کوئل کا تحفہ
معراج
ترکی کے ایک گاؤں میں دو غریب موچی رہتے تھے۔ وہ دونوں گزر بسر کے لیے بہت محنت سے کام کرتے۔ ان کے پاس تھوڑی سی زمین بھی تھی، جس کی پیداوار ان کے لیے کافی ہو جاتی۔ اتفاق سے ایک نیا موچی گاؤں میں آ گیا۔ گاؤں کے سب لوگ اس سے جوتے مرمت کروانے لگے۔ اس سال سردی اور بارش کی وجہ سے جو کی فصل خراب ہو گئی۔ یہاں تک کہ دونوں بھائیوں کو گزارا کرنا مشکل ہو گیا۔
ان کی جھونپڑی گاؤں کے باہر تھی۔ اس سے آگے جنگل تھا۔ سخت برف باری سے جنگل کے درختوں پر برف جم گئی تھی۔ ان کی جھونپڑی کے باہر ایک درخت گر پڑا تھا۔
دونوں بھائیوں نے درخت کو کاٹ کر اس کی لکڑی جلائی، پھر وہ درخت کے کھوکھلے تنے کو جھونپڑی میں لے گئے اور اس پر بیٹھ کر آگ تاپنے لگے۔ کچھ دیر بعد انھیں درخت کے کھوکھلے تنے میں کوئل کے کوکنے کی آواز سنائی دی: "۔۔۔ کو کواو۔۔۔ کو کواو۔۔۔”
اس کے ساتھ ہی ایک کوئل ایک سوراخ سے نکلی اور سامنے میز پر جا کر بیٹھ گئی۔ دونوں بھائی اس پرندے کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے، لیکن انھیں اس وقت اور زیادہ حیرانی ہوئی، جب کوئل نے انسانی آواز میں کہا: "یہ کون سا موسم ہے؟”
شاکر نے کہا: "یہ سردی کا موسم ہے اور برف باری ہو رہی ہے۔”
کوئل بولی: "اوہو! آگ کی گرمی سے میں سمجھی کہ موسم گرما آ گیا ہے۔ تم نے میرا گھونسلا تو خراب اور برباد کر دیا ہے، اس لیے گرمیوں کے آنے تک تم مجھے اپنے ساتھ رہنے دو۔ میرے لیے درخت کے تنے کا سوراخ ہی کافی ہے۔ جب گرمیوں کا موسم آئے گا تو میں اپنے سفر پر روانہ ہو جاؤں گی۔ واپسی پر میں تمھارے لیے کوئی تحفہ لاؤں گی، جس سے تمھاری مصیبتیں کم ہو جائیں گی۔”
شاکر بولا: "تم بہت شوق سے ہمارے ساتھ رہ سکتی ہو۔ میں تمھارے لیے ایک گھونسلا بنا دیتا ہوں۔ تم گرمیوں کے آنے تک اس میں آرام کرو۔ تمھیں بھوک لگ رہی ہو گی، اس لیے میں تمھیں اپنے حصے کی آدھی روٹی دے رہا ہوں۔”
کوئل نے روٹی کھائی اور پانی پیا۔ پھر وہ شاکر کے بنائے ہوئے گھونسلے میں جا کر سو گئی۔ ایک دن صبح سویرے کوئل کی کوکو سے وہ بیدار ہو گئے۔ ان کے سامنے والی کھڑکی میں کوئل بیٹھی ہوئی تھی اور کوک کر بہار کے آنے کا اعلان کر رہی تھی۔ اس نے کہا: "میں اب دنیا کے سفر پر جا رہی ہوں، تاکہ ہر جگہ بہار کے آنے کا پیغام پہنچا دوں۔ اب تم مجھے بتاؤ کہ واپس آتے وقت تمھارے لیے کیا تحفہ لاؤں؟”
لالچ سے فضلو کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ بولا: "تم نے دنیا کا کونا کونا دیکھا ہوا ہے۔ تم میرے لیے کوئی بڑا سا ہیرا یا قیمتی موتی لے آؤ، تاکہ ہماری مصیبتوں کا دور ختم ہو جائے۔”
کوئل بولی: "مجھے ہیرے جواہرات کا تو علم نہیں۔ یہ چٹانوں کے اندر چھپے ہوتے ہیں اور موتی دریاؤں کی تہہ میں ہوتے ہیں، اس لیے ان کا نکالنا میرے بس میں نہیں ہے۔ یہاں سے بہت دور ایک کنواں ہے، جس کے کنارے پر دو درخت ہیں۔ ان میں سے ایک سنہری درخت کہلاتا ہے۔ اس کے پتے سونے کے ہیں۔ دوسرا درخت زیتون کا ہے۔ یہ ہمیشہ ہرا بھرا رہتا ہے۔ اس کے متعلق مشہور ہے کہ جو کوئی اس کے پتوں کو اپنے پاس رکھے گا، اس کی عقل اور دانش میں اضافہ ہو گا۔ ہر مصیبت کے باوجود اس کا دل مطمئن رہے گا۔ اگر وہ کسی جھونپڑی میں رہتا ہے تو اپنے آپ کو محل میں رہنے والوں سے زیادہ خوش خرم سمجھے گا۔”
شاکر بولا: "پیاری کوئل! تم مجھے زیتون کا پتا لا کر دینا۔”
فضلو بولا: "تم بالکل احمق ہو۔ تم نے سونے کا پتا کیوں نہ مانگا؟ پیاری کوئل! تم مجھے سونے کا پتا لا کر دینا!
کوئل نے انھیں اللہ حافظ کہا اور کھلی ہوئی کھڑکی سے اڑ کر نکل گئی۔ وہ میدانوں اور چراگاہوں پر سے اڑتی ہوئی چلی جا رہی تھی۔ اس کے ساتھ وہ چیخ چیخ کر بہار کے آنے کا اعلان کرتی جا رہی تھی۔
اس سال دونوں بھائیوں نے بہت تنگی ترشی سے وقت گزارا۔ لوگوں نے ان سے جوتے مرمت کروانے بند کر دیے۔ ان کی کھیتی سے باجرے کی فصل بھی تھوڑی پیدا ہوئی۔ سال ختم ہوتے ہوتے ان کی حالت بہت خراب ہو گئی اور فاقہ کشی تک نوبت جا پہنچی۔
بہار کا موسم شروع ہوا تو کسی نے ان کے دروازے پر دستک دی اور پھر کوئل کی آواز سنائی دی: "کو کواو۔۔۔ کو کواو۔۔ میرے دوستو! دروازہ کھولو۔۔ میں تمہارے لیے تحفہ لائی ہوں۔”
شاکر نے جلدی سے دروازہ کھولا۔ کوئل ان کی جھونپڑی میں داخل ہوئی۔ اس کی چونچ میں دو پتے تھے۔ ایک بہت بڑا سا سونے کا پتا اور دوسرا زیتون کا پتا۔ کوئل نے سونے کا پتا فضلو کو اور زیتون کا پتا شاکر کو دیا اور بولی: "دنیا کے آخری سرے سے میں تمھارے لیے یہ پتے لے کر آئی ہوں۔۔ تم مجھے کھانے کو کچھ دو۔ مجھے ابھی شمالی ملکوں میں جانا ہے، تاکہ میں وہاں بھی بہار آنے کی خوش خبری سنا دوں۔”
شاکر نے اپنے حصے کی روٹی کوئل کے آگے ڈال دی۔ کوئل روٹی کھانے لگی۔ فضلو، شاکر کو سونے کا پتا دکھا کر بولا: "تم نے میری عقل مندی دیکھی؟ اب تم اپنے لیے بھی ایسا پتا منگوانا۔”
کوئل شاکر سے بولی: "اگر تم بھی اپنے لیے سونے کا پتا منگوانا چاہتے ہو تو مجھے بتا دو۔
اگلے سال میں تمھیں بھی ایسا ہی پتا لا کر دے دوں گی۔”
شاکر نے جواب دیا: "تم میرے لیے زیتون کا پتا ہی لانا۔”
فضلو بولا: "تم میرے لیے سونے کا پتا لانا۔” یہ سن کر کوئل دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہو گئی۔
فضلو دانت پیس کر بولا: "تم نے دولت مند ہونے کا سنہری موقع کھو دیا۔ زیتون کے پتوں سے تمھیں کیا فائدہ پہنچے گا؟ آخر تم رہے بدھو کے بدھو۔”
فضلو اسے جلی کٹی سناتا رہا، لیکن جواب مین شاکر ہنس کر کہتا کہ بھائی! قناعت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔ یہ مال و دولت سب آنی جانی چیز ہے۔
فضلو غصے ہو کر بولا: "تم مجھے جیسے شریف اور معزز شخص کے ساتھ رہنے کے قابل نہیں ہو۔ آج سے میرے اور تمھارے راستے جدا جدا ہیں۔”
یہ کہہ کر اس نے سنہری پتا اٹھایا اور جھونپڑی سے باہر چلا گیا۔ گاؤں والوں میں سے جس جس نے شاکر کی بیوقوفی سنی، وہ ہنسے بغیر نہ رہ سکا۔ سب لوگوں نے فضلو کی عقل مندی کی داد دی، اب وہ فضلو نہیں رہا تھا، بلکہ چودھری فضل خاں کہلانے لگا تھا۔ سچ ہے مایا، تیرے تین نام، پرسا، پرسو، پرس رام۔ اب گاؤں کے لوگ عزت و احترام سے اس کا نام لینے لگے تھے۔ معزز اور مال دار لوگ اپنے جوتے مرمت کرانے کے لیے اس کے پاس بھیجتے تھے۔ کچھ ہی دنوں میں فضل خاں نے شادی بھی کر لی۔ شادی کی دعوت میں گاؤں کے سب لوگ تھے۔ صرف شاکر کو دعوت نامہ نہیں بھیجا گیا تھا، کیوں کہ فضل خاں کے خیال کے مطابق وہ غریب اور بیوقوف تھا اور خاندان کے نام پر دھبہ۔ اب فضل خاں امیرانہ شان شوکت سے زندگی بسر کر رہا تھا، لیکن عجیب بات تھی کہ وہ اور اس کی بیوی ہمیشہ ناخوش اور پریشان ہی رہے۔
اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فضل خاں سونے کے پتے کو توڑ توڑ کر فروخت کرتا رہا۔ آخر ایک دن پتے کا آخری ٹکڑا بھی بک گیا۔ اب فضل خاں پہلے کی طرح مفلس ہو چکا تھا۔
جب موسم بہار شروع ہوا تو کوئل پھر آئی۔ فضل خاں اور اس کی بیوی نے کوئل کی بہت خاطر مدارات کی۔ وہ اس کے لیے بہت سی چیزیں لے کر آئے، لیکن کوئل نے ان کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ وہ بولی: "میں غریب شاکر کے گھر کی روکھی سوکھی روٹی کھانا زیادہ پسند کرتی ہوں۔”
اسی طرح نہ جانے کتنے ہی سال گزر گئے۔ فضل خاں سونے کے پتے لیتا رہا اور شاکر زیتون کے پتوں پر شکر ادا کرتا رہا۔
ایک دن اس ملک کا بادشاہ شکار کھیلتا ہوا ادھر آ نکلا۔ وہ بہت فکر مند اور پریشان رہتا تھا۔ اس کا بیٹا، شہزادہ نورالدین نافرمانی کرتا تھا۔ وزیر اس کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔۔ شمالی علاقے میں بغاوت ہو گئی تھی۔ ملک میں افراتفری پھیلی پوئی تھی۔ ان باتوں نے بادشاہ کا چین، سکون غارت کر دیا تھا۔ اچانک بادشاہ کی نظر شاکر پر پڑی۔ وہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اس کے چہرے سے لگتا تھا کہ وہ کئی وقت کا بھوکا ہے، لیکن پھر بھی وہ بے حد مطمئن اور خوش نظر آتا تھا۔
بادشاہ کو یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی۔ شاکر نے بتایا: "عالی جاہ! قناعت سب سے بڑی نعمت ہے۔ جسے قناعت کی دولت میسر ہے، اسے نہ کوئی پریشانی ہے اور نہ کوئی غم۔”
بادشاہ کو شاکر کی بات پسند آئی۔ وہ بہت دیر تک شاکر کے پاس رہا۔ اس وقت اس کے ذہن سے سب پریشان جاتی رہی۔ شاکر کے پاس بادشاہ کے آنے اور پھر اس کی پریشانی دور ہونے کی بات بہت جلد ہر جگہ پھیل گئی۔ لوگ اس کے پاس اپنی پریشانیاں لے لے کر آتے اور شاکر ان کی فکر اور پریشانی کا حل بتا دیتا اور پھر وہ خوش خوش اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے۔ امیر لوگ اسے انعام دیتے اور غریب لوگ ڈھیروں دعائیں دیتے۔ اب شاکر بھی اچھی اور خوش حال زندگی گزارنے لگا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے شاکر کو بلانے کے لیے اپنا خادم بھیجا۔
خادم شاکر کی جھونپڑی پر پہنچا اور اس نے بادشاہ کا حکم نامہ دکھا کر کہا: "عالی قدر سلطان معظم نے تمھیں فوراً دربار میں طلب کیا ہے۔”
شاکر نے کہا: "کل صبح بہار کا پہلا دن ہے۔ میں سورج نکلنے سے پہلے کہیں نہیں جا سکتا۔”
خادم، شاکر کی جھونپڑی کے باہر ٹھہرا رہا۔ دن نکلتے ہی کوئل آئی۔ اس نے زیتون کا پتا شاکر کو دیا۔ شاکر نے کہا: "پیاری کوئل! بادشاہ نے مجھے اپنے دربار میں طلب کیا ہے۔ کیا تم مجھ سے ملنے کے لیے محل میں آیا کرو گی؟”
کوئل بولی: "اونچے اونچے محل حقیقت میں قید خانے ہوتے ہیں۔ یہاں نفرت، عداوت، حسد اور آپس کے جھگڑے ہیں۔ ایسی جگہ میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ میں تم سے ملنے کے لیے وہاں نہ آ سکوں گی۔ تم زیتون کے ان پتوں کی حفاظت کرنا اور انھیں اپنے سے کبھی جدا نہ کرنا۔”
کوئل نے روٹی کا ٹکڑا کھایا اور بولی: "اب تم مجھے اجازت دو۔ اللہ حافظ۔”
شاکر کو کوئل کی جدائی پر بہت رنج ہوا۔ اس نے زیتون کے پتے چمڑے کی کرتی کے استر کے اندر سیے۔ پھر وہ یہ کرتی پہن کو بادشاہ کے خادم کے ساتھ دربار کی طرف روانہ ہو گیا۔
جب وہ محل میں داخل ہوا تو درباری اسے دیکھ کر حیران ہوئے اور آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آخر بادشاہ نے اس معمولی سے شخص میں کیا بات دیکھی ہے، جو اسے محل میں بلا لیا۔
جب بادشاہ کے وزیروں نے موچی سے گفتگو کی تو اس کے جوہر کھلنے لگے۔ شہزادے، وزیر، امیر اور درباری جس جس نے شاکر سے گفتگو کی، اس کے دل کا بوجھ کم ہو گیا۔ دربار میں ایسی تبدیلی آئی، جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ لوگ آپس کی رنجشیں بھول گئے۔ ان کے دلوں کے حسد، رقابت اور نفرت کے جذبات دور ہو گئے۔
بادشاہ نے شاکر کے لیے ایک کمرہ مخصوص کر دیا۔ بادشاہ کے تخت کے برابر شاکر کی کرسی رکھ دی گئی۔ درباریوں نے اس کی خدمت میں بہت سے تحفے پیش کیے۔ وزیروں کے ریشم اور زربفت (سونے کی تاروں سے بنا ہوا) کے لباس پیش کیے لیکن موچی نے اپنی چمڑے کی کرتی پہننی نہ چھوڑی، محل کے سب لوگوں نے اس بات کو سخت ناپسند کیا۔
بادشاہ نے کہا: "تم یہ کرتی کسی فقیر کو کیوں نہیں دے دیتے؟”
شاکر نے کہا: "عالی جاہ! محل میں داخل ہونے سے پہلے یہی میرا لباس تھا۔ یہ لباس پہن کر میرے دل میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوتا۔
بادشاہ کو شاکر کا یہ جواب پسند آیا۔ اس نے حکم دیا کہ آیندہ کوئی شخص شاکر سے کرتی کے متعلق کچھ نہیں کہے گا۔
اگلے سال کوئل پھر آئی۔ اس دفعہ وہ فضل خاں کے لیے سونے کے دو پتے لائی تھی۔ اب شاکر کے لیے زیتون کا پتا لانے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ فضل خاں نے سونے کا ایک پتا فضول خرچیوں میں ختم کر ڈالا۔ اس کی بیوی نے کہا: "آخر ہم کب تک تنگ ترشی سے زندگی بسر کرتے رہیں گے۔ تمھارا بھائی شاکر کیسی شاہانہ زندگی گزار رہا ہے۔ میں تو کہتی ہوں کہ تم اپنا بوریا بستر سمیٹو اور محل کا راستہ لو۔ مجھے یقین ہے کہ وہ تمھیں کہیں کا نواب بنا دے گا۔”
فضل خاں نے اپنا سامان باندھا، سونے کا پتا ایک رومال میں لپیٹا اور پھر وہ دونوں سفر پر روانہ ہو گئے۔ وہ بہت دیر تک چلتے رہے۔ دوپہر کے وقت وہ ایک جنگل میں پہنچے۔ وہ بری طرح تھک چکے تھے۔ فضل خاں کی بیوی بولی: "تم تو عقل سے بالکل پیدل ہو۔ تم نے سفر کے لیے کسی سواری کا انتظام کیوں نہ کیا؟ آخر یہ سونا ہمارے کس دن کام آئے گا؟”
فضل خاں نے رومال کھول کر سونے کا پتا دیکھا، ایک چالاک بڑھیا بہت دیر سے ان کا پیچھا کر رہی تھی۔ وہ درخت کے پیچھے چھپی ہوئی تھی۔ اس نے ان کی سب باتیں سن لیں، پھر پتے کی جھلک بھی دیکھ لی۔ وہ درخت کے پیچھے سے نکلی اور ان کے پاس پہنچی۔ وہ چاپلوسی سے بولی:”عالی قدر نواب صاحب اور محترمہ بانو صاحبہ! کنیز کا سلام قبول فرمائیے۔”
فضل کی بیوی نے پوچھا: "تم نے کیسے جانا کہ ہم نواب ہیں؟”
بڑھیا بولی: "عالی قدر! آپ کی شکل صورت سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ خاندانی نواب ہیں۔ سرکار! کیا آپ مجھے اپنی میزبانی کی عزت بخشیں گے؟”
بڑھیا نے ایسی خوشامد کی کہ دونوں اس کے جال میں آ گئے۔ وہ دونوں بھوکے پیاسے تو تھے ہی، انھوں نے بڑھیا کی دعوت قبول کر لی۔
بڑھیا نے اپنا تھیلا کھولا اور بولی: "حضور! آپ نے ہمیشہ مزے مزے کے کھانے کھائے ہوں گے۔ آج اس غریب بڑھیا کے ہاتھ کے پکے ہوئے پھیکے اور سادہ کھانے بھی کھائیے۔ سرکار! مکھن لگی ہوئی روٹی، کباب، کوفتے اور آم کا اچار حاضر ہے۔”
فضل خاں اور اس کی بیوی نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ پھر بڑھیا نے ان کو گلاب کا شربت پیش کیا۔ اس میں کوئی نشہ آور چیز ملی ہوئی تھی۔ اسے پیتے ہی ان کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ جلد ہی وہ خوابوں کی دنیا میں پہنچ گئے اور نوابی کے خواب دیکھنے لگے۔
بڑھیا کے دو بیٹے ٹوٹو اور گولی تھے۔ وہ بڑھیا کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ فضل خاں اور اس کی بیوی سو گئے تو بڑھیا نے چیخ کر کہا: "اے احمقو! کہاں مر گئے ہو؟”
وہ دونوں لپک کر بڑھیا کے پاس پہنچے۔ بڑھیا بولی: "اب میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو، جلدی سے مال سمیٹو اور بھاگ چلو۔” پھر وہ ٹوٹو سے بولی: "آج تمھاری کیا کارگزاری رہی؟ تم نے کچھ مال اڑایا، یا یوں ہی خالی ہاتھ چلے آئے؟
ٹوٹو نے کہا: ” اماں! آج جب میں محل سرا کے پاس سے گزر رہا تھا تو کسی نے یہ چمڑے کی کرتی اوپر سے پھینکی۔ یہ کرتی ہے تو بیکار ہی، لیکن میں اسے آپ کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے لیتا آیا ہوں۔”
یہ کہہ کر اس نے ایک گٹھری بڑھیا کی طرف پھینکی۔ بڑھیا تیوری چڑھا کر بولی: "ارے احمق! یہ گدڑی میرے کس کام کی ہے؟ ” یہ کہہ کر بڑھیا نے وہ کرتی فضل خان پر ڈال دی۔ بڑھیا نے سب سامان سمیٹا، پھر وہ تینوں ہنستے ہوئے وہاں سے چل دیے۔ بہت دیر بعد فضل خاں اور اس کی بیوی کی آنکھ کھلی، انہیں یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ ان کی چیزیں اور سونے کا پتا سب چوری ہو چکے ہیں۔ یہ دیکھ کر فضل کی بیوی چیخیں مار کر رونے لگی۔
شام کے وقت خاصی سردی ہو گئی۔ فضل خاں نے چمڑے کی وہ کرتی پہن لی، جو اس کے نزدیک ہی پڑی ہوئی تھی۔ جیسے ہی اس نے کرتی کے بٹن لگائے، اس کی دلی کیفیت میں ایک عجیب تبدیلی واقع ہو گئی۔ وہ رونے دھونے کے بجائے ہنسنے مسکرانے لگا۔ اس کی بیوی کے دل سے بھی رنج و ملال جاتا رہا۔ انھوں نے جنگل میں ایک گھر بنایا۔ فضل خاں ایک گھونسے سے انڈے نکال لایا۔ اس کی بیوی بے انھیں بھونا، پھر دونوں کھا پی کر گھاس کے ڈھیر پر لیٹ گئے اور سو گئے۔
وہ جنگل میں رہتے رہے، انھوں نے اپنی جھونپڑی کو کافی بڑا کر لیا تھا۔وہ پرندوں کے انڈوں اور جنگلی پھلوں پر گزارا کرنے لگے تھے۔ دربار جانے کا خیال ان کے دل سے جاتا رہا۔
ادھر شاکر کا حال سنیے۔ جب وہ صبح کے وقت جاگا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی کرتی گم ہو چکی ہے۔ اس نے نوکروں سے پوچھا، مگر کسی نے جواب نہ دیا۔ محل کو کونا کونا چھان مارا، لیکن کرتی نہ ملنی تھی نہ ملی۔ اس وقت سے اس کے حالات اپنی پرانی ڈگر پر آ گئے۔ لڑائی جھگڑے ہونے لگے، وزیر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگے، بادشاہ کی فکر اور پریشانی اور بڑھ گئی۔
شاکر کی سب صلاحیتیں اس کی کرتی کے ساتھ تھیں۔ جب وہ نہ رہی تو صلاحیتیں بھی جاتی رہیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے اس کا ذہن بالکل ناکارہ ہو چکا ہے۔ درباریوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ اس موچی کا یہاں پر کیا کام؟ بادشاہ نے تحقیقات کا حکم دے دیا کہ یہ موچی یہاں کیوں آیا اور اس درجے تک کس طرح پہنچا۔ تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ موچی خواہ مخواہ محل میں ٹھہرا ہوا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ موچی کو محل سے باہر نکال دیا جائے اور اس کی ہر ایک چیز ضبط کر لی جائے، فرمان جاری ہوا اور ایک نوکر ضبطی کا حکم لے کر کمرے میں داخل ہو گیا اور قیمتی چیزوں پر قبضہ کرنے لگا۔ شاکر کھڑکی کے راستے بھاگ نکلا۔ اس کو بھاگتا دیکھ کر ایک راہ گیر بولا: "آج صبح اس کھڑکی سے ایک کرتی باہر آ کر گری تھی، اب کرتی کا مالک کھڑکی سے باہر کود رہا ہے۔”
شاکر نے راہ گیر کا ہاتھ پکڑ لیا اور منت بھرے لہجے میں بولا: "کیا تم بتا سکتے ہو کہ وہ کرتی کس کے پاس ہے؟”
راہ گیر بولا: "ایک لڑکا اس کرتی کو اٹھا کر جنگل کی طرف بھاگا تھا۔”
شاکر بولا: "اگر تم مجھے اس لڑکے کے پاس لے چلو، تو میں تمھیں بہت انعام دوں گا۔”
راہ گیر بولا: "تم اس راستے پر چلتے رہو۔ جہاں یہ ختم ہو جائے، وہاں ایک گھر ہے۔ شاید تمھاری کرتی کے متعلق کچھ خبر مل جائے۔”
شاکر نے اپنا بٹوا اسے انعام میں دے دیا اور راہ گیر کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے لگا۔ وہ جنگل میں داخل ہو گیا۔ رات ہو گئی تھی۔ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا، دور ایک جگہ آگ جل رہی تھی، وہ اسی سمت بڑھتا رہا۔ آخر وہ ایک مکان کے پاس جا پہنچا۔ مکان کا دروازہ ادھ کھلا تھا۔ اس نے اندر جھانک کر دیکھا۔ وہاں اس کا بھائی فضل خاں (فضلو) سو رہا تھا۔ اس کے سرہانے وہی کرتی رکھی ہوئی تھی۔ اس کے قریب ہی ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ شاکر سمجھ گیا کہ یہ فضل کی بیوی ہے۔
وہ دستک دے کر مکان میں داخل ہوا اور دھیمی آواز سے سلام کیا۔ شاکر کی بھاوج نے اسے نہیں پہچانا۔ اس نے بہت اخلاق سے اسے خوش آمدید کہا۔ وہ بولی: "بھائی صاحب! دھیمی آواز میں گفتگو کیجیئے۔ میرے شوہر ابھی سوئے ہیں۔”
شاکر نے کہا: "بی بی! میں راستے سے بھٹک کر آ نکلا ہوں۔ میں دراصل بادشاہ کے دربار میں ملازم ہوں۔”
عورت نے پوچھا: "اچھا یہ تو بتائیے کہ دربار کا کیا حال ہے؟ بہت دن پہلے میں بھی وہاں جانے کے خواب دیکھا کرتی تھی، لیکن اب میں اپنے اس احمقانہ خیال پر ہنستی ہوں۔”
شاکر نے پوچھا:”آپ وہاں کیوں جانا چاہتی تھیں؟”
عورت نے کہا: "میرے شوہر کا بھائی دربار میں ملازم میں ہے۔ ہم بھی اپنی قسمت آزمانے نکلے تھے۔ لیکن ایک بڑھیا نے ہمیں نشہ آور شربت پلا کر بیہوش کر دیا اور ہمارا سب کچھ چھین کر لے گئی۔ جاتے وقت یہ پرانی سی کرتی یہاں پھینک گئی ہے۔”
شاکر نے اپنا قیمتی کوٹ اتار کر رکھ دیا اور بولا: "بی بی! میرا خیال ہے کہ آپ کا شوہر اس پرانی کرتی کی جگہ اس قیمتی کوٹ کو ضرور پسند کرے گا۔”
عورت نے اپنے شوہر کو جھنجوڑ کر بیدار کیا اور بولی: "دیکھو تو سہی، میں نے کیسا عمدہ سودا کیا ہے؟”
فضل خاں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ اس کے سامنے اس کا بھائی شاکر کھڑا ہوا مسکرا رہا تھا۔ فضل نے آگے بڑھ کر اپنے بھائی کو گلے لگایا اور کہا: "بھائی! تم ٹھیک تو ہو؟ تم نے دربار میں کیا کچھ دیکھا؟ وہاں کتنی ترقی پائی؟”
شاکر بولا: "بھائی دربار کا عروج بھی دیکھا اور زوال بھی۔ سچ پوچھو تو ان ہنگاموں سے میرا دل بھر چکا ہے۔ اب تو دل چاہتا ہے کہ اپنی جھونپڑی میں سکون اور آرام سے رہوں۔”
فضل اور اس کی بیوی بھی گاؤں واپس چلنے پر رضامند ہو گئے۔ دونوں بھائیوں نے ایک بار پھر ہی اپنا کام سنبھال لیا۔
کوئل اب بھی ہر سال موسم بہار شروع ہوتے ہی ان سے ملنے آتی ہے۔ اب وہ ان دونوں کے لیے زیتون کے پتے لاتی ہے۔
٭٭٭
ٹائپنگ:مقدس
پروف ریڈنگ : فہیم اسلم، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید