FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بسمہٖ تعالیٰ

کلیاتِ غالبؔ

حصہ اول ۔۔ متداول دیوان، الف

مرزا اسد اللہ خان غالبؔ

مرتبہ: جویریہ مسعود

(پیشکش: اردو محفل)

www.urduweb.org/mehfil

۲۳ اکتوبر ۲۰۱۹

مکمل کلیات ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

سخن ہائے گفتنی

اپریل ۲۰۰۶ء میں دیوان غالب پر جو کام اردو محفل پر شروع ہوا تھا، آج اکتوبر ۲۰۱۹ میں کلیاتِ غالب کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔

ان ۱۳ سالوں میں دیوانِ غالب پر جو کام ہوا، اس کی تفصیل یہ ہے:

۱۔     یکم اپریل ۲۰۰۶ کو اس کی ٹائپنگ اور محفل پر پوسٹنگ مکمل ہو گئی۔

۲۔      اپریل ۲۰۰۶ میں ہی اعجاز عبید صاحب نے سارے کام کو ایک فائل میں مرتب کیا۔ اس کی ابتدائی پروف ریڈنگ کی اور اس کا دیباچہ لکھا۔ نیز مندرجہ ذیل نسخوں کے ساتھ موازنہ کیا اور ان نسخوں کے اختلاف پر فٹ نوٹس لکھے۔

الف۔  دیوانِ غالب۔ مکتبہ الفاظ علی گڑھ

ب۔    دیوان غالب۔ تاج کمپنی لاہور

ج۔    دیوانِ غالب۔ نول کشور پریس لکھنؤ

۳۔      مئی ۲۰۰۶ نے اردو محفل کے ارکان کے اصرار پر میں نے دیوان پر کام شروع کیا اور ۲۰ جون کو میں نے اس کی پروف ریڈنگ مکمل کی اور مندرجہ ذیل نسخوں کے ساتھ موازنہ کیا اور ان نسخوں کے اختلاف پر فٹ نوٹس لکھے۔

الف۔  نوائے سروش از مولانا غلام رسول مہر (نسخۂ مہر)

ب۔    شرحِ دیوانِ غالبؔ از علامہ عبد الباری آسی ( نسخۂ آسی)

ج۔     دیوانِ غالب (فرہنگ کے ساتھ)

د۔      دیوانِ غالبؔ نسخۂ طاہر

ہ۔     دیوان غالب نسخۂ حمیدیہ

اس کے علاوہ ایک ضمیمہ کا اضافہ کیا جس میں نسخۂ مہر سے اس کلام کو ٹائپ کر کے شامل کیا جو غلام رسول مہر صاحب نے مولانا عبد الباری کے نسخے سے نقل کیا تھا۔

۴۔     ۱۲ مارچ ۲۰۰۷ کو میں نے ضمیمۂ دوم کا اضافہ کیا۔ ضمیمۂ دوم در اصل نسخۂ حمیدیہ سے ۷ غزلوں[1] کا انتخاب تھا۔

۵۔      اسی دوران مجھے دیوان غالب کا ایک اور اہم نسخہ ملا۔ یہ نسخہ حامد علی خان نے مرتب کیا تھا۔ اس نسخے کو مرتب کرتے وقت ان کے پیش نظر بے شمار نسخے تھے۔ ان سارے نسخوں میں جو اختلاف تھے، وہ حامد علی خان نے حواشی میں ذکر کیے۔ میں نے وہ حواشی اور فٹ نوٹس ٹائپ کر کے، ۷ اکتوبر ۲۰۰۷ کو نسخۂ اردو ویب میں شامل کیا۔

۶۔      اسی دوران جناب اعجاز عبید صاحب نے بھی دیوان پر کام جاری رکھا اور مندرجہ ذیل نسخوں سے وہ اشعار جو ہمارے نسخہ میں درج نہیں تھے، ان کو ٹائپ کر کے مجھے بھیج دیے:

الف۔  گلِ رعنا، نسخۂ شیرانی، نسخۂ بھوپال بہ خطِ غالب، نسخۂ رضا سے

ب۔    انتخابِ نسخۂ بھوپال کی باز یافت۔ سید تصنیف حیدر، ماہنامہ آج کل، فروری ۲۰۰۷ء (نسخۂ مبارک علی کے حوالے اسی سے ماخوذ ہیں)

ج۔     دیوانِ غالب (کامل) تاریخی ترتیب سے۔ کالی داس گپتا رضاؔ

میں نے ان اشعار کی پروف ریڈنگ کی، ان کو اس نسخے میں (نسخہ حمیدیہ کے ترتیب پر) مناسب جگہوں پر رکھا۔ میرے پاس موجود دوسرے نسخوں کے ساتھ موازنہ کیا اور اختلاف پر بھی فٹ نوٹس لکھے۔ مزید کام یہ کیا کہ وہ اشعار جو متداول و مشہور دیوان کا حصہ نہیں تھے، ان اشعار کو اس نسخے میں سرخ رنگ سے نمایاں کیا۔

مزید براں ایک رکنِ محفل نے چند اشعار اور حواشی میں پروف کی غلطیوں کی نشاندہی کی تھی، ان کی تصحیح کی۔ ایک مشہور شعر چھوٹ گیا تھا اس کو شامل کر دیا۔

۷۔     اسی دوران مولانا امتیاز عرشی کا ایک مضمون نظر سے گزرا جو کہ ماہنامہ ’ماہ نو‘ کے فروری ۱۹۹۸ کے غالب نمبر میں شامل تھا۔ یہ مضمون دیوان غالب کے ایک نسخہ جو کہ نسخۂ بدایوں کے نام سے مشہور ہے، پر تھا۔ معلوم ہوا کہ نسخۂ بدایوں میں دو اشعار ایسے شامل ہیں جو کہ کسی اور نسخے میں شامل نہیں ان دو کو فوراً شامل کر دیا۔

علاوہ از یں وقتاً فوقتاً متعدد تبدیلیاں کی جاتی رہیں ہیں تاکہ نسخے کو بہتر سے بہتر کیا جا سکے۔ آخری تبدیلی جنوری ۲۰۱۸ میں کی گئی جو حاشیہ نمبر ۷۱ کا اضافہ ہے۔

دیوانِ غالب سے کلیاتِ غالب تک

پتہ نہیں یہ نسخہ کلیات کہلانے کے قابل بھی ہے کہ نہیں؟ البتہ کوشش یہ گئی ہے کہ جو بھی کلام مستند حوالوں سے غالب کے ساتھ منسوب ہے، اس کو اس نسخے میں جمع کیا جائے۔ ہماری یہ کوشش کتنی قابلِ اعتنا ہے، یہ قتیلانِ غالب بہتر جانتے ہیں۔  امید ہے کہ وہ اپنی قیمتی رائے سے نوازیں گے۔

دیوان سے کلیات کا سفر تقریباً بارہ سالوں پر محیط ہے اور دیوانِ غالب نسخۂ اردو ویب کے بارے میں تفصیل سے آپ واقف ہیں۔ مجھے اجازت دیں کہ ذیل کے سطور میں کلیات کے بارے کچھ بتاؤں۔

آگست ۲۰۱۹ کے اواخر میں اردو محفل پر غالبیات کے زمرے میں یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ اردو محفل پر میری غیر حاضری کے دوران دیوانِ غالبؔ کامل (نسخۂ رضاؔ) از کالی داس گپتا رضا کا مکمل نسخہ ٹائپ کر کے پوسٹ کیا گیا ہے۔ میں نے مکمل فائل ڈاؤن لوڈ کی تاکہ اس کا مطالعہ کر سکوں۔ دوران مطالعہ معلوم ہوا کہ نسخۂ رضا کی ٹائپنگ اور پروف ریڈنگ بڑی محنت سے کی گئی ہے مگر اس میں چند اغلاط موجود ہیں۔ تصدیق کے لئے نسخۂ اردو ویب (اردو محفل) سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں نسخوں میں کافی اختلافات موجود ہیں۔ تب خیال آیا کہ کیوں نہ اس نسخے کا اردو ویب ڈاٹ آرگ کے نسخے سے موازنہ کروں۔ یہی خیال کلیاتِ غالب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ۲۹ اگست ۲۰۱۹ کو اس پر کام شروع کیا اور آج ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۹ کو میں یہ اختتامی سطور لکھ رہی ہوں۔

سب سے پہلے میں نے نسخۂ رضا سے ایک ایک غزل کاپی کر کے نسخۂ اردو ویب کے متعلقہ غزل کے نیچے پیسٹ کی، تاکہ موازنے میں آسانی ہو۔ یہ کام مشکل اور تھکا دینے والا تھا اور تقریباً ۱۵ دن اس کام میں لگے۔ یاد رہے کہ اس کام کے لئے cut/ paste کا طریقہ استعمال کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جو کلام نسخہ اردو ویب میں موجود نہیں تھا۔ اس کی ایک الگ فائل بن گئی جو بعد میں کلیات کے ضمیمۂ سوم کا حصہ بنی۔

اس کے بعد ایک ایک غزل کا باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ اور اختلاف پر فٹ نوٹ لکھے۔ ساتھ میں پروف ریڈنگ بھی جاری رہی۔ ضرورت پڑنے پر مختلف طبع شدہ دواوین غالب سے بھی رجوع کیا۔ عروض ڈاٹ کام سے بھی کافی مدد ملی۔ اور یوں یہ سارا کام دو مہینوں میں پورا ہو گیا۔

کلیاتِ غالب دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ در حقیقت متداول دیوان ہے مگر نسخۂ رضا اور نسخۂ حمیدیہ سے اضافوں کے ساتھ۔ فٹ نوٹس میں اضافوں کی وضاحت کی گئی ہے۔

دوسرا حصہ چار ضمیموں پر مشتمل ہے۔ دو ضمیمے تو نسخۂ اردو ویب میں پہلے ہی سے موجود تھے۔ تیسرا ضمیمہ نسخۂ رضا سے ان غزلوں اور نظموں کا انتخاب ہے جس کا ایک شعر بھی متداول دیوان کا حصہ نہیں تھا۔ چوتھا ضمیمہ قادر نامہ پر مشتمل ہے۔ یہ بھی نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہے۔

ضمیمۂ سوم ۱۷۱ غزلیات، ایک قصیدے، ۱۰ قطعات۔ ۱۲ رباعیات، ۱۳ مفردات اور ۲۳ ہنگامی اشعار و مصرعوں پر مشتمل ہے۔

اب ذرا اس نسخے (کلیاتِ غالب) کی چند نمایاں خصوصیات کا ذکر ہو جائے:

۱۔    نسخے کی پروف ریڈنگ دوبارہ کی گئی ہے اور مقدور بھر کوشش کی گئی ہے کہ کوئی غلطی رہ نہ جائے۔

۲۔    ان اشعار کو کلیات سے یکسر خارج کیا گیا ہے، جن کی غالب سے نسبت مشکوک تھی۔

۳۔     نسخے کی فہرست دوبارہ مرتب کی گئی ہے جو ۱۰ سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔

۴۔    جدید املا پر کافی توجہ دی گئی ہے۔

۵۔    اوقاف کا نسخۂ رضا کی مدد سے اہتمام کیا گیا ہے جس کی وجہ سے شعر سمجھنے میں آسانی ہو گئی ہے۔

۶۔     حوالہ جات اور حواشی کا اضافہ کیا گیا ہے۔ حواشی کی تعداد ۲۸۲ سے بڑھ کر اب ۴۶۴ سے زیادہ ہو گئی ہے۔

۷۔    ایک نئی اختراع یہ کی گئی ہے کہ ’’ردیف ی‘‘ اور ’’ردیف ے‘‘  کو الگ کیا گیا ہے۔

امید ہے کہ یہ کاوش آپ کو پسند آئے گی۔

دعاؤں کی طالب۔

جویریہ مسعود

سوات، پاکستان

دیباچہ[2]

ہم ماہرینِ غالبیات ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے اور نہ ہمارا یہ خیال ہے کہ ہمیں محقّقین میں شمار کیا جائے۔ اردو ویب ڈاٹ آرگ کے کچھ سر پھرے رضاکاروں نے بس یہ بیڑا اٹھایا کہ دیوانِ غالبؔ کو اردو تحریر کی شکل میں مہیا کیا جائے۔

اس کی بنیاد نسخۂ نظامی ہے جو نظامی پریس کانپور سے ۱۸۶۲ء میں چھپا تھا اور جس کی تصحیح خود غالبؔ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ کچھ اشعار جو دوسرے مروجہ دیوانوں میں مختلف پائے جاتے ہیں، اس کی صحت اس نسخے کی مدد سے ٹھیک کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے نسخوں (حمیدیہ، غلام رسول مہرؔ، عرشیؔ) سے وہاں مدد لی گئی ہے جو اشعار نظامی میں نہیں تھے۔

نسخۂ بھوپال/حمیدیہ/ شیرانی/ گلِ رعنا سے وہاں بھی مدد لی گئی ہے جہاں غزل کے کچھ ہی اشعار مزید مل سکے تھے، جیسے کسی غزل میں متداول دیوان میں پانچ سات اشعار ہیں اور نسخۂ بھوپال میں مزید دو تین اشعار مل گئے تو شامل کر دئے گئے ہیں لیکن اگر مروجہ دواوین میں محض دو تین اشعار ہیں اور بھوپال کے نسخوں میں سات آٹھ مزید اشعار تو ان کو چھوڑ دیا گیا ہے۔

غرض کوشش یہ نہیں کی گئی ہے کہ تمام اشعار شامل کر دئے جائیں۔ یہ کام تو مشہور ماہرِ اقبالیات محترمی کالی داس گُپتا رضا اپنی ’دیوانِ غالب کامل۔ تاریخی ترتیب سے‘ میں انجام دے چکے ہیں۔ اس نسخے میں انھوں نے ۴۲۰۹ اشعار شامل کیے ہیں جب کہ متداول دیوان میں کل ۱۸۰۲ اشعار تھے۔ نسخۂ حمیدیہ سے کچھ مکمل غزلیں بطور ضمیمہ دوم شامل کر دی گئی ہیں۔

اس نسخے کی ایک مزید خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جدید املا کا خیال رکھا گیا ہے۔ چناں چہ کچھ الفاظ کی املا جو یہاں ہے، ان کی فہرست ذیل میں ہے:

کیونکر۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کر

ہاے۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ ہائے

سخت جانیہاے۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ سخت جانی ہائے

صحراے کی جگہ صحرائے

پانو۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ پاؤں

بے کسئی یا بے کسیٔ ۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ بے کسیِ

بیکسی کی جگہ بے کسی

جہاں بحر میں ’آئنہ‘ درست آتا ہے، وہاں بھی آئینہ (حوالہ شمس الرحمٰن فاروقی، ’اچھی اردو، روز مرّہ، محاورہ، صرف‘، کالم ’اردو دنیا‘ جنوری ۲۰۰۷ء)۔ اگر پھر بھی کسی قاری کو کوئی غلطی نظر آئے تو ہمیں اطلاع دیں، اگر قابلِ قبول ہوئی تو ہم بسر و چشم اسے قبول کریں گے اور تصحیح کے بعد یہ ای بک دوبارہ آپ کی خدمت میں پیش کی جا سکے گی۔

اعجاز عبید

اتحادِ عمل

کلیاتِ غالب کی پیشکش ایک فردِ واحد کی کاوش نہیں تھی بلکہ یہ ایک ٹیم ورک کی ان تھک محنت تھی۔ تفصیل اس اتحادِ عمل کی یہ ہے:

ٹائپنگ: اردو ویب ڈاٹ آرگ ٹیم۔۔۔ اعجاز اختر (اعجاز عبید)، سیدہ شگفتہ، نبیل نقوی، شعیب افتخار، محب علوی، رضوان، شمشاد احمد خان

نسخۂ رضا کی ٹائپنگ: اویس قرنی۔

ترتیب و تحقیق: اعجاز عبید، جویریہ ریاض مسعود

تصحیح و اضافہ: جویریہ ریاض مسعود، اعجاز عبید

نظر اول : ۲۰ جون ۲۰۰۶ (جویریہ مسعود)

اضافۂ ضمیمۂ دوم: ۱۲ مارچ ۲۰۰۷ (جویریہ مسعود)

اضافۂ حواشیِ حامد علی خان: ۰۵ اکتوبر ۲۰۰۷ (جویریہ مسعود)

اضافہ و مزید تحقیق از اعجاز عبید: ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۷۔ (انتخاب از نسخۂ بھوپال کی باز یافت۔ سید تصنیف حیدر، ماہنامہ آج کل، فروری ۲۰۰۷ء دیوانِ غالب (کامل) تاریخی ترتیب سے۔ کالی داس گپتا رضاؔ)

نظر ثانی: ۲۳ مئی ۲۰۰۸ (جویریہ مسعود)

نظرِ ثالث: جنوری ۲۰۱۸

نظرِ چہارم: اگست ۲۰۱۹

شکل آخر: اکتوبر ۱۹ ۲۰

حصۂ غزلیات

ردیف الف

۱

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

شوخیِ نیرنگ، صیدِ وحشتِ طاؤس ہے

دام، سبزے میں ہے پروازِ چمن تسخیر کا

لذّتِ ایجادِ ناز، افسونِ عرضِ ذوقِ قتل

نعل آتش میں ہے، تیغِ یار سے نخچیر کا

کاؤ کاوِ[3] سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے

سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے

مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

خشت پشتِ دستِ عجز و قالب آغوشِ وداع

پُر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا

وحشتِ خوابِ عدم شورِ تماشا ہے اسدؔ

جو مزہ[4] جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا

بس کہ ہوں غالبؔ، اسیری میں بھی آتش زیِر پا

موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

۲

جنوں گرم انتظار و نالہ بے تابی کمند آیا

سویدا تا بہ لب زنجیر سے[5] دودِ سپند آیا

مہِ اختر فشاں کی بہرِ استقبال آنکھوں سے

تماشا، کشورِ آئینہ میں آئینہ بند آیا

تغافل، بد گمانی، بلکہ میری سخت جانی ہے

نگاہِ بے حجابِ ناز کو بیمِ گزند آیا

فضائے خندۂ گُل تنگ و ذوقِ عیش بے پروا

فراغت گاہِ آغوشِ وداعِ دل پسند آیا

عدم ہے خیر خواہِ جلوہ کو زندانِ بے تابی

خرامِ ناز برقِ خرمنِ سعیِ پسند آیا

جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ

مبارک باد اسدؔ، غم خوارِ جانِ دردمند آیا

۳

عالم جہاں بہ عرضِ بساطِ وجود تھا

جوں صبح، چاکِ جَیب مجھے تار و پود تھا

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

صحرا، مگر، بہ تنگیِ چشمِ حُسود[6] تھا

بازی خورِ فریب ہے اہلِ نظر کا ذوق

ہنگامہ گرم حیرتِ بود و نمود تھا

[7]عالم طلسمِ شہرِ خموشاں ہے سر بہ سر

یا میں غریبِ کشورِ گفت و شنود تھا

آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست

ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ

جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا

[8]لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز

لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی

میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کُن اسدؔ

سر گشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا

۴

[9]کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا

دل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے مدعا پایا

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

بے دماغِ خجلت ہوں رشکِ امتحاں تا کے

ایک بے کسی تجھ کو عالم آشنا پایا

سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری

حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا

خاک بازیِ امید، کارخانۂ طفلی

یاس کو دو عالم سے لب بہ خندہ وا پایا

کیوں نہ وحشتِ غالبؔ باج خواہِ تسکیں ہو

کشتۂ تغافل کو خصمِ خوں بہا پایا

۵

[10]عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل

خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا

آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا

فکرِ نالہ میں گویا، حلقہ ہوں زِ سر تا پا

عضو عضو جوں زنجیر، یک دلِ صدا پایا

حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی

ہم نے بار ہا ڈھونڈھا، تم نے بارہا پایا

شب نظارہ پرور تھا خواب میں خرام[11] اس کا

صبح موجۂ گل کو نقشِ [12] بوریا پایا

جس قدر جگر خوں ہو، کوچہ دادنِ گل[13] ہے

زخمِ تیغِ قاتل کو طُرفہ دل کشا پایا

ہے نگیں کی پا داری نامِ صاحبِ خانہ

ہم سے تیرے کوچے نے نقشِ مدّعا پایا

دوست دارِ دشمن ہے! اعتمادِ دل معلوم

آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا

نَے اسدؔ جفا سائل، نَے ستم[14] جنوں مائل

تجھ کو جس قدر ڈھونڈھا الفت آزما پایا

۶

دل میرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا

آتش خاموش کی مانند، گویا جل گیا

دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں

آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا

میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بار ہا

میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا

عرض کیجئے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا، کہ صحرا جل گیا

دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ، داغوں کی بہار

اِس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا

دود میرا سنبلستاں سے کرے ہے ہمسری

بس کہ ذوقِ آتشِ گل سے سراپا جل گیا

شمع رویوں کی سر انگشتِ حنائی دیکھ کر

غنچۂ گل پر فشاں، پروانہ آسا، جل گیا

خانمانِ عاشقاں دکانِ آتش باز ہے

شعلہ رو جب ہو گئے گرمِ تماشا، جل گیا[15]

تا کجا افسوسِ گرمی ہائے صحبت، اے خیال

دل بہ سوزِ آتشِ داغِ تمنّا جل گیا[16]

میں ہوں اور افسردگی کی آرزو، غالبؔ! کہ دل

دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہلِ دنیا جل گیا

۷

شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

کارخانے سے جنوں کے بھی، میں عریاں نکلا

میری قسمت کا نہ ایک آدھ گریباں نکلا

ساغرِ جلوۂ سرشار ہے، ہر ذرۂ خاک

شوقِ دیدار بلا آئینہ ساماں نکلا

زخم نے داد نہ دی تنگیِ دل کی یا رب

تیر بھی سینۂ بسمل سے پَر افشاں نکلا

بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل

جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد

کام یاروں کا بہ قدرٕ لب و دنداں نکلا

[17]اے نو آموزِ فنا، ہمتِ دشوار پسند!

سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا

[18]شورِ رسوائیِ دل دیکھ کہ یک نالہ شوق

لاکھ پردے میں چھپا، پر وہی عریاں نکلا

کچھ کھٹکتا تھا مرے سینے میں، لیکن آخر

جس کو دل کہتے تھے سو تیر کا پیکاں نکلا

کس قدر خاک ہوا ہے دلِ مجنوں، یا رب

نقشِ ہر ذرہ، سویدائے بیاباں نکلا

شوخیِ رنگِ حنا خونِ وفا سے کب تک

آخر اے عہد شکن! تو بھی پشیماں نکلا[19]

[20]میں بھی معذورِ جنوں ہوں، اسدؔ، اے خانہ خراب

پیشوا لینے مجھے گھر سے بیاباں نکلا

دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالبؔ

آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سُو طوفاں نکلا

۸

[21]دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا

‘‘عشقِ نبرد پیشہ‘‘ طلب گارِ مرد تھا

تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا

اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا

تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں

مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا

دل تا جگر، کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب

اس رہ گزر میں جلوۂ گل، آگے گرد تھا

جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی!

دل بھی اگر گیا، تو وُہی دل کا درد تھا

احباب چارہ سازیِ وحشت نہ کر سکے

زنداں میں بھی خیال، بیاباں نورد تھا

یہ لاشِ بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

۹

شمار سبحہ،‘‘ مرغوبِ بتِ مشکل‘‘ پسند آیا

تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا

بہ فیضِ بے دلی، نومیدیِ جاوید آساں ہے

کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا

ہوائے[22] سیرِ گل، آئینۂ بے مہریِ قاتل

کہ اندازِ بہ خوں غلطیدنِ [23] بسمل پسند آیا

ہوئی جس کو بہارِ فرصتِ ہستی سے آگاہی

 بہ رنگِ لالہ، جامِ بادہ بر محمل پسند آیا

سوادِ چشمِ بسمل انتخابِ نقطہ آرائی

خرامِ نازِ بے پروائیِ قاتل پسند آیا

[24]روانی ہائے موجِ خونِ بسمل سے ٹپکتا ہے

کہ لطفِ بے تحاشا رفتنِ قاتل پسند آیا

اسدؔ ہر جا سخن نے طرحِ باغِ تازہ ڈالی ہے

مجھے رنگِ بہار ایجادیِ بیدلؔ پسند آیا

۱۰

دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا

ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا

نہ ہوئی ہم سے رقم حیرتِ خطِّ رخِ یار

صفحۂ آئینہ جولاں گہِ طوطی نہ ہوا[25]

سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا

یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا

میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں

وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی

گر نفَس جادۂ سر منزلِ تقوی نہ ہوا

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پر بھی راضی کہ کبھی

گوش منت کشِ گل بانگِ تسلّی نہ ہوا

کس سے محرومیِ قسمت کی شکایت کیجیے

ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا

وسعتِ رحمتِ حق دیکھ کہ بخشا جائے[26]

مجھ سا کافر کہ جو ممنونِ معاصی نہ ہوا

[27]مر گیا صدمۂ یک جنبشِ لب سے غالبؔ

ناتوانی سے حریف دمِ عیسی نہ ہوا

۱۱

ستایش گر ہے زاہد، اس قدر جس باغِ رضواں کا

وہ اک گل دستہ ہے ہم بے خودوں کے طاقِ نسیاں کا

بیاں کیا کیجئے بیدادِ کاوش ہائے مژگاں کا

کہ ہر یک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا

نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع، میرے نالوں کو

لیا دانتوں میں جو تنکا، ہوا ریشہ نَیَستاں کا

دکھاؤں گا تماشہ، دی اگر فرصت زمانے نے

مِرا ہر داغِ دل، اِک تخم ہے سروِ چراغاں کا

کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے

کرے جو پرتوِ خُورشید عالم شبنمستاں کا

مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی

ہیولٰی برقِ خرمن کا، ہے خونِ گرم دہقاں کا

اُگا ہے گھر میں ہر سُو سبزہ، ویرانی تماشہ کر

مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے، میرے درباں کا

خموشی میں نہاں، خوں گشتہ[28] لاکھوں آرزوئیں ہیں

چراغِ مُردہ ہوں، میں بے زباں، گورِ غریباں کا

ہنوز اک‘‘پرتوِ نقشِ خیالِ یار‘‘ باقی ہے

دلِ افسردہ، گویا، حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا

بغل میں غیر کی، آج آپ سوتے ہیں کہیں، ورنہ

سبب کیا خواب میں آ کر تبسّم ہائے پنہاں کا

نہیں معلوم، کس کس کا لہو پانی ہوا ہو گا

قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

نظر میں ہے ہماری جادۂ راہِ فنا غالبؔ

کہ یہ شیرازہ ہے عالَم کے اجزائے پریشاں کا

۱۲

نہ ہو گا‘‘یک بیاباں ماندگی‘‘ سے ذوق کم میرا

حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

[29]رہِ خوابیدہ، تھی گردن کشِ یک درس آگاہی

زمیں کو سیلیِ استاد ہے، نقشِ قدم میرا

سراغ آوارہ عرضِ دو عالم شورِ محشر ہوں

پر اَفشاں ہے غبار، آں سوئے صحرائے عدم، میرا

نہ ہو وحشتِ کشِ درسِ سرابِ سطرِ آگاہی

غبارِ رہ ہوں، بے مدعا ہے پیچ و خم میرا

ہوائے صبح، یک عالم گریباں چاکیِ گل ہے

دہانِ زخم پیدا کر، اگر کھاتا ہے غم میرا

اسدؔ، وحشت پرستِ گوشہ تنہائیِ دل ہوں

بہ رنگِ موجِ مے، خمیازہ ساغر ہے، رم میرا

۱۳

ز بس خوں گشتۂ رشکِ وفا تھا وہم بسمل کا

چرایا زخم ہائے دل نے پانی تیغِ قاتل کا

نگاہِ چشمِ حاسد وام لے، اے ذوقِ خود بینی

تماشائی ہوں، وحدت خانۂ آئینۂ دل کا

شرر فرصت نگہ، سامانِ یک عالم چراغاں ہے

بہ قدرِ رنگ یاں گردش میں ہے پیمانہ محفل کا

سراسر تاختن کو، شش جہت یک عرصہ جولاں تھا

ہوا واماندگی سے رہرواں کی، فرق منزل کا

[30]سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی

عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا

بہ قدرِ ظرف ہے ساقی! خمارِ تشنہ کامی بھی

جو تو دریائے مے ہے، تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا

مجھے راہِ سخن میں خوفِ گمراہی نہیں غالبؔ

عصائے خضرِ صحرائے سخن ہے، خامہ بیدلؔ کا

۱۴

محرم نہیں ہے تو ہی، نوا ہائے راز کا

یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا

رنگِ شکستہ، صبحِ بہارِ نظارہ ہے

یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا

تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز

میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا

صرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا، وگرنہ میں

طُعمہ[31] ہوں ایک ہی نفَسِ جاں گداز کا

ہیں بس کہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے

ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا

کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز

ناخن پہ قرض اس گرہِ نیم باز کا

تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسدؔ!

سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا

۱۵

بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا

رکھیو یا رب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا

شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا

اِس تکلّف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا

گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب

آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا

گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گو نہ پاؤں اس کا بھید

پر یہ کیا کم ہے؟ کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا

ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال

خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا

منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں

زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا

در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا

جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا

کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلاؤں کا نزول

آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا

کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال

نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا

اس کی امّت میں ہوں مَیں، میرے رہیں کیوں کام بند

واسطے جس شہ کے غالبؔ! گنبدِ بے در کھلا

۱۶

شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا

شعلۂ جوّالہ ہر اِک[32] حلقۂ گرداب تھا

شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیری، دل بے تاب تھا

شوخیِ وحشت سے افسانہ فسونِ خواب تھا

واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام

گریے سے یاں، پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا

لے زمیں سے آسماں تک فرش تھیں بے تابیاں

شوخیِ بارش سے مہ فوّارۂ سیماب تھا

[33]واں ہجومِ نغمہ ہائے سازِ عشرت تھا اسدؔ

ناخنِ غم، یاں سرِ تارِ نفس مضراب تھا

واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال

یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا

جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو

یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا

یاں سرِ پر شور بے خوابی سے تھا دیوار جو

واں وہ فرقِ ناز، محوِ بالشِ کمخواب[34] تھا

یاں نفَس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بے خودی

جلوۂ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا

فرش سے تا عرش، واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا

یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا

ناگہاں اس رنگ سے خوں نابہ ٹپکانے لگا

دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا

۱۷

نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا

تھا سپندِ بزمِ وصلِ غیر، گو بے تاب تھا

دیکھتے تھے ہم بہ چشمِ خود وہ طوفانِ بلا

آسمانِ سفلہ، جس میں یک کفِ سیلاب تھا

موج سے پیدا ہوئے پیراہنِ دریا میں خار

گریہ وحشت بے قرارِ جلوۂ مہتاب تھا

جوشِ تکلیفِ تماشا محشرستانِ نگاہ[35]

فتنۂ خوابیدہ کو آئینہ مشتِ آب تھا

[36]بے خبر مت کہہ ہمیں بے درد، خود بینی سے پوچھ

قلزمِ ذوقِ نظر میں آئینہ پایاب تھا

بے دلی ہائے اسدؔ افسردگی آہنگ تر

یادِ ایّامے کہ ذوقِ صحبتِ احباب تھا

مَقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے!

خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا

نازشِ ایّامِ خاکستر نشینی، کیا کہوں

پہلوئے اندیشہ، وقفِ بسترِ سنجاب تھا

کچھ نہ کی اپنے جُنونِ نارسا نے، ورنہ یاں

ذرہ ذرہ رو کشِ خورشیدِ عالم تاب تھا

ق

آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے؟

کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا

یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا

انتظارِ صید میں اِک دیدۂ بے خواب تھا

میں نے روکا رات غالبؔ کو، وگرنہ دیکھتے

اُس کے[37] سیلِ گریہ میں، گردُوں کفِ سیلاب تھا

۱۸

کس کا جنونِ دید تمنّا شکار تھا؟

آئینہ خانہ وادیِ جوہر غبار تھا

کس کا خیال آئینۂ انتظار تھا

ہر برگِ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا

[38]جوں غنچہ و گل، آفتِ فالِ نظر نہ پوچھ

پیکاں سے تیرے، جلوۂ زخم، آشکار تھا

ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب

خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا

اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو

توڑا جو تو نے آئینہ، تمثال دار تھا

[39]دیکھی وفائے فرصتِ رنج و نشاطِ دہر

خمیازہ، یک درازیِ عمرِ خمار تھا

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں

جاں دادۂ ہوائے سرِ رہ گزار تھا

موجِ سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال

ہر ذرہ، مثلِ جوہرِ تیغ، آب دار تھا

کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو، پر اب

دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا

[40]صبحِ قیامت ایک دُمِ گرگ تھی، اسدؔ

جس دشت میں وہ شوخِ دو عالم شکار تھا

۱۹

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی

در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

وائے دیوانگیِ شوق کہ ہر دم مجھ کو

آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں[41] ہونا

جلوہ از بس کہ تقاضائے نگہ کرتا ہے

جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

عشرتِ قتل گہِ اہل تمنا، مت پوچھ

عیدِ نظّارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

لے گئے خاک میں ہم داغِ تمنائے نشاط

تو ہو اور آپ بہ صد رنگِ گلستاں ہونا

عشرتِ پارۂ دل، زخمِ تمنا کھانا

لذت ریشِ جگر، غرقِ نمک داں ہونا

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت[42] غالبؔ!

جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

۲۰

شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا

تا محیطِ بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا

یک قدم وحشت سے درسِ دفتر امکاں کھلا

جادہ، اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا

مانعِ وحشت خرامی ہائے لیلےٰ کون ہے؟

خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا

پوچھ مت رسوائیِ اندازِ استغنائے حسن

دست مرہونِ حنا، رخسار رہنِ غازہ تھا

نالۂ دل نے دیئے اوراقِ لختِ دل بہ باد

یادگارِ نالہ اک دیوانِ بے شیرازہ تھا

ہوں چراغانِ ہوس، جوں کاغذِ آتش زدہ

داغ گرمِ کوششِ ایجادِ داغِ تازہ تھا

بے نوائی تر صدائے نغمۂ شہرت اسدؔ

بوریا یک نیستاں عالم بلند دروازہ[43] تھا

۲۱

دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں [44] گے کیا

زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک

ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے ‘کیا’؟

حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ

کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟

آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں

عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا

گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی

یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا

خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں

ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا

ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسدؔ

ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں[45]، کھائیں گے کیا؟

۲۲

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا

غم اگر چہ جاں گسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

غمِ عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟ شب غم بری بلا ہے

مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وہ یکتا

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

یہ مسائل تصّوف یہ ترا بیان غالبؔ

تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا

۲۳

ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا

نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

تجاہل پیشگی سے مدعا کیا

کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟

نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں

شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا

نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں

تغافل ہائے تمکیں آزما کیا

فروغِ شعلۂ خس یک نفَس ہے

ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا

نفس موجِ محیطِ بے خودی ہے

تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا

دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے

غمِ آوارگی ہائے صبا کیا

دلِ ہر قطرہ ہے سازِ ’انا البحر‘

ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا

محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ

شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا

سن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سن

شکستِ قیمتِ دل[46] کی صدا کیا

کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ؟

شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا

یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں؟

یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟

بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات

عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!

۲۴

درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا

پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں، کہ ہم

الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا

روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا

کم نہیں نازشِ ہمنامیِ چشمِ خوباں

تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا

سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا

خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا

نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا

کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا[47]

ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب

حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل

کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا

تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے

دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا[48]

۲۵

[49]نہ بھولا اضطرابِ دم شماری، انتظار اپنا

کہ آخر شیشۂ ساعت کے کام آیا غبار اپنا

ز بس آتش نے فصلِ رنگ میں رنگِ دگر پایا

چراغِ گل سے ڈھونڈے ہے چمن میں شمع خار اپنا

اسیرِ بے زباں ہوں، کاشکہ! صیادِ بے پروا

بہ دامِ جوہرِ آئینہ، ہو جاوے شکار اپنا

مگر ہو مانعِ دامن کشی، ذوقِ خود آرائی

ہوا ہے نقش بندِ آئینہ، سنگِ مزار اپنا

دریغ! اے ناتوانی، ورنہ ہم ضبط آشنایاں نے

طلسمِ رنگ میں باندھا تھا عہدِ استوار اپنا

اگر آسودگی ہے مدعائے رنجِ بے تابی

نیازِ گردشِ پیمانۂ مے روزگار اپنا

اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں

کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

۲۶

پئے نذرِ کرم تحفہ ہے ‘شرمِ نا رسائی’ کا

بہ خوں غلطیدۂ صد رنگ، دعویٰ پارسائی کا

[50]نہ ہو’ حسنِ تماشا دوست’ رسوا بے وفائی کا

بہ مہرِ صد نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا

جہاں مٹ جائے سعیِ دید خضر آبادِ آسایش

بہ جیبِ ہر نگہ پنہاں ہے حاصل رہنمائی کا

بہ عجز آبادِ وہمِ مدّعا تسلیمِ شوخی ہے

تغافل یوں[51] نہ کر مغرور تمکیں آزمائی کا

زکاتِ حسن دے، اے جلوۂ بینش، کہ مہر آسا

چراغِ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا

نہ مارا جان کر بے جرم، غافل![52] تیری گردن پر

رہا مانند خونِ بے گنہ، حق آشنائی کا

تمنائے زباں محوِ سپاسِ بے زبانی ہے

مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا

وہی اک بات، ہے جو یاں نفَس، واں نکہتِ گل ہے

چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا

دہانِ ہر‘‘بتِ پیغارہ جُو‘‘، زنجیرِ رسوائی

عدم تک بے وفا چرچا ہے تیری بے وفائی کا

نہ دے نامے کو اتنا طول غالبؔ، مختصر لکھ دے

کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جدائی کا

۲۷

گر نہ اندوہِ شبِ فرقت بیاں ہو جائے گا

بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہو جائے گا

زہرہ، گر ایسا ہی شامِ ہجر میں، ہوتا ہے آب

پرتوِ مہتاب سیلِ خانماں ہو جائے گا

لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر

ایسی باتوں سے وہ کافر بد گماں ہو جائے گا

دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے، کیا معلوم تھا

یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہو جائے گا

سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہوا

مجھ پہ گویا، اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا

گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط

شعلہ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہو جائے گا

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر

ہر گلِ تر ایک‘‘چشمِ خوں فشاں‘‘ ہو جائے گا

وائے گر میرا، ترا انصاف محشر میں نہ ہو

اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا

[53]گر وہ مستِ ناز دیوے گا صلائے عرضِ حال

خارِ گُل، بہرِ دہانِ گُل زباں ہو جائے گا

گر شہادت آرزو ہے، نشے میں گستاخ ہو[54]

بال شیشے کا، رگِ سنگِ فساں ہو جائے گا

فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ

دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہو جائے گا

۲۸

درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا

میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو

اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں

تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

کتنے شیریں ہیں تیرے لب،‘‘کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا‘‘

ہے خبر گرم ان کے آنے کی

آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟

بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یوں[55] ہے کہ حق ادا نہ ہوا

زخم گر دب گیا، لہو نہ تھما

کام گر رک گیا، روا نہ ہوا

رہ زنی ہے کہ دل ستانی ہے؟

لے کے دل،‘‘دلستاں‘‘ روانہ ہوا

کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں

آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا!

۲۹

گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا

گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب!

مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

حنائے پائے خزاں ہے بہار، اگر ہے یہی

دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا

ملی نہ وسعتِ جولانِ یک جنوں ہم کو[56]

عدم کو لے گئے دل میں غبارِ صحرا کا

مرا شمول ہر اک دل کے پیچ و تاب میں ہے

میں مدّعا ہوں تپش نامۂ تمنّا کا

غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو

مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے[57] بے جا کا

ہنوز محرمیِ حسن کو ترستا ہوں

کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا

دل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے، دے بیٹھے

ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا

نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے

مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا

فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسدؔ

جفا میں اُس[58] کی ہے انداز کارفرما کا

۳۰

قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا

خطِّ جامِ مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا

اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا

غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا

گرمیِ دولت ہوئی آتش زنِ نامِ نکو

خانۂ ماتم میں یاقوتِ نگیں اخگر[59] ہوا

نشّے میں گُم کردہ رہ آیا وہ مستِ فتنہ خو

آج رنگِ رفتہ دورِ گردشِ ساغر ہوا

درد سے در پردہ دی مژگاں سیاہاں نے شکست

ریزہ ریزہ استخواں کا پوست میں نشتر ہوا

اے بہ ضبطِ حال خو نا کردگاں[60] جوشِ جنوں

نشٓۂ مے ہے اگر یک پردہ نازک تر ہوا

زُہد گر دیدن ہے گِردِ خانہ ہائے منعماں

دانۂ تسبیح سے میں مہرہ در ششدر ہوا

اس چمن میں ریشہ داری جس نے سر کھینچا اسدؔ

تر زبانِ شکرِ لطفِ ساقیِ کوثر ہوا

۳۱

جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا

تپشِ شوق نے ہر ذرّے پہ اک دل باندھا

[61]ناتوانی ہے تماشائی عمرِ رفتہ

رنگ نے آئینہ آنکھوں کے مقابل باندھا

اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخیِ ناز

جوہرِ آئینہ کو طوطیِ بسمل باندھا

[62]اصطلاحاتِ اسیرانِ تغافل مت پوچھ

جو گرہ آپ نہ کھولی، اسے مشکل باندھا

یاس و امید نے اک عرَبدہ میداں مانگا

عجزِ ہمت نے طِلِسمِ دلِ سائل باندھا

[63]نوکِ ہر خار سے تھا بس کہ سر دزدیِ زخم

جوں نمد، ہم نے کفِ پا پہ، اسدؔ، دل باندھا

نہ بندھے تِشنگیِ ذوق[64] کے مضموں، غالبؔ

گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

۳۲

میں اور بزمِ مے سے یوں، تشنہ کام آؤں

گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟

ہے ایک تیر، جس میں دونوں چھِدے پڑے ہیں

وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا

درماندگی میں غالبؔ کچھ بن پڑے تو جانوں

جب رشتہ بے گرہ تھا، ناخن گرہ کشا تھا

۳۳

گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا

بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

تنگیِ دل کا گلہ کیا؟ یہ وہ کافر دل ہے

کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا

بعد یک عمرِ وَرع، بار تو دیتا بارے

کاش رِضواں ہی درِ یار کا درباں ہوتا

۳۴

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہُوا جب غم سے یوں بے حِس تو غم کیا سر کے کٹنے کا

نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا، پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

۳۵

یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا

یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا

بے مے کِسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی

کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا

بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق، خلل ہے دماغ کا

تازہ نہیں ہے نشۂ فکرِ سخن مجھے

تِریاکیِ قدیم ہوں دُودِ چراغ کا

سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے

پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا

بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار

یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا

باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل

ابرِ بہار خم کدہ کِس کے دماغ کا!

جوشِ بہار کلفتِ نظّارہ ہے اسدؔ

ہے ابر پنبہ روزنِ دیوارِ باغ کا

۳۶

وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا

رازِ مکتوب بہ بے ربطیِ عنواں سمجھا

یک الِف بیش نہیں صیقلِ آئینہ ہنوز

چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا

ہم نے وحشت کدۂ بزمِ جہاں میں جوں شمع

شعلۂ عشق کو اپنا سر و ساماں سمجھا

شرحِ اسبابِ گرفتاریِ خاطر مت پوچھ

اس قدر تنگ ہوا دل، کہ میں زنداں سمجھا

بدگمانی نے نہ چاہا اسے سرگرمِ خرام

رخ پہ ہر قطرۂ عرق دیدۂ حیراں سمجھا

عجزسے اپنے یہ جانا کہ وہ بد خو ہو گا

نبضِ خس سے تپشِ شعلۂ سوزاں سمجھا

سفرِ عشق میں، کی ضعف نے راحت طلبی

ہر قدم سائے کو میں اپنے شبستان سمجھا

تھا گریزاں مژہِ یار سے دل تا دمِ مرگ

دفعِ پیکانِ قضا اِس قدر آساں سمجھا

دل دیا، جان کے کیوں اس کو وفا دار، اسدؔ

غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا

۳۷

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا

دل، جگر تشنۂ فریاد آیا

دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز

پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا

سادگی ہائے تمنا، یعنی

پھر وہ نیرنگِ نظر[65] یاد آیا

عذرِ واماندگی، اے حسرتِ دل!

نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا

زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی

کیوں ترا راہ گزر یاد آیا

کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی

گھر ترا خلد میں گر یاد آیا

آہ! وہ جرأتِ فریاد کہاں

دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا

پھر تیرے کوچے کو جاتا ہے خیال

دلِ گم گشتہ، مگر، یاد آیا

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ

سنگ اٹھایا تھا، کہ سر یاد آیا

۳۸

ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا

آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ

اس میں کچھ شائبۂ خوبیِ تقدیر بھی تھا

تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں؟

کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد

ہاں! کچھ اک رنجِ گران باریِ زنجیر بھی تھا

بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا!

بات کرتے، کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا

یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے، خیر ہوئی

گر بگڑ بیٹھے، تو میں لائقِ تعزیر بھی تھا

دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا

نالہ کرتا تھا، ولے طالبِ تاثیر بھی تھا

پیشے میں عیب نہیں، رکھیے نہ فرہاد کو نام

ہم ہی آشفتہ سروں میں، وہ جواں میر بھی تھا

ہم تھے مرنے کو کھڑے، پاس نہ آیا، نہ سہی

آخر اُس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا، دمِ تحریر بھی تھا؟

ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

۳۹

لبِ خشک در تشنگی، مردگاں کا

زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا

شگفتن کمیں گاہِ [66] تقریب جوئی

تصوّر ہوں بے موجب آزردگاں کا

غریبِ ستم دیدۂ [67] باز کشتن

سخن ہوں سخن بر لب آوردگاں کا

سراپا یک آئینہ دارِ شکستن

ارادہ ہوں یک عالم افسردگاں کا

ہمہ نا امیدی، ہمہ بد گمانی

میں دل ہوں فریبِ وفا خوردگاں کا

بہ صورت تکلّف، بہ معنی تاسّف

اسدؔ میں تبسّم ہوں پژمردگاں کا

۴۰

تو دوست کسی کا بھی، ستم گر! نہ ہوا تھا

اوروں پہ ہے وہ ظلم، کہ مجھ پر نہ ہوا تھا

چھوڑا مہِ نخشب کی طرح دستِ قضا نے

خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا

توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے

آنکھوں میں ہے وہ قطرہ، کہ گوہر نہ ہوا تھا

جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم

میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا

میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں

یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا

دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک

میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

جاری تھی اسدؔ! داغِ جگر سے مِری[68] تحصیل

آتش کدہ جاگیرِ سَمَندر نہ ہوا تھا

۴۱

شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا

رشتۂ ہر شمع، خارِ کِسوتِ فانوس تھا

بت پرستی ہے بہارِ نقش بندی ہائے دہر

ہر صریرِ خامہ میں اک[69] نالۂ ناقوس تھا

مشہدِ عاشق سے کوسوں تک جو اُگتی ہے حنا

کس قدر یا رب! ہلاکِ حسرتِ پا بوس تھا

حاصلِ الفت نہ دیکھا جز شکستِ آرزو

دل بہ دل پیوستہ، گویا، یک لبِ افسوس تھا

کیا کروں[70] بیماریِ غم کی فراغت کا بیاں

جو کہ کھایا خونِ دل، بے منتِ کیموس تھا

طبع کی وا شد نے رنگِ گلستاں یک گل کیا[71]

یہ دل وابستہ، گویا، بیضۂ طاؤس تھا

کل اسدؔ کو ہم نے دیکھا گوشۂ[72] غم خانہ میں

دست بر سر، سر بہ زانوئے دلِ مایوس تھا

۴۲

ضعفِ جنوں کو، وقتِ تپش، در بھی دور تھا

اک، گھر میں، مختصر سا بیاباں ضرور تھا

اے وائے غفلتِ نگہِ شوق! ورنہ یاں

ہر پارۂ سنگ لختِ دلِ کوہِ طور تھا

درسِ تپش ہے برق کو اب جس کے نام سے

وہ دل ہے یہ کہ جس کا تخلص صبور تھا

شاید کہ مر گیا ترے رخسار دیکھ کر

پیمانہ رات، ماہ کا لب ریزِ نور تھا

[73]آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے

صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے

اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا

جنت ہے تیری تیغ کے کشتوں کی منتظر

جوہرِ سواد، جلوۂ مژگانِ حور تھا

ہر رنگ میں جلا اسدؔ فتنہ انتظار

پروانہ تجلی شمعِ ظہور تھا

۴۳

بہ شغلِ انتظارِ مہ وشاں در خلوتِ شب ہا

سرِ تارِ نظر ہے رشتۂ تسبیحِ کوکب ہا

کرے گر فکر تعمیرِ خرابی ہائے دل گردوں

نہ نکلے خشت مثلِ استخواں بیرونِ قالب ہا

عیادت ہائے طعن آلودِ یاراں زہرِ قاتل ہے

رفوئے زخم کرتی ہے بہ نوکِ نیشِ عقرب ہا

کرے ہے حسنِ خوباں پردے میں مشاطگی اپنی

کہ ہے تہ بندۂ خط سبزۂ خط در تہِ لب ہا

[74]فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں

نہیں رفتارِ عمرِ تیز رو پابندِ مطلب ہا

اسد کو بت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے

نہاں ہیں نالۂ ناقوس میں در پردہ‘‘یا رب‘‘ ہا

۴۴

عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا

جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا

جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے

ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا

مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر، کہ میں

شایانِ دست و [75]خنجرِ قاتل نہیں رہا

بر روئے شش جہت درِ آئینہ باز ہے

یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا

وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن

غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار

لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

دل سے ہوائے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں

حاصل سواے حسرتِ حاصل نہیں رہا

[76]جاں دادگاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے

یاں عرصۂ تپیدنِ بِسمل نہیں رہا

ہوں قطرہ زن بہ مرحلۂ یاس روز و شب[77]

جُز تارِ اشک جادۂ منزل نہیں رہا

اے آہ! میری خاطرِ وابستہ کے سوا

دنیا میں کوئی عقدۂ مشکل نہیں رہا

[78]ہر چند ہوں میں طوطیِ شیریں سخن، ولے

آئینہ، آہ،! میرے مقابل نہیں رہا

بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسدؔ[79]

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

۴۵

خود پرستی سے رہے باہم دِگر نا آشنا

بے کسی میری شریک، آئینہ تیرا آشنا

آتشِ موئے دماغِ شوق ہے تیرا تپاک

ورنہ ہم کس کے ہیں اے داغِ تمنّا، آشنا

جوہرِ آئینہ جز رمزِ سرِ مژگاں نہیں

آشنائی[80] ہم دِگر سمجھے ہے ایما آشنا

ربطِ یک شیرازۂ وحشت ہیں اجزائے بہار

سبزہ بیگانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنا

رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!

عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا

[81]بے دماغی شکوہ سنجِ رشکِ ہم دیگر نہیں

یار تیرا جامِ مے، خمیازہ میرا آشنا

ذرّہ ذرّہ ساغرِ مے خانۂ نیرنگ ہے

گردشِ مجنوں بہ چشمک ‌ہاے لیلیٰ آشنا

شوق ہے‘‘ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز‘‘

ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا

میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی،‘‘کہ ہے

عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا‘‘

شکوہ سنجِ رشکِ ہم دیگر نہ رہنا چاہیے

میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا

کوہ کن‘‘نقّاشِ یک تمثالِ شیریں‘‘ تھا اسدؔ

سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا

۴۶

ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا

بن گیا رقیب آخر۔ تھا جو راز داں اپنا

مے وہ کیوں بہت پیتے بزمِ غیر میں یا رب

آج ہی ہوا منظور اُن کو امتحاں اپنا

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے

عرش سے اُدھر[82] ہوتا، کاشکے مکاں اپنا

دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے

بارے آشنا نکلا، ان کا پاسباں، اپنا

دردِ دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلا دوں

انگلیاں فگار اپنی، خامہ خوں چکاں اپنا

گھستے گھستے مٹ جاتا، آپ نے عبث بدلا

ننگِ سجدہ سے میرے، سنگِ آستاں اپنا

تا کرے نہ غمازی، کر لیا ہے دشمن کو

دوست کی شکایت میں ہم نے ہم زباں اپنا

ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے

بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا

۴۷

طاؤس در رکاب ہے ہر ذرّہ آہ کا

یا رب نفس غبار ہے کس جلوہ گاہ کا؟

عزّت گزینِ [83] بزم ہیں واماندگانِ دید

مینائے مے ہے آبلہ پائے نگاہ کا

ہر گام آبلے سے ہے دل در تہِ قدم

کیا بیم اہلِ درد کو سختیِ راہ کا

جَیبِ نیازِ عشق نشاں دارِ ناز ہے

آئینہ ہوں شکستنِ طرفٕ کلاہ کا

[84]غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں

بے شانۂ صبا نہیں، طرہ گیاہ کا

بزمِ قدح سے عیشِ تمنا نہ رکھ، کہ رنگ

صیدِ ز دام جستہ ہے اس دام گاہ کا

رحمت اگر قبول کرے، کیا بعید ہے

شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا

[85]مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں، کہ ہے

پُر گل خیالِ زخم سے دامن نگاہ کا

جاں در‘‘ہوائے یک نگہِ گرم‘‘ ہے اسدؔ

پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا

۴۸

خلوتِ آبلۂ پا میں ہے، جولاں میرا

خوں ہے دل تنگیِ وحشت سے بیاباں میرا

ذوقِ سرشار سے بے پردہ ہے طوفاں میرا

موجِ خمیازہ ہے ہر زخمِ نمایاں میرا

عیشِ بازی کدۂ حسرتِ جاوید رسا

خونِ آدینہ سے رنگیں ہے دبستاں میرا

حسرتِ نشۂ وحشت نہ بہ سعیِ دل ہے

عرضِ خمیازۂ مجنوں ہے گریباں میرا

عالمِ بے سر و سامانیِ فرصت مت پوچھ

لنگرِ وحشتِ مجنوں ہے بیاباں میرا

بے دماغِ تپشِ رشک ہوں اے جلوۂ حسن

تشنۂ خونِ دل و دیدہ ہے پیماں میرا

فہم زنجیریِ بے ربطیِ دل ہے یا رب

کس زباں میں ہے لقب خوابِ پریشاں میرا

بہ ہوس دردِ سرِ اہلِ سلامت تا چند؟

مشکلِ عشق ہوں، مطلب نہیں آساں میرا

[86]سرمۂ مفتِ نظر ہوں مری قیمت[87] یہ ہے

کہ رہے چشمِ خریدار پہ احساں میرا

رخصتِ نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم

تیرے چہرے سے ہو ظاہر[88] غمِ پنہاں میرا

بوئے یوسف مجھے گل زار سے آتی تھی اسدؔ

دَے نے برباد کیا پیر ہنستاں میرا

۴۹

جور سے باز آئے پر، باز آئیں کیا

کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ

جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا

ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ

یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے

آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا

عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ

مر گیے پر دیکھیے دکھلائیں کیا

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

۵۰

بہارِ رنگِ خونِ دل[89] ہے ساماں اشک باری کا

جنونِ برق، نشتر ہے رگِ ابرِ بہاری کا

برائے حلِّ مشکل ہوں ز پا افتادۂ حسرت

بندھا ہے عقدۂ خاطر سے پیماں خاکساری کا

بوقتِ سرنگونی ہے تصوّر انتظارستاں کا

نگہ کو سالوں[90] سے شغل ہے اختر شماری کا

[91]لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

چمن زنگار ہے آئینۂ بادِ بہاری کا

حریفِ جوششِ دریا نہیں خود داریِ ساحل

جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا

اسدؔ ساغر کشِ تسلیم ہو گردش سے گردوں کی

کہ ننگِ فہمِ مستاں ہے گلہ بد روزگاری کا

۵۱

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

تجھ سے، قسمت میں مری، صورتِ قفلِ ابجد

تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا

دل ہوا کشمکشِ چارۂ زحمت میں تمام

مِٹ گیا گھِسنے میں اُس عُقدے کا وا ہو جانا

اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ

اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا

ضعف سے گریہ مبدّل بہ دمِ سرد ہوا

باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا

دِل سے مِٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال

ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا

ہے مجھے ابرِ بہاری کا برس کر کھُلنا

روتے روتے غمِ فُرقت میں فنا ہو جانا

گر نہیں نکہتِ گل کو ترے کوچے کی ہوس

کیوں ہے گردِ رہِ جَولانِ صبا ہو جانا

تاکہ تجھ پر کھُلے اعجازِ ہوائے صَیقل

دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا

بخشے ہے جلوۂ گُل، ذوقِ تماشا غالبؔ

چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا

۵۲

رات، دل گرمِ خیالِ جلوۂ جانانہ تھا

رنگِ روئے شمع، برقِ خرمنِ پروانہ تھا

شب کہ تھی کیفیتِ محفل بہ یادِ روئے یار

ہر نظر میں، داغِ مئے خالِ لبِ پیمانہ تھا

شب کہ باندھا خواب میں آنے کا قاتل نے، جناح

وہ فسونِ وعدہ میرے واسطے افسانہ تھا

[92]دود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی

وہ دلِ سوزاں کہ کل تک شمعِ ماتم خانہ تھا

ساتھ جنبش کے بہ یک برخاستن طے ہو گیا

تو کہے، صحرا غبارِ دامنِ دیوانہ تھا

دیکھ اُس کے ساعدِ سیمین و دستِ پر نگار

شاخِ گل جلتی تھی مثلِ شمع، گل پروانہ تھا

شکوۂ یاراں غبارِ دل میں پنہاں کر دیا

غالبؔ ایسے گنج کو عیاں یہی ویرانہ تھا[93]

اے اسدؔ! رویا جو دشتِ غم میں میں حیرت زدہ

آئینہ خانہ ز سیلِ اشک، ہر ویرانہ تھا

۵۳

سیر آں سوئے تماشا ہے طلب گاروں کا

خضر مشتاق ہے اس دشت کے آواروں کا

سر خطِ بند ہوا، نامہ گنہ گاروں کا

خونِ ہدہد سے لکھا نقش گرفتاروں کا

فردِ آئینہ میں بخشیں شکنِ خندۂ گل

دلِ آزردہ پسند، آئینہ رخساروں کا

داد خواہِ تپش و مہرِ خموشی بر لب

کاغذِ سرمہ ہے، جامہ ترے بیماروں کا

وحشتِ نالہ بہ واماندگیِ وحشت ہے

جرسِ قافلہ، یاں دل ہے گراں باروں کا

پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے

رنگ اڑتا ہے گُلِ ستاں کے ہوا داروں کا

جلوہ مایوس نہیں دل، نگرانی غافل

چشمِ امید ہے، روزن تری دیواروں کا

 اسدؔ، اے ہرزہ درا! نالہ بہ غوغا تا چند

حوصلہ تنگ نہ کر، بے سبب آزاروں کا

۵۴

نہ ہو حسنِ تماشا دوست، رسوا بے وفائی کا

بہ مہرِ صد نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا

ہوس گستاخیِ آئینہ، تکلیفِ نظر بازی

بہ جیبِ آرزو پنہاں ہے، حاصل دل ربائی کا

نظر بازی طلسمِ وحشت آبادِ پرستاں ہے

رہا بیگانۂ تاثیر افسوں آشنائی کا

نہ پایا درد مندِ دوریِ یارانِ یک دل نے

سوادِ خطِ پیشانی سے نسخہ مومیائی کا

تمنائے زباں، محوِ سپاسِ بے زبانی ہے

مٹا، جس سے، تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا

اسدؔ! یہ عجز و بے سامانیِ فرعون توَام ہے

جسے تو بندگی کہتا ہے دعویٰ ہے خدائی کا

۵۵

بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج

ہر سلحشور انگلستاں کا

گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے

زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا

چوک جس کو کہیں، وہ مقتل ہے

گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا

شہرِ دہلی کا ذرّہ ذرّہ خاک

تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا

کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک

آدمی واں نہ جا سکے یاں کا

میں نے مانا کہ مل گئے، پھر کیا

وہی رونا تن و دل و جاں کا

گاہ جل کر کیا کیئے شکوہ

سوزشِ داغ ہائے پنہاں کا

گاہ رو کر کہا کیئے باہم

ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا

اس طرح کے وصال سے یا رب

کیا مٹے داغ دل سے ہجراں کا

۵۶

بہ رہنِ شرم ہے با وصفِ شوخی اہتمام اس کا

نگیں میں جوں شرارِ سنگ نا پیدا ہے نام اس کا

[94]سرو کارِ تواضع تا خمِ گیسو رسانیدن

بسانِ شانہ زینت ریز ہے دستِ سلام اُس کا

مِسی آلودہ ہے مُہر نوازش نامہ ظاہر ہے

کہ داغِ آرزوئے بوسہ دیتا[95] ہے پیام اس کا

بہ امیّدِ نگاہِ خاص ہوں محمل کشِ حسرت

مبادا ہو عناں گیرِ تغافل لطفِ عام اس کا

[96]لڑاوے گر وہ بزمِ مے کشی میں قہر و شفقت کو

بھرے پیمانۂ صد زندگانی ایک جام اُس کا

[97]اسد سودائے سر سبزی سے ہے تسلیم رنگیں تر

کہ کشتِ خشک اُس کا ابرِ بے پروا خرام اُس کا

۵۷

وردِ اسمِ حق سے، دیدارِ صنم حاصل ہوا

رشتۂ تسبیح، تارِ جادۂ منزل ہوا

محتسب سے تنگ ہے، از بس کہ کارِ مے کشاں

رز میں جو انگور نکلا، عقدۂ مشکل ہوا

قیس نے از بس کہ کی سیرِ گریبانِ نفس

یک دو چیں دامانِ صحرا، پردۂ محمل ہوا

وقتِ شب اُس شمع رو کے شعلۂ آواز پر

گوشِ نسریں عارضاں، پروانۂ محفل ہوا

خاکِ عاشق بس کہ ہے، فرسودہ پروازِ شوق

جادہ ہر دشت، تارِ دامنِ قاتل ہوا

عیب کا دریافت کرنا، ہے ہنر مندی اسدؔ

نقص پر اپنے ہوا جو مطلعِ ، کامل ہوا

ردیف ب

۵۸

پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب

دے بطِ مے کو دل و دستِ شنا موجِ شراب

پوچھ مت وجہ سیہ مستیِ اربابِ چمن

سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہَوا موجِ شراب

جو ہوا غرقۂ مے، بختِ رسا رکھتا ہے

سر پہ گزرے پہ بھی ہے بالِ ہما موجِ شراب

ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے، اگر

موجِ ہستی کو کرے فیضِ ہوا موجِ شراب

چار موج[98] اٹھتی ہے طوفانِ طرب سے ہر سو

موجِ گل، موجِ شفق، موجِ صبا، موجِ شراب

جس قدر روح نباتی ہے جگر تشنۂ ناز

دے ہے تسکیں بَدَمِ آبِ بقا موجِ شراب

بس کہ دوڑے ہے رگِ تاک میں خوں ہو ہو کر

شہپرِ رنگ سے ہے بال کشا موجِ شراب

موجۂ گل سے چراغاں ہے گزر گاہِ خیال

ہے تصوّر میں ز بس جلوہ نما موجِ شراب

نشّے کے پردے میں ہے محوِ تماشائے دماغ

بس کہ رکھتی ہے سرِ نشو و نما موجِ شراب

ایک عالم پہ ہیں طوفانیِ کیفیّتِ فصل

موجۂ سبزۂ نوخیز سے تا موجِ شراب

شرحِ ہنگامۂ مستی ہے، زہے! موسمِ گل

رہبرِ قطرہ بہ دریا ہے، خوشا موجِ شراب

ہوش اڑتے ہیں مرے، جلوۂ گل دیکھ، اسدؔ

پھر ہوا وقت، کہ ہو بال کُشا موجِ شراب

ردیف ت

۵۹

جاتا ہوں جدھر سب کی اُٹھے ہے اُدھر انگشت

یک دست جہاں مجھ سے پھرا ہے، مگر انگشت

الفتِ مژگاں میں جو انگشت نما ہوں

لگتی ہے مجھے تیر کے مانند، ہر انگشت

ہر غنچۂ گل صورتِ یک قطرۂ خوں ہے

دیکھا ہے کسو کا جو حنا بستہ، سر انگشت

گرمی ہے زباں کی سببِ سوختنِ جاں

ہر شمع شہادت کو ہے یاں سر بسر انگشت

خوں دل میں جو میر ے نہیں باقی تو پھر اس کی

جوں ماہی بے آب تڑپتی ہے ہر انگشت

شوخی تری کہہ دیتی ہے احوال ہمارا

رازِ دلِ صد پارہ کی ہے پردہ در انگشت

بس رتبے میں باریکی و نرمی ہے کہ جوں گل

آتی نہیں پنجے میں بس اس کے نظر انگشت

[99]افسوس کہ دنداں[100] کا کیا رزق فلک نے

جن لوگوں کی تھی درخورِ عقدِ گہر انگشت

کافی ہے نشانی تِری،[101] چھلّے کا نہ دینا

خالی مجھے دکھلا کے بہ وقتِ سفر انگشت

لکھتا ہوں اسدؔ سوزشِ دل سے سخنِ گرم

تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت

۶۰

رہا گر کوئی تا قیامت سلامت

پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت

جگر کو مرے عشقِ خوں نابہ مشرب

لکھے ہے ’خداوندِ نعمت سلامت‘

[102]دو عالم کی ہستی پہ خطِ وفا کھینچ

دل و دستِ اربابِ ہمت سلامت!

علی اللّرغمِ دشمن، شہیدِ وفا ہوں

مبارک مبارک سلامت سلامت

نہیں گر سر و برگِ ادراک معنی

تماشائے نیرنگ صورت سلامت

[103]نہیں گر بہ کامِ دلِ خستہ، گردوں

جگر خائیِ جوشِ حسرت سلامت!

نہ اوروں کی سنتا، نہ کہتا ہوں اپنی

سرِ خستہ و شورِ وحشت سلامت!

وفورِ بلا ہے، ہجومِ وفا ہے

سلامت ملامت، ملامت سلامت!

نہ فکر سلامت، نہ بیم ملامت

ز خود رفتگی ہائے حیرت سلامت!

رہے غالبِ خستہ، مغلوبِ گردوں

یہ کیا بے نیازی ہے، حضرت سلامت؟

۶۱

آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست

دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست

اے دلِ نا عاقبت اندیش! ضبطِ شوق کر

کون لا سکتا ہے تابِ جلوۂ دیدارِ دوست

خانہ ویراں سازیِ حیرت! تماشا کیجیئے

صورتِ نقشِ قدم ہوں رَفتۂ[104] رفتارِ دوست

عشق میں بیدادِ رشکِ غیر نے مارا مجھے

کُشتۂ دشمن ہوں آخر، گرچہ تھا بیمارِ دوست

چشمِ ما روشن، کہ اس بے درد کا دل شاد ہے

دیدۂ پر خوں ہمارا ساغرِ سرشارِ دوست

ق

غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں

بے تکلّف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست

تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک

مجھ کو دیتا ہے پیامِ وعدۂ دیدارِ دوست

جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعفِ دماغ

سَر کرے ہے وہ حدیثِ زلفِ عنبر بارِ دوست

چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر

ہنس کے کرتا ہے بیانِ شوخیِ گفتارِ دوست

مہربانی ہائے دشمن کی شکایت کیجیئے

یا بیاں کیجے سپاسِ لذّتِ آزارِ دوست

[105]چشم بندِ خلق غیر از نقشِ خود بینی نہیں

آئینہ ہے قالبِ خشتِ در و دیوارِ دوست

برقِ خرمن زارِ گوہر ہے نگاہِ تیزیاں

اشک ہو جاتے ہیں خشک از گرمیِ رفتارِ دوست

ہے سوا نیزے پہ اس کے قامتِ نوخیز سے

آفتابِ روزِ محشر ہے گلِ دستارِ دوست

لغزشِ مستانہ و جوش تماشا ہے اسد

آتشِ مے سے بہارِ گرمیِ بازار دوست

یہ غزل اپنی، مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ

ہے ردیفِ شعر میں غالبؔ! ز بس تکرارِ دوست

۶۲

مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ

یار لائے مری بالیں پہ اسے، پر کس وقت

ردیف ج

۶۳

گلشن میں بند و بست، بہ رنگِ دگر ہے، آج

قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج

معزولیِ تپش ہوئی افراطِ انتظار

چشمِ کشادہ[106] حلقۂ بیرونِ در ہے آج

حیرت فروشِ صد نگَرانی ہے اضطرار

ہر رشتہ تارِ جَیب کا تارِ نظر ہے آج[107]

اے عافیت! کنارہ کر، اے انتظام! چل

[108]سیلابِ گریہ درپےِ دیوار و در ہے آج

آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ

تارِ نفس کمندِ شکارِ اثر ہے آج

ہوں داغِ نیم رنگیِ شامِ وصالِ یار

نورِ چراغِ بزم سے جوشِ سحر ہے آج

کرتی ہے عاجزی سفرِ سوختن تمام

پیراہنِ خَسَک میں غبارِ شرر ہے آج

تا صبح ہے بہ منزلِ مقصد رسیدنی

دودِ چراغِ خانہ غبارِ سفر ہے آج

دور اوفتادۂ چمنِ فکر ہے اسدؔ

مرغِ خیالِ بلبلِ بے بال و پر ہے آج

۶۴

لو ہم مریضِ عشق کے بیمار دار ہیں[109]

اچھاّ اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج!!

ردیف چ

۶۵

نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ

اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ

‘‘کمالِ گرمیِ سعیِ [110] تلاشِ دید‘‘ نہ پوچھ

بہ رنگِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ

تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل!

کیا ہے کس نے اشارہ کہ نازِ بستر کھینچ

تری طرف ہے بہ حسرت نظارۂ نرگس

بہ کوریِ دل و چشمِ رقیب ساغر کھینچ

بہ نیم غمزہ ادا کر حقِ ودیعتِ ناز

نیامِ پردۂ زخمِ جگر سے خنجر کھینچ

مرے قدح میں ہے صہبائے آتشِ پنہاں

بروئے سُفرہ[111] کبابِ دلِ سمندر کھینچ

نہ کہہ کہ طاقتِ رسوائیِ وصال نہیں

اگر یہی عَرَقِ فتنہ ہے، مکرّر کھینچ

جنونِ آئینہ مشتاقِ یک تماشا ہے

ہمارے صفحے پہ بالِ پری سے مسطر کھینچ

خمارِ مِنّتِ ساقی اگر یہی ہے اسدؔ

دل گداختہ کے مے کدے میں ساغر کھینچ

ردیف د

۶۶

حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد

بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد

منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا

ہوئی معزولیِ انداز و ادا میرے بعد

شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے

شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

خوں ہے دل خاک میں احوالِ بتاں پر، یعنی

ان کے ناخن ہوئے محتاجِ حنا میرے بعد

درخورِ عرض نہیں جوہرِ بیداد کو جا

نگہِ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد

ہے جنوں اہلِ جنوں کے لئے آغوشِ وداع

چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد

کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق

ہے مکّرر لبِ ساقی میں[112] صلا میرے بعد

غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی

کہ کرے تعزیتِ مہر و وفا میرے بعد

[113]تھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی نقاب

بے خطر جیتے ہیں اربابِ ریا میرے بعد

تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ

متفرّق ہوئے میرے رفَقا میرے بعد

آئے ہے بے کسیِ عشق پہ رونا غالبؔ

کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد

ردیف ر

۶۷

بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر، در و دیوار

نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار

وفورِ اشک نے کاشانے[114] کا کیا یہ رنگ

کہ ہو گئے مرے دیوار و در، در و دیوار

نہیں ہے سایہ، کہ سن کر نوید مَقدمِ یار

گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار

ہوئی ہے کس قدر ارزانیِ مئے جلوہ

کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار

جو ہے تجھے سرِ سودائے انتظار، تو آ

کہ ہیں دکانِ متاعِ نظر در و دیوار

ہجومِ گریہ کا سامان کب کیا میں نے

کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار

وہ آ رہا مرے ہم سایہ میں، تو سائے سے

ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار

نظر میں کھٹکے ہے بِ ن تیرے گھر کی آبادی

ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار

نہ پوچھ بے خودیِ عیشِ مَقدمِ سیلاب

کہ ناچتے ہیں پڑے سر بہ سر در و دیوار

نہ کہہ کسی سے کہ غالبؔ، نہیں زمانے میں

حریف رازِ محبت مگر در و دیوار

۶۸

گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر

جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر؟

کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقتِ سخن

’جانوں کسی کے دل کی میں کیوں کر کہے بغیر‘

کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں

لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر

[115]جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم

سر جائے یا رہے، نہ رہیں پر کہے بغیر

چھوڑوں گا میں نہ اس بتِ کافر کا[116] پوجنا

چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافَر کہے بغیر

مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام

چلتا نہیں ہے دُشنہ و خنجر کہے بغیر

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

بہرا ہوں میں۔ تو چاہیئے، دونا ہوں التفات

سنتا نہیں ہوں بات مکرّر کہے بغیر

غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض

ظاہر ہے تیرا حال سب اُن پر کہے بغیر

۶۹

کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر

جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر

آتش پرست کہتے ہیں اہلَ جہاں مجھے

سر گرمِ نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر

کیا آبروئے عشق، جہاں عام ہو جفا

رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر

آتا ہے میرے قتل کو پَر جوشِ رشک سے

مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر

ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق

لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر

وا حسرتا! کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ

ہم کو حریصِ لذّتِ آزار دیکھ کر

بِ ک جاتے ہیں ہم آپ، متاعِ سخن کے ساتھ

لیکن عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر

زُنّار باندھ، سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال

رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر

ان آبلوں سے پاؤں کے، گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر

کیا بد گماں ہے مجھ سے، کہ آئینے میں مرے

طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر

گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلّی، نہ طور پر

دیتے ہیں بادہ ‘ظرفِ قدح خوار’ دیکھ کر

سر پھوڑنا وہ! ‘غالبؔ شوریدہ حال’ کا

یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر

۷۰

لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر

میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خارِ بیاباں پر

نہ چھوڑی حضرتِ یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی

سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر

[117]دل خونیں، جگر بے صبر و فیضِ عشق مستغنی!

الٰہی یک قیامتِ خاور آ ٹوٹے بدخشاں پر

فنا‘‘تعلیمِ درسِ بے خودی‘‘ ہوں اُس زمانے سے

کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستاں پر

فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویشِ مرہم سے

بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمک داں پر

نہیں اقلیم الفت میں کوئی طومارِ ناز ایسا

کہ پشتِ چشم سے جس کی نہ ہووے مُہر عنواں پر

مجھے اب دیکھ کر ابرِ شفق آلودہ، یاد آیا

کہ فرقت میں تری، آتش برستی تھی گلِ ستاں پر

دلِ خونیں جگر بے صبر و فیضِ عشق مستغنی

الٰہی! یک قیامتِ خاور آ ٹوٹے بدخشاں ہر

بہ جُز پروازِ شوقِ ناز کیا باقی رہا ہو گا

قیامت اِک ہوائے تند ہے خاکِ شہیداں پر

نہ لڑ ناصح سے، غالبؔ، کیا ہوا گر اس نے شدّت کی

ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر

۷۱

ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور

کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور

یا رب! وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات

دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور

ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند

ہے تیر مقرّر مگر اس کی ہے کماں اور

تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، جب اٹھیں گے

لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

ہر چند سُبُک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں، تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

ہے خونِ جگر جوش میں، دل کھول کے روتا

ہوتے جو کئی دیدۂ خونبانہ فشاں اور

مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے

جلاّد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ’ہاں اور‘

لوگوں کو ہے خورشیدِ جہاں تاب کا دھوکا

ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور

لیتا۔ نہ اگر دل تمھیں دیتا، کوئی دم چین

کرتا۔ جو نہ مرتا، کوئی دن آہ و فغاں اور

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رُکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھّے

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور

۷۲  

صفائے حیرت آئینہ ہے سامانِ زنگ آخر[118]

تغیر‘‘آبِ برجا ماندہ‘‘ کا پاتا ہے رنگ آخر

نہ کی سامانِ عیش و جاہ نے تدبیر وحشت کی

ہوا جامِ زمرّد بھی مجھے داغ پِلنگ آخر

خطِ نوخیز نیلِ چشم زخمِ صافیِ عارض

لیا آئینے نے حرزِ پرِ طوطی بچنگ آخر

ہلال آسا تہی رہ، گر کشادن ہائے دل چاہے

ہوا مہ کثرتِ سرمایہ اندوزی سے تنگ آخر

تڑپ کر مرگیا وہ صیدِ بال افشاں کہ مضطر تھا

ہوا ناسورِ چشمِ تعزیت، چشمِ خدنگ، آخر

لکھی یاروں کی بدمستی نے مے خانے کی پامالی

ہوئی قطرہ فشانی ہائے مے بارانِ سنگ آخر

اسدؔ پیری میں بھی آہنگِ شوقِ یار قائم ہے

نہیں ہے نغمے سے خالی، خمیدن ہائے چنگ آخر

۷۳

فسونِ یک دلی ہے لذّتِ بیداد دشمن پر[119]

کہ وجدِ برق جوں پروانہ بال افشاں ہے خرمن پر

تکلّف خار خارِ التماسِ بے قراری ہے

کہ رشتہ باندھتا ہے پیرہن انگشتِ سوزن پر

یہ کیا وحشت ہے! اے دیوانے، پس از مرگ واویلا

رکھی بے جا بنائے خانۂ زنجیر شیون پر

جنوں کی دست گیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی

گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر

بہ رنگِ کاغذِ آتش زدہ نیرنگِ بے تابی

ہزار آئینہ دل باندھے ہے بالِ یک تپیدن پر

فلک سے ہم کو عیشِ رَفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے

متاعِ بُردہ کو سمجھے ہوئے ہیں قرض رہزن پر

ہم اور وہ بے سبب‘‘رنج آشنا دشمن‘‘ کہ رکھتا ہے

شعاعِ مہر سے تُہمت نگہ کی چشمِ روزن پر

فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا

فروغِ طالعِ خاشاک ہے موقوف گلخن پر

اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا، قاتل سے کہتا ہے

’تو مشقِ ناز کر، خونِ دو عالم میری گردن پر‘

۷۴

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور

تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

مٹ جائے گا سَر، گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا

ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘

مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘

کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے

پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور

تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے

کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور

مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی

بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور

گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و نا خوش

کرنا تھا جواں مرگ، گزارا کوئی دن اور

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالبؔ‘

قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور[120]

ردیف ز

۷۵

حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز

دعا قبول ہو یا رب کہ عمرِ خضر دراز

نہ ہو بہ ہرزہ، بیاباں نوردِ وہمِ وجود

ہنوز تیرے تصوّر میں ہے نشیب و فراز

وصالِ جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں!

کہ دیجئے آئینۂ انتظار کو پرواز

ہر ایک[121] ذرّۂ عاشق ہے آفتاب پرست

گئی نہ خاک ہوئے پر ہوائے جلوۂ ناز

فریبِ صنعتِ ایجاد کا تماشا دیکھ

نگاہ عکس فروش و خیال آئینہ ساز

ہنوز اے اثرِ دید،[122]ننگِ رسوائی

نگاہ فتنہ خرام و درِ دو عالم باز

[123]زِ بس کہ جلوۂ صیاد حیرت آرا ہے

اُڑی ہے صفحۂ خاطر سے صورتِ پرواز

[124]ہجومِ فکر سے دل مثلِ موج لرزاں ہے

کہ شیشہ نازک و صہبا ہے آبگینہ گداز

[125]اسدؔ سے ترکِ وفا کا گماں وہ معنی ہے

کہ کھینچیے پرِ طائر سے صورتِ پرواز

نہ پوچھ وسعتِ مے خانۂ جنوں غالبؔ

جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز

۷۶

بے گانۂ وفا ہے ہوائے چمن ہنوز

وہ سبزہ سنگ پر نہ اُگا، کوہ کُن ہنوز

[126]فارغ مجھے نہ جان کہ مانندِ صبح و مہر

ہے داغِ عشق، زینتِ جیبِ کفن ہنوز

ہے نازِ مفلساں‘‘زرِ از دست رفتہ‘‘ پر

ہوں‘‘گل فروشِ شوخیِ داغِ کہن‘‘ ہنوز

مے خانۂ جگر میں یہاں خاک بھی نہیں

خمیازہ کھینچے ہے بتِ بیدادِ فن ہنوز

یا رب! یہ درد مند ہے کس کی نگاہ کا!

ہے ربطِ مشک و داغِ سوادِ ختن ہنوز

جوں جادہ، سر بہ کوئے تمنّائے بے دلی

زنجیرِ پا ہے رشتۂ حب الوطن ہنوز

میں دور گردِ قربِ بساطِ نگاہ تھا

بیرونِ دل نہ تھی تپشِ انجمن ہنوز

تھا مجھ کو خار خار جنونِ وفا اسدؔ

سوزن میں تھا نہفتہ گلِ پیرہن ہنوز

۷۷

کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز!

کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز!

دل سے نکلا۔ پہ نہ نکلا دل سے

ہے ترے تیر کا پیکان عزیز

تاب لاتے ہی بنے گی غالبؔ

واقعہ سخت ہے اور جان عزیز

۷۸

داغِ اطفال ہے دیوانہ بہ کہسار ہنوز

خلوتِ سنگ میں ہے نالہ طلب گار ہنوز

خانہ ہے سیل سے خُو کردۂ دیدار ہنوز

دور بیں درزدہ ہے رخنۂ دیوار ہنوز

آئی یک عمر سے معذورِ تماشا نرگس

چشمِ شبنم میں نہ ٹوٹا مژہِ خار ہنوز

کیوں ہوا تھا طرفِ آبلۂ پا، یا رب؟

جادہ ہے واشدنِ پیچشِ طومار ہنوز

[127]وسعتِ سعیِ کرم دیکھ کہ سر تا سرِ خاک

گزرے ہے آبلہ پا ابرِ گہر بار ہنوز

یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت

نقشِ پا میں ہے تپِ [128] گرمیِ رفتار ہنوز

ہوں خموشی چمنِ حسرتِ دیدار، اسدؔ

مژہ ہے شانہ کشِ طرۂ گفتار ہنوز

۷۹

[129]نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز

میں ہوں اپنی شکست کی آواز

تو اور آرائشِ خمِ کاکل

میں اور اندیشہ ہائے دور دراز[130]

لافِ تمکیں، فریبِ سادہ دلی

ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز

ہوں گرفتارِ الفتِ صیّاد

ورنہ باقی ہے طاقتِ پرواز

وہ بھی دن ہو، کہ اس ستم گر سے

ناز کھینچوں، بہ جائے حسرتِ ناز

نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خون

جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز

اے ترا غمزہ یک قلم انگیز

اے ترا ظلم سر بہ سر انداز

تو ہوا جلوہ گر، مبارک ہو!

ریزشِ سجدۂ جبینِ نیاز

مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا

میں غریب اور تو غریب نواز

اسدؔ اللہ خاں تمام ہوا

اے دریغا! وہ رندِ شاہد باز

ردیف س

۸۰

کب فقیروں کو رسائی بُتِ مے خوار کے پاس[131]

تونبے بو دیجیے مے خانے کی دیوار کے پاس

مُژدہ، اے ذَوقِ اسیری! کہ نظر آتا ہے

دامِ خالی، قفَسِ مُرغِ گِرفتار کے پاس

جگرِ تشنۂ آزار، تسلی نہ ہوا

جُوئے خُوں ہم نے بہائی بُنِ ہر خار کے پاس

مُند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہَے ہَے!

خُوب وقت آئے تم اِس عاشقِ بیمار کے پاس

مَیں بھی رُک رُک کے نہ مرتا، جو زباں کے بدلے

دشنہ اِک تیز سا ہوتا مِرے غم خوار کے پاس

دَہَنِ شیر میں جا بیٹھیے، لیکن اے دل

نہ کھڑے ہو جیے خُوبانِ دل آزار کے پاس

دیکھ کر تجھ کو، چمن بس کہ نُمو کرتا ہے

خُود بخود پہنچے ہے گُل گوشۂ دستار کے پاس

مر گیا پھوڑ کے سر غالبؔ وحشی، ہَے ہَے!

بیٹھنا اُس کا وہ، آ کر، تری دِیوار کے پاس

ردیف ش

۸۱

ہوئی ہے بس کہ صرفِ مشقِ تمکینِ بہار آتش

بہ اندازِ حنا ہے رونقِ دستِ چنار آتش

شرر ہے رنگ بعد اظہارِ تابِ جلوہ تمکیں

کرے ہے سنگ پر، خرشید، آبِ روئے کار آتش

گدازِ موم ہے افسونِ ربط پیکر آرائی

نکالے کب، نہالِ شمع، بے تخم شرار آتش

[132]نہ لیوے گر خسِ جَوہر طراوت سبزۂ خط سے

لگا دے[133] خانۂ آئینہ میں رُوئے نگار آتِش

فروغِ حُسن سے ہوتی[134] ہے حلِّ مُشکلِ عاشق

نہ نکلے شمع کے پاسے، نکالے گر نہ خار آتش

خیالِ دود تھا، سر جوشِ سودائے غلط فہمی

اگر رکھتی نہ خاکستر نشینی کا غبار، آتش

ہوائے پر فشانی، برقِ خرمن ہائے خاطر ہے

بہ بالِ شعلۂ بے تاب ہے، پروانہ زار، آتش

نہیں برق و شرر، جز وحشت و ضبطِ تپیدن ہا

بلا گردانِ بے پروا، خرامی ہائے یار آتش

دھوئیں سے آگ کے، اک ابرِ دریا بار ہو پیدا

اسدؔ، حیدر پرستوں سے اگر ہووے دو چار آتش

ردیف ع

۸۲

جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع[135]

چرخ وا کرتا ہے ماہِ نو سے آغوشِ وداع

شمع سے ہے، بزم انگشتِ تحیر در دہن

شعلۂ آوازِ خوباں پر بہ ہنگامِ سماع

جوں پرِ طاؤس، جوہر، تختہ مشقِ رنگ ہے

بس کہ ہے وہ قبلۂ آئینہ محوِ اختراع

رنجشِ حیرت سرشتاں، سینہ صافی پیشکش

جوہرِ آئینہ ہے یاں، گردِ میدانِ نزاع

چار سوئے دہر میں بازارِ غفلت گرم ہے

عقل کے نقصان سے اُٹھتا ہے خیال انتفاع

آشنا، غالبؔ، نہیں ہیں دردِ دل کے آشنا

ورنہ کس کو میرے افسانے کی تابِ استماع؟

۸۳

رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع

ہوئی ہے آتشِ گُل آبِ زندگانیِ شمع

زبانِ اہلِ زباں میں ہے مرگِ خاموشی

یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانیِ شمع

کرے ہے صِرف بہ ایمائے شعلہ قصہ تمام

بہ طرزِ اہلِ فنا ہے فسانہ خوانیِ شمع

غم اُس کو حسرتِ پروانہ کا ہے اے شعلہ[136]

ترے لرزنے سے ظاہر ہے ناتوانیِ شمع

ترے خیال سے رُوح اہتزاز کرتی ہے

بہ جلوہ ریزیِ باد و بہ پر فشانیِ شمع

نشاطِ داغِ غمِ عشق کی بہار نہ پُوچھ

شگفتگی ہے شہیدِ گُلِ خزانیِ شمع

جلے ہے، دیکھ کے بالینِ یار پر مجھ کو

نہ کیوں ہو دل پہ مرے داغِ بد گمانیِ شمع

ردیف ف

۸۴

نامہ بھی لکھتے ہو، تو بہ خطِ غبار، حیف!

رکھتے ہو مجھ سے اتنی کدورت، ہزار حیف!

بیش از نفس، بتاں کے کرم نے وفا نہ کی

تھا محملِ نگاہ بہ دوشِ شرار، حیف!

تھی میرے ہی جلانے کو، اے آہ شعلہ ریز

گھر پر پڑا نہ غیر کے کوئی شرار، حیف!

گل چہرہ ہے کسو خفقانی مزاج کا

گھبرا رہی ہے بیمِ خزاں سے بہار، حیف!

[137]بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش

مجبور یاں تلک ہوئے اے اختیار، حیف!

جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اِک بار جل گئے

اے ناتمامیِ نَفَسِ شعلہ بار حیف!

ہیں میری مشتِ خاک سے اُس کو کدورتیں

پائی جگہ بھی دل میں تو ہو کر غبار، حیف!

بنتا، اسد ؔ، میں سرمۂ چشمِ رکابِ یار

آیا نہ میری خاک پہ وہ شہ سوار، حیف!

ردیف ک

۸۵

زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک[138]

کیا مزا ہوتا، اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک

گردِ راہِ یار ہے سامانِ نازِ زخمِ دل

ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک

مجھ کو ارزانی رہے، تجھ کو مبارک ہو جیو

نالۂ بُلبُل کا درد اور خندۂ گُل کا نمک

شورِ جولاں تھا کنارِ بحر پر کس کا کہ آج

گِردِ ساحل ہے بہ زخمِ موجۂ دریا نمک

داد دیتا ہے مرے زخمِ جگر کی، واہ واہ![139]

یاد کرتا ہے مجھے، دیکھے ہے وہ جس جا نمک

چھوڑ کر جانا تنِ مجروحِ عاشق حیف ہے

دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضا نمک

غیر کی منت نہ کھینچوں گا پَے توفیرِ [140] درد

زخم، مثلِ خندۂ قاتل ہے سر تا پا نمک

اس عمل میں عیش کی لذّت نہیں ملتی اسدؔ

زورِ نسبت مَے سے رکھتا ہے نصارا کا نمک

یاد ہیں غالبؔ! تُجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق میں

زخم سے گرتا، تو میں پلکوں سے چُنتا تھا نمک

۸۶

آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک[141]

کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک

دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ

دیکھیں کیا گُزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک

عاشقی صبر طلب اور تمنّا بے تاب

دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے، لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک

پرتوِ خُور سے، ہے شبنم کو فنا کی تعلیم

میں بھی ہوں، ایک عنایت کی نظر ہونے تک

یک نظر بیش نہیں فُرصتِ ہستی غافل!

گرمیِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک

تا قیامت شبِ فرقت میں گزر جائے گی عمر

سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہونے تک[142]

غمِ ہستی کا، اسدؔ! کس سے ہو جُز مرگ، علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

۸۷

 

دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار ایک

وضع میں گو ہوئی دو سر، تیغ ہے ذوالفقار ایک

ہم سخن اور ہم زباں، حضرتِ قاسم و طپاں

ایک تپش[143] کا جانشین، درد کی یادگار ایک

نقدِ سخن کے واسطے ایک عیارِ آگہی

شعر کے فن کے واسطے، مایۂ اعتبار ایک

ایک وفا و مہر میں تازگیِ بساطِ دہر

لطف و کرم کے باب میں زینتِ روزگار ایک

گُل کدۂ تلاش کو، ایک ہے رنگ، اک ہے بو

ریختہ کے قماش کو، پود ہے ایک، تار ایک

مملکتِ کمال میں ایک امیرِ نامور

عرصۂ قیل و قال میں، خسروِ نام دار ایک

گلشنِ اتّفاق میں ایک بہارِ بے خزاں

مے کدۂ وفاق میں بادۂ بے خمار ایک

زندۂ شوقِ شعر کو ایک چراغِ انجمن

کُشتۂ ذوقِ شعر کو شمعِ سرِ مزار ایک

دونوں کے دل حق آشنا، دونوں رسول پر فِدا

ایک مُحبِّ چار یار، عاشقِ ہشت و چار ایک

جانِ وفا پرست کو ایک شمیمِ نو بہار

فرقِ ستیزہ مست کو، ابرِ تگرگِ بار ایک

لایا ہے کہہ کے یہ غزل، شائبۂ رِیا سے دور

کر کے دل و زبان کو غالبؔ خاک سار ایک

ردیف گ

۸۸

[144]گر تُجھ کو ہے یقینِ اجابت، دُعا نہ مانگ

یعنی، بغیر یک دلِ بے مُدعا نہ مانگ

آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد

مُجھ سے مرے گُنہ کا حساب، اے خدا! نہ مانگ

اے آرزو! شہیدِ وفا! خوں بہا نہ مانگ

جز بہرِ دست و بازوئے قاتل، دعا نہ مانگ

گستاخیِ وصال، ہے مشاطۂ نیاز

یعنی دعا بہ جز خمِ زلفِ دوتا نہ مانگ

برہم ہے، بزمِ غنچہ، بیک جنبشِ نشاط

کاشانہ بس کہ تنگ ہے، غافل ہوا نہ مانگ

عیسیٰ! طلسمِ حسن تغافل ہے، زینہار

جز پشتِ چشم، نسخۂ عرضِ دوا نہ مانگ

میں دور گردِ عرضِ رسومِ نیاز ہوں

دشمن سمجھ، ولے نگہِ آشنا نہ مانگ

نظارہ دیگر و دلِ خونیں نفس دگر

آئینہ دیکھ، جوہرِ برگ حنا نہ مانگ

یک بختِ اوج، نذرِ سبک باری، اسدؔ

سر پر، وبالِ سایۂ بالِ ہما نہ مانگ

ردیف ل

۸۹

ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل

بُلبُل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گُل

آزادیِ نسیم مبارک کہ ہر طرف

ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دامِ ہوائے گُل

جو تھا، سو موجِ رنگ کے دھوکے میں مر گیا

اے وائے، نالۂ لبِ خونیں نوائے گُل!

[145]دیوانگاں کا چارہ فروغِ بہار ہے

ہے شاخِ گل میں، پنجۂ خوباں، بجائے گل

خوش حال اُس حریفِ سیہ مست کا، کہ جو

رکھتا ہو مثلِ سایۂ گُل، سر بہ پائے گُل

ایجاد کرتی ہے اُسے تیرے لیے بہار

میرا رقیب ہے نَفَسِ عطرسائے گُل

[146]مژگاں تلک رسائیِ لختِ جگر کہاں؟

اے وائے! گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل

شرمندہ رکھتے ہیں مجھے بادِ بہار سے

مینائے بے شراب و دلِ بے ہوائے گُل

سطوت سے تیرے جلوۂ حُسنِ غیور کی

خوں ہے مری نگاہ میں رنگِ ادائے گُل

تیرے ہی جلوے کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک

بے اختیار دوڑے ہے گُل در قفائے گُل

غالبؔ! مجھے ہے اُس سے ہم آغوشی آرزو

جس کا خیال ہے گُلِ جیبِ قبائے گُل

ردیف م

۹۰

بس کہ ہیں بد مستِ بشکن بشکنِ مے خانہ ہم

موئے شیشہ کو سمجھتے ہیں خطِ پیمانہ ہم

نقش بندِ خاک ہے موج از فروغِ ماہتاب[147]

سیل سے فرشِ کتاں کرتے ہیں تا ویرانہ ہم

بس کہ ہر یک موئے زلف افشاں سے ہے تارِ شعاع

پنجۂ خُرشید کو سمجھے ہیں دستِ شانہ ہم

ہے فروغِ ماہ سے ہر موج، اک تصویرِ خاک

سیل سے، فرشِ کتاں کرتے ہیں تا ویرانہ ہم

مشقِ از خود رفتگی سے ہیں بہ گل زارِ خیال

آشنا تعبیر خوابِ سبزۂ بیگانہ ہم

فرطِ بے خوابی سے ہیں شب ہائے ہجرِ یار میں

جوں زبانِ شمع، داغِ گرمیِ افسانہ ہم

جانتے ہیں، جوششِ سودائے زلفِ یار میں

سنبلِ بالیدہ کو موئے سرِ دیوانہ ہم

بس کہ وہ چشم و چراغِ محفلِ اغیار ہے

چپکے چپکے جلتے ہیں، جوں شمعِ ماتم خانہ ہم

شامِ غم میں سوزِ عشقِ آتشِ رخسار سے

پر فشانِ سوختن ہیں، صورتِ پروانہ ہم

[148]غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس

برق سے کرتے ہیں روشن، شمعِ ماتم خانہ ہم

محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ بازِ خیال

ہیں ورق گردانیِ نیرنگِ یک بت خانہ ہم

با وجودِ یک جہاں ہنگامہ پیرا ہی نہیں

ہیں‘‘چراغانِ شبستانِ دلِ پروانہ‘‘ ہم

ضعف سے ہے، نے قناعت سے یہ ترکِ جستجو

ہیں‘‘وبالِ تکیہ گاہِ ہِمّتِ مردانہ‘‘ ہم

دائم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنّائیں اسدؔ[149]

جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم

۹۱

اثر کمندیِ فریادِ نارسا معلوم

غبارِ نالہ کمیں گاہِ مدعا معلوم

بہ قدرِ حوصلۂ عشق جلوہ ریزی ہے

وگرنہ خانۂ آئینہ کی فضا معلوم

بہار در گروِ غنچہ، شہر جولاں ہے

طلسمِ ناز بہ جز، تنگیِ قبا معلوم

[150]بہ نالہ حاصلِ دل بستگی فراہم کر

متاعِ خانۂ زنجیر جز صدا، معلوم

طلسمِ خاک، کمیں گاہِ یک جہاں سودا

بہ مرگ، تکیۂ آسائشِ فنا معلوم

تکلف، آئینۂ دوجہاں مدارا ہے

سُراغِ یک نگہِ قہر آشنا معلوم

اسد فریفتۂ انتخابِ طرزِ جفا

وگرنہ دلبریِ وعدۂ وفا معلوم

۹۲

مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور

رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی شرم

وہ حلقۂ ہائے زلف، کمیں میں ہیں اے خدا

رکھ لیجو میرے دعویِ وارستگی کی شرم

ردیف ن

۹۳

خوش وحشتے کہ عرضِ جنونِ فنا کروں

جوں گردِ راہ، جامۂ ہستی قبا کروں

گر بعدِ مرگ وحشتِ دل کا گلہ کروں

موجِ غبار سے پرِ یک دشت وا کروں

آ، اے بہارِ ناز! کہ تیرے خرام سے

دستار گردِ شاخِ گلِ نقشِ پا کروں

خوش اوفتادگی! کہ بہ صحرائے انتظار

جوں جادہ، گردِ رہ سے نگہ سرمہ سا کروں

صبر اور یہ ادا کہ دل آوے اسیرِ چاک

درد اور یہ کمیں کہ رہِ نالہ وا کروں

وہ بے دماغِ منتِ اقبال ہوں کہ میں

وحشت بہ داغِ سایۂ بالِ ہما کروں

وہ التماسِ لذتِ بیداد ہوں کہ میں

تیغِ ستم کو پشتِ خمِ التجا کروں

وہ رازِ نالہ ہوں کہ بہ شرحِ نگاہِ عجز

افشاں غبارِ سرمہ سے فردِ صدا کروں

[151]لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے

غالبؔ یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں

۹۴

وہ فراق اور وہ وصال کہاں

وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

فرصتِ کاروبارِ شوق کسے

ذوقِ نظارۂ جمال کہاں

دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا

شورِ سودائے خطّ و خال[152] کہاں

تھی وہ اک شخص کے تصّور سے

اب وہ رعنائیِ خیال کہاں

ایسا آساں نہیں لہو رونا

دل میں‌ طاقت، جگر میں حال کہاں

ہم سے چھوٹا‘‘قمار خانۂ عشق‘‘

واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں

میں کہاں اور یہ وبال کہاں

[153]فلکِ سفلہ بے محابا ہے

اس ستم گر کو انفعال کہاں؟

بوسے میں وہ مضائقہ نہ کرے

پر مجھے طاقتِ سوال کہاں؟

مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ

وہ عناصر میں اعتدال کہاں

۹۵

کی وفا ہم سے، تو غیر اِس کو جفا کہتے ہیں[154]

ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں

آج ہم اپنی پریشانیِ خاطر، ان سے

کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو

جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں

دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے

اُور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں

ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود

قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں

پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے

خارِ رہ کو ترے ہم مہر گیا[155] کہتے ہیں

اک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائے گا کیا

آگ مطلوب ہے ہم کو، جو ہَوا کہتے ہیں

دیکھیے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ

اُس کی ہر بات پہ ہم ’نامِ خدا‘ کہتے ہیں

وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید

مر گیا غالبؔ آشفتہ نوا، کہتے ہیں

۹۶

آبرو کیا خاک اُس گُل کی، کہ گلشن میں نہیں

ہے گریبان ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں

ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں

رنگ ہو کر اڑ گیا، جو خوں کہ دامن میں نہیں

ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب

ذرّے اُس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں

کیا کہوں تاریکیِ زندانِ غم، اندھیر ہے

پنبہ، نورِ صبح سے کم جس کے روزن میں‌ نہیں

رونقِ ہستی ہے عشقِ خانہ ویراں ساز سے

انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں

زخم سِلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن

غیر سمجھا ہے کہ لذّت زخمِ سوزن میں نہیں

بس کہ ہیں ہم [156] اک بہارِ ناز کے مارے ہوئے

جلوۂ گُل کے سِوا گرد اپنے مدفن میں نہیں

قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا

خُوں بھی ذوقِ درد سے، فارغ مرے تن میں نہیں

لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری

موجِ مے کی آج رگ، مینا کی گردن میں نہیں

ہو فشارِ ضعف میں کیا نا توانی کی نمود؟

قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں

تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر

بے تکلّف، ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں

۹۷

[157]آنسو کہوں کہ، آہ، سوارِ ہوا کہوں

ایسا عناں گسیختہ آیا کہ کیا کہوں

اقبالِ کلفتِ دلِ بے مدعا رسا

اختر کو داغِ سایہِ بال ہما کہوں

مضمون وصل ہاتھ نہ آیا مگر اسے

اب طائر پریدہ رنگ حنا کہوں

عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آ سکا

گر اک ادا ہو تو اُسے اپنی قضا کہوں

حلقے ہیں چشم ہائے کشادہ بہ سوئے دل

ہر تارِ زلف کو نگہِ سُرمہ سا کہوں

میں اور صد ہزار نوائے جگر خراش

تو اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں

ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ

ہَے ہَے خُدا نہ کردہ، تجھے بے وفا کہوں

ز دیدنِ دلِ ستم آمادہ ہے محال

مژگاں کہوں کہ جوہر تیغِ قضا کہوں

طرز آفرینِ نکتہ سرائی طبع ہے

آئینہ خیال کو طوطی نما کہوں

۹۸

مہرباں ہو کے بلا لو مجھے، چاہو جس وقت

میں گیا وقت نہیں ہوں ‌کہ پھر آ بھی نہ سکوں

ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے

بات کچھ سَر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں

زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر، ورنہ

کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں

۹۹

ہم سے کھل جاؤ بہ وقتِ مے پرستی ایک دن

ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِ مستی ایک دن

غرّۂ اوجِ بِنائے عالمِ امکاں نہ ہو

اِس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے[158] گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

نغمہ ہائے غم کو ہی اے دل غنیمت جانیے

بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ زندگی ایک دن

دَھول دَھپّا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں

ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن

۱۰۰

ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں

اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں

کس منہ سے شکر کیجئے اس لطف خاص کا

پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں

ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز

نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں

بوسہ نہیں، نہ دیجیے دشنام ہی سہی

آخر زباں تو رکھتے ہو تم، گر دہاں نہیں

ہر چند جاں گدازیِ قہر و عتاب ہے

ہر چند پشت گرمیِ تاب و تواں نہیں

جاں مطربِ ترانہ ہَل مِن مَزِید ہے

لب پردہ سنجِ زمزمۂ الاَماں نہیں

خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم

دل میں چھُری چبھو مژہ گر خون چکاں نہیں

ہے ننگِ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو

ہے عارِ دل نفس اگر آذر فشاں نہیں

نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب

سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں

کہتے ہو ’’کیا لکھا ہے تری سر نوشت میں‘‘

گویا جبیں پہ سجدۂ بت کا نشاں نہیں

پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی

رُوح القُدُس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں

جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی

غالبؔ کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں‌ نہیں

کتابیات

۱۔ دیوانِ غالب۔ مکتبہ الفاظ علی گڑھ

۲۔ دیوان غالب۔ نسخہ تاج کمپنی لاہور

۳۔ دیوانِ غالب۔ نول کشور پریس لکھنؤ

۴۔ نوائے سروش از مولانا غلام رسول مہر(نسخۂ مہر)

۵۔ شرحِ دیوانِ غالبؔ از علامہ عبدالباری آسی ( نسخۂ آسی)

۶۔ دیوانِ غالبؔ (فرہنگ کے ساتھ)

۷۔ دیوانِ غالبؔ نسخۂ طاہر

۸۔ دیوان غالب (نسخۂ حمیدیہ)

۹۔ دیوانِ غالب (بہ تصحیحِ متن و ترتیب حامد علی خان) مطبوعہ ۱۹۶۹

۱۰ گلِ رعنا، نسخۂ شیرانی، نسخۂ بھوپال بخطِ غالب، نسخۂ رضا سے

۱۱۔ انتخاب نسخۂ بھوپال کی باز یافت۔ سید تصنیف حیدر، ماہنامہ آج کل، فروری ۲۰۰۷ء (نسخۂ مبارک علی کے حوالے اسی سے ماخوذ ہیں)

۱۲۔ دیوانِ غالب (کامل) تاریخی ترتیب سے۔ کالی داس گپتا رضاؔ

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


[1]        اب کلیات میں یہ تعداد صرف چار رہ گئی ہے۔ باقی تین غزلیں نسخۃ رضا میں شامل ہو گئی ہیں۔ جویریہ مسعود (ج۔ م۔)

[2]        یہ دیباچہ میرے محترم جناب اعجاز عبید (۱۔ ع۔) نے دیوانِ غالب نسخۂ اردو ویب ڈاٹ آرگ کے لکھا تھا، تبرک کے لئے اسے یہاں رہنے دیا گیا ہے۔ (ج۔ م۔)

[3]         اکثر مروجہ نسخوں میں ’کاوِ کاوِ‘ درج ہے اور لوگ بے خیالی میں اسی طرح پڑھتے ہیں۔ بعض حضرات نے ’کاؤ کاؤ‘ بھی لکھا ہے جس کا یہاں کوئی محل نہیں۔ کاؤ۔ کاوش۔ علی العموم ’کاؤ کاؤ‘ بہ تکرار مستعمل ہے۔ اس مصرع میں ’کاؤ کاوِ’ پڑھنا چاہیے۔ حامد علی خاں (ح۔ع۔خ۔)۔

[4]         نسخۂ حمیدیہ میں ’مزہ‘ نسخۂ عرشی میں ’مژہ’۔ ہم نے حمیدیہ کے متن کو ترجیح دی ہے (ج۔ م۔)

[5]         عرشی میں ’زنجیری‘ عرشی نے ’زنجیر سے‘ کو سہو مرتب لکھا ہے (ج۔ م۔)

[6]         یہاں ’’حُسود‘‘ کی جگہ ’’حَسود‘‘ بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ حُسود جمعِ حاسد۔ حَسود۔ بہت حسد کرنے والا۔ (ح۔ع۔خ۔)

[7]         یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے (ج۔ م۔)

[8]        یہ اور اگلا شعر نسخۂ رضا کے ایک اور غزل کا حصہ ہیں جس کا مطلع ہے

تنگی رفیقِ رہ تھی، عدم یا وجود تھا

میرا سفر بہ طالعِ چشمِ حسود تھا (ج۔ م۔)

[9]        یہ غزل نسخۂ رضا میں نہیں (ج۔ م۔)

[10]      یہ غزل نسخۂ رضا میں نہیں (ج۔ م۔)

[11]       نسخۂ حمیدیہ میں ’خیال‘ بجائے ’خرام‘ (ج۔ م۔)

[12]       نسخۂ حمیدیہ میں ’وقف‘ بجائے ’نقش‘ (ج۔ م۔)

[13]       نسخۂ حمیدیہ میں ’دل‘ بجائے ’گل‘ (ج۔ م۔)

[14]       نسخۂ حمیدیہ میں ’سمِّ جنوں‘ بجائے ’ستم جنوں‘ (ج۔ م۔)

[15]        نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: ’شعلہ رویاں جب ہوے گرمِ تماشا جل گیا‘ (ج۔ م۔)

[16]        نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: دل ز آتش خیزیِ داغِ تمنا جل گیا۔ (ج۔ م۔)

[17]        بعض نسخوں میں ’اے‘ کی جگہ ’ہے‘ اور بعض میں اس کی جگہ ’تھی‘ بھی چھپا ہے۔ حسرت موہانی اور طباطبائی کے نسخوں، نیز بعض دوسرے نسخوں میں ’اے‘ ہی چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[18]       یہ تین شعر نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں (ج۔ م۔)

[19]        نسخۂ حمیدیہ میں مزید شعر (ا۔ ع۔)

[20]       نسخۂ رضا سے مزید (ج۔ م۔)

[21]        شارحینِ کلام کے نزدیک وقفہ ’جو‘ کے بجائے ’گیا‘ کے بعد ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)۔ حامد علی خان کے نسخے میں یہ مصرع یوں ہے:

دھمکی میں مر گیا جو، نہ بابِ نبرد تھا (ج۔ م۔)

[22]        نسخۂ حمیدیہ میں ’حجابِ سیرِ گل‘ (ج۔ م۔)

[23]        اصل نسخۂ نظامی میں ’غلتیدن‘ ہے جو سہوِ کتابت ہے (ا۔ ع۔)

[24]          یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے۔ (ج۔ م۔)

[25]        نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے : ’صفحہ آئینہ ہوا، آئینہ طوطی نہ ہوا‘ (ج۔ م۔)

[26]        نسخۂ حمیدیہ میں مزید (ا۔ ع۔)

مزید       نسخۂ رضا میں ’’جاوے‘‘ بجائے ’’جائے‘‘ ۔ (ج۔ م۔)

[27]        نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرعہ یوں ہے:

مرگیا صدمۂ آواز سے ’قم‘ کے غالب (ا۔ ع۔)

[28]        نسخۂ حسرت موہانی میں ’سرگشتہ‘ (ا۔ ع۔)

[29]       اس شعر سے مقطع تک نسخۂ رضا سے شامل شدہ ہیں (ج۔ م۔)

[30]       اس غزل کے صرف یہ دو اشعار مروجہ دیوان کا حصہ ہیں، باقی نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں (ج۔ م۔)

[31]        طُعمہ، خوراک۔ طَعمہ، لقمہ۔ (ح۔ع۔خ۔)

[32]        قدیم نسخوں میں ’اک‘ کی جگہ ’یک‘ درج ہے (ح۔ع۔خ۔)

[33]        مقطع کی وجہ سے لگتا ہے کہ یہ اور اگلی غزل در اصل دو الگ الگ غزلیں تھیں جن کو بعد میں خود غالب نے ایک کر کے پیش کیا تھا۔ (ا۔ ع۔)

[34]        کمخواب کا املا کمخاب بھی ہے مگر کمخواب قابلِ ترجیح ہے، خصوصاً اس شعر میں (ح۔ع۔خ۔)

[35]        نسخۂ حمیدیہ میں ’محشر آبادِ نگاہ‘ (ج۔ م۔)

[36]       نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)

[37] نسخۂ رضا میں ’’کے‘‘ کے بجائے ’’کی‘‘ ۔ شاید کتابت کی غلطی ہے۔ (ج۔ م۔)

[38] نسخۂ رضا سے مزید۔ (ج۔ م۔)

[39] نسخۂ رضا سے مزید۔ (ج۔ م۔)

[40] نسخۂ رضا سے مزید۔ (ج۔ م۔)

[41]        نسخۂ طاہر میں ’پریشاں‘ (ج۔ م۔)

[42]          بعض حضرات ’قسمت‘ کی جگہ ’قیمت‘ لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں لیکن یہاں ‘قسمت‘ ہی ہے (ح۔ع۔خ۔)

[43]        نسخۂ حمیدیہ میں ’آوازہ‘ بجائے ’دروازہ‘ (ج۔ م۔)

[44]        قدیم نسخوں میں قافیے فرماویں، جاویں وغیرہ چھپے ہیں۔ بعد کے نسخوں میں فرمائیں، جائیں وغیرہ قافیے درج ہیں، مثلاً شو نرائن اور طباطبائی۔ (ح۔ع۔خ۔)

[45]        بعض لوگوں کی زبان پر ’رہیں‘ کے بجائے ’رہے‘ بھی ہے۔ اس کا سبب ایک پرانے نسخے کا اندراج ہے مگر اکثر نسخوں میں ’رہیں‘ درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[46]        ایک نسخے میں ’قیمتِ دل‘ کی جگہ ’شیشۂ دل‘ لکھا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[47]        کام کا ہے مرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا (نسخۂ حسرت، نسخۂ مہر) (ج۔ م۔) مزید: نسخۂ مہر اور حسرت موہانی میں یہ شعر یوں ملتا ہے:

نام کا ہے میرے وہ دکھ جو کسی کو نہ ملا

کام کا ہے مِرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا

اس ترتیب الفاظ کے ظاہری حسن کے باوجود دوسرے قدیم و جدید نسخے سے یہ ثبوت نہیں ملا کہ غالب نے خود یہ شعر یوں بدل دیا تھا۔ غالب کو شاید دوسرے مصرع کا وہ مفہوم مطلوب ہی نہ تھا جو ’کام کا‘ سے پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے قدیم و جدید نسخوں کے علاوہ عرشی، طباطبائی، مالک رام اور بیخود دہلوی کے نسخوں میں بھی یہ شعر یوں ہی ملا ہے جیسا کہ متن میں درج ہوا ہے اور نسخۂ نظامی مطبوعۂ ۱۸۶۲ میں بھی اسی طرح چھپا ہے۔ (حاشیہ از ح۔ع۔خ۔)

[48]       خط بنام نبی بخش حقیرؔ (بعد از ۱۸ جون ۱۸۵۴ء) نادراتِ غالبؔ، صفحہ ۵۶ (نسخۂ رضا)

[49]       مروجہ دیوان میں صرف مقطع درج ہے۔ باقی غزل نسخۂ رضا سے منتخَب ہے۔ (ج۔ م۔)

[50]        یہ شعر نسخۂ بھوپال بخظِ غالب میں ایک علیٰحدہ غزل کا مطلع ہے جس کا ایک اور شعر یہ ہے:

تمنائے زباں محوِ سپاسِ بے زبانی ہے

مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا

 درمیان میں تین مزید اشعار اور آخر میں مطلع بھی ہے (ا۔ ع۔)

[51]        اصل نسخے میں ’یوں‘ غالباً چھوٹ گیا ہے۔ (ا۔ ع۔)

مزید: نسخۂ حمیدیہ میں ’تغافل کو نہ کر‘ بجائے ’تغافل یوں نہ کر‘ (ج۔ م۔)

[52]        نسخۂ حمیدیہ، نظامی، حسرت اور مہر کے نسخوں میں لفظ ’قاتل‘ ہے (ج۔ م۔)

مزید: نسخۂ نظامی، نسخۂ حمیدیہ، نیز دیگر تمام پیشِ نظر قدیم نسخوں میں یہاں لفظ ’’غافل‘‘ ہی چھپا ہے۔ یہی لفظ نسخۂ طباطبائی اور نسخۂ عرشی میں ہے اور یہ معنوی لحاظ سے درست بھی معلوم ہوتا ہے مگر نسخۂ حسرت اور نسخۂ مہر دونوں میں یہاں لفظ ’قاتل‘ ملتا ہے۔ شاید اس تبدیلی کا ذمہ دار نسخۂ حسرت کا کاتب ہو۔ (حاشیہ از ح۔ع۔خ۔)

[53]       نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: ’گر وہ مستِ نازِ تمکیں دے صلائے عرضِ حال‘ (ج۔ م۔)

[54]       نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م)

[55]        نسخۂ مہر، نسخۂ علامہ آسی میں ‘یوں’ کے بجا ئے ’یہ‘ آیا ہے (ج۔ م۔) مزید: نسخۂ حسرت موہانی میں یوں کی جگہ ’یہ‘ درج ہے (ح ع خ)

[56]        نسخۂ مبارک علی میں ’نہ پائی وسعتِ‘ ہے۔ (ا۔ ع۔)

[57]        نسخۂ نظامی کی املا ہے ’خند ہائے‘ (ا۔ ع۔)

[58]          نسخۂ نظامی نیز دوسرے قدیم و جدید نسخوں یہاں ’اِس‘ کے بجائے ’اُس‘ درج ہے۔ ’اِس‘ کا اشارہ فلک کی طرف ہے ’کارفرما‘ محبوب ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[59]        نسخۂ حمیدیہ میں ’اخگر‘، شیرانی و عرشی میں ’اختر‘ (ج۔ م۔)

[60]        نسخۂ حمیدیہ میں ’نا افسردگاں‘، شیرانی و عرشی میں ’خو ناکردگاں‘ (ج۔ م۔)

[61]       مزید شعر از نسخۂ رضا

[62]       مزید شعر از نسخۂ رضا

[63]       مزید شعر از نسخۂ رضا    (ج۔ م۔)

[64]        بعض جدید نسخوں میں یہاں ’شوق‘ درج ہے مگر غالب ہی کے کلام سے ثبوت ملتا ہے کہ بعض مقامات پر جہاں آج کل ہم ’شوق‘ استعمال کرتے ہیں، وہاں غالب نے ’ذوق‘ لکھا۔ (ح۔ع۔خ۔)

[65]        ح۔ع۔خ۔ کے نسخے میں نیرنگِ نظر کے گاف پر اضافت نہیں (ج۔ م۔) ملاحظہ ہو ان کا حاشیہ:

 ’’بہت سے نسخوں میں ’نیرنگ نظر‘ کی جگہ ’نیرنگِ نظر‘ چھپا ہے جو صحیح نہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)

[66]        نسخۂ حمیدیہ میں ’کمیں دارِ‘  (ج۔ م۔)

[67]       نسخۂ حمیدیہ میں ’غریبِ بدر جستۂ‘ بجائے ’غریبِ ستم دیدۂ‘ (ج۔ م۔)

[68]        مروجہ نسخوں کی اکثریت میں یہاں ’مِرے‘ چھپا ہے۔ مطلب یہ کہ ’میرے داغِ جگر سے تحصیل جاری تھی‘ مگر سوال یہ ہے کہ سمندر کے مقابلے میں یہاں کون تحصیلِ آتش کر رہا تھا؟ اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ جب تک یہاں ’مِرے‘ کی بجائے ’مِری‘ نہ پڑھا جائے یعنی داغِ جگر سے میری تحصیلِ تب و تاب اس وقت بھی جاری تھی جب کہ سمندر تک کو آتش کدہ عطا نہ ہوا تھا۔ نسخۂ نظامی میں ’مِری‘ ہی چھپا ہے مگر قدیم نسخوں میں تو ’مِرے‘ کو بھی ’’مِری‘‘ ہی لکھا جاتا تھا۔ لہٰذا صرف معنوی دلیل ہی متن کے اندراج کے حق میں دی جا سکتی ہے۔ حسرت موہانی اور عرشی کا بھی غالباً اسی دلیل پر اتفاق ہو گا۔ ان دونوں کے سوا شاید اور کسی فاضل مرتبِ دیوان غالب نے یہاں ’مِری‘ نہیں لکھا۔ (ح۔ع۔خ۔)

[69]       نسخۂ رضا میں ’یک‘ بجائے ’ایک‘ (ج۔ م۔)

[70]       نسخۂ رضا میں ’کہوں‘ بجائے ’کروں‘ (ج۔ م۔)

[71]       نسخۂ رضا میں یہ شعر زاید ہے۔ (ج۔ م۔)

[72]       نسخۂ مبارک علی میں لفظ ’مے خانہ‘ ہے۔ (ا۔ ع۔)

[73]  متداول دیوان میں صرف یہ اور اگلا شعر درج ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے انتخاب ہیں۔ (ج۔ م۔)

[74] متداول دیوان میں صرف یہ شعر درج ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے انتخاب ہیں۔ (ج۔ م۔)

[75]       نسخۂ رضا میں ’دستِ قاتل‘ (ج۔ م۔)

[76]        یہ تین اشعار نسخہ بھوپال میں ہیں، اس مصرعے میں نسخۂ عرشی میں لفظ ’فرصت گزار‘ ہے (ا۔ ع۔)

[77]        نسخۂ مبارک علی (اور نسخۂ حمیدیہ) میں ہے ’ہوں قطرہ زن بوادیِ حسرت شبانہ روز‘ (ا۔ ع۔)

[78]       نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)

[79]        نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: انداز نالہ یاد ہیں سب مجھ کو پر اسد۔ (ج۔ م۔)

[80]        نسخۂ حمیدیہ میں ’’آشنا کی‘‘ بجائے ’’آشنائی‘‘ (ج۔ م۔)

[81]       نسخۂ رضا سے مزید (ج۔ م۔)

[82]        اکثر نسخوں میں ’’اُدھر‘‘ کی جگہ ’’اِدھر‘‘ چھپا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ میں ’’پرے‘‘ چھپا ہے۔ شعر کا صحیح مفہوم ’’اُدھر‘‘ یا ’’پرے‘‘ سے ادا ہوتا ہے۔ ’’اِدھر‘‘ لکھنے والوں نے اس شعر کی جو شرحیں لکھی ہیں وہ تسلی بخش نہیں ہیں۔)ّ نسخۂ نظامی : ’’اِدھر‘‘)ّ (ح۔ع۔خ۔)

[83]        نسخۂ حمیدیہ میں ’’عزلت گزینِ‘‘ بجائے ’’عزّت گزینِ‘‘ (ج۔ م۔)

[84]       اس شعر سے لے کر مقطع تک مروجہ دیوان میں الگ غزل کے طور پر درج ہیں، مگر نسخۂ حمیدیہ اور نسخۂ رضا میں یہ ایک اور غزل کا حصہ ہیں جس کا مطلع ہے:

طاؤس در رکاب ہے ہر ذرّہ آہ کا

یا رب نفس غبار ہے کس جلوہ گاہ کا؟         (ج۔ م۔)

[85]       یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ملا۔ (ج۔ م۔)۔

[86]       متداول میں صرف یہ دو شعر بطورغزل درج ہیں۔ (ج۔ م۔)

[87]        نسخۂ آگرہ، منشی شیو نارائن، ۱۸۶۳ء میں ’مری قسمت‘ (ا۔ ع۔)

[88]        نسخۂ حسرت موہانی میں ’’ہو ظاہر‘‘ کی جگہ ’’عیاں ہو‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[89]        نسخۂ حمیدیہ میں ’’خونِ گل‘‘ بجائے ’’خونِ دل‘‘ (ج۔ م۔)

[90]        نسخۂ حمیدیہ میں ’’آبلوں سے‘‘ بجائے ’’سالوں سے‘‘ ہو سکتا ہے نسخۂ حمیدیہ میں سہو کتابت ہو (ج۔ م۔)

[91]       متداول دیوان میں صرف یہ اور اگلا شعر بہ طور غزل درج ہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[92]        نسخۂ مبارک علی میں ’درد‘ ہے لیکن نسخۂ عرشی میں پہلا لفظ ’دود‘ ہے۔ (ا۔ ع۔)

[93]       نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: غالبؔ، ایسے گنج کو شایاں یہی ویرانہ تھا          (ج۔ م۔)۔

[94]       نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)

[95]       نسخۂ رضا میں ’’لاتا‘‘ بجائے ’’دیتا‘‘ ۔ (ج۔ م۔)۔

[96]       نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)

[97]       نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)

[98]        گِرداب

[99]       مروجہ دیوان میں یہ آخری تین شعر بہ طور غزل درج ہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[100]       نسخۂ نظامی میں اگرچہ ’دیداں‘ ہے لیکن معانی کے لحاظ سے ’دنداں‘ مناسب ہے، دیداں سہوِ کتابت ممکن ہے۔ (ا۔ ع۔)

          دیداں دودہ کا جمع ہے اس سے مراد کیڑے ہیں۔ تب اس کا مطلب بنتا ہے کہ انگلیوں کو قبر کی کیڑوں کا خوراک بنا دیا۔ نسخۂ مہر اور نسخہ علامہ آسی میں لفظ دیداں ہی آیا ہے ہاں البتہ نسخۂ حمیدیہ (شایع کردہ مجلسِ ترقی ادب لاہور ۱۹۸۳)ّ میں لفظ دندان آیا ہے (ج۔ م۔)      مزید: نسخۂ نظامی اور بعض دوسرے نسخوں میں ’’دندان‘‘ کے بجائے ’’دیداں‘‘ چھپا ہے۔ دودہ عربی میں کیڑے کو کہتے ہیں، اس کی جمع ’’دود‘‘ ہے اور جمع الجمع ’’دیدان‘‘ ۔ یہ بات خلاف قیاس معلوم ہوتی ہے کہ غالب نے دیداں لکھا ہو۔ اس میں معنوی سقم یہ ہے کہ قبر میں پورا جسم ہی کیڑوں کی نذر ہو جاتا ہے، انگلیوں کی کوئی تخصیص نہیں نہ خاص طور پر انگلی کے گوشت سے کیڑوں کی زیادہ رغبت کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ کسی مرے ہوئے محبوب کا ماتم بھی نہیں ہے بلکہ زمانے کی ناقدری کا ماتم ہے کہ جو انگلی عقدِ گہر کی قابل تھی وہ حسرت و افسوس کے عالم میں دانتوں میں دبی ہے۔ خوبصورت دانتوں کو موتیوں کی لڑی سے تشبیہ دی جاتی ہے اس لیے موتی کے زیور کی رعایت ملحوظ لکھی گئی ہے۔ کیڑوں کو موتیوں سے تشبیہ دینا مذاقِ سلیم کو مکروہ معلوم ہوتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[101]       بعض نسخوں میں یہاں ’’تِری‘‘ اور بعض میں ’’تِرا‘‘ چھپا ہے۔ متن میں ’’تری‘‘ کو ترجیح دی گئی ہے۔ اس صورت میں علامتِ وقف ’’تری‘‘ کے بعد ہے۔ دوسری صورت میں علامتِ وقف ’’نشانی‘‘ کے بعد ہونی چاہیے یعنی : کافی ہے نشانی، ترا چھلے کا نہ دینا۔۔۔ متن کے اندراج کا مفہوم یہ ہے کہ تیری یہی نشانی میرے لیے کافی ہے کہ رخصت کے وقت جب میں نے تجھ سے نشانی کا چھلا مانگا تو تُو نے مجھے ایک ادائے خاص سے ٹھینگا دکھادیا۔ نسخۂ نظامی میں بھی اس متن کے مطابق ’’تری‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[102]      نسخۂ رضا مزید شعر۔ (ج۔ م۔)۔

[103]      اس شعر سے مقطع تک نسخۂ رضا سے انتخاب۔ (ج۔ م۔)

[104]       شاید بعض حضرات اس کو ’’رُفتہ‘‘ پڑھتے ہیں۔ یقین ہے کہ غالب کا لفظ یہاں ’’رَفتہ‘‘ ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[105]      مقطع سےپہلے چار اشعار نسخۂ رضا سے انتخاب ہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[106]      نسخۂ رضا میں ’’کشودہ‘‘ بجائے ’’کشادہ‘‘ ۔ (ج۔ م۔)۔

[107]       نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: سر رشتہ چاکِ جیب کا تارِ نظر ہے آج (ج۔ م۔)

[108]      نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: سیلابِ گریہ دشمنِ دیوار و در ہے آج

[109]       نئے مروجہ نسخوں میں یہاں ’’بیمار دار‘‘ کی جگہ عموماً ’’تیمار دار‘‘ چھپا ہے مگر قدیم نسخوں میں یہاں لفظِ ’’بیمار دار‘‘ ہی ملتا ہے جو کم از کم غالب کے عہد میں اس مفہوم کے لیے زیادہ موزوں تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)

[110]       ‘سعی‘ اور ’نفی‘ جیسے الفاظ میں اضافت کے لیے زیر کے بجائے ہمزہ کا استعمال نہیں کیا گیا کیوں کہ اضافت سے یہاں ’’الف‘‘ کی نہیں ’’ی‘‘ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[111]       صحیح تلفظ سینِ مضموم (یعنی س پر پیش) سے ہے مگر بعض لوگ اس تلفظ میں ذمّ کا پہلو دیکھتے ہیں اور سَفرہ بہ سینِ مفتوح (یعنی س پر زبر) بولتے ہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)

[112]       نسخۂ حمیدیہ میں ہے ’لبِ ساقی پہ‘۔ اکثر نسخوں میں بعد میں یہی املا ہے۔ (ا۔ ع۔)

          مزید: نسخۂ مہر، آسی اور باقی نسخوں میں لفظ ‘پہ’ ہے۔ (ج۔ م۔)

          مزید: نسخۂ نظامی، نسخۂ عرشی، نسخۂ حسرت موہانی اور بعض دیگر نسخوں میں یہاں ’’میں‘‘ ہی چھپا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ میں ’’پہ‘‘ درج ہے۔ ظاہراً ’’میں‘‘ سہوِ کتابت معلوم ہوتا ہے لیکن اگر غالب نے ’’میں‘‘ ہی کہا تھا تو اس کی مراد یہ ہو گی کہ غلبۂ غم کے باعث صلا لبوں پر نہ آ سکی لبوں میں ہی رہ گئی۔ (ح۔ع۔خ۔)

[113]       یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے۔ (ج۔ م۔)

[114]       مولانا عبد الباری آسی لکھنوی کے نسخے میں ’’کاشانہ‘‘ بجائے ’’کاشانے‘‘ (ج۔ م۔)

[115]       نسخۂ حسرت: جی ہی میں۔ (ح۔ع۔خ۔)

[116]       نسخۂ حمیدیہ: کافر کو پوجنا۔ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[117]      نسخۂ رضا مزید شعر۔ (ج۔ م۔)

[118]      متداول دیوان میں پہلے دو شعر درج ہیں۔ باقی غزل نسخۂ رضا سے شامل کی گئی ہے۔ (ج۔ م۔)۔

[119]      اس غزل کے پہلے تین شعر متداول دیوان کا حسہ نہیں اور نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[120]        (مرزا زین العابدین خان عارف اپریل ۱۸۵۲ میں فوت ہوئے تھے، یہ غزل انہی کا مرثیہ ہے)ّ۔ (حاشیہ از نسخۂ رضا)

[121]       ’’ایک‘‘ کی جگہ قدیم نسخوں میں ’’یک‘‘ چھپا ہے (ح۔ع۔خ۔)

[122]       عرشی: ’’دیدہ‘‘ بجائے ’’دید‘‘ (ج۔ م۔)

[123]       یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے (ج۔ م۔)

[124]       یہ شعر بھی نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے (ج۔ م۔)

[125]      نسخۂ رضا میں یہ مقطع زاید ہے۔ (ج۔ م۔)

[126]      متداول دیوان میں یہ غزل صرف ان تین اشعار پر مشتمل ہے۔ مطلع اور باقی اشعار تا مقطع نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[127]      متداول دیوان میں یہ غزل صرف دو اشعار پر مشتمل ہے۔ مطلع اور باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[128]       بعض نسخوں میں ’’تپ‘‘ بھی چھپا ہے جو ’’تب‘‘ کا ہم معنی ہے۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)

مزید: ہم نے اس نسخے میں ’’تپ‘‘ کو ترجیح دی ہے کیوں کہ اکثر نسخوں میں ’’تپ‘‘ ہی درج ہے۔ (ج۔ م۔)

[129]       بعض نسخوں میں ’’نہ‘‘ کی جگہ ’’نے‘‘ بھی چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں ’’نہ‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[130]       نسخۂ حمیدیہ، طباطبائی، حسرت موہانی، نیز مہر، بیخود اور نشتر جالندھری کے نسخوں میں ’’دور و دراز‘‘ چھپا ہے لیکن نسخۂ نظامی، عرشی اور مالک رام نیز متعدد قدیم نسخوں میں یہاں ’’دور دراز‘‘ ہی ملتا ہے۔ دور دراز (بلا عطف) صحیح فارسی ترکیب ہے جس کی شہادت فرہنگِ آنند راج اور شٹائن گاس کی فارسی انگریزی لغت سے بھی ملتی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[131]      یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے مگر نسخۂ رضا میں درج ہے (ج۔ م۔)

[132]      متداول دیوان میں یہ غزل صرف دو اشعار پر مشتمل ہے۔ مطلع اور باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[133]       بیشتر نسخوں میں ’’لگا دے‘‘ کی جگہ ’’لگاوے‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[134]       ممکن ہے غالب نے یہاں ’’ہوتا ہے‘‘ کہا ہو اور ’’ہوتی ہے‘‘ سہوِ مرتبین ہو۔ (ح۔ع۔خ۔)

[135]      متداول دیوان میں یہ غزل صرف ایک شعر پر مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[136]       نسخۂ مہر میں ’’شعلہ‘‘ ، نسخہ آسی میں شعلے۔ شعلہ زیادہ صحیح ہے (ج۔ م۔)

[137]      متداول دیوان میں یہ غزل صرف دو اشعار پر مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[138]       نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے: زخم پر باندھے ہیں کب طفلانِ بے پروا نمک (ج۔ م۔)

[139]       ایک نسخے میں ’’واہ وا‘‘ بہ تخفیف بھی دیکھا گیا ہے لیکن اکثر قدیم و جدید نسخوں میں ’’واہ واہ‘‘ درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[140]       بعض نسخوں میں ’’توفیر‘‘ کی جگہ ’’توقیر‘‘ چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں ’’توفیر‘‘ درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[141]       اکثر قدیم نسخوں میں ’ہوتے تک‘ ردیف ہے۔ نسخۂ نظامی میں بھی لیکن کیوں کہ نسخۂ حمیدیہ میں مروج قرأت ’ہونے تک‘ ہی دی گئی ہے اس لئےاسی کو قابلِ ترجیح قرار دیا گیا ہے۔

          مزید: مالک رام صاحب نے لکھا ہے کہ غالب کی زندگی میں دیوان کے جتنے ایڈیشن شائع ہوئے، ان میں ردیف ’’ہوتے تک‘‘ ہے۔ راقم الحروف (ح۔ع۔خ۔) کے مشاہدے کی حد تک بھی مالک رام صاحب کی اس قول کی تائید ہوتی ہے مگر مولانا غلام رسول مہر نے ’’ہونے تک‘‘ کی ردیف کی حق میں ایک نیم مشروط سی دلیل پیش کی ہے حالانکہ سہوِ کتابت کہیں بھی خارج از امکان نہیں۔ البتہ مالک رام صاحب نے قدیم نسخوں میں بھوپال کے نسخۂ حمیدیہ کا ذکر نہیں کیا جس میں ردیف ’’ہونے تک‘‘ درج ہے۔ راقم الحروف (ح۔ع۔خ۔) کی رائے میں یہ بھی سہوِ کتابت ہے یا تحریف کیوں کہ آج کل بیشتر اہلِ ذوق ’’ہونے تک‘‘ کو صوتی لحاظ سے پسندیدہ سمجھتے ہیں مگر اپنی پسند غالب کے کلام کو عمداً بدل ڈالنے کا حق نہیں دیتی۔ مہر صاحب نے تحریر فرمایا ہے: ’’عرشی صاحب نے اب بھی ردیف‘‘ ہونے تک‘‘ ہی رکھی ہے‘‘ عرشی کا جو نسخہ راقم کی نظر سے گزرا ہے، اس میں مولانا کے مشاہدے کے بر عکس اس غزل کی ردیف ’’ہوتے تک‘‘ ہی ملتی ہے۔ بہر حال ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)

[142]       نسخۂ مبارک علی میں الفاظ ہیں ’ہم پہ یہ بھاری ہیں‘ (ا۔ ع۔)

[143]       نسخے میں اگرچہ ‘طپش’ ہے لیکن صحیح تپش ہی درست ہونا چاہئے (ا۔ ع۔)

[144]      متداول دیوان میں یہ غزل صرف دو اشعار پر مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[145]      نسخۂ رضا میں مزید شعر۔ (ج۔ م۔)

[146]      نسخۂ رضا میں مزید شعر۔ (ج۔ م۔)

[147]       نسخۂ حمید سے مزید شعر۔ ملاحظہ ہو حاشیہ از نسخۂ حمیدیہ: اس مصرع پر ’’لا لا‘‘ لکھا ہے اور حاشیے موٹے قلم سے شکستہ خط میں اس کے بجائے مصرعِ ذیل تحریر کیا ہے: ہے فروغِ ماہ سے ہر موج یک تصویرِ خاک۔ (ج۔ م۔)

[148]      متداول دیوانِ غالب میں یہ غزل شعرِ ہذا تا آخر ہے۔ مطلع اور اس سے پہلے کے اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

[149]       نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: شامِ غم میں سوزِ عشقِ شمع رویاں سے اسد۔ ملاحظہ نسخۂ حمیدیہ کا حاشیہ (ج۔ م۔)

 اس مصرع کا آخری حصہ بعد میں ’’سوزِ عشقِ آتشِ رخسار سے‘‘ بدلا گیا ہے۔ حاشیے میں موٹے قلم سے شکستہ خط میں یہ مقطع لکھا ہے:

          دائم الحبس اس میں ہے لاکھوں تمنائیں اسدؔ

          جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم                           (حواشی از پروفیسر حمید احمد خان) (ج۔ م۔)

[150]      مروجہ دیوان میں یہ غزل صرف اس ایک شعر پر مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[151]      مروجہ دیوان میں یہ غزل صرف اس مقطع پر مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔

[152]       ممکن ہے غالب نے خد و خال کہا ہو۔ (ح۔ع۔خ۔)

[153]      نسخۂ رضا سے مزید دو شعر۔ (ج۔ م۔)

[154]      یہاں ’’اِس‘‘ کی بجائے ’’اُس‘‘ نہیں پڑھنا چاہیے۔ نسخۂ نظامی میں ’’اِس‘‘ ہی چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[155]       فارسی میں گھاس کے لیے ’’گیاہ‘‘ اور ’’گیا‘‘ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ بعض لغت نویسوں کی رائے ہے کہ لفظ ’’گیا‘‘ خشک گھاس کے لیے مخصوص ہے مگر یہ خیال درست نہیں۔ مہر گیا کو مردم گیا بھی کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں بھی لغت نویس کسی ایک خیال پر متفق نہیں ہوتے۔ اس کے مفاہیم میں محبوب، رخِ نگار، سبزۂ خط، سورج مکھی، نیز مردم گیا کی دو شاخہ جڑ جو انسان نما سمجھی جاتی ہے، شامل ہے۔ عوام کا خیال تھا کہ جو شخص اس گھاس کی جڑ اپنے پاس رکھتا ہے محبوب اس پر مہربان اور ہر شخص اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

[156]       نسخۂ مہر اور آسی میں ’’ہم ہیں‘‘ درج ہے۔ (ج۔ م۔)

[157] پہلے تین شعر بشمول مطلع اور آخری دو شعر بشمول مقطع نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)

یی[158]       ح۔ع۔خ۔ کے مرتب کردہ نسخے میں، نیز نسخۂ رضا میں یہاں ’’لائے‘‘ کی جگہ ’’لاوے‘‘ درج ہے۔ (ج۔ م۔)

مکمل کلیات ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل