FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

       کُفرانِ نعمت

 

(خودنوشت)

                   نعمت خان کلانونت

                                                                                                                                      غلام  ابن سلطان

 

 

 

 

 

رسوائے زمانہ جعل سازکرگس استخوانی نے سرقہ ،چربہ او ر کفن دُزدی میں جو حربے استعمال کیے ہیں وہ نا بینا افراد سے بھی پوشیدہ نہیں۔ اپنے تخیل کی شادابی سے اس سبز قدم نے ساون کے اندھوں کو ہر طرف ہریالی اور سبز باغ دکھا کر دل کو کھنڈر کھنڈر ،روح کو زخم زخم اور دِل کو کِرچی کِرچی کر دیا ہے۔سادہ لوح لوگوں کی آنکھوں میں دھُول جھونک کر اور گھر پھُونک کر تماشا دیکھنے والا یہ متفنی غبی دو لتیاں جھاڑ کر اہلِ کمال کے پیچھے پڑ گیا ہے۔لاہور میں شاہراہِ قائد اعظم پر جامعہ پنجاب کے سامنے زمین پر بیٹھ کر ردی بیچنے والوں کا جمگھٹا ہوتا ہے۔ مفت خور لیموں نچوڑ حریص،بھاٹی کے بھاٹ اور بھٹیارے،ٹھینگا دکھانے والے ٹھگ،ہرن مینار کے زاغ و زغن ،عادی دروغ گو اور جعل سازان ردی فروشوں کے گرد کچھ نام نہاد محقق اور خود نمائی کے خبط میں مبتلا ذہنی قلاش بھی چِیل کی طرح ہمہ وقت مُنڈ لاتے رہتے ہیں اور خود ساختہ ،نادر و نایاب قدیم مخطوطوں کو تلاش کر کے اپنے سہوِ قلم سے قارئین کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں۔عام تاثر یہ ہے کہ جس طرف نگاہ دوڑائیں ،چوروں ،ٹھگوں مسترد قماش کے مسخروں اور اُچکّوں کا جھکمکّا دکھائی دیتا ہے۔ اس اندھیر نگری میں رنگو ،گھاسو،عارو،تارو اور گھونسہ نے جو گُل کِھلائے ہیں ان کی وجہ سے حرفِ صداقت کی شمع گُل کرنے کی مذموم رسم شروع ہو گئی ہے۔ سڑک کے فٹ پاتھوں پر بکھرے ان ردی بازاروں میں کوک شاستر اور قدیم مخطوطوں کی صور ت میں جو مسودات کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کیے جاتے وہ  پُشتارۂ اغلاط ہوتے تھے۔کرگس استخوانی اپنے ہاتھ کی صفائی سے اس ردی بازار سے قدیم مخطوطے اُچک لیتا ہے۔محققین یہ مسودے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور اپنی چرب زبانی سے کا ہ کو کوہ اور بونے کو باون گزا ثابت کرنے میں اس قدر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں کہ چوٹی سے ایڑی تک اُنھیں دانتوں پسینا آ جاتا ہے۔منوں کے حساب سے پُرانے اور بوسیدہ دیمک خوردہ کاغذوں پر تازہ تیار کی گئی قدیم روشنائی سے ایسی لغو تحریریں پیش کی جاتی ہیں جو کہ ان خود ساختہ محققین کی بے بصری اور کور مغزی کا ثبوت ہیں۔اس ردی بازار میں جعل سازی کا جو گورکھ دھند ا جاری ہے اس کے باعث اہلِ درد پر رقت طاری ہے۔ رنگو کباڑیا کبھی کبھی شاعری کی جُگالی بھی کر لیتا ہے۔اپنے شعر وہ مخطوطے خریدنے والوں کوزبردستی سناتا ہے۔رنگو کباڑیے کے دو شعر پیش ہیں :

کٹی ہے زیست کہاروں کے روگ میں رنگو

میری لحد پہ اُڑے بے اماں عذاب کی دھُول

 

چلتے پھرتے ہوئے سرقوں کی خرافاتیں ہیں

اب تو تحقیق فقط خذف و خرابات نظر آتی ہے

 

شاہی محلے کا مکین دھونسو خان بھی عجب کندۂ نا تراش ہے۔وہ جب کفن پھاڑ کر ہرزہ سرائی پر اُترتا ہے تو لوگ لاحول پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور اس آئی بلا کو ٹالنے کی دعا کرتے ہیں۔یہ ابلہ رواقیت کا داعی بن کر خود کو عہد مغلیہ کے شاہی خاندان کا فرد ظاہر کر کے اپنے احساسِ  کم تری کے زخم سہلاتا ،خچر کی دم کے بالوں سے تیار کی گئی وِگ کھُجاتا ، ضعفِ پیری  سے نڈھال ہونے کے باوجودسینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو کر پریوں کا اکھاڑہ سجا کر اس میں راجہ اندر بن کر ہر وقت ہنہناتا رہتا ہے۔اُس نے ایک ڈھڈو کُٹنی رذیل طوائف صبوحی سے شادی کی۔یہ جسم فروش طوائف اپنے شوہر کو چُلّو میں اُلّو بنا کر اپنا اُلّو سیدھا کر تی اور خُوب گُلچھرے اُڑاتی۔چند روز قبل یہ دونوں میاں بیوی جو دھرتی کا بوجھ بن چُکے ہیں ،شاہی محلے سے باہر نکلے اور ردی بازار میں ایک مخطوطہ فروخت کرنے کے لیے وہاں موجود ردی فروشوں سے بات کی۔رنگو کباڑیا تو ایسے متفنی سفہا اور اجلاف و ارذال کی تلاش میں رہتا ہے جو اپنے آبا کی یادداشتیں ،مخطوطے،مسودات اور مکاتیب کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کوڑا کرکٹ سمجھتے ہوئے انھیں اونے پونے داموں فروخت کر کے رفو چکرہو جاتے ہیں۔اس کے بعد رنگو اور اس کے جعل ساز ساتھیوں کی پانچوں گھی میں ہوتی ہیں۔یہ قدیم خود نوشت جو دھونسو خان اور صبوحی نے ردی فروش رنگو کے کباڑ خانے میں فروخت کی کئی لحاظ سے ناقابلِ اعتبار اور بے وقعت ہے مگر اس میں جن تاریخی واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ جہاں حُسن و رومان کا شاخسانہ ہیں وہاں عبرت کا تازیانہ بھی ہیں۔

 

اس خود نوشت کا مصنف نعمت خان کلانونت ہے۔پہلے یہ خود نوشت ’’کلانونت نامہ‘‘ کے نام سے لکھی گئی لیکن بعد میں مصنف کی نیت بدل گئی اور اس نے اس کتاب کا نام بدل کر’’کُفرانِ نعمت‘‘ رکھ دیا۔اس خود نوشت کا تعلق مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کے عہد (27فروری1712تا11فروری1713)سے ہے۔بر عظیم پاک و ہند میں مغلوں کی عظیم الشان حکومت کو بے غیرتی ،بے برکتی ،بے ضمیری ،بے ایمانی ،بے حیائی، بے توقیری ،بے حسی اور بے عملی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق کرنے کے منحوس کام کا آغاز جہاں دار شاہ (پیدائش:9مئی 1661وفات:12فروری1713)  کے عہد میں ہوا۔جب یہ راسپوٹین قماش سبز قدم قصر شاہی میں داخل ہوا تو ہر طرف ذلت،تخریب ،عیاشی ،بد معاشی،نحوست ، عریانی ،فحاشی اورسادیت پسندی کے کتبے آویزاں ہو گئے۔ شاہینوں کے آشیانوں میں اب زاغ و زغن کا بسیرا تھا۔ گلشنِ ہستی میں کرگس ،بُوم اور شپر کی فراوانی تھی۔ اس خود نوشت کا مصنف نعمت خان کلانونت اور اس کی داشتہ لال کنور قصرِ شاہی میں گھُس گئے اور یہ بد اندیش رُو سیاہ امور مملکت میں سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔متعدد حقائق خرِ اوہام کے سُموں کی گرد میں اوجھل ہو چکے ہیں۔یہ خود نوشت اُجالوں کی دسترس سے دُور تیرگی کے مانند حضر میں رہے گی۔مصنف نے اپنی رُوسیاہی اور مقدر کی تیرگی کا احوال جس چرب زبانی سے بیان کیا ہے اسے پڑھ کر مزید خرافات کی تمنا نہیں رہتی۔یہ اول فول سن کر ہر شخص توبہ استغفار کا ورد کرتا ہے۔اب ان اوراقِ نا گہانی پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو کلاونت نامہ یا ’’کُفرانِ نعمت ‘‘کی صورت میں ہمارے سامنے ایک انہونی کہانی سُنا رہے ہیں۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے کئی بیڑے بہا لے جاتے ہیں اور اس طوفانِ حوادث میں تخت و کلاہ و تاج کے بیڑے غرق ہو جاتے ہیں۔ابتدا میں مصنف نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنا حالِ زبوں بیان کیا ہے :

 

پُوچھتے ہیں سب کلانونت کون ہے

کوئی سمجھائے کہ ہم سمجھائیں کیا

کوہِ غم جو کلانونت پر ٹُوٹے

آپ گندا نواز کیا جانیں

 

چھُپ کے چھُپ کے رات دِن دولت چُرانا یاد ہے

ہم کو اب تک حاکمی کا وہ زمانہ یاد ہے

 

لاتوں اور گھونسوں کی بار ش کرنا وہ جہاں دار پر

اُس کے نتھنوں سے سدا خُوں کا بہانا یاد ہے

 

لال کنور اور زہرہ کنجڑن کا راج تھا کُل ہند پر

اور مجبوروں کے چام سے دام چلانا یاد ہے

 

مسافروں سے بھرکے کشتی کو ڈبونا جمنا میں

لال کنور اور جہاں دار کا پھر ہنہنانا یاد ہے

 

سا ز کی لے ،رقصِ مے اورحُسن کے نشے میں چُور

جہاں دار کو طبلے کی گت پہ ٹھُڈے لگانا یاد ہے

 

مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کے عہد میں شہر دہلی کے مضافات میں ایک جنگل تھا جہاں سدا منگل کی کیفیت رہتی تھی اور بُدھ کا  یُدھ قریب قریب عنقا تھا۔اس جنگل میں صاف ظاہر ہے کہ جنگل کا قانون ہی نافذ تھا۔جنگل سے دُور ویرانے میں ایک بستی تھی جسے ’’کلانونت نگر ‘‘کہا جاتا تھا۔اس بستی میں قحبہ خانے ،چنڈو خانے اور عقوبت خانے تھے۔پُورے ہند سندھ کے ڈُوم ،ڈھاری ،بھانڈ، بھڑوے  ،مسخرے ،لُچے ،شُہدے،رجلے ،خجلے،چور ،ٹھگ ،اُچکے اور بھگتے اس بستی میں آ بسے۔ یہاں کے اکثر مکینوں کا گھاس کھودنے اور کُتے گھسیٹنے پر مدار تھا۔ جنگل کی اس بستی میں مور اور مورنیاں ناچتیں اور ان کا رقص دیکھنے کے لیے دِل پھینک تماشائیوں کا تانتا بندھا رہتا۔قحبہ خانوں کے تو ڈھنگ ہی نرالے تھے یہاں شراب اور شباب کے نشے میں چُورسب مست بندِ قبا سے بے نیاز دنیا و ما فیہا سے بے خبر عیش و نشاط کی ایسی دنیا میں پہنچ جاتے جہاں فہم و ادراک اور عقل و خرد کا گُزر نہیں۔رقاصاؤں کی چال کڑی کمان کے تیر کے ما نند تھی،اُن کی چشمِ غزال کے کاری تیر اس طرح جنسی جنونی تماشائیوں کے دِل میں اُتر جاتے کہ انھیں زندگی بھاری لگتی۔سفہا اور اجلاف و ارذال نے اپنے اپنے قحبہ خانے بنا رکھے تھے۔اُس زمانے میں ہیما اور شیما نام کی دو طوائفوں کے کوٹھے تماشائیوں سے بھرے رہتے۔ سچ ہے بُوم کی اصلیت تو صرف بُوم ہی جانتا ہے چُغد کیا جانے کہ ہما کی اہمیت کیاہے۔میں (نعمت خان کلانونت)ہیما کا بیٹا ہوں جب کہ لا ل کنور کی ماں کا نام شیما تھا۔مجھے اور لال کنور کو اپنے حقیقی باپ کا نام معلوم نہیں۔ہماری ماؤں نے ہمیں اس راز سے آگا ہ نہیں کیا۔ہیما اور شیما کے قحبہ خانے نزدیک تھے۔دونوں ہم پیشہ تھیں لیکن ان کا آپس میں کوئی رشتہ ہر گز نہ تھا۔میں اورلال کنور ہم عمر تھے اور ہم نے اپنا بچپن مِل کر ہنستے کھیلتے گزارا۔لال کنور نے بہت کم عمری میں اپنا مادری پیشہ اپنا لیا اور جلد ہی بے پناہ زر و مال اکٹھا کر لیا۔ہیما اور شیما دونوں اب ضعیف ہو چُکی تھیں۔میری ماں ہیما کی ضعیفی اور علالت کے باعث ہمارے مالی حالات ابتر ہوتے چلے گئے ،شیما نے ہم پر ترس کھاتے ہوئے لال کنور کی میر ے ساتھ منگنی کر دی۔کچھ عرصہ بعد ہماری شادی بھی ہو گئی لیکن لال کنور کی کاروباری مجبوریوں کے باعث اسے پوشیدہ رکھا گیا۔ اس کے بعد وہ مسلسل ہماری مالی امداد کرتی رہتی۔لال کنور کے حُسن و جمال،رقص اور سُر تال کی ہر طرف دھُوم مچ گئی۔مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کے دربار میں میری رسائی تھی۔ ایک دن میں لال کنور کے کوٹھے پر سے دیکھ رہا تھا کہ وہ گدھے پر سوار ہو کر ایک بھکاری کا سوانگ رچا کر کلانونت نگر پہنچا۔اچانک گدھے نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور بادشاہ منہ کے بل زمین پر جا گرا۔گدھے کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور بادشاہ کو کاٹنے کے لیے اُس کی طرف دو لتیاں جھاڑتا ہوا آگے بڑ ھ رہا تھا۔میں نے وہیں سے اپنی غلیل میں غُلّہ ڈالا اور گدھے کی آنکھ کا نشانہ لیا۔غُلّہ سیدھا گدھے کی بائیں آنکھ میں پیوست ہو گیا۔پلک جھپکتے میں میری غُلیل کا دوسرا غُلّہ گدھے کی دائیں آنکھ میں جا لگا اور گدھا بینائی سے محروم ہو گیا۔اس کے با وجود وہ کاٹنے کے لیے اندھا دھند ادھر اُدھر دوڑنے اور اُچھلنے کُودنے لگا۔بادشاہ خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔میں نے ایک بڑا سا لٹھ اُٹھایا اور نیچے اُترا۔بادشاہ نے مجھے طیش کے عالم میں آگے بڑھتے دیکھا تو میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اور پھر کبھی ادھر کا رُخ نہ کرنے کا وعدہ کیا۔میں نے وہی لٹھ اُٹھایا پُوری قوت کے ساتھ گدھے کی پیٹھ پر تابڑ توڑ وار شروع کر دئیے۔ باؤلا گدھا دھڑام سے نیچے گِرا اور وہیں ٹھنڈا ہو گیا۔میری اس مہم جوئی اور ضعیف مردی کو دیکھ کر بادشاہ نے مُجھے ’’ خر افگن‘‘ کا خطاب دیا۔ دراصل مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کو لال کنور کے بے پناہ حسن و جمال کی بھنک پڑ گئی تھی اور وہ اسے ہر صورت میں حاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔میرے اور لال کنور کے تعلقات بھی اب گرم جوشی کے بعد سر د مہری کا شکار تھے۔وہ ایک قلاش عاشق کے ساتھ مزید وقت گزارنے کے بجائے ایک دولت مند احمق کو شریکِ حیات بنانا چاہتی تھی۔وہ میر ا منہ بند رکھنا چاہتی تھی اور ساتھ ہی اپنی تجوری بھی بھرنا چاہتی تھی۔جہاں دار شاہ کی صور ت میں اُسے ایک عقل کا اندھا اور گانٹھ کا پُورا شوہر ملنے والا تھا۔وہ ایک مشاطہ کی مدد سے اپنی عمر رفتہ اور بیتی جوانی کی دل کشی کی باز یافت میں بڑی حد تک کام یاب ہو گئی۔ وہ جہاں دار شاہ کو مسلسل تڑپاتی ،ترساتی اور اُس کی ہوس کو بڑھاتی۔ اُدھر لال کنور کے عشق میں دیوانہ ہو کر جہاں دار شاہ کئی بار فقیروں کا بھیس بنا کر لال کنور کے کوٹھے پر پہنچا دُور سے اس کے حسن کے جلوے اور نیم عریاں رقص کے منظر دیکھنے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ اسے دھتکار دیا گیا۔اورنگ زیب کی بیٹی زینت النسا یہ منحوس دن دیکھنے کے لیے ابھی زندہ تھی۔اس نے جہاں دار شاہ کو بہت سمجھایالیکن جہاں دار شاہ  کے سر میں تو لال کنور کے عشق کا جو خناس سمایا تھا وہ اُسے لے ڈُوبا۔ اورنگ زیب کی بیٹی نے جہاں دار شاہ سے کہا: ’’یہ تم کس راہ پہ چل نکلے ہو ؟کچھ تو اپنے بزرگوں کی عزت کا خیال کرو۔ تم شاہ عالم کے بیٹے ہو ،اس سے بہتر تو یہ تھا کہ تمھارا باپ لا ولد ہی اس دنیا سے چلا جاتا۔تمھاری شخصیت اور کردار کس قدر ابتر اور مسخ ہو چُکا ہے۔ ایک رذیل طوائف کے قدموں پر شاہی خزانے سے اس قدر زر و مال نچھاور  کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ تمھاری ذہنی صحت کے بارے میں مجھے شبہ ہے۔ لال کنور کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہ رذیل طوائف پُورے ہند ،سندھ کا مورا ہے ،پُوری دنیا کی غلاظت یہیں آ گرتی ہے۔اس سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں مگر تم ہو کہ ذہنی اور جسمانی معذور کی طرح اُس کے قدموں میں گرے پڑے ہو۔پہلے ہی تمھارے مظالم اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے ہر طرف چرچے ہیں۔رعایا کا غیظ و غضب بڑھ رہا ہے اب خدا کے قہر کو دعوت نہ دو۔خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ،وہاں دیر تو ہوسکتی ہے مگر اندھیر کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔سیلِ زماں کے تھپیڑوں سے ڈرو جو تخت و کُلاہ و تاج کے سب کروفر بہا لے جاتے ہیں۔اس عیار اور مکار طوائف نے تجھے عقل و خرد سے بے گانہ کر دیا ہے  اور اب تم اپنے شہرِ آرزو کے لُٹنے اور اس کا ماتم کرنے کے منتظر ہو۔میری مانو تم کسی حکیم سے علاج کراؤ اور لال کنور سے نجات حاصل کرو۔ ‘‘

 

دہلی کے بزرگ لوگوں کا کہنا تھا کہ جہاں دار شاہ کی آنکھ میں خنزیر کا بال ہے ،اُسے بزرگوں کی عزت و احترام اور مشورے کی کوئی پروا ہی نہیں۔اس کی بے بصری ،کور مغزی ،ذہنی افلاس اور جنسی جنون نے  اسے تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا۔ اورنگ زیب کی بیٹی کی ناصحانہ باتیں سُن کر جہاں دار شاہ پیچ و تاب کھانے لگا اور دانت پیستے ہوئے بولا: ’’   اونہہ !ذات کی کوڑھ کرلی اور شہتیروں پر چڑھائی۔کان کھول کر سُن لے بُڑھیا!اس ضعیفی میں تمھارا دماغ چل بے چل ہو چُکا ہے۔تجھے کیا معلوم کہ تاریخ کیا ہے اور تاریخ کا مسلسل عمل کیا ہوتا ہے ؟تاریخ کبھی اپنے آپ کو نہیں دہرا سکتی بل کہ ہر دور میں نئی تاریخ لکھی جاتی ہے۔مجھ سے پہلے مغل بادشاہ شاہی خزانے کی رقوم مُردو ں ،مقبروں ،باغوں ، قلعوں ،دیواروں اور میناروں پر ضائع کرتے تھے لیکن میں نے سکونِ قلب حاصل کرنے کے لیے شاہی خزانہ مُٹیاروں پر بے دریغ خرچ کیا ہے۔ایک جسم فروش رذیل طوائف لال کنور کو امتیاز محل کا لقب دے کر اسے ملکۂ ہند بنانا میری منفرد سوچ ہے ،اس سے پہلے تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ہمارے بزرگوں نے جو کچھ کیا ہمیں اس پر نادم ہونا چاہیے نہ کہ اس پر بے جا طور پر اِترائیں۔ اکبر نے انار کلی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟انار کلی کو ہلاک کرنے کے لیے دیوار کی تعمیر اور اس حرافہ کی اس میں زندہ حالت میں دیوار میں تنصیب کی کیا ضرورت تھی؟کیا اس دیوار کی تعمیر پر شاہی خزانے سے زرِ کثیر خرچ نہیں ہوا تھا ؟انار کلی جس بے دردی سے اکبر اور سلیم  دونوں کے جذبات سے کھیلتی رہی اور دادِ عیش دیتی رہی وہ بِلا شُبہ لائقِ تعزیر تھا ایک حسین و جمیل فتنے کی صورت میں اس رقاصہ نے سلطنتِ مغلیہ کی بنیادیں ہلا دیں اور بادشاہ اور ولی عہد کے درمیان ایک خون ریز جنگ بھی ہوئی۔اُس کا جُرم بِلا شُبہ لائقِ تعزیر تھا لیکن اس کا سادہ ،آسان اور کم خرچ طریقہ یہ تھا کہ انار کلی کو شیراں والا گیٹ میں موجود بھوکے شیروں کے پنجرے میں پھینک دیا جاتا۔ مسلسل چھیچھڑے اور اوجھڑی کھا کھا کر وہ شیر لا غر ہو چکے تھے  جب اُنھیں پہلی بار نرم گوشت میسر آتا تو اُن کی شیرانہ خُو بیدار ہو جاتی۔اس  اقدام سے بھُوکے شیروں کے پیٹ کا دوزخ بھی بھر جاتا اور انار کلی بھی اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ جاتی۔  دنیا جانتی ہے کہ شہنشاہ اکبر نے انار کلی کے قضیے میں انصاف کے تقاضے پُورے نہیں کیے۔تنہا انارکلی نے جنس و جنون کا یہ کھیل نہیں کھیلا تھا اس قبیح دھندے میں اکبر اور سلیم بھی برابر کے شریک تھے۔مغل افواج کے سالار مان سنگھ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ مداخلت کرتا خود عنانِ اقتدارسنبھالتا اور تینوں جنسی جنونیوں کو دار پر کھنچوا کر نئی تاریخ رقم کرتا۔اس نے بہنوئی اور بھانجے کو تو کچھ نہ کہا لیکن جب اکبر ایک بے بس رقاصہ کو عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب دھکیل رہا تھا تو خاموش تماشائی بنا رہا۔ جب اکبر نے دینِ الٰہی کا من گھڑت تصور پیش کیا تو اس وقت بھی مان سنگھ کو فوری مداخلت کرنی چاہیے تھی اور اکبر کو معزول کر کے نظامِ سلطنت کی باگ ڈور سنبھال لینے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کرنی چاہیے تھی۔اکبر کے ہر جُرم میں مان سنگھ بھی برابر کا شریک تھا۔  جرم کی یہ اعانت جنگل کے قانون کی خلاف ورزی ہے میری اعلا رائے میں مان سنگھ بھی قصور وار ہے۔سچ ہے ہاتھی کی ٹکر ہاتھی ہی سنبھال سکتا ہے ،یہاں انار کلی جیسی رقاصہ کا ہمیشہ یہی انجام رہے گا۔‘‘

 

’’تم تو بلا وجہ گڑے مُردے اُکھاڑنے لگے ہو۔‘‘زینت النسا نے کہا’’ اس وقت تم بادشاہ ہو ، اب تو تمھارا کتا بھی مرتا ہے تو شہر کا شہر خود کو سوگوار ظاہر کرتا ہے۔اُس وقت سے ڈرو جب تم خود اپنے انجام کو پہنچو گے تو کوئی آنکھ پُر نم نہ ہو گی۔ چڑھتے سورج کی پرستش کرنا دنیا کا دستور ہے۔ تمھارے ساتھ جری اور جنگ جُو ساتھی کوئی نہیں البتہ بانکے،سارنگی نوا ز اور طبلہ نواز کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ تم نے تو مغلیہ سلطنت کے وقار کو چھاج میں ڈال کر چھلنی میں اُڑانے کی ٹھان لی ہے۔ اپنی حکومت کے وقار میں اضافہ کرو اور جنسی جنون ،رقص و موسیقی،اقربا پروری اور شراب نوشی سے توبہ کرو۔تمھاری بد اعمالیاں دیکھ کر ہر شخص تمھیں گالیاں دیتا ہے۔طوائفوں کے لیے تم نے پیسا ٹھیکری کر دیا ہے۔اپنے حلوے مانڈے سے کام رکھنے والوں نے تمھیں اپنے نرغے میں لے رکھا ہے اور تم ہو کہ چکنے گھڑے بنے رہتے ہو۔ بھاٹ ،بھٹیارے اور بیسو ا کے بارے میں دانا کہتے ہیں کہ یہ سب ایسے بد ذات ہوتے ہیں کہ سدا چڑھتے سورج کی پرستش کرتے ہیں جب آزمائش کی گھڑی آتی ہے تو یہ پلٹ کر دیکھتے ہی نہیں اور پھر بات تک نہیں پُوچھتے۔یاد رکھو جب کسی پر بُرا وقت آتا ہے تو خواہ وہ اونٹ پر بھی سوار ہو ،اُسے کتا کاٹ لیتا ہے۔یہ نعمت خان کلانونت جو تمھارا مشیر بن بیٹھا ہے ،اُس کی تو لاٹری نکل آئی ہے پہلے تو یہ بھاٹ اس قدر ناکارہ تھا کہ اِس نابکار کے چھپر پر پھُونس تک نہیں ہوتی تھی مگر اب تو اس کی ڈیوڑھی پر نقارہ بجتا ہے۔یہ بہت کایاں شخص ہے ،اس سے جلدی اپنی جان چھڑاؤ۔‘‘

’’  لوگ مجھے گالیاں دیتے ہیں ،اونہہ !کُتوں کے بھونکنے سے ہاتھی کبھی نہیں ڈرتے َ۔تم نے میرا منہ کھلوایا ہے میں آج سارے گڑے مُردے اُکھاڑ کر دم لوں گا‘‘ جہاں دار شاہ کے منہ سے جھا گ بہہ رہا تھا اور وہ مثلِ گُرگ نتھنے پھیلا کر پھنکارا:

’’میں گڑے مُردے اُکھاڑ کر چلتے پِھرتے ہوئے مُردوں سے اُن کا موازنہ کروں گا۔اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔میری باتیں آج تمھیں پانی پانی کر دیں گی۔ دنیا جانتی ہے کہ مغل شہنشاہ جہاں گیر نے نور جہاں حاصل کرنے کے لیے اُس کے شوہر شیر افگن کو مروا ڈالا لیکن میں نے لال کنور کو حاصل کرنے کے لیے اس کے شوہر خر افگن کو ملتان کا صوبے دار مقر کر دیا جہاں وہ خُوب گُلچھرے اُڑا رہا ہے اور مزے سے مُلتانی سوہن حلوے کھا رہا ہے۔لال کنور اور خر افگن میں علاحدگی کیوں ہوئی یہ اُن کا ذاتی معاملہ ہے۔ جہانگیر نے ایک خارش زدہ ہرن کی ہلاکت پر اسے شیخوپورہ کے قریب دفن کر کے ہرن کی قبر پر ہرن مینا ر تعمیر کرایا۔ کیا یہ دُکھی انسانیت کے ساتھ مذاق نہیں ؟ اس ہرن کوکسی ویرانے میں پھینک دیا جاتا جہاں اُسے زاغ و زغن نوچ کھاتے تو اس طرح بچت بھی ہوتی اور ماحولیاتی آلودگی سے نجات بھی مِل جاتی۔جہانگیر کی موت کے بعد اس کی لاہور میں تدفین کے لیے اتنے بڑے مقبرے پر دولت خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟  مر مریں قبور کے اندر بادشاہ اور شہزادیاں تہہ ظُلمات پڑے ہیں جہاں اُن کے بدن ملخ و مُور کے جبڑوں میں ہوتے ہیں۔لاہور میں مغل شہنشاہ جہاں گیر کی بیوی نُور جہاں کا مقبرہ مقام عبرت ہے ،جہاں دِن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں ہے۔ شاہ جہان نے مُلکی خزانے کو اپنی بیوی ممتاز محل کی قبر کی تعمیر پر بے دریغ لُٹایا اور تاج محل تعمیر کرایا۔ ہر شہر میں قلعے اور باغات تو تعمیر کر دئیے گئے لیکن مفلس و قلاش لوگوں کی کُٹیا کے مکین سدا محرومیوں کا شکار رہے۔انھوں نے محض اس ڈر سے رعایا کو جاہل رکھا کہ کہیں یہ اپنے حقوق کی بات نہ کرے۔تعلیمی ادارے بنانے کے بجائے قبریں ،محل ،سڑکیں اور باغات بنائے۔بوسیدہ کھنڈرات پرتو توجہ دی مگر ٹُوٹے دلوں کی تعمیر کا کسی کو خیال ہی نہ آیا۔ساری دنیا بدل گئی ،فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی لیکن اہلِ وفا اور الم نصیبوں کے حالات جو ں کے توں رہے۔ بے ضمیروں کے وارے نیارے رہے جب کہ قسمت کے مارے آلام روزگار سے ہارے رہے۔سوچنے کی بات ہے کیا ممتاز محل کے لیے ایک دور افتادہ شہرِ خموشاں میں ایک خام لحد کافی نہ تھی۔اورنگ زیب نے اپنے باپ شاہ جہاں کو قید میں کیوں رکھا؟کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے ماضی کے حاکم قبروں اور باغوں کے بجائے جامعات بناتے تا کہ رعایا میں ذہنی بیداری پیدا ہوتی۔

 

’’تم نے کون سا فلاحی کام کیا ہے ؟‘‘زینت النسا نے غصے سے کہا ’’تم نے موری کی اینٹ کو قصرِ شاہی میں لگایا۔کلاونت نگر کی ہر کنچنی اور کسبی طوائف شاہی محل میں گھُس گئی ہے۔وہاں کا ہر ڈُوم گندھراب بن بیٹھا ہے اور تم راجا اندر بنے شراب اور شباب کے نشے میں دھت پریوں کے اکھاڑے میں رنگ رلیاں منا رہے ہو ۔ قحبہ خانے کی رسوائے زمانہ رذیل جسم فروش طوائف لال کنور کی سہیلی زہرہ کنجڑن اور اس کی ہم جولی طوائفیں اب عملاً حکومت کی باگ ڈورسنبھال چُکی ہیں۔اس اندھیر نگری میں چوپٹ راجے کو اپنی اُنگلیوں پر نچا رہی ہیں اور رعایا کی اُمیدوں کی فصل غارت ہو گئی ہے اور ان کی صبح  و شام کی محنت اکارت چلی گئی ہے۔‘‘

’’بس کر و بُڑھیا !اب اس سے آگے ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالنا ‘‘جہاں دار شاہ نے غراتے ہوئے کہا ’’جب گدھوں سے ہل چلنے لگیں تو بیل پالنے کی کیا ضرورت ہے۔ اب تو لال کنور اوراس کا خاندان ہی میرے لیے واحد سہارا ہے۔میرے اقتدار کی گرتی ہوئی دیوار لا ل کنور اور اس کے آشناؤں کے سہارے کھڑی ہے اس لیے اب میری ہر خوشی اُن سے ہے۔لال کنور پر مرنا ہی میری زندگی ہے۔اس عشق میں مجھے ہر رسوائی گوارا ہے۔میں تو چاہتا ہوں کہ گلیاں اور بازار سُونے ہو جائیں اور ان میں لال کنور ،اس کی سہیلیاں بندِ قبا سے بے نیاز رقص کرتی پھریں۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ لال کنور کا تعلق دو پہر بیاسی خاندان سے ہے۔ دو پہر بیاسی خاندان کی طوائفوں نے رقص ،عریانی ،فحاشی اور جسم فروشی میں سب کو مات دے دی۔ ان رقاصاؤں نے اپنے اپنے کوٹھوں پر بڑے بڑے شکار کیے ہیں۔اب اس کے خاندان کے لوگ ہی امور مملکت چلائیں۔میں لال کنور کے نام کی مالا جپتے جپتے خاک ہو جاؤں گا۔میں تو اُس کے عارض کو دیکھ کر جیتا ہوں اور عارضی میری زندگانی ہے۔‘‘

 

زینت النسا دامن جھاڑ کر مایوسی کے عالم میں وہاں سے چلی گئی۔جہاں دار شاہ نے شراب اور شباب سے اپنا تعلق پُختہ کر لیا۔وہ ہر وقت نشے میں دھت رہتا۔قصرِ شاہی میں رقص و سرود کی محفلیں ہوتیں اور ڈُوم فرش پر گرے بادشاہ کو زور زور سے ٹھُڈے مارتے۔

 

ایک دن جہاں دار شاہ شراب کے نشے میں چُور لڑکھڑاتا ہوا لال کنور کے کوٹھے پر پہنچا۔شاہی حفاظتی دستے نے قحبہ خانے کو اپنی تحویل میں لے لیا۔چوب دار نے اعلان کیا : ’’بے ادب ،بے ملاحظہ،شرم سار!نگاہ بر خُوب رُو!ظلِ تباہی،وارثِ تختہء دار شہنشاہِ  ہند،عالم فنا جہاں دار شاہ آج سرِ راہ تشریف لاتے ہیں اور قحبہ خانے کی زینت میں اضافہ فرماتے ہیں۔‘‘

 

جہاں دار شاہ کی آمد کا یہ مجنونانہ اور احمقانہ اعلان سُن کر وہاں موجود سیکڑوں لوگوں میں کھُسر پھُسرشروع ہو گئی۔اکثر لوگ اس بات پر متفق تھے کہ ایک عادی دروغ گو ،شرابی، مخبوط الحواس ،فاتر العقل اور جنسی جنونی درندہ جو اپنے تمام حقیقی بھائیوں کو ٹھکانے لگا کرمسندِ حکومت پر غاصبانہ طور پر قابض ہو گیا ہے ،اس سے سنجیدگی کی توقع ہی عبث ہے۔یہ وقت کا ایک سانحہ ہی تو تھا کہ ایک جاہل اپنی جہالت کا انعام پا کر زندگی کی اقدارِ عالیہ اور ماضی کی درخشاں روایات کو روندتے ہوئے ایک جسم فروش رذیل طوائف کے کوٹھے پر دادِ عیش دینے نہایت ڈھٹائی سے آ دھمکا تھا۔ راسپوٹین قماش مسخرے جہاں دار شاہ کے بارے میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی بیزاری ،نفرت ،حقارت اور غصے کے جذبات کو محسوس کرتے ہوئے چوب دار غرایا:  ’’ردِ ادب!سب اپنے منہ اور آنکھیں بند رکھیں۔اگر کسی نے اس واقعے پر اُنگلی اُٹھائی تو اس کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں گے،اگر کسی نے لب کشائی کی حماقت کی تو وہ باقی زندگی کے لیے گونگا کر دیا جائے گا،اگر کسی نے قدم آگے بڑھا یا تواُسے شمشیر کے وار سے لنگڑا کر دیا جائے گا۔شاہی فرمان ہے کہ رعا یا کا کوئی فرد سر اُٹھا کر نہ چلے ورنہ ہر اُٹھنے والا سر بہ زورِ شمشیر گرا دیا جائے گا اور دھڑ کر گسوں کی غذا بنے گا۔عاشقوں کی راہ میں جو دیوار بنے گا اُس کا جانا ٹھہر گیا ہے،وہ زندہ نہیں رہے گا۔‘‘

 

یہ اعلان سُنتے ہی سب حاضرین نے لبِ اظہار پر پانچ دائروں والے تالے لگا لیے ا ور اپنے ضمیر کو ان دائروں کے مدار میں مقید کر لیا۔ یہ دائرے بے حسی ،بے غیرتی ،بُزدلی ،بے ضمیری اور بے حیائی کے تھے۔کلانونت نگری کا ہر مکین اس انہونی پر حیرت زدہ تھا اور حسرت و یاس کی تصویر بنا آئینہ ء ایام میں مجبوروں کے چام کے دام چلانے والوں کی یہ ادا دیکھنے پر مجبور تھا۔ بابر،ہمایوں اکبر ،جہاں گیر اور شاہ جہاں کے تخت پر بیٹھنے والا مغل شہنشاہ ایک جسم فروش رذیل طوائف کی چو کھٹ پر اس طرح ناک رگڑنے آ پہنچے گا یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ یہاں کی ہر طوائف کو اپنے حسن و جمال پر بہت گھمنڈ تھا لیکن ایک بات پرسب متفق تھیں کہ کوئی بھی طوائف جسمانی کشش، فحاشی ،رقص ،سُراورتال میں لال کنور کی گرد کو بھی نہیں پہنچتی۔ جنسی جذبات کو بر انگیختہ کرنے کے مکروہ دھندے میں لال کنور ناز و ادا اور عریانی کے حربے بڑی مکاری سے استعمال کرتی۔جہاں دار شاہ کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ نا ہنجار اپنی سلطنت میں فہم و  ادراک اور ذہن و ذکاوت کے پیچھے لٹھ لیے پھرتا تھا اور بر ملا کہتا تھا کہ وہ مقامات عقل پر فائز اہلِ کمال کی عزت و تکریم کو تہس نہس کر کے دم لے گا۔ایک سہ پہر جہاں دار شاہ سیدھا لال کنور کے کوٹھے پر پہنچا اور جھک کر اس طوائف کو سلام کیا۔لال کنور نے بیٹھے بیٹھے سلام کا سر سری انداز میں جواب دیا۔جہاں دار شاہ نے اپنی آنکھیں مل کر لال کنور کو دیکھا ،پھر ہاتھ ملنے لگا کہ اب تک وہ اس حسین ساحرہ کے حُسن کے جلووں سے کیوں محروم رہا۔اس موقع پر جہاں دار شاہ نے کہا:

 

’’یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ؟تم عورت ہو یا پرستان سے اُترنے والی کوئی پری!حُسنِ بے پروا کے یہ جلوے دیکھ کر میری آنکھیں چُندھیا گئی ہیں۔میں اپنی زندگی کی پچاس خزائیں دیکھ چُکا ہوں۔آج پہلی بار دِل کی کلی کھلی ہے۔اے حسین جسم فروش طوائف اور رقاصہ اس دنیا کے آئینہ خانے میں تم نے تو مجھے تماشا بنا دیا ہے۔کون کہتا ہے تم محض ایک جسم فروش طوائف ہو ،تم تو کوٹھے پر آنے والوں کے جسم و جاں کو بن مول خرید لیتی ہو۔آج سے میں بھی تمھارا غلام ہوں۔‘‘

 

’’کنیز پری نہیں ایک جسم فروش طوائف اور رقاصہ ہے ‘‘لال کنور نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا’’ جب میں دس سال کی تھی تو قحبہ خانے میں اپنی ماں کے ساتھ اس دھندے میں ایسی اُلجھی کہ پھر اس گورکھ دھندے سے کبھی نہ نکل سکی۔اب تو اس دلدل میں چالیس سال بیت گئے۔کوئی محرم نہ ملا جسے حالِ دل سناؤں۔میں اب تک اپنی بے ثمر زندگی کی پچاس خزائیں دیکھ چکی ہوں لیکن دل کے گلشن میں کبھی بہار نہ آئی۔جس طرح پھولوں سے رس چُوسنے والے  بھنورے نرم و نازک کلیوں کا رس چُوس کر لمبی اُڑان بھر جاتے ہیں یہی سلوک ہر جسم فروش طوائف سے ہوتا ہے۔میرے مقدر کا یہ المیہ میرے لیے سوہانِ روح بن چُکا ہے۔اب تو جرسِ  گُل بھی میرے لیے تازیانۂ عبرت بن گئی ہے۔‘‘

 

’’خوب !تم بو لتی ہو تو تمھارے منہ سے پھُول جھڑتے ہیں ‘‘جہاں دار شاہ نے لال کنور کو تھپکی دیتے ہوئے کہا’’ ہم دونوں پچاس سال کے ہیں ،یہ ایک اچھا شگون ہے۔اب ہمارے نصیب بھی ایک جیسے ہو جائیں گے۔ہم تم ہوں گے اور شاہی محل ہو گا ہر حاسد چُلّو بھر پانی میں جل تھل ہوگا  اور حبس میں سار جنگل ہو گا۔‘‘

 

’’اس قسم کی جھُوٹی تسلیاں سُن سُن کر اب میں سرابوں سے نکلنے کے لیے شرابوں کی رسیا بن گئی ہوں ‘‘لال کنور نے جہاں دار شاہ کے شانوں پر پیشہ ور طوائف کے انداز میں سر رکھ کر نتھنے پھیلا کر کہا’’ میرے اس کوٹھے پر کئی شاہ زادے ،منصب دار،تاجر،سرمایہ دار اورحُسن کے پرستار دیوانہ وار آئے،مجھے سبز باغ دکھائے،رنگ رلیاں منائیں اور پھر ایسے گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ان کے گلشن میں نسیم بھی ہے اور صبا بھی لیکن میرے دل میں خزاں نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔قریۂ دل میں جدھر دیکھو اُمیدوں ،اُمنگوں اور خوابوں کی راکھ بکھری پڑی ہے۔‘‘

 

’’  میں اپنے ہاتھوں سے جھاڑو دے کر یہ راکھ صاف کروں گا۔ میں تمھیں سونے کے ترازو میں تولوں گا اور کچھ نہ بولوں گا۔ کئی حاکم تسمہ کش ہوتے ہیں لیکن میں تمھارے دل کی نگری کا جاروب کش ہوں ،میری یہاں آمد طلوعِ صبحِ عیاراں کا فرمان اور میرا ذاتی ہذیان سمجھو۔‘‘جہاں دار شاہ نے لال کنور کے قدموں میں اپنا سر رکھتے ہوئے کہا ’’میں زندگی بھر تمھارا غلام رہوں گا۔آج سے تم ملکۂ ہند ہو اور تمھارا لقب ’’امتیاز محل ‘‘ہو گا۔تم قصر شاہی میں رہو گی سالانہ دو کروڑ روپے تمھیں ذاتی جیب خرچ ملے گا اس کے علاوہ سارا شاہی خزانہ بھی تمھارے تصرف میں رہے گا۔ زر و جواہر کے ڈھیر تمھارے قدموں پر نچھاور کر دئیے جائیں گے۔تمھارا سارا خاندان بلند ترین مناصب پر فائز ہو گا۔ شادی کے بعد ہر شاہی فرمان تمھاری اجازت سے جاری ہوگا۔اب جلدی کرو میرے ساتھ چلو اور ہند کی بے بس و لاچا ر رعایا کا کام تمام کرنے میں میری مدد کرو۔‘‘

 

یہ کہہ کر جہاں دار شاہ آگے بڑھا اور لال کنور سے لپٹنے کی کوشش کی دفعتاً لال کنور پیچھے ہٹی اور خراباتی جہاں دار شاہ منہ کے بل زمین پر جا گرا اور بے سُدھ ہو گیا۔اس کے سر پر رکھے تاج کے نیچے بطانہ میں بھاری رقم اور زر و جواہر چھُپے تھے۔لال کنور نے سب کچھ اُچک لیا اور کچھ دیر بعد وہ جہاں دار شاہ کے سامنے بیٹھی ٹسوے بہا رہی تھی۔ جہاں دار شاہ  نے لال کنور کو اپنی آغوش میں لے لیا اور اس کی اشک شوئی اور اپنی جذباتی تسکین کی صور ت تلاش کر لی۔لال کنور اب بطانے کے دانے پر لگ گئی تھی اس کے بعد اس نے جہاں دار شاہ کو اپنی انگلیوں پر نچایا اور اپنی من مانی کی او راب وہ قصرِ شاہی میں جا پہنچی۔ لال کنور کے ساتھ باضابطہ شادی کے بعد پہلے ہی دن جہاں دار شاہ نے نئی ملکۂ ہند امتیاز محل (لال کنور )سے پُوچھا:

 

’’اس وقت تم پورے ہند کے سیا ہ وسفید کی مالک ہو۔کوئی ایسی خواہش جو اب تک پُوری نہ ہو سکی ہو یا کوئی ایسی آرزو جس کی تکمیل کی تمنا تمھارے دل میں ہو۔‘‘

 

’’ایک حسین منظر دیکھنے کی تڑپ میرے دل میں ہمیشہ رہی ہے ‘‘لال کنور نے آہ بھرکر کہا ’’ میں نے آج تک مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی کشتی د ریا میں ڈُوبتی نہیں دیکھی۔‘‘

 

’’یہ بھی کوئی اتنی بڑی خواہش ہے جس کی تکمیل کی تمنا تمھیں بے قرار رکھتی ہے ‘‘جہاں دار شاہ نے کہا’’ میں رعایا کی محض ایک کشتی نہیں بل کہ پُوری مملکت کا بیڑا غرق کر سکتا ہوں قومی مفادات کو پسِ پُشت ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل ہر دور میں حکم رانوں کا وتیرہ رہا ہے۔میں بھی اپنے وقت کا نیرو ہوں روم جلتا ہے تو جلتا رہے مجھے تو بانسری پر دیپک راگ ہی الاپنا ہے‘‘

 

’’پھر جلدی کریں آج شام سے پہلے مجھے دریا میں مسافروں سے بھری کشتی ڈُوبنے کا دل کش منظر دکھانے کا انتظام کریں۔‘‘ سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا لال کنور کی آنکھوں میں درندگی کی منحوس چمک پیدا ہو گئی اور وہ کہنے لگی ’’کشتی میں ہر عمر کے مسافروں کی بڑی تعداد سوار کرائی جائے اور ڈُوبنے والوں کو بچانے والا کوئی نہ ہو۔ میں آج شام کا کھانا ڈُوب کر مرنے والوں کی چیخ پُکار سن کر کھاؤں گی۔‘‘

 

دو پہر کا وقت تھا لال کنور اور زہر کنجڑن کی فرمائش پر جہاں دار شاہ نے دریائے جمنا کے دوسرے کنارے پر ایک شاہی دعوت کا انتظام کیا۔آن کی آن میں خانسامے پنا سامان لے کر وہاں پہنچ گئے اور  ٓٓآ میں  زردہ اور پلاؤ تیار کر نا شروع کر دیا۔زردے میں گُڑ ڈالا گیا اور پلاؤ میں اونٹ کا گوشت ڈالا گیا۔ یہ کھابا تو صرف رعایا کے لیے تھا  جب کہ شاہی خاصے میں ہرن ،تیتر،بٹیر ،مچھلی اور مرغ کے مرغن کھانے شامل تھے۔لال کنور ،زہرہ کنجڑن اور ان کی ہم جولی طوائفیں ایک کشتی میں سوار ہو کر وہاں پہنچ گئیں۔پریوں کا اکھاڑہ سج گیا تو جہاں دار شاہ بھی راجا اندر کے روپ میں وہاں پہنچ گیا۔وہ ہر طوائف سے ملتا ،اس سے ہاتھ ملاتا اور خُوب ہنہناتا پھرتا تھا۔

 

اچانک ایک بڑی کشتی دریائے جمنا میں نمو دار ہوئی جس میں مسافروں کی کثیر تعدادسوار تھی۔اس کشتی میں امرا ،غربا، بُوڑھے ،جوان ،بچے ،عورتیں ،مرد ،بیمار اور خواجہ سرا سب شامل تھے۔جب یہ کشتی دریا کے درمیان پہنچی تو جہاں دار شاہ نے ہاتھ کو زمین کی طرف کیا اور ملاحوں کو چلّا کر یہ حکم دیا: ’’کشتی کو دریا کی منجدھار میں لے جا کر غرقاب کر دو۔‘‘

 

’’جو حکم ظلِ تباہی‘‘ یہ کہ کر ملاحوں نے شاہی حکم کی تعمیل میں کشتی دریائے جمنا کی مہیب طُوفانی لہروں کے گرداب میں ڈبو دی اور خود مشکوں کے ذریعے تیر کر کنارے تک آ پہنچے۔  جہاں دار شاہ نے ملاحوں کو شاباش دی اور لال کنور نے بھی ملاحوں کی مہارت کی بہت تعریف کی۔یہ قیامت کا منظر تھا ہر طرف شور برپاتھا َ ’’بچاؤ۔۔بچاؤ ‘‘کی درد ناک آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ایک طرف بے بس انسانیت سسک رہی تھی، زندگی ختم ہو رہی تھی او ر آہیں دم توڑ رہی تھیں تو دوسری طرف بے حس درندے قہقہے لگاتے کھانے پر ٹُوٹ پڑے۔ جب درندے اپنے پیٹ کا دوزخ بھر چُکے تو ڈُوبنے والی کشتی کے قسمت سے محروم مظلوم انسانوں کی چیخ پُکار ختم ہو چکی تھی اور سب عدم کی وادیوں کوسدھارچکے تھے۔  یہ لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور جان لیوا سانحہ دیکھ کر لال کنور خوشی سے پھول کر کُپا ہو گئی اور جہاں دار شاہ سے کہا: ’’آج کی ضیافت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔آج بہت مزہ آیا ، ڈُوبنے والوں کی چیخ پُکار اور رقاصاؤں کے پیروں میں بندھی پائل کی جھنکار نے سماں باندھ دیا۔ثابت ہو ا کہ رقص تو چیخ کو سُن کر بھی کیا جا سکتا ہے۔رقاصاؤں کو تو اپنے رقص کی جولانیوں سے کام ہوتا ہے۔کسی نے بھی ڈُوبنے والوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا جرسِ گُل بھی اس منظر کو دیکھ کر محوِ  حیرت تھی۔‘‘

 

جہاں دار شاہ بولا ’’اس قسم کی ضیافتیں اب کثرت سے ہوں گی۔ اگر ملکۂ عالیہ کا حکم ہو تو روز اسی طرح کشتی ڈبو دی جائے ،ہمیں تو تمھاری خاطر مقدم ہے۔‘‘

 

اس گئے گزرے زمانے میں بھی لال کنور کے پرستاروں میں کمی نہ آئی۔لال کنور کا وتیرہ تھا کہ وہ ہمیشہ گھی سے بھرے کُپے کے ساتھ جا لگتی اس طرح اُس کی سدا پانچوں گھی میں رہتیں۔میں ملتان کیا پہنچا سداتفکرات میں گِھرا رہتا۔اگرچہ میں بہت با رعب تھا لیکن اس نوکری نے مجھے خاک روب سے بھی بد تر بنا دیا۔دہلی میں تھا تو لال کنور کو آنکھ بھر کر دیکھنے کا موقع مِل جاتا تھا،جب کہ ملتان میں گرد ،گرما، گدا اور گورستان کے سوا کچھ نہ تھا۔حقیقت یہ ہے کہ میں اس شہر میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔دہلی میں مجھ جیسے منصب داروں کے بارے میں لوگ بر ملا یہ کہتے تھے کہ اقتدار کے اصطبل میں اب گھوڑے عنقا ہیں ،اب تو خر ،خچر اور استر ہی راج کر رہے ہیں۔ تخت دہلی کی طرف سے اپنی توہین ،تذلیل ،تضحیک ،بے توقیری اورمسلسل شکستِ دِل کے باعث میں علیل رہنے لگا۔ میں نے اپنے چارہ گر اور مسیحا کو بتا دیا تھا کہ لال کنور کے ہجر میں گھُل گھُل کے میں مُو سا ہو گیا ہوں۔میری کوئی امید بر نہیں آ رہی تھی اور نہ ہی لال کنور سے ملنے کی کوئی صورت نظر آ رہی تھی۔ جہاں دار شاہ کے ساتھ شروع میں تو میرا وقت اچھا گُزرا اس کے بعد جلد ہی اُسے معلوم ہو گیا کہ میں بھی لال کنور کا شیدائی ہوں۔اسی وجہ سے وہ مجھ سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔جہاں دار شاہ اور میں نے اخلاقی اقدار اور درخشاں روایات کی پامالی  میں جس بے بصری ،بد ذوقی اور کو ر مغزی کا مظاہرہ کیا ،اُس کی مہذب معاشرے میں کوئی مثا ل نہیں ملتی۔جہاں دار شاہ اور میں نے جس حسینہ کو چاہا اپنا لیا ،جو مہ جبیں دل کو بھائی اسے فی الفور دل میں بسا لیا۔جو بھی نشہ ملا وہ استعمال کیا۔جنس و جنوں کا جو بھی انداز سُوجھا اُسے بے دریغ اختیار کیا۔ہمیں کسی کے خوش یا ناخوش ہونے کی مطلق پروا نہ تھی۔اپنے منہ میاں مٹھو بننا اور اپنا اُلو سیدھا کرنا ہمارا وتیرہ تھا۔جنس اور جذبات کے سیلِ رواں میں ہماری کشتیِ جاں ہچکولے کھانے لگتی اور ہمیں کچھ نہ سُوجھتا۔جہاں دار شاہ کی کم عقلی کا یہ حال تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ جنس اور جذبات اور حُسن و رومان کے قدیم تصورات اب فرسودہ ہو چُکے ہیں۔ جب دل کو قرار ہوتا ہے تب ہی تیوہار منانے کی سُوجھتی ہے۔اُس کا خیال تھا کہ حُسن کی ہر صورت ایک دعوتِ عام کی حیثیت رکھتی ہے۔میرے ساتھ اس کے اختلافات رفتہ رفتہ بڑھنے لگے۔در اصل ایک جذبہء رقابت تھا جس کی وجہ سے ہم دونوں میں ایک ایسی خلیج پیدا ہو گئی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ایک وقت ایسا آیا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ سلوتریوں سے سُنا تھا کہ گدھے کا ماس کاٹنے کے لیے کُتے کے دانت درکار ہیں۔میں نے جہاں دار شاہ کا تختہ اُلٹنے کے لیے ایک مغل شہزادے فرخ سیر سے رابطہ کیا۔  وہ میری بات سن کر پھڑک اُٹھا ،ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ پہلے ہی تیار بیٹھا تھا۔میں نے ہمدم دیرینہ بادشاہ گرسادات با رہہ کے سر براہ حسین علی کو اپنے اور فرخ سیر کے عزائم سے آگاہ کیا۔وہ بولا : ’’میں وہ ہوں جس شہزادے کو جُوتا ماروں وہ بادشاہ بن جاتا ہے‘‘

 

میں نے کہا ’’اس بار تو اپنے کفش کا ہما فرخ سیر کے سر پر بٹھا دو،اس سے بہتوں کا بھلا ہو گا۔سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک پھر سے آ ملیں گے۔لال کنور جب عیاش شوہر سے نجات حاصل کر لے گی تو پھر اپنے پُرانے آشناؤں کی طرف بھی توجہ دے گی۔‘‘

 

حسین علی نے میری آہ و زاری سُن کر کہا:’’  میں توسیاسی شطرنج کے مہرے بدلنے کا ماہر ہوں۔عشق کی بازی میں تو جاں تک بھی داؤ پر لگائی جاتی ہے،اس لیے یہ بازی کھیلنا میرے بس سے باہر ہے۔تمھاری خواہش اور فرخ سیر کی ہوس جاہ و منصب کی تسکین کے لیے جہاں دار شاہ کو ٹھکانے لگا کر اُس کی جگہ ایک نئی کٹھ پتلی کی صورت میں فرخ سیر کو تو تختِ  شاہی پر بٹھایا جا سکتا ہے مگر جہاں دار شاہ کی ملکہ لال کنور کو کسی اور عاشق کی آغوش میں ڈالنا میرے لیے نا ممکن ہے۔‘‘

 

میں نے کہا ’’تم جہاں دار شاہ کو میرے راستے سے ہٹا دو باقی کام میں اپنی قسمت پر چھوڑتا ہوں۔اگر لال کنور کے دل میں میرے ساتھ گزارے ہوئے شب و روز، بچپن کی محبت ،جوانی کی ترنگیں ،شباب کے پر کیف لمحات اور خلوت میں گزرنے والے پر کیف لمحات کی یاد باقی ہو گی تو وہ بیوگی کی چادر اوڑھے کچے دھاگے سے کھنچی  میرے پاس چلی آئے گی۔‘‘

 

خفیہ طور پر طے شدہ منصوبے کے مطابق فروری 1713میں فرخ سیر کی فوج کی یلغار کے سامنے جہاں دار شاہ کے بانکے ،کلاونت ،ڈُوم اور مسخرے ٹھہر نہ سکے اور دُم دبا کر بھاگ نکلے۔جہاں دار شاہ اور اس کے معتمد ساتھی ذوالفقار خان نے بھیس بدل کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن فرخ سیر کے سپاہیوں نے ان بُزدلوں کو دبوچ لیا اور ان کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔جب فرخ سیر فاتحانہ انداز میں قصرِ شاہی میں داخل ہوا تو ہاتھی پر بیٹھے جلاد نے جہاں دار شاہ کا سر نیزے کی نوک پر بلند کر رکھا تھا۔جہاں دار شاہ کا دھڑ ایک اور ہاتھی کی دُم سے بندھا زمین پر گھسٹتا چلا آ رہا تھا۔تیروں سے چھلنی ذوالفقار خان کی لاش تیسرے ہاتھی کی دُم سے بندھی تھی ،زمین پر مسلسل گھسٹنے کی وجہ سے یہ لاش بُری طرح مسخ ہو چُکی تھی۔ لال کنور نے پہلے ہی حالات کی سنگینی کا اندازہ لگا رکھا تھا اس نے زر و مال اور جواہر سے بھری ہوئی اپنی گٹھڑی بغل میں دبائی اور چادر اوڑھ کر فرار ہونے کے لیے باہر لپکی۔فرخ سیرکے حفاظتی دستے کے مسلح سپاہیوں نے اس مکار جسم فروش طوائف کو پہچان لیا اور اس سے گٹھڑی چھین کر ایک طرف دھکا دیا۔ نیم عریاں لباس پہنے لال کنور زمین پر منہ کے بل بے سُدھ گری پڑی تھی۔فرخ سیر کی فوج کے ہاتھیوں کی ایک قطار اُسے روندتی ہوئی آگے نکل گئی۔

 

میں وہاں سے فرار ہو کر تھر تھر کانپتا ہوا صحرائے تھر میں پہنچا اور زندگی کے باقی دن تارک الدنیا سادھو بن کر گُزارنے کا فیصلہ کر لیا۔

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید