FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

گفتنی نا گفتنی

فکاہیہ افسانے

 

 

                   غلام ابن سلطان

 

 

 

 

 

 

          پل کی خبر نہیں

 

 

بستی میں شام کے سائے مقدر کی سیاہی کے مانند گہرے ہو رہے تھے۔ِ اس بستی میں ایک پُر اسرار ضعیفہ جس کا نام صابرہ تھا گُزشتہ نصف صدی سے نہایت خاموشی سے زندگی کے دن پورے کر رہی تھی۔

کوئی بھی اس کے دلِ شکستہ کا حال پو چھنے والا نہ تھا۔کسی کو اس کرچیوں میں بٹی غم زدہ دُکھیا کے بارے میں جاننے کی فکر ہی نہ تھی۔اُدھر اِس پُر اسرار  بُڑھیا نے اپنے لب اظہار پراِس طرح تالے لگا رکھے تھے کہ اُس کے دل دریا سے جو سمندر سے بھی گہر ا تھا کبھی کوئی راز کا موتی بر آمد نہ کر سکا۔تقسیم ہند کے وقت جب مسلمان  مہاجرین کے قافلے بھارت کے شہروں سے  ارض پاکستان کی جانب  عازم سفر ہوئے تو وہ اپنی دنیا کو وہیں چھوڑ کو ایک نئی دنیا بسانے کی  موہوم تمنا دل میں لیے دامن جھاڑ کر گھر سے نکلے۔صابرہ اپنے شو ہر ساس، ماں باپ، بہن بھائیوں کے ہم راہ اپنے خوابوں کی سر زمیں کی جانب چل پڑے۔یہ سفر صابرہ کے پورے خاندان کے لیے بہت جان لیوا اور صبر آزما ثابت ہوا۔امرتسر کے قریب بلوائیوں نے پورے خاندان کو ابدی نیند سلا دیا اور ان نہتے مہاجرین کی سب جمع پو نجی لوٹ کر بھاگ گئے۔صابرہ  اس وقت اپنے دو کم سن بچوں کے ہم راہ نزدیکی کماد کے کھیت میں رفع حاجت کے لیے گئی تھی۔جب وہ واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی امیدوں کی فصل کو غارت کر کے خون میں نہلا دیا گیا تھا۔اس نے اپنے خاندان کے  ان بے گور  و کفن لاشوں کو بے بسی اور حسرت کے عالم میں دیکھا اور تنہا ارض پاکستان کی جانب قدم بڑھا ے۔ایک سال کا  بیٹا سلیم اس کی گود میں تھا اور چار سال کی بیٹی جانم پیدل چل رہی تھی۔بیس سال کی عمر میں بیوگی کی چادر اوڑھے صابرہ نے اپنے دو بچوں کے روشن مستقبل کے خواب دیکھے اور اپنے خوابوں کی سر زمیں کی جانب تنہا  زندگی کے ایک انتہائی کٹھن، مشقت طلب اور صبر آزما سفر پر چل نکلی۔وہ  یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ سفر تو  افتاں و خیزاں کٹ ہی جائے گا مگر اس پر خار راہ پر چلتے ہوئے اس کی روح زخم زخم ہو جائے گی، پورا وجود منہدم ہو جائے گا  اور دل کرچیوں میں بٹ جائے گا۔

ارضِ پاکستان پر پہلا قدم رکھتے ہی اسے راحت و اطمینان کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی ہوا کہ اس نے سب سے پہلے اس پاک سر زمین پر اپنی پیشانی کیوں نہ رکھی۔  واہگہ سے گزر کر عذاب در بہ دری سہتے سہتے اور پناہ گزینوں کے عارضی کیمپوں میں چند ہفتے گزارنے کے بعد وہ ہیر کی سر زمین جھنگ پہنچی۔ہیر کی داستان محبت اس نے سن رکھی تھی اور اس کی زندگی اور پیمان وفا سے اسے گہری دلچسپی تھی۔جھنگ پہنچ کر اس نے کرائے کے ایک مکان میں قیام کیا اور قالین بافی کی تربیت حاصل کی۔متمول گھرانوں میں کام کر کے اس نے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے رزق حلال کا انتظام کر لیا۔اسے اس بات کا قلق تھا کہ مفاد پرست استحصالی عناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے بے بس انسانیت کی زندگی کی تمام رتوں کو بے ثمر کر دیا ہے۔بیس سال کی عمر میں بیوہ ہو جانے کے بعد صابرہ نے اپنی تنہائیوں اور دکھوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا اور اپنے دو بچوں کے سہارے زندگی کا سفر طے کرنے کی ٹھان لی۔  شام ہوتے ہی وہ اپنے بیٹے کو اپنی آغوش میں لے کر درد بھری آواز اور پُر  نم آنکھوں سے روزانہ یہ لوری دیتی، جسے سن کر پڑوسیوں کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔اس کی پر درد اور پُر  سوز آواز میں یہ لوری سن کر خواتین دل تھام لیتیں :

راج دلارے !تو ہے دل میں بساؤں، توہے گیت سناؤں

گیت سناؤں او!میری  اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں

صابرہ کا بیٹا سلیم ایک خوب صورت بچہ تھا۔صابرہ کی دن بھر کی مصروفیت اور برقی کھڈیوں میں رات کی محنت مزدوری کے باعث کے باعث بچوں کی تعلیم و تربیت پر اس کی توجہ نہ رہی۔اس کے باوجود وہ اپنے بیٹے سے ٹوٹ کر محبت کرتی۔گرمیوں کی راتوں میں وہ اپنے کمرے کی چھت پر سوتی اور اپنے بچے کو تھپکی دے کر اسے سلانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے کہتی :

سارے جہان پر پھیلی ہے چاندنی

تیرے مُکھڑے کے آگے میلی ہے چاندنی

تاروں کا روپ تو پہلے ہی ماند ہے

چندا کو میں کیا جانوں تُو میرا چاند ہے

اپنے چاند سے بچوں کا مستقبل سنوانے کے لیے اس نے اپنا حال داؤ پر لگا دیا۔وہ کسی کو اپنے دل کا حال نہ سناتی اور دل ہی دل میں حالات کی سفاکی اور معاشرتی زندگی کی شقاوت آمیز نا انصافیوں پر کڑھتی رہتی۔اپنے آنسو اپنی سد ا بہار مسکراہٹ کے دامنوں میں چھپا کر وہ زندگی کے دن پورے کر رہی تھی۔

آبادی کی تقسیم کا انقلاب آتے ہی حالات کی کایا پلٹ گئی الاٹوں پلاٹوں کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر چھوٹے لوگ بڑے بن بیٹھے منزل پر ان ابن الوقت عناصر نے غاصبانہ قبضہ کر لیا جو سرے سے شریک سفر ہی نہ تھے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اجالا داغ داغ اور سحر شب گزیدہ ہو کر رہ گئی۔ صابرہ نے برقی کھڈیوں کے بیم میں دھاگہ بھرنے میں مہارت حاصل کی اور اس طرح قالین بافی، بیم بھرنے اور گھروں میں کام کرنے سے اسے معقول آمدنی ہو جاتی۔1950تک  اس نے اپنا پیٹ کاٹ کر اتنی  رقم جمع کر لی کہ شہر کے مضافات میں ایک کچی آبادی میں دس مرلے کا ایک رہائشی پلاٹ خرید لیا اور اس میں سر چھپانے کا جھونپڑا تعمیر کر کے یہیں آ بسی۔اس نے پلاٹ دو حصوں میں بانٹ دیا آدھا بیٹی کے نام اور باقی آدھا اپنے بیٹے کے نام کر دیا۔اس زمانے میں یہاں زمین کا بھاؤ ایک سو روپے مرلہ تھا اور معمار کی مزدوری دو روپے یومیہ تھی جب کہ دن بھر خون پسینہ ایک کرنے کے بعد مزدور کو ایک روپیہ دیکھنا نصیب ہوتا تھا۔اب  2013   میں اس مقام پر دو لاکھ روپے فی مرلہ میں بھی رہائشی پلاٹ دستیاب نہیں۔ایک مرتبہ صابرہ سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا :

’’پرانا زمانہ اچھا تھا۔اتنی مہنگائی نہ تھی بجلی کے بل کی رقم پانچ روپے ماہانہ سے زیادہ نہ تھی، ایندھن دو روپے من، آٹا پندرہ روپے من، چینی دو روپے فی کلو اور جھنگ شہر سے نئے شہر تک کرایہ تانگے والا دو آنے وصول کرتا تھا۔اب تو تانگے نہیں رہے رکشا والا جھنگ شہر سے سول ہسپتال تک فی سواری تیس روپے لیتا ہے۔آٹا پچاس روپے فی کلو تک جا پہنچا ہے۔اب میرے گھر کی بجلی خراب ہے ایک بلب بھی نہیں مگر بل پھر بھی ایک سو روپے آ جاتا ہے۔‘‘

پرِ زمانہ تو پرواز  نُور سے کہیں زیادہ تیز ہے۔وقت گزرتا رہا اور صابرہ کے دونوں بچے اب جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکے تھے۔اگرچہ وہ تعلیم تو حاصل نہ کر سکے لیکن وہ ہنر سیکھ چکے تھے۔سلیم نے برقی کھڈیاں چلانے میں مہارت حاصل کی اور وہ یومیہ تیس روپے کما لیتا تھا، جانم نے ماں کی طرح قالین بافی اور برقی کھڈیوں کے بیم بھرنے کا فن سیکھا اور اس طرح وہ بھی اپنی محنت سے یومیہ بیس روپے کما لیتی۔صابرہ کے دونوں بچے بڑے نیک، سعادت مند اور محنتی تھے۔۔1965میں اس نے اپنے دونوں بچوں کی شادی کر دی۔یہ وٹے سٹے کی شادی تھی، جانم کے شو ہر کی بہن شباہت جو  سلیم کی بیوی بنی  بڑی سبز قدم ثابت ہوئی۔اس کے آتے ہی صابرہ کے گھر کے در و دیوار پر حسرت و یاس، ذلت و تخریب، نحوست و بے برکتی، بے ضمیری اور بے غیرتی، فحاشی اور بد معاشی، اخلاق باختگی اور جسم فروشی کے کتبے بد نصیبی کی صورت میں آویزاں ہو گئے۔  دن کو بھی اس مکاں میں شب کی سیاہی کا سماں ہوتا۔شباہت ایک جسم فروش رذیل طوائف تھی، اس نے عقل و خرد اور شرم و حیا کو گھر سے بارہ پتھر کر دیا۔اس کی بے راہ روی، جنسی جنوں اور اخلاق باختگی کا یہ عالم تھا کہ وہ نہایت ڈھٹائی سے سر عام راہ گیر نو جوانوں کو دعوت گناہ دیتی اور ان سے دولت ہتھیا کر جی بھر کر عیاشی کرتی۔رفتہ رفتہ اس نے اپنے شوہر کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا اور اسے منشیات کا عادی بنا دیا۔  منحوس شباہت کی بد اعمالیوں کے باعث صابرہ کا گھر عقوبت خانے، قحبہ خانے اور چنڈو خانے کا منظر پیش کرتا تھا۔  ہر شام سلیم کے گھر محفل ناؤ نوش کا اہتمام ہوتا  اور سب مست بند قبا سے بے نیاز  شب بھر داد عیش دیتے۔ اب تو صابرہ کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا اور اہلیان علاقہ بھی اس ڈھڈو کُٹنی، رذیل جسم فروش طوائف  شباہت کے قبیح کردار سے عاجز آ گئے۔صابرہ نے اپنی بہو کو راہ راست پر لانے کے بہت جتن کیے مگر شباہت ٹس سے مس نہ ہوئی۔شباہت کی شادی کو پانچ سال بیت گئے مگر اس نے اپنے گھر کے آنگن میں کوئی پھول کھلنے ہی نہ دیا۔دوسری طرف جانم اپنے تین کم سن بچوں کے ہم راہ اپنے سسرال میں ہنسی خوشی  زندگی گزار رہی تھی۔جب بھی طلوع صبح بہاراں کی کوئی امید پیدا ہوتی بد اندیش حرافہ شباہت  سب کچھ ملیا میٹ کر کے تلف کر دیتی اور بڑھیا صابرہ کی شاخ تمنا کے ہری ہونے کا امکانات معدوم ہو جاتے۔صابرہ  اس انہونی پر خاصی دل گرفتہ اور دل برداشتہ تھی۔اب تو اس کا بیٹا سلیم بھی اپنی بیوی کا ہم نوا بن گیا تھا۔بڑھیا کی پے در پے روک ٹوک اور پند و نصائح شباہت کی عیش پسند طبیعت پر ناگوار گزرے۔ایک شام اس نے گھر کے سارے زیور اور رقم سمیٹی اور اپنے دیرینہ آشناؤں  رنگو اور آسو کے ہم راہ اپنے میکے جا پہنچی۔

اگلے دن جانم بھی اپنی ماں کے گھر چلی آئی۔بیٹی کا اچانک روٹھ کر میکے آ جانا صابرہ کو سخت ناگوار گزرا۔اس نے اپنی بیٹی سے مخاطب ہو کر کہا : ’’تم کس لیے اپنے تین بچوں کو چھوڑ کر یہاں آ گئی ہو ؟‘‘

’’میں روٹھ کر آئی ہوں۔‘‘جانم نے روتے ہوئے کہا ’’جب میرے وٹے والی شباہت میرے بھائی کا گھر آباد نہیں کرتی تو میں بھی اس کے بھائی کے گھر کو آبا د نہیں کروں گی۔‘‘

’’لڑکی !تمھارا دماغ تو نہیں چل گیا؟‘‘صابرہ نے غیظ و غضب کے عالم میں اپنی بیٹی سے کہا ’’تم میں اور شباہت میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔اب زندگی بھر کبھی اپنا گھر اجاڑ کر ادھر آنے کی کوشش نہ کرنا۔تمھارے حصے کے پانچ مرلے بیچ کر میں نے تمھاری شادی کی ہے اب باقی کے پانچ مرلے سلیم کے ہیں۔‘‘

جانم زار و قطار رونے لگی اور بولی ’’میں کچھ لینے نہیں آئی، اب اس ضعیفی کے عالم میں تمھاری خدمت کرنے والا کوئی نہیں۔‘‘

’’ ہمارا اللہ حافظ  ہے ‘‘ صابرہ نے کہا ’’ابھی اپنے بچوں کے پاس چلی جاؤ اور اس کے بعد بچوں کو چھوڑ کر کبھی گھر سے باہر قدم نہ رکھنا۔میں ہر عید اور قربانی کے موقع پر خود تم سے ملنے تمھارے گھر پہنچ جاؤں گی۔رہ گیا سلیم تو اگر اس نے بُری صحبت اور منشیات سے جان چھُڑا لی تو اس کا گھر بھی بس جائے گا۔‘‘

شباہت نے عدالت سے خلع حاصل کرنے کے بعد پسند کی شادی کر لی اور اس کے بچے بھی ہو گئے۔اس کے باوجود صابرہ نے اپنی بیٹی جانم کو اپنے سسرال میں خوش رہنے کی نصیحت کی۔

سلیم کو ناگن شباہت نے ڈس کر نیم جاں کر دیا تھا۔شباہت کے خلع حاصل کرنے کے بعد سلیم سنبھل نہ سکا اور وہ مکمل طور پر منہدم ہو کر رہ گیا۔اگر چہ وہ بُری صحبت اور منشیات سے تائب ہو چکا تھا لیکن شباہت نے مسلسل پانچ برس اسے جس ڈگر پر چلایا اس کے مسموم اثرات  سے سلیم کا وجود کرچیوں میں بٹ گیا۔ا س کے پھیپھڑے اور گُردے کثرت مے نوشی سے شدید متاثر ہوئے اور وہ مستقل طور پر بستر سے لگ گیا۔صابرہ  اپنے نوجوان بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر خون کے آنسو روتی۔اب تو وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور تھا۔اسے اس حال میں دیکھ کر روتے روتے صابرہ کی ہچکی بندھ جاتی اور وہ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے گلو گیر لہجے میں اپنے اکلوتے بیٹے سلیم کے گھر کے اُجڑنے اور زندگی برباد ہونے پر دل گرفتہ رہتی مگر اپنے غم کا بھید کبھی کھلنے نہ دیتی۔اس سانحے نے اس ضعیفہ کو زندہ در گو ر کر دیا تھا۔اب و ہ سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کر رہی تھی۔ جس طرح دیمک لگ جانے سے ایک نخل تناور اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے اور بالآخر زمین بوس ہو جاتا ہے اس کی شاخیں ایندھن کے لیے کٹ جاتی ہیں۔  بالکل اسی طرح جب کسی انسان کے دل میں غم و اندہ کا مستقل بسیرا  ہو جاتا ہے تو یہ رنج اس کی جان لے کر ہی نکلتا ہے۔سلیم کی زندگی، گھر، صحت اور امیدوں کو بھی ڈائن شباہت نے ویران کر دیا۔1972کی ایک شام سلیم زینۂ ہستی سے اتر گیا اور صابرہ اب اس بھری دنیا میں تنہا رہ گئی۔سلیم کا جنازہ تیار تھا  بستی کے سب لوگ گریہ و زاری میں مصروف تھے۔نوجوان سلیم کے چاروں طرف گلاب کے پھول ہی پھول تھے۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قسمت سے محروم یہ نوجوان پھلوں کی سیج پر آرام کر رہا ہے۔  صابرہ اپنے بیٹے کو بچپن میں اکثر یہ لوری دیتی تھی:

پھولوں کی سیج پہ تجھ کو سلاؤں میں

کرنوں کا تاج تیرے سر پہ سجاؤں میں

امی کے باغ کا تو البیلا پھول ہے

کلیوں کا روپ تیرے قدموں کی دھُول ہے

صابرہ نے اس عالم پیری میں بھی مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔وہ محنت مزدوری کر کے اپنے لیے رزق حلال کماتی۔2013کا نومبر کا مہینہ تھا، جمعہ کا دن تھا میں گلی سے گزرا تو عورتوں کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔سب لوگ زار و قطار رو رہے تھے، معلوم ہوا کہ صابرہ بی بی نے اس دھوپ بھری دنیا سے منہ موڑ کر عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا ہے۔جانم اور اس کے سسرالی رشتے دار پہنچ چکے تھے۔شباہت کے ساتھ رنگو اور آسو بھی مگر مچھ کے آنسو بہا رہے تھے۔پاس ہی کھڑے سیالوی صاحب نے  روتے ہوئے کہا:

’’ صابرہ تو اسی روز فوت ہو گئی تھی جب جب سلیم کو لحد میں اتارا گیا تھا۔سلیم اور صابرہ کو شباہت، رنگو اور آسو نے موت کے دہانے تک پہنچا دیا تھا۔چیرہ دستوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہیں۔سو برس کے سامان کے باوجود کسی کو پل کی خبر نہیں۔‘‘

صابرہ کا پڑوسی یامین ایک عبادت گزار، خدا ترس، پارسا اور نیک پڑوسن کی وفات پر شدید صدمے کے عالم میں تھا۔اس نے شباہت، رنگو اور آسو کو اس خاندان کی بربادی کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا:

ہم تو چُپ ہیں کہ ہمیں مارنے والے تم ہو

خیر مانگو کہ زمانے کے حوالے تم ہو

٭٭٭

 

 

 

         حمار زیرِ بار کیوں ؟

 

 

اس دنیا میں ہر انسان کا کسی نہ کسی گدھے سے ضرور پالا پڑتا ہے۔اس لیے انسان کو گدھے کی سرشت سے روشناس کرانا تحصیل حاصل کی ناقابلِ  برداشت کوشش  ہے۔اس عالمِ آب و گِل میں گدھوں کی کہیں قلت نہیں۔اس عالمِ  آب و گِل کے آبلہ پا مسافر جب ایک گدھے کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو راہ میں ہزارہا خر ہر طرف خراماں خراماں اپنی  رُو سیاہی اور جگ ہنسائی کا عملی نمونہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔اس دنیا کے آئینہ خانے میں گدھے کو آئینہ دکھانا جوئے شیر لانے اور خود کو تماشا بنانے کے مترادف ہے۔گدھے کو انگوری باغ، سبز باغ، حلوے پُوری اور کستوری یا گُل قند اور نصائح و پند کے بارے میں کوئی امتیازی بات سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے اور لفاظ حشرات سخن کا ٹینٹوا دبانے کی سعیِ ناکام ہے۔ماہرین علم حیوانات نے گدھوں کی نسل کے آغاز و ارتقا کے بارے میں صدیوں کی تحقیق کے بعد جو نتائج اخذ کیے ہیں ان  سے شپرانہ چشم پوشی ممکن نہیں۔دنیا میں کئی قسم کے گدھے پائے جاتے ہیں۔ان میں سے دو ٹانگوں والے گدھے، چار ٹانگوں والے گدھے، بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے گدھے، ناز برداری  پر مامور گدھے، جفا کار گدھے، ریا کار گدھے، عیار گدھے، مکار گدھے، معذور گدھے، مقہور گدھے، مغرور گدھے، مفرور گدھے، اڑیل گدھے، سڑیل گدھے، فربہ گدھے، چربہ گدھے اور طفیلی گدھے زیادہ مشہور ہیں۔جب سے نقار خانے میں گدھوں کی ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز گونجنے لگی ہے کہیں بھی طُوطی کی آواز سُنائی نہیں دیتی۔جہاں کرگس حشم، طوطا چشم اور موقع پرستوں کی پانچوں گھی میں ہوں وہاں اہلِ  درد کی جان پہ بن آتی ہے اور وہ قبر میں پاؤں لٹکائے سانس گن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کر نے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔سوشیالوجی کے ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ زمانے کے حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے طویلے کے ہر جھمیلے اور ہر بلا کے پسِ پردہ  مہا گدھوں اُن کے بچوں، چُغد، مہا اُلّو اور اُلّو کے پٹھوں کا خُفیہ ہاتھ ہوتا ہے۔کھنڈرات اور جنگلات میں جنگل کے قانون کی ایک ہی  لاٹھی تھامے تمام چوپایوں کو بالعموم اور خچروں، گھوڑوں اور گدھوں کو بالعموم  ہانک کر من مانی کرنے والے مشکوک نسب کے ان خربانوں نے اصطبل اور طویلے کے پُورے منظر نامے کو وقفِ ظلمات، پائمال اور خوار و زبوں کر کے جنگلی حیات کی اُمیدوں اور اُمنگوں کا خون کر دیا ہے۔

گدھا بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے جانوروں میں سب سے زیادہ بوجھ اُٹھاتا ہے۔اسے گدھا گاڑی میں جوت کر سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔پس ماندہ علاقوں میں گدھے اور گدھا گاڑی پر انسان بھی سفر کرتے ہیں۔گدھا گاڑی کو کئی مقامات  پر مریضوں کو شفا خانے پہنچانے کے لیے ایمبو لنس کے طور پر بھی استعما ل کیا جاتا ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ گدھا گاڑی کو کھینچنے والے گدھے کو شدید تنہائی کا احساس ستانے لگتا ہے جس کی وجہ سے گدھے کی رفتار اور کار کر دگی کا معیار کم سے کم تر ہو تا چلا جاتا ہے۔ایسی صورت میں خر بان گدھا گاڑی کو کھینچنے والے مہا گدھے کے دائیں اور بائیں جانب لگے بانسوں کے ساتھ  اس کے ہم زباں گدھے باندھ دیتا ہے۔مہا گدھے کا رمز آشنا خر شناس اور مشّاق خر بان  یہ کوشش کرتا ہے کہ کسی چھوٹی سی گدھی کو بانس کے ساتھ باندھ دیا جائے جسے پخ کہتے ہیں۔ بار برداری میں پخ کا سرے سے کوئی کام ہی نہیں۔مہا گدھے کے ساتھ دوڑ کر اس کا حوصلہ بڑھانا پخ کی ذمہ داری ہے۔مہا گدھا جب پخ کو دیکھتا ہے تو اُس کے جذبات میں ایک ہلچل سی پیدا ہو جاتی ہے۔وہ حُسن و رومان کی ایک خیالی دُنیا میں پہنچ جاتا ہے اور اپنے اندر ایک ولولۂ تازہ محسوس کرتا ہے۔پخ کے ساتھ سرگوشیاں اور خر مستیاں کرتا ہوا مہا گدھا ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے گزرنے کی ٹھان لیتا ہے۔ وہ اس فریبِ  حقیقت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ اب تنہا نہیں رہا، بل کہ اب اُس کے راز داں ہم جنس اس کے شانہ بہ شانہ مصروفِ  خر مستی  ہیں جو اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر اور پیہم ہنہنا کر چل رہے ہیں۔ جذبات کے لاوے سے سُلگتے مہا گدھے کو کیا معلوم کہ پخ کے جذبات تو یخ بستہ ہیں۔وہ تو محض وقت گُزارنے کی خاطر ناچار اُسے جھُوٹی تسلیاں دینے پر مامور ہے۔جب مہا گدھا دن بھر کی مشقت کے بعد گدھا گاڑی سے الگ ہوتا ہے تو پخ کا کہیں اتا پتا نہیں مِلتا۔اس طرح مہا گدھا ایک طویل اور صبر آزما تنہائی کا وار سہنے کے لیے دُم دبا کر ہنہنانے اور دو لتیاں جھاڑ کر داغِ  فرقت کو سہلانے لگتا ہے۔

میرے پڑوس میں گھاسفو نامی  ایک متفنی فلسفی رہتا ہے جس کی جعل سازی نے اُسے پُورے علاقے میں تماشا بنا دیا ہے۔اُس کی ایک ہی منطق ہے کہ اس معاشرے میں حمار آخر زیرِ بار کیوں ہیں ؟  وہ ایک تنظیم کا بانی ہے جس کا نام ’’انجمن تحفظِ  حقوقِ  حمار‘‘ ہے۔اس کا سیکرٹری  بدنام سمگلر تُلا کمھار  اور سر پرست فجا چمار ہے۔ اس نام نہاد انجمن  کے دیگر اراکین میں رنگو اُٹھائی گیرا، تارو گھسیارا، گھونسہ پتھارے دار، اکّی بھتہ خور، عارو صبح خیزیا اور  ڈھڈوکُٹنی شباہتی شامل  ہیں۔ گھاسفو جس اصطبل میں رہتا ہے وہیں اس انجمن کے اراکین کا ماہانہ اکٹھ ہوتا ہے اور اراکین کے راتب بھاڑے کا انتظام شباہتی  کے ذمے ہوتا ہے۔محکمہ اِمدادِ بے رحمی ء حیوانات کے کئی سیاہ کار اس انجمن کے کام میں مشاور ت کرتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ گھاسفو کے علاوہ باقی سب عہدے دار نمائشی اور محض خانہ پُری کے لیے ہیں۔عملی طور پر  گھاسفو ہی اس تنظیم کا کرتا دھرتا ہے اور وہی روسیاہ انجمن کے سیاہ و سفید کا مالک ہے۔یہ تنظیم تو در اصل کوئلوں کی ایک دلالی کی صُورت ہے جس میں گھاسفو کا  بد وضع اور کریہہ چہرہ اس کے اندر کی سیاہی کی وجہ سے شبِ تاریک کا بھیانک منظر پیش کرتا ہے۔ سادیت پسندی (Sadism)کے مرض میں مبتلا گھاسفو ایک ایسا بد اندیش ہے جو مسلسل خلقِ خدا کے در پئے آزار اور اہل کمال کے  درپئے پِندار رہتا ہے۔  اسے ایک ہی فلم ’’ انسان اور گدھا ‘‘ پسند ہے۔یہ سوچ کر اس کے سینے پر سانپ لو ٹنے لگتا ہے کہ فلم ساز نے اپنی فلم میں گدھے کا مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے اُسے منتخب کیوں نہ کیا۔حالانکہ ایک مہا گدھے کی حیثیت سے ہر جگہ اُس شُوم  کے گدھے پن کی دھُوم مچی ہے۔خود نمائی کا رسیا  اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے والا مشکوک نسب کا یہ مخبوط الحواس، فاتر العقل جنسی جنونی حسیناؤں کے جھُرمٹ میں راجہ اِندر بن کر خوب ہنہناتا ہے اور جو کوئی اس مسخرے کے قبیح کردار پر تنقید کرے تو نتھنے پھیلا کر اور دو لتیاں جھاڑ کر اُس کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ یہ جب بھی چلتا ہے تو دو طرفہ ندامت اور پُوری آبادی کی ملامت اس کا تعاقب کرتی ہے۔کبھی کبھی گلشن ادب میں بھی منہ مار  لیتا ہے اور شعر و شاعری کی جُگالی کر کے اپنا اُلّو سیدھا کر کے سادہ لوح لوگوں کو کج روی پر مائل کرتا ہے۔اس بگلا بھگت اور جو فروش گندم نما مسخرے نے تو تمام رُتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں۔اس نے ہر صنف ادب میں عالمی کلا سیک کی بھونڈی نقالی کو وتیرہ بنا رکھا ہے۔ اپنی بے سر وپا باتوں اور شاعری کی وجہ سے یہ مُو ذی سدا مردودِ خلائق ہی رہا ہے۔اس کی ہیئتِ کذائی دیکھتے ہوئے کسی نے سچ کہا ہے کہ گدھا چلا شُتر کی چال، اپنی چال بھی بھُول گیا۔گزشتہ روز اس نے یہ اشعار سنائے ا ور کہا کہ یہ شعر اس کے حسبِ حال ہیں۔

ملی شراب تو مٹکے چڑھا گیا اک خر

ہوئی پٹائی تو سینگ ہی گنوا گیا اِک خر

ڈھینچوں بھی عجب اس کی خر مستیاں بھی کمال

مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اک خر

گھاسفو اکثر پریوں کے اکھاڑے میں راجہ اِندر بن کر شعر و شاعری پر ہاتھ صاف کرتا ہے۔ادب اور فنونِ لطیفہ کے ساتھ اُس کی دلچسپی محض نمائشی نوعیت کی ہے ورنہ اس کثیف  بے ادب کا ان لطیف اصناف سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔  داناؤں کا کہنا ہے کہ اپنے ابنائے جنس کے ساتھ قلبی لگاؤ انسان کی فطرت اور جبلت میں شامل ہے۔یہ خرادی مُرادی خرِ نا مُشخص اپنا خروار اُٹھانے کی صلاحیت سے تو  عاری ہے لیکن اپنی خُرجی لیے دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ یہ اس قدر خُرّانٹ ہے کہ جیب کتروں کی بھی جیب کاٹ لیتا ہے۔گدھوں کے ساتھ اس کی  والہانہ محبت کے پسِ پردہ بھی اس کی فطری جبلت کا ر فرما ہے۔ اس متشاعر نے اپنی موضوعاتی شاعری میں گدھوں کے موضوع پر بے بصری اور کو ر مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے خرِ قلم کی ہذیانیاں دکھائی ہیں۔اس کی شاعری چوری اور سینہ زوری کی قبیح مثال ہے۔کہیں کہیں تحریف کا گُماں گُزرتا  ہے لیکن اس کے با وجود طبیعت اس کی تعریف پر مائل ہی نہیں ہوتی۔ا س چربہ ساز، سارق اور کفن دُزد کے سہو قلم کے چند نمونے پیش ہیں۔

 

کوئی ہذیانی سی ہذیانی ہے

اسپ کو دیکھ کے خر یاد آیا

 

یہ آرزو تھی تجھے خر کے رو بہ رُو کرتے

ہم اور استرِ  بے آب گفتگو کرتے

گدھا سمجھ کے وہ چُپ تھا میری جو شامت آئی

بڑھا اور بڑھ کے لتّے میں نے فِیل باں  کے لیے

 

سمجھ کے رکھیو قدم دشتِ عار میں رنگو

کہ اِس خرابے  میں حمار روسیاہ بھی ہے

گدھے کھولے ہوئے چلنے کو سب کمھار بیٹھے ہیں

سبھی روتے گئے باقی جو ہیں غم خوار بیٹھے ہیں

 

اکّی کے جو بالیں پہ ہوا شورِ  ملامت

جلاد پُکارے کہ ابھی مار پڑی ہے

وہ لوگ جن پہ باطن ایام ظاہر ہے خُوب جانتے ہیں کہ گھاسفو ایک آزمودہ کار خر ہے۔اس خر کار نے ہر وقت اپنے بد وضع جذام زدہ اور کوڑھی جسم پر خر خرہ پھیرنا وتیرہ بنا رکھا ہے۔ایک شام یہ متفنی ہنہناتا ہوا  ایک کھنڈر سے نمودار ہوا۔میرے پاس بیٹھے سب لوگ اسے دیکھ کر لاحول پڑھنے لگے۔ اُستاد منظور نے جب اس نا ہنجار کو دیکھا تو گلو گیر لہجے میں اللہ کریم سے دعا کی ’’جل تُو جلا ل تُو، آئی بلا کو ٹال تُو۔‘‘اس کے باوجود یہ بلائے نا گہانی نہ ٹل سکی اور گھاسفو نے اپنے عفونت زدہ  چوڑے نتھنے(جن میں سے میلی رطوبت پیہم خارج ہوتی رہتی ہے ) پھیلاتے ہوئے اور زور سے ہنہناتے ہوئے  کہا :

’’اس بے کیف دیار میں میرا دل نہیں لگتا، میں لندن جانا چاہتا ہوں۔وہاں کے شاہی کالج کی رومان پرور فضا کی یادیں ہر وقت میرے دل میں چُٹکیاں لیتی رہتی ہیں۔ میرے دل کی دھڑکنیں اُس وادیِ جمیل کی سر سبز و شاداب سیر گاہوں اور چراگاہوں کے حضور آداب پیش کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ جہاں سب مست بندِ قبا سے بے نیاز ایک دوسرے میں سما جانے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتے  تھے۔یہاں تو کوئی حا ل ہی نہیں، سب کچھ بے کار ہے۔نہ مے نوشی نہ غسل آفتابی نہ رقص و سرود اور نہ جنس و جنون۔ توبہ توبہ !یہ شہر ہے یا زندان، بازار ہیں یا قبرستان، میرا تو یہاں دم گھُٹ رہا ہے۔‘‘

اُستاد منظور نے اس ابلہ کی لاف زنی سُن کر کہا:’’یہ تو اچھی خبر ہے کہ تم شہر سے جا رہے ہو، چلو خس کم، جہاں پاک۔ایک بات تو بتاؤ کہ کیا لندن میں گدھے نہیں پائے جاتے ؟ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ مغربی تہذیب نے جس  فحاشی اور عریانی کو عام کر دیا ہے اس کے باعث دیارِ مغرب کا پورا معاشرہ ایک طویلہ بل کہ ایک گدھیلا سا بن کر رہ گیا ہے۔ وہاں فہم و فراست، شرم و حیا تہذیب و معاشرت اور زندگی کی درخشاں روایات اور اقدارِ  عالیہ کو کو خر دماغ عیاشوں نے بارہ پتھر کر دیا ہے۔جس حمام میں اکثر سفید خر پہلے سے عریاں ہیں وہاں ایک اور کالے خرِ بے دُم کا اضافہ ہو جائے گا۔سب خراباتی مل جائیں گے۔‘‘

’’وہاں تو  بہت فربہ اور سفید گدھے پائے جاتے ہیں نہ کہ پس ماندہ ممالک کے گدھے کہ جن کی خارش زدہ  سیاہ چمڑی سے کالک جھڑتی ہے۔‘‘رنگو بولا ’’مہا گدھے !اعلا نسل کے گدھے جو بار برداری اور ناز برداری میں اپنی مثال آپ ہیں۔ گھاسفو یہاں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر گدھے کے مانند کام کرتا ہے اس کے با وجود اس کی معاشرے میں کوئی قدر و منزلت نہیں۔سب لوگ اسے ابن الوقت، مفت خور اور لیموں نچوڑ سمجھتے ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلے خر شماری کی تجویز گھاسفو نے پیش کی لیکن اس وطن میں اس کی آواز پر کسی نے توجہ نہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ترکِ وطن کی ٹھان لی ہے، اب وہ عالمی سطح پر خر شماری کے لیے کام کرے گا۔ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ میرے ہمدمِ دیرینہ گدھا منش گھاسفو کے ترک وطن اور لندن جانے سے تمھارے پیٹ میں مروڑ کیوں اُٹھ  رہے ہیں ؟اس نے لندن سے ابتدائی تعلیم مکمل کی اور ایک  بڑی ڈگری بھی وہاں سے لی مگر یہاں تو کوئی اس کی پذیرائی کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔یوں لگتا ہے کہ سب کی زبان پر آبلے پڑ گئے ہیں۔‘‘

اُُستاد منظور نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا :’’سچ ہے گدھے کو ایک گدھا ہی اچھی طرح کھُجا سکتا ہے۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں ذہنی افلاس کا یہ عالم ہے کہ جاہل کو اس کے جہل کا انعام ملنے لگا ہے اور جعلی ڈگریوں کی ہر طرف لُوٹ سیل لگی ہے انگوٹھا چھاپ جیّد جاہل رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں۔ عقابوں کے آشیانوں میں زاغ و زغن، کرگس، بوم اور شپر گھس گئے ہیں۔گلشن میں جہاں پہلے سرو و صنوبر اور گلاب و یاسمین کی فراوانی ہوتی تھی اب وہاں حنظل، پوہلی، زقوم، کریر، بھکڑا اور اکڑا اُگ رہا ہے۔گھاسفو عطائی جیسے جنسی جنونی اور راسپوٹین کے لیے یقیناً لندن ایک موزوں ترین جگہ ہے۔  سچ تو یہ ہے کہ گدھے کی جتنی بھی دھُلائی یا دھُنائی کر لی جائے وہ کسی صورت میں بچھڑا نہیں بن سکتا۔خر کو خواہ خربوزے کھلاؤ یا حنظل، اُس کا راتب جو ہو یا جوار اُسے بھوک و ننگ کا ڈر ہو یا توپ و تفنگ کا اندیشہ اُس کی خر مستی میں کوئی  فرق نہیں آتا۔زمانہ لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتا چلا جائے گدھے کا اسپ بننا بعید از قیاس ہے۔گدھا اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہے، برسات ہو یا موسم کی سوغات گدھے کا گدھا پن اس کے لیے ہلاکت خیزی کا پیغام لاتا ہے۔ بلاد شرق میں تو گدھے کو حلوہ کھلانے والے کی تواضع دولتیوں ہی سے ہوتی ہے البتہ یورپ میں گدھے کے منہ میں خُشکہ ڈالنے والے کور مغز اقربا پرور کثرت سے پائے جاتے ہیں۔سُناہے وہاں تو گدھا، گھوڑا، خچر اور استر سب کو ایک ہی کھونٹے سے باندھا اور ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔یورپ کے بعض گدھے تو اس قدر فربہ ہوتے ہیں کہ لاٹھی بھی ان کی کاٹھی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ایک سُپر طاقت نے تو ہاتھی اور گدھے کو انتخابی نشان کا درجہ دے رکھا ہے۔اب یہ عوام کی مرضی ہے کہ وہ اپنی قیادت کے لیے ہاتھی کو منتخب کریں یا گدھے کو اپنا قائد تسلیم کریں۔‘‘

گھاسفو ناک میں اُنگلی ڈالے اب تک سب باتیں سُن کر محض کان ہِلا رہا تھا  اچانک کفن پھاڑ کر ہرزہ سرائی پر اُتر آیا اور منہ سے جھاگ نکال کر یوں ہنہنایا’’ میں گدھوں کی کردار کُشی پر چُپ نہیں رہ سکتا۔گدھے تاریخ عالم کے اہم واقعات کے امین ہیں  اسی لیے تو یہ بے حد گُربہ مسکین اور غمگین ہیں۔کسی نے سچ کہا تھا کہ جنت سے جب شیطان کو نکالا گیا تو وہ گدھے پر سوار ہو کر وہاں سے باہر آیا۔قیامت سے قبل جب دجال نمودار ہو گا تو وہ بھی ایک خر پر سوار ہو گا۔کون ہے جِسے حضرت عیسیٰ  کے مشہور گدھے کے بارے میں علم نہ ہو۔ اپنی سواری کے لیے حضرت عیسیٰ نے گدھے کو پسند فرمایا جو کہ گدھے کی اہمیت کی دلیل ہے۔گدھا گنگا نہائے یا لنکا ڈھائے، روم جلائے یا اینٹ سے اینٹ بجا کر دل دہلائے، ہر حال میں گدھا ہی رہتا ہے۔ گدھے کی مستقل مزاجی مُسلمہ ہے اس سے متاثر ہو کر میں نے اپنا قلمی نام حمار منتخب کیا ہے۔ مہم جوئی کا ہر فرمان اور جاہ و حشمت کی ہر داستان تاریخ کے طومار وں میں دب جائے گی لیکن کوئی بھی مورخ حمار کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔میرے آبا کا سات پُشتوں سے گھاس کھودنے پر مدار تھا اسی لیے مجھے پیارسے گھاسفو کہا جاتا ہے۔ اس آبادی کی پہلی گدھا گاڑی میرے پردادا نے بنائی تھی۔وہ  خادمِ خلق پُورے علاقے کا کُوڑا کرکٹ اور کچرا  اپنی گدھا گاڑی پر لاد کر دُور ایک سنسان جنگل میں گِرا آتا تھا۔ میرے دادا کو محلے کی صحت و صفائی کا اس قدر خیال تھا کہ وہ گلیوں سے مُردہ کُتے گھسیٹ کر دُور ویرانے میں پھینک آتا تھا۔ صحت و صفائی کی اس انتھک  خدمت کے عوض انھیں محض دو وقت کی روٹی ملتی تھی  اور وہ اسی پر قناعت کر تے تھے۔میرے دادا کو شاہی دربار سے خر شناس کا لقب ملا تھا۔بے لوث  خدمت کا یہ معیار اب کہاں، اب تو اس بستی میں ہر طرف گدھوں کے ہل پھِر چُکے ہیں۔آج تو  المیہ یہ ہے کہ جس طرف  نظر دوڑائیں زاغ و زغن نے حمار کی نسل پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے۔حمار اور حمار بان کی نا قدری نے لرزہ خیز اور اعصاب شکن صورت اختیار کر لی ہے۔یہ حالات دیکھ کر مُجھے تو گدھوں بُخار چڑھ جاتا ہے۔میرے پُرکھوں نے گدھوں کو پالا اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر گدھوں پر اجناس لاد کر دساور کو بھیجیں۔بھنگ، حشیش، افیون اور دوسری نشہ آور ادویات کی تجارت سے دولت کمائی لیکن اب تو ہم لوگوں پر بہت کڑا وقت آ گیا ہے۔سچ تو یہ ہے :

استر پھِریں ہیں  خوار کوئی پُوچھتا نہیں

اِس چاکری میں شہرتِ  حمار بھی گئی    ‘‘

’’اونہہ !اس مخبوط الحواس اور فاتر العقل خبطی کا قلمی نام حمار ہے ‘‘ اُستاد منظور نے غصے سے کہا ’’شکل و صور ت سے تو تم چمار لگتے ہو۔گدھا ہمیشہ گدھا ہی رہتا ہے خواہ وہ لندن کی یاترا کر آئے یا واشنگٹن کی گلیوں میں دُم رگڑ کر واپس آئے۔جو اپنے وطن میں گدھے ہیں وہ دیارِ  غیر میں بھی مہا گدھے ہی ثابت ہوتے ہیں۔گدھے کا ماس رکھنے والوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اجنبی معاشرت میں سب لوگ سنگِ ملامت لیے نکل آتے ہیں اور کُتے کے دانت سے اُن کو کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔مادر وطن کے لیے جو خر ننگ و عار کا باعث بنتے ہیں انھیں تو مر جانا چاہیے۔‘‘

ڈھڈو کُٹنی شباہتی بھی گھاسفو کی تلاش میں اچانک وہاں آ دھمکی، گھاسفو کی داشتہ کی حیثیت سے سب لوگ اس رذیل طوائف اور نا ئکہ  پر تین حرف بھیجتے تھے۔ اس رذیل طوائف نے متمول طبقے کے عیاش جنسی جنونیوں کے لیے رسد کے انتظامات سنبھال رکھے تھے۔وہ گدھیڑی  اپنے آشنا اور محرمِ راز گھاسفوکے خلاف ہونے والی باتوں پر کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے بولی :

’’استاد منظور تم گدھے کو آدمی بنانے کے فن میں تو یکتا ہو لیکن گھاسفو گدھے کو باپ بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔تمھاری ساری زندگی جن گدھوں پر کتابیں لادنے میں بیت گئی وہ تو موٹروں پہ اُڑ رہے ہیں اور تمھارے احسان فراموش شاگرد تم جیسے مصلحتِ وقت سے نا آشنا  اُستادوں کو گدھوں پر چڑھوانے کی فکر میں ہیں۔ تم گدھوں کو سکھانے کی دھُن میں بے تکان مگن ہو مگر تم یہ بھول گئے کہ گدھوں کی ضیافت کا شمار نہ تو پاپ میں ہوتا ہے اور نہ ہی پُن میں۔تمھاری فغانِ صبح گاہی اور آہِ نیم شبی تعلیم و تربیت میں گزری لیکن اس کا صلہ تمھیں کیا ملا ؟ تمھاری کُٹیا کی قسمت نہ جاگی، خر کے شر سے تم بچ نہ سکے۔‘‘

’’گدھا مرے کمھار کا اور  ڈُومنی ستی ہو !‘‘اُستاد منظور نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’کان کھول کر سن لو شباہتی !میں کسی خر دماغ کی ہذیاں گوئی سے دل برداشتہ نہیں ہوتا۔ اپنی کُٹیا کی بے سروسامانی پر مجھے ناز ہے، پرائی چُپڑی دیکھ کر میرا جی نہیں للچاتا۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ حمار کو زعفران کی بہار سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔اس کے باوجود بُو م، شپر اور کرگس پر سنگ زنی  وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔بلا وجہ کڑیالا چبانے کی ضرورت نہیں۔یاد رکھو دُم کٹے گدھے جب اپنی ہئیت کذائی سے گھبرا کر اپنی دُم کی تلاش میں در بہ در اور خاک بہ سر  پھِرنے، سرابوں میں بھٹکنے، متعفن جوہڑوں اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے  اور کُوڑے کے ڈھیروں کو سُو نگھنے کے اور خاک چاٹنے کے بعد بے نیلِ مرام لوٹتے ہیں تو ان پر یہ راز کھُلتا ہے کہ اس سعیِ رائیگاں میں وہ اپنے کانوں سے بھی محروم ہو چُکے ہیں۔‘‘

’’تم نے ہمیں غلط سمجھ رکھا ہے، شباہتی نے اپنے منہ سے نکلنے والا جھاگ اُگلتے ہوئے کہا ’’میں مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کی ملکہ لال کنور کی پڑ پوتی ہوں، زہرہ کنجڑن میری  پڑ دادی کی مصاحب تھی۔اور یہ گھاسفو نعمت خان کلاونت کا نواساہے۔تاریخ سے تم لوگ کورے ہو اس لیے بتانا ضروری ہے کہ نعمت خان کلا ونت جہاں دار شاہ کے عہد میں ملتان کا صوبے دار تھا۔‘‘

’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔‘‘ اُستاد منظور نے تحمل سے کہا ’’جن ننگ انسانیت لوگوں کا نام منہ چھپا کر لینا چاہیے تم اپنا بھاڑ جیسا منہ پھاڑ کر ان سے ناتہ جوڑ رہے ہو۔ جس قماش کے لوگوں کو سر جھُکا کر چلنا چاہیے وہ یوں سر اُٹھا اور ڈھٹائی سے اپنی بے غیرتی، بے ضمیری اور بے حیائی کی داستانیں سنا کر داد طلب ہوں، تُف ہے ایسی سوچ پر۔ دنیا جانتی ہے کہ نعمت خان کلاونت نے اپنی بہن رذیل طوائف لا ل کنور کو سیڑھی بنا کر منصب تک رسائی حاصل کی اور لال کنور کی شریکِ کار  زہرہ کنجڑن اُس سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔اگر تم لوگوں کا ان رسوائے زمانہ بے ضمیروں سے ناتہ ہے تو پھر تو تمھیں چُلّو بھر پانی کی اشد ضرورت ہے تا کہ تم اُس میں ڈُوب کر اس بے وقعت زندگی سے نجات حاصل کر سکو اور دھرتی کا بوجھ بھی کم ہو سکے۔‘‘

’’بہت ہو چُکی ! اب یہ کہانی ختم ہو کر  رہے گی !‘‘ گھاسفو نے  دولتی جھاڑ کر کہا ’’اب میں اس منظور ماسٹر سے اچھی طر ح نپٹ لوں گا۔میں نے گدھے کا لباس پہن رکھا ہے لیکن اندر سے میں بھیڑیا ہوں۔یہ شباہتی ایک ناگن ہے جس کاڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔میں خان ہوں۔۔۔ہاہا۔۔ہاہا میں نعمت خان کلاونت کی اولاد ہوں۔چنگیز خان اور ہلاکو خان ہمارے مورثِ  اعلا تھے۔‘‘

’’کان کھول کر سن لو اُستاد منظور ! اب تمھارا جانا ٹھہر گیا ہے، تم صبح گئے کہ شام گئے ‘‘شباہتی نے غراتے ہوئے کہا’’  تم نے ہمیں گالیاں دی ہیں اب تمھیں ہمارے انتقام سے کوئی نہیں بچا سکتا۔شہر کے بڑے بڑے رئیس ہماری ایک جھلک دیکھنے کے لیے جُوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ہمارے پاس بہت سے راز ہیں۔میرے ایک اشارے پر میرے پر ستار تمھاری تِکا بوٹی کر دیں گے۔اب میں دیکھوں گی تم ہمارے خلاف زبان کیسے کھولتے ہو۔تمھاری زبان گُدی سے کھینچ لی جائے گی اور تمھیں عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا۔‘‘

اُستاد منظور نے کہا’’ چھاج تو بولے مگر چھلنی کیوں بولے جس میں ہزاروں چھید ہیں۔منشیات اور خرچی سے کالا دھن سمیٹ کر تم لوگوں نے کئی گھر بے چراغ کر دئیے ہیں۔لوگ تمہارے ظلم سے عاجز آ چکے ہیں۔ میں تمھاری خُرافات سے ہراساں نہیں ہو سکتا، میں ہر ظالم پہ لعنت بھیجتا ہوں۔میرا سر کٹ تو سکتا ہے لیکن یہ جُرم اور ظُلم و جور کے سامنے جھُک نہیں سکتا۔ میں نے زندگی بھر مسموم ہواؤں کا مقابلہ کیا ہے۔میری داستانِ حیات کا حرف حرف صداقتوں کا مظہر ہے۔تمھاری کتابِ زیست کا ورق ورق تمھاری بد اعمالیوں سے لبریز ہے۔کُوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں چُننے والے سگانِ  راہ کی عف عف مُجھ جیسے گدا کی زندگی اور رزق میں کمی کا باعث ہر گز نہیں بن سکتی۔تم جیسے نو دولتیے یہ بات کبھی فراموش نہ کریں کہ کسی محل کی منڈیر پر بیٹھ جانے سے کرگس عقاب نہیں بن جاتا، بلند و بالا نخل ثمر دار کی کھوہ میں بسیرا کرنے سے چُغد کبھی سُرخاب نہیں بن جاتا اسی طرح کالا دھن کما کر خسیس کسی صورت میں رئیس نہیں کہلا سکتا۔مجھے اپنے خدا پر کامل یقین ہے کہ وہ مجھے ہر خناس کے شر سے بچائے گا۔‘‘

گھاسفو، رنگو اور شباہتی نے اس کے بعد استاد منظور کو بے تحاشا گالیاں دیں اور بُڑ بُڑاتے ہوئے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے وہاں سے رفو چکر ہو گئے۔اُستاد منظور نے پُر نم آنکھوں سے یہ سب کچھ بر داشت کر لیا اور ان منشیات فروشوں، دہشت گردوں اور رسوائے زمانہ جنسی جنونیوں کی ہر بے ہودہ بات سُنی ان سُنی کر دی۔میں نے اُستاد منظور کو گلے لگا لیا اور اس کی ڈھارس بندھائی۔میں اس معمر استاد کو پنے ساتھ لے کر اُس کے گھر پہنچا۔وہ بہت دل برداشتہ  تھا اور اُس کا جسم بھی تپ رہا تھا۔

گھاسفواور اس کے ساتا روہن فطرت کی سخت تعزیروں سے غافل ہو چُکے تھے۔گھاسفو کا اصطبل عقوبت خانے، چنڈو خانے اور قحبہ خانے میں بدل چکا تھا۔یہاں منشیات فروشوں، اُجرتی بد معاشوں  اور جرائم پیشہ دہشت گردوں نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ گھوڑوں، گدھوں اور خچروں کے ساتھ رہتے رہتے و ہاں کے ہر مکین کی خُو بھی خر جیسی ہو چُکی تھی۔گھاسفو کے پاس کالے دھن کی فراوانی تھی۔وہ ایک ایسے مافیا کا مہرہ تھاجس کے ہاتھ بہت لمبے تھے اس کا تعلق بیرونِ ملک مقیم سماج دُشمن عناصر سے بتایا جاتا تھا۔  میں اپنے والد کے علاج کے سلسلے میں ایک ماہ شہر سے باہر رہا۔جب میں گھر آیا تو معلوم ہوا کہ کینہ پرور گھاسفو نے اُستاد منظور پر حملہ کیا۔استاد منظور سڑک پر پیدل جا رہا تھا کہ ناصف کھبال نے اسے اپنی تیز رفتار کار کے نیچے کُچل دیا اور اس کی کار فراٹے بھرتی ہوئی ٹریفک کے ہجوم میں غائب ہو گئی۔استاد منظور کو شدید زخمی حالت میں نزدیکی ہسپتال میں پہنچایا گیا۔معالجین کی سر توڑ کوششوں سے استاد منظور کی جان تو بچ گئی لیکن اس حادثے نے اس کو جسمانی اعتبار سے بے حد کم زور کر دیا اور اس کا گھر سے باہر نکلنا بھی ممکن نہ تھا۔میں جب اس سے ملنے گیا تو اس کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجہ نا پید تھا۔اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا کائنات کے خالق کے ہاں دیر تو ہو سکتی ہے لیکن اندھیرکا  تصور ہی گناہ ہے۔میری داد رسی ضرور ہو گی۔‘‘  اُستاد منظور کو گہری سوچوں میں گُم چھوڑ کر میں گھر کی جانب چل پڑا۔میں بہت دل گرفتہ تھا اور یہ سوال بار بار ذہن میں آ رہا تھا کہ نا معلوم کیوں قادرِ مطلق نے گھاسفو جیسے فرعون کے عرصۂ حیات کو طول دے رکھا ہے۔ با ضمیر اور انسانیت کے لیے فیض رساں انسان بے بسی کے عالم میں گوشہ نشین ہوتے چلے جا رہے ہیں اس کے بر عکس کالی بھیڑیں، سفید کوے، گندی مچھلیاں اور وہ گدھے جو ناک، کان اور دُم تک کٹو ا چُکے ہیں سرِ عام دندناتے پھرتے ہیں اور مفید نہالوں کو جڑ سے اُ کھاڑ کر اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے میں لگے ہیں۔اس قماش کے گدھوں نے تو لُٹیا ہی ڈبو دی ہے۔

جھنگ میں ہر سال میلہ سنگ کے موقع پر شہر میں گدھا گاڑیوں کی ایک دوڑ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس دوڑ میں ہر قماش کے خر بان بڑھ کر اور گدھے پر چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔سیکڑوں گدھا گاڑیاں یہاں آتی ہیں۔جتنی گاڑیاں اتنے گدھے اور جتنے منہ اتنی باتیں۔ سال 2006میں بھی اسی قسم کی ایک گدھا گاڑی دوڑ کے انعامی مقابلے کا اہتمام کیا گیا۔شہر کے مضافات اور دور  دراز کے علاقوں سے متعدد خربان، خر شناس گدھوں کے معالج، عطائی، رمال، نجومی، تماشائی، گدھوں کے شیدائی اور گدھا پال اکٹھے ہوئے۔ اس بار دھرتی کا بوجھ گھاسفو اور اس کے ساتا روہن ہی اس کے کرتا دھرتا تھے۔گدھا گاڑیوں کی اس دوڑ کا مقامِ آغاز جھنگ شہر کا حفاظتی بند تھا اور مقام اختتام تریموں ہیڈ ورکس تھا۔اسی مقام پر طویل مسافت سے نڈھال اور سُست روی کا شکار دریائے جہلم اپنے خفیف وجود کو دریائے چناب کی پُر شور طوفانی  لہروں کے سپرد کر کے بحیرہ عرب تک دریائے چناب کا حصہ بن جاتا ہے۔تریموں سے آگے صرف دریائے چناب ہی باقی رہ جاتا ہے۔دو دریاؤں کے سنگم کے مقام پر بے شمار نہنگ پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے مقامی باشندے اس جگہ کو آسیب زدہ قرار دیتے ہیں۔ کوئی ملاح یاکشتی بان اس طرف کا رخ نہیں کرتا۔اسی جگہ سے رنگ پور نہر نکالی گئی ہے جو ہیر کے سسرالی شہر رنگ پور کھیڑے کو سیراب کرتی ہے۔  رانجھے کو جب رنگ پور کھیڑے سے شہر بدر کیا گیا تو وہ اپنی حباب کی سی ہستی اور سراب کی سی کائنات سے بیزار ہو گیا۔گُمان ہے کہ اس نے بھی کچھ عرصہ یہاں ایک خَرگاہ میں قیام کیا تھا۔اس جگہ پر ایک دریائی سیر گاہ ہے  جہاں دنیا بھر سے  بڑی تعداد میں سیاح کشتی رانی، مہم جوئی  و سیاحت، سیرو تفریح ا ور حسن و رومان کی داستانوں کے اوراق کی باز دید اور چشمِ غزال کی تیر اندازی سے گھائل ہونے کے لیے آتے ہیں۔ یہاں سے ملنے والا خَر مُہرہ جوگیوں، سیلانی سادھوؤں اور فقیروں کو بہت پسند ہے۔ کئی شکاری یہاں کُنڈیاں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور لاوے کے طمع میں مچھلیاں اُن کی کُنڈیوں میں پھنس جاتی ہیں۔اس جگہ پر دریا ئے چناب سے کُنڈی لگا کر پکڑی جانے والی تازہ مچھلی کے کباب تیار کیے جاتے ہیں جو یہاں کی خاص سوغات ہے۔ ان کا ذائقہ گھڑے یا جوہڑ کی گندی مچھلیوں سے بہت اچھا ہوتا ہے، اس لیے بیرونی سیاح  ان تازہ مچھلیوں کے متلاشی رہتے ہیں۔صدیوں سے یہ داستان زبان زدِ عام  چلی آ رہی ہے کہ اس مقام پر ہر سال ایک کشتی غرقاب ہوتی ہے اور اس کشتی کے مسافر نہنگوں کا لقمۂ تر بن جاتے ہیں۔

دسمبر کی ایک خنک صبح تھی۔خون منجمد کر دینے والی سردی اور شدید دھند کے باوجود ایک سو کے قریب گدھا گاڑیاں مقابلے میں شریک ہوئیں۔خربان اپنے گدھوں  پر کوڑوں کی طرح پے در پے چابک اور چھانٹے برسا رہے تھے۔سر پیٹتے خربانوں کے تابڑ توڑ تازیانے کھا کر گدھے سر پٹ دوڑ رہے تھے۔سب تماشائیوں کی یہ متفقہ رائے تھی کہ گدھوں کو پیار اور شفقت بھرا سلوک کبھی راس نہیں آتا۔  بھُوکے گدھے زیادہ تیز دوڑتے ہیں، اس لیے گدھوں کو پیٹ بھر کر راتب و چارہ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔گدھے ڈنڈے کے مُرید ہوتے ہیں، اس لیے گدھوں پر مشق ستم جاری رکھنا از بس ضروری ہے۔ جب بھی گدھے اپنے حقوق  یا راتب کی بات کریں، ان پر لٹھ لے کر ٹُوٹ پڑنا  چاہیے تا کہ گدھے اپنی اوقات میں رہیں۔جب گدھوں پر کوئی کوہِ ستم ٹُو ٹتا ہے تو وہ زیادہ مستعدی کے ساتھ بار برداری میں لگ جاتے ہیں۔سہ پہر قریب تھی یہ بیس میل لمبی دوڑ اپنے اختتام کو پہنچی۔اس سال گھاسفو کے پالتو گدھوں نے پہلی تینوں پوزیشنیں جیت لیں۔گھاسفو اور اس کے خر بان ٹرافیاں اور انعام جیت چکے تھے۔دوڑ کے بعد دریائے چناب میں سیر کے لیے کشتی رانی اور ضیافت کا انتظام بھی تھا۔ پتن پر موجود سو کے قریب کشتیاں تماشائیوں سے بھر گئیں۔ خوشی کے اس موقع پر شراب اور شباب کے تمام انتظامات کے ساتھ گھاسفو اور اس کے ساتا روہن بھی ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔کشتیاں دریائے چناب کی طوفانی لہروں پر ہچکولے کھاتی ہو ئی تیرنے لگیں۔ خوشی، حیرت اور سکون کے ملے جُلے جذبات سب چہروں پر نمایاں تھے۔ملاح نہایت سکون کے ساتھ چپو چلا رہے تھے  اور دریا کی اُٹھتی ہوئی لہروں سے اپنی اپنی کشتیوں کو بہ حفاظت دوسرے کنارے تک لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔دریا کے دوسرے کنارے پر ایک سیر گاہ تھی جہاں قیام و طعام کا خاطر خواہ بندو بست تھا۔کشتیوں کے اکثر مسافر تو دریا کی سیر کے دوران ہی رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے سب استعاروں سے لطف اندوز ہونے میں مگن تھے۔ایک کشتی سے مے خواروں کی جانب سے  شراب کی خالی بو تلیں مسلسل دریا میں پھینکی جا رہی تھیں۔ اس کشتی  میں سوار سب مست خر اور طوائفیں بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر ایک دوسرے میں سما گئے تھے اور انھوں نے شرم و حیا کو دریا بُرد کر دیا تھا۔ ان کی یہ خر مستیاں اس حد تک بڑ ھ گئیں کہ دوسری کشتیوں کے مسافروں نے  شرم سے سر جھکا لیے اور توبہ استغفار کا وِرد شروع کر دیا۔ پُر اسرار طور پر اس خاص کشتی کا رُخ دریا کی منجدھار کی جانب ہو گیا۔مشّاق ملاح نے کشتی میں موجود جنسی جنونیوں کو خطرے سے خبر دار کیا لیکن کسی نے اس کی بات پر کان نہ دھرے۔اچانک وہی کشتی دریا کے ہول ناک گرداب میں بُری طرح پھنس گئی اور  دریا کی تیس فٹ کے قریب اونچی مہیب طوفانی لہر نے کشتی کو نگل کر ہمیشہ کے لیے غرقاب کر دیا۔ گرداب کا رخ نہنگوں کے مرکز کی طرف تھا۔اسی کشتی میں رذیل طوائفیں، گھاسفو، اس کے ساتا روہن سوار تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

گُفتنی نا گُفتنی:ذکر کچھ چھُپی کتابوں کا

 

 

 

قحط الرجال کے موجودہ دور میں حادثۂ وقت نے عجب گُل کھِلائے ہیں ہر بوالہوس نے ملمع سازی کو وتیرہ بنا لیا ہے۔جامۂ ابو جہل میں ملبوس ہر ابلہ رواقیت کا داعی بن بیٹھا ہے۔ادب اور فلسفے کی ابجد سے بھی ناواقف عطائی بڑی بڑی ڈگریاں تو ہتھیا لیتے ہیں لیکن جزیرۂ جہلا میں وہ بدستور لمبے ڈگ بھرتے علم دشمنی کی ڈگر پر دندناتے اور ہنہناتے پھرتے ہیں۔ لوگوں کی قدر ناشناسی اور تحسین نا شناس نے اب گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔ خود نمائی کے مرض میں مبتلا جہلا کے سر میں ایک خناس سما گیا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو وہ دانش وری کا سوانگ رچا کر ادبی تخلیق کار کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کی آنکھوں میں دھُول جھونک کر سادہ لوح لوگوں کو اُلّو بنا کر اپنا اُلّو سیدھا کریں۔اسی خبط میں مبتلا ہو کر وہ عقل و دانش سے دُور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کی بے بصری اور کو ر مغزی اُس وقت کھل کر سامنے آتی ہے جب وہ کاتا اور لے دوڑا کی مذموم رو ش اپنا تے ہوئے اپنی بے ربط تحریروں کے مسودات کو جو پُشتارۂ اغلاط ہوتے ہیں،کتابی شکل میں لانے کے لیے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔اپنی سُستی چھُپانے اور سستی شہرت حاصل کرنے کا پاپ انھیں کئی پاپڑ بیلنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ یہ ہوائی اُڑا دیتے ہیں کہ تخلیقِ ادب کا شوق تو ان کو ورثے میں ملا ہے۔المیہ یہ ہے کہ ہوا کا رخ نہ پہچانتے ہوئے بیساکھ کے موسم میں بھی اُن کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہوتی ہیں اور وہ تھر کے علاقے سے آئے ہوئے الم نصیب فاقہ کشوں کے مانند تھر تھر کانپتے ہوئے اور مسلسل ہانپتے ہوئے شہرت کی بیساکھیاں تلاش کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔چربہ سازی،سرقہ اور نقالی کے ہر جوہڑ سے سیراب ہو نے کے بعد ان کے سہو قلم سے نام نہاد ادب کی صورت میں جو کچھ سامنے آتا ہے اُسے پڑھ کر قاری سٹپٹا جاتا ہے اور ادبی سٹے بازوں کے نرغے میں اُس کی سِٹی گُم ہو جاتی ہے۔چلتے پھرتے ہوئے یہ مُردے کفن پھاڑ کر کس طرح ہذیان گوئی پر اُتر آتے ہیں اس کا اندازہ ان کی کتابوں کے مسودات سے لگایا جا سکتا ہے۔آج سے قریب قریب نصف صدی پہلے کی بات ہے کہ ایک عادی دروغ گو، چربہ ساز،کفن دُزد اورسارق متشاعربُز اخفش حیوانی جھنگ کے ممتاز ادیب غلام علی خان چین کے پاس گیا اور اپنی شاعری کی بیاض اور کتاب کا مسودہ دکھا کر اس کا مقدمہ لکھنے کے لیے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اصرار کرتے ہوئے کہنے لگا:

’’ میں بچپن ہی سے والدین سے چوری چھُپے شاعری کرتا رہا ہوں۔ یوں تو ہمارا پیشۂ آبا سو پشت سے گدا گری،رسہ گیری اور دادا گیری ہے لیکن میرا مزاج لڑکپن سے شاعرانہ ہے۔میں نے بڑے شاعروں کا کلام پڑھ کر اس سے جو اثرات قبول کیے انھیں اپنے اشعار کے قالب میں ڈھالا۔یہ بات درست ہے کہ میری شاعری میں بڑے شاعروں کے خیالات جھلکتے ہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ میں نے معمولی رد و بدل کے بعد یہ شعر اپنی بیاض میں لکھ لیے۔برسوں کی محنت کے بعد میں نے اپنی شاعری کی کلیات لانے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ رہا کلیات کا مسودہ،اب کتاب جانے،آپ جانیں اور مقدمہ جانے۔میں سب کچھ یہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اپنا دلی مدعا میں نے بتا دیا ہے اور سب کچھ آپ کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے۔‘‘

اس جعل ساز کی بے ربط باتیں اور مدعا کے بارے میں سن کر غلام علی خان چین نے کہا:

’’   سچ ہے سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔تمھاری شاعری میں لکھنو کی بھٹیارنوں کا سا لہجہ ہے،ہر شعر میں ہوس پر مبنی تمنائیں،بد دعائیں، طعنے، کوسنے اور بیزار کُن کٹ حُجتی اور ضلع  جُگت نے اسے بے حد کم زور بنا دیا ہے۔اس وقت تماری ہئیت کذائی دیکھ کر تم پر کسی مجذوب یا مسخرے کا گمان گزرتا ہے۔مسلسل رومان اور شکستِ دل کے باعث جو تمھاری حالت ہے اس کے پیشِ نظر تو تمھیں اللہ میاں ہی سمجھے۔مجھے تو تمھارا مزاج شاعرانہ کے بجائے مجنونانہ سا لگتا ہے۔اجی یہ کیا !جزئیات کو سمجھنے سے قبل کلیات کی اشاعت کیسے ممکن ہے؟اس شاعری کو چَھپانے کے بجائے اِسے چھُپانے کی فکر کرو۔زندگی کی برق رفتاریوں کے باعث زمانے کے انداز تیزی سے بدل رہے ہیں۔اب تو خس و خاشاک کے موضوع پر بھی تحقیق کا سلسلہ چل نکلا ہے،کاہ کو بھی کوہ ثابت کیا جا رہا ہے۔ممکن ہے کچھ عرصہ بعد کوئی محقق متشاعروں پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھ کر کسی جامعہ سے اعلا ڈگری ہتھیانے میں کام یاب ہو جائے اور یہ شعری مجموعہ ’’باقیاتِ بُزِ اخفش‘‘ کی صورت میں موجود ہو۔ تم اپنی پِٹی ہوئی ڈگر پر چلتے رہو اور حساس تخلیق کاروں کی چھاتی پر مونگ دلتے رہو۔اب رہ گیا مقدمہ کا معاملہ تومیاں کان کھول کر سُن لو، میں کیا اور کتاب کا مقدمہ کیا،اگر یہ کتاب چھپ گئی تو اس جسارت سارقانہ پر مقدمہ یقیناًچلے گا۔ایسی تصانیف کی رونمائیاں بالآخر جگ ہنسائیوں اور تکلیف دہ روسیاہیوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔اس ضعیفی کے عالم میں کسی مُردہ مصنف اور اُس کی بے جان تصنیف کو مقدمہ کا کندھا دینے سے میں معذور ہوں۔وقت خود ہی اس قماش کے مصنفین اور ان کی تصانیف کی آخری رسوم ادا کر دیتا ہے۔‘‘

غلام علی خان چین کا یہ ٹکا سا جواب سن کر بُزِ اخفش حیوانی نے یوں ہرزہ سرئی کی :

’’ ہوا کی شدت،موسم کی حدت اور آسمان کی وسعت کا کبھی غلط اندازہ نہ لگاؤ۔میرے حریف تو یہ چاہتے ہیں کہ میں لبِ اظہار پر تالے لگا کر اپنے بال و پر نوچ ڈالوں اور قفس میں سسک سسک کر دم توڑ دوں۔میں کرگس ہوں میرا نشیمن ہمیشہ ریگستانوں، ویرانوں،قبرستانوں اور کھنڈرات میں رہا ہے۔لوگوں کو اپنی امارت کا نشہ ہے لیکن مجھے اپنے ہنر سے مخمور ہوں اور حاسدوں نے اپنے اسلوب کی جو عمارت کھڑی کر رکھی ہے،مجھے تو وہ کُٹیا سے بھی حقیر نظر آتی ہے۔تا ہم  یہ بات دل کو لگی ہے کہ میرے مجموعۂ کلام کا نام ’’باقیاتِ بُزِ اخفش‘‘ ہی ہونا چاہیے۔اس کتاب کے متعلق میں جو کچھ چاہوں لکھوا سکتا ہوں۔یہاں قلم فروشوں کا کون سا قحط پڑ گیا ہے۔دنیا دیکھے گی کہ میری شاعری کا مجموعہ ’’باقیاتِ  بُزِ اخفش ‘‘میری زندگی ہی میں شائع ہو گا۔کوئی جلتا ہے یا ہاتھ ملتا ہے تو مجھے اس کی مطلق پروا نہیں۔چند باسی شعر وارد ہوئے ہیں۔ان اشعار میں میری وارداتِ قلب جلوہ گر ہے  جب کہ بعض لوگ ان اشعار کو تاثرات کلب پر محمول کرتے ہیں۔

بُزِ اخفش کو کڑی مار کفش کی جو پڑی تھی

جب فرش پہ لیٹا تھا بہت بھنگ چڑھا کے

 

کاوش ہے سارقانہ

اے دِل کہیں سے اب تو

چربہ ہی ڈھونڈ لانا

 

بُزِ اخفش کی چوکھٹ پہ ہوا شورِ  جراحت

حجام سبھی بولے کہاں چوٹ لگی ہے

 

پرکھ پرچول کا نہ ہو خطرہ

چربہ سازی کمالِ فن ٹھہرے

 

کب کا ترک کیا سارق نے یہاں تک آنا جانا بھی

پھر بھی  لازم ہے بُز اخفش اِس دِل کو بہلانا بھی

 

مصر کے بازار سجے ہیں جلوۂ حُسن دکھانے کو

ٹُوٹ پڑے ہیں بُزاخفش اپنی اوقات بتانے کو

 

اپنی بے بصری اور کو ر مغزی پر وہ ہمیشہ خجل رہا کچھ عرصہ بعد یہ خضاب آلود بُڈھا کھوسٹ متشاعر اسّی سال کی عمر میں ایک سولہ سالہ شاطر حسینہ کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہو گیا۔وہ عقل کا اندھا اور گانٹھ کا پُورا عشقی ٹڈا اُس طوائف کے دامِ عشق میں یوں پھنسا کہ تمام جمع پُونجی اور اپنی متاع زیست اُس حسینہ پر وار گیا اور پھر اس کی بے وفائی کا وار سہہ کر چُپکے سے زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ عقل،عشق اور حیاتِ مستعار کی بے بضاعتی کے اس گھمسان میں وہ شدید خلجان میں مبتلا ہو گیا اور ہذیان گوئی اور نقصان اس کا مقدر بن گیا۔چشم کا زار رونا اس کا معمول ٹھہرا اس کے ساتھ ہی دھرتی کا بوجھ بھی اُتار گیا۔ مال و منال کی بھرمار اور ہوسِ زر نے اُسے قناعت کی دولت سے محروم کر دیا تھا۔ اس ضعیفی کے عالم میں بُزِ اخفش حیوانی کے عشق کو لوگ اُس کے دماغ کا خلل قرار دیتے اور اُسے یاد کر کے اشک بہاتے۔ بُز اخفش حیوانی کا مجموعۂ کلام ’’باقیاتِ  بُزِ اخفش ‘‘تو نہ چھپ سکا لیکن اس کے نہ چھپنے کی وجہ سے ردی فروشوں کو بہت نقصان برداشت کرنا پڑا۔وہ کتابیں جن کی رونمائیاں بڑی دھوم سے ہوا کرتی تھیں، اب ان کتابوں کے اوراقِ پارینہ بھی ہاتھو ں ہاتھ لیے جاتے ہیں اور تعلیمی اداروں کے باہر خوانچے والے اُن میں پکوڑے بیچتے ہیں۔چربہ ساز،کفن دُزد،سارق اور جو فروش گندم نُما لفاظ حشرات سُخن کی رُوسیاہیاں اب نوشتۂ دیوار ہیں۔

ہمارے شہر کے نواح میں ایک جنگل میں ہر منگل کے دن کاٹھ کباڑ اور ردی کا ایک بازار سجتا ہے اور جنگل میں منگل کا سماں ہوتا ہے جس میں ردی فروشوں کا دنگل ہوتا ہے۔ اس پُر اسرار جنگل میں مور خوب ناچتے ہیں اور ان کا ناچ دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ برسات کے مینڈکوں کے مانند اُمڈ آتے ہیں اور خوب ٹراتے ہیں۔ ا س ردی بازار میں کئی مسترد مخطوطات، مشکوک مقالات،اوراقِ پارینہ اور ہر قسم کی قدیم و جدید کتابیں سر راہ زمین پر بچھا دی جاتی ہیں اور یہ ڈھیریوں کے مول بِک جاتی ہیں۔منوں کے حساب سے کالے حروف پر مشتمل اوراق تخلیق کاروں کی رائیگاں مسافت کا احوال زبان حال سے بیان کر رہے ہوتے ہیں۔میرے پڑوسی فلسفی للو خان کو اس ردی بازار میں جانے کا بہت شوق ہے۔ وہ کُوڑے کے ڈھیر اور ردی کے ذخائر کھنگالنے کے خبط میں مبتلا ہے۔ہوسِ زر سے مجبور یہ  متفنی جاہ و منصب کے استخواں نوچنے کے لیے ایسے مقامات پر اس سرعت کے ساتھ پہنچتا ہے جیسے کرگس کو کسی مُردار پر جھپٹنے میں کوئی تامل نہیں اور وہ پلک جھپکتے میں مُردار کی ہڈیاں نوچتے دکھائی دیتے ہیں۔چند روز قبل للو خان کچھ مخطوطے وہاں سے چُرا کر لایا۔ان کا حالِ  زبوں پیش خدمت ہے۔

سب سے پہلے جو مخطوطہ نظر آیا وہ ’’لام لیلا لاکھ داستان‘‘تھا جو بجو گورستانی کی تحریر ہے۔یہ مخطوطہ ایک سو سال پرانا ہے اور اس پر یکم اپریل ۱۹۱۴کی تاریخ درج ہے۔مصنف عجیب کندۂ نا تراش ہے اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر وقت نئے اور اچھوتے خیالات کی تراش خراش میں منہمک رہتا ہے مگر یہ بات کالنقش فی الحجر ہے کہ اُس کی جہالت اس کے تخلیقی عمل میں انسانی کھوپڑیوں کی دیوارِ چنگیزی بن جاتی ہے۔اُس نے مشہور کلاسیکی داستان ’’ الف لیلیٰ ہزار داستان‘‘ کے جواب میں یہ داستا ن لکھی۔ باغ و بہار سے فسانۂ عجائب تک سب داستانوں کے جواب لکھے گئے۔ معاصرانہ چشمک سے زندگی کی حرکت و حرارت پُوری قوت کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ ادبی معرکے جمود کا خاتمہ کرتے ہیں اور فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے تخلیق کار کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کر کے فکر و عمل کے نئے آفاق تک رسائی کی صورت  تلاش کی جا سکتی ہے۔بجو گورستانی کی یہ کتاب وقت اور محنت کا کوئی صحیح مصرف نہیں لاعلمی اور جہالت کے عذابوں نے مصنف کو سرابوں کی جانب دھکیل دیا ہے ا ور وہ منزل سے نا آشنا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مارتا پھرتا ہے۔اس کی فرسودہ تحریف کی تعریف کرنا کج فہمی کی دلیل ہے۔ اپنی اس تصنیف ’’لام لیلا لاکھ داستان‘‘ کے بارے میں بجو گورستانی نے لکھا ہے:

’’  میرا طریقہ لوگوں سے نرالا ہے لوگ اپنی کتابوں کا  پیش لفظ لکھتے ہیں مگر میں اپنی کتاب ’’لام لیلا لاکھ داستان‘‘ کا زبر لفظ لکھوں گا اوراس کتاب کے قاری پر ضربِ  کاری لگا کر زبردستی یہ کتاب پڑھنے کی راہ دکھاؤں گا۔ یہ زبر لفظ لوگوں کو ازبر ہو جائے گا اور وہ پیشوں اور پیش لفظوں کو بھول جائیں گے اور چربہ ساز پیشی کی فکر کریں گے۔ ایک بات ابھی سے زیرِ لب کہتا ہوں کہ کہ میری اگلی کتاب کا زیرِ لفظ ہو گا جو اس شہر کے جانے پہچانے سارق غبی کو ہستانی سے لکھوایا جائے گا۔جن لوگوں نے پیش لفظ لکھنا اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے،انھوں نے تو سب معاملات کو زیر و زبر کر رکھا ہے۔ ان کی طرف پیش دستی ضروری ہے تاکہ زیرِ بار زیر دست اُن کی چیرہ دستی سے بچے رہیں۔ پیش بندی کے طور پر مجھے اپنے تخلیقی کام کا احوال حرف حرف بیان کرنا ہے۔ہر سدھایا ہوا لکھاری خود نمائی میں پیش پیش ہے یہی وجہ ہے کہ حالات کے سدھارنے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اِس دُنیا میں بُوم،شپر،چُغد،کرگس، بجو اور بجوکے عام ہیں،ہر سُو پھیلے فریب کے دام ہیں لیکن سب کے خیال خام ہیں۔ایک داستان جو الف لیلیٰ ہزار داستان کے نام سے موجود ہے،اُس میں حقیقت مفقود ہے۔آج اُسی مہمل کتاب کا جواب دینا مقصود ہے۔یہ سچ ہے کہ میں نے پہلی جماعت میں پڑھائی کا سلسلہ چھوڑ دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی قلم بھی توڑ دیا تھا لیکن پہلی جماعت کا قاعدہ مجھے ابھی تک یاد ہے۔پہلی جماعت کا یہ قاعدہ مجھے بہلو بقال نے پڑھایا تھا جو خود بھی دو جماعتوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔اس قاعدے کے مطالعہ سے آج بھی میر دل بہل جاتا ہے لیکن جب کوئی میری شاعری پر تنقید کرتا ہے تو میر دل دہل جاتا ہے۔کون نہیں جانتا کہ لیلیٰ کا پہلا حرف لام ہے، الف سے لیلیٰ نہیں بل کہ اُلوّ بنتا ہے۔جس داستان کا نام ہی غلط ہو اس میں سچ کہاں سے آئے گا۔میں اگرچہ ان پڑھ ادیب نقاد اور محقق ہوں لیکن یہ بات واضح کرن اچاہتا ہوں کہ اس داستان کے جواب میں جو داستان میں نے لکھی ہے وہ دل میں اُتر جائے گی  اور تحقیق کا کام تمام کر جائے گی۔لام (ل)سے لیلا یعنی بھیڈو یا مینڈھا بنتا ہے جسے ذبح کر کے اُس کا گوشت ہم بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ یہی لیلا قربانی کے موقع پر ذبح کر کے ثواب حاصل کیا جاتا ہے۔یہ لیلا (بھیڈو)ہی ایک لاکھ داستان کا حوالہ ہے اور پڑھنے والوں کے لیے تر نوالہ ہے۔ہزاروں سال سے لیلا ذبح ہو رہا ہے اس کا گوشت کھایا جا رہا ہے۔اس کی خریداری اور پرورش سے جو داستانیں جُڑی ہوئی ہیں ان کی تعداد ایک لاکھ سے کم نہیں۔جب تک دنیا باقی ہے لیلا یعنی  بھیڈو کو یاد رکھا جائے گا اور میری داستان ’’لام لیلا لاکھ داستان‘‘ہر فرد کی پسندیدہ داستان قرار دی جائے گی۔جہاں جہاں لیلا (بھیڈو) موجود  رہے گا وہاں میری داستان کا مخالف مفقود رہے گا۔لیلا قربانی کے قابل بھی ہے اور بہت کا ر آمد پالتو جانور ہے۔گُم نام شاعر شپر بیابانی نے میری اس تصنیف کے بارے میں کہا تھا:

یوں تو جھُوٹی ہے ذات بِجُو کی

دل میں لگتی ہے بات بِجُو کی

اس کتاب کا زبر لفظ بلا شبہ زبردست ہے۔مصنف کی کور مغزی،بے بصری اور ذہنی افلاس ایک ایک لفظ سے عیاں ہے۔تجزیاتی مطالعہ کے بعد جی چاہا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا جائے لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔ برتن میں دودھ سرے سے نا پید تھا اور سوائے جوہڑ کے پانی کے کچھ بھی تو نہ تھا۔بھیڑ نے دودھ کیا دیا ساری مینگنیاں ہی بالٹی میں ڈال دیں۔اس قلم توڑ مصنف نے قاری کو گردن توڑ بُخار میں مبتلا کرنے کی جو سعیء ناکام کی ہے وہ بے وقت کی راگنی ہے۔جامۂ ابو جہل میں ملبوس ایسے سارق،چربہ ساز،کفن دُزد اور نقال اپنی جہالت مآبی کے باعث پورے معاشرے کے لیے ظلِ تباہی ثابت ہوتے ہیں۔مصنف نے داستان کے موضوع کے لیے مینڈھا(بھیڈو۔لیلا)پسند کیا ہے جو بھیڑ چال کی مثال ہے۔اتنی بات تو مصنف کو معلوم ہے کہ معاشرتی زندگی کا سدھار ضروری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ بگاڑ کا سبب کیا ہے۔اس کا جواب واضح ہے کہ کالی بھیڑوں، خون آشام بھیڑیوں،شپر،بُوم،کرگس،سفید کووں،گندی مچھلیوں،طوطوں،ابن الوقت بگلا بھگت درندوں اور نقال مسخروں نے زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں۔ایسی کتب اور ان کے مصنف تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں اور ان کا نام ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو جاتا ہے۔

ایک اور فرسودہ مسودہ میری نظر سے گزرا  جسے قارئین کی نذر کیا جاتا ہے۔ پیلے رنگ کے ردی کاغذ پر لکھا ہوا یہ دیمک خوردہ مخطوطہ ڈیڑھ سو سال پُرانا ہے۔یہ مخطوطہ جسے کرگس بیابانی نے ۱۸۶۴میں مکمل کیا اگرچہ معمولی نوعیت کا ہے لیکن اسے آج کے دور میں غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔کرگس بیابانی کے مسودے کا عنوان ’’سرقہ اور چربہ کا جغرافیہ‘‘ چونکا دیتا ہے۔مخطوطے کے آغاز میں کرگس بیابانی نے جو خار افشانی کی ہے وہ اگرچہ نظر انداز کرنے کے لائق ہے لیکن قارئین کے مفاد میں اس اندازِ فکر پر کڑی نظر رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

’’لوگ ادب کی تاریخ لکھتے ہیں لیکن آج تک کسی نے ادب کے جغرافیہ پر توجہ نہیں دی۔میری کتاب ’’سرقہ اور چربہ کا جغرافیہ‘‘ اپنے موضوع پر شاید پہلی اور آخری کتاب ثابت ہو گی۔ ایک بے باک لکھاری کی حیثیت سے مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ میں سو پشت سے چربہ ساز اور سارق ہوں۔میرا کلام ہی میر ے اسلوب کا  مظہر ہے :

لوگ مجھ کو لکھاری کہتے ہیں

سرقہ،چربہ سے کیا نہیں ہوتا

مال لوگوں سے وہ ٹھگیں کیوں کر

جن سے کچھ بھی دغا نہیں ہوتا

کفن دُزدی پڑی ہے گھُٹی میں

اس پہ اب دِل بُرا نہیں ہوتا

واہ رے ہذیاں تُجھے ہوا کیا ہے

آخر اِس سرقہ کی سزا کیا ہے

یہ بجا ہے کہ کچھ نہیں چربہ

مفت شہرت ملے بُرا کیا ہے

اس مخطوطے ’’سرقہ اور چربہ کا جغرافیہ‘‘ پر شپر کھنڈراتی کی رائے بھی موجود ہے۔  شپر کھنڈراتی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو دھرتی کا بوجھ بن چُکے ہیں اور جن کی وجہ سے ہر سُو ویرانی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ایسے لوگوں کی وجہ سے اب یہ حال ہے کہ گلشن میں جہاں پہلے سرو و صنوبر کی  فراوانی تھی اب وہاں زقوم کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔شپر کھنڈراتی اگرچہ تعلیم کے اعتبار سے کورا ہے لیکن اس کی کور چشمی پر ایک عالم معترض ہے۔  شپر کھنڈراتی نے سرقہ اور چربہ کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے :

’’چربہ ساز اس قدر فربہ اور چربیلے ہو چکے ہیں کہ وہ تو غرور سے پھُول کر کُپا ہو چُکے ہیں جب کہ ادب کے عام قاری جب یہ صورت حال دیکھتے ہیں تو اُن کے ہاتھ پاؤں پھُول جاتے ہیں چربہ ساز اورسارق بھی عجیب ڈھیٹ فرد ہیں کہ جن کو دیکھ کر حقیقی تخلیق کاروں کے چہرے زرد ہیں۔ گُلشنِ  ادب میں ان لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں کے باعث فضا مسموم اور زندگی مغموم ہو چُکی ہے۔چربہ اور سرقہ نئے تجربات کی ایک شکل ہے۔ اس کے ذریعے عالمی ادب کے نئے نئے موضوعات ے واقفیت ہوتی ہے اور جمود کا خاتمہ ممکن ہے ۔چربہ ساز اپنی چرب زبانی سے کام لے کر اپنی جعلی نمود و نمائش کے مواقع تلاش کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے۔کوئی خرقہ پوش جو تارک الدنیا نہ ہو کبھی بھی کسی سارق کا حلقہ بگوش نہیں ہو سکتا۔سارق کے بارے میں بعض لوگوں کی یہ غیر محتاط رائے کہ یہ بالعموم فہم و فراست، ذہن و ذکاوت،شعور و ادراک  کے مسلمہ قواعد،درخشاں روایات اور زندگی کی اقدار عالیہ کا خارِق ثابت ہوتا ہے۔‘‘

اس مخطوطے کے مطالعہ سے آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ جاتی ہیں۔سرقہ سے قاری کو جو چرکا لگتا ہے اُس کے اندمال میں کئی ماہ و سال لگ جاتے ہیں۔سرقہ کرنے والا ستم گر کسی کی حرف گیری کی مطلق پروا نہیں کرتا۔وہ اپنی بے کمالی کو اہلِ کمال کی بھونڈی نقالی کوسرقہ اور چربہ کے دبیز پردے میں چھُپا نے کی کوشش کرتا ہے۔سارق کے سر میں یہ خناس سما جاتا ہے کہ وہی عقلِ کُل ہے۔وہ کوشش کرتا ہے کہ وہ زیرک تخلیق کار کی فکری تونگری اور تخلیقی کامرانی کو اپنی جانب سرکا لے۔اس کے بعد وہ نہایت ڈھٹائی سے عظیم ادب پاروں کے ارفع معائر کو اپنے سر کا تاج بنا کرملمع سازی کے ذریعے اپنی جعلی حیثیت پر اِتراتا ہے اور ہر جگہ خوب ہنہناتا ہے۔محقق نے تمام چربہ ساز اور سارق لوگوں کو آئینہ دکھایا ہے اور ان کا کچا چٹھا پیش کیا ہے۔مخطوطہ کے مصنف نے وہ ہاتھ دکھایا ہے کہ ہتھیلی پر سرسوں اُگا دی ہے،رائی کا پہاڑ اور کونپل کو چھتنار بنا دیا ہے۔

ایک اور مخطوطہ ’’اُردو کے ان پڑھ نثر نگار‘‘ بھی محقق کے ہتھے چڑھ گیا ہے جو چُولستان میں مقیم سدا بنجر نامی ایک محقق کے سہوِ قلم کا شاخسانہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محقق نے جب دیکھا کہ تخلیق ادب کی چُولیں ڈھیلی ہو رہی ہیں اور اِن کی ٹھُکائی کا وقت آگیا ہے تو اس موضوع پر اپنے تخیل کی شادابی سے بزمِ ادب کو کِشتِ زعفران بنانے کا قصد کیا۔اس تحقیق سے سارق عناصر کے فسد کا اہتمام کیا گیا ہے۔اپنی کتاب میں محقق نے اُردو کے دو سو کے قریب جیّد جاہل اور ناخواندہ نثر نگاروں کے ساتھ اپنی ادھوری مُلاقاتوں اور پُوری یادداشتوں کا احوال بیان کیا ہے۔وقت کے اس حادثے کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ یہ سب جاہل اوچھے ہتھکنڈے اور ہر قسم کی سیڑھیاں استعمال کر کے اپنی جہالت کا انعام بٹورنے میں کام یاب ہو گئے۔ اپنی کتاب کے اس مخطوطے کے آغاز میں مصنف سدا بنجر  نے لکھا ہے:

’’آج سے کوئی دو سو سال قبل لکھنو کے ایک محقق فدا خنجر نے ایک تحقیقی کتاب لکھی جس کا موضوع ’’اُردو کے ان پڑھ شعرا ‘‘تھا۔اس کتاب میں مصنف نے اُردو کے ایک سو سے زیادہ شعرا کی حیات اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالی جو بالکل ان پڑھ تھے اور جن کا نام اور کام تاریخ کے طوماروں میں دب گیا تھا۔  فدا خنجر نے بلا شبہ اچھا کام کیا لیکن یہ صرف شاعری کی حد تک تھا اس میں نثر کو نظر انداز کر دیا گیا۔ قدیم نثر نگاروں تک تو میری رسائی نہیں کیونکہ وہ اب عالمِ بالا کے مکین ہیں۔قدیم اور جدید اہلِ قلم میں ایک واضح فرق ہے وہ یہ کہ قدیم لوگ اپنی جہالت کا بر ملا اعتراف کرتے تھے اور اُن کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ تخلیقِ فن کے مرحلے میں سخت محنت،ریاضت،تجربے،مشاہدے اور مطالعۂ کائنات کے ذریعے کوئی نئی چیز پیش کی جائے تا کہ قارئینِ ادب اُن کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم کر سکیں۔ اس طرح ان کی محنت عیاں ہو کر ان کی جہالت کو نہاں کر دیتی تھی۔جدید دور کے جیّد جاہل اپنی جہالت کو چھُپانے کے لیے کئی پاپڑ بیلتے ہیں۔وہ ڈگریوں سے مرعوب کرتے ہیں مگر ان کی بڑی بڑی ڈگریاں بھی اُن کی جہالت کو چھُپانے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ قدیم زمانے کے انگوٹھا چھاپ ادیبو ں کی ریاضت،فکری تونگری اور جگر کاوی اُن کی علمی بے سروسامانی کو چھُپا لیتی تھی لیکن جدید دور کے بزعم خود اعلا تعلیم یافتہ لوگوں کی بے سرو پا باتیں اور بے ربط تحریریں چیخ چیخ کر فریاد کرتی ہیں کہ یہ تو جہالت سے بھی آگے نکل جانے والی منزل ہے۔ذہنی افلاس،فکری کجی اور اظہارِ  خیال کی استعداد کی تہی دامنی ان کی جہالت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔ اس امر کی پُوری کوشش کی گئی ہے کہ اُردو کے ان پڑھ نثر نگاروں کی جسارت سارقانہ،چربہ سازی اور مکر کے تمام حربے سامنے لائے جائیں۔اب میں (سدا بنجر)اُردو کے قدیم محقق فِدا خنجر کے نقشِ قدم پر چلتا ہوا اُس  کے نا مکمل کام کی تکمیل کے لیے دشتِ خار میں کُود پڑا ہوں۔جن جہلا نے اپنی جہالت کا انعام ہتھیا لیا اُن کا کچا چٹھا جلد سامنے لایا جائے گا۔‘‘

یہ مخطوطہ ’’ اُردو کے ان پڑھ نثر نگار‘‘ بہت عجیب و غریب کیفیات کا مظہر ہے۔اس میں عجیب تو کم ہیں لیکن غریب زیادہ ہیں۔ایسے لوگوں کی مفلسی کا کیا ٹھکانہ کہ جو اپنی فکری عسرت اور تنگ دامنی کا نوحہ بیان کرنے کے بجائے جعل سازی کے ذریعے ایک پل کی شہرتِ  فراواں میں کھو کر نہ صرف ضمیر کے مجرم بنتے ہیں بل کہ معاشرے میں عزت و احترام سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔جو شخص بھی ان کی اصلیت کا پتا دیتا ہے یہ سادیت پسندی کے مریض اُس کے در پئے آزار ہو جاتے ہیں۔یہ کھسیانی بلی کے مانند کھمبا نوچنے لگتے ہیں اور حق گوئی و بے باکی کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کوئی ان کے سامنے ڈٹ جائے تو یہ ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایسے حمار جلد ہی دولت اور منصب کے خُمار سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان جہلا کی ہستی تو حباب کی سی ہے حرفِ صداقت کا ایک ہی جھونکا اس حباب کو نیست و نابود کر دیتا ہے۔یہ ننگ زمانہ لوگ عبرتوں کا فسانہ اور مکر کا شاخسانہ بن جاتے ہیں اور ایک حرف تک لکھنے کی استعداد نہ رکھنے والے ان جہلا پر لوگ پر تین حرف بھیجتے ہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جہلا کی جہالت کے باعث گلشنِ ادب میں کلیاں شرر بن گئی ہیں اور تمام منظر نامے گہنا گئے ہیں۔ دِل زدگاں کا خیال ہے کہ ان جہلا کی نحوست سے ہر طرف ذلت و تخریب اور خست و خجالت کے کتبے آویزاں دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ جہلا اپنی  مذموم روش کی اصلاح اور موہوم صلاحیتوں کی جُستجو پر بالکل توجہ نہیں دیتے لیکن اپنی کوتاہیوں،عیوب،پہاڑ جیسی غلطیوں کی تردید اور مسلمہ صداقتو ں کی تکذیب کی فکر میں مسلسل ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔محقق سدا بنجر کی ایسے لوگوں سے ملاقاتوں کا یہ احوال فکری وبال ا ور اقدار کے زوال کا لرزہ خیز اعصاب شکن نوحہ ہے۔یہ ملاقاتیں یقیناً ادھوری ہیں اور ان میں متعدد ضروری باتیں بھی ان کہی رہ گئی ہیں لیکن ان کا اپنا حسن ہے۔پیہم اور مکمل ملاقاتیں دلچسپی اور تجسس کھو دیتی ہیں لیکن بے ربط اور نا مکمل ملاقاتیں اپنا حُسن و جمال،دل کشی  اور جاذبیت برقرار رکھتی ہیں۔ایک فلسفی ناصف نقال  جس نے اپنے بارے میں یہ مشہور کر رکھا تھا کہ وہ عالمی ادبیات اور فلسفے کا نباض ہے۔اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے اس شخص سے اپنی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے سدا بنجر نے لکھا ہے:

’’ سوچا تھا کہ آج ناصف نقال سے آسٹریاکے نامور شاعر اور ناول نگار رینر ماریا رِل کے (Rainer Maria Rilke)جس کا عرصۂ حیات پیدائش :چار دسمبر ۱۸۷۵  وفات:اُنتیس دسمبر۱۹۲۶ ہے کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی جائے گی۔میں اُس کے کمرے میں داخل ہوا تو یوں محسوس ہوا جیسے راجا اندر کے اکھاڑے میں پہنچ گیا ہوں۔ناصف نقال کے کمرے میں حسین و جمیل دوشیزاؤں کا جھُرمٹ تھا۔یہ مسخرا ان حسیناؤں میں گھِرا خوب ہنہنا رہا تھا۔ اُس کی اہلیہ شباہت جو نیم عُریاں لباس میں ملبوس تھی،اُس سمیت سارے مست بندِ  قبا سے بے نیاز مے گلفام سے اپنی تشنگی بُجھا رہے تھے۔مجھے بہت رنج ہوا کہ اس قدر بلند  تما م منطچھپپیں جلنے بے فائل فراہم کی

منصب پر کس قدر پست شخص نے غاصبانہ طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔مُجھے دیکھتے ہی ناصف نقال اور شباہت چونکے اور ناصف نقال کفن پھاڑ کر غرایا:

’’جلدی سے انٹرویو کا آغاز کرو۔ تم دیکھ رہے ہو کہ آج میں بے حد مصروف ہوں۔رات میں نے ارسطو کا تصورِ طربیہ لکھا ہے۔‘‘

’’ارسطو کا تصورِ طربیہ آپ نے لکھا ہے ؟‘‘میں نے تعجب سے کہا ’’خود ارسطو نے تو کوئی تصور طربیہ نہیں لکھا؟‘‘

’’بے کار باتیں نہ کرو ‘‘ناصف نقال بولا ’’ یہ راز کی بات ہے ارسطو،افلاطون،سقراط،بقراط اور ہیگل سب مجھ سے لکھواتے ہیں۔میں دُنیا کا سب سے بڑا ادیب اور  عظیم فلسفی ہوں۔خیر چھوڑو ان باتوں کو میں خود نمائی اور خود ستائی کے خلاف ہوں۔تم سوال کرو میں جواب دوں گا۔‘‘

میں نے کہا ’’آج ہم رِل کے۔۔۔۔‘‘

’’ میں دُنیا کا سب سے بڑا ماہر لسانیات ہوں۔تلفظ کی غلطی میں برداشت نہیں کر سکتا‘‘ناصف نقال نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ’’کان کھول کر سُن لو یہ لفظ ہے  رَل کے۔یہ پنجابی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں مِل جُل کر۔‘‘

میں سمجھ گیا کہ ناصف نقال اس موضوع پر بالکل کورا ہے پھر بھی میں نے سوال کو دہرایا ’’آسٹریا اور ہنگری کے ادیب رِل کے۔۔۔۔‘‘

’’میں نے ابھی کہا ہے کہ یہ لفظ رَل کے ہے اور تم  نے رِل کے رِل کے کی رٹ لگا رکھی ہے۔‘‘ناصف نقال نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا’’لفظ ہنگری کا مطلب ہے بھُوکا۔اگر بھُوکے ادیب رَل مِل کے کھاتے ہیں تو کسی کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟‘‘

اس دوران چائے اور بسکٹ رکھتے ہوئے شباہت نے کہا:

’’   تمھارا تلفظ بہت غلط ہے یہ لفظ آسٹریا  (آ۔س ٹ ر ی ا )نہیں بل کہ آ سڑیا (آ۔س ڑ ی ا )ہے۔ جس کا مطلب ہے جلنے والے آ۔ لوگ سچ کہتے ہیں لا علمی بھی بہت بڑی نعمت ہے۔تمھارا تلفظ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔چلو چھوڑو جی! اب رَ ل کے چائے پی لیں۔یہ بھُوکے اور جلے ہوئے لوگوں کا ذکر کہاں سے آ گیا ؟‘‘

چائے کے گھونٹ زہر مار کرتے ہوئے میں نے پھر موضوع کی جانب آنے کی کوشش کی ’’دراصل میں رینر ماریا  رِل کے۔۔۔۔۔‘‘

’’ہیں !تینوں کس نے ماریا اے لوکاں نال رَ ل کے ؟‘‘ناصف نقال اور شباہت نے بہ یک آواز کہا ’’ہم اُس کی ہڈی پسلی ایک کر دیں گے رَل کے۔اتنی مار کھا کر تم ہوش و حواس کھو بیٹھے ہو، وہی بگلے کی ایک ٹانگ وہی تلفظ کی غلطی۔ایک بار کہہ دیا ہے کہ یہ لفظ ہے رَل کے۔مطلب ہے مِل کر انگریزی میں کہہ سکتے ہیں کہCombined۔گھر پر میری بیوی شباہت اور میں رَل کے کام کرتے ہیں۔میں صبح سویرے اُٹھ کر گھر کے آنگن میں جھاڑو دیتا ہوں،اس کے بعد گھر کی جھاڑ پھونک میں مصروف ہو جاتا ہوں۔روزانہ ہوٹل سے کھانا میں لاتا ہوں لیکن یہ کھانا ہم رَل کے کھاتے ہیں۔اب کچھ سمجھے رَل کے کا مطلب۔یاد رکھو آئندہ میرے سامنے تلفظ کی غلطی کبھی نہ دہرانا ۔‘‘

شباہت نے کہا ’’میری شاعری میں بھی اس لفظ ’’ رَل کے‘‘ کا کئی مقامات پر ذکر آیا ہے۔لیکن تم ہو کہ ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑ گئے ہو اور اس لفظ رَل کے کو غلط رِل کے ادا کر رہے ہو۔ اب لسانیات سے تمھاری بے تعلقی کا مداوا کیسے ہو۔ اب تم سب رَل کے میرا کلام سُنو اور سر دھُنو۔میں نے اپنے پنجابی کلام کو عام فہم بنانے کے لیے اس کا ترجمہ بھی کر دیا ہے۔ارشاد کیا ہے:

اج کپڑے سُکاواں گے

پیار دے پینڈے چناں

اسیں رَل کے مُکاواں گے

ترجمہ:

آج کپڑے سُکھائیں گے

عشق کے دُکھ ساجن

ہم مِل کے نبھائیں گے

رَل مِل کے دُکھ جھیلو

میک اپ میں کر لوں

اب لہسن تم چھِیلو

’’اس کے ساتھ بے کار بحث نہ کرو ‘‘ناصف نقال نے دانت پیستے ہوئے کہا’’ کیسے کیسے لوگ ہمارا وقت ضائع کرنے آ جاتے ہیں۔ہمیں رَل کے ان کو راہِ راست پر لانا چاہیے۔اچھا تم اپنی پسند کے اشعار سناؤ۔اس کے ساتھ ہی تمھاری ملاقات کا وقت ختم ہو رہا ہے۔‘‘

ان لوگوں کی بے سروپا گفتگو سن کر میرا سر چکر ا رہا تھا۔میرا شک یقین میں بدل گیا کہ یہ شخص اوراس کی اہلیہ مثنیٰ اور عقل سے تہی ہیں۔میں نے اپنے کاغذ سمیٹے اور باہر جانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’جاتے جاتے اپنی پسند کے دو شعر تو سناتے جاؤ‘‘ ناصف نقال بولا ’’کیا تمھیں کسی اُردو شاعر کے دو شعر بھی یاد نہیں ؟‘‘

میں نے کہا ’’محسن بھوپالی کے یہ شعر آپ کی نذر ہیں ‘‘

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے

اِس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے

مے خانے کی توہین ہے رِندوں کی ہتک ہے

کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

           فطرت کی تعزیریں

 

 

کالے دھن کی فراوانی نے شِمرو مَل کو فرعون بنا دیا۔منشیات،سمگلنگ،بھتہ خوری، ذخیرہ اندوزی،بلیک مار کٹنگ، چوری،ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان کے قبیح دھندوں سے اس نا ہنجار نے اپنی تجوری بھر لی اور مجبوروں کی زندگی اجیرن کر دی۔یہ چلتا تو دو طرفہ ندامت اور اہل حرفہ کی لعنت ملامت اس کے ہم رکاب رہتی۔ اس کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ استحصالی ہتھکنڈوں کے باعث اس کی فیکٹری میں کام کرنے والے محنت کشوں کی اُمیدوں کی فصل غارت ہو گئی اور ان بے بس و لاچار انسانوں کی صبحوں و شاموں کی محنت اکارت چلی گئی۔اس گُرگ کی خون آشامی کے باعث رُتیں بے ثمر،آہیں بے اثر،کلیاں شرر،آبادیاں خُوں میں تر،بستیاں پُر خطر،زندگیاں مختصر،جھگیوں کے مکین دربہ در،محنت کش خاک بہ سر اور نا اُمید لوگوں کی مرنے پر اُمید منحصر دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔سادیت پسندی کے مرض میں مبتلا مشکوک نسب کے اس درندے نے جب فیکٹری پر غاصبانہ قبضہ کیا تو ہرسُو دکھوں کے جال بچھ گئے اور در و دیوار پر نحوست،نخوت،ذلت،تخریب،بد دیانتی،بد اعمالی،بدبختی،بد معاشی،بد تمیزی،بے غیرتی،بے ضمیری،بے حیائی،بے ایمانی،بے توفیقی،بے شرمی،بے بصری،بے رحمی اور کور مغزی کے لرزہ خیز کتبے آویزاں محسوس ہو تے تھے۔گُلشن میں جہاں پہلے بُور لدے چھتنار،اثمار و اشجارسر و و صنوبر اور گل ہائے رنگ رنگ کی فراوانی ہو تی تھی،وہاں زقوم،پوہلی،اکڑے،بھکڑے، تھوہر، جنڈ،کریر اور حنظل کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس سبز قدم کے آنے سے پہلے یہاں کے سر سبز و شاداب باغیچوں اور میدانوں میں مور،بلبل،قمریاں،فاختائیں،عقاب،طوطے،کوئل،پپیہا اور کئی سریلے طیور صبح کے آنے کی نوید سناتے۔اس ننگِ انسانیت کی کریہہ صورت کو دیکھتے ہی یہ سب طیور لمبی اُڑانیں بھر گئے اوراس کے بعد ہر شاخ پہ شِپر، بُوم،چُغد،کرگس اور زاغ و زغن کا بسیرا تھا۔ بِجو ان خود رو جنگلی پودوں کی جڑیں کھو د کران میں مستقل طور پر رہنے لگے۔ چور محل میں پروان چڑھنے والے متعدد سانپ تلے کے بِچھو اور ابن الوقت طفیلی حشرات نے بھی یہاں آ کر اپنی خون آ شامی کی انتہا کر دی۔برساتی مینڈک بھی بڑی تعداد میں یہاں ٹراتے پھرتے تھے۔فصلی بٹیرے بھی دور دراز کی اُڑانیں بھر کے یہاں سے جی بھر کر اپنی پسند کے دانے چُگتے اور چونچ ہلا کر اس درندے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے اور مالِ مفت کھا کھا کر پھول کر کُپا ہو جاتے۔

شِمرو مَل ایک ابلیس نژاد درندہ تھا،جس کی جہالت،سفاکی اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے باعث زندگی کی تمام رعنائیاں گہنا کر کر رہ گئی تھیں۔ اپنی خست و خجالت اور شرم ناک جہالت کے باوجود یہ بُڈھا کھوسٹ اپنے منہ میاں مٹھو بن جاتا۔یہ متفنی سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا رواقیت کا داعی بن کر پریوں کا اکھاڑہ سجاتا،اس میں راجا اندر بن جاتا شراب کے نشے میں دھت حسیناؤں کے جھرمٹ میں خوب ہنہناتا۔ اس کی فیکٹری میں جو بھی حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپناتا یہ درندہ اسے اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا اورسگانِ آوارہ، اُجرتی دہشت گردوں،کرائے کے بدمعاشوں اور پیشہ ور قاتلوں کو اس کے پیچھے لگا دیتا۔اس کے بعد وہ شخص بے بسی اور مظلومیت کی حالت میں پُراسرار طور پر زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سُدھارجاتا۔یہ موذی و  مکار درندہ فیکٹری کے ہر مظلوم مقتول کی میّت پر پہنچ کر مگر مچھ کے آنسو بہاتا اور مرنے والے کے خاندان کے ساتھ ہمدردی کا ڈھونگ رچا کر سادہ لوح لوگوں کی آنکھوں میں دھُول جھونکتا۔شِمرو مَل کی بیوی کا نام غُری تھا اور وہ ہیرا ا منڈی کی رسوائے زمانہ رقاصہ اورجسم فروش رذیل طوائف تھی۔ فیکٹری میں غُری نے ہر طرف اندھیر مچا رکھا تھا۔یہ ڈھڈو کُٹنی اپنے شوہر کے معتمد ساتھیوں اوراس ساتھ کام کرنے والے اجلاف و ارذال کو چُلّو میں اُلّو بنا دیتی اور فیکٹری کے ہر مزدور سے بھتہ وصول کرتی اور خُوب گلچھرے اُڑاتی۔فیکٹری میں بڑی تعداد میں عورتیں بھی مزدوری کرتی تھیں۔غُری ان غریب عورتوں کو بہلاتی پھسلاتی اور ڈراتی دھمکاتی پھر اپنے مکروہ دھندے پر مائل کرتی۔یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑ چُکا تھا۔غُری،شمرو مَل اور اُن کے ساتا روہن نے فیکٹری میں جنگل کا قانون نافذ کر رکھا تھا۔لوگ آسمان کی طرف دیکھتے اور فریاد کر کے کہتے کہ اس قادر و عادل خالقِ کائنات نے شِمرو مل اور غُری کی مدت کو کیوں بڑھا رکھا ہے؟جو گنج قارون شمرو  مل اور غُری نے اکٹھا کیا ہے وہ کب برباد ہو گا اور خدا کی لاٹھی شمرو مل کے گنجے سر پر کب برسے گی۔اس ناہنجار نے تو فیکٹری کو عقوبت خانے،چنڈو خانے اور قحبہ خانے میں بدل دیا تھا۔

فیکٹری کے بیرونی دروازے سے چند قدم کے فاصلے پرسڑک کے کنارے ایک جھونپڑی میں ایک بُڑھیا رہتی تھی۔لوگ کہتے تھے کہ چند ہفتے پہلے اس بُڑھیا کا اکلوتا نوجوان بیٹا خادم یہاں ملازم تھا۔خادم ہی بڑھیا کی ضعیفی کاسہارا  تھا۔ خادم بہت ایمان دار،جفاکش اور خوددار نوجوان تھا وہ شمرو مل کی فیکٹری میں مزدوری کرتا تھا۔وہ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتا اور کسی قسم کی ہنگامہ آرائی سے کو ئی تعلق نہ رکھتا۔ایک دن اس نے غُری کو بھتہ دینے سے انکا رکر دیا۔غُری اور شمرو مل نے بُڑھیا کے بیٹے کو دن دہاڑے اغو کر لیا اور اس کے بعد کسی کو اس کی خبر نہ ملی۔بُڑھیا اپنے بیٹے کی تلاش میں گاؤں سے شہر آئی اور فیکٹری میں اسے پکارتی پھرتی تھی۔ غموں سے نڈھال بُڑھیا اپنا ذہنی توازن اور بینائی کھو بیٹھی وہ ہر شخص سے ایک ہی سوال کرتی :

’’میرا بیٹا خادم کہاں ہے ؟مجھے اُس کا پتا بتاؤ۔میرے بیٹے خادم !آ جاؤ۔جب تک تم نہیں آؤ گے میں باہر بیٹھی ہوں۔میں آخری سانس تک تمھاری راہ دیکھوں گی۔  میرا بیٹا زندہ ہے مجھے اس کے سانسوں کی مہک یہاں تک لائی ہے۔جب تک میں زندہ ہوں میری دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔اللہ کریم اسے دشمنوں سے محفوظ رکھے گا۔میرا خادم کہاں ہے ؟  لوگو بتاؤ میرا بیٹا خادم کس نے غائب کیا ہے ؟‘‘

ایک راہ گیر نے بُڑھیا کی حالت زار دیکھی تو بولا :’’یہاں ایک نہیں اپنے والدین کے کئی خادم غائب ہوئے،کئی گھر بے چراغ ہو گئے مگر ظالموں کا کوئی با ل بھی بیکا نہ کر سکا۔تمھارے بیٹے کو فیکٹری کے مالک شمر و مل اور اس کی بیوی غُری نے غائب کیا ہے۔‘‘

’’اچھا یہ بات ہے تو پھر سن لو میرا بیٹا تو میرے پاس جلد آ جائے گا لیکن شمر و مل اور غُری کا نام و نشاں تک مٹ جائے گا ‘‘بڑھیا نے کہا ’’میری فریاد کسی نے نہیں سنی،کوئی مجھے میرے بیٹے خادم کا اتا پتا نہیں بتاتا۔اب میں اسے اپنا دکھ بتاؤں گی جو سب کچھ دیکھ رہا ہے اور سن رہا ہے۔میرا خالق ہی میری مدد کرے گا۔‘‘

بُڑھیا جھو لیا ں کر کے اس ظالم کو بد دعا دیتی جس نے اس کے بیٹے کو اس کی نظروں سے اوجھل کر دیا ہے ۔

نا بینا بڑھیا کی جھونپڑی کے ساتھ ہی فٹ پاتھ پر ایک بوڑھا درویش بیٹھتا تھا۔لوگ اس پُراسرار درویش کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ بوڑھا مافوق الفطرت عناصر سے رابطے میں رہتا ہے۔کئی جِن بھُوت،دیو،چڑیلیں اور پریاں اس کے قبضے میں ہیں۔یہ بوڑھا ماضی کے کئی واقعات کے بارے میں مکمل معلومات رکھتا ہے اور اس کے سینہ کئی واقعات کا خزینہ ہے۔ ایک دن بڑھیا کی درد بھری داستان سُن کر اس نے اپنے عقیدت مندوں کو بتایا :

’’کاش میں نے 1946میں ریل کی پٹڑی پر پڑے ایک بچے کو نہ اُٹھایا ہوتا۔‘‘

’’کون سا بچہ ؟‘‘نورے نے پو چھا ’’اس بچے کا بڑھیا کے بیٹے سے کیا تعلق ہے ؟‘‘

معمر درویش نے آہ بھر کر کہا ’’یہ 1946کی بات ہے۔سردیوں کی ایک شام تھی میں ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا کہ اچانک ایک کار رکی اور ایک عورت نے باہر نکل کر ایک نو مولود بچہ ریلوے لائن پر پھینکا اور پھر کار میں آ بیٹھی۔ ایک نوجوان کار چلا رہا تھا۔دونوں کے چہرے پر خوف اور پشیمانی کے سائے پڑے تھے۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اپنے گناہ کو چھپانے کے لیے وہ جلدی میں تھے۔ کار فراٹے بھرتی ہوئی دور نکل گئی۔میں نے بچہ اُٹھایا اور سیدھا گھر پہنچا۔میں اس زمانے میں اس فیکٹری کے مالک روپن مل کا ملازم تھا۔روپن مل اور اس کی بیوی وجنتی کی کوئی اولاد نہ تھی۔انھوں نے مجھ سے بچہ لے لیا اور اس کی پرورش بڑے نازسے کی‘‘

’’یہ تو بہت سنسنی خیز واقعہ ہے ‘‘گاموں بولا ’’کیا تم نے اس عورت کو پہچانا کہ وہ کون تھی اوراس نے یہ ظالمانہ اقدام کیوں کیا؟‘‘

’’ہاں میں نے لڑکی اور لڑکے کو پہچان لیا۔لڑکی تو روپن مل کی یتیم بھتیجی کامنی تھی اور لڑکا پھتو خاک روب کا بیٹا نتھو خاک روب تھا جو گھروں میں صفائی کا کام بھی کرتا تھا ساتھ ہی و ہ کار کے ڈرائیو ر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتا تھا۔روپن مل کی بھتیجی کامنی چندے آفتاب چندے ماہتاب تھی۔وہ شہر کے ایک پس ماندہ اور دورافتادہ علاقے میں اپنی بیوہ اور ضعیف ما ں کے ساتھ تنہا رہتی تھی۔ ان کے پاس دولت کی فراوانی تھی روپن مل اپنی بیوہ بہن کی مالی امداد کرتا  رہتا تھا۔جنسی اشتہا نے اس نو جوان جوڑے کو گناہ کی دلدل میں دھکیل دیا۔روپن مل کے انتقام سے بچنے کے لیے نو جوان جوڑے نے اس نا جائز بچے کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر دور ویرانے میں ریلوے لائن پر پھینک دیا۔‘‘

’’اس قدر حسین،امیر اور نازک اندام لڑکی نے ایک خاکروب کے ساتھ جنسی تعلقات کیوں استوار کیے ؟‘‘نورے نے حیرت سے کہا ’’گھر میں صفائی کرنے والا خاکروب جس کے جسم سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہوں،اُس کے ساتھ کامنی کا یوں پیمانِ وفا باندھ کر اپنا سب کچھ اس کے سپر کر دینا نا قابلِ یقین ہے۔کیا کامنی کو عشق کرنے کے لیے کوئی امیر اور صا ف نو جوان نہ مِل سکا؟‘‘

’’عشق ذات پات،جوانی یا ضعیفی اور پیشے سے غرض نہیں رکھتا۔یہ چنگاری ہے جو بلا ارادہ بھڑک اُٹھتی ہے اور آن کی آن میں خرمن جاں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے‘‘ درویش بولا ’’عشق وہ دشتِ خار ہے جہاں مراد بخش جیسا جاگیردار جھنگ میں ہیر کی خاطر چرواہا بن جاتا ہے،بلخ بخارے کا شہزادہ پنوں ایک دھوبن کے عشق میں بھنبھور کے ریتلے صحرا میں تڑپ اُٹھتا ہے اور مہینوال ایک کمہارن کے عشق میں دریائے چناب کی لہروں میں زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ سوہنی کچے گھڑے پر تیر کر دریائے چناب عبور کرنے کی کوشش میں زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ خاندان بنی عامر کا فخر قیس نجد کے صحراؤں میں لیلیٰ لیلیٰ پکارتا پکارتا عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار جاتا ہے۔کو ہ کن جب شیریں کے ملنے کی تمنا سے مایوس ہو جاتا ہے تو تیشے سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے۔یہ تو کامنی کے دل کا معاملہ تھا نا معلوم اس کے دل کو نتھو خاک روب کی کون سی ادا بھا گئی کہ اس نے اپنی عزت و آبرو اور دولت و ثروت تک داؤ پر لگا دی‘‘

’’اس کے بعد کیا ہوا ؟‘‘گاموں نے انگلی دانتوں کے نیچے داب کر کہا ’’نتھو اور کامنی نے بہت ظلم کیا وہ لوگ یقیناً فطرت کی تعزیروں کی زد میں آئے ہوں گے۔زبان خنجر اگر چپ بھی رہے تو آستین کا لہو پکار کر ظلم کے خلاف دہائی دیتا ہے۔‘‘

’’سچ کہتے ہو ظلم کبھی چھُپ نہیں سکتا‘‘درویش نے آہ بھرکر کہا ’’غُری کی ماں کلپنا جو شہر کی ایک رذیل جسم فروش طوائف تھی،اس نے روپن مل کو اس تمام المیے سے آگا ہ کر دیا۔در اصل کلپنا روپن مل کی داشتہ تھی اور اس کی ایک نا جائز بیٹی غری کی ماں بھی تھی۔اس کے چند روز بعد روپن مل نے اپنے بد معاشو ں کے ذریعے نتھو،کامنی اوراس کی ماں کو ٹھکانے لگا دیا۔روپن مل کو کامنی اور نتھو کے نا جائز بیٹے کا کہیں سے سراغ نہ مل سکا۔میں یہ راز اپنے سینے میں اب تک چھپائے پھرتا ہوں۔‘‘

’’روپن مل نے جس بچے کو گود لیا،اس کا کیا بنا؟‘‘نورے نے پُوچھا’’ کیا وہ کسی کام کا نکلا یا وہ بھی اپنے باپ کی طرح بیت الخلا صاف کرتا پھرتا ہے۔‘‘

’’نہیں جب وہ جوانی کی حدود کو پہنچا تو اس نے سب سے پہلے اپنے محسنوں روپن مل اور اس کی بیوی کے احسانات کا بدلہ اتارا اور ان کے گلے کاٹ کر ان کی لاشیں گندے نالے میں بہا دیں۔اس کے بعد روپن مل کی جائداد کا بلا شرکت غیرے مالک بن بیٹھا اور مجبوروں کے چام کے دام چلانے لگا۔‘‘

’’اُف !یہ تو بہت ظلم ہوا ‘‘گاموں بولا ’’روپن مل کی دولت لے کر وہ نتھو خاک روب اور کامنی کا نا جائز بچہ کہاں گیا ؟‘‘

’’  نتھو خاک روب اور کامنی کا ناجائز بچہ کہیں نہیں گیا وہ اب بھی اسی شہر میں ہے ‘‘درویش نے کہا’’ اہل درد اسے خوب پہچانتے ہیں۔میں نے مرتے دم تک یہ راز کسی کو نہ بتانے کی قسم اُٹھا رکھی ہے۔‘‘

ساتھ بیٹھی زار و قطار روتی ہوئی بڑھیا یہ داستان پوری توجہ سے سن رہی تھی،اس نے نحیف آواز میں کہا ’’نتھو خاک روب اور کامنی کا نا جائز بچہ یہی شِمرو مل ہی تو ہے۔‘‘

’’ہائیں یہ کیا ؟بڑھیا تمھیں یہ سب باتیں کیسے معلوم ہوئیں۔جب میں نے بچہ روپن مل کو دیا تھا تواس کی ملازمہ سفینہ کے سوا کسی کو یہ راز معلوم نہ تھا۔‘‘درویش نے کہا ’’جب شمرو مل بارہ برس کا ہوا تو سفینہ نے روپن مل کا گھر چھوڑ دیا تھا۔اس کے بعد سفینہ کہاں گئی کسی کا اس کا علم نہیں۔روپن مل سفینہ کی بہت عزت کرتا تھا  اور اس وفادار ملازمہ پر بہت اعتماد کرتا تھا۔وہ جانتا تھا کہ شمرو مل ایک گستاخ اور ناقابل اعتبار نوجوان ہے۔روپن مل نے فیکٹری کی ملکیت کے تمام کاغذات سفینہ کے نام کر دئیے تھے اور کہا تھا کہ اُس کی موت کے بعد فیکٹری کو فلاحی ادارے کے طور پر چلایا جائے۔‘‘

سب لوگ گہری سوچوں میں گم وہاں سے چلے گئے۔درویش نے بھی پھر سے لبِ اظہار پر تالے لگا لیے۔بڑھیا اب جھونپڑی چھوڑ کر کہیں چلی گئی تھی۔

چند روز بعد مسلح پولیس کے دستوں نے شمرو مل کی فیکٹری پر دھاوا بو ل دیا اور اُسے گرفتار کر لیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے روپن مل کی فیکٹری پر غاصبانہ طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔اس کے عقوبت خانے میں قید مزدوروں کو رہائی مِل گئی۔خادم بھی باہر آ گیا جہاں اس کی ماں پہلے ہی اس کی منتظر تھی۔عدالت میں شمرو مل فیکٹری کی ملکیت اور وراثت کے متعلق کوئی دستاویز یا گواہ پیش نہ کر سکا۔اُسے فیکٹری سے ایسے نکالا گیا جیسے دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے۔اس کی تمام جائداد اور جمع پونجی ضبط کر کے فیکٹری کے حقیقی مالکوں کے حوالے کر دی گئی۔اقدام قتل اور حبسِ بے جا کے کئی مقدمات میں شمرو مل کو عمر قید کی سزا ہو گئی اور غُری نے پھر سے اپنے قحبہ خانے کا رخ کیا لیکن اس ادھیڑ عمر کی طوائف کی جانب کسی نے کبھی آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ایک رات غری کے کوٹھے پر ڈاکوؤں نے لوٹ مار کی اس کی سب جمع پونجی اور زرو مال ڈاکو لے گئے۔جاتے وقت ڈاکو اس کی ناک،کان اور بال کاٹ کر اس کا گلا بھی کاٹ گئے۔صبح کوٹھے کے مکینوں نے اس کی عفونت زدہ لاش گھسیٹ کر گندے نالے میں پھینک دی۔شمرو مل نے جیل سے فرار ہونے کی کوشش کی اور پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہو گیا۔جیل کے احاطے سے باہر پڑی اس لا وارث قیدی کی لاش کو رات بھر کتے بھنبھوڑتے رہے۔صبح ہوتے ہی گدھ کوے اور زاغ و زغن شمرو مل کا ڈھانچہ نوچ رہے تھے۔

فلاحی بنیادوں پر فیکٹری اب بھی چل رہی ہے لیکن اس کے نئے مالک آ گئے ہیں۔ پرندے پھر سے لوٹ کر آنے لگے ہیں۔  عدالت کی طرف سے خادم اور سفینہ ہی اب اس فیکٹری کے حقیقی وارث قرار پائے۔درویش نے اس واقعے کو فطرت کی تعزیروں سے تعبیر کیا اور شمرو مل کے انجام پر سکھ کاسانس لیا۔

٭٭٭

 

 

 

        انجام

 

 

گُزشتہ شب پُوری بستی میں جشن کا سماں تھا۔اُجرتی بد معاش، خُونی بھتہ خور، راسپوٹین قماش جنسی جنونی،پیشہ ور قاتل اور رسوائے زمانہ منشیات فروش ناسُو چھُر ا  ڈاکا زنی کی ایک واردات کے دوران گاؤں کے لوگوں کے ساتھ مقابلے میں ہلا ک ہو گیا۔ اپنے تحفظ کے لیے گاؤں کے لوگوں نے یہ دفاعی حکمت عملی اختیار کی اور رضاکار مشتاق کی ہدایات پر عمل کیا۔رضاکار مُشتاق کو اُس کی بہادر ی پر مقتدر حلقوں کی جانب سے تمغا بھی مِل چُکا تھا۔اُس روز دُور جنگل میں سرِ شام زبردست فائرنگ ہوئی اور ناسُو چھُرا اپنے ساتا روہن سمیت ہلاک ہو گیا۔اُس کا مورچا ملبے کا ڈھیربن چُکا تھا اور ہر طرف انسانی اعضا کے ٹکڑے بِکھرے پڑے تھے۔ نا ہنجار ناسُو چھُرا گرد و نواح کے علاقوں میں خوف و دہشت کی علامت بن چُکا تھا۔اس کی درندگی،سفاکی،شقاوت آمیز مظالم اور خُون آشامی کے باعث زندگی کی تمام رُتیں ہی بے ثمر ہو کر رہ گئی تھیں۔ ناسُو چھُرا جب  اپنے انجام کو پہنچا تو ہر شخص نے سُکھ کا سانس لیا۔ ناسُو چھُرا ایک دھوکا باز درندہ تھا،جنگل میں اس کا اڈّا تھا جہاں وہ لُوٹ مار اور منشیات کا دھندا جاری رکھے ہوئے تھا ۔اس جنگل میں ظاہر ہے کہ جنگل ہی کا قانون نافذ تھا اور جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے فتور کو سب فاتر العقل لُٹیروں نے زادِ راہ اور منشور بنا رکھا تھا۔ناسُو چھُرا کی زندگی کے تمام واقعات کا چشم دید گواہ اکرو لکڑہارا تھا۔ پیشے کے اعتبار سے اکرو لکڑ ہارا قدیم گھسیارا تھا۔ سو پشتوں سے اس کا آبائی پیشہ کُوڑے کے ڈھیروں سے استخواں نوچنا تھا۔اکرو لکڑہارا نواحی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور  یہ ایندھن فروخت کر کے پیٹ کا دوزخ بھرتا  تھا۔میلوں تک پھیلے ہوئے اس جنگل میں محافظ بہت کم تھے اور جو ہوتے بھی تھے اکرو لکڑ ہارا اُن کی مُٹھی گرم کر کے چوری چھپے لکڑیاں کاٹنے کا دھندا جاری رکھتا تھا۔ فاریسٹ گارڈ کا جو بھی تقاضا ہوتا اکرو لکڑہارا اُسے پُورا کر دیتا اور اس طرح اپنا تماشا جاری رکھتا۔ یہ معما سمجھ سے بالا تر تھا کہ اکرو لکڑ ہارا  اس قدر امیر کیسے بن گیا۔ اکرو لکڑ ہار بھی اب چراغ سحری تھا۔ناسُو چھُرا جب اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچا تو لوگوں کو خیال آیا کہ اس ننگ وجود اور دھرتی کے بوجھ کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کے لیے اکرو لکڑہارے سے زیادہ کوئی اور معتبر شخص موجود نہیں۔ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ وہ علیل ہے،میں اُس کی عیادت کی غرض سے گیا تو اس کی حالت دیکھ کر رنج ہوا۔ایک شکستہ سی مونج کی بُنی ہوئی کھری چارپائی پر ہڈیوں کے ڈھانچے کی صورت میں اکرو لکڑہارا لیٹا پڑا تھا۔جُون کا مہینا تھا اُس کی چوٹی سے ایڑی تک پسینا بہہ رہا تھا۔پاس ہی اُس کی بیوی ثباتی بیٹھی تھی جو بینگن کے بھُرتے سے اکرو لکڑہارے کو چپاتی کھِلا رہی تھی۔پینے کے لیے پانی مٹی کے ایک میلے اور سیلن زدہ پیالے میں رکھا تھا۔کھانا زہر مار کرنے کے بعد قسمت سے محروم  اکرو لکڑ ہارے نے گرم اور کھولتے ہوئے پانی کے چند گھونٹ حلق میں اُنڈیلے تو اُس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں۔اُس نے روتے ہوئے کہا:

’’ ناسُو چھُرا کیا مرا میری زندگی کو غم کا فسانہ بنا گیا۔اِس دُنیا کے آئینہ خانے میں وہ مُجھے تماشا بنا گیا۔اتنا سفاک ڈاکو اب کبھی پید ا نہیں ہو سکتا۔‘‘

’’ عجیب بات ہے تم ایک ڈاکو کی ہلاکت پر اس قدر دِل گرفتہ ہو!‘‘   میں نے کہا ’’ لوگ تو رسوائے زمانہ بد معاش ناسُو چھُرا کی موت پر خوش ہیں اور ہر طرف مٹھائیاں بٹ رہی ہیں۔‘‘

’’اُونہہ!لوگ خوش ہیں اور مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔‘‘اکرو لکڑ ہارا کھانستے ہوئے بولا ’’لوگوں کا کیا ہے وہ اندھے کی ریوڑیاں اپنوں میں مسلسل بانٹ رہے ہیں لیکن ناسُو چھُرا جیب کُتروں کی جیب کاٹ کر فاقہ کشوں کو دیتا تھا۔دُشمن کی موت پر اس قدر خوشیاں منانے والے یہ کیوں بھُول جاتے ہیں کہ ایک دِن ساجن بھی موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔شاعر نے سچ کہا تھا :

دُشمن مرے تاں خُوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا         (ترجمہ:دُشمن کی موت پر خوش نہ ہوں ایک دِن ساجن بھی نہ رہیں گے )

’’ایک بات سمجھ میں نہیں آتی ایک ضعیف لکڑ ہارے کا ایک خُونی ڈاکو سے اس قدر گہرا تعلق کیوں کر بن گیا ‘‘  پاس بیٹھے ہوئے ڈھنگو نے سوال کیا’’ ہمیں ناسُو چھُرا کے بارے میں تمام حقائق سے آگا ہ کرو۔وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے وہ جرائم کی دلدل میں دھنستا چلا گیا ؟‘‘ اکرو لکڑ ہارے نے آہ بھر کر کہا :

’’ یہ آج سے ستر سال پہلے کا واقعہ ہے میں گوالیار کے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا تھا۔ کئی میلوں تک پھیلا یہ قُدرتی جنگل دریا کے کنارے ایک ویران سے مقام پر واقع ہے۔اس جنگل کے باہر کھجوروں کا ایک نخلستان تھا۔کھجوروں کے اِس جھُنڈ میں عجیب پُر اسرر واقعات رُو نُما ہوتے تھے۔لوگوں کا خیال تھا کہ اس نخلستان میں جِن،بھُوت،چڑیلیں،پریاں اور دیو کثرت سے پائے جاتے ہیں۔  سر کٹے انسان،کفن پہنے ہوئے چلتے پھِرتے ہوئے مُردے اور آدم خور یہاں کئی لوگوں نے دیکھے۔یہی وجہ ہے کہ ڈر کے مارے کوئی شخص اس نخلستان کا رُخ نہ کرتا۔  ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ اس پُر اسرار نخلستان میں برگد کے ایک درخت کے نیچے ایک گڑھا تھا جِس میں سال میں دو یا تین بار کوئی نہ کوئی نو مولود بچہ پایا جاتا تھا۔اِس بچے کی جنسی جنونی مجرم ماں اپنے گُناہ کی کالک چھُپانے کے لیے اس بچے کو تاریکیوں کے غار میں پھینک کر اپنی راہ لیتی تھی۔اس کے بعد یہی بچہ پُوری زندگی سرابوں کے عذابوں کو سہتا زندگی گُزارنے کی راہیں تلاش کرتا مگر اُسے کچھ سُجھائی نہ دیتا تھا۔‘‘

ڈھنگو نے آہ بھر کر کہا’’سچ ہے جب کسی کی عقل پر پتھر پڑ جائیں تو وہ کِشتِ جاں میں گُناہ کے تُخم اُگاتا ہے۔عشق،مُشک اور گُناہ کو کبھی پوشیدہ نہیں رکھا جا سکتا۔خاص طور پر گناہ کئی گُنا شدت کے ساتھ مجرم ذہنیت کے مکر کا پردہ فاش کرتا ہے۔گُنا ہ نمو پانے کے بعد ارتکاب کرنے والے کے ذہن و ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے اور دستِ جفا کش کی کلائی کو مروڑتا ہے ۔جِنس و جنوں کے شاخسانے بالآخر جب عبرت کے تازیانے بن جاتے ہیں تو سادیت پسندوں کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ جاتی ہیں۔جِن قدموں کے نیچے جنت کا گُمان ہوتا ہے وہی قدم جب گُناہ کی جانب چل نکلیں تو جہنم کی جانب لے جاتے ہیں۔انجامِ  کار یہی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں اور اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتے ہوئے دِل پر پتھر رکھ کر جِگر کے ٹُکڑے ویرانوں،کُوڑے کے ڈھیروں اور جنگلوں میں پھینک دئیے جاتے ہیں۔درد سے عاری پتھر اور سنگلاخ چٹانیں زندگی کے مسائل کو کیا جانیں ؟‘‘

’’کبھی کبھی بے ڈھنگی چال چلنے والے بھی ڈھنگ کی بات کر ہی جاتے ہیں۔‘‘اکرو لکڑہارا بولا ’’یہ 1946کی بات ہے صبح صادق کا وقت تھا،میں گوالیار کے جنگل کے کھڈوں میں سے اپنے لیے رزق تلاش کر رہا  تھا، مجھے اس ویرانے میں سے ایک بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔میں تیزی سے اُس آواز کی جانب لپکا ایک نقاب پوش عورت برق رفتاری سے باہر نکلی اور سامنے کھڑی کار میں بیٹھ گئی۔وہ خود ہی کار چلا رہی تھی۔کار فراٹے بھرتی ہوئی دُور شاہراہ کی جانب چلی گئی۔میں نے پہچان لیا یہ تو ٹھکرائن وجنتی تھی،کا ر کا نمبر بھی مجھے یاد تھا۔کار کے چلنے سے جو گرد اُڑی،اُس نے کئی حقائق کو دھُندلا دیا۔بچے کے پاس ایک پوٹلی بھی مجھے ملی جس میں ہیرے جواہرات اور سونے چاندی کے زیورات کے علاوہ بڑی تعداد میں کرنسی نوٹ بھی تھے۔شاید ظالم ماں یہ چاہتی تھی کہ اس بچے کو اُٹھانے والے اس قسمت سے محروم بچے کی پرورش پر اُٹھنے والے اخراجات پر یہ رقم خرچ کریں۔میں وہ ایک دِن کا بچہ لے کر گھر آیا اور رقم کی پوٹلی حسبِ معمول  غائب کر لی۔ میرے پڑوس میں رہنے والے کئی بے اولاد والدین نے اس بچے کو گود لینے کی تمنا ظاہر کی۔بہلو پہلوان کے بارے میں سب لوگ جانتے تھے کہ یہ پیدائشی خواجہ سرا ہے اور اپنی بد اعمالیوں کے باعث مردودِ خلائق ہے۔اس نا ہنجار نے اپنے گھناونے کردار اور مکروہ جرائم سے کئی گھر بے چراغ کر دئیے۔ جوانی میں تو اُس نے منشیات فروشی اور قحبہ خانہ چلا کر خُوب کالا دھن کمایا۔اب ضعیفی میں وہ چاہتا تھا کہ کوئی اُس کی اِملاک اور وسیع جائداد کا وارث ہو۔بہلو پہلوان نے ضعیفی میں ایک بیوہ طوائف سے شادی کر لی۔اُس کی بیوی روپا جو کچھ عرصہ پہلے تک ہیرا منڈی کی ایک بد نام بیوہ طوائف تھی وہ اِ س بچے کو اُٹھا کر لے گئی۔ اِس جِسم فروش رذیل طوائف اور اس کے مسخرے شوہر نے یہ بچہ گود لیتے وقت مجھے کچھ رقم بھی دی جو میں نے قبول کر لی۔میں نے کئی بے اولاد جوڑوں کو ایسے لا وارث بچے دئیے اور ان کے آنگن میں پھول کھلانے کی کوشش کی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ یہ پھول اپنے ساتھ کانٹے بھی لائے جن کی وجہ سے پرورش کرنے والوں کا دل فگار ہو گیا۔مشکوک نسب کے اس نو مولود بچے کو بہلو پہلوان  اور روپا نے اپنی اولاد ظاہر کیا۔  ‘‘

’’آخر وہ کیا حالات تھے جن کے باعث یہ نومولود بچہ گُناہ کی دلدل میں دھنستا چلا گیا ؟‘‘میں نے پُوچھا’’ناسُو چھُرا معاشرے کا ناسُور کیسے بن گیا؟‘‘

’’یہ بڑی درد ناک کہانی ہے،ناسُو کا معاشرے کا ناسُور بن جانا ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔‘‘اکرو لکڑ ہارا کھانستے ہوئے بولا ’’یہ بُری صحبت ہے جو ناسُو جیسے کم سِن بچوں کو معاشرے کا ناسُور بنا دیتی ہے۔ہمارا معاشرہ بے حسی کا شکار ہے۔ہوسِ  زر نے نوع انساں کو افراتفری اور انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔جرائم پیشہ افراد کی صحبت نے ناسُو کو عادی دروغ گو،جنسی جنونی،اُجرتی دہشت گرد،پیشہ ور بد معاش،سفاک قاتل،ظالم ڈاکو اور سمگلر بنا دیا۔اس کی مثال اُس بد اندیش کی تھی جو اُسی شاخ کو کاٹتا تھا جس پر اُس کا بسیرا تھا،یہ اُسی درخت کی جڑیں کھوکھلی کرتا جو اُس کے سر پر سایہ فِگن تھا۔یہ جِس تھالی میں کھاتا اُسی میں چھید کرتا۔ اپنے ہر محسن کی پیٹھ میں چھُرا گھونپنا اس کا وتیرہ تھا۔اسی لیے یہ ناسُو چھُرا کے نام سے لوگوں کی نفرتوں اور حقارتوں کا نشانہ بن گیا۔اکثر لوگ کہتے ناسُو چھُرا سو پشت سے سراپا بُرا ہی بُرا۔ ‘‘

’’ناسُو چھُرا جرائم پیشہ افراد کے ہتھے کیسے چڑھ گیا؟‘‘ڈھنگُو نے پُوچھا ’’بہلُو پہلوان اور رُوپا نے اس بچے کی تربیت پر توجہ کیوں نہ دی۔لوگ کہتے ہیں کہ ناسُو چھُرا کی آنکھ میں سُور کا بال تھا؟‘‘

’’اِسی کانام تو تقدیر ہے کہ انسان سوچتا کچھ ہے لیکن ہوتا کچھ اور ہے۔‘‘اکرو لکڑ ہارا بُڑ بُڑانے لگا ’’تقدیر کے فیصلے انوکھے ہوتے ہیں۔اگر تقدیر ہر لمحہ ہر گام،ہر ساعت اور ہر آن انسانی تدابیر کی دھجیاں نہ اُڑا دے اور انسان کے مستقبل کے منصوبوں اور عزائم کے خاک میں نہ مِلا دے تو اُسے تقدیر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ؟۔جب ناسُو چھُرا دس سال کا تھا تو اُس نے بہلو پہلوان اور روپا کو قتل کر دیا اور اُن کی تمام اِملاک،جائداد اور دولت کا بِلا شرکتِ غیرے مالک بن بیٹھا۔رُوپا نے خرچی کے ذریعے جو کالا دھن کمایاتھا وہ سب ناسُو چھُرانے اپنے اللے تللوں میں خرچ کر دیا۔ جرائم پیشہ افراد نے اس نو عمر بچے کو اپنے رنگ میں رنگ لیا۔اس کے بعد نوبت یہا ں تک پہنچی کہ اپنا خرچہ پُورا کرنے کے لیے ناسُو چھُرا دہشت گرد اور ڈاکو بن گیا۔تقدیر کے انداز اور زمانے کے ستم نرالے ہوتے ہیں۔ناسُو چھُرا کی ماں ٹھکرائن وجنتی نے کنوار پن میں جب اس سبز قدم بچے کو جنم دیا تو کچھ عرصہ کے بعد اُس کی شادی مدراس کے ایک معمر اور متمول صنعت کار سے کر دی گئی۔ اپنی آغوش کو خالی کرنے کے بعد اس کی کوکھ کبھی ہری نہ ہو سکی۔سرطان کے عارضے نے اس حسینہ کو مستقل بانجھ پن کی بھینٹ چڑھا دیا۔ٹھکرائن وجنتی نے مجھ سے مسلسل رابطہ رکھا اور اپنے اس بچے کے بارے میں معلومات حاصل کرتی رہی۔ناجائز بچوں کی دولت مند مائیں وقتی طور پر تو ان بچوں کو بلائے جاں سمجھتے ہوئے اِن سے چھُٹکارا حاصل کر لیتی ہیں لیکن ان بچوں کی یادیں زندگی بھر ان کے لیے سوہانِ روح بن جاتی ہیں۔1984میں لاجونتی نے اپنے بیٹے سے ملنے کی کوشش کی اور قصور پہنچی۔اس زمانے میں ناسُو چھُرا اشتہاری مجرم تھا اور اس نے قصور اور اس کے گردو نواح کے علاقوں میں لوٹ مار کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ میں نے لاجونتی کی یہ مشکل حل کرنے میں اُس کی مقدور بھر مدد کی۔ایک رات لاجونتی کی مُلاقات تو ناسو چھُرا سے ہو گئی لیکن اِس مُلاقات کا انجام بہت دردناک تھا۔ صبح ہوئی توناسُو چھُرا کے مکان سے باہر ایک گڑھے میں لاجونتی کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی۔‘‘

’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ‘‘ڈھنگو نے غصے سے کہا ’’لاجونتی جیسی پچھل پیری کا یہی انجام ہونا چاہیے تھا۔ایسی منحوس عورتیں تو دھرتی کا بوجھ ہوتی ہیں۔یہ بتاؤ کہ ناسُو چھُرا نصف صدی تک خُون کی ہولی کیسے کھیلتا رہا ؟اُس کی لوٹ مار اور دہشت گردی میں اُسے کس کی پُشت پناہی حاصل تھی؟‘‘

’’ناسُو چھُرا خود کہتا تھا کہ اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں اور ایک مافیا اُس کی پشت پناہی کرتا تھا۔‘‘اکرو لکڑہارے نے آہ بھر کر کہا ’’یہ مُجرم اپنے جرائم کی سزا سے بچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ بعض اوقات قانون کی گرفت سے تو یہ مُوذی بچ نکلتے ہیں لیکن فطرت کی سخت تعزیروں سے یہ کبھی نہیں بچ سکتے۔خالقِ  کائنات کے ہاں دیر تو ہے مگر اندھیر نہیں۔یہ کبھی نہ کبھی اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ ہی جاتے ہیں۔ناسُو چھُر ا نے قصور،لاہور، فیصل آباد اور جھنگ کے علاقوں میں قتل،آبرو ریزی اور لوٹ مار کی لرزہ خیز وارداتوں کا ارتکاب کر کے رابن ہُڈ کو بھی مات دے دی۔‘‘

’’ناسُو چھُرا اپنے انجام کو کیسے پہنچا ؟‘‘میں نے متجسس انداز میں پُوچھا ’’وہ ڈاکو جو نصف صدی تک یاس و ہراس اور اذیت و عقوبت کی علامت بنا رہا اُسے چند دیہاتیوں نے کیسے کیفر کردار تک پہنچایا ؟‘‘

’’خالقِ کائنات کی قُدرت کے قربان جائیں،وہ چاہے تو چِڑیوں سے بھی باز مرا سکتا ہے ‘‘  اکرو لکڑ ہارے نے پیشانی سے پسینا صاف کرتے ہوئے کہا’’ناسوُ چھُرا شراب اور شباب کا دلدادہ تھا۔سادیت پسندی اُس کی گھُٹی میں پڑی تھی۔چند روز قبل رضاکار مشتاق کے مکان میں ٹھہرنے والی ایک مہمان عورت کے حُسن و جمال،الھڑ جوانی اور ناز و ادا کے ہر سُو چرچے تھے۔یہ حسینہ سرِ شام تنہا کھیتوں کی سیر کو نکلتی۔اس کی چال ایسی تھی جیسی کڑی کمان کا تیر۔ اس مہ جبیں حسینہ کے حُسن و جمال کی بھِنک ناسُو چھُرا کو بھی پڑ گئی۔ایک شام ناسُو چھُرا  نے اپنے دس ساتھیوں کے ساتھ گاؤں پر دھاوا بول دیا۔ناسُو چھُرا کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا۔وہ باؤلے کُتے کی طرح حسینہ کی طرف بڑھا اور اُسے دبوچنے کی کوشش کی۔آناًفاناًحسینہ نے ایک بلند جست لگائی اور فلائنگ کِک سے ناسُو چھُرا کو چاروں شانے چِت زمیں پر گِرا دیا اور اُس پر پستول کی گولیوں کی بو چھاڑ کر دی۔ناسُو چھُرا تڑپ تڑپ کر ہلا ک ہو گیا۔اس اثنا میں نزدیکی درختوں پر چڑھے مشتاق اور اُس کے مسلح ساتھیوں نے دہشت گردوں پر فائر کھول دیا اور سب کے سب وہیں ڈھیر ہو گئے۔اِس ویرانے میں کئی دِن تک گدھ اور کوے اِ ن درندوں کے ڈھانچوں کو نوچتے رہے۔ماحول کا تعفن ختم کرنے کے لیے کسی نے مٹی کا تیل چھڑک کر یہ عفونت زدہ استخواں جلا ڈالے۔‘‘

’’وہ بہادر حسینہ کون تھی ؟‘‘ڈھنگو نے پوچھا ’’اُس کا مشتاق سے کیا تعلق تھا ؟ اُس نے موت کے منہ میں جانے کا فیصلہ کس لیے کیا ؟‘‘

’’اُس کا نام دھنک تھا اور اُس نے جُوڈو کراٹے کی تربیت حاصل کر رکھی تھی۔اس فن میں اُس کی مہارت کا ایک عالم معترف تھا۔ ‘‘اکرو لکڑہارا کہنے لگا ’’ پُورے شہر میں رنگ،خوشبوُ اور حُسن و خوبی کے تمام استعارے دھنک سے وابستہ تھے۔دھنک نے رضاکارانہ طور پر اپنی جان پر کھیل کر بے بس انسانوں اور مظلوم عورتوں کو ایک درندے سے بچایا۔خواجہ سرا دھنک کی انسانی ہمدردی نا قابلِ فراموش ہے۔ناسُوچھُرا کا قبیح کردار یہ ظاہر کرتا ہے کہ مظلوموں کا صعوبتوں کا سفر بالآخر ختم ہو جاتا ہے اور ظلم کا سیاہ باب اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

           بِلیاں

 

جفا کے بیسیوں منتر ہیں اے فریب جمال

غروبِ شام عیاراں کا انتظار نہ کر

ماہرین عِلم حیوانات سے استفسار کیا،مورخوں کی رائے لی،طوطے والے نجومیوں سے فال نکلوائی،کئی رَمّال پرکھے،بے شمار قیافہ شناسوں سے پُو چھا کہ بِلّیوں نے اِس عالمِ آب و گِل میں کب سے بِلبلانا شروع کیا لیکن سب منقار زیرِ پر دکھائی دیئے۔  جب سے فلم آسو بِلّا سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش ہوئی ہے،معاشرتی زندگی میں بِلّی چُو ہے کا کھیل شروع ہو گیا ہے۔آسُو بِلّا ایک مشکوک نسب کا درندہ تھا اِس  نے لُوٹ مار،سفاکی اور درندگی میں رابن ہُڈ کو بھی مات دے دی۔مثل مشہور ہے کہ طویلے کی بلا بندر کے سر لیکن اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ڈکیتی اور چوری کی ہر واردات کے پیچھے آسو بِلّا ہی اپنا قبیح کردار ادا کرتا ہے۔ گُربہ کُشتن روزِ اوّل والی مثال اب لوگوں کے لیے دستور العمل بنتی جا رہی ہے۔گُرگ آشتی ہو یا گُربہ کُشی سب روّیوں کے پسِ پردہ لذتِ ایذا  یا سادیت پسندی (Sadism)کی مجنونانہ سوچ کارفرما ہوتی ہے۔کہتے ہیں بِلّی شیر کی خالہ ہے جِس نے شیر کی تربیّت کی اور اِسے درندگی اور کم زور جانداروں کو  چیرنے پھاڑنے اور اُن کی شہ رگ کا خون پینے  کے گُر سکھائے۔ بِلّی سے تربیت حاصل کرنے کے بعد شیر کے مزاج میں بے رحمی اور شقاوت بہت بڑھ گئی۔اِس کے بعد وہی ہوا جو دنیا میں ہر محسن کے ساتھ ازل سے ہوتا چلا آیا ہے۔شیر نے موقع پاتے ہی اپنی خالہ اور معلمہ بِلّی کا خون پینے کے لیے اُس پر جست لگا دی۔عیاری،مکاری،فریب کاری اور موقع پرستی میں بِلّی اپنی مثال آپ ہے۔بِلّی اُسی لمحے قریب کھڑے ناریل کے  درخت پر چڑھ گئی اور اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئی۔اس غیر متوقع صورت حال کو دیکھ کر شیر اپنی خست و خجالت اور درندگی و شرمندگی کو چھُپاتے ہوئے بولا :

’’خالہ بِلّی ! میں تو محض قدم بوسی کے لیے تمھاری طرف تیزی سے بڑھا تھا لیکن تم نے تو بِلاوجہ ناریل کے درخت پر چھلانگ لگا دی۔میرے جیسے سعادت مند شاگرد کے بارے میں ایسی بد گُمانی اور میری نیّت پر شُبہ کرنا ہر گز مناسب نہیں۔ایک بات تو بتاؤ  میں تمھارا شاگرد ہوں،تم نے مُجھے درخت پر چڑھنا تو سکھایا ہی نہیں۔ایک اچھے اُستاد کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کوئی ہنر اپنے شاگرد سے پوشیدہ رکھے اور اپنے شاگرد کو ہر فن میں یکتا نہ بنا دے۔‘‘

’’میں وہ بِلّی نہیں جو بے وقت کی راگنی گائے اور مصیبت میں بھی بھیرویں اُڑائے ‘‘بِلّی نے غصے سے کہا ’’تُم نے سُنا نہیں بَھیڑ جہاں بھی جائے گی وہیں مونڈ دی جائے گی اور بِلّی جِس جگہ بھی  جائے گی مزے سے چھیچھڑے اُڑائے گی۔تُف ہے تم جیسے شاگردوں پر جو اُسی درخت کو کاٹیں جو اُنھیں کڑی دھوپ سے بچاتا ہو،اُسی شاخ کو کاٹیں جِس پر وہ بیٹھے ہوں اور اُسی تھالی میں چھید کریں جس میں وہ کھائیں۔آج سے میں نے تم سے سارے رابطے توڑ لیے ہیں۔کان کھول کر سُن لو درندے !اگر میں تمھیں درخت پر چڑھنا بھی سِکھا دیتی تو آج تمھارے پیٹ کے دوزخ کا ایندھن بن چُکی ہوتی۔‘‘

یہ کہہ کر بِلّی نے دو ناریل توڑے اور شیر کے سر پر زور سے  دے مارے۔شیر اس اچانک اور غیر متوقع وار سے لڑ کھڑا کر گِرا اُس کے سر سے خون کا فوارہ بہہ نکلا۔ شدید غصے کے عالم میں اب بِلّی نے زخمی شیر کے سر پر  پے در پے کئی ناریل پھینکے اور شیر نیم جان ہو گیا اور وہ تڑپنے لگا،اس کا سارا خون بہہ گیا اور وہ وہیں ٹھنڈا ہو گیا۔اپنے اُستاد اور محسن کے ساتھ غداری،نمک حرامی اور بے وفائی کرنے والے بے ضمیر اور بے غیرت ننگِ انسانیت اپنے عبرت ناک انجام کو یاد رکھیں۔کسی نے سچ کہا ہے کہ جب بِلّی پر مظالم کی انتہا کر دی جائے تو چیتے اور شیر سے بھی ٹکرا جاتی ہے۔

گُزشتہ کئی دنوں سے بِلّیوں نے میرا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔چُپکے چُپکے رات دن میرے کمرے کی چھت پر یہ دبے پاؤں گھُومتی پھرتی ہیں اور اِن کی باہم میاؤں میاؤں جو تُو تُکار اور پیکار کی ایک شکل اختیار کر جاتی ہے اُسے سُن کر طبیعت سخت بیزار ہو جاتی ہے۔اِن میں ایک  سفید بِلّی اور کئی کالے کلوٹے  باگڑ  بِلّے ہوتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب باگڑ بِلے رقابت کی آگ میں جل کر ایک دوسرے  کے خُون کے پیاسے ہو چکے ہیں۔اِن کی میاؤں میاؤں کی آواز بھی گہری معنویت کی حامل ہے۔ایک کُٹنی سفید بِلی میرے پڑوسی تارو خان نے پال رکھی ہے۔ احساسِ  کم تری کا مارا ہوا یہ ابلہ ا پنا شجرۂ نسب نعمت خان کلاونت سے مِلاتا ہے اور اِس  بھونڈے ناتے پر شیخی بِگھارتا ہے اور پھُول کر کُپا ہو جاتا ہے۔تارو خان حرام کھانے کا بَلی ہے اور اور اُس نے یہ بِلّی اس کوچے کے بَلّی ماروں کے گھر سے ہتھیائی تھی۔اس کوچے میں ملاح رہتے ہیں جنھیں بَلّی مار کہا جاتا ہے۔سُنا ہے اُردو کے مشہور شاعر مرزا غالب بھی بَلّی ماروں کے کُوچے میں رہتے تھے۔یہ بُلّی مار بھی عجیب لو گ ہوتے ہیں دریا میں کشتی رانی کریں تو مسافروں کو مار دیتے ہیں اور جب بستی میں اپنے کُوچے میں آئیں تو بِلّیوں کا کام تمام کر دیتے ہیں۔اِن کی بِلّیاں خوف و دہشت کی علامت ہیں جن کی میاؤں میاؤں کی آواز  سُن کر لوگ یاس و ہراس کا شکار ہو جاتے ہیں۔یہ بِلّیاں جب بھی گرتی ہیں پنجوں کے بل گرتی ہیں اور کِسی موٹی مرغی کے اوپر گرتی ہیں۔تارو خان کی پالتو بِلّی ہر وقت آمادۂ پیکار رہتی ہے مگر جب غُرّاتی ہے تو اپنے پنجے اپنے منہ پر دھر کر اپنا کریہہ چہرہ ضرور چھپا لیتی ہے تا کہ لوگ اُس کا حقیقی رُوپ نہ دیکھ سکیں۔اس ڈھڈو  بِلّی کو وہ آری  بِلّی !کہہ کر پُکارتا ہے۔اب یہ معلوم نہیں کہ یہ بِلّی کاٹنے والی آری ہے یا شرم و حیا سے عاری ہے۔قرین قیاس یہی ہے کہ یہ بِلی اِسمِ با مسمیٰ ہے اور اِس کا نام عاری بِلّی ہی ہو سکتا ہے۔ اِسے دیکھتے ہی سارے باگڑ بِلّے میاؤں میاؤں کرنے لگتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے ہر باگڑ بِلّا  اِس حرافہ بِلّی سے اجازت طلب کرنے کے لیے کہہ رہا ہو ’’میں آؤں ؟ میں آؤں ؟‘‘اور یہ قحبہ خانے کی مکین بِلّی نہایت رعونت کے ساتھ  ایک کے سوا باقی سب کو دھُتکار دیتی ہے۔ایک دِن میں کئی باگڑ بِلّے اِ س امتحان سے گزرتے ہیں اور سب کچھ لُٹا کر در بہ در اور خاک بہ سر مارے مارے پھِرتے ہیں تارو خان بھی عجب کندۂ نا تراش ہے۔اِس جیّد جاہل نے بھی اربابِ سیاست کی نقالی کرتے ہوئے کئی جعلی ڈگریاں اپنی زنبیل میں دبا رکھی ہیں اور رواقیت کا داعی بن بیٹھا ہے۔لوگ اِسے اپنے عہد کا راسپوٹین قرار دیتے ہیں اور یہ ڈھٹائی،بے شرمی اور بے غیرتی کی تصویر بن کر اپنے جنسی جنون پر بے شرمی سے اکڑ فوں دِکھاتا ہے۔وہ اکثر کہتا ہے کہ اُس نے ستر سالہ زندگی میں رومان کی ڈبل سنچری مکمل کر لی ہے۔جب بھی کوئی نئی بِلّی اِس نا ہنجار بُڈھے کھوسٹ کے قریب آتی ہے تو اِس موذی کا دِل بَلیوں اُچھلنے لگتا ہے اور یہ بَلّے بَلّے کرتا ہوا اُسے کے حُسن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے مِلانے لگتا ہے۔ ہر نو خیز بِلّی اور مکار لُو مڑی کے سامنے دُم ہلانا اِس بد طینت بھیڑیے کا وتیرہ ہے۔ شکم کی بھُوک بھی عجب گلُ کھِلاتی ہے،پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے یہ بِلیاں ذِلت اور تباہی سے اپنا دامن بھر لیتی ہیں۔ نئی نویلی بِلیاں اِس عقل کے اندھے اور گانٹھ  کے پُورے جنسی جنونی کے کالے دھن پر گُلچھرے اُڑانے کے لیے ہر وقت بے چین رہتی ہیں۔ یہ مسخرا اپنے اِس مذموم ارادے کا بر ملا اظہار کرتا ہے کہ اگر موت نے مہلت دی تو اُس کا ارادہ رُومان کی تین سنچریاں پُوری کرنے کا ہے۔لوگ سوچتے ہیں کہ نا معلوم قادر مُطلق نے اِس فرعون کی مدت کو کیوں بڑھا رکھا ہے  ؟۔

تارو خان کی پالتو  بِلّی عاری  کے متعلق اہل نظر کی رائے ہے کہ یہ پچھلے جنم میں جِسم فروش رذیل طوائف ہو گی۔ہر روز یہ کلموہی نئے باگڑ بِلّے تلاش کر لیتی ہے اور اِ ن کے ساتھ اُچھل کُود  میں مصروف رہتی ہے اور دیوانگی اور جنسی اشتہا کے ہاتھوں مجبور ہو کر بے تحاشا رنگ رلیاں مناتی ہے۔یہ  بِلّی ہر موٹے تازے اور خُوب پلے ہوئے با گڑ بِلے کی جانب للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھتی ہے اور  اُسے اپنے مکر کے جال  میں پھنسا نے کے لیے پنجے جھاڑ کر اُس کے پیچھے پڑ جاتی ہے۔۔فربہ اور قوی باگڑ بِلّادیکھ کر اِ س بِلّی کی رال ٹپکنے لگتی ہے  اور ساتھ ہی جِسم کے رونگٹے بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔عاری  ایک ایسی کھسیانی بِلّی  ہے جو کبھی کھمبا نہیں نو چتی بل کہ فربہ باگڑ  بِلّوں کا شکار کرتی ہے اور اُن کو کھُدیڑ کھُدھیڑ کر اور نوچ نوچ کر چٹ کر جاتی ہے۔اِس خون آشام بِلّی کے منہ کو اِنسانی خون اِس طرح لگا ہے کہ اب یہ آدم خور بن چکی تھی۔اِس کے پنجے ایک پل کی راحتِ فراواں میں کھو جانے والے،چُلّو میں اُلّو بن جانے والے گنجے نو دولتیوں اور گھٹیا عیاشوں کے سر کے گنج میں اس طرح پیوست ہو جاتے ہیں کہ اُن کے کھُرچنے سے گنجِ قارون بھی عنقا ہو جاتا ہے۔اہلِ حرفہ پرِ اِس سبز قدم بِلّی کی درندگی آشکار ہو چُکی ہے اور وہ اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حُسن کے جلووں کی فراوانی اور اِ ن کی ارزانی فاتر العقل پروانوں کے مکمل انہدام اور ویرانی پر منتج ہوتی ہے۔واقفانِ حال اِس پُر فتن بِلّی کے جنسی جنون کی حکایاتِ خوں چکاں جب حرف حرف بیان کرتے ہیں تو سُننے والے توبہ توبہ کرتے ہیں۔قِسمت سے محروم یہ باگڑ بِلے اپنے جِنسی جنون کے ہاتھوں مکمل تباہی کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔اِ س کے بعد رفتہ رفتہ یہ فربہ باگڑ بِلے  سُو کھ کر کانٹا ہو جاتے ہیں اور یہ چلتی پھرتی لاشیں کسی دن رِزق خاک بن جاتی ہیں۔اگلے روز پھر باگڑ بِلو ں کا  ہجوم عاشقاں اِس خون آشام چڑیل کے تلوے چاٹتا نظر آتا ہے۔ ایڈز جیسی مہلک بیماری میں مبتلا یہ چڑیل بِلّی  ایک دو روز کے لیے پھر کسی نئے با گڑ بِلّے کو اپنی ہوس کا شکار بناتی ہے اور پھر اُسے بھی ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے گندے  نالے میں پھینک  دیتی ہے جہاں وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے۔باگڑ بِلّوں کی تلاش اور اُن کی ہلاکت کا یہ سلسلہ مُسلسل جاری رہتا ہے اور عاری کو دیکھ کر صبح کی ہوا پر بھی رِقت طاری ہو جاتی ہے اور یوں بادِ سموم گلشن کو تاراج کر دیتی ہے۔اِس کے باوجود جنسی جنوں اور درندگی کی قبیح مثال یہ منحوس بلی میاؤں میاؤں کرتی ہوئی زبان حال سے اپنے جنسی جنون کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے :

باگڑ  بِلّے لبھدی میں آپ ای بِّلا ہوئی

آکھو باگڑ بِلّامینوں،بِلّی نہ آکھے کوئی

ترجمہ :    باگڑ بِلّوں کے شکار نے مُجھ کو باگڑ بِلّا بنا دیا ہے

مُجھے اب باگڑ بِلّا سمجھو بِلّی کا بانکپن میں نے بھُلا دیا ہے

قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں حالات نے جو رُخ اختیار کر لیا ہے اُسے دیکھ کر یہ گُمان گُزرتا ہے کہ ہم ایک جنگل میں پھنس گئے ہیں۔جہاں جنگل کا قانون پُوری شدت کے ساتھ نافذ ہے۔اس جنگل میں بے شمار با گڑ بِلّے اور خون آشام بِلّیاں غراتے اور دندناتے پھرتے ہیں۔بِلّیوں کی کئی اقسام ہیں،اِن میں سے پالتو بِلّی،جنگلی بِلّی،دیسی بِلّی،بدیسی بِلّی۔ساغر بِلّی،لاغر بِلّی، بھیگی بِلّی،کھسیانی بِلّی،نوسوچُوہے کھا کر گنگا جل میں نہانے والی بِلّی،کالی بِلّی،گوری بِلّی،مُفلس بِلّی،عیاش بِلّی،قلاش بِلّی  اور کُوڑے کے ڈھیر سے استخواں نوچ کر کھانے والی بِلّی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔غرض جو بِلّی جس جگہ پر بھی ہے وہ دیکھنے والے کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جیسا منہ ویسی بِلّی۔آبادی کے ماہرین کا خیال ہے کہ جس برق رفتاری سے بِلّیوں کی افزائش نسل کا سلسلہ جاری ہے اگر اِس کو قابو میں رکھنے کی کوشش نہ کی گئی تو بِلّیوں کی آبادی کا یہ ازدحام تمام دستیاب  وسائل کو ہڑپ کر لے گا۔ہر بِلّی ایک  وقت میں کئی بچوں کو جنم دیتی ہے اور جب تک  وہ اپنے اِن نومولود بچوں کو پڑوس کے  سات گھروں میں گھُما  پھِرا نہیں لیتی،اُسے چین ہی نہیں آتا۔ سماجی زندگی میں ایک بحرانی کیفیت دکھائی دیتی ہے،انسانوں کی بستیوں میں چوہوں کی غارت گری نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔ طاعون پھیلانے والے چُوہوں کی ضرر رسانی سے بچنے کے لیے بعض لوگ بِلّیاں پالتے ہیں تا کہ یہ پالتو بِلّیاں گھر سے چُوہوں کو کھا جائیں اور ہر طرف صحت و صفائی کی حالت بہتر ہو جائے۔وہ یہ بات بھُول جاتے ہیں کہ پالتو بِلّیاں رات کو آرام سے سوتی ہیں اور  چُوہوں کو کچھ نہیں کہتیں بل کہ جوں ہی فجر ہوتی ہے،اِ ن کی چوکے پر نظر ہوتی ہے۔ یہ پالتو بِلّیاں باورچی خانے میں موجود اشیائے خوردنی کا نہایت بے رحمی کے ساتھ صفایا کرتی ہیں۔اِسی لیے تو کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ بِلّی کا سنگ ہمیشہ کے لیے ہاتھ تنگ اور گھر میں دائمی بھُوک اور ننگ۔ امیر اور خوش حال گھرانوں میں کام کرنے والی خواتین باورچی خانے کے برتنوں کی صفائی کے لیے بِلّیوں سے کام لیتی ہیں۔یہ بِلّیاں پلک جھپکتے میں اپنی زبان سے برتن چاٹ لیتی ہیں اور اِس کے بعد مزید کسی صفائی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

ہمارے معاشرے میں جہالت،بے بصری اور کو ر مغزی اب حد سے تجاوز کر گئی ہے اُس میں المیہ یہ ہے کہ جاہل کو اُس کی جہالت کا انعام دیا جا رہا ہے۔اہل ہوس نے اب پیٹو  بِلّیوں کو چھیچھڑوں،ہڈیوں اور ماس کی رکھوالی پر مامور کر رکھا ہے۔اُنھیں کون سمجھائے کہ وقت نے عجب ستم کیا ہے اب تو کوئی بِلّی کسی صورت میں کوئی چُوہا مارنے پر آمادہ نہیں ہوتی جب تک اُسے اِس کام کے لیے کسی قسم کے مفاد کی ترغیب نہ دی جائے۔ زمانے کے ڈھنگ نرالے ہو گئے ہیں اب تو بِلّیوں نے بھی چوہے پال رکھے ہیں۔شیر اور بکری کی دوستی پروان چڑھ رہی اور اب تو بھیڑ بھی بے خطر بھیڑیے کی مصاحب بن جاتی ہے۔مُفت کی شراب پنڈت اور پادری کے لیے تو جائز ہو سکتی ہے لیکن آج کی  بِلّی مفت میں چُو ہا مارنے اوراُسے کھانے پر ہر گز تیّار نہیں ہوتی۔بِلّی کو اپنی زندگی سے بہت پیار ہو تا ہے۔اپنی جان بچانے کے لیے بِلّیاں سب کچھ داؤ پر لگا دیتی ہیں۔کہتے ہیں ایک مرتبہ کسی گھر میں آگ لگ گئی بِلّی کے بچے اُسی گھر میں پیدا ہوتے اور پل کر پروان چڑھتے تھے۔وہ بچے ابھی چلنے کے قابل نہ تھے۔باہر کے دروازے بند تھے،بِلّی نے تپتی راکھ پر اپنے بچوں کو پھینکا اور اُن پر چڑھ کر آرام سے بیٹھ گئی  اور جان بچ جانے کی خوشی میں دیپک راگ الاپ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔  میرے ایک نام نہاد  فلسفی پڑوسی کا خیال ہے کہ بِلّی کا یہ روّیہ بالکل منطقی اور حقیقت پسندانہ تھا۔خطرے میں گھِری بِلی نے موت کو بہت قریب سے دیکھ لیا تھا اُس کا خیال تھا کہ جان ہے تو جہان ہے۔زندگی تو ایک ہی بچ سکتی تھی یا بڑی بِلّی کی یا اُس کے ایک دِن کے بچوں کی۔وہ جانتی تھی کہ ابھی تو وہ جوان ہے اور بستی کے بے شمار باگڑ بِلّے اُس کے پیچھے دُم ہلاتے پھرتے ہیں۔بچے تو پھر بھی پیدا ہو سکتے ہیں لیکن زندگی اگر ایک بار ختم ہو جائے تو پھر اِسے کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔فلسفی ارسطو کے تصورِ المیہ کے مطابق بِلّی کے روّیے کو درست قرار دیتا ہے جب کہ لوگوں کو فلسفی کی عقل کی درستی پر کئی شکوک اور شُبہات ہیں۔

ماہرینِ  علمِ بشریات کا خیال ہے کہ اِنسانوں کی زندگی میں زہر گھولنے کی ظالمانہ روش کالی بھیڑوں،گندی مچھلیوں،سفید کووں،بگلا بھگت مسخروں اور بِلّیوں کی وجہ سے شروع ہوئی۔ بزرگ اپنے بچوں کو  یہ نصیحت کیا کرتے تھے جب بھی کوئی بِلّی دیکھیں تو اُس کے شر سے بچنے کی کوشش کریں۔جِس جگہ سے عفونت اور سڑاند کے بھبوکے اُٹھ رہے ہوں وہاں باگڑ بِلّوں اور بِلّیوں کا پہنچنا یقینی ہے۔یہ متعفن مُردار کھانے کے لیے نہیں پہنچتے بل کہ یہ گندگی  اِرد گرد پھیلانے کے لیے پوری توانائی استعمال کرتے ہیں۔اِسی لیے کوئی ان  بِلّیوں کی طرف آنکھ بھر کر کبھی نہیں دیکھتا۔حساس اِنسانوں کا یہ روّیہ خارش زدہ بِلّیوں کو بہت گراں گُزرتا ہے اور وہ دانت پیس کر اپنے رنج کا اظہار کرتی ہیں۔ بِلّی کے ساتھ کئی قِسم کے توہمات وابستہ ہیں۔کچھ لوگ بِلّی کے اُلانگنے کو ایک انتہائی منحوس اور خراب شگون سمجھتے ہیں۔کئی جوتشی یہ کہتے ہیں کہ اگر کالی بِلّی کسی شخص کا راستہ کاٹ جائے تو اُسے اپنی مسافت کا خیال ترک کر دینا چاہیے ورنہ ناکامی  اور نا مُرادی اُس کا مقدر بن جائے گی۔

دُنیا میں مسخروں اور احمقوں کی کمی نہیں ایک کو ڈھونڈنے نکلو راستے میں ایک لاکھ مِل جائیں گے۔میرا ایک معمار سے پالا پڑ گیا لوگ اِسے بہلو راج کے نام سے پُکارتے تھے۔یہ سٹھیایا ہوا معمار اپنا شجرہ نسب پرتھوی راج سے ملاتا تھا۔اب  اِس امر کی تحقیق کون کرے کہ کون کس ذات برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ہجرت کے بعد جہاں رہنے کے مقام بدل گئے وہاں آبا و اجداد کے نسب اور نام بھی حذف ہو گئے اور لوگوں نے نئے زمانے میں اپنے لیے من پسند نسب اختراع کر لیے۔بہلُو راج ایک دن ایک چار منزلہ عمارت کی تعمیر میں مصروف تھا کہ اس کا سر چکرایا اور یہ زمین پر آ گرا۔یہ مرنے سے تو بچ گیا لیکن اس کی دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں کی ہڈیاں کِرچی کِرچی ہو گئیں۔ مقامی طور پر ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے والے کرموں موچی کے پاس اسے لے جایا گیا۔ کرموں موچی سے پٹیاں بندھوا کر اسے یہ فائدہ ہوا کہ اس کا ایک ہاتھ کچھ حرکت کر سکتا تھا اور وہ کھا پی بھی سکتا تھا۔ تقدیر کے زخم سہہ کر ایک ماہر معمار گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں کھاٹ پر آ پڑا۔معذوری کے بعد اس کے گھر میں بے روزگاری اور مُفلسی نے مستقل ڈیرے ڈال لیے۔ غریب معمار سار ا دن گھر کے چھپر کے نیچے لیٹا رہتا اور ایام گُزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی اور اپنی حسرتوں کی نوحہ خوانی میں مصروف رہتا۔ اُس کا کھاٹ چھپر کے شہتیر کے نیچے درمیان میں تھا تا کہ بارش سے محفوظ رہے۔ اس کی بیوی جو بے حد حسین تھی ان تکلیف دہ  حالات میں قناعت اور صبر نہ کر سکی اور جسم فروشی کے قبیح دھندے میں لگ گئی۔ بہلو راج معمار کی مکار اور رذیل  بیوی نے ایک چھینکا چھپر کے شہتیر سے باندھ رکھا تھا۔وہ اِس چھینکے میں پھل، سبزی،بھُنا ہو ا گوشت اور روٹیاں وغیرہ رکھتی اور مناسب موقع پر کھانے پینے کی ان چیزوں کو تنہا چٹ کر جاتی یا کبھی کبھی اس کا ایک آ شنا بھی اس کا ہم نوالہ بن جاتا۔اپنے معذور شوہر کو سادہ پانی اور باسی خشک روٹی دے کر جان چھُڑاتی۔ اپنے کھاٹ کے عین اوپر لٹکے چھینکے کو دیکھ کر بہلو راج کے منہ میں پانی بھر آتا اور وہ اپنی  بے بسی اور حسرتوں پر آنسو بہا کر لیٹ جاتا۔وہ اپنی بیوی سے کوئی شکوہ نہ کرتا کیونکہ وہاں تو بات پر زبان کٹتی تھی۔بہلو راج اپنی اس دکھ بھری زندگی سے تنگ آ چکا تھا۔اُس نے کہیں سے زہر منگا رکھا تھا اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا لیکن وہ سوچتا کہ اس طرح اس کی بیوی اور اس کے آ شنا کو رنگ رلیاں منانے کی کھُلی چھُٹی  مِل جائے گی اوراُس حرافہ کا وہ مسٹنڈا  آشنا یہاں آ کر اس کے دس مرلے کے گھر پر قبضہ کر لے گا۔یہ سوچ کر اُس نے خود کُشی کا ارادہ ملتوی کر دیا۔اس نے زہر کو چھُپا کر آڑے وقت کے لیے محفوظ کر لیا تھا کہ ممکن ہے حالات اس قدر تلخ ہو جائیں کہ زندگی دشوار ہو جائے۔ایک دن اس کی بیوی نے چھینکے میں ایک کلو کے قریب صاف کیے ہوئے اور کٹے ہوئے سیب اور دو کلو کے قریب بکرے کا بھُنا ہوا گوشت رکھا جو اس کے آشنا نے اسے لا کر دیا تھا۔ہر رات کی طرح اس ڈائن نے اپنے آشنا کے لیے لذتِ  کام و دہن کا خوب انتظام کر رکھا تھا۔ گوشت کی بُو سونگھ کر اچانک ایک موٹی بِلّی نے چھینکے کی طرف چھلانگ لگائی،اس کے وزن سے چھینکا ٹُوٹ گیا اور تمام پھل اور بھُنا ہو ا گوشت بہلو راج کے کھاٹ پر آ گرا۔بہلو راج بہت خوش ہوا کہ آج بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹُوٹ گیا ہے۔بہلو راج نے فوراً بھُنے ہوئے گوشت اور سیبوں  پر زہر کی پُڑیا چھڑک دی اور آنکھیں بند کر لیں۔چھینکے کے گرنے کی آواز سن کر اُس کی بیوی جو باہر اپنے آ شنا کے ساتھ عالمِ مستی میں بند قبا سے بے پروا  راز و نیاز میں مصروف تھی تیزی سے بھاگتی ہوئی آئی اور اُس نے بھُنا ہوا گوشت اور کٹے ہوئے سیب سمیٹ لیے اور اُنھیں تھالی میں ڈال کر باہر لے گئی۔دونوں عیاش پلک جھپکتے میں تھالی میں رکھے پھلوں  اور گوشت کو چٹ کر گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک رذیل طوائف اور اُس کا مسٹنڈا عاشق دونوں اپنے عبرت ناک کو  انجام کو پہنچ چُکے تھے۔جب بھی لوگ بہلو راج سے اس سانحے کے بارے میں سوال کرتے تو وہ معنی خیز انداز میں کہتا کہ بِلّی کے بھاگوں چھینکا  ٹُوٹا۔اہلِ درد اس واقعے کو فطرت کی تعزیروں سے تعبیر کرتے۔

آزادی سے قبل لالہ دُنی چند جھنگ شہر کا ایک متمول تاجر تھا۔اس کی خِست و خجالت اس کی جہالت کی مظہر تھی۔اس بنیے نے سود در سود کے چکر میں کئی گھرانوں کو بے چراغ کر دیا۔اس مہاجن نے مجبور لوگوں سے  زر و مال بٹورنے  اور لُوٹ کھسُوٹ سے اپنی تجوری بھرنا اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا۔یہ شخص نہایت ڈھٹائی سے کہتا کہ میر ی چمڑی بے شک جائے لیکن میری تجوری سے دمڑی باہر نہ جائے۔دریائے چناب میں سیلاب آیا تو اس کے نتیجے میں بے شمار حشرات نے بھی شہر میں پناہ لی۔ان میں چوہوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔لالہ دُنی چند کے اجناس خوردنی کے گودام میں چُوہوں کی یلغار نے لُوٹ مچا دی۔لوگوں نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ ایک بِلّی پال لے اس طرح وہ چُوہوں کی ایذا رسانی سے بچ جائے گا۔ اب مسئلہ  یہ تھا کہ لالہ دُنی چند کِسی صُورت بھی بِلّی کے لیے گوشت اور مناسب غذا فراہم کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ اس خسیس نے ایک ماہر بڑھئی سے مشورہ کیا اور ایک کاٹھ کی بِلّی بنوا کر اپنے گودام میں رکھ دی تا کہ چوہے اُسے دیکھ کر بھاگ جائیں۔اس کی یہ احمقانہ تدبیر ناکام ہو گئی اور چوہوں نے اناج کی تمام بوریاں کُتر ڈالیں۔لالہ دُنی چند بہت دل گرفتہ تھا لوگوں نے اُسے سمجھایا کہ کاٹھ کی بِلّی تو تم نے رکھ دی اب چُوہوں کو ڈرانے اور بھگانے کے لیے میاؤں کون کرے ؟یہ سادہ سی بات لالہ دُنی چند جیسے فاتر العقل، خسیس اور  بُزِ  اخفش کی کھو پڑی میں بالکل نہ آ سکی اور ہمیشہ بُڑ بُڑ اتا رہتا اور کاٹھ کی بِلی کو موردِ الزام ٹھہراتا۔کئی بار رات کی تاریکی میں اُس نے کاٹھ کی بِلیّ کے پیچھے اپنا سر چھپا کر میاؤں میاؤں کی آواز بھی نکالی لیکن یہ سب  احمقانہ حرکتیں بے سود ثابت ہوئیں۔اس پر طرفہ تماشا یہ کہ ایک رات جب وہ تاریک گودام میں خود میاؤں میاؤں کر رہا تھا کئی چوہے اُس پر ٹُوٹ پڑے اور اس کی ناک اور کان کُتر لیے۔ زخموں سے نڈھال اس  نکٹے نے بھاگ کر بڑی مُشکل سے اپنی جان بچائی۔

زمانے کے حالات پیہم بدلتے جا رہے ہیں۔بِلّی اور چوہے کا کھیل ہر دور میں جاری رہا ہے۔شُتر گُربہ جیسی بے ہنگم کیفیات کی کثرت نے ہمیں اقوام عالم کی صف میں تماشا بنا دیا ہے۔ہر جگہ چُو ہے بِلّیوں کے ڈر سے اپنے اپنے بِلوں میں چھُپ جاتے ہیں۔کئی بار چُوہوں نے بِلّی کے گلے میں باندھنے کے لیے گھنٹی بھی تلاش کر لی تا کہ گھنٹی کی آواز سُن کر  بِلّی کی آمد سے سب چُو ہے خبر دار ہو جائیں اور اپنی جان بچا کر چھُپ جائیں۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی چُو ہا اتنا دلاور اور ہمت کے محیط کا شناور موجود نہیں جو اپنی جان پر کھیل کر بِلّی کے گلے میں گھنٹی باندھے۔اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ خون آشام بِلّیوں کے سامنے دُنیا بھر کے چُوہے بے بس ہیں۔بعض مفاد پرستوں نے اپنی ناکارہ  چیزوں کو فروخت کرنے کے لیے اُن کے ساتھ کچھ عمدہ چیزیں بھی سجا رکھی ہیں اور دونوں کو بہ یک وقت بیچنے پر مُصِر ہیں۔اونٹ کے گلے میں بِلّی باندھنے کی یہ روش سادہ لوح لوگوں کو لُوٹنے کا ایک ظالمانہ ہتھکنڈہ ہے۔کئی بِلّیاں جب اپنی لمبی عمر کے باعث چوہے پکڑنے کی طاقت نہیں رکھتیں تو مکر کا لبادہ اوڑھ کر چو ہوں سے پیمان وفا باندھ لیتی ہیں۔اس قماش کی ایک خوں خوار بِلّی ایک چوہے کو دبوچنے کے لیے جھپٹی تو چو ہے کی صرف دُم ہی بِلّی کے دانتوں میں آ  سکی اور چُو ہا  اپنی دُم کٹا کر وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔مکار بِلّی نے شکار کے بچ نکلنے پر نہایت عیاری سے مضروب چوہے سے مخاطب ہو کر کہا :

’’اے میرے پیارے چوہے !میں تو صرف تمھاری پیاری،لمبی اور حسین دُم کا بوسہ لے رہی تھی۔تم نے زور لگا یا اور تمھاری دُم کٹ کر میرے منہ میں رہ گئی اور تُم لنڈورے ہو گئے ہو۔ تمھاری یہ دُم میرے پاس امانت ہے اور میں امانت میں خیانت کے سخت خلاف ہوں۔اب جلدی سے میرے پاس آ جاؤ تاکہ میں یہ کٹی ہوئی دُم پھر سے لگا کر تمھیں حسین و جمیل بنا دوں اور تمھیں لنڈورا ہونے کے عیب سے بچاؤں۔آ جاؤ میری چاہتوں کے امین چہیتے چوہے۔‘‘

چُو ہا جو پہلے ہی بِلّی کا ستم سہہ چُکا تھا نہایت رُکھائی سے بولا ’’بخشو بی بِلّی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔‘‘

بِلّیوں کی زندگی میں متعدد نشیب و فراز دیکھنے میں آئے ہیں۔ باگڑ بِلّوں اور بِلّیوں میں جب ذاتی مفادات کی بنا پر خانہ جنگی چھِڑ جاتی ہے اور ان کی کھٹ پٹ حد سے بڑھ جاتی ہے تو جھٹ پٹ کوئی نہ کوئی طالع آزما اور مہم جُو لنگور ان بد قسمت بِلّیوں کے حالات سُلجھانے کے لیے از خود میدان میں کُود پڑتا ہے۔جب دو بِلّیاں ایک روٹی پر جھگڑ رہی ہوتی ہیں یہ لنگور ان کی مصالحت کی آڑ میں ترازو ہاتھ میں تھام لیتا ہے اور اس قدر سفاکی اوربے  دردی سے ڈنڈی مارتا ہے کہ بِلّیاں بِلبِلا اُٹھتی ہیں۔ لنگور کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ جاتی ہیں۔جب ان کی آنکھ کھُلتی ہے تو پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چُکا ہوتا ہے۔یہ بے رحم لنگور سب روٹیاں چٹ کر جاتا ہے اور بِلّیاں آنکھیں اور ہاتھ ملتی رہ جاتی ہیں۔اس کے بعد ان بِلّیوں کی جو شامت آتی ہے ا ور جس طرح ان کی درگت بنتی ہے وہ جہاں ان کی باہمی چپقلش کاشاخسانہ ہے بل کہ دیکھنے والوں کے لیے عبرت کا تازیانہ بھی ہے۔گردشِ حالات کی گرفتِ تپاں سے اپنی ساعدِ نازک کون بچا سکتا ہے۔سیلِ زماں کے تھپیڑے سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔شاہراہوں پر صدیوں سے مبہوت کھڑے بُور لدے چھتنار زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے سائے میں کتنے جان دار پیمانۂ عمر بھر گئے۔اشک بار زمانے ساعت بہار کا نذرانہ لے کر  بالآخر بیت جاتے ہیں۔زندگی کی بو قلمونی کو دیکھ کر میں گُم صُم بیٹھا یہ سوچتا ہوں کہ یہ کیا معما ہے کہ ہمارے ہو نٹوں سے مرجھائی ہوئی موجِ تبسم بھی دور زماں کی کروٹ کے باعث خیال و خواب بن کر رہ گئی ہے۔سمے کے سم کے ثمر نے حالات کو ایسی نہج تک پہنچا دیا ہے کہ گُنبدِ دِل میں  ایّام گُزشتہ کی درخشاں اقدار و روایات کی باز گشت یا گونج بالکل سنائی نہیں دیتی۔ایسا محسو س ہوتا ہے کہ سگانِ راہ نے چوروں کے ساتھ ساز باز کررکھی ہے اور بِلّیاں بھی اب چُوہوں کے ساتھ مِل کر اِنسانوں کے در پئے آزار ہیں۔ بِلّیاں ایک عفریت کے ما نند ہمارے معاشرے میں ہراساں شب و روز پید کر رہی ہیں۔آج وقت کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ فصیلِ دِل سے موہوم خدشات اور آبادیوں سے بِلیوں اور بَلیات سے نجات دلائی جائے۔ہمیں اس حقیقت کو کبھی  فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ شام و سحر کے سفینے سیلِ زماں کی تند و تیز موجوں میں خس و خاشاک کے ما نند بہہ جاتے ہیں اور یہ انگارۂ خاکی زیر زمیں چلا جاتا ہے۔اجل کی آہٹ یہی پیغام دیتی ہے۔معاشرتی زندگی سے احساسِ زیاں عنقا ہونے کے بعد  ہر بو لہوس نے حُسن پرستی شعار کر رکھی ہے۔بَل بَل جائیں ان کی ڈھٹائی پر کہ زُلفِ جاناں کی بلائیں لینے کی دھُن میں مگن یہ خفاش منش کور مغزاس حقیقت سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنا لیتے ہیں کہ کئی بلائیں اُن کے تعاقب میں ہیں۔ایسے چُوہے جو بُور  لدے چھتناروں کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے بعد پنے بِل میں چھُپ  جاتے ہیں،اس بات سے بے خبر ہیں کہ کوئی بِلّی اُن کی تاک میں ہے۔

اضطرابِ مُسلسل کی خونچکاں گھڑیوں میں جب بِلّیوں کی آواز سنائی دیتی ہے تو دل دھک سے رہ جاتا ہے۔خندہ فرشانِ حیات کی بے حسی نے زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں۔گھٹا ٹوپ تاریک راتوں اور مہیب طو فانی بگولوں میں سہمی ہوئی زندگی پکارتی ہے کہ ڈوبتی ہوئی اقدار و روایات کی ظلمتِ  بے پایاں میں بِلّیوں اور باگڑ بِلّوں کو کھُل کھیلنے کا موقع نہ دیا جائے۔گزر گاہِ جہاں کے آبلہ پا مسافروں کو بِلّیوں کے راستہ کاٹنے سے ہراساں نہیں ہو نا چاہیے۔باگڑ بِلّوں اور بِلّیوں کے کٹھور ماتھوں کی کرخت شکنوں سے دل برداشتہ نہ ہوں۔خیابانِ گُل کی ہر شاخ پر طائران خوش نوا زمزمہ پرداز ہیں۔زندگی کے کئی مظاہر ایسے بھی ہیں جو ہمیں متوجہ کرتے ہیں۔کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ بھُوک اور پیاس سے بے حال کوئی فاختہ زندگی کے سفر کے درماندہ راہ گیروں کے پاؤں پڑنے کے لیے آگے بڑھتی ہے۔اس مضمحل طائر  کی بے بال و پر کیفیت  دیکھ کر دلِ لخت لخت کو جمع کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔خون آشام بِلیوں اور باگڑ بِلّوں نے تو زندگی کو مقدروں کے دھوئیں میں اس طرح جھونک دیا ہے کہ کسی کو کچھ ہوش ہی نہیں رہا۔زندگی دہائی دیتی رہ جاتی ہے کہ دمِ واپسیں پر میری طرف ایک نگاہ ڈالتے جاؤ۔چھت پر بِلّیاں ایک دوسری پر جھپٹ رہی ہیں اور اُن کے شور میں کچھ سنائی نہیں دیتا۔ اس معاملے کا تعلق ما بعد الطبعیات سے ہے کہ اگلے لمحے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی زینۂ ہستی سے اُتر گیا۔طلسمِ زیاں کے جھمیلوں میں اُلجھ کر وہم و گُماں کے سلسلوں نے ہماری سوچ کے زاویوں کو بدل دیا ہے۔ہم سرابوں میں بھٹک رہے ہیں، بے سرو پا توہمات کے اسیر ہیں اور بِلّیوں کا موہوم خوف ہمارے اعصاب پر مسلط ہو چکا ہے۔ہمیں صرف قادرِ  مطلق سے ڈرنا چاہیے جو ہمارے اختیار پر پہرے بٹھانے پر قادر ہے اور ضمیر کے بھیدوں سے بھی آگا ہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

          ٹُلّا عطائی: خاک اُڑتی ہوئی دیکھی ہے خراباتوں میں

 

 

زمیں ٹُلّوں سے خالی ہو رہی ہے

یہ رنگِ  آسماں ہر دِل کوبھائے

عادی دروغ گو اور جیّد جاہل متفنی ٹُلّا عطائی گزشتہ شب کثرت مے نوشی کے باعث ہلاک ہو گیا۔اپنے پسندیدہ لوگوں کے بارے میں لکھنا اور اُن کی تعریف میں زمین آسمان کے قُلابے ملانا اب اہلِ قلم کا وتیرہ بن گیا ہے۔مدلل مداحی نے اب ایک وبا کی صورت اختیار کر لی ہے جسے دیکھو وہ کاہ کو اپنے زورِ قلم سے کوہ ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے لیکن کوئی ادیب ایسا نہیں جو مردودِ خلائق اور ننگِ  زمانہ غیبت طراز اور مُوذی و مکار درندوں کے بارے میں کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اُن کا کچا چٹھا پیش کرے اور ان کے بارے میں تمام حقائق کی گرہ کشائی کر کے عبرت سرائے دہر میں ان کی ایذا رسانیوں، لذتِ ایذا کی قباحتوں اور فتنہ سامانیوں سے لوگوں کو متنبہ کرے۔ مشکوک نسب کے ایسے بد اندیش، کفن چور،سفلہ،سفہا اور اجلاف و ارذال کرگس زادے بے بس و لاچار انسانیت  پر جو کوہِ ستم توڑتے ہیں اُس سے آہیں بے اثر،بستیاں  پُر خطر،آبادیاں خوں میں تر،زندگیاں مختصر اور گلشنِ زیست کی تمام رُتیں ہی بے ثمر ہو کر رہ گئی ہیں۔ٹُلّا عطائی اس رو بہ زوال معاشرے میں جنسی جنون،خوف و دہشت،ذلت و تخریب،مکر و فریب،جہالت،چربہ سازی،جعل سازی کفن دُزدی،بے غیرتی،بے ضمیری، بے توفیقی،بے برکتی،بے حیائی،بد دیانتی اور خست و خجالت کی علامت تھا۔ اُس کی جسارت سارقانہ کے باعث اکثر ادیب اُس کا نام سُنتے ہی لا حول پڑھتے اور سوچتے نا معلوم قادرِمطلق نے اس فرعون کی مدت کو کیوں بڑ ھا رکھا ہے؟ اُس کی موت نے اہلِ درد کے دل میں چراغِ تمنا کے فروزاں ہونے کو یقینی بنا دیا ہے۔زمین کا بوجھ کچھ ہلکا ہو گیا ہے اور ایک ننگِ وجود بالآخردنیا سے منہ کی کھا کر گور میں منہ کے بل گرا،  درندگی اور شرمندگی سے لبریز زندگی سے منہ موڑ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ ایک بگلا بھگت،جو فروش گندم نما، مفت خور لیموں نچوڑ،ابن الوقت اور مارِآستین سے اہلِ عالم کو نجات مل گئی۔دنیا بھر کے مہذب معاشروں  میں ایسے گندے انڈوں،سفید کووں،کالی بھیڑوں اور گندی مچھلیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے سخت جد و جہد کی جاتی ہے۔ہمارے ساتھ المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے ہاں ایسے جہلا کو ان کی جہالت کا انعام مل جاتا ہے،وقت کے ایسے سانحات کو کس نام سے تعبیر کیا جائے۔

ٹُلّا عطائی ایک مثنیٰ، عقل و خرد،ذہن و ذکاوت اور فہم و ادراک سے یکسر تہی مسخرا تھا جوتھو تھا چنا باجے گھنا کی قبیح مثال تھا۔اپنے ذہنی افلاس اور کوتاہ اندیشی کے با وجود وہ رواقیت کا داعی بن کر ہر وقت اہلِ کمال کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف رہتا اور اُس کے ساتا روہن صبح و مسا اس کے سامنے دُم ہلا کر اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے۔ دنیا بھر میں جب بھی کسی معاشرے پر اُس کی بے حسی کے باعث پھٹکار پڑتی ہے تو وہاں سلطانیء جمہور کی بساط لپیٹ جاتی ہے،ا س کے بعد بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والو ں،پنا اُلّو سیدھا کرنے والوں اور مجبور وں کے چام کے دام چلانے والوں کو کھُل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔زاغ و زغن اس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور عقابوں کے نشیمن میں گھُس جاتے ہیں۔ وقت کا ایک المیہ یہ ہوا کہ شاہی محلے کا مکین راسپوٹین قماش کا ٹُلّا عطائی بھی اپنے خاندان کی خواتین کو سیڑھی بنا کر درِ کسریٰ پر صدا کر کے اور قصرِ شاہی کے کھنڈرات کی چو کھٹ پر ناک رگڑنے کے بعد جاہ و منصب کی ایک من پسند چوٹی تک پہنچنے میں کام یاب ہو گیا۔ یہ خذف جسے ہیرا منڈی کی موری میں بھی لوگ حقارت سے دیکھ کر اس سے اُٹھنے والی عفونت اور سڑاند کے باعث تھُوک دیتے تھے، وہ بونا مقتدر حلقوں کی بیساکھیوں کے بل پر خود کو باون گزا سمجھنے لگا۔کالے دھن اور جاہ و منصب کے نشے میں دھت یہ ابن الوقت اپنے تئیں الماس سمجھ کر بے بس و لاچار انسانوں کو وقفِ یاس کر نے لگا۔ اس مخبوط الحواس،فاتر العقل اور شراب و شباب کے دیوانے سٹھیائے ہوئے گُرگ کی بے بصری اور کو ر مغزی کا یہ عالم تھا کہ جب ضعیفی کے دنوں میں یہ اپنی زندگی کی ستر خزائیں دیکھ چُکا تھا،یہ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا،پریوں کا اکھاڑا سجاتااور اس میں راجا اِندر بن کر خوب ہنہناتا۔ گُلشن میں جب بھی کوئی کلی یا شگوفہ نیا کھلتا،ٹُلّا عطائی خارِ مغیلاں بن جاتا اور اُس کی تازگی اور باس کو نگل جاتا۔اگر کوئی شخص اس بُزِ اخفش کے گھناونے کردار پر تنقید کرتا تو یہ عف عف کرتا ہوا اُس پر ٹُوٹ پڑتا اور اُسے کاٹنے کو دوڑتا۔

جامۂ ابو جہل میں ملبوس ٹُلّا عطائی اہلِ  علم و دانش کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتا۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں اقدار و روایات کی زبوں حالی نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔بے حسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ یہاں ہر چیز کی قیمت مقرر ہے اور ہر چیز کو بکاؤ مال بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔علم کے شعبے میں کساد بازاری نے اس قدر تکلیف دہ صورت اختیار کر لی ہے کہ ہر قارون بڑی سے بڑی ڈگری دنیا کی کسی جامعہ سے خرید کر فرعون بن جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں پرائمری میں فیل ہونے کے بعد ٹلّاعطائی گھر سے بھا گ نکلا اور اپنے بھاگ سنوارنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا جن میں چوری،سمگلنگ،منشیات فروشی،بردہ فروشی،بھتہ خوری اور دہشت گردی شامل ہے۔ فنونِ لطیفہ،ادب اور فلسفہ کے شعبوں میں ٹُلّا عطائی خو د کو عقلِ  کُل سمجھتا اور ہر وقت اپنے منہ میاں مٹھو بنا ٹیں ٹیں کر تا رہتا۔اس کی بیوی ثباتی بھی خودستائی میں اس سے کم نہ تھی۔وہ اپنا شجرہ نسب عہد مغلیہ کے شاہی خاندان سے ملاتی اور بڑے فخر سے بتاتی کہ مغل شہنشاہ جہاں دار شاہ کی ملکہ لال کنور اُس کی پردادی تھی۔ٹُلّا عطائی خود کو لال کنور کے چچا زاد بھائی نعمت خان کلاونت کو اپنا پردادا بتاتا۔یہ دونوں میاں بیوی اپنا شجرۂ نسب کھینچ تان کر چنگیز خان اور ہلاکو خان سے ملاتے اور اس پر اس قدر غرور کرتے کہ پھُول کر کُپا ہو جاتے۔

چُو لستان میں مقیم خود ساختہ محقق سدا بنجر کی غیر مطبوعہ کتاب ’’اُردو کے ان پڑھ نثر نگار ‘‘میں ٹُلّا عطائی کا ذکر موجود ہے۔اس کتاب کا مخطوطہ ردی فروش رنگو کباڑیا کے پاس موجود ہے۔تحقیق اور تنقید کے مسلمہ معائر سے قطع نظر یہ کتاب اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ اس میں کئی جہلا کی جعل سازی اور مکر کو طشت از بام کیا گیا ہے۔سدا بنجر نے ٹُلّا عطائی کے ساتھ اپنی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’مجھے معلوم ہوا کہ ٹُلّا عطائی خود کو عالمی ادبیات کا نباض سمجھتا ہے اور قدیم و جدید دور کے مصنفین کی حیات اور اسلوب پر اُس کی بات کو لوگ مستند سمجھتے ہیں۔اسی خیال سے میں نے اُس سے ملنے کی کوشش کی اور چاہا کہ وی آنا آسٹریا میں جنم لینے والے ادیب کارل پاپر (Karl Popper)جس کا عرصہ حیات پیدائش اٹھائیس جولائی انیس سو دو اور وفات سترہ ستمبرانیس سو چورانوے  (لندن)ہے کی زندگی اور ادبی خدمات پر گفتگو کی جائے۔ کارل پاپر کی خود نوشت (Unended Quest)کو بے پناہ مقبولیت نصیب ہوئی۔ٹُلا عطائی شہرت اور خود نمائی کا بھُوکاتھا،جوں ہی میں نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اُ س نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،فی الفور مجھے ملنے اور انٹرویو کر نے کے لیے بُلا لیا۔جب میں اُس نا ہنجار کے کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کلین شیو خضاب آلود بُڈھا کھوسٹ تھری پیس سُوٹ پہنے، ٹائی لگائے،موٹے شیشیوں کی عینک ناک پر دھرے،ہاتھ کی اُنگلیوں میں ہیرے جواہرات کی انگوٹھیاں ٹھونسے ایک گھومنے والی کُرسی میں دھنسا تھا۔ وہ بیس کے قریب حسین و جمیل نیم عریاں دوشیزاؤں کے جھُرمٹ میں بیٹھا ہنہنا رہا تھا۔اُس کی اہلیہ ثباتی ساقی بن کر سب حسیناؤں کو مے گلفام سے سیراب کر رہی تھی۔سب مست بندِ قبا کھولے شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر قہقہے لگا رہے تھے۔مجھے دیکھتے ہی ثباتی نے میز پر رکھا ایک لوہے کا پیمانہ زور سے اپنے شوہر کی پیٹھ پر رسید کیا اور اُسے میری آمد کا احساس دلایا۔ایک منہ زور حسینہ نے اُسے گھونسہ مارا۔اس اچانک وار سے ٹُلّا عطائی قدرے سنبھلااور کفن پھاڑ کر بولا :

’’ اچھا توتم آ ہی گئے۔میں تو لوگوں کو لاکھ بلاتا ہوں لیکن کوئی میرے پاس نہیں آتا اس دیار میں میری زبان سمجھنے والا کوئی نہیں۔اب جلدی سے تم انٹرویو شروع کرو جیسا کہ تم دیکھ ر ہے ہو آج  میں بے حد مصروف ہوں، ان لڑکیوں کو میں نے کتھک رقص کی تربیت دینی ہے اور دیپک راگ سکھانا۔اس دوران  رقصِ  مے بھی تیزی سے جاری رہے گا۔خیر تم سوال کرو لیکن کچھ میرا بھی خیال کرو‘‘

میں نے کہا’’کچھ کارل پاپر کے بارے میں بتائیں ‘‘

’’ہا ہا ہا۔۔۔۔‘‘  ٹُلّا عطائی اپنی باچھیں کھول کر کھلکھلا کر ہنسنے لگا  اُس کے پیلے دانت اور کالی زبان صاف نظر آ رہی تھی۔وہ یوں ہرزہ سرا ہوا ’’کیا کہا اونہہ! سب بے کار باتیں ہیں۔کارل پاپر !یہ لفظ ہے کھا رَل پاپڑ ۔تم اس وقت دنیا کے سب سے بڑے ماہر لسانیات اور فلسفی سے مخاطب ہو۔یہ تو صاف ظاہر ہے کہ ’’کھا رَل پاپڑ‘‘ پنجابی زبان کا لفظ ہے جس میں لفظ رَل کا مطلب ہے مِل جُل کر۔اب سمجھے یہ دعوت ہے کہ کھا رَل پاپڑ۔پاپڑ کئی قسم کے ہوتے ہیں لیکن سب پاپڑ بہت کرارے ہوتے ہیں۔اس لیے میرا دوست ہمیشہ یہی کہتا کھا رَل پاپڑ۔وہ سب کے ساتھ رَل کے پاپڑ کھاتا تھا اس لیے کھا رَل پاپڑ اُس کا عرف بن گیا۔آج بھی جب اُس کی یاد آتی ہے تو کرارے پاپڑ یاد آتے ہیں اور آنتیں بل کھانے لگتی ہیں جس کی وجہ سے میں بلبلا اُٹھتا ہوں۔‘‘

ثباتی بولی ’’ہاں کھا رَل پاپڑ! میرے تو منہ میں پانی بھر آیا ہے۔یہ ادیب ہمارے ساتھ رَل مِل کے پاپڑ کھایا کرتا تھا۔میں پاپڑ تیل میں تلتی اور وہ کہتا اب آ اور میرے ساتھ کھا رَل پاپڑ۔میں شرماتی لجاتی کہتی ہاں کھا رَل پاپڑ اور پھر ہم سب مِل کر پاپڑ کھاتے۔ وہ ادیب کب تھا،اُس نے جو کچھ لکھا وہ سب میرے شو ہر سے سیکھا۔ہمارے ساتھ رَل کے پاپڑ کھاتے کھاتے وہ لکھنا سیکھ گیا۔وہ عجیب مانوس اجنبی تھا جو ہم سب کو حیران و پریشان کر گیا۔ اس دنیا کے آئینہ خانے میں وہ ہم سب کو تماشا بنا گیا۔مجھے اب تک یاد ہے وہ جاتے وقت میری تعریف کرتے ہوئے بلند آواز میں کہتا ’’پاپڑ کرارے !کھا رَل پاپڑ۔‘‘

میں سمجھ گیا کہ میاں بیوی دونوں مثنیٰ اور تہی ہیں اس لیے میں نے اگلا سوال کیا ’’کارل پاپر کی خود نوشت Unended Questکے بارے میں کچھ بتائیں۔‘‘

’’میری بات کان کھول کر سُن لو ‘‘  ٹُلّا عطائی اپنے منہ سے بہنے والے جھاگ کو اپنی آستین سے صاف کرتے ہوئے غرّایا’’ تم  میرے سامنے مسلسل غلط لفظ استعما ل کر رہے اور میرے صبر کا امتحان لے رہے ہو۔ایک بار سمجھا دیا ہے کہ یہ کھا رَل پاپڑ ہے مگر تم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہو اور مسلسل غلطی پر غلطی دہرا رہے ہو اور کارل پاپر کی رٹ لگارکھی ہے۔اب ایک اور غلطی کر رہے ہو جس کتاب کا تم نے ابھی ذکر کیا ہے وہ در اصل Unended Requestہے۔میری کتاب ’’کدے نہ مُکدی کھچ کھبیڑ ‘‘کا  ترجمہ ہے۔میری کتاب کا مسودہ میری اہلیہ نے ایک ردی فروش کے ہاتھ بیچ دیا،اُسی کو کھا رل پاپڑ نے انگریزی کے قالب میں ڈھالا ہے۔میرے جیسے سبز قدم لوگ جن کے دم سے گلشن میں ہریالی ہے اور ہر شاخ پر بُوم اور شپر کا بسیرا ہے،ان باتوں سے مایوس نہیں ہوتے۔ہمیں معلوم ہے کہ اس قسم کے حادثات اب معمول بن گئے ہیں۔

’’  میں اور ٹُلا عطائی آپس میں اکثر جھگڑا کرتے رہتے ‘‘ثباتی نے اپنے میلے دانت پیستے ہوئے کہا ’’ہماری باہمی رنجش،لڑائی جھگڑے اور تُو تکار میں جب بہت شدت آ جاتی تو ٹُلّا عطائی اپنا غصہ دور کرنے کے لیے وہ سب مکالمات،طعنے، کٹ حُجتیاں اور غیظ و غضب کے تاثرات لکھ لیتا جو ہمارے درمیان ہوتے تھے۔اس کے بعد وہ مجھ سے درخواست کرتا کہ گھر میں حُسنِ اخلاق کا خیال رکھا جائے۔  ہمارا جھگڑا سدا جاری رہتا اور یہ درخواست کبھی ختم نہ ہوتی۔کتاب ’’کدے نہ مُکدی کھچ کھبیڑ ‘‘چھیڑ خوباں کی ایک مثال بن گئی۔ میں جب بھی دیکھتی ٹُلاّ عطائی اس کتاب کے مسودے پر سر کے بل گرا ہوتا۔وہ مجھ پر کم توجہ دیتا اور ہر وقت اپنی یادداشتیں لکھنے میں لگا رہتا۔اپنی داشتاؤں کا ذکر وہ مزے لے لے کر کیا کرتا۔ حسد اور رقابت سے مجبور ہو کر ایک دن میں نے لکھے ہوئے تمام کاغذوں کا پلندہ ایک ردی خریدنے والے کے ہاتھ بیچ دیا اور اس کے بدلے پاپڑ کرارے خریدے۔اُس وقت یہ ادیب بھی موجود تھا میں نے کہا ’’کھا رَل پاپڑ ‘‘۔ اُس نے پاپڑ تو کھائے لیکن وہ موقع کی تاک میں تھا،اُسی وقت باہر لپکااورگلی میں گھومنے والے ردی فروش سے ’’کدے نہ مُکدی کھچ کھبیڑ ‘‘کا وہ مسودہ کوڑیوں کے مول ہتھیا لیا۔ اپنے شوہر کی کتاب ’’کدے نہ مُکدی کھچ کھبیڑ ‘‘ کا کام میں نے ہی تمام کیا۔یہ کتاب چَھپ تو نہ سکی البتہ یہ ہمیشہ کے لیے چھُپ گئی اب کون جانتا ہے کہ ٹُلّا عطائی جو طرزِ دغا ایجاد کرتا ہے کھنڈرات میں وہی بعد میں طرزِ ادا ٹھہرتی ہے۔‘‘

’’یہ سب راز کی باتیں ہیں ‘‘   ٹُلّا عطائی اپنے سر پر دھری خچر کے بالوں کی وِگ سہلاتے ہوئے بولا ’’اَنگ لینڈ اور فائر لینڈ میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ کئی ادیبوں نے میرے مسودات پر ہاتھ صاف کیے۔میں نے دنیا دیکھی ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔میری باتیں سن کر لوگ شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں اور اکثر مجھے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ میں چُلّو میں پانی بھر کر اس میں غواصی کروں اور گھونگھے نکال کر لاؤں لیکن یہ میرے قتل کی سازش ہے۔میں چُلّو بھر پانی میں کیوں ڈُوب مروں ؟میں حاسدوں کی چھاتی پر اسی طرح مونگ دلتا رہوں گا اور چربہ،سرقہ اور خود نمائی کے بل پر چلتا رہوں گا۔‘‘

’’یہ بات بالکل درست ہے۔‘‘ثباتی نے اپنی چمگادڑ جیسی آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا’’ہمارے ہاں جو بھی لکھاری آتا ہے ہم اُسے ٹانگری،الائچی دانہ، دال سیویاں،پکوڑے،مرغی کے پنجے اور پاپڑ کرارے ضرور کھلاتے ہیں۔یہ سب کچھ کھانے کے بعد مہمان لکھاری اپنی اُنگلیاں صاف کرنے کے لیے میز پر رکھے وہ کاغذ اُٹھا لیتے ہیں جن پر ٹُلّا عطائی تخلیقی کام مکمل کر چکا ہوتا ہے۔ان کاغذات سے ہاتھ صاف کرنے کے بعد وہ انھیں کُوڑے میں پھینک دیتے ہیں۔ٹُلّا عطائی اب تک منوں کاغذ کالے کر چُکا ہے لیکن اسے کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ٹُلّا عطائی یوں ہی خوار و زبوں ہے کوئی پُوچھتا نہیں۔‘‘

’’مہمانوں کا یہ کام تو ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہے ۔‘‘میں نے کہا ’’یہ اَنگ لینڈ اور فائر لینڈ کیا ہیں ؟‘‘

’’عالمی جغرافیے سے اس قدر لاعلمی !‘‘   ٹُلّا عطائی دولتیاں جھاڑتے ہوئے کہنے لگا ’’اَنگ لینڈ ایک عجیب پُر اسرار ملک ہے۔کوہ قاف کے دامن میں واقع یہ پا زمین کئی صدیوں سے نا معلوم تھی۔لوگ کسی ملک کو سر زمین کہتے ہیں جو غلط ہے بھلا کوئی زمین پر سر کیسے رکھ سکتا ہے یہ لفظ پا زمین ہوتا ہے۔ظاہر ہے کہ ہر شخص زمین پر پاؤں ہی دھرتا ہے۔اس پا زمین کے ہر گاؤں میں پریوں،چڑیلوں اور بھوتوں کا مسکن ہے۔ یہاں کی مافوق الفطرت مخلوق کے اَنگ اَنگ میں مستی رچ بس گئی ہے،میں اس دنیا کا کو لمبس ہوں۔ میں نے مارکو پولو اور واسکوڈے گاما  سے بھی زیادہ سیاحت کی ہے۔طُو لی اور عرضی شاعری کی ہے اکثر شاعر کہتے ہیں کہ عرض کیا ہے لیکن میں کہتا ہوں طُول کیا ہے ؟یہ میری طرزِ خاص ہے جس کا میں موجد بھی ہوں اور خاتم بھی۔ میں ہر بحر کا سفر کر چُکا ہوں۔خاص طور پر بحرِ منجمد شمالی اور بحرِ منجمد جنوبی میں میری شاعری کا کوئی حریف نہیں۔ علمِ عروض اور علمِ طُول  میں مہارت کے باعث میں نے سب پر قافیہ تنگ کر رکھا ہے۔ایک گیت کا شعر طُول کیا ہے :

ساڈے اَنگ اَنگ وچ پیار نے پینگاں پائیاں نیں

اساں دنیا تو چوری چوری اکھیاں لائیاں نیں

ترجمہ :     ہمارے ریشے ریشے پر عشق نے پینگ چڑھائی ہے

ہم نے دنیا سے چھُپ کر ساجن سے آنکھ لڑائی ہے

اَنگ لینڈ اور فائر لینڈ کے ہر مشاعرے میں مجھے بلایا جاتا۔ہر شخص یہ کہتا کہ اس وقت ٹُلّا عطائی ہی وہ شُوم ہے جس کی ہر طرف دھُوم ہے۔ عشق میں میری دیوانگی کو دیکھتے ہوئے یہ بات ہر شخص کی نوکِ زباں تھی کہ ٹُلّا عطائی ایسا بُوم ہے جس سے معقولیت کی توقع معدوم ہے۔ دو شعر طُو ل کیے ہیں :

کٹی ہے زیست مشاعروں کے روگ میں ٹُلّا

میری لحد پہ اُڑے رائیگاں عذاب کی دھُول

ٹُلّا بھی ٹُلّے کا نہیں ہے شناسا

تھر کے صحرا میں پھرتا ہے پیاسا

میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس خبطی کے دماغ کا خانہ بالکل خالی ہے۔میں نے ایک اور سوال کیا ’’یہ فائر لینڈ کیا ہے ؟‘‘

’’ اُف !بین الاقوامی حالات اور تاریخی و جغرافیائی حقائق سے اس قدر لا علمی ناقابلِ برداشت ہے۔‘‘ٹُلّا عطائی شراب کا گلاس چڑھاتے ہوئے بولا ’’ تعلیم کا بہت بُرا حال ہے،سب کچھ بے کار ہے۔اتنی بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ بحرِ منجمد شمالی کی سر حدیں بحرِ منجمد جنوبی کے ساتھ مِلی ہیں۔ان دو سمندروں کے درمیان فائر لینڈ واقع ہے فا ئر لینڈ میں ایک جزیرۂ جہلا ہے۔فائر لینڈ کی ملٹری کا نام فائر بریگیڈ ہے،جس کے دستے دنیا کے تمام ممالک میں تعینات ہیں۔جزیرۂ جہلا میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مجھے طویل عرصہ رہنے کا موقع ملا۔جزیرۂ جہلا کے باشندے ہمیں اپنا ہیرو اور سردارسمجھتے تھے۔اُس عہدِ ستم کی یاد نے مجھے اکثر ملول کیا ہے ایک شعر طُول کیا ہے:

جام ہر موج میں ہے حلقۂ سد دام تفنگ

دیکھیں کیا گُزرے ہے خطرے پہ کُہر ہونے تک

ٹُلّا عطائی یورپ اور اہلِ یورپ کے تخلیق کاروں کے بارے میں جو بے سرو پا باتیں کر رہا تھا وہ اُس کی کم علمی کور مغزی اور ہذیان کی مظہر تھیں۔معاً میرے دل میں خیال آیا کہ کسی اور ادیب کے بارے میں دریافت کیا جائے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ نئے موضوع پر کوئی دُور کی کوڑی لائے۔اس لیے میں نے آسٹریا ہنگری کے ممتاز شاعر اور ناول نگار رینر ماریا رِلکے(Rainer Maria Rilke)کے بارے میں پُوچھنے کا فیصلہ کیا۔چار دسمبر اٹھارہ سو پچھتر کو آسٹریا ہنگری میں جنم لینے والے اس ادیب نے پوری دنیا میں اپنی شاعری،ناول نگاری اور تخلیقی کامرانیوں کی دھا ک بٹھا دی۔ رِل کے انتیس دسمبر انیس سو چھبیس کو راہیِ ملک عدم ہوا اور سو ئٹزر لینڈ میں آسودۂ خاک ہے۔میں نے ٹُلّا عطائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :

’’اب کچھ باتیں رینر ماریا رِل کے کی شخصیت اور اسلوب کے بارے میں ہو جائیں۔‘‘

’’یہ میں کیا سُن رہا ہوں ؟‘‘  ٹُلّا عطائی اُنگلی سے ناک صاف کرتے ہوئے بُڑ بُڑ ایا ’’سو بار کہا ہے کہ میں دنیا کا سب سے بڑا ماہر لسانیات ہوں۔بڑے بڑے فلسفی میرے آگے پانی بھرتے پھرتے ہیں میری موجودگی میں کم از کم ادیبوں کے نام تو ٹھیک سے ادا کر و،میرے بعد بے شک من مانی کرتے پھرنا۔ میری بات گِرہ میں باندھ لو یہ نام ہے رَل کے۔پنجابی زبان کے اس لفظ کا مطلب ہے مِل کر۔ جس زمانے میں میری تعلیم کرگس انسٹی ٹیوٹ میں جاری تھی،میں رَل کے سے مسلسل رابطے میں رہا اور اُسے کئی مفید مشورے بھی دئیے۔وہ میری باتوں کو ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکال دیتا،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت مصروف آدمی تھا۔ہم نے رَ ل کے ادبی کام کیے،رَل کے کھانا کھایا۔وہ میرے پاس  میرے گھر ’’ جھوک فنا دی‘‘ میں کئی بار آیا اور ہم نے رَل کے اچھا وقت گزارا۔جب رَل کے اپنے آخری سفر پر روانہ ہونے لگا تو اُس نے مجھے بھی کہا کہ چلو رَل کے عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھتے ہیں۔ پہلے تو میں نے بھی قریبی دوستوں کے پُر زور اصرار پر اس کے ساتھ راہیِ ملک عدم ہونے پر آمادگی ظاہر کی لیکن بعد میں ثباتی کی ضد پر اپنی علمی اور ادبی مصروفیات کے بہانے اس کے ساتھ رَل کے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔اب اس نے تو بہت دُور اپنی بستی بسا لی ہے اب میں اور ثباتی دونوں رَل کے اس کی یاد میں مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور بیتے دنوں کو یاد کر کے رَ ل کے سوگ مناتے ہیں۔اس کا تکیہ کلام ہی رَل کے تھا۔جب بھی کسی سے مخاطب ہوتا یہی کہتا آؤ سب رَ ل کے یہ کام کریں۔‘‘

’’  وہ کئی بار ہمارے گھر آیا ‘‘ ثباتی نے کہا ’’ہمارے ساتھ رَل کے اس نے پاپڑ کرارے کھائے۔ایک مرتبہ تو کھا رَل پاپڑ بھی موجود تھا۔میرے ہاتھ کے بنے ہوئے پاپڑ سب کو پسند تھے۔ مجھے بُری طرح یہ بات یاد آتی ہے کہ ایک مرتبہ ٹُلّا عطائی مہمانوں کا سامان ہضم کر گیا اور وہ رَل کے اور ہاتھ مَل کے وہاں سے رُخصت ہوئے۔ ایک بار کھا رَل پاپڑ اور رَل کے اکٹھے ہمارے گھر آئے۔میرے شوہر کی شاعری انھیں بہت پسند تھی۔میری شاعری اور شخصیت کے وہ مداح تھے۔اس موقع پر میں نے یہ شعر کہے :

کھارَل پاپڑ رَل کے آئے

ٹُلّا اب  پھُولا نہ سمائے

بغلیں جھانکے،ناک کھجائے

سر کا گنج اور وِگ سہلائے

دونوں میاں بیوی ذہنی افلاس کی آخری حدوں کو چھُو رہے تھے۔ اُن کی خرافات سن کر میں اُکتا گیا۔میں چاہتا تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو ان خفاش منش درندوں کے کذب اور مکر کا پردہ فاش کیا جائے۔اب میں نے ان جعلی ادیبوں سے اُردو کے کلاسیکی ادب کے بارے میں سوال پُوچھنے کا فیصلہ کیا۔میری نگاہِ انتخاب مرزا محمد رفیع سودا (پیدائش :1713وفات :1781) پر پڑی۔میں نے کہا:

’’اب کچھ مرزا محمد رفیع سودا کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں بات ہو جائے۔‘‘

’’بہت خوب ! پھر مجھے سوداء گھر یاد آیا،آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا کہ ابھی میں نے گھر کے لیے سودا بھی خریدنا ہے‘‘   ٹُلّا عطائی مثلِ خر اپنے کان ہلاتے ہوئے نتھنے پھیلا کر بولا ’’  ہم لوگ خاندانی رئیس ہیں میرا پردادا نعمت خان کلاونت تھا اور میری بیوی ثباتی کی پر دادی لال کنور جو پہلے دہلی کی مقبول رقاصہ اور طوائف تھی مگر بعد میں مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کی نگاہِ انتخاب کے باعث امتیاز محل کے نام سے ملکۂ ہند بنی وہ نعمت خان کلاونت کی چچا زاد بہن تھی۔شہر کے سب لوگ اس سے آگا ہ تھے۔ایک مر تبہ مر زامحمد رفیع اپنے گھر کے لیے بازار سے سودا سلف خرید کر لے کر جا رہا تھا کہ میرے پرداد نے سب کچھ اُچک لیا۔ سامان اور مال و دولت کو اُچک لینا میرے پردادا کا مشغلہ تھا۔اسی لیے سب لوگ اسے اچکا کہتے تھے۔اُس زمانے میں میرے پردادا کا سگا بھائی شیدی فولا د خان دہلی کا کوتوال تھا۔اس قسم کی وارداتیں روز کا معمول تھا لیکن کوئی بھی میرے پردادا کا بال بھی بیکا نہ کر سکا۔مرزا محمد رفیع سودا نے اس موضوع پر اپنے کرب کا اظہار ایک شعر میں کیا ہے:

اب جہاں دیکھو واں جھُمکا ہے

چور ہے ٹھگ ہے اُچکا ہے

’’مرزا محمد رفیع سودا کا شعر تو غلط نہ پڑھیں ‘‘میں نے اس فاتر العقل بُڈھے کو ٹوکتے ہوئے کہا ’’لفظ جھُمکا نہیں بل کہ جَھمکا ہے۔جھُمکا تو کانوں کی بالی کو کہتے ہیں جب کہ لفظ  جَھمکا کا مطلب ہے ہجوم یا انبوہ۔یہ ملاقات تو میرے لیے تضیعِ اوقات بنتی جا رہی ہے۔حیرت ہے ہر سوال کے جواب میں بے سرو پا باتیں کی جا رہی ہیں۔کوئی بات تو علم و ادب کی بھی ہونی چاہیے۔‘‘

’’بس کرو۔۔۔زیادہ عالم بننے کی کوشش نہ کرو ‘‘ثباتی نے کھا جانے والی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور تِلملاتے ہوئے کہا ’’یہ لفظ جھُمکا ہی ہے۔میری پردادی لال کنور کا جھُمکا بریلی کے بازار میں رقص کرتے ہوئے گِر پڑا تھا،یہ اُسی جانب اشارہ ہے۔وہ گیت تو تم نے یقیناً سُنا ہو گا۔آج ہم سب مِل کر اس گیت پر رقص کرتے ہیں۔یہ پُر سوز گیت سُن کر اور ہمارا رقص دیکھ کر تم سب کچھ سمجھ جاؤ گے۔یہ کہہ کر سب حسینائیں شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے محوِ رقص ہو گئیں۔ ٹُلّا عطائی ایک رقاصہ شعاع کی اُلجھی لٹ کو اپنی بد وضع اُنگلیوں سے سُلجھانے لگا۔ شعاع نامی ایک بھینگی اور بے سُری رقاصہ نے رقص نُما اُچھل کود شروع کردی اور اور بسوں میں گڑوی بجا کر بھیک مانگنے والی ڈُومنیوں کے انداز میں گلا پھاڑ کر اپنی کریہہ آواز میں یوں تان اُڑائی:

جھُمکا گِرا رے بریلی کے بازار میں

بگیا میں بلماں نے میری لٹ اُلجھی سُلجھائی

ڈھانپ کے آنچل بولے گوری تُو میرے من بھائی

آنکھ جھُکا کے کچھ نہ بولے دِھیرے سے مُسکائے

سئیاں نے جب چھیڑا مجھ کو ہو گئی ہاتھا پائی

پھر کیا ہوا

پھر جھُمکا گِرا رے ہم دونوں کی تکرار میں

ابھی وہ رذیل حرافہ شعاع گیت گا رہی تھی اور رقص کرتے ہوئے اس کے پاؤں تھرک رہے تھے کہ ٹُلّا عطائی خون آشام بھیڑئیے کی طرح شعاع پر جھپٹا اور اُسے اپنے بازوؤں میں دبوچ لیا۔دونوں عیاشوں میں سچ مچ ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔شعاع کو چھُڑانے کے لیے ثباتی اور دوسری رقاصائیں آگے بڑھیں اور اب ٹُلّا عطائی تڑ تڑ پیزاروں کی زد میں تھا۔ثباتی نے ایک بڑا سا ڈنڈا اُٹھایا اور اپنے شوہر کے سر پر دے مار ا۔وہ لڑ کھڑا کر گِرا اور بے سُدھ ہو گیا۔میں نے وہاں سے نکلنے ہی میں عافیت سمجھی۔اُس وقت کسی شاعر کا یہ شعر میرے ذہن میں گردش کر رہا تھا:

جب کہ دو مُوذیوں میں ہو کھٹ پٹ

اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ

سدا بنجر نے مندرجہ بالا سطور میں ٹُلّا عطائی کے بارے میں جو چشم کُشا واقعات بیان کیے ہیں وہ اپنی نوعیت کے اعتبارسے لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہیں۔ ٹُلّا عطائی سادہ لوح نہیں تھا بل کہ سادیت پسندی کے مہلک عارضے میں مبتلا ذہنی مریض تھا۔اپنے معاشرے اور سماج میں اس کی جہالت ہی اُ س کے لیے خجالت کا باعث بن گئی۔علم دشمنی اس کی گھُٹی میں پڑی تھی۔ذوقِ جمالیات اور ذوقِ سلیم سے عاری مشکوک نسب کے اس متفنی نے محض لذتِ ایذا حاصل کرنے کے لیے اس قدر بے دردی سے اہلِ کمال کی توہین،تذلیل،تضحیک اور بے توقیری کی کہ دنیا کے مہذب معاشرے میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔اس کی کینہ پروری اور سفلگی سے عاجز آ کر کئی زیرک تخلیق کار گوشہ نشین ہو گئے اور اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا۔ ٹُلّا عطائی جو کالا دھن کماتا رہا وہ زندگی کے آخری دنوں میں جوئے اور سٹے میں ہار گیا۔منشیات کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے وہ زندہ در گور ہو گیا۔جب میں نے آخری بار اُسے دیکھا تو وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چُکا تھا۔ اس کا سب کروفر خاک میں مِل چُکا تھا اور خیراتی ہسپتال سے اس کے لیے دوا منگوائی جاتی۔ اس چراغِ  آخرِ شب کو بالآخر بُجھنا ہی تھا۔ فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہوتی ہیں،وہاں دیر تو ہے لیکن اندھیر ہر گز نہیں۔اکثر لوگ کہتے تھے کہ ٹُلّا عطائی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ کر بات کرتا ہے جب اُس کا آخری وقت آیا تو اُس کی کرگسی آنکھیں مُند گئیں،اس کے بعد کسی نے اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا۔ہر فرعون اور نمرود کا یہی حشر ہوتا ہے۔ان کا نام و نشاں مٹ جاتا ہے اور اور وہ تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں۔ابلیس نژاد درندوں کو اپنی اوقات اور انجام کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

ٹُلّا عطائی اور اُس کی داستانِ حیات ہر دور میں عبرت کا تازیانہ ثابت ہو گی۔جب ٹُلّا عطائی اپنے انجام کو پہنچا تو کچھ عرصہ بعد بیوہ طوائف ثباتی اُس کا مکان اور سب جائداد اونے پونے داموں بیچ کر اپنے آبائی مسکن ہیرا منڈی کے ایک قحبہ خانے میں پہنچ گئی۔اُس وقت وہ  بُڑھاپے کی حدود میں داخل ہو چُکی تھی۔لوگ کہتے ہیں کہ طوائف کو تو جوانی ہی میں مر جانا چاہیے،طوائف کا بُڑھاپا اُ س کے لیے ایک عذاب اور نِرا سیاپا ہوتا ہے۔بُڑھاپے کے عالم میں ثباتی پر نگاہِ التفات ڈالنے والا کوئی نہ تھا۔نو خیز کلیوں،شگوفوں اور گُلِ تر کے شیدائی بھنورے رس چُوس کر لمبی اُڑان بھر چُکے تھے۔ستم بالائے ستم یہ کہ کوٹھے کے طوطا چشم مالک نے ثباتی سے اُس کی ساری جمع پُونجی اینٹھ لی اور اُسے ایسے نکالا جیسے دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے۔

وقت کی مثال بھی سیل رواں کی مہیب موجوں کی سی ہے۔جس طرح بہتا ہوا پانی کبھی پلٹ کر نہیں آ سکتابالکل اُسی طرح وقت بھی گزر جائے تو پھر کسی صورت میں واپس نہیں آتا۔سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو نیست و  نابُود کر کے خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔ کوئی شخص اپنی شدید تمنا،سخت جدو جہد اور زرِ کثیر صرف کرنے کے باوجود بہہ جانے والے آبِ رواں ا ور بِیت جانے والے لمحاتِ دوراں کے لمس سے دوبارہ کسی صورت میں فیض یاب نہیں ہو سکتا۔گرمیوں کی ایک سہ پہر میں اپنے دوست ارشد کے ہم راہ ہیر رانجھا کے مزار پر گیا۔اس قدیم ترین شہرِ خموشاں کے پُر اسرار آثار قدیمہ کو دیکھ کر نیرنگیِ تقدیر جہاں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔اچانک میر ی نگاہ ایک خستہ حال جوگن پر پڑی جس کے سامنے ایک کشکول رکھا تھا جس میں چند سکے پڑے تھے۔ وہ تباہ حال ضعیف بھکارن جس کے گرد و غبار میں اٹے ہوئے بال بکھرے ہوئے تھے،فرشِ زمین پر حسرت و یاس، بے بسی،بے چارگی اور محرومی کی تصویر بنی بیٹھی تھی۔ اُس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح مسلسل برس رہی تھیں۔میلے کُچیلے بوسیدہ اور پھٹے ہوئے چیتھڑوں میں ملبوس اس جوگن نے بھرائی ہوئی آواز میں صدا لگائی :

’’کوئی ہے جو مجھ فاقہ کش غریب بھکارن کی مدد کرے۔میں دو دن سے بھُوکی ہوں۔اس بھری دنیا میں اب میر ا کوئی پُرسانِ حال نہیں رہا۔‘‘

ارشد نے نہایت توجہ سے اس مفلوک الحال ضعیف، بیمار اور ناتواں بھکارن کے حلیے اور لہجے کا جائزہ لیا اور کہا :

’’ کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے‘‘

میں نے پلٹ کر دیکھا تو میری آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ گئیں یہ تو ثباتی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

اللہ دتہ حجام (   بابا ایک آنے ولا):خدمت میں عظمت کی درخشاں مثال

زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے

یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے

غریبوں،مزدوروں اور فاقہ کش انسانوں کا خادم اللہ دتہ حجام 1983میں دائمی مفارقت دے گیا۔اللہ دتہ 1878میں جھنگ شہر میں پیدا ہوا۔چھے سال کی عمر میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔اِس دھوپ بھری دنیا میں اُس نے محسوس کیا کہ سورج واقعی سوا نیزے پر آ گیا تھا۔ آبائی پیشے کے اعتبار سے وہ  حجام تھا،اس لیے اُس نے کم عمری ہی میں رزق حلال کمانے کے لیے اپنے آبائی پیشے میں مہارت حاصل کی۔دینی تعلیم  ممنا گیٹ جھنگ شہر میں واقع مسجد شاہ علیانی  میں میاں برخوردار خان سے حاصل کی۔  وہ ایک صابر،شاکر اور نیک اطوار کا حامل ہو نہار بچہ  تھا،اللہ کریم نے اُسے ایک درد مند دِل سے نوازا تھا۔دس سال کی عمر میں اللہ دتہ قرآن حکیم اور حدیث شریف پڑھ چکا تھا اور ساتھ ہی اپنے آبائی پیشے میں بھی کامل مہارت حاصل کر چکا تھا۔اگرچہ وہ اپنے فن میں ماہر تھا لیکن اُس کے پاس اتنا سرمایہ نہ تھا کہ شہر کے بازار میں دکان کا ایک سال کا پیشگی کرایہ اور پھر ماہانہ کرایہ ادا کر سکے۔ناچار اُس نے جھنگ شہر کے نُور شاہ دروازے کے جنوب کی سمت والی پہلی گلی  کے شروع میں زمیں پر بیٹھ کر حجام کا پیشہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔1890میں وہ ایک پیسہ لے کر حجامت کرتا تھا۔اِس میں سر کے بال تراشنا،شیو کرنا،ہاتھوں اور  پیروں کے ناخن کا ٹنا اور معمر افراد کے سر پر کالی مہندی لگا نا بھی شامل تھا۔اُ س کے پاس حجامت کے لیے آنے والوں میں کم سِن بچے،نو عمر لڑکے،نو جوان مرد ،ادھیڑ عمر کے مرد اور ضعیف آدمی سب شامل تھے۔اللہ دتہ نماز تہجد پڑھنے کے بعد با جماعت نماز فجر ادا کرتا اِس کے بعد قرآن حکیم کی تلاوت کرتا اور گھر سے ناشتہ کرنے کے بعد با وضو ہو کر گھر سے نکلتا۔اُس کے بائیں ہاتھ میں حجامت کے اوزاروں کی چھوٹی سی صندوقچی ہوتی اور دائیں ہاتھ میں تسبیح ہوتی۔وہ ہمہ وقت درود پاک کا ورد کرتا رہتا۔ سورج طلوع ہوتے ہی نور شاہ  بازار میں اپنی مقررہ جگہ پر پہنچ جاتا فرش زمین پر بیٹھ جاتا  اور سورج غروب ہونے تک وہ اپنے کام میں مصروف رہتا۔سردی ہو یا گرمی اس کے اوقات میں کوئی خلل نہ پڑتا۔گرمی میں وہ دیوار کے سائے میں بیٹھ کر غریب  لوگوں کی  حجامتیں کرتا اور سردی میں وہ دھوپ میں بیٹھ کر اپنے کام میں ہمہ تن مصروف رہتا۔یہ باریش نو جوان شرافت اور حیا کا پیکر تھا۔سب کے ساتھ اخلاق،اخلاص،ہمدردی اور نرم دلی سے پیش آنا اُس کا شیوہ تھا۔آندھی،طوفان اور بارش میں وہ ناچار اپنا کام بند کر کے گھر کا رُخ کرتا۔کام کے دوران ظہر اور عصر کی نماز وہ با جماعت پڑھتا۔اس وقفے میں وہ حجامت کے اوزاروں کی صندوقچی وہیں زمین پر رکھ کر نزدیکی مسجد میں پہنچتا۔ اِس مسجد میں ہینڈ پمپ تھا وہ اِس ہینڈ پمپ کو مسلسل چلاتا اور اُ س حوض کو  پانی سے بھر دیتا جہاں سے وضو اور طہارت خانوں کے لیے پائپ کے ذریعے پانی جاتا تھا۔اِس کے بعد وہ مسجد کی صفوں کی جھاڑ پھونک میں مصروف ہو جاتا۔اُس کی آواز بلند اور لہجہ دبنگ تھا۔جب وہ اذان دیتا تو اُس کی آواز دُور دُور تک پہنچتی۔جب اُس کی عمر بیس سال ہوئی تو نمازیوں نے اللہ دتہ حجام کو نُور شاہ دروازے کی پہلی گلی میں  واقع چھوٹی سی مسجد کا  پیش نماز مقرر کر دیا۔اِس مسجد میں اللہ دتہ حجام نے بجلی کا کنکشن منظور کرایا اور جب تک زندہ رہا مسجد کی بجلی کے بل کی رقم کی بر وقت ادائیگی کا انتظام بھی خود کرتا رہا۔اِس مسجد میں ہر ماہ محفل حمد و نعت کا باقاعدگی سے اہتمام کرتا۔اِس میں ممتاز حمد خواں اور نعت خواں شرکت کرتے اور سامعین کے جذبۂ ایمانی اور عشق رسول ﷺ کی تسکین ہوتی۔ جھنگ کے مایہ ناز شاعر رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ )اکثر یہاں آتے تھے۔یہ نعت سُن کر اللہ دتہ حجام کی آنکھیں پُر نم ہو جاتیں اور وہ یہ نعت بار بار سُنتا:

جو بھی شیریں سخنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ

تیرے ہونٹوں کی چھنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ

نسل در نسل تیری ذات کے مقروض ہیں ہم

تو غنی ابنِ  غنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ

ابتدا میں اللہ دتہ حجام محض ایک پیسہ لے کر حجامت کرتا تھا لیکن 1947کے بعد اُس نے اپنی مزدوری ایک آنہ مقرر کی اور اِس کے بعد یہی اُس کی پہچا ن بن گئی۔لوگ اُسے بابا آنے والا کے نام سے یاد کرتے۔اپنی محنت کی اُجرت اور خدمت کا مقام اُس نے پھر کبھی نہ بدلا۔لوگ کہتے تھے اللہ دتہ حجام جہاں بیٹھ گیا،بیٹھ گیا۔جو کچھ اُس نے کہہ دیا وہ کالنقش فی الحجر ہے۔جھنگ شہر میں غریب لوگوں کی بے لوث خدمت کے سلسلے میں چار آنے والے حکیم (حکیم احمد بخش نذیر )اور ایک آنے والے حجام (بابا اللہ دتہ )کا نا م کسی تعارف کا محتاج نہیں۔جِس زمانے میں ہر شخص ہوس زر کی اندھی دوڑ میں دیوانہ وار  مصروف ہو،دولت کو ٹھکرانے والے لوگ بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔اللہ دتہ حجام جو کچھ کماتا اُس میں سے دو وقت کی ر وٹی کے  لیے درکار پیسے الگ کر لیتا باقی رقم شام کو مستحق غریبوں کے گھر پہنچا کر اللہ کریم کا شکر ادا کر کے آرام کی نیند سوتا۔وہ اکثر کہا کرتا تھا :

رزق نہ پلے بنھدے پنچھی تے درویش

جنھاں نوں تقویٰ اللہ دا اوہناں نوں رزق ہمیش

اُردو ترجمہ :      رزق ذخیرہ کبھی کریں نہ درویش اور طیور

اللہ پر جو کریں بھروسااُن کو رِزق وفور

جھنگ کے قدیم شہر کے بارے میں یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ یہاں چار ہزار سال قبل مسیح میں بھی آبادی کے آثار پائے جاتے تھے۔امیر اختر بھٹی اور غلام علی خان چین اس شہر کے کچھ کھنڈرات کو طُوفانِ نوح کی باقیات قراردیتے تھے ۔سکندر کی افواج اس علاقے میں پہنچیں اور یہاں یونانیوں نے اپنی رسوم کے مطابق حُسن کی دیوی (ہیر) کا مندر بھی تعمیر کیا۔جس کے کھنڈرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔اس قدیم شہر میں اسلام کی روشنی 712میں محمد بن قاسم کی شورکوٹ  آمد سے بھی پہلے پہنچ چکی تھی۔عرب تاجر اس علاقے میں طویل عرصے سے تجارت کی غرض سے آ رہے تھے۔جھنگ شہر کی پہلی مسجد شاہ علیانی  کے نام سے معروف ہے۔اِس کی تعمیر دوسری صدی ہجری میں ہوئی۔یہ مسجد اب بھی مو جود ہے۔ڈیڑھ ہزار سال قدیم یہ مسجد قدیم عرب طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ تھی۔ اِس کی دیواریں مٹی کے گارے اور چُونے سے بنائی گئی تھیں اس کی چھت پر کھجور کے تنے کے شہتیر اور بالے ڈالے گئے تھے اور کھجور کے پتے اور مٹی ڈال کر اس کی لپائی کی گئی تھی۔1960میں اِس مسجد کی تعمیرِنو کی گئی اِس کام میں اللہ دتہ حجام،غلام علی خان چین،احمد بخش،خدا بخش،مرزا محمد وریام، حاجی محمد یوسف،محمد بخش آڑھتی،اللہ دتہ سٹینو،محمد کبیر بھٹی،حکیم احمد بخش،میاں محمود بخش بھٹی،میاں اللہ داد،ڈاکٹر محمد عمر،ملک عمر حیات،رانا سلطان محمود اور شیر محمد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔  اللہ دتہ حجام نے اِسلام کی آفاقی تعلیمات اور توحید اور رسالت کی محبت کو جزوِ  ذات بنا رکھا تھا اِسی کے اعجاز سے اُس کے دِل و نگاہ کی دنیا منور تھی۔

بے ثبات کارِ جہاں میں شقاوت آمیز نا انصافیوں کو دیکھ کر اُس نے ہر صبح رنج و الم کے عالم میں شام کی اور یوں اُس کی خوننابہ کشی مدام جاری رہی۔وہ ایک صاحبِ  بصیرت شخص تھا،سرِ راہ لوگوں کی ایک جھلک دیکھ کر وہ اُن کے گوشۂ چشم میں لرزاں پیغام پڑھنے پر قادر تھا۔دِل کے پیہم اضطراب کے باعث اُس کی چشم ہمیشہ پُر آب رہتی۔وہ اکثر کہا کرتا کہ دِل کی بربادی کا کیا مذکور ہے،اِس نگر کو تو گردش حالات نے لُوٹ کر ویرانے میں بدل دیا۔دِ ل کی ویرانی میں ان جان لیوا صدموں کے داغ اِس طرح ضو فشاں ہوتے ہیں جیسے اُجڑی بستی کے کِسی کھنڈر میں رات گئے کوئی چراغ جھلملانے لگے۔  مفلس و قلاش غم زدوں کی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے لیکن بوسیدہ جھونپڑوں اور شکستہ  مکاں سے ہفت خواں طے کرتے ہوئے لا مکاں کی منزل تک پہنچتے پہنچتے اُس کی روح زخم زخم ہو جاتی ہے اور وہ مکمل طور پر کر چیوں میں بٹ جاتا ہے۔اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چُھپا کر خندہ پیشانی سے کٹھن حالات کے سامنے سینہ سپر رہنے والے اس درویش منش فقیر نے اِس عالم آب و گِل کو ایک آئینہ خانے اور توہم کے کارخانے سے زیادہ کبھی اہمیت نہ دی۔

قُدر ت  اللہ شہاب نے اپنی تصنیف ’’شہاب نامہ ‘‘میں اللہ دتہ سٹینو کا ذکر بہت اچھے الفاظ میں کیا ہے۔اس کے علاوہ اُس نے  جھنگ کے جِس پُر اسرار موچی کے کشف و کرامات کا حال بیان کیا ہے،اُس کا نام کرم دین (عرف کرموں موچی )تھا۔وہ اور اللہ دتہ سٹینو دونوں اللہ دتہ حجام کے عقیدت مندوں میں شامل تھے۔اِس کے علاوہ میاں مراد علی (عرف میاں مودا )سید مظفر علی ظفر،حامد علی شاہ،  امیر اختر  بھٹی،عبدالغنی (برتن فروش )عبداللہ خان،بختاور خان،منیر حسین معلم اور شاہ محمد بھی اُس کے احباب میں شامل تھے۔ن کے ساتھ مل کر ہ اصلاحی اور فلا حی کاموں میں حصہ لیتا۔معرفت،درویشی اور فقیری کی اقلیم کے یہ فرماں روا پنی اپنی دنیا میں مگن دُکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار شکوۂ ظلمتِ شب میں اپنا وقت ضائع کرنے  کے بجائے اپنے اپنے حصے کی شمع فروزاں کرنے کی مساعی میں منہمک رہتے۔اللہ دتہ حجام اِن کا میرِ کارواں تھا اور یہ سب اُس کے قدم سے قدم مِلا کر سوئے منزل رواں دواں رہتے۔چشمِ  بینا پر یہ بات واضح تھی کہ اِن فقیروں نے اپنے پیشوں اور دنیا داری کا جو روپ دھار رکھا تھا اُس کے پس پردہ کتنی عظیم،با کردار اور مقربِ بارگاہ ہستیاں تھیں۔اللہ دتہ حجام نے زندگی بھر اپنی قناعت،استغنا،انا اور خود داری کا بھرم ر قرار رکھا۔فرشِ زمین پر بیٹھنے والے یہ لوگ کردار کے اعتبار سے افلاک کی وسعتوں کو چُھو لیتے تھے۔اللہ دتہ حجام نے نمود و نمائش اور ہوسِ زر سے اپنا دامن بچاتے ہوئے بے لوث محبت اور حسن اخلاق سے غریبوں کے دِلوں کو مسخر کر لیا۔انسانیت کی عظمت،وقار اور سر بُلندی کو مطمح نظر بنانے والے ایسے یگانۂ روزگار لوگ سونے کے ترازو میں نہیں تولے جا سکتے۔

اللہ دتہ حجام کی زندگی کشف و کرامات کی متعدد چشم کشا صداقتوں اور ناقابلِ فراموش  واقعات سے لبریز ہے۔اُس کی ذات  ایک قندیل کے مانند تھی۔اِس روشنی کی راہ میں جو بھی حائل ہوا وہ حر ف غلط کی طرح مٹ گیا اور لوگوں کے لیے عبرت کی مثال بن گیا۔لالہ دُنی چند جھنگ شہر کا بد نام سُو د خور مہاجن تھا۔اُس نا ہنجار بنیے  نے سُود در سُود کے قبیح دھندے سے پُورے علاقے کے غریب  مُسلمان کِسانوں فاقہ کش غریبوں اور مزدوروں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔اِس ظالم و سفاک،مُوذی و مکار بنیے کی درندگی اور شقاوت آمیز نا انصافیوں سے بے شمار گھر بے چراغ ہو گئے۔غریبوں کے سر چھپانے کے گھر،کھیت کھلیان اور زیورات اِس کے پاس رہن رکھے ہوئے تھے۔اِس کے مظالم سہنے والے بے بس لوگ جھولیاں اُٹھا کر اِسے بد دعا دیتے اور قادرِ مُطلق کے حضور گِڑ گڑا کر سوال کرتے کہ پروردگارِ عالم نے لالہ دُنی چند جیسے فرعون کی مُدت حیات کو کیوں بڑ ھا رکھا ہے ؟اِتفاق کی بات ہے کہ خسیس لالہ دُنی چند ہر ماہ اللہ دتہ حجام سے اپنا سر مُنڈا کر اپنی ٹِنڈ کراتاتھا۔

دسمبر 1939کی خُون منجمد کر دینے والی سردیوں کی ایک خنک  سہ پہر تھی یخ بستہ برفانی ہوائیں چل رہی تھیں۔جاڑے کے باعث بازار ویران تھا۔لالہ دُنی چند اب ضعف پِیری سے نڈھال تھا۔اچانک وہ کمر جھکائے اللہ دتہ حجام کے پاس آیا اور اُسے مخاطب کر کے بولا :

’’ارے میاں اللہ دتہ !میرے سر کے بال بہت لمبے ہو گئے ہیں۔مہنگائی کے اِس دور میں اِن لمبے بالوں پر تیل لگانے کی سکت مجھ میں نہیں۔ ہر ماہ کی طرح میری ڈاڑھی،مونچھیں اور سر کے بال صاف کر دو۔بچت کرنا اچھی عادت ہے اِس لیے میں ہمیشہ  بال بڑھانے کی عیاشی سے دُور رہتا ہوں۔‘‘

’’تُم جیسے دولت مند مہاجن کو ایسی باتیں کرنا زیب نہیں دیتا ‘‘اللہ دتہ بولا ’’تُم نے تو پُورے شہر کو اپنے سُود در سُود کے چُنگل میں جکڑ رکھا ہے۔کون ہے جو تمھارے مظالم سے تنگ نہ ہو۔ بے بس و لاچار غریبوں کو تم نے یر غمال بنا رکھا ہے ۔تُمھارے پاس مال و  دولت کی ریل پیل ہے۔اِس طرح نا شکری نہ کیا کرو۔‘‘

’’فضول باتیں بند کرو ‘‘ لالہ دُنی چند نے دانت پِیستے ہوئے کہا ’’جلدی سے میری ٹِنڈ کرو کل میں نے ایک ضعیف بیوہ کا مکان قُرق کرایا ہے اُس نے میرے سُود کی رقم نہیں دی تھی۔اُسے میں نے گھر سے بے گھر کر دیا۔آج دو یتیم بچوں کے مکان کا قبضہ لینا ہے پیادے میں نے بھیج دئیے ہیں،اُن کے مرحوم باپ نے مجھ سے دس سال پہلے جو قرضہ لیا تھا وہ اب بڑھ کر چار گُنا ہو چکا ہے۔‘‘

اللہ دتہ حجام اِس مخبوط الحواس اور فاتر العقل جاہل کی باتیں سُن کر خاموش ہو گیا اور جلدی سے لالہ دُنی چند کے سر،ڈاڑھی اور مُونچھوں کو صفا چٹ کر دیا۔حجامت سے فارغ ہو کر لالہ دُنی چند نے غُراتے ہوئے بد تمیزی سے کہا’’اوئے اللہ دتہ !میری بات کان کھول کر سُن لے آئندہ میرے معاملات میں دخل مت دینا اور اپنی اوقات میں رہنا۔تُو ایک پیسہ لینے ولا حجام ہے اور میں ارب پتی تاجر۔میرے سامنے تیری کیا اوقات ہے۔مجھ سے منہ سنبھال کر بات کیا کرو۔‘‘

اللہ دتہ نے دھیمے لہجے میں کہا ’’اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔  بے بس و لاچار انسانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ اللہ کی گرفت نہایت سخت ہے۔خالق کائنات کے ہاں دیر تو ہے مگر اندھیر نہیں۔اُس قادر مطلق سے ڈرو اور سُود خوری کے قبیح دھندے سے توبہ کر لو۔‘‘

’’خاموش رہوزبان دراز حجام ‘‘لالہ دُنی چند باؤلے کُتے کی طرح غُرایا ’’ذات کی کو ڑھ  کِرلی  اور شہتیروں پر چڑھائی۔میری آن بان کے آگے تو پُوری خلقت ہیچ ہے اور تم ہو کہ مسلسل اپنی ہانکے چلے جا رہے ہو۔اب کوئی بات کی تو میں تمھاری زبان گُدی  سے کھینچ لو ں گا۔مجھے اپنے خدا کی بے آواز لاٹھی سے مت ڈراؤ۔دُنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔‘‘

اِس کے ساتھ ہی لالہ دُنی چند نے اللہ دِتہ حجام کی صندوقچی کو زور سے ٹھوکر ماری،اِس میں موجود اوزار زمین پر بکھر گئے۔اللہ دِتہ حجام تیزی سے اپنے اوزار سمیٹ کر زمین پر بیٹھ گیا اور آسمان کی طرف دیکھ کر آہ بھری اور پُرنم آنکھوں سے زیرِ لب کچھ کہا اور پھر چُپکے سے گھر چلا گیا۔شام ہو چکی تھی اللہ دِتہ گھر پہنچ گیا اور اُس نے مغرب کی نماز پڑھی او ر حسبِ معمول  درود  پاک اور قرآنی آیات کی تسبیح میں مصروف ہو گیا۔

لالہ دُنی چند نہایت رعونت کے ساتھ اللہ دِتہ حجام کو مغلظات بکتا رہا پِھر  بُڑ بُڑاتا  ہوا دریائے چناب کے کنارے واقع اپنے فارم ہاؤس کی طرف چل پڑا۔ابھی وہ راستے ہی میں تھا کہ زبردست طُوفانِِ باد و باراں نے اُسے دبوچ لیا۔اِس کے ساتھ ہی ژالہ  باری بھی شروع ہو گئی۔یہ خوف ناک ژالہ باری ایک گھنٹہ جاری رہی جس میں موٹے موٹے اولے پڑے۔لالہ دُنی چند فطرت کی سخت تعزیروں کی زد میں آ چُکا تھا۔وہ جان بچانے کے لیے اندھا دُھند ہر طرف دوڑا مگر اِ س لق و دق صحرا میں اُسے کہیں بھی سر چھپانے کی جگہ نہ مِلی۔وہ منہ کے بل گِرا اور ٹھنڈا ہو گیا۔اگلی صبح اُس کا ڈھانچہ دریائے چناب کے کنارے پایا گیا جِسے جنگلی درندے چٹ کر گئے تھے۔  سُو رج طلوع ہوتے ہی زاغ و زغن لالہ دُنی چند کے استخواں  نوچ رہے تھے۔اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ مظلوموں کی آہ و فغاں اور اللہ دتہ حجام کی بد دعا نے اس فرعون کا کام تمام کر دیا۔

جھنگ شہر کا نُور شاہ دروازہ جھنگ کا چلیسی کہلاتا ہے۔اِس دروازے کے سامنے سے جو شاہراہ گزرتی ہے اُ س کے شمال میں پولیس چوکی،جنوب میں ایک سرکاری سکول،اِس کے ساتھ ملحق گلی میں ایک دینی مدرسہ،دروازے کے ساتھ ہی حلوائی کی دکان ہے جس پر کئی خسیس اپنے دادا کا فاتحہ پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔کچھ فاصلے پر جنرل ہسپتا ل ہے اور اُس کے عقب میں شفا خانہ حیوانات واقع ہے۔اِس علاقے میں خوب چہل پہل رہتی ہے۔ناصفو نامی ایک جنونی شخص اکثر اللہ دتہ حجام کے پاس آتا تھا۔ایک دِن اُس نے کہا ’’مجھے گُزشتہ ہفتے سے بُخار ہے۔لسوڑی شاہ کے دربار سے لسوڑیاں بھی کھائیں، عامل کوڈو  سے عمل بھی کرایا مگر بے سود،گھر میں ہر مل اور کافور کی دھونی بھی دی کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اُلو اور خنزیر کے خون سے جادو کا اثر زائل کرنے کے لیے نجومی گھسیٹا خان سے بھی مِلا،جو،جوار،مکئی اور چاول کے دانوں کا ہار بھی گلے میں پہنا مگر مرض بڑھتا ہی جاتا ہے۔اب میں کس سے علاج کراؤں ؟‘‘

پا س بیٹھے ہوئے احمد بخش نے کہا ’’اِس شہر میں ڈاکٹر محمد کبیر خان سے زیادہ قابل کوئی معالج نہیں،تم اُن کے پاس  جا کر اپنی تکلیف بتاؤ اور اُن سے دوا لو ‘‘اللہ دتہ حجام نے بھی اس بات کی تائید کی۔

دس دِ ن کے بعد ناصفو پھر وہاں آ یا۔اِس بار وہ بہت ہشاش بشاش دکھائی دیتا تھا۔اُ س نے اپنی بُوم جیسی آ نکھیں گھماتے ہوئے کفن پھاڑ کر کہا ’’تم لو گوں نے مجھے جس ڈاکٹر کے پاس بھیجا میں اُس کے پاس گیا تھا،چھے دن مسلسل دوا بھی کھائی مگر بالکل آرام نہ آیا۔‘‘

’’لیکن اِس وقت تو تم بھلے چنگے نظر آتے ہو ‘‘اللہ دتہ بولا ’’آخر کس کے علاج سے تمھاری تکلیف دور ہوئی ؟‘‘

’’میں شفا خانہ حیوانات میں گیا تھا ‘‘ناصفو نے کہا ’’وہاں کا ڈاکٹر رنگو بہت قابل ہے۔اُس نے مجھے ایک ہی ٹیکہ لگایا اور میں صحت یاب ہو گیا۔‘‘

اللہ دتہ حجام بولا ’’سچ ہے تم اپنے علاج کے لیے صحیح مقام پر گئے۔وہاں تم جیسوں کا شافی علاج ہو سکتا ہے۔‘‘

احمد بخش نے کہا ’’ڈاکٹر  محمد کبیر خان جو دوا دیتا ہے وہ صرف انسانوں کے لیے مفید ہے لیکن استر،بُوم  اور کر گس زادے  پر اس دوا کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔تم جیسے بُز اخفش کو سمجھانا ممکن ہی نہیں۔اتنی فرصت کِسے کہ بھینس کے آگے بین بجائے۔‘‘ناصفو ہنہناتا ہوا وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔

قحط الر جال کے موجودہ دور میں قلم و قرطاس کو بھی  بد قسمتی سے بعض عاقبت نا اندیش لوگوں نے  ذاتی پسند و نا پسند اور شخصی مفادات کے تابع بنا دیا گیا ہے۔اکثر اہل قلم کو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والی قصر و ایوان کی مخلوق کے فرضی محاسن تو دکھائی دیتے ہیں مگر پارس جیسے وہ پتھر جنھیں گردشِ حالات نے سنگ راہ بنا دیا اور جن کا وجود اِنسانیت کی خدمت اور عظمت کے سلسلے میں سنگِ مِیل کی حیثیت رکھتا ہے وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتے۔چربہ ساز ساغر جم کو تو للچائی ہوئی نظر سے دیکھتے ہیں مگر شکستہ  جامِ سفال اُن سے نہیں دیکھا جاتا۔عیاش اور گُم راہ امرا کی رعونت تو اُنھیں گوارا ہے مگر غریب محنت کشوں کا عجز و انکسار اِن قلم فروش متشاعروں کی آنکھوں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔اللہ دتہ حجام کی زندگی سب کے لیے فیض رساں تھی۔اُس کی سوچ ہمیشہ تعمیری رہی کسی کی تخریب سے اُس نے کبھی کوئی تعلق نہ رکھا۔معاشرتی زندگی کی قباحتوں سے اُسے شدید نفرت تھی۔اُس کی دعا مقبول ہوتی اور لوگ اُس کے سامنے اپنی تکالیف کا احوال بیان کر کے دعا کی التجا کرتے۔گندا ٹوڑا (گندے پانی کا جوہڑ)کے نام سے جھنگ میں ایک کچی آبادی  صدیوں سے موجود تھی۔اِس مقام کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا تھا۔پُورے شہر کا گندا پانی اور غلاظت یہاں جمع ہوتی تھی۔اِس علاقے کے مفلوک الحال مکینوں پر یہ اُفتاد پڑی کہ ثباتی نام کی ایک جِسم فروش رذیل طوائف اور اُس کے خصم گھاسفو نے یہاں  ایک مکان میں اپنا قبیح دھندا شروع کر دیا۔ثباتی نے خرچی کی آمدنی سے مقامی انتظامیہ کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیا۔اِ ن رسوائے زمانہ بد معاشوں کے سبز قدم پڑتے ہی یہاں کے مکینوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ان ننگ انسانیت درندوں کے قحبہ خانے میں اجلا ف و ارذال  اور سفہانے دہشت کی فضا قائم کر دی۔رام ریاض نے اللہ دتہ حجام کو بستی کے غریب مکینوں کی تکالیف سے آگا ہ کیا۔ اللہ دتہ حجام ایک صاحب بصیرت شخص تھا،اُس نے اِن غریبوں کو اِس بلائے نا گہانی سے نجات دلانے کے لیے اللہ کریم کے حضور دعا کی۔اگلی شب گھاسفو اور ثباتی کو اپنے مکان میں ایک اژدہا نظر آیا جو پھنکارتا ہوا اُن کی طرف بڑھ رہا تھا۔اژدہا دیکھ کر اِن ضمیر فروش بے غیرت بد معاشوں کی گھگھی بندھ گئی اور وہ ننگے پاؤں گھر سے بھاگ نکلے۔اِس کے بعد اُن کی مکروہ صورت کبھی دکھائی نہ دی۔منہ زور وقت زندگی کے متعدد حقائق کو خیال و خواب بنا دیتا ہے۔وقت اِس قدر سبک خرام اور سبک رو تھا کہ ابتدا ہی میں سب پروانے ثباتی کو چھوڑ گئے اور کوئی بھی اُس کے انتہا کی خبر نہ لایا۔سُنا ہے کچھ عرصہ بعد وہ دونوں جذام اور کوڑھ کر مرض میں مبتلا ہو گئے اور ہیرا منڈی لاہور کے باہر ایک فٹ پاتھ پر بیٹھ کر بھیک مانگتے تھے لیکن کوئی اِن کو بھیک بھی نہ دیتا۔ ثباتی کو ہر طرف سے دھتکار اور پھٹکار ملتی۔ وہ حسینہ جو کبھی بے شمار پروانوں کے لیے شمع محفل تھی کوئی راہ گیر اُس کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا۔

اللہ دتہ حجام نے دُکھی انسانیت کے ساتھ خلوص،دردمندی اور ایثار کی اساس پر جو پیمانِ وفا باندھا زندگی بھر اُسے استوار رکھا اور اِس معتبر ربط کو علاجِ گردشِ  لیل و نہار سمجھا۔جھنگ شہر میں جب کسی کے گھر میں بچہ پیدا ہوتا اُس کے کان میں اذان دینے کے لیے ہمیشہ اللہ دتہ حجام کو بلایا جاتا۔نو مولود بچے کے کان میں اذان دینے کے بعد وہ اس کی اچھی زندگی،صحت،سلامتی،خوش قسمتی اور نیک عادات و اطوار کا حامل ہونے کی دعا کرتا۔کم سِن بچے کے سر کے پہلے بال بھی وہ احتیاط سے اُتارتا۔خوشی کے اِس موقع پر اگر کسی خاندان کی طرف سے اپنی ذاتی مرضی سے اُس کی کچھ خدمت کی جاتی تو وہ اُسے قبول کر لیتا اور یہ رقم وہ اُسی وقت کسی مفلس بیوہ یا یتیم بچی کو پہنچادیتا۔اللہ کریم اُس کے  وسیلے سے نادار لوگوں کے لیے فیض کے اسباب فراہم کر دیتا اور وہ دُکھی انسانیت کی غم گُساری میں ہمیشہ مصروف رہتا۔وہ لڑکیوں کی تعلیم کا زبردست حامی تھا۔نوجوان لڑکیوں کو پردے کا پابند بنانے کے لیے اُس نے عملی اقدامات کیے۔جب کوئی غریب بچی جماعت نہم میں داخلہ لیتی تو اُس کے لیے سکول کی وردی اور بُرقع مُفت فراہم کرنے کی ذمہ داری  اللہ دتہ حجام نے  از خود سنبھال رکھی تھی ۔اِس نیک کام کے لیے اُسے شہر کے متعدد مخیر لوگوں کا تعاون حاصل تھا۔جب کسی غریب بچی کی شادی کا موقع آتا تو اللہ دتہ حجام اُس کے جہیز میں رکھنے کے لیے ست رچھی ( لوہے،پیتل اور تانبے کے چودہ  برتن )ہر حالت میں مہیا کرتا۔اِ ن میں پرات،بالٹی،تغاری،جگ،گلاس،کڑاہی توا،دیگچہ،سر پوش،ٹفن،تھالی،کٹورا،گڑوی،اور پتیلا شامل ہوتے تھے۔اہلِ  درد کے تعاون سے وہ مونج کے بان سے بُنی ہوئی رنگین چارپائی اور پیڑھی بھی غریب بچی کے جہیز کے لیے پہنچا دیتا۔  اپنے یہ کام وہ نہایت راز داری کے ساتھ جاری رکھتا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔اُ س کی یہ نیکیاں ہمیشہ غریبوں کے دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرتی رہیں گی۔وہ اس قسم کے فلاحی کام ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہ کر انجام دیتا جب کوئی یتیم اور غریب بچی اپنے سسرال جاتی اور نیا گھر بساتی تواللہ دتہ حجام خوشی سے پُھولے نہ سماتا اور سجدۂ شُکر  ادا کرتا۔

اللہ دتہ حجام ہر جان دار سے ٹُو ٹ کر محبت کرتا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ افراد کی محرومیوں اور تنہائیوں کے اعصاب شکن کرب کا مداوا صرف بے لوث محبت سے ہو سکتا ہے۔اِس قسم کی  بے لوث محبت انسان کو حصارِ ذات سے باہر نکال کر  بیرونی دنیا کے ساتھ ایک ایسا مضبوط  اور مستحکم تعلق قائم کرنے کی صلاحیت سے متمتع کرتی  ہے۔ دُکھی انسانیت  کے ساتھ یہ محبت  اُس کے جذبات و احساسات کو جہانِ تازہ سے آشنا کرتی ہے اور حیات و کائنات کے جملہ مظاہر سے اُس کی قلبی وابستگی اُس کی شخصیت کو نکھار عطا کرتی ہے۔اللہ دتہ حجام نے اِ س عالمِ آب و گِل کے جُملہ مظاہر کے ساتھ ایک حیاتیاتی تعلق اُستوار کر رکھا تھا، یہاں تک کہ مظاہر قدرت سے بھی اُسے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت تھی۔  انسانوں،حیوانوں،شجر،حجر طائرانِ خوش نوا اور باغ و صحرا سب اُس کی محبت کا محور تھے۔نُور شاہ گیٹ کے ساتھ واقع ایک تاریخی تعلیمی ادارہ ہے اِ س میں پیپل کا درخت تھا جو 1560میں مغل افواج نے لگایا تھا۔چار سو سال پرانے اس نخل تناور کی گھنی چھاؤں میں گرمیوں میں بچے کھیلتے اور اس کی شاخوں میں بے شمار طیور کا بسیرا تھا۔ان میں عنادِل اور چڑیوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ دریائے چناب میں 1973کے سیلاب کے بعد ایک طوفان باد و باراں نے اِ س قدیم درخت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔پرندوں کے گھونسلے تباہ ہو گئے،اُن کے انڈے اور بچے رِزقِ خاک بن گئے اور کئی پرندے اِس نا گہانی آفت کی بھینٹ چڑھ گئے ۔صبح ہوئی تو سیکڑوں طیور ااِ س آشیاں بربادی اور اپنے ہم نوا پرندوں کی ہلاکت  پر اپنے دُکھ کا اظہار کر رہے تھے۔ بُلبل،کوئل اور پپیہا  شکستہ ٹہنیوں پر چونچیں مار مار کر اپنے دلی صدمے کا اظہار کر رہے تھے۔فاختاؤں قُمریوں اور چڑیوں کی چیخ پُکار سن کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس سانحے  اور اپنے انڈوں بچوں کی بربادی پر ان مصیبت زدہ  طیور کا سینہ پھٹ جائے گا ۔اللہ بخش مالی،اللہ دتہ حجام، خدا بخش،احمد بخش،حاجی محمد یوسف،غلام علی چین اور ڈاکٹر محمد کبیر خان سب کی آنکھیں پُر نم تھیں۔جلد ہی بڑھئی آ گئے اور اُن کے قاتل تیشوں اور تیز آروں نے اس ساونت کے جِسم کو چیر کر رکھ دیا اور شاخیں ایندھن کے لیے کاٹ لیں۔غلا م علی چین نے اس موقع پر یہ شعر پڑھ کر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا:

اِ س بار جو ایندھن کے لیے کٹ کے گِرا ہے

چِڑیوں کو بہت پیار تھا اُس بُوڑھے شجر سے

یہ سُن کر اللہ دتہ حجام کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور اُس نے گلو گیر لہجے میں کہا ’’یہ درخت جو گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا ایک ورق تھا اب عبرت کا ایک سبق بن گیا ہے۔‘‘

حاجی محمد یوسف نے کہا ’’ حیات و کائنات جِس میں نباتات،جمادات،جان دار اور بے جان شامل ہیں سیلِ زماں کی مہیب موجوں میں خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتے ہیں ‘‘

اللہ دتہ حجام بولا ’’یہی سچ ہے !دُنیا کی ہر چیز فنا کی زد میں ہے اور بقا تو صر ف ربِ ذو الجلا ل ولاکرام کو حاصل ہے۔‘‘

رام ریاض نے بھی اِسی سکول سے تعلیم حاصل کی تھی اور اِس قدیم درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر قابل اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا تھا ۔اِس چھتنار کے گِرنے پر اُس نے تمام احباب کے سامنے اپنے دِلی رنج اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

رام اِس دھوپ بھری دنیا میں

ایک دِن پیڑ نہ پتے ہوں گے

مقدر نے اللہ دتہ حجام سے عجب کھیل کھیلا۔وہ تعلیم حاصل کرنے کا خواہش مند تھا لیکن وہ پرائمری سے آگے نہ جا سکا اور  حالات نے اُسے آبائی پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔اُس نے زندگی بھر یہ کوشش کی کہ شاہین بچوں کو تعلیم کے فراواں مواقع میسر ہوں اور وہ اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی سعی کریں۔پرائمری سکول میں پڑھنے کے لیے جانے والے کم سن طلبا اور طالبات کی وہ ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا۔حاجی محمد یوسف کی کتابوں کی دکان سے سٹیشنری  خرید کر وہ غریب اور مستحق طلبا و طالبات میں مفت تقسیم کرتا۔جب سکول میں تفریح کا وقفہ ہوتا تو وہ سکول کے دروازے پر پہنچ جاتا اور  ایسے ننھے مُنے بچوں کے لیے ریفرشمنٹ کا انتظام کرتا جن کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر ان ہو نہار بچوں کو بڑی مشکل سے سکول بھیجتے تھے۔معصوم طلبا و طالبات اللہ دتہ حجام کو رحمت کا فرشتہ سمجھتے اور اُس سے مل کر اُنھیں نہ صرف تعلیم بل کہ زندگی کی جد و جہد سے بھی پیار ہو جاتا۔وہ کم سِن بچے جنھیں غریب والدین نے حالات کے جبر کے باعث چائلڈ لیبر کی بھٹی میں جھونک دیا تھا،اُن کو تعلیم پر مائل کرنا اُس کا نصب العین تھا۔اِس کام کے لیے اُس نے انتھک جد و جہد کی۔جن ماہرین تعلیم نے اللہ دتہ حجام کی مدد کی اُن میں عبدالحلیم انصاری،عبدالستار نجم،رانا عبدالحمید خان،دیوان الیاس نصیب،محمد بخش گھمنانہ اور سمیع اللہ قریشی شامل تھے۔یہ کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوئیں اور سیکڑوں بچے تعلیم حاصل کر کے مفید شہری بن گئے۔اُس کے نیک اعمال ہمیشہ اچھے نتائج سامنے لاتے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اپنے صائب اعمال کے اعجاز سے وہ زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتا۔اس طرح رنگ،خوشبو اور حُسن و خُوبی کے تمام استعارے اُس کے خلوص اور دردمندی کا ثمر قرار دئیے جا سکتے ہیں۔انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے لیے اللہ دتہ حجام نے جو بے لوث خدمات انجام دیں وہ اخلاقی لذتیت کے نظریے کی مظہر ہیں۔علمِ بشریات سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ اخلاقی لذتیت اُس نظریۂ اخلاق کی مظہر ہے جس کے مطابق انسان یہ سیکھتا ہے کہ اُسے کس نوعیت کے اعمال اور کون سی خواہشات کو اپنا نصب العین بنانا چاہیے۔اُس کی یہ خوبی آخری عمر میں آفاقی لذتیت میں بدل گئی اور سارے  جہاں کا درد اُس کے جگر میں سمٹ آیا۔اُس کی شخصیت اور کردار میں جو حُسن و جمال اور دل کشی پائی جاتی تھی اُس کے سوتے اُس کی خوبیوں سے پھوٹتے تھے۔ہوس زرو مال سے اُس نے کبھی اپنا آلودہ نہ ہونے دیا۔ وہ رقم بچانے اور اُسے سینت سینت کر رکھنے کے بجائے اُسے غم زدوں پر بے دریغ خرچ کرنے کا حامی تھا۔وہ اِس قدر خوش خصال اور خوش گفتار تھا کہ اُس کے پاس طویل نشست میں بھی تشنگی کا احساس ہوتا۔اُس کی مقبول،مستحکم اور دل کش شخصیت کا راز یہ تھا کہ اُس نے ہمیشہ تصنع سے اجتناب کیا اور سادگی اور بے ساختگی کو شعار بنایا زندگی کی برق رفتاریوں،اِ س کی بو قلمونی اور تنوع کا ادراک کرتے ہوئے اُس نے قناعت اور ایثار پر مبنی  اپنے دستور العمل کو حسب معمول پیش نظر رکھا اور کبھی مصلحت اندیشی اور موقع پرستی کا خیال دل میں نہ لایا۔چڑھتے سورج کے پُجاریوں اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ابن الوقت لوگوں سے اُس نے کوئی تعلق نہ رکھا۔معاشرت اور تمدن کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر اُس نے تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر کرنے میں گہری دلچسپی لی۔اپنی نواسی کو اعلا تعلیم دلائی۔اِ س کے علاوہ بے شمار غریب طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر اُ س کی تحریک پر سائنس اور طب کے شعبے سے وابستہ ہو کر دُکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔

ہمارے معاشرے میں زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو پسِ پُشت ڈال کرا پنا اُلو سیدھا کرنے کی مذموم روش نے معاشرتی زندگی کا تمام منظر نامہ ہی گہنا دیا ہے۔اِ سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ  غیبت،کِذب و افترا پر مبنی اِلزام تراشی اور من گھڑت بہتان لگا کر سادیت پسندی کے مریض لذت ایذا حاصل کرتے ہیں۔اللہ دتہ حجام نے اِسِ  قماش کے درندوں کو کبھی قریب نہ پھٹکنے  دیا۔سادیت پسندی (Sadism)کے مریض مارِ آستین ثابت ہوتے ہیں اور گُرگ آشتی اِ ن کا ہتھکنڈہ بن جاتا ہے۔اِن کے شر سے بچنے کے لیے وہ قرآنی آیات کا کثرت سے وِرد کرتا،خاص طور پرسورۃ الکوثر،  سورۂ اخلاص،سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھنا اُس کا معمول تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ اِس وظیفے کے معجز نما اثر سے انسان کینہ پرور حاسدوں اور سادیت پسندی کے عارضہ میں مبتلا درندوں کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔جن لوگوں نے اِس وظیفہ کو پڑھنا اپنا معمول بنایا اُن کی زندگی راحت سکون اور مُسرت سے گُزری۔بتیس دانتوں میں جس طرح زبان محفوظ رہتی ہے اُسی طرح اِن آیات کے وظیفہ سے انسانیت  جِنوں اور انسانوں کے فساد سے محفوظ رہتی ہے۔

جُون 1983کی ایک گرم سہ پہر کو اللہ دتہ حجام خلاف معمول جلد اپنا کام ختم کر کے اُٹھا کر حجامت کے اوزاروں کی صندوقچی بغل میں داب کر وہ گھر کے بجائے بازار کی جانب روانہ ہوا۔راہ گیروں اور دکان داروں سے مصافحہ کیا اور اُنھیں اللہ حافظ و ناصر کہا بازار سے گزر کر وہ سبزی منڈی سے ہوتا ہوا ممنا گیٹ میں اپنے دیرینہ رفیق اور محرم راز حکیم احمد بخش نذیر (چار آنے والا حکیم )کے مطب میں پہنچا۔حکیم احمد بخش نذیر نے اُس کی نبض پر ہاتھ رکھا،سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔  حکیم احمد بخش  نذیر نے اللہ دتہ حجام کو خمیرہ گاؤ زبان کی ایک ڈبیہ اور ساتھ عرق گلاب اور شربت شفا  کی ایک بو تل دی۔اِس کے بعد اللہ دتہ حجام  بوجھل قدموں سے اپنے گھر پہنچا او ر درو دیوار اور گھر کے مکینوں  پرا یک نگاہ ڈالی ا ور ہاتھ لہرا کر سب کو سلام کیا۔ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ یہ اُس کا سلامِ آخر ہے ۔عشا کی نماز سے فارغ ہو کر اُس نے سب عزیزوں کو اللہ حافظ کہا اور کلمۂ طیبہ کا  وِرد شرع کر دیا۔اچانک اُس کی آنکھیں مُند گئیں اور اُس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔اُس کا چہرہ پُر سکون تھا اور اُس کے لبوں پر ہمیشہ کی طرح مُسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ اللہ دتہ حجام کی وفات پر شہر کا شہر سوگوار تھا۔اُس کے جنازے میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔سرخ گُلاب کے پھولوں کی پتیوں سے کفن ڈھک گیا تھا۔لحد تیار تھی  نامور ماہر تعلیم اور ممتاز عالمِ دین حافظ ارشاد احمد نے سوگوار حاضرین سے مخاطب ہو کر گلو گیر لہجے میں کہا :

’’دُکھی انسانیت سے والہانہ محبت کرنے والا  آنے والا حجام اللہ دتہ اب ہمیشہ کے لیے اِس دنیا سے جانے والا ہے۔میں یہ بات پُوری دیانت داری سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اب اِس دنیا میں غریبوں سے درد کا رشتہ نبھانے والا،یتیموں،مسکینوں اور غریبوں کا درد  بانٹ کر سد ا مُسکرانے والا عظیم انسان حجام اللہ دتہ جیسا آنے والا اب کبھی نہیں آئے گا۔ایسے لوگ نایاب ہوتے ہیں۔‘‘

سب حاضرین احساسِ زیاں کے ماتم طلب صدمے سے نڈھال تھے۔ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔موت سے کسی کو رستگاری نہیں اور اس فانی دنیا میں عزیزوں کی دائمی مفارقت کے صدمے ہمیشہ سو ہانِ روح  ثابت ہوئے ہیں۔عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھنے والوں کے پس ماندگان اُن کی جدائی پر کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔تقدیر کی تو پہچان ہی یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں  اُڑا دیتی ہے۔اِ س بات کی تہہ تک کوئی نہیں پہنچ سکاکہ وہ لوگ جن کی زندگی روشنی کا مینار ہوتی ہے اور جن کی موجودگی ہمارے لیے خضرِ راہ ہوتی ہے اور جنھیں ہم دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں،جب وہ ہمیں ہمیشہ کے لیے داغِ  مفارقت دے جاتے ہیں اُن کا متبادل کہاں سے تلاش کیا جائے۔اللہ دتہ حجام جیسے لوگ اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔حیات و ممات کے راز ہائے سر بستہ کی گرہ کشائی اب تک کوئی نہیں کر سکا۔جب میں اپنے اِرد گِرد کا ماحول دیکھتا ہوں تو مجھے اللہ دتہ حجام کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔اُس نے درد مندوں،مظلوموں اور ضعیفوں کی جس طرح بے لوث انداز میں خدمت کی وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ اب کوئی بھی شخص ایسا دکھائی نہیں دیتا جسے اللہ دتہ حجام جیسا کہا جا سکے :

تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے

کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا

کر بلا حیدری جھنگ کے مغربی گوشے میں انسانی ہمدردی اور شرافت کا  یہ آسمان آسودہ ء خاک ہے۔اللہ دتہ حجام کے ایک عقیدت مند غلام محمد نے اُس کی آخری آرام گاہ کو شایان شان انداز میں تعمیر کرایا اور اُ س پر لوح مزار بھی نصب کرائی۔یہ مزار آج بھی مرجع خلائق ہے۔

لوحِ  مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا

ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید