FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

کھیل کھیل میں

 

(بچوں کی نظمیں اور نرسری رائمس)

 

۱۹۵۲ء  —  ۲۰۱۲ء

                مظفرؔ حنفی

 

 

 

 

 

موج مستی کا دن

 

چھے دن بعد آیا اتوار

بند کرو سب کاروبار

دن بھر موج کریں گے یار

 

پھر یاد آئی مدیحہ کی

ٹیٹو لکھتے ہیں چٹھّی

عرشی فوٹو بھیجے گی

 

ایڈی تو ہے ہی چونچال

ثمرہ کرتی ہے دھمّال

حمرا ٹھمّک ٹھمّک چال

 

فیضی کو رس گلّے تین

اور زمن کو دو نمکین

ایمن جاؤ بجاؤ بین

 

 

 

 

کان غائب

 

ہیں سارے بچے حیران

مدّو کب سے ہے ہلکان

عدّن بھیّا میں قربان

ڈھونڈو نا کتّے کے کان

 

ناک سلامت ہے دُم بھی ہے

دانتوں سے باہر لٹکی ہے

اس کی لمبی لال زبان

غائب ہیں کتّے کے کان

 

چوہے کی ہو سینہ زوری

یا کوّے نے کی ہو چوری

تم سے لوں گی آپا جان

میں اپنے کتّے کے کان

 

 

 

 

کھیلو بچّو!

 

دن بھر پڑھنا ناممکن ہے

اوپر سے اتوار کا دن ہے

آ جائے جو بھی کم سن ہے

موٹر گاڑی ٹھیلو بچو

کھیلو بچو، کھیلو بچو

 

یہ دن ہنسنے گانے کا ہے

موقع موج منانے کا ہے

کھانے اور کھلانے کا ہے

کوئی دکھ مت جھیلو بچو

کھیلو بچو، کھیلو بچو

 

توس بٹر کا میل اچھا ہے

سبزی اچھی، تیل اچھا ہے

ہنڈ کُلیا کا کھیل اچھا ہے

بیلو، پاپڑ بیلو بچو

کھیلو بچو، کھیلو بچو

 

 

گرمی کی دوپہر

 

کیسا جھوم رہا ہے پنکھا

سب کو چوم رہا ہے پنکھا

سن سن گھوم رہا ہے پنکھا

 

جاگ رہے ہو آنکھیں میچے

بھیّا سر کو نا کچھ پیچھے

مدّو آ پنکھے کے نیچے

 

کب سے اونگھ رہی ہے حمراء

تم بھی جھپکی لے لو ثمرہ

کتنا ٹھنڈا ہے یہ کمرہ

 

 

 

 

 

تیز بارش میں

 

اندھڑ میں وہ کپّی سے بہا تیل سڑک پر

وہ آپڑی پھولوں سے لدی بیل سڑک پر

چھک چھک کبھی چھپ چھپ وہ چلی ریل سڑک پر

 

بے فکر ہے تن پر کوئی کپڑا ہے نہ لتّہ

بوچھار میں کلکاریاں بھرتا ہوا بچہ

ماں ہول رہی ہے کہیں گر جائے نہ چھجّہ

 

ٹینوں پہ وہ طبلے سے بجاتی ہوئی بوچھار

بارش کے تھپیڑوں سے لرزتے در و دیوار

لتھڑی ہوئی کیچڑ میں منسٹر کی نئی کار

 

بارش میں ہر اک چھوٹا بڑا بھیگ رہا ہے

مرغا مرا آنگن میں کھڑا بھیگ رہا ہے

بھینسا ہے کہ مستی میں پڑا بھیگ رہا ہے

 

گھر گھر میں تلے جائیں گے آلو کے پراٹھے

کچھ لائیں گے بازار سے قیمے کے سموسے

چِڑ جن کی پکوڑا ہے وہ کھائیں گے پکوڑے

 

بوچھار اِدھر سے تھی اُدھر مڑ گئی چھتری

ہتھا کبھی ٹوٹا تو کبھی اُڑ گئی چھتری

جھکّڑ میں وہ تیزی تھی کہ مڑ تڑ گئی چھتری

 

 

 

 

میرا عدنان

 

سوتے میں پپّی لیتا ہے

روتے روتے ہنس دیتا ہے

ننھے منّوں کا نیتا ہے

یہ کس کا چنچل بچّا ہے

میرے بیٹے کا بیٹا ہے

 

نامی چھوٹے شیطانوں میں

مٹّی بھر کر گلدانوں میں

ڈھول بجاتا ہے کانوں میں

شوخ و شنگ بہت پیارا ہے

یہ میرا عدّو بھیّا ہے

 

بھپکی دیتا ہے حمراء کو

تھپکی دیتا ہے ثمرہ کو

چھپکی دیتا ہے نمرا کو

سب کچھ ہنس ہنس کر ہوتا ہے

جی ہاں یہ میرا پوتا ہے

 

 

 

 

سڑک پر کرکٹ

 

بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں

لوگ مصیبت جھیل رہے ہیں

بلّا ملتے ہی پَو بارا

چوّا چھکّا ایک نہ مارا

رن نوّے گیندوں پر گیارا

کہلاتے ہیں برائن لارا

 

سری ناتھ کی تھی نقّالی

اس نے ایسی گیند اچھالی

سیدھے جس نے دیکھی نالی

رہگیروں پر کیچڑ ڈالی

 

بیٹ گھماتے ہیں یا کوڑا

دوڑ میں بالکل اڑیل گھوڑا

سبزی والے کا سر پھوڑا

پھر کھڑکی کا شیشہ توڑا

 

بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں

لوگ مصیبت جھیل رہے ہیں

 

 

 

 

بے موسم فٹ بال

 

 

ہم نے پہلے ہی روکا تھا

اور امّی نے بھی ٹوکا تھا

ایمن اس کیچڑ پانی میں

مت کھیلو فٹ بال

کیسا چھل گیا سارا گال

 

لیکن تم ہو ایک ہی نٹ کھٹ

پہنے جوتے ، کرتے کھٹ پٹ

بھاگے اس فٹ بال کو لے کر

سب کی بات کو ٹال

کیسا چھل گیا سارا گال

 

یہ ٹہرا برسات کا موسم

آنگن میں کیچڑ ہے کیا کم

پھسلا پاؤں تو سارے کپڑے

ہو گئے خون سے لال

کیسا چھل گیا سارا گال

 

اس میں ہے اپنی ہی بھلائی

کہنا بڑوں کا مانو بھائی

مرہم لگوا لو اور جا کر

لیٹو اوڑھ کے شال

کیسا چھل گیا سارا گال

 

 

 

 

سب نے مینا کو چوما

 

کل اپنے پائین باغ میں ہم نے مینا پکڑی تھی

کالے مخمل جیسے اس کے پَر تھے ، چونچ سنہری تھی

 

اس کے واسطے ایمن اک پیتل کا پنجرا لائے تھے

اپی نے بھی تین کٹورے چاندی کے منگوائے تھے

 

بچے خوش تھے مینا سب سے باتیں کرنے والی ہے

خوب مزے سے چیکو اور انگور کترنے والی ہے

 

لیکن مینا پھڑپھڑ کرتی پنجرے میں چکرانے لگی

اے لو اب وہ سر اپنا دیواروں سے ٹکرانے لگی

 

فیضی بولا، مینا کے بھی بچے ہوں گے ، کیوں امّی

ایمن کہتا تھا سب بھوکے پیاسے ہوں گے نا عرشی

 

مل جل کر ہم سارے بچے ایک نتیجے پر پہنچے

سب نے مینا کو چوما اور باغ میں جا کر چھوڑ آئے

 

کل اپنے پائیں باغ میں ہم نے مینا پکڑی تھی

 

 

 

 

ہلّہ بولنے والے

 

 

آندھی تھی، طوفان تھا، کیا تھا

میری میز پہ کون آیا تھا

 

کیمل انک پڑی ہے اُلٹی

گل دانوں میں ریت بھری ہے

کرسی کی ٹانگیں ترچھی ہیں

فائل میں تتلی نتھی ہے

ٹائم پیس کا شیشہ ٹوٹا

میز پوش پر کالے دھبّے

کٹے ہوئے اخبار کے فوٹو

لیٹر پیڈ میں کاغذ آدھے

کم ہیں البم کے نو پنّے

شیفر کی ٹوپی غائب ہے

حمراء ثمرہ ناچ رہی تھیں

ان کی دادی نے بتلایا

ایمن ٹافی ڈھونڈ ھ رہے تھے

فیضی چھکّے مار رہا تھا

میز پہ ہلّہ بولنے والے

میرے ہی پیارے بچّے تھے

 

 

 

 

چل مرے بندر ناچ دکھا

 

پہن کے نیکر

لاٹھی لے کر

 

کاندھے پر رکھ، دلّی جا

دلّی جا کر اپنے واسطے

ایک چاند سی بیوی لا

تاک دِھنا دھن دھنک دھنا

چل مرے بندر ناچ دکھا

 

بیوی دُکھیا آٹا گوندھے

دال پکائے ، ہانڈی بھونے

تو خود گرم پراٹھے کھا

وہ بیچاری پیسے مانگے

تو کرسی پر موج منا

تاک دھنا دھن دھنک دھنا

چل مرے بندر ناچ دکھا

 

 

 

 

ماموں لڈّو والے

 

سگرٹ لا دوں

چائے پلا دوں

 

پاؤں دبا دوں سر سہلا دوں

لڈّو لے دو چنّو ماموں

 

بنوں گا سچّا

اچھا بچہ

 

ہر دم آپ کا کہنا مانوں

لڈّو لے دو چنّو ماموں

 

اتنے سارے

پیارے پیارے

 

نو دس لڈّو کیسے تھاموں

تم بھی کھاؤ نا چنّو ماموں

 

 

 

 

نصیحتوں کا پٹارا

 

طوطے کو تنگ مت کرنا

بہنوں سے جنگ مت کرنا

منّے ہڑدنگ مت کرنا

 

صوفے پر سو مت جانا

کچی املی مت کھانا

ٹوٹی چھت پر مت آنا

 

جھبرو سے مل کر رہنا

کاٹے تو کچھ مت کہنا

آخر ہے چھوٹی بہنا

 

بستر گندا مت کرنا

اُلٹا دھندا مت کرنا

میز پہ رندا مت کرنا

 

ننگے پیروں مت چلنا

روکر آنکھیں مت ملنا

مُونگ نہ چھاتی پر دلنا

 

 

 

 

چوہے کی بارات چلی

 

مرغی آئی انڈا لے کر

بندر آیا ڈنڈا لے کر

آئے طوطے جھنڈا لے کر

گوریّا سرکنڈا لے کر

 

آئی مینا ساڑی لے کر

بکرا آیا ڈاڑھی لے کر

ہاتھی آئے گاڑی لے کر

بھالو کچّی تاڑی لے کر

 

بلبل آئی گجرا لے کر

کوّا آیا کجرا لے کر

گھڑیال آئے بجرا لے کر

کچھوے صاحب شجرا لے کر

 

مورنی آئی جلوہ لے کر

چیتا آیا بلوہ لے کر

گائیں آئیں حلوہ لے کر

ٹڈّی من اور سلویٰ لے کر

 

ہرنی آئی چھلانگیں لے کر

دُنبہ آیا ٹانگیں لے کر

سانبھر آئے جانگھیں لے کر

جھینگر ریں ریں مانگیں لے کر

 

کویل آئی کو کو لے کر

نیولا آیا جھاڑو لے کر

گرگٹ آئے جادو لے کر

آئی چھچھوندر خوشبو لے کر

 

مکڑی آئی تماشے لے کر

بھینسا آیا تاشے لے کر

چیتل کھیل بتاشے لے کر

چیونٹی گُڑ دو ماشے لے کر

 

چیل آئی چھنتائی لے کر

لڈّو، اُلّو بھائی لے کر

خرگوش آئے دُلائی لے کر

اور گدھے شہنائی لے کر

 

جی ہاں اتنے ٹھاٹ باٹ سے

پانی پی کر گھاٹ گھاٹ سے

چوہے کی بارات چلی

دلّی سے میوات چلی

 

 

 

 

میں ذمہ دار بنوں گا

 

ہر شعبے میں رشوت خوری

بازاروں میں سینہ زوری

دن میں جھگڑے رات میں چوری

سب کا باعث ہے بیکاری

میری بھی ہے ذمہ داری

 

کلیوں سے ہیں خار زیادہ

مہنگائی کی مار زیادہ

درماں کم آزار زیادہ

سب کا باعث ہے بیکاری

میری بھی ہے ذمہ داری

 

آمدنی کم کنبہ بھاری

بچے بھوکے ماں دُکھیاری

لاحق روز نئی بیماری

سب کا باعث ہے بیکاری

میری بھی ہے ذمہ داری

 

لاچاری کا باعث کیا ہے

بیماری کا باعث کیا ہے

ناداری کا باعث کیا ہے

سب کا باعث ہے بیکاری

میری بھی ہے ذمہ داری

 

 

 

 

دُم مارو دُم

 

لیتے ہیں جیسے اونٹ پہ سالار جنگ پینگ

دُم ٹھیک ہو تو موج میں لے گی پتنگ پینگ

لے گی پتنگ پینگ

مگر دُم کہاں گئی!

 

معلوم ہے دوا میں ملاتے ہیں لوگ ہینگ

سردی میں مرغیوں کو کھلاتے ہیں لوگ ہینگ

مرغا نہ کھائے ہینگ

مگر دُم کہاں گئی!

 

پر ڈھیر سارے رکھتا ہے ، اُڑتا ہے رینگ رینگ

بارش میں یوں ہی مارتا رہتا ہے مور، ڈینگ

مارے نہ مارے ڈینگ

مگر دُم کہاں گئی!

 

ڈھوتے ہیں بیل بوجھ، چبھوتے نہیں ہیں سینگ

سچ ہے کسی گدھی کے بھی ہوتے نہیں ہیں سینگ

ٹھینگے پہ میرے سینگ

مگر دُم کہاں گئی!

 

 

 

 

گندے راجا کا اشنان

 

 

ہیٹر لگا رکھا ہے اور تھر تھرا رہے ہیں

کپڑے نہیں اُتارے بس کپکپا رہے ہیں

بالوں کو دور ہی سے صابن دکھا رہے ہیں

نو دن کے بعد گندے راجا نہا رہے ہیں

 

 

کونے میں خود کھڑے ہیں کپڑے پڑے ہیں ٹب میں

نل ہو کہ بالٹی ہو، سوکھا پڑا ہے سب میں

اشنان راجا جی کا ہوتا ہے اب نہ تب میں

نو دن کے بعد گندے راجا نہا رہے ہیں

 

 

نالی میں بہہ رہا ہے شیمپو کہ لوگ دیکھیں

رہ رہ کے ہو رہی ہے ہُو ہُو کہ آپ سن لیں

بھیگے نہیں ذرا بھی، لپٹے ہیں تولیے میں

نو دن کے بعد گندے راجا نہا رہے ہیں

 

 

 

 

دنیا اینڈی بینڈی

 

 

چندا ماما جگ مگ جگ مگ

جھلمل جھلمل لاکھوں تارے

بوڑھا بابا ڈگ مگ ڈگ مگ

بوڑھی امّاں ہاتھ پسارے

 

کتا مخمل سے تن ڈھانپے

بلّی کھائے دودھ ملائی

ننگی بچی تھر تھر کانپے

بھوکے لڑکے ، ہاتھا پائی

 

لاغر ہے بیمار ہے دنیا

اس کو خوشیوں سے بھر لینا

بے حد ناہموار ہے دنیا

بچو! تم سیدھی کر لینا

 

 

 

 

دادی سے باتیں

 

 

ٹافی کس دن برساؤگی، بولو نا دادی

چاند ستارے کب لاؤ گی؟ بولو نا دادی

کب تک ہم کو ٹرخاؤ گی؟ بولو نا دادی

 

کتّا گملا توڑ گیا ہے یہ دیکھو دادی

چوہا پیالی پھوڑ گیا ہے یہ دیکھو دادی

کوّا ڈالی موڑ گیا ہے یہ دیکھو دادی

 

مکڑی جالے کیوں بنتی ہے ؟ دادی بوجھو تو

بندریا سر کیوں دھُنتی ہے ؟ دادی بوجھو تو

بیر بہوٹی کیا چنتی ہے ؟ دادی بوجھو تو

 

 

 

 

کیسے سمجھائیں نانی کو

 

 

دس روپے فی بوتل پانی

ہکّا بکّا رہ گئی نانی

اپنا بچپن یاد کیا تو

ارزانی سی تھی ارزانی

 

بارہ آنے سیر اصلی گھی

گیارہ آنے تولہ چاندی

کیلے تھے دو پیسے درجن

چاول پانچ آنے پنسیری

 

بائیسکوپ ٹکٹ ایک آنہ

ایک اٹھنّی کا پاجامہ

اسکولوں میں فیس نہیں تھی

کالج دو روپیے ماہانہ

 

نانا کی تنخواہ جو پوچھی

کل پینتالِس روپیہ نکلی

انہتّر ہزار کے لگ بھگ

پاتے ہیں ابّو اور امّی!

 

 

 

بدھّو بھیّا

 

 

ساتھی چلے گئے اسکول

بدھو سبق گئے ہیں بھول

اب ڈر لگتا ہے جانے میں

ٹیچر لیں گے گردن ناپ

پڑے ہوئے ہیں بدھو بھیّا

اپنے کمرے میں چپ چاپ

 

کھیل میں ان کا جی ٹھکتا ہے

پڑھتے ہیں تو سر دُکھتا ہے

جب لڑکے انگلش پڑھتے تھے

کھیل رہے تھے کیرم آپ

پڑے ہوئے ہیں بدھو بھیّا

اپنے کمرے میں چپ چاپ

 

 

 

 

چور چوہے اور بچے

 

گل عبّاس، گلاب، چنبیلی

گیندا، چمپا، بیلا، جوہی

کل تک ان سے لدے ہوئے تھے

آج اُداس کھڑے ہیں پودے

چوہے پھول کُتر جاتے ہیں

 

بنجر کو زرخیز بنا کر

کھیتوں میں فصلیں لہرا کر

جو کھلیانوں کو بھرتا ہے

وہ کسان بھوکوں مرتا ہے

غلّہ تو چوہے کھاتے ہیں

 

بچو ایسا کب تک ہو گا

تم چاہو گے جب تک ہو گا

روکو اس سینہ زوری کو

محنت کش کو بھی کھانا دو

چوہے تم سے گھبراتے ہیں

 

 

 

کھلونا گھر میں

 

بھاری بھرکم ٹب میں صوفہ

صوفے پر بھینسے کا سر

راجا کے سر پر اِک جوتا

پَن چکّی ہے تکیے پر

 

مرغی کے پنجے میں جھنڈا

کچھوے کی گردن پر توپ

اور سپہ سالار سنبھالے

کندھے پر سن لائٹ سوپ

 

اندھے راجا کی آنکھوں میں

فٹ ہیں دو کچّے انگور

سانپ کی دُم سے ریچھ بندھا ہے

شیر کی مونچھوں سے لنگور

 

چولہے پر کلفی پکتی ہے

ریت بھری ہے تھرمس میں

گھوڑا جھولا جھول رہا ہے

جج صاحب ہیں سرکس میں

 

بلّی کی گردن میں چوہا

گھنٹی جیسا لٹکا ہے

یعنی آج کھلونا گھر میں

سب کچھ اُلٹا پلٹا ہے !

 

 

 

 

باغیچہ بچوں کا

 

اس میں پھول کہاں کھلتے تھے

آم امرود کہاں ملتے تھے

اوبڑ کھابڑ بنجر تھا یہ

بھوت پریتوں کا گھر تھا یہ

پھر اک دن بستی کے بچّے

پھاؤڑے اور کدالی لائے

رنجیت، ابدالی اور ہُلکر

محنت کی سب نے مل جُل کر

بنجر کو زرخیز بنایا

گھورے کو گُل ریز بنایا

یہ بچوں کا باغیچہ ہے

اس کو ہم سب نے سینچا ہے

اس میں پھول کہاں کھلتے تھے

آم امرود کہاں ملتے تھے

 

 

 

واہ وا!

 

رنگ پھوار اُڑاتی آئی

اک تتلی حمرا جیسی

وہ جگنو کی جھلمل جھلمل

عین مین ثمرہ جیسی

 

ایڈی جھولا جھول رہا ہے

جیسے چڑیا ڈالی پر

مرغے صاحب ناچ رہے ہیں

فیضی کی قوالی پر

 

میٹھی بات زمن کرتے ہیں

مٹھو تان لگاتا ہے

ایمن بھیّا کے کھاتے میں

بلّا کلفی کھاتا ہے

 

عرشی ٹیٹو سے سنتی ہے

قصّے طوطا مینا کے

خوشبو کو چٹھی بھیجی ہے

نوری اور مدیحہ نے

 

 

 

 

اب تو آ جا

 

 

چوتھا سورج ڈوب چکا ہے

اب میرا جی اُوب چکا ہے

کہنا مان لیا ہے کتنا

کچا دودھ پیا ہے کتنا

دُکھ دو شنبہ جھیل چکی ہوں

بدھ کا پاپڑ بیل چکی ہوں

میری مشکل حل کرنے کو

جنگل میں منگل کرنے کو

آخر کب آئے گا سنڈے

کب تک ترسائے گا سنڈے

 

نیلا والا سوٹ پہن کر

کالے کالے بوٹ پہن کر

فیروزی نکٹائی لگائے

سر پر پیلی چھتری چھائے

کندھے پر لٹکائے بستہ

تھامے ہاتھوں میں گلدستہ

بستے میں دو اُودے ریکٹ

جیبوں میں ٹافی کے پیکٹ

لے کر جھنڈے کب آئے گا

بھیّا سنڈے کب آئے گا

 

 

 

 

بول ترے انمول مری مینا

 

 

آنکھ نچا کر

دُم لہرا کر

کانو ں میں رس گھول مری مینا

بول مری مینا بول مری مینا

’’بھوک لگی ہے ، بھوک لگی ہے

کھانا دے دو آپا جان!‘‘

 

دانے کھا کر

موڈ میں آ کر

گردن کر کے گول مری مینا

بول مری مینا، بول مری مینا

’’چپ ہو جاؤ، چپ ہو جاؤ

رونا بند کرو عدنان!‘‘

 

پر پھیلا کر

چونچ اٹھا کر

آ کر آسنسول مری مینا

بول مری مینا، بول مری مینا

’’مینا آئی مینا آئی

دروازہ کھولو فیضان!‘‘

بول ترے انمول مری مینا۔۔۔۔

 

 

 

 

جی حامد نے

 

منّے ! بے بی کو گھونسوں سے

زور زور سے کس نے مارا   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔      جی حامد نے !

 

میں نے دودھ کا جگ چھینکے پر

رکھا تھا، وہ کس نے اُتارا   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔      جی حامد نے !

 

کل مہمانوں کے کھانے میں

کس نے ملا دیا تھا چارا؟    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔      جی حامد نے !

 

اندر والی الماری سے

کس نے اُڑایا سیب ہمارا؟   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔      جی حامد نے !

 

کس نے اس نعمت خانے کا

چٹ کر ڈالا حلوہ سارا            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔      جی حامد نے !

 

اور اب ڈیڈی کی چھڑیوں سے

آج پٹے گا کون بچارا      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔      جی وہ  حامد!

 

 

 

 

چھوٹا کنبہ اچھا ہے

 

اکثر سوچا کرتا ہوں

کیوں گھر گھر بیماری ہے

چوراہوں پر مجمع کیوں

کیوں اتنی بیکاری ہے

کتنی گندی گلیاں ہیں

جینا کتنا بھاری ہے

یہ قول بہت سچا ہے

چھوٹا کنبہ اچھا ہے

 

فصلیں اچھی ہوتی ہیں

غلّہ کم پڑ جاتا ہے

کتنا ہی کپڑا بُن لیں

تن ڈھانپ نہیں پاتا ہے

انسان اپنے پیروں کو

چادر میں پھیلاتا ہے

یہ قول بہت سچا ہے

چھوٹا کنبہ اچھا ہے

 

بچوں کی کم عمری میں

کیوں شادی ہو جاتی ہے

منصوبے لاکھ بنائیں

بربادی ہو جاتی ہے

دُگنی چوبیس برس میں

آبادی ہو جاتی ہے

یہ قول بہت سچا ہے

چھوٹا کنبہ اچھا ہے

 

بھوکے بچوں سے ماں کو

ہوتی ہے روز ندامت

اسکولوں میں ہنگامے

ریلوں میں ایک قیامت

سچ ہے چھوٹا کنبہ ہی

خوشحالی کی ہے علامت

یہ قول بہت سچا ہے

چھوٹا کنبہ اچھا ہے

 

 

 

سبزی بھاجی کا ٹھیلہ

 

موٹی گوبھی والا آیا

گھیّاں اروی والا آیا

سویا میتھی والا آیا

سبزی بھاجی والا آیا

 

تازہ تازہ لوکی لے لو

نرم ملائم بھنڈی لے لو

پتلی پتلی ککڑی لے لو

لے لو میٹھی مولی لے لو

 

لایا ہوں میں پیلے لیمو

نئی فصل کے عمدہ آلو

اودے بینگن، اچھے کدّو

لال ٹماٹر لے لو بابو

خوشبو والا پودینہ ہے

ہرا بھرا تازہ دھنیا ہے

یہ چولائی، یہ کھیرا ہے

ماں ، شلجم لے لو، سستا ہے

 

ہیں جل کُمبھی کے ڈنٹھل بھی

مٹر پھلی بھی ہے ، پرول بھی

کھٹّی کیری بھی، کٹہل بھی

ساگ چنے کا، پانی پھل بھی

 

گلکی اور کریلا بھی ہے

بیٹی، کچا کیلا بھی ہے

پھر گڑیوں کا میلہ بھی ہے

یہ سبزی کا ٹھیلہ بھی ہے

 

 

 

 

یہ سونے کا وقت نہیں ہے

 

بھوپالی شیرینی ہو گی

پٹنہ کی فیرینی ہو گی

چاؤ من تک چینی ہو گی

 

چھولے اور بٹورے ہوں گے

سیخ کباب مسالے والے

تکّے ہوں گے سوندھے سوندھے

 

قورمہ ہو گا دلّی والا

لڈّو ہو گا تلّی والا

اور سموسہ جھلّی والا

 

مال بھرے مرغے تندوری

حلوہ پوری، باقر خانی

چٹنی بھی ہو گی میوے کی

 

کچی بریانی بھی ہو گی

ہنڈی دیوانی بھی ہو گی

بھیّا گُڑ دھانی بھی ہو گی

 

گھوم رہا ہے سر خوشبو سے

اور کبھی سو لینا پیارے

چلیے بھیا دعوت کھانے

 

 

 

ہفتہ دعوتوں کا

 

پہلے اَم رس پوری پالک اور پنیر چلی

پھر ابّو کے سیخ کبابوں کی تدبیر چلی

اِک دن ہم نے زردہ کھایا دو دن کھیر چلی

آخر چوتھے دن بریانی میں کفگیر چلی

 

اپی کہتی تھیں جی بھر کے آج سویّاں کھاؤ

لیکن ہم نے صاف کر دیا سارا مٹر پلاؤ

بھیّا مچھلی کھا کر دیتے تھے مونچھوں پر تاؤ

قیمہ بھرے پراٹھے سب سے کہتے تھے آ جاؤ

 

مرغ مسلّم کا چٹخارہ کیا کہنے ممّی

کوفتے اور نگینہ کھچڑی واہ دُلہن چچی

گاجر کے حلوے کی لذّت خوش رہیے باجی

سب سے اچھی تھی دادی کی دیوانی ہنڈی

 

 

 

 

بچکانہ غزل

 

بچے لائے انوکھی تتلی اور نرالے پھول

خوشبو دینے والی تتلی اُڑنے والے پھول

 

جس دن گلشن میں نفرت کی آندھی چلتی ہے

شاخوں پر اُگنے لگتے ہیں کالے کالے پھول

 

اس کے پیروں میں کانٹے تھے چھالے ہاتھوں میں

اوپر سے پریوں نے اس بچّے پر ڈالے پھول

 

حمرا اور ثمرہ نے سالگرہ پر اَیمن کی

خوب چھڑائی آتش بازی خوب اُچھالے پھول

 

میری گود میں پوتی ہے تو پوتا کندھے پر

جیسے جھلمل جھلمل جگنو بھولے بھالے پھول

 

لفظوں کے اس جادوگر کے پیارے پیارے شعر

انگارے دامن میں رکھے اور نکالے پھول

 

 

 

 

آؤ گنتی سیکھیں

 

بچو! بن کر نیک، گنتی یاد کرو

بلّی آئی ایک

کتّے دوڑے دو

 

کیوں ہے تو غمگین، دیکھ تماشا یار

کیلے پھینکے تین

کوّے جھپٹے چار

 

نیلا نیلا کانچ، اچھا لگتا ہے

کیسے بگلے پانچ

مچھلی لائے چھے

 

اچھی ہے یہ بات، یاد کریں گے پاٹھ

حلوائی ہیں سات

رَس گلّے کُل آٹھ

 

مٹّی کے مادھو، آ جائے گی بس

لال فراکیں نو

نیلی وردی دس

 

 

 

 

صبا ڈاکٹر بنی

 

مری صبا ڈاکٹر بنے گی

دِلوں کو آئینہ سا بنا کر

دماغوں سے نفرتیں مٹا کر

درست کر دے گی جاہلوں کو

اُبھار دے محبتوں کو

مٹائے گی جڑ سے واہموں کو

 

مری صبا ڈاکٹر بنے گی

اگر وہ جی جان سے پڑھے گی

تو آگے اور آگے ہی بڑھے گی

 

زمن تو انجینئر بنے گا

خلیج پاٹے گا مفلسی کی

سڑک بنائے گا کہکشاں تک

دلوں سے دل تک بنائے گا پُل

غریب لوگوں کے واسطے گھر

ہٹائے گا ملک سے غریبی

 

زمن تو انجینئر بنے گا

اگر دل و جان سے پڑھے گا

ضرور اونچائی پر چڑھے گا

 

ثمر کہیں چانسلر بنے گا

اگر ثنا ہوسٹس بنے گی

جہاں اُڑائے گی اپنی عرشی

ضلع کلکٹر بنے گا ٹیٹو

تو چیف جسٹس بنے گا فیضی

وزیر اعلا بنے گا ارقم

 

ثمر کہیں چانسلر بنے گا

اگر پڑھائی پہ دھیان دے گا

سدا بلند اس کا سر رہے گا

 

بنے گی ثمرہ پولیس کمشنر

نبیلہ سکریٹری لگے گی

وجیہہ ڈی آئی جی بنے گی

حِنا کہیں لکچرر رہے گی

اور عائشہ آرمی کی افسر

 

بنے گی ثمرہ پولیس کمشنر

چلے گی تعلیم کی ڈگر پر

رہے گی تقدیر کی سکندر

وصی تو بیرسٹری کرے گا

ظفر چیئرمین اکادمی کا

مدیحہ بی بی بنے گی کرنل

بنے گا فیضی ضرور جنرل

اریب سائنسداں بنے گا

 

وصی تو بیرسٹری کرے گا

وہ جی لگا کر اگر پڑھے گا

خدا اسے سرخرو رکھے گا

 

وزیر اعظم بنے گا ایمن

بنے گا عدنان مِل کا مالک

یہاں وہی بے بدل بنے گا

پڑھے گا جو، با عمل بنے گا

وہ صدر جمہوریہ بنے گا

 

 

 

 

دو سنڈے

 

حالت پتلی کر دی ہے

سردی جیسی سردی ہے

برف بدن میں بھر دی ہے

مرغی چاچی انڈے دو

 

آنے ہی والا ہے یار

جمہوریت کا تیوہار

لائیں گے غبّارے چار

اور ترنگے جھنڈے دو

 

اس پر داؤں کراٹے کا

جھٹکا دھوبی پاٹے کا

ہاتھ اس کو زنّاٹے کا

میں تنہا مشٹنڈے دو

 

ایک اتوار سے کیا ہو گا

پھر مانگی ہے آج دُعا

سن لے کاش اوپر والا

ہفتے میں ہوں سنڈے دو

 

 

 

 

گرمی کی سوغاتیں

 

کلفی نہیں ، کہیے اسے قدرت کی بناوٹ

ٹھنڈک بھی ہے شیرینی بھی اور اس پہ سجاوٹ

اک چُسکی سے آ جاتی ہے گرمی میں گراوٹ

 

مشروبوں میں فالودے کی توقیر بڑی ہے

بالائی میں گھوٹی ہوئی میگی بھی پڑی ہے

دو گھونٹ پیے اور تپش دور کھڑی ہے

 

کیا چیز ہے کیا چیز ہے یہ برف کا لڈّو

رنگوں میں گھلاوٹ ہے گھلاوٹ میں ہے خوشبو

خوشبو میں طراوٹ ہے طراوٹ میں ہے جادو

 

اپی کبھی بالائی کی کلفی تو کھلا دو

امّی مرے پیاری مجھے فالودہ پلا دو

بھیّا مجھے اک برف کا لڈّو ہی دلا دو

 

 

 

 

بچہ اخبار

 

صاف کر گئے کتّے نانی اماں کی بالائی

خالہ بلّی گھر آئی تو نوری پر غرّائی

حمراء نے پھر گیلی کر دی توشک اور رضائی

 

پھوڑ دیا ایمن بھیا نے ثمرہ کا غبّارا

فیضی نے ون ڈے کرکٹ میں چوتھا چھکا مارا

اور زمن نے صاف کر دیا سوہن حلوہ سارا

 

وجّو اور عدنان نے بودی سب گملوں میں ٹافی

عرشی کے پین میں بھر دی ہے جانے کس نے کافی

آج مدیجہ نے ہنس ہنس کر پی لی کڑوی صافی

 

جالندھر میں بندر ہرمندر کی زورا زوری

چھین لی گئی کولکتا میں چاکلیٹ کی بوری

کھنڈوا میں قاضی کے گھر سے چوہوں نے کی چوری

 

خوشبو چور بنی تھی احمر خاکی وردی والا

اُردو سب کی اچھی نکلی انگلش گڑبڑ جھالا

سردی میں اسکول گئے تو پھاٹک پر تھا تالا

 

 

 

 

اور وہ رونے لگا

 

ادریس نے ماں سے کہا

بٹیا وہ گھنٹہ بج گیا

بستر سے اُٹھ منہ ہاتھ دھو

کر ناشتہ اسکول جا

یہ سن کے وہ رونے لگا

اشکوں سے منہ دھونے لگا

 

تھا لیٹ نکلا گھر سے وہ

کانپا سزا کے ڈر سے وہ

بھاگا بہت ہی تیز اور

زخمی ہوا ٹھوکر سے وہ

تکلیف سے رونے لگا

اشکوں سے منہ دھونے لگا

 

پہنچا وہ جب اسکول میں

کپڑے بھرے تھے دھول میں

مانگی کتاب استاد نے

چھوڑ آیا تھا گھر بھول میں

کچھ سوچ کر رونے لگا

اشکوں سے منہ دھونے لگا

 

جو کچھ بھی گھر کا کام تھا

کچھ بھی نہ تھا اس نے کیا

پھر تو دیا استاد نے

انسان سے ’’مرغا‘‘ بنا

بیساختہ رونے لگا

اشکوں سے منہ دھونے لگا

 

چھٹی میں اس کو روک کر

اِک دوست بولا بے خبر

آئندہ کرنا شوق سے

ہر کام اپنے وقت پر

پچھتا کے وہ رونے لگا

اشکوں سے منہ دھونے لگا

 

 

 

 

اُف یہ پابندیاں

 

 

ٹھنڈا ٹھنڈا رہنے دو نا

ٹب میں بیٹھا رہنے دو نا

پانی بہتا رہنے دو نا

 

نا بیٹا انمول ہے پانی

پانچ روپے فی ڈول ہے پانی

نو گھنٹے سے گول ہے پانی

 

جس کو کھلتا ہے کھلنے دو

بھٹّی سا گھر مت جلنے دو

کولر، پنکھے سب چلنے دو

 

کیسی اُلٹی مت ہے ثمرہ

یہ گندی عادت ہے ثمرہ

بجلی کی قلّت ہے ثمرہ

 

اس گرمی کی ایسی تیسی

پردیسی ہو کار کہ دیسی

بھیّا بند نہ کرنا اے سی

 

بچو! چھوڑو بچکانہ پن

بند کرو موٹر کا انجن

تیل بچت کا دن ہے ایمن

 

 

 

 

میرے ہندوستان

 

ہریانہ، کشمیر، اُڑیسہ، مہاراشٹر، پنجاب

کریں تجھے آداب

کرناٹک، بنگال، آندھرا، تامل ناڈ، آسام

کرتے ہیں پرنام

تیرے دروازے پر سرخم کیرل، راجستھان

میرے ہندوستان، میرے ہندوستان

 

تاج، اجنتا، کاشی، سانچی،دلّی اور چتّوڑ

کتنی لمبی دوڑ

چشتی،نانک، خسرو، گاندھی، اکبر اور اشوک

سب ہنسا کی روک

تیری بانکی آن بان ہے سب سے اونچی شان

میرے ہندوستان، میرے ہندوستان

 

جین، پارسی، سکھ، عیسائی،ہندو،مسلم سارے

تیرے راج دُلارے

بنگالی، پنجابی، اردو، ہندی اور ملیالم

ایک گیت کے سرگم

تیری ذات عظیم ہے سب سے تیری بات مہان

میرے ہندوستان، میرے ہندوستان

 

 

 

کسان اور بیٹا

 

جب دیکھو گڑ دھانی دے

خود سب کو حیرانی دے

محنت کر، قربانی دے

جانوروں کو سانی دے

جا کھیتوں کو پانی دے

 

گھی کی لٹیا پھوٹی کیوں

ہل کی مُٹھیا چھوٹی کیوں

تِل میں بیر بہوٹی کیوں

مینڈ وہاں سے ٹوٹی کیوں

جا کھیتوں کو پانی دے

 

مٹھّا تھورا کھارا کر

خود پر جھونجھ اُتارا کر

بیلوں کو مت مارا کر

ان کا دانہ چارا کر

جا کھیتوں کو پانی دے

محنت کرنا اچھا ہے

کیسا مورکھ بچا ہے

رامو چاچا سچّا ہے

بیٹا گیہوں کچا ہے

جا کھیتوں کو پانی دے

 

پالک سوکھی  جاتی ہے

دیمک میتھی کھاتی ہے

یہ نالہ برساتی ہے

شرم تجھے کچھ آتی ہے

جا کھیتوں کو پانی دے

 

ایسی کیا مُٹ مردی رے

کھیتی چوپٹ کر دی رے

دھانوں پر بھی زردی رے

کھاد ابھی سے بھر دی رے

جا کھیتوں کو پانی دے

 

 

 

 

گھی شکّر

 

 

چھ گھنٹے اسکول میں پڑھ کر

آئے ہیں رکشا پر چڑھ کر

کتنے بھوکے ہیں مت پوچھو

ہم کو جلدی تھامو بڑھ کے

لمبا رستہ، بھاری بستہ

آتے ہیں چکّر پر چکّر

آپا لے آؤ گھی شکّر

 

کھچڑی کی ہے اَن بن ہم سے

ہضم نہ ہو گا سالن ہم سے

جھنجھلاہٹ میں پھوٹ گیا نا

یہ چینی کا برتن ہم سے

کم سے کم ڈھائی گھنٹے میں

بریانی اُترے گی پک کر

آپا لے آؤ گھی شکّر

 

اچھی پیاری پیاری بہنا

گھر کی راج دُلاری بہنا

آخر ہم راجا بھیّا ہیں

تم ہو راجکماری بہنا

یہ مت سمجھو راجا بھیّا

چپ ہو جائے گا بک جھک کر

آپا لے آؤ گھی شکّر

 

 

 

 

مکھن گیت

 

لمبا چہرہ بھولی صورت

ممتا کی اِک زندہ مورت

گوری چٹّی، سیدھی سادی

گڈّو پپّو کی امّاں

میرے ایمن کی دادی

 

سوئٹر بنتی، چاول چُنتی

یا بچوں سے گنتی سنتی

پھر چادر دھوکر پھیلا دی

منے ببلو کی اماں

میرے فیضی کی دادی

 

اب اس پوتے کو چمکارا

پھونک دیا اس کا غبارہ

خوش قسمت بوڑھی شہزادی

چھوٹو دُمّوں کی امّاں

میرے زَمّو کی دادی

 

 

 

 

ہائے اللہ

 

ٹانگیں ٹوٹی ہیں گھوڑے کی

دُرگت، ہنسوں کے جوڑے کی

آپا توڑ کے میری بقچی

ان پر کس نے بولا ہلّہ

کوئی دوڑو ہائے اللہ

 

سارا گوٹا نوچ ناچ کر

کس نے چوٹی کھینچ کھانچ کر

پہنا کر ہتھنی کو نتھنی

چیر دیا گڑیا کا کلّا

کوئی دوڑو ہائے اللہ

 

دولھا کی پگڑی غائب ہے

دلہن کی چھکڑی غائب ہے

خرگوشوں کے کان کاٹ کر

لوٹ لیا پیسوں کا گلّہ

کوئی دوڑو ہائے اللہ

 

سوچ لیا ہے بدلہ لوں گی

میں بھی آج جلا ہی دوں گی

اپنے نٹ کھٹ بھیّا جی کی

ساری وکٹیں ،گیند اور بلّا

کوئی دوڑو ہائے اللہ

 

اب یہ ظلم نہیں سہنا ہے

سب کچھ ابّو سے کہنا ہے

بھیّا تم نے بہت ستایا

جم کر آج پٹو گے للّا

کوئی دوڑو ہائے اللہ

 

 

 

 

زمن کے کتّے

 

زمن:

میرے ہنٹر، شیرا، ٹائیگر

آنکھ جھپکتے نہیں رات بھر

نگرانی کرتے رہتے ہیں

آنگن میں ، کھیتوں میں چھت پر

روکھی سوکھی جو ملتی ہے

کھا لیتے ہیں تینوں مل کر

 

ثمرہ:

شرمیلی بلّی حمرا کی

سر سے دُم تک ہے چالاکی

بھولے چہرے پر مت جاؤ

چوہوں سے پوچھو سفّاکی

اس کی بالائی چٹ کر کے

اُس کی بالوشاہی تاکی

 

حمرا:

بھیا زمن تمہارے کتّے

جلتے ہیں میری مانو سے

آج گئی تھی یہ ڈیوٹی پر

تینوں پڑ گئے دُم کے پیچھے

مجبوراً بیچاری بلّی

لیٹ گئی صوفے پر آ کے

 

 

 

 

لال پتنگ

 

کیا فرّاٹے سے اُڑتی تھی

ایک اشارے پر مڑتی تھی

اور ٹھنکی پر غوطہ کھا کر

کر دیتی تھی سب کو دنگ

ہے ہے دوڑ کے پکڑے کوئی

کٹ گئی میری لال پتنگ

 

چکنا کاغذ جیسے کانچ

اچھا ٹھڈّا اور قمانچ

آنکھیں بھی رنگیں ہو جائیں

ایسا پیارا پیارا رنگ

ہے ہے دوڑ کے پکڑے کوئی

کٹ گئی میری لال پتنگ

 

فیضی تو ہے کام کا چور

لایا ہو گا کچی ڈور

عرشی ذرا سنبھالو چرخی

میں کرتا ہوں اس سے جنگ

ہے ہے دوڑ کے پکڑے کوئی

کٹ گئی میری لال پتنگ

 

 

 

 

گیند کھو گئی

 

ہرے ملائم ریشوں والی

اُن پر دھاری کالی کالی

اچھی خاصی دیکھی بھالی

گیند کھو گئی نالی میں

 

بھائی زمن نے خوب چھکایا

ہم کو دو گھنٹے دوڑایا

اب جو آئی اپنی پالی

گیند کھو گئی نالی میں

 

فیضی اور کھلاڑی اچھا

اس سے ایک اناڑی اچھا

بازی ہی چوپٹ کر ڈالی

گیند کھو گئی نالی میں

 

چہرے سے لگتا ہے ہیرو

لیکن ہر میدان میں زیرو

چھکا اور جنابِ عالی!

گیند کھو گئی نالی میں

 

 

 

 

تین کوّے

 

سیر سپاٹے کی نیت سے

ٹیم بنا کر کوّے تین

گھر والوں سے رخصت ہو کر

بولے ہم جاتے ہیں چین

اِک بستی میں پہلا کوّا

جھپٹا چھوٹے چوزے پر

رکھوالے نے اس کے سر پر

مارا کھینچ کے اک پتھر

چوہا لے کر اِک بلّی کا

بھاگا کوّا نمبر دو

بلّی خالہ بڑی سیانی

دھر پکڑا بیچارے کو

باقی بچنے والا ساتھی

انگوروں کی تاک میں تھا

بائیں آنکھ نوچ کر اس کی

اک شکرہ یہ جا وہ جا

وہ کانا ہو کر گھر لوٹا

دن بھر آہیں بھرتا ہے

کان کھڑے رکھتا ہے اپنے

چین کے نام سے ڈرتا ہے

 

 

 

 

دودھیا نغمہ

 

ہیّا ہیّا، ہِیو ہِیو

ہنستے گاتے ہوئے جِیو

پیارے بچو دودھ پیو

ثمرہ بیٹی دودھ پیو

 

تن پر بوٹی چڑھ جاتی ہے

سر پر چوٹی بڑھ جاتی ہے

اچھی لڑکی پڑھ جاتی ہے

ثمرہ بیٹی دودھ پیو

 

جگ میں نام کمانا ہو تو

اوّل نمبر آنا ہو تو

دنیا پر چھا جانا ہو تو

ثمرہ بیٹی دودھ پیو

 

دودھ پیو دنیا جانے گی

بلّی تم کو پہچانے گی

گڑیا بھی کہنا مانے گی

ثمرہ بیٹی دودھ پیو

 

 

 

 

مٹھو میاں کی چونچ

 

 

مٹھو میاں کی چونچ نے کتنا ستایا ہے

مُنّا اسے رنگانے کو پھر شہر لایا ہے

 

پرسوں ہی اس پہ رنگ چڑھایا تھا جامنی

مٹھو میاں نے بات کسی کی نہیں سنی

پانی میں چونچ ڈال کے تِل دیر تک چنی

 

اب رنگ جامنی ہے نہ سرخی بقایا ہے

لگتا ہے جیسے چونچ پہ کیچڑ لگایا ہے

 

اک بار اس پہ رنگ پیازی چڑھایا تھا

سونے کا اس کے بعد ملمّع کرایا تھا

وہ چھٹ گیا تو نیلا کلر آزمایا تھا

 

مٹھو میاں کی چونچ نے کتنا ستایا ہے

اس نے ہر ایک رنگ کو ٹھینگا دکھایا ہے

 

منّا کو سرخ رنگ نہیں بھاتا جانے کیوں

تربوز تک بچارہ نہیں کھاتا جانے کیوں

طوطا بغیر چونچ نہیں آتا جانے کیوں

 

تنگ آ کے اس نے مٹھو کا پنجرہ اُٹھایا ہے

جنگل میں جا کے آج اسے چھوڑ آیا ہے

 

 

 

گھر کی مرغی

 

ہاتھ بندھے تھے اُس نٹ کھٹ کے

پھر بھی سر کو دے کر جھٹکے

پھوڑے پورے تیرہ مٹکے

بھابھی جی کہتی ہیں جوکر

گھر کی مرغی دال برابر

 

لگاتار چوّے پھٹکارے

اوپر سے دو چھکّے مارے

لیکن سن کر جیت کے نعرے

بھیّا بولے واہ پھٹیچر

گھر کی مرغی دال برابر

 

اور تمھیں کچھ کام نہیں ہے

ان کا کوئی دام نہیں ہے

نام نہیں ، انعام نہیں ہے

نظمیں لکھتے جاؤ مظفرؔ

گھر کی مرغی دال برابر

 

 

 

مدد

 

مچھلی نے کہا بھیّا ہم تیر نہیں سکتے

کچھوے نے کہا رو کر ڈر لگتا ہے پانی سے

تالاب سے گیند اپنی ہم خود ہی نکالیں گے

 

فیضی نے جڑا ڈنڈا گلّی گئی کھائی میں

کتّا ہو کہ بلّی ہو، سب مست ملائی میں

ہم خود ہی نکالیں گے بازی ہے کھٹائی میں

 

مصروف غٹرغوں میں اس وقت کبوتر ہے

توتا تو ہے پنجرے میں ، اُڑنا اسے دوبھر ہے

پیپل میں پتنگ اُلجھی، اب اپنے ہی اوپر ہے

 

 

 

 

نہلے پر دہلا

 

گدّوں میں سوراخ کیے ہیں

پردے سارے کاٹ دیے ہیں

کُترا کرتی ہو سر کنڈے

توڑ دیا کرتی ہو انڈے

جھپٹی مرغی کُڑکُڑ کرتی

چوہیا جی اب کیا کرو گی

 

چوزوں پر بیٹھی رہتی ہو

یا انڈے سیتی رہتی ہو

گندی کر دیتی ہو چادر

پانی میں بھر دیتی ہو پر

لو آتی ہے بلّی موسی

بی مرغی آپ کیا کرو گی

 

چٹ کر جاتی ہو بالائی

جانی دشمن ہو مرغی کی

چار کبوتر مارے تم نے

نوچے پودے سارے تم نے

وہ آئی کتیا غرّاتی

اے بلّی اب کیا کرو گی

 

 

 

 

کھایا ہے تو۔۔۔۔

 

ایک چنے میں دو دو دالیں

ہم تم دونوں مل کر کھالیں

اب کیرم میں ہاتھ بٹا لیں

کھایا ہے تو چلیں برابر

 

بھٹّا ایک تھا ہم سب نو تھے

لیکن دانے بھی تو سو تھے

کرکٹ ہو گا تیسرے چوتھے

کھایا ہے تو چلیں برابر

 

یاد ہے وہ مل جل کر کھانا

مونگ پھلی کا موٹا دانا

چھپا چھپی سے کیا گھبرانا

کھایا ہے تو چلیں برابر

 

 

 

 

چھپا چھپائی

 

پردہ خوب جھٹک کر دیکھا

پنجرے دان پٹک کر دیکھا

مٹّی کے ہنڈوں میں دیکھا

سوکھے سرکنڈوں میں دیکھا

کرسی دیکھی، جھولا دیکھا

پھکنی دیکھی، چولھا دیکھا

چھو کر دیکھا ہٹ کر دیکھا

ہر گلدان پلٹ کر دیکھا

 

ایک کمینہ جھینگر نکلا

ظالم مکھن میں تر نکلا

 

 

چھت کے اوپر چڑھ کر دیکھا

کتّے بلّی کا گھر دیکھا

سارے صندوقوں میں دیکھا

بیڈ دیکھے ، میزوں میں دیکھا

ٹنکی کے اندر بھی دیکھا

گدّا پلٹا کر بھی دیکھا

ہر صوفے کے نیچے دیکھا

الماری کے پیچھے دیکھا

 

نوری تیز بلا کی نکلی

ٹب سے بھیگی بھاگی نکلی

 

 

 

 

ہر انسان برابر ہے

 

 

چینی ہو جاپانی ہو

روسی ہو ایرانی ہو

باشندہ ہو لنکا کا

یا وہ ہندوستانی ہو

سب کا مان برابر ہے

ہر انسان برابر ہے

 

انور ہو اربندو ہو

مریم ہو یا اِندو ہو

مسلم ہو یا عیسائی

وہ سکھ ہو یا ہندو ہو

سب کا مان برابر ہے

ہر انسان برابر ہے

 

سیٹھ بھکاری ایک سمان

مل مالک ہو یا دربان

جس کی کٹیا چھوٹی سی

جس کا بنگلہ عالی شان

سب کا مان برابر ہے

ہر انسان برابر ہے

 

فوجی ہویا پٹواری

میراثی یا بھنڈاری

کھیتی کرنے والا ہو

یا کرتا ہو سرداری

سب کا مان برابر ہے

ہر انسان برابر ہے

 

چپراسی ہو یا افسر

موچی ہو یا سوداگر

کھینچ رہا ہے جو رکشا

جو بیٹھا ہے رکشا پر

سب کا مان برابر ہے

ہر انسان برابر ہے

 

پنجابی ہو یا سندھی

اردو بولے یا ہندی

دھوتی پہنے یا شلوار

پھول سجائے یا بندی

سب کا مان برابر ہے

ہر انسان برابر ہے

 

کام ضروری کرتا ہو

یا مزدوری کرتا ہو

جو بھی ہو جیسا بھی ہو

محنت پوری کرتا ہو

سب کا مان برابر ہے

ہر انسان برابر ہے

 

 

 

 

نرسری رائم

 

 

میں ہوں شمّی

میری امّی

چھوٹا ڈبّو

پیارے ابو

ہم سب مل کر چار ہوئے

پھول ملے تو ہار ہوئے

 

امی کافی

ابو ٹافی

ڈبّو پپّی

کہہ دے اپی

ہم سب مل کر چار ہوئے

پھول ملے تو ہار ہوئے

 

 

 

 

کیا کھیلیں ، کہاں کھیلیں

 

بولیں غصّہ ہو کر باجی

گھر میں کیا تُک ہے کرکٹ کی

عدنان، ایمن، ثمرہ، فیضی

باہر جا کر کھیلو نا

 

پودے ٹوٹ نہیں جائیں گے

گملے پھوٹ نہیں جائیں گے

ابو روٹھ نہیں جائیں گے

کیرم لا کر کھیلو نا

 

ایک گوٹ کیرم کی کم تھی

اوپر سے آ دھمکی عرشی

سب نے مانی بات زمن کی

ریل بنا کر کھیلو نا

 

اس کے گارڈ بنے ہیں ایمن

اور زمن ہیں ریل کا انجن

ڈبّے مِدّو، ثمرہ، عدّن

فیضی آ کر کھیلو نا

 

کتنی پیاری ریل ہے بچو

کیسا اچھا کھیل ہے بچو

سب میں کتنا میل ہے بچو

تم بھی گا کر کھیلو نا

 

 

 

 

چلی دلہن کی پالکی

 

 

جگمگ جگمگ جھلمل کرتی

چلی دُلہن کی پالکی

سارس آیا ڈولی لے کر

لنگور اپنی ٹولی لے کر

لومڑی میٹھی بولی لے کر

چمگادڑ بھی جھولی لے کر

 

بیسوں نتھو خیرے آئے

ہوٹل سے نَو بیرے آئے

لگ بھگ ساٹھ وڈیرے آئے

بارہ ایرے غیرے آئے

ناگن لہراتی تھی کوڑا

گھوڑا لے کر آیا جوڑا

ہُدہُد بابا لائے ہتھوڑا

لایا اونٹ بڑا سا پھوڑا

 

آئے شیر دہاڑیں لائے

ہاتھی لمبی ڈاڑھیں لائے

مور اپنی چنگھاڑیں لائے

موٹے دُنبے پاڑھیں لائے

 

مینا لائی تال مکھانا

نیل کنٹھ لائے نذرانہ

چڑیاں آئیں لے کر دانہ

جلتے پَر لایا پروانہ

 

چکوی بی بی لائی کچور

بگلا لایا ململ کوری

ہریل لائے پان گلوری

لائے بیل شکر کی بوری

 

بھینس آئی لے کر اصلی گھی

مینڈھے کی سینگوں میں گوبھی

تین کبوتر لائے چٹھی

چھتّہ لائی شہد کی مکھی

ڈولی چوہیا رانی کی

بچو دلّی آ پہنچی

 

 

 

 

 

غبّارے والی

 

 

سستے چاند ستارے والی

ناگن اور پٹارے والی

چھتری ٹوپ غرارے والی

آئی ہے غبّارے والی

 

رنگ برنگی گڑیاں لے کر

بچے ، بوڑھے ، بڑھیاں لے کر

جادو کی دو پڑیاں لے کر

آئی ہے غبّارے والی

 

تالی سے بتّی جلتی ہے

یہ موٹر اُلٹی چلتی ہے

وہ میڈم آنکھیں ملتی ہے

آئی ہے غبّارے والی

مست قلندر وہ لٹکے ہیں

مونچھ مچھندر وہ لٹکے ہیں

دیکھو بندر وہ لٹکے ہیں

آئی ہے غبّارے والی

 

فوجی، توپ چلانے والا

ڈاکیہ چٹھی لانے والا

راجا، جی بہلانے والا

آئی ہے غبّارے والی

 

پیارے بھولے بھالے بچو

گورے بچو، کالے بچو

ہنس دو رونے والے بچو

آئی ہے غبّارے والی

 

 

 

 

عیدی کیسے بڑھائی جائے

 

بچوں نے عید پر جب نعرے بہت لگائے

ماں باپ نے بھی اپنے دُکھڑے انہیں سنائے

بچو تمہاری عیدی کیسے بڑھائی جائے

 

تم خود ہی کہہ رہے ہو مہنگائی بڑھ گئی ہے

عام آدمی بچارا کیا کھائے ، کیا بچائے

بچو تمہاری عیدی کیسے بڑھائی جائے

 

پتلون کی سلائی پچانوے روپے دی

عرفی کے بوٹ ساڑھے چھ سو روپے میں آئے

بچو تمہاری عیدی کیسے بڑھائی جائے

 

بے میل سوٹ ہو تو بن جائے منہ زمن کا

سستی اگر ہو ٹوپی، فیضان بھنبھنائے

بچو تمہاری عیدی کیسے بڑھائی جائے

 

بچپن میں کھیلتے تھے مٹی کے ہم کھلونے

بجلی سے چلنے والے گڈّے تمہیں دلائے

بچو تمہاری عیدی کیسے بڑھائی جائے

 

جائز نہیں تقاضا، لالچ بری بلا ہے

نعرے لگاکے تم نے گھر بھر پہ ظلم ڈھائے

بچو تمہاری عیدی کیسے بڑھائی جائے

 

تم نے تو اپنے دل کی امّی سے کہہ سنائی

ابا کے دل سے پوچھو، بپتا کسے سنائے

بچو تمہاری عیدی کیسے بڑھائی جائے

 

یہ بات بھی گرہ میں پیسوں کے ساتھ باندھو

سچی خوشی وہی ہے جو مفت ہاتھ آئے

بچو تمہاری عیدی کیسے بڑھائی جائے

 

اچھا ہمیں سویّاں مل جل کے تم کھلاؤ

ہم نے تمہارے پیسے اس عید سے بڑھائے

بچو تمہاری عیدی کیسے بڑھائی جائے

 

 

 

 

مزدور کی عظمت

 

تیل نکالیں ریت سے یہ

غلّہ بنجر کھیت سے یہ

یہ تو ہر فن مولا ہیں

آٹھوں گانٹھ کمیت سے یہ

بے شک دنیا قائم ہے

مزدوروں کی محنت پر

 

یہ ہنگامہ شہروں کا

ان سے پانی نہروں کا

ان کے دم سے لرزے میں

دل طوفانی لہروں کا

بے شک دنیا قائم ہے

مزدوروں کی محنت پر

 

مِل میں کپڑا بُنتے ہیں

یہ دیواریں چُنتے ہیں

ہم ٹی۔وی۔ اور ٹیلی فون

ان کے دم سے سنتے ہیں

بے شک دنیا قائم ہے

مزدوروں کی محنت پر

یہ ناویں تیراتے ہیں

اور جہاز اُڑاتے ہیں

سکھ دیتے ہیں دُکھ سہہ کر

روکھی سوکھی کھاتے ہیں

بے شک دنیا قائم ہے

مزدوروں کی محنت پر

 

جب تک پہیّے گھومیں گے

جب تک پودے جھومیں گے

ان کے زخمی ہاتھوں کو

دنیا والے چومیں گے

بے شک دنیا قائم ہے

مزدوروں کی محنت پر

 

 

 

 

 

مل بانٹ کر کھایا

 

ایک لڈّو کافی بڑا

دس کو مل کر کھانا پڑا

آٹھ ان میں سے ہار گئے

دو کھا کر بازار گئے

 

پیٹ اپنے سہلاتے ہیں

دونوں چورن کھاتے ہیں

کوئی لڈّو کہہ دے تو

بری طرح چِڑ جاتے ہیں

 

 

 

دھرتی پر کیا کم ہے

 

اے پیارے معصوم کبوتر

کیوں نیلے آکاش پہ جا کر

نوچ لیے دو درجن تارے

جُگ جُگ کرتے روشن تارے

 

چاند کی لَو کم ہوتی ہو گی

اس کی بڑھیا روتی ہو گی

دانا گھر میں کھالو دُگنا

دیکھو اب تارے مت چُگنا

 

 

 

 

 

چالاک کچھوا

 

مدّو نے دو کچھوے پالے

ٹھمّک ٹھمّک چلنے والے

ریس کھیلتے ہیں یہ دونوں

ڈنڈ پیلتے ہیں یہ دونوں

 

ایک ان میں چالاک بہت ہے

نٹ کھٹ ہے بے باک بہت ہے

جو اس کو اخروٹ نہ دے گا

یہ بھی اس کو ووٹ نہ دے گا

 

 

 

ذرا سوچو

 

ٹیٹو بھائی

ذرا سوچو

اپنے بھی پر ہوتے تو۔۔۔

منگل کرتے جنگل میں

ڈبکی لیتے بادل میں

 

سات سمندر

کرتے پار

خوب اُڑانیں بھرتے یار!

نیچی چھت پر کیا سوتے

اونچے پربت پر ہوتے

اور اگر کروٹ پھرتے

اپنی چھت پر

آ گرتے !

 

 

 

 

 

ارے باپ رے

 

پانڈی چیری

رات اندھیری

شامت میری

اُلّو بولا!

ارے باپ رے !

 

بریانی پر

لسّی پی کر

گھوم گیا سر

کوکا کولا!

ارے باپ رے !

 

روسی سرکس

جھولے پر بس

ہاتھی  دس دس

ارے باپ رے !

 

دنیا گولی

رس گلّا بھی

گول جلیبی

لڈّو گولا!

ارے باپ رے !

 

 

 

 

اُفّوہ!

 

ماموں آئے کلکتہ سے

لے کر بسکٹ کھلّے

لانے تھے رس گلّے

 

خالو خورجہ سے آئے ہیں

لے کر کالا منجن

اب کے لانا کھرچن

 

چاچا متھرا سے لائے ہیں

لڈو ٹیڑھے میڑھے

کاش وہ لاتے پیڑے

 

میرٹھ سے لوٹے ہیں ابو

لے کر ایک اٹیچی

کب لائیں گے قینچی

 

 

 

 

لڑنا ٹھیک نہیں

 

خرگوشوں نے

نادانی میں

کاجل گھول دیا

پانی میں

نیلی جھیل میں

کالا پانی

کالی ہو گئی مچھلی رانی!

بگلے کو بھی پہنچا صدمہ

خرگوشوں پر

کیا مقدمہ

یہ اچھی تحریک نہیں ہے

لڑنا بھڑنا ٹھیک نہیں ہے

کچھوے جی کا کہنا مانو

آپس میں سمجھوتا کر لو

 

 

 

ہٹلر مچھر دانی میں

 

گپّو مت کھولو یہ کھڑکی

کھاؤ گی ابو کی جھڑکی

بھِن بھِن کرتے آ جاتے ہیں

مچھر زندہ کھا جاتے ہیں

 

کچھوا، مرغا، تیز دوائیں

یہ ظالم سب کھا پی جائیں

گپّو! مچھر ہیں یا ہٹلر

مچھر دانی میں بھی مچھر

 

 

 

 

ایکتا کی مثال

 

چھوٹی نے طوطا پالا تھا

بڑی بہن نے بلّی

بلّی کو گھی کم بھاتا تھا

اور طوطے کو تلّی

دلّی میں ہے سب کہتے ہیں

دونوں کی سسرال

آؤ بچو چل کر دیکھیں

ہم اُن کے احوال

تم سمجھے تھے دونوں بہنیں

پھونکتی ہوں گی چولھا

لیکن وہ تو اپّو گھر میں

جھول رہی ہیں جھولا

ناچ رہی ہے کالی بلّی

اس کے سر پر طوطا

سوچ رہی ہے ساری دلّی

ایکا سب میں ہوتا

 

 

 

 

گھوٹالہ

 

پان کھا کر شیر آیا

لوگ سمجھے خون ہے

شیر نینی تال سمجھا

اور یہ دہرہ دون ہے

سرد ہے موسم مگر

تاریخ پندرہ جون ہے

 

پان اُس دن منع ہے

کیا شیر کو معلوم تھا؟

ورنہ نینی تال میں

کیا پان کھا کر گھومتا؟

اپنے دہرہ دون میں ہی

چائے پی کر جھومتا!

 

 

 

 

رسّی اور لسّی

 

بھولے بھالے جمّن خاں

ان کی چھوٹی سی دوکان

 

دائیں ہاتھ پہ لسّی ہے

بائیں جانب رسّی ہے

 

لسّی بیچی اسّی ہاتھ

رسّی بالائی کے ساتھ

 

سیدھے سادے جمّن خاں

نہیں چلا پائے دوکان

 

 

 

 

ناسمجھ طوطے

 

پیارے بھائی امان الدین

لے آئے ہیں طوطے تین

 

مل کر ٹیں ٹیں کرتے ہیں

چھید کان میں کرتے ہیں

 

سونا سب کا دوبھر ہے

گھر بھر نیچے اوپر ہے

 

کھول دیا تھا پنجرا رات

طوطے نہیں سمجھتے بات

 

 

 

 

کان بندر کا

 

دم لہراتا آیا بندر

پھاند پڑا ٹنکی کے اندر

ڈھکّن گر گیا ٹنکی کا

کان کٹ گیا منکی کا

 

ڈاکٹر صاحب آئیں گے

ٹانکے چار لگائیں گے

بندر ہو جائے گا ٹھیک

اچھی مل گئی اس کو سیکھ

 

 

 

 

بون چائنا کی

 

پادھانی سا

سارے گاما

چندا ماما، چندا ماما

میری چھت پر کب آؤ گے

نئی پیالی کب لاؤ گے

یہ اسٹیل کی پچکی پیالی

نہیں جنم بھر ٹوٹنے والی

چندا ماما

جب بھی آنا

بون چائنا والی لانا

 

 

 

 

حلوائی کا گھر

 

بھالو ڈھول بجائے گا

بکرا ناچ دکھائے گا

بھینسا تاک دھنا دھن دھنّا

اپنے سینگ ہلائے گا

 

گاتے گاتے

ناچ ناچ کر

جب تینوں تھک جائیں گے

حلوائی جی کے گھر جا کر

دودھ جلیبی کھائیں گے

 

 

 

خالہ بلّی

 

آلتی کی پالتی

موٹی گُپّا مالتی

اس کی دیدی شوبھا

بیٹھی دودھ اُبالتی

 

دونوں بہنوں کو نیند آ گئی

خالہ بلّی آئی

دودھ اُنڈیلا انگاروں پر

چٹ کر گئی بالائی

 

 

 

 

اکّڑ بکّڑ

 

اکّڑ بکّڑ بمبے

بجلی کے دو کھمبے

دُبلے جیسے ماموں

بھیّا جیسے لمبے

 

کھمبوں پر دو کوّے

آئے چڑھا کر پوّے

مل کر گنتے گنتی

ستّر اسّی نوّے

 

 

 

 

چلتے چلتے

 

مسٹر جان اور پاون داس

دونوں جاتے ہیں دیواس

 

جھیل ملی اک رستے میں

باندھا اس کو بستے میں

 

آگے آیا ریگستان

پاون داس ہوئے حیران

 

بستہ کھولو مسٹر جان

مشکل ہو جائے آسان

 

 

 

 

گڑبڑ جھالا

 

گڑ بڑ جھالا

منہ پر تالا

 

پھر آیا وہ کلفی والا

’’اچھی والی کلفی دینا

 

یہ لو دو کا سکّہ لالہ‘‘

’’سکہ جا پہنچا نالے میں

 

تم نے جانے کیسے اُچھالا‘‘

’’اچھا  یہ لو نوٹ دوسرا‘‘

 

’’بھیّا یہ تو نہیں چلے گا

پھٹا پرانا کالا کالا‘‘

 

کلفی ساری پگھل چکی ہے

ہے نا سب کچھ گڑبڑ جھالا

 

 

 

 

عدّو چلے اُنّاؤ

 

ستّل کتّل موٹلی

باندھ کے اپنی پوٹلی

رکھّا اس ڈبّے میں لٹّو

اک پڑیا میں باندھا ستّو

تھیلی گڑ دھانی کی رکھی

اک چھاگل پانی کی رکھی

کیسی ریل کہاں کی موٹر

لاٹھی رکھ لی ہے کاندھے پر

 

گھر والوں پر کھا کر تاؤ

عدّو جاتے ہیں اُنّاؤ

 

 

 

 

اپنی اپنی بولیاں

 

کوا بولے کاؤں کاؤں

بلّی کرتی میاؤں میاؤں

مرغا بولے ککڑوں کوں

چڑیا کرتی چوں چوں چوں

اور کبوتر غٹروں غوں

مینڈک ٹرٹر ٹرتے ہیں

جھینگر ریں ریں کرتے ہیں

گیّا بھیں بھیں کرتی ہے

بکری مَیں مَیں کرتی ہے

طوطی ٹیں ٹیں کرتی ہے

گھوڑا ہِن ہِن کرتا ہے

مچھّر بھِن بھِن کرتا ہے

بندر خو خے خاؤں خاؤں

کتّا بھونکے بھاؤں بھاؤں

کوّا بولے ۔۔۔۔۔

 

 

 

 

بولتی پہیلی

 

ہرا سمندر

گوپی چندر

دنیا بھر ڈبیہ کے اندر

افریقہ سے

چین سے باتیں

مدّو سے نسرین سے باتیں

گردن میں

لٹکی رہتی ہے

کانوں سے لپٹی رہتی ہے

رومنگ اچھی

سَرچ بہت ہے

لیکن اس میں خرچ بہت ہے

 

سارے گاما

نام زلیخا ہو یا شیاما

ہر مندر سنگھ، امجد، راما

دھوتی پہنے یا پاجامہ

سب نے ماں کا پلّو تھاما

 

بادل جب گھر کر آتے ہیں

سارے مینڈک ٹرّاتے ہیں

سب مستی میں آ جاتے ہیں

ہم گاتے ہیں سارے گاما

 

دہشت گردوں کی آمد پر

ہم چوکنّے ہیں سرحد پر

جیسے امریکا کی زد پر

افغانستان اور اُسامہ

 

بنگلہ دیشی زین اچھا ہے

ترکی کا قالین اچھا ہے

آبادی میں چین اچھا ہے

سب نے ماں کا پلّو تھاما

 

آسمان پر لاکھوں تارے

اپنے اپنے ہاتھ پسارے

اور ان سب کے بیچ ہمارے

پیارے پیارے چندا ماما

 

ماما کے کاندھے پر چڑھ کر

ننّھے منّے آگے بڑھ کر

خوش ہیں ان نظموں کو پڑھ کر

کوئی فل اسٹاپ نہ کاما

 

 

 

 

اپنے چاروں جانب دیکھو

 

اپی وہ دن کب آئیں گے

جب گھر میں چاول پکیں گے

سوندھی سوندھی دال بنے گی

ہم سب جی بھر کے کھائیں گے

 

اپی کب تک پہنوں گا میں

یہ پیوند لگا پاجاما

منگل کے بازار سے مجھ کو

نیکر جرسی دلوا دو نا

 

میرے سب ساتھی پڑھتے ہیں

میں اسکول نہ جاؤں گا کیا

وہ سب راجا بن جائیں گے

میں اَن پڑھ کہلاؤں گا کیا

 

اپی بیچاری کیا بولے

اس کے ابّو روٹھ گئے ہیں

ماں کی بیماری کے ہاتھوں

سندر سپنے ٹوٹ گئے ہیں

 

اے میرے دل والے بچو

اپنے چاروں جانب دیکھو

ایسے کنبے مل جائیں تو

ان کو بھی جینے کا حق دو

٭٭٭

تشکر: مصنف اور ان کے صاحبزادے پرویز مظفر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تدوین: اعجاز عبید