فہرست مضامین
- کلامِ اشرف علی فغاںؔ
- اشرف علی فغاںؔ
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا
- اے تجلی کیا ہوا شیوہ تری تکرار کا
- بہار آئی ہے سوتے کو ٹک جگا دینا
- خون آنکھوں سے نکلتا ہی رہا
- دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا
- عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا
- ہرگز مرا وحشی نہ ہوا رام کسی کا
- دیکھیے خاک میں مجنوں کی اثر ہے کہ نہیں
- اٹھ چکا دل مرا زمانے سے
- اس جور و جفا سے ترے زنہار نہ ٹوٹے
- بسکہ دیدار ترا جلوۂ قدوسی ہے
- حیف دل میں ترے وفا نہ ہوئی
- ڈرتا ہوں محبت میں مرا نام نہ ہووے
- عبث عبث تجھے مجھ سے حجاب آتا ہے
- عکس بھی کب شب ہجراں کا تماشائی ہے
- Related
کلامِ اشرف علی فغاںؔ
اشرف علی فغاںؔ
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا
تو معشوقوں کا یہ چرچا نہ ہوتا
گریباں چاک کر روتے کہاں ہم
اگر یہ دامن صحرا نہ ہوتا
سدا رہتی توقع بلبلوں کو
اگر یہ غنچۂ گل وا نہ ہوتا
جدائی میں اگر آنکھیں نہ روتیں
تو ہرگز راز دل افشا نہ ہوتا
فغاں ؔ کون اب خریدار سخن تھا
اگر یہ حضرت سوداؔ نہ ہوتا
٭٭٭
اے تجلی کیا ہوا شیوہ تری تکرار کا
مر گیا آخر کو یہ طالب ترے دیدار کا
کیا بنائے خانۂ عشاق بے بنیاد ہے
ڈھل گیا سر سے مرے سایہ تری دیوار کا
روز بہ ہوتا نظر آتا نہیں یہ زخم دل
دیکھیے کیا ہو خدا حافظ ہے اس بیمار کا
نو ملازم لعل لب کو لے گئے تنخواہ میں
بے طلب رہتا ہے یہ نوکر تری سرکار کا
دیکھ نئیں سکتا فغاں ؔ شادی دل آفت طلب
یہ کہاں سے ہو گیا مالک مرے گھر بار کا
٭٭٭
بہار آئی ہے سوتے کو ٹک جگا دینا
جنوں ذرا مری زنجیر کو ہلا دینا
ترے لبوں سے اگر ہو سکے مسیحائی
تو ایک بات میں جیتا ہوں میں جلا دینا
اب آگے دیکھیو جیتوں نہ جیتوں یا قسمت
مری بساط میں دل ہے اسے لگا دینا
رہوں نہ گرمیِ مجلس سے میں تری محروم
سپندوار مجھے بھی ذرا تو جا دینا
خدا کرے تری زلف سیہ کی عمر دراز
کبھی بلا مجھے لینا کبھی دعا دینا
برنگ غنچہ زر گل کے تئیں گرہ مت باندھ
فغاں ؔ جو ہاتھ میں آوے اسے اڑا دینا
٭٭٭
خون آنکھوں سے نکلتا ہی رہا
کاروان اشک چلتا ہی رہا
اس کف پا پر ترے رنگ حنا
جن نے دیکھا ہاتھ ملتا ہی رہا
صبح ہوتے بجھ گئے سارے چراغ
داغ دل تا شام جلتا ہی رہا
کب ہوا بیکار پتلا خاک کا
یہ تو سو قالب میں ڈھلتا ہی رہا
بہ ہوئے کب داغ میرے جسم کے
یہ شجر ہر وقت پھلتا ہی رہا
کب تھما آنکھوں سے میری خون دل
جوش کھا کھا کر ابلتا ہی رہا
کیا ہوا مرہم لگانے سے فغاں ؔ
زخم دل سینہ میں سلتا ہی رہا
٭٭٭
دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا
تیرے مجنوں کو کہاں پاس ہے رسوائی کا
برگ گل سے بھی کم اب کوہ غم اس نے جانا
یہ بھروسا تو نہ تھا دل کی توانائی کا
کیجیے چاک گریباں کو بہار آئی ہے
ذکر بے لطف ہے یاں صبر و شکیبائی کا
سرو ثابت قدم اس واسطے گلشن میں رہا
نہیں دیکھا کبھی جلوہ تری رعنائی کا
زور منظور نظر تو تو فغاں ؔ رکھتا ہے
میں تو بندہ ہوں تری چشم کی بینائی کا
٭٭٭
عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا
کوئی کسی بندہ کا خریدار نہ ہوتا
ہستی کی خرابی نظر آتی جو عدم میں
اس خواب سے ہرگز کوئی بیدار نہ ہوتا
کہتا ہے تجھے خاک نہ دوں غیر اذیت
یہ دل میں اگر تھی تو مرا یار نہ ہوتا
معلوم کسے تھی یہ تری خانہ خرابی
میں جانتا ایسا تو گرفتار نہ ہوتا
عالم کو جلاتی ہے تری گرمی مجلس
مرتے ہم اگر سایۂ دیوار نہ ہوتا
اے شیخ اگر کفر سے اسلام جدا ہے
پس چاہیے تسبیح میں زنار نہ ہوتا
ظالم مرے حاسد کی تو شادی تھی اسی میں
یعنی مجھے در تک بھی ترے بار نہ ہوتا
دیتے تری مجلس میں اگر راہ فغاں ؔ کو
اس شخص سے ہرگز کوئی بے زار نہ ہوتا
٭٭٭
ہرگز مرا وحشی نہ ہوا رام کسی کا
وہ صبح کو ہے یار مرا شام کسی کا
اس ہستئ موہوم میں ہرگز نہ کھلی چشم
معلوم کسی کو نہیں انجام کسی کا
اتنا کوئی کہہ دے کہ مرا یار کہاں ہے
باللہ میں لینے کا نہیں نام کسی کا
ہونے دے مرا چاک گریباں مرے ناصح
نکلے مرے ہاتھوں سے بھلا کام کسی کا
ناحق کو فغاں ؔ کے تئیں تشہیر کیا ہے
دنیا میں نہ ہووے کوئی بدنام کسی کا
٭٭٭
دیکھیے خاک میں مجنوں کی اثر ہے کہ نہیں
دشت میں ناقۂ لیلیٰ کا گزر ہے کہ نہیں
وا اگر چشم نہ ہو اس کو نہ کہنا پی اشک
یہ خدا جانے صدف بیچ گہر ہے کہ نہیں
ایک نے مجھ کو ترے در کے اپر دیکھ کہا
غیر اس در کے تجھے اور بھی در ہے کہ نہیں
آخر اس منزل ہستی سے سفر کرنا ہے
اے مسافر تجھے چلنے کی خبر ہے کہ نہیں
توشۂ راہ سبھی ہم سفراں رکھتے ہیں
تیرے دامن میں فغاں ؔ لخت جگر ہے کہ نہیں
٭٭٭
اٹھ چکا دل مرا زمانے سے
اڑ گیا مرغ آشیانے سے
دیکھ کر دل کو مڑ گئی مژگاں
تیر خالی پڑا نشانے سے
چشم کو نقش پا کروں کیونکر
دور ہو خاک آستانے سے
ہم نے پایا تو یہ صنم پایا
اس خدائی کے کارخانے سے
تیری زنجیر زلف سے نکلے
یہ توقع نہ تھی دوانے سے
اے فغاں ؔ درد دل سنوں کب تک
اڑ گئی نیند اس فسانے سے
٭٭٭
اس جور و جفا سے ترے زنہار نہ ٹوٹے
یہ دل تو کسی طرح سے اے یار نہ ٹوٹے
غیروں کو نہ کر مجھ دل بسمل کے مقابل
چو رنگ لگاتے تری تلوار نہ ٹوٹے
وہ شیشۂ دل ہے کہ اسی سنگ جفا پر
سو بار اگر پھینکیے یک بار نہ ٹوٹے
رکھ قیس قدم وادئ لیلیٰ میں سمجھ کر
اس دشت محبت کا کوئی خار نہ ٹوٹے
جنبش میں نہ لا سبحۂ اسلام کو اے شیخ
نازک ہے مرا رشتۂ زنار نہ ٹوٹے
شانہ سے فغاں ؔ پھر الجھتا ہے مرا دل
اس کاکل مشکیں کا کوئی تار نہ ٹوٹے
٭٭٭
بسکہ دیدار ترا جلوۂ قدوسی ہے
دامن وصل بھی آلودۂ مایوسی ہے
ہے کہاں بوئے وفا اس دہن شیریں میں
غنچہ لب تیری زباں ہم نے بہت چوسی ہے
یار گو خون مرا مثل حنا ہو پامال
لیکن اپنے تئیں منظور قدم بوسی ہے
دل مرا خاک شگفتہ ہو چمن میں جا کر
گل میں یہ رنگ کہاں ایک تری بو سی ہے
ایک دن زلف کے منہ پر نہ چڑھی یہ کافر
یاد کاکل کو فقط شیوۂ جاسوسی ہے
وہ سجی تیغ کہ دم میں کرے لاکھوں کو قتل
کون کہتا ہے میاں تیری کمر مو سی ہے
شیخ روتا ہے اسے سن کے برہمن یکسو
پر اثر بس کہ مرا نالۂ ناقوسی ہے
چشم نمناک نے از بسکہ بجھایا اس کو
آتش عشق کہاں دل میں مگر لو سی ہے
اے فغاں ؔ عشق کہاں دل میں بقول منتؔ
ہاں یہ سچ ملنے کی خوباں سے تو اک خو سی ہے
٭٭٭
حیف دل میں ترے وفا نہ ہوئی
کیوں تری چشم میں حیا نہ ہوئی
یار نے نامہ بر سے خط نہ لیا
میری خاطر عزیز کیا نہ ہوئی
رہ گیا دور تیرے کوچہ سے
خاک بھی میری پیش پا نہ ہوئی
کٹ گئی عمر میری غفلت میں
کچھ تری بندگی ادا نہ ہوئی
دود دل تیری زلف تک پہنچے
آہ یاں تک مری رسا نہ ہوئی
چشم خوں خوار سے فغاں ؔ دیکھا
دل بیمار کو شفا نہ ہوئی
٭٭٭
ڈرتا ہوں محبت میں مرا نام نہ ہووے
دنیا میں الٰہی کوئی بدنام نہ ہووے
شمشیر کوئی تیز سی لینا مرے قاتل
ایسی نہ لگانا کہ مرا کام نہ ہووے
گر صبح کو میں چاک گریبان دکھاؤں
اے زندہ دلاں حشر تلک شام نہ ہووے
آتا ہے مری خاک پہ ہم راہ رقیباں
یعنی مجھے تربت میں بھی آرام نہ ہووے
جی دیتا ہے بوسہ کی توقع پہ فغاں ؔ تو
ٹک دیکھ لے سودا یہ ترا خام نہ ہووے
٭٭٭
عبث عبث تجھے مجھ سے حجاب آتا ہے
ترے لیے کوئی خانہ خراب آتا ہے
پلک کے مارتے ہستی تمام ہوتی ہے
عبث کو بحر عدم سے حباب آتا ہے
خدا ہی جانے جلایا ہے کس ستم گر نے
جگر تو چشم سے ہو کر کباب آتا ہے
شب فراق میں اکثر میں لے کے آئینہ
یہ دیکھتا ہوں کہ آنکھوں میں خواب آتا ہے
نظر کروں ہوں تو یاں خواب کا خیال نہیں
گرے ہے لخت جگر یا کہ آب آتا ہے
٭٭٭
عکس بھی کب شب ہجراں کا تماشائی ہے
ایک میں آپ ہوں یا گوشۂ تنہائی ہے
دل تو رکتا ہے اگر بند قبا باز نہ ہو
چاک کرتا ہوں گریباں کو تو رسوائی ہے
طاقت ضبط کہاں اب تو جگر جلتا ہے
آہ سینہ سے نکل لب پہ مرے آئی ہے
میں تو وہ ہوں کہ مرے لاکھ خریدار ہیں اب
لیک اس دل سے دھڑکتا ہوں کہ سودائی ہے
دل بیتاب فغاں ؔ امت ایوب نہیں
نہ اسے صبر ہے ہرگز نہ شکیبائی ہے
٭٭٭
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں