FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

مکمل کتاب پڑھیں

کچھ اور شکار کی کہانیاں

ترتیب و پیشکش: انیس الرحمٰن

پیگی پلہام کا آدم خور

کینتھ اینڈرسن/ ترجمہ انیس الرحمٰن

یہ ایک آدم خور شیر کی تباہ کاریوں اور اس کے زوال کی مکمل کہانی نہیں ہے کیونکہ وہ شیر یہ کہانی لکھنے کے وقت تک زندہ ہے۔ سرکاری اطلاع کے مطابق اس نے چودہ آدمی ہلاک کیئے ہیں اگرچہ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق اس کی ہلاکت خیزیوں کی لپیٹ میں کوئی سینتیس کے قریب مرد، عورتیں اور بچے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک درجن کے قریب اس نے سارے کے سارے یا کسی حد تک کھا لیئے تھے اور باقیوں کو محض لہولہان کیا تھا۔ سرکاری ریکارڈ فقط ہلاک کیئے گئے افراد پر مشتمل ہے۔ اسی لیئے ان دونوں بیانوں میں ایک بھی اختلاف نہیں۔

اس کہانی کا دل چسپ پہلو یہ ہے کہ میرے یقین کے مطابق یہ وہی شیر ہے جس کا ذکر میں پہلے ایک کتاب میں کر چکا ہوں۔ اس کہانی میں میں نے بتایا تھا کہ شمالی کمبا توڑ میں پہاڑیوں کے دامن میں چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں کے جنگل میں ایک شیر کہیں سے آ گیا تھا جو بعد میں آدم خور بن گیا تھا۔

اس جنگل کے سب سے قریبی گاؤں کا نام راج نگر تھا۔ چونکہ شیر نے اپنی ہلاکت خیزیوں کی ابتداء ان گڈریوں سے کی تھی جو اس قریبی گاؤں سے جنگل میں گائے بھینس چرانے آیا کرتے تھے۔ اس لیئے وہ شیر راج نگر کے شیر کے نام سے مشہور ہو گیا۔ علاوہ بریں وہ اپنے حملہ کرنے کے خاص اسلوب سے شہرت حاصل کر چکا تھا۔ اس کے حملہ آور ہونے کے انداز میں یہ خاصیت تھی کہ وہ ایک دم جھاڑیوں کی اوٹ سے نکلتا اور گڈرئیے کو اپنے پنجوں سے بری طرح نوچ ڈالتا اور پھر اس کے مویشیوں سے اپنا پسندیدہ مال اٹھا کر چل بنتا۔ اس وقت تک ایسی کوئی معتبر شہادت نہ ملی تھی کہ اس نے جس آدمی پر حملہ کیا ہو اسے دانتوں سے کاٹا بھی ہو۔ ایک دو آدمی گم ہو گئے تھے اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ شیر نے ان کو کھا لیا ہے۔ لیکن یہ فقط ایک مفروضہ تھا اور اس سلسلے میں کوئی ثبوت مہیا نہ ہو سکا تھا۔ شیر کے بارے میں فقط یہ معلوم تھا کہ وہ اپنے شکار کو دانتوں سے نہیں بلکہ پنجوں سے زخمی کرتا ہے۔

اس کی اس خاص عادت کی وجہ سے گرد و نواح میں یہ مشہور ہو گیا کہ اس کے جبڑے یا چہرے پر ایسا کوئی زخم ہے جس کے باعث وہ دانتوں سے کاٹنے سے معذور ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی مسلّمہ تھی کہ شیر گڈرئیے کو زخمی کرنے کے بعد ہلاک کیئے ہوئے مویشی کو پیٹ بھر کے کھاتا تھا۔ جس سے یہ امر واضح تھا کہ شیر بخوبی کاٹ اور کھا سکتا تھا۔ یہ ایک بڑا غیر معمولی معاملہ تھا۔ جس کی کئی وضاحتیں دی گئیں مگر ان میں سے کوئی بھی اطمینان بخش نہ تھی۔

میں اپنی پہلی کہانی میں بیان کر چکا ہوں کہ کس طرح میں نے اس شیر کو شکار کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہا۔ وہ بے حد چالاک درندہ تھا۔ انجام کار میں اس سے شکست کھا کر بنگلور واپس چلا گیا۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ بہت جلد مجھے اس کا سامنا کرنے کا موقع ملے گا اور میری کامیابی کے امکان زیادہ ہوں گے۔

اس وقت سے اب تک میرے بعض دوستوں اور بہی خواہوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ راج نگر کے آدم خور کی کہانی میں کچھ اضافہ ہوا ہے کہ نہیں۔ میرے ایک پرانے شناسا جا کرتی نے لاس اینجلس کیلی فورنیا سے مجھے بذریعہ تار کہا ہے کہ وہ اس خاص قسم کے شیر کے متعلق مزید کچھ سننے کے لیئے بے تاب ہیں۔

مجھے افسوس ہے کہ میں ان لوگوں کے تجسس کو مطمئن نہ کر سکا۔ کیونکہ میرے وہاں سے چلے آنے کے کچھ عرصے بعد راج نگر کے قاتل نے لوگوں کو زخمی کرنا بند کر دیا اور بعد میں اس کے متعلق کوئی خبر نہ سنی گئی۔ سب کو یقین تھا کہ اس کی کایا پلٹ گئی ہے اور نئے سال کے ساتھ ہی اس نے اپنی زندگی کا نیا ورق پلٹ لیا ہو گا یا پھر ممکن ہے کہ وہ کسی دور کے جنگل چلا گیا ہو اور وہاں فطری موت مر گیا ہو۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ راج نگر کے گڈریوں نے اسی شیر کی آمد سے بے پروا ہو کر پہلے کی طرح پھر سے جنگل میں اپنے مویشی چرانے شروع کر دیئے۔ اب کوئی شیر انہیں کچھ نہ کہتا تھا۔

اور پھر کوئی نو ماہ بعد، ایک شام کو سورج راج نگر سے کوئی پچاس میل دور پہاڑیوں کے سلسلے کے عقب میں روپوش ہو رہا تھا، پرندے اپنے گھونسلوں کو واپس جا رہے تھے۔ سورج کی ترچھی کرنیں پیگی پلہام کے چھوٹے سے گاؤں کی مشرقی جھونپڑیوں پر سونا بکھیر رہی تھیں۔ یہ گاؤں جنگل کے وسط میں ایک صاف جگہ پر آباد تھا اور اس کے مغرب میں پہاڑیوں کا سلسلہ تھا اور مشرق میں ڈمبم سے کولے گھاٹ جانے والی سڑک تھی۔ جو اس گاؤں سے زیادہ سے زیادہ دو میل ہو گی۔ ہاں تو شام کا وقت تھا، گڈرئیے اپنے مویشی دن بھر جنگل میں چرانے کے بعد گھر واپس لا رہے تھے۔ پیگی پلہام سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک کچے راستے پر جو گاؤں کی سمت آتا تھا۔ دو گڈرئیے جن میں سے ایک ادھیڑ اور دوسرا لڑکا تھا، اپنے مویشیوں کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔

راستے میں چھوٹے چھوٹے برساتی نالے تھے۔ ان گڈریوں کے مویشی ایک نالے کو عبور کر رہے تھے۔ ادھیڑ گڈریا بھی نصف نالا عبور کر چکا تھا لیکن لڑکا ابھی پچھلے کنارے پر تھا۔ نالے کے کنارے پر بانس کے درخت کثرت سے اگے ہوئے تھے۔ لڑکا اپنے خیالات میں کھویا ہوا ان درختوں میں سے گزر رہا تھا۔

اتنے میں ادھیڑ گڈرئیے نے اپنے عقب میں ایک کھوکھلی آواز سنی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ لیکن اسے کچھ نظر نہ آیا۔ اس کے عقب والا راستہ بانس کے گھنے جھنڈ میں سے گزرتا تھا۔ اسے اس میں کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ وہ پھر مویشیوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اس نے سوچا کہ لڑکا کھیل میں مصروف ہے کہیں پیچھے رہ گیا ہو گا۔

آخر وہ پیگی پلہام کے قریب پہنچ گیا۔ ادھیڑ گڈرئیے نے ایک دفعہ پھر مڑ کر دیکھا۔ لڑکا اب بھی نہ دکھائی دیا۔ اس نے لڑکے کا نام لے کر آواز دی۔ لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ تھوڑی دیر بعد اس شخص نے پھر آواز دی مگر اس کی آواز خاموشی میں ڈوب گئی۔ اس نے سوچا ممکن ہے لڑکا دوسرے راستے سے گاؤں چلا گیا ہو۔ لیکن گاؤں پہنچ کر بھی اسے لڑکا دکھائی نہ دیا۔

ادھیڑ گڈرئیے نے اس بات پر کوئی زیادہ توجہ نہ دی کیونکہ لڑکے کی تاخیر کی سینکڑوں وجوہ ہو سکتی تھیں۔ لیکن جب ایک گھنٹے بعد بھی لڑکا گاؤں واپس نہ آیا تو ادھیڑ گڈرئیے نے سوچا کہ آخر لڑکا کس جگہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوا تھا۔ تب اسے یاد آ گیا کہ نالے میں سے گزرنے کے بعد لڑکا اسے دکھائی نہ دیا تھا۔ اسے یہ بھی یاد آ گیا کہ اس نے وہاں ہلکی سی غراہٹ بھی سنی تھی۔ اس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یقیناً لڑکے کو کچھ ہو گیا ہے۔ سانپ، کسی سانپ نے اسے کاٹ لیا تھا۔ لیکن اس کے ذہن میں کسی آدم خور شیر یا چیتے کا خیال بالکل نہ آیا کیونکہ پیگی پلہام کی پر امن بستی میں اس قسم کی مصیبت کبھی نازل نہ ہوئی تھی۔

لہذا وہ جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور بانسوں کے جھنڈ کی سمت چل پڑا۔ نالے کے دوسرے کنارے پر بانسوں کے جھنڈ کے قریب اسے شیر کے پنجوں کے نشانات دکھائی دیئے۔ وہیں لڑکے اور شیر کے درمیان ہلکی سی کشمکش کے آثار بھی موجود تھے۔ پھر لڑکے کو گھسیٹنے کی لکیر بھی موجود تھی۔

اس طرح پیگی پلہام کے آدم خور کا لوگوں کو پہلی مرتبہ پتا چلا۔

وقت گزرتا گیا اور اسی علاقے کے گرد و نواح میں انسانی شکار کی خبریں آنے لگیں۔ شیر ہر طرف پندرہ بیس میل دور مار کر رہا تھا۔ اس کا آخری شکار ایک پندرہ سالہ لڑکا تھا جسے وہ دن دہاڑے کھیتوں میں سے اٹھا لے گیا تھا۔

اس آدم خور کے متعلق ایک اہم حقیقت وہ اطلاع تھی جو مجھ تک اس شیر کے ایک دوسرے انسانی شکار کے موقع پر پہنچی۔ یہ شکار اس نے اپنے اولین انسانی شکار یعنی ادھیڑ عمر گڈرئیے کے لڑکے کے شکار کی جگہ سے کوئی تین میل کے فاصلے پر کیا تھا۔ تین آدمی جنگل کے اندر ایک کچے راستے پر چل رہے تھے۔ اس راستے کے ذریعے پہلے جنگل سے بانسوں کے چھکڑے بھر کر لائے جاتے تھے۔ آدم خور کی سرگرمیوں کے باعث لوگوں نے ایک دم جنگل میں جانا ترک کر دیا تھا اور اب وہ فقط انتہائی ضرورت کے تحت ہی جنگل میں جاتے تھے۔ وہ لوگ بھی ایک اہم ضرورت کے تحت جنگل میں گئے تھے۔ کوئی دو بجے کا وقت ہو گا۔ انہوں نے اپنا دوپہر کا کھانا پیگی پلہام میں کھایا تھا اور تقریباً اپنی منزل مقصود تک پہنچ چکے تھے۔ وہ زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین بجے پیگی پلہام پہنچنے کے متوقع تھے۔

اچانک کسی قسم کی آہٹ کے بغیر ایک شیر کچے راستے پر آن کھڑا ہوا۔ تینوں آدمی یکدم رک گئے۔ خوف کے مارے ان پر سکتہ طاری ہو گیا۔ تب شیر نے سب سے اگلے آدمی پر حملہ کیا۔ اس کے باقی دونوں ساتھی ایک قریبی درخت پر گرتے پڑتے چڑھ گئے۔ اس دوران میں جس شخص پر شیر نے حملہ کیا اس نے انتہائی جرات کا ثبوت دیتے ہوئے اندھا دھند وہ برچھا شیر کے سر پر چلا دیا جو اس علاقے کے لوگ راستہ صاف کرنے کی غرض سے ہمیشہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ برچھا شیر کے سر پر ایک طرف لگا اور اتنا حصہ کاٹ کر لے گیا۔ اس غیر متوقع حملے سے شیر درد سے گرجا۔ آدم خور شیر فطری طور پر بزدل ہوتا ہے۔ لہذا اس نے اپنا شکار چھوڑا اور جھاڑیوں میں روپوش ہو گیا۔

اسی اثناء میں اس کے دونوں ساتھی اندھا دھند ہاتھ پیر مارتے درخت کی چوٹی پر پہنچ چکے تھے اور اپنے نیچے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ان کے ساتھی کے چہرے اور سینے پر گہرے زخم آئے تھے اور ان سے خون بہہ رہا تھا۔ کیونکہ شیر کے پنجوں نے اسے بری طرح زخمی کیا تھا۔ وہ صدمے سے سکتے کی حالت میں نیم بے ہوشی کے عالم میں زمین پر بیٹھا تھا۔ درخت پر چڑھے ہوئے آدمیوں نے اسے آواز دی، ‘بھائی جلدی سے درخت پر چڑھ آؤ۔‘ اس طرح زمین پر بیٹھنا خطرے سے خالی نہ تھا کیونکہ ہو سکتا تھا کہ شاید شیر پھر واپس لوٹ آئے۔

زخمی آدمی نے ان کی آواز سنی، اپنی لرزتی ٹانگوں پر کھڑا ہوا اور پھر اپنے سر سے پگڑی اتار کر اسے اپنے زخموں کے گرد لپیٹنے لگا۔ اس کے ساتھیوں نے اسے پھر پکارا اور وہ درخت پر چڑھنے کی نیت سے اس طرف چل پڑا۔ لیکن تقدیر نے اس کی زندگی کے دن پوری کر دیئے تھے۔ آدم خور جو وقتی طور پر بزدل ہو گیا تھا ایک دم اشتعال میں آ گیا۔ شاید اس کی وجہ اس کے سر کا زخم تھا۔ وہ برق رفتاری سے اس شخص پر جھپٹا اور اس کی گردن توڑ کر رکھ دی۔ ابھی وہ بے چارہ زمین پر گرنے بھی نہ پایا تھا کہ شیر نے اسے اپنے جبڑے میں دبوچا اور دونوں آدمیوں کے دیکھتے ہی دیکھتے جنگل میں روپوش ہو گیا۔

اس حادثے کے فوراً بعد میں پیگی پلہام پہنچا اور ان دو آدمیوں سے اس حادثے کی تفصیلات جانیں۔ ان دونوں کے بیان بالکل ملتے تھے اور تفصیلات بھی صاف تھیں۔ وہ دونوں اس پر متفق تھے کہ شیر نے اپنے دونوں حملوں میں اپنے دانتوں کے بجائے اپنے پنجے استعمال کیئے تھے۔

کتنی ہی یادداشتیں ایک دم میرے ذہن میں عود کر آئیں۔ کہیں یہ راج نگر کا قاتل تو نہ تھا، جس نے پہلے مقابلے میں مجھے شکست دی تھی۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ کہیں وہ زیادہ دلیر ہو کر آدم خور تو نہیں بن گیا تھا اور یوں اب پیگی پلہام کی مصیبت بن گیا تھا۔ ان دونوں آدمی کے بیانات سے تو یہی پتا چلتا تھا کہ یہ وہی درندہ ہے۔

میں نے فقط پیگی پلہام میں ہی نہیں بلکہ گرد و پیش کے دو تین دیہات میں بھی اس شیر کے متعلق لوگوں سے کئی ایک باتیں پوچھیں۔ شیر کے کئی انسانی شکار اس حالت میں پائے گئے تھے کہ شیر نے انہیں نصف سے زیادہ نہ کھایا تھا۔ ان سب کے جسم پر پنجوں کے گہرے نشان تھے لیکن اس کے ساتھ ہی دانتوں کے نشان بھی نظر آتے تھے۔ اس بات کا کوئی فیصلہ کن ثبوت نہ ملتا تھا کہ شیر فقط اپنے پنجے سے اپنے شکار کو ہلاک کرتا ہے۔

پہلی دفعہ میں پیگی پلہام میں فقط ایک ہفتے تک قیام پزیر رہا۔ اس دوران میں آدم خور نے ان تین بیلوں میں سے کسی ایک کو بھی کچھ نہ کہا جو میں نے اسے ترغیب دینے کی خاطر مختلف جگہوں پر باندھے تھے۔ اس عرصے اس کے متعلق نہ ہی کوئی خبر سننے میں آئی۔ ادھر میری چھٹی ختم ہو گئی۔ اس میں توسیع کرانے کا میرے پاس کوئی جواز نہ تھا۔ لہذا میں بنگلور واپس چلا گیا۔

اس کے بعد جیسے میں بتا چکا ہوں کہ آدم خور نے دن دہاڑے ایک پندرہ سالہ لڑکے کو ہلاک کر دیا تھا۔ جائے حادثہ سے کولے گھاٹ کا بڑا قصبہ فقط چھ میل دور تھا۔ اس دفعہ میرے بجائے میرا بیٹا ڈونلڈ اس کے پیچھے جا رہا ہے۔ دیکھئے قسمت کس حد تک اس کا ساتھ دیتی ہے۔

ہم سب یہ جاننے کے خواہش مند ہیں کہ کیا موجودہ آدم خور‘راج نگر کا قاتل’ ہے یا کوئی دوسرا شیر۔ کیونکہ موجودہ آدم خور بھی راج نگر کے قاتل کی طرح پنجے سے اپنا شکار ہلاک کرتا ہے۔ یہ نکتہ اس وقت تک ثابت نہیں ہو سکتا جب تک ڈونلڈ اسے شکار کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ اگر وہ کامیاب ہو گیا تو بلا شبہ جنگل کا ایک عظیم بھید پالے گا۔

٭٭٭

نردولی کا آدم خور

بہزاد لکھنوی

ٹائپنگ: انیس الرحمن

میرا نام متو خاں شکاری ہے۔ یہ میرے بچپن کے شکار کا واقعہ ہے۔ عجیب و غریب داستان ہے۔ مجھے یہ بیان کرنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ میری ابتداء بے حد غربت کے دور سے ہوئی۔ میں بٹول کا رہنے والا ہوں، جہاں کے سنترے ہندوستان میں مشہور ہیں۔ بٹول سے چھے میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جہاں سنترے کے باغات ختم ہو کر جنگلی علاقہ شروع ہوتا ہے۔ اس گاؤں کا نام لکھن پور تھا۔ ہندو مسلمان کی ملی جلی آبادی تھی۔ کوئی سو ڈیڑھ سو گھر کاشت کاروں کے تھے۔ میرے والد کا نام رمجو خاں تھا۔ ان کا صرف ایک کھیت تھا جس کو انہوں نے بٹائی پردے رکھا تھا اور خود وہ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ کپرے کا کاروبار بھی کیا تھا۔ وہ ناگ پور اور اکولہ جا کر دیہاتیوں کے مطلب کا کپڑا خرید لاتے تھے اور گٹھری میں لاد کر گائں گاؤں پھیری کر کے کپڑے بیچتے تھے۔ گھر میں میری ماں تھیں اور میں۔ وہ ایک ایک ہفتے تک واپس نہیں آتے تھے۔ مجھے اپنی ماں صرف اس حد تک یاد ہیں کہ وہ ایک گوری چٹی، مضبوط جسم کی بلند قامت عورت تھیں۔ میری تعلیم کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ میں پانچ سال کی عمر سے گھر کے باہر نکل کر گاؤں کی چرتی چگتی مرغیوں پر ڈھیلوں سے نشانہ بازی کیا کرتا تھا۔ شروع شروع تو میرا نشانہ خطا ہوتا رہا اور مرغیاں آزاد ہو کر بھاگنے لگیں، لیکن میں اپنی دھن کا پکا تھا۔ جب میرا نشانہ مرغی پر بیٹھا اور وہ چوٹ کھا کر تڑپنے لگی تو مجھے بے حد خوشی ہوئی، میں خوب قہقہہ مار کر ہنسا۔

میری تقدیر میں چوں کہ شکاری بننا تھا، مجھے حیرت ہے کہ بچپن میں مجھے یہ کیوں کر خیال پیدا ہوا کہ میں قریب کے بجائے دور سے نشانہ لگا کر شکار کروں، چناں چہ رفتہ رفتہ میں ڈھیلے بازی میں اتنا مشتاق ہو گیا کہ مرغیوں کا کافی دور سے ڈھیلا پھینک کر زخمی کر دیتا اور کمال کی بات یہ بھی کہ جس مرغی کا انتخاب کر لیتا تھا، اسی کو میرا ڈھیلا لگتا تھا، میرا اور کسی کھیل میں دل ہی نہیں لگتا تھا۔

گاؤں والے پریشان تھے، لیکن میں ایک ٹیلے کے پیچھے چھپ کر ڈھیلے بازی کرتا تھا، لہٰذا کسی کو پتا نہ چل سکا، میرا نشانہ جم گیا، اب میں نے بکریوں کے ریوڑوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا، یقین مانیے میرا پہلا ہی نشانہ ٹھیک بیٹھا اور کالی موٹی سی بکری کی ٹانگ زخمی ہو گی، اب بجائے مرغیوں کے بکریاں اور بھیڑیں میرا نشانہ بننے لگیں۔ گاؤں والے پریشان ہو گئے، لیکن ان کو پتا نہ چل سکا کہ یہ شرارت کرنے والا کون ہے، میری آٹھ سال کی عمر تھی کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ میرے والد پھیری پر گئے ہوئے تھے۔ گاؤں کے ایک لوہار رحیمو نے جن کو میں چچا کہتا تھا، اور گاؤں والوں نے مل کر تجہیز و تکفین کی اور گاؤں کے مکھیا نے نے مجھے رحیمو چچا کے سپرد کر دیا۔ رحیمی چچا کی بھی بیوی مر چکی تھی، کوئی اولاد نہیں تھی۔ رحیمو چچا اپنی دکان پر دن رات بھٹی کے سامنے بیٹے ہوئے کڑھائیاں، توے، چمٹے اور سنسیاں بنایا کرتے تھے جن کو پندرہ دن کے بعد وہ ایک دوسرے گاؤں میں پندرہ روزہ بازار لگنے پر فروخت کرنے جایا کرتے تھے۔

رحیمو چچا بھٹی ہی پر موٹی موٹی روٹیاں پکا لیتے تھے۔ سبزی بنا لیتے تھے اور میں اور وہ دونوں کھا لیا کرتے تھے۔ خلاف معمول والدہ کے انتقال کے ایک مہینہ بعد والد صاحب گاؤں آئے اور والدہ کی قبر پر جا کر بہت روئے۔ مجھے ہدایت کی کہ میں رحیمو چچا کے ہاں ہی قیام رکھوں، وہ پھر چلے گئے اور ایک ہفتے کے بعد جب واپس آئے تو ان کے ساتھ ایک عورت اور ایک لنگڑا جوان آدمی تھا جس کو انہوں نے میرے گھر میں بسا دیا۔ مجھے رحیمو چچا سے معلوم ہوا کہ وہ میری سوتیلی ماں ہے۔

میں دن بھر جنگل کی طرف نکل جانے لگا۔ میری نشانہ بازی کا ذوق مجھے مجبور کرتا۔ جنگل کا انتخاب میں نے یوں کیا کہ کسی نہ کسی دن گاؤں والوں کو اس کا علم ضرور ہو جانا تھا کہ بکریوں اور بھیڑوں کو زخمی کرنے والا شریر میں ہی ہوں۔ میں نے جنگل کے ابتدائی حصے میں ایک ٹیلے کو اپنی نشانہ بازی کا مرکز بنا کر ڈھیلے مارنا شروع کیے اورمیں خوشی سے اچھل اچھل پڑتا تھا۔ جب میرا نشانہ ٹھیک ٹھیک بیٹھ جاتا تھا۔ اتفاقاً پہلے ہی دن مجھے کوئی اپنے سے پچاس گز دور ایک مرغابی بیٹھی ہوئی ملی۔ غالباً اس حصے میں کوئی بڑا جوہڑ تھا۔ میں نے ایک بڑا سا ڈھیلا اٹھا کر آہستہ آہستہ اس کے قریب جانا شروع کیا۔ تقریباً بارا چودہ گز رہ گیا تو میں نے وہ ڈھیلا مرغابی کے اوپر پھینکا۔ ڈھیلا اس کے بازو پر پڑا اور درد کی شدت سے اس نے لوٹنا شروع کیا۔ میں تیزی سے لپکا اور اس کی ٹانگوں کی ہاتھ میں دبا کر اس کو اٹھائے ہوئے سیدھا چچا رحیمو کی دکان پر پہنچا، چچا رحیمو مرغابی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ جلدی سے انہوں نے اس کو ذبح کیا۔ پر نوچے، اس کا صاف کیا اور گھر سے نمک مرچ تیل لا کر بھٹی پر بھوننا شروع کیا، ہم دونوں نے اس کا گوشت مزے لے لے کر کھایا۔ چچا نے مجھ سے کیا، ‘تم نے یہ مرغابی کیوں کر پکڑی۔‘

میں نے صفائی کے ساتھ اپنی نشانہ بازی کا حال بتایا، وہ قہقہہ مار کر ہنسے اور بولے، ‘تو یہ کہ کہو مرغیوں، بکریوں اور بھیڑوں پر حملہ کرنے والے تم ہو جس کا آج تک گاؤں والوں کو پتا نہیں ہے۔ اگر کچھ دنوں تم مشق کرتے رہے تو بہت اچھے شکار بن سکتے ہو۔ میں تم کو لوہے کی ایک غلیل بنائے دیتا ہوں۔ لوہے کے بے کار ٹکڑے تپا کر میں ان کو ایک طرف سے نوکیلا کیے دیتا ہوں۔ تم روز جنگل میں جا کر آج ہی کی طرح چڑیاں مار لایا کرو تو میں روٹی پکانے کی مصیبت سے بچ جاؤں گا۔ چچا بھتیجے دونوں گوشت ہی گوشت کھایا کریں گے۔‘

دوسرے دن مجھے ایک غلیل مل گئی اور لوہے کے پچاس ساٹھ ٹکڑے جن کو چچا نے ایک تھیلے میں بھر کر مجھے دے دیا اور غلیل چلانے کی ترکیب بھی سمجھا دی۔ میں نشانہ باز پہلے تھا۔ محض ان کے بتانے پر میں نے غلیل سے ایک درخت پر بیٹھی ہوئی چڑیا کو فوراً ہی مار گرایا۔ چچا خوش ہو گئے۔ ہر روز میں کوئی نہ کوئی مرغابی یا تیتر یا دس پانچ بٹیر ضرور لانے لگا اور یوں ہم چچا بھتیجے گوشت خور بن گئے۔ غلیل کی وجہ سے میں کافی دور سے چڑیوں کو گرا لیتا تھا۔ اب میں بے خوف جنگل میں دور تک نکل جانے لگا۔ ایک دن میں جا رہا تھا کہ ایک طرف سے ایک سیاہ سانپ نکل کر میرے سامنے پھن نکال کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے بغیر کسی خوف کے اپنی غلیل سے اس کے پھن پر نشانہ لگایا۔ اس کا پھن ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ روزانہ گوشت خوری کے باعث میں تندرست و توانا ہو گیا۔ میرا جسم تیزی کے ساتھ نشو و نما پانے لگا۔ ایک دن میں جنگل میں کافی دور نکل گیا کہ مجھے ہرنوں کا ایک ریوڑ نظر آیا، میں نے ایک ہرن پر غلیل چلائی۔ میرا لوہے کا غلہ اس کے ماتھے پر بیٹھا اور اس نے گر کر تڑپنا شروع کیا۔ میں نے اس ہرن کو جس کا وزن ایک من سے کسی طرح کم نہیں تھا اور وہ زندہ بھی تھا، اپنے اوپر لاد لیا اور جب میں اس کو رحیمو چچا کی دکان پر لے کر پہنچا تو رحیمو چچا مارے خوشی کے ناچنے لگے، میری پیٹھ ٹھونکی۔

مجھے چچا کے ساتھ رہتے ہوئے پانچ برس ہو گئے تھے، میرے والد کبھی کبھی آ کر مجھے دیکھ جایا کرتے تھے اور بس میں نے بھی گھر کا رخ نہیں کیا۔ جنگل کی تمام ہیبت اور تمام خوف میرے دل سے نکل گیا۔ میرا نشانہ پختہ تر اور کامل سے کامل تر ہوتا گیا۔ میرا اب تک شیر اور چیتے سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ بھیڑیے میں کوئی بار مار چکا تھا جن کی کھالیں چچا نے اتار کر بیٹھنے کے کام میں لے لی تھی۔ گوشت گاؤں کے کتوں کو ڈال دیا تھا۔ تیرہ سال کی عمر میں اٹھارہ سال کو نوجوان نظر آتا تھا۔ گوشت خوری، جنگل کی آب و ہوا، پر سکون اور آزاد زندگی نے مجھے قبل از وقت جوان کر دیا تھا۔ میں اپنے جسم میں بے پناہ طاقت بھی محسوس کرتا تھا۔

ایک دن گاؤں میں شور اٹھا کہ لچھمن چرواہے کو شیر اٹھا کر لے گیا ہے۔ وہ ریوڑ کے ساتھ گھر واپس آ رہا تھا کہ ریوڑ واپس آ گیا، لیکن وہ غائب تھا۔ اس کے نہ آنے پر گاؤں والے لاٹھیاں لے کر اس راستے پر بڑھے۔ ابھی سورج ڈوبنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا کہ ان لوگوں نے جس مقام پر شیر نے چرواہے کو پکڑا تھا۔ اس مقام پر خون کا تھالا دیکھا اور شیر اپنے شکار کو منھ میں دبا کر جس طرف لے گیا تھا، خون کے دھبے برابر نظر آ رہے تھے۔ کوئی ایک میل تک انہیں خون کے دھبے نظر آتے رہے یہاں تک کہ انہیں لچھمن کی آدھ کھائی ہوئی لاش ملی۔ گاؤں بھر میں کہرام مچ گیا۔

میں اس وقت مرغابیاں شکار کر رہا تھا۔ میں نے تین مرغابیاں مار لیں تھیں، ان کو لیے ہوئے چچا رحیمو کے ہاں آ رہا تھا، دوسرے دن گاؤں کی ایک بڑھیا فجر کے وقت حوائجِ ضروریہ کے لیے بیٹھی ہی تھی کہ شیر اس کو دبا کر لے گیا۔ اس کی چیخیں سن کر گاؤں والے دوڑے، لیکن کوئی پتا نہیں چلا۔ مسلسل پانچ دن تک گاؤں کے رہنے والے شیر کے ہتھے چڑھنے لگے تو گاؤں والوں نے گھبرا کر مکھیا سے کہا جو سیدھا ناگ پور ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچا۔ وہاں سے فوراً ہی تین چار شکاری گاؤں بھیج دیے گئے۔ میں ان کا ساز و سامان دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ان کے ساتھ ٹارچیں تھیں، بندوقیں تھیں، تھرماس تھے۔ وہ لوگ آ کر مکھیا کے مہمان ہوئے۔ گاؤں والوں نے ان کی خوب خاطر مدارات کی انہوں نے جا کر ان مقامات کا معائنہ کیا جہاں جہاں حادثات ہوئے تھے۔

انہیں کوئی نشان نہ مل سکا۔ وہ رات میں تھک کر سو رہے تھے کہ چار بجے، چیخ پکار کی آواز بلند ہوئیں۔ گاؤں والے لالٹینیں لے کر نکل پڑے۔ مرلی دھرنیے کو شیر اس کے گھر سے اٹھا لے گیا تھا۔ ایک طرف کی دیوار ٹوٹی ہوئی تھی جسے پھاند کر وہ اندر آیا اور اس کے منھ میں دبا کر شیر دیوار کو پھاند کر لے گیا۔ جب شکاریوں کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو صبح ہو رہی تھی۔ پہلے تو شکاریوں نے ناشتہ کیا، چائے پی اور دن نکلنے پر مرلی دھرنیے کے مکان پر پہنچے۔

گاؤں والوں کے ساتھ میں بھی ہو لیا۔ جہاں مرلی دھرنیے کو شیر نے دبایا تھا، وہاں خون کا تھالا جما ہوا تھا۔ دیوار پر خون کی بوندیں تھیں اور دیوار کے باہر جس طرف شیر لاش کو لے کر چلا تھا۔ خون کے نشانات موجود تھے۔ اوروں کا تو میں نہیں کہہ سکتا، لیکن چوں کہ اس رات میں شبنم گری تھی۔ زمین میں تری کے باعث شیر کے پنجوں کے نشانات صاف نمایاں تھے۔ مجھے ان نشانات میں ایک پیر کا نشان ہلکا نظر آیا۔ شاید شیر کا ایک پیر چوٹیلا تھا۔

تقریباً دو میل خون کے نشانات کے سہارے سب لوگ ایک مقام پر نکلے، جہاں جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں، انہی جھاڑیوں کے درمیان میں مرلی دھرنیے کی لاش پڑی ہوئی تھی، اس کا ایک پیر اور ایک ہاتھ غالباً شیر نے کھا لیا تھا۔ منظر بڑا خوفناک تھا۔ تینوں شکاری اسی مقام پر رک گئے اور لاش کے قریب تین درختوں پر مچانیں بندھوانے کا حکم دے کر وہ لوگ واپس ہوئے۔ میں بھی چلا آیا۔ میں نے چچا سے ذکر کیا کہ شیر کا شکار دیکھنا چاہتا ہوں۔

وہ بولے، ‘ٹھیک ہے، لیکن تم رات میں کیوں کر جا سکو گے۔ ان شکاریوں کے پاس تھرماس میں چائے ہوتی ہے، ٹارچ ہوتی ہے، بندوقیں ہوتی ہیں۔ چائے پی پی کر یہ رات جاگ کر بسر کر لیتے ہیں۔‘

میں نے کہا، ‘چچا کوئی ایسی دوا تم کو نہیں معلوم جس کو کھا کر نیند نہ آئے۔‘

وہ بولے۔ ‘معلوم تو ہے۔ سامنے کی جھاڑیوں میں جو کالی کالی ہریالیاں لگی ہوئی ہیں، ان کو کھالو رات بھر نیند نہیں آئے گی۔ لیکن یہ انتہائی کڑوی اور بدمزہ ہوتی ہیں۔ ان کو جانور تک نہیں چھوتے۔‘

میں نے ہریالیاں لیں۔ واقعی یم سے زیادہ کڑوی تھیں۔ لیکن میں شکار کے شوق میں کھا کر چلا گیا۔ یہاں تک کہ شام کے چار بج گئے۔ کل جو ہرن مارا تھا، اس کا گوشت موجود تھے۔ اس سے پیٹ بھرنے کے بعد میں شکاریوں سے پہلے ان مچانوں کے پاس پہنچ گیا۔ لاش کی سڑاند ہوا میں بسی ہوئی تھی، مکھیاں لاش پر بھنبھنا رہی تھیں۔ میں درخت پر چڑھ گیا کہ جہاں سے لاش صاف نظر آ رہی تھی۔ میں نے خود کو پتوں میں چھپایا ہی تھا کہ تینوں شکاری آتے ہوئے نظر آئے۔ ان میں ایک ہندو، ایک سکھ اور ایک انگریز تھا۔ ان کے ساتھ گاؤں والے بھی تھے۔ ان کے بیٹھتے ہی سورج غروب ہونا شروع ہوا اور جنگل میں تاریکی نے تسلط جما لیا۔

جنگل میں شب گزاری میرے لیے یہ پہلا موقع تھا، لیکن مجھے ذرہ برابر بھی خوف نہیں تھا۔ قریب آدھی رات تک وہ آپس میں باتیں کرتے رہے۔ سگریٹوں پر سگریٹیں جلتی رہیں۔ جنگلی جانوروں کی آوازیں برابر جنگل میں سنائی دیتی رہیں۔ مگر مجھ پر ذرہ برابر بھی خوف طاری نہیں ہوا۔ میں با آرام درختوں کی شاخوں پر بیٹھا رہا، یہاں تک کہ رات کافی گزر گئی، شکاریوں کی باتیں بھی بند ہو گئیں، غالباً وہ اونگھ گئے ہوں گے۔ لیکن میری آنکھوں میں نیند کا کہیں دور تک پتا نہیں تھا۔ میں آرام سے بیٹھا ہوا جاگ رہا تھا۔ یکایک بندروں کی آوازیں مسلسل آنا شروع ہوئیں۔ میں سمجھ گیا کہ شیر کو دیکھ کر بندر خوف کھا رہے ہیں، میں چوکنا ہو گیا۔ پتوں پر بھاری قدموں کی آواز قریب سے قریب تر آنا شروع ہوئی۔ میری آنکھیں اندھیرے یں دیکھنے کی عادی تھیں، میں نے ایک جانب سے شیر کو آتے دیکھا، وہ آیا اور لاش کے پاس بیٹھ کر آرام سے لاش کو کھانے لگا۔ ہڈیوں کی کڑکڑاہٹ صاف سنائی دے رہی تھی۔ غالباً کسی شکاری کی آنکھ کھل گئی۔ ٹارچ کی روشنی کا ہالہ بیٹھے ہوئے شیر پر پڑا۔ وہ روشنی میں نہا گیا۔ ایک فائر کی آواز ہوئی، لیکن غالباً گولی شیر کو نہیں لگی۔ وہ زور سے دھاڑا اور جس طرف کی مچان سے فائر ہوا تھا۔ اس پر اس نے زمین سے پیٹ لگا کر جست لگائی۔ دوسرے درختوں پر بیٹھے ہوئے دونوں شکاریوں کی ٹارچیں بھی شیر پر اس وقت پڑ رہی تھیں۔ شیر نے پہلے فائر والے کی مچان پر اپنا پنجہ اس طاقت سے مارا کہ مچان ٹوٹ گیا اور میں نے شکاری کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا، اس موقع پر دوسرے شکاریوں نے بھی شیر پر فائر کیے، لیکن سب غالباً خالی گئے۔ شیر زمین پر گرئے ہوئے شکاری کی طرف پنجہ اٹھا کر بڑھا ہی تھا کہ میں نے اسی غلیل میں لوہے کا نوک دار غلہ لگا کر شیر کی آنکھ پر مارا۔ گلہ شیر کے اس وقت لگا جب وہ اپنا پنجہ شکاری پر مارنا چاہتا تھا۔ شیر کی آنکھ غلہ لگتے ہی پھوٹ گئی۔ اس نے ایک زور سے دھاڑ ماری اور پچھلے پاؤں چیختا ہوا جنگل میں بھاگ گیا۔ اس کی چیخوں کی آوازیں مسلسل دور ہوتی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ جب یہ چیخیں بالکل بند ہو گئیں اور صبح کے آثار رو نما ہونے لگے تو دونوں شکاری مچانوں سے نیچے اترے اور زمین پر گرے ہوئے شکاری کے پاس پہنچے، غالباً اس کا ایک کولہا اتر گیا تھا، اٹھنے سے معذور تھا، لیکن ہوش میں تھا۔

میں درختوں میں چھپا بیٹھا رہا۔ یکایک ایک شکاری نے متواتر کئی ہوائی فائر کیے جن کی آوازوں پر گاؤں والے فوراً ہی آ موجود ہوئے۔ زخمی شکاری کے لیے گاؤں سے پلنگ لایا گیا اور اس کو لاد کر گاؤں لے جایا گیا۔ اس کے ساتھ دوسرے شکری جب جنگل سے چلے گئے تو میں درخت سے نیچے اتر، جب میں اس جگہ پہنچا، جہاں شکاری گرا تھا، تو مجھے وہاں ایک ٹارچ، ایک تھرماس اور ایک تھیلا نظر آیا۔ میں نے وہ تینوں چیزیں اٹھا لیں اور ایک دوسرے راستے سے رحیمو چچا کی دکان پہنچا۔ میں نے ان تینوں چیزوں کو واپس کرنا مناسب خیال نہیں کیا، ورنہ گاؤں والے مجھے الزام دیتے کہ میں وہاں کیوں موجود تھا۔ ٹارچ کی مجھے بھی ضرورت تھی اور تھرماس کی بھی۔ تھیلا کرمچ کا بنا ہوا تھا اس کے کھولنے پر مجھے اس میں ڈبل روٹی کے ٹکڑے ملے اور اس میں ایک کتاب انگریزی زبان میں چھپی ہوئی ملی جس میں تصویریں تھیں۔ میں نے اس کتاب کو دیکھنا شروع کیا۔ کتاب تو میں پڑھ نہیں سکتا تھا۔ کتاب میں غالباً شکاریوں کے حالات تھے۔ ایک تصویر میں، میں نے سیاہ قد آور آدمیوں کو بلم سے شیر کا شکار کرتے ہوئے دیکھا۔ میرے دماغ میں پہلی بار بلم کا خیال پیدا ہوا۔ میں نے رحیمو چچا سے کہا، ‘مجھے ایک بلم بنا دو چچا، میں اب بلم سے شکار کی مشق کرنا چاہتا ہوں۔‘

وہ بولے، ‘اچھی بات ہے۔‘

انہوں نے اسی دن مجھے ایک ہلکا سا بلم بنا دیا جس کو لے کر میں چلا گیا۔ میں نے بلم کو نشانے پر پھینکنے کی مشق شروع کی۔ غلیل کی نشانہ بازی کی مشق اس میں بھی کام آ گئی۔ ایک ہفتے کے اندر ہی میں نے کئی تیتر، مرغابیاں بلم سے چھید ڈالیں۔ ایک ہرن بھی بلم سے زخم کر کے گرا لیا۔ اب میں غلیل اور بلم دونوں ساتھ رکھنے لگا۔

ادھر میرے گاؤں والوں کو سکون ہو گیا۔ اس شیر نے اب ایک دوسرے گاؤں کے لوگوں کا شکار شروع کر دیا جو یہاں سے دس میل دور تھا۔ سرکاری کام سے جب شکاری وہاں پہنچے تو شیر نے ایک تیسرا گاؤں تاک لیا اور اب وہاں سے لوگوں کے اٹھائے جانے کی خبریں آنے لگیں۔ سرکاری کارندے اور شکاری بھی حیران تھے جب وہ کسی گاؤں میں وقوعہ کرتا تھا اور شکاری پہنچے تھے تو کیا جانے اسے کیوں کر خبر ہو جاتی تھی اور وہ اس گاؤں کو چھوڑ کر دوسری بستیوں پر حملے شروع کر دیتا تھا۔ یہاں تک کہ دو سال کی مدت گزر گئی۔ اس آدم خور نے تقریباً ساٹھ ستر آدمی ہلاک کر ڈالے۔ ہر گاؤں کے لوگ ہراساں اور پریشان نظر آنے لگے۔ کھیتی باڑی کے اوقات میں بھی دو ایک فالتو آدمی کھیتوں کی نگرانی پر ڈٹے رہتے تھے۔ وہ دن میں بھی تنہا آدمی کو نہیں چھوڑتا تھا۔ حکومت نے گھبرا کر ایک ہزار روپے نقد کا اعلان کر دیا۔

بڑے بڑے جغادری شکاری آئے، لیکن آ کر ناکام ہی گئے۔ ایک دن میں رحیمو چچا کی دکان پر بیٹھا ہوا بھٹی سلگا رہا تھا کہ میرے والد آئے اور آتے ہی مجھ سے لپٹ کر رونے لگے۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کیا، ‘بیٹا، میرا سارا روپیہ ڈوب گیا، میں پیسے پیسے کو محتاج ہو گیا ہوں۔ جن جن لوگوں کو میں نے قرض کپڑا دیا تھا، وہ سب لے لے کر بھاگ گئے۔ اب صرف کھیت ہی کھیت رہ گیا ہے۔‘

میں نے کہا، ‘آپ گھبرائیے نہیں۔ اللہ مالک ہے۔‘

ان کے جانے کے بعد مجھے پہلی بار ایک ہزار روپیہ انعام حاصل کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ وہ آدم خور نردولی کے آدم خور کے نام سے مشہور تھا۔ یہ گاؤں میرے گاؤں سے پچیس میل دور تھا۔ وہاں اس نے مسلسل گاؤں والے شکار کیے تھے اور اب تک وہ اس کے قریب جنگلات میں موجود تھا۔ کئی شکاری نردولی میں مستقل مقیم تھے اور وہ ظالم آدم خور ان کی موجودگی میں ہر روز کسی نہ کسی آدمی کو شکار کر لیا تھا۔ پاڑے بھی باندھے گئے، مچان بھی بندھے۔ رات رات بھر شکاری اور گاؤں والے شیر کی فکر میں رہے، لیکن وہ ہاتھ آنا تھا نہ آیا۔

رحیمو چچا سے بغیر کہے ہوئے میں نردولی روانہ ہوا۔ میرے ساتھ اب ٹارچ بھی تھی جس کے سیل میں نے شہر سے منگوا کر بھروا لیے تھے۔ تھرماس بھی تھا جس میں میں نے چائے بنا کر بھر لی تھی۔ وہ تھیلا بھی تھا جس میں نیند اڑانے والی پیریاں اور نکیلے غلے میں نے بھر لیے تھے۔ کچھ روغنی روٹیاں بھی رکھ لی تھیں۔ غلیل اور بلم ہاتھ میں لے کر میں جنگل ہی جنگل روانہ ہوا۔ نردولی جنگل کی پگ ڈنڈیوں سے دس میل پڑتا تھا اور سڑک کے راستے سے پچیس میل۔ میں با آرام ڈھائی گھنٹوں میں نردولی پہنچ گیا۔ نردولی میں شکاریوں کے کئی خیمے گاؤں کے باہر لگے ہوئے تھے۔ ان کی خاطر تواضع میں گاؤں والے اپنی حیثیت سے زیادہ لگے ہوئے تھے۔ میں اس گاؤں کے لیے نیا آدمی تھا۔ ٹھہرنے کا بڑا مسئلہ تھا۔ لیکن میرے واسطے یہ مسئلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ میں جنگل میں ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ کھانا میرے ساتھ تھا۔ میں نے دوپہر کاٹ لی۔ شکاریوں کے لیے مچان مختلف مقامات پر باندھے جانے لگے۔ مچان کے نیچے ایک بکرا باندھا گیا۔ کوئی پانچ چھے شکاری تھے اور سب کے سب مشہور۔

ان مچانوں سے تقریباً دو فرلانگ کے فاصلے پر میں نے ایک درخت کو اپنے بسیرے کے لیے منتخب کر لیا۔ میرے سامنے نہ کوئی پروگرام تھا اور نہ کوئی امید کامیابی، میں پچھتا رہا تھا کہ میں کیوں آیا، اسی میں شام ہو گئی۔ میں درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ چاند آج کل رات کو بارا بجے کے بعد نکلنے لگا تھا۔ رات جوں جوں بڑھتی گئی۔ جنگل کا سناٹا بھیانک سے بھیانک تر ہوتا گیا۔ چوں کہ میں مچانوں سے کافی دور تھا، لہٰذا شکاری کا کوئی احوال مجھے معلوم نہ ہو سکا۔ یکایک چاند نکلا اور جنگل چاندنی میں نہا گیا۔ مجھے نیند کے جھونکے آن لگے۔ میں نے چائے پر چائے پی۔ لیکن مجھے تو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ان بیری نما کڑوے پھلوں کو کھاتے ہی نیند آرام سے اڑ گئی۔ اچانک میرے کانوں میں شیر کی آواز آئی۔ عجیب قسم کی دھاڑ تھی۔ خوف اور غصے سے علیحدہ ایک قسم کی دھاڑ تھی۔ جس کے جواب میں ایک دوسری دھاڑ اسی قسم کی مجھے قریب سے سنائی دی۔ ان دھاڑوں کا تبادلہ مسلسل شروع ہوا۔ مجھے بھاری قدموں کی چاپ اپنے درخت کے قریب سے سنائی دی۔ پتوں کے پیروں سے دبنے کے بعد جو کھڑکھڑاہٹ پیدا ہو رہی تھی، صاف نمایاں تھی۔ یہاں تک کہ میں نے ایک شیر کو دیکھا جو ایک پیر سے لنگ کرتا تھا۔ وہ میرے درخت سے دو گز کے فاصلے پر آ کر ٹھہرا۔ چاندنی میں مجھے صاف نظر آیا، اس کی ایک ہی آنکھ تھی۔ میں سمجھ گیا۔ یہ وہی آدم خور ہے جس کے جواب میں اس شیر نے دھاڑ مارنے کے لیے منھ کھولا۔ بلا ارادہ میرا ہاتھ بلند ہوا اور میں نے بلم شیر کے کھلے ہوئے منھ میں مارا جو محض اتفاقاً اس کے حلق میں جا کر پھنس گیا۔ شیر نے گھبرا کر جست لگائی اور جب وہ گرا تو اس کے گرنے سے بلم اور بھی اس کے سینے میں اتر گیا۔ اس نے دھاڑیں مار کر تڑپنا شروع کر دیا۔ میں سمجھ گیا، بلم اس کے سینے میں پھیپھڑوں یا دل کے پار اتر گیا ہے۔ وہ تڑپتا رہا۔ اس کی چیخیں اب کراہوں میں تبدیل ہو گئیں۔ یہاں تک کہ آواز آنا بالکل بند ہو گئی۔ میں صبح کا انتظار کرنے لگا تقریباً دو گھنٹے کے بعد صبح ہو گئی۔ میں نے اور انتظار کیا۔ جب روز روشن ہو گیا تو میں درخت سے اترا شیر کے قریب گیا۔ وہ اب مر چکا تھا۔ اب میں اس جانب بڑھا۔ وہاں جس طرف شکاریوں کے مچان تھیں۔ شکاری مچان سے اترے ہوئے کھڑے تھے اور سب کے سب حیران نظر آ رہے تھے۔ ان کو گھیرے ہوئے گاؤں کے بیس پچیس آدمی کھڑے تھے۔

میں نے گاؤں والوں سے کہا، ‘میں نے آدم خور کو بلم سے مار ڈالا ہے۔ آپ لوگ چل کر اس کو اٹھا لیں۔‘

ایک شکاری نے قہقہہ مارتے ہوئے کہا، ‘ارے لڑکے، کیوں الو بنا رہا ہے، کہیں بلم سے شیر مارا جاتا ہے۔‘

میں نے کہا، ‘سانچ کو آنچ نہیں ہے۔ دو فرلانگ تک آپ کو چلنا ہو گا۔ خود آپ لوگ دیکھ لیں گے۔‘

وہ لوگ بادل ناخواستہ ساتھ ہولیے۔ شیر کو مرا ہوا دیکھ کر وہ لوگ حیران رہ گئے۔

ان میں اسی شکاری نے کہا، ‘لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ تم نے اس کو بلم سے مارا ہے۔‘

میں نے کہا، ‘گاؤں لے جا کر اس کی کھال ادھڑوائیے، اس کے حلق کے اندر سے میرا بلم برآمد ہو جائے گا۔‘

دیہاتیوں نے شیر کی لاش کو دو ڈنڈوں میں لگا کر گاؤں کا رخ کیا۔ جب شیر کی کھال اتاری گئی تو اس کے اندر سے میرا بلم برآمد ہوا۔ جو شیر کے پھیپھڑوں میں گھسا ہوا تھا۔ سارے شکاری حیران ہو گئے۔ مکھیا نے اس کی اطلاع فوراً ناگ پور کی کمشنری کو بھیجی جہاں سے دوسرے دن میری طلبی ہوئی۔ میرے پہنچنے پر افسران کو مجھے دیکھ کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں نے بلم سے شکار کیا ہو۔ میں نے بلم ہاتھ میں لے کر دور جاتی ہوئی ایک بکری پر بلم پھینک کر وار کیا۔ بکری بلم سے چھد کر گر گئی۔ مجھے سرکار سے ایک ہزار روپیہ انعام کا اور ایک بندوق کا لائسنس ملا اور مجھے ایک شکاری کے سپرد کیا گیا کہ میں اس سے بندوق چلانا سیکھ لوں۔ وہ ایک ہزار روپیہ لا کر میں نے اپنے والد کے قدموں میں ڈال دیے۔

وہ دن ہے اور آج کا دن میرے نشانے اور شکار کا جواب نہیں۔ انسان کا عزم، محنت اور مشق انسان کو کامیابی کی منزل سے ضرور روشناس کرا دیتی ہے۔

٭٭٭

بابو رام اور شیر

نا معلوم

ٹائپنگ: انصاری آفاق احمد

آزادی سے قبل گرمیوں کی تعطیلات اپریل سے شروع ہوتی تھیں۔ ان چھٹیوں میں بزرگ انڈے بچّے جمع کر کے شکار کے لیے نکل جاتے تھے۔ جتنی دور جائیں، شکار اتنا ہی اچھا ہوتا تھا۔ اور شکار جتنا اچھّا ہو پروگرام اتنا ہی طویل ہو جاتا تھا۔ ٹیم میں ہر قسم کے لوگ ہوتے تھے۔ جن میں شکاریوں اور مصاحبین کے علاوہ ڈاکٹر اور خانساماں بھی شامل ہوتے تھے۔ ڈاکٹروں کی ماہرانہ دیکھ بھال اور مشوروں کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ جنگل میں طویل عرصہ رہنے اور ہر قسم کے جراثیم کا سامنا کرنے کے باوجود ہم صحیح سلامت واپس آ جاتے۔ کبھی کبھی تو شکار کی مہم ایک ماہ طویل ہو جاتی تھی۔ اور ٹیم کے ارکان کی تعداد پندرہ سے بیس تک پہنچ جاتی تھی۔

ایک بار ہم لوگ ہندوستان کے صوبہ سی۔ پی اور ایسٹرن اسٹیٹس کی سرحدوں کے پاس دریائے مہا ندی کی ایک شاخ کے کنارے شکار کے لئیے گئے۔ یہاں ایک مختصر سا گاؤں آباد تھا۔ جس کے پاس خالصتاً پوچر آباد تھے۔ یہ لوگ شہد جمع کرتے تھے۔ اور کچھ جانور بھی پال رکھے تھے۔ جنگل میں شکار کی بہتات تھی یہی وجہ تھی کہ جنگلی جانور پالتو جانوروں پر زیادہ توجّہ نہیں کرتے تھے۔ دریا نزدیک تھا، لہٰذا تھوڑی ہی گہرائی پر کنوئیں سے شفاف پانی مل جاتا تھا۔ یہ علاقہ جن ڈاکوؤں کی عمل داری میں تھا۔ ان سے ہمارا کاروباری قسم کا سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ ہم نے ایک برگد کے درخت کے زیر سایہ اپنا کیمپ لگا لیا۔ اور شکار خوب زوروں پر رواں دواں ہو گیا۔ گاؤں والے بھی خوش تھے۔ ان کے لڑکے اور نوجوان ہمیں اجرتاً کنویں سے پانی اور جنگل سے جلانے کی خشک لکڑیاں لا دیتے تھے۔ دودھ اور شہد بھی ہمارے پاس فروخت کرتے تھے۔ اور ہمارے ساتھ شکار پر بھی جایا کرتے تھے۔ علاوہ شکار کا گوشت ان کو تنخواہ بھی ملتی تھی۔ ان کے کھوجی بھی ہماری مدد کرتے تھے۔ غرض کسی کے ساتھ بھی ہماری چپقلش نہ تھی۔

جنگل کے باشندے جن تعلق دراوڑ نسل سے تھا، مہذب تہذیب سے بے نیاز تھے۔ رنگ سیاہ اور چہرا کریہہ لیکن آبادی سے کافی فاصلہ پر ہونے کے باوجود انتہائی صفائی پسند اور گٹھے ہوے ٹھوس جسموں کے مالک تھے۔ ناف کے اوپری حصّہ میں لباس خال خال ہی نظر آتا تھا۔ پوشاک ہونے نہ ہونے لمبائی، کوتاہی یا تنگی پر کوئی قدغن نہ تھی۔ لڑکیوں کو نسوانی محاسن کا شدّت سے احساس تھا۔ آزاد خیال تھے، اور جنسی میل ملاپ میں بہت پابندی نہ تھی۔ ہماری سوسائٹی کے بعض آزاد منش عناصر کی طرح جو اپنی ازدواج کو پیش پیش رکھتے ہیں، یہ لوگ بھی جورو پر مکمل مالکانہ حقوق پر بضد نہ تھے۔ بہت محدود سکّہ رائج الوقت، گوشت یا کھال کے عوض بھر پور تعاون کے لئیے تیار رہتے تھے۔ کنواری لڑکیوں کے بارے میں البتّہ بہت قدامت پرست اور سخت گیر تھے۔ اور ان کے آزادانہ میل ملاپ پر مکمل پابندی اور سخت نگرانی تھی۔ انتہائی امکانی کوشش یہی ہوتی تھی، کہ ان کو صحیح سلامت ان کے شوہروں کے حوالہ کیا جائے۔ تا ہم بیوہ ہر امتناع سے آزاد تھی۔ سیاح شکاری یا آنے جانے والے جانکار اس صورت حال کا فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔

ایسے پرسکون ماحول میں کباب میں ہڈّی صرف ایک ذات شریف تھے۔ جو خود کو بزعم خود مقامی محکمۂ شکار سے متعلق کہتے تھے، اور انھوں نے تمام گاؤں والوں کو ہراساں خوف زدہ کر رکھا تھا۔ اس کے لئیے ان لوگوں نے ایک کشادہ جھونپڑی بنا دی تھی۔ اور وہ گاؤں والوں سے ہر جائز و نا جائز کام مفت میں لیا کرتا تھا۔ نوجوان لڑکیوں پر نظر کرم کچھ زیادہ ہی رہتی تھی۔ نہ معلوم ڈاکو بھی اس سے کیوں پہلو تہی کرتے تھے۔ وہ ملی جلی نسل کا تقریباً تیس سال کا تھا۔ اور مقامی باشندوں سے یکسر مختلف تھا۔ ایک عدد بلا لائسنس ایک نالی چھّرہ دار بندوق کا مالک بھی تھا۔ ہمیشہ کارتوس مانگا کرتا یا غائب کر لیتا تھا۔ شکار اور معاملات شکار، جانوروں کی کھوج لگانے اور ان کی بولی بولنے میں ماہر تھا۔ کبھی کبھی وہ ایسی جگہ سے برآمد ہو جاتا تھا جہاں اسے ہرگز نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ اس کو یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ایک آدھ مرتبہ تو جب ہم شکار پر فائر کرنے والے تھے۔ تو نزدیک سے اس کا فائر ہوا اور ہمارا شکار بدک گیا۔ مختصر یہ کہ وہ ہم سب میں (مقامی باشندوں اور شکاریوں میں) کافی نا پسندیدہ اور غیر مقبول تھا۔ جب اس سے نجات کی کوئی صورت نہیں بنی تو تنگ آ کر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے درمیانی جوڑ میں شامل کر لیا جائے۔ اس کا اصلی و صحیح نام تو کبھی معلوم نہ ہوا، لیکن اسے سب بابو رام کہتے تھے۔

ہمارے شکار کا آغاز علی الصبح سورج نکلنے سے کا فی پہلے ہو جاتا تھا۔ شکار کی ایک بڑی جوڑ تو بڑے شکار کی تلاش میں تڑکے ہی نکل جاتی تھی۔ بڑے شکار میں شیر گلدار، بھینسا، گور اور ریچھ شامل تھا۔ جبکہ چھوٹی جوڑ جنگلی مرغی، ہریل، مور، خرگوش اور تیتر وغیرہ سے سروکار رکھتی تھی۔ درمیانی جوڑ کا کام، جس میں بڑی جوڑ اور کبھی چھوٹی جوڑ کے فالتو بندے شامل کر لیے جاتے تھے، کیمپ میں با افراط خوراک فراہم کرنے کے لئیے چیتل، سانبھر، پھارا، کالا ہرن، چنکارہ اور نیل گائے مارتا تھا۔ درمیانی جوڑ کو اگر کوئی خطرناک جانور اچانک مل جائے تو بشرط ہمّت اس پر وہ طبع آزمائی کر سکتے تھے۔ بشرط ہمّت یوں کہا کہ تمام کاروائی سطح زمین سے ہوتی تھی۔ اور اگر فائر کرنے میں احتیاط نہ کی یا گولی صحیح نہ لگی تو آپ کے اور جانور کے حق میں فیصلے کے امکانات ففٹی ففٹی رہ جاتے ہیں۔ یہ جوڑ سورج نکلنے سے قبل کیمپ چھوڑ دیتا تھا اور مقامی کھوجیوں کی رہنمائی میں شکار کرتا رہتا تھا۔ اس زمانے میں جیپ یا پک اپ تو تھے نہیں لیکن شہر سے باہر ٹینری وغیرہ کاروبار کرنے والوں سے ‘ٹھیلا’ مل جایا کرتا تھا جس پر وہ ہر روز شہر سے ٹینری لے جاتے تھے۔ ٹھیلا کھلی چھت کی پرانی فورڈ یا شیورلیٹ کار کو کہتے تھے جس کی اگلی سیٹ تو رہنے دی جاتی۔ لیکن پچھلا حصّہ کاٹ کر اس کا فریم لمبا کر کے سامان بردار یا بچّوں کو اسکول لے جانے والی سواری قسم کی چیز بنا لی جاتی تھی۔ اس پر شکار بھی ہوتا تھا۔ اگر شکار کا پروگرام طویل ہو تو اس کے ساتھ فوجی قسم کا ٹریلر بھی جوت دیا جاتا تھا۔

جس شکار کا میں ذکر کر رہا ہوں اس میں ہم دو عدد ٹھیلے اور دو ٹریلر لے گئے تھے۔ ان کے علاوہ تین چار بیل گاڑیاں بھی ہمارے استعمال میں تھیں۔ ہمارے کیمپ سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر ایک ندی بہتی تھی۔ پانی تو اسمیں کم تھا، لیکن پاٹ چوڑا ہونے کے سبب درمیان میں جھاڑیاں گھاس اور کہیں کہیں درخت بھی تھے۔ ندی کا کنارہ ندی کی سطح سے کچھ ہی بلند تھا۔ وہاں بھی جھاڑیاں اور درخت تھے۔ ایک روز بابو رام نے اس ندی پر جانے کا پروگرام بنایا۔ ابھی اندھیرا ہی تھا کہ ہم چار افراد کو ٹھیلا ندی کے کنارے چھوڑ گیا۔ ہم سب نے رائفلیں بندوقیں اور کھانے پینے کا سامان سنبھال کر مورچے پکڑ لیے۔ رائفلیں اور بندوقیں بھر لی گئیں۔ جنگل میں طلوع آفتاب کا سماں بہت سہانا ہوتا ہے۔ ہر طرف سکون سا طاری رہتا ہے۔ رات کے شکاری اپنا کاروبار ختم کر کے روشنی سے چھپنے کی غرض سے جنگل اور جھاڑیوں میں چلے جاتے ہیں۔ سبزی خور جانور بھی مکمل دن نکلنے سے قبل ناشتے کا آخری دور کر کے اندرون جنگل کھسک لیتے ہیں۔ سب کے سب حضرت انسان سے ڈرتے ہیں۔ جو اپنی تخریب کاری زیادہ تر دن میں ہی کرتا ہے۔ کیونکہ دیگر جانوروں اور پرندوں کے برعکس اسے مصنوعی روشنی کے بغیر تاریکی میں کچھ نظر نہیں آتا۔ جنگل میں پرندے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو نظام قدرت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو جنگل کو اس فرض کے علاوہ اپنے اپنے رنگوں سے خوبصورتی یا اپنے دلفریب نغموں سے چاشنی بخشتے ہیں۔ چنانچہ جنگل کا کوئی لمحہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوتا۔

ابھی ہم قمریوں کی مسحور کن لحن، تیتروں کے سوال و جواب و دعوے، جنگلی مرغوں کے بانگ اور موروں کی تیز پیاؤں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کہ کچھ دور دریا کے ریت اور میدان میں چیتلوں کا ایک چھوٹا سا غول چرتا ہوا نظر آیا۔ یہ غول ہماری ہی طرف بڑھ رہا تھا۔ ہوا کا رخ بھی صحیح تھا یعنی ہوا ان کی جانب سے ہماری طرف چل رہی تھی ہم کچھ اور دبک گئے چیتلوں نے ہماری جانب آتے آتے ندی کا دوسرا کنارہ پکڑ لیا اور اسی سیدھ میں چلتے رہے۔ اس طرح جب وہ ہمارے سامنے پہنچے تو ہم سے ان کا فاصلہ کوئی سو گز رہا ہو گا شکار کی مہم پر روانہ ہونے سے قبل ہم ہر روز بذریعہ قرعہ اندازی یہ فیصلہ کر لیتے تھے کہ اوّل، دوئم، سوئم، نمبر پر کون فائر کرے گا۔ اس طرح شکار میں بد مزگی نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ فائر کرنے والے بزرگ نے جب یہ اندازہ لگا لیا کہ چیتل اب زد میں ہیں تو انھوں نے بہت احتیاط سے رائفل سے نشانہ لیا اور فائر کر دیا، جس کی آواز ہر طرف گونجتی رہی، سامنے کی نیچی پہاڑی سے ٹکرا کر تو جیسے کئی مرتبہ واپس آئی، فائر کے ساتھ ایک چیتل تو اسی جگہ گر گیا لیکن ہم سے کافی قریب یعنی تقریباً چالیس گز کے فاصلہ پر ایک جھاڑی سے ایک شیر نکل کر ٹراٹ بھاگا۔ وہ بھی غالباً شکار کی مہم ہر آیا ہوا تھا۔ رائفل کے تڑاکے اور پھر اس کی گونج نے اسے اتنا بد حواس کر دیا کہ وہ ہم سے دور بھاگنے کی بجائے ہمارے سامنے متوازی دوڑنے لگا۔ ہماری ٹیم کے نمبر دو کھلاڑی نے جو پہلے ہی پیڈ باندھے تیار بیٹھے تھے۔ اس بھاگتے شیر پر اپنی رائفل سے فائر کیا۔ نشانہ ٹھیک تھا۔ شیر قلابازی کھا کر چھوئی موئی ہو گیا۔ اور زمین پر اس طرح پڑ گیا، جس صورت سے کوئی زندہ شیر اپنی جان کی گٹھری نہ بنائے گا۔ کہ ذرا بھی جنبش نہ تھی۔ اپنی جگہ ہم سب کھڑے ہو گئے۔ شیر کی ماری ہوئی ڈرل میں دوسرا ضروری کام یہ ہوتا ہے کہ ذاتی بیمہ کے طور پر ایک گولی اور مار دی جائے اور کھال کے خراب ہونے کے اندیشہ کو مانع نہ ہونے دیا جائے۔ چیتل کے فائر کے بعد تمام کاروائی اتنی جلدی ہوئی کہ ہم سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ جھاڑی سے شیر نکلا، اس پر فائر ہوا اور وہ لوٹ پوٹ ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ کوئی اس پر دوسرا فائر کرتا۔ بابو رام اپنی ایک نالی بندوق لے کر زمین پر گرے ہوئے شیر کی طرف بھاگا۔ وہ تمام راہ شیر کو گالیاں دیتا جاتا تھا۔ اب ہم میں سے کوئی بھی شیر پر فائر نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ درمیان میں بابو رام آ گیا تھا اپنی اپنی رائفلیں لے کر ہم بھی شیر کی طرف دوڑے۔ جب بابو رام شیر کے قریب پہنچا تو ہم اس سے دس گز کے فاصلے پر تھے۔ اس وقت اس نے شیر کو ایک انتہائی رکیک اور نا قابل اشاعت گالی دی اور اس کی دم کے نیچے ایک پر جوش لات رسید کی۔ اس کرہ ارض پر یہ بابو رام کا اختتامی کلام اور ٹھوکر مارنا اس کا آخری ارادی فعل تھا۔ اس کی لات پڑتے ہی شیر بجلی کی سرعت سے اٹھا، اگلے دونوں پنجے بابو رام کے دونوں کندھوں پر رکھے اور اس کے پیچھے لڑھکنے سے قبل ہی اس کا سر اپنے منھ میں لے لیا۔ کھوپڑی کی ہڈّیوں کے چکنا چور ہونے کی جانکاہ آواز صاف آئی اس کے بعد مردہ جسم کو شیر نے زور زور سے جھنجھوڑا اس دوران پنجوں سے جراحی بھی کرتا رہا اور پھر اس کو زمین پر گر جانے دیا۔ جب تک بابو رام شیر کے منہ میں رہا ہم میں سے کوئی بھی فائر نہ کر سکا۔ بابو رام سے فراغت پانے کے بعد شیر نے وہیں کھڑے کھڑے ہمیں خونی نگاہوں سے گھورا، تھوڑا سا غرّایا اور پھر خود ہی زمین پر دھڑام ہو گیا۔ اس کا بھی یہ اختتامی فعل تھا۔ شیر کے گرنے کے بعد ہم سے ہر ایک نے اس کے جسم کے ہر حصّہ پر ایک یا دو فائر کیے۔ اس مرتبہ تو شیر واقعی مر گیا تھا۔ جب بابو رام کو ٹٹولا تو وہ بھی سورگ باس ہو چکا تھا۔ ایک شکاری فوراً کیمپ بھیجا گیا کہ وہاں ہر ایک کو اطلاع کرے۔ اور بابو رام اور مردہ شیر دونوں کو کیمپ لانے کے لیئے ٹھیلا لے آئے

ہمارے ساتھی کی پہلی گولی شیر کے انتہائی کاری لگی تھی، وہ ہمارے سامنے دائیں سے بائیں بھاگا جا رہا تھا۔ شیر جب گیلپ جا رہا ہو تو اس کے اگلے دونوں پنجوں کے نشان زمین پر ایک ساتھ ملیں گے۔ اور پچھلے دونوں پیروں کے پنجوں کے نشانات اگلے پیروں کے نشانات سے آگے ملیں گے۔ ان دونوں نشانات کے درمیانی فاصلہ سے شیر کی رفتار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ان دونوں نقش پا کے درمیان جتنا زیادہ فاصلہ ہو گا شیر کے بھاگنے کی رفتار بھی اتنی ہی تیز ہو گی۔ اس کے برعکس اگر شیر عام رفتار سے چل رہا ہو یا ٹراٹ جا رہا ہو۔ تو اس کے ایک طرف کے آگے اور پیچھے کے ہاتھ پیر ایک ساتھ آگے بڑھیں گے اور دوسری طرف کے ہاتھ پیر اس کے بعد اسی وجہ سے شیر کی چال میں ہوا میں تیرنے کا احساس ہوتا ہے۔ عام رفتار میں ایک خاص بات یہ بھی ہوتی ہے۔ کہ پچھلا پیر اگلے ہاتھ کے نشانوں پر ہی پڑتا ہے اور شیر کے چار نقش پا کے بجائے دو ہی نظر آتے ہیں۔ اعشاریہ ۴۰۴ بور کی ۴۰۰ گرین کی نرم گولی نے اس کے جسم میں داخل ہو کر پہلے اس کے دل کا بالائی حصّہ تہ و بالا کر دیا پھر وہاں سے گذر کر ایک پسلی توڑی اور بھر دائیں مونڈھے کی کرسی کو ملیا میٹ کیا لیکن جسم سے باہر نہ نکلی۔ یہ گولی جان لیوا تھی اور اس نے دوران گیلپ شیر کو سر کے بل قلابازی کھلا دی۔ اب یہ بات شیر دوبارہ کیسے اٹھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ قدرت نے جنگلی جانوروں میں دوبارہ ابھرنے کی اتنی قوت بھر دی ہے کہ دل پھٹ جانے کے بعد بھی ان کے عضلات میں اتنی آکسیجن بچ جاتی ہے کہ ایک آدھ کو تو مار سکیں۔

شیخی میں بابو رام نے مسلّمہ شکاری اصولوں سے انحراف کیا، اس غلطی پر قدرت نے اسے نہیں بخشا اور وہیں انتہائی اندوہناک سزا دی۔ اس داستان کا صرف ایک ہی روشن پہلو ہے کہ شیر کے نرغے میں آتے ہی بابو رام فوراً سورگ باس ہو گیا اور اسے زیادہ وقت تک اذیت نہیں ہوئی۔ شیر کے اوپر نیچے کے دو دو انچ لمبے دانت بابو رام کی کھوپڑی سے اندر گذر کر آپس میں مل گئے تھے۔ شیروں کی طاقت ان کے جبڑے، گردن اور پنجوں میں زور کی داستانیں تو عام ہیں اس کے بعد بھی جب یہ چیز ذاتی مشاہدے میں آتی ہے تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔

٭٭٭

سنگم کا آدم خور چیتا

ایس۔ کے۔ جیفری / محمد اقبال قریشی

ٹائپنگ: انیس الرحمٰن

اُن دنوں میں بنگلور میں تعینات تھا جب مجھے اطلاع ملی کہ ستر میل دور جنوب میں سنگم کے مقام پر ایک چیتا آدم خور بن گیا ہے اور اب تک بیسیوں انسانوں اور مویشیوں کو نوالہ بنا چکا ہے۔ جن دنوں اس چیتے نے اپنی وارداتوں کا آغاز کیا، میں اپنے فرائضِ منصبی میں اس قدر الجھا ہوا تھا کہ فی الفور اُس طرف دھیان نہ دے سکا۔ اس دوران چند معروف شکاریوں نے اس چیتے کی بیخ کنی کی اپنی سی کوششیں کر ڈالیں مگر ناکامی اُن کا مقدر ٹھہری۔ کوئی بھی درندہ آدم خور بن جانے کی بعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہ پاتا اور جلد یا بدیر حضرت انسان کا شکار ہو جاتا ہے مگر مذکورہ چیتے نے محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً شکاریوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔ آدم خور کی وارداتوں کے قصے سُن سُن کر میں تنگ آ گیا۔ بالآخر میں نے محکمے کو طویل المیعاد چھٹی کی درخواست دی اور راجو کے ہمراہ چیتے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اگرچہ میں اپنی شکاری زندگی میں کئی مردم آزار درندوں کو موت سے ہمکنار کر چکا ہوں، مگر یہ تسلیم کرنے میں مجھے عار نہیں کہ سنگم کے علاقے سے اپنی وارداتوں کا آغاز کرنے والا چیتا کسی اور ہی مٹی کا بنا ہوا تھا۔ اس نے جس انداز میں اپنا بچاؤ کیا اور انسانوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ میرے تعاقب میں بھی لگا رہا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی حسیات عام چیتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ تیز تھیں۔

عام چیتے کی فطرت ہے کہ وہ کسی منصوبے کے تحت انسانوں یا جانوروں پر حملہ نہیں کرتا مگر وہ چیتا اپنے شکار پر حملہ کرنے سے قبل نہ صرف باقاعدہ منصوبے باندھتا بلکہ پیش آنے والے واقعات کا اندازہ کر کے اپنی حفاظت کا بندوبست بھی کر لیتا۔ اسی وجہ سے وہ شکاریوں سے محفوظ چلا آ رہا تھا۔ میں اکثر یہ سوچ کر حیران ہو جاتا کہ اس میں یہ نادر حس آخر کیونکر بیدار ہوئی۔ جیسے ہی میں نے اپنے مخصوص انداز میں اس کی تلاش کا آغاز کیا، ایسے ایسے انکشافات ہوئے کہ میں انگشتِ بدنداں رہ گیا۔ مجھے یقین ہے میری شکاری زندگی کا یہ باب پڑھنے کے بعد آپ بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔

٭٭٭

میں نے سب سے پہلے راجو کے ہمراہ اُن تمام مقامات کا دورہ کیا جہاں آدم خور گھومتا پھرتا دیکھا گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ کہیں نہ کہیں ہمارا آمنا سامنا ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ آس پاس کی بستیوں اور چند شکاریوں سے ملنے والی معلومات سے پتا چلا کہ چیتا دن کے وقت عموماً مغرب کی جانب کوئی پندرہ میل دور ایک ویران بستی میں آرام کرتا ہے۔ اس بستی میں پندرہ بیس گھر اور چند جھونپڑے تھے۔ چیتے نے ساٹھ ستر نفوس پر مشتمل اس بستی کے بیشتر مکینوں کو اپنا لقمہ بنا ڈالا تھا۔ بقیہ اپنی جانیں بچا کر دوسری بستیوں کا رخ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اب تک تین گھاگ شکاری چیتے کی تلاش میں اس بستی کا رخ کر چکے تھے مگر اُن میں سے ایک بھی واپس نہ لوٹا۔

ہم اپنی مہم کے دوسرے روز ڈھل پران نامی بستی پہنچ گئے جو چیتے کی آماجگاہ سے دس میل دور واقع تھی۔ یہ ایک بڑی بستی تھی۔ اس میں گرد و نواح کی کئی چھوٹی بستیوں کے سہمے ہوئے مکین بھی پناہ لے چکے تھے۔ ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد آدم خور کا نوالہ بن چکا تھا۔ سبھی لوگ ہمیں اپنی اپنی کہانیاں سنانے کے لیے بے چین تھے۔ ان میں سے سب سے اہم اس زمیندار کا بیان تھا جس کے ملازم لڑکے کو آدم خور چار دن پہلے مویشیوں کے باڑے سے اٹھا لے گیا تھا۔

زمیندار نے بتایا کہ اس نے ایک اٹھارہ سالہ یتیم لڑکا مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے رکھا ہوا تھا۔ وہ چونکہ ہندوؤں کی کمتر ذات سے تعلق رکھتا تھا، اسی لیے زمیندار کے گھر اس کا آنا جانا ممنوع تھا۔ اس کی رہائش مویشیوں کے باڑے ہی میں تھی جہاں وہ ایک کونے میں چارپائی پر رات بسر کر لیتا۔ عام حالات میں باڑے کا دروازہ باہر سے زنجیر چڑھا کر بند کر دیا جاتا مگر جب سے چیتا علاقے میں وارد ہوا تھا، زمیندار حفاظت کی پیشِ نظر کُنڈی میں لکڑی پھنسا دیتا۔

لڑکا اندر سے خاصا وزنی پتھر دروازے کے ساتھ رکھ کر کھلنے کے امکانات ختم کر دیتا۔ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود چیتا اپنی واردات اس صفائی سے کر گیا کہ گاؤں کے توہم پرست مکین پورے وثوق سے کہنے لگے کہ آدم خور در حقیقت ایک بھوت ہے جو بند دروازے کھول کر گھروں میں گھسنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ بعد ازاں میں نے راجو کے ساتھ باڑے کا معاینہ کیا تو دروازے اور چوکھٹ پر درندے کے پنجوں کے نشان نمایاں نظر آئے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ کنڈی میں پھنسا لکڑی کا ٹکڑا چیتے کی جد و جہد کے دوران نکل گیا جس کے بعد اس کے لیے زنجیر گرا کر دروازہ کھولنا مشکل نہ رہا۔ مویشیوں کا کمرا اندر سے دیکھنے کے بعد ہم دونوں حیرت زدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ کمرا اتنا بڑا نہیں تھا کہ مویشیوں کے درمیان چیتے کو آزادانہ گھومنے پھرنے کی جگہ مل پاتی۔ لڑکے تک پہنچنے کے لیے اس نے درمیانی فاصلہ یقیناً مویشیوں کی ٹانگوں کے نیچے سے رینگ کر طے کیا ہو گا۔ اس دوران مویشی ڈکرائے ضرور ہوں گے، مگر لڑکے نے توجہ اس لیے نہ دی کہ مویشی یوں بھی رات بھر ڈکراتے رہتے ہیں۔ وہ یقیناً اس امر کا عادی ہو چکا تھا۔

بہر حال اس بات پر ہم دونوں حیرت زدہ تھے کہ دروازہ کھولنے کی جد و جہد کے دوران لڑکا بدستور نیند میں کیونکر مگن رہا؟ اگرچہ یہ بات بھی بظاہر ناقابل یقین لگتی ہے مگر میں اور راجو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے کہ گیارہ گائے بھینسوں میں سے کسی کو چیتے کے پنجوں سے خراش تک نہ آئی۔

وہ زمیندار پھر ہمیں اپنے گھر لے گیا جہاں اس نے ہماری خاطر تواضع کی۔ اس کا تعلق برہمن ذات سے تھا۔ اس نے ہمارے رہنے کا انتظام بھی کر دیا۔ ہمارا ارادہ اگلی صبح آدم خور کی تلاش میں نکلنے کا تھا۔ میرا ذاتی خیال تھا کہ جس بستی کو چیتے نے ٹھکانہ بنا رکھا ہے وہاں ہماری کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔

اس بستی کو ایک طرف سے ندی تو دوسری طرف سے گھنے جنگل نے گھیر رکھا تھا۔ شمال میں وہ بستی تھی جہاں ہم مقیم تھے۔ جنوب میں جنگل سے ذرا ہٹ کر ایک چھوٹی سی جاگیر تھی جس کا نام بھگت پور تھا۔ اگلی صبح راجو نے تجویز پیش کی کہ آدم خور والی بستی کا معاینہ کرنے سے قبل جنگل کا چکر لگا لیا جائے۔ میں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا اور ہم ضروری ساز و سامان سے لیس ہو کر جنگل کی سمت روانہ ہو گئے۔ جنگل کافی گھنا تھا اور اس میں تناور برگد۔ پیپل، مہوہ اور املی کے درخت جا بجا نظر آئے۔ اس روز ہمارا ارادہ صرف علاقے کا جائزہ لینا تھا۔ یوں بھی مجھے آدم خور سے مڈبھیڑ کی کوئی امید نہ تھی۔ میں آدم خور درندوں کی فطرت سے بخوبی واقف ہوں، کسی مخصوص علاقے میں اوپر تلے وارداتیں کرنا آدم خور کی خصلت کے خلاف ہے۔ پھر ہمارا پالا تو ایک ایسے درندے سے پڑا تھا جو اپنی عیاری اور مکاری کے واضح ثبوت فراہم کر چکا تھا۔

ہماری نگاہیں اطراف کا بغور جائزہ لے رہی تھیں۔ جنگل کے قریب پہنچ کر ہم مزید محتاط ہو گئے۔ ہماری رفتار قدرے نرم اور سست ہو گئی۔ راستہ ہر آن دشوار اور خطرناک ہوتا جا رہا تھا۔ بے پناہ نشیب و فراز تھے پھر جا بجا خار دار جھاڑیاں راہ میں حائل ہو کر مزید مشکلات پیدا کر رہی تھیں۔ ایک میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم ایک پگڈنڈی نما راستے تک پہنچ کر رک گئے۔ وہ راستہ جنگل کے وسط سے شرقاً غرباً گزرتا تھا۔

میں نے اس مقام پر زمین کا جائزہ لیا تو ایک نر چیتے کے نقوش پا بکثرت نظر آئے۔ نشانات دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ چیتا یہ راستہ باقاعدہ طور پر استعمال کرتا ہے۔ راجو نے مجھ سے اتفاق کیا۔ ہم نے باڑے کے آس پاس جو نشانات دیکھے تھے وہ اِن نقوش سے گہری مماثلت رکھتے تھے۔ اب میری ڈھارس بندھی اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ راستہ آدم خور ہی کے زیر استعمال تھا۔

’اگر اس مقام پر گھات لگائی جائے تو بآسانی آدم خور کو جہنم واصل کیا جا سکتا ہے۔‘ راجو نے رائے دی۔

’لیکن میرے خیال میں ایسا قدم اٹھانے سے قبل ہمیں وہ بستی بھی ایک نظر دیکھ لینی چاہیے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ چیتے نے وہاں اپنا ٹھکانہ بنا رکھا ہے۔‘ میں نے دھیرے سے کہا ‘مجھے یقین ہے یہ نقوش پا اسی بستی تک جا رہے ہیں۔‘

میرا اندازہ درست تھا۔ ایک گھنٹے بعد ہم ان کا تعاقب کرتے ہوئے اس بستی کی حدود میں داخل ہو گئے۔ دور سے دیکھنے پر ہی وہ ویران دکھائی دیتی تھی۔ گھاس پھونس سے بنی تیس چالیس جھونپڑیوں کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ چیتے کی آمد سے قبل وہاں لکڑہاروں کی رہائش تھی۔ آدم خور نے اپنی وارداتوں کا آغاز بھی اسی بستی سے کیا تھا۔ گھاس پھونس کی دیواریں توڑ کر شکار کرنے میں اسے یقیناً کوئی دقت نہ ہوئی ہو گی۔ تین چار وارداتوں کے بعد لکڑہاروں نے وہ مقام غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے چھوڑ دیا۔ اُدھر چیتے کو اس بستی کی شکل میں ایک محفوظ ٹھکانہ مل گیا۔

جیسے جیسے ہم آگے بڑھے بستی کی ویرانی ہمارے دل و دماغ پر مسلط ہونے لگی۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا جیسے آدم خور ہمارے ساتھ اسی بستی میں موجود ہے۔ وسط میں پہنچ کر ہم رک گئے۔ وہاں دو انسانی پنجر اس حال میں پڑے تھے کہ ایک نظر ڈالتے ہی دل کانپ گیا۔ لباس کے چیتھڑوں سے ہم نے اندازہ لگایا کہ وہ دونوں آدم خور کا لقمہ بننے والے بد نصیب شکاری تھے۔

’آدم خور یقیناً بستی اور جنگل کے درمیان آزادانہ گھومتا پھرتا ہے۔‘ میں نے محتاط نگاہیں چار سو پھراتے ہوئے کہا۔

’اس کا مطلب ہے صاحب! ہمیں اِن دونوں مقامات کی نگرانی کرنی ہو گی۔‘ راجو نے تائیدی انداز میں سر ہلا کر تجویز دی۔

’اس کے سوا کوئی چارہ نہیں راجو۔‘ میں نے جواب دیا۔ ‘ہمارا پالا نہایت ہی مکار درندے سے پڑا ہے۔ اگر ہم اکٹھے رہے تو بعید نہیں کہ ہماری توجہ آدم خور سے زیادہ ایک دوسرے پر مرکوز رہے اور ہم اسے شکار کرنے کے بجائے خود شکار ہو جائیں۔ لہذا میں بستی میں رکتا ہوں۔‘ میں نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیا ‘تم جنگل میں نگرانی کرو۔ زمین کی نسبت تم کسی مضبوط درخت کی بلندی پر محفوظ بھی رہو گے۔‘ راجو نے سر کو اثبات میں جنبش دی اور اپنا ساز و سامان سنبھال کر اس پگڈنڈی پر ہو لیا جو جنگل کی طرف جا تی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد رات ہونے والی تھی۔ اگر راجو کے بجائے کوئی اور میرے ساتھ ہوتا تو میں اسے یوں تنہا جنگل میں کبھی نہ بھیجتا۔ لیکن راجو کی بات دوسری تھی، مجھے اس کی حسیات اور نشانے پر بھرپور اعتماد تھا۔

راجو کو روانہ کرنے کے بعد میں نے ایسی جھونپڑی کا انتخاب کیا جو بستی کے وسط میں واقع اور نسبتاً مضبوط تھی۔ اس کی تعمیر میں گھاس پھونس کے ساتھ ساتھ لکڑی کے تختے بھی استعمال کیے گئے تھے۔ جھونپڑی کا محل وقوع کچھ ایسا تھا کہ اگر کوئی اس کی طرف بڑھتا تو میں فوراً اسے نشانے پر لے سکتا تھا۔ پھر میں نے جس کمرے کو مسکن بنایا اس کی دیواروں پر بنی درزوں سے میں باہر کا منظر بھی بخوبی دیکھ سکتا تھا۔

جھونپڑی کا دروازہ اندر سے بند کر کے میں کمرے میں نہیں بیٹھا بلکہ وقفوں وقفوں سے کھانس کر اور کبھی سیٹی بجا کر اپنی وہاں موجودگی کا احساس دلاتا رہا۔ جھونپڑی کے باہر چوہے اور گیدڑ حرکت کر رہے تھے۔ تین گھنٹے بعد چاند کی روشنی اس حد تک پھیل گئی کہ درزوں میں سے چاندنی چھن چھن کر اندر آنے لگی۔ مجھے یقین تھا کہ اگر چیتا کہیں آس پاس موجود ہوا، تو میری بو پا کر جھونپڑے کا رخ ضرور کرے گا۔ مزید تین گھنٹے یوں ہی گزر گئے مگر چیتے کی آمد کے آثار پیدا نہ ہوئے۔ چیتا جب رات کو شکار کے لیے نکلے تو ایک میل کا فاصلہ تقریباً ایک گھنٹے میں طے کرتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اور نہایت استقلال کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا اور ذرا سی آہٹ پر چوکنا ہو کر رک جاتا ہے۔ وہ جہاں جہاں سے گزرے دوسرے جانور محتاط انداز میں چیختے ہوئے اس کی آمد کی خبر دینے لگتے ہیں۔ میں نے درزوں میں سے باہر جھانکا، چاند کی روشنی اس حد تک پھیل چکی تھی کہ چالیس پچاس فٹ دور پھیلی جھاڑیاں اور دوسرے جھونپڑے صاف نظر آ رہے تھے۔ وقت چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہا تھا۔ آخر میں اس خود ساختہ قید سے اکتا گیا، جی میں آیا کہ دروازہ کھول کر باہر نکل جاؤں۔

ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دور سے بندروں کے خوخیانے کی آوازیں سنائی دیں۔ تھوڑی دیر بعد بستی کے باہر گیدڑ زور زور سے چلانے لگے۔ میں رائفل ہاتھ میں تھامے بے اختیار اٹھ کھڑا ہوا۔ گیدڑ مسلسل چلّا اور خبردار کر رہا تھا کہ ‘ہوشیار! دشمن آ پہنچا۔‘ میں کمرے سے نکلا، جھونپڑی کے چھوٹے سے صحن کے وسط میں کھڑا ہوا اور زور زور سے کھانسنے لگا۔ جھونپڑی کی جس دیوار میں دروازہ نصب تھا، وہ تختوں سے بنائی گئی تھی اور میرا رخ اسی جانب تھا۔ جانے کیوں مجھے یقین تھا کہ چیتا اسی طرف سے حملہ آور ہو گا۔ دفعتاً فضا پر ہیبت ناک سکوت طاری ہو گیا۔ گیدڑوں کے چلّانے کی آوازیں بھی اب کہیں دور سے سنائی دے رہی تھیں۔ میں اپنی جگہ پتھر کے بت کی طرح کھڑا تھا کہ اچانک درندے نے جھونپڑی کے دروازے کو زور سے ٹکر ماری اور پوری جھونپڑی لرز گئی۔ دہشت سے میرا بدن پتھر ہو گیا۔ پُر شور آواز کے ساتھ دونوں پٹ وا ہوئے اور چیتا میرے عین سامنے آن کودا۔

میں نے زندگی میں بیسیوں درندے شکار کیے ہیں مگر میں دعوے سے کہہ سکتا تھا کہ اس سے زیادہ عجیب و غریب درندہ میں نے آج تک اپنی زندگی میں دوبارہ نہ دیکھا۔ وہ تھا تو قد آور نر چیتا لیکن اس کا رنگ ڈھنگ ہی نرالا تھا. منقّش کمر بند، کلائی بند اور سر پر چمڑے کی جڑاؤ ٹوپی۔ سچ پوچھو تو وہ اس قدر خوبصورت حیوان کی شکل میں میرے سامنے کھڑا تھا کہ ہزار کوشش کے باوجود میں رائفل سیدھی کر کے اس پر گولی نہ چلا سکا۔

اگلے ہی لمحے میری پلک جھپکی اور چیتا وہاں موجود نہ تھا۔ میں نے فوراً باہر نکل کر اِدھر اُدھر دیکھا مگر چیتے کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔

یہ میری خوش قسمتی ہی تھی کہ اس وقت میں زندہ سلامت اپنی جگہ پر کھڑا تھا ورنہ میری بے خودی سے فائدہ اٹھا کر وہ درندہ پل بھر میں میری تکا بوٹی بھی کر سکتا تھا۔ مجھ سے قبل آنے والے بد قسمت شکاریوں کے ساتھ شاید ملتا جلتا حادثہ رونما ہوا تھا۔ میرے زندہ بچ جانے کی ایک ہی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ ابھی میری زندگی کے دن باقی تھے۔ بہرحال ایک خطرناک درندہ میرے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ میں نے جھونپڑی کی کنڈی چڑھا کر پائپ سلگا یا، اور برآمدے میں بیٹھ گیا۔

چند ثانیے قبل میں نے جس درندے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ کوئی معمولی درندہ نہیں بلکہ کسی کا سدھایا ہوا نہایت قیمتی شکاری چیتا تھا۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ ہندوستان میں شکاری چیتے سدھانے کا رواج مغل شہنشاہ اکبر اعظم نے ڈالا تھا۔ اس کے بعد آنے والے بادشاہوں اور والیان ریاست نے بھی اپنے اپنے دور میں چیتے پالے۔ انگریز دور حکومت میں بھی ہندوستان کی بعض ریاستوں میں شکاری چیتے خاص طور سے پالے جاتے تھے۔ ان کی نگہداشت و پرورش کے لیے باقاعدہ تنخواہ دار ملازم مقرر ہوتے۔

شکاری چیتے کی تربیت انہی خطوط پر ہوتی جن پر دوسرے شکاری جانوروں مثلاً کتوں یا باز وغیرہ کی تربیت کی جاتی ہے۔ مگر یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ چیتا ایک بار سدھا لیا جائے تو وہ انسان سے بہت مانوس ہو جاتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اس سے بہترین اور تیز رفتار شکاری جانور شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ راجے مہاراجوں کے ہاں پالے جانے والے شکاری چیتوں کا مقصد بھی خالصتاً شکار کھیلنا ہی ہوتا تھا۔ جب کبھی والی ریاست یا کوئی اہم سرکاری ملازم اس مخصوص شکاری مہم کا لطف اٹھانا چاہتا تو شکاری چیتوں کو مع ان کے رکھوالوں کے طلب کر لیا جاتا۔ ان چیتوں سے عام طور پر ہرن اور تیز رفتار چیتل کے علاوہ کبھی کبھی خرگوش کا شکار بھی کھیلا جاتا۔ محافظ چیتوں کو ان کے مخصوص لکڑی کے پنجروں سمیت بیل گاڑیوں پر لاد کر میدان میں لے آتے۔

شکار نظر آتا تو چیتے کی آنکھوں سے پٹی کھول کر اسے دکھایا جاتا۔ چیتا چپکے سے گاڑی سے اترتا اور جھاڑیوں میں چھپتا چھپاتا اپنے شکار کے سر پر پہنچ جاتا۔ یہ طریقہ عام طور پر ہرنوں اور بارہ سنگھوں کے شکار کے لیے مخصوص تھا۔ شکار زیر ہونے کے کچھ دیر بعد تیز رفتار گھوڑوں پر سوار نگران بھی وہاں پہنچ جاتے اور چیتے کو بہلا کر ہرن اس سے لے لیتے۔ ہرن کو ذبح کر کے اس کی ایک ران چیتے کو بطور انعام پیش کی جاتی۔

برصغیر میں شکاری چیتے پالنے اور ان کے ذریعے شکار کرنے کا رواج تو خیر عام تھا، بعد میں وہ انگلستان بھی پہنچ گیا۔ سرنگا پٹم کی فتح کے بعد مارکوئلس ویلزلی نے ٹیپو سلطان شہید کے تین شکاری چیتے شاہ جارج سوم کی خدمت میں روانہ کیے تھے۔ ان چیتوں کے ساتھ ان کے خدمتگار اور بیل گاڑیوں کے علاوہ تربیت یافتہ بیل اور عربی النسل گھوڑے بھی تھے۔ مگر شاہ جارج سوم نے اِن چیتوں کا فن دیکھنے کی کبھی کوشش نہ کی اور انھیں اپنی باقی زندگی شاہی چڑیا گھر میں گزارنی پڑی۔

سنگم کا وہ آدم خور چیتا بھی شکاری چیتوں کے قبیل سے تعلق رکھتا تھا۔ اب میری سمجھ میں یہ آیا کہ اب تک کوئی شکاری آدم خور کو کیوں شکار نہ کر پایا۔ عام چیتے کو زیر کرنا تو جان جوکھوں کا کام ہے ہی مگر ایک شکاری چیتے کے خلاف نبرد آزما ہونا بالکل ایسا ہے جیسے انسان خود کشی کرنے نکل کھڑا ہو۔

میرا ذہن انہی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا تھا کہ صبح ہو گئی۔ اجالا پھیلتے ہی راجو بھی مجھے ڈھونڈتے ہوئے وہاں آ گیا۔ ساری رات آنکھوں میں کاٹ دینے کے باوجود اس کا چیتے سے آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ جب اسے میرے ساتھ پیش آنے والے واقعے اور چیتے کی حقیقت کا علم ہوا، تو وہ بھی ہراساں نظر آنے لگا۔

’آپ کی قسمت اچھی ہے صاحب کہ زندہ بچ گئے۔‘ وہ خوفزدہ لہجے میں گویا ہوا۔

’ہاں راجو۔‘ میں نے ہنکارا بھر کر جواب دیا۔ ’مگر افسوس کہ اس آدم خور چیتے کی قسمت مجھ سے بھی زیادہ اچھی ہے‘ میں نے اسے مارنے کا سنہرا موقع کھو دیا۔ خدا جانے اب وہ دوبارہ ہاتھ آئے گا بھی یا نہیں۔‘ میں نے حسرت بھرے لہجے میں جواب دیا۔

ہم دل برداشتہ واپس گاؤں پہنچے۔ مگر ہم نے اپنی ناکامی کی خبر گاؤں والوں کو نہیں سنائی ورنہ وہ مزید خوفزدہ ہو جاتے۔ ہم ناشتہ کرنے کے بعد رت جگے کے باعث کسل مندی کا شکار ہو گئے۔ زمیندار کے مشورے پر ہم نے نیند پوری کرنا مناسب جانا۔

اگر دوپہر کے وقت شور و غل سے میری آنکھ نہ کھلتی، تو خدا معلوم میں کب تک یونہی پڑا سویا رہتا۔ شور سن کر راجو بھی جاگ گیا تھا۔ ہم نے باہر نکل کر دیکھا تو لوگوں کا جم غفیر جمع تھا۔ جو آہ و زاری کر رہے تھے۔ پتا چلا کہ چیتا ابھی ابھی ایک چھ سالہ بچے کو اُٹھا کر لے گیا ہے مگر کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ کس طرف گیا۔

ہم دونوں فوراً جائے وقوعہ پہنچے جہاں بچے کے والدین گریہ و زاری کر رہے تھے۔ مکان کے باہر ہم نے نشانات کا کھوج لگانا چاہا مگر کوئی ایسا نشان نہ ملا جس سے معلوم ہوتا کہ درندہ شکار لے کر کس سمت گیا ہے۔ در اصل وقوعہ کے بعد وہاں کئی لوگ جمع ہو گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے قدموں سے چیتے کے نقوش مٹ گئے۔

میں نے لوگوں کو تاکید کی کہ ہمارے علاوہ کوئی گاؤں کی حدود سے باہر نہ جائے اور پھر میں راجو کو ساتھ لے کر گاؤں کے گرد چکر لگانے لگا کہ شاید کہیں نشانات کا سراغ مل جائے۔ ہم گھومتے ہوئے گاؤں کے مغربی حصے پہنچے تو زمین پر گھسیٹے جانے کے واضح نشانات نظر آئے۔ کچھ دور چل کر وہ نشانات غائب ہو گئے اور فقط چیتے کے نقوش پا رہ گئے۔ وہاں سے چیتے نے یقیناً اپنا شکار پیٹھ پر لاد لیا تھا۔ ان نشانات اور خون کے قطروں کا رخ اسی جنگل کی طرف تھا جہاں ہم نے گزشتہ روز چیتے کی جستجو کی تھی۔

جوں جوں ہم آگے بڑھے بچے کے کپڑوں کے چیتھڑے اور ایسے ہی دوسرے نشانات ملنے لگے۔ جنگل کے باہر پیپل کا ایک خاصا پھیلا ہوا پرانا درخت تھا۔ جیسے ہی ہم نے اس درخت کو پیچھے چھوڑا نشانات یکدم غائب ہو گئے۔ اسی لمحے میری چھٹی حس چیخ چیخ کر نادیدہ خطرے کا اعلان کرنے لگی۔ میں نے راجو سے پیٹھ جوڑ کر چاروں طرف نظریں دوڑائیں مگر وہاں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں آدم خور چھپ سکتا ہو۔ معاً میرا دھیان اس درخت کی طرف گیا۔

اب جو میں نے نظریں اٹھائیں تو میری نگاہیں درخت کے اس حصے پر جم کر رہ گئیں جہاں شاخوں میں سے بچے کا ایک خون آلود ہاتھ جھانک رہا تھا۔ درخت بلندی پر جا کر خاصا پھیل گیا تھا اور وہاں کئی ایسی شاخیں تھیں جن پر چیتا بآسانی خود کو پتوں میں چھپا سکتا تھا۔

میں نے راجو کو خاموشی کا اشارہ کیا اور ہم دونوں الٹے قدموں درخت سے دور ہوتے گئے۔ ہماری نگاہیں اور رائفلوں کے دہانے درخت پر مرکوز تھے۔ دس قدم دور ہم رک گئے۔ درخت کے آس پاس زمین پر نگاہیں دوڑانے کے بعد میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔

’جناب چیتا اسی درخت پر چھپا بیٹھا ہے۔‘ راجو نے میرے کان میں سرگوشی کی مگر میں کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔

’نہیں راجو۔‘ میں نے سر کو نفی میں جنبش دیتے ہوئے کہا ‘اگر یہ عام آدم خور ہوتا تو شاید تمہاری بات درست ہوتی مگر یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ ہمارا پالا ایسے شاطر درندے سے پڑا ہے جسے شکار کی تربیت خود انسان نے دی ہے۔‘ راجو کبھی مجھے اور کبھی اس درخت کو دیکھتا جس پر سے میں نے اپنی رائفل کا دہانہ ہٹا لیا تھا۔

’آپ کا مطلب ہے چیتا درخت پر موجود نہیں۔‘ وہ متوحش انداز میں بولا ‘اس نے ہمیں دھوکا دینے کے لیے لاش درخت پر چھپائی ہے، مگر یہ ثابت کیسے ہو گا۔‘

’ایسے‘ میں نے درخت کے دامن میں نظر آنے والے پنجوں کے نشانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

اب راجو بھی اس طرف متوجہ ہو گیا۔ پنجوں کے نشانات جنگل کی سمت جا رہے تھے۔ راجو کے منہ سے ایک طویل سانس خارج ہو گئی۔

’وہ ہمیں غُچہ دینا چاہتا ہے۔‘ میں نے کہا۔ ‘تاکہ ہم اس امر کا انتظار کریں کہ وہ کب اپنا شکار کھانے واپس آئے اور اس دوران وہ یہاں سے دور نکل جائے۔ لیکن میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔‘ یہ کہہ کر میں نے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور جنگل کی سمت بڑھ گیا۔ چیتا ذرا گھوم کر مشرق کی طرف سے جنگل میں داخل ہوا تھا۔ جنگل نے اپنی پوری رعنائی، دہشت اور پر شور آوازوں کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ درخت ہوا کے جھونکوں سے ہل رہے تھے اور چاروں طرف عجیب بھیانک آوازیں گونج رہی تھیں۔ ہم دونوں خاموش اور یوں چل رہے تھے کہ نہ قدموں کی آہٹ بلند ہو اور نہ خشک پتوں کے پیروں تلے روندے جانے کی چرچراہٹ۔

آدم خور کے شکار میں کامیابی اور حفاظت کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ شکاری ممکنہ خاموشی سے پیش قدمی کرے۔ میری نظریں اطراف کا بغور جائزہ لے رہی تھیں۔ رفتہ رفتہ جنگل گھنا ہوتا گیا۔ زمین پر پھیلے خشک پتوں اور دوسرے جانداروں کے نقوش پا کے درمیان چیتے کے نقش پا نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ قریب ہی درختوں پر سرخ منہ والے بندروں کا ایک غول چیخ رہا تھا۔ کچھ خرانٹ قسم کے بندر ہماری طرف متوجہ بھی ہوئے لیکن اگلے ہی لمحے ہم آگے بڑھ گئے۔ ابھی ہم نے جنگل کے اندر نصف فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ پیچھے جھاڑیوں میں سرسراہٹ سن کر ہمارے قدم جہاں تھے وہیں منجمد ہو گئے۔

ہم نے پلٹ کر ادھر دیکھا جہاں آواز سنائی دی تھی مگر ہمارے رکتے ہی وہ آواز بھی بند ہو گئی۔ معاً بائیں طرف ایک درخت پر بیٹھے پرندے زور سے چیخے اور فضا میں پرواز کر گئے۔ خطرے کا احساس ہوتے ہی میرے اندر کا شکاری چوکنا ہو گیا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے پیٹھ جوڑے، جنگل کے تاریک گوشوں کو گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کہیں کسی گوشے میں چھپا بیٹھا کوئی ہماری حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔

میں نے راجو کو مخصوص انداز میں ٹہوکا دیا اور رائفل کے ٹریگر پر ہاتھ رکھے آگے بڑھا۔ بارہا مجھے اپنے پیچھے کسی جانور کے قدموں کی چاپ محسوس ہوئی لیکن یہ فیصلہ کرنا میرے لیے مشکل ہو گیا کہ وہ کسی کھر دار جانور کی قدموں تلے روندے جانے والے پتوں کی آواز تھی یا گدی دار پیر والے چیتے کی۔ میں نے چند قدم پیچھے ہٹ کر رائفل کا دہانہ اسی طرف گھما دیا۔

اچانک ہمارے سامنے قدِّ آدم درختوں کے نیچے کوئی جانور تیزی سے گزرا۔ اس سے قبل کہ ہم اس کا نشانہ لیتے، وہ اونچی گھاس میں کہیں گم ہو گیا۔ میں اسے دیکھتے ہی پہچان گیا، یہ وہی مکار شکاری چیتا تھا جو ہمارے ساتھ ساتھ جھاڑیوں میں چھپتا چھپاتا چل رہا تھا۔ درندوں میں چیتا سب سے زیادہ مکار اور ہوشیار جانور ہے۔ وہ شیر کی طرح نہ تو گرج کر حملہ کرتا ہے اور نہ ہی دوسرے درندوں کی طرح اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ وہ بلی کی طرح دبے قدموں شکار کا تعاقب کرتا اور موقع ملتے ہی اسے نیچے گرا لیتا ہے۔ معاً ہمارے سامنے قد آدم گھاس میں جنبش ہوئی اور مجھے چیتے کی دم کا بالائی حصہ نظر آیا جو سانپ کے پھن کی طرح دھیرے دھیرے لہرا رہا تھا۔ اگر دم نظر نہ آتی، تو میں کبھی اندازہ نہ لگا پاتا کہ وہ کہاں چھپا ہوا ہے۔

میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں راجو کو ساکت رہنے کا اشارہ کیا، آہستہ بہت آہستہ سے رائفل اوپر اٹھائی اور پھر ہاتھوں کی ہلکی اور نرم جنبش سے اس مقام کا نشانہ لیا جہاں میرے اندازے کے مطابق چیتے کا دھڑ تھا۔

ابھی میری انگلیاں بمشکل لبلبی تک ہی پہنچی تھیں کہ چیتے نے سر اٹھا کر یکلخت مجھے دیکھا اور پھر ایک چنگھاڑ کے ساتھ میری جانب چھلانگ لگا دی۔ اس کے اور میرے درمیان ابھی چند گز کا فاصلہ تھا کہ میرے فائر کی آواز گونجی اور دوسرے ہی لمحے چیتا اپنی پوری طاقت اور وزن کے ساتھ میرے اوپر آ گرا۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ میں کچھ سمجھ نہ سکا اور رائفل ہاتھوں سے چھوٹ گئی۔

چیتے کا ایک پنجہ زور سے میرے کندھے پر لگا اور میں لڑھکتا ہوا گھاس میں جا گرا۔ چیتے نے چھلانگ لگائی اور غرا کر میرے کندھے میں دانت گاڑ دیے۔ وہ لمحہ میں زندگی بھر فراموش نہیں کر سکتا، حد درجہ تکلیف کے ساتھ ہی موت کے احساس نے پل بھر کے لیے میرے اعصاب جکڑ لیے۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ ایسے موقع پر راجو کبھی گولی نہیں چلائے گا۔ اب جو بھی کرنا ہے مجھے ہی کرنا تھا۔ گھٹنوں کے بل اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے اپنے شکاری خنجر کے دستے پر ہاتھ جمایا اور اسے میان سے باہر نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ اسی لمحے چیتے نے غرا کر میرے کندھا چھوڑا‘ تو ایک جھٹکے کے ساتھ خنجر میرے ہاتھ میں آ گیا۔ اس دوران چیتے کی تیز سانسیں مجھے اپنی گردن اور کان پر محسوس ہو رہی تھیں۔ میں نے دیکھے بغیر خنجر اپنے پیچھے کھڑے چیتے کے جسم میں پیوست کر دیا۔ چیتا خون آشام غراہٹ کے ساتھ تلملایا اور میری پیٹھ سے اتر کر ایک طرف بھاگ گیا۔

راجو شاید اسی لمحے کا منتظر تھا، اس نے آن واحد میں کئی گولیاں فرار ہوتے چیتے پر داغ دیں مگر وہ تو پلک جھپکتے میں غائب ہو گیا تھا۔

راجو نے فوراً آگے بڑھ کر مجھے اٹھایا، میرے زخمی کندھے سے ابلتا خون سارے جسم کو تر کر رہا تھا۔ اس نے مجھے کندھے پر اٹھایا اور جنگل سے باہر دوڑ لگا دی۔ اس دوران میں درد کی شدت سے بے ہوش ہو گیا۔

٭٭٭

جب مجھے ہوش آیا تو میں زمیندار کی حویلی کے صحن میں ایک چارپائی پر پڑا تھا۔ میری قمیص اتار کر زخموں کی مرہم پٹی شاید راجو نے خود کی تھی کیونکہ وہ ادویہ کا بکس اٹھائے میرے سرہانے ہی کھڑا تھا۔ صحن میں گاؤں والوں کا ہجوم تھا، سب میری طرف پر تشویش نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

اس موذی نے مجھے اس قدر پریشان کر دیا تھا کہ اس کا ہیولا ذہن میں آتے ہی اپنے زخم کی تکلیف فراموش کر کے میں راجو کی مدد سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اب میں ہر قیمت پر اس چیتے کو موت کے گھاٹ اتارنا چاہتا تھا۔ میں نے گاؤں والوں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا کہ وہ ہمارے ہمراہ زخمی چیتے کو تلاش کریں، کہیں نہ کہیں ضرور اس کا سراغ مل جائے گا۔ در اصل زخمی حالت میں اس کے فرار کے بعد میں خاصا پُر امید ہو گیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ چند روز تک وہ اپنے زخم چاٹے گا اور اس جنگل سے نکل کر کہیں اور نہیں جائے گا۔

اگر میں زخمی نہ ہوتا تو گاؤں والوں کی مدد کے بغیر ہی راجو کے ہمراہ آدم خور کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا مگر میرے زخمی ہونے کے بعد صورت حال بدل چکی تھی۔ ایسی حالت میں آدم خور کا تنہا تعاقب سیدھی سادی خود کشی تھی، لیکن گاؤں والوں کے دلوں پر چیتے کی ہیبت اس قدر طاری تھی کہ انھوں نے ہانکا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اتنے دنوں کی مشقت اور صعوبتیں اٹھانے کے بعد جب منزل قریب آنے کے آثار پیدا ہوئے تو گاؤں والوں کی بزدلی نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔

میری گردن، گھٹنے اور انگلیوں پر بھی گہری خراشیں آئی تھیں۔ ایک ہفتہ شدید تکلیف کے عالم میں بسر ہوا۔ اس دوران راجو کے علاوہ قریبی قصبے سے ایک نا تجربہ کار ڈاکٹر میرے زخموں کی دیکھ بھال کرتا رہا مگر تکلیف روز بروز بڑھتی گئی۔ بخار بھی رہنے لگا۔ میری ذاتی رائے تھی کہ چیتے کے دانتوں اور پنجوں کا زہر میرے خون میں سرایت کر چکا ہے۔ بالآخر میری حالت کی خبر ڈپٹی کمشنر کے کانوں میں پڑی، تو انھوں نے اگلے ہی روز مجھے بنگلور کے سول ہسپتال میں داخل کرنے کے احکامات صادر کر ڈالے۔

بنگلور ہسپتال میں پڑے پڑے مجھے دو ماہ ہو گئے۔ اس دوران راجو نے میری خدمت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ وہ صحیح معنوں میں میرا رفیق ثابت ہوا۔ مجھے آدم خور کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی تفصیلی خبریں ملتی رہیں۔ وہ اتنا نڈر ہو چکا تھا کہ لنگادھالی، تدک، سنتاویری، ہو گر خان اور ہو گرالی میں دن دیہاڑے کسی نہ کسی کو پکڑ کر لے جاتا۔ ایک مرتبہ اس نے ہو گر خان کے ریلوے اسٹیشن پر نمودار ہو کر سنسنی پھیلا دی۔ اس کے بعد متضاد خبریں آنے لگیں۔ کبھی معلوم ہوتا کہ آدم خور مارا گیا اور کبھی پتا چلتا کہ نہیں مرا۔ حکومت کی طرف سے بھیجے گئے فوجی افسروں نے آدم خور کے مغالطے میں کئی جنگلی درندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ راجو بڑی بے قراری سے میری صحت یابی کی دعائیں مانگا کرتا تھا۔ خود میری طبیعت ہسپتال میں پڑے پڑے بیزار ہو چکی تھی، میں چاہتا تھا کہ جتنی جلد ہو سکے اس کمرے سے نکلوں اور آدم خور سے بدلہ لے کر حساب چکتا کروں، مگر ڈاکٹروں نے میری ایک نہ چلنے دی۔

خدا خدا کر کے ڈھائی ماہ بعد مجھے ہسپتال سے رخصت ملی، تومیں راجو کے ہمراہ سیدھا ہو گرخان پہنچ گیا۔ اسٹیشن کے باہر سرکاری اہلکاروں نے اونچی اونچی بلیاں باندھ کر لوہے کی باڑ نصب کر رکھی تھی۔ ہر طرف مہیب سناٹا اور دہشت کی فضا چھائی ہوئی تھی۔

آدم خور کے تعاقب میں مجھے دن کا چین تھا نہ رات کا ہوش، بس میرے دل و دماغ پر یہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح اسے جہنم واصل کر دوں۔ راجو سائے کی طرح میرے ساتھ تھا۔ وہ نہایت نڈر اور بہادر آدمی تھا، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر وہ میرا ساتھ نہ دیتا تو شاید میں کبھی آدم خور کو جہنم واصل کرنے میں کامیاب نہ ہوتا۔

اس دوران ہمیں آدم خور کی پچھلی زندگی کے بارے میں خاطر خواہ معلومات مل چکی تھیں۔ وہ مہاراجہ گوالیار کے ذاتی چڑیا گھر کا سدھایا ہوا شکاری چیتا تھا جو مہاراجہ نے اپنے ایک انگریز فوجی افسر دوست کو تحفتاً دیا تھا۔ بنگلور میں تعیناتی کے دوران اس انگریز افسر کی لاپرواہی کے نتیجے میں چیتا آزاد ہو گیا اور یوں اس المناک داستان کی ابتدا ہوئی۔ میری صحت یابی تک وہ منحوس درندہ ڈیڑھ سو افراد کو اپنا لقمہ بنا چکا تھا۔

تین دن بعد بھرن پاڑ سے یہ خبر ملی کہ وہاں ایک چودہ سالہ لڑکے کو آدم خور اٹھا لے گیا۔ یہ حادثہ بھرن پاڑ کی پہاڑی ڈھلوانوں کے قریب پیش آیا تھا جو چیتل درگ کے جنوب میں واقع ہیں اور وہاں صدیوں پرانے قلعے کے کھنڈر بھی موجود تھے۔

ہم نے اسی وقت گھوڑے سنبھالے اور چیتل درگ روانہ ہو گئے۔ ہمیں وہ جھونپڑی دکھائی گئی جہاں چیتے نے واردات کی تھی۔ وہ شکار منہ میں دبائے پہاڑی کی طرف بھاگ گیا تھا۔ لوگوں کے بیانات سے میں نے اندازہ لگایا کہ آدم خور لاش کو قلعے کے کھنڈر میں لے گیا تھا اور شاید اب تک وہیں ہو۔ کسی نے چیتے کا تعاقب کرنے کی جرأت نہ کی۔

اس جگہ مسلمانوں کی آبادی خاصی زیادہ تھی۔ شکار ہونے والا لڑکا بھی مسلمان ہی تھا۔ سمجھانے بجھانے پر ہمارے ہمراہ آٹھ نوجوان کھنڈروں تک جانے کے لیے راضی ہو گئے۔ اگرچہ سورج غروب ہونے میں زیادہ دیر نہیں تھی لیکن میں آج ہی کھنڈر جانا چاہتا تھا۔ راستہ انتہائی دشوار اور خطرناک تھا۔ جوں جوں ہم آگے بڑھے ہمارے ساتھ آنے والے نوجوان سراسیمگی کا شکار نظر آنے لگے۔ جب مجھے احساس ہوا کہ وہ آگے بڑھنے سے کترا رہے ہیں، تو میں نے مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور انھیں وہیں رکنے کی ہدایت دے کر راجو کے ہمراہ پتھروں کو پھلانگتا خار دار جھاڑیوں کی پروا کیے بغیر کھنڈروں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

میں نے برسوں پہلے اپنی ملازمت کے ابتدائی دنوں میں وہ کھنڈر دیکھے تھے۔ ان کی حالت اب بھی ویسی ہی تھی۔ غروب ہوتے سورج کی سنہری کرنوں میں کھنڈر عجب ڈراؤنا منظر پیش کر رہے تھے۔

قلعے میں داخل ہوتے ہی میری چھٹی حس خطرے کا اعلان کرنے لگی۔ میں نے راجو کو اشارہ کیا اور لبلبی پر انگلی جمائے چاروں طرف نظریں دوڑانے لگا۔ دائیں جانب واقع جھاڑیوں میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ سن کر میں نے اپنی سماعت اسی جانب مرکوز کر دی۔ مجھے اپنی قوت سماعت پر کامل بھروسا تھا۔ جھاڑیاں مجھ سے تیس گز دور تھیں۔ میں عجلت کا مظاہرہ کر کے بنا بنایا کام بگاڑنا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ آدم خور اپنی فطرت کے مطابق مجھے بے خبری میں دبوچ لینا چاہتا ہے۔

دفعتاً آدم خور کی سانسوں کی آواز ابھری اور میں برقی سرعت سے اس جانب گھوم گیا۔ اسے لمحے جھاڑیوں میں دبکے ہوئے آدم خور نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی آبگینوں کے مانند دمکتی ہوئی آنکھیں جیسے میرے وجود میں سوراخ کرنے لگیں۔ آدم خور کی اس تنویمی قوت کا ماضی قریب میں مجھے خاصا تلخ تجربہ ہو چکا تھا۔ اس سے قبل کہ وہ جست لگا کر میرے سر پر پہنچتا میری گولی اس کا داہنا شانہ توڑتی ہوئی نکل گئی۔ زخمی ہونے کے باوجود چیتا دل دہلا دینے والی غراہٹ کے ساتھ میری جانب جھپٹا۔ میں نے فوراً زمین پر لوٹ لگائی اور سیدھا ہوتے ہی دوسری گولی داغ دی جو اس کی گردن میں سوراخ کرتی نکل گئی۔ اس دوران راجو بھی یکے بعد دیگرے تین فائر داغ چکا تھا۔ چیتا فضا میں اچھل کر قلعے کی دیوار سے جا ٹکرایا اور وہیں گر کر ذبح شدہ جانور کی طرح تڑپنے لگا۔ تڑپتے تڑپتے وہ ایک بار پھر فضا میں اچھلا لیکن فوراً ہی میری گولی اس کی کھوپڑی میں پیوست ہو گئی اور وہ دوبارہ نہ اٹھ سکا۔

اس طرح بہت بڑے رقبے پر تباہی پھیلانے والا انسان ہی کا سدھایا ہوا ایک درندہ اپنے انجام کو پہنچا۔ جب راجو اور میں چیتے کی پیمائش اور معاینہ کر چکے تو اسے ایک درخت کے سائے میں ڈال دیا گیا۔ اگلے روز صبح سے شام تک سینکڑوں مرد اور عورتیں اسے دیکھنے آتے رہے۔

اس لمحے ہم دونوں نے خود کو دنیا کے مسرور ترین انسانوں میں شامل محسوس کیا کیونکہ ہم اب حکومت اور آس پاس کے دیہہ میں بسنے والوں کو بتا سکتے تھے کہ تین سال سے ان کی زندگی کو عذاب بنا دینے والا موذی ٹھکانے لگ چکا تھا۔

٭٭٭

ایک درندہ ایک انسان

کینتھ اینڈرسن/ مترجم: عبدالمجید قریشی

ٹائپنگ: انیس الرحمٰن

یہ داستان جو مجھے نیل گری کے ایک گاؤں میں مقیم اپنے دوست سنجیو نے سنائی اس قدر حیرت انگیز ہے کہ آپ اس پر یقین نہیں کریں گے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بعض حقائق اپنے اندر افسانے کی سی رعنائی رکھتے ہیں۔ میں اُن دنوں ہندوستان میں تھا اور جس گاؤں کا ذکر کرنے لگا ہوں، اس کے قریب ہی مقیم تھا۔ نیل گری کی پہاڑیوں کے دامن میں یہ گاؤں آباد ہے۔ اس کے چاروں طرف کیلوں کے پیڑ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان باغات کی وجہ سے یہ گاؤں دور دور تک مشہور ہے اور شائقین یہاں امڈے چلے آتے ہیں۔

گاؤں سے دس میل دور دیوا کی جھونپڑی تھی۔ وہ کیلے اُگاتا اور انہیں شہر میں بیچ کر اپنی گزر بسر کرتا تھا۔ یہی اس کی ساری کائنات تھی۔ ایک روز شام ڈھلے دیوا کیلے کے ایک نئے درخت کی جڑوں میں پانی دے رہا تھا کہ ایک سادھو نے خاص انداز میں صدا دی اور جھونپڑی میں دو راتیں بسر کرنے کی اجازت مانگی۔ دیوا خوش عقیدہ ہندو تھا، اس نے سوچا سادھو کی آمد سے ممکن ہے کیلوں کی فصل زیادہ اچھی ہو، وہ اسے اپنی جھونپڑی میں لے آیا۔ کیلوں اور تازہ مکھن سے اس کی تواضع کی۔ جب اس نے سادھو سے سنا کہ وہ گاؤں گاؤں لوگوں کو آشیرباد دینے کے لیے پیدل چل رہا ہے، تو وہ فرطِ عقیدت سے جھوم اُٹھا۔ اس نے سادھو کے پاؤں دباتے ہوئے کہا، ’’سوامی جی! آپ میرے پاس دو ہفتے ٹھیریں اور خدمت کا موقع دیں۔ یہ باغ پھل کم دینے لگا ہے، آپ کی دیا سے یہاں بہار آ جائے گی۔‘‘

سادھو نے اتنے میٹھے اور لذیذ کیلے پہلی بار کھائے تھے اور تازہ مکھن نے تو سونے پر سہاگے کا کام کیا تھا، لہٰذا اس نے دیوا کی دعوت قبول کر لی۔

دو ہفتے کے بجائے دو مہینے بیت گئے۔ سادھو وہیں جم گیا۔ اُسے تازہ کیلوں اور تازہ مکھن کی چاٹ ایسی لگی تھی کہ نگر نگر گھومنا بھول گیا۔ دیوا نے جب دبے لفظوں میں سادھو کو اس کا مشن یعنی گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کو آشیرباد دینا یاد دلایا، تو اس نے غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا،

’’میری ذرا سی بد دعا تمہارے باغ کو بھسم کر ڈالے گی۔‘‘

دیوا کانپ اٹھا اور اس کے قدموں میں جھک گیا۔ سادھو نے تحکمانہ لہجے میں حکم دیا، ’’اپنے باغ کے کنارے میرے لیے ایک الگ جھونپڑی بنا دو، آج سے میں وہیں رہوں گا۔ مجھے ہر روز کیلے اور مکھن پہنچا دیا کرنا۔‘‘ دیوا نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔

سادھو شام کا کھانا کھانے کے بعد بانسوں اور گھاس پھوس کی بنی ہوئی جھونپڑی میں چلا جاتا اور پھر بالکل باہر نہ آتا۔ اندر دیے کی لو ٹمٹماتی رہتی اور بعض اوقات ساری رات جلتی رہتی۔ کیلے کے باغوں میں کام کرنے والے مزدور حیران تھے کہ دیا رات بھر کیوں جلتا ہے اور سادھو اس دیے کی روشنی میں کیا کرتا ہے۔ ایک رات ایک مزدور چپکے سے جھونپڑی کے قریب گیا اور اس نے بانسوں کی ریخوں سے جھانک کر دیکھا، تو سادھو کو غیر موجود پایا۔ وہ دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ بستر بچھا ہوا تھا، لیکن سادھو غائب تھا۔ مزدور نے ساتھیوں کو سارا واقعہ سنایا۔ وہ سب تاک میں بیٹھ گئے کہ دیکھیں سادھو کب آتا ہے۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ شیر کی دھاڑ سے پورا جنگل گونج اٹھا۔ مزدور خوف و دہشت کے مارے وہیں دبک گئے۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد شیر پھر گرجا۔ اب کی بار یہ آواز سادھو کی جھونپڑی کے بالکل قریب سے آ رہی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ شیر کیلوں کے باغ کے نزدیک گرج رہا تھا۔ پندرہ بیس میل ادھر کئی درندے جنگل میں گھوما کرتے تھے، لیکن اِس طرف کبھی کوئی شیر وغیرہ نہیں آیا تھا۔ مزدور دم سادھے آہستہ آہستہ اپنی اپنی جھونپڑیوں میں چلے گئے۔ صبح ہوتے ہی وہ سیدھے سادھو کی جھونپڑی میں گئے۔ شیر کے پاؤں کے نشانات جھونپڑی سے دور جنگل تک چلے گئے تھے، لیکن سادھو اپنی جھونپڑی میں مزے سے کیلے اور مکھن کھا رہا تھا۔

ان دنوں وہاں بڑی تعداد میں مزدور کام کر رہے تھے۔ جنگل صاف کر کے نئے درخت لگائے جا رہے تھے۔ اس جنگل میں شیر کی آمد نے مزدوروں اور مالکان کو خوف زدہ کر دیا۔ وہ رات کو باڑوں کے گرد بڑے بڑے الاؤ روشن کرتے اور دن کو بھی بہت محتاط ہو کر چلتے پھرتے۔ شیر ہر رات سادھو کی جھونپڑی کے قریب سے گرجتا اور دھاڑتا ہوا جنگل میں گم ہو جاتا، لیکن اُس نے اب تک کسی کو گزند نہیں پہنچائی تھی۔

ایک ہفتہ یونہی گزر گیا۔ شیر ہر رات دھاڑتا اور پھر دور جنگل میں گم ہو جاتا۔ اب تک اسے کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس سے لوگوں کا خوف کچھ کم ہوا، بہرحال انہوں نے مویشیوں کے باڑوں کے گرد موٹی لکڑی اور اینٹوں کی دس دس فٹ اونچی دیوار کھڑی کر لی اور راتوں کو اطمینان سے سونے لگے۔ ایک روز علی الصبح گاؤں کا بوڑھا گڈریا جالو چیختا ہوا آیا۔ رات کو شیر اس کی خوبصورت گائے اٹھا کر لے گیا تھا۔ اس کے باڑے کی دیوار ایک طرف سے کچھ کم اونچی تھی۔ شیر نے اسی جانب سے جست لگائی، گائے کو جبڑوں میں دبوچا اور اسی طرف سے واپس چلا گیا۔ گائے کے خون کے بڑے بڑے قطرے خاصی دور تک چلے گئے تھے۔ شیر نے جس جگہ گائے کا گوشت کھایا تھا، وہ سادھو کی جھونپڑی سے بمشکل ڈیڑھ دو سو گز دور ہو گی۔ پھر ہر رات ایک گائے غائب ہونے لگی۔ شیر کسی نہ کسی طرح اپنا شکار حاصل کر لیتا۔ کبھی خون پی کر مُردہ جسم وہیں چھوڑ جاتا اور کبھی جانور کو دور تک گھسیٹتے ہوئے لے جاتا۔ ان واقعات سے ہر طرف دہشت پھیل گئی۔ لوگ رات رات بھر جاگتے، الاؤ روشن کرتے، پہرہ دیتے، لیکن شیر خاموشی سے رات کی تاریکی میں کسی نہ کسی گائے، بھینس یا بکری کو اڑا لے جاتا۔

یہ عجیب بات تھی کہ یہ شیر نہ تو دن کو دھاڑتا اور نہ چاندنی رات میں کسی کو نظر آتا تھا۔ لوگوں کو ڈر تھا کہ اگر کسی انسان کا خون اس کے منہ کو لگ گیا، تو معلوم نہیں کیا آفت آ جائے گی۔ ادھر لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ شیر سادھو کو کوئی نقصان کیوں نہیں پہنچاتا؟ کوئی کہتا کہ سادھو اپنی روحانی طاقت کے بل پر اس شیر کا دوست بن گیا ہے، اور کوئی کہتا کہ سادھو ہی رات کو شیر بن کر مویشیوں پر حملہ کرتا ہے۔ ان افواہوں نے ایک طرف تو لوگوں کے دلوں میں سادھو کا خوف پیدا کر دیا اور دوسری طرف وہ اسے پوجنے کی حد تک عقیدت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔

اتفاق کی بات ہے کہ انہی دنوں ایک جنگلی ہاتھی نے بھی تباہی مچانی شروع کر دی۔ وہ کیلے کے باغات اجاڑنے لگا۔ دن دیکھتا نہ رات، باغ میں گھس آتا اور کیلے کے پیڑ تہس نہس کرتا ہوا گزر جاتا۔ دیوا کا باغ بھی اس کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اس کے پاس ایک چھوٹی سی بندوق تھی جو ہاتھی کو ہلاک تو نہیں کر سکتی تھی، لیکن اسے ڈرانے کے لیے بہر حال استعمال کی جا سکتی تھی۔ ایک رات وہ ایک اونچے درخت پر جا بیٹھا، اس کا ارادہ ہاتھی پر فائر کرنے کا تھا۔ چاندنی رات میں وہ درخت پر بیٹھا بیٹھا تھک گیا۔ اچانک اس نے شیر کے دھاڑنے کی آواز سنی، تو سنبھل کر بیٹھ گیا۔ اس نے غور سے دیکھا، سادھو کی جھونپڑی کے قریب شیر کی آنکھیں انگاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی انسان نے اس شیر کو دیکھا۔ دیوا کے دل میں خیال آیا کہ وہ کیوں نہ بندوق چلا دے، ممکن ہے شیر زخمی ہو کر ہمیشہ کے لیے اپاہج ہو جائے۔ اسے یقین تھا کہ اگر نشانہ خطا گیا، تو بھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، کیونکہ وہ بلند مقام پر بیٹھا تھا۔ یہ خیال آتے ہی اس نے لبلبی پر انگلی رکھ دی، نشانہ لیا اور بندوق چلا دی۔ بندوق کی آواز کے ساتھ ہی شیر قیامت خیز انداز میں گرجتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔ اگلے روز دیوا کا نوجوان بیٹا جب کیلے اور مکھن لے کر سادھو کی جھونپڑی میں گیا، تو خلافِ معمول دروازہ اندر سے بند تھا۔ اس نے آواز دی، تو اندر سے جواب آیا

’’میں بیمار ہوں، اس لیے کچھ کھاؤں پیوں گا نہیں۔‘‘

اس دوران لڑکے کی نظر اچانک جھونپڑی کی دہلیز پر پڑی۔ خون کے بہت سے قطرے زمین میں جذب ہو کر سیاہی مائل ہو گئے تھے۔ دروازے پر بھی خون کے نشانات تھے۔ لڑکے نے خیال کیا کہ شاید سادھو زخمی ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے باہر سے ہی آواز دی، ’’سوامی جی، کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائیے۔‘‘

سادھو زور سے چیخا، ’’یہاں سے فوراً دفعہ ہو جاؤ، مجھے تمہاری کسی چیز کی ضرورت نہیں۔‘‘

لڑکے نے جب دیوا کو یہ واقعہ سنایا تو ایک لمحے کے لیے وہ بھی سکتے میں آگیا۔ اس کے دماغ میں وہ تمام افواہیں گردش کرنے لگیں جو سادھو کے بارے میں مشہور تھیں۔ رات اس نے شیر پر جو بندوق چلائی تھی کہیں اسی سے سادھو زخمی تو نہیں ہو گیا! شاید سادھو اس وقت شیر کے روپ میں تھا۔ وہ چپکے سے اٹھا اور سادھو کی جھونپڑی کی جانب چل دیا۔ جھونپڑی اب بھی بند تھی۔ دروازے اور دہلیز پر خون کے چھینٹے بدستور موجود تھے۔ وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا اور زمین پر لیٹ کر ریخوں میں سے اندر جھانکنے لگا۔ اچانک اسے اپنے سر پر شیر کے غرانے کی آواز سنائی دی۔ وہ بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔ سادھو غصے سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کا دایاں ہاتھ اور بازو کا بالائی حصہ کپڑے سے بندھا ہوا تھا۔ خون سرایت کر جانے کی وجہ سے کپڑا سرخ اور سخت ہو گیا تھا۔ دیوا نے سادھو کو دیکھتے ہی کہا، ’’میرے لڑکے نے بتایا تھا کہ آپ بیمار ہیں۔ میں اس لیے آیا تھا کہ آپ کی کچھ خدمت کر سکوں۔‘‘

’’لیکن تم اندر کیوں جھانک رہے تھے؟‘‘ سادھو نے غصے سے پوچھا۔

دیوا کے ہونٹ کپکپانے لگے اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا، سادھو غصے سے چلایا، ’’اس سے پہلے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے، تم یہاں سے دفع ہو جاؤ۔‘‘

دیوا خوف اور دہشت سے اُلٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے ذہن میں سادھو کی پر اسرار حیثیت کے متعلق توہمات اور شکوک کا ہجوم امنڈ آیا، تاہم اس کا لڑکا روزانہ علی الصباح کیلے اور مکھن سادھو کی جھونپڑی کے دروازے پر رکھ آتا اور اس کے واپس چلے جانے کے بعد سادھو یہ چیزیں اٹھا لیتا۔ ایک ہفتہ یونہی گزر گیا، شیر نے کوئی شکار نہیں کیا۔ لوگ سمجھے شیر کسی اور جنگل میں چلا گیا، لیکن دیوا کو یقین تھا کہ چونکہ اس کی بندوق سے سادھو زخمی ہو چکا ہے، اس لیے وہ شیر کا روپ نہیں دھار رہا، تاہم اس نے اپنا یہ خیال کسی پر ظاہر نہیں کیا۔

ابھی اس واقعے کو بمشکل ایک ہی ہفتہ گزرا تھا کہ گاؤں والوں پر ایک نئی قیامت نازل ہو گئی۔ یہ خوفناک واقعہ نیل گری کے اس گاؤں سے کوئی چار میل کے فاصلے پر پیش آیا۔ گاؤں کا ایک چرواہا مٹھو جنگل کے کنارے اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ اچانک جھاڑیوں سے ایک شیر نکل کر اس کے ریوڑ پر حملہ آور ہو گیا۔ یہ دیکھ کر چرواہا اپنی لاٹھی گھماتا اور شور مچاتا شیر کی طرف دوڑ پڑا۔ عام طور پر ایسی حرکت حملہ آور شیر کو بھگانے میں کامیاب رہتی ہے مگر بدنصیب مٹھو کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ شیر اتنی آسانی سے اپنا شکار چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا۔ شیر کے تیور دیکھ کر مٹھو کو خطرے کا احساس ہوا اور وہ ایک قریبی درخت کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ مگر معاملہ اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا، جنگل کا غضبناک بادشاہ اپنا شکار چھوڑ کر مکمل طور پر چرواہے کی جانب متوجہ ہو چکا تھا۔ اس سے قبل کہ مٹھو درخت تک پہنچ پاتا، شیر کا پنجہ اس کے داہنے شانے پر پڑا اور کمر تک کھال ادھیڑ گیا۔ خون میں لت پت بد قسمت مٹھو وہیں گر پڑا۔ اس بے چارے کی جان یوں بچی کہ شیر نے فقط اسے مار گرانے پر ہی اکتفا کیا اور دوبارہ اس بکری کی جانب متوجہ ہو گیا جسے اس نے تھوڑی دیر قبل ہلاک کیا تھا۔ جب مٹھو کے ہوش و حواس کسی قدر بحال ہوئے تو اس نے کچھ ہی دور ہڈیاں چٹخنے کی آواز سنی۔ غور کیا تو شیر کو مُردہ بکری کا گوشت چٹ کرتے پایا۔ وہ اس قدر سراسیمہ ہوا کہ سانس روکے وہیں پڑا رہا۔ اسے یقین تھا کہ اگر اس نے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی تو اب کی بار شیر حملہ کر کے حقیقتاً اسے مار ڈالے گا۔ اپنا شکار چٹ کر جانے کے بعد شیر نے خون آلود پنجے چاٹے اور اپنے حلقوم سے طمانیت بھری غراہٹیں نکالتا جنگل میں غائب ہو گیا۔ مٹھو پر اس قدر خوف طاری تھا کہ وہ دیر تک اوندھے منہ وہیں لیٹا رہا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ خطرہ ٹل گیا ہے، تو اپنی لاٹھی سنبھال کر کسی نہ کسی طرح گرتا پڑتا اُٹھا اور گاؤں پہنچ گیا۔ راستے میں وہ کئی بار خاک میں گر کر لوٹ پوٹ ہوتا رہا۔ گاؤں والوں نے جب اس کی یہ ابتر حالت دیکھی اور شیر کی اس نئی واردات کا حال سنا تو ہر طرف خوف و ہراس کی فضا پیدا ہو گئی۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر شیر یا چیتے کے حملے سے کوئی فوری طور پر ہلاک نہ ہو تو بھی ان درندوں کے پنجوں میں پایا جانے والا ایک مخصوص زہر شکار کے خون میں داخل ہو کر بعد ازاں ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس شخص کو درندے نے حملہ کر کے زخمی کر دیا ہو اس کے زخم اتنی آسانی سے مندمل نہیں ہوتے۔ مٹھو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور اس کے زخم دو ہفتوں میں ہی خراب ہو کر اس کی موت کا باعث بن گئے۔

ٹھیک بیس روز بعد شیر نے اسی گاؤں کے ایک اور ریوڑ پر حملہ کر دیا۔ گایوں کے اس ریوڑ کا چرواہا شیر کی دہشت کے مارے اپنی جگہ بت بنا کھڑا رہ گیا۔ اتفاق سے شیر نے جس گائے پر حملہ کیا وہ خاصی جاندار اور غصیلی تھی، جونہی شیر اس کی پیٹھ پر سوار ہوا، گائے نے جھٹک کر اسے نہ صرف پرے پھینک دیا بلکہ پلٹ کر سینگ مارنے کی بھی کوشش کی۔ گائے کے جوابی حملے نے شیر کو کسی قدر بوکھلا کر رکھ دیا اور اس نے جھلا کر پاس کھڑے چرواہے پر جست لگا دی۔ گایوں کا بوکھلایا ہوا ریوڑ جب زخمی گائے سمیت گاؤں میں داخل ہوا تو جیسے کہرام مچ گیا۔ چرواہے کے دوست، رشتہ دار لاٹھیوں اور بلموں سے لیس ہو کر اس کی تلاش میں نکلے مگر جائے وقوعہ پر خون کے سوا کچھ نہ ملا۔ البتہ چند روز بعد ایک اور چرواہے کو اس بد قسمت کی لاش کی باقیات جھاڑیوں میں پڑی ملیں۔

اب دیوا بے چارے نے گاؤں والوں کے سامنے سادھو کے متعلق اپنے شبہات کا اظہار شروع کر دیا اور شیر پر بندوق چلانے، سادھو کے زخمی ہونے اور اس کی برہمی کی داستان گاؤں والوں کو سنائی۔ یہ تمام واقعات منظر عام پر آنے سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہو گئی۔ گاؤں والوں نے فیصلہ کیا کہ ایک وفد سادھو سے جا کر ملے اور اس سے استدعا کی جائے کہ وہ یہ خونیں ڈراما بند کر دے۔ دیوا نے اس وفد کی قیادت کی۔ گاؤں کے دس سیانے سادھو کی جھونپڑی میں پہنچے تو وہ آنکھیں بند کیے مالا جپ رہا تھا۔ سب مودب ہو کر بیٹھ گئے۔ دس منٹ کے بعد سادھو نے آنکھیں کھولیں، تو دیوا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے عرض کی، ’’سوامی جی، آپ جب سے اس گاؤں میں آئے ہیں، باغوں میں بہار آ گئی ہے، لیکن مویشی اور انسان اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں۔ ہم آپ کے گیان کے معترف ہیں۔ جو شیر ہمارے مویشیوں اور انسانوں کو لقمہ بناتا ہے، وہ آپ کا مطیع ہے، وہ آپ کی جھونپڑی کے پاس سے دھاڑتا ہے، لیکن آپ کو کچھ نہیں کہتا۔ آپ اس سے کہیے کہ وہ یہاں سے چلا جائے، اور اگر آپ خود انسان کا جسم چھوڑ کر شیر کا روپ دھار لیتے ہیں، تو ہماری درخواست ہے کہ ہمارے گاؤں پر رحم کیجیے۔ ہمارے مویشیوں اور انسانوں کو شکار نہ کیجیے۔ اگر آپ انسانوں کا شکار کیے بغیر نہیں رہ سکتے، تو میں عرض کروں گا کہ نیل گری کی پہاڑیوں میں باواک اور کرمبا قبائل آباد ہیں، وہاں چلے جائیے۔ وہ وحشی ہیں اور ان کے نزدیک انسانی جانوں کی کوئی وقعت نہیں۔‘‘

سادھو بالکل خاموش بیٹھا رہا۔ کبھی کبھار وہ آنکھ اٹھا کر دیوا کو دیکھ لیتا۔ وہ وفد کے دوسرے ارکان کو بھی اپنی سرخ سرخ آنکھیں دکھاتا رہا۔ دیوا اس استدعا کے بعد اپنی جگہ مودب ہو کر بیٹھ گیا۔ سادھو نے آنکھیں اٹھائیں اور مالا گھماتے ہوئے بولا، ’’میں ایک شرط پر یہاں شکار کرنا بند کر سکتا ہوں۔‘‘

سب کے دل تیز تیز دھڑکنے لگے، وہ مجسم سوال بنے ہوئے تھے۔ سادھو نے کہنا شروع کیا، ’’مجھے ہر مہینے دو سو روپے ادا کیے جائیں۔ چاول، گھی، سبزیاں، کیلے اور مکھن روزانہ اسی جھونپڑی میں پہنچائے جائیں۔ اگر کبھی کبھار مجھے انسانی گوشت کی ضرورت محسوس ہوئی، تو میں قبائلیوں کو شکار کرنے چلا جایا کروں گا۔‘‘

اور تمام شرطیں پوری کی جا سکتی تھیں، لیکن غریب دیہاتی دو سو روپے ماہوار کا انتظام نہیں کر سکتے تھے۔ دیوا نے درخواست کی کہ رقم گھٹا کر پچاس روپے ماہوار کر دی جائے، لیکن سادھو نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، لہٰذا وفد ناکام واپس آ گیا۔

اس واقعے کے چوتھے روز شیر نے دن دہاڑے ایک اور شخص کو ہلاک کر ڈالا۔ وہ اس وقت اپنی جھونپڑی سے ایک فرلانگ دور اپنے باغ کی رکھوالی کر رہا تھا۔ شیر نے اسے بھاگنے کا موقع بھی نہیں دیا، اسے دبوچا اور چیر پھاڑ دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شخص ان دس سیانوں میں سے ایک تھا جو وفد لے کر سادھو کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور اسی نے دوسو روپے ماہوار دینے کی سب سے زیادہ مخالفت کی تھی۔

مجھے یہ سارا قصہ میرے ذاتی خدمت گار اور دوست سنجیو نے سنایا جو اسی گاؤں کے ایک قبیلے اریلا کا فرد تھا۔ میں ان دنوں اس جنگل میں شکار کی غرض سے مقیم تھا۔ مجھے وہاں آئے بمشکل ایک ہفتہ ہی ہوا تھا۔ میں جب بھی وہاں آتا، سنجیو میرے قیام و طعام کا بندوبست کرتا۔ وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف ہونے کے ناتے ایک اچھا گائیڈ تھا۔ میں جب بھی سیر و شکار کی غرض سے وہاں جاتا، میری پہلی ترجیح سنجیو ہی ہوتا۔ اب کی بار جب میں گاؤں میں پہنچا تو وہاں کے مکینوں کے چہروں پر ایک عجب طرح کا خوف مسلط نظر آیا۔ جب میرے استفسار پر کسی نے بھی کچھ نہ بتایا تو میں نے سنجیو سے پوچھا۔ پہلے پہل تو سنجیو نے بھی مجھے ٹالنے کی کوشش کی، مگر پھر میرے بار بار کے استفسار پر اس نے مجھے دیوا اور سادھو کا قصہ سنا ہی ڈالا۔ میں نے اپنی زندگی میں بیسیوں آدم خور درندوں کا کام تمام کیا تھا مگر ایسے پر اسرار آدم خور سے آج تک میرا پالا نہ پڑا تھا۔۔ بہرحال مجھے یقین تھا کہ وہ سادھو ایک عام آدمی تھا جو سادہ لوح دیہاتیوں کو مرعوب کرنے کے لیے یہ سارا ناٹک رچائے ہوئے تھے۔ دوسری طرف آدم خوری کے واقعات بھی اپنی جگہ اٹل حقیقت تھے۔ میں جتنا اس معاملے پر غور کرتا، اتنا ہی میرا دماغ الجھتا چلا جاتا۔ بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ درحقیقت ان معصوم دیہاتیوں کا پالا دو مکار ہستیوں سے پڑ چکا تھا۔ ایک تو وہ مکار سادھو جو اس علاقے میں موجود آدم خور شیر کی آڑ میں لوگوں کو بے وقوف بنا رہا تھا، اور دوسرا وہ شیر جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر مویشی خوری چھوڑ کر آدم خوری کی لت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ یہ امر بھی بعید از قیاس نہ تھا کہ وہ آدم خور شیر اس مکار سادھو کا ہی سدھایا ہوا ہو اور وہ دونوں ہی اس شیطانی کھیل کے ذمے دار ہوں۔ حقیقت جو کچھ بھی تھی، میں نے اس معمے کو حل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جب سنجیو مجھے یہ قصہ سنا رہا تھا، اس وقت ہم جنگل میں آم کے ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور اپنے نزدیک آگ کا ایک بڑا الاؤ روشن کر رکھا تھا۔ رات بھیگ رہی تھی، دور سے جنگلی ہاتھی کے بانسوں کو توڑنے کی آواز بلند ہوئی جس کے تھوڑی ہی دیر بعد جنگل شیر کی آواز سے گونج اٹھا۔ سنجیو خوف سے بری طرح کانپنے لگا اس کی بھرائی ہوئی آواز میری سماعت مرتعش کر گئی، ’’سادھو شیر نے میری باتیں سن لی ہیں، اب وہ مجھے نہیں چھوڑے گا، میں تباہ ہو گیا۔‘‘

میں نے اس کی ہمت بندھانے کے لیے کہا، ’’یہ تمہارا وہم ہے، شیر اتنی دور سے تمہاری باتیں نہیں سن سکتا، وہ مافوق الفطرت طاقت بھی نہیں رکھتا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی رائفل میں کارتوس بھرے اور ٹارچ سنبھال لی۔ ہمارے تین طرف آگ کا الاؤ روشن تھا اور خالی سمت کی حفاظت کے لیے ہمارے پاس رائفل موجود تھی۔ شیر ایک بار پھر گرجا۔ وہ ندی کے قریب ہی تھا۔ سنجیو مسلسل کہہ رہا تھا کہ اب ہماری خیر نہیں، سادھو شیر نے سب کچھ سن لیا ہے، ہم صبح تک زندہ نہیں رہیں گے۔ میں نے اس کی طرف غصے بھری نظروں سے دیکھا تو وہ چپ ہو گیا۔ اتنے میں جنگلی ہاتھی کے چنگھاڑنے کی آواز آئی۔ ہم دونوں سہم گئے۔ الاؤ کی روشنی میں کافی دور تک دیکھا جا سکتا تھا۔ میں مصلحتاً ٹارچ روشن نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہاتھی کے چنگھاڑنے اور شیر کے غرانے کی آواز ایک بار پھر آئی۔ تھوڑی دیر بعد ایسی آوازیں آئیں جیسے دو حیوان آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ ہاتھی اور شیر کی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ جنگل میں بہت کم شیر ہاتھی پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہاتھی عموماً گروہ کی شکل میں ہی گھومتے ہیں۔ اگر کبھی کسی شیر کا ہاتھیوں کے لشکر سے آمنا سامنا ہو بھی جائے تو وہ بے چارا کنی کترا کر نکل جانے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔ بہرحال اگر کبھی کسی اکیلے ہاتھی سے آمنا سامنا ہو جائے اور اس وقت جنگل کا بادشاہ بھوکا بھی ہو تو سمجھ لیجیے کہ ہاتھی کی موت ہی اسے تنہا اس طرف کھینچ لائی ہے۔

ابھی میرا ذہن انہی سوچوں میں گم تھا کہ شیر کی غصیلی غراہٹوں میں تیزی آ گئی، ساتھ ہی وقتاً فوقتاً ہاتھی کی درد میں ڈوبی آوازیں بھی سنائی دے جاتیں۔ ہاتھی اور شیر کی وہ جنگ اس وقت میری آنکھوں کے سامنے تو نہیں ہو رہی تھی مگر جنگلوں میں گزارے ہوئے اپنے شب و روز کی بدولت میں بخوبی اندازہ لگا سکتا تھا کہ دونوں حیوان کیسے آپس میں گتھم گتھا ہوں گے۔ اس وقت سنجیو کی حالت الگ غیر ہو رہی تھی۔ وہ بار بار مجھے کسی درخت پر چڑھنے کی تلقین کر رہا تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ اگر دونوں درندے لڑتے لڑتے اس طرف آ نکلے تو ہماری بھی شامت آ جائے گی۔ میں نے اسے حوصلہ دیا اور اپنی جگہ خاموش کھڑے رہنے کی ہدایت کی۔ اس وقت میں اپنی سماعت سے بصارت کا کام لے رہا تھا۔ وقفے وقفے سے ابھرنے والی آوازوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ لڑائی بس آخری دموں پر ہے۔ پھر چند ہی لمحوں بعد ہاتھی کی درد بھری آوازیں اپنا وجود کھوتی چلی گئیں اور فضا میں فقط شیر کی طمانیت بھری غراہٹیں باقی رہ گئیں۔ ہاتھی یقیناً دم توڑ چکا تھا اور شیر اب اس کے بدن سے گوشت نوچ نوچ کر کھا رہا تھا۔ کبھی کبھی کسی ہڈی کے ٹوٹنے کی آواز اُبھرتی تو سنجیو بے اختیار جھرجھری لے کر میرے اور قریب ہو جاتا۔

مجھے یقین تھا کہ اب شیر اس طرف نہیں آئے گا اور ہمیں اگر اسے شکار کرنا ہے تو اس کے پاس جانا ہو گا، لیکن ایسا میں اس لیے نہ کر سکتا تھا کہ مجھے اس وقت اس امر کا یقین نہ تھا کہ آیا یہ وہی شیر ہے جس نے علاقے بھر میں قیامت مچا رکھی ہے یا پھر کوئی عام شیر ہے۔ میں کسی عام درندے کو خواہ مخواہ شکار کرنا نہیں چاہتا تھا۔

وہ رات ہم نے اُسی جگہ جاگ کر گزاری۔ سنجیو کا برا حال تھا۔ ہم نے ارد گرد سے جمع کی ہوئی لکڑیاں الاؤ میں ڈال دیں۔ میں چاہتا تھا کہ سنجیو باتیں کرتا رہے، کہیں ہم نیند سے اونگھنا شروع نہ کر دیں، لیکن اس کے ہوش و حواس گم تھے، وہ اب سادھو شیر کے متعلق ایک لفظ بھی منہ سے نکالنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ صبح ہوئی، تو سب سے پہلے ہم نے مرے ہوئے ہاتھی کو دیکھا۔ وہ ابھی پوری طرح جوان نہیں ہوا تھا۔ معلوم نہیں کیسے اپنی ٹولی سے بچھڑ گیا۔ ناشتے کے بعد میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ میں اس سادھو سے ملوں جو عام روایت کے مطابق رات کو اور کبھی کبھی دن کو شیر بن جاتا ہے۔ جب میں نے سنجیو سے اس کا ذکر کیا، تو اس کا چہرہ فق ہو گیا۔ اس نے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا، لیکن جب میں نے اس کی حفاظت کا پورا یقین دلایا اور بہت بڑے انعام کا لالچ دیا، تو وہ با دلِ نخواستہ تیار ہو گیا۔ اس وقت صبح کے نو بجے تھے۔ میں نے سادھو کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سنجیو میرے پیچھے کھڑا ہوا خوف سے کانپ رہا تھا۔ دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ انتہائی بد ہیئت، آوارہ بالوں اور بے ترتیب الجھی ہوئی داڑھی والا سادھو غلیظ اور بدبو دار کپڑوں میں ملبوس ہمارے سامنے آ کھڑا ہوا، اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کہنے کے لیے ہونٹ ہلاتا، سادھو کی آنکھیں انگارے برسانے لگیں۔ وہ گرجدار آواز میں بولا، ’’میں جانتا تھا کہ تم یہاں ضرور آؤ گے اور یہ جو تمہارے پیچھے گیدڑ کی طرح کانپ رہا ہے، یہی تمہیں یہاں لایا ہے۔ میں نے رات تم دونوں کو ندی کے قریب دیکھا تھا۔ تم نے الاؤ روشن کر رکھا تھا۔ میں تم دونوں میں سے ایک کو ضرور چٹ کر جاتا، لیکن وہ ہاتھی کا بچہ مزاحم ہو گیا اور میں نے تمہارے بجائے اس پر حملہ کر دیا۔‘‘

سنجیو گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا، لیکن میں نے اسے ڈانٹ دیا۔ میں چاہتا تھا کہ اس مکار سادھو کو گولی کا نشانہ بنا دوں، لیکن اس طرح میں قانون کی زد میں آتا تھا۔ میں غصے سے کانپنے لگا۔ میں نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے سادھو سے کہا، ’’تم جھوٹ بکتے ہو، تم انسان ہو اور کسی صورت شیر کا روپ اختیار نہیں کر سکتے۔ تم ان اَن پڑھ، معصوم، بھولے بھالے اور توہم پرست دیہاتیوں کو بے وقوف بنا کر اپنا اُلّو سیدھا کر سکتے ہو، لیکن مجھے کسی مغالطے میں نہیں ڈال سکتے۔‘‘ سادھو نے دھیمی آواز میں کہنا شروع کیا، ’’سفید بابو، اتنا غصہ نہ ہو۔ تم اپنے کام سے کام رکھو، جن باتوں کو تم نہیں سمجھتے، ان میں کیوں دخل دیتے ہو! تم یہاں بے سہارا ہو، بہتر ہے تم لوٹ جاؤ، ورنہ یاد رکھو تمہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔‘‘

یہ کہہ کر سادھو مڑا اور زور سے جھونپڑی کا دروازہ بند کر دیا۔ سنجیو نے جھونپڑی کے گرد ریت پر بعض نشانات کی طرف اشارہ کیا جو شیر کے پنجوں سے ملتے جلتے تھے اور دور تک چلے گئے تھے۔ سرِ شام ہم دوبارہ اسی آم کے درخت کے نیچے آ گئے جہاں ہم نے الاؤ کے گرد رات گزاری تھی۔ میں نے درخت پر مچان باندھی اور اسی پر بستر لگا کر سو گیا۔ سنجیو رات بھر جاگتا رہا تھا، وہ بھی مچان پر ایک طرف لیٹ گیا اور خراٹے لینے لگا۔ میں تین گھنٹے سویا ہوں گا، لیکن یقین کیجیے کہ مجھے نیند میں شیر دکھائی دیتا رہا جس کا سر سادھو سے ملتا جلتا تھا۔ دراصل میرے دل میں بھی ایک عجیب سا خوف پیدا ہو گیا تھا۔ سادھو نے ہمارے متعلق جو کچھ کہا تھا، وہ حرف بہ حرف ٹھیک تھا۔ آخر ہمارے متعلق اسے یہ سب کچھ کس نے بتایا تھا؟ سنجیو اس وقت سے اب تک میرے ساتھ تھا۔ اگر خود سادھو رات کی تاریکی میں ہماری نگرانی کر رہا تھا، تو یقیناً وہ ایک بہادر انسان تھا، کیونکہ شیر اور ہاتھیوں کی موجودگی میں تن تنہا گھومنا پھرنا معمولی بات نہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ میرا مقابلہ ایک نہیں، دو سے ہے، آدم خور شیر اور مکار سادھو سے۔ شیر کو تو شکار کیا جا سکتا تھا، لیکن سادھو کے فریب کا پردہ چاک کرنا بڑا دشوار تھا۔ اس نے مجھے مار ڈالنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ وہ انسان ہونے کی حیثیت سے سوچ سکتا تھا، منصوبے بنا سکتا تھا اور مجھے دھوکے فریب سے نقصان پہنچا سکتا تھا، اس لیے اس سے نبٹنا سب سے مشکل تھا۔ سوچ سوچ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر شیر شکار ہو گیا، تو سادھو کے فریب کا راز خود بخود کھل جائے گا، اس لیے پہلے شیر کا شکار کرنا ضروری ہے۔

میں نے سنجیو کو ساتھ لیا اور دو بچھڑے خریدنے کے لیے گاؤں میں آگیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب گاؤں کے ہر شخص نے کسی بھی قیمت پر بچھڑے فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ ہر شخص یہی کہتا تھا کہ شیر کے روپ میں تم سادھو کو قتل کر دو گے، اور اگر سادھو اس روپ میں نشانہ بن گیا، تو پورے گاؤں پر کوئی آسمانی آفت ٹوٹ پڑے گی۔ میں نے لاکھ سمجھایا کہ میں یہ سب کچھ تمہاری جانوں کی حفاظت کے لیے کر رہا ہوں اور انسان کبھی شیر کا قالب اختیار نہیں کر سکتا، لیکن کسی نے بھی میری بات پر کان نہیں دھرا اور بچھڑے فروخت کرنے سے سختی کے ساتھ انکار کرتے رہے۔ اب ایک ہی صورت تھی کہ میں اور سنجیو پورا دس میل دور کانڈا نامی گاؤں جائیں اور وہاں سے بچھڑے خرید کر لائیں، لیکن ہم اسی روز غروب آفتاب سے پہلے کسی طرح بھی نہیں لوٹ سکتے تھے، اس لیے ہم نے اپنا پروگرام اگلے روز پر ملتوی کر دیا اور پھر اسی آم کے درخت کے نیچے رات گزارنے کے لیے پہنچ گئے۔ یہ بھی ایک عجیب بات تھی کہ ہمیں گاؤں میں کوئی شخص اپنی جھونپڑی میں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ہم نے ایک بار پھر الاؤ روشن کیا اور اپنے قریب اتنی لکڑیاں اور خشک پتّے جمع کر لیے کہ ساری رات آگ جلتی رہے۔ سنجیو کی خواہش تھی کہ ہم رات جاگ کر کاٹنے کے بجائے مچان پر سو کر گزاریں، لیکن مجھے شیر کی نسبت مکار سادھو سے زیادہ خطرہ تھا کہ اگر ہم سو گئے، تو ممکن ہے وہ ہماری جان لے بیٹھے۔ اس رات سنجیو نے سادھو شیر کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا اور چپ چاپ بیٹھا رہا۔ جنگل میں ہر طرف سکوت طاری تھا، بس کبھی کبھار کوئی مینڈک ٹراتا یا درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دے جاتی۔

میں نے گھڑی پر نظر ڈالی، بارہ بج رہے تھے اور نیند کی وجہ سے ہماری آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں کہ اچانک ندی کے قریب سے ایک عجیب و غریب آواز سنائی دی۔ کوئی اہاہا، اہاہا کہتا جاتا تھا اور پھر اچانک یہی آواز شیر کی گرج میں بدل گئی۔ سنجیو تو سہم کر سکڑ گیا، لیکن میں اپنی رائفل اور ٹارچ سنبھال کر بیٹھ گیا۔ میں سمجھ گیا کہ سادھو ہمیں ڈرانا چاہتا ہے۔ پہلی آواز سے اس نے اپنے انسانی وجود کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے اور دوسری آواز سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب وہ شیر کے قالب میں آگیا ہے۔ چونکہ میں بھی ضرورت پڑنے پر شیر کی آواز نکالنے پر قدرت رکھتا ہوں اس لیے سادھو کا ایسی آواز نکال لینا میرے لیے قطعاً باعثِ حیرت نہ تھا۔ میں نے سوچا کہ کیوں ناں اسے ابھی پکڑ لیا جائے۔ میں نے سنجیو کی ہمت بندھائی اور ہم دونوں ٹارچ کی روشنی میں اسی آواز کی طرف دوڑتے گئے، لیکن وہاں دور دور تک سادھو تھا نہ شیر۔ ہم سیدھے اس کی جھونپڑی پر پہنچے، اندر دیا روشن تھا، ہماری آہٹ پا کر سادھو نے از خود دروازہ کھول دیا اور غضب ناک ہو کر بولا، ’’زندگی عزیز ہے، تو بھاگ جاؤ، تم شیر کی روح کو ہرگز شکار نہیں کر سکتے۔‘‘

میں حیران تھا کہ سادھو ہم سے پہلے یہاں کیسے پہنچ گیا! میں شکاری ہونے کی حیثیت سے بہت تیز دوڑتا تھا اور جھونپڑی تک پہنچنے کے لیے جو راستہ میں نے اختیار کیا تھا، وہ مختصر تھا۔ سادھو نے ایک بار پھر مجھے الجھن میں ڈال دیا۔ گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ہم پھر درخت کے نیچے پہنچ گئے اور رات کا باقی حصہ الاؤ کے نزدیک جاگ کر گزار دیا۔ صبح ہونے پر ہم کانڈا گئے، وہاں سے دو بچھڑے خریدے اور الٹے پاؤں واپس آئے۔ اس وقت شام کے چار بج رہے تھے اور سورج غروب ہونے میں صرف دو گھنٹے باقی تھے۔ دوسری طرف ہمیں نیند نے ستایا ہوا تھا۔ دن میں دو تین گھنٹے سونے سے کہاں سکون مل سکتا تھا اور اب تیسری رات جاگ کر گزارنا تھی۔ سنجیو کا تو بہت ہی برا حال تھا۔ ہم نے جلدی سے چائے تیار کی، کچھ سینڈوچ کھائے اور کچھ کیلے۔ باقی چائے تھرماس میں ڈال کر مچان پر رکھ لی۔ ایک بچھڑے کو مچان سے پچاس گز کے فاصلے پر باندھ دیا گیا اور دوسرے کو سنجیو اپنی جھونپڑی میں چھوڑ آیا۔ بد قسمتی سے اس رات شیر بالکل نہیں دھاڑا اور ہماری تمام محنت اکارت گئی۔ ہم صبح تک جاگتے رہے تھے اور سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ایسے سوئے کہ دوپہر کے بارہ بجے آنکھ کھلی۔

سنجیو نے یہ تجویز رکھی کہ ہمیں یہاں سے ہٹ کر ندی کے اور قریب برگد کے درخت پر مچان باندھنا چاہیے۔ اس کا خیال تھا کہ شیر ندی پر پانی پینے کے لیے ضرور آتا ہے۔ برگد کے درخت پر مچان بھی اچھی اور محفوظ بندھتی ہے۔ اس درخت کے پتے چوڑے اور ایک دوسرے سے بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ مجھے یہ تجویز پسند آئی اور ہم فوراً اس طرف چل دئیے۔ سنجیو نے گھنٹہ بھر کی جد و جہد کے بعد برگد کے سہ شاخے پر مچان تیار کی اور بچھڑے کو پچاس ساٹھ گز کے فاصلے پر باندھ دیا۔

جب رات خوب بھیگ گئی اور جنگل میں ہر طرف سناٹا چھا گیا، تو اچانک شیر کے دھاڑنے کی آواز آئی۔ شیر ایک بار اور گرجا۔ یہ آواز سادھو کی جھونپڑی سے آ رہی تھی۔ میں نے رائفل سنبھالی اور ٹارچ درست کر کے بیٹھ گیا۔ ایک پر اسرار سکوت طاری تھا۔ جنگل میں رات کو شیر عموماً تین چار بار ہی دھاڑتا ہے۔ میں اس کی ایک اور آواز سننے کے لیے بے چین تھا۔ آدھ گھنٹہ اسی طرح گزر گیا۔ معاً مجھے خیال آیا کہ جھونپڑی کے پاس چل کر دیکھنا چاہیے کہ سادھو موجود ہے یا نہیں۔ میں نے سنجیو کو ہدایت کی کہ وہ مچان پر بیٹھا رہے، اور اسے یہ بتائے بغیر کہ میں کہاں جا رہا ہوں، درخت سے نیچے اُتر آیا۔ میں ٹارچ کی روشنی میں آگے بڑھتا رہا۔ بھری ہوئی رائفل میرے ہاتھ میں تھی۔ میں انتہائی محتاط قدم اٹھا رہا تھا، مبادا ’شیر‘ بے خبری میں مجھ پر حملہ کر دے۔ جب میں جھونپڑی کے قریب پہنچا، بانسوں کے سوراخوں سے اندر دئیے کی لو صاف نظر آ رہی تھی۔ پہلے تو میں نے چپکے سے ان ہی سوراخوں کے اندر جھانکنے کی کوشش کی، لیکن جب سادھو کے متعلق واضح طور پر کچھ معلوم نہ ہو سکا، تو میں دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ جھونپڑی خالی تھی، سادھو باہر گیا ہوا تھا۔ میرے دل میں ہلکا سا خوف اُبھرا۔ سنجیو کی سنائی ہوئی داستان خیالات میں حقیقت بن کر گھومنے لگی۔ میں جھونپڑی سے باہر نکل آیا اور سادھو کا انتظار کرنے لگا۔ آدھ گھنٹہ گزر گیا، نہ سادھو آیا اور نہ شیر تیسری بار گرجا۔ معاً میرے ذہن میں ایک خیال اُبھرا۔ شیر اپنے ہم جنس کی آواز پر لپکتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ اصلی شیر بھی کہیں نزدیک ہی موجود ہے، اس لیے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے منہ کے قریب ایک مخصوص زاویے سے حلقہ بنایا اور شیر کی سی آواز نکالی۔ یہ طریقہ میں نے افریقہ کے جنگلوں میں جنگلی قبائل سے سیکھا تھا۔ وہ شیر کا شکار اسی طرح کیا کرتے تھے۔ آواز سن کر جونہی شیر اس جانب بڑھتا، وہ اپنے زہر میں بجھے ہوئے نیزوں سے اس پر حملہ کر دیتے اور آن واحد میں شکار کر لیتے تھے۔ میری یہ تدبیر کارگر ثابت ہوئی۔ میری آواز کے جواب میں شیر پھر دھاڑا۔ میں خشک پتوں پر کسی کے چلنے اور اپنی جانب بڑھتے ہوئے قدموں کی چاپ سننے لگا۔ میں جھونپڑی کے قریب ہی جھاڑیوں میں زمین پر لیٹ گیا۔ قدموں کی چاپ کی طرف میری رائفل کا رُخ ہو گیا اور میں آنے والے لمحوں کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ اچانک میں نے ایک ہیولا اپنی طرف بڑھتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ انسان کی طرح سیدھا دو پاؤں پر چل رہا تھا، لیکن اس کے جسم پر شیر کی کھال لپٹی ہوئی تھی۔ میں فوراً سمجھ گیا کہ یہ سادھو ہے جو شیر کی کھال اوڑھ کر جنگل میں گھوم رہا ہے اور اب اپنی جھونپڑی میں واپس آ رہا ہے۔ سادھو ابھی مجھ سے پچاس گز دور تھا کہ شیر ایک بار پھر گرجا۔ پھر میں نے المناک منظر دیکھا کہ شیر اور سادھو گتھم گتھا ہو گئے، وہاں اونچی اونچی گھاس تھی۔ شیر نے تھپڑ مار کر سادھو کو نیچے گرا لیا تھا اور بری طرح بھنبھوڑ رہا تھا۔

اب مزید وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا، لہٰذا میں نے شیر کے سر کا نشانہ لے کر گولی چلا دی۔ مجھے سادھو کو بچانے کی بھی پروا نہ تھی کیونکہ وہ بھی گاؤں والوں کا اتنا ہی مجرم تھا جتنا کہ آدم خور شیر۔

گولی کی گونج تھمی نہ تھی کہ شیر سادھو کو چھوڑ کر اس سمت متوجہ ہو گیا جدھر سے اس پر گولی داغی گئی تھی۔ میں پوری طرح جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا لہٰذا میرا دیکھا جانا بعید از امکان تھا، دوسری طرف جھاڑیوں میں لیٹا ہوا ہونے کی وجہ سے میں شیر کا درست نشانہ بھی نہیں لے پا رہا تھا، لہٰذا میں نے اللہ کا نام لے کر اُٹھنے کا ارادہ کیا تاکہ شیر پر تاک کر گولی چلا سکوں۔ اس لمحے شیر کے حلق سے ایسی دہشت ناک آوازیں برآمد ہو رہی تھیں کہ اگر کمزور دل آدمی سن لیتا، تو وہیں ڈھیر ہو جاتا۔ میں نے دوبارہ رائفل کندھے سے لگا کر اس کا نشانہ لیا اور اندازے سے گولی داغ دی۔ اس مرتبہ گولی اس سے چند انچ کے فاصلے پر خاک اڑا گئی۔ پہلی گولی نے فقط اس کا شانہ ادھیڑ ڈالا تھا جبکہ دوسری کچھ نہ بگاڑ سکی۔ البتہ شیر کو اتنا علم ہو گیا کہ اس پر گولیاں کس سمت سے داغی جا رہی ہیں۔

کچھ دیر بعد اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا۔ اتنی دور سے بھی مجھے اس کی آنکھوں سے قہر و غضب کی چنگاریاں پھوٹتی دکھائی دیں اور رائفل میرے ہاتھوں میں لرزنے لگی۔ میں نے کھڑے ہو کر بڑی فاش غلطی کی تھی۔ مجھے لیٹے لیٹے ہی اس پر گولی چلانی چاہیے تھی، مگر اب کیا ہو سکتا تھا! میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر وہ مجھ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کر لیتا تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے بچا نہیں سکتی تھی۔ میں بے اختیار الٹے قدموں پیچھے ہٹنے لگا۔ ساتھ ہی لرزتے ہاتھوں سے رائفل دوبارہ بھرنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ میری نگاہیں جیسے درندے کے وجود سے چپک کر رہ گئی تھیں۔ آس پاس کی مجھے کچھ خبر نہ تھی۔ دراصل ایسے مواقع پر درندے پر سے نظریں ہٹانا موت کو دعوت دینے کے برابر ہوتا ہے۔

شیر کے شانے سے خون کا فوارہ اُبل رہا تھا، اس کے باوجود وہ پہلے سے بھی زیادہ خوفناک انداز میں گرجا۔ گرج سن کر میں سہم گیا اور کارتوس میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر نیچے جا گرے۔ موت مجھ سے چند گز کے فاصلے پر تھی۔ کسی بھی لمحے زخمی درندہ جست لگا کر مجھے راہ عدم کا مسافر بنا سکتا تھا۔ جیسے تیسے میں نے رائفل دوبارہ بھری اور ایک ٹیلے کی اوٹ میں ہو گیا۔ چند ثانیوں بعد میں نے ٹیلے کی اوٹ سے سر باہر نکال کر دیکھا، تو شیر کہیں نظر نہ آیا۔ البتہ خون کی لکیر دور سے چمکتی نظر آ رہی تھی۔ اس دوران سنجیو بھی وہاں پہنچ گیا۔ ’’آپ ٹھیک تو ہیں نا صاحب جی؟‘‘ اس نے اکھڑی ہوئی سانسوں کے درمیان سوال کیا۔

میں نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنی رائفل دوبارہ گولیوں سے بھر لی۔ میری نظریں جنگل کے اس حصے پر مرتکز تھیں جدھر شیر رو پوش ہوا تھا۔ چند ثانیوں بعد میرے اندازے کی تصدیق ہو گئی۔ جنگل کے اسی حصے سے شیر کی درد و تکلیف سے بھرپور دھاڑیں سنائی دیں۔

زخمی شیر ہو یا کوئی اور درندہ، اس کا فوری تعاقب جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اسے تلاش کرنے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب زخم ٹھنڈے پڑ جائیں اور خون بکثرت بہہ جانے کے باعث اس پر نقاہت غلبہ پالے۔

سادھو آدم خور کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا۔ اس کی لاش اسی کھال میں لپٹی ہوئی تھی جسے اوڑھ کر وہ لوگوں کو شیر بن کر جھانسا دیا کرتا تھا۔ یہ اس کی بد قسمتی ہی تھی کہ جب اس نے شیر کا ناٹک رچایا تو انہی دنوں حقیقتاً ایک شیر اس علاقے میں مویشی خور بن بیٹھا۔ اگر وہ غلطی سے چرواہے کو نوالا نہ بناتا تو یقیناً آدم خور نہ بنتا۔ بہرحال مجھے یقین تھا کہ سادھو بھی آدم خوری کی لت میں مبتلا تھا اور نہ جانے اب تک کتنے انسانوں کو لقمہ اجل بنا چکا تھا۔ بعد ازاں اس کی جھونپڑی سے نہ صرف شیر کی ایک دوسری کھال برآمد ہوئی بلکہ ایک ایسا آلہ بھی ملا جس کی مدد سے سرکس میں کام کرنے والے بازی گر شیر کی سی آواز نکالتے ہیں۔ سادھو کی موت کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ گاؤں والوں کے سامنے اس کا راز فاش ہو گیا اور انہیں میری باتوں پر یقین آنے لگا۔

بہرحال اب درندے کا کام تمام کرنا میری اخلاقی ذمے داری بن گیا تھا۔ میں سنجیو کو ساتھ لیے واپس گاؤں آ گیا۔ دو گھنٹوں کی اس تکلیف دہ مہم نے میرے اعصاب کو اتنی بری طرح جھنجھوڑ دیا تھا کہ میں سنجیو کی جھونپڑی میں سوائے آرام کرنے کے کچھ نہ کر سکا۔ شیر کی دھاڑیں اور فائرنگ کا شور سن کر گاؤں والوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمارا درندے سے سامنا ہو چکا ہے، البتہ درست صورت حال بعد ازاں سنجیو کی زبانی معلوم ہوئی۔

’’اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟‘‘ دوپہر کے کھانے پر سنجیو نے مجھ سے پوچھا۔

’’مجھے یقین ہے کہ زخمی شیر زیادہ طویل مسافت طے نہیں کر سکے گا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ایسے میں ہانکا کرانے کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔‘‘

’’گاؤں کی اکثریت سادھو کی کہانی پر یقین رکھنے والوں کی ہے۔‘‘ سنجیو نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ ’’بزدل ہونے کے باعث وہ کبھی اس امر پر رضا مند نہیں ہوں گے کہ زخمی درندے کی موجودگی میں ہانکا کریں۔ ہاں دوسرے گاؤں سے مسلمان جوان بلائے جا سکتے ہیں۔‘‘

’’جب تک وہ آئیں، زخمی شیر ہماری دسترس سے دور جا چکا ہو گا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’اب یہی ہو سکتا ہے کہ میں خون کے نشانات کے ذریعے درندے کا تعاقب کروں۔‘‘

افسوس درندہ ہماری توقع سے کہیں زیادہ مکار اور طاقتور نکلا۔ اسی رات اس نے ایک اور ہولناک واردات کر ڈالی۔ نیا واقعہ پچھلے تمام واقعات سے زیادہ لرزہ خیز تھا۔ شیر آدھی رات کے قریب ایک باڑے میں گھس گیا جس میں گائے بھینسیں بندھی ہوئی تھیں۔ رکھوالا دروازے کے پاس ہی سویا ہوا تھا۔ شیر ایک موٹے تازے بچھڑے کو شکار بنا کر اسے باہر گھسیٹ رہا تھا کہ مویشیوں کی بھگدڑ سے رکھوالے کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے درندے کو دیکھا تو بدحواس ہو کر چیختا ہوا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ دیکھ کر شیر نے بچھڑے کو چھوڑا اور رکھوالے کا کام تمام کر ڈالا۔ بہرحال شور شرابا سن کر جب تک گاؤں والے وہاں پہنچے، شیر اپنے تازہ شکار سمیت رفو چکر ہو چکا تھا۔ مجھے اطلاع دی گئی۔ میرے لیے یہ کوئی معمولی خبر نہ تھی، اگر یہ واردات اسی شیر کی تھی تو اس کا مطلب تھا کہ میری چلائی ہوئی گولی سے اسے کوئی کاری نقصان نہیں پہنچا تھا۔ میں نے اسی وقت سنجیو کو ساتھ لیا اور باڑے پہنچ گیا۔ اندر ہر طرف خون بکھرا ہوا تھا۔ باقی جانور ہٹا دیے گئے تھے۔ ایک طرف مُردہ بچھڑا خون میں لت پت پڑا تھا۔ شیر نے اس کی گردن توڑ ڈالی تھی۔ دروازے کے قریب بدقسمت رکھوالے کے خون کے دھبے اور جا بجا ایسے نشانات تھے جن سے پتا چلتا تھا کہ شیر اسے گھسیٹتا ہوا لے گیا ہے۔

پنجوں کے نشانات سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ وہی زخمی شیر تھا۔ باہر بھی ایسے نشانات خاصی دور تک نظر آئے۔ میں نے ان کی رہنمائی میں شیر کے تعاقب کا فیصلہ کر لیا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر اپنے شکار کا کچھ حصہ کھانے کے بعد اسے کہیں چھپا دے گا۔ ایسے میں اگر ہم لاش کے قریب مچان بنا لیں، تو ہمیں کامیابی مل سکتی تھی۔

صبح کاذب کا اُجالا ہونے کو تھا جب میں سنجیو کے شدید اصرار پر اسے ساتھ لیے ضروری ساز و سامان سے لیس ہو کر خون اور رگڑنے کے نشانات کا معائنہ کرتا آدم خور کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔ کسی بھی آدم خور کو تلاش کر کے ہلاک کرنا شکار کا خطرناک ترین مرحلہ ہوتا ہے، خاص طور پر جب اس کے قبضے میں تازہ شکار بھی ہو۔ جنگل کی حدود تک تو ہم بآسانی نشانات کا تعاقب کرتے رہے۔ پھر جھاڑ جھنکار کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ایک ایک کر کے نشان مفقود ہونے لگے۔ وجہ شاید یہ تھی کہ ابھی سورج پوری طرح طلوع نہ ہوا تھا۔ دوسری طرف جنگل کی نوعیت بھی ایسی تھی کہ شیر کو پیدل تلاش کرنے میں کئی خطرات پوشیدہ تھے۔ گھنی جھاڑیاں، تناور درخت، چٹانیں، ٹیلے، نالے اور اندھے گڑھے۔ وہ بڑا ہی ہیبت ناک جنگل تھا۔ طلوع آفتاب نے اگرچہ ہمارے لیے خاصی آسانی پیدا کر دی مگر اچانک درندے کے آثار غائب پا کر میری روح مضطرب ہو گئی۔ سنجیو کو میں نے آگے چلنے کی ہدایت کر رکھی تھی مبادا وہ میری غفلت میں درندے کا نوالہ بن جائے۔

ہم لوگ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جنگل میں چکر لگاتے رہے مگر آدم خور تو کجا کوئی ایسی نشانی بھی نہ ملی جو اس کی موجودگی کی چغلی کھاتی۔ نشانات کچھ تو مٹ گئے، کچھ اگر ہوں گے تو نظر نہیں آئے۔ جنوب کی طرف جنگل قدرے چھدرا اور زمین ہموار تھی۔ بعض اوقات قدرت نیک کاموں میں قابل قدر مدد کرتی ہے۔ جنوب کی طرف مڑ کر ہم املی کے ایک درخت کے پاس سے گزر رہے تھے کہ اچانک مور کی آواز سن کر ہمارے قدم ساکت ہو گئے۔ مور اور شیر کی دوستی مشہور ہے، مگر یہ دوستی اسی وقت قائم ہوتی ہے جب شیر کا پیٹ خوب بھرا ہوا ہو اور اسے دانتوں میں خلال کی ضرورت پیش آئے۔ بصورتِ دیگر خون میں کھیلنے والے ہلاکت آفریں شاہِ جنگل سے سبھی چرند پرند کنی کتراتے ہیں۔

وہ تیز چیخ نما آواز جو ہم نے اس لمحے سنی، مور صرف اسی وقت نکالتا ہے جب شیر کے تیور جارحانہ ہوں۔ میری اور سنجیو کی نگاہیں ایک پل کے لیے چار ہوئیں اور میں یہ سوچنے لگا کہ ممکن ہے مور نے شیر کے بجائے کسی دوسرے درندے کو دیکھ کر یہ آواز نکالی ہو۔ بہرحال اب ہمارا رخ فی الفور اس طرف ہو گیا جدھر سے مور کی آواز آئی تھی۔ وہ علاقہ کسی قدر دشوار گزار بھی تھا۔ جا بجا خاردار جھاڑیاں اور اونچے نیچے ٹیلے تھے۔ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے گئے جنگل زیادہ خطرناک ہوتا گیا۔ ساتھ ہی ہماری رفتار بھی کم ہو گئی کیونکہ خاردار جھاڑیاں ہماری راہ میں مزاحم تھیں۔ بہرحال ہم پھونک پھونک کر قدم رکھتے آگے بڑھتے رہے۔ سنجیو کو میں بار بار اشارہ کرتا کہ زمین کی طرف دیکھ کر خون کے دھبے یا کوئی اور نشان تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہے۔

ہم برگد کے نہایت پرانے درخت کے سائے تلے سے گزر رہے تھے کہ سنجیو رک گیا۔ مجھے اس کے چہرے پر خوف و دہشت کے آثار نظر آئے۔ اب جو میں نے اس طرف نظر دوڑائی، تو میرا وجود بھی کانپ گیا۔ ہم سے تقریباً دس گز دور جھاڑی کے پاس ایک انسانی لاش اس طرح پڑی تھی کہ اس کا دھڑ جھاڑی کے اندر جب کہ دونوں ٹانگیں باہر نکلی پڑی تھیں۔ سنجیو کے تاثرات دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ یہ اسی بد قسمت رکھوالے کی لاش تھی جسے آدھی رات کے وقت شیر نے گاؤں سے اٹھایا تھا۔

میری شکاری زندگی کا وہ عجیب نظارہ تھا۔ کوئی بھی شیر خصوصاً آدم خور اپنے شکار کو اس طرح کھلا نہیں چھوڑتا۔ میرا ذہن یہ گتھی سلجھانے میں مصروف تھا کہ دفعتاً قرب و جوار سے ایک مہیب آواز سنائی دی اور میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ وہ یقیناً شیر ہی کی آواز تھی۔ جنگل کے پُر ہیبت سناٹے میں اگر کوئی عام جانور بھی بولے، تو دل پر دہشت طاری ہو جاتی ہے، وہ تو شیر تھا، جنگل کا فرمانروا…! پل بھر کے لیے تو ہم دونوں کے اوسان خطا ہو گئے۔ ساتھ ہی مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہم دونوں آدم خور کی عیاری کا شکار ہوچکے تھے۔ مکار درندے نے دراصل ہمیں اپنے جال میں پھانس لیا تھا۔

بہرحال اب درپیش صورت حال سے نمٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، میں نے جلدی سے ایک رائفل سنجیو کو پکڑائی اور اس کے ساتھ پیٹھ جوڑے چاروں طرف نظریں دوڑانے لگا۔ اس وقت درخت پر چڑھنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا تھا۔ ایک پل کی بھی غفلت موت کو دعوت دینے کے برابر تھی۔ میں ہمہ تن چشم و گوش بنا، رائفل پر گرفت مضبوط کیے کسی بھی جھاڑی سے شیر کے برآمد ہونے کا منتظر تھا۔

اچانک تیس گز دور گھنی جھاڑیوں میں سرسراہٹ ہوئی اور میں نے ایک بھاری بھرکم وجود کو جھاڑیوں سے نکل کر اپنی طرف حملہ آور پایا۔ وہ یقیناً وہی شیر تھا مگر اس میں وہ پھرتی نہ تھی جو ایک تندرست درندے میں ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اس کا ایک شانہ صحیح طور پر کام نہیں کر رہا تھا۔

آدم خور درندہ میری طرف بڑھ رہا تھا جبکہ میں مچان پر بیٹھے ہونے کے بجائے زمین میں کھڑا اسے تک رہا تھا۔ عین اُس وقت جب شیر کے اور میرے درمیان بیس گز کا فاصلہ رہ گیا، میں نے اس کے وجود پر نگاہیں گاڑ کر رائفل کندھے سے لگا لی۔ جنگل میری رائفل کے ہولناک دھماکوں اور آدم خور شیر کی ہیبت ناک آوازوں سے گونج اٹھا۔ دونوں گولیاں اس کے جسم سے آر پار ہو گئیں۔ وہ مٹی کے بت کی طرح زمین پر آرہا مگر چشم زدن میں دوبارہ کھڑا ہو گیا۔ اب میرے اور اس کے درمیان فاصلہ ہی کتنا رہ گیا تھا… بمشکل سات آٹھ گز۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دو اور گولیاں اس کے دونوں شانوں کے درمیان داغ دیں۔ شیر کیا تھا قیامت تھا، اتنی گولیاں کھا کر بھی وہ پھر اچھلا اور مجھے اس کا چہرہ اور پنجہ اپنے سے چند فٹ کے فاصلے پر ابھرتا نظر آیا۔ وہ بد بخت مجھے موت کی آغوش میں پہنچانے کا پورا انتظام کر چکا تھا اگر عین اس لمحے سنجیو شیر پر گولی نہ داغتا۔ گولی نے دونوں آنکھوں کے عین درمیان اس کی پیشانی کا مہلک بوسہ لیا اور شیر کا پورا جسم کانپ گیا۔ وہ پشت کے بل پلٹ کر گرا اور بغیر آواز نکالے ساکت ہو گیا۔

یوں نیل گری کا وہ گاؤں ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن گیا جس کی فضاؤں میں کچھ عرصہ قبل ایک مکار سادھو اور آدم خور شیر قیامت بن کر نازل ہوئے تھے۔

٭٭٭

ماخذ: اردو محفل

http: //shikariyat.blogspot.com/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل