FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

کچھ ادیبوں کے خاکے

 

 

 

                   غلام شبیر رانا

 

 

 

 

 

مشتاق عاجز:         دوہے کی منفرد آواز

 

 

بر عظیم پاک و ہند کے ادب میں دوہے کی صنف کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دوہے کے سوتے اس خطے کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار و روایات سے پھُوٹے ہیں۔بر عظیم میں دوہے کے ابتدائی نقوش کا تعلق پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی سے ہے۔یہی وہ زمانہ ہے جب مقامی بولیوں اور پراکرت میں مقامی شعرا نے دوہے کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا۔فطرت خود بہ خود لالے کی حنا بندی میں مصروف رہی اور مقامی شعرا نے تزکیۂ نفس کے لیے دوہے کو ایک موثر اور مقبول ترین لوک صنف شعر کے طور پر اپنا لیا۔یہاں تک کہ نویں صدی عیسوی میں اپ بھرنش کے متعدد اہم تخلیق کاروں نے دوہے کو ایک با ضابطہ صنف شاعری کی حیثیت سے متعارف کرایا اور اس میں تخلیقِ فن کے اصول و قواعد پر توجہ دی۔تاریخی اعتبار سے یہ بات مسلمہ ہے کہ بہ حیثیت ایک مقبول صنفِ  شاعری دوہے کو بر عظیم کی کئی زبانوں کے تخلیق کاروں نے اپنایا اور ان کے اسلوب کی عوامی سطح پر وسیع پیمانے پر پذیرائی بھی ہوئی۔جن مقامی زبانوں میں قدیم دوہے لکھے گئے اُن میں پنجابی، سندھی، برج بھاشا، مگدھی اور اودھی قابلِ ذکر ہیں۔ ہندوستانی لسانیات اور اصنافِ ادب کے ارتقا میں دلچسپی رکھنے والے قارئینِ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس قدر قدیم یہاں کی تہذیب ہے اُسی قدر قدیم یہاں کے ادب کی روایات ہیں۔ مورخین اور ماہرین علمِ بشریات کی متفقہ رائے ہے کہ اقوامِ عالم کے تخت و کُلاہ و تاج کے سب سلسلے سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کی زد میں آ کر خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتے ہیں لیکن تہذیب اس ہونی سے محفوظ رہتی ہے۔ادیب جب قلم تھام کر پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو وہ یدِ بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے اور اپنی تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے یہ بیش بہا تہذیبی میراث نئی نسل کو منتقل کر کے تاریخی تسلسل کو بر قرار رکھتا ہے۔تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی بقا انتھک جد و جہد کی متقاضی ہے۔جو قوم اپنی تہذیبی میراث کو عزیز رکھتی ہے وہ خود اپنی نظروں میں معزز و مفتخر ہو جاتی ہے۔اپنی مٹی سے محبت اور اپنی تہذیب کی حفاظت کسی بھی زندہ قوم کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے۔ تہذیبی میراث کی نسلِ نو کو منتقلی وقت کا اہم ترین تقاضا سمجھا جاتا ہے۔وہ قومیں بد قسمت خیال کی جاتی ہیں جو اپنی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کے بارے میں مُجر مانہ تغافل کا شکار ہو کر دُوسری اقوام کی تہذیب کی بھونڈی نقالی میں مصروف ہو جاتی ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر بد قسمتی سے کسی قوم کی تہذیب کے تحفظ اور اِسے نئی نسل تک منتقل کرنے کی مہلک غلطی ہو جائے، بے حسی کے باعث قوم کے دل سے احساسِ  زیاں عنقا ہو جائے اور مسلسل سو برس تک بھی اس المیے کی جانب توجہ نہ دی جائے تو تہذیبی انہدام کے باعث وہ قوم پتھر کے زمانے کے ماحول میں پہنچ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں زیرک تخلیق کار ان اقدار  و  روایات کے تحفظ پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے چلے آئے ہیں جن کا تعلق تہذیبی بقا اور اس کے تسلسل سے ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ’’دوہا ‘‘ایک ایسی صنف شاعری ہے جس نے بر عظیم کی تہذیب میں نمو پائی اور اس کے دامن میں گُزشتہ صدیوں کی تاریخ اور تہذیبی ارتقا کے جُملہ حقائق سمٹ آئے ہیں۔

اُردو زبان میں دوہا نگاری کے ابتدائی آثار تیرہ سو سو برس قبل بھی پائے جاتے تھے۔  جب پُوری دُنیا آفتابِ اِسلام کی ضیا پاشیوں سے بُقعۂ نُور ہو گئی تو اس خطے میں بھی فکر و نظر کا ایک انقلاب بر پا ہو گیا۔ہر قسم کے نسلی، علاقائی اور لسانی امتیازات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔اس عہد آفریں انقلاب کے بعد افکار تازہ کی مشعل تھامے یہاں کے تخلیق کاروں نے جہانِ تازہ کی جستجو کو اپنا مطمحِ نظر بنا لیا۔اُردو میں دوہے کے ارتقا میں اس خطے میں اسلام کے ابد آشنا پیغام کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔جہاں تک شاعری میں تزکیہ نفس کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کا تعلق ہے اِس کی اولین صورت دوہے میں دکھائی دیتی ہے۔وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ دوہا نگاروں نے اس صنف میں وہ گُل ہائے رنگ رنگ پیش کیے جن کے اعجاز سے دوہا واقعیت، حقیقت، مقصدیت اور سبق آموز نصیحت کے روپ میں قلب و نظر کی تسخیر میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو گیا۔دوہے کی صنف کو خونِ  دِل سے سینچ کر پروان چڑھانے والے تخلیق کاروں میں بہت سے نام شامل ہیں۔ان میں سے کچھ مقبول مسلمان دوہا نگاروں کے نام درجِ ذیل ہیں :

امیر خسرو (۱۲۵۳تا۱۳۲۵)، بابا فرید الدین مسعود گنج شکر (۱۱۷۳تا ۱۲۶۶)، سید عبداللہ  بلھے شاہ (۱۶۸۰تا۱۷۵۷)، عبدالرحیم خانِ خاناں (۱۵۵۶تا۱۶۲۸)، ملک محمد جائسی (۱۴۷۷تا۱۵۴۲)، بہادر شاہ ظفر (۱۷۷۵تا ۱۸۶۲)

دوہا نگاری کے فروغ میں متعدد ہندو شعرا نے بھی اہم کر دار ادا کیا۔جس طرح زندگی اپنے لیے لائحۂ عمل کا انتخاب خود ہی کر لیتی ہے بالکل اُسی طر ح اصنافِ ادب بھی اپنے لیے موضوع اور اظہار کے مواقع تلاش کر لیتی ہیں اس میں مسلک یا عقیدے کی طرف سے کوئی قدغن نہیں۔ تاہم ہندو شعرا نے بالعموم اپنے دھرم  اور ہندی معاشرت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔جن ہندو شعرا نے دوہے کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا ان میں سے چند نام درجِ ذیل ہیں :

کبیر داس (۱۴۴۰تا۱۵۱۸)، سنت کوی سورداس (۱۴۷۸تا۱۵۸۴)، تُلسی داس (۱۴۹۷تا۱۶۳۲)بہاری لال (۱۵۹۵تا۱۶۶۳)

۱۸۵۷کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب تاجر کے روپ میں آنے والے انگریز اپنے مکر کی چالوں سے تاج ور بن بیٹھے تو اس خطے کی تہذیب و ثقافت بھی اس سانحے سے متاثر ہوئی۔زندگی کے ہر شعبے پر اس سانحے کے مسموم اثرات مرتب ہوئے۔یورپی تہذیب کے غلبے کے باعث مقامی تہذیب کے ارتقا کی رفتار قدرے سست پڑ گئی۔نوے سالہ غلامی کے دور میں اس خطے کے باشندوں پر جو کوہِ سِتم ٹوٹا اس نے تو محکوم قوم کی امیدوں کی فصل غارت کر دی اور ان کی محنت اکارت چلی گئی۔جب لوگ پرا گندہ روزی اور پراگندہ دِل ہوں تو کہاں کے دوہے، کہاں کی رباعی اور کہاں کی غزل، سب کچھ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ دوسری اصنافِ سخن نے تو اس جان کنی کے عالم میں بھی اپنا ارتقائی سفر جاری رکھا لیکن دوہا ادیبوں کی تخلیقی توجہ سے محروم رہا۔جب آزادی کی صبحِ درخشاں طلوع ہوئی تو یورپی پیرتسمہ پا اور بیرونی طفیلی اپنی دُکان بڑھا گئے۔اس کے بعد دوہے کو بھی نئے سرے سے پنپنے کا موقع ملا۔دوہا نگاروں نے اپنے موثر اسلوب کے ذریعے زندگی کے تمام موسموں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔صرف دو مصرعوں میں قاری کو قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دکھا کر ان شاعروں نے قلب و نظر کو مسخر کر لیا۔ ان کے اسلوب میں جذبات، احساسات اور تخیل کی ندرت اور پا کیزگی کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے۔ دوہا نگاروں نے بالعموم  حُسن کی تجریدی کیفیت کی لفظی مرقع نگاری پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ ان کے اسلوب میں دو پہلو قابل توجہ ہیں ایک تو روحانیت کا عکاس ہے اور دوسرا مادیت کا پر تو لیے ہوئے ہے۔مادہ پرستی ایک تخلیق کار کو رومانیت کی وادی میں مستانہ وار گھومنے پر مائل کرتی ہے جب کہ روحانیت کے زیرِ  اثر تخلیق کار ما بعد الطبیعات اور مافوق الفطرت عناصر میں گہری دلچسپی لینے لگتا ہے۔دوہا نگاروں کے اسلوب میں ان دونوں کیفیات کا امتزاج دھنک رنگ منظرنامہ پیش کرتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں دوہا نگاری کے اسلوب میں ایک واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔پاکستانی دوہا نگاروں نے سرسی چھند کو اپنایا ہے جب کہ بھارت میں دوہا چھند کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت میں دوہا لکھنے والے شعرا نے پاکستانی شعرا سے الگ ایک نئی طرز ادا کو اپنایا ہے۔آزادی کے بعد پاکستان میں جن شعرا نے دوہا نگاری پر توجہ دیتے ہوئے اس صنف شعر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ان میں سے کچھ ممتاز شعرا کے نام درجِ ذیل ہیں :

احمد حسن مجاہد، الیاس عشقی، الطاف پرواز، امین خیال، بشیر منذر، تاج سعید، تاج قائم خانی، جلال میرزا خانی، جمال پانی پتی، جمیل الدین عالی، جمیل عظیم آبادی، دِل محمد خواجہ، ذکیہ غزل، رشید قیصرانی، رئیس احمد رئیس، شاعر صدیقی، شاہد جمیل، شمیم انجم وارثی، صہبا اختر، صابر آفاقی، طاہر سعید ہارون ڈاکٹر، عبدالعزیز خالد، عرش صدیقی،  ع۔س۔مسلم، فراز حامدی، قتیل شفائی، کشور ناہید،  مشتاق عاجز، مناظر عاشق ہر گانوی،  نذیر فتح پوری، وحید قریشی۔

آزادی کے بعد پاکستان میں دوہا نگاری کے فن پر تخلیق کاروں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ اکثر شعرا نے غزل کو اظہار و ابلاغ کا موثر ترین وسیلہ سمجھتے ہوئے اسی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔جن دوہا نگاروں نے لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے حرفِ صداقت کو زندگی کی تمام نسبتوں کا اہم ترین حوالہ اور ربطِ باہمی کا موثر ترین وسیلہ سمجھا، اُنھوں نے دوہے کو اجتماعی بھلائی کی ندا کے طور پر اپنے اسلوب میں جگہ دی۔ اُن کی یہ طرزِ فغاں بہت مقبول ہوئی اور پاکستان میں دوہا نگاری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔آلامِ روزگار کو حرف حرف بیان کرنے والے ان شعرا نے اپنی دوہا نگاری کی دھاک بٹھا دی اور اُن کے دوہوں کے مجموعے شائع ہوئے، جنھیں قارئین کی جانب سے بے حد پذیرائی نصیب ہوئی۔ یہ اِس صنف شاعری کی مقبولیت کی دلیل ہے۔جِن شعرا کے دوہوں کے مجموعے شائع ہو چُکے ہیں اُن میں خواجہ دِل محمد، جمیل الدین عالی، اِلیاس عشقی، پرتو روہیلہ، جمیل عظیم آبادی، رشید قیصرانی، تاج قائم خانی، طاہر سعید ہارون اور مشتاق عاجز شامل ہیں۔اُردو زبان میں دوہے کے ارتقا پر تحقیقی کام کا جو معیار ڈاکٹر عرش صدیقی نے پیش کیا اس کے اعجاز سے اس صنف شاعری کو تاریخی تناظر میں دیکھنے میں بہت مدد ملی۔ڈاکٹر عرش صدیقی کا عالمانہ تحقیقی مقالہ ’’پاکستان میں اُردو دوہے کا ارتقا‘‘ جو ۱۹۹۱میں شائع ہوا ادبی تحقیق کا وقیع نمونہ ہے۔اس گراں قدر تحقیقی مقالے میں دوہے میں طبع آزمائی کرنے والے اُن تمام ممتاز پاکستانی شعرا کے اسلوب کا مطالعہ شامل کیا گیا ہے جنھوں نے گزشتہ نصف صدی کے عرصے میں اس صنفِ شاعری کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ڈاکٹر عرش صدیقی خود بھی دوہے لکھتے تھے اس لیے اس تحقیقی مقالے میں ان کے دوہے بھی شامل ہیں۔دوہے کے ارتقا سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس تحقیقی مقالے کا مطالعہ بہت افادیت کا حامل ہے۔

مشتاق عاجز کا شمار پاکستان کے ممتاز شاعروں میں ہوتا ہے۔وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز اپنی دھُن میں مگن پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہتا ہے۔اُس کی انفرادی خصوصیات، جذباتی میلانات اور احساساتی کیفیات اُس کے اسلوب میں نمایاں ہیں۔اُس کا تخلیقی سفر گزشتہ چار عشروں پر محیط ہے۔اس عرصے میں اُس نے جس خلوص اور درد مندی کے ساتھ اپنے جذبات اور احساسات کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر شاعری کی ہے اُسے علمی و ادبی حلقوں نے بے حد سراہا ہے۔اُس کی نظموں، قطعات اور غزلیات کا مجموعہ ’’آئنے سے باہر ‘‘سال ۲۰۰۰میں شائع ہوا۔اس کی شاعری میں موثر ابلاغ کی مسحور کُن کیفیت اس کے منفر اسلوب کی مظہر ہے۔ موقع پرست عناصر اور استحصالی طبقے نے معاشرے اور سماج میں حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کا جو وتیرہ اپنا رکھا ہے اُس کے خلاف مشتاق عاجز نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا ہے۔حریتِ  فکر کا یہ نڈر مجاہد سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کی جد جہد میں پیہم مصروف رہا اور اپنے حصے کی شمع فروزاں رکھی۔روشنی کا یہ سفر جاری رہا اور سال ۲۰۰۸میں غزلیات پر مشتمل اُس کا دوسرا شعری مجموعہ ’’الاپ‘‘ منظر عام پر آیا۔اس کے ساتھ ہی وہ شہرت اور مقبولیت کی بُلندیوں پر جا پہنچا۔مشتاق عاجز کے دوہوں کا مجموعہ ’’سمپُورن ‘‘سال ۲۰۱۱ میں شائع ہوا۔’’سمپُورن ‘‘کے آغاز میں مشتاق عاجز کے اسلوب کے بارے میں چار اہم مضامین شامل اشاعت ہیں۔پہلا مضمون ’’سمپُورن ۔۔۔ ایک سُر ساگر ‘‘ ہے۔یہ تجزیاتی مضمون ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے لکھا ہے۔دوسرا مضمون ’’مترنم دوہے‘‘ بھارت کے عالمی شہرت کے حامل ادیب اور دانش ور اعجاز عبید نے لکھا ہے۔ اس مضمون میں پاکستان اور بھارت میں دوہے کے ارتقا پر روشنی ڈالی گئی ہے۔’’دوہے کا معجز ‘‘کے عنوان سے امین خیال کا لکھا ہوا تحقیقی و تنقیدی  مضمون متعدد حقائق کی گرہ کشائی کرتا ہے۔چوتھے مضمون ’’میں ناہیں سبھ توں ‘‘میں مشتاق عاجز نے اپنی تخلیقی فعالیت کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔اپنے اس مختصر مضمون میں مشتاق خیال نے قریب قریب پانچ عشروں پر محیط اپنے تخلیقی سفر سے قاری کو آگاہ کیا ہے۔ایک حساس ادیب کی زندگی کا سفر اور تخلیقی سفر تو جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے لیکن پے در پے آزمائشوں اور کٹھن حالات کا سامنا کرتے کرتے اس کا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔مشتاق عاجز کی تحریر کا ایک ایک لفظ زندگی کی صداقتوں اور تخلیقی تجربات کی افادیت کا مظہر ہے۔ عجز و انکسار کے پیکر اِس زیرک تخلیق کار نے جب دوہے کو تزکیہ نفس کا وسیلہ بنایا تو قارئینِ ادب پر اُس کی تخلیقی فعالیت کے نئے در وا ہوتے چلے گئے۔ان دوہوں کے مطالعہ سے بے حِس معاشرے کے سامنے متعدد چشم کشا صداقتیں پیش کی گئیں۔ مشتاق عاجز  نے اپنے  منفرد اسلوب کو وسیع مطالعہ، مشاہدۂ کائنات، زندگی کی حقیقی معنویت سے لبریز تصورات، خلوص اور درد مندی سے معطر جذبات اور متنوع تخلیقی اور ذہنی تجربات کی اساس پر استوار کیا ہے۔ زبان و بیان اور ہئیت کے نادر تجربات نے ان دوہوں کو زندگی کی حقیقی معنویت کا ترجمان بنا دیا ہے۔ان دوہوں میں رنج اور راحت، دُکھ اور سُکھ شادی و غم اور جذباتی نشیب و فراز کا باہمی تعلق اساسی کے بجائے وقوفی حیثیت کا حامل ہے۔ایک فطین تخلیق کار کی حیثیت سے مشتاق عاجز نے قارئینِ ادب پر واضح کر دیا ہے کہ جہاں شادمانی ہماری زندگی کے معمولات کو ترفع کی جانب لے جانے کا اہم ذریعہ ہے وہاں ہجوم یاس میں انسان کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا جاتا ہے اور یہ کیفیت زندگی میں استعدادِ کار کو پستی کی جانب دھکیل دیتی ہے۔تاہم اُس نے اس حقیقت کی تفہیم پر اصرار کیا ہے کہ اس جہاں میں شادی و غم تو ام ہیں۔اس لیے ہر با شعور انسان کے لیے عیش میں یادِ خدا اور طیش میں خوفِ خدا کی ذہن میں موجودگی کو یقینی بنانا بے حد ضروری ہے۔مشتاق عاجز نے دوہا نگاری کے فن کے جملہ اسرار و رموز کو پیشِ نظر رکھا ہے۔غزل کے مانند دوہے کا ہر شعر بھی ایک مستقل حیثیت اور واضح مفہوم رکھتا ہے۔اس کے دوہے اپنی جگہ پر ایک اکائی اور مستقل نوعیت رکھتے ہیں۔دوہے کے محض دو مصرعوں کو وہ گنجینۂ معانی کا طلسم بنا دیتا ہے۔اس نے دوہے کی دو ہزار برس کی روایت کو جس خوش اسلوبی سے اپنے فکر و فن کی اساس بنایا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔

مشتاق عاجز نے اپنے من اور اپنے فن میں ڈُوب کر زندگی کے حقائق کی غواصی میں جس انہماک کا ثبوت دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ زندگی کے کن موضوعات پر اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھانے کے مواقع میسر ہیں۔وہ ادب اور فنون لطیفہ کا نباض ہے اس لیے اس کی ہر تخلیق عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار اد ا کرتی ہے۔دوہے کی فنی اور جمالیاتی قدر و قیمت کے بارے میں وہ ایک واضح اندازِ فکر اپناتا ہے اور اظہار و ابلاغ میں ستاروں کو چھُو لیتا ہے۔ بادی النظر میں یہ حقیقت چونکا دیتی ہے کہ جہاں اور لوگوں کی راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے وہاں مشتاق عاجز پُورے اعتماد کے ساتھ خراماں خراماں چلتا ہوا منزل پہ جا کے دم لیتا ہے۔قرونِ وسطیٰ کے واقعات ہوں یا عہدِ جدید کی ترجیحات مجبوروں اور محروموں کے مسائل کا عنوان ہو یا الم نصیبوں کے گھائل ہونے کا گُمان، معرفت الٰہی کا بیان ہو یا حُسن و رُومان کی داستان،  چندے آفتاب چندے ماہتاب حسینوں کی سراپا نگاری ہو یا ہوا و ہوس میں حد سے گُزر جانے والوں کی دِل آزاری، علم و فضل کا احوال ہو یا معاشی اور معاشرتی جنجال، کارِ جہاں کے ہیچ ہونے کا تذکرہ ہو یا ہجر و فراق کی راہوں کے پُر پیچ ہونے کا شکوہ ہجر کی اذیت ہو یا وصل کی راحت غرض زندگی کا کوئی پہلو بھی اُس کے دِلِ بینا سے پوشیدہ نہیں رہتا۔تخلیقِ فن کے لمحوں میں اُس نے جس جگر کاوی کا ثبوت دیا ہے وہ اُس کی جدتِ اظہار، نُدرتِ تخیل، اسلوبیاتی صناعی اور زورِ بیاں سے ظاہر ہے۔ پرورشِ لوح و قلم کو مشتاق عاجز نے ایک توازن اور ذوقِ سلیم کا آئینہ دار بنا دیا ہے۔اپنی شاعری میں بالعموم اور دوہوں میں بالخصوص وہ مقامِ شوق کی اُس منزل پر فائز دکھائی دیتا ہے کہ قارئینِ ادب اُس کی کامرانیوں پر عش عش کر اُٹھتے ہیں۔اپنے دوہوں کے ذریعے اُس نے مقصدیت کی جو شمع فروزاں کی ہے اِسے وہ اپنی زندگی کا بیش بہا اثاثہ قرار دیتا ہے۔وہ پُوری دیانت کے ساتھ زندگی کی تعمیری اور اصلاحی اقدار کو اپنے فکر و فن کی اساس بنا کر تخلیقی فعالیت میں مصروف ہے۔وہ جدت پسندی کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن زندگی کی اقدار عالیہ کا بھی وہ شیدائی ہے۔وہ درخشاں روایات جنھیں مشتاق عاجز نے سدا حرزِ جاں بنائے رکھا اُن میں حق گوئی و بے باکی، راست گوئی، انسانیت کا وقار اور سر بُلندی، حریتِ فکرو عمل، بے لوث محبت، ایثار، خلوص اور دردمندی شامل ہیں اُس کے دوہے جہاں حُسن و جمال کی مسحور کُن کیفیات اور لازوال اقدار کو حقیقی تناظر میں سامنے لاتے ہیں وہاں ذہنی بیداری کویقینی بنا کر فکر و خیال کو مہمیز کر کے ذوقِ سلیم کو جِلا بخشتے ہیں اور تجسس پر مائل کرتے ہیں۔

مشتاق عاجز نے سمپُورن میں شامل دوہوں کو دس ابواب میں تقسیم کیا ہے۔یہ تقسیم موضوعاتی نوعیت کی ہے جو شا عر کی فکر پرور بصیرت کی مظہر ہے۔ابواب کے عنوانات ہی سے ان ابواب کے مشمولات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔قاری تجسس کے عالم میں ان ابواب کے مطالعہ پر مائل ہو جاتا ہے۔ دوہوں کے اس مجموعے کا مطالعہ کرتے وقت قاری ایک خوش گوار تجربے سے گُزرتا ہے۔جب کوئی نامانوس ہندی لفظ کسی دوہے میں استعمال ہوا ہو تو قاری کی آسانی کے لیے ہر صفحے کے فٹ نوٹ پر ایسے الفاظ کی فرہنگ اِس شامل کی گئی ہے۔اس طرح اظہار و ابلاغ کی راہ میں حائل معمولی دشواریوں پر قابو پا لیا گیا ہے۔شاعر کا یہ اندازِ  فکر غیر معمولی اہمیت اور افادیت کا حامل ہے، جس کی بدولت ادب کا عام قاری اس تخلیقی فن پارے کا استحسان کر سکتا ہے اور اس سے حظ اُٹھا کر اذہان کی تطہیر و تنویر کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔اس خطے کی صدیوں کی تہذیبی و ثقافتی اقدار کے ساتھ رشتہ و پیوند کا اظہار کرتے ہوئے شاعر نے سمپُورن کو بلا شُبہ ایک سُر ساگر بنا دیا ہے۔ سمپُورن کے دس ابواب درج ذیل ہیں :

دھرم اشلوک، ماٹی مان، مایا موہ، دھیان دھارا، گیان گیتا، روپ سروپ، برہن بین، پریم پنتھ، بجوگ روگ، سنجوگ۔

مشتاق عاجز کے دوہوں میں فکر و خیال کی نئی جہتیں اور جذبات واحساسات کی کی نئی صورتیں قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ ہیں۔اِ ن دوہوں میں متعدد علامات کا استعمال کیا گیا ہے جنھیں ایک ایسے نفسیاتی کُل کی موثر صورت سمجھنا چاہیے جس کے معجز نما اثر سے لاشعور کی حرکت و حرارت کو متشکل کرنے میں مدد مِلتی ہے۔آئیے اِس زیرک تخلیق کار کی گُل افشانیِ گفتار سے مزین اُس دھنک رنگ منظر نامے کی ایک جھلک دیکھیں جو سمپُورن میں موجود ہے:

غوث، قطب، ابدال، قلندر سمجھے کُن کا راگ

سَنت، ولی، اَوتار، پیمبر جانے سُر کی لاگ

جب تک تن کا تُونبا باجے پی کا راگ الاپ

جِس نے من کا تار بجایا نام اُسی کا جاپ

ماٹی کا تُو جایا پالا، ماٹی تیری ذات

مُٹھی بھر ماٹی کے پُتلے، تیری کیا اوقات

دانا ہے تو ماٹی ہو کر اپنا رُوپ نکھار

دانے سے پھُلواری پھُوٹے مہکے سب سنسار

مول سے تول برابر کر لے، کر سچا بیوپار

شام ڈھلے ہی اُٹھ جائے گا دُنیا کا بازار

رنگ برنگی تتلی دُنیا، کلی کلی مُنڈلائے

گُلشن گُلشن بالک بھاگے تتلی ہاتھ نہ آئے

چاہے جیسا پیچ لڑا لے اور بڑھا لے ڈور

تھوڑی دیر مین مچ جائے گا بو کاٹا کا شور

جو کرنا ہے آج ہی کر لے کل پر کام نہ ٹال

آج اناج کی فکر کرے سو ٹالے کل کا کال

میٹھی جِیبھا بول رسیلے من کو لیویں جیت

تیکھے بول سے گھائل ہوویں کیا بیری کیا مِیت

دھن دولت کو لاکھ سنبھالو، دھن کو لاگے چور

پُن کی دولت لو بھی ڈھونڈے بھاگے اس کی اور

بات کرے پھُلجھڑیاں چھُوٹیں بول بکھیریں باس

ہنسے تو جیسے جھرنے پھُوٹیں بُجھتی جائے پیاس

رُوپ نگر کی راج کُماری کرے دِلوں پر راج

راجے راج کُنور سب بھُولے راج سبھا کے کاج

سکھیاں پُو چھیں روگ جیا کا، اکھیاں کھولیں بھید

چُپ سادھوں تو آہیں نِکلیں، سینے میں سو چھید

رُوپ سروپ سنگھار کہاں کا، مانگ بھری ہے دھُول

آن بسو گھر آنگن ساجن جیوں جُوڑے میں پھُول

اُس بالی کے دانے سونا، دھُوپ جلے جو بالی

اُس بالی کی کیا ہر یالی، جودانوں سے خالی

سہج پکے سو مِیٹھا ہووے جانے سب سنسار

کچی کیری پِس کر چُورن، کَٹ کر بنے اچار

ساون بھادوں برسے برکھا، نِت برسیں مورے نین

جب سے پی پردیس سدھارے، آٹھ پہر کی رَین

من میں پالا دُکھ برہا کا، تن میں پالا روگ

دھرتی اور آکاش منائیں مُجھ دُکھیا کا روگ

ہر صورت میں چھب ساجن کی، ساجن ہر ہر جا

تَن مَن دَھنسب اَرپن کر دوں، ہر مورے گھر آ

نیل گگن پر چند ا چمکے برسے پی کا نُور

سورج اور ستاروں میں ہے پی کا نُور ظہور

مشتاق عاجز نے سمپُورن کے دوہوں میں اس خطے کی صدیوں کی اقدار و روایات کو شاعری کے قالب میں ڈھال کر جو تخلیقی تجربہ کیا ہے وہ لائقِ  تحسین ہے۔ہماری قومی، معاشرتی، سماجی اور ملی بقا کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ سیکھیں۔اس خطے کا ارضی و ثقافتی حوالہ ہی یہاں کا امتیازی وصف سمجھا جا سکتا ہے۔ زندگی کی یہی اقدار مختلف صورتوں میں اجتماعی لا شعور کا حصہ بن کر یادِ ایام کا رُوپ دھار چُکی ہیں۔ہمارے قومی کلچر، ادب، فنون لطیفہ، طرزِ معاشرت اور سماجی زندگی کے جُملہ معمولات میں ان کا واضح پر تو دکھائی دیتا ہے۔معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے چینی اور اضطراب کا قلع قمع کرنے کے لیے زندگی کے مسائل کے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔سمپُورن میں شامل دوہے عصری آگہی کے جذبات کو ایک منفرد روپ میں پیش کرتے ہیں۔ان کے معجز نما اثر سے خوداحتسابی اور اصلاحِ  احوال کی نئی صورت پیدا ہو گی، بے حسی اور جمود کا خاتمہ ہو گا اور جہانِ تازہ کی منزل کی جستجو شروع ہو گی۔یہ ہمارے قومی تشخص کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ ہماری مثال ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایک ایسی تحریر کے ما نند ہے جسے سیلِ زماں کی پُر شور موجیں کسی وقت بھی مٹا سکتی ہیں۔رخشِ حیات پیہم رو میں ہے نہ تو ہمارا پاؤں رکاب میں ہے اور نہ ہی اِس کی باگ ہماری گرفت میں ہے  نامعلوم یہ کس مقام پر تھم جائے۔ہم بے بسی کے عالم میں سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور تقدیر مسلسل انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑاتی چلی جا رہی ہے۔تقدیر کے چاک کو سوزنِ تدبیر سے کسی صورت میں بھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔مشتاق عاجز نے انسان کی عاجزی کا جو احوال بیان کیا ہے وہ چشم کشا صداقتوں سے لبریز ہے۔اِ س عالمِ آب و گِل میں قدرتِ کاملہ کی طرف سے اختیارِ  بشر پہ جو پہرے بٹھا دئیے گئے ہیں ہمیں اُن کا ادراک ہو نا چاہیے۔مشتاق عاجز کی حقیقت نگاری ہر دور میں اس کی مثبت سوچ کا اثبات کرے گی اور قاری اپنے من میں ڈُوب کر زندگی کے حقائق سے آشنا ہو تا رہے گا۔نہاں خانۂ دِل پر دستک دینے والے یہ دوہے وقت کی آواز پر کان دھرنے کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔اندھیروں کی دسترس سے دُور یہ شاعری سدا روشنی کے سفر میں رہے گی اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کر کے کارِ جہاں میں انسانی کردار کو سمجھنے میں مدد دے گی۔

کٹھ پُتلی اور ڈوری کا ہے جنم جنم کا ساتھ

جیسا چاہے ناچ نچائے ڈوری والا ہاتھ

٭٭٭

 

 

 

 

گیبریل گارسیا مارکیز:تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دِن اور

 

 

۱۷۔اپریل۲۰۱۴کو اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھا اُس میں گیبریل گارسیامارکیزکا نام بھی رقم تھا۔علم و ادب کی وہ شمع فروزاں  جِس نے ۶۔مارچ ۱۹۲۷کو صبح نو بجے کو لمبیا  کے ایک نسبتاً کم معروف اور چھوٹے سے قصبے اراکاٹاکا(Aracataca)سے روشنی کے سفر کا آغاز کیا تھا، موت کے بے رحم ہاتھوں نے اُسے ہمیشہ کے لیے گُل کر دیا۔میکسیکو سٹی کے شہرِ خموشاں کی زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسمان اپنے دامن میں چھُپا لیا۔ادبیاتِ عالم میں فکشن کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی سیلِ زماں کے تھپیڑوں سے زمیں بوس ہو گئی۔ پُوری دُنیا میں اُس کے کروڑوں مداح فرطِ غم سے نڈھال ہیں اور اُس کی دائمی مفارقت پر اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کر رہے ہیں۔اپنی مسحورکُن شخصیت اور منفرد اسلوب سے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتے ہوئے حقیقت نگاری کی طلسماتی کیفیات سے ید بیضا کا معجزہ دکھانے والے اس یگانۂ روزگار تخلیق کار نے اپنی تخلیقات کی قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے دُنیا بھر میں اپنے کروڑوں مداحوں کے دلوں کو مسخر کر لیا۔گیبریل گارسیا مارکیز کی وفات سے بیسویں صدی میں عالمی فکشن اور صحافت  کے ایک درخشاں عہد کا اختتام ہو گیا۔ایک رجحان سازادیب، جری صحافی، حقیقت پسندافسانہ نگار اور با کمال ناول نگار کی حیثیت سے اُس نے پُوری دُنیا میں اپنے مسحورکُن طلسماتی حققیت نگاری کے مظہر اسلوب کی دھاک بٹھا دی۔کولمبیا کی سر زمین سے آج تک اس قدر وسیع النظر اور جامع صفات ادیب نے جنم نہیں لیا۔گیبریل گارسیا مارکیز پہلا کو لمبیئن اور لاطینی امریکا کا چوتھا ادیب تھا جس نے ادب کا نوبل انعام حاصل کیا۔عملی زندگی میں اس نے اپنے متنوع تجربات و مشاہدات اور انسانیت کو درپیش حالات و واقعات کو نہایت بے باکی اور تفصیل کے ساتھ حقیقت پسندانہ انداز میں زیبِ قرطاس کیا۔اپنے عہد کے مقبول ترین ادیب کی حیثیت سے اُس کا نام تاریخِ  ادب میں آبِ زر سے لکھا جائے گا۔اُس کے اسلوب میں سپین کے ممتاز ڈراما نگار اور ناول نگار کرونٹس منگول ڈی (پیدائش :۱۵۴۷، وفات :۱۶۱۶) (Cervantes Minguel De (کے شگفتہ لہجے کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔جس کے ناول (Don Quixto)کو بے پناہ مقبولیت نصیب ہوئی۔یہ ناول جو ۱۵۴۷سے ۱۶۱۶کے عرصے میں منصۂ شہود پر آیا، اپنے عہد کا سد ا بہار ادب پارہ سمجھا جاتا ہے۔مصنف نے حُسن و رومان کی دلکش داستان کو اپنی گُل افشانیِ گفتار سے اس قدر شگفتہ بیانیہ انداز میں نثر کے قالب میں ڈھالا ہے کہ قاری کے دِل کی کلی کِھل اُٹھتی ہے۔ ایک زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار کی حیثیت اُس نے مطالعۂ ادب اور تخلیق ادب ہی کو اپنا نصب العین بنا رکھا تھا۔روزانہ آٹھ گھنٹے ادب کے لیے مختص کر کے اُس نے تخلیقی عمل کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر نے کی سعی کی۔یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ کرونٹس منگول ڈی کے بعد جو شہرت، مقبولیت اور پذیرائی گیبریل گارسیا مارکیز کے حصے میں آئی ہے اِس میں اُس کا کوئی شریک و سہیم نہیں۔ایسے ادیب اپنے ابد آشنا اسلوب کی بنا پر نایاب سمجھے جاتے ہیں اور تاریخ ہر دور میں اُن کے فقید المثال ادبی کام اور عظیم نام کی تعظیم کرتی ہے۔اُس نے اپنی لائق صد رشک و تحسین ادبی کامرانیوں سے وطن اور اہلِ وطن کو پُوری دنیا میں معزز و مفتخر کر دیا۔ عالمی ادبیات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ بیسویں صدی میں جن ناول نگاروں نے مقبولیت، اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے کام یابی کے نئے باب رقم کیے گبریل گارسیا مارکیز اُن میں سے ایک تھا۔اُس کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے شہرۂ آفاق ناول ’’One Hundred Years of Solitude‘‘کا دُنیا کی تیس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا۔اس ناول پر مصنف کو چار بین الاقوامی ایوارڈز عطا کیے گئے۔ اُس کو ملنے والے اہم ایوارڈز کی تفصیل درجِ ذیل ہے :

1.Neustadt International Prizefor Literature1972,2.Nobel Prize in Literature 1982

۱۹۷۰میں اس کے ناول(One Hundred Years of Solitude )کا گریگوری رباسا(Gregory Rabassa)نے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔اس ترجمے میں تخلیق کی جو چاشنی ہے وہ مترجم کے ذوقِ سلیم کی مظہر ہے۔اسی وجہ سے اس ترجمے کو گیبریل گارسیا مارکیز نے بہت پسند کیا۔اکثر ناقدین ادب کی رائے ہے کہ یہ انگریزی ترجمہ اپنے دلکش اسلوب اور بے ساختگی کے اعتبار سے اصل سپینش تخلیق سے کسی طرح کم نہیں۔ اس ناول کو امریکہ میں سال کی بارہ بہترین ادبی تخلیقات میں شامل کیا گیا۔فرانس میں بھی اس ناول کو غیر ملکی زبانوں کے ادب کی بہترین تصنیف قرار دیا گیا۔اٹلی میں ۱۹۶۹میں اس ناول کو ’’Chianciano Aprecia‘‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔اشاعت کے بعد صرف ایک ہفتے میں اِ س ناول کی آٹھ ہزار کا پیاں فروخت ہوئیں جب کہ مجموعی طور پر اس ناول کی تیس ملین کا پیاں فروخت ہوئیں۔ ناول ’’تنہائی کے ایک  سو سال‘‘ میں ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی کی کیفیت اور طلسمِ ہوش رُبا کی فسوں کاری ادب کے قاری کو مسحور کر کے اُس پر ہیبت طاری کر دیتی ہے۔تخلیق کار نے طلسماتی اثر آفرینی کو ایسے دلکش انداز میں رو بہ عمل لانے کی سعی کی ہے کہ بیانیہ قاری کے قلب اور روح کی گہرائیوں میں اُتر جاتا ہے۔طلسماتی کیفیات کی یہ فضا کئی کرداروں کو سامنے لاتی ہے جن میں رمّال، نجومی، ستارہ شناس، فال نکالنے والے، قسمت کا حال بتانے والے ا ور مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کرنے والے اہم کردار بہت نمایاں ہیں۔ اُس کا ناول ’’تنہائی کے ایک سو سال‘‘ ایک خاندان بوندیا (Buendia)کی اجتماعی زندگی کے نشیب و فراز کے گرد گھو متا ہے۔ ایک نسل کا دوسری نسل کے ساتھ تعلق اور اُن کے مابین پائے جانے والے فکری فاصلے قابلِ توجہ ہیں۔ستارے جو کہ خود فراخیِ افلاک میں خوار و زبوں ہیں اُنھیں انسانی تقدیر کے ساتھ وابستہ سمجھنے کے حیران کُن واقعات سامنے آتے ہیں یہاں طلسمِ ہوش رُبا کی جو  صد رنگ کیفیت جلوہ گر ہے اُسے دیکھ کر قاری ششدر رہ جاتا ہے۔کئی عامل ہیں جو طلسمی عمل کے زیرِ اثر آ جانے والے افراد کے ذریعے  نہ ہونے کی ہونی کے کھیل کے بارے میں چونکا دینے والے واقعات کو بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ان تمام محیر العقول واقعات اور مافوق الفطرت حکایات کا تعلق ایک پُر اسرار قصبے ’’مکونڈو ‘‘(Macondo)سے ہے۔مکونڈو کسی خاص مقام کا نام ہر گز نہیں بل کہ جس انداز میں اس مقام کے محلِ وقوع اور لوگوں کی بُود و باش کی لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے اُس سے یہ قیاس تقویت پاتاہے کہ یہی وہ قصبہ ہے جہاں گیبریل گارسیا مارکیز کی آنول نال گڑی ہے۔گیبریل گارسیا مارکیز نے اپنے تخیل کی جو لانیوں سے اس پُر اسرار قصبے کے بارے میں جو سماں باندھا ہے وہ قاری کو ایک ایسی موہوم طلسماتی فضا میں لے جاتا ہے جہاں ہر طرف تنہائی کے باعث ہو کا عالم ہے۔اس شہرِ ناپُرساں میں کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہیں۔اگر یہاں کوئی شخص  بیمار پڑ جائے تو اُن کی تیمار داری اور علاج پر توجہ دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔اس سے بڑھ کر المیّہ کیا ہو گا کہ قسمت سے محروم شخص کی موت کی صورت میں بھی کوئی نوحہ خواں نہیں ہوتا جو اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کر کے تزکیۂ نفس کی صورت پید ا کرے۔معاشرتی زندگی میں جب احساسِ زیاں عنقا ہو جائے تو مسلسل شکستِ دل کے باعث وہ بے حسی پیدا ہو جاتی ہے کہ کوئی بھی بچھڑ کے چلا جائے گریہ و زاری کی نوبت ہی نہیں آتی۔دُنیا کے اکثر ممالک میں دیہی زندگی کے مسائل اسی نوعیت کے ہیں کہ وہاں کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا ہے۔گرد و غُبار سے اٹا ہوا ماحول، توہم پرستی، بے عملی، یاسیت، صحت و صفائی کی غیر اطمینان بخش صُورتِ حال اور مواصلات کی ناکافی سہولیات نے دُور دراز کے قصبات کے مکینوں کو کنویں کے مینڈک کے مانند بنا دیا ہے۔ان لوگوں کی زندگی صرف ایک ڈگر پر چلتی رہتی ہے اور زندگی کے بدلتے ہوئے موسموں ے اُنھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔اُن کی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے لیکن وہ جن صبر آزما حالات سے گُزرتے ہیں اُن کے باعث اُن کا پُورا وجود کِرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔جب اُن کی مسافت کٹ جاتی ہے تو سفر کی دھُول ہی اُن کا پیرہن بنتا ہے۔ جب مصنف کو اپنے آبائی قصبے کے وہ اُداس بام اور کھُلے در یاد آتے ہیں جہاں مایوسی، محرومی، بے بسی اور اُداسی بال کھولے آہ و فغاں میں مصروف ہے تو وہ تنہائیوں کی مسموم فضا میں اس موہوم قصبے اور اپنے آبائی گھر کو یاد کرتا ہے  تواُس کی ذہنی کیفیت کچھ اس طرح ہوتی ہے :

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

گیبریل گارسیا مارکیز نے ہر قسم کے ظلم، استحصال اور جبر کے خلاف کھُل کر لکھا اور کبھی کسی مصلحت کی پروا نہ کی۔اُس کی حقیقت نگاری بعض اوقات سراغ رسانی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ تجسس سے لبریز اُس کی تحریروں کی مقبولیت بہت زیادہ ہے۔ اُس کی تصانیف کو دنیا میں بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتب میں شمار کیا جاتا ہے۔عالمی ادبیات بالخصوص فکشن  میں یہ وہ عدیم النظیر کامیابی ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ گبریل گارسیا مارکیز نے ستاروں پر کمند ڈالی ہے۔اپنے اسلوب میں اُس نے جو طرزِ اد ایجاد کی وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔اختر الایمان نے کہا تھا :

کون ستارے چھو سکتا ہے

راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے

گیبریل گارسیامارکیز کو تنہائی کو نوحہ گر اور زندگی کی حقیقی معنویت کے با کمال صورت گر کی حیثیت سے دنیا بھر میں عزت و احترام کا اعلا مقام اصل تھا۔ اس کی وفات سے وفا کے سارے ہنگامے ہی عنقا ہو گئے ہیں۔اس کے زینۂ ہستی سے اُترتے ہی ہر طرف ہو کا عالم دکھائی دیتا ہے۔اب تو فروغِ گلشن و صوتِ  ہزار کا موسم خیال و خواب بن گیا ہے۔وطن، اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت اس کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔اس نے تخلیق کاروں کو اس جانب متوجہ کیا کہ تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔اپنے منفرد اسلوب سے اُس نے تخلیقِ ادب اور تنقید کے تمام معائر کو اسی نئی جہت عطا کی جو اقتضائے وقت کے عین مطابق تھی۔اپنے افکار کی جولانیوں، بصیرت افروز خیالات اور ذہن و ذکاوت سے اُس نے قارئینِ  ادب کے اذہان کی تطہیر و تنویر کی، تخلیقی استعداد کو صیقل کیا اور فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیا کہ قارئینِ ادب ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی کیفیت سے آشنا ہوتے چلے گئے۔اس کے فکر پرور خیالات اور دل کش اندازِ  بیان نے جمود کا خاتمہ کر دیا اور فکر و نظر کی کایا پلٹ دی۔ وہ قطرے میں دجلہ اور جُزو میں کُل کی کیفیت دکھا کر قاری کو اپنی طلسماتی حقیقت نگاری سے حیرت زدہ کر دیتا ہے۔زندگی کی برق رفتاریوں میں اُس کا اسلوب دما دم رواں رہنے کی نوید سناتا ہے اور حیاتِ جاوداں کا راز ستیزمیں نہاں ہونے کے بارے میں حقائق کی گرہ کشائی کرتا ہے۔ادب کا قاری اس انہماک کے ساتھ اُس کی تخلیقات کا مطالعہ کرتا ہے کہ اُس کا مرحلۂ شوق کبھی طے ہی نہیں ہوتا۔آزادیِ اظہار، حریتِ فکر و عمل اور انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے لیے اُس کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔اس نے جس جامعیت اور ثقاہت کے ساتھ معاشرتی زندگی کے ارتعاشات اور نشیب و فراز بیان کیے ہیں وہ اُس کی انفرادیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔قومی اور معاشرتی زندگی کے واقعات، سماجی زندگی کی اقدار و روایات، انسانیت کو درپیش مسائل و مشکلات اور اقوامِ عالم کے مناقشات و سانحات پر وہ حریتِ ضمیر کا علم بلند رکھتا ہے۔اس کے اسلوب میں تاریخ کے مسلسل عمل، تہذیبی و ثقافتی اقدار کے معاملات اور عصری آگہی کے بارے میں ایک واضح اندازِ فکر پایا جاتا ہے۔انسان زندگی کی رعنائیوں میں کھو جاتا ہے اور اپنے انجام سے بے خبر ہو جاتا ہے۔کارِ جہاں کے بے ثبات ہونے کا یقین ہونے کے باوجود فرصتِ  زندگی کا اسراف ایک بو العجبی کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔آج کے دور کا سانحہ یہ ہے کہ انسان آب و گِل کے کھیل میں اُلجھ کر رہ گیا ہے اور یہ تماشا شب و روز جاری ہے۔ سسکتی انسانیت کے لرزہ خیز مسائل جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں کے رو بہ رو بیان کرنا پڑتے ہیں۔دیکھنے والے محوِ حیرت ہیں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔گیبریل گارسیا مارکیز نے تخلیقِ  فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کی ہے وہ اُس کے ذہن و ذکاوت اور ذوق سلیم کی دلیل ہے۔اُس نے کبھی درِ کسریٰ پر صدا نہ کی، اُسے معلوم تھا کہ ان کھنڈرات میں موجود حنوط شدہ لاشیں درد سے عاری ہیں۔اپنے منفرد اسلوب میں اُس نے افکارِ  تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جُستجُو کی جو راہ دِکھائی ہے، اُس سے قاری کے دل میں ایک ولولۂ تازہ پیدا ہوتا ہے اور وہ بیزار کُن جامد و ساکت ماحول سے گلو خلاصی حاصل کر کے نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کرنے کی دھُن میں مگن ہو جاتا ہے۔ بے یقینی اور بے عملی کے تارِ عنکبوت ہٹا کر یقین و اعتماد کے ساتھ زندگی گزارنے کا جو انداز اُس کی اسلوب میں نمایاں ہے وہ قارئینِ ادب کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہے۔اپنی تخلیقی تحریروں کے اعجاز سے اُس نے تخلیقِ ادب کے لاشعوری محرکات کو تنوع عطا کیا، خیالات، مشاہدات اور تجربات کی نُدرت سے تخلیقِ ادب میں دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آیا۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اُس کی تحریریں ایک کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہیں جس کے معیار پر ہر دور میں ادب پاروں کو پرکھا جا سکے گا۔ مستقبل کے تخلیق کاراس لافانی ادیب کے اسلوب کو پیشِ نظر رکھ کر تخلیقِ ادب میں اپنی سمت کا تعین کریں گے۔

گیبریل گارسیا مارکیز کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔اُس کا والد ملازمت کے سلسلے میں کئی شہروں میں مقیم رہا۔گیبریل گارسیا مارکیز کے دس بھائی تھے۔۱۹۲۹میں اُس کے والدین نے ترکِ سکونت کی اور گیبریل گارسیا مارکیز کو کم عمری ہی میں اپنے ننھیال پہنچا دیا گیا۔اپنے ننھیال میں اُسے جو ماحول میسر آیا اس کے اثرات بہت دُور رس ثابت ہوئے۔اُس کی نانی اپنے کم سِن نواسے کو رات کوسونے سے قبل جو کہانیاں سُناتی وہ مافوق الفطرت عناصر کے بارے میں ہوتی تھیں۔ان کہانیوں میں جِن، بھُوت، دیو، آدم خور، پریاں، چڑیلیں اور ہوائی مخلوق کے غیر معمولی واقعات کے بیان سے تجسس، خوف اور دہشت کی فضا پیدا کی جاتی۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کہ بچپن کے یہ واقعات اِس ادیب کے مستقبل کے تخلیقی تجربات کی اساس بن گئے۔ زمانہ طالب علمی ہی سے گیبریل گارسیا مارکیزکو ادب اور صحافت سے گہر ی دلچسپی تھی۔ جب وہ کارٹا گینا یونیورسٹی (University of Cartagena)میں زیرِ  تعلیم تھا تو وہاں کے علمی و ادبی ماحول میں اُس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھار ملا۔اس کے احباب عقیدت سے اُسے ــ’’گابو‘‘(Gabo)کے نام سے پُکارتے تھے۔اُس زمانے میں نو عمر گیبریل گارسیا مارکیز کے مزاج میں جو غیر معمولی شرمیلا پن اور بیزار کُن سنجیدگی پائی جاتی تھی اُس کے باعث وہ حُسن و رُومان ہم عمر طلبا و طالبات اور دوستوں کے ساتھ اٹکھیلیوں سے بالکل دُور رہتا تھا۔شاید اسی وجہ سے اُس کے ساتھی اُسے بُوڑھا آدمی کہہ کر چھیڑتے اور اُس کا تمسخر اُڑاتے۔اس کے باوجود یہ حساس ادیب اور مستقبل کا  زیرک تخلیق کار نہایت تحمل سے دوستوں کی کج رائی پر مبنی سب کچھ سنتا اور یہ سب باتیں خندۂ استہزا میں اُڑ ا دیتا اور کبھی دل بُرا نہ کرتا۔۱۹۴۷میں اپنے والدین کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے گیبریل گارسیا مارکیز نے نیشنل یو نیورسٹی میں قانون کی تعلیم کے سلسلے میں داخلہ لیا لیکن بعض نا گزیر حالات کے باعث یہ بیل منڈھے نہ چڑ ھ سکی اور اُس نے قانون کے بجائے صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔حالاتِ حاضرہ اور صحافت سے اُسے قلبی لگاؤ تھا۔اُس کا خیال تھا کہ زندگی کے مسائل ے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُس نے زندگی بھر حریتِ  فکر و عمل پر اصرار کیا اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔یونیورسٹی آف کارٹاگینا(University of Cartagena)سے فارغ التحصیل ہونے والے اِس یگانۂ روزگار فاضل نے صحافت، افسانہ نگاری، ناول نگاری اور علم بشریات میں اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھا دی۔ ۱۹۵۸میں اُس کی شاد ی مرسیڈس بارچا(Mercedes Barcha)سے ہوئی جو اُس سے پانچ سال چھوٹی تھی۔باہمی افہام و تفہیم اور پیمانِ  وفا کی اساس پر استوار ہونے ولا یہ بندھن نہایت کام یاب رہا اور اُس کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔یہ دونوں بیٹے اب عملی زندگی میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔اب بیوگی کی چادر اوڑھے  مرسیڈس بارچا اپنے عظیم شوہر کو یاد کر کے اُسے آہوں اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتی ہے۔ ایک وسیع المطالعہ ادیب اور جری صحافی کی حیثیت سے گبریل گارسیا مارکیز  ‘

کا بواد منطن کو سو رنگ سے با نے عالمی ادبیات کا عمیق مطالعہ کیا تھا۔اُس نے بیسویں صدی کے ادب پر گہری نظر رکھی اور اس کی روشنی میں اپنے لیے ایک ٹھوس اور قابلِ عمل لائحۂ عمل کا انتخاب کیا۔برطانیہ کی ادیبہ ورجینا وولف (Virginia Woolf)پیدائش :۲۵جنوری ۱۸۸۲، وفات ۲۸مارچ ۱۹۴۱کی تصانیف اُسے پسند تھیں۔نوبل انعام یافتہ امریکی ادیب ولیم فالکر(  William Faulker) پیدائش ۲۵۔ستمبر ۱۸۹۷، وفات ۶جولائی ۱۹۶۲، کے اسلوب کو بھی اُس نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔گیبریل گارسیا مارکیز کے اسلوب میں تاریخ، تہذیب اور معاشرت کے بارے میں جو مثبت شعور و آگہی موجود ہے اُس کے سوتے ادب کے وسیع مطالعہ سے پھُوٹتے ہیں۔اُس کی تخلیقی فعالیت میں کلاسیکی ادب اور جدید ادب کی اقدار و روایات کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔تاہم اُس نے اپنا تزکیہ نفس کرنے کے لیے جو طرزِ فغاں ایجاد کی وہ اُس کی پہچان بن گئی۔اُس کا اسلوب اُس کی ذات کی صورت میں اُس کی بصیرت کا اثبات کرتا ہے۔موضوعات کے اعتبار سے اِس میں تانیثیت، استعماری نظام کی مخالفت دیہی تہذیب و معاشرت اور جسم فروش رذیل طوائفوں کے جنسی جنون کی کہانیاں جن میں حقیقت نگاری اور فطرت نگاری پر توجہ دی گئی ہے قابلِ ذکر ہیں۔  اُس کی اہم ترین تصانیف درج ذیل ہیں :

  1. One Hundred Years of Solitude,2.The Autumn of Patriarch,3.Love in the Time of Cholera

اپنے والدین کی داستانِ محبت کو گیبریل گارسیا مارکیز نے اپنی تصنیف ’’Love in the Time of Cholera‘‘میں پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے۔مصنف کی گُل افشانی ء گفتار قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔محبت تو ایک چنگاری ہے جو عمر کے کسی حصے میں بھی بھڑک سکتی ہے۔محبت کے بارے میں یہ تاثر غلط ہے کہ یہ بڑھاپے میں نہیں ہو سکتی۔بعض لوگوں کی رائے ہے کہ محبت کوئی سرکاری ملازمت تو ہے نہیں کہ جو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد ریٹائرمنٹ پر منتج ہوتی ہے اور اس کے بعد کوئی بھی مُلازم سرکاری ملازمت کرنے کا اہل نہیں رہتا۔گیبریل گارسیا مارکیز یa انفر ر قرج (گلبر دش نجاپنے مشاہدات کی بان پر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ دو پیار کرنے والے اپنے جذبات کو حدودِ وقت میں مقید نہیں رکھ سکتے۔گو ہاتھ میں جنبش نہ ہو مگر انسان کی آنکھوں میں تو دم ہوتا ہے، وہ حُسن کے جلووں سے فیض یاب کیوں نہ ہو؟بے شک اعضا مضمحل ہو جائیں اور عناصر میں اعتدال کا بھی فقدان ہو لیکن محبت کا  جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ گیبریل گارسیا مارکیز کا خیال ہے کہ بعض عشاق تو زندگی کے سُنہری دنوں یعنی جب وہ ستر برس کے ہو چُکے ہوتے ہیں، میں بھی کسی حسینہ کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہو جاتے ہیں۔اس مرحلۂ زیست میں ہر سُو بکھرے ہوئے موت کے جال بھی محبت اس طرح کی والہانہ محبت کرنے والوں کے لیے سدِ راہ نہیں بن سکتے۔گبریل گارسیا مارکیز نے اسی سال کے معمر جوڑے کی داستانِ محبت کا احوال بیان کیا ہے جس نے خلوص اور چاہت کے رشتے میں منسلک ہو کر عہد وفا استوار کیا اور اسے علاجِ گردشِ  لیل و نہار سمجھتے ہوئے اُسے گور کنارے پہنچنے کے باوجود پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی۔عشق خواہ جوانی کا ہو یا ضعیفی کا کبھی پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔اُس کے اسلوب میں ارتقا کا سلسلہ زندگی بھر جاری رہا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے اسلوب میں نکھار آتا چلا گیا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُس کی ہر تصنیف میں ایک نیا انداز اپنا یا گیا ہے وہ پامال راہوں اور کلیشے کے سخت خلاف تھا۔نقال، چربہ ساز، سارق اور کفن دُزد لفاظ حشراتِ  سخن کے خلاف اس نے زندگی بھر قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔خوب سے خوب تر کی جانب اس کا تخلیقی سفر جاری رہا۔جہاں تک اسلوب کا تعلق ہے کو ئی بھی تخلیق کار اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے کوئی اسلوب منتخب نہیں کرتا بل کہ اسلوب تو ایک تخلیق کار کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسلوب کی مثال ایک چھلنی کی سی ہے جس میں سے ادبی تخلیق کار کی شخصیت چھن کر باہر نکلتی ہے۔گیبریل گارسیا مارکیز کے اسلوب میں جلوہ گر اُس کی مستحکم شخصیت کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔اُس کا اسلوب موضوع، مواد، ذہنی کیفیت اور تخلیقی وجدان کا مظہر قرار دیا جا سکتا ہے۔ معاشرے اور ماحول میں وہ جو کچھ دیکھتا ہے اور زندگی کے جتنے موسم اُس کے قلب اور روح کو متاثر کرتے ہیں وہ سب کے سب اُس کے اسلوب میں دھنک رنگ منظر نامے کی صورت میں قاری کی نگاہوں میں رچ بس جاتے ہیں۔طلسمی حقیقت نگاری کے سوتے فکر پرور خیالات ا ور بصیرت افروز تجربات و مشاہدات سے پھُوٹتے ہیں۔اسی لیے طلسمی حقیقت نگاری قلبی، روحانی اور وجدانی کیفیات پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔طلسمی حقیقت نگاری کو فنون لطیفہ بالخصوص ادب، فلم اور ڈراما میں بہت پذیرائی ملی۔بعض اوقات تخلیق کار یہ تاثر دینے میں کام یاب رہتے ہیں کہ طبعی موت کے بعد بھی بعض کردار ہمارے گرد و نواح میں موجود رہتے ہیں اور نسل در نسل ہماری زندگی کے معمولات میں ناقابلِ یقیں انداز میں دخیل رہتے ہیں۔ امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا کا احساس اسی کا ثمر ہے۔

ادبی تحریکیں فروغِ  علم و ادب میں کلیدی کردا ر ادا کرتی ہیں۔گیبریل گارسیا مارکیز کا تعلق بھی ایک ادبی تحریک سے تھا۔یہ تحریک لاطینی امریکہ بُوم (Latin America Boom)کے نام سے جانی جاتی ہے۔اُس کے رفقائے کار میں مابعد جدیدیت پر دسترس رکھنے والے جولیو کارٹزار (Julio Cartazar)اور نوبل انعام یافتہ ادیب ماریو ورگاس للوسا(Mario Vargas Llosa)کے نام قابلِ ذکر ہیں۔بیسویں صدی کے وسط میں عالمی ادبیات میں فکشن میں جس رجحان کو پذیرائی ملی اُسے طلسماتی حقیقت نگاری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔گبریل گارسیا مارکیز کے اسلوب میں طلسماتی حقیقت نگاری کی کیفیت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔طلسماتی حقیقت نگاری کو اپنے اسلوب کی اساس بنا کر جب ایک تخلیق کار مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو وہ منطق و توجیہہ سے قطع نظر فکشن میں کردار نگاری کو ایسی منفرد بیانیہ جہت عطا کرتا ہے جو قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔اسلوب کی غیر معمولی دل کشی، حقیقی تناظر، موہوم تصورات، مافوق الفطرت عناصر کی حیران کُن کرشمہ سازیاں اور  اسلوب کی بے ساختگی قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے اور دل سے نکلنے والی بات جب سیدھی دل میں اُتر جاتی ہے تو قاری  اش اش کر اُٹھتا ہے۔گیبریل گارسیا مارکیز نے اپنے متنوع تخلیقی تجربات کے اعجاز سے عالمی ادبیات میں تخلیقِ ادب کو متعدد نئی جہات  سے آشنا کیا۔اُس کے نئے، منفرد اور فکر پرور تجربات گلشنِ ادب میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند تھے۔ان تجربات کے معجز نما اثر سے جمود کا خاتمہ ہوا اور تخلیقی فعالیت کو بے کراں وسعت اور ہمہ گیری نصیب ہوئی۔اُس نے حقیقت نگاری کے مروجہ روایتی اندازِ فکر کے بجائے طلسمی حقیقت نگاری کے مظہر ایک نئے جہان کی تخلیق پر توجہ مرکوز رکھی۔اُس کے اسلوب میں حیرت کا عنصر نمایاں ہے۔اُس کے ناول اور افسانے دِل دہلا دینے والے مناظر، لرزہ خیز اعصاب شکن سانحات کی لفظی مرقع نگاری، خوف ناک کرداروں کی مہم جوئی اور جہد للبقا جیسے موضوعات سے لبریز ہیں۔اُس نے غیر معمولی انداز میں زندگی کے معمولی واقعات کو بیان کر کے پتھروں سے بھی اپنے اسلوب کی ا ثر آفرینی کا لوہا منوایا ہے۔زندگی اور موت کے موضوعات ہی کو لے لیں انھیں گیبریل گارسیا مارکیز نے جس دل کش انداز میں زیبِ قرطاس کیا ہے وہ اُس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے اس سے آگے کا سفر تھوڑا سا دم لے کر شروع کیا جاتا ہے۔موت کے بعد کی روداد کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔گیبریل گارسیا مارکیز نے اس موضوع پر بھی اپنے تخیل کی جولانیاں دکھائی ہیں۔اپنے لا زوال اسلوب سے گیبریل گارسیا مارسیا نے گلشنِ ادب کو جس طرح نکھارا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔  اُس نے اپنی بے مثال  ادبی کامرانیوں سے  لاطینی امریکہ کے ادب کو ثروت مند بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔اُس نے تخلیق ادب، تنقید و تحقیق اور اظہار و ابلاغ کے مروجہ معائر کو یکسر بد ل دیا اور واضح کیا کہ قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے متمتع تخلیقی فعالیت کو کسی معیار یا طریقِ کار کی تقلید کی احتیاج نہیں، اور نہ ہی اُسے کسی کی تصدیق اور تائید کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے لیے خود ہی لائحۂ عمل کا انتخاب کرتی ہے اور آنے ولا وقت اُس کے معیار اور مقام کے بارے میں فیصلہ صادر کرتا ہے۔

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

 

اگرچہ گیبریل گارسیا مارکیز نے اس عالمِ آب و گِل سے اپنا ناتا توڑ کر عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا ہے لیکن اُس کی حسین یادوں سے دامنِ دل ہمیشہ معطر رہے گا۔اُس کی دائمی مفارقت کے صدمے سے نڈھال دنیا بھر میں اُس کے کروڑوں مداح سکتے کے عالم میں ہیں۔موت سے کسی کو رستگاری نہیں آج وہ تو کل ہماری باری ہے۔رخشِ حیات مسلسل ر و میں ہے ہمارا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی ہمارا پاؤں رکاب میں۔نامعلوم کس مرحلے پر کُوچ کا نقارہ بج جائے اور سو برس کے سامان کے باوجود ہم ایک پل کے بارے میں بھی کچھ نہ جان سکیں۔ دنیائے دنی کو نقشِ فانی سمجھنا چاہیے لیکن گیبریل گارسیا مارکیز کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ حیرت اور حقیقت کو تخیل کی آمیزش سے ابد آشنا بنانے والے اس لافانی تخلیق کار کے اسلوب پر دنیا بھر میں ہزاروں مضامین لکھے گئے ہیں اور یہ سلسلہ غیر مختتم ہے۔اُس کے الفاظ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور اُس کا نام اُفقِ ادب پر مِثلِ آفتاب ضو فشاں رہے گا۔وہ ایک ایسی دُنیا کا مکین ہے جہاں فکر و خیال کے گُل ہائے رنگ رنگ اپنی سدا بہار عطر بیزی سے قریۂ جاں کو معطر کرتے رہتے ہیں۔اس دنیا کی فصلِ گُل کو اندیشۂ زوال نہیں۔اُس نے فکر و خیال کی انجمن آرائی ا ور خوابوں کی خیاباں سازیوں سے جو سماں باندھا ہے وہ رہتی دنیا تک قارئینِ ادب کے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتا رہے گا۔اس نے طلسمی حقیقت نگاری کی جس دنیا میں اپنا مسکن بنایا ہے وہ سیلِ  زماں کے تھپیڑوں سے بالکل محفوظ رہے گا۔ایک زیرک تخلیق کار اپنے ذہن و ذکاوت کے اعجاز سے طلسمی حقیقت نگاری کی جو  دنیا  آباد کرتا ہے وہ قارئینِ ادب کے فکر و خیال میں رچ بس جاتی ہے۔طلسمی حقیقت نگاری کی دنیا کی اقدار و روایات تہذیبی ارتقا کے مانندنسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔اسی لیے سمے کے سم کے ثمر سے بھی اس کی رعنائی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔گیبریل گارسیا مارکیز ناول اور افسانے کی طلسمی حقیقت نگاری کی اقلیم کا بے تاج بادشاہ تھا۔اس اقلیم میں اُس کی عظمت فکر کا ڈنکا بجتا رہے گا اور اس کے اسلوب کا سکہ چلتا رہے گا۔قارئینِ ادب اُس کی کتابوں کا مطالعہ کر کے اُس فکر و خیال کی جولانیوں اور اشہبِ  قلم کی روانیوں اور بصیرت و وجدان کی بے کرانیوں میں کھو جائیں گے۔وہ خواب میں بھی اُس کے ابد آشنا تصورات، روح پرور خیالات اور یادوں کے طلسمات سے دلوں کو آباد رکھیں گے۔عقیدتوں، محبتوں اور خلوص کا یہ تعلق ہمیشہ قائم رہے گا۔

مجھے لمحے نہیں صدیاں سُنیں گی

میری  آواز  کو محفوظ رکھنا

٭٭٭

 

 

 

        احمد تنویر :اُٹھ گئے کیسے کیسے پیارے لوگ

 

 

پاکستان کے قدیم تاریخی شہر جھنگ صدر میں مقیم ممتاز ادیب، دانش ور، نقاد، محقق اور سماجی کا رکن احمد تنویر نے  ۱۵۔جولائی۲۰۰۶کو دائمی مفارقت دی۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان علم و ادب تھا جس کی علمی فضیلت، ذہانت،  انسانی ہمدردی، وسیع مطالعہ، تبحرِ علمی اور وسیع النظر ی کا ایک عالم معتر ف تھا۔ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار کی حیثیت سے اس نے قریب قریب ہر صنفِ  ادب میں طبع آزمائی کی اور اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔وہ عالمی ادبیات کا نباض، پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے کلاسیکی ادب کا شیدائی  اردو اور پنجابی زبان کا  اہم تخلیق کار اور لوک ادب کا رمز آشنا تھا۔علمی و ادبی حلقوں میں اُسے ایک دائرۃ المعارف کی حیثیت حاصل تھی۔اُس کی تحریریں قلب اور روح کی تفسیروں کے روپ میں دل و نگاہ کو مسخر کر لیتیں اور، اُس کے الفاظ گنجینۂ معانی کا طلسم ثابت ہوتے تھے۔ اُس کا وجود روشنی کے ایک سر بہ فلک مینار کی حیثیت رکھتا تھا جسے دیکھ کر منزلوں کی جستجو کرنے والے اپنے مستقبل کی راہ کا تعین کرتے تھے۔وہ ایک ایسا مفکر اور مدبر تھاجس نے مسلسل چار عشروں تک اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کیا اور علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو قاموس و لغت سے بے نیا ز کر دیا۔ ستر کی دہائی میں اُ س کا پہلا شعری مجموعہ منظرِ  عام پر آیا۔اُس کا دوسرا شعری مجموعہ اشاعت کے لیے جانے والا تھا کہ فرشتۂ اجل نے اُس کے ہاتھ سے قلم چھین لیا۔جھنگ کی ادبی کہکشاں کا یہ تابندہ ستارہ غروب ہو گیا۔جھنگ کے جنوب میں واقع شہر خموشاں کی زمین نے اُردو ادب کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھُپا لیا۔ایک ہنستا بولتا چمن مہیب سناٹوں اور جان لیوا سکوت کی بھینٹ چڑھ گیا۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو سدا اپنا مطمحِ نظر بنانے والے اِس عظیم انسان نے زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لیا۔ قحط الرجال اور بیگانگی کے موجودہ زمانے میں اُس کا وجود اللہ کریم کی ایک نعمت تھا۔ سب لوگ اُس کی بے لوث محبت، خلوص، دردمندی، انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے لیے کی جانے والی انتھک جد و جہد، حق گوئی و بے باکی، نیکیوں اور بے شمار ذاتی خوبیوں کی وجہ سے اُس سے ٹُو ٹ کر محبت کرتے۔وہ ایک ایسا رانجھا تھا جوسب کا سانجھا تھا۔ خدمتِ خلق، انسانی ہمدردی اور ایثار کے جذبات اُس کے رگ و پے میں سرایت کر گئے تھے۔اللہ کریم نے اُسے انسان شناسی کی اعلا ترین صفات سے متمتع کیا تھا۔وہ درد مندوں اور مظلوموں کے دُکھوں کا مداوا کرنے کی مقدور بھر سعی کرتا اور ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہتا۔تقدیر کے چاک کو سوزنِ تدبیر سے رفو نہیں کیا جا سکتا۔نظامِ کائنات ازل سے چل رہا ہے اور ابد تک چلتا رہے گا۔ہماری محفل کے آفتاب و ماہتاب جب غروب ہو جاتے ہیں تو ہم اپنی بے بسی اور محرومی پر حسرت و یاس کی تصویر بنے کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔احمد تنویر کی دائمی مفارقت ایک بہت بڑا نقصان ہے۔اُس کی عظمت کا راز اُس کے جذبۂ انسانیت نوازی میں پوشیدہ تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سارے جہاں کا درد اُس کے دِل و جگر میں سما گیا تھا۔ ایسے عظیم لوگ نایاب ہوتے ہیں اب دُنیا میں ایسے لوگ کہاں آئیں گے۔انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت کرنے والا ایسا شخص اب کہاں سے تلاش کیا جائے جسے احمد تنویر جیسا کہا جا سکے۔

احمد تنویر کے آبا ء و  اجداد قیامِ پاکستان کے وقت بھارت سے ہجرت کر کے جھنگ پہنچے۔احمد تنویر نے گورنمنٹ کالج جھنگ سے تعلیم حاصل کی۔جسے پاکستان کی عظیم اور قدیم تاریخی مادرِ علمی کی حیثیت سے پُوری دُنیا میں ممتاز مقام حاصل ہے۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے علمی و ادبی ماحول نے احمد تنویر کے ذوقِ سلیم کو نکھار کر اُس کی تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کیا۔ گورنمنٹ کالج جھنگ میں اُس زمانے میں ڈاکٹر سید نذیر احمد، تقی الدین انجم( علیگ )،  ڈاکٹر محمد ظفر خان، خلیل اللہ خان، عبدالباری عباسی، قیصر رومانی، جابر علی سید، غلام رسو ل شوق، محمد عبدالسعید، رانا عبدالحمید خان، یو کرامت، محمد حیات خان سیال اور سید عبدالباقی (عثمانیہ)جیسے نابغۂ روزگار اساتذہ تدریسی خدمات پر مامور تھے۔اس خیابانِ  علم میں وہ گُل ہائے رنگ رنگ نمو پا رہے تھے جن کی عطر بیزی سے مستقبل میں نہ صر ف ارضِ  وطن کا گوشہ گوشہ مہک اُٹھا بل کہ پوری دنیا میں زندگی کے مختلف شعبوں میں اُ ن کی فقید المثال کامرانیوں اور مسحور کُن عنبر فشانی کی دھُوم مچ گئی۔ فروغِ  علم اور تخلیقِ  ادب کی اس درخشاں روایت کے بنیاد گزاروں میں اس مادر علمی کے ممتاز طا  لبِ علم ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر وزیر آغا، سردار باقر علی خان، کبیر انور جعفری، مجید امجد، شیر محمد شعری، عبدالکریم بھٹی، صاحب زادہ رفعت سلطان، خواجہ یو نس حسن، محمد خان، حاجی محمد یوسف، سلطان محمود، خادم مگھیانوی، آغا نو بہار علی خان، عاشق حسین فائق، ڈاکٹر محمد عمر، حکیم احمد بخش، امیر اختر بھٹی، غلام علی خان چین، ڈاکٹر محمد کبیر خان، محمد شیر افضل جعفری، اللہ داد، شوکت حیات کُپلانہ، سید جعفر طاہر، رام ریاض، احمد تنویر اور مظفر علی ظفر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔جھنگ میں ادبی نشستوں کے انعقاد کی جو مضبوط اور مستحکم روایت صدیوں پر محیط ہے، اُس کے ابتدائی رجحانات حضرت سلطان باہو کے زمانے (۱۶۲۸تا۱۶۹۱)میں پائے جاتے ہیں۔ احمد تنویر اِس بات پر اصرار کرتا تھا کہ تخلیقی تجربات صرف اُسی صورت میں کامیابی سے ہم کنار ہو سکتے ہیں جب اُنھیں زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں ادبی روایات کی اساس پر استوار کیا جائے۔ اُس کا خیال تھا کہ مشاعروں اور ادبی نشستوں کا فروغِ ادب میں وہی کردار ہے جو ایک بیج کی نمو کے سلسلے میں زرخیز زمین، پانی اور کھاد کا ہے۔اگر بیج کو تیار زمین، کھاد اور پانی فراہم نہ کیا جائے تو وہ کبھی روئیدگی کے مرحلے سے نہیں گُزر سکتا۔اِسی طرح ادبی نشستوں، مشاعروں اور تنقید و تحقیق کے بغیر نہ تو عصری آگہی پروان چڑھ سکتی ہے اور نہ ہی فروغِ ادب کے لیے نئے تجربات اور نئے افکار کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اردو زبان کے ارتقا کے ساتھ ہی یہاں اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شعر و ادب کی تخلیق کا سلسلہ جاری رہا۔ علی گڑھ تحریک، رومانی تحریک، ترقی پسند تحریک اور حلقۂ اربابِ ذوق کے زیرِ اہتمام یہاں ادبی نشستوں کا باقاعدگی سے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا۔قیام پاکستان کے بعد ادبی نشستوں کی یہ روایت مزید تقویت پکڑنے لگی۔احمد تنویر نے جھنگ کی ادبی نشستوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔وہ مشاعرے کا ایک مقبول شاعر تھا۔اُسے ملک کے طول  و عرض میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کی دعوت ملتی تھی اور وہ جھنگ کے شاعروں کی رفاقت میں طویل مسافتیں طے کر کے مشاعروں میں شرکت کرتا تھا۔اس کے معتمد ساتھیوں میں مرزا معین تابش، حکمت ادیب، بیدل پانی پتی، رام ریاض، امیر اختر بھٹی، خیر الدین انصاری، شارب انصاری، صاحب زادہ رفعت سلطان، کبیر انو ر جعفری، محمد شیر افضل جعفری، ظفر سعید، سجاد بخاری، صدیق لالی، طاہر سر دھنوی، غلام محمد رنگین، مجید امجد، خضر تمیمی مہر بشارت خان، اور دیوان احمد الیاس نصیب شامل تھے۔ایک روشن خیال ادیب کی حیثیت سے احمد تنویر نے ہمیشہ سُلطانیِ جمہور کی حمایت کی اور جبر کاہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر سے جینا اپنا نصب العین بنایا۔سماج، معاشرے، تہذیب و ثقافت، تاریخ اور تمدن کے بارے میں اُس کی  روشن خیالی کے سوتے اُس کے وسیع مطالعہ، مشاہدے اور عالمانہ غور و فکر سے پھُوٹتے ہیں۔وہ جو کچھ دیکھتا، اُس پر غور کرتا اور اس کا تجزیہ کر کے اپنی رائے قائم کرتا۔جوں جوں اُس کے غور و فکر اور تفکر و تدبر میں گہرائی اور گیرائی کا عنصر تقویت پکڑتا گیا، اُس کے اسلوب پر روشن خیالی کا غلبہ ہوتا چلا گیا اور اس نے ہر قسم کی عصبیت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکنے پر زور دیا۔وہ ظلمتِ شب کا شاکی رہنے کے بجائے اپنے حصے کی شمع فروزاں کرنے پر اِصرار کیا کرتا تھا۔اُس کا استدلال یہ تھا کہ صرف اِسی صُورت میں سفاک ظُلمتوں، جان لیوا سناٹوں، جانگسل تنہائیوں اور جامد و ساکت ماحول سے گلو خلاصی ممکن ہے۔ وہ مایوسی اور اضمحلال کے سخت خلاف تھا۔اس کا اسلوب رجائیت پر مبنی تھا۔وہ ان لوگوں کی سوچ پر گرفت کرتا جنھوں نے حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنا رکھا ہے۔اُس کا خیال تھا کہ خزاں کے سیکڑوں منظر سہی لیکن یہ بات تو ہر قسم کے شک و شُبہ سے بالا تر ہے کہ طلوع صبحِ بہاراں یقینی ہے۔اِسی طرح ہر تاریک رات کے اختتام پر صبحِ صادق کی روشنی یہ نوید سُناتی ہے نظامِ ہستی چلانے والی ہستی کے ہاں دیر تو ہے لیکن اندھیر نہیں۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے تخت و کُلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔روشنیوں کی راہ میں حائل ہونے والے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔اس نے اپنی شاعری میں یہ واضح پیغام دیا کہ یقین، حوصلے، صبر اور اُمید کا دامن تھام کر آگے بڑھنے والے ہی زندگی میں کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔

اللہ کریم نے احمد تنویر کو ایک مستحکم شخصیت سے نوازا تھا۔تخلیقِ فن کے لمحوں میں وہ خُون بن کے رگِ سنگ میں اُتر جانے کی صلاحیت سے متمتع تھا۔اس کی شاعری سنگلاخ چٹانوں، جامد و ساکت پتھروں، چلتے پھرتے ہوئے  مُردوں، حنوط شدہ لاشوں اور بلند و بالا ایوانوں کے تضادات سے آگہی کا موثر ترین وسیلہ ہے۔درِ کسریٰ پر صدا کرنا اُس کے مسلک کے خلاف تھا۔یہ بات اُسے اچھی طرح معلوم تھی کہ ان کھنڈرات  میں موجود بے جان اور بے حِس مجسمے گونگے اور بہرے ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ آج کے تخلیق کار کو دوہرے عذاب کا سامنا ہے وہ حالات کی سفاکی کو دیکھ دیکھ کر کُڑھتا ہے اور اِس کے بعد وہ دُکھی اور مظلوم انسانیت کو درپیش مسائل پتھروں کے سامنے بیان کرنے پر مجبور ہے۔اِس لرزہ خیز صورتِ  حال کو وہ موجودہ دور کے اعصاب شکن المیے سے تعبیر کرتا تھا۔ وہ اس وسیع و عریض کائنات کی رعنائیوں اور نہایت برق رفتاری سے بدلتے ہوئے معاشرتی حالات کا بہ نظر غائر جائزہ لیتا۔اس کے بعد اپنے مشاہدات اور تجربات کو پُوری دیانت کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھالتا چلا جاتا۔فن کار کی انا کو اس نے ہمیشہ مقدم جانا۔اس کا خیال تھا کہ ایک زیرک تخلیق کار کو ہوا کا رخ پہچان کر موقع، ماحول اور زمانے کے مطابق اپنے لیے موزوں لائحۂ عمل کا انتخاب کرنا چاہیے۔آج کے دور میں مافوق الفطرت داستانوں اور حُسن و رومان کے موہوم افسانوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر، محقق، نقاد، افسانہ نگار، انشائیہ نگار، سوانح نگار اور مورخ تھا۔ سنجیدگی، انہماک اور خاموشی سے اپنے کام میں مگن رہنا اس کی فطرتِ  ثانیہ تھی۔اپنی تعریف اور دوسروں کی غیبت اُسے نا گوار گُزرتی اور وہ اس قسم کی باتیں کرنے والے کو بر ملا ٹوک دیتا۔ اس نے خود کو ہمیشہ پاکستانی ادب کا ایک طالب علم اور قومی زبان کا ایک خادم سمجھا۔ اس نے زندگی بھر اپنا تخلیقی سفر خُوب سے خُوب ترکی جانب جاری رکھا۔ وہ اس قدر خوش اطوار، خوش اخلاق شگفتہ مزاج تھا کہ اس کی گل افشانیِ گفتار سامعین کو مسحور کر دیتی۔اس کے ساتھ طویل نشست کے بعد بھی تشنگی کا احساس بر قرار رہتا۔ اُس کی سوچ ہمیشہ تعمیری ہی رہی اس لیے وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے سدا بے نیاز رہا۔کسی کی تخریب یا تنقیص سے اس نے کبھی کوئی تعلق نہ رکھا۔اُس کی شاعری میں رنگ، خوشبو اور حُسن و خُوبی کے تمام استعارے سمٹ آئے ہیں۔

 

محرومی کو قسمت کہنا پڑتا ہے

اُس کے میرے بیچ میں دریا پڑتا ہے

 

آگ بھی لگ جاتی ہے بانس کے جنگل میں

کبھی کبھی خاموش بھی جلنا پڑتا ہے

 

جب چاہت نفرت کے موڑ پہ آ جائے

تب لفظوں کی کاٹ سے بچنا پڑتا ہے

 

احمد تنویر کی طبیعت میں بہت عجز و انکسار پایا جاتا تھا۔ہر ملاقاتی کے ساتھ اعلا اخلاق اور بے پناہ اخلاص سے پیش آنا اُس کا شیوہ تھا۔کٹڑہ بیر والا جھنگ صدر میں جہاں وہ صرافہ بازار میں جیولر اور جوہری کے پیشے سے وابستہ تھا اور اِسی سے رِزقِ حلال کماتا تھا، وہاں اُس کی دیانت داری اور نیک نیتی کی دھُوم تھی۔ وہ خُوب جانچ پرتال کر کے خالص سونے، چاندی اور جواہرات کے زیور تیار کرتا تھا۔ اس کی دیانت اور صناعی کا پُورے ملک میں چرچا تھا۔وطنِ عزیز کے کمرشل بنک ضرورت مندوں کو زیورات کی ضمانت پر نقد قرضے دیتے ہیں۔اس کے لیے شرط یہ رکھی جاتی ہے کہ کہ کسی ماہر صراف کا تصدیقی سرٹیفکٹ منسلک کیا جائے کہ یہ زیورات خالص ہیں۔اس مقصد کے لیے احمد تنویر کی تحریر کالنقش فی الحجر تھی۔ وہ زیورات کو کسوٹی پر خوب پرکھ کر اُن کی کیفیت کے بارے میں جو کچھ لکھ دیتا سب مالیاتی ادارے اُسے من و عن تسلیم کر لیتے۔یہاں سے کچھ فاصلے پر تانگوں کا اڈا تھا جہاں دھوکا باز اور جرائم پیشہ عناصر نے ایک مکروہ دھندا شروع کر رکھا تھا۔ غریب لوگ اپنا خون پسینا ایک کر کے اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے زیور خریدنے آتے اور یہ ننگِ  انسانیت درندے جعل سازی کے ذریعے سادہ لوح لوگوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالتے اور اُن کی تمام جمع پُونجی ہتھیا لیتے اور غریب والدین کوسونے کے بجائے پیتل کے سوا کچھ نہ ملتا۔ ان لُٹیروں کے عزیز و اقارب میں کچھ ایسے عقرب بھی تھے جن کے ہاتھ بہت لمبے اور تجوریاں زر و مال سے لبریز تھیں یوں اُنھیں کسی تعزیر کا خوف نہ تھا۔لوگ ان کے شر سے بچنے کے لیے خالقِ کائنات کے حضور التجا کرتے کہ اُس قادر و عادل نے اِن فراعنہ کی مُدت کو کیوں بڑھا رکھا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ ضرور آتا ہے جس کی صداقت پوری قوت کے ساتھ کِذب و افترا کی جہالت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکتی ہے۔احمد تنویر نے ان بگلا بھگت مسخروں کے مکر کی چالوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور ان کا کچا چٹھا کھو ل کر رکھ دیا۔ ایک مہینا بھی نہ گُزرا تھا کہ ان ٹھگوں اور نہنگوں کے نشیمن ویران ہو گئے اور یہ لوگ ایسے گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔سب لوگ اس کام یابی پر اش اش کر اُٹھے اور احمد تنویر کے حق میں دعا کرنے لگے۔علم بشریات کے ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کے ہر معاشرے میں متعفن انڈے، گندی مچھلیاں، کالی بھیڑیں، سفید کوّے، بُوم، شپر اور کر گس کثرت سے پائے جاتے ہیں لیکن قُدرتِ کاملہ نے ایسے درندوں کے زہر کا تریاق بھی پیدا کیا ہے۔کچھ پارس صفت انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو خاک کو اکسیر بنانے کی صلاحیت سے متمتع ہوتے ہیں اور جو سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر کے مانند اپنے وجود کا اثبات کرتے ہیں۔ جنھیں دیکھتے ہی ہر عقرب کا ڈنک جھڑ جاتا ہے اور انسانیت ان مُوذی و مکار درندوں اور حشرات کی ایذا رسانی سے محفوظ ہو جاتی ہے۔احمد تنویر ایسا ہی پارس اور پارسا پارکھ تھا جس نے ہمیشہ حق و صداقت کا علم بلند رکھا اور کسی مصلحت کی پروا نہ کی۔ ادب میں حریتِ  فکر کے اس مجاہد نے بڑی شان کے ساتھ زندگی بسر کی۔اُس نے چر بہ ساز، سارق اور کفن دُزد مسخروں کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کِردار ادا کیا۔تاریخ ہر دور میں اس کے ادبی کام اور عظیم نام کی تعظیم کرے گی۔اُس کی شاعری میں بھی حق گوئی و بے باکی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔

 

یہ فصل تو بونی ہے

جس بات سے ڈرتے ہو

وہ بات تو ہونی ہے

معصوم مِرے بچے

پھُولوں کی طرح کو مل

ولیوں کی طرح سچے

یہ اُس کی حویلی ہے

دُشمن ہے جو ظالم کا

مظلوم کا بیلی ہے

خیال رکھتا ہے جھُلسی ہوئی زمینوں کا

سپاہِ ابر پہ اپنی کمان رکھتا ہے

وہ حوصلے بھی بڑھاتا ہے شہر والوں کے

شگفتگی کا بھی دِل میں گُمان رکھتا ہے

حلال رِزق کِھلاتا ہے اپنے بچوں کو

غریب شخص غریبی کی آن رکھتا ہے

وہ اعتبار بھی کرتا ہے میری چاہت کا

وہ فاصلے بھی کئی درمیان رکھتا ہے

مکان رکھتا نہیں ہے تو کیا ہوا تنویر

وہ اپنے سر پہ تو اِک آسمان رکھتا ہے

احمد تنویر کو اِس بات کا رنج تھا کہ آج کے دور میں حرص اور ہوس نے نوع انساں کو شدید فکری انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔درد کی مسموم ہوا نے زندگی کی تمام رُتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں۔تنہائی کی شامِ اَلم نے روح کو زخم زخم اور دِل کو کِرچی کِرچی کر دیا ہے۔اُس نے واضح کر دیا کہ تنہائی کے لرزہ خیز، اعصاب شکن حالات، جان لیوا صدمات اور اس کے مضمرات سے نجات کا واحد ذریعہ انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت اور ایثار ہے۔وہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ بے لوث محبت، بے باک صداقت، ایثار، خلوص اور دردمندی کی اساس پر استوار ہونے والے اس سدا بہار تعلق کی مثال اُس فصل گُل کی ہے جو خزاں کی سفاکی سے محفوظ رہتا ہے اور اِسے اندیشۂ زوال نہیں ہے۔محبت کا یہ تعلق فرد کو حصارِ ذات سے نکال کر کائنات کے مسائل کا حقیقی احساس و ادراک عطا کرتا ہے۔بنی نوع انساں کے ساتھ روحانی وابستگی اور قلبی محبت احمد تنویر کی جبلت میں شامل تھی۔انسانیت کے ساتھ محبت کے اس ابد آشنا جذبے نے اُسے ایک ایسے ولولۂ تازہ سے آشنا کیا جس کے معجز نما اثر سے اُس نے سفاک ظُلمتوں میں بھی حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں رکھی اور طلوع صبحِ بہاراں کی تمنا میں روشنی کا سفر جاری رکھا۔

اللہ کریم نے احمد تنویر کو جس اعلا جمالیاتی حِس سے نوازا تھا، اُسے رو بہ عمل لاتے ہوئے وہ حُسنِِ فطرت کی تحسین میں مصروف رہتا۔ اُس کے اسلوب میں جمالیاتی سوز و سرور کا گہرا عمل دخل دکھائی دیتا ہے۔  اِس کا واضح اظہار اُس کی تخلیقی فعالیت میں ہوتا ہے، جہاں اظہار کے جُملہ محاسن کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ تشبیہات و استعارات، صنائع بدائع، خوب صورت الفاظ، بر محل محاور ات اور دل کش تراکیب کے استعمال سے اس نے ایک صناع کی طرح اپنی تخلیقات کے حُسن کو چا رچاند لگا دئیے ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اُس کی تخلیقی تحریروں میں جمالیاتی سوز و سرور کی جو مسحور کُن کیفیت نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہے اُس کے سوتے حسنِ فطرت کی جلوہ آرائیوں سے پھُوٹتے ہیں۔زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کے اعجاز سے وہ حالات و واقعات اور حُسن کی جزئیات کی لفظی مرقع نگاری اس قدر دل نشیں انداز میں کرتا ہے کہ اُس کی تخلیقی تحریریں حُسن کاری کا اعلا نمونہ اور جمالیات کی محیر العقول تصویریں بن جاتی ہیں۔اس کی باتیں زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کر کے سعیِ پیہم اور عمل کی برکات پر یقین کو پختہ کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتیں۔آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ معاشرہ قنوطیت کا شکار ہے۔ہر شخص یہ شکوہ کرتا ہے کہ تاریکیاں اور ویرانیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ وسعت افلاک میں کوئی جگنو یا ستارہ جھلملاتا دکھائی نہیں دیتا۔ نا خوشگوار اور شدید  موسموں کے باعث اُمنگوں کی بیل منڈیر چڑھتی دکھائی نہیں دیتی۔مجبوروں کی زندگی اس دنیا کے آئینہ خانے میں خواب نما تمثیل کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔وقت کے اس حادثے کو کیا نام دیا جائے جہاں جاہل کو اس کے جہل کا انعام ملنے لگا ہے اور شہر تمنا کے دریوزہ گر اپناکاسہ تھامے ضمیر کے عوض آسائشوں اور مراعات کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہم کی پرچھائیوں نے یقین کو دھندلا کر زندگی کی رعنائیوں کو گہنا دیا ہے۔احمد تنویر نے انتہائی کٹھن اور صبر آزما حالات میں بھی قناعت اور استغنا کی اعلا ترین مثال پیش کی۔اس کا کہنا تھا کہ جھوٹ اور سچ میں امتیاز کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان خود آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کا ظرف اور موقع پرستوں کو آئینہ دکھانے کا حوصلہ رکھتا ہو۔جس طرح احمد تنویر کا ظاہر بالکل اُجلا اور شفاف تھا اُسی طرح اُس کا باطن بھی صاف تھا۔ہ دل کی بات لبوں پر لانے میں کبھی تامل نہ کرتا۔ہزار خو ف میں بھی اس کی زبان نے اس کے دل اور ضمیر کی ترجمانی کی۔وہ منہ اندھیرے گھر سے نکلتامسجد میں نمازِ  فجر با جماعت ادا کرتا اور پھر رات گئے تک زندگی کے کاروبار میں مصروف رہتا۔دن بھر تو وہ بچوں کے لیے محنت مزدوری کرتا اور رات کو تخلیقِ ادب میں مصروف ہو جاتا اور اپنی نا مکمل غزلیں پُوری کرتا۔مسودوں اور ادھوری تحریروں کی نوک پلک سنوار کر انھیں ادبی مجلات کو روانہ کرنے کے لیے لفافوں میں بند کرتا۔اس کی تخلیقات جن ادبی مجلات میں شائع ہوتیں ان میں افکار، سیپ، قومی زبان، فنون، اور اق، ماہ نو، ادبیات، ادب لطیف، تجدید نو، نوادر، عروج، اوراق، نیرنگِ  خیال، اقدار اور زعفران شامل ہیں۔ امیر اختر بھٹی کا کہنا تھا کہ ا حمد تنویر نے طوفانِ حوادث اور سیلِ زماں کے حصار سے زندگی کی ناؤ بچانے کی جدو جہد میں جس بلند ہمتی کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اُس کے دیرینہ ساتھی غلام علی خان چین کی رائے تھی کہ احمد تنویر کی زندگی کے وہ مہ و سال جن میں وہ عشق و محبت اور حسن و رومان کی وادی میں مستانہ وار گھوم سکتا تھا محنت کشی کی نذر ہو گئے۔اپنے ہو نہار بچوں کے روشن مستقبل کے خواب دیکھتے دیکھتے متعدد حقائق اور بے شمار حسین لمحات اُس کے لیے خیال و خواب ہو کر رہ گئے۔ اس کے شہرِ آرزو میں اب خوب گہما گہمی ہے اور اس کی اولاد کی کوششوں سے انسانی ہمدردی اور ایثار کی صورت میں روشنی کا وہ سفر جاری ہے جس کا آغاز احمد تنویر نے کیا تھا۔جب تک دنیا باقی ہے احمد تنویر کی نیکیاں زندہ رہیں گی اور لوگ اس کی خوبیوں کو یاد رکھیں گے۔ہر عہد کا مورخ اس کے نام کی تعظیم کرے گا۔

دوستوں کے انتخاب میں وہ وضعِ  احتیاط کا قائل تھا لیکن جب وہ کسی سے پیمانِ وفا باندھ لیتا تو وفاداری کو بہ شرط استواری اصلِ ایماں کی ایک صورت سمجھتا اور ہر صورت میں معتبر ربط کو برقرار رکھتا۔دوستی کے سلسلے میں احمد تنویر نے بہت کڑے معائر پیش نظر رکھے۔وہ اپنے دوستوں، ساتھیوں، رفقا اور عزیزوں کے لیے ہمیشہ دیدہ و دِل فرشِ راہ کرنے پر تیا ر رہتا  اور اُن کی ہر بات تسلیم کرتا۔اُن کے مشورے پر عمل کرتا اور اُن کے خلاف کوئی بات سُننا گوارا نہ کرتا۔وہ بیماروں کی عیادت، لوگوں کے دُکھ اور سُکھ میں شرکت ضرور کرتا۔اِس سلسلے میں وہ اپنے یا بیگانے کی تفریق کا قائل نہ تھا۔کسی کو کانٹا بھی چُبھتا وہ تڑپ اُٹھتا اور اُس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے پہنچ جاتا۔پروفیسر عباس ہادی کی وفات پر وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔پروفیسر غلام قاسم خان کی فطین بیٹی جو گورنمنٹ کالج برائے خواتین، جھنگ سے گریجویشن کر رہی تھی اچانک حرکتِ  قلب بند ہونے کے باعث دائمی مفارقت ے گئی تو احمد تنویر کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔اپنے عہد کی عظیم شخصیات سے اس کے قریبی رابطے رہے۔وہ چاہتا تھا کہ اِن نابغۂ روزگار ہستیوں نے اپنی زندگی میں جو عظیم کار نامے انجام دئیے ہیں، اُن کی قدر کی جائے اور ان کی زندگی کو لائق تقلید سمجھتے ہوئے اپنے حالات کو بہتر بنایا جائے۔جن ممتاز شخصیات کے ساتھ اس نے معتبر ربط رکھا ان میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر بشیر سیفی، نظیر صدیقی،  احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا،  راجا رسالو، سبط الحسن ضیغم، سید ضمیر جعفری، شفیق الرحمٰن، صابر آفاقی، محسن بھوپالی، غفار بابر، محمد فیروز شاہ، عطا شاد، صابر کلوروی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، ممتاز مفتی، شبنم رومانی، صہبا لکھنوی، وارث میر، شریف کنجاہی، خالد احمد، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، جون ایلیا، قدرت اللہ شہاب، ارشاد گرامی، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان، محمد حیات خان سیال، رحیم بخش شاہین، ڈاکٹر محمد ریاض، اسیر عابد، اقبال زخمی، اُستاد دامن، سید اختر حسین اختر، محمد آصف خان، دلاور فگار اور منیر نیازی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔اُردو کی کلاسیکی شاعری اسے بہت پسند تھی۔اردو کے جن کلاسیکی شعرا کے اثرات اس کے اسلوب میں نمایاں ہیں ان میں میر تقی میر، غالب، سودا، آتش، حسرت، داغ، حالی، انیس اور دبیر شامل ہیں۔اردو ادب کے جدید دور کے جن تخلیق کاروں کے اسلوب سے وہ متاثر تھا ان میں احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، احسان دانش، مجید امجد، سید جعفر طاہر، منشا یاد، ساغر صدیقی، منیر نیازی، فیض احمد فیض، احمد فراز، تنویر سپرا،  حبیب جالب، جوش ملیح آبادی، قتیل شفائی، محمد شیر افضل جعفری اور محسن بھوپالی  کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ علی گڑھ تحریک کے زیر، اثر تخلیق ہونے والے ادب کی اہمیت اور افادیت کا وہ قائل تھا۔نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری کو وہ اردو نظم کے ارتقا میں سنگِ میل قرار دیتا تھا۔شبلی نعمانی کی سوانح نگاری، سیرت نگاری اور سر سید کی مقصدیت سے لبریز مضمون نگاری کا وہ دلدادہ تھا۔اردو ادب میں طنز و مزاح کے معیار سے وہ مطمئن تھا۔وہ طنز و مزاح کو وہ کسی قوم کی تہذیبی شائستگی اور اخلاقی رفعت کی علامت سمجھتا تھا۔ جن مزاح نگاروں نے زندگی کی نا ہمواریوں، بے اعتدالیوں، تضادات اور کجیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور پیدا کر کے فن کارانہ انداز میں اپنی گُل افشانیِ گفتار سے قارئین کے لیے تزکیۂ نفس کا اہتمام کرنے کی کوشش کی ان کے اسلوب کا وہ شیدائی تھا۔اس نے شفیق الرحمٰن، کرنل محمد خان، ابن انشا، چراغ حسن حسرت، نذیر احمد شیخ، محمد خالد اختر، اکبر الہ آبادی اور رتن ناتھ سرشار کی تصانیف کا نہایت توجہ سے مطالعہ کیا۔عالمی ادبیات کے تراجم سے اس کی دلچسپی زندگی بھر بر قرار رہی۔ اُس نے اپنا ذاتی کتب خانہ بنا یا تھا جس میں ادبی مجلات اور نادر کتب کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ اُسے کمپیوٹر اور انٹر نیٹ سے بھی گہری دلچسپی تھی اُس نے سائبر لا ئبریریوں اور عالمی معیار کے اون لائن ادبی مجلات سے بھر پور استفادہ کیا۔تراجم کو دو تہذیبوں کے ما بین ایک سنگم سے تعبیر کرتا تھا۔اس کی خواہش تھی کہ عالمی ادب کے تراجم سے پاکستانی ادبیات کی ثروت میں اضافے کی مساعی کو تیز کیا جائے۔ خیر الدین انصاری نے ہندی اور گُر مُکھی کی نمائندہ تخلیقات کو جب اُردو زبان کے قالب میں ڈھالنے کا سلسلہ شروع کیا تو احمد تنویر نے اِسے بہت پسند کیا۔ وہ ژاک لاکاں، سوسئیر، ژاک دریدا، رولاں بارتھ، ٹیری ایگلٹن، ٹی۔ایس ایلیٹ  اور میتھیو آرنلڈ کے مضامین نہایت توجہ سے پڑھتا تھا۔جدید تنقید اور لسانیات کے موضوع پر ممتاز ادیب اور نقاد خیر الدین انصاری اور سمیع اللہ قریشی کے ساتھ تبادلۂ خیال کر کے وہ بہت خوش ہوتا تھا۔پروفیسر حافظ حاجی محمد حیات کی وقیع تصنیف ’’نو رِ حیات ‘‘۱۹۹۵میں شائع ہوئی۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے سلطان باہو ہاسٹل میں منعقد  ہونے والی ایک تقریب میں احمد تنویر مہمانِ خصوصی تھا۔اپنے صدارتی خطبے میں اُس نے کتاب کے محاسن پر جو سیر حاصل بحث کی، اُسے سامعین نے بے حد سراہا۔اس کتاب میں فلسفہ، نفسیات، سوشیالوجی اور علمِ بشریات کے موضوع پر مصنف نے تحقیق و تنقید کا حق ادا کر دیا ہے احمد تنویر نے ان تمام موضوعات پر مدلل گفتگو کی اور مصنف کے اسلوب کا عالمانہ تجزیہ پیش کیا۔خطبۂ صدارت کے اختتام پر طلبہ اور اساتذہ نے احمد تنویر کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا۔اس موقع پر ممنونیت کے جذبات سے پروفیسر حافظ حاجی محمد حیات کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں انھوں نے احمد تنویر کو گلے لگا لیا اور گلو گیر لہجے میں کہا، ’’اس دیار میں میری زبان سمجھنے والا ایک ہی شخص ہے اور وہ احمد تنویر ہے۔اس قدر وسیع المطالعہ شخص میں نے اپنی زندگی میں پہلے کہیں نہیں دیکھا۔‘‘

ادبی محفلیں سجاناہمیشہ احمد تنویر کا اہم ترین شوق رہا۔جب بھی کسی کتاب کی رونمائی ہوتی، محفلِ نعت، محفلِ مسالمہ، شامِ افسانہ یا کسی ادیب کے اعزاز میں کسی نشست کا اہتمام ہوتا ہر جگہ احمد تنویر موجود ہوتا اور اپنے حسنِ انتظام سے ادبی نشست کو یادگار بنا دیتا۔رام ریاض کے شعری مجموعے  ’’پیڑ اور پتے ‘‘، خیر الدین انصاری کی خود نوشت ’’لہکتی ڈال ‘‘اور سجاد بخاری کے شعری مجموعے ’’خیمۂ جاں ‘‘کی تقریبِ  رونمائی قارئینِ ادب کو ہمیشہ یاد رہے گی۔ان اہم تقریبات کا انتظام احمد تنویر نے کیا تھا۔ اردو شاعری میں نعت گوئی سے احمد تنویر کو دلی لگاؤ تھا۔وہ خود بھی نعت کا اچھا شاعر تھا اور نعت گو شعرا کی نعتوں کی دل و جاں سے قدر کرتا تھا۔نعت سُن کر فرطِ عقیدت اور عشق رسولﷺ سے اُس کی آنکھیں پُر نم ہو جاتیں۔ جھنگ میں مقیم اُردو زبان کے ممتاز شاعر رام ریاض(ریاض احمد شگفتہ) کی نعت گوئی کو احمد تنویر نے ہمیشہ عقیدت اور عشقِ رسولﷺکا بلند ترین معیار قرار دیا۔رام ریاض کی یہ نعت اُسے بہت پسند تھی۔وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ رام ریاض کی یہ نعت قبولیت کا درجہ حاصل کر چُکی ہے :

جو بھی شیریں سخنی ہے میرے مکی مدنیﷺ

تیرے ہونٹوں کی چھنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ

 

نسل در نسل تیری ذات کے مقروض ہیں ہم

تُو غنی اِبنِ غنی ہے میرے مکی مدنیﷺ

جولائی ۲۰۰۶کے اوائل میں مجھے احمد تنویر کی علالت کے بارے میں معلوم ہوا۔میں مہر بشارت خان کے ساتھ اُس  کے گھر روانہ ہوا۔خلافِ معمول احمد تنویر باہر نہ نکلا بل کہ ان کے ہو نہار فرزند نے ہمیں بٹھایا اور چائے سے تواضع کی۔تھوڑی دیر کے بعد ہم احمد تنویر کے کمرے میں بیٹھے تھے۔احمد تنویر بسترِ علالت پر تھا اور اس کی جسمانی کم زوری بڑھ چُکی تھی۔وہ جری تخلیق کار جو زندگی بھر طُو فانوں میں پلنے، تُند و تیز مخالف ہواؤں کا رُخ بدلنے اور کٹھن حالات کے سامنے سینہ سپر رہنے کا ولولہ اپنے دل میں لیے عزم و ہمت کی چٹان بنا رہا اس وقت بستر سے لگا حالات کے رحم و کرم پر تھا۔ہم نے دِل تھام کر احمد تنویر سے گفتگو کی۔وہ حسبِ  معمول چاق چو بند تھا اور اُس کے چہرے پر تبسم نمایاں تھا۔ اُس کا لہجہ حسبِ معمول دبنگ تھا اور الفاظ کی ترنگ نے بھی ماضی کی یاد تازہ کر دی اُس نے ہم سے سب دوستوں کی خیریت دریافت کی اور اپنی بیاض پیش کی جِس پر اُس کی تازہ شعری تخلیقات درج تھیں۔ہم پُر اُمید تھے کہ جو شخص اس علالت میں بھی تخلیقِ فن میں مصروف ہے وہ یقیناً اپنی زبردست قوتِ اِرادی کو بروئے کار لا کر اور بیماری کے خلاف قوتِ مدافعت سے بیماری کو پسپا کر کے صحت یاب ہو جائے گا۔ وہ مجید امجد کی شاعری کا دلدادہ تھا۔دورانِ گفتگو احمد تنویر نے اپنے مخصوص دبنگ لہجے میں مجید امجد کے یہ اشعار پڑھے جِن کی باز گشت آج بھی سُنائی دے رہی ہے :

 

جو دِن کبھی نہیں بِیتا وہ دِن کب آئے گا ؟

انہی دنوں میں سے اس ایک دِن کو کون دیکھے گا ؟

میں روز اِدھر سے گُزرتا ہوں کون دیکھتا ہے ؟

میں جب اِدھر سے نہ گُزروں گا کون دیکھے گا؟

ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا؟

مِرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا؟

 

۱۵۔جولائی ۲۰۰۶ کو احمد تنویر کے نہ ہونے کی ہونی سُن کر ادبی حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔شہر کا شہر سوگوار تھا، اہم تجاری مراکز اُس کے سوگ میں بند ہو گئے۔ ہزاروں لوگ اس عظیم انسان کے جنازے میں شریک تھے۔اُس کا آخری دیدار کیا تو اُ س کی آنکھیں تو مُند گئی تھیں لیکن اُس کے چہرے پر دائمی مسکراہٹ موجود تھی۔یہی تو مردِ مومن کی پہچان ہے۔سب عزیزوں نے اس خورشیدِ  جہاں تاب، انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی پہچان، عظیم انسان اور ادب کے ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹی کو پُر نم آنکھوں سے سپردِ خاک کیا۔احمد تنویر کی لحد گُلاب کے پھولوں سے ڈھک گئی۔امیر اختر بھٹی نے روتے ہوئے دعا مانگی:

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

سبزۂ نو رستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے

٭٭٭

 

 

                    بشیر جعفر :ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو چھپانے والا شاعر

 

 

بشیر جعفر نے اپنی گُل افشانیِ گفتار سے ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔اُس کی ظریفانہ شاعری زندگی کی بے اعتدالیوں، نا ہمواریوں، بے ہنگم تضادات اور ہیجان انگیز ارتعاشات کے بارے میں ہمدردانہ شعور کی آئینہ دار ہے۔اسلوب اور زبان و بیان پر اس کی خلاقانہ دسترس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور اس کی شگفتہ شاعری پڑھ کر قاری مسرت کے پر کیف لمحات میں کھو جاتا ہے۔ایک فعال، مستعد اور بے حد زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے اس نے کارِ جہاں اور بنی نوع انساں  کے مسائل و  معا ملات کی تفہیم پر گہری توجہ دی ہے۔بے لوث محبت، بے باک صداقت، خلوص، دردمندی، انسانیت نوازی اور انسانیت شناسی اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے۔ایک سنجیدہ اور حساس تخلیق کار کی حیثیت سے بشیر جعفر نے معاشرتی زندگی کے مسائل کو اس مہارت  سے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔اس کی ظریفانہ شاعری اس کے خلوص، دردمندی سنجیدگی اور دلی کرب کا ثمر ہے۔جس طرح ہر دیوانگی کے سوتے فرزانگی ہی سے پھوٹتے ہیں اسی طرح ظرافت کے پس پردہ بھی سنجیدگی اور متانت کار فرما ہوتی ہے۔بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری  میں معاشرتی زندگی کی اجتماعی کیفیات اور سماجی میلانات کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس کے اسلوب کی انفرادیت حسن و رومان، عشق و عاشقی ہجر و فراق، ازدواجی زندگی کے مسائل اور سماجی زندگی کے حسین موضوعات کو پُر لطف  استعاروں سے مزین کر دیتی ہے۔وادیِ جنون کے پیچ در پیچ راستوں پر چلنے والوں کے لیے یہ شاعری خضرِ  راہ ثابت ہو سکتی ہے ان کی بو العجبی اور  دیوانگی کا مداوا کرنے کے لیے بشیر جعفر جیسا فرزانہ خون دل میں انگلیاں ڈبو کر قہقہوں کے مضامین نو کے انبار لگانے میں مصروف ہے۔وطن، اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت بشیر جعفر کے خمیر میں شامل ہے۔ہنسی مذاق، تبسم اور قہقہہ، طنز و مزاح اور چھیڑ چھاڑ بشیر جعفر کی جبلت قرار دی جا سکتی ہے۔ اس کے شگفتہ اسلوب میں ہنسنے کا یہ عمل ایک دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتا ہے۔کہیں تو وہ سماجی اور معاشرتی مسائل کی بوالعجبی پر ہنستا ہے تو کہیں وہ خود اپنی بے بسی پر کھلکھلا کر ہنسنے لگتا ہے۔اپنے آپ پر ہنسنے کے لیے اسے قادر مطلق نے بڑے ظرف سے نوازا ہے۔وہ اپنے غم کا بھید بالکل نہیں کھلنے دیتا بل کہ اپنی بات اس لطیف انداز میں کہہ جاتا ہے کہ محفل کشتِ  زعفران بن جاتی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس کی شگفتہ بیانی تزکیہ نفس کی ایک موثر صورت ہے۔  ہوائے جور  و ستم میں بھی وہ رخِ  وفا کو فروزاں رکھنے کا آرزومند ہے اور اس نے پیہم ہنسنا اور مسکرانا اس لیے معمول بنا رکھا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاشرتی زندگی کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں۔اس کی زندگی کی دھوپ چھاؤں، نشیب و فراز  اور سارے موسم اس کی شگفتہ شاعری میں جلوہ گرہیں۔ اس کے اسلوب کا مطالعہ کرتے وقت اس کی شخصیت جو بہ ظا ہر  ایک وحدت کی صورت میں مو جود ہے در اصل کئی اجزا سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔یہ اجزا زندگی کے مختلف مظاہر سے متشکل ہو تے ہیں، ان میں سے شادی و غم توام ہیں۔یاس و ہراس کی فضا میں بھی وہ قنوطیت سے دامن بچا کر حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھتا ہے :

تیری میری ذات کا میل

کِیکر پر انگُور کی بیل

جاہل بن بیٹے سُلطان

عالم فاضل بیچیں تیل

دو ہی انت سیاست کے

کُرسی یا اڈیالہ جیل

جا لیتے ہم محمل کو

کاش نہ ہوتے کُتے فیل

لے آ اُس کو میکے سے

اپنی آفت آپ ہی جھیل       (1)

تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں جہالت عجب گُل کِھلا رہی ہے۔حالات اس قدر لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہو تے جا رہے ہیں کہ حساس تخلیق کار خود کو جزیرۂ جہلا میں گھرا محسوس کرتے ہیں وہ بچ کے کہاں جائیں جب کہ چا ر سُو ٹھاٹیں مارتا ہوا  سمندر ہے جس کی ہر موج میں حلقۂ صد کام نہنگ ہے۔کُو ڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نو چنے والے ان جہلا نے تو اپنی غاصبانہ  روش سے رُتیں بے ثمر، کلیاں شرر، زندگیاں پر خطر اور آہیں بے اثر کر دی ہیں۔ شیخ چلی قماش کے مخبوط الحواس، فاتر العقل مسخرے شیخ الجامعہ بن جاتے ہیں اور عالم فاضل لوگوں پر عرصۂ حیات  تنگ کر دیا جاتا ہے۔بشیر جعفر نے نہایت دردمندی سے اس صورت حال کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔اس قسم کے حالات کسی بھی قوم کے لیے بہت بُرا شگون ہیں۔محسن بھوپالی نے کہا تھا:

 

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے

اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے

 

مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے

کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

 

تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت  میں فراخ دلی، خندہ پیشانی، صبر و تحمل، شگفتہ مزاجی اور طنزو مزاح کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور ہنستے  کھیلتے موجِ حوادث سے گزر جانے کا عمل  جہاں کسی قوم کو کندن بنا دیتا ہے وہیں یہ رویہ اس قوم کے مہذب اور متمدن بنانے کی دلیل بھی ہے۔بشیر جعفر کی بذلہ سنجی، شگفتہ مزاجی، حاضر جوابی، بات سے بات نکالنے کی مہارت، اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا انداز اور بے ہنگم کیفیات پر فقرے چست کرنا اور پھبتی کسنا اس کے اسلوب کا ایک نرالا روپ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔زبان و بیان میں اس کی استعداد قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ اس تخلیق کار کے حضور سر تسلیم خم کیے ہیں اور وہ ان الفاظ کو اپنے مزاح کے اہداف پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کے لیے بر محل اور بے دریغ استعما ل کیے جا رہا ہے۔وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے بر ملا کہہ دیتا ہے، الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا اس کے ادبی مسلک کے خلاف ہے :

 

ماہ پارے دیکھتا رہتا ہوں میں

کیا نظارے دیکھتا رہتا ہوں میں

 

خانہ بربادی پہ اخراجات کے

گوشوارے دیکھتا رہتا ہوں میں

 

موند لیتی ہے وہ آنکھیں رات کو

دِن میں تارے دیکھتا رہتا ہوں میں

راہزن کو رہبر جمہُور کا

رُوپ دھارے دیکھتا رہتا ہوں میں

اس گرانی میں بھی جعفر حُسن کے

وارے نیارے دیکھتا رہتا ہوں میں         (2)

بشیر جعفر کی شاعری میں طنز اور ظرافت میں پائی جانے والی حدِ  فاصل کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اصلاح اور مقصدیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس نے طنز کا بر محل استعمال کیا ہے۔وطن اور اہل وطن کی محبت سے سر شار ہو کر اس نے معاشرتی زندگی کے تضادات کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔اس کا خیال ہے کہ طنز کے وسیلے سے نہ صرف سماج اور معاشرے کو خود احتسابی پر مائل کیا جا سکتا ہے بل کہ اس کے معجز نما اثر سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام بھی ممکن ہے۔ایک جری تخلیق  کار کی  حیثیت سے بشیر جعفر نے معاشرتی اور سماجی زندگی کے عیوب اور کجیوں کوطنز کا ہدف بنایا ہے۔

 

مُنتشر دستور کا شیرازہ کر لیتا ہوں میں

یاد پرویز و ضیا یوں تازہ کر لیتا ہوں میں

 

کوئی کافر ہو، بنا لیتا ہوں اس کو بیربل

کوئی ملا ہو اسے دو پیازہ کر لیتا ہوں میں

 

لوڈ شیڈنگ بن گئی ہے سُرمہ میری آنکھ کا

مچھروں کے خاک و خوں کو غازہ کر لیتا ہوں میں       (3)

 

اپنے اسلوب اور تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے بشیر جعفر نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے  کی جو سعی کی ہے وہ سنگلاخ چٹانوں اور پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منو ا لیتی ہے۔اس نے زندگی کے جملہ اسرار و رموز کی گر ہ کشائی کرتے ہوئے عیوب کی جس طرح جراحت کی ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔اس کی شگفتہ بیانی کو محض ہنسی مذاق پر محمول نہیں کیا جا سکتا بل کہ اس کے پس پردہ قومی دردمندی اور معاشرتی اصلاح کے ارفع جذبات کار فرما ہیں۔بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری میں قومی دردمندی اور اصلاح و مقصدیت کو اسی قدر اہمیت دی گئی ہے جس طرح ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی زلف گِرہ گیر  کا اسیر ہونے کے بعد حُسنِِ  بے پروا کے جلووں کے لیے بے تاب اور محبوب سے ہم کلام ہو کر اس کی گویائی کے دوران اس کے لبوں سے جھڑنے والے پھُولوں کی عطر بیزی سے قریۂ جاں کو معطر کرنے کا آرزو مند رہتا ہے۔سید محمد جعفر زٹلی  سے لے کر بشیر جعفر تک اردو شاعری میں طنزو مزاح کی ایک مضبوط و مستحکم روایت پروان چڑھی ہے۔  بادی النظر میں اُردو شاعری میں طنزو مزاح کی اس درخشاں روایت کو اردو شاعری کی فکری منہاج اور ذہنی استعداد کے معائر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اردو کی ظریفانہ شاعری کی اس درخشاں  روایت کو ہر دور میں قارئین ادب کی جانب سے جو شر ف پذیرائی ملا ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری اس کے فکر و خیال کی دنیا کے بارے میں قاری کو ایک جہان تازہ کی نوید سناتی ہے۔یہ ظریفانہ شاعری حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کے ایک جھونکے کے ما نند ہے۔اس شگفتہ شاعری کے مطالعہ سے قاری پر افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے متعدد نئے امکانات واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔اس شاعری میں ایک پیغام عمل  بھی ہے اور ایک فغاں بھی، ایک درد بھی ہے اور ایک جراحت بھی۔جامد و ساکت بتوں پر تیشۂ حرف سے کاری  ضرب لگائی گئی ہے اور در کسریٰ میں موجود حنوط شدہ لاشوں کی بے حسی اور مکر کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔خندۂ زیر لب کی ہر کیفیت تخلیق کار کی بصیرت کی مظہر ہے۔یہ شاعری قاری کے فکر و خیال کو اس طرح مہمیز کرتی ہے کہ اس پر فکر و نظر اور خیال افروز بصیرتوں  کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔سفاک ظلمتوں اور ہجوم غم میں دل کو سنبھال کر آگے بڑھنے کا جو پیغام قاری کو اس شگفتہ شاعری سے ملتا ہے وہ اسے مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیتا ہے :

 

کب بہلتا ہے دِلِ آشفتہ موٹر کار سے

پار کر لاتے کوئی گوری سمندر پار سے

صرف میرا گھر ہے جس میں داشتہ آید بہ کار

پیاز کٹتے ہیں یہاں اجداد کی تلوار سے

 

کو ن بھولے گا ’’عنایت ‘‘اُس کے نازُک ہاتھ کی

پھُوٹتی رہتی ہے حدت سی مرے رُخسار سے

 

آپ کے دو چار جُملے اے  خطیبِ بے بدل

گالیوں کے درمیاں لگتے ہیں بے اطوار سے       (4)

ایک ظریف الطبع تخلیق کار کی حیثیت سے بشیر جعفر نے ظرافت اور طنز کے حسین امتزاج سے اپنی شاعری کو دو آ تشہ بنا دیا ہے۔اس نے بذلہ سنجی سے آگے بڑھ کر طنز کے ذریعے جراحتِ دِل کا جو اہتمام کیا ہے وہ اس کی شاعری کی تاثیر کو چار چاند لگا دیتا ہے۔انسانیت کے سا تھ بے لوث محبت کرنے والے اس تخلیق کار نے جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا مطمح نظر بنایا ہے وہ اسے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام عطا کرتا ہے۔دُکھی انسانیت کے ساتھ اس نے جو پیمان وفا اُستوار کیا ہے، اسے وہ علاج گردش لیل و نہا ر سمجھتا ہے۔اس کی ظریفانہ شاعری میں ایک تخلیقی شان اور علمی وقار موجود ہے۔اس میں کہیں بھی پھکڑ پن اور ابتذال کا شائبہ تک نہیں گزرتا۔تخلیق کار کی علمی اور تخلیقی سطحِ فائقہ قابل توجہ ہے :

 

دادِ جُرم و گناہ دی مجھ کو

مُنصفوں نے پناہ دی مجھ کو

 

اِک بلا تھی مِرے تعاقب میں

دُوسری نے نہ راہ دی مُجھ کو

 

ہٹتی مرتی نہیں ہے لنگر سے

اُس نے ا یسی سپاہ دی مُجھ کو

 

رُوپ تیرا بھی دَین ہے اُ س کی

جِس نے بھُوکی نگاہ دی مجھ کو

 

شُکر تیرا ادا کروں کیوں کر

عُمر دی ہے تو واہ دی مجھ کو             (5)

بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری میں اس کے تخلیقی اور لا شعوری محرکات کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔اُ س نے اپنے عہد کے حالات اور واقعات کو اپنی ظریفانہ شاعری کا موضوع بنایا ہے۔وہ اپنی مثبت سوچ کے اعجاز سے خوش گوار نتائج کے حصول کا آرزو مند ہے۔ اگرچہ عملی زندگی میں اُس کے تجربات اور مشاہدات  اُمید افزا نہیں اس کے باوجود وہ حوصلے اور اُمید کی مشعل فروزاں رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔اس نے ظالم  و سفاک مُوذی و مکار استحصالی عناصر اور جابر قوتوں کو بر ملا ہدف تنقید بنایا ہے۔اُسے صرف تعمیری انداز فکر سے دلچسپی ہے کسی کی تخریب کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق نہیں۔وہ نہایت اخلاق اور اخلاص سے کام لیتے ہوئے طنزو مزاح کی وادی میں قدم رکھتا ہے۔ جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو تخلیق ادب میں بھی متعدد نئی جہات  سامنے آئیں اُردو کی ظریفانہ شاعری پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔مجید لاہوری، سید محمد جعفری، سید ضمیر جعفری، دلاور فگار، سید مظفر علی ظفر  اور ن کے معاصرین نے اپنی شاعری میں آزادی کے بعد رُو نُما ہونے والے واقعات کے بارے میں اپنی  تشویش کو پیرایۂ اظہار عطا کیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اہلِ وفا کی صورت حال تو جوں کی توں رہی مگر بے ضمیروں کے وارے نیارے ہو گئے۔بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری میں طنز کی نشتریت قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔اس نے اپنی ظریفانہ شاعری میں اس جانب توجہ مبذول کرا ئی ہے کہ زندگی محض رونے اور بسورنے سے بسر نہیں ہو سکتی بل کہ حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنے ہی سے سمے کے سم کے ثمر کے بارے میں کوئی ٹھوس لائحۂ عمل مرتب کیا جا سکتا ہے اور اس مسموم ماحول سے بچنے کی کوئی صورت تلاش کی جا سکتی ہے۔آج کا انسان مظلومیت کی تصویر بنا، محرومیوں کے چیتھڑے اوڑھے  نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھتے  زینۂ ہستی سے اُتر جاتا ہے  مگر کوئی اُس کا پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔اردو شاعری میں کامیاب طنز و مزاح لکھنے والے صاحب اسلوب شاعر کی حیثیت سے بشیر جعفر نے ہر قسم کی نا انصافیوں کو خندۂ استہزا میں اُڑانے کی کوشش کی ہے۔معاشرتی زندگی کا انتشار، تضادات، مناقشات اور بے اعتدالیاں اُسے مایوس نہیں کرتیں بل کہ وہ قارئین کے دلوں کو اپنی ظریفانہ شاعری کے ذریعے ایک ولولۂ تازہ عطا کرتا ہے۔اس کی  شاعری میں زہر خند اور طنز کی نشتریت قاری کو ایک انوکھے تجربے سے آشنا کرتی ہے۔کتنے ہی آنسو قاری کی پلکوں تک آتے ہیں مگر وہ زیر لب مسکراتے ہوئے اس شگفتہ شاعری کا استحسان کرتا ہے۔اردو شاعری میں طنزو مزاح کے یہ انداز کئی اعتبار سے قومی کلچر کے بارے میں حقیقی شعور کو سامنے لاتے ہیں۔یاد رکھنا چاہیے ظرافت کا قصر عالی شان ہمدردانہ شعور کی اساس پر استوار ہوتا ہے۔ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا بشیر جعفر کا ادبی مسلک ہے۔ہر شعبۂ زندگی سے وابستہ قارئین ادب کے لیے اصلاح اور تفریح کے مواقع پیدا کرنے کی سعی کرنے والے اس تخلیق کار کی  شگفتہ شاعری ہر عہد میں مسکراہٹیں بکھیرتی رہے گی۔ادبی حلقوں نے اب انجمن ستائش باہمی کی صورت اختیار کر لی ہے۔اب کسی با صلاحیت ادیب کے بارے میں کلمۂ خیر کہنے والا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔بشیر جعفر نے تنقید اور تحقیق کی اس محرومی پر گرفت کی ہے۔اس کے موضوعات کا دائرہ وسیع اور مقبولیت لا محدود ہے :

غریب شہرِ  لیلیٰ ہوں مگر قارون لکھوں گا

میں اپنی ذات با برکت پہ اک مضمون لکھوں گا

کہاں فرصت ہے یارانِ قلم کو خود ستائی سے

میں اپنی شاعری پر آپ ہی مضمون لکھوں گا

شکایت دُور ہو جاتی ہے اِس سے بے دماغی کی

میں اپنے شعر تر کو روغنِ  زیتون لکھوں گا       (6)

طنز و مزاح لکھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ درد مندوں کے لیے دوا بن کر لکھے اس کے دل میں انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت کے فراواں جذبات موجزن ہوں۔وہ دکھی انسانیت کے ساتھ قلبی اور روحانی وابستگی رکھتا ہو۔اس عالم آب و گِل میں زندگی بسر کرنے والی تمام انسانیت کے مسائل کے بارے میں ایک ہمدردانہ شعور رکھتا ہو۔اس کے دل پر جو صدمے گزریں اور اس کا واسطہ جن متنوع  تجربات و مشاہدات سے پڑے انھیں شگفتہ پیرایۂ اظہار عطا کر کے قارئینِ ادب کے ساتھ اپنا معتبر ربط برقرار رکھے۔ایک زیرک مزاح نگار اپنے شگفتہ اسلوب میں جہاں اپنی شگفتہ بیانی کا رنگ جماتا ہے وہاں حالات کی سفاکی اور بے اعتدالی  کے بارے میں اپنی تشویش اور رنج و کرب کو بھی اس میں جگہ دے کر اپنی حساس طبع کے تزکیہ نفس کی ایک صورت  تلاش کر لیتا ہے۔اگرچہ وہ اپنے غم کا بھید کھُلنے نہیں دیتا لیکن قارئین سے اُس کی دلی کیفیت مخفی نہیں رہتی۔وہ در اصل ایک دیرپا اور ہمہ گیر نوعیت کی مسرت اور شادمانی کا متلاشی ہوتا ہے جو انسانیت کے دکھ کی دوا اور زخموں کے اندمال کی ایک صورت بن جائے۔بشیر جعفر نے پنی شگفتہ شاعری میں کئی انداز اپنائے ہیں۔وہ قارئین پر واضح کر دیتا ہے کہ خزاں کے سیکڑوں مناظر ہیں اس لیے طلوع صبح بہاراں کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔گجر بجنے سے دھوکا کھانے والے پِر  بھیانک تیرگی  میں پھنس جاتے ہیں اور ان جان لیوا اندھیروں میں ٹامک ٹوئیے مارتے مارتے عدم کے کُوچ کے لیے رختِ  سفر باندھ لیتے ہیں۔بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری پڑھنے کے بعد اُس کے جو رُوپ سامنے آتے ہیں اُن میں وہ ایک معلم، ناصح، مفکر، فلسفی، سماجی کارکن، شوہر، عاشق، تخلیق کار اور نقاد کی صورت میں خوب کھُل کر لکھتا ہے۔اس کی باتیں ناگوار اس لیے نہیں گزرتیں کیوں کہ وہ پُر لطف انداز میں وہ سب کُچھ کہہ جاتا ہے جو  اقتضائے وقت کے عین مطابق ہے۔وہ خوابوں کی خیاباں سازیوں اور بے سروپا ملمع نگاری کا قائل نہیں۔اس کا اسلوب قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر قاری پر تمام حقائق واضح کر دیتا ہے۔اس طرح قاری آثار مصیبت کے اس ہمہ گیر احساس سے متمتع ہوتا ہے جو امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا عطا کرتا ہے۔ صنائع بدائع اور مزاحیہ صورت واقعہ سے مزاح پیدا کرنے میں بشیر جعفر کو کمال حاصل ہے۔ شوہر اور بیوی کی گھریلو زندگی کے مسائل کا احوال ملاحظہ فرمائیں :

 

میرے ذوق و شوق کو اوقات میں رکھتی ہے وہ

ایک جوتا پاؤں میں، اک ہات میں رکھتی ہے وہ

 

لاکھ سمجھایا کہ دِن کو ہاتھ  قابو میں رکھو

پر کہاں تفریق دن اور رات میں رکھتی ہے وہ

 

جب بھی پھیلاتا ہوں اُس کے سامنے دامانِ دِل

دَھول دَھپا ہی فقط خیرات میں رکھتی ہے وہ

 

سہم جاتا ہے، سمٹ جاتا ہے کچھوا جس طرح

یوں مجھے محبوس میری ذات میں رکھتی ہے وہ          (7)

 

بشیر جعفر نے اپنی شاعری میں ہمیشہ حق و صداقت کی بات کی ہے۔وہ حریت فکر و عمل کا ایسا مجاہد ہے جس نے حرفِ صداقت لکھنا اپنا شعار بنا رکھا ہے۔اُ س کا خیال ہے کہ ظلم کو سہنا اور اُس کے خلاف صدائے احتجاج  بلند نہ کرنا  منافقت اور بے حسی کی علامت ہے۔اس نوعیت کے اہانت آمیز رویے سے ظالم و سفاک درندوں کو کھُل کھیلنے کا موقع مِل جاتا ہے۔اُس کا خیال ہے کہ فقط عدل و انصاف ہی کی اساس پر سیرت و کردار اور اخلاقیات کی تعمیر ممکن ہے۔فن کا ر کی انا اور عزت نفس کو دل و جان سے عزیز رکھنے والے اس تخلیق کار نے ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔اپنی شگفتہ شاعری کے ذریعے معاشرتی زندگی یں رنگ، خوشبو اور حُسن و خوبی کے تمام استعارے یک جا کرنے والے اس تخلیق کار دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔اُردو زبان و ادب اور مشرقی تہذیب و ثقافت ے فروغ کے لیے اُس کی مساعی کا ایک عالم معترف ہے۔ خالص مزاح، طنز اور رمز کے امتزاج سے مسکراہٹیں بکھیرنے والے اس سدا بہار شاعر کے اسلوب کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا :

 

غیر سے ہوتی ہو تکرار تیری بزم میں

تاؤ دیں گے مُونچھ کو سو بار تیری بزم میں

 

یوں ہی منہ آتے رہے یہ لوگ تو اے جان جاں

ہم کہیں پھڑکا نہ دیں دو چار تیری بزم میں

 

رنج ہے، رسوائیاں ہیں، طعن ہے تعریض ہے

باندھ  لائے ہیں یہ سب طُومار تیری بزم میں

 

سرد آہوں کی فراوانی سے قلفی جم گئی

آتش دل بھی ہے  ٹھنڈی ٹھار تیری بزم میں

 

چار سُو عاشق ہی عاشق، تھُوکنے کی جا نہیں

اور رکھ بیٹھے ہیں ہم نسوار تیری بزم میں         (8)

ایک صاحب  بصیرت مزاح نگار کی حیثیت سے بشیر جعفر نے اپنی ظریفانہ شاعری میں نئے آہنگ اور نرالے ڈھنگ سے محفل کو زعفران زار بنایا ہے۔اس کے تخلیقی تجربے میں صداقت کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ تہذیبی، ثقافتی، سماجی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کے جملہ نشیب و فراز بشیر جعفر کی شاعری میں سمٹ آئے ہیں۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ بڑے بڑ ے ناصح اور مصلح جو کہ اپنے دبنگ لہجے اور غیر معمولی سنجیدہ  اسلوب کے ذریعے جو مثبت نتائج حاصل نہ کر پائے، مزاح نگاروں نے ان اہداف تک رسائی حاصل کر کے قارئین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔سنجیدہ اور ظریفانہ شاعری میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سنجیدہ شاعری پر کئی معاشرتی اور تعزیری قدغنیں عائد ہیں جب کہ اپنی ظریفانہ شاعری ایک مزاح نگار  جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر اور حریت فکر کا علم بلند رکھتا ہے۔اس کا شگفتہ اسلوب استحصالی عناصر کو اپنی اوقات میں رہنے کا مشورہ دے کر انھیں آئینہ دکھاتا ہے۔اُ س کی یہ شگفتہ بیانی چربہ ساز، سارق، سفہا اور اجلا ف و ارذال کے لیے بلائے نا گہانی بن جاتی ہے اور وہ جگ ہنسائی سے عاجز آ کر منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری میں زبان و بیان کے معیار اور معاشرتی زندگی کے وقار کو ملحوظ رکھا گیا ہے اس میں عام لطائف کا سہار انہیں لیا گیا بل کہ حقائق کو پر لطف انداز میں زیب قرطاس کیا گیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ اس شگفتہ شاعری کو قبول عوام کی سند ملے گی۔

مآخذ

(1)بشیر جعفر :ہنستے بسورتے لفظ، رُمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز، راول پنڈی، طبع اول، 2011، صفحہ 76۔

 

(2)                              ایضاً                                          صفحہ 34۔

(3)                              ایضاً                                          صفحہ 21۔

(4)                                             ایضاً                                          صفحہ 164۔

(5)                             ایضاً                                          صفحہ 158۔

(6)                             ایضاً                                           صفحہ 24۔

(7)                             ایضاً                                           صفحہ 28۔

(8)                             ایضاً                                           صفحہ 36۔

٭٭٭

 

 

 

جاوید اختر چودھری :ایک منفرد اسلوب کا حامل تخلیق کار

 

 

یورپی ممالک میں اہل، نظر نے اُردو زبان و ادب کی جو بستیاں بسا رکھی ہیں وہ جہاں اُن کے ذوقِ سلیم کی آئینہ دار ہیں وہاں ان کے اعجاز سے اُردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کو یقینی بنانے اور افکارِ  تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جستجوکے امکانات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ عالمی ادبیات کے یہ نباض تراجم اور تخلیقات سے اُردو ادب کی ثروت میں جو گراں قدر اضافہ کر رہے ہیں وہ تاریخ ادب میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔وطن، اہلِ وطن، اپنی تہذیب و ثقافت، تاریخ، تمدن اور معاشرت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کرنے والے ان دانش وروں کے بارِ احسان سے اُردو زبان و ادب کے طلبا کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔اُردو زبان وا دب کے بے لوث خدمت گاروں میں ایک اہم نام جاوید اختر چودھری کا ہے۔پاکستانی کشمیر سے تعلق رکھنے والے اس زیرک شاعر نے بر منگھم میں علم و ادب کی محفل سجا رکھی ہے۔اس کی تخلیقی فعالیت کے کئی آفاق ہیں۔اردو زبان پر اسے جو خلاقانہ دسترس حاصل ہے، اُس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہر صنفِ ادب میں اظہار و ابلاغ پر قدرت رکھتا ہے۔اُس کا پہلا شعری مجموعہ ’’حصار، ذات ‘‘۱۹۹۹ میں شائع ہوا۔اُس کی شاعری زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرتی ہے۔انسانی معاشرت کا مطالعہ اور مشاہدہ اس کے اسلوب کا اہم موضوع رہا ہے۔وہ مسائلِ زیست سے شاعری کے لیے مواد کشید کرتا ہے۔انسانی زندگی کے نشیب و فراز، ارتعاشات، دُکھ اور سُکھ اُس کی شاعری میں جلوہ گر ہیں۔اُس کے مشاہدات، تجربات، احساسات اور جذبات دل نشیں انداز میں الفاظ کے قالب میں ڈھل کر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔اِس فعال، مستعد اور بے حد زیرک تخلیق کار کے فکر و خیال کی ترتیب و تدوین میں اس کے خلوص اور درد مندی کو کلیدی مقام حاصل ہے۔جب اس کے تخلیقی عمل اور اس کے پسِ پردہ کار فرما لا شعوری محرکات پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وہ مواد اور ہیئت کے حسین امتزاج سے ا س مہارت کے ساتھ لفظی مرقع نگاری کرتا ہے کہ اس کی بات دل کی گہرائیوں میں اُتر کر پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ جاوید اختر چودھری کی جان کو دوہرے کرب کا سامنا ہے وہ حالات کے ستم سہتا ہے اور پھر ان کے مسموم اثرات کے بارے میں سوچ کر تزکیہ نفس کی صورت تلاش کرنے کی سعی کرتا ہے۔اُس نے دُکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ جس ثابت قدمی سے اپنے سر پر جھیلے ہیں اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا  اور لبِ اظہار پر تالے لگا لیے ہیں وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اپنے لہو سے ہولی کھیلنے کے مترادف ہے۔دو ہجرتوں کے عذاب سہہ کر وطن سے دُور پہنچا، اس اثنا میں جب اُس کی خاک کو اکسیر کرنے والا باپ بیٹے کی راہ دیکھتا دیکھتا پیوندِ  خاک ہو گیا تو اس کے دل پر قیامت گزر گئی۔ ابھی اس کی جانِ  نا تواں کو مزید ابتلا اور آزمائش کا سامنا تھا، اس کے جواں سال بیٹی اور وفا شعار بیوی نے زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لیا۔اپنے کم سِن بچوں کی دیدۂ تر کو دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ تقدیر کے چاک کو سوزنِ  تدبیر سے رفو نہیں کیا جا سکتا۔ ان پے در پے سانحات کے بعد اگرچہ اُس کی روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو چکا تھا لیکن اُس نے کسی سے سہارے کی التجا نہ کی اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔ صبر کی روایت میں لب کسی صورت میں وا نہیں کرتا اور جبر کے سامنے سِپر انداز ہونے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔اپنے ان اصولوں پر وہ کوئی سمجھوتا کرنے پر تیار نہیں۔ دُنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں اُسے جن تکلیف دہ حالات سے دو چار رکھا، اُس کی شاعری ان کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی ایک کوشش ہے۔وہ یہ بات اچھی طر ح جانتا ہے وقت پڑنے پر موقع پرست اور دُنیا دار لوگوں کو مصنوعی مجبوریاں یاد آ جاتی ہیں اور مصیبت کی گھڑی میں ہر فرد دُکھوں کا سامنا کرنے کے لیے اکیلا رہ جاتا ہے۔ رام ریاض نے سچ کہا تھا :

اور سہارے تو دھرتی کے تجارتی ہیں

اپنی ٹانگیں اپنا بوجھ سہارتی ہیں

اس کا تخلیقی عمل جہاں اس کے جذبات و احساسات کا مظہر ہے وہاں کے جلو میں ضو فشاں تخلیق کار کی وجدانی کیفیت اور جاں پہ گُزرنے والے صدمات کی باز گشت بھی قاری کے قلب و نظر پر گہرے اثرات مُرتب کرتی ہے۔وقت کی مثال بھی سیل رواں کی تُند و تیز موج کی سی ہے جو ٹھاٹیں مارتا ہوا شاہراہِ حیات کے پُلوں کے نیچے سے گُزر جاتا ہے۔ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں اور یہ ہماری دسترس سے دُور بہت ہی دُور نکل کر سمندر میں اُتر جاتا ہے۔ انسان بھی زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سر گرمِ سفر ہیں۔کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی قوی اور پُر جوش ہو پُلوں کے نیچے سے بہہ کر نکل جانے والے پانی اور بیتے لمحات کے لمس سے پھر کبھی آشنا نہیں ہو سکتا۔جاوید اختر چودھری کے اسلوب میں وقت کے اِسی نشیب و فراز کا احوال بیان کیا گیا ہے۔جو مستقبل میں ہونے والا ہے اُس کے بارے میں وہ کسی تشویش میں مبتلا نہیں ہوتا بل کہ اُس کے سامنے شب و روز جو تماشا جاری ہے اُس کے کرب نے اُسے مسلسل اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وقت کا یہ کس ادر المیہ ہے کہ زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی گئی ہیں اور زندگیاں پُر خطر کر دی گئی ہیں۔ وقت کے اِ ن سانحات نے اُس کی شاعری قاری کے جذبات سے اس طرح ہم آہنگ ہو تی ہے کہ اُس کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے :

بتاؤں کس طرح تجھ کو مِرے ساتھی مِرے ہم دم

کہ میں نے اِس جہاں میں در بہ در کی خاک چھانی ہے

دستِ خزاں نے دِل کی کلی کو مسل دیا

شاید میرے نصیب میں بادِ سحر نہ تھی

میں نے اِس آس پہ رکھا ہے کھُلا زِیست کا باب

میرا مقروض کبھی قرض چُکانے آئے                              (۱)

اس کے دو برس بعد ۲۰۰۰ میں اس کا افسانوی مجموعہ ’’اِک فرصتِ گناہ‘‘ منظر عام پر آیا۔اس طرح اس نے اردو شاعری اور افسانے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔اس کا تخلیقی عمل مسلسل جاری ر ہا اور مختصر عرصے میں اُس کی مزید پانچ وقیع تصانیف شائع ہوئیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے :

’’حرفِ دعا  ‘‘(افسانے ) ۲۰۰۴، ’’سوہاوہ میری بستی میرے لوگ‘‘ ۲۰۰۶، ’’ہم صورت گر کچھ خوابوں کے ‘‘ ۲۰۱۲،  ’’ٹھوکا ‘‘ (افسانے ) ۲۰۱۲، ’’ شیرازہ ‘‘۲۰۱۲۔

اُردو کی ممتاز ادیبہ سُلطانہ مہر جو اب جاوید اختر چودھری کی شریکِ حیات بن چُکی ہیں،  ’’ہم صورت گر کچھ خوابوں کے ‘‘ میں اُن کے فن اور شخصیت کی لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے۔یہ کتاب باہمی اعتماد، خلوص و محبت اور وفا کے جذبات کی آئینہ دار ہے۔ اس کتاب میں سلطانہ مہر کی شخصیت، اسلوب اور فکر و فن کا جس دل نشیں انداز میں احاطہ کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔’’سوہاوہ میری بستی میرے لوگ ‘‘میں جاوید اختر چودھری نے حب الوطنی کے معائر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وطن کی مٹی کو گواہ بنا کر اپنی دلی کیفیات کا احوال بیان کیا ہے۔ہر ذی شعور شخص کو اس شہر سے والہانہ محبت ہوتی ہے جہاں اُس کی آنول نال گڑی ہوتی ہے۔جب وطن میں اُس کی خوابیدہ صلاحیتوں کے نمو پانے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تو قسمت آزمائی کرنے کی خاطر بیرونِ ملک جانے کے بارے میں غور و فکر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اپنے وطن کی مٹی کی محبت اُس کے رگ و پے میں سرایت کر جاتی ہے۔یہی خاک اُس کی آنکھ کا سُرمہ ہے، جِسے چومنے کے لیے وہ بے قرار رہتا ہے۔جب وہ وطن واپس آتا ہے اور ارضِ  وطن پر پاؤں رکھتا ہے تو اسے دیر تک حیرت و حسرت کی تصویر بنا رہتا ہے کہ اُس نے وطن کی خاک پر اپنا سر کیوں نہ رکھ دیا کیوں کہ خاک، وطن کا تو ہر ذرہ اُس کے لیے دیوتا کے ما نند ہے۔وطن کی یادوں کے احوال سے لبریز یہ کتاب قارئینِ ادب کے ذہن پر دور رس اثرات مرتب کرتی ہے۔مصنف نے اپنی یادوں کے گُل ہائے رنگ رنگ سے اس کتاب کو خوب سجایا ہے۔مصنف نے کوشش کی ہے کہ اس سے پہلے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑے اور  آلامِ روزگار کے مہیب بگولے گلشن ہستی سے وابستہ یادوں کو خس و خاشاک کے ما نند اُڑ ا لے جائیں اُن کی مہک کو الفاظ کی صورت میں محفوظ کر لیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں ان حسین یادوں کی عطر بیزی سے روحانی حظ اُٹھا سکیں۔مسائل کے ازدحام میں گھرے انسان کاسینہ و دل جب حسرتوں سے چھا جاتا ہے تو ہجومِ یاس میں اُس کا دل یقیناً گھبرا جاتا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ قاری کو اس حقیقت کی جانب مائل کرتا ہے کہ وہ جہد و عمل کو شعار بنائے اپنی پیشانی سے پسینا صاف کر کے اپنی دُنیا آپ پیدا کرے۔اس کی بلند ہمتی اور سعیِ پیہم کو دیکھ کر دنیا اش اش کر اُٹھے گی۔ ’’شیرازہ ‘‘نہایت دلچسپ تصنیف ہے جسے مصنف نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔پہلا حصہ ستائیس مضامین پر مشتمل ہے، دوسرے حصے میں مشاہیرِ ادب کے تیرہ  انٹرویوز شامل ہیں جب کہ تیسرے حصے میں سات خطوط کو جگہ دی گئی ہے۔

شیرازہ میں شامل ستائیس مضامین تاثراتی نوعیت کے ہیں۔ان مضامین میں مصنف نے اسلوبیاتی تنقید کے معائر کو بالعموم پیشِ نظر رکھا ہے۔آج کے دور میں تہذیبی ترقی کی چکا چوند نگاہوں کو خیرہ کر رہی ہے لیکن یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کی یہ سب صناعی جھُوٹے نگوں کی ریزہ کاری کی ایک شکل ہے۔مصنف نے رجائیت کا دامن تھام حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں رکھی ہے اور مثبت اندازِ فکر کو اپناتے ہوئے پرورشِ لوح و قلم میں مصروف تخلیق کاروں کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت ان کے اسلوب کے محاسن کو زیادہ اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔اِن لوگوں کا وجود غنیمت ہے جو کثیف فضا کے جان لیوا صدمات سہہ کر بھی ادبِ لطیف کی تخلیق میں مصروف ہیں۔یہ وہ ادیب ہیں جو علم و ادب سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کی وجہ سے اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔شیرازہ میں احمد ندیم قاسمی، امجد مرزا، تابش خانزادہ، ڈاکٹر خالد سہیل، ساحر شیوی، سلطانہ مہر، ش۔صغیر ادیب، سیدہ شہناز بانو، ڈاکٹر صفات علوی، پروفیسر عبدالواحد قریشی، پروفیسر طاہرہ اقبال، سید عطا جالندھری، قیصر تمکین، خواجہ محمد آصف، محمد اقبال بھٹی، محمد فاروق نسیم، پروفیسر مظفر حنفی، مقبول الہٰی شیخ، فرخندہ رضوی، فیصل نواز چودھری اور وسیم بٹ کے اسلوب کے بارے میں مضامین شامل ہیں۔مصنف نے جن ممتاز شخصیات سے اپنی ملاقاتوں اور انٹر ویوز کواس کتاب میں شامل کیا ہے اُن میں چودھری محمد صاد ق، محمد اقبال، ڈاکٹر خالد محمود ضیا، راجہ سلیم اختر، مولانا بوستان قادری، اظہر رضوی، بیرسٹر عبدالقیوم چودھری، ف، س، اعجاز اور نجم الثاقب شامل ہیں۔مصنف کی مکتوب نگاری کا رنگ کتاب میں شامل اُن کے مکاتیب سے ہوتا ہے۔مصنف نے یہ مکاتیب بخش لائل پوری، افتخار نسیم، قیصر حمید، عبدالقادر حسن، پروفیسر شوکت واسطی، پروفیسر مشکور حسین یاد اور ’’اُردو اخبار ‘‘ اسلام آباد کے مدیر کے نام لکھے ہیں۔یہ خطوط زندگی کی پُر پیچ راہوں اور تابِ نظارہ رکھنے والی نگاہوں کے بارے میں مصنف کے رویے کی عکاسی کرتے ہیں۔کئی مکاتیب ایسے بھی ہیں جن کا مطالعہ کرتے وقت معاصرانہ چشمک کی کیفیت کے بارے میں آگہی حاصل ہوتی ہے۔قاری کو لاہور سے شائع ہونے والے مجلہ ’’نقوش‘‘ کا ادبی معرکے نمبر یاد آ جاتا ہے جس میں ممتاز ادیبوں نے اپنے نظریاتی مخا لفین کی خوب خبر لی۔اِن خطوط کا مطالعہ فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتا ہے۔

جاوید اختر چودھری کے افسانوں کا مجموعہ ’’ٹھوکا‘‘ جدید اردو افسانے میں دلچسپی رکھنے والے قارئینِ ادب کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہے۔یہ افسانوی مجموعہ اکبری آرٹ پرنٹرز، کراچی کے زیرِ  اہتمام سال ۲۰۱۲میں شائع ہوا۔اس کتاب کا پیش لفظ خود مصنف نے لکھا ہے جس میں تخلیقِ فن کے اسرار و رموز اور اِس افسانوی مجموعے  کے متعلق اپنے تاثرات کو زیبِ قرطاس کیا ہے۔افسانوی مجموعہ ’’ٹھوکا‘‘ کے آغاز میں ڈاکٹر صفات علوی اور سلطانہ مہر کے وقیع مضامین شامل ہیں۔فاضل تجزیہ نگاروں نے مصنف کے اسلوب   اور فنِ افسانہ نگاری کے متعلق اپنے تاثرات نہایت صراحت سے قاری کے سامنے رکھے ہیں۔افسانوی مجموعہ ’’ٹھوکا‘ ‘پندرہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ یہ افسانے جدید دور کے نئے طرزِ احساس اور تیزی سے بدلتی ہوئی اقدار و روایات کا حقیقی منظر نامہ سامنے لاتے ہیں۔اس افسانوی مجموعے کا ایک اہم حصہ وہ تاثراتی تحریریں ہیں جن کا تعلق جاوید اختر چودھری کے فنِ  افسانہ نگاری سے ہے۔ان تاثراتی تحریروں کو مصنف نے ’’ذکرِ یار چلے ‘‘کے عنوان سے کتاب کے آخر میں شامل کیا ہے۔جن تیئیس مشاہیرِ ادب نے مصنف کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھا ہے اُن کے نام درجِ ذیل ہیں :

پروفیسر آفاق احمد، ڈاکٹر الٰہی بخش اعوان، انور خواجہ، خالد خواجہ، پروفیسر رشید مصباح، رضا علی عابدی، ڈاکٹر ستیہ پال آ نند، پروفیسر شاہدہ حسن، ڈاکٹر شمس جیلانی، ڈاکٹر صفات علوی، صفیہ صدیقی، عرفان مصطفیٰ، ڈاکٹر علی احمد فاطمی، فرخ صابری، فرخندہ رضوی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، کرامت اللہ غوری، مجتبیٰ حسین، محمود شام، پروفیسر نذیر تبسم، مقصود الٰہی شیخ، یوسف ناظم، ڈاکٹر معین قریشی

جاوید اختر چودھری کی تحریریں خلوص اور دردمندی کی مظہر ہیں۔مصنف نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پُوری دیانت اور صداقت کے ساتھ اپنے مشاہدات، تجربات، جذبات اور احساسات کو اپنے فکر و فن کی اساس بنایا ہے۔مصنف نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں ایک ایسی ذہنی اور فکری ماحول پیدا کرنے کی سعی کی ہے جس کے اعجاز سے عصری آگہی کو پروان چڑھانے اور معاشرتی زندگی مین اصلاحِ احوال کو یقینی بنانے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ مصنف کی تخلیقی تحریریں اور مشاہیرِ ادب کے خیالات کو پڑھنے کے بعد اُردو ادب کے قارئین اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مصنف نے جس انداز میں اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں وہ ان کے منفرد اسلوب کا عمدہ نمونہ ہیں۔ایک حساس تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو معاشرے، سماج اور انسانیت کی طرف سے اُسے کچھ ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں۔مصنف کی تمام تخلیقی تحریریں اور یہ مضامین پڑھنے کے بعد یہ بات بلا تامل کہی جا سکتی ہے کہ اس دنیا کے آئینہ خانے میں اُس نے ہر شخص کو  معاشرتی مسائل پر سنجیدہ غور و فکر کی راہ دکھائی ہے۔مصنف نے لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اُن تمام ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کی ہے جو وطن۔اہلِ وطن اور انسانیت کی طرف سے اُس پر عائد ہوئی ہیں۔مصنف کے اسلوب نے اُسے خود اپنی نظروں میں معزز و مفتخر کر دیا ہے۔تاریخِ  ادب میں قومی تشخص اور قومی زبان کے فروغ کی اِس نوعیت کی مساعی ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

مصنف نے اپنی تخلیقی تحریروں میں ہمیشہ مقصدیت کو اولیت دی ہے۔اُس کی دلی تمنا ہے کہ معاشرے کو امن و آشتی کا گہوارہ بنا دیا جائے۔اپنے افسانوں میں مصنف نے معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے چینی، بے یقینی اور اضطراب کا کھوج لگانے کی مقدور بھر سعی کی ہے اور معاشرے کے تمام افراد کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے ربطِ باہمی ہی سے گلشنِ ہستی کو خس و خاشاک سے پاک کیا جا سکتا ہے۔نظامِ زندگی کا استحکام اس امر کا متقاضی ہے کہ زندگی کی مرگ آفریں قوتوں کو تہس نہس کر دیا جائے اور حیات آفریں قوتوں کو پروان چڑھنے کے مواقع دئیے جائیں۔جاوید اختر چودھری کی تحریروں میں خلوص و محبت کی فراوانی ہے، اِس کے ساتھ ہی وہ تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی جد و جہد کو ہر ادیب کی ذمہ داری سمجھتا ہے۔اُس نے اپنی تحریروں سے یہ واضح کر دیا ہے کہ مستحکم زندگی بسر کرنے کے لیے معاشرے کے تمام افراد کے دلوں میں باہمی افہام و تفہیم اور خلوص و دردمندی پر مبنی جذبات کی موجودگی نا گزیر ہے۔معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں، تضادات، شقاوت آمیز نا انصافیوں اور خوف و دہشت کی فضا کا قلع قمع کرنے کے لیے ذہنی بیداری اور داخلی انقلاب کی ضرورت ہے۔مصنف نے اپنی تخلیقی تحریروں میں داخلی تجربات اور نفسیاتی کیفیات کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے۔ اپنی ذات اور لا شعور کی اتھاہ گہرائیوں کی غواصی کر کے مصنف نے سچے جذبات، قلبی احساسات، خلوص، دردمندی، ایثار اور انسانی ہمدردی کے جو گہر ہائے آبدار صفحۂ قرطاس پر منتقل کیے ہیں وہ متنوع خیالات فکر و نظر کی نُدرت اور جدت اور منفرد اسلوب کے مظہر ہیں۔اپنے ذاتی لا شعور کا سفر خوش اسلوبی اور کامیابی کے ساتھ طے کرنے کے بعد مصنف نے ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی مثال پیشِ نظر رکھی ہے اور کوشش کی ہے کہ سماجی اور تاریخی لا شعور کی جانب عزمِ سفر کیا جائے۔اپنی زندگی میں مصنف کو جن تجربات سے گُزرنا پڑا اُن کی لفظی مرقع نگاری کرتے ہوئے مصنف نے قاری کو سوچنے پر مائل کیا ہے۔قاری چشمِ تصور سے وہ تمام واقعات دیکھ لیتا ہے جِن کو کہانی کے روپ میں مصنف نے پیش کیا ہے۔ایک حقیقت نگار ادیب کی حیثیت سے جاوید اختر چودھری نے حرفِ صداقت لکھنے کی جو روش اپنائی ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔مصنف کی تخلیقی فعالیت سے اُردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہو گا۔

٭٭٭

مآخذ

(۱)جاوید اختر چودھری:ٹھوکا،  اکبری آرٹ پرنٹرز، کراچی، بارِ اول، ۲۰۱۲، صفحہ ۱۵۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

           گدا حسین افضل:فصیلِ دِل کے کلس پر سِتارہ جُو تیرا غم

 

 

احباب ہی نہیں تو کیا زندگی حفیظ

دُنیا چلی گئی مری دُنیا لیے ہوئے

پروفیسر(ر)گدا حسین افضل نے عدم کے کُوچ کے لیے رختِ  سفر باندھ لیا۔اتوار یکم جولائی دو ہزار چودہ کو اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھا اُس میں گدا حسین افضل کا نام بھی رقم تھا۔ گدا حسین افضل کی وفات سے علم و ادب،تدریس،تحقیق و تنقید کا ایک زریں عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا عظیم علم بردار زینۂ ہستی سے اُتر گیا۔ عجز وانکسار کا پیکر،خاندانی شرافت،خو د داری اور وقار کی علامت،جہدِ مسلسل، قوتِ ارادی کی پہچان اور حریتِ  فکر کا عظیم مجاہد لاکھوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ گیا، اس سانحے پر پُورے ملک کے علمی و ادبی حلقوں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ جھنگ سے گوجرہ جانے والی سڑک پر چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ’’اوڈاں والا ‘‘شہرِ  خموشاں کی زمین نے علم و ادب،تعلیم و تعلم،تہذیب و شائستگی،خلوص و وفا اور انسانی ہمدردی کے آسمان کو اپنی آغوش میں چُھپا لیا۔پاکستان میں تدریسِ ادبیات کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی فرشتۂ اجل کے ہاتھوں زمیں بوس ہو گئی۔ شہر کے ممتاز تعلیمی ادارے اور اہم تجارتی مراکز اس عظیم انسان کی وفات کے سوگ میں بند رہے۔ وطن،اہلِ وطن اور انسانیت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کو اپنی زندگی کا مطمحِ نظر قرار دینے والا جری،زیرک،فعال اور مستعد معلم اب ہمارے درمیان مو جود نہیں۔وہ با کمال محقق،بے مثال نقاد،حریتِ فکر کا مجاہد اور منفرد اسلوب کا حامل تخلیق کار دیکھتے ہی دیکھتے ہماری محفل سے اُٹھ گیا اور دنیا دیکھتی کی دیکھتی اور کفِ افسوس ملتی رہ گئی۔  مذاہبِ  عالم، عالمی ادبیات،فنون لطیفہ،تاریخ، فلسفہ،علم بشریات، سیاسیات اور نفسیات پر کامل دسترس کی وجہ سے گد احسین افضل کو ایک دائرۃ المعارف کی حیثیت حاصل تھی۔ ایسا عظیم انسان اور نابغہ ء روزگار دانش ور اب کہاں سے لائیں جسے گدا حسین افضل جیسا کہا جا سکے۔ گدا حسین افضل نے اُردو زبان و ادب کے طالب علموں کوقاموس و لغت سے بے نیاز کر دیا۔جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر سے جینے کے لیے اُسوۂ شبیرؓ  کو زندگی بھر پیشِ نظر رکھنے والے اس مردِ حق پرست کی زندگی رمزِ لا تخف کی عملی تصویر تھی جس نے زہرِ ہلاہل کو کبھی قند نہ کہا۔ شہرِ سدا رنگ جھنگ میں فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کے موسم کی نوید سنانے والے اس یگانۂ روزگار فاضل کی دائمی مفارقت کی خبر سن کر ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔گدا حسین افضل کے ساتھ میرا تعلق خلوص اور دردمندی کی اساس پر استوار تھا۔ہم بے تکلفی کے ساتھ ایک دوسرے کی غم گُساری کرتے اور باہمی مشاورت سے درپیش مسائل کا حل تلاش کرتے۔میں نے ہمیشہ اُسے اپنا چھوٹا بھائی سمجھا اور اُس نے بھی میری عزت و تکریم کو ہمیشہ مقدم سمجھا۔گدا حسین افضل کی وفات میرا ذاتی سانحہ ہے۔ فرشتہ ء اجل نے اُس شمعِ فروزاں کو ہمیشہ کے لیے گُل کر دیا ہے جو سفاک ظُلمتوں میں ستارۂ سحر اور اُمید فردا تھی۔میری آنکھیں پُر نم ہیں،لفظ ہونٹوں پر پتھرا کر رہ گئے ہیں۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھوں،کہاں سے شروع کروں اور اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کیسے کروں۔ اُس کے ساتھ میرا تعلق گُزشتہ چار عشروں پر محیط تھا لیکن وہ تو جاتے جاتے سارے سلسلے ہی توڑ گیا۔وقت کس قدر بر ق رفتاری سے گُزر جاتا ہے،اس کے تصور ہی سے انسان لرز اُٹھتا ہے۔شہر یار نے سچ کہ تھا:

عجیب چیز ہے یہ وقت جس کو کہتے ہیں

کہ آنے پاتا نہیں اور بِیت جاتا ہے

جو ہونے والا ہے اب اُس کی فکر کیا کیجیے

جو ہو چُکا ہے اُسی پر یقیں نہیں آتا

گدا حسین افضل نے یکم جنوری انیس سو پچاس کو تحصیل جھنگ کے ایک دُور اُفتادہ گاؤں راجن والا میں جنم لیا۔چند کچی جُھگیوں پر مشتمل اس قدیم علاقے کو کچیاں (خام)کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔یہاں کی جُھگیاں بے شک کچیاں ہی ہیں لیکن یہاں کے اولو العزمانِ دانش مند جس سے پیمانِ وفا باندھ لیتے ہیں،اُسے علاجِ گردشِ  لیل و نہار سمجھتے ہوئے سنگت نبھاتے ہیں۔بے لوث محبت،خلوص اور دردمندی کی اساس پر استوار یہ سنگتیں وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ پکیاں ثابت ہوتی ہیں۔تریموں کے مقام پر دریائے جہلم کا نقطۂ اختتام ہے اور اسی مقام پر دریائے چناب کی منہ زور طوفانی لہریں دریائے جہلم کے قلیل، سست اور مضمحل پانی پر غلبہ حاصل کر لیتی ہیں اور تریموں ہیڈ ورکس سے آگے جنوب کی جانب صرف دریائے چناب ہی موجود ہوتا ہے جہلم کا پانی چناب کا حصہ بن جاتا ہے۔گدا حسین افضل کی جنم بھومی اِن دو دریاؤں کے درمیان واقع ہے۔مغرب میں چند کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے جہلم ہے جب کہ مشرق میں دریائے چناب بہتا ہے۔ وہ جُھگیاں جن میں اس عظیم انسان کی آنول نال گڑی ہے بلا شُبہ دو دریاؤں کی سر زمین ہے۔ ساون اور بھادوں کی مون سون کی بارشوں کے بعد جب اِن دو دریاؤں میں طغیانی آ تی ہے تو کچیاں کے مکین کبھی گھڑیوں کی طرف اور کبھی آسمان کی جانب دیکھتے ہیں کہ اس سال کچیاں کے انہدام کا ذمہ دار کس دریا کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ کون سے دریا کا پانی پہلے یہاں پہنچتا ہے؟ دریاؤں کو تو اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام ہوتا ہے۔مجبوروں کی اُمیدوں کی فصل غارت ہوتی ہے یا اُن کی صبح و شام کی محنت اکارت چلی جاتی ہے اس سے دریا بے پروا ہوتے ہیں۔دریائے چناب کا ٹھاٹیں مارتا ہوا پانی آن کی آن میں کچیاں جھگیاں ملبے کا ڈھیر بنا دیتا ہے،اس کے بعد دریائے جہلم کا پانی کھجور کی ڈانگوں (لمبی شاخوں )سے تیار کیے ہوئے کواڑ، کھجور کے تنے سے بنائے گئے شہتیر،سر کنڈے کی چھت (پتلاں ) ا ور ملبے کا سامان بہا لے جاتا ہے۔ حُسنِ فطرت سے مالا مال اس علاقے میں میلوں تک کھجوروں کے جُھنڈ ہیں۔کچھ کھجوریں تو خود رو ہیں لیکن بعض دیہاتی کسانوں نے محکمہ زراعت کے مشورے سے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق عجوہ،حلاوی، کیچ،مکران اور بصرہ کی کھجوریں بھی اُگائی ہیں۔گدا حسین افضل کو اپنی جنم بھومی سے بہت محبت تھی۔اس علاقے کے پھل جن میں پیلوں، بیر،خوش ذائقہ کھجوریں،ڈیہلے،لسوڑیاں،مکو اور سنجاونا شامل ہیں اسے منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔یہ سب پھل اس علاقے میں کثرت سے پائے جاتے تھے اور قدرتِ کا ملہ کی بے پایاں فیاضی کی وجہ سے بلا قیمت ہر خاص و عام کی دسترس میں تھے۔ کئی فصلیں ایسی بھی ہیں جو اس علاقے میں کثرت سے اُگائی جاتی ہیں۔ان میں جو،جوار،باجرہ،مکئی،منڈوا،چِینا،سوانک اور چاول وغیرہ شا مل ہیں۔گدا حسین افضل کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں فطرت ہر وقت لالے کی حنا بندی میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہے۔جس طرح قبائے گُل کو گُل بُوٹے کی احتیاج نہیں اِسی طرح دیہی تہذیب اور معاشرت بھی تصنع اور تکلف سے بے نیاز ہے یہ بات بلا خوفِ  تردید کہی جا سکتی ہے کہ حُسنِ فطرت کو اپنی بے حجابی کے لیے گنجان آباد شہروں سے زیادہ دیہات اور بن پیارے ہیں۔ دُور اُفتادہ دیہاتوں کے سادہ لوح اور مخلص لوگ جس بے تکلفی  اورسادگی سے اپنے مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔گدا حسین افضل اپنے دیرینہ رفقائے کار ملک صالح محمد، اللہ دتہ،ملک محمد نواز اور لال خان کا ذکر کرتا تو اُس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔ایک بار اُس نے بتا یا:

’’جب بھی کوئی مہمان آتا یہ مہربان سادہ غذا سے اس کی تواضع کرتے۔گرمیوں میں گندم کی روٹی میں تاندلہ ملا کر تنور پر اسے پکایا جاتا اور پھر اسے کنگ کے سا تھ کھا یا جاتا۔اِسی موسم میں گاؤں کے لوگ الونک،کُھمبیاں اور اکروڑی جیسی خود رو سبزیاں پکاتے جو شہروں میں عنقا ہیں۔ سُنجاونا کے پُھولوں اور پَھلیوں سے اچار تیار کیا جاتا تھا۔اسی طرح چنے،گاجریں،لیموں، لسوڑیاں اور ڈیہلے بھی اچار بنانے میں کام آتے تھے،یہ لوگوں کی من پسند غذا تھی۔ موسم کی سبزیوں مثلاً شلجم،کریلا،ساگ اور میتھی کو دھوپ میں رکھ کر خشک کر لیا جاتا اور موسم گزرنے کے بعد ان سوکھی سبزیوں کو پکا کردسترخوان کی زینت بنایا جاتا۔  انگریزی اور چینی کھانوں کے دلدادہ فیشن زدہ لوگوں کو ان پکوانوں کے بارے میں کیا بتائیں۔اندھا بسنت کی بہار کے بارے میں کچھ بھی نہیں سمجھ سکتا۔  سردیوں میں سرسوں کا ساگ جس میں خود رو بُو ٹی باتھو اور ہری مرچ ملائی جاتی تھی،اس قدر خوش ذائقہ ہوتا کہ کھانے والے اُنگلیاں چاٹتے رہتے۔مکھن کے پراٹھے کے ساتھ سرسوں کا ساگ اور چاٹی کی لسی کا مشروب ساتھ میٹھے کے طور پر گھی شکر یا چُوری میزبان کی دریا دِلی اور مہمان نوازی کا اعلا ترین معیار تھا۔ مکئی،جوار،باجرے اور منڈوے کی روٹیوں ں کا اپنا مزہ تھا۔گرمیوں میں جو کو بھون کر اور اسے پیس کر ستُو جیسا فرحت بخش مشروب تیار کیا جاتا تھا۔ سردیوں میں مولی کو کُتر کر اسے دو روٹیوں کے درمیاں رکھ کر دیسی گھی میں توے پر پکا کر انتہائی لذیذ روٹی تیار کی جاتی جسے ’’بُھسری‘‘کا نام دیا جاتا تھا۔آج بھی ان مہربانوں کی مہمان نوازی کی یاد آتی ہے تو ان کی مہمان نوازی کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔یہ سب دائمی مفارقت دے گئے،ان محفلوں کے ذکر سے کلیجہ منہ کو آتا ہے،اب دنیا میں ایسی ہستیاں کہاں ؟‘‘

انیس سو ساٹھ میں گدا حسین افضل کے والدین نے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے اپنے آبائی گاؤں کی سکونت ترک کر کے جھنگ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔اُس زمانے میں جھنگ محض ایک قصبہ تھا اور اس کے مضافات میں جنگل،جوہڑ،جھیلیں،ریگستان اور نخلستان تھے۔جھنگ کے قدیم قصبے کے نواحی مضافات میں کچی آبادیا ں سر اُٹھا رہی تھیں۔ کینیڈا میں مقیم ممتاز دانش ور اور جھنگ کے رہائشی نام ور پاکستانی انجینئیر محمد رفیق کا کہنا ہے کہ جب اُن کے بزرگ حاجی محمد نواز اور گدا حسین افضل کے والد اپنے اپنے گاؤں چھوڑ کر جھنگ کے نواح میں رہائشی قطعۂ زمین خرید کر سر چھپانے کا جھونپڑا تعمیر کر کے یہاں رہنے لگے تو حالات بہت عجیب تھے۔کئی جھیلیں،جوہڑ اور جنگل تھے۔سرِ شام گیدڑوں کے آوازیں سُنائی دیتی تھیں۔صبح سویرے اور دِن ڈھلے مُرغابیاں،قُمریاں اور فاختائیں ان جھیلوں اور جوہڑوں کے کنارے غول در غول اُترتیں اور نو وارد مکین ان پرندوں کا شکار کرتے تھے۔جہاں اب شاداب کالونی ہے وہاں آج سے نصف صدی قبل ایک جھیل تھی جس میں دریائے چناب سے آنے والی نہر کا پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ اس علاقے میں حدِ نگاہ تک سر سبز و شاداب فصلیں ہوتی تھیں اور بُور لدے چھتنار یہاں کثرت سے مو جود تھے۔اسی نہر کا پانی گورنمنٹ کالج جھنگ کے وسیع و عریض کھیل کے میدانوں،گُلستانوں اور سبزہ زاروں کو سیراب کرتا تھا۔علامہ اقبال ہال جھنگ کے قریب واقع تالاب میں پینے کا صاف پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا جب کہ گندے پانی کا جوہڑ(گندہ ٹوڑا)شہر کی شمالی جانب ملتان اور گوجرہ جانے والی سڑکوں کے سنگم پر تھا۔ یہاں سے ہر وقت عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے تھے جس کے باعث لوگوں کا یہاں سے گُزرنا محال تھا۔بعض لوگوں کا گُمان ہے کہ اس علاقے کے مکینوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے کا یہ منصوبہ نظام سقّے نے بنایا تھاجس پر کام جاری رہا۔ سال دو ہزار چار میں نکاسیء آب کے منصوبے مکمل ہونے کے بعد جہاں گندے پانی کا جو ہڑ تھا وہاں ایک پارک تعمیر کیا گیا ہے۔ پارک کی تعمیر کے با وجود اس علاقے کے مظلوم باشندوں کے حالات جوں کے توں ہیں۔اب بھی اس جگہ وہی پرانی اعصاب شکن عفونت و سڑاند مو جود ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ پارک کے چاروں طرف شہر کے منافع خور قصابوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔مریل کٹے سے بھی سستے برائلر مرغے دھڑا دھڑ ذبح ہو رہے ہیں اور ان کی آلائشیں دھڑلے سے پارک کے کنارے گلنے سڑنے کے لیے ڈھیر کر دی جاتی ہیں۔صاف پانی کا تالاب خشک ہو چُکا ہے،اب اسے ایک کثیر المقاصد جلسہ گاہ میں بدل دیا گیا ہے۔ سطحِ زمین سے بیس فٹ گہرے اس تاریخی تالاب  کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں جو بھی فرعون آیا،اُس کا بیڑا غرق ہو گیا۔اس تالاب میں گھاس بھی اُگائی گئی ہے تاکہ اسے کھیل کے میدان اور چراگاہ کی شکل دی جا سکے ۔تالاب کے گرد چاروں جانب بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہو چُکی ہیں۔تازہ ہوا کے لیے کھلاڑی سُوئے آسماں نگاہ دوڑاتے ہیں لیکن دھواں دھار فضا تو پہلے ہی تیرہ و تار ہے۔اب تالاب کے باہر سڑک کے کنارے ایک فلٹر پلانٹ نصب کر دیا گیا ہے جہاں سے بجلی موجود ہونے کی صورت میں پیاسوں کے لیے مفت پانی دستیاب ہے۔گدا حسین افضل نے نیا شہر میں ایک رہائشی قطعۂ اراضی خریدا اور اپنے گھر کے سامنے مسجد تعمیر کرنے کے لیے بھی ایک قطعۂ اراضی قیمتاً حاصل کیا۔ اُ س کا شمار اس بستی کے اولین مکینوں میں ہوتا ہے۔اس بستی میں پہلے کوئی مسجد نہ تھی، گدا حسین افضل نے ذاتی کاوشوں سے یہاں مسجد تعمیر کرائی، اس میں پانی،بجلی،پنکھوں، صفوں وضو کی جگہ،طہارت خانوں اور نکاسیء آب کا مناسب انتظام کیا۔آج یہاں نماز با جماعت کا اہتمام ہے۔اس صدقۂ جاریہ کا ثواب یقیناً اُسے ابد تک مِلتا رہے گا۔ فیض کے ایسے اسباب بنا کر اُس نے ایک ارفع مثال پیش کی۔ وہ جا چُکا ہے لیکن اُس کی پُروقار زندگی اورحُسنِ اخلاق ہمیشہ موضوعِ  گفتگو رہے گا،علمی اور ادبی محفلوں میں اُس کا حوالہ پیش کیا جائے گا کہ وہ ایک ایسا شخص تھا جس نے ہر دکھ خندہ پیشانی سے اُٹھایا لیکن کبھی کسی کا دِل نہ دُکھایا۔

گدا حسین افضل کی زندگی میں کئی سخت مقام بھی آئے لیکن ہمیشہ صبر و استقامت کا پیکر بن کر وقت گزارا،کبھی حرفِ شکایت لب پر نہ لایا اور مشیتِ ایزدی کے سامنے سرِ  تسلیم خم کردیا۔1980میں اُس کی اہلیہ مختصر علالت کے بعد ایک کم سِن بیٹے محمد تنویر علی کو سوگوا ر چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جا ملی۔ وہ گوجرہ روڈ پر چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ’’اوڈاں والا‘‘  شہرِ خموشاں میں آسودۂ خاک ہے۔دمِ آخریں اس کی اہلیہ نے یہ وصیت کی کہ کم سِن بیٹے کی تعلیم و تربیت اور گھر کے آرام و سکون کی خاطر گدا حسین افضل عقدِ ثانی کر لے۔ اپنے والد اور مخلص احباب کے مشورے سے 1982میں گدا حسین افضل نے دوسری شادی کر لی۔اس شادی کے بعد اس کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔گدا حسین افضل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا،اب اس کے گھر کا آنگن اللہ کریم کے فضل و کرم سے گُل ہائے رنگ رنگ کی عطر بیزی سے مہک اُٹھا ہے۔ گدا حسین افضل کی خاک کو اکسیر بنانے میں اُس کے والد کا کلیدی کردار ہے۔تقدیر نے گدا حسین افضل کا ایک اور امتحان لیااُس کے والد نے 1994میں داعیء اجل کو لبیک کہا۔ ’’اوڈاں والا‘‘  شہرِ خموشاں کی زمین نے عظمتِ کِردار کے اِس آسمان اور نئی نسل کو ٹھنڈی چھاؤں دینے والے اس چھتنار کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا ۔اس سانحے نے گدا حسین افضل کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کرچی کرچی کر دیا۔ اب وہ بھری دنیا میں بالکل تنہا رہ گیا تھا۔ میری زندگی کے ابتدائی زمانے میں میرے والد اور میری اہلیہ نے جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ میری رہنمائی کی اور مجھ پر اپنی بے لوث محبت نچھاور کی، اُس کے انمٹ نقوش لوحِ دل پر ثبت ہیں۔انھیں عقیدت بھری آنکھیں دیکھتی اور خلوص سے معمور دل محسوس کر سکتا ہے الفاظ اس کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔اپنے والدین اور اہلیہ کی دائمی مفارقت کے جذباتِ حزیں کا اظہار کرتے وقت وہ اُن کے لیے دعائے مغفرت کرتا تو وہ اپنا گریہ ضبط نہ کر سکتا ا ور گلو گیر لہجے میں مجید امجد کا یہ شعر پڑھتا:

سلام اُن پہ تہہ تیغ بھی جنھوں نے کہا

جو تیرا حکم جو تیری رضا جوتو چاہے

اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے سلسلے میں گدا حسین افضل نے جس محنت،لگن، دیانت،مستعدی اور فرض شناسی کو شعار بنایا وہ لائقِ  صد رشک و تحسین ہے۔میٹرک سے لے کر ایم۔اے اُردو تک ہر امتحان اُس نے اعلا کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور سب امتحانات درجہ اول میں پاس کیے۔ابتدا میں وہ کچھ عرصہ تحصیل جھنگ کے مختلف ثانوی مدارس میں تدریسی خدمات پر مامور رہا۔جلد ہی وہ پنجاب پبلک سروس کمیشن،لاہور  کے امتحان میں کام یاب ہو کر اُردو کا لیکچرر منتخب ہو گیا اور تاریخی گورنمنٹ کالج جھنگ میں اُس کا تقرر ہو گیا۔ یہاں اس نے اپنی بقیہ مدتِ ملازمت کا عرصہ پورا کیا اور ترقی کے مدارج طے کرتا ہوئے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ تک پہنچا۔ عرصۂ ملازمت کی تکمیل کے بعد وہ یہیں سے ریٹائر ہوا۔ ریٹائر منٹ کے موقع  پر گدا حسین افضل کی علمی ادبی اور تدریسی خدمات کے اعتراف میں اس عظیم اُستاد کو یادگاری شیلڈ پیش کی گئی اور احباب کی طرف سے تحائف پیش کیے گئے۔اُس کے اعزاز میں کالج انتظامیہ اور مختلف شعبوں کی طرف سے پُر تکلف ضیافتوں کا اہتمام کیا گیا۔

سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد گدا حسین افضل نے اپنا وقت عبادات اور ذکرِ  الٰہی میں گزارنا شروع کر دیا۔ سال 2010میں اُس نے فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے ارضِ مقدس کا سفر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔روانگی سے پہلے وہ سب احباب سے ملنے کے لیے ان کے گھر پہنچا اور سب کی خیریت دریافت کی اور دعا کی استدعا بھی کی۔میں نے دیکھا کہ گدا حسین افضل کا چہرہ پُر سکون تھا اوراُس کی آنکھوں میں ایک روحانی چمک موجود تھی۔ توحید پر اُس کا یقین کامِل تھا اور وہ ایک سچا عاشقِ  رسولﷺ تھا۔حج سے واپس آنے کے بعد اُس کی کایا ہی پلٹ گئی۔ اُس کا زیادہ وقت عبادات اور مطالعہ کتب میں گُزرتا۔وہ جن کتب کا مطالعہ کرتا ان میں تفسیر،حدیث،تاریخِ  اسلام،فقہ اور فلسفہ کے موضوع پر کتب شامل تھیں۔اگلے برس(2011)گدا حسین افضل ایران،عراق اور شام میں واقع مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوا۔فریضۂ حج کی ادائیگی اور مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کو وہ اپنی زندگی کا حاصل قرار دیتا۔عبادات اور روحانیت میں اُس کی توجہ مزید بڑھنے لگی۔بچپن ہی سے وہ نماز روزے کا پا بند تھا۔جوانی میں اس نے نمازِ  تہجد کی باقاعدہ ادائیگی شرع کی اور زندگی بھر اس پر عمل پیرارہا۔اب وہ اللہ کریم کی معرفت حاصل کر چکا تھا۔اس کی دعائیں قبولیت کا درجہ حاصل کرتیں اور لوگ اُس سے اپنے دنیاوی مسائل کے حل کے سلسلے میں دعا کی استدعا کرتے۔میں نے اکثر لوگوں سے سُنا ہے کہ گد احسین افضل کی دعا سے پروردگارِ عالم کی شانِ کریمی جوش میں آئی اُن کی اُمید بر آئی اور خالقِ کائنات نے اُنھیں مسائل سے نجات دی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مردِ مومن کی نگاہ سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔

گدا حسین افضل کی شگفتہ مزاجی اور گُل افشانیِ گُفتار کا ایک عالم معترف تھا۔ادبی محفلوں اور مشاعروں میں وہ بڑے شوق سے شرکت کرتا لیکن کچھ عرصے سے اُس نے ذاتی مصروفیات کی بنا پر مشاعروں میں شرکت ترک کر دی تھی۔اللہ کریم نے اُسے ذوقِ سلیم سے متمتع کیا تھا۔علمِ عروض کا وہ ماہر تھا اور طالب علموں کے کلام پر اصلاح بھی دیتا تھا۔اپنے ذہین شاگردوں کی کلام کی اصلاح کر کے وہ سکون محسوس کرتا۔وہ چربہ اور سرقہ کے سخت خلاف تھا۔  امیر اختر بھٹی کے گھر ایک شعری نشست میں کچھ متشاعر بھی پہنچ گئے اور نہایت ڈھٹائی سے اپنے چربے اور سرقے پیش کرنے لگے۔اِن چربہ ساز،سارق،مثنیٰ اور عقل و خرد سے تہی جعل سازوں کا کلام سُن کر امیر اختر بھٹی کو بہت رنج ہوا۔اس شعری نشست کے اختتام پر امیر اختر بھٹی نے شہر کے بزرگ نقاد حکیم احمد بخش نذیر سے پوچھا :

’’میں نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ پرورشِ لوح و قلم کرتا رہوں۔ اکثر لوگ میری ادب نوازی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔میری اس کاوش کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

حکیم احمد بخش نذیر نے کہا ’’میں کیا اور میری رائے کیا ! ممتاز مزاح گو شاعر ا حمق پھپھوندوی کو اسی قسم کے ایک مشاعرے میں کلام پڑھنے کے لیے بُلایا گیا۔شاعروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔اس مشاعرے میں احمق پھپھوندوی نے یہ شعر پڑھا تو محفل کشتِ زعفران بن گئی:

ادب نوازیِ اہلِ ادب کا کیا کہنا

مشاعروں میں اب احمق بُلائے جاتے ہیں

اس واقعے کو سُن کر گدا حسین افضل مسکر ا یا،اُس کی مسکراہٹ میں ہمیشہ کی طرح ترحم کا عنصر بھی شامل تھا۔جسے ہدفِ ملامت بنایا جا رہا تھا اُس کے ساتھ اصلاحی مقصد کے تحت ایک اُنس بھی ظاہر کیا گیا ’’بادی النظر میں تو احمق پھپھوندوی کا اشارہ اپنی طرف ہے لیکن اس سے دُور کے معنی مراد ہیں۔یہی ایہام اس شعر کو پُر لطف بنا دیتا ہے۔ معاشرتی زندگی کی نا ہمواریوں،بے اعتدالیوں،تضادات اور کجیوں کے ہمدردانہ شعور کو فن کارانہ انداز میں اُجاگر کرنا ہی خالص مزاح کی پہچان ہے۔‘‘

جھنگ کے معروف قانون دان اور ادیب سجاد بخاری نے گدا حسین افضل کی علمی،ادبی اور فلاحی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔دونوں وسیع المطالعہ ادیب تھے۔سال 2002کے اوائل کی بات ہے سجاد بخاری اور چند دوست گدا حسین افضل کے ہاں دعوت پر پہنچے۔سجاد بخاری نے گیبریل گارسیا مارکیز کے اسلوب کے بارے میں کہا:

’’گیبریل گارسیا مارکیز کی طلسمی حقیقت نگاری،سامراج شکنی اور پسپاریت پسندی کا میں مداح ہوں۔ان دنوں میں اُس کی1982 میں شائع ہونے والی ایک مشہور کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوں۔اس معرکہ آرا کتاب (Chronicle of a Death Foretold)میں وہ اپنے فن کی بُلندیوں پر ہے۔‘‘

یہ کہہ کرسجاد بُخاری نے یہ کتاب گدا حسین افضل کے سامنے میز پر رکھ دی۔ہم سب بڑی دلچسپی کے ساتھ یہ گفتگو سُن رہے تھے۔گدا حسین افضل نے کہا:

’’میں یہ کتاب اور اس کا پنجابی ترجمہ بھی پڑھ چُکا ہوں۔‘‘

سجاد بُخاری نے چونک کر کہا ’’اس کتاب کا پنجابی ترجمہ کب اور کس ادیب نے کیا ہے۔مجھے یہ معلوم نہیں۔‘‘

یہ سُن کر گدا حسین افضل نے اپنی الماری سے ایک کتاب نکالی اور سامنے میز پر رکھ دی۔اس کتاب کا نام تھا :

’’پہلوں توں دسّی گئی موت دا روزنامچہ‘‘   مترجم: افضل احسن رندھاوا

’’یہ ترجمہ ضرور پڑھنا،اس میں مترجم نے اپنے دل نشیں اسلوب کے اعجاز سے ترجمے کو تخلیق کے درجے تک پہنچا دیا ہے‘‘

سجاد بُخاری کی آنکھیں ممنونیت کے جذبات سے بھیگ بھیگ گئیں اوراُس نے گدا حسین افضل کو گلے لگا لیا اور کہا:

’’اس وقت جھنگ میں گدا حسین افضل ہی عالمی ادب کا نباض ہے،میں اسے خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔‘‘

ہم سب دوست اس واقعے سے بہت متاثر ہوئے اور گدا حسین افضل کے تبحرِ علمی اور وسیع مطالعہ کے قائل ہو گئے۔

گدا حسین افضل نے ہمیشہ یہ کوشش کی درد مندوں اور ضعیفوں سے بے لوث محبت کا سلسلہ جاری رہے۔غلام قاسم خان کی ترقی کا معاملہ جب معلق ہو گیا تو گدا حسین افضل نے اُسے دلاسا دیا ور ہر حال میں راضی بہ رضا رہنے کی تلقین کی۔غلام قاسم خان کے ساتھ شقاوت آمیز نا انصافی یہ ہوئی کہ اُسے اس کا جائز حق نہ ملا۔ اس کے باوجود اس درویش منش انسان نے جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا اور صبر کی روایت میں لبِ اظہار پر تالے لگا لیے۔اُس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور وہ لیکچرر ہی ریٹائر ہو گیا جب کہ اس سے جونئیر لوگ گھر کے قریب ہی اسسٹنٹ پروفیسر ہو گئے۔گدا حسین افضل اس بات پر بہت دل گرفتہ تھا۔اس نے ایک ملاقات میں غلام قاسم خان کو حکیم مومن خان مومن کا یہ شعر سُنایا:

پہنچے وہ لوگ رُتبے کو کہ مُجھے

شکوۂ بختِ نا رسا نہ رہا

جھنگ میں مقیم ممتاز شاعر صاحب زادہ رفعت سلطان کے ذاتی کتب خانے میں نادر و نایاب کتب کا ایک ذخیرہ تھا۔صاحب زادہ رفعت سلطان جب شدید علیل تھے تو گدا حسین افضل اپنے معتمد ساتھیوں دیوان احمد الیاس نصیب اور مہر بشارت خان کے ہم راہ عیادت کو پہنچا۔ گورنمنٹ کالج،جھنگ سے گدا حسین افضل والہانہ محبت کرتا تھا۔وہ اس عظیم مادرِ علمی کی ترقی اور نیک نامی کے لیے مقدور بھر کوشش کرتا رہا۔اس موقع پر صاحب زادہ رفعت سلطان سے اُن کے ذاتی کتب خانے کی اہمیت اور افادیت پر بھی بات کی اور استدعا کی کہ یہ نادر کتب گورنمنٹ کالج،جھنگ کو عطیہ کے طور پر دے دی جائیں۔صاحب زادہ رفعت سلطان نے اس پر آمادگی ظاہر کی۔اس کے بعد گورنمنٹ کالج جھنگ کے مرکزی کتب خانہ کے مہتمم ملک ظہور حسین نے مرکزی کتب خانے میں ’’گوشۂ صاحب زادہ رفعت سلطان‘‘مختص کر دیا۔اس گوشے میں موجود کتب سے محقق اور طالب علم استفادہ کرتے ہیں۔ چند ماہ بعد صاحب زادہ رفعت سلطان خالق حقیقی سے جا ملے۔اُن کے کتب خانے کی حفاظت کا یہ کام گدا حسین افضل کی مساعی کا مرہونِ منت ہے۔

ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کے ساتھ پیش آنا گدا حسین افضل کا معمول تھا۔اُس کے بعد بے لوث محبت،خلوص،ایثار،وفا اور دردمندی کے سب ارفع معائر خیال و خواب بن گئے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ گدا حسین افضل جیسے نیّرِ تاباں سدا روشنی کا سفر جاری رکھتے ہیں،اُن کا نام اور کام اندھیروں کی دسترس سے ہمیشہ دُور رہتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس دھوپ بھری دنیا میں زندگی کی اُداس راہوں پر ہم اُفتاں و خیزاں اپنی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں لیکن ہم اپنے رفتگاں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور دلوں کو اُن کی یاد سے منور کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ ایامِ گُزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتا ہوں تو تو دِل دہل جاتا ہے۔کیسے کیسے چاند چہرے شبِ فرقت پر وارے گئے اور کتنے آفتاب و ماہتاب کنج لحد میں اُتارے گئے۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے وہ ماہرین تعلیم جن کی علمی فضیلت مسلمہ تھی اب ان کا نام ماضی کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔صرف گزشتہ چند برسوں میں ہم سمیع اللہ قریشی،محمد بخش گھمنانہ،عاشق حسین فائق،دیوان احمد الیاس نصیب،عباس ہادی چغتائی،کلبِ عباس،رانا ظفر علی خان،غلام رسول،مہر بشارت خان،عمر حیات بالی،عبدالستار چاولہ،احمد حیات،حسین احمد ارشد اورگداحسین افضل جیسے عظیم دانش وروں سے محروم ہو گئے۔کتنے عظیم مسافر تھے جو اِس راہ گزر سے ہوتے ہوئے عدم کی جانب سدھار گئے۔ان کا ہر نقشِ پا عظمتِ کردار کا مظہر ہے۔اسے دیکھنے کے لیے دلِ بینا ضروری ہے۔موت سے کس کو رستگاری ہے،ہماری ہستی حباب کے مانند ہے اور اس عالمِ آب و گِل کے جملہ مظاہر سراب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قدرتِ  کاملہ کی طرف سے اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا دئیے گئے ہیں اور ہم بے بسی کے عالم میں پتھرائی ہوئی آنکھوں سے راہِ رفتگاں کو دیکھتے رہ جاتے ہیں لیکن جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ دنیا کی سرائے چھوڑ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب عازمِ  سفر ہونے والے مسافر پھر کبھی نہیں آتے۔ اب ہماری شکستہ پائی کا یہ عالم ہے کہ زندگی کی سُو نی راہوں پر اُن کی یادیں ہی سکون بخش ثابت ہوتی ہیں اور ہم زندگی بھر اُن کی یادوں کے سہارے وقت گزار دیتے ہیں۔فضاؤں میں اس طرح ان احباب کی یادیں پھیلی ہوئی ہیں کہ جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے ان کی مانوس آواز کی باز گشت سُنائی دیتی ہے۔کوئی بھی عکس ہو ہم دل گرفتہ پس ماندگان کو اپنے رفتگاں ہی کے خد و خال دکھائی دیتے ہیں اور ہم جس محفل میں بھی جائیں اُن کے بارے میں بات کر کے تزکیۂ نفس کی صورت تلاش کرتے ہیں۔ شاید اسی کا نام ہی تقدیر ہے جو ہر لمحہ،ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے اور کارِ جہاں کے بے ثبات ہونے کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ فراق گورکھ پوری نے کہا تھا:

بُھولیں اگر تمھیں تو کدھر جائیں کیا کریں

ہر رہ گزر پہ تیرے گُزرنے کا حُسن ہے

احباب کے دکھ درد میں شریک ہو کر اُن کی ڈھارس بندھانا گدا حسین افضل کا شیوہ تھا۔سچ تو یہ ہے کہ اس کے جگر میں انسانیت کا درد سما گیا تھا۔وہ اپنی ذات میں سمٹا دکھائی دیتا تھا لیکن اس کی شخصیت میں سمندر کی سی وسعت اور بے کرانی موجود تھی۔وہ تعمیری سوچ پر یقین رکھتا تھا کسی کی تخریب سے اُسے کوئی غرض نہ تھی۔وہ سب کا خیر خواہ تھا اور ہر عزیز کے دکھ،صدمے اور رنج و کرب میں اُس کی غم خواری کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ کوئی بیمار ہوتا گدا حسین افضل اس کی عیادت کو پہنچتا۔جب کسی کی رحلت کی خبر سنتا تو وہ رنج و الم کی تصویر بنا سوگوار خاندان کے پاس تعزیت کے لیے پہنچتا، سوگوار جب جنازہ قبرستان لے جاتے تو میّت کو کندھا دیتا،نماز جنازہ میں شرکت کرتااور سوئم اور چالیسویں میں شامل ہو کر دعائے مغفرت کرتا۔ایسے الم ناک مواقع پر اُس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برستیں ور وہ شدت غم سے نڈھال ہو جاتا۔پروفیسر غلام قاسم خان کی بڑی بیٹی سجیلہ مہوش جو بی۔اے میں زیرِ تعلیم تھی،حرکتِ قلب بند ہو جانے کے باعث داغِ مفارقت دے گئی۔گدا حسین افضل اُسی وقت اپنے دوست کے گھر پہنچا۔جب اس نے سوگوا ر خاندان کی آہ و زاری کا عالم دیکھا تو پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگا اور کہا اس جان لیوا صدمے پر تلقینِ صبر بے دردی کے مترادف ہے اگر ہم رو رو کر اپنے جذباتِ حزیں کا تزکیہ نہ کریں تو اس سانحہ کے باعث ہماری موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔سب لوگوں کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں تھی اور ہر عزیز کا دل اشک بار تھا۔ شہر میں جب بھی کوئی عزیز داعیِ اجل کو لبیک کہتا اُس کے سب لواحقین وہاں اکٹھے ہوتے ہم نے گدا حسین افضل کو وہاں سب سے پہلے پہنچتے دیکھا۔وہ رضاکارانہ طور پر سب انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتااور تعزیت کے لیے آنے والے سوگواروں کے جذبات کا خیال رکھتا۔میں نے اُسے غلام علی خان چین،عبدالغنی،محمد شیر افضل جعفری،رام ریاض،صاحب زادہ رفعت سلطان،معین تابش،ڈاکٹر محمد کبیر خان،اللہ دتہ سٹینو،حکیم احمد بخش نذیر (چار آنے والا حکیم)،اللہ دتہ حجام،مرزا محمد وریام،محمد بخش گھمنانہ،مہر بشارت خان،احمد تنویر،بیدل پانی پتی،حکمت ادیب اور دیوان احمد الیاس نصیب کے سانحۂ ارتحال پر کام کرتے دیکھا تواس کی عظمت کے نقوش مزید گہرے ہو گئے۔ایسے مواقع پر وہ تقدیر کے ہاتھوں لگنے والے زخموں کو ناقابلِ اندمال قرار دیتے ہوئے یہ شعر ضرور پڑھتا :

چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں ہونا رفُو

تا قیامت سوزنِ تدبیر گر سیتی رہی

اللہ کریم نے گدا حسین افضل کو ایک اعلا جمالیاتی حِس سے متمتع کیا تھا۔وہ حُسنِ فطرت کارمز آشنا بھی تھا اور اُس کے وسیلے سے وہ جمالیاتی سوز و سرور حاصل کر کے وہ اپنی شخصیت اور اسلوب کو رنگ،خوشبو اور حُسن و خوبی کے تمام استعاروں سے مزّین کرتا۔نئی نسل کو اُس نے اپنے مستقبل کے خوابوں کی صُورت گری اور زندگی کے مشاہدات اور تجربات کی حُسن کاری کااحساس و ادراک عطا کرنے میں ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔وہ بو لتا تو باتوں سے پُھول جھڑتے۔وہ قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل دکھانے پر قادر تھا۔ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اُس نے پاکستان کی نئی نسل کی صحیح تربیت پر پُور ی توجہ دی اور خُونِ جِگر دے کر اُسے پروان چڑھایا۔اپنی موثر تدریس سے اُس نے نئی نسل میں ایک نئی روح پُھونک دی۔اپنے ذہن و ذکاوت کی دردمندی اور غمِ روزگار کے سوز سے اُس نے جو طرزِ فغاں ایجاد کی اُسے تدریس میں روحِ حیات کی حیثیت حاصل ہے۔اُس نے خبر دار کیا کہ ہم صدائے جرس کی جُستجو میں سر گرداں رہتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ ہاتھ یہ ہو جاتا ہے کہ ہم سکوت کے صحرا کے سرابوں میں آبلہ پا مسافر کے مانند بھٹکتے پھرتے ہیں۔ راہ گم کردہ مسافر منزل سے نا آشنا راہوں پر خاک بہ سر پھرتے ہیں اور ایسے کام کر گزرتے ہیں جو اُن کے مکمل انہدام پر منتج ہوتے ہیں۔ہم کس کو اپنا حالِ دل سنائیں یہاں تو کوئی محرم ہی نہیں۔جب ہم تیر کھا کے کمین گاہ کی جانب نظر دوڑاتے ہیں تو پُرانے آشنا چہرے سنگِ ملامت لیے قہقہے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے گدا حسین افضل نے درِ کسریٰ پر صد ا لگانے سے ہمیشہ احتراز کیا،اُسے معلوم تھا کہ ان کھنڈرات میں موجود جامد و ساکت حنوط شدہ لاشیں زندہ انسانوں کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں۔جب بھی وہ خو دکو آلامِ روزگار کے مہیب بگولوں کی زد میں تنہا دیکھتا تو وہ بے لوث محبت کا عصا تھام کر تنہائی کے پھنکارتے ہوئے ناگ کو کُچل دیتا اور اطمینان سے گھر پہنچ جاتا۔اس کا استدلال یہ تھا کہ ایثار،محبت اورانسانی ہمدردی کے جذبات ایک شمع فروزاں کے مانند ہیں جو ایک فرد کو حصارِ ذات سے باہر نکل کر غیر ذات کے ساتھ قلبی تعلق اور معتبر ربط رکھنے کی راہ دکھاتی ہے۔وہ علمِ  بشریات کا ماہر تھا،اس لیے اُس نے فرد کی زندگی کو درپیش مصائب کا حل اخوت اور محبت میں تلاش کیا۔یہ محبت ہی ہے جو مہیب سناٹوں کا خاتمہ کر کے سفاک ظلمتوں اُمید کی کرن ثابت ہوتی ہے۔

گدا حسین افضل نے اپنی ساری زندگی چار مرلے کے مکان میں گزار دی۔ آغازِ ملازمت کے وقت جو بائیسیکل خریدی تھی اسی پرسوار ہو کر وقت پر ڈیوٹی پر پہنچنا اس کا معمول تھا۔صبر و تحمل،استغنا اور قناعت اس مردِ درویش کے مزاج کا حصہ تھا۔ اس کا پرانا مکان اب ایک بڑے خاندان کی ضروریات کے لیے ناکافی تھا۔ جہاں نیا شہر ختم ہوتا ہے وہاں دور کھیتوں میں ایک نئی بستی بن رہی تھی۔یہاں زمین بھی قدرے کم قیمت پر دستیاب تھی۔ریٹائر منٹ کے بعد پُرانے مکان کو فروخت کر کے ریٹائرمنٹ کے وقت جو رقم ملی،اس میں سے کچھ شامل کر کے گوجرہ روڈ پر ایک نسبتاّ بڑا رہائشی قطعۂ اراضی خرید کر اس میں تعمیری کام کا آغاز کیا۔مکان ابھی نا مکمل تھا لیکن گدا حسین افضل اس میں منتقل ہو گیا۔چند ماہ یہاں گزارے ہوں گے کہ اس کے نہ ہونے کی ہونی نے سب کو خون کے آنسو رُلا دئیے۔اب گدا حسین افضل نے اس نئی بستی سے بھی دُور گوجرہ روڈ پر ایک نئی بستی بسالی ہے اور کاتبِ  تقدیر نے حشر تک اُس کے وہاں قیام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی

یاروں نے کتنی دُور بسائی ہیں بستیاں

تعلیم نسواں اور اعلا سطح پر مخلوط تعلیم کی حمایت میں گدا حسین افضل نے متعدد لیکچرز دئیے۔ اُس نے اپنی بیٹیوں کو بھی پوسٹ گریجویٹ سطح کی تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج،جھنگ میں داخل کرایا جہاں مخلوط تعلیم ہے۔ان فطین بیٹیوں نے یہاں سے اُردو اور انگریزی ادب میں ایم۔اے کیا اور اب شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔گدا حسین افضل کو عالمی کلاسیک، مشرقی تنقید،مغربی تنقید اور لسانیات پر عبور حاصل تھا۔و ہ جدیدیت،ما بعد جدیدیت، ساختیات،پسِ ساختیات اور ردِ تشکیل پر کامل دسترس رکھتا تھا۔ ان موضوعات پر اس کے لیکچرز گنجینۂ معانی کا طلسم تھے۔ اس نے فرانسیسی ماہرین لسانیات کی کتب کے انگریزی تراجم پڑھے تھے۔ان سے جو معلومات اخذ کیں انھیں اپنے لیکچرز میں بڑی صراحت سے بیان کیا۔ان کے شاگرد نہایت توجہ سے یہ لیکچرز سنتے اور ان سے بھرپور استفادہ کرتے تھے۔سوئٹزرلینڈ کے مشہور ماہر لسانیات سوسئیر(Saussure)کی طرح گدا حسین افضل نے کوئی کتاب نہیں لکھی۔سوسئیر(پیدائش:26-11-1857وفات:22-2-1913)کی وفات کے بعد اس کے لیکچرز کو شائع کیا گیا۔یہ لیکچرز اب کتابی صورت میں ’’Course in General Linguistics‘‘کے نام سے شائع ہو چُکے ہیں۔ گدا حسین افضل کے لیکچرز اُس کے شاگردوں کے پاس موجود ہوں گے۔اگر ان لیکچرز کو اکٹھا کر کے کتابی صورت میں شائع کیا جائے تو یہ علم و ادب کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔

مادی دور کی لعنتوں نے معاشرتی زندگی میں زہر گھول دیا ہے۔ہوسِ زر نے نوعِ انساں کو خود غرضی،انتشار اور بے حسی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔مسلسل شکستِ دل کے باعث وہ بے حسی پید ہو چُکی ہے  کہ کارواں کے دِل سے احساسِ  زیاں عنقا ہو تا چلا جا رہا ہے۔عادی دروغ گو اور سادیت پسندی کے مرض میں مبتلا مخبوط الحواس درندوں نے رُتیں بے ثمر،کلیاں شرر،آہیں بے اثر،آبادیاں پُر خطر،زندگیاں مختصر اور گلیاں خُوں میں تر کر دی ہیں۔ ابن الوقت لوگ زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کو پسِ پشت ڈال کر ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مارِ آستین عام ہیں ان پر خدا کی مار پڑے۔ گُرگ آشتی بڑھ رہی ہے اب دوستی اپنا اعتبار کھو چُکی ہے۔ اس قسم کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات نے گدا حسین افضل کو شدید تشویش میں مبتلا کر رکھا تھا۔ہوائے جورو ستم میں بھی اُس نے حوصلے،اُمید اور وفا کی شمع کو فروزاں رکھا اور اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا۔ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو چُھپا کر وقت گُزارا۔ قادرِ مطلق نے گدا حسین افضل کو ایک مستحکم شخصیت سے نوازا تھا۔وہ ہوا کا رُخ پہچان کر اپنے ذوقِ  سلیم کو نئے زمانے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ کرتا رہا۔ اُس نے کمپیوٹر،موبائل فون اور انٹر نیٹ کی اہمیت کو محسوس کیا اور ان ایجادات سے مستفید ہونے پر اصرار کیا۔علامہ اقبال سائبر لائبریری اور دنیا کی دوسری اہم ویب سائٹس سے اُس نے بھر پُور استفادہ کیا۔اُس کے پاس اہم ادبی مجلات بذریعہ ڈاک بھی آتے تھے لیکن کچھ ایسے مجلات بھی تھے جن سے اُس نے انٹر نیٹ کے ذریعے استفادہ کیا۔دنیا کے ممتاز ادیب فون اور ای۔میل کے ذریعے اُس کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے اور اہم لسانی مباحث کے بارے میں اُس سے رہنمائی کی استدعا کرتے۔وہ زندگی بھر کتابوں کے مطالعہ کو اپنی اولین پسند قرار دیتا رہا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے موجودہ زمانے میں اُس نے اپنے اس ذوق کی تسکین کے لیے یہ نئی تدبیر اپنائی کہ وہ اپنی مطلوبہ کتاب کو انٹرنیٹ پر تلاش کرتا اوراسے ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیتا اور اس کا مطالعہ کرتا۔اگر ضرورت محسوس کرتا تو کمپیوٹر کے ساتھ جُڑے پرنٹر کے ذریعے کتاب کے مطلوبہ موضوعات کے پرنٹ بھی نکال لیتا۔اس کی یہ نئی دلچسپی اپنی اصلیت کے اعتبار سے اُس کی کتب بینی کی پرانی عادت کا نعم البدل ثابت ہوئی جو ایک مستحکم شخصیت کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔اسی بنا پر میں نے اُسے ایک لائقِ صد رشک مستحکم شخصیت کا حامل ادیب قرار دیا ہے۔

جون دو ہزار چودہ کے وسط میں اُسے معدے میں گرانی محسوس ہوئی جو بعد میں جلن میں بدل گئی۔ جھنگ میں علاج جاری رہا لیکن افاقہ نہ ہوا۔اس کے بعد وہ اپنے بڑے بیٹے کے ہم راہ طبی معائنے اور موثر علاج کی غرض سے راول پنڈی پہنچا۔علاج معالجہ جاری تھا لیکن معالجوں کی سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور کسی دوا نے کام نہ کیا۔ اُسے خون کی اُلٹی آئی،معدہ غذا قبول ہی نہ کرتا اورجسمانی کم زوری مسلسل بڑھ رہی تھی،یہاں تک کہ وہ بے ہوشی کی کیفیت میں چلا گیا۔جب ہوش میں آیا تو اُس نے اپنے دیرینہ ساتھیوں غلام قاسم خان، اشرف بھٹی،محمد رمضان، مرزا محمد یامین ساحر،محبوب علی خان،عبدالعزیز،حاجی محمد ریاض،ظفر اقبال، سخاوت، ابوذر غفاری،حاجی محمد یونس،فقیر محمد،معراج محمد اور اعجاز حسین کو یاد کیا اور ان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔اُس کے بیٹے نے پریشانی کے عالم میں کہا:

’’اس وقت ہم جھنگ میں نہیں بل کہ آپ کے علاج کے سلسلے میں راول پنڈی میں ہیں۔ان  بزرگوں سے مُلاقات اتنی جلد ممکن نہیں ‘‘

گدا حسین افضل نے نحیف آواز میں کہا:’’اچھا اللہ بیلی میرے ساتھیو!اب قیامت کو ملیں گے‘‘

سب ماہر معالج اس بات پر متفق تھے کہ گدا حسین افضل اب چراغِ آخرِ شب ہے۔

اسی روز گدا حسین افضل کو جھنگ پہنچا دیا گیا۔ گدا حسین افضل نے جھنگ پہنچ کر آنکھ کھولی وہاں موجود سب احباب کو خدا حافظ کہا، کلمۂ طیبہ کا ورد کیا اور اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ اُس کے چہرے پر وہی سد ا بہار مسکراہٹ تھی اور اُس کے نرم ہونٹ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے تبسم کی کیفیت ہے۔ اسی وقت ٹیلی فون کے ذریعے تمام احباب کو گدا حسین افضل کے سانحۂ ارتحال سے مطلع کر دیا گیا۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے تمام اساتذہ،ملازمین،ہزاروں طالب علم اور بڑی تعداد میں معززین شہر گدا حسین افضل کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ سب لوگ اس الم ناک سانحے پر دل گرفتہ تھے بعض لوگ دھاڑیں مار مار کر رو  رہے تھے۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شہر کا شہر ہی سوگوار ہے۔ غلام قاسم خان نے زار و قطار روتے ہوئے کہا:

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دِن اور

نمازِ جنازہ کے بعد مولوی صاحب نے رقت آمیز لہجے میں کہا:

’’گدا حسین افضل اب عدم کے اس سفر پر روانہ ہو چکا ہے جو دنیا میں موجود سب زندہ انسانوں کو درپیش ہے۔اپنی زندگی میں اگر اُس نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو اُسے معاف کر دیا جائے۔اگر کسی نے اُس سے قرضہ لینا ہو تو وہ ابھی اوراسی وقت اُس کے بیٹو ں سے وصول کر سکتاہے۔‘‘

ایک نو جوان طالب علم کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی،وہ گلو گیر لہجے میں بولا ’’گداحسین افضل توکسی کا مقروض نہیں،وہ شخص جس نے چالیس سال تک لاکھوں طالب علموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا وہ ہمارا عظیم محسن ہے۔ہم سب اُس کی محنت،خلوص اور شفقت کے مقروض ہیں۔اُس عظیم انسان اور جلیل القدر معلم کے بارِ احسان سے ہماری گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ہم اس کا قرض کیسے ادا کر سکتے ہیں ؟‘‘

سب لوگوں نے آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی اور گدا حسین افضل کے لیے دعا کی۔لحد تیار تھی،تہذیب و شائستگی کا پیکر اور علم و ادب کا ماہِ مُنیر لحد میں اُتار دیا گیا۔سب احباب نے پُر نم آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں سے اس عظیم انسان کی قبر پر پُھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔مرزا محمد یامین ساحر نے گدا حسین افضل کی دعائے مغفرت کے بعد علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا :

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ

ان پج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید