب دور میں یہاں اردو لکھنے پڑھنے والوں کی نئی نسلوں کی تربیت کا فریضہ انجام دیا اور یہ سلسلہ بفضلہ آج تک جاری ہے۔ یہ بھی عرض کروں تومبالغہ نہ ہو گا کہ بالعموم ہندوستان میں جدید رجحان کو شعر و ادب میں عام کرنے کا سہرا ماہنامہ ’ شب خون‘ الٰہ آباد کے سر باندھا جاتا ہے لیکن ’ شب خون‘ کے اجراء سے کم و بیش چھ سات سال قبل ماہنامہ’ نئے چراغ‘ نے کھنڈوہ جیسے وسائل سے محروم شہر سے جدید شعراء اور افسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد کو جدیدیت کی طرف مائل کیا۔ چنانچہ آج کے بہت سے نامور جدید قلم کاروں نے جن میں ظفرؔ احمدؔ، عمیق حنفی، بشر نواز، بشیر بدر، احمد وقار واثقی، قیصر قلندر، ندا فاضلی، خلیل الرحمن اعظمی، خلیق انجمؔ، ہر چرن چاولہ، مخمور سعیدی، شہر یار، قاضی سلیم، علی بن ایاز، نصیر پروازؔ، اختر بستوی، شاہین غازی پوری، موہنؔ یاور، جمید الماسؔ، والیؔآسی، ظفر عالم گیر، ستیشؔ بترا، عتیق اللہ، امین اشرف، زرینہ ثانی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر نے ’نئے چراغ‘ کے وسیلے سے ہی ہند و پاک کی ادبی دنیا میں اپنی فنکارانہ حیثیت مستحکم کی۔ اس کے بعد بھی کھنڈوہ سے وقتاً فوقتاً اردو رسالے نکلتے اور بند ہوتے رہے جن میں بطورِ خاص اندر سین اثرؔ کا پرچہ’ شجر‘ لائقِ ذکر ہے۔ حال ہی میں صفدر رضا کھنڈوی نے بھی راقم الحروف کے مجموعۂ کلام کا نام مستعار لے کر سہ ماہی ’ طلسمِ حرف‘ کھنڈوہ سے جاری کیا تھا جس کا چند صفحات پر مشتمل صرف ایک ہی شمارہ ایک سال قبل میری نگاہ سے گزرا۔ کھنڈوہ اور اس کے قرب و جوار میں بلا مبالغہ درجنوں اردو میڈیم پرائمری اور مڈل اسکولوں کے قیام کے لیے ڈاکٹر خورشید احمد صدیقی، پرنسپل اقبال احمد مرحوم، ڈاکٹر مسرت حسین، قاضی حسن رضا، قاضی انصار، مرحوم حسن بشیر، مولانا صدیق چین پوری، علی احمد قریشی اور ایس۔ ایم۔ جلیس وغیرہ کی خدمات کا اعتراف جتنا بھی کیا جائے، کم ہے کہ انھیں لوگوں کی کاوشوں اور خونِ جگر سے نمو حاصل کر کے پچھلی تین دہائیوں میں اردو نا مساعد حالات کے باوجود اس علاقہ میں پروان چڑھتی رہی ہے۔ اس شہر میں مقامی شاعروں، فنکاروں، سماجی خدمت گزاروں اور اساتذہ کی خدمات کے اعتراف میں اکثر مشاعرے اور ادبی محفلیں منعقد کر نے کی روایت رہی ہے جن میں جشنِ خوشترؔ، یاد شاعرِ ہندی، جشن ساحرؔ ادیبی، یاد گرامیؔ، یادِ ظفرؔ سے لے کر جشنِ ماسٹر محمد واصلؔ، جشن خدا بخش پہلوان اور جشن ماسٹر اقبال خاں جیسی تقریبات شامل ہیں۔ یہاں جشنِ غالبؔ اور جشنِ اقبال بھی جس عظیم پیمانے پر منائے گئے وہ بہت سے نام نہاد بڑے ادبی مراکز کے لیے لائقِ رشک تھے۔ بر صغیر ہند کے کم و بیش تمام اہم اور قابلِ ذکر فنکار وقتاً فوقتاً کھنڈوہ کی ادبی تقریبات میں شریک ہوتے رہے ہیں۔

آزادیِ ہند سے قبل یہاں کے شعراء، دو اساتذہ کی رہنمائی میں کسبِ سخن کرتے تھے جن کے نام نامی ہیں جناب فتح محمد ظفرؔ اور حضرت نورؔ نظامی۔ استاد ظفرؔ اپنی مفلوک الحالی کے باوجود انتہائی بذلہ سنج اور شگفتہ مزاج انسان تھے۔ ذہنی اعتبار سے چاق و چوبند اور جسمانی اعتبار سے تنو مند۔ آواز بھی ماشاء اللہ ایسی گرج دار پائی تھی کہ مائک فیل ہو جانے کے با وصف انھیں کافی دور سے سنا جا سکتا تھا۔ کلام کا رنگ داغؔ اسکول سے مطابقت رکھتا تھا اور تحقیق کی جائے تو شاید ان کا سلسلہ تلمیذ بھی داغؔ سے ملایا جا سکتا ہے۔ انتہائی برجستہ، شستہ، رواں دواں اور بے ساختہ شعر کہتے تھے۔ بلا مبالغہ کئی درجن شاگرد ان سے اس حد تک فیض حاصل کرتے تھے کہ ایک آدھ مصرعے کے علاوہ پوری کی پوری غزل استاد کی ودیعت کردہ ہوتی تھی۔ میں اس امر کا چشم دید شاہد ہوں کہ موصوف بیک وقت دس پندرہ شاگردوں کو طرحی مصرعوں پر غزلیں فی البدیہہ یوں لکھوا دیا کرتے تھے جیسے ہم اور آپ آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ نہ صرف تا عمر تالیف سخن کرتے رہے بلکہ اپنی اصلاحوں اور فیض صحبت کے ذریعے انھوں نے کھنڈوہ میں شاعروں کی ایک بہت بڑی نسل تیار کی۔ سہل ممتنع میں ایسے صاف ستھرے شعر نکالتے تھے اور زبان کا ایسا اچھا ستھرا شعور انھیں حاصل تھا کہ آج اس کی مثالیں کمیاب ہیں۔ بے تکلفی، محاورہ بندی اور محاکات نگاری ان کے امتیازات کلام ہیں۔ اکثر کھنڈوہ سے باہر بھی دور دور کے مشاعروں میں شرکت فرماتے تھے۔ اپنے دور میں انھوں نے دوسرے علاقوں میں کھنڈوہ کے ادبی مزاج کی نمائندگی کی۔ افسوس کہ موصوف کو رسائل میں چھپنے چھپانے سے رغبت نہ تھی، نہ ہی ان کا مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آسکا۔ اس لیے مثالیں زیادہ پیش نہ کر سکوں گا۔ چند اشعار جو حافظے میں محفوظ رہ گئے ہیں تبرکاً حاضرِ خدمت ہیں :

میری حیرت اس کی رونق عکسِ زیبا ضوئے دل

آپ کا رکھا ہی کیا ہے آپ کی تصویر میں

………

آج اپنی بلندی پہ اسے ناز ہے بے جا

وہ خاک جو کل تک مری ٹھوکر سے اُڑی ہے

………

تمھارا اس قدر بے داد کرنا

سکھادے گا مجھے فریاد کرنا

………

مرے کردار پر عنوان اب بھی رشک کرتا ہے

مری روداد سے دنیا کے افسانے نہیں ملتے

نامناسب نہ ہو گا اگر اس موقعہ پر مدھیہ پردیش اردو اکاڈمی کے عہدیداران سے اہالیانِ کھنڈوہ کی جانب سے درخواست کروں کہ وہ استاد ظفرؔ کا مجموعۂ کلام اکاڈمی سے شائع کرنے کا بندوبست کریں۔

ظفرؔ کھنڈوی کے ہم عصر شاعر نورؔ نظامی بھی استادانہ مرتبہ پر فائز تھے۔ موصوف سے استاد ظفرؔ کی معاصرانہ چشمک بھی رہا کرتی تھی لیکن اس کی نوعیت آج کی ادبی چشمکوں سے مختلف تھی۔ ہمارے دور میں ادیب و شاعر ایک دوسرے سے ذاتی منافقت اور عناد کی اس منزل پر پہنچ جاتے ہیں جہاں فریق مخالف کو مالی نقصان پہچانا اور شخصیت کو ذلیل کرنا جائزسمجھا جاتا ہے۔ جن دو اساتذہ کا ذکر میں یہاں کر رہا ہوں ان کی معاصرانہ چشمکیں ادبی دائروں میں ہوتی تھیں جن سے تخلیقی صلاحیتیں جلا پاتی تھیں، فن پر زیادہ توجہ صرف کرنے کی فضا بنتی تھی اور ادب کو نئی جہات نصیب ہوتی تھیں۔ حضرت زین خان نور نظامی بھی تلامذہ کا ایک وسیع حلقہ رکھتے تھے۔ ان کی شخصیت استاد ظفرؔ سے بالکل متضاد تھی۔ نحیف الجثّہ، مرنجاں مرنج انسان تھے۔ بہت دھیمے انداز میں پڑھتے تھے۔ شائستگی اور نفاست کا نمونہ، نازک طبع اتنے کہ اکثر ناک پر رومال دیے رہتے اور چپاتیوں کی سیاہ چتّیاں بلیڈ سے کھرچ کر لقمہ توڑتے، کلام بھی ان کی شائستگی اور نرم مزاجی کا آئینہ دار تھا۔ دبستانِ امیر مینائی سے متاثر تھے اور یہی رنگ ان کے اشعار میں ابھرا ہوامحسوس ہوتا ہے۔ نرم و سبک الفاظ میں معاملات حسن و عشق اور وارداتِ قلب کی ترجمانی نہایت عمدہ کرتے تھے۔ موصوف کا مجموعۂ کلام بھی شائع نہیں ہو سکا۔ اکادمی کے لیے ایک اور لمحۂ فکر۔ یاد داشت کے سہارے کچھ اشعار نمونتاً پیش ہیں :

شبِ دیجور میں ترا ہنسنا

بدر کی چاندنی سے ملتا ہے

……

علم و حکمت کا راستہ اکثر

دشت دیوانگی سے ملتا ہے

………

دسترس میرے جنوں کی نہ وہاں تک ہو جائے

دامنِ دل کو مرے پردۂ محمل نہ بنا

………

عیش منزل ہے تخئیل میں ترے خود موجود

اس لیے راہ طلب میں کوئی منزل نہ بنا

شیخ حمید کاکلؔ کے زیادہ اشعار تک میری رسائی نہیں ہوسکی۔ ان کا کلام بھی استادانہ ہوتا تھا۔ دو ایک شعر جو ہاتھ آئے پیش کرتا ہوں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ معنی آفرینی اور طرزِ ادا دونوں کا لطف ان میں موجود ہے :

ساحل پہ سر پٹکتا ہے دریا ترے لیے

آ جا کہ خاک اڑاتا ہے صحرا ترے لیے

………

موسیٰ کے ساتھ طور پہ پہنچا خیال یار

خالی رہے گا عرش معلی ترے لیے

حکمت اللہ اخترؔ بھی اس دور کے ایک کہنہ مشق اور قادر الکلام شاعر ہیں اور فن کی قدیم اقدار کے پاسدار۔ فرماتے ہیں :

اثر پذیر جو ہوتے ہیں لالہ زار سے ہم

تراش لیتے ہیں نغمہ لبِ بہار سے ہم

………

چل بسا ہے کیا کوئی دیوانہ نازک مزاج

ہر کڑی کرتی ہے ماتم خانۂ زنجیر کی

تجمل حسین خاں جوہرؔ، امیر الدین اثر، اسد استاد، رحیم خاں شباب، حیات خاں مضطر، یعقوب خاں بصرؔ، عبد الرحمن نسیمؔ، شجاعت اللہ خاں راحتؔ، محمود خاں خانؔ کم و بیش انھیں اساتدہ کے معاصرین میں آتے ہیں جن کے کلام تک دسترس نہ ہونے کے باعث تفصیل سے اظہارِ خیال کرنے سے معذور ہوں۔ ان اساتذہ کے بعدلکھنے والوں کی جونسل منظرِ عام پر آئی ہے اس میں مقبول نیازی بمبئی کے صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ میں اردو کے استاد تھے۔ ان کی ایک کتاب ’’برگ سبز‘‘ شائع ہو چکی ہے لیکن انھیں شہرت بحیثیت صحافی زیادہ نصیب ہوئی۔ موصوف بمبئی کے مشہور روز نامہ ’’ اردو ٹائمز کے بانیوں میں سے تھے۔ ریاض احمد خاں ’ قومی راج ‘بمبئی کے مدیر ہیں۔ عزیز قصری پونہ میں پرنسپل تھے۔ رسائل میں چھپنے والے اچھے شاعر ہیں۔

ماہر القادری کے دو شاگرد کھنڈوہ میں بہت مشہور تھے عیش ماہری اور شوق ماہری۔ عیشؔ  بھی حالانکہ چھپنے چھپانے کے زیادہ قائل نہ تھے لیکن خوب کہتے تھے اور جم کر پڑھتے تھے۔ جگرؔ اور ماہر القادری کی غزل کا ملا جلا انداز ان کے اشعار سے نمایاں تھا۔ افسوس کہ موصوف کی عمر زیادہ دور تک ان کا ساتھ نہ دے سکی ورنہ ان کی صلاحیتیں اور بھی جلا پاتیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

اے دوست ترے دیوانوں کی دنیا بھی نرالی دنیا ہے

پھولوں سے بھی الفت ہے ان کو کانٹوں پہ بھی چلتے رہتے ہیں

………

ہمیں پینے سے مطلب ہے غرض کیا جام و مینا سے

جہاں بیٹھے وہیں چُلّو کا پیمانہ بنا ڈالا

حشر کے دن مجھے سچ کہنے کی توفیق نہ دے

کوئی ہنگامہ بپا ہو مجھے منظور نہیں

ماہر القادری کے دوسرے شاگرد شوقؔ ماہری اس دور کے ممتاز ترین شاعر ہیں اور اب ماشاء اللہ اساتذہ کی صف میں شمار کیے جاتے ہیں۔ موصوف نے مشاعرے لوٹنے کے ساتھ ساتھ رسائل میں اپنے کلام کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہے۔ میرا خیال ہے مدھیہ پردیش میں اس رنگ کی غزل جیسی کہ ماہر القادری کہتے تھے شوقؔ ماہری سے بہتر کوئی شاعر نہیں کہہ سکتا۔ انھوں نے نظمیں بھی لکھی ہیں اور غزلیں بھی۔ دونوں جگہ زبان و بیان کے رموز پر گہری گرفت، طرزِادا کی لطافت اور کلاسیکی رچاؤ نے شوقؔ ماہری کے کلام میں شگفتگی اور جاذبیت کے جادو جگائے ہیں۔ روایت کے صحت مند عنصر کو برقرار رکھتے ہوئے شوقؔ ماہری نے عصری آگہی کے چراغ بھی اپنے کلام میں روشن کیے۔ دیکھیے کس بانکپن کے ساتھ کہتے ہیں :

کیوں آئے کسی اور پہ الزامِ محبت

ہر شخص یہاں دار کے قابل ہی کہاں ہے

………

نغمہ گو مہر بلب، حسرت نغمہ خاموش

اور جہاں گوش بر آواز، یہ قصہ کیا ہے

………

کون جانے مجھ کوکس منزل پہ لے آیا جنوں

اب مجھے بھی حسرتِ دیوار و در ہونے لگی

………

اب ان سے محبت کا تقاضا بھی نہیں ہے

اور بھول گئے ہوں انھیں ایسا بھی نہیں ہے

………

بہاروں کا اسیرانِ فقس تک

صبا پیغام لے کر آ رہی ہے

………

قیامت کا یقیں کرنا پڑے گا

تمھارا نام لے کر آرہی ہے

………

پہلے جب تک نہ تیرا نام لیا

ہم نے شیشہ چھوا نہ جام لیا

شوق ماہری بلا شبہ کھنڈوہ کے لائقِ فخر شعراء میں سے ہیں۔ تذکرہ نا مکمل رہے گا اگر ان کی نظم ’سحر نہ ہوسکی‘کا ذکر نہ کیا جائے جو اپنی جگہ ایک بھرپور اور خوبصورت فن پارہ ہے، اس کا بند یاد آ رہا ہے :

ماہ و انجم نے بہت شمعیں جلائیں لیکن

تیرگی چھٹ نہ سکی ظلمتِ شب کم نہ ہوئی

ایک اک گام پہ امید نے کھائی ٹھوکر

پھر بھی ہر گام پہ منزل کی طلب کم نہ ہوئی

ڈاکٹر ممتاز احمد خوشترؔ کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں۔ موصوف کے مجموعہ ہائے کلام ’گل افشانیاں ‘ اور ’ افکارِ خوشترؔ‘ ۱۹۶۷ء میں مکتبہ دین و ادب لکھنؤ نے بڑے اہتمام سے شائع کیے تھے جن کے لیے پیش لفظ اور دیباچہ پنڈت ماکھن لال چترویدی اور ناطق گلاوٹھی نے اور دوسرے کئی اکابرین ادب نے اپنے تاثرات لکھے تھے۔ ڈاکٹر خوشترؔ نہ صرف پُر گو شاعر تھے بلکہ کھنڈوہ میں شعر و ادب کا ذوق عام کرنے میں ان کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ اکثر مقامی شعراء کو ساتھ لے کر باہر کے مشاعروں میں شرکت بلکہ صدارت فرماتے۔ خود اپنے دولت کدہ پر باقاعدہ طرحی اور غیر طرحی نشستیں رکھتے اور حتی الامکان باہر سے آنے والے شاعروں کی خاطر و مدارات کرتے تھے۔ مرحوم کو جا نشین داغؔ، مولانا ناطقؔ گلاوٹھی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ بلا مبالغہ سیکڑوں غزلیں اور قطعہ ہائے تاریخ کہے۔ کلام میں پختگی اور سلاست کی کمی نہ تھی۔ یہ اشعار دیکھیے :

کشتِ امید پر نہ ہوئی بارشِ کرم

اب کے برس بھی جشنِ بہاراں نہ ہو سکا

………

جب سے خفا ہوئے ہیں وہ کیفِ شباب مٹ گیا

روٹھ گئی ہے فصلِ گل مجھ سے بھری بہار میں

………

جیتے جی ہم کو رہا تیرے نمک داں کا خیال

زخمِ دل کس دِن رہینِ منّتِ مرہم ہوا

……

میں کہاں اور کہاں ایسے جنوں کے انداز

وحشتِ دل یہ تری حوصلہ افزائی ہے

احمد علی گرامیؔ چشتی بھی اسی دور کے شاعر ہیں۔ بے حد طبّاع اور ذہین قلمکار تھے۔ طبیعت کا میلان نثر اور صحافت کی طرف زیادہ تھا۔ مدتوں بمبئی سے  ہفت روزہ ’طوفان‘ گرامی چشتی کی ادارت میں نکلتا رہا جس کے نام سے ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ موصوف کی نثر خاصی تلاطم خیز رہی ہے۔ انھوں نے ہندوستان کی جنگ آزادی کے موضوع پر کچھ ڈرامے بھی قلمبند کیے۔ اشعار میں بھی ان کی پُر جوش طبیعت اور کج کلاہی کی شان نظر آتی ہے۔ ذرا ان شعروں کا طمطراق بھی ملاحظہ فرمائیے :

نظر سو بار پہنچی ہے وہاں پر

قیامِ صبح محشر ہے جہاں پر

………

رکا کسی سے نہ سیلاب میری وحشت کا

جڑیں اکھاڑ کے رکھ دیں پہاڑ کی میں نے

………

حیات و موت کی اس کشمکش میں مبتلا ہوں میں

کہ جیسے کوئی کشتی میں ہو اور کشتی ہو طوفاں میں

ایوب شاداںؔ  احسانی کا تعلق بھی شعراء کی اسی جماعت سے تھا۔ غزل بڑے سلیقے اور اہتمام سے کہتے تھے اور کلاسیکی روایات کی پاسداری کا خاص لحاظ رکھتے تھے۔ قدیم رنگ میں شگفتہ اور جاذب توجہ اشعار کی ان کے کلام میں کمی نہیں۔ آپ بھی ڈاکٹر خوشترؔ کے ہمراہ بیرونی کل ہند مشاعروں میں شرکت فرماتے تھے۔ احسان دانشؔ کے شاگرد تھے۔ ان کے کلام سے بھی لطف اندوز ہوں :

میں جس رخ پہ پاتا ہوں زور آندھیوں کا

بناتا ہوں جا کر وہیں آشیانہ

………

موت کی کشمکش نگاہ میں ہے

کاروانِ حیات راہ میں ہے

………

جدھر دیکھو نظر آتی ہیں تصویریں نشیمن کی

قفس میں کس سے سن لی ہے رہائی کی خبر میں نے

………

جنوں میں کام جو لیں جذب و اختیار سے ہم

غمِ خزاں کو بدل دیں ابھی بہار سے ہم

برکت اللہ نیّر اسی عہد کے ایک شاعر ہیں۔ اپنے کلام کی پختگی اور شگفتگی کے اعتبار سے اس مضمون میں شمولیت کے مستحق ہیں۔ انھوں نے کم کہا اور اس سے بھی کم شائع ہوئے۔ اشعار میں غمِ دوراں اور غمِ جاناں کی آمیزش سے بڑی تاثیر پیدا کرتے ہیں۔ کلام کا انداز خالصتاً روایتی ہونے کے باوجود دلکشی کا حامل ہوتا ہے۔ موصوف کے چند شعر سنیے :

عیش کی تحصیل میں جب کٹ گئی شاخِ امید

غم کو اپنی زندگی کا جز بنانا ہی پڑا

آنچ جب آنے لگی خود داریوں کی آن پر

حسرتِ معصوم کا بھی خوں بہانا ہی پڑا

جس نے نیّرؔ ہم سے ہی سیکھے تھے آدابِ وفا

اس کے ہاتھوں بھی جفا کا تیر کھاناہی پڑا

………

بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں ابھرنے والے فنکاروں میں ’’نئے چراغ‘‘ گروپ کے مدیران انفرادی حیثیت کے حامل ہیں ان میں سب سے پہلے حسن بشیر مرحوم یاد آتے ہیں جنھوں نے عین عالمِ شباب میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ اس شہر میں اردو تحریک کو اپنا خون دے کر زندہ رکھنے والوں میں موصوف کا نام بھی نمایاں ہے۔ وہ ماہرِ تعلیم بھی تھے۔ بروڈ ہائر سکنڈری اسکول کے پرنسپل کی حیثیت سے انھوں نے مہاراشٹر کے علمی حلقوں سے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اعتراف کرایا۔ انھیں فکر دامن گیر تھی کہ اردو اسکولوں کے لیے ریاضی، معاشیات، سائنس وغیرہ جیسے مضامین پر درسی کتابیں سلیقے سے تیار کرائی جائیں غالباً اس نوع کی کچھ کتابیں مرحوم نے خود بھی لکھیں۔ حسن بشیر کو نظم و نثر پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ ماہنامہ ’’ نئے چراغ‘‘ کے مستقل کالم ’ مشاہدات ارسطو‘ کے کچھ اجزاء راقم الحروف کے ساتھ انھوں نے بھی قلم بند کیے اور پرچے کے لیے جو چند اداریے ان کے قلم سے نکلے وہ بھی نثر پر ان کی مضبوط گرفت کے گواہ ہیں۔ ۱۹۵۸ء کے آس پاس وہ جیسی شوخ، بے باک، گہری، علاقائی اور عصری حسّیت سے لبریز غزلیں کہا کرتے تھے آج بھی دامنِ دل کو اپنی طرف بے ساختہ کھینچتی ہیں۔ زبان کی لطافتوں کاجیسا شعور انھیں حاصل تھا اس سے توقع تھی کہ ادبی میدان میں ان کے ذریعہ کھنڈوہ کا نام بے حد روشن ہو گا۔ افسوس کہ   ع  خوش درخشید ولے شعلۂ مستعجل بود

ان کی شعری صلاحیتوں کا کچھ اندازہ ان اشعار سے کیا جا سکتا ہے :

خون اتنا بہا تیز تلوار سے تشنگی موت کی حد کو چھونے لگی

کاسۂ آب گردش بھی کرتا رہا اور ہر صف شکن یونہی مرتا گیا

………

سیکڑوں رنگ میں لفظ کے روپ میں خون کی شکل میں راہ چلتے ہوئے

سر سے ایڑی تلک اتنے سوراخ تھے مجھ میں جو کچھ بھی تھا سب بکھرتا گیا

………

پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر باغباں اے بشیرؔ اس کے نغموں میں کھویا رہا

شاخ در شاخ وحشی پرندہ ادھر سارے میٹھے پھلوں کو کترتا گیا

………

میں کہ پھیلا ہوا ہوں کتابوں کے صفحات پر جا بجا

کوئی دیمک بھری بند الماریوں سے نکالے مجھے

………

لوگ ٹکڑوں میں بٹے جاتے تھے

لفظ تھے ہاتھ میں تلوار نہ تھے

میں بحر معانی سے گُہر رول رہا ہوں

قابو میں نہیں موجۂ تحریر، مجھے کیا

حسن بشیرؔ ہر اعتبار سے ایسے شاعر تھے کہ اکادمی ان کے مجموعۂ کلام کی اشاعت پر غور کرے اور انھیں دیمک بھری بند الماریوں سے نکالے۔

حسن رضاؔ کا نام حسن بشیرؔ کے ساتھ ایسا جڑا ہوا ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر ان میں سے کسی کا وجود مکمل نہیں سمجھا جا سکتا۔ ایسی ہم مزاجی اور ہم آہنگی بہت کم دوستوں میں پائی جاتی ہے۔ ۱۹۵۸ء کے بعد سے آج تک اردو کی بقا اور ترویج کے لیے قاضی حسن رضاؔ نے ذاتی طور پر جتنی قربانیاں دی ہیں اس کی مثال مجھے دور دور تک نظر نہیں آتی۔ اردو ہائر سیکنڈری اسکول کے قیام کے لیے اس شخص نے عمائدین شہر سے جیسی معرکہ آرائیاں کیں اور جتنے نقصانات برداشت کیے ان کی روداد بے حد طویل ہے لیکن جب یہ اسکول۔ جس میں حسن رضاؔ اور حسن بشیرنے عرصے تک بلا معاوضہ تدریسی خدمات بھی انجام دیں، خود کفیل ہو گیا تو اس کے ان اہم ستونوں کو بے روزگاری کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ حسن رضاؔ نے ہمت ہارے بغیر ایک دوسرے مڈل اسکول کی داغ بیل ڈالی جو آج کامیابی سے چل رہا ہے لیکن وہاں بھی اس خادم اردو کی عافیت خطرے میں ہے۔ میں نے ساتھ رہ کر مشاہدہ کیا ہے کہ حسن رضاؔ نے کھنڈوہ میں عظیم الشان ادبی تقریبات اور کانفرنسیں منعقد کی ہیں۔ خود دریاں بچھاتا اور اٹھاتا رہا اور دوسرے سرخروئی لوٹتے رہے۔ اس شخص کے خانگی حالات بھی انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ اپنی اہلیہ سمیت تپ دق کے مہلک مرض میں مبتلا یہ البیلا شاعر اپنی شخصیت کے کرب اور ذہنی کشمکش کو جس خوبصورتی کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالتا ہے اس سے کلام میں آئینہ داری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ گھلاوٹ اور صلابت دو متضاد چیزیں ہیں جنھیں حسن رضاؔ نے اپنے پُر تاثیر اشعار میں ایسی مہارت سے گوندھا ہے کہ وہ اعلیٰ اقدار، نئی حسیت اور نازک ترین کیفیات کے حامل بن گئے۔ اپنی ذات کی طرح حسن رضاؔ اپنے کلام سے بھی بے نیازی برتتا رہا ہے جس کی بنا پر اسے وہ ادبی اہمیت حاصل نہیں ہو سکی جو اس کا حق ہے۔ ایسے شعر کہنے والا کوئی معمولی شاعر نہیں ہو سکتا:

سر سے آسیب خودی یوں تو نہیں اترے گا

اپنی ہی ذات کے شیشے میں اترنے دے مجھے

وہ بند مٹھیوں کو مری کھولنے نہ دے

غیرت ادھر زباں سے مجھے بولنے نہ دے

………

جنگل میں اجیالا برسے

میرا آنگن نُور کو ترسے

………

آخری ہچکیاں لے رہا تھا دیا، سورہی تھی ہوا، اونگھتی رات تھی

غم کے ہاتھوں میں خنجر چمکتا ہوا اور کمرے میں تنہا مری ذات تھی

………

نہ روکیے کہ بگولے طواف کرتے ہیں

بلا رہا ہے بڑی دیر سے غبار مجھے

قاضی حسن رضاؔ کی کم و بیش پچیس سالہ علمی و ادبی خدمات اور اردو پرستی کا تقاضا ہے کہ مدھیہ پردیش اردو اکادمی کم از کم اس کے مجموعۂ کلام کو زیورِ طباعت سے آراستہ کرے۔

اس گروپ کے آخری شاعر قاضی انصار ہیں۔ موصوف ہمہ جہت قلم کار ہیں یعنی انھوں نے نثر میں بھی گل افشانیاں کی ہیں اور شاعری میں بھی روانیِ طبع کے جوہر دکھلائے ہیں۔ عرصہ سے خدمتِ زبان و ادب میں مصروف ہیں۔ اردو کے اسکولوں کے قیام اور ادبی جلسوں کے انعقاد میں جی کھول کر حصہ لیتے رہے ہیں اور انتظامی امور میں پوری مہارت رکھتے ہیں۔ پندرہ بیس سال قبل بچوں کے لیے کہانیوں کی کچھ کتابیں انھوں نے لکھی تھیں جو چمن بک ڈپو دہلی نے شائع بھی کی تھیں۔ بعد ازاں ایسا محسوس ہوتا رہا کہ یہ چھپنے کے لیے نہیں چھُپانے لیے لکھتے ہیں۔ آج کل غزلیں زیادہ کہہ رہے ہیں۔ اشعار میں خاصی جان ہوتی ہے۔ روانی برجستگی اور شگفتگی ان کے شعر کے جوہر ہیں۔ اگر سنجیدگی اور لگن کے ساتھ کہتے رہیں، رسائل پر آنے سے شرمائیں نہیں تو جدید شاعری کو ایک اور اچھا غزل گو مل سکتا ہے۔ ثبوت کے طور پر جدید رنگ و آہنگ اور عصری آگہی کے حامل یہ شعر دیکھیے :

ہم سفر جس جگہ بس ٹھہر جائے گی

تیری یادوں کو لے کر اُتر جاؤں گا

انصارؔ ترے دل پر زخموں کے شگوفے ہیں

اشعار کا گلدستہ مہکائے ہوئے رکھنا

………

واقفِ حال تھا ایک ایک پڑوسی اپنا

پھر بھی ہم کرتے رہے اپنے ہی گھر کی تعریف

………

ضیاء الدین ضیاؔ نے طویل عرصے تک ریاضتِ فن اور فکر سخن کی ہے جس کے ثمرے میں انھیں قدرتِ کلام اور صفائیِ زبان کے جوہر نصیب ہوئے ہیں۔ ان کے اشعار میں سماجی مقصدیت کی فراوانی اور انسانی تجربات کے گونا گوں رنگوں کی کثرت ہے۔ فرماتے ہیں :

جنگ مقصد زباں درازی کا

امن کی خواستگار خاموشی

………

تجربہ تجھ کو نہیں دور سمندر میں نہ جا

تیری کشتی کو بھنور کوئی نگل جائے گا

………

پیاسے سمندروں کی طرح چیختی نہیں

خاموش و پُر سکوں ہے کہ سیراب جھیل ہے

حفاظتؔ کھنڈوی بھی کم و بیش ربع صدی سے شعر کہہ رہے ہیں اور کھنڈوہ میں تشکیل و تکمیلِ فن میں ان کا بھی برابر حصہ ہے۔ شاعر گر بھی ہیں اور مشاعرہ باز بھی۔ اپنی انجمن ’ بزم خادمانِ اردو‘ کے تحت انھوں نے بھی درجنوں کامیاب مشاعرے کھنڈوہ میں برپا کیے ہیں اور اس طرح اس شہر کا نام دور دور تک پہنچایا ہے۔ طبیعت میں سیماب صفتی اور تلوّن پایا جاتا ہے اور اشعار میں بھی یہ خصوصیات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ ڈوب کر کہتے ہیں اور شعر میں رچاؤ پیدا کر دیتے ہیں۔ اساتذہ کے فیضانِ صحبت نے انھیں زبان و بیان کی نزاکتوں کا نباض بنا دیا ہے۔ سلاست، روانی، بر جستگی اور گھلاوٹ ان کی غزل کے امتیازی نشانات ہیں۔ چھپنے چھپانے کے یہ بھی زیادہ قائل نہیں ورنہ آج کی تخلیقی نسل اور ادبی دنیا میں ان کا مقام نمایاں ہوتا۔ کچھ اشعار دیکھیں :

تا عمر گرفتار بلا ہو کے جیے ہیں

جیسے کسی مفلس کی دعا ہو کے جیے ہیں

………

ہم نے رکھا ہے بھرم عارض و لب کا ورنہ

کون چھوتا ہے دہکتے ہوئے انگاروں کو

………

چاند کو فتح کر چکا ہے مگر

آدمی ٹھوکروں کی زد میں ہے

………

خود جلا ڈالا نشیمن میں نے اتنا سوچ کر

زندگی بھر بجلیوں سے کون شرمندہ رہے

………

دوستوں کی نوازشیں مت پوچھ

مدتوں دل پہ آبلے سے رہے

………

اس نسل کے شعراء میں حکمت اللہ شاعرؔ ہندی اپنی غزلوں کے فنی رکھ رکھاؤ اور شائستہ انداز، پر سوز لہجے اور موثر کیفیات کے وسیلے سے پہچانے جاتے تھے۔ انھیں بھی کلام کے شائع کرانے سے بہت کم رغبت رہی اس لیے مشاعروں کی حد تک ہی محدود رہے ورنہ اچھی شعری صلاحیتوں کے ہر طرح حامل تھے۔ یہ بھی ہوا کہ ان کی عمر نے زیادہ وفا نہ کی پھر بھی جتنا اور جیسا کچھ کہہ گئے ہیں وہ انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ ان کی غزلوں کے جو اشعار حافظہ میں محفوظ رہ گئے ہیں ملاحظہ فرمائیے :

دو چار گام اور ابھی عزم نوجواں

تھوڑی سی دور اور ہیں منزل سے ہم ابھی

………

اس قدر نا آشنا ہیں زندگی کے نام سے

اشک آ جاتے ہیں آنکھوں میں خوشی کے نام سے

سلیقہ شرط ہے دنیا میں کچھ نہیں مشکل

ہوا کے رخ پہ جلاؤ چراغ جلتا ہے

………

ہوا فلک پہ نمودار صُبح کا تارا

سحر قریب ہے، ظلمت کا دم نکلتا ہے

اس گروپ سے متعلق یعقوب رِندؔ بھی ہیں۔ فکر معاش میں فکر سخن سے کنارہ کش ہو چکے ہیں کسی زمانے میں خوب کہتے تھے۔ ان کے اشعار میں سادگی اور سلاست کے ساتھ معاملات حسن و عشق اور واردات قلب کی ترجمانی کا دلکش انداز جھلکتا ہے۔ نمونتاً دو شعر سماعت فرمائیے :

جفا کو تمھاری کرم جانتے ہیں

محبت ہے کیا چیز ہم جانتے ہیں

………

اس نظر کی ایک جنبش کیا کہوں

کم نہیں ہے گردشِ ایام سے

احسانؔ کھنڈوی کا دلکش کلام بھی اس پایہ کا ہے کہ اس مضمون میں جگہ پائے۔ ان کے بیشتر اشعار میں ظفرؔ کھنڈوی کے لہجے کی بے تکلفی اور کرارا پن محسوس ہوتا ہے جس میں طنز کی ایک زیریں لہر کروٹیں لیتی ہے۔ کہتے ہیں :

جسے ہم نا خدا سمجھے ہوئے تھے

وہی کشتی ڈبوتا جا رہا ہے

………

یوں تڑپ کر تمنّا نے آواز دی

جاتے جاتے پلٹ کر شباب آ گیا

………

اپنی حد سے بڑھ چلی ہیں ظلمتیں ماحول کی

پھر نئے سورج اُگانے کا زمانہ آ گیا

مصوّرؔ کھنڈوی کی مشق سخن بھی کافی طویل ہے۔ سوچ سمجھ کر کہتے ہیں اور شعروں میں مرصع ساز کی طرح بندش الفاظ سے حسن پیدا کرتے ہیں۔ داخلی کیفیات کی ترجمانی اور معاملات حسن و عشق کی عکاسی سے ان کی غزل تابانی حاصل کرتی ہے۔ کلام کا رنگ کچھ ایسا ہے :

میری دیوانگی کے حسیں سلسلے

آپ کی زلف کے پیچ وخم سے ملے

………

تمام عمر اندھیروں میں جن کی گزری ہے

وہ ہم سے شمع فروزاں کی بات کرتے ہیں

………

محفلِ ناز میں لگیں جب بھی زبان پہ بندشیں

میں نے زبانِ شوق کا آنکھ سے کام لے لیا

………

مرے گھر کی شمع گواہ ہے گئی رات کس پس و پیش میں

کبھی آہ کی، کبھی خط لکھا، کبھی خط کو لکھ کے جلا دیا

ایس۔ ایم۔ جلیسؔ یارانِ ’’ نئے چراغ‘‘ میں سے ہیں اردو کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں اور نیشنل اردو لائبریری میں مدتوں بلا معاوضہ خدمات انجام دے چکے ہیں۔ شعر کم کہتے ہیں لیکن معیار گرنے نہیں دیتے۔ کلاسیکی انداز کے شاعر ہیں اور اکثر تازہ کاری اور ندرت سے کام لیتے ہیں چند شعر دیکھیے :

ہمیں اٹھاؤ کہ ہم خا نماں خرابوں نے

جہاں قیام کیا ایک آشیانہ ہوا

………

کوئی مظلوم کے ہاتھوں کا پسینہ پونچھے

دست ظالم سے کوئی چھین کے خنجر رکھ دے

………

دست طلبِ دراز کیا تھا کبھی جلیسؔ

چرچا تمام شہر میں پھیلا فقیر کا

عبد اللہ شیخ کو ڈاکٹر ممتاز خوشترؔ سے شرفِ تلمذ حاصل ہے اور کم و بیش پندرہ بیس سال کی مشق سخن کے فیضان سے صاف ستھرے شعر نکالنے پر قادر ہیں۔ ان کی طبیعت میں جو بُرد باری اور رکھ رکھاؤ ہے وہی ان کے اشعار سے بھی جھلکتا ہے۔ کیا خوب کہا ہے :

کس سے مانگیں کہ وہ دامانِ تمنا بھر دے

کون ایسا ہے زمانے میں جو مجبور نہیں

اندر سین اثرؔ سابق مدیر ’شجر‘، ممتاز خوشترؔ  کے شاگرد رشید ہیں۔ رنگِ کلام یہ ہے :

اب ان سے اور کیا امید رکھیں ہم محبت کی

کبھی جو پوچھنے حالِ پریشاں تک نہیں آتے

محبوب مسرّت بنیادی طور پر موسیقار ہیں لیکن شعر بھی کہتے ہیں اور مزاج کے اعتبار سے ان کی غزل میں بھی غنائیت اور مترنم آہنگ کی کارفرمائی نظر آتی ہے :

ہر روز قیامت کیا معنی، اک روز یہ قصہ مٹ جائے

دنیا کی تباہی کی خاطر ہر روز سنور نا پڑتا ہے

………

میری قسمت سنوارنے والے

تیری زلفوں میں پیچ و خم کیوں ہے

عاصی فائقی حالانکہ برہان پور سے تعلق رکھتے ہیں، کم و بیش پچیس سال سے کھنڈوہ میں مقیم ہیں اس لیے اس جائزے میں شرکت کے حقدار بن گئے ہیں۔ انھوں نے برہان پور کے کہنہ مشق استاد حضرت فائق سے اکتساب سخن کیا ہے اور خدا کے فضل سے ان کا مجموعۂ کلام ’طاقِ نسیاں ‘ منظرِ عام پر آ چکا ہے۔ استاد کے اثر سے اشعار میں روایت کی پاسداری کا پہلو نمایاں ہے لیکن عصری رجحانات کے تقاضوں کا بھی لحاظ رکھتے ہیں۔ اس دو رنگی نے ان کے کلام میں بڑی دلچسپ گنگا جمنی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ غزل کہتے ہوئے انوکھی تشبیہات اور ہر ممکنہ قافیہ سے نبرد آزما ہوتے ہیں اور غزل کے لیے غیر مانوس خیالات کو نظم کرنے میں بڑی جی داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دو چار شعر آپ کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش ہیں :

روز و شب میں دل کے ٹیلی فون سے

گفتگو کرتا ہوں اک خاتون سے

………

دل کا برہمن اس دیوی کو

دیکھ کے بولا ہر ہر گنگے

………

نہ سایہ ہے نہ ٹہنی پر ثمر ہے

یہ موجودہ زمانے کا شجر ہے

………

نقش پا بھی بلند ہیں دیکھو

کار فرمائیاں بگولوں کی

عاصیؔ فائقی کے استاد بھائی صفدر رضاؔ کھنڈوی کا مجموعۂ کلام ’ موجوں کا سفر‘ حال ہی میں مدھیہ پردیش اردو اکادمی کی مالی معاونت سے منظر عام پر آیا ہے۔ ان کے کلام میں جدید رنگ و آہنگ کا عنصر شامل ہے۔ ان میں صلاحیتوں کی کمی نہیں۔ اگر فنی نشیب و فراز پر مناسب توجہ صرف کرتے رہے تو یقیناً اپنی شناخت کو جلد مستحکم کر لیں گے۔ ان کے مجموعۂ کلام تک میری دسترس دیر سے ہو سکی ہے۔ چند اشعار نمونتاً پیش کر رہا ہوں :

گھر کو لوٹے کوئی بھٹکا ہوا راہی جیسے

یاد آتے ہیں ترے قول و قسم شام ڈھلے

………

آزادیِ وطن کی جہاں بات آ گئی

سر اپنے تھالیوں میں سجا لائے یار لوگ

………

ہے تشنگی عزیز تو اک کام کر رضاؔ

سینے میں کچھ سرابوں کے منظر اتار لے

پچھلی دہائی میں کھنڈوہ کے ابھرنے والے فنکاروں میں ایک اہم نام سکندر عرفانؔ کا بھی ہے۔ ان کا وطن ایلچ پور ہے لیکن ادبی شناخت انھوں نے کھنڈوہ سے مستحکم کی ہے۔ پہلے قاضی حسن رضاؔ سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔ آج کل ضیاء الدین ضیاؔ کے حلقۂ تلامذہ میں ہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصر مقامی دوسرے شعراء کی طرح رسائل میں چھپنے سے گریزاں نہیں ہیں۔ چنانچہ ان کی تخلیقات اکثر ’بانو‘، ’روبی‘ اور دوسرے رسائل میں چھپتی رہتی ہیں۔ بنیادی طور پر سکندر عرفانؔ رومانی شاعر ہیں۔ عشق و محبت کے وہ جذبات جو عنفوانِ شباب میں شاعروں کو مرغوب ہوا کرتے ہیں ان کے کلام میں اساسی اہمیت رکھتے ہیں۔ سبک اور نرم الفاظ کے استعمال پر انھیں قدرت حاصل ہے اور فنی لغزشیں بھی ان کے یہاں کم پائی جاتی ہیں۔ اگر وہ دلجمعی اور توجہ کے ساتھ تخلیق کی راہ پر گامزن رہے تو ان سے خاصی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ وہ کھنڈوہ کے ان معدودے چند شعراء میں سے ہیں جو نظم بھی لکھتے ہیں۔ ان کی غزل کے دو شعر مثال کے طور پر پیش ہیں :

کبھی اداس کبھی نغمہ خواں گزرتے ہیں

تصورات میں کیا کیا سماں گزرتے ہیں

………

کبھی سیاہ کبھی نیلگوں، شفق آلود

ہمارے سر سے کئی آسماں گزرتے ہیں

رگھو بیر سنگھ بخشیؔ، حیدر علی اظہارؔ، ضیاء خوشتری، ڈاکٹر مجید ماہری، خلیلؔ کھنڈوی، آدم علی عامرؔ، تراب خاں ترابؔ، حکیم محمد شفیع طیغوری، امین الدین امینؔ، محسن علی معصوم‘ ذوقؔ کھنڈوی، حیات نظر، تیواری نڈرؔ، محمد عمر نشترؔ، یعقوب نسیمؔ، خان بابو تحریکؔ، طالبؔ قریشی، بشیر ہندی، قدرت اللہ راہیؔ، اسمٰعیل رونقؔ اور شبانہ خانم وغیرہ کے اشعار اپنی عدم استطاعت کی وجہ سے درج نہیں کر سکا اور اسی وجہ سے ان کی شاعری پر اظہار خیال سے بھی معذور رہا جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ استاد ظفرؔ کے شاگرد جوہرؔ کھنڈوی بھی کبھی اردو میں شعر کہا کرتے تھے۔ آج کل مانک ورما کے نام سے وہ ہندی کے کوی سمیلنوں میں بے حد مقبول ہیں اور اردو سے تقریباً بیزار ہو گئے ہیں۔ بھوپال کے مزاح نگار شاعر حمید صدیقی اور اورنگ آباد کے مشہور جدید شاعر قمر اقبالؔ بھی عرصے تک کھنڈوہ میں مقیم رہ چکے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ شوقؔ ماہری، رفیق شاہدؔ اور سکندر عرفانؔ کے علاوہ کھنڈوا کے شعراء نے نظم کو لائقِ اعتناء نہیں سمجھا حالانکہ اس میں بڑے امکانات ہیں۔ نثر نگاروں میں کبھی عبد الشکور، حکیم قریشی، عبد الجبار خاں، ساجدہ بیگم، حبیب عالم اور حبیب حباب وغیرہ نے اپنی تحریروں سے توقعات بندھا ئی تھیں لیکن یہ سب عرصہ سے خاموش ہیں۔ امید ہے کہ کھنڈوہ کی نئی نسل سے کچھ نقاد اور نثر نگار بھی نمودار ہوں گے کہ یہ میدان نئے شہ سواروں کا منتظر ہے۔ بزمِ شعر میں کھنڈوہ کے کچھ فنکاروں نے طنز و ظرافت کے کچھ کنول بھی روشن کیے ہیں۔ ان میں سرِ فہرست ساحرؔادیبی کا نام آتا ہے جو ادیبؔ سہارنپوری کے شاگرد تھے اور اپنے انتقال سے کئی سال قبل اندور سے کھنڈوہ منتقل ہو گئے تھے۔ مرحوم کی طبع رسا کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ بھوپال کو مدھیہ پردیش کی راجدھانی قرار یے جانے پر انھوں نے کہا تھا:

اب سارے مگر آ گئے بھوپال میں ساحرؔ

بھوپال سے ہو تا ل یا بھوپال ندارد

مرحوم کی ایک طویل اور دلچسپ نظم کا شعر ہے :

تلوار فرشتوں کو چلاتے ہوئے دیکھا

جنّات کو بنّوٹ گھماتے ہوئے دیکھا

………

کھنڈوا میں ظریفانہ شاعری کی اس روایت کو حمید سعید دلکشؔ  نے مزید وسعت بخشی اور ان کی بذلہ سنج اور شگوفہ طراز طبیعت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ موصوف نے اس شہر میں پاگلوں کے مشاعرے کی روایت قائم کی اور درجنوں پاگلوں کو شاعر بنانے کے ساتھ ساتھ کئی شاعروں کو پاگل بھی بنا ڈالا۔ عجیب و غریب موضوعات تک ان کی دسترس ہوتی ہے اور انوکھے انداز سے بات کہتے ہیں۔ دیکھیے ان اشعار میں کیسے گل کھلائے ہیں :

ابھی سے اور منّت مان لی ہے ایک لڑکے کی

ابھی دو دن ہوئے ہیں ایک کی منّت اتاری ہے

………

وہ کتنے سورما ہیں، دِوالی میں کھُل گیا

ڈرتے ہیں پٹاخوں سے جو کرتے ہیں گن کی بات

………

ہم دونوں کے بچوں کی آپس میں نہیں بنتی

چھوٹا سا ہے کاشانہ اور ایک ہی آنگن ہے

ان کا گھر ہے پار نالے کے، ہمارا گھر ادھر

آج ترسیں گے ملن کو دونوں، نالا پُور ہے

اس سلسلے کے ایک اہم شاعر عبد الغفار  شاطرؔ بھی ہیں جن کی ہزلیات میں بڑی قہقہہ بردوش قسم کی کیفیت پائی جاتی ہے ان کے موضوعات کا دائرہ بھی وسیع ہے۔ شاطرؔ کھنڈوی اسلوب بیان بھی نہایت دلچسپ اختیار کرتے ہیں کس متانت کے ساتھ کہا ہے :

مناسب تھا کہ میں بطخوں کا کاروبار کر لیتا

خبر کیا تھی کہ مر جائیں گی ساری مرغیاں میری

………

دور کی چیز بھی نزدیک نظر آتی ہے

ٹیلی ویژن بھی مرے پیار کی ایجاد نہ ہو

………

ہو گیا اس کا کباڑا، اس کے بارہ بج گئے

جس نے ٹانکا تیری زلفوں میں گلابِ زندگی

گزشتہ چند برسوں میں نئے لکھنے والوں کی ایک بڑی جماعت کھنڈوہ میں منظرِ عام پر آئی ہے جو اپنی تازہ کاری، توانائی اور خلاقی سے متاثر کرتی ہے بہ استثنائے چند ان تخلیق کاروں کا میلان جدیدیت کی طرف ہے اور روش میں اعتدال و توازن ہے جس کی وجہ سے ان کے اشعار میں وہ اہمال اور بے معنویت نہیں پائی جاتی جس کے لیے جدید شاعری بدنام ہے۔ اس جماعت میں کافی نام شامل ہیں، سب کے تذکرے کا یہ مضمون متحمل نہیں ہوسکتا اس لیے ان میں سے صرف ان غزل گویوں کے چند شعر آپ کے گوش گزار کرتا ہوں جن کی تخلیقات میں مجھے وہ شان اور جان نظر آتی ہے جو تابناک مستقبل کی ضمانت ہوا کرتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں اس جدید ترین نسل کے شاعر کیسے کیسے روشن اور حرارت سے بھرپور سچے اور کھرے شعر کہہ رہے ہیں :

بھوکا ہو کہ پیاسا ہو ننگا ہو کہ بے گھر ہو

انسان کو جینے کی اک رسم نبھانی ہے

………

جتنی جینے کی خواہش ہماری بڑھی

اتنا دشوار دنیا نے جینا کیا

ظرف، کم ظرف نا پیں نہ غم سے مرا

یہ نہ سمجھیں کہ گھبرا کے مر جاؤں گا

( اسد اللہ اسدؔ)

مرے افکار تازہ اب بھی پابند سلاسل ہیں

کشادہ ذہن کو بیمار رکھا جائے گا کب تک

(اخترؔ محمود)

پھر یوں ہوا حبابؔ کہ دکھلا کے آئینہ

سورج تمام شہر کی رعنائی لے گیا

………

ہم کو تمھارے عکس نے بے نقش کر دیا

ورنہ ہمارے نام کا کس کو پتہ نہ تھا

(حبیب حبابؔ)

مجھ کو دیکھو کبھی احساس کے آئینے میں

میں تمھارا ہی تمھارا ہوں تمھیں کیا معلوم

(بشیرؔ زیدی)

آسان نہیں میری عظمت کو سمجھ لینا

لمحوں کی حراست میں صدیوں کا تقاضا ہوں

………

چہچہاتے نہیں بہاروں میں

کچھ پرندے عجیب ہوتے ہیں

(اقبالؔ گرامی)

وقت دیتا ہے صدا اور میں اکیلا آدمی

حکم اس کے سب بجا اور میں اکیلا آدمی

………

جب سے گھر میں آیا ہے ماہتاب سا چہرہ

بام و در ہیں تابندہ کھڑکیاں چمکتی ہیں

(گوہر انصاری)

کل اندھیرے مرے مخالف تھے

ان دنوں روشنی ستاتی ہے

………

شکایت ضربِ تیشہ کی کروں کیا

میں پتھر ہوں تراشا جا رہا ہوں

( اشفاق مضطرؔ)

ڈوب جاتی اگر مری کشتی

زخم طوفاں کا بھر گیا ہوتا

………

دیوار و در پہ پھیل گئی چاندنی فراقؔ

لگتا ہے کوئی آج مرے گھر بھی آئے گا

(ہارون فراقؔ)

رات تاریک بند کمرے میں

ہو گئی بے لباس خاموشی

………

میں بھی اک مشت خاک رکھتا ہوں

تیری مٹھی میں آسمان سہی

( صغیر منظرؔ)

یہ اشعار بتاتے ہیں کہ اُن میں نہ صرف اس بستی کی طویل ادبی روایت کا صحت مند خون موجزن ہے بلکہ ان کے تخلیق کاروں نے کھلی آنکھوں سے اپنے ماحول کا مشاہدہ کیا ہے اور یہ عصری حسّیت سے پوری طرح بہرہ مند ہوئے ہیں۔ توقع ہے ان میں سے اکثر آنے والے دور کے نمائندہ فن کار ہوں گے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف اور ان کے صاحبزادے پرویز مظفر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین ار ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید