فہرست مضامین
- کچھ تفسیری تقریریں
- ام القرآن کی مختصر تشریح
- جادو اور جادوگر!
- جنت ہمارا اصلی گھر
- مشکلات کا حل!
- ہدایت پانے کے لیے ضروری چیز: تقویٰ
- مچھر ہی کی مثال کیوں؟
- مرضی کا دین
- کچھ منافقین کے بارے میں
- فرقہ واریت کا خاتمہ کیسے ؟
- ہم مانتے کیوں نہیں؟
- ہمارا کام کیا ہونا چاہیے ؟
- اہل ایمان کی تعلیم و تربیت
- دعوت دین کے ضروری نکات
- اللہ کی نشانیاں اور مشرکین کی حالت
کچھ تفسیری تقریریں
ڈاکٹر فرحت ہاشمی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ام القرآن کی مختصر تشریح
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ (1) الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (2) الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ (3) مَالِكِ یَوْمِ الدِّینِ (4) إِیَّاكَ نَعْبُدُ وإِیَّاكَ نَسْتَعِینُ (5) اهدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ (6) صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیهِمْ غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهِمْ وَلاَ الضَّالِّینَ (7)
شروع کرتی ہوں اللہ کے نام سے جو بہت مہربان، نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے،رحمان اور رحیم ہے،روز جزا کا مالک ہے۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جن پر تیرا غضب نہیں ہوا، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔
اللہ کی کتاب، اللہ کی تعریف،حمد و ثناء اور شکر کے ساتھ شروع ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس سے تعلق پیدا کریں، اس کے ہو جائیں۔ اس کے آگے جھکیں، اس کی تعریف کریں۔ اور سب سے بے نیاز ہو کر اس کے ہو کر رہ جائیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ [رَبِّ الْعَالَمِینَ]تمام جہانوں کا رب ہے۔ اسی نے سب کو پیدا کیا، وہی سب کو رزق دے رہا ہے۔ اسی کی طرف سے ہم سب آئے ہیں، اسی کی طرف ہم سب کی واپسی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ وہ بہت مہربان ہے، بہت رحم فرمانے والا ہے۔ ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والا ہے۔ اسی کی رحمت کی وجہ سے ہم گناہوں اور غلطیوں کے باوجود اس زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔ وہ ہمیں سب کچھ دیتا ہے لیکن ہم اسے اپنا سب کچھ نہیں دیتے۔ ہم اپنے آپ کو اس کے حوالے نہیں کرتے۔ اس کے باوجود بھی وہ ہمیں ایک خاص مدت تک مہلت دئیے چلا جاتا ہے کہ شاید کسی وقت میرے بندے لوٹ ہی آئیں، پلٹ آئیں۔ اور پلٹنا تو ہے کیونکہ ہر ابتدا کی ایک انتہا ہوتی ہے۔ جو کام شروع ہوتا ہے، وہ ایک ختم بھی ہو جاتا ہے۔ ہماری زندگی جو شروع ہوئی، اسے بھی ایک دن ختم ہونا ہے۔ ہم سب بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ہم سب ایک دن ایک جگہ پر اکھٹے ہوں گے۔ کس دن؟ [یَوْمِ الدِّیْنِ]جزا و سزا کے دن۔ وہاں ہمیں ہمارے کیے کا بدلہ دیا جائے گا اور اس دن کا مالک وہی ہے۔ اس لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم سب اس کے آگے جھک جائیں اور پکار اُٹھیں[اِیَّاكَ نَعْبُدُ]صرف تیری ہم عبادت کرتے ہیں [وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ]اور صرف تجھ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں۔ تو ہمیں اپنا بنا لے، ہمیں اپنا بننے کی توفیق دے۔ ہمیں اپنے آگے جھکنے کی توفیق دے۔ تو زندگی کے ہر معاملے میں ہماری مدد فرما اور تیرے سوا ہم کسی دوسرے کی طرف رجو ع نہ کریں۔ مانگنے کی چیزیں تو بہت ہیں لیکن اس کتاب کے آغاز میں ہم ہدایت مانگتے ہیں کیونکہ جس کو ہدایت مل گئی، صحیح راستہ مل گیا، اس کے لیے ساری منزلیں آسان ہو گئیں۔ اور جو رستے سے بھٹک گیا، وہ منزل تک پہنچ نہیں سکتا۔ اس لیے [اهدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ ] تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ سیدھا راستہ کیا؟ زندگی گزارنے کا وہ طریقہ جو تجھے پسند ہے، جو تجھ تک جاتا ہے۔ ہمیں وہ طریقے بتا جس سے تو راضی ہو جائے۔ [صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیهِمْ ] ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام کیا، جن سے تو راضی ہو گیا تاکہ ہم ان کے راستے پر چل کر تجھے راضی کرسکیں اور تو بھی ہم سے راضی ہو جائے [غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهِمْ ]ان لوگوں کا راستہ نہیں چاہیے جن کی طرف تو نے اپنی کتابیں بھیجیں، پیغمبر بھیجے۔ تو نے انہیں راستہ دکھایا لیکن وہ تیرے راستے پر نہ چلے اور بالآخر تیرے غضب کا شکار ہوئے۔ جنہیں بندر بنا دیا گیا، خنزیر بنا دیا گیا، جنہیں دنیا میں ہی اللہ کے غضب کا نشانہ بننا پڑا۔ اے اللہ! تو ہمیں ان کے راستے سے بچا۔ [وَلاَ الضَّالِّینَ ] اور بھٹکنے والوں کے راستے سے بچا۔ آمین
گویا یہ ایک دعا ہے جو ہم ہر نماز میں مانگتے ہیں۔ لیکن کتنا ہی اچھا ہو اگر ہم اس دعا کو مانگنے میں واقعی سنجیدہ ہو جائیں۔ خلوص کے ساتھ مانگیں۔ جو شخص خلوص کے ساتھ مانگتا ہے اللہ تعالیٰ ضرور اسے اپنا راستہ دکھا تے ہیں۔ لیکن کس طرح؟ اس کا جواب اگلی سورت میں ہے۔
جادو اور جادوگر!
وَلَمَّا جَاءهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِیقٌ مِّنَ الَّذِینَ أُوتُواْ الْكِتَابَ كِتَابَ اللّهِ وَرَاء ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لاَ یَعْلَمُونَ (101) وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّیَاطِینُ عَلَى مُلْكِ سُلَیْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّیْاطِینَ كَفَرُواْ یُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى یَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَیَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُونَ بِهِ بَیْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُم بِضَآرِّینَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَیَتَعَلَّمُونَ مَا یَضُرُّهُمْ وَلاَ یَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِی الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُواْ یَعْلَمُونَ (102)
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق اور تائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی تو ان اہل کتاب کے ایک گروہ اللہ کی کتاب کو یوں پس پشت ڈالا، گویا وہ جانتے ہی نہیں اور لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے جو شیاطین سلیمان علیہ السلام کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے۔ حالانکہ سلیمان علیہ السلام نے کبھی کفر نہ کیا۔ کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔ وہ پیچھے پڑے ان چیزوں کے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر نازل کی گئی تھی۔ یعنی ان کی آزمائش کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو فرشتے بھیجے تھے جو انسانی شکل میں جادو کرنا سکھاتے تھے۔ اور وہ فرشتے کہتے تھے ان کو جب بھی وہ کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے۔ پہلے صاف طور پر خبردار کرتے : دیکھو! ہم محض ایک آزمائش ہیں، تم کفر میں مبتلا نہ ہو۔ پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے، جس سے شوہر اور اس کی بیوی میں جدائی ڈالتے۔ یعنی جادو سیکھنے کے بہت شوقین تھے۔ اللہ کی کتاب کو تو بھلا دیا، پیچھے پھینک دیا۔
ہمارا حال:
آج مسلمانوں کا حال کیا ہے ؟ آج ہم بھی اللہ کی کتاب کو چھوڑ کراسی قسم کے اور مشغلوں کے پیچھے پڑ گئے۔ اور جادو بھی کس چیز پر کرتے کہ گھر ٹوٹے۔
معاشرے کی بنیاد:
یاد رکھیں! ایک گھر پورے معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے۔ جب بنیاد ٹوٹتی ہے تو ساری عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایک گھر کا ٹوٹنا دو افراد کے درمیان ہی مشکل کا سبب نہیں، دو افراد ہی کے لیے تکلیف کا سبب نہیں، دو خاندانوں اور بچوں کے لیے بھی بڑی مشقت کا سبب ہوتا ہے۔ ایسے بچے جو ان جذباتی مسائل سے گزرتے ہیں۔ وہ ساری زندگی ان مشکلات کو نہیں بھولتے اور بعض اوقات وہ آئندہ زندگی میں بھی پوری طرح سنبھل نہیں پاتے۔ وہ صحیح طور پر اپنا کام انجام نہیں دے پاتے۔ تو اسلام میں فیملی لائف بہت اہم ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے شوہر کے حقوق اور بیوی کے حقوق الگ الگ بتائے۔ ہر ممکنہ کوشش سے انہیں اس بات کا پابند کیا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہیں۔ اور چھوٹے چھوٹے اختلافات اور چھوٹی چھوٹی باتوں پرآپس میں بگڑ نہ بیٹھیں۔ لیکن بنی اسرائیل کے لوگوں کو دیکھئے کہ اگر انہوں نے جادو کیا بھی یا جادو کرنا بھی چاہا تو کس بات پر کہ شوہر اور بیوی میں جدائی پڑ جائے۔ تاکہ پورا معاشرہ تباہی کا شکار ہو۔ یعنی یہ ان کی سازش صرف ایک گھر کے خلاف نہیں تھی، پوری سوسائٹی کے خلاف تھی کیونکہ ایک گھر کے ٹوٹنے کے جو اثرات ہیں وہ پورے معاشرے تک جاتے ہیں۔
جادو کے اثرات:
لیکن یہ بات بھی ساتھ ہی یاد رہے کہ: [وَمَا هُم بِضَآرِّینَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ ]جادو کے اندر کوئی طاقت نہیں۔ اگر اس کے ذریعے کسی کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اللہ کے اذن سے۔ اور جادو کیا چیز ہے ؟بات یہ ہے کہ جس طرح جسم پر مادی چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں یعنی جس طرح ہڈی کے اوپر اگر کوئی سخت چیز لگے گی تو دکھے گی وہ۔ جسم کے ساتھ کوئی اور ایسی چیز ٹکرائے گی تو اسے تکلیف ہو گی۔ اسی طرح انسان کی روح بھی متاثر ہوتی ہے۔ کس سے ؟ مختلف طرح کے کلام سے۔ آپ دیکھیں کہ اچھا کلام انسان کے دل کے لیے خوشی کا سبب ہوتا ہے۔ اسی طرح بری بات، مثلاً اگر کوئی آپ کو گالی دے یا کوئی بری بات آپ سے کرے یا کوئی پریشان کن بات آپ سے کہے تو اس کا بھی آپ کی روح پر اثر ہوتا ہے۔ تو جادو بھی کچھ کلمات اور کلام کے ذریعے کیا جاتا ہے جو عموماً شیطانی باتیں ہوتی ہیں۔ اور شیطانوں کے ذریعے مدد لی جاتی ہے
جادو کی اصل:
کیونکہ یہاں فرمایا : [وَلَكِنَّ الشَّیْاطِینَ كَفَرُواْ یُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ ] کہ جادو کا سورس کیا ہے، اصل کیا ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ شیطان انسانوں کو یہ سکھاتے تھے۔ اور جادو کفر ہے۔ اور پھر خاص طور پرایسے مقاصد کے لیے اس کا استعمال جس سے گھر ٹوٹے، معاشرہ متاثر ہو، یہ اور بھی زیادہ برا ہے۔ یعنی برائی پر برائی کا شکار تھی یہ قوم۔ اور یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ کیونکہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا تھا، بھلا دیا، اس سے غافل ہو گئے۔ فرمایا: اس کے باوجود وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو خود ان کے لیے نفع بخش نہ تھی۔ بلکہ نقصان دہ تھی۔ اور انہیں خوب معلوم تھا کہ جو شخص اس کا خریدار بنا، اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ یہ آیت ذرا غور سے پڑھنے اور سننے والی ہے۔ جو جادو کا خریدار بنا۔ خریدار کیسے ہوتا ہے ؟ لوگ بڑا بڑا پیسہ ضائع کرتے ہیں، بڑی بڑی رقمیں خرچ کرتے ہیں اور اس سے وہ ایسی چیزیں لے کر آتے ہیں جس سے وہ جادو کرتے ہیں۔ تو جو شخص اس کا خریدار بنے گا، جادو کا لین دین کرے گا، اس معاملے میں اپنا مال لگائے گا، وہ یاد رکھے کہ اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اس کا دین ایمان سب تباہی کا شکار ہو گیا۔ کتنی بری متاع تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔ کاش انہیں معلوم ہوتا۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ جس کسی نے جادو کی تھوڑی یا زیادہ چیز سیکھی، اللہ تعالیٰ سے اس کا معاملہ ختم۔ اور صحابہ کرام گرہیں لگا کر کچھ پھونکنے کو جادو سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ اس کو جادو خیال کرتے تھے۔ اس لیے اس کی حقیقت کا اچھی طرح علم ہونا چاہیے۔
جادو ہو جائے تو کیا کریں؟:
اگر کسی کو ئی مسئلہ اور پریشانی ہوتو انسان صلاۃ حاجت سے اللہ کی طرف رجوع کرے۔ اللہ کا ذکر کرے، استغفار کرے، ان شاءاللہ مشکلات آسان ہوں گی۔ اس کے لیے یہ نہیں کہ انسان جادوگروں کے پیچھے جائے۔ ان سے ٹوٹکے لائے اور اس ذریعے سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرے۔ یا پھر حسد کا شکا ر ہو کر کسی دوسرے کا گھر توڑنے کے درپے ہو جائے۔ یا کوئی رشتہ نہیں ملا تو اس حسد میں کہ ہمارا نہیں ہوا تو کسی اور کا بھی نہ ہو، اس کے پیچھے پڑ جائے۔ یہ سب ایسے لوگوں کے کام ہوسکتے ہیں جنہیں اپنی آخرت کی کچھ بھی فکر نہیں۔ جادو کا موضوع ایک طویل موضوع ہے جس پر گفتگو کے لیے ایک طویل وقت چاہیے۔ اب چونکہ موقع نہیں۔ اگر آپ اس کے بارے میں زیادہ جاننا چاہتے ہوں تو جادو، حقیقت اور علاج نام کی ایک کیسٹ اویلیبل ہے۔ اسے سن سکتے ہیں۔
جنت ہمارا اصلی گھر
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ
وَقُلْنَا یَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلاَ مِنْهَا رَغَداً حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الْظَّالِمِینَ (35) فَأَزَلَّهُمَا الشَّیْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیهِ وَقُلْنَا اهْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِی الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِینٍ (36)
ہم نے آدم سے کہا: تم اور تمہاری بیوی، تم دونوں جنت میں رہو۔ اور یہاں با فراغت جو چاہو، کھاؤ۔ مگر اس درخت کا رُخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے۔ ساری جنت تمہاری۔ بس ایک درخت کے پاس نہیں آنا۔ امتحان ہے۔ لیکن کیا ہوا؟ آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا، جس میں وہ تھے۔ ہم نے حکم دیا کہ اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ تم اس امتحان میں کامیاب نہیں ہوئے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے۔
انسان کا آخری ٹھکانہ:
اور ویسے بھی آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جنت کے لیے نہیں ابھی دنیا کے لیے پیدا کیا تھا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ جنت اس کا آخری ٹھکانہ ہے، اگر وہ ثابت کر دے کہ وہ اس کا اہل ہے۔ اور اس کے لیے اسے اس دنیا میں امتحان دینا ہوتا ہے۔ اور انسان کو یہ بھی یاد دہانی کروا دی گئی کہ ابلیس ساتھ ہے۔ بچ کر رہنا۔ اگر اس کی باتوں میں آ گئے تو جنت کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ پھر اس گھر کا دروازہ دکھا کر بتا دیا کہ اس گھر میں واپسی کا راستہ اطاعت میں ہے۔ اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے۔
[فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ (37)] اس وقت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کر لی اور اس کو اس کے رب نے قبول کر لیا۔
انسان اور شیطان میں فرق:
یہی فرق ہے انسان اور شیطان کا۔ شیطان اکڑ گیا اور انسان جھک گیا اور اس نے توبہ کر لی۔ تو انسانوں میں سے بھی انسان شیطان کے درجے میں ہوتے ہیں جو اپنی غلطی پر اکڑ جاتے ہیں، اصرار کرتے ہیں، رجوع نہیں کرتے۔ لیکن اصل رویہ جو اللہ تعالیٰ کو انسان سے مطلوب ہے، وہ کیا ہے کہ غلطی سامنے آنے کے بعد پلٹ آؤ۔ اللہ سے توبہ کر لو۔ جو توبہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر مہربان ہوتے ہیں۔ جیسے آدم علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ مہربان ہوئے۔ [فَتَابَ عَلَیْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ] بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا، بہت مہربان ہے۔
[قُلْنَا اهْبِطُواْ مِنْهَا جَمِیعاً فَإِمَّا یَأْتِیَنَّكُم مِّنِّی هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَ هُمْ یَحْزَنُونَ (38)]ہم نے کہا: تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس کوئی ہدایت آئے، تو تم میں سے جو اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا۔
انسان کے لیے دو پریشان کن چیزیں:
یہ دو چیزیں انسان کے لیے انتہائی تباہ کن ہیں، پریشان کن ہیں: ایک خوف اور ایک غم۔ حقیقی معنوں میں خوشحال اور خوش قسمت انسان وہ ہے، جسے خوف اور غم سے نجات مل جائے۔ دنیا میں بھی انسان کو یہ کیفیت اس وقت ملتی ہے جب انسان حقیقی معنوں میں اپنے رب کو پا لیتا ہے۔ اور آخرت میں بھی خوف اور غم سے نجات انہی کے لیے ہے جو اللہ کی اطاعت میں زندگی بسر کر کے آئیں گے، جو اس کتاب ہدایت کی پیروی کریں گے۔
اللہ کا پیغامِ ہدایت:
یہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کے لیے ایک پیغام دے دیا ہے کہ جو اس ہدایت کی پیروی کرے گا، وہ کامیاب ہو گا۔ لیکن بات یہ ہے کہ اگر ہم اس کتاب کو پڑھتے ہی نہیں، جانتے ہی نہیں کہ ہدایت ہے کیا؟ پیروی کہاں سے ہو گی؟ایک کاغذ پڑھا ہی نہیں جس پر انسٹرکشنز(ہدایات) لکھی ہیں، تو کھانا پکا کیسے سکتے ہیں؟ایک کاغذ پڑھا ہی نہیں جس پر ریسیپی (کھانا پکانے کی ترکیب) لکھی ہے، اس کے بغیر ہی آپ ہر چیز گھول رہے ہیں توٹیسٹ(ذائقہ) تو نہیں آئے گا، وہ تو نہیں بنے گی چیز جو آپ بنانا چاہتے ہیں۔ ایک روٹی تو بن نہیں سکتی، جب تک آپ کو آٹا گوندھنا نہ آئے۔ تو کہاں یہ کہ انسان اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھے، حالانکہ اس نے کتاب ہدایت کی طرف توجہ ہی نہ کی۔ یہ کتاب نہ اس کی نگاہ سے گزری اور نہ اس کے کانوں سے گزری ہو۔ [وَالَّذِینَ كَفَرواْ وَكَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ (39)] اور جو لوگ ان کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
مشکلات کا حل!
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ
[وَاسْتَعِینُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ]صبر اور نماز سے (یعنی ان کے ذریعے ) مدد مانگو۔ [ وَإِنَّهَا لَكَبِیرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِینَ [البقرة : 45]]اور بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر ان فرمانبردار بندوں کے لیے مشکل نہیں جو خشوع کرتے ہیں، جو دبے ہوئے ہیں، جو فرمانبرداری کرتے ہیں۔
مشکلات کا حل کیا؟:
یعنی حل کیا بتایا جا رہا ہے کہ جب بھی کسی معاملے میں مشکل پیش آئے اور جب بھی کسی معاملے میں دل تذبذب کا شکار ہو، شک ہو تو ایسے موقعوں پر انسان حق پر جما رہے اور اللہ سے مدد مانگتا رہے، دعا کرتا رہے۔ یہ کتاب ہر دور کے لیے ہے۔ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہو گا کہ شیطان وسوسہ ڈالے گا کہ یہ کتاب تم کیوں پڑھ رہے ہو؟ کیا پتہ تم بھٹک جاؤ۔ تو ایسے موقع پر یہ یاد رکھیے کہ ہدایت کتاب کے بغیر تو نہیں ملتی، کتاب بھٹکانے کے لیے نہیں آئی۔ کتاب تو ہدایت دینے کے لیے آئی ہے۔ لیکن اگر کوئی شک ہو جائے اپنے بارے میں تو ایسے موقع پر اللہ کے آگے جھک کر، صلاۃ حاجت پڑھ کر خوب خوب دعا کرنی چاہیے لیکن حق کا راستہ چھوڑنا نہیں چاہیے۔ بے شک نماز بہت بھاری ہے۔ بہت سے لوگ مشکلات میں تو لمبے لمبے وظیفے کرتے ہیں۔ بڑی بڑی مشقتیں تو کاٹتے ہیں لیکن نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
میرا تجربہ:
اور یہ میرے تجربے کی بات ہے کہ جب بھی میرے پاس کوئی مشکل لے کر آتا ہے تو میں ہمیشہ اس کو قرآن کے حکم کے مطابق بتاتی ہوں کہ دیکھو اللہ کے حضور جھکو، نفل پڑھو، دعا کرو،صبر کرو، ذرا انتظار کرو،حالات بدلیں گے۔ لیکن لوگ اس کو بہت ہلکی سی چیز لیتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی من گھڑت طریقہ بتایا جائے کہ اتنا چلہ کاٹ لو یا اس طرح کوئی کام کر لو تو اس پر راضی ہو جاتے ہیں کہ اب ٹھیک ہے۔ ہزاروں لاکھوں دفعہ ایک چیز پڑھنے کے لیے راضی ہیں، دو نفل پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔
پیارے پیغمبرﷺ کی عادت مبارکہ:
نبیﷺ کا طریقہ کیا تھا کہ جب کوئی مشکل پیش آتی تو فوراً نماز کی طرف رجوع کرتے۔ آپ ہی کی سنت میں ہم سب کے لیے بھی یہی طریقہ ہے۔
[الَّذِینَ یَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَیْهِ رَاجِعُونَ (46)]نماز ایک مشکل کام ہے لیکن ان فرمانبردار بندوں کے لیے مشکل نہیں جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انہیں اپنے رب سے ملنا ہے۔ اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
ہدایت پانے کے لیے ضروری چیز: تقویٰ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ
الم (1) ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِینَ (2) الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنفِقُونَ (3) والَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالآخِرَةِ هُمْ یُوقِنُونَ (4) أُوْلَئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (5) إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَیْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ (6) خَتَمَ اللّهُ عَلَى قُلُوبِهمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عظِیمٌ (7)
الم، یہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں[هُدًى لِّلْمُتَّقِینَ ] تقویٰ والوں کو ہدایت دینے کے لیے ہے۔
ہدایت پانے کے لیے ضروری چیز: تقویٰ:
گویا جو شخص ہدایت مانگتا ہے، اسے اپنے اندر ایک صفت پیدا کرنی ہو گی اور وہ صفت تقویٰ کی ہے۔ جو شخص اس صفت سے متصف ہو گا، اس کو اللہ کی کتاب بہت فائدہ دے گی۔ اس کے لیے حق و باطل میں فرق کرنے کی اندرونی بصیرت پیدا ہو گی۔
تقویٰ کیا ہے ؟:
کیونکہ تقویٰ دل کی کیفیت اور دل کے احساسات کا نام ہے۔ تقویٰ احتیاط کی زندگی کا نام ہے۔ تقویٰ اس دنیا کی زندگی میں غلط کاموں سے، حرام کاموں سے اور شک میں ڈالنے والے امور سے بچ بچ کر چلنے کا نام ہے۔ جو شخص احتیاط کی زندگی بسر کرتا ہے اور دوسروں کے لیے وہی چاہتا ہے جو اپنے لیے چاہتا ہے، جو شخص اپنے رب کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ ایسا شخص حقیقت میں سنجیدہ انسان ہوتا ہے۔ اس کی نیت درست ہوتی ہے اور وہ اپنے ارادوں میں مضبوط ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے کوشش بھی کرتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ بھی اپنا راستہ دکھا تے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جن کی زبان اور دل باہم موافقت نہ کریں، جو اوپر سے کچھ اور اندر سے کچھ ہوں، جو کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہوں۔ انہیں اس کتاب سے زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔
متقین کی صفات:
اس لیے متقین کی پہلی صفت یہ بیان کی گئی [الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ]جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ اور ایمان بھی دل کی کیفیت کا نام ہے۔ اور تقویٰ ہم سے سب سے پہلے ایمان لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور ایمان بھی کس پر؟ غیب پر، ان حقیقتوں پر جنہیں ہم نے دیکھا نہیں، جنہیں ہم نے سنا نہیں۔ ان سب چیزوں پر ایمان۔ اور کس طرح ؟ اور وہ کون سی چیزیں ہیں؟ مثلاً آخرت سے متعلق جتنے امور ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات، وحی الہیٰ۔ یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہم تک پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کی زبانی پہنچائیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ بعض اوقات ہم ان کو زبان سے مانتے بھی ہیں لیکن ان کی لائی ہوئی بات کو مانتے نہیں ہیں۔ ایک ڈاکٹر کی بات پر اعتماد کرتے ہیں۔ کبھی اس کی ڈگری نہیں مانگتے۔ ایک سائنسدان کی بات پر یقین رکھتے ہیں، اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس کی تھیوریز کو پڑھتے ہیں اور اس کے مطابق آگے چلتے ہیں۔ لیکن ایک اللہ کے رسول کو جو صادق اور امین تھے، ان پر اور ان کی لائی ہوئی غیب کی حقیقتوں پر ایمان لاتے ہوئے بعض اوقات ہم اپنے آپ کو زبان سے مسلمان کہنے والے بھی شک میں پڑ جاتے ہیں۔ جو لوگ شک کے ساتھ اس کتاب کو لیں، وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پا سکتے۔ ہدایت انہی کے لیے ہے جو غیب کی سطح پر ایمان لانے والے ہوں۔ اور جب وہ ایمان لے آئیں تو انہیں جھکنے میں کچھ مشکل نہ ہو۔ ان کا ایمان ان کے اندر کی ایسی پکار ہو کہ [وَیُقِیمُونَ الصَّلاةَ ] وہ نماز قائم کرتے ہوں اور اللہ کے آگے جھکتے ہوں۔ پھر انہیں جھکنے میں کچھ مشکل نہیں ہوتی کیونکہ انہوں نے اللہ کو اپنا رب مان لیا، محمد ﷺ کو اپنا رسول مان لیا۔ آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے جو کچھ اللہ کی طرف سے آتا ہے، اس پر عمل کرتے چلے جاتے ہیں۔
عمل میں سب سے پہلی چیز:
اور عمل کرنے کی چیزوں میں سب سے پہلی چیز نماز ہے۔ آخرت میں سب سے پہلے حساب نماز کا ہو گا [وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنفِقُونَ ]اور ایسے لوگ وسیع دل کے ہوتے ہیں۔ وہ خیر اور بھلائی کو صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتے۔ کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ہمارا رب ایک دن ہم سے ان سب چیزوں کا حساب لے گا۔ وہ خود غرض نہیں ہوتے۔ وہ صرف اپنا فائدہ نہیں چاہتے۔ وہ خود کو ملنے والے رزق کو دوسروں پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ پھر ان کی نگاہ دنیا پر ٹکی نہیں رہ جاتی۔ پھر وہ آخرت کا سودا کر لیتے ہیں۔ اس لیے ان کے دلوں سے دنیا کی اہمیت خود بخود کم ہو جاتی ہے۔
[ وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ] اور وہ صرف قرآن کو نہیں مانتے بلکہ ان تمام چیزوں کو مانتے ہیں جو آپﷺ کی طرف نازل کی گئیں خواہ وہ قرآن کی شکل میں ہیں یا حدیث کی شکل میں۔ [ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ]جو کچھ بھی آپ کی طرف اتارا گیا، خواہ الفاظ کی شکل میں، خواہ دوسری رہنمائی کی شکل میں۔ [وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ ]اور جو آپ ﷺ سے پہلے نازل کیا گیا، یعنی دیگر انبیاء پر۔
مؤمن وسیع دل اور سوچ کے مالک:
گویا وہ وسیع دل اور وسیع سوچ کے مالک ہوتے ہیں، تنگ نظر نہیں ہوتے۔ وہ صرف اپنی کتاب کو نہیں مانتے۔ پچھلی کتابوں اور پچھلے رسولوں کو بھی مانتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر دور میں انسان کی رہنمائی کے لیے بہترین انتظام کیا۔ [ وَبِالآخِرَةِ هُمْ یُوقِنُونَ ] وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک دن انہیں اللہ کے حضور پلٹنا ہے۔
عقل مند اور کامیاب انسان:
حقیقت میں کامیاب انسان وہی ہوتا ہے جو اپنے انجام اور انتہا کو دیکھ کرسفر کا آغاز کرے۔ ذرا سوچیے کسی ایسے انسان کے بارے میں جو سفر کا آغاز تو کر دے لیکن اسے پتہ نہ ہو کہ اس نے جانا کہاں ہے ؟مثلاً آپ اپنے گھر سے نکلیں اور آپ کو پتہ نہ ہو کہ آپ نے پہنچنا کہاں ہے ؟ تو آپ اپنی گاڑی کو ادھر اُدھر گھما کر ایسی جگہ جا پہنچیں گے جہاں پہنچنے کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن جو شخص گھر سے ایڈریس لے کر نکلتا ہے، سوچ کر نکلتا ہے۔ وہ مخصوص راستوں پر چلتا ہوا اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ تو وہ لوگ جو آخرت کو سامنے رکھ کر جیتے ہیں اور وہ لوگ جو آخرت کو بھلا کر جیتے ہیں، ان دونوں کی زندگی میں بھی بہت فرق ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو اپنے مقصد کو ہر آن اپنے سامنے رکھتا ہے، وہ اپنے وقت کو ضائع نہیں کرتا۔ وہ اپنی جسمانی صلاحیتوں کو ضائع نہیں کرتا۔ وہ اپنے مال کو ضائع نہیں کرتا۔ وہ ہر چیز کو سوچ سمجھ کر، آخرت کو سامنے رکھ کر، حساب کر کے استعمال کرتا ہے کیونکہ اس کو پورا یقین ہے کہ مجھے یوم الدین کی طرف لوٹنا ہے۔ جہاں جزا بھی ہے اور سزا بھی۔ جزا اچھے کاموں پر ہے اور سزا برے کاموں پر۔ اسے یہ شک نہیں کہ سزا اچھے کاموں پر ہو گی اور اسے یہ شک بھی نہیں کہ جزا برے کاموں پر بھی مل سکتی ہے۔ نہیں! اس کی سوچ بالکل واضح ہے۔ وہ اچھائی اور برائی میں فرق کرنا بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ [ أُوْلَئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ] یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت پر ہیں۔ جن کے اندر ایسی صفات ہیں۔ اور ایسے ہی لوگ [وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ] وہ کامیاب ہونے والے اور فلاح پانے والے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص نقصان سے ڈرتا ہے۔ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ وہ کام نہیں کرتا جو انسان کو کامیابی کی طرف لے جانے والے ہیں۔
کافر حق کے انکاری کیوں ہوتے ہیں؟:
اس کے برعکس کچھ اور لوگ بھی ہیں اس دنیا میں[إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَیْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ ] جن لوگوں نے ان باتوں کو ماننے سے انکار کر دیا تو ان کے لیے برابر ہے کہ خواہ تم انہیں خبردار کرو، یا نہ کرو، وہ ماننے والے نہیں ہیں۔ کیوں نہیں مانتے ؟ آپ دیکھئے کہ جب روشنی ہوتی ہے اچھائی اور برائی کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی ہی آنکھیں بند کر لے تو اس کو پھر کوئی بھی چیز نظر نہیں آئے گی، نہ اچھائی نظر آئے گی اور نہ برائی۔ تو انکار کرنے والوں کی نفسیات بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ جنہیں ماننا نہیں ہوتا وہ سورج کی روشنی کے سامنے بھی آنکھیں بند کر کے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ دن کو رات کہنے کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی آنکھیں بند ہیں۔ حق سورج سے بھی زیادہ روشن ہوتا ہے لیکن جو لوگ اپنی آنکھیں بند کر لیں، جو دل کے دروازے بند کر لیں، جو تعصبات میں گھر جائیں، ان کو پھر حق نظر نہیں آتا۔ اس لیے وہ پھر کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ خواہ کسی بھی طرح سمجھائیں، وہ مان کر نہیں دیتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ بھی انہیں پھر سزا دیتے ہیں [ خَتَمَ اللّهُ عَلَى قُلُوبِهمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ]اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔
ایسا کیوں ہوا؟:
کیونکہ انہوں نے نہ اپنے دل استعمال کیے، نہ اپنے کان استعمال کیے اور نہ اپنی آنکھیں استعمال کیں کہ حق موجود تھا لیکن اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ [وَلَهُمْ عَذَابٌ عظِیمٌ ]اور ان کے لیے عظیم عذاب ہے، بہت بڑا عذاب ہے۔ کیونکہ انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی نا قدری کی۔ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی۔ ان صلاحیتوں کو، ان ٹیلنٹس کو ان کاموں میں استعمال کیا جن میں حقیر دنیا کے فائدے تھے۔ ان کی ساری کوششیں اور ساری محنت صرف دنیا میں لگی رہی، اور وہ حقیقت کو نہ پا سکے۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور ہمیں کہاں جانا ہے۔ انہوں نے اندھے بہرے بن کر زندگی بسر کی۔ لہٰذا وہ اللہ کی نعمتوں کو نہ پا سکے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ وہ عذاب ہی کے مستحق ہیں۔
مچھر ہی کی مثال کیوں؟
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ
[إِنَّ اللَّهَ لاَ یَسْتَحْیِی أَن یَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُواْ فَیَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِینَ كَفَرُواْ فَیَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلاً یُضِلُّ بِهِ كَثِیراً وَیَهْدِی بِهِ كَثِیراً وَمَا یُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِینَ (26) الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (27) ]
ہاں! اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتے کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر چیز کی تمثیلیں دیں، اس کی مثال بیان کریں۔
قرآن میں مختلف مثالیں:
آپ دیکھئے کہ جب قرآن پاک میں مختلف چیزوں کی مثال دی گئی۔ نبی ﷺ حق کو بیان کرنے کے لیے معمولی چیزوں کی مثال بیان کرتے تو منکرین حق شوشہ بازی کرتے اور کہتے کہ یہ اگر اللہ کی کتاب ہے تو اس میں مچھر کی بات کیوں ہے ؟اس میں مکھی کی بات کیوں ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تخلیق بھی میری اپنی ہے۔ مچھر کی مثال سے مجھے شرم نہیں آتی۔ کیوں؟ اس لیے کہ تمہیں بظاہر مچھر بہت حقیر نظر آتا ہے لیکن وہ حقیر نہیں ہے۔
مچھر کی زندگی:
یہ اپنی زندگی کا آغاز پانی کے نیچے کرتا ہے، انڈوں سے لاروا بنتا ہے۔ اس دوران اپنا رنگ بھی تبدیل کر لیتا ہے یعنی وہ فلاج ہو جاتا ہے۔ اپنے دشمنوں سے بچنے کی کامیاب کوشش کرتا ہے۔ پیوپا بننے کے بعد سطح آب پر آ جاتا ہے۔ اس دوران قدرت نے اسے پانی سے بچانے کا خاص انتظام کیا ہوتا ہے جو کہ ایک خول ہوتا ہے۔ اس دوران اگر پانی کا ایک معمولی سا قطرہ بھی اندر چلا جائے تو اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ قدرت نے مچھر کو حرارت محسوس کرنے کی بے پناہ صلاحیت دے رکھی ہے۔ انسانوں کو جو خون ہے یہ مچھروں کو ایسے بالکل ایکسرے کی طرح نظر آتا ہے۔ ہماری تو دو آنکھیں ہیں، مچھر کی سو آنکھیں ہیں۔ اس کے اندر خون چوسنے کی حیرت انگیز صلاحیت اور ٹیکنیک ہوتی ہے۔ صرف اس کی مادہ خون چوستی ہے کیونکہ اس کی مادہ کو انڈے دینے کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور نر مچھر کاٹتا نہیں، کیونکہ اسے ضرورت نہیں۔ مچھر کے کاٹنے کا طریقہ کیا ہوتا ہے ؟ اس کے ڈنک ایک شیت کی طرح ایک چیز کے اندر ہوتا ہے۔ جہاں سے خون چوسنا ہوتا ہے، وہاں اپنے منہ سے ایک مادہ خارج کرتا ہے۔ جیسے ہم، جب ہم انجیکشن لگاتے ہیں تو پہلے ایک ذرا سی دوا لگاتے ہیں۔ اس سے جسم کا حصہ سن ہو جاتا ہے۔ تو اس سے انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ مچھر آ کر کچھ کرنے لگا ہے۔ پھر یہ اپنے دانتوں سے ہلکا سا کٹ لگاتی ہے، آری کی طرح۔ اور پھر اس کے بعد ڈنک کو اندر داخل کر کے، جیسے ڈاکٹر خون کا نمونہ حاصل کرنے کے لیے سرنج جسم میں ڈالتے ہیں، بالکل اسی طرح مادہ اپنا ڈنک جسم کے اندر داخل کرتی ہے اور خون کو چوس لیتی ہے۔ وہ کام جو آپ کے بڑے بڑے ڈاکٹر کرتے ہیں، یہ حقیر سا مچھر کرتا ہے۔ یہ معمولی چیز نہیں۔ ہم اپنی کم عقلی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ مچھر حقیر چیز ہے۔
مچھر کی ہی مثال کیوں؟:
اس کی مثال کیوں دی گئی؟اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: [إِنَّ اللَّهَ لاَ یَسْتَحْیِی أَن یَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ]بے شک اللہ تعالیٰ نہیں شرماتے کہ وہ کسی مچھر کی مثال بیان کریں یا اس کے اوپر کی کسی چیز کی۔
اوپر کی چیز کیا؟:
مچھر کے اوپر اس کے پر ہوتے ہیں جو اس سے بھی ہلکے ہوتے ہیں۔ مچھر کے پر کے اوپر ایک مائیکرو سکوپک پیرا سائیٹ ہوتا ہے۔ ایک جاندار[فَمَا فَوْقَهَا ]جو مچھر سے بھی حقیر چیز ہے جو تمہیں اپنی آنکھ سے نظر بھی نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کو تو تمہارے اعمال کی اور غلط کاموں کی مثال دینے کے لیے ایسے چیزوں کو سامنے لانے میں کچھ مشکل نہیں۔
ایمان والوں کا طرز عمل:
ہاں! [فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُواْ ]تو وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں [فَیَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ] وہ جانتے ہیں کہ وہ حق ہے، ان کے رب کی طرف سے ہے۔ ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی کوئی بات چھوٹی نہیں لگتی۔ اس لیے وہ فوراً مان لیتے ہیں۔
منکرین حق کا رویہ:
[وَأَمَّا الَّذِینَ كَفَرُواْ ] لیکن جن لوگوں کو انکار کرنا ہوتا ہے [فَیَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلاً ] وہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ یہ مثال کیوں بیان کر رہے ہیں؟کیا ارادہ ہے ؟ [یُضِلُّ بِهِ كَثِیراً ]ایسی مثالوں سے اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو بھٹکا بھی دیتے ہیں، کیونکہ وہ تکبر کا شکار ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی تعلیم کو معمولی سمجھتے ہیں، اس کی تخلیق کو معمولی چیز سمجھتے ہیں۔ [ وَیَهْدِی بِهِ كَثِیراً ] لیکن جو لوگ اللہ کو بڑا مانتے ہیں، اس کی بات پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان بالغیب رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ ایسی مثالوں سے بہت سے لوگوں کو ہدایت بھی دیتا ہے۔ [ وَمَا یُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِینَ (26) ] اور نہیں وہ گمراہ کرتا مگر فاسقوں کو۔ کون ہیں یہ فاسق؟ [الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ ]جو اللہ کے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں[مِن بَعْدِ مِیثَاقِهِ ]اس کو مضبوط کرنے کے بعد، اللہ کے عہد کو مضبوط باندھنے کے بعد اس کو توڑ دیتے ہیں،[وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (27) ] اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا، اسے کاٹتے ہیں۔ اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں۔
متکبر اور خود غرض انسان ہی نقصان اٹھانے والے ہیں:
یہ کس کی نفیسات ہے ؟ جو اللہ کا عہد توڑے، بندوں کا خیال نہ رکھے ؟ یہ متکبر انسان، جو خود غرض ہوتا ہے، جو صرف اپنے لیے جیتا ہے، جو صرف اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا ہے، اس کائنات میں پھیلی ہوئی بڑی نشانیاں نظر نہیں آتیں۔ اسے اللہ کی کتاب میں کوئی بڑی بات نظر نہیں آتی۔ وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتا، رجوع نہیں کرتا، اس سے سبق نہیں لیتا، انسانوں کو حقیر چیز سمجھتا ہے۔ انسانوں کے حقوق ادا نہیں کرنا چاہتا۔ ایک طرف وہ اللہ کے حقوق سے بے نیاز ہے، دوسری طرف وہ بندوں کے حقوق سے بے نیاز ہے۔ وہ اللہ کے سامنے بھی نہیں جھکتا، وہ بندوں کے ساتھ بھی نہیں جڑتا، وہ بندوں کا بھی خیال نہیں رکھتا، ان کی خیر خواہی نہیں کرتا۔ حالانکہ ہمیں ہمارا دین کیا سکھاتا ہے ؟ [الدین النصیحۃ] کہ دین سراسر خیر خواہی ہے۔ ایسے لوگوں کا دین کیا دین ہے جو نہ اللہ کی قدر پہچانتے ہوں اور نہ بندوں کی؟ اور نہ ہی بندوں کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ کرتے ہوں۔
ہدایت پانے کے لیے ضروری چیز:
جو لوگ ان نفسیات کا شکار ہوں، تو اللہ کی کتاب ان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتی۔ تو گویا اس سے ہدایت پانے کے لیے انسان کے اندر کی عاجزی ضروری ہے۔ اس کا جھکنا ضروری ہے۔ لیکن ایسے لوگ زمین میں فساد پیدا کر کے یہ نہ سمجھیں کہ وہ اپنی اس چند دن کی دنیا کی زندگی میں اپنے رعب، اپنے غلبے اور اپنی طاقت کے بل بوتے پرجس طرح دنیا میں بڑے بنے ہوئے ہیں، وہ آخرت میں بھی اسی طرح بڑے بنے ہوں گے۔ نہیں! [أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (27)] یہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔
مرضی کا دین
بِسْمِ اللہ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ
ثُمَّ أَنتُمْ هَؤُلاء تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِیقاً مِّنكُم مِّن دِیَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَیْهِم بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن یَأتُوكُمْ أُسَارَى تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاء مَن یَفْعَلُ ذَلِكَ مِنكُمْ إِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (85)
مگر آج تم وہی ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو۔ اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کر دیتے ہو، بے گھر کر دیتے ہو۔ ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے ساتھ جتھے بندیاں کرتے ہو۔ اور جب وہ لڑائی میں جکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں تو تم ان کی رہائی کے لیے فدیہ کا لین دین کرتے ہو حالانکہ انہیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا۔ تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو۔ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا میں ذلیل و خوار کر کے رکھ دئیے جائیں اور آخر ت میں سخت ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں۔ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں جو تم کر رہے ہو۔
یہودیوں کی حالت:
اللہ تعالیٰ نے یہود سے چار عہد لیے تھے۔ ایک دوسرے کا قتل نہیں کریں گے، ایک دوسرے کا خون نہیں کریں گے، ایک دوسرے کو جلا وطن نہیں کریں گے، ظلم و زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہیں کریں گے اور فدیہ دے کر قیدیوں کو چھڑوایا کریں گے۔ لیکن ان لوگوں نے جن قبائل سے کچھ سیاسی مفاہمتیں کر رکھی تھیں، ان کے پیش نظر، ان کے تحت یہ پہلے تین کاموں کی تو کچھ پروا نہیں کرتے تھے۔ ایک دوسرے کو مار بھی ڈالتے، ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی بھی کرتے۔ لیکن جب ان کے اپنے ہم مذہب لوگ دشمن کے ہاتھوں پکڑے جاتے تو پھر چندہ جمع کر کے ان کو چھڑا بھی لاتے۔ اور اس طرح کہتے کہ ہم اپنے دین پر عمل کر رہے ہیں۔ تو اس پر فرمایا کہ دین پر عمل صرف یہ تو نہیں کہ جو بات تمہارے مفادات کے مطابق ہو، تمہیں سوٹ کرتی ہو، وہ تم کر لو اور باقی تم چھوڑ دو۔ ایسا کرنے والے تو دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوا کرتے ہیں [أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ]کیا تم صرف کتاب کے بعض حصے کو مانتے ہو؟
ہمارا طرز عمل:
آج اس کے مطابق ہم اپنا طرز عمل دیکھیں۔ ہمارا بھی تو یہی حال ہے۔ قرآن کی ان آیتوں کو تو ہم لے لیتے ہیں، جن پر عمل کر کے ہماری دنیا کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، جن پر عمل کرنے میں ہمیں کچھ آسانی ہوتی ہے۔ لیکن جو بات ہماری مرضی کے خلاف جاتی ہے، جس پر عمل کرنے سے ہمارے مفادات پر کچھ زد پڑتی ہے، اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔ تو جب کسی قوم کا یہ حال ہو جائے۔ جو اللہ کی کتاب میں پک اینڈ چوز کرنے لگے، کچھ کو لے اور کچھ کو چھوڑ دے۔ ان کے لیے اللہ نے یہ وعید سنائی کہ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے۔
ہماری رسوائی کا اصل سبب:
آج ہم سب اس بات پر پریشان ہوتے ہیں کہ امت مسلمہ دنیا میں کیوں رسوا ہو رہی ہے۔ آج ہمارا یہ حال کیوں ہے ؟لیکن ہم اصل مرض کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا: [وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ (آل عمران : 139)]تم ہی بلند رہو گے، اگر تم ایمان لانے والے ہوئے۔ اگر تم سچے ہوئے۔ لیکن ہم نے کیا سچائی دکھائی، ہم نے کیا ایمان دکھایا؟ [أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ]بعض کتاب کو تو لے لیا، اپنی ذاتی زندگی میں تو کچھ ورچوز کو اپنا لیا۔ لیکن جب معاملہ دوسروں سے کیا تو اس وقت ہم بھول گئے۔
مرضی کا دین:
آج کل آپ دیکھیں کہ ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگیوں میں یہ چیز بہت زیادہ نظر آتی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی مرضی اور اپنے انٹرسٹ کا دین بنائے ہوئے ہے۔ جو چیزیں اسے سوٹ کرتی ہیں، اسے تو لے لیتا ہے اور جو باقی ہیں انہیں دین کا حصہ ہی نہیں سمجھتا۔ اس پر اعتراضات کر کے، تاویلیں کر کے، کوئی دلیلیں دے کر خود کو مطمئن کر لیتا ہے۔ لیکن یاد رکھیے کہ ہمارا ایسا رویہ اللہ تعالیٰ کو راضی نہ کرے گا۔ وہ کسی سے دھوکا نہیں کھاتا۔ وہ سب جانتا ہے جو ہمارے دلوں میں ہے۔ جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں، وہ سب اس کی نظر میں ہے۔ اس لیے ہم میں سے ہر ایک کو لوگوں کے سامنے نہیں، اللہ کے سامنے سچا ہونے کی ضرورت ہے۔ لوگوں سے نہیں، اللہ سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ اور اسی چیز کا نام تقویٰ ہے۔ اور یہی چیز پھر انسان کو سیدھے رستے پر لے جاتی ہے۔
فرمایا: جو قوم ایسا کرے کہ بعض چیزوں کو مانے اور بعض کو نہ مانے، ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور قیامت کے دن شدید ترین عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے۔ دنیا کا وقت تو گزر جائے گا۔ لیکن آخرت میں کیا ہو گا؟اگر ہم اپنی اس روش سے باز نہ آئے اور اللہ غافل نہیں ان کاموں سے جو تم عمل کر رہے ہو۔ [أُولَئِكَ الَّذِینَ اشْتَرَوُاْ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا بِالآَخِرَةِ فَلاَ یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ یُنصَرُونَ (86)]یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی۔ لہٰذا ان کی سز ا میں کوئی تخفیف نہ ہو گی۔ اور نہ کوئی ان کی مدد کو پہنچ سکے گا۔
کچھ منافقین کے بارے میں
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ
وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا بِاللّهِ وَبِالْیَوْمِ الآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِینَ (8) یُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُم وَمَا یَشْعُرُونَ (9) فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّهُ مَرَضاً وَلَهُم عَذَابٌ أَلِیمٌ بِمَا كَانُوا یَكْذِبُونَ (10) وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِی الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (11) أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِن لاَّ یَشْعُرُونَ (12) وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاء أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاء وَلَكِن لاَّ یَعْلَمُونَ (13) وَإِذَا لَقُواْ الَّذِینَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ إِلَى شَیَاطِینِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكْمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ (14) اللّهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَیَمُدُّهُمْ فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُونَ (15) أُوْلَئِكَ الَّذِینَ اشْتَرُوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِینَ (16) مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لاَّ یُبْصِرُونَ (17) صُمٌّ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لاَ یَرْجِعُونَ (18) أَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِیهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ یَجْعَلُونَ أَصْابِعَهُمْ فِی آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ واللّهُ مُحِیطٌ بِالْكافِرِینَ (19) یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاء لَهُم مَّشَوْاْ فِیهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّه عَلَى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ (20)
منافقین کا گروہ:
اسی طرح ایک تیسرا گروہ ہے۔ اور وہ گروہ ہے گروہ منافقین۔ [وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا بِاللّهِ وَبِالْیَوْمِ الآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِینَ ]بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں، یعنی زبان سے کہتے ہیں، دعویٰ کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ مؤمن نہیں ہوتے۔ وہ اللہ اور ایمان والوں کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں مگر دراصل وہ اپنے آپ کو ہی دھوکے میں ڈال رہے ہیں۔ اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے۔ کون سی؟ دنیا کی محبت کی۔ جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا۔ اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اس کی پاداش میں ان کے لیے درد ناک سزا ہے۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں۔ اور انہیں اس بات کا شعور نہیں ہے۔ اور جب انہیں کہا گیا کہ جیسے دوسرے لوگ ایمان لاتے ہیں، اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ کیا ہم بیوقوفوں کی ایمان لائیں۔ خبردار! حقیقت میں یہ تو خود ہی بیوقوف ہیں۔ مگر یہ جانتے نہیں ہیں۔
جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں۔ اور جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اصل میں تو تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے مذاق کر رہے ہیں۔ اللہ ان لوگوں سے مذاق کر رہا ہے اور ان کی رسی دراز کیے جا رہا ہے اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکے چلے جا رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے۔ یہ جن لوگوں کا ذکر ہے یہاں پر، یہ منافقین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی دنیا کے فائدوں اور اپنی دنیا کی مصلحتوں کو پہلی اہمیت دی، اولین اہمیت دی۔ ان کے نزدیک یہ بات بہت بے وقوفی اور حماقت کی ہوتی ہے کہ کوئی شخص دنیا کا فائدہ قربان کر کے آخرت کے فائدے سوچے۔ دنیا کے فائدے قربان کر کے اپنا سب کچھ اپنے رب کے حوالے کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کی ساری دلچسپیاں دنیا کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن ایمان والوں کو مطمئن کرنے کے لیے یہ ظاہری طور پر کچھ اسلام کا، ایمان کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اسلام کی خاطر کبھی کسی قسم کی کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اور اس بات کو وہ اپنی عقلمندی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی دنیا بچا رہے ہیں۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو ہم حق پرستی کے نعرے لگا رہے ہیں، یہ حق پرستی کے جو دعوے ہم کر رہے ہیں یہ آخرت میں ہمیں بچا لیں گے۔
ہدایت کسے ملتی ہے ؟
ایسے لوگوں کو اللہ ہدایت نہیں دیتا۔ اللہ تو ہدایت دیتا ہے تقوی والوں کو۔ وہ ہدایت نہیں دیتا ان لوگوں کو جو تعصبات میں گھرے ہوئے ہوں، جن کے دل ہدایت کے لیے کھلے نہیں، بند ہو جائیں۔ اور نہ ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت کے بدلے گمراہی کے خریدار بن جائیں۔ جو آخرت کے بدلے دنیا کے خریدار ہوں[فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ ] ان کی یہ تجارت نفع مند نہ ہو گی۔ [ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِینَ ]ایسے منافق کبھی ہدایت نہیں پائیں گے۔ تو اس سے ایک بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ہدایت کے لیے سنجیدگی ضروری ہے،اخلاص ضروری ہے، توجہ ضروری ہے۔ طلب اور تڑپ ضروری ہے۔ جس کے اندر یہ نہ ہو،اللہ کی کتاب اسے راستہ نہیں دکھاتی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں یہ کتاب بہت زیادہ بھی پڑھی جاتی ہے بہت سے لوگ اس کے خریدار ہیں، بہت سے لوگ اس کا علم رکھتے ہیں، اس کو جانتے ہیں، اس کی تعریف بھی کرتے ہیں، اس کے حقائق کو بھی مانتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ اس کو نہیں مانتے۔ کیسے ؟ کہ وہ اس کے مطابق اپنی زندگی بسر نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت یافتہ نہیں کہتے۔
منافقین کی مثال:
ان کی مثال ایسے شخص کی ہے جس نے ایک آگ روشن کی۔ جب اس نے سارے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور بصارت سلب کر لیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے۔ یعنی حق کا چراغ روشن ہوا تو انہوں نے آنکھیں بند کر لیں، کان بند کر لیے، اس لیے حق کی طرف پلٹنے کا ان کا چانس ختم ہو گیا۔ یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک بھی ہے۔ یعنی اسلام کی رحمت والی بارش کے ساتھ آزمائشیں بھی ہیں۔ یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جان کے خوف سے اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ یعنی جب ایسی آیات نازل ہوتی ہیں جن میں انہیں کچھ قربانی دینے کا حکم ہوتا ہے تو یہ سنی اَن سنی کر دیتے ہیں۔ سننا ہی نہیں چاہتے۔ اللہ ان منکرین کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ چمک سے ان کی یہ حالت ہو رہی کہ گویا عنقریب بجلی ان کی بصارت لے جائے گی۔ جب ذرا روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یعنی جب اسلام قبول کرنے میں کچھ فائدے نظر آتے ہیں تو اسلام کے ساتھ ہو لیتے ہیں اور جہاں قربانی کی بات ہوتی ہے، جہاں کہیں دنیا کا نقصان ہوتا ہے، تو وہاں کھڑے ہو جاتے ہیں،ایمان میں ترقی رک جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سلب کر لیتے۔ یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ یہ بھی کرسکتے تھے کہ مکمل طور پر ان سے توفیق چھین لیں۔ لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو کچھ مواقع دے رکھے ہیں کہ شاید یہ سنبھل جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ کے منافقین کو آخری وقت تک بہت سے چانسز ملے۔ کفار کے ساتھ تو بہت سی جنگیں ہوئیں لیکن منافقین کے ساتھ براہ راست کوئی جنگ نہیں ہوئی۔
آخر کیوں؟:
کیونکہ بظاہر اسلام کا دعویٰ کرتے تھے اور اپنے اسلام کا اظہار کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔ لیکن حقیقی معنوں میں مسلمان نہ تھے۔ اسلام کی حقیقی روح ان کے اندر نہ تھی۔ اس لیے ان کو اس روح کو پانے کے لیے بہت سے مواقع دئیے گئے کہ شاید ہدایت پر آ جائیں۔ نہیں تو آخرت میں تو معاملہ اللہ ہی کے سپرد ہو گا۔
فرقہ واریت کا خاتمہ کیسے ؟
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ()
وَقَالُوا لَن یَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِیُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ﴿١١١﴾ بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ ﴿١١٢﴾وَقَالَتِ الْیَهُودُ لَیْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَیْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَیْسَتِ الْیَهُودُ عَلَىٰ شَیْءٍ وَهُمْ یَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللَّهُ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا كَانُوا فِیهِ یَخْتَلِفُونَ ﴿١١٣﴾
ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو یا عیسائیوں کے خیال کے مطابق عیسائی نہ ہو۔ یہ ان کی تمنائیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو ان سب کو مسلمان بنایا تھا۔ لیکن یہ فرقوں میں بٹ گئے۔ انہوں نے اپنے فرقہ وارانہ نام رکھ لیے۔ کسی نے یہودی کہنا شروع کر دیا اور کسی نے عیسائی کہنا شروع کر دیا۔ اور جو کچھ یہ اصل میں تھے یا جو کچھ انہیں بنایا گیا تھا، اسے یہ بھول گئے۔ [ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمینَ (الحج : 78)]اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اس سے پہلے بھی اور اس دین میں بھی۔ لیکن یہ اپنی مسلمانیت کو بھول کر یہودیت اور عیسائیت میں کھو گئے۔ اور پھر ان کا خیال کیا تھا کہ کوئی شخص جنت میں نہیں جا سکتاجب تک کہ وہ ان کے فرقے سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ فرمایا: یہ ان کی تمنائیں ہیں، ان کے خیالات ہیں، ان کی سوچ ہے۔ ان سے کہو: اپنی دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔
جنت کس کے لیے ؟:
آج آپ دیکھیں کہ مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ بعض اوقات مختلف گروہوں کے لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ جنت صرف ہمارے لیے ہے، یا ہماری پارٹی یا ہمارے گروہ کے لیے ہے۔ دوسرا تو کوئی اس میں جا نہیں سکتا۔ کہاں لکھا ہے قرآن وسنت یا حدیث میں کہ فلاں نام کا جو فرقہ ہو گا یا فلاں نام سے جو منسوب فرقہ ہو گا، صرف وہی جنت میں جائے گا۔ ایسی کوئی تعلیم ہمارے دین میں نہیں ملتی۔ نبی ﷺ کا کون سا فرقہ تھا۔ صحابہ کرام کا کون سا فرقہ تھا؟ کون سا گروہ تھا؟ کوئی بھی نہیں! وہ سب مسلمان تھے۔ فرمایا: دراصل نہ کچھ تمہاری خصوصیت ہے نہ کسی اور کی۔ حق تو یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کو سونپ دے [بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ ]سارے کا سارا اللہ کا ہو جائے۔ [ وَهُوَ مُحْسِنٌ ]اور وہ محسن ہو۔ انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں محسن کا رویہ اختیار کرنے والا ہو۔ [فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ ]اس کا اجر اس کے رب کے پاس محفوظ ہے۔ [ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ ﴿١١٢﴾]ان پر کوئی خوف نہ ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
یہ آیت یہاں تیسری بار آ رہی ہے پہلے ہی پارے میں۔ کہ جو شخص صحیح معنوں میں دین کی پیروی کرے گا وہ واقعی خوف اور غم سے نجات پا جائے گا۔
اپنا جائزہ لیجئے :
اگر آج ہم کسی خوف اور غم کا شکار ہوتے ہیں تو یاد رکھیے،اپنے آپ کو ٹٹولیے کہ کہیں ہم دین کی کسی چیز سے ہٹے ہوئے تو نہیں؟ اور علاج کے لیے استغفار، اپنی غلطیوں کی پہچان اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ خوف اور غم دونوں ہی دور ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ہم ان کو مصنوعی طریقوں سے دور کرنے کی کوشش کریں گے اور اللہ کی اطاعت پر نہیں جمیں گے اور یہ فارمولا نہیں استعمال کریں گے کہ[ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ ] تو اس وقت تک خوف اور غم سے نجات نہیں ہوسکتی۔
[وَقَالَتِ الْیَهُودُ لَیْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَیْءٍ ] اب ان کی کچھ اور فرقہ وارانہ باتیں۔ یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ کسی چیز پر نہیں۔ یعنی ایک دوسرے کو ہٹ کرتے رہتے ہیں، ایک دوسرے کو بلیم کرتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی مخالفت میں لگے رہتے ہیں۔ یہود اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں اور عیسائیوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور اس کے برعکس [وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَیْسَتِ الْیَهُودُ عَلَىٰ شَیْءٍ ]اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود کسی چیز پر نہیں۔ [ وَهُمْ یَتْلُونَ الْكِتَاب]اور یہ سب کتاب پڑھتے ہیں۔ اس سے کیا پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات کتاب پڑھنے کے باوجود بھی لوگ فرقہ واریت کا شکار ہوسکتے ہیں۔
فرقہ واریت ختم کیسے ہو گی؟:
آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب ایسی فرقہ واریت سامنے آتی ہے اور لوگوں کو سمجھایا جائے کہ یہ چیز درست نہیں تو کہتے ہیں کہ وہ بھی تو عالم ہیں، وہ بھی تو کتاب پڑھتے ہیں۔ تو ضروری نہیں ہے کہ کتاب پڑھنے سے فرقہ واریت ختم ہو جائے۔ جب تک کتاب کو اس کی اصل روح کے ساتھ نہ پڑھا جائے۔ جب تک کہ انسان اپنا آپ اللہ کے حوالے نہ کرے، اپنے سب کا م اللہ کی خاطر نہ کرے اور جب تک انسان انسانوں کے ساتھ احسان کی روش اختیار نہ کرے، ان چیزوں سے نجات پانا مشکل ہے۔ یہود نے اصل میں انبیاء اور بزرگوں سے وابستگی کو حق کا معیار بنایا تھا کہ ہم ان کو ماننے والے ہیں۔ اس وجہ سے وہ خود کو اور اپنی قوم کو حق پر سمجھتے تھے اور دوسری قوموں کو باطل قرار دیتے کہ وہ ہمارے بزرگوں کو نہیں مانتے، لہٰذا وہ درست نہیں۔
آج ہمارے ہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی بجائے شخصیتیں اہم ہو گئی ہیں۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر دور میں نیک لوگ آتے رہے ہیں اور وہ اللہ کی طرف بلاتے بھی رہے ہیں اور وہ دنیا سے چلے بھی جاتے رہے ہیں۔ کوئی ہمیشہ نہیں رہا۔ اصل نام باقی اللہ ہی کا ہے۔ اس لیے انسانوں کی پیروی کرنی کی بجائے اور انسانوں کے پیچھے جانے کی بجائے ان کی نیکی کی وجہ سے ان کا بس احترام اور ان کی محبت کافی ہے۔ باقی رجوع، تعلق اور نسبت اللہ اور اس کے رسول سے ہی کافی ہے۔ [ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ] اسی طرح ان لوگوں نے کہا جو علم نہیں رکھتے، انہی کی بات کی طرح۔ [فَاللَّهُ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا كَانُوا فِیهِ یَخْتَلِفُونَ ﴿١١٣﴾ ]یعنی یہ باتیں صرف یہود ونصاریٰ تک ہی بس نہیں۔ اسی قسم کے دعوے ان لوگوں کے بھی ہیں جن کے پاس کتاب کا علم نہیں۔ یعنی کتاب پڑھنے و الے بھی اس مشکل کا شکا رہیں اور ان پڑھ بھی۔ کیونکہ اختلاف اور فرقہ واریت انسانیت کے لیے ہر دور میں ایک مصیبت بنی رہی ہے۔ یہ اختلافات جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔
ہم مانتے کیوں نہیں؟
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ ()
[وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَیْنَا وَیَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ]
جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے، اس پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو ہمارے ہاں یعنی بنی اسرائیل میں اتری ہے۔
اس دائرے سے باہر جو کچھ آیا ہے، اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں۔
ہماری حالت:
آج آپ دیکھیں کہ مسلمانوں کے اندر جو مختلف مذہبی گروہ ہیں، وہ بھی صرف اپنے گروہ کو حق پر سمجھتے ہیں اور دوسرے کلمہ گو مسلمان کو بھی بعض اوقات کافر قرار دے دیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے اختلافات پر بھی۔ ہر فرقہ اور ہر گروہ یہ سمجھتا ہے کہ حق صرف ہمارے اندر ہے، باہر نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان آپس میں بکھرے ہوئے ہیں، ٹوٹے ہوئے ہیں۔ اور اسی وجہ سے ہمارے دین کو ترقی نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کی دنیاوی ترقی بھی ان کی دینی ترقی کے ساتھ ہے۔ کیونکہ اللہ نے ہمیں کسی خاص کام کے لیے بھیجا ہے۔ ایک خاص مقصد کے لیے چنا ہے۔ جب تک وہ مقصد پورا نہیں کریں گے، دنیا میں عزت نہیں پا سکتے۔ کیونکہ دنیا میں مسلمانوں کے لیے عزت پانے کا طریقہ اسی کتاب کی راہ سے ہے۔ [وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ ۗ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِیَاءَ اللَّهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ﴿٩١﴾ وَلَقَدْ جَاءَكُم مُّوسَىٰ بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ ﴿٩٢﴾ وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَیْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَأُشْرِبُوا فِی قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ] حالانکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تائید کر رہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ اچھا! ان سے کہو: اگر تم اس تعلیم پر ہی ایمان رکھنے والے ہو جوتم پر آئی تھی تو اس سے پہلے اللہ کے ان پیغمبروں کو جو خود بنی اسرائیل میں ہی پیدا ہوئے تھے، کیوں قتل کرتے رہے ہو؟تمہارے پاس موسیٰ علیہ السلام کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آئے۔ پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ پھیرتے ہی تم بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے۔ پھر ذرا اس میثاق کو یاد کرو جو طور پہاڑ کو تمہارے اوپر اُٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا، ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو۔ اور کان لگا کر سنو۔ تمہارے اسلاف نے کہا: ہم نے سن لیا مگر ہم مانیں گے نہیں۔ ان کی باطل پرستی کا یہ عالم تھا کہ ان کے دلوں میں بچھڑا ہی بسا ہوا تھا۔
آباء و اجداد کی تقلید:
یعنی حق قبول نہ کرنے کی ایک اور وجہ کیا ہوتی ہے ؟اپنا پچھلا رواجی ذہن یا اپنے ماحول سے متاثر ہونا اور کچھ اور چیزوں کی عظمت دل میں بٹھا لینا، اللہ کے علاوہ۔ تو انسان جب ان کو توڑ نہیں سکتا جو بت دل میں ہوتے ہیں کیونکہ جب تک وہ نہیں ٹوٹتے، ہدایت نہیں ملتی۔ تو ان کے ساتھ کیا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کوہ طور کو ان کے اوپر کسی چھت کی طرح معلق کر کے کہا تھا کہ پکڑو اس کتاب کو اور لے لو اس کو۔ تو اس وقت ظاہری طور پر انہوں نے لے لیا لیکن حقیقت میں اس پر عمل نہ کیا۔ وجہ کیا تھی کہ دل میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا، شرک تھا نا!
[قُلْ بِئْسَمَا یَأْمُرُكُم بِهِ إِیمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ﴿٩٣﴾قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ﴿٩٤﴾ ]کہو: اگر تم مؤمن ہو تو یہ عجیب ایمان ہے کہ ایسے برے کاموں کا تم کو حکم دیتا ہے۔ انہیں کہو: اگر واقعی کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے لیے مخصوص ہے، تب تو تمہیں موت کی تمنا کرنی چاہیے۔ [ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ] موت مانگو پھر۔ دنیا میں کیوں بیٹھے ہو؟ جلدی جنت میں چلو۔ یعنی سب غلط کام کرنے کے باوجود یہ سمجھتے تھے کہ ہم جنتی ہیں۔ جیسے آج ہم بھی، کچھ کریں یا نہ کریں، جو بھی فوت ہو جائے اس کے نام کے ساتھ جنتی لازمی لگا دیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کس نے جنت میں جانا ہے اور کس نے نہیں جانا۔ [وَلَن یَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ ﴿٩٥﴾ وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَیَاةٍ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا ۚ یَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ ]یقین جانو! یہ اس کی تمنا کبھی نہ کریں گے۔ مرنا نہیں چاہیں گے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے جو کما کر بھیجا، اس کا تقاضا یہی ہے کہ وہاں جانے کی تمنا نہ کریں۔ یعنی انہیں پتہ ہے جو انہوں نے آگے بھیجا ہوا ہے اپنے اعمال میں سے۔ اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے۔ تم انہیں سب انسانوں سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤ گے۔ حتی کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ہزار سال جیے۔ یعنی دنیا کی محبت کی وجہ سے یہ زندگی کے بھی بہت حریص ہیں۔ حالانکہ مؤمن جو ہوتا ہے، اس کا جینا بھی اللہ کے لیے ہوتا ہے اور مرنا بھی اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ جب اس سے اس کی جان لینے کا بھی تقاضا کرتے ہیں تو وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ باقی چیزیں تو معمولی ہیں۔ حتی کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ہزار سال جیے۔ [وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن یُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ ﴿٩٦﴾]حالانکہ لمبی عمر بہر حال عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی۔ جیسے کچھ یہ اعمال کر رہے ہیں، اللہ تو انہیں دیکھ ہی رہا ہے۔
ہمارا کام کیا ہونا چاہیے ؟
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ ()
وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِیمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَیْنَاهُ فِی الدُّنْیَا وَإِنَّهُ فِی الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ (130)
اب کون ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے طریقے سے نفرت کرے۔ جس نے اپنے آپ کو حماقت اور جہالت میں مبتلا کر لیا ہو، اس کے سوا کون یہ حرکت کرسکتا ہے ؟
ملت حنیفی:
نبی کریمﷺ جس دین کی طرف بلاتے تھے، وہ دین ابراہیم تھا، جس سے یہود و نصاریٰ بھی اپنے آپ کو منسوب کرتے تھے۔ لیکن پھر وہ مخالفت کیوں کرتے تھے ؟کیونکہ یہود کے ہاں دین بس ایک قومی فخر کی علامت بن گیا تھا۔ آپ ﷺ کی دعوت اسلام سے ان کے فخر پر زد پڑتی تھی۔ اس لیے وہ آپ کے دشمن ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بھی اس قسم کی نفسیات کا شکار ہو جائیں اور صرف اپنے ہی گروہ کے بڑوں کو مانیں، وہ لوگ پھر کبھی بھی انسانیت کے لیے فائدہ مند نہیں ہوسکتے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں کہ یہ تو ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے۔ رسول اللہﷺ کا طریقہ تو وہی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے۔ پھر تم اس کی بات کیوں نہیں مانتے ؟اگر تم اس سے منہ موڑ رہے ہو تو وہی اس سے منہ موڑے گا جو دراصل اپنے آپ کو حماقت اور جہالت میں مبتلا کر لے۔ اس کے علاوہ اور کون یہ حرکت کرسکتا ہے ؟ ابراہیم تو وہ شخص ہے کہ جس کو دنیا میں ہم نے اپنے کا م کے لیے چن لیا۔ کیوں چنے گئے ؟ کیونکہ ہر مشکل میں جم کر کھڑے رہے۔ اپنے دین کو نہیں بیچا۔ اپنے ایمان کو نہیں بیچا۔ اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہو گا۔ [ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ (131) وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِیمُ بَنِیهِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّینَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (132) ] یہ ہے ابراہیم علیہ السلام کی بات۔ کہ جب اس سے اس کے رب نے کہا: مسلم ہو جا!اپنے آپ کو میرے حوالے کر دے ! تو اس نے کہا: میں نے اپنا آپ کائنات کے مالک کے حوالے کر دیا۔
اللہ والوں کی وصیت:
اسی طریقے پر چلنے کی وصیت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی کہ صرف اللہ کے بن جانا۔ اور اسی کی وصیت یعقوب علیہ السلام اپنی اولاد کو کر گئے۔ اس نے کہا تھا: میرے بچو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے۔ تو گویا دین کیا ہے ؟ اسلام۔ اور ہم سب کو کیا بننا ہے ؟ مسلمان۔ اور مسلم کون ہوتا ہے ؟ جو اپنی خواہشات، اپنی سوچ، اپنے جذبات، اپنا مال،اپنی زندگی، اپنا سب کچھ اپنے رب کے نام کر دے کہ یہ سب کچھ وہاں خرچ ہو گاجو میرا رب پسند کرے گا۔ اللہ والوں نے اپنے بچوں کو کیا وصیت کی؟ کہ دیکھو بچو! مرتے دم تک مسلم ہی رہنا۔
[أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاء إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِی قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (133) تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا یَعْمَلُونَ (134)]پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے ؟اس نے اپنے بچوں سے پوچھا: بیٹو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے ؟ان سب نے جواب دیا: ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے جسے آپ اور آپ کے بزرگوں ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام نے خدا مانا ہے۔ اور ہم اسی کے مسلمان ہیں۔ یہ کچھ لوگ تھے جو گزر گئے۔ جو کچھ انہوں نے کمایا، وہ ان کے لیے۔ اور جو کچھ تم کماؤ گے وہ تمہارے لیے۔ تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔
یاد رکھنے کے لائق سبق:
اس سے ہم سب کو یہ سبق ملتا ہے کہ ہم گزشتہ لوگوں کے اعمال کو نہ پرکھیں۔ ان میں بحثیں نہ کریں۔ ان کو اختلافات کا ذریعہ نہ بنائیں۔ بلکہ اپنے عمل کی فکر کریں۔
اہل ایمان کی تعلیم و تربیت
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ ()
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِینَ ﴿١٥٣﴾وَلَا تَقُولُوا لِمَن یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْیَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ﴿١٥٤﴾ وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ ﴿١٥٥﴾ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾ أُولَٰئِكَ عَلَیْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ﴿١٥٧﴾
مؤمنوں سے خطاب:
[یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا] اب یہاں [یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا] کہہ کر خطاب کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے [یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ] کہا گیا اور پھر[یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ] کہا گیا۔ کیوں؟ اس لیے اب ایمان والوں کی وہ تعلیم اور تربیت مقصود ہے کہ جس کے بعد وہ دنیا کے سامنے حق کی گواہی رکھیں گے۔ جو دنیا کو اب اللہ کی طرف بلائیں گے۔ کوئی بھی شخص جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والا ہو، خود اللہ کی ذات اس کے رگ و پے میں اس طرح سمائی ہوئی ہو کہ وہ بولے تو اسی کی تائید کے ساتھ۔ وہ سوچے تو یعنی اللہ تعالیٰ کا احساس، اللہ تعالیٰ کی یاد اس کی زبان پر ہو۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے اندر ہو۔ اس کے لیے شکر کے جذبات ہوں۔ یعنی اس کو ہر ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی رضا سامنے رکھنا آتی ہو۔ اور اس کے لیے سب سے پہلے جو چیز سکھائی گئی، وہ صبر ہے۔ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر کے ساتھ مدد مانگو اور نماز کے ساتھ۔
دو خوبیاں:
گویا اخلاقی خوبیوں میں سب سے پہلی خوبی صبر اور عبادات میں سب سے پہلی عبادت نماز۔ کوئی بھی شخص جس کے اندر صبر کا مادہ نہ ہو، وہ کبھی نیکی کا کام نہیں کرسکتا۔ آپ جب بھی نیکی کا راستہ اختیار کرتے ہیں، لازماً مشکلات آتی ہیں۔ کبھی اپنے نفس کے اندر سے آتی ہیں۔ کبھی باہر سے آتی ہیں۔ اسی طرح عبادات میں سب سے مشکل نماز ہے۔ بہت سے لوگ روزہ رکھ لیتے ہیں، نماز نہیں پڑھتے۔ زکاۃ، صدقہ، خیرات بہت کرتے ہیں، نماز ان کو بھاری لگتی ہے۔ اس لیے اہل ایمان کو پہلا حکم جو دیا جا رہا ہے، وہ کیا ہے ؟ [اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ]اللہ کی مدد چاہتے ہو؟ اللہ کی تائید چاہتے ہو؟ تو کیا کرو؟ صبر اندر پیدا کرو اور نماز سے اپنے بندہ خدا ہونے کا ثبوت دو۔ اور پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔ دیکھو! مدد آئے گی۔ لیکن اگر بے صبرے ہو گئے تم اور اللہ کے آگے جھکنا نہ جانا تم نے تو پھر تمہارا اللہ تعالیٰ سے کیا تعلق؟[إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِینَ ﴿١٥٣﴾]یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔
[وَلَا تَقُولُوا لِمَن یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ﴿١٥٤﴾] اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو۔ ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں۔ مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔ اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔
آزمائشیں تو آئیں گی:
یعنی جب تم دین کے راستے پر چلو گے، اللہ کا بندہ بن کر زندگی گزارنا چاہو گے تو ہر آن کوئی نہ کوئی آزمائش اس زندگی میں آتی رہے گی۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جو کوئی مصیبت پڑے تو کہیں: ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ یعنی وہ ان مصائب کی وجہ سے زندگی میں الجھ کر نہ رہ جائیں۔ اپنے اصل مقصد اور کام سے نہ ہٹ جائیں۔
اب آپ دیکھیں کہ منصب امامت تو مل رہا ہے لیکن جو شخص جتنے بڑے مرتبے پر فائز ہوتا ہے اس کی مشکلات بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہیں۔ جو امت اتنا بڑا کام کرنے والی ہے، اس کے راستے میں کئی مشکلات آئیں گی۔ اس میں مال کی کمی بھی ہو گی، خوف و خطر بھی ہو گا، بعض اوقات بھوک بھی برداشت کرنی ہو گی، بعض اوقات لوگوں کی باتیں بھی سننا ہوں گی۔ یہ سب چیزیں جب پیش آئیں تو اس وقت کیا سوچو؟ [اِنَّا لِلّٰهِ]ہم بھی تو اللہ کے ہیں[وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾]اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ہم سب کو بھی یقیناً۔ اس لیے پروا نہیں۔ یہ سب تکلیفیں وقتی ہیں۔ آزمائش ہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی۔ وہ اپنی جوار رحمت میں لے لے گا۔
[أُولَٰئِكَ عَلَیْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ﴿١٥٧﴾ ]ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
دعوت دین کے ضروری نکات
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ ()
وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَیْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا یَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَیْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِی وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِی عَلَیْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٥٠﴾ كَمَا أَرْسَلْنَا فِیكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ یَتْلُو عَلَیْكُمْ آیَاتِنَا وَیُزَكِّیكُمْ وَیُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَیُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ﴿١٥١﴾
اور جہاں سے بھی تمہارا گزر ہو، اپنا رُخ مسجد حرام ہی کی طرف پھیرا کرو۔ یعنی حضر میں ہو یا سفر میں، ہر جگہ، جہاں بھی تم ہو، اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو۔ تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے۔
اتحاد کا نشان:
اصل میں قبلہ مسلمانوں کے اتحاد کا سمبل ہے۔ مسلمانوں کو ایک رُخ پر اور ایک مرکز پر جمع کرنے کے لیے بھی ہے۔ اگر چہ اس کی اور بھی کئی حکمتیں ہیں لیکن یہ ایک بڑا مقصد ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں، جب وہ قبلے کی طرف رُخ کرتے ہیں تو یہ اپنے عمل سے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ایک ہیں، ہم سب کی ڈائریکشن ایک ہے۔
قبلے کا تعین ضروری:
فرمایا کہ اس کی خلاف ورزی نہ کرنا۔ اسی لیے یہ بات ہم سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ فرض نماز میں قبلے کا تعین ضروری ہے حتی الامکان۔ یعنی انسان کوئی بھی طریقہ اختیار کرے لیکن قبلے ہی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے۔ نوافل میں آپﷺ سواری پر بھی نفل پڑھتے تھے۔ اور ابتداً قبلہ کی طرف منہ کرتے اور پھر اس کے بعدسواری جس طرف کو بھی گھوم جاتی، آپ نفل نماز پڑھتے تھے۔ لیکن فرض نماز کے لیے آپ سواری پر نماز نہیں پڑھتے تھے۔ نمازوں کو جمع کر لیا کرتے لیکن قبلہ ہی کو فالو کرتے۔ یہ الگ بات ہے کہ جیسے جہاز کی سواری ہے اور اس میں کوئی موقع نہیں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا اور بعض اوقات قبلہ کی سمت متعین کرنے کا تو وہ تو پھر ایک اضطراری کیفیت ہے لیکن زمین پر سفر کرتے ہوئے خاص طور پر اس کا اہتمام ضروری ہے۔
لوگوں کا طرز عمل:
ہاں! جو ظالم ہیں، ان کی زبان کسی حال میں بند نہ ہو گی۔ تو تم ان سے نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو۔
ہوتا یہ ہے کہ جب حق سامنے آتا ہے تو وہ لوگ جن کی فطرت سلیم ہوتی ہے، وہ اسے قبول کر لیتے ہیں۔ بعض لوگ تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد، بعض کچھ شک میں پڑنے کے بعد پھر یقین کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ لیکن ہر معاشرے کے اندر ایک عنصر ضرور ہوتا ہے جو انتہائی ہٹ دھرم ہوتا ہے۔ جیسے مکہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدا میں بہت لوگوں نے مخالفت کی لیکن آہستہ آہستہ اس میں کمی آتی گئی حتی کہ مکہ فتح ہو گیا، اکثریت مسلمان ہو گئی۔ گنتی کے چند لوگ ایسے تھے کہ جو اب بھی ہٹ دھرمی کا شکار تھے۔ فرمایا کہ اس چھوٹے سے ایلیمنٹ کو اگنور کر دو۔ اور اس لیے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں۔ اور اس توقع پر کہ میری اس پیروی سے تم اسی طرح فلاح کا راستہ پاؤ گے جس طرح میں نے تمہارے درمیان خود تم سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں میری آیات سناتا ہے، تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے،تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم جانتے نہ تھے۔
پیارے پیغمبرﷺ کا طریقۂ دعوتِ دین:
یہاں حضور ﷺ کو ہدایت کا ذریعہ بتایا گیا۔ آپﷺ نے لوگوں کو ہدایت کی طرف کس طرح بلایا۔ کیا میتھوڈالوجی اختیار کی۔ کیا طریقہ استعمال کیا۔ کیا چیز تھی جس کے ذریعے آپ نے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھایا؟
نمبر ایک: [یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا]تلاوت آیات۔ اللہ کا کلام پڑھ کر سنایا
نمبر دو: [وَ یُزَكِّیْكُمْ] تزکیہ کیا۔ تربیت کی۔
نمبر تین: [وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ]تم کو کتاب کی تعلیم دی۔
اور نمبر چار: [وَ الْحِكْمَةَ] اور حکمت کی۔
چار نکاتی ایجنڈا:
آج بھی اگر کوئی شخص، کوئی فرد، گروہ یا جماعت لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا چاہتی ہے اور اس کے لیے بھی یہی چار نکاتی ایجنڈا ہے۔ انہی چار چیزوں پر کام کرنا چاہیے۔ انسانوں کے اندر تبدیلی اور تربیت کے عمل کے لیے۔ تلاوت آیات، تعلیم کتاب، تعلیم حکمت اور صرف علم اور تلاوت اور تجوید نہیں بلکہ تزکیہ۔ صرف ظاہر ہی کی ریجوئلز کی ادائیگی نہیں، بلکہ اندر کے انسان کی فلاح و بہبود، اندر کے انسان کی نشوونما۔ تزکیہ کا عمل دو چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
نمبر ایک: نفس کی خرابیوں کو، نفس کے اندر پائے جانے والے برے خیالات و میلانات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا جیسے شرک،بدعت، حسد، تکبر اور اس سے متعلقہ چیزیں۔
نمبر دو: نشو و نما کرنا یعنی خیرات اور بھلائیوں کی، نیکیوں کے ایسے بیج ڈالنا کہ جس سے انسان اپنے آپ کو، اپنے اندر کو بھی اور اپنے باہر کو بھی خوب سنوار سکے۔
نبی ﷺ نے یہی کام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پھر صحابہ کرام جیسی ایسی قوم دنیا میں وجود میں آئی جس نے دنیا کے سامنے بہترین عملی مثالیں پیش کیں۔
نعمت پر شکر:
[فَاذْكُرُونِی أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِی وَلَا تَكْفُرُونِ ﴿١٥٢﴾]پس تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ اور میرا شکر ادا کرو اور ناشکری نہ کرو۔ یعنی جب نعمت ملے تو اس کا حق کیسے ادا کیا جاتا ہے ؟اللہ کا ذکر کر کے اور اللہ کا شکر کر کے۔ یعنی جب تم کو ہدایت کاراستہ ملے۔ اللہ کا ذکر کرنا، اس کا ذکر اور شکر بجا لانا۔
اللہ کی نشانیاں اور مشرکین کی حالت
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ ()
إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِیمُ ﴿١٦٣﴾إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْیَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِیهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِیفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ﴿١٦٤﴾ وَمِنَ النَّاسِ مَن یَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا یُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ یَرَى الَّذِینَ ظَلَمُوا إِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِیعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِیدُ الْعَذَابِ ﴿١٦٥﴾ إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِینَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ ﴿١٦٦﴾ وَقَالَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ كَذَٰلِكَ یُرِیهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْهِمْ ۖ وَمَا هُم بِخَارِجِینَ مِنَ النَّارِ ﴿١٦٧﴾
اللہ تعالیٰ کی نشانیاں:
تمہارا الہ بس ایک ہی الہ ہے۔ وہ رحمان اور رحیم ہے۔ اس کے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے۔ اور پھر اس الہ کو پانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کائنات میں بے شمار نشانیاں بھیجی ہیں۔ یہ ساری کائنات زمین سے آسمان تک کس چیز کی گواہی دے رہی ہے کہ میں خود سے خود نہیں بنی، مجھے کسی نے بنایا ہے۔ اور جس نے بنایا ہے، وہ بہت عظیم ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کائنات کی کچھ نشانیوں کا ذکر کرتے ہیں بطور دلیل کے اس بات پر کہ الہ بس ایک ہی ہے۔ اسی کے حکم سے یہ سب چیزیں قائم ہیں۔ جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں، ان کے لیے زمین اور آسمان کی ساخت میں، رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیہم آنے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کے نفع کی چیزیں لیکر دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں۔ بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے زمین کو زندگی بخشتا ہے۔ اور اپنے اسی انتظام کی بدولت میں زمین میں ہر قسم کے جاندار پھیلاتا ہے۔ ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جوآسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں۔ بے شمار نشانیاں ہیں۔
ذرا سوچیں تو:
آپ تھوری دیر کے لیے امیجن کریں جو بھی نشانیاں یہاں بتائی گئی ہیں۔ رات اور دن کا منظر پہلے بتایا گیا۔ پھر سمندر۔ سوچتے جائیں ساتھ ساتھ، اپنے ذہن میں ایک تصویر بناتے جائیں کہ سمندر ہے، پانی ٹھاٹیں مار رہا ہے، اس پر سامان سے لدی ہوئی کشتیاں چل رہی ہیں۔ پھر آسمان سے بارش بھی برس رہی ہے، آس پاس سبزہ بھی ہے۔ زمین اس بارش کی وجہ سے زند ہ ہے۔ ہر طرح کے جانور بھی پھیلے ہوئے اس جنگل میں۔ ہوائیں بھی چل رہی ہیں، بادل بھی نظر آ رہے ہیں۔ کتنا خوبصورت نظارہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے ! اگر انسان اس نظارے کو دیکھ کر بھی اپنے رب کو نہ پہچانے کیونکہ ایسے نظارے اور ایسے سین انسان کو اٹریکٹ کرتے ہیں۔ ان سب چیزوں کو دیکھ کر بھی انسان اپنے مالک کو نہ پہچانے اور جس نے ان سب کو بنایا ہے، اس کو یاد نہ کرے تو پھر اس سے بڑا غافل کون ہوسکتا ہے ؟ فرمایا: ان سب میں بڑی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والی قوم کے لیے۔
مشرکین کی حالت:
[وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا]کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہم سر اور مدمقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہے جیسی اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے۔
انسانی فطرت:
انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے کہ کسی سے شدید محبت کرے۔ یعنی یہ بات انسان کے اندر ڈال دی گئی ہے۔ جب اس محبت کو صحیح راستہ نہیں ملتا تو پھر نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور چیز میں ہُک ہو جاتا ہے، سٹک ہو جاتا ہے اور کسی اور کو اپنا مرکز محبت اور مرکز عبودیت بنا لیتا ہے۔ یہیں سے شرک کا دروازہ کھلتا ہے۔
شرک کیا چیز ہے ؟
عبودیت کے جذبات کی تسکین کے لیے، محبت کے جذبات کی تسکین کے لیے اللہ کے سواکوئی دوسرا مرکز بنا لینا۔ اسی لیے فرمایا: لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں، وہ ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے۔ اسی کا نام شرک ہے۔ شرک یہ نہیں ہے کہ انسان کسی کو خدا نہ بنائے۔ یا کسی کو اپنا الہ نہ سمجھے۔ شرک کیا ہے ؟ اصل خدا کی جگہ، اصل الہ کی جگہ کسی فرضی چیز کو اپنا الہ بنا لیں۔ اپنی محبت کے، اپنی عقیدت کے، احترام کے سارے جذبات اس کے لیے مخصوص کر کے رکھ دے، خواہ وہ کوئی انسان ہو، فرشتہ ہو،موجودات میں سے کوئی چیز ہو، کوئی بادل ہو، آگ ہو، پانی ہو یا کوئی بھی چیز۔ جیسا کہ دنیا میں مختلف زمانوں میں مختلف قوموں کے اندر شرک کی مختلف نوعیتیں پائی گئیں۔ کہ وہ اصل رب کو نہ پا سکے۔ وہ راستے میں کھو گئے۔ جو چیزیں ظاہر میں نظر آئیں، وہ انہی کی عقیدت میں گرفتار ہو گئے۔ ان چیزوں نے ہی انہیں مسحور کر لیا۔ مثلاً جو سین آپ نے پیچھے دیکھا، امیجن کیا، اگر کوئی شخص اسی سین میں کھو جائے، اسی کو خدا بنا لے تو یہی تو بھٹکنا ہے۔ ایسی تمام چیزیں جو انسان کو اٹریکٹ کریں۔ کوئی بھی چیز جو آپ کو اٹریکٹ کرے، اس میں کھونے کی بجائے،اس سے آگے نکل کر اس کے بنانے والے کو چاہے، اس کو تلاش کرے، اس کو ڈھونڈے۔ لیکن عموماً انسانوں میں کمزوری کیا ہوتی ہے کہ بس وہ اس چیز کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔
تو یہاں پر فرمایا کہ لوگوں میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بنا لیتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں۔ اور یہیں سے آپ دیکھیں کہ
بنیادی طور پر شرک کہاں سے آیا؟
شخصیت پرستی سے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم میں شرک کہاں سے شروع ہوا؟کہ بعض نیک لوگوں سے انہوں نے ایسی محبت کی کہ پہلے کہا کہ یہ ہمیں خدا تک پہنچاتے ہیں اس لیے ہم ان سے محبت کرتے ہیں اور پھر آگے بڑھ کر خدا کو بھلا دیا اور انہی کو خدا بنا بیٹھے۔ اور پھر انہی کے آگے ماتھا ٹیکنے لگے اور پھر انہی کے ساتھ ساری عقیدتیں وابستہ کر لیں۔ اس لیے اللہ کی خاطر کسی سے محبت جائز تو ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اس شخص میں ایسا کھو جائے کہ اللہ کی محبت بھول جائے یا اللہ کی عبادت بھول جائے یا اللہ کی اطاعت بھول جائے اور انسان اللہ ہی کی اطاعت میں روڑے اٹکانے لگے۔ اور انسان ان کی خاطر اللہ کی اطاعت چھوڑ دے۔
خواتین کی حالت:
عام طور پر خواتین کیا کرتی ہیں کہ بچوں میں اتنی مشغول ہو جاتی ہیں یا دنیا کی محبت میں اس قدر مشغول ہو جاتی ہیں کہ نماز تک پڑھنا بھول جاتی ہیں۔ کسی انسان سے مرعوب ہو گئے، کسی اور چیز سے مسحور ہو گئے، بس اسی میں گم ہو کر رہ گئے اور بڑے بڑے اہم کام اور فرائض بھلا کر بیٹھ گئے۔ یہی شرک کی ابتدا ہے۔ اسی سے بچنے کی ضرورت ہے۔
اور ایمان والے ؟:
[وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ]حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔ یعنی اپنی جان سے بڑھ کر، اپنی اولاد سے بڑھ کر۔ اپنے ماں باپ سے بڑھ کر، اپنے رشتہ داروں سے بڑھ کر۔ اپنے دوستوں سے بڑھ کر، مال و دولت سے بڑھ کر، دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر۔ اور کس طرح؟یعنی ان میں سے کسی بھی چیز کا تقاضا سامنے آئے تو وہ اس وقت ہمیشہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس موقع پر میرے رب کا تقاضا کیا ہے، میرا رب مجھ سے کیا چاہتا ہے ؟ان میں سے کسی چیز کی محبت اللہ کی اطاعت میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ کاش! جو کچھ عذاب کو سامنے دیکھ کر انہیں سوجھنے والا ہے، وہ آج ہی ان ظالموں کو سوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ عذاب دینے میں بھی بہت سخت ہیں۔ جب وہ سزا دے گا، اس وقت کیفیت یہ ہو گی کہ وہی پیشوا اور رہنما جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی یعنی جن شخصیتوں سے بہت عقیدت رکھی گئی تھی، جن کی ہر بات آنکھیں بند کر کے مانتے تھے لوگ، وہ اپنے پیروؤں سے بے تعلقی ظاہر کریں گے۔ وہاں جا کر وہ ان کو بھلا دیں گے اپنے فالوورز کو۔ مگر سزا پا کر رہیں گے اور ان کے سارے اسباب و وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا۔ اور وہ لوگ جو دنیا میں ان کی پیروی کرتے تھے، کہیں گے : کاش! ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزاری ظاہر کر رہے ہیں، ہم ان سے بیزار ہو کر دکھا دیتے۔ یوں اللہ ان کے وہ اعمال جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں، ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرت و پشیمانی کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے، مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.urduvb.com/forum/forumdisplay.php?f=189&order=desc
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید