FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بسمہٖ تعالیٰ

کلیاتِ غالبؔ

حصہ دوم ۔۔ متداول دیوان، ب

مرزا اسد اللہ خان غالبؔ

مرتبہ: جویریہ مسعود

(پیشکش: اردو محفل)

www.urduweb.org/mehfil

۲۳ اکتوبر ۲۰۱۹

مکمل کلیات ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

۱۰۱

مانعِ دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں

ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں

شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو، کہ جہاں

جادہ غیر از نگہِ دیدۂ تصویر نہیں

حسرتِ لذّتِ آزار رہی جاتی ہے

جادۂ راہِ وفا جز دمِ شمشیر نہیں

رنجِ نومیدیِ جاوید گوارا رہیو

خوش ہوں گر نالہ زبونی کشِ تاثیر نہیں

سر کھجاتا ہے جہاں زخمِ سر اچھا ہو جائے

لذّتِ سنگ بہ اندازۂ تقریر نہیں

جب کرم رخصتِ بے باکی و گستاخی دے

کوئی تقصیر بہ جُز خجلتِ تقصیر نہیں

[1]آئینہ دام کو سبزے[2] میں چھپاتا ہے عبث

کہ پری زادِ نظر قابلِ تسخیر نہیں

مثلِ گُل زخم ہے میرا بھی سناں سے توام

تیرا ترکش ہی کچھ آبِ ستنِ تیر نہیں

میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ

جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں

غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ[3]

’آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں‘

۱۰۲

[4]مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں

ہیں جمع سُویدائے دلِ چشم میں آہیں

جوں مردمکِ چشم میں ہوں جمع نگاہیں

خوابیدہ بہ حیرت کدۂ داغ ہیں آہیں

پھر حلقۂ کاکل میں پڑیں دید کی راہیں

جوں دود، فراہم ہوئیں روزن میں نگاہیں

پایا سرِ ہر ذرّہ جگر گوشۂ وحشت

ہیں داغ سے معمور شقایق کی کلاہیں

کس دل پہ ہے عزمِ صفِ مژگانِ خود آرا؟

آئینے کی پایاب سے اتری ہیں سپاہیں

دیر و حرم، آئینۂ تکرارِ تمنا

واماندگیِ شوق تراشے ہے پناہیں

یہ مطلع، اسدؔ، جوہرِ افسونِ سخن ہو

گر عرضِ تپاکِ نفسِ سوختہ چاہیں

حسرت کشِ یک جلوۂ معنی ہیں نگاہیں

کھینچوں ہوں سویدائے دلِ چشم سے آہیں

۱۰۳

صاف ہے از بس کہ عکسِ گل سے، گل زار چمن

جانشینِ جوہرِ آئینہ ہے، خارِ چمن

[5]برشکالِ گریۂ عاشق ہے[6] دیکھا چاہئے

کھِل گئی مانندِ گُل سَو جا سے دیوارِ چمن

اُلفتِ گل سے غلط ہے دعویِ وارستگی

سرو ہے با وصفِ آزادی گرفتارِ چمن

ہے نزاکت بس کہ فصلِ گل میں معمارِ چمن

قالبِ گل میں ڈھلی ہے خشتِ دیوارِ چمن

تیری آرائش کا استقبال کرتی ہے بہار

جوہرِ آئینہ، ہے یاں نقشِ احضارِ چمن

بس کہ پائی یار کی رنگیں ادائی سے شکست

ہے کلاہِ نازِ گل، بر طاقِ دیوارِ چمن

وقت ہے، گر بلبلِ مسکیں زلیخائی کرے

یوسفِ گل جلوہ فرما ہے بہ بازارِ چمن

وحشت افزا گریہ ہا موقوفِ فصلِ گل، اسدؔ

چشمِ دریا بار ہے میزابِ سرکارِ چمن

۱۰۴

عشق تاثیر سے نومید نہیں

جاں سپاری شجرِ بید نہیں

سلطنت دست بہ دَست آئی ہے

جامِ مے خاتمِ جمشید نہیں

ہے تجلی تری سامانِ وجود

ذرّہ بے پرتوِ خورشید نہیں

رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے

ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں

گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے

غمِ محرومیِ جاوید نہیں

کہتے ہیں جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ

ہم کو جینے کی بھی امّید نہیں

[7]مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل

بادہ، غالبؔ! عرقِ بید نہیں

۱۰۵

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں

خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں

دل آشفتگاں خالِ کنجِ دہن کے

سویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیں

ترے سروِ قامت سے اک قدِ آدم

قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں

تماشا! کہ[8] اے محوِ آئینہ داری

تجھے کس تمنّا سے ہم دیکھتے ہیں

سراغِ تُفِ نالہ لے داغِ دل سے

کہ شب رَو کا نقشِ قدم دیکھتے ہیں

[9]کسو کو ز خود رستہ کم دیکھتے ہیں

کہ آہو کو پابندِ رم دیکھتے ہیں

خطِ لختِ دل یک قلم دیکھتے ہیں

مژہ کو جواہر رقم دیکھتے ہیں

سرابِ یقین ہیں پریشان نگاہاں

اسدؔ کو گر از چشمِ کم دیکھتے ہیں

کہ ہم بیضۂ طوطیِ ہند، غافل

تہِ بالِ شمعِ حرم دیکھتے ہیں

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

۱۰۶

ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں

کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں

کب سے ہُوں۔ کیا بتاؤں، جہانِ خراب میں

شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں

تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر

آنے کا عہد کر گئے، آئے جو خواب میں

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو، وہ لکھیں گے جواب میں

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام

ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

جو منکرِ وفا ہو، فریب اس پہ کیا چلے

کیوں بد گماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں

میں مضطرب ہُوں وصل میں خوفِ رقیب سے

ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں

میں اور حظِّ وصل خدا ساز بات ہے

جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں

ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے

ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں

لاکھوں لگاؤ ایک چُرانا نگاہ کا

لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں

وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے

جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں

وہ سحر مدعا طلبی میں کام نہ آئے

جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں

غالبؔ چھُٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی

پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں

۱۰۷

کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں

یہ سُوء ظن ہے ساقیِ کوثر کے باب میں

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں

جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع

گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں

رَو میں‌ ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے[10]

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بُعد ہے

جتنا کہ وہمِ غیر سے ہُوں پیچ و تاب میں

اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے

حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

ہے مشتمل نمُودِ صُوَر پر وجودِ بحر

یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں

شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی

ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یُوں حجاب میں

آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز

پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود

ہیں‌ خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں

غالبؔ ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست

مشغولِ حق ہوں، بندگیِ بُو تراب میں

۱۰۸

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں

چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں

ہر اک سے پُوچھتا ہوں کہ ’’جاؤں کدھر کو مَیں‘‘

جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار

اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو مَیں

ہے کیا، جو کس کے باندھیے میری بلا ڈرے

کیا جانتا نہیں ہُوں تمھاری کمر کو مَیں

لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ ’یہ بے ننگ و نام ہے‘

یہ جانتا اگر، تو لُٹاتا نہ گھر کو مَیں

چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو مَیں

خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار

کیا پُوجتا ہوں اس بُتِ بیداد گر کو مَیں

پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار

جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو مَیں

اپنے پہ کر رہا ہُوں قیاس اہلِ دہر کا

سمجھا ہوں دل پذیر متاعِ ہُنر کو میں

غالبؔ خدا کرے کہ سوارِ سمندِ ناز

دیکھوں علی بہادرِ عالی گُہر کو میں

۱۰۹

ذکر میرا بہ بدی بھی، اُسے منظور نہیں

غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دُور نہیں

وعدۂ سیرِ گلستاں ہے، خوشا طالعِ شوق

مژدۂ قتل مقدّر ہے جو مذکور نہیں

شاہدِ ہستیِ مطلق کی کمر ہے عالَم

لوگ کہتے ہیں کہ ’ہے‘، پر ہمیں‌ منظور نہیں

قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن

ہم کو تقلیدِ تُنک ظرفیِ منصور نہیں

حسرت! اے ذوقِ خرابی، کہ وہ طاقت نہ رہی

عشقِ پُر عربَدہ کی گوں تنِ رنجور نہیں

[11]ظلم کر ظلم! اگر لطف دریغ آتا ہو

تُو تغافل میں ‌کسی رنگ سے معذور نہیں

میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمھیں

کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم حور نہیں‘‘

[12]پیٹھ محراب کی قبلے کی طرف رہتی ہے

محوِ نسبت ہیں، تکلّف ہمیں منظور نہیں

صاف دُردی کشِ پیمانۂ جم ہیں ہم لوگ

وائے! وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں

ہُوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالبؔ

میرے دعوے پہ یہ حجّت ہے کہ مشہور نہیں

۱۱۰

نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں

ہے تقاضائے جفا، شکوۂ بیداد نہیں

عشق و مزدوریِ عشرت گہِ خسرو، کیا خُوب!

ہم کو تسلیم، نکو نامیِ فرہاد نہیں

کم نہیں وہ بھی خرابی میں، پہ وسعت معلوم

دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں

اہلِ بینش کو ہے طوفانِ حوادث مکتب

لطمۂ موج کم از سیلیِ استاد نہیں

وائے مظلومیِ تسلیم![13] و بدا! حالِ وفا!

جانتا ہے کہ ہمیں طاقتِ فریاد نہیں

رنگِ تمکینِ گُل و لالہ پریشاں کیوں ہے؟

گر چراغانِ سرِ راہ گُزرِ باد نہیں

سَبَدِ گُل کے تلے بند کرے ہے گل چیں!

مژدہ اے مرغ! کہ گل زار میں صیّاد نہیں

نفی سے کرتی ہے اثبات[14] طراوش[15] گویا

دی ہی جائے دہن اس کو دمِ ایجاد ’’نہیں‘‘

کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے بہشت

یہی نقشہ ہے ولے، اس قدر آباد نہیں

کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ

تم کو بے مہریِ یارانِ وطن یاد نہیں؟

۱۱۱

دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا

یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے

تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں؟

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم؟

ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں؟

۱۱۲

ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں

دامنِ تمثال آبِ آئینہ سے تر نہیں

ہے وطن سے باہر اہلِ دل کی قدر و منزلت

عزلت آبادِ صدف میں قیمتِ گوہر نہیں

ہوتے ہیں بے قدر در کنجِ وطن صاحب دلاں[16]

عزلت آبادِ صدف میں قیمتِ گوہر نہیں

باعثِ ایذا ہے برہم خوردنِ بزمِ سرور

لخت لختِ شیشۂ بشکستہ جز نشتر نہیں

واں سیاہی مردمک ہے اور یاں داغِ شراب

مہ حریفِ نازشِ ہم چشمیِ ساغر نہیں

ہے فلک بالا نشینِ فیضِ خم گر دیدنی

عاجزی سے ظاہرا رتبہ کوئی برتر نہیں

دل کو اظہارِ سخن اندازِ فتح الباب ہے

یاں صریرِ خامہ غیر از اصطکاکِ در نہیں

[17]ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر

عشق کا اس کو گماں ہم بے زبانوں پر نہیں

کب تلک پھیرے اسدؔ لب ہائے تفتہ پر زباں

طاقتِ لب تشنگی اے ساقیِ کوثر نہیں

۱۱۳

سرشک آشفتہ سر تھا قطرہ زن مژگاں سے جانے میں

رہے یاں، شوخیِ رفتار سے، پا آستانے میں

ہجومِ مژدۂ دیدار، و پردازِ تماشا ہا

گلِ اقبالِ خس ہے چشمِ بلبل، آشیانے میں

ہوئی یہ بے خودی چشم و زباں کو تیرے جلوے سے

کہ طوطی قفلِ زنگ آلودہ ہے آئینہ خانے میں

ترے کوچے میں ہے، مشاطۂ واماندگی، قاصد

پرِ پرواز، زلفِ باز ہے ہدہد کے شانے میں

کجا معزولیِ آئینہ؟ کُو ترکِ خود آرائی؟

نمد در آب ہے، اے سادہ پُرکار، اس بہانے میں

بہ حکمِ عجز، ابروئے مہِ نو حیرت ایما ہے

کہ یاں گم کر جبینِ سجدہ فرسا آستانے میں

[18]قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا

تعجّب سے وہ بولا ’یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں؟‘

دلِ نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالبؔ

نہ کر سرگرم اس کافر کو اُلفت آزمانے میں

۱۱۴

ہے ترحم آفریں، آرائشِ بیداد، یاں

اشکِ چشمِ دام ہے، ہر دانۂ صیاد، یاں

ہے، گدازِ موم، اندازِ چکیدن ہائے خوں

نیشِ زنبورِ عسل، ہے نشترِ فصاد، یاں

ناگوارا ہے ہمیں، احسانِ صاحبِ دولتاں

ہے، زرِ گل بھی، نظر میں جوہرِ فولاد، یاں

جنبشِ دل سے ہوئے ہیں، عقدہ ہائے کار، وا

کم تریں مزدورِ سنگیں دست ہے، فرہاد، یاں

[19]دل لگا کر لگ گیا اُن کو بھی تنہا بیٹھنا

بارے اپنی بے کسی کی ہم نے پائی داد، یاں

ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام

مہرِ گردوں ہے چراغِ رہگزارِ باد، یاں

قطرہ ہائے خونِ بسمل زیبِ داماں ہیں، اسدؔ

ہے تماشا کردنی گل چینیِ جلاد، یاں

۱۱۵

یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں

کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

وہ آئیں[20] گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو

یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

ترے جواہرِ طرفِ کُلہ کو کیا دیکھیں

ہم اوجِ طالعِ لعل و گہر کو دیکھتے ہیں

۱۱۶

نہیں، کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں

شبِ فراق سے روزِ جزا زیاد نہیں

کوئی کہے کہ ’شبِ مَہ میں کیا بُرائی ہے‘

بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں

جو آؤں سامنے اُن کے تو مرحبا نہ کہیں

جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں

کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں، تو کہتے ہیں

کہ ’آج بزم میں کچھ فتنۂ و فساد نہیں‘

علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب

گدائے کُوچۂ مے خانہ نا مراد نہیں

جہاں میں ہو غم و شادی بہم، ہمیں کیا کام؟

دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں

تم اُن کے وعدے کا ذکر اُن سے کیوں کرو غالبؔ

یہ کیا؟ کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ ’’یاد نہیں‘‘

۱۱۷

تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں

ہم بھی مضموں کی ہَوا باندھتے ہیں

[21]آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے

ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں

تیری فرصت کے مقابل اے عُمر!

برق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں

قیدِ ہستی سے رہائی معلوم!

اشک کو بے سر و پا باندھتے ہیں

نشۂ رنگ سے ہے واشُدِ گل

مست کب بندِ قبا باندھتے ہیں

غلطی ہائے مضامیں مت پُوچھ

لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں

اہلِ تدبیر کی واماندگیاں

آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں

سادہ پُرکار ہیں خوباں غالبؔ

ہم سے پیمانِ وفا باندھتے ہیں

۱۱۸

تنِ بہ بندِ ہوس در نہ دادہ رکھتے ہیں

دلِ زکارِ جہاں اوفتادہ رکھتے ہیں

تمیزِ زشتی و نیکی میں لاکھ باتیں ہیں

بہ عکسِ آئینہ یک فردِ سادہ رکھتے ہیں

بہ رنگِ سایہ ہمیں بندگی میں ہے تسلیم

کہ داغِ دل بہ جبینِ کشادہ رکھتے ہیں

بہ زاہداں، رگِ گردن، ہے رشتۂ زنار

سرِ بپائے بتے نا نہادہ رکھتے ہیں

معافِ بیہُدہ گوئی ہیں ناصحانِ عزیز

دلے بہ دستِ نگارے نہ دادہ رکھتے ہیں

بہ رنگِ سبزہ، عزیزانِ بد زباں یک دست

ہزار تیغ بہ زہراب دادہ رکھتے ہیں

ادب نے سونپی ہمیں سرمہ سائیِ حیرت

زبانِ بستہ و چشمِ کشادہ رکھتے ہیں

[22]زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسدؔ

وگرنہ ہم تو توقعّ زیادہ رکھتے ہیں

۱۱۹

دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں

خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں

کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں

یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟

لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے

آخر گناہ گار ہُوں کافَر نہیں ہُوں میں

کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟

لعل و زمرّد و زر و گوہر نہیں ہُوں میں

رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟

رتبے میں مہر و ماہ سے کم تر نہیں ہُوں میں؟

کرتے ہو مجھ کو منعِ قدم بوس کس لیے؟

کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہُوں میں؟[23]

[24]غالبؔ وظیفہ خوار ہو، دو شاہ کو دعا

وہ دن گئے کہ[25] کہتے تھے نوکر نہیں ہُوں میں

۱۲۰

سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!

یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں

لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں

تھیں بنات النعشِ [26] گردوں دن کو پردے میں نہاں

شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں

قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر

لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں

سب رقیبوں سے ہوں نا خوش، پر زنانِ مصر سے

ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں

جُوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق

میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں

ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام

قدرتِ حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں

نیند اُس کی ہے، دماغ اُس کا ہے، راتیں اُس کی ہیں

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں[27]

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھُل گیا

بلبلیں سُن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

وہ نگاہیں کیوں ہُوئی جاتی ہیں یا رب دل کے پار؟

جو مری کوتاہیِ قسمت سے مژگاں ہو گئیں

بس کہ روکا میں نے اور سینے میں اُبھریں پَے بہ پَے

میری آہیں بخیۂ چاکِ گریباں ہو گئیں

واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب؟

یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں

جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا

سب لکیریں ہاتھ کی گویا، رگِ جاں ہو گئیں

ہم موحّد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسُوم

ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

رنج سے خُوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں

دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں[28]

۱۲۱

دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں

یعنی ہمارے جَیب [29]میں اک تار بھی نہیں

دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے

دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں

ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے

دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

بے عشق عُمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں[30]

طاقت بہ قدرِ لذّتِ آزار بھی نہیں

شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش

صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں

گنجائشِ عداوتِ اغیار اک طرف

یاں دل میں ضعف سے ہوسِ یار بھی نہیں

ڈر نالہ ہائے زار سے میرے، خُدا کو مان

آخر نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں

دل میں ہے یار کی صفِ مژگاں سے رو کشی

حالاں کہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خُدا!

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بار ہا

دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں

۱۲۲

فزوں کی دوستوں نے حرصِ قاتل ذوقِ کشتن میں[31]

ہوئے ہیں بخیہ ہائے زخم، جوہر تیغِ دشمن میں

تماشا کردنی ہے لطفِ زخمِ انتظار اے دل

سوادِ زخمِ مرہم[32] مردمک ہے چشمِ سوزن میں

دل و دین و خرد، تاراجِ نازِ جلوہ پیرائی

ہوا ہے جوہرِ آئینہ خَیلِ مور خرمن میں

نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے درخُور مرے تن میں

ہُوا ہے تارِ اشکِ یاس، رشتہ چشمِ سوزن میں

ہُوئی ہے مانعِ ذوقِ تماشا، خانہ ویرانی

کفِ سیلاب باقی ہے بہ رنگِ پنبہ روزن میں

ودیعت خانۂ بے دادِ کاوش ہائے مژگاں ہوں

نگینِ نامِ شاہد ہے مِرا[33] ہر قطرہ خوں تن میں

[34]بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی

شبِ مہ ہو جو رکھ دیں پنبہ دیواروں کے روزن میں

نکوہش مانعِ بے ربطیِ شورِ جنوں آئی

ہُوا ہے خندہ احباب بخیہ جَیب و دامن میں

ہوئے اُس مِہر وَش کے جلوۂ تمثال کے آگے

پَر افشاں جوہر آئینے میں مثلِ ذرّہ روزن میں

نہ جانوں نیک ہُوں یا بد ہُوں، پر صحبت مخالف ہے

جو گُل ہُوں تو ہُوں گلخن میں جو خس ہُوں تو ہُوں گلشن میں

ہزاروں دل دیئے جوشِ جنونِ عشق نے مجھ کو

سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرۂ خوں تن میں

اسدؔ زندانیِ تاثیرِ الفت ہائے خوباں ہُوں

خمِ دستِ نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں

۱۲۳

مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں

سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں

مگر غبار ہُوئے پر، ہَوا اُڑا لے جائے

وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں

یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟

کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں

بھلا اُسے نہ سہی، کچھ مجھی کو رحم آتا

اثر مرے نفسِ بے اثر میں خاک نہیں

خیالِ جلوۂ گُل سے خراب ہیں مے کش

شراب خانے کے دیوار و در میں خاک نہیں

ہُوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ

سوائے حسرتِ تعمیر، گھر میں خاک نہیں

ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ

کھُلا، کہ فائدہ عرضِ ہُنر میں خاک نہیں

۱۲۴

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟

روئیں گے ہم ہزار بار۔ کوئی ہمیں ستائے کیوں؟

دَیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں

بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر[35] ہمیں اُٹھائے کیوں؟

جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز

آپ ہی ہو نظارہ سوز۔ پردے میں منہ چھپائے کیوں؟

دشنۂ غمزہ جاں ستاں، ناوکِ ناز بے پناہ

تیرا ہی عکس رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں؟

قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟

حسن اور اس پہ حسنِ ظن، رہ گئی بو الہوس کی شرم

اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں؟

واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع

راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں؟

ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی

جس کو ہوں دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟

غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں

روئیے زار زار کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟[36]

۱۲۵

غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں

بوسے کو پُوچھتا ہوں مَیں، منہ سے مجھے بتا کہ یُوں

پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا؟ کہ بن کہے

اُس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں

رات کے وقت مَے پیے ساتھ رقیب کو لیے

آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یُوں

’غیر سے رات کیا بنی‘ یہ جو کہا تو دیکھیے

سامنے آن بیٹھنا اور یہ دیکھنا کہ یُوں

بزم میں اُس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے

اُس کی تو خامُشی میں بھی ہے یہی مدّعا کہ یُوں

میں نے کہا کہ ’’بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی‘‘

سُن کر ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یُوں؟

مجھ سے کہا جو یار نے ’جاتے ہیں ہوش کس طرح‘

دیکھ کے میری بے خودی، چلنے لگی ہوا کہ یُوں

کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی

آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ یُوں

گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال

موجِ محیطِ آب میں مارے ہے دست و پا کہ یُوں

جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کر[37] ہو رشکِ فارسی

گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یُوں

۱۲۶

ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں[38]

میں دشتِ غم میں آہوئے صیّاد دیدہ ہوں

ہوں دردمند، جبر ہو یا اختیار ہو

گہ نالۂ کشیدہ، گہ اشکِ چکیدہ ہوں

نے سُبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے رابطہ[39]

میں معرضِ مثال میں دستِ بریدہ ہوں

ہوں خاکسار پر نہ کسی سے ہے مجھ کو لاگ

نے دانۂ فتادہ ہوں، نے دامِ چیدہ ہوں

جو چاہئے، نہیں وہ مری قدر و منزلت

میں یوسفِ بہ قیمتِ اوّل خریدہ ہوں

ہر گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ

ہوں میں کلامِ نُغز، ولے نا شنیدہ ہوں

اہلِ وَرَع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل

پر عاصیوں کے زمرے[40] میں مَیں برگزیدہ ہوں

ہوں گرمیِ نشاطِ تصوّر سے نغمہ سنج

میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں[41]

جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن

از بس کہ تلخیِ غمِ ہجراں چشیدہ ہوں[42]

ظاہر ہیں میری شکل سے افسوس کے نشاں

خارِ الم سے پشت بہ دنداں گزیدہ ہوں[43]

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

۱۲۷

دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں

رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں

دی سادگی سے جان پڑوں کوہ کُن کے پاؤں

ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گیے پیر زن کے پاؤں

بھاگے تھے ہم بہت، سو، اسی کی سزا ہے یہ

ہو کر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پاؤں

مرہم کی جستجو میں پھرا ہوں جو دور دور

تن سے سوا فِگار ہیں اس خستہ تن کے پاؤں

اللہ رے ذوقِ دشت نوردی کہ بعدِ مرگ

ہلتے ہیں خود بہ خود مرے، اندر کفن کے، پاؤں

ہے جوشِ گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف

اڑتے ہوئے الجھتے ہیں مرغِ چمن کے پاؤں

[44]بے چارہ کتنی دور سے آیا ہے، شیخ جی

کعبے میں، کیوں دبائیں نہ ہم برہمن کے پاؤں

شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں

دکھتے ہیں آج اس بتِ نازک بدن کے پاؤں

غالبؔ مرے کلام میں کیوں کر مزہ نہ ہو

پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پاؤں

ردیف و

۱۲۸

حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو[45]

کہ چشمِ تنگ شاید کثرتِ نظّارہ سے وا ہو

بہ قدرِ حسرتِ دل چاہیے ذوقِ معاصی بھی

بھروں یک گوشۂ دامن گر آبِ ہفت دریا ہو

اگر وہ سرو قد گرمِ خرامِ ناز آ جاوے

کفِ ہر خاکِ گلشن، شکلِ قمری، نالہ فرسا ہو

بہم بالیدنِ سنگ و گلِ صحرا یہ چاہے ہے

کہ تارِ جادہ بھی کہسار کو زنارِ مینا ہو

حریفِ وحشتِ نازِ نسیمِ عشق جب آؤں

کہ مثلِ غنچہ، سازِ یک گلستاں دل مہیا ہو

بجائے دانہ خرمن یک بیابان بیضۂ قمری

مرا حاصل وہ نسخہ ہے کہ جس سے خاک پیدا ہو

کرے کیا سازِ بینش وہ شہیدِ دردِ آگاہی

جسے موئے دماغِ بے خودی، خوابِ زلیخا ہو

دلِ چوں شمع، بہرِ دعوتِ نظارہ لا، جس سے

نگہ لب ریزِ اشک و سینہ معمورِ تمنا ہو

نہ دیکھیں روئے یک دل سر د، غیر از شمعِ کافوری

خدایا، اس قدر بزمِ اسدؔ گرمِ تماشا ہو

۱۲۹

آئی اگر بلا، تو جگہ سے ٹلے نہیں

ایراہی دے کے ہم نے بچایا ہے کشت کو[46]

کعبے میں جا رہا، تو نہ دو طعنہ، کیا کہیں

بھولا ہوں حقِّ صحبتِ اہلِ کُنِشت کو

طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ

دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسمِ ثواب سے

ٹیڑھا لگا ہے قط قلمِ سر نوشت کو

غالبؔ کچھ اپنی سعی سے لینا نہیں مجھے

خرمن جلے اگر نہ مَلخ کھائے کشت کو

۱۳۰

وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو

کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو

چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا

ہے دل پہ بار، نقشِ محبّت ہی کیوں نہ ہو

ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ

ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو

پیدا ہوئی ہے، کہتے ہیں، ہر درد کی دوا

یوں ہو تو چارۂ غمِ الفت ہی کیوں نہ ہو

ڈالا نہ بےکسی نے کسی سے معاملہ

اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو

ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال

ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

ہنگامۂ زبونیِ ہمّت ہے، انفعال

حاصل نہ کیجے دہر سے، عبرت ہی کیوں نہ ہو

وارستگی بہانۂ بیگانگی نہیں

اپنے سے کر، نہ غیر سے، وحشت ہی کیوں نہ ہو

مٹتا ہے فوتِ فرصتِ ہستی کا غم کوئی؟

عمرِ عزیز صَرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو

اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ

اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو

۱۳۱

قفس میں ہوں گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو

مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجانِ گلشن کو

نہیں گر ہمدمی آساں، نہ ہو، یہ رشک کیا کم ہے

نہ دی ہوتی خدا یا آرزوئے دوست، دشمن کو

نہ نکلا آنکھ سے تیری اک آنسو اس جراحت پر

کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگانِ سوزن کو

خدا شرمائے ہاتھوں کو کہ رکھتے ہیں کشاکش میں

کبھی میرے گریباں کو، کبھی جاناں کے دامن کو

ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں

نہیں دیکھا شناور جوئے خوں میں تیرے توسن کو

ہوا چرچا جو میرے پاؤں کی زنجیر بننے کا

کیا بے تاب کاں میں، جنبشِ جوہر نے آہن کو

خوشی کیا، کھیت پر میرے، اگر سو بار ابر آوے

سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو

وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے

مَرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

شہادت تھی مری قسمت میں جو دی تھی یہ خو مجھ کو

جہاں تلوار کو دیکھا، جھکا دیتا تھا گردن کو

نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا

رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو

سخن کیا کہہ نہیں سکتے کہ جویا ہوں جواہر کے

جگر کیا ہم نہیں رکھتے کہ کھودیں جا کے معدن کو

مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالبؔ

فریدون و جم و کیخسرو و داراب و بہمن کو

۱۳۲

واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار

یعنی یہ میری آہ کی تاثیر سے نہ ہو

اپنے کو دیکھتا نہیں ذوقِ ستم کو دیکھ

آئینہ تاکہ دیدۂ نخچیر سے نہ ہو

۱۳۳

واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو

صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو

دل کو میں اور مجھے دل محوِ وفا رکھتا ہے

کس قدر ذوقِ گرفتاریِ ہم ہے ہم کو

ضعف سے نقشِ پئے مور، ہے طوقِ گردن

ترے کوچے سے کہاں طاقتِ رم ہے ہم کو

جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امّید بھی ہو

یہ نگاہِ غلط انداز تو سَم ہے ہم کو

رشکِ ہم طرحی و دردِ اثرِ بانگِ حزیں

نالۂ مرغِ سحر تیغِ دو دم ہے ہم کو

سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرّر چاہا

ہنس کے بولے کہ ’ترے سر کی قسم ہے ہم کو!‘

دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ؟ و لیکن ناچار

پاسِ بے رونقیِ دیدہ اہم ہے ہم کو

تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو

ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو

ق

لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی

ہوسِ سیر و تماشا، سو وہ کم ہے ہم کو

مقطعِ سلسلۂ شوق نہیں ہے یہ شہر

عزمِ سیرِ نجف و طوفِ حرم ہے ہم کو

لیے جاتی ہے کہیں ایک توقّع غالبؔ

جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو

ابر روتا ہے کہ بزمِ طرب آمادی کرو

برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو

طاقتِ رنجِ سفر بھی نہیں پاتے اتنی

ہجرِ یارانِ وطن کا بھی الم ہے ہم کو

لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید

جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو[47]

۱۳۴

تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

بچتے نہیں مواخذۂ روزِ حشر سے

قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو

کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق نا شناس[48] ہیں

مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو

ابھرا ہوا نقاب میں ہے ان کے، ایک تار

مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو

جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید

مسجد ہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو

سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف، سب درست

لیکن خدا کرے وہ تِرا[49] جلوہ گاہ ہو

غالبؔ بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں

دنیا ہو یا رب اور مرا بادشاہ ہو

۱۳۵

گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو

کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو

ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال

کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو

ادب ہے اور یہی کشمکش، تو کیا کیجے

حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو

تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا

بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیوں کر ہو

الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ

جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو

جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا

وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیوں کر ہو

ہمیں پھر ان سے امید اور انہیں ہماری قدر

ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیوں کر ہو

غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلّی کا

نہ مانے دیدۂ دیدار جو، تو کیوں کر ہو

بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار

یہ نیش ہو رگِ جاں میں فِرو تو کیوں کر ہو

مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بہ قولِ حضور[50]

’فراقِ یار میں تسکین ہو تو کیوں کر ہو‘

۱۳۶

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو

نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں[51]

سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو

کِیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبّت کو

نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا راز داں کیوں ہو

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم

گری ہے جس پہ کل بجلی، وہ میرا آشیاں کیوں ہو

یہ کہہ سکتے ہو‘‘ہم دل میں نہیں ہیں‘‘ پر یہ بتلاؤ

کہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو

غلط ہے جذبِ دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کا ہے

نہ کھینچو گر تم اپنے کو، کشاکش درمیاں کیوں ہو

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں

عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو

کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی

بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالبؔ

ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

۱۳۷

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے

کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو

پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو بیمار دار [52]

اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

[53]۱۳۸

بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو

کیا لطف ہو جو ابلقِ دوراں بھی رام ہو

تا گردشِ فلک سے یوں ہی صبح و شام ہو

ساقی کی چشمِ مست ہو اور دورِ جام ہو

بے تاب ہوں بلا سے، کن[54] آنکھوں سے دیکھ لیں

اے خوش نصیب! کاش قضا کا پیام ہو

کیا شرم ہے، حریم ہے، محرم ہے راز دار

میں سر بہ کف ہوں، تیغِ ادا بے نیام ہو

میں چھیڑنے کو کاش اسے گھور لوں کہیں

پھر شوخ دیدہ بر سرِ صد انتقام ہو

وہ دن کہاں کہ حرفِ تمناّ ہو لب شناس

ناکام، بد نصیب، کبھی شاد کام ہو

گھس پل کے چشمِ شوق قدم بوس ہی سہی

وہ بزمِ غیر ہی میں ہوں اژدہام[55] میں

اتنی پیوں کہ حشر میں سرشار ہی اٹھوں

مجھ پر جو چشمِ ساقیِ بیت الحرام ہو

پیرانہ سال غالبؔ مے کش کرے گا کیا

بھوپال میں مزید جو دو دن قیام ہو

ردیف ہ

۱۳۹

شبِ وصال میں مونس گیا ہے بَن تکیہ[56]

ہوا ہے موجبِ آرامِ جان و تن تکیہ

خراج بادشہِ چیں سے کیوں نہ مانگوں آج؟

کہ بن گیا ہے خمِ جعدِ [57] پُر شکن تکیہ

بنا ہے تختۂ گل ہائے یاسمیں بستر

ہوا ہے دستۂ نسرین و نسترن تکیہ

فروغِ حسن سے روشن ہے خواب گاہ تمام

جو رختِ خواب ہے پرویں، تو ہے پرن تکیہ

مزا ملے کہو کیا خاک ساتھ سونے کا

رکھے جو بیچ میں وہ شوخِ سیم تن تکیہ

اگرچہ تھا یہ ارادہ مگر خدا کا شکر

اٹھا سکا نہ نزاکت سے گل بدن تکیہ

ہوا ہے کاٹ کے چادر کو ناگہاں غائب

اگرچہ زانوئے نل پر رکھے دمن تکیہ

بہ ضربِ تیشہ وہ اس واسطے ہلاک ہوا

کہ ضربِ تیشہ پہ رکھتا تھا کوہ کُن تکیہ

یہ رات بھر کا ہے ہنگامہ صبح ہونے تک

رکھو نہ شمع پر اے اہلِ انجمن تکیہ

اگرچہ پھینک دیا تم نے دور سے لیکن

اٹھائے کیوں کہ یہ رنجورِ خستہ تن تکیہ

غش آ گیا جو پس از قتل میرے قاتل کو

ہوئی ہے اس کو مری نعشِ بے کفن تکیہ

[58]جو بعدِ قتل، مرا دشت میں مزار بنا

لگا کے بیٹھتے ہیں، اس سے راہ زن، تکیہ

شبِ فراق میں یہ حال ہے اذیّت کا

کہ سانپ فرش ہے اور سانپ کا ہے من تکیہ

روا رکھو نہ رکھو، تھا جو لفظ تکیہ کلام

اب اس کو کہتے ہیں اہلِ سخن‘‘سخن تکیہ‘‘

ہم اور تم فلکِ پیر جس کو کہتے ہیں

فقیر غالبؔ مسکیں کا ہے کہن تکیہ

۱۴۰

از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ[59]

طوطی کو‘‘شش جہت‘‘ سے مقابل ہے آئینہ

حیرت، ہجوم لذتِ غلطانیِ تپش

سیماب بالش، و کمرِ دل ہے آئینہ

غفلت، بہ بالِ جوہرِ شمشیرِ پَر فشاں

یاں پشتِ چشمِ شوخیِ قاتل ہے آئینہ

حیرت نگاہ برق، تماشا بہار شوخ

در پردۂ ہوا پرِ بسمل ہے آئینہ

یاں رہ گئے ہیں ناخنِ تدبیر ٹوٹ کر

جوہرِ طلسمِ عقدۂ مشکل ہے آئینہ

ہم زانوئے تامل و ہم جلوہ گاہِ گل

آئینہ بندِ خلوت و محفل ہے آئینہ

دل کار گاہِ فکر و اسدؔ بے نوائے دل

یاں سنگِ آستانۂ بیدل ہے آئینہ

۱۴۱

جز، دل سراغِ درد بدل خفتگاں نہ پوچھ

آئینہ عرض کر، خط و خالِ بیاں نہ پوچھ

پرواز، یک تپِ غمِ تسخیرِ نالہ ہے

گرمیِ نبضِ خار و خسِ آشیاں نہ پوچھ[60]

ہے سبزہ زار، ہر در و دیوارِ غم کدہ

جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ

ناچار بے کسی کی بھی حسرت اٹھائیے

دشواریِ رہ و ستمِ ہمرہاں نہ پوچھ

ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا

جاہ و جلالِ عہد وصلِ بتاں نہ پوچھ

تو مشقِ ناز کر، دلِ پروانہ ہے بہار

بے تابیِ تجلیِ آتش بجاں نہ پوچھ

غفلت متاع کفۂ میزانِ عدل ہیں

یا رب، حسابِ سختیِ خوابِ گراں نہ پوچھ

ہر داغِ تازہ یک دلِ داغ انتظار ہے

عرضِ فضائے سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ

کہتا تھا کل وہ محرم راز اپنے سے کہ آہ

دردِ جدائیِ اسد اللہ خاں نہ پوچھ

ردیف ی

۱۴۲

صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے

طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے

[61]دل ہی نہیں کہ منتِ درباں اُٹھائیے

کس کو وفا کا سلسلہ جنباں اُٹھائیے؟

تا چند داغ بیٹھیے، نقصاں اُٹھائیے؟

اب چار سوئے عشق سے دُکاں اُٹھائیے

ہستی، فریب نامۂ موجِ سراب ہے

یک عمر نازِ شوخیِ عنواں اُٹھائیے

ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق

یعنی ہنوز منّتِ طفلاں اٹھائیے

دیوار بارِ منّتِ مزدور سے ہے خم

اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے

یا میرے زخمِ رشک کو رسوا نہ کیجیے

یا پردۂ تبسّمِ پنہاں اٹھائیے

[62]ضبطِ جنوں سے، ہر سرِ مو ہے ترانہ خیز

یک نالہ بیٹھیے تو، نیستاں اُٹھائیے

نذرِ خراشِ نالہ، سرشکِ نمک اثر

لطفِ کرم، بدولتِ مہماں اُٹھائیے

انگور، سعیِ بے سرو پائی سے سبز ہے

غالب ؔ، بہ دوشِ دل خُمِ مستاں اُٹھائیے

۱۴۳

مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے

بھَوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے

[63]وہ بات چاہتے ہو کہ جو بات چاہیے

صاحب کے ہم نشیں کو کرامات چاہیے

عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر

آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے

دے داد اے فلک! دلِ حسرت پرست کی[64]

ہاں کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے

سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوّری

تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے

مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو

اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا

ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

سر پائے خم پہ چاہیے ہنگامِ بے خودی

رو سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہیے

یعنی بہ حسبِ گردشِ پیمانۂ صفات

عارف ہمیشہ مستِ مئے ذات چاہیے

نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو

خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے

۱۴۴

بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی

سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی

رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلّف سے

تکلّف بر طرف، تھا ایک اندازِ جنوں وہ بھی

خیالِ مرگ کب تسکیں دلِ آزردہ کو بخشے

مرے دامِ تمنّا میں ہے اک صیدِ زبوں وہ بھی

نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم

کہ ہو گا باعثِ افزائشِ دردِ دروں وہ بھی

نہ اتنا بُرّشِ تیغِ جفا پر ناز فرماؤ

مرے دریائے بے تابی میں ہے اک موجِ خوں وہ بھی

مئے عشرت کی خواہش ساقیِ گردوں سے کیا کیجے

لیے بیٹھا ہے اک دو چار[65] جامِ واژگوں وہ بھی

مجھے معلوم ہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے

کہیں ہو جائے جلد اے گردشِ گردونِ دوں، وہ بھی!

نظر راحت پہ میری کر نہ وعدہ شب کو آنے کا

کہ میری خواب بندی کے لیے ہو گا فسوں وہ بھی

مرے دل میں ہے غالبؔ شوقِ وصل و شکوۂ ہجراں

خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں، وہ بھی

۱۴۵

ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے

تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے

ہے دورِ قدح وجہ پریشانیِ صہبا

یک بار لگا دو خمِ مے میرے لبوں سے

رندانِ درِ مے کدہ گستاخ ہیں زاہد

زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے

بیدادِ وفا دیکھ، کہ جاتی رہی آخر

ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے

[66]کیا پوچھے ہے بر خود غلطی ہائے عزیزاں؟

خواری کو بھی اک عار ہے، عالی نسبوں سے

گو تم کو رضا جوئیِ اغیار ہے، لیکن

جاتی ہے ملاقات کب ایسے سببوں سے؟

مت پوچھ، اسدؔ، غصۂ کم فرصتیِ زیست

دو دن بھی جو کاٹے، تو قیامت تعبوں سے

۱۴۶

تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا

سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے

غالبؔ ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو

وہ سن کے بلا لیں، یہ اجارا نہیں کرتے

۱۴۷

گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا

وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر، سو ہے

۱۴۸

غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی

فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی

کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب!

قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی

لپٹنا پرنیاں میں شعلۂ آتش کا آساں ہے

ولے مشکل ہے حکمت، دل میں سوزِ غم چھپانے کی

انہیں منظور اپنے زخمیوں کا[67] دیکھ آنا تھا

اٹھے تھے سیرِ گل کو، دیکھنا شوخی بہانے کی

ہماری سادگی تھی التفاتِ ناز پر مرنا

ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی

لکدکوبِ حوادث کا تحمّل کر نہیں سکتی

مری طاقت کہ ضامن تھی بتوں کے ناز اٹھانے کی

کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں غالبؔ

بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بار ہا نیکی

۱۴۹

حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی

دل، جوشِ گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی

اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھا دے

میں بھی جلے ہؤوں میں ہوں داغِ نا تمامی

[68]کرتے ہو شکوہ کس کا؟ تم اور بے وفائی

سر پیٹتے ہیں اپنا، ہم اور نیک نامی

صد رنگ گل کترنا، در پردہ قتل کرنا

تیغِ ادا نہیں ہے پابندِ بے نیامی

طرفِ سخن نہیں ہے مجھ سے، خدا نہ کردہ

ہے نامہ بر کو اُس سے دعوائے ہم کلامی

طاقت فسانۂ باد، اندیشہ شعلہ ایجاد

اے غم، ہنوز آتش، اے دل ہنوز خامی!

ہر چند عمر گزری آزردگی میں لیکن

ہے شرحِ شوق کو بھی، جوں شکوہ، نا تمامی

ہے یاس میں اسد ؔ کو ساقی سے بھی فراغت

دریا سے خشک گزری مستوں کی تشنہ کامی

۱۵۰

کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے

جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے

ہے کائنات کو حَرَکت تیرے ذوق سے

پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے

حالاں کہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ

غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے

کی اس نے گرم سینۂ اہلِ ہوس میں جا

آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے

کیا خوب! تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا

بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے

بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیوارِ یار میں

فرماں روائے کشورِ ہندوستان ہے

ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا

کس سے کہوں کہ ’’داغ‘‘ جگر کا نشان ہے

ہے بارے اعتمادِ وفاداری اس قدر

غالبؔ ہم اس میں خوش ہیں کہ نا مہربان ہے

دلّی کے رہنے والو اسدؔ کو ستاؤ مت

بے چارہ چند روز کا یاں میہمان ہے[69]

۱۵۱

درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے

کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے

تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ

تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے

کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال

دشمنی اپنی تھی، میری دوست داری ہائے ہائے

عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا

عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے

زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی

یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے

گل فشانی ہائے نازِ جلوہ کو کیا ہو گیا

خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے

شرمِ رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں

ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے

خاک میں ناموسِ پیمانِ محبّت مل گئی

اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسمِ یاری ہائے ہائے

ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا

دل پہ اک لگنے نہ پایا زخمِ کاری ہائے ہائے

کس طرح کاٹے کوئی شب‌ ہائے تارِ برشکال

ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے

گوش مہجورِ پیام و چشم محرومِ جمال

ایک دل تِس پر یہ نا امّیدواری ہائے ہائے

عشق نے پکڑا نہ تھا غالبؔ ابھی وحشت کا رنگ

رہ گیا، تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے

گر مصیبت تھی تو غربت میں اٹھا لیتا اسدؔ

میری دلّی ہی میں ہونی تھی یہ خواری ہائے ہائے[70]

۱۵۲

سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے

تسکیں کو دے نوید[71] کہ مرنے کی آس ہے

لیتا نہیں مرے دلِ آوارہ کی خبر

اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے

کیجے بیاں سرورِ تبِ غم کہاں تلک

ہر مو مرے بدن پہ زبانِ سپاس ہے

ہے وہ غرورِ حسن سے بیگانۂ وفا

ہرچند اس کے پاس دلِ حق شناس ہے

پی جس قدر ملے شبِ مہتاب میں شراب

اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے

[72]کیا غم ہے اُس کو، جس کا علی سا امام ہو

اتنا بھی اے فلک زدہ، کیوں بے حواس ہے

ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ

مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے

۱۵۳

گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے

خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے

کس کو سناؤں حسرتِ اظہار کا گلہ

دل فردِ جمع و خرچِ زباں ہائے لال ہے

کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا

رحمت کہ عذر خواہ لبِ بے سوال ہے

ہے ہے خدا نہ خواستہ وہ اور دشمنی

اے شوقِ منفعل! یہ تجھے کیا خیال ہے

مشکیں لباسِ کعبہ علی کے قدم سے جان

نافِ زمین[73] ہے نہ کہ نافِ غزال ہے

وحشت پہ میری عرصۂ آفاق تنگ تھا

دریا زمین کو عرقِ انفعال ہے

ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ

عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

[74]پہلو تہی نہ کر غم و اندوہ سے، اسدؔ

دل وقفِ درد رکھ کہ فقیروں کا مال ہے

۱۵۴

نظر بہ نقصِ گدایاں، کمالِ بے ادبی ہے

کہ خارِ خشک کو بھی دعویِ چمن نسبی ہے

ہوا وصال سے شوقِ دلِ حریص زیادہ

لبِ قدح پہ، کفِ بادہ، جوشِ تشنہ لبی ہے

خوشا! وہ دل کہ سراپا طلسمِ بے خبری ہو

جنونِ یاس و الم، رزقِ مدعا طلبی ہے[75]

تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے[76] پوچھو

حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے

دلا یہ درد و الم بھی تو مغتنم ہے کہ آخر

نہ گریۂ سحری ہے نہ آہ نیم شبی ہے

چمن میں کس کی، یہ برہم ہوئی ہے، بزمِ تماشا؟

کہ برگ برگِ سمن، شیشہ ریزۂ حلبی ہے

امامِ ظاہر و باطن، امیرِ صورت و معنی

علی، ولی، اسد اللہ، جانشینِ نبیؐ ہے

۱۵۵

بس کہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے[77]

ناخنِ انگشت بتخالِ لبِ بیمار ہے

زلف سے شب درمیاں دادن نہیں ممکن دریغ

ورنہ صد محشر بہ رہنِ صافیِ رخسار ہے

در خیال آبادِ سودائے سرِ مژگانِ دوست

صد رگِ جاں جادہ آسا وقفِ نشتر زار ہے

ایک جا حرفِ وفا لکّھا تھا، سو[78] بھی مٹ گیا

ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے

جی جلے ذوقِ فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں

ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے

آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا

ہر کوئی در ماندگی میں نالے سے نا چار ہے

ہے وہی بد مستیِ ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ

جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے

مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی

زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بے زار ہے [79]

آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا

تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرتِ دیدار ہے

[80]جی جلے ذوقِ فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں

ہم نہیں جلتے، نفس ہر چند آتش بار ہے

ہے وہی بد مستی ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ

جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے

بس کہ ویرانی سے کفر و دیں ہوئے زیر و زبر

گردِ صحرائے حرم تا کوچۂ زنّار ہے

[81]اے سرِ شوریدہ، ذوقِ عشق و پاسِ آبرو!

جوشِ سودا کب حریفِ منتِ دستار ہے

وصل میں دل انتظارِ طرفہ رکھتا ہے مگر

فتنہ، تاراجِ تمنا کے لیے درکار ہے

خانماں ہا پائمالِ شوخیِ دعویٰ اسدؔ

سایۂ دیوار سے سیلابِ در و دیوار ہے

۱۵۶

پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے

کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے

۱۵۷

یہ بزمِ مے پرستی، حسرتِ تکلیف بے جا ہے[82]

کہ جامِ بادہ کف بر لب بہ تقریبِ تقاضا ہے

مری ہستی فضائے حیرت آبادِ تمنّا ہے

جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے

خزاں کیا فصلِ گل کہتے ہیں کس کو؟ کوئی موسم ہو

وہی ہم ہیں، قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے

وفائے دلبراں ہے اتّفاقی ورنہ اے ہمدم

اثر فریادِ دل ہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے

نہ لائی[83] شوخیِ اندیشہ تابِ رنجِ نومیدی

کفِ افسوس سودن کفِ افسوس ملنا عہدِ تجدیدِ تمنّا ہے

[84]نشاطِ دیدۂ بینا ہے، کُو خواب؟ و چہ بیداری؟

بہم آوردہ مژگاں، روئے بر روئے تماشا ہے

نہ سووے آبلوں میں گر، سرشکِ دیدۂ نم سے

بہ جولاں گاہِ نومیدی، نگاہِ عاجزاں پا ہے

وفائے دلبراں ہے اتفاقی، ورنہ، اے ہمدم

اثر فریادِ دل ہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے

نگہ معمارِ حسرت ہا، چہ آبادی؟ چہ ویرانی؟

کہ مژگاں جس طرف وا ہو، بہ کف دامانِ صحرا ہے

بہ سختی ہائے قیدِ زندگی، معلوم آزادی

شرر بھی صیدِ دامِ رشتۂ رگ ہائے خارا ہے

اسدؔ، پاسِ تمنا سے نہ رکھ امیدِ آزادی

گدازِ ہر تمنا آبیارِ صد تمنا ہے

۱۵۸

نشۂ مے، بے چمن، دودِ چراغِ کشتہ ہے

جام، داغِ شعلہ اندودِ چراغِ کشتہ ہے

رحم کر ظالم کہ کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے[85]

نبضِ بیمارِ وفا دودِ چراغِ کشتہ ہے

[86]دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں

ورنہ یاں بے رونقی سودِ چراغِ کشتہ ہے

داغِ ربطِ ہم ہیں اہلِ باغ، گر گُل ہو شہید

لالہ، چشمِ حسرت آلودِ چراغِ کشتہ ہے

شور ہے کس بزم کی عرضِ جراحت خانہ کا؟

صبح، یک زخمِ نمک سودِ چراغِ کشتہ ہے

نامرادِ جلوہ، ہر عالم میں حسرت گُل کرے

لالہ، داغِ شعلہ فرسودِ چراغِ کشتہ ہے

ہو جہاں، تیرا دماغِ ناز، مستِ بے خودی

خوابِ نازِ گل رخاں، دودِ چراغِ کشتہ ہے

ہے دلِ افسردہ، داغِ شوخیِ مطلب، اسدؔ

شعلہ، آخر فالِ مقصودِ چراغِ کشتہ ہے

۱۵۹

چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے[87]

سرمہ تُو کہوے کہ دودِ شعلۂ آواز ہے

پیکرِ عشّاق سازِ طالعِ نا ساز ہے

نالہ گویا گردشِ سیّارہ کی آواز ہے

دست گاہِ دیدۂ خوں بارِ مجنوں دیکھنا

یک بیاباں جلوۂ گل فرشِ پا انداز ہے

ہے صریرِ خامہ، ریزش ہائے استقبالِ ناز

نامہ خود پیغام کو بال و پرِ پرواز ہے

سر نوشتِ اضطراب انجامیِ الفت نہ پوچھ

نالِ خامہ، خار خارِ خاطرِ آغاز ہے

شرم ہے طرزِ تلاشِ انتخابِ یک نگاہ

اضطرابِ چشمِ برپا دوختہ غمّاز ہے

نغمہ ہے کانوں میں اس کے، نالۂ مرغِ اسیر

رشتۂ پا، یاں نوا سامانِ بندِ ساز ہے

نقشِ سطرِ صد تبسم ہے بر آب زیرِ گاہ

حسن کا خط پر نہاں خندیدنی انداز ہے

شوخیِ اظہار غیر از وحشتِ مجنوں نہیں

لیلیِٰ معنی، اسدؔ، محمل نشینِ راز ہے

۱۶۰

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

میری[88] وحشت تری شہرت ہی سہی

قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے

کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی

اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی

ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے

غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی

اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو

آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی

عمر ہر چند کہ ہے برق خرام

دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی

ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں

نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی

کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف

آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے

بے نیازی تری عادت ہی سہی

یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ

گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی

۱۶۱

ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے

صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے

ڈھونڈے ہے اس مغنّیِ آتش نفس کو جی

جس کی صدا ہو جلوۂ برقِ فنا مجھے

مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادیِ خیال

تا باز گشت سے نہ رہے مدّعا مجھے

کرتا ہے بس کہ باغ میں تو بے حجابیاں

آنے لگی ہے نکہتِ گل سے حیا مجھے

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

[89]ہے پیچ تابِ رشتۂ شمعِ سحر گہی

خجلت گدازیِ نفسِ نا رسا مجھے

واں رنگ ہا بہ پردۂ تدبیر ہیں ہنوز

یاں شعلۂ چراغ ہے، برگِ حنا مجھے

پرواز ہا نیازِ تماشائے حسنِ دوست

بالِ کشادہ ہے، نگہِ آشنا مجھے

از خود گزشتگی میں خموشی پہ حرف ہے

موجِ غبارِ سرمہ ہوئی ہے صدا مجھے

تا چند پست فطرتیِ طبعِ آرزو؟

یا رب ملے بلندیِ دستِ دعا مجھے

یاں آب و دانہ، موسمِ گل میں، حرام ہے

زنارِ واگسستہ ہے، موجِ صبا مجھے

یک بار امتحانِ ہوس بھی ضرور ہے

اے جوشِ عشق، بادۂ مرد آزما مجھے

میں نے جنوں سے کی جو، اسدؔ، التماسِ رنگ

خونِ جگر میں ایک ہی غوطہ دیا مجھے

۱۶۲

[90]اور تو رکھنے کو ہم دہر میں کیا رکھتے تھے

مگر ایک شعر میں انداز رسا رکھتے تھے

اس کا یہ حال کہ کوئی نہ ادا سنج ملا

آپ لکھتے تھے ہم اور آپ اٹھا رکھتے تھے

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری[91] غالبؔ

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

۱۶۳

اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے

بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے

دل ہی تو ہے سیاستِ درباں سے ڈر گیا

میں اور جاؤں در سے ترے بِ ن صدا کیے

رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجّادہ رہنِ مے

مدّت ہوئی ہے دعوتِ آب و ہوا کیے

بے صرفہ ہی گزرتی ہے، ہو گرچہ عمرِ خضر

حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے[92]لئیم

تو نے وہ گنج‌ ہائے گراں مایہ کیا کیے

کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو؟

کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے؟

صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو

دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے

ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں

بھولے سے اس نے سینکڑوں[93] وعدے وفا کیے

غالبؔ تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا

مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے

 

۱۶۴

رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے

اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے

مینائے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے[94]

بالِ تَدَرو[95] جلوۂ موجِ شراب ہے

زخمی ہوا ہے پاشنہ پائے ثبات کا

نے بھاگنے کی گوں، نہ اقامت کی تاب ہے

جادا دِبادہ نوشیِ رنداں ہے شش جہت

غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے

نظّارہ کیا حریف ہو اس برقِ حسن کا

جوشِ بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے

میں نا مراد دل کی تسلّی کو کیا کروں

مانا کہ تیری رخ سے نگہ کامیاب ہے

گزرا اسدؔ مسرّتِ پیغامِ یار سے

قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے

۱۶۵

دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے

میں اسے دیکھوں، بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے

ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے

آبگینہ تندیِ صہبا سے پگھلا جائے ہے

غیر کو یا رب وہ کیوں کر منعِ گستاخی کرے

گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے

شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے

دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہے

دور چشمِ بد تری بزمِ طرب سے واہ واہ

نغمہ ہو جاتا ہے واں گر نالہ میرا جائے ہے

گرچہ ہے طرزِ تغافل پردہ دارِ رازِ عشق

پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے

اس کی بزم آرائیاں سن کر دلِ رنجور، یاں

مثلِ نقشِ مدّعائے غیر بیٹھا جائے ہے

ہو کے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا

رنگ کھُلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے

نقش کو اس کے مصوّر پر بھی کیا کیا ناز ہیں

کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے

سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسدؔ

پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے

۱۶۶

گرمِ فریاد رکھا شکلِ نہالی نے مجھے

تب اماں ہجر میں دی بردِ لیالی نے مجھے

نسیہ و نقدِ دو عالم کی حقیقت معلوم

لے لیا مجھ سے مری ہمّتِ عالی نے مجھے

کثرت آرائیِ وحدت ہے پرستاریِ وہم

کر دیا کافر ان اصنامِ خیالی نے مجھے

ہوسِ گل کے تصوّر میں بھی کھٹکا نہ رہا

عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے

[96]زندگی میں بھی رہا ذوق فنا کا مارا

نشہ بخشا غضب اس ساغرِ خالی نے مجھے

بس کہ تھی فصلِ خزانِ چمنستانِ سخن

رنگِ شہرت نہ دیا تازہ خیالی نے مجھے

جلوۂ خور سے، فنا ہوتی ہے شبنم، غالبؔ

کھو دیا سطوتِ اسمائے جلالی نے مجھے

۱۶۷

کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے

برقِ خرمنِ راحت، خونِ گرمِ دہقاں ہے

غنچہ تا شگفتن ہا برگِ عافیت معلوم

باوجودِ دل جمعی خوابِ گل پریشاں ہے

ہم سے رنجِ بے تابی کس طرح اٹھایا جائے

داغ پشتِ دستِ عجز، شعلہ خس بہ دنداں ہے

حیرتِ تپیدن ہا، خوں بہائے دیدن ہا

[97]رنگِ گل کے پردے میں آئینہ پَر افشاں ہے

عشق کے تغافل سے، ہرزہ گرد ہے عالم

روئے شش جہت آفاق، پشتِ چشمِ زنداں ہے

وحشتِ انجمن ہے گل، دیکھ لالے کا عالم

مثلِ دودِ مجمر کے، داغ بال افشاں ہے

اے کرم نہ ہو غافل، ورنہ ہے اسدؔ بیدل

بے گُہر صدف گویا، پشتِ چشمِ نیساں ہے

جورِ زلف کی تقریر پیچ تابِ خاموشی

ہند میں اسدؔ نالاں، نالہ در صفاہاں ہے

۱۶۸

فرصت، آئینہ صد رنگِ خود آرائی ہے

روز و شب، یک کفِ افسوسِ تماشائی ہے

وحشتِ زخمِ وفا دیکھ کہ سر تا سرِ دل

بخیہ، جوں جوہرِ تیغ، آفتِ گیرائی ہے

شمع آسا، چہ سرِ دعوی؟ و کُو پائے ثبات؟

گلِ صد شعلہ، بہ یک جیبِ شکیبائی ہے

نالہ خونیں ورق، و دل گلِ مضمونِ شفق

چمن آرائے نفس، وحشتِ تنہائی ہے

بوئے گل فتنۂ بیدار و چمن جامۂ خواب

وصل ہر رنگِ جنوں کسوتِ رسوائی ہے

شرم طوفانِ خزاں رنگِ طرب گاہِ بہار

گلِ مہتاب بہ کف چشمِ تماشائی ہے

شرم، طوفانِ خزاں رنگِ طرب گاہِ بہار

ماہتابی بہ کفِ چشمِ تماشائی ہے

باغِ خاموشیِ دل سے سخنِ عشق، اسدؔ

نفسِ سوختہ رمزِ چمن ایمائی ہے[98]

اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ

ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

۱۶۹

سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے

بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے

دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ

ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

بس ہجومِ نا امیدی خاک میں مل جائے گی

یہ جو اک لذّت ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے

رنجِ رہ کیوں کھینچیے؟ واماندگی کو عشق ہے[99]

اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم، منزل میں ہے

جلوہ زارِ آتشِ دوزخ ہمارا دل سہی

فتنۂ شورِ قیامت کس کی[100] آب و گِل میں ہے

ہے دلِ شوریدۂ غالبؔ طلسمِ پیچ و تاب

رحم کر اپنی تمنّا پر کہ کس مشکل میں ہے

۱۷۰

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی

دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

شق ہو گیا ہے سینہ، خوشا لذّتِ فراغ

تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی

وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں

اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں

بارے اب اے ہوا! ہوسِ بال و پر گئی

دیکھو تو دل فریبیِ اندازِ نقشِ پا

موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی

ہر بو‌الہوس نے حسن پرستی شعار کی

اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی

نظّارے نے بھی کام کِیا واں نقاب کا

مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

فردا و دی کا تفرِقہ یک بار مٹ گیا

کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی

مارا زمانے نے اسدؔ اللہ خاں تمہیں

وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی

۱۷۱

تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے

حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے

اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل

میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

ساقی گری کی شرم کرو آج، ورنہ ہم

ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے

تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم

میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے

تم کو بھی ہم دکھائیں کہ مجنوں نے کیا کِیا

فرصت کشاکشِ غمِ پنہاں سے گر ملے

لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں

جانا[101] کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے

اے ساکنانِ کوچۂ دل دار دیکھنا

تم کو کہیں جو غالبؔ آشفتہ سر ملے

۱۷۲

کوئی دن گر زندگانی اور ہے

اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے

آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں

سوزِ غم ہائے نہانی اور ہے

بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں

پر کچھ اب کے[102] سر گرانی اور ہے

دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر

کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے

قاطعِ اعمار ہیں اکثر نجوم

وہ بلائے آسمانی اور ہے

ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام

ایک مرگِ ناگہانی اور ہے

۱۷۳

کوئی امّید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد

پر طبعیت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں

ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں

میری آواز گر نہیں آتی

داغِ دل گر نظر نہیں آتا

بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

۱۷۴

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟

آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟

ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار

یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں

کاش پوچھو کہ مدّعا کیا ہے

ق

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟

غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟

شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے[103]

نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟

ابر کیا چیز ہے؟ ہوا کیا ہے؟

ہم کو ان سے وفا کی ہے امّید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے؟

ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا

اَور درویش کی صدا کیا ہے؟

جان تم پر نثار کرتا ہوں

میں نہیں جانتا دعا کیا ہے؟

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ

مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

۱۷۵

کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے

یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی‘‘کہ وو آئے‘‘

ہوں کشمکشِ نزع میں ہاں جذبِ محبّت

کچھ کہہ نہ سکوں، پر وہ مرے پوچھنے کو آئے

ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم[104]

آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں، گو آئے

ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین

ہاں منہ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے

جلاّد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے

ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیس میں جو آئے

ہاں اہلِ طلب! کون سنے طعنۂ نا یافت

دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے

اپنا نہیں وہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں

اس در پہ نہیں بار تو کعبے ہی کو ہو آئے

کی ہم نفسوں نے اثرِ گریہ میں تقریر

اچّھے رہے آپ اس سے مگر مجھ کو ڈبو آئے

اس انجمنِ ناز کی کیا بات ہے غالبؔ

ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے

۱۷۶

پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے

سینہ جویائے زخمِ کاری ہے

پھِر جگر کھودنے لگا ناخن

آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے

[105]قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز

پھر وہی پردۂ عماری ہے

چشم دلاّلِ جنسِ رسوائی

دل خریدارِ ذوقِ خواری ہے

وُہ ہی[106] صد رنگ نالہ فرسائی

وُہ ہی صد گونہ اشک باری ہے

دل ہوائے خرامِ ناز سے پھر

محشرستانِ بے قراری ہے

جلوہ پھر عرضِ ناز کرتا ہے

روزِ بازارِ [107] جاں سپاری ہے

پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں

پھر وہی زندگی ہماری ہے

ق

پھر کھلا ہے درِ عدالتِ ناز

گرم بازارِ فوج داری ہے

ہو رہا ہے جہان میں اندھیر

زلف کی پھر سرشتہ داری ہے

پھر دیا پارۂ جگر نے سوال

ایک فریاد و آہ و زاری ہے

پھر ہوئے ہیں گواہِ عشق طلب

اشک باری کا حکم جاری ہے

دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا

آج پھر اس کی روبکاری ہے

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

۱۷۷

جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر[108] شادمانی کی

نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذّت زندگانی کی

کشاکش‌ ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی

ہوئی زنجیر، موجِ [109] آب کو فرصت روانی کی

پس از مردن[110] بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے

شرارِ سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی

نہ کھینچ اے دستِ سعیِ نا رسا زلفِ تمنّا کو

پریشاں تر ہے موئے خامہ سے تدبیر مانیؔ کی

کماں ہم بھی رگ و پے رکھتے ہیں، انصاف بہتر ہے

نہ کھینچے طاقتِ خمیازہ تہمت ناتوانی کی

[111]تکلف بر طرف، فرہاد اور اتنی سبک دستی

خیال آساں تھا، لیکن خوابِ خسرو نے گرانی کی

اسدؔ کو بوریے میں دھر کے پھونکا موجِ ہستی نے

فقیری میں بھی باقی ہے شرارت نوجوانی کی

۱۷۸

نِکوہِش ہے سزا فریادیِ بیدادِ دِلبر کی

مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی

رگِ لیلیٰ کو خاکِ دشتِ مجنوں ریشگی بخشے

اگر بو دے بجائے دانہ دہقاں نوک نشتر کی

پرِ پروانہ شاید بادبانِ کشتیِ مے تھا

ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دَورِ ساغر کی

کروں بیدادِ ذوقِ پَر فشانی عرض کیا قدرت

کہ طاقت اُڑ گئی، اڑنے سے پہلے، میرے شہ پر کی

کہاں تک روؤں اُس کے خیمے کے پیچھے، قیامت ہے!

مری قسمت میں یا رب کیا نہ تھی دیوار پتھّر کی؟

[112]مرا دل مانگتے ہیں عاریت اہل ہوس، شاید

یہ جایا چاہتے آج دعوت میں سمندر کی

غرورِ لطفِ ساقی نشۂ بے باکیِ مستاں

نمِ دامانِ عصیاں ہے، طراوت موجِ کوثر کی

تھکا جب قطرہ بے دست و پا بالا دویدن سے

زِ بہرِ یادگاری ہا گرہ دیتا ہے گوہر کی

بہ جز دیوانگی ہوتا نہ انجامِ خود آرائی

اگر پیدا نہ کرتا آئینہ زنجیر جوہر کی

اسد ؔ، جز آب بخشیدن ز دریا خضر کو کیا تھا!

ڈبوتا چشمۂ حیواں میں، گر، کشتی سکندر کی

۱۷۹

بے اعتدالیوں سے سبُک سب میں ہم ہوئے

جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے

پنہاں تھا دام، سخت قریب[113] آشیان کے

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے

یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی قَسم ہوئے

سختی کشانِ عشق کی پوچھے ہے کیا خبر

وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے

تیری وفا سے کیا ہو تلافی؟ کہ دہر میں

تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے

لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

اللہ ری[114] تیری تندیِ خو جس کے بیم سے

اجزائے نالہ دل میں مرے رزقِ ہم ہوئے

اہلِ ہوس کی فتح ہے ترکِ نبردِ عشق

جو پاؤں اٹھ گئے وہی ان کے علم ہوئے

نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے

جو واں نہ کھنچ[115] سکے سو وہ یاں آ کے دم ہوئے

چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی

سائل ہوئے تو عاشقِ اہلِ کرم ہوئے

۱۸۰

جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی

تو فسردگی نہاں ہے بہ کمینِ بے زبانی

مجھے اس سے کیا توقّع بہ زمانۂ جوانی

کبھی کودکی میں جس نے نہ سنی مری کہانی

یوں ہی دکھ کسی کو دینا نہیں خوب ورنہ کہتا

کہ مرے عدو کو یا رب ملے میری زندگانی[116]

۱۸۱

ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے

اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے

نے مژدۂ وصال نہ نظّارۂ جمال

مدّت ہوئی کہ آشتیِ چشم و گوش ہے

[117]ہو کر شہید عشق میں، پائے ہزار جسم

ہر موجِ گردِ رہ، مرے سر کو دوش ہے

مے نے کِیا ہے حسنِ خود آرا کو بے حجاب

اے شوق یاں[118] اجازتِ تسلیمِ ہوش ہے

گوہر کو عقدِ گردنِ خوباں میں دیکھنا

کیا اوج پر ستارۂ گوہر فروش ہے

دیدار بادہ، حوصلہ ساقی، نگاہ مست

بزمِ خیال مے کدۂ بے خروش ہے

ق

اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل

زنہار اگر تمہیں ہوسِ نائے و نوش ہے

دیکھو مجھے! جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

میری سنو! جو گوشِ نصیحت نیوش ہے

ساقی بہ جلوہ دشمنِ ایمان و آگہی

مطرب بہ نغمہ رہزنِ تمکین و ہوش ہے

یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط

دامانِ باغبان و کفِ گل فروش ہے

لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ صدائے چنگ

یہ جنّتِ نگاہ وہ فردوسِ گوش ہے

یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں

نے وہ سرور و سوز[119] نہ جوش و خروش ہے

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے

۱۸۲

آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے

طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے

دیتے ہیں جنّت حیاتِ دہر کے بدلے

نشّہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے

گِریہ نکالے ہے تیری[120] بزم سے مجھ کو

ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے

ہم سے عبث ہے گمانِ رنجشِ خاطر

خاک میں عشّاق کی غبار نہیں ہے

دل سے اٹھا لطفِ جلوہ‌ ہائے معانی

غیرِ گل آئینۂ بہار نہیں ہے

قتل کا میرے کیا ہے عہد تو بارے

وائے اگر عہد استوار نہیں ہے

تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ

تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے

۱۸۳

میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں

چل نکلتے جو مے پیے ہوتے

قہر ہو یا بلا ہو، جو کچھ ہو

کاشکے تم مرے لیے ہوتے

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے

آ ہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ

کوئی دن اور بھی جیے ہوتے

۱۸۴

ہجومِ غم سے یاں تک سر نگونی مجھ کو حاصل ہے

کہ تارِ دامن و تارِ نظر میں فرق مشکل ہے

ہوا ہے مانعِ عاشق نوازی، نازِ خود بینی

تکلّف بر طرف، آئینۂ تمیز حایل ہے

بہ سیلِ اشک لختِ دل ہے دامن گیر مژگاں کا

غریقِ بحر جویائے خس و خاشاکِ ساحل ہے

بہا ہے یاں تک اشکوں میں غبارِ کلفتِ خاطر

کہ چشمِ تر میں ہر یک پارۂ دل پائے در گِل ہے

نکلتی ہے تپش میں بسملوں کی برق کی شوخی

غرض اب تک خیالِ گرمیِ رفتار قاتل ہے

رفوئے زخم سے مطلب ہے لذّت زخمِ سوزن کی

سمجھیو مت کہ پاسِ درد سے دیوانہ غافل ہے

وہ گل جس گلستاں میں جلوہ فرمائی کرے غالبؔ

چٹکنا غنچۂ گل[121] کا صدائے خندۂ دل ہے

۱۸۵

ہم زباں آیا نظر فکرِ سخن میں تُو مجھے

مردمک، ہے طوطیِ آئینۂ زانو مجھے

باعثِ واماندگی ہے عمرِ فرصت جُو مجھے

کر دیا ہے پا بہ زنجیرِ رمِ آہو مجھے[122]

پا بہ دامن ہو رہا ہوں بس کہ میں صحرا نورد

خارِ پا ہیں جوہرِ آئینۂ زانو مجھے

دیکھنا حالت مرے دل کی ہم آغوشی کے وقت[123]

ہے نگاہِ آشنا تیرا سرِ ہر مو مجھے

ہوں سراپا سازِ آہنگِ شکایت کچھ نہ پوچھ

ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے

خاکِ فرصت بر سرِ ذوقِ فنا! اے انتظار

ہے غبارِ شیشۂ ساعت، رمِ آہو مجھے

یادِ مژگاں میں بہ نشتر رازِ صحرائے خیال

چاہیے وقتِ تپش یک دست صد پہلو مجھے

کثرتِ جور و ستم سے، ہو گیا ہوں بے دماغ

خوبرویوں نے بنایا عاقبت بد خو مجھے

اضطرابِ عمر بے مطلب نہیں آخر، کہ ہے

جستجوئے فرصتِ ربطِ سرِ زانو مجھے

چاہیے درمانِ ریشِ دل بھی تیغِ ناز سے

مرہمِ زنگار ہے وہ وسمۂ ابرو مجھے

فرصتِ آرام غش، ہستی ہے بحرانِ عدم

ہے شکستِ رنگِ امکاں، گردشِ پہلو مجھے

سازِ ایمائے فنا ہے عالمِ پیری، اسدؔ

قامتِ خم سے ہے حاصل شوخیِ ابرو مجھے

۱۸۶

جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے

جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے

سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر

تو اس قدِ دل کش سے جو گل زار میں آوے

تب نازِ گراں مائگیِ اشک بجا ہے

جب لختِ جگر دیدۂ خوں بار میں آوے

دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر!

کچھ تجھ کو مزہ بھی مرے آزار میں آوے

اس چشمِ فسوں گر کا اگر پائے اشارہ

طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے

کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب

اک آبلہ پا وادیِ پر خار میں آوے

مر جاؤں نہ کیوں رشک سے جب وہ تنِ نازک

آغوشِ خمِ حلقۂ زُنّار میں آوے

غارت گرِ ناموس نہ ہو گر ہوسِ زر

کیوں شاہدِ گل باغ سے بازار میں آوے

تب چاکِ گریباں کا مزا ہے دلِ نالاں[124]

جب اک نفس الجھا ہوا ہر تار میں آوے

آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے

اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے

جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے

۱۸۷

حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے

اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے

بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ

جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچّھا ہے

بے طلب دیں تو مزہ اُس میں سوا ملتا ہے

وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچّھا ہے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے

دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض

اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے

ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا

جس طرح کا کہ[125] کسی میں ہو کمال اچّھا ہے

قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے

کام اچّھا ہے وہ، جس کا کہ مآل اچّھا ہے

خضر سلطاں کو رکھے خالقِ اکبر سر سبز

شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچّھا ہے

ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچّھا ہے

۱۸۸

نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی

امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی

خار خارِ المِ حسرتِ دیدار تو ہے

شوق گل چینِ گلستانِ تسلّی نہ سہی

مے پرستاں خمِ مے منہ سے لگائے ہی بنے

ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی

نفسِ قیس کہ ہے چشم و چراغِ صحرا

گر نہیں شمعِ سیہ خانۂ لیلی نہ سہی

ایک ہنگامے پہ[126] موقوف ہے گھر کی رونق

نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا

گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی؟ نہ سہی

عشرتِ صحبتِ خوباں ہی غنیمت سمجھو

نہ ہوئی غالبؔ اگر عمرِ طبیعی نہ سہی

۱۸۹

عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے

کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے

قضا نے تھا مجھے چاہا خرابِ بادۂ الفت

فقط خراب لکھا، بس نہ چل سکا قلم آگے

غمِ زمانہ نے جھاڑی نشاطِ عشق کی مستی

وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذّتِ الم آگے

خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دینا

کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے

یہ عمر بھر جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے

تمہارے آئیو، اے طرّہ‌ ہائے خم بہ خم آگے

دل و جگر میں پَر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے

ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے

قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالبؔ

ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے

۱۹۰

شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے

یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گِلا ہوتا ہے

پُر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا

اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے

گو سمجھتا نہیں پر حسنِ تلافی دیکھو

شکوۂ جور سے سر گرمِ جفا ہوتا ہے

عشق کی راہ میں ہے چرخِ مکوکب کی وہ چال

  • سست رو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے

کیوں نہ ٹھہریں ہدفِ ناوکِ بیداد کہ ہم

آپ اٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے

خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ

کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے

نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا اور اب

لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے

ق

خامہ میرا کہ وہ ہے باربُدِ بزمِ سخن

شاہ کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے

اے شہنشاہِ کواکب سپہ و مہرِ علم

تیرے اکرام کا حق کس سے ادا ہوتا ہے

سات اقلیم کا حاصل جو فراہم کیجے

تو وہ لشکر کا ترے نعل بہا ہوتا ہے

ہر مہینے میں جو یہ بدر سے ہوتا ہے ہلال

آستاں پر ترے مہ ناصیہ سا ہوتا ہے

میں جو گستاخ ہوں آئینِ غزل خوانی میں

یہ بھی تیرا ہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے

رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

۱۹۱

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا

کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے

وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن

ہمارے جَیب[127] کو اب حاجتِ رفو کیا ہے

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہو گا

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ سے ہی[128] نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز

سوائے بادۂ گل فامِ مشک بو[129] کیا ہے

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار

یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے

رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی

تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

۱۹۲

غیر لیں محفل میں بوسے جام کے

ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے

خستگی کا تم سے کیا شکوہ کہ یہ

ہتھکنڈے ہیں چرخِ نیلی فام کے

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو

ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

رات پی زم زم پہ مے اور صبح دم

دھوئے دھبّے جامۂ احرام کے

دل کو آنکھوں نے پھنسایا کیا مگر

یہ بھی حلقے ہیں تمہارے دام کے

شاہ کی ہے غسلِ صحّت کی خبر[130]

دیکھیے کب دن پھریں حمّام کے

عشق نے غالبؔ نکمّا کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

۱۹۳

پھر اس انداز سے بہار آئی

کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی

دیکھو اے ساکنانِ خطّۂ خاک

اس کو کہتے ہیں عالم آرائی

کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر

رو کشِ سطحِ چرخِ مینائی

سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی

بن گیا روئے آب پر کائی

سبزہ و گل کے دیکھنے کے لیے

چشمِ نرگس کو دی ہے بینائی

ہے ہوا میں شراب کی تاثیر

بادہ نوشی ہے باد پیمائی

کیوں نہ دنیا کو ہو خوشی غالبؔ

شاہِ دیں دار[131] نے شفا پائی

۱۹۴

تغافل دوست ہوں میرا دماغِ عجز عالی ہے[132]

اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے

رہا آباد عالم، اہلِ ہمّت کے نہ ہونے سے

بھرے ہیں جس قدر جام و سبو، مے خانہ خالی ہے

بتانِ شوخ کا دل سخت ہو گا کس قدر، یا رب!

مری فریاد کو، کہسار، سازِ عجز نالی ہے

نشان بے قرارِ شوق، جز مژگاں نہیں باقی

کئی کانٹے ہیں اور پیراہنِ شکلِ نہالی ہے

جنوں کر، اے چمن تحریرِ درسِ شغلِ تنہائی

نگاہِ شوق کو، صحرا بھی، دیوانِ غزالی ہے

سیہ مستی ہے اہلِ خاک کو ابرِ بہاری سے

زمیں جوشِ طرب سے، جامِ لب ریزِ سفالی ہے

اسدؔ، مت رکھ تعجب خر دماغی ہائے منعم کا

کہ یہ نامرد بھی شیر افگنِ میدانِ قالی ہے

۱۹۵

کب وہ سنتا ہے کہانی میری

اور پھر وہ بھی زبانی میری

خلشِ غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ

دیکھ خوں نابہ فشانی میری

کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار

مگر آشفتہ بیانی میری

ہوں ز خود رفتۂ بیدائے خیال

بھول جانا ہے نشانی میری

متقابل ہے مقابل میرا

رک گیا دیکھ روانی میری

قدرِ سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں

سخت ارزاں ہے گرانی میری

گرد بادِ رہِ بے تابی ہوں

صرصرِ شوق ہے بانی میری

دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا

کھل گئی ہیچ مدانی میری

کر دیا ضعف نے عاجز غالبؔ

ننگِ پیری ہے جوانی میری

۱۹۶

تشنۂ خونِ تماشا جو وہ پانی مانگے

آئینہ، رخصتِ اندازِ روانی مانگے

[133]نقشِ نازِ بتِ طنّاز بہ آغوشِ رقیب

پائے طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے

تو وہ بد خو کہ تحیر کو تماشا جانے

غم وہ افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے

وہ تبِ [134] عشق تمنّا ہے کہ پھر صورتِ شمع

شعلہ تا نبضِ جگر ریشہ دوانی مانگے

رنگ نے گُل سے دمِ عرضِ پریشانیِ بزم

برگِ گُل، ریزۂ مینا کی نشانی مانگے

زلف تحریرِ پریشانِ تقاضا ہے، مگر

شانہ ساں، مُو بہ زباں خامۂ مانی مانگے

آمدِ خط ہے، نہ کر خندۂ شیریں کہ، مباد!

چشمِ مور، آئینۂ دل نگرانی مانگے

ہوں گرفتارِ کمیں گاہِ تغافل کہ جہاں

خوابِ صیاد سے، پرواز، گرانی مانگے

چشمِ پرواز و نفس خفتہ، مگر ضعفِ امید

شہپرِ کاہ، پئے مژدہ رسانی مانگے

وحشتِ شورِ تماشا ہے کہ جوں نکہتِ گل

نمکِ زخمِ جگر بال فشانی مانگے

گر ملے حضرتِ بیدل کا خطِ لوحِ مزار

اسد ؔ، آئینۂ پردازِ معانی مانگے

۱۹۷

گلشن کو تری صحبت از بس کہ خوش آئی ہے

ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے

واں کُنگرِ استغنا ہر دم ہے بلندی پر

یاں نالے کو اُور الٹا دعوائے رسائی ہے

از بس کہ سکھاتا ہے غم ضبط کے اندازے

جو داغ نظر آیا اک چشم نمائی ہے

آئینہ نفس سے بھی ہوتا ہے کدورت کش

عاشق کو غبارِ دل اک وجہِ صفائی ہے

ہنگامِ تصوّر ہوں دریوزہ گرِ بوسہ

یہ کاسۂ زانو بھی اک جامِ گدائی ہے

وہ دیکھ کے حسن اپنا مغرور ہوا غالبؔ

صد جلوۂ آئینہ، یک صبحِ جدائی ہے

۱۹۸

جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی

لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی

اچّھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصوّر

دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی

کیوں ڈرتے ہو عشّاق کی بے حوصلگی سے

یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی

[135]اے بے خبراں! میرے لبِ زخمِ جگر پر

بخیہ جسے کہتے ہو شکایت ہے رفو کی

گو زندگیِ زاہدِ بے چارہ عبث ہے

اتنا تو ہے، رہتی تو ہے تدبیر وضو کی[136]

دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو

خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی

صد حیف وہ ناکام کہ اک عمر سے غالبؔ

حسرت میں رہے ایک بتِ عربدہ جو کی

۱۹۹

یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے

پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے

سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم

حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے

بعد از وداعِ یار بہ خوں در طپیدہ[137] ہیں

نقشِ قدم ہیں ہم کفِ پائے نگار کے

ظاہر ہے ہم سے کلفتِ بختِ سیاہ روز

گویا کہ تختۂ مشق ہے خطِّ غبار کے

حسرت سے دیکھ رہتے ہیں ہم آب و رنگِ گل

مانندِ شبنم اشک ہے مژگانِ خار کے

آغوشِ گل کشودہ برائے وداع ہے

اے عندلیب چل! کہ چلے دن بہار کے

ہم مشقِ فکرِ وصل و غمِ ہجر سے اسدؔ

لائق نہیں رہے ہیں غمِ روزگار کے

۲۰۰

عاشق، نقابِ جلوۂ جانانہ چاہیے

فانوسِ شمع کو پرِ پروانہ چاہیے

[138]ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں

معشوقِ شوخ و عاشقِ دیوانہ چاہئے

اُس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو، ہاں!

شوقِ فضول و جرأتِ رندانہ چاہئے

پیدا کریں دماغِ تماشائے سرو و گل

حسرت کشوں کو ساغر و مینا نہ چاہیے

دیوانگاں ہیں حاملِ رازِ نہانِ عشق

اے بے تمیز، گنج کو ویرانہ چاہیے

ساقی، بہارِ موسمِ گل ہے سرور بخش

پیماں سے ہم گزر گئے، پیمانہ چاہیے

جادو ہے یار کی روشِ گفتگو، اسدؔ

یاں جز فسوں نہیں، اگر افسانہ چاہیے

کتابیات

۱۔ دیوانِ غالب۔ مکتبہ الفاظ علی گڑھ

۲۔ دیوان غالب۔ نسخہ تاج کمپنی لاہور

۳۔ دیوانِ غالب۔ نول کشور پریس لکھنؤ

۴۔ نوائے سروش از مولانا غلام رسول مہر(نسخۂ مہر)

۵۔ شرحِ دیوانِ غالبؔ از علامہ عبدالباری آسی ( نسخۂ آسی)

۶۔ دیوانِ غالبؔ (فرہنگ کے ساتھ)

۷۔ دیوانِ غالبؔ نسخۂ طاہر

۸۔ دیوان غالب (نسخۂ حمیدیہ)

۹۔ دیوانِ غالب (بہ تصحیحِ متن و ترتیب حامد علی خان) مطبوعہ ۱۹۶۹

۱۰ گلِ رعنا، نسخۂ شیرانی، نسخۂ بھوپال بخطِ غالب، نسخۂ رضا سے

۱۱۔ انتخاب نسخۂ بھوپال کی باز یافت۔ سید تصنیف حیدر، ماہنامہ آج کل، فروری ۲۰۰۷ء (نسخۂ مبارک علی کے حوالے اسی سے ماخوذ ہیں)

۱۲۔ دیوانِ غالب (کامل) تاریخی ترتیب سے۔ کالی داس گپتا رضاؔ

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کلیات ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل


[1]        یہ اور اگلے دو شعر نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[2]         نسخۂ حمیدیہ میں ’’پردے‘‘ بجائے ’’سبزے‘‘ (ج۔ م۔)

[3]         نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے: ریختے کا وہ ظہوری ہے، بقولِ ناسخ (ج۔ م۔)

[4]        متداول دیوان میں صرف مطلع ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[5]        متداول دیوان میں صرف یہ اور اگلے دو شعر درج ہیں، مطلع اور باقی شعر نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[6]        ’طباطبائی میں ہے کی جگہ ’بھی‘ درج ہے۔ (ا۔ ع۔)

[7]        از نسخۂ رضا۔ (ج۔ م۔)

[8]         بعض نسخوں میں ’’کہ‘‘ کی جگہ ’’کر‘‘ چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی: ’’کہ‘‘ (ح۔ع۔خ۔)

[9]        یہ اور اگلے تین شعر نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[10]        نسخۂ نظامی مطبوعہ ۱۸۶۲ میں ’’تھمے‘‘ کی جگہ ’’تھکے‘‘ چھپا ہے۔ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[11]       نسخۂ رضا مزید۔ (ج۔ م۔)

[12]        نسخۂ رضا مزید۔ یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے (ج۔ م۔)

[13]       نسخۂ رضا میں ’’محرومیِ تسلیم‘‘ ۔ (ج۔ م۔)

[14]        ’’اثبات‘‘ غالباً بالاتفاق مذکر ہے۔ غالب نے خود دوسری جگہ اس لفظ کو مذکر استعمال کیا ہے۔ تاہم غالب کا یہ شعر اس لفظ کی تانیث کا بھی جواز پیدا کر دیتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[15]        نسخۂ مہر اور نسخۂ ح۔ع۔خ۔ میں ’تراوِش‘ (ج۔ م۔)

[16]        مفتی انوار الحق کے مطابق یہ مصرع متن میں پہلے یوں تھا:

          ہوتے ہیں بے قدر در گنجِ وطن صاحب دلاں   (ج۔ م۔)

[17]       متداول دیوان میں صرف یہ ایک شعر ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[18]       متداول دیوان میں صرف یہ ایک شعر اور مطلع ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[19]       متداول دیوان میں صرف یہ اور اگلا شعر ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[20]        نسخۂ نظامی میں ’آئے‘ (ا۔ ع۔)

[21]      یہ شعر نسخۂ رضا میں اس غزل کے بجائے ایک اور غزل میں درج ہے جس کا مطلع ہے:

پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں

میرے ہاتھوں کو جدا باندھتے ہیں

 (ج۔ م۔)

[22]       متداول دیوان میں صرف مطلع ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[23]        ’ مہر نے اس غزل کے پانچویں۔ چھٹے اور ساتویں شعر کو نعتیہ اشعار میں شمار کیا ہے۔ ‘ (ج۔ م۔)

[24]       * (غالب ۴ جولائی ۱۸۵۰ء کو بادشاہ کے با قاعدہ ملازم ہوئے تھے)ّ (حاشیہ از نسخۂ رضا)

[25]        کچھ نسخوں میں ’جو‘۔ نسخۂ نظامی : ‫‘کہ’ (ا۔ ع۔)

[26]        جنازے کے آگے چلنے والی ماتم وار لڑکیاں؟ یہاں یہ لفظ غالباً ’’اِبنُ‘‘ کی جمع کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔ غالب نے صیغۂ تانیث استعمال کیا ہے۔ ح۔ع۔خ۔)

[27]        حالی نے یادگارِ غالبؔ میں یوں درج کیا ہے: جس کے بازو پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں (ج۔ م۔)

[28]        (یہ غزل دہلی اردو اخبار جلد ۱۴ نمبر ۳۲ مورخہ ۲۸ اگست ۱۸۵۲ میں چھپی تھی) حاشیہ از نسخۂ رضا

[29]        جَیب، جیم پر فتح (زبر) مذکّر ہے، بمعنی گریبان۔ اردو میں جیب، جیم پر کسرہ (زیر) کے ساتھ، بمعنیِ کیسہ (Pocket) استعمال میں زیادہ ہے، یہ لفظ مؤنث ہےاس باعث اکثر نسخوں میں ’ہماری‘ ہے۔ قدیم املا میں یائے معروف ہی یائے مجہول (بڑی ے) کی جگہ بھی استعمال کی جاتی تھی اس لئے یہ غلط فہمی مزید بڑھ گئی (ا۔ ع۔)

[30]        بعض نسخوں میں ’’اور یاں‘‘ چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں ’’اور یہاں‘‘ درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

          مزید: ہم نے اس نسخے میں ’’اور یاں‘‘ کو ترجیح دی ہے۔ (ج۔ م۔)

[31]       متداول دیوان میں مطلع اور اگلے دو شعر شامل نہیں، یہاں نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[32]        نسخۂ حمیدیہ میں ’’سویدا داغِ مرہم‘‘ بجائے ’’سوادِ زخمِ مرہم‘‘ (ج۔ م۔)

[33]        اکثر قدیم نسخوں میں ’’مرا‘‘ کی جگہ ’’مِرے‘‘ چھپا ہے اور شارحین نے بلا چون و چرا اسی طرح اس کی تشریح کر دی ہے۔ قدیم نسخوں میں صرف نسخۂ حمیدیہ میں ’’مِرا‘‘ چھپا ہے اور یہ درست معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے غالب نے بھی یہی لکھا ہو کیونکہ اس سے شعر بہت صاف ہو جاتا ہے۔ ورنہ یہ تعقید بہ درجۂ عیب معلوم ہوتی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[34] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: یہاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی؟     ممکن ہے، سہوِ کتابت ہو۔ (ج۔ م۔)

[35]        نسخۂ مہر میں ’’غیر‘‘ کی جگہ ’’کوئی‘‘ درج ہے۔ (ج۔ م۔)

          مزید: قدیم نسخوں میں یہاں ’’غیر‘‘ ہی چھپا ہے۔ قدیم نسخۂ نظامی میں بھی ’’غیر‘‘ ہے۔ عرشی، حسرت اور مالک رام نے بھی متن میں ’’غیر‘‘ ہی رکھا ہے۔ مہر صاحب نے ’’کوئی‘‘ کو ترجیح دی ہے مگر اس طرح پہلے دونوں شعروں میں ’’کوئی ہمیں‘‘ کا ٹکڑا بہ تکرار آ جاتا ہے۔ اگر صرف یہی شعر مد نظر ہو تو البتہ ’’کوئی‘‘ پسندیدہ معلوم ہوتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[36]      حاشیہ از نسخۂ رضا: ٭ دہلی اردو اخبار، جلد ۱۵ نمبر ۷ مورخہ ۱۳ فروری ۱۸۵۳ء

[37]        نسخۂ مہر میں ‘کہ’ (ج۔ م۔)

[38]       یہ غزل متداول دیوان میں درج نہیں۔ مگر نسخۂ مہر میں غلام رسول مہر صاحب نے بغیر حوالے سے اس کو درج کیا ہے۔ (ج۔ م۔)

[39]        نسخۂ مہر میں ’’رابطہ‘‘ کی جگہ ’’واسطہ‘‘ ۔ (ج۔ م۔)         

[40]      کچھ نسخوں میں ‘فرقے’ بجائے ’’زمرے‘‘ (ج۔ م۔)

[41]      مشہور شعر ہے مگر نسخۂ مہر میں درج نہیں (ج۔ م۔)     

[42]        یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں (ج۔ م۔)

[43]        یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں (جویریہ)

[44]       مزید شعر از نسخۂ رضا۔ (ج۔ م۔)۔

[45]       مروجہ دیوان میں اس غزل کے یہ پہلے تین شعر ہیں ، باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[46]       یہ شعر نسخۂ رضا سے شامل کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو نسخۂ رضا کا حاشیہ: ٭ یہ شعر یادگارِ غالبؔ میں درج ہے

[47]        یہ تینوں اشعار نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اشعار دوران سفر کلکتہ لکھے گیے تھے اور نسخۂ حمیدیہ میں شامل تمام اشعار سفر کلکتہ سے پہلے کے ہیں (ج۔ م۔)

[48]        حق ناسپاس نسخۂ نظامی میں ہے، حق نا شناس۔ حسرت، مہر اور عرشی میں۔ ’ناسپاس‘ کتابت کی غلطی بھی ممکن ہے۔ (ا۔ ع۔)

          مزید: نسخۂ نظامی طبع اول میں ’’حق ناسپاس‘‘ چھپا ہے۔ ایک آدھ اور قدیم نسخے میں بھی یونہی ملا ہے مگر بعض دوسرے قدیم نسخوں میں ’’ناشناس‘‘ بھی چھپا ہے۔ جدید نسخوں میں مالک رام نے متن میں ’’ناسپاس‘‘ اور طباطبائی، حسرت موہانی، عرشی اور مہر وغیر ہم نے ’’ناشناس‘‘ درج کیا ہے۔ یہی درست معلوم ہوتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[49]        نسخۂ نظامی طبع اول میں اور دیگر نسخوں میں بشمول نسخۂ حسرت موہانی، نسخۂ طباطبائی و نسخۂ عرشی، یہاں ’’ترا‘‘ ہی درج ہے۔ نسخۂ حمیدیہ طبع اول اور نسخۂ مہر میں ’’تِری‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[50]        حضور: بہادر شاہ ظفر، اگلا مصرعہ ظفر کا ہی ہے جس کی طرح میں غالبؔ نے درباری مشاعرے کے لئے یہ غزل کہی تھی۔ (ا۔ ع۔)

[51]        کچھ نسخوں میں ’وضع کیوں بدلیں‘ ہے۔ (ج۔ م۔)    مزید: اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ خود غالب نے ’’وضع کیوں بدلیں‘‘ کہا تھا (ح۔ع۔خ۔)

[52]        قدیم لفظ ’بیمار دار‘ ہی تھا بعد میں لفظ ’تیمار دار‘ استعمال کیا جانے لگا تو جدید نسخوں میں اس لفظ کو تیمار دار لکھا گیا۔ (ا۔ ع۔)

          مزید: بعض ما بعد نسخوں میں ’’بیمار دار‘‘ کی جگہ ’’تیمار دار‘‘ چھپا ہے۔ مگر نسخۂ نظامی مطبوعہ ۱۸۶۲ء اور اس کے قریبی عہد کے جو آٹھ نسخے نظر سے گزرے، ان سب میں ’’بیمار دار‘‘ چھپا ہے۔ مالک رام اور عرشی کے نسبتاً جدید نسخوں میں بھی ’’بیمار دار‘‘ ہی درج ہے۔ بظاہر یہی غالب کا لفظ ثابت ہوتا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ طبع اول میں ’’تیمار دار‘‘ کا اندراج شاید سہوِ کتابت ہے۔ نسخۂ مہر میں بھی ’’تیمار دار‘‘ ممکن ہے، یہی سے لیا گیا ہو۔ بعض اور اصحاب نے بھی اپنے نسخوں میں ’’تیمار دار‘‘ غالباً اس لیے لکھا ہے کہ آج کل یہ لفظ اردو میں عام طور سے مستعمل ہے مگر ’’بیمار دار‘‘ اس مفہوم میں قابل ترجیح ہے کیوں کہ اس کا ایک یہی مقرر مفہوم ہے جو تیمار اور تیمار دار کا نہیں۔ چنانچہ فارسی میں ان الفاظ کے دوسرے مفاہیم بھی ہیں۔ علاوہ ازین غالب کا کوئی لفظ عمداً بدلنے سے احتراز واجب ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[53]        نوٹ: غلام رسول مہر کو شک ہے کہ یہ غزل غالبؔ کی نہیں اور نسخۂ رضا میں بھی نہیں شامل۔ (ج۔ م۔)

[54]        کَن

[55]        اس لفظ کا ایک املا ازدحام بھی ہے (ج۔ م۔)

[56]       یہ غزل متداول دیوان میں درج نہیں۔ مگر نسخۂ مہر میں غلام رسول مہر صاحب نے ابوالکلام کے حوالے سے اس کو درج کیا ہے۔ (ج۔ م۔)

[57]        نسخۂ مہر میں دال پر جزم ہے۔ (ج۔ م۔)

[58] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)۔

[59]       متدوال دیوان میں صرف مطلع ہے۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کی گئی ہے۔ (ج۔ م۔)۔

[60]       متداول دیوان میں صرف یہ دو شعر ہیں۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کی گئی ہے۔ (ج۔ م۔)۔

[61]       یہ اور اگلے دو شعر نسخۂ رضا سے اضافہ ہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[62]       یہاں سے مقطع تک نسخۂ رضا سے اضافہ ہیں۔ (ج۔ م۔)

[63]       نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)۔

[64]        نسخۂ مہر میں ’’کو‘‘ (ج۔ م۔)

          مزید: یہاں ’’کی‘‘ کے بجائے ’’کو‘‘ معنوی لحاظ سے غلط ہے کیوں کہ شاعر خود داد طلب ہے، جسے اس مصرع میں : ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد۔

          بعض اچھے نسخوں میں ’’کو‘‘ سہواً چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[65]        طباطبائی نے لکھا ہے کہ ان اعداد کی مجموعے سے سات آسمان پورے ہو جاتے ہیں (ح۔ع۔خ۔)

[66]       یہاں سے آخر تک نسخۂ رضا سے اضافہ ہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[67]        نسخۂ مہر میں یہاں ’’کا‘‘ کے بجائے ’’کو‘‘ درج ہے۔ ’’کو‘‘ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے۔ (ج۔ م۔)

[68]       متداول دیوان میں صرف مطلع اور اگلا شعر ہے۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کی گئی ہے۔ (ج۔ م۔)۔

[69]        نسخۂ شیرانی کا اضافہ (ا۔ ع۔)

[70]        نسخۂ شیرانی کا اضافہ (ا۔ ع۔)

[71]        نسخۂ عرشی میں یوں ہے: ’تسکین کو نوید‘۔ اصل نسخۂ نظامی اور دوسرے نسخوں میں اسی طرح ہے۔ (ا۔ ع۔)

          مزید: عرشی صاحب کے نسخے میں یوں درج ہے : تسکین کو نوید کہ مرنے کی آس ہے۔

          سترہ اٹھارہ دوسرے قدیم و جدید نسخوں میں دیکھا تو کہیں بھی یہ مصرع اس طرح درج نہ تھا۔ لہذا مندرجہ بالا صورت قائم رکھی گئی۔ ایک قدیم نسخے میں ’’دے‘‘ سہواً حذف تو ہو گیا تھا مگر وہاں بھی ذرا اوپر ’’دے‘‘ چھپا ہوا مل جاتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[72]       نسخۂ رضا سے مزید شعر (ج۔ م۔)

[73]        ’’نافِ زمین‘‘ میں اعلانِ نون کا عیب رفع کرنے کے لیے بعض حضرات نے اس مصرع میں ’’نہ‘‘ سے پہلے ’’یہ‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔ غالب کی نظر میں عیب نہ تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)

[74]       نسخۂ رضا میں یہ مقطع زاید ہے۔ (ج۔ م۔)

[75]       متداول دیوان میں صرف یہ دو شعر ہیں۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[76]        کر۔ نسخۂ مہر (ج۔ م۔)

[77]       مطلع اور اگلے دو شعر متداول دیوان کا حصہ نہیں۔ نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)

[78]        وہ۔ نسخۂ مہر (ج۔ م۔)

[79]        یہ تینوں شعر اصل قلمی نسخے میں حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں لکھے ہوئے ہیں (حاشیہ از پروفیسر حمید احمد خان)

[80]       اس شعر سے مقطع تک اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[81]       نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر یوں درج ہے:

          اے سرِ شوریدہ نازِ عشق و پاسِ آبرو       یک طرف سودا و یک سو منتِ دستار ہے

 (ج۔ م۔)

[82]       مطلع نسخۂ رضا سے شامل کیا گیا ہے۔ (ج۔ م۔)۔

[83]        نہ لائے (نسخۂ مہر) (ج۔ م۔)

[84]       اس شعر سے مقطع تک اشعارنسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[85]       متداول دیوان میں یہ غزل اس اور اگلے شعر پر مشتمل ہے۔ مطلع اور باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[86]       یہ شعر نسخۂ حمیدیہ اور نسخۂ رضا دونوں میں موجود نہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[87]       متداول دیوان میں یہ غزل مطلع اور اگلے دو شعروں پر مشتمل ہے۔ باقی اشعار تا مقطع نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[88]        بعض نسخوں میں ’’میری‘‘ کی جگہ ’’مِری‘‘ اور تیسرے شعر میں ’’میرے‘‘ کی جگہ ’’مِرے‘‘ چھپا ہے۔ یہ مقامات ’’میری‘‘ اور ’’میرے‘‘ کے متقاضی ہیں اور یہی غالب کے الفاظ ہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)

[89]       یہاں سے آخر تک کے اشعار نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[90]        اضافہ از نسخۂ بدایوں دریافتِ احید الدین نظامی فرزندِ مولانا نظام الدین حسین نظامی شایع کنندۂ ’’نسخۂ نظامی‘‘ بحوالہ مولانا امتیاز علی عرشی کا مضمون ’’دیوانِ غالب۔ ایک اہم مخطوطہ۔ نسخۂ بدایوں) (ج۔ م۔)

[91]        قدیم نسخوں میں یاے معروف و مجہول کا کوئی امتیاز نہیں۔ یہاں‘‘ گزرے‘‘ بھی پڑھا جا سکتا ہے مگر غالب نے کیا کہا؟ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[92]        نسخۂ حمیدیہ طبع اول میں ’’اے‘‘ کی جگہ ’’او‘‘ چھپا ہے، اور کہیں نظر سے نہیں گزرا۔ (ح۔ع۔خ۔)

          مزید: نسخۂ مہر میں بھی ’’او‘‘ چھپا ہے۔ (ج۔ م۔)

[93]        بعض نسخوں میں ’’سینکڑوں‘‘ کی جگہ ’’سیکڑوں‘‘ ملتا ہے مگر نسخۂ نظامی میں اور بعض دوسرے قدیم نسخوں میں ’’سینکڑوں‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔ا)

[94]        اٹھارہ سے زاید قدیم و جدید نسخوں کے باہمدگر مقابلے سے معلوم ہوا کہ کہ بیشتر نسخوں میں یہ شعر اسی طرح چھپا ہے:

مینائے مے ہے سروِ نشاطِ بہار مے بالِ تَدَر و جلوۂ موجِ شراب ہے

          لیکن نسخۂ حمیدیہ میں ’’سرو نشاط سے‘‘ درج ہے جو صریحاً غلط ہے۔ ایک آدھ قدیم نسخے میں نیز عرشی، مہر مالک رام کے نسخوں میں یہ شعر ایک اور شکل میں ملتا ہے، یعنی  مینا سے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے بالِ تَدَر و جلوۂ موجِ شراب ہے

          یہ شعر اس طرح بھی بامعنی ہے اور اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ نشاطِ بہار نے سرو کو بھی شراب سے لبالب بھرا ہوا مینا بنادیا ہے۔ اس حالت میں آسمان پر بالِ تدرو یعنی ابرِ باران آور بھی جلوۂ موجِ شراب معلوم ہوتا ہے۔ جس سے شراب کے خوب کھل کر برسنے کی امید ہو سکتی ہے۔ (ح۔ع۔ا)

[95]        تذرو اور تدرو دونوں طرح لکھا جاتاہے۔ (ج۔ م۔) بحوالۂ نسخۂ مہر)

[96]       اس شعر تا مقطع نسخۂ رضا سے۔ (ج۔ م۔)

[97]       اس شعر تا مقطع نسخۂ رضا سے۔ (ج۔ م۔)

[98]       متداول دیوان میں صرف یہ ایک شعر درج ہے۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کی گئی ہے۔ (ج۔ م۔)

[99]        عشق ہے!: مرحبا! آفرین! یہ کلمہ بہ تغیر تلفظ اہل پنجاب کی زبانوں پر بھی ہے۔ اس شعر کو سمجھنے کے لیے دوسرے مصرع میں ’’قدم‘‘ کے بعد وقفہ ہونا چاہیے۔ بعض حضرات نے غلط فہمی سے ’’واماندگی سے عشق ہے‘‘ لکھ دیا ہے جو مقصودِ غالب نہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)

[100]       نسخۂ طباطبائی: ’’کس کے آب و گل‘‘ ۔ ’’کے‘‘ بجائے ’’کی‘‘ (ح۔ع۔خ۔)

[101]       دیوانِ غالبؔ (فرہنگ کے ساتھ) میں ’’مانا‘‘ ہے۔ (ج۔ م۔)

[102]       قدیم نسخوں میں یائے مجہول و معروف کا امتیاز نہ تھا اس لیے بعض قدیم نسخوں میں یہاں ’’’اب کے‘‘ چھپا ہے جو اس موقع پر درست معلوم نہیں ہوتا۔ بالخصوص ’’بارہا ’’کے بعد۔ یہاں مراد ہے : اب کی بار (ح۔ع۔خ۔)

[103]       ہیں۔ نسخۂ مہر (ج۔ م۔)

[104]      یہ مصرع نسخۂ رضا میں یوں درج ہے: ہے زلزلہ و صرصر و سیلاب کا عالم٭ (ج۔ م۔)

دیکھیں نسخۂ رضا کا حاشیہ: ٭ یہ مصرعہ ؎‘‘ صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم ’’تھا مگر انتخابِ غالبؔ مکتوبہ۱۸۶۶ءمیں غالبؔ نے یہ مصرعہ بدل دیا تھا

[105]      نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)

[106]       نسخۂ مہر و آسی میں‘‘ وُہی ’’(ج۔ م۔)

[107]       روز بازار : چہل پہل اور رونق کے دن کو بھی کہتے ہیں (ح۔ع۔خ۔)

[108]      نسخۂ رضا میں‘‘ گو ’’بجائے‘‘ گر ’’۔ (ج۔ م۔)

[109]       نسخۂ طاہر میں‘‘ زنجیرِ موجِ آب ’’(ج۔ م۔)

[110]       نسخۂ مہر میں غالباً سہوِ کاتب سے‘‘ پسِ مردن ’’چھپا ہے باقی نسخوں میں‘‘ پس از مردن ’’ہے (ح۔ع۔خ۔)

[111]      یہ شعر اور مقطع نسخۂ رضا سے۔ (ج۔ م۔)

[112]      یہاں سے مقطع تک نسخۂ رضا سے مزید۔ (ج۔ م۔)

[113]       نسخۂ حمیدیہ اور مالک رام میں‘‘ دامِ سخت قریب ’’(ا۔ ع۔)

          مزید: نسخۂ حمیدیہ اور مالک رام میں‘‘ دامِ سخت قریب ’’چھپا ہے۔ دوسرے سب نسخوں میں‘‘ سخت قریب ’’بہ معنیِ‘‘ نہایت قریب ’’درج ہے (حامد)

[114]       مالک رام اور نسخۂ صد سالہ یادگار غالب کمیٹی دہلی میں‘‘ رے ’’کی جگہ‘‘ ری ’’چھپا ہے‘‘ اللہ رے ’’اور‘‘ اللہ ری ’’میں یہ امتیاز قابل تعریف ہے مگر اس بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ مخاطب‘‘ تندیِ خو ’’نہیں بلکہ‘‘ تند خو محبوب ’’ہے جو محبوبہ بھی نہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)

[115]       بعض نسخوں میں‘‘ کھِنچ ’’چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔) ح۔ع۔خ۔ کے نسخے میں‘‘ کھِچ ’’درج ہے۔ (ج۔ م۔)

[116]      نسخۂ رضا کا حاشیہ:     (یہ اشعار نسخہ حمیدیہ کے ایک قصیدے کے ہیں۔ غالبؔ نے وہیں سے الگ کر کے اپنے دیوان (اشاعت اول) میں بطور غزل شامل کر لیے)

[117]      نسخۂ رضا سے مزید۔ (ج۔ م۔)

[118]       بعض نسخوں میں‘‘ یاں ’’کی جگہ‘‘ ہاں ’’چھپا ہے۔ یہ غالباً کسی سہوِ کتابت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ‘‘ ہاں ’’سے شعر کے جو تیور بنتے ہیں غالب کے معلوم نہیں ہوتے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[119]       نسخۂ آگرہ ۱۸۶۳ء اور نسخۂ مہر میں ’سور‘ (ا۔ ع۔) ، (ج۔ م۔)

          مزید: نسخۂ نظامی اور اکثر دوسرے نسخوں میں‘‘ سوز ’’ہی چھپا ہے۔ ایک نسخے میں شاید سہوِ کتابت سے‘‘ سُور ’’چھپ گیا۔ اب بعض حضرات‘‘ سُور ’’ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)

[120]       نسخۂ نظامی اور اکثر دوسرے نسخوں میں‘‘ تِری ’’چھپا ہے جو صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ صرف نسخۂ حسرت موہانی، نسخۂ بیخود دہلوی اور نسخۂ مطبعِ مجیدی ۱۹۱۹ء میں صحیح صورت نظر آتی ہے۔ بہ صورت دیگر یہ مصرع بحر سے خارج ہو جاتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[121]       ‘‘ غنچۂ گل ’’کی جگہ بعض مؤقر نسخوں میں‘‘ غنچہ و گل ’’اور‘‘ غنچۂ دل ’’بھی چھپا ہے۔ اسے سہو کتابت کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ غنچۂ گل: گلاب کی کلی۔ غنچے کے ساتھ‘‘ گل ’’کا بھی چٹکنے لگنا محل نظر ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[122]      متداول دیوان میں صرف یہ تین شعر درج ہیں۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)

[123]       نسخۂ مہر میں‘‘ ہم آغوشی کے بعد ’’(ج۔ م۔)

[124]       مالک رام اور عرشی میں ہے ’دلِ ناداں‘ لیکن ’نالاں‘ ہی غالبؔ کے اندازِ بیان کے مطابق زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ (ا۔ ع۔)

          مزید: نسخۂ نظامی، نسخۂ طباطبائی، نسخۂ حسرت موہانی اور متعدد دیگر نسخوں میں‘‘ دلِ نالاں ’’چھپا ہے۔ عرشی اور مالک رام کے نسخوں‘‘ دل ناداں ’’ملتا ہے۔ مضمونِ شعر یہاں‘‘ دلِ نالاں ’’ہی سے خطاب کا متقاضی معلوم ہوتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[125]       نسخۂ مہر میں‘‘ جس طرح کا بھی ’’(ج۔ م۔)

[126]       نسخۂ مہر میں‘‘ پر ’’(ج۔ م۔)

[127]       ‘‘ جَیب ’’بہ معنیِ‘‘ گریبان ’’مذکر ہے۔ بیشتر مروجہ نسخوں میں جو‘‘ ہماری جیب ’’چھپا ہے وہ اس غلط فہمی کی بنا پر ہے کہ قدیم نسخوں میں یائے معروف و مجہول کا امتیاز نہ تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)

[128]       اصل نسخے میں ’جب آنکھ سے ہی‘ ہے لیکن بعض جدید نسخوں میں ’جب آنکھ ہی سے‘ رکھا گیا ہے جس سے مطلب زیادہ واضح ہو جاتا ہے لیکن نظامی میں یوں ہی ہے۔ (ا۔ ع۔)

          مزید: بعض فاضل مرتبین نے‘‘ سے ہی ’’کو قابل اعتراض سمجھ کر اپنے نسخوں میں اسے‘‘ ہی سے ’’بنادیا ہے غالب کا اصرار بہ ظاہر‘‘ آنکھ ’’پر نہیں‘‘ آنکھ سے ٹپکنے’’ پر ہے چنانچہ متن میں قدیم نسخوں کا اندراج برقرار رکھا گیا۔ (ح۔ع۔خ۔)

[129]       ‘‘ بادہ و گلفامِ مشک بو ’’۔ نسخۂ مہر (ج۔ م۔)

[130]      حاشیہ از نسخۂ رضا۔ دہلی اردو اخبار، ۴ دسمبر ۱۸۵۳ء میں درج ہے کہ بادشاہ نے ’’۲۱ صفر۱۲۷۰ ھ کو غسلِ صحت فرمایا‘‘ ۔ یہ مطابق ہے ۲۳ نومبر ۱۸۵۳ء کے۔ (ج۔ م۔)

[131]       اصل نسخے میں املا ہے ’دیندار‘ جب کہ تقطیع میں نون غنہ آتا ہے اس لئے تلفّظ کی وضاحت کے لئے یہاں ’دیں دار‘ لکھا گیا ہے (ا۔ ع۔)

[132]      متداول دیوان میں صرف مطلع اور ایک شعر ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)

[133]      متداول دیوان میں یہ تین شعر ہیں۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)

[134]       تپ۔ نسخۂ مہر (ج۔ م۔)

[135]      یہ دونوں شعر نسخۂ حمیدیہ میں درج نہیں (ج۔ م۔)

[136]      نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: اتنا ہے کہ رہتی تو ہے تدبیر وضو کی۔ (ج۔ م۔)

[137]       اس لفظ کی جدید املا تپیدہ ہے۔ (ا۔ ع۔)

[138] متداول دیوان میں صرف یہ دو شعر ہیں۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)