فہرست مضامین
کفار سے مشابہت
فضیلۃ الشیخ طاہر آصف حفظہ اللہ
مشابہت کا مفہوم
لغوی اعتبار سے لفظ ’’التشبہ‘‘ مشابہت سے ماخوذ ہے اور مشابہت نام سے مماثلت، نقل، تقلید اور پیروی کا۔ نیز مشابہت سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آپس میں ملتی جلتی ہوں لہذا جب یہ کہا جائے کہ فلاں نے فلاں کی مشابہت اختیار کی تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی نقل اور پیروی اختیار کر کے اس جیسا ہو گیا۔
ایسی مشابہت جس سے قرآن و سنت میں ممانعت آئی ہے۔ کفار کے عقائد و عبادات یا ان عادات و اطوار میں مشابہت جو ان کی پہچان ہیں کسی طرح جائز نہیں اسی طرح معاشرے کے غیر صالح افراد سے مشابہت بھی ناجائز ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں ۔ جیسے بدکار، فاسق و فاجر اور جہلاء وغیرہ اسی طرح وہ بدو گنوار بھی اس زمرے میں آتے ہیں جن کے دلوں میں ایمان پوری طرح راسخ نہیں ہوا ان کی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔
مشابہت کے باب میں یہ قاعدہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ چیزیں مشابہت کے ضمن میں نہیں آتیں جن کا تعلق کفار کے عقائد، عبادات یا عادات وغیرہ سے نہیں یا وہ چیزیں جو ان کی پہچان یا ان کے ساتھ خاص نہیں وہ باتیں بھی جو کسی شرعی حکم کے خلاف نہیں اور نہ ان کے کرنے سے کسی فتنہ و فساد پھیلنے کا ڈر ہے۔
کفار کی مشابہت سے کیوں منع کیا گیا ہے؟
ابتدائی طور پر ہمیں اسلام کا یہ اصول سمجھ لینا چاہیے کہ دین کی بنیاد تسلیم و رضا اور اطاعت پر ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت۔ اطاعت نام ہے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کا۔ اللہ کے احکام کی بجا آوری اور منع کی گئی چیزوں سے اجتناب اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مکمل اتباع و پیروی کا۔ جب یہ اصول ہم نے سمجھ لیا تو پھر ایک مسلمان کو چاہیے کہ:
٭ ہر اس بات کے سامنے سر تسلیم خم کر دے جو رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ہو۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت اور احکام کی تعمیل کرے جن میں سے سے ایک مشابہت کفار سے اجتناب کا حکم ہے۔
٭ جب ایک مسلمان تسلیم و رضا کے ساتھ مطمئن ہو جائے، اللہ تعالی کی بیان کردہ اور عطا کی ہوئی شریعت پر مکمل اعتماد اور کامل یقین کے ساتھ اطاعت بجائے تو پھر اس کے لیے جائز ہے کہ وہ شرعی احکام کی وجوہات، اسباب اور حکمتیں تلاش کرے۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کفار کی مشابہت سے روکنے کے لئے بہت سارے اسباب ہیں اور ارباب عقل و دانش اور خوش فطرت لوگوں کو ان سے اکثر کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔
٭ کفار کے تمام اعمال کی بنیاد گمراہی اور فساد پر ہے: کفار کے اعمال کے متعلق یہ ایک طے شدہ اصول کہے کہ ان کے اعمال آپ کو پسند آئیں یا آپ انہیں ناپسند کریں ۔ وہ اعمال بظاہر فتنہ انگیز ہوں یا فساد ان کے باطن میں چھپا ہوا ہو۔ ان کے اعمال کی بنیاد بہر حال گمراہی، انحراف اور فساد پر ہی ہے۔ ان کے عقائد ہوں یا عادات و عبادات عام طور اطوار ہوں یا جشن و تہوار۔ یہ سب کے سب خیر و بھلائی سے یکسر خالی ہیں ۔ فرض کریں ان میں کوئی اچھی بات ہو بھی تو ان کے لئے سود مند نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس پر اجر و ثواب نہ پا سکیں گے۔ جیسا کہ فرمان ربانی ہے:
وَقَدِمْنَا إِلٰی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاء مَّنثُوراً (الفرقان)
’’اور ہم ان کے اعمال کی طرف متوجہ ہوں گے جو انہوں نے کیے پس ہم انہیں اڑتی ہوئی خاک کی مانند بنا دیں گے۔‘‘
کفار سے مشابہت
یہ چیز اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ اسے مسلمانوں کے صراط مستقیم سے ہٹا کر گمراہی کی طرف لے جاتی ہے جس کے متعلق شدید وعید آئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِیْراًO (النساء)
’’جو شخص رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے در آں حالیکہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی ہے، تو وہ اس کو اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین ٹھکانہ ہے۔‘‘
٭ مشابہت اختیار کرنے والا اور جس کی مشابہت اختیار کی جا رہی ہے دونوں کے مابین اسی مشابہت کی بنا پر ایک ظاہری مناسبت اور ارادت مندی پیدا ہو جاتی ہے پھر اس قلبی میلان اور موافقت کے ساتھ ساتھ قول و عمل کی ہم آہنگی بھی جنم لیتی ہے۔ جبکہ یہ بات ایمان کے منافی ہے جو کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتی۔
٭ اکثر اوقات یہی مشابہت، کفار سے دبستگی کا سامان پیدا کر کے دل میں ان کے لیے پسندیدگی کا جذبہ ابھارتی ہے اور یوں ان کا مذہب، عادات و اطوار، ان کی باطل پرستی اور شر انگیزی حتی کہ ان کی ہر بری بات بھی بھلی لگنے لگتی ہے۔
اس قلبی میلان اور پسندیدگی کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سنت مطہرہ کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور وہ رشد و ہدایت جسے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم لے کر آئے اور جسے سلف صالحین نے اپنا منہج بنایا تحقیری، ناقدری اور بے توجہی کا شکار ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جس شخص نے کسی قسم سے مشابہت اختیار کی گویا ان سے موافقت کر لی اور ان طور اطوار اور افعال اسے بھا گئے جبکہ عام حالات میں انسان کو اپنے مخالفین کی کوئی بات یا کام بھی اچھا نہیں لگتا۔
٭ یہ مشابہت ہی ہے جو فریقین کے دل میں محبت و مودت، قلبی لگاؤ اور یگانگت کا سبب بنتی ہے۔ ایک مسلمان جب کسی کافر کی پیروی اور نقل کرتا ہے تو وہ یقیناً اپنے دل میں اس کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے یوں ایک طرف اس کا دل غیر مسلموں کی محبت و الفت کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور دوسری جانب اس کے دل میں پرہیزگار، متقی اور شرعی احکام کے پابندی مسلمانوں کے لیے شدید نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ ایک فطری بات ہے جسے ہر صاحب عقل اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ خاص طور پر جب مشابہت اختیار کرنیو الا اجنبیت اور احساس کمتری کا شکار ہو تو یہ شخص جس کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہے یقیناً اس کی عظمت کا قائل ہونے کے ساتھ ساتھ اسے محنت و الفت کا جذبہ بھی رکھتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہو بلکہ صرف ظاہری شکل و صورت اور عادات و اطوار تک ہی مشابہت و ہم آہنگی محدود ہو تب بھی یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ کیونکہ ظاہری شکل و صورت میں مشابہت باطنی موافقت کا سبب ضروری بنتی ہے۔ اس بات کو ہر وہ شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے جو اس قسم کے عادات و اطوار پر تھوڑا سا غور فکر کر لے۔
مثال سے یہ بات مزید واضح ہو جائے گی کہ مشابہت کرنے والوں کے درمیان واقعتاً محبت و الفت اور مناسبت و موافقت پائی جاتی ہے۔ جیسے کوئی اجنبی شخص کسی دوسرے ملک میں اپنے ہم زبان اور ہم لباس کو دیکھے تو وہ ضرور اس وقت اس کے لیے اپنے دل میں محبت و الفت کے جذبات زیادہ محسوس کرے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ اسے اپنے ملک میں دیکھتا ہے۔ جب کوئی انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ دوسرا شخص اس کی نقل کر رہا ہے تو اس تقلید کرنے والے کے لیے اس کے دل میں خوشگوار جذبات جنم لیتے ہیں ۔یہ تو ہے عمومی صورت حال مگر اس وقت صورت کیا ہو گی جب کوئی مسلمان کسی کافر کو پسند کرنے کی بنا پر اس کی نقالی اور تقلید کر رہا ہو۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی کافر کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے تحت الشعور میں رضا و رغبت اور پسندیدگی کے عوامل ہی کار فرما ہوتے ہیں ۔ پھر یہی نقل و مشابہت مودت محبت کا ذریعہ بنتی ہے۔ جس کا مشاہدہ ہم اکثر مغرب زدہ اور مغربیت پسند مسلمانوں میں کرتے ہیں ۔
٭مشابہت سے ہمیں اس لیے بھی روکا گیا ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی کافر کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو یہ مشابہت اسے ذلت و پستی کے گڑھے میں گرا دیتی ہے۔ جہاں وہ احساس کمتری کے ساتھ ساتھ شکست خوردہ بھی دکھائی۔ اس ذلت میں آج اکثر وہ لوگ مبتلا نظر آتے ہیں جو کفار کی تقلید اور نقالی میں لگے ہوئے ہیں ۔
بعض اہم اصولوں پر ایک نظر
جن کی بنا پر ہم مذموم اور ممنوعہ مشابہت کا معیار سمجھ سکیں ۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی پاکیزہ اور سچی ترین زبان سے پیشین گوئی فرمائی ہے جو بلاشبہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرا بشبر وذراعا بذراع (بخاری، حدیث)
’’تم ضرور اپنے سے پہلوں کی ہو بہو اس طرح پیروی کرو گے جیسے ایک بالشت دوسری بالشت کے اور ایک بازو دوسرے بازوں کے برابر ہوتا ہے۔‘‘
اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہااس امت کے کچھ گروہ کفار کی مشابہت میں مبتلا ہو جائیں گے۔ حدیث پاک میں جو ’’سنن‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے علماء کرام فرماتے ہیں کہ اس میں کفار کے عقائد، عبادات، احکام و عادات، طور و اطوار اور عیدیں اور تہوار سبھی شامل ہیں ۔
’’الذین من قبلنا‘‘ ہم سے پہلے لوگ۔ اس سے کون مراد ہیں ۔
اس سلسلے میں مختلف احادیث میں وضاحت آئی ہے۔ جن کا یہاں ذکر کرنا ضروری نہیں تاہم ان میں سے بعض کی تفصیل قارئین کی نذر کی جاتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ’’الذین من قبلنا‘‘ سے مراد اہل فارس اور اہل روم ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ اہل کتاب ہیں یعنی یہودی اور عیسائی۔ اسی طرح ان سے مراد عمومی کفار اور مشرکین بھی بیان فرمایا۔ یہ تمام تشریحات آپس میں میں ملتی جلتی ہیں ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرامین سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ کفار کی مشابہت اختیار کرنے والے لوگ مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہوں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اس امت میں ہمیشہ ایسے لوگوں کی جماعت موجود رہے گی جو حق پہ جمے رہیں گے۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے تائید و نصرت حاصل کرنے والے اور حمایت یافتہ لوگ ہوں گے۔ یہ بر ملا حق کا اظہار کرنے والے،نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے والے ہوں گے ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لینے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔‘‘
یہی جماعت ’’الفرقۃ الناجیۃ‘‘ ہے۔ یعنی کامیاب و کامران جماعت۔ ان کے کامیاب و کامران ہونے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ کفار کی مشابہت سے دو ر رہیں ۔ سو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش گوئی کہ یہ امت پچھلی ہلاک شدہ امتوں کی پیروی کرے گی، اس سے مراد افتراق کا شکار امت کے ایسے مختلف گروہ ہیں جو اتباع سنت اختیار کرنے والی جماعت کی سیدھی راہ چھوڑ کر الگ ہو گئے۔
٭ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جہاں یہ خبر دی کہ یہ امت مشابہت کفار میں مبتلا ہو گی وہاں اس موذی مرض سے بچنے کی بھی سخت تلقین فرمائی۔ مثال کے طور پر:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کفار کی مشابہت سے بچنے کی جو تلقین فرمائی ہے وہ مختصر بھی ہے اور جامع بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(من تشبہ بقوم فھو منھم) (ابوداؤد)
’’جو شخص جس قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔‘‘
اسی طرح اس حدیث میں بھی ہے۔
لتتبعن سنن من کان قبلکم(بخاری ، حدیث)
’’تم اپنے سے پہلوں کی پیروی کرو گے۔‘‘
یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خبردار کرنے کے لیے فرمایا کہ دیکھو مشابہت کا دور ہو گا تو تم بچ کر رہنا۔ اسی طرح اور بہت ساری احادیث مبارکہ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
خالفوا المشرکین
’’مشرکین کی مخالفت کرو۔‘‘
پھر فرمایا:
خالفوا الیھود
’’یہودیوں کی مخالفت کرو۔‘‘
اور فرمایا:
خالفوا المجوس
’’مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘
یہ سب ایسے واضح احکامات ہیں جن میں مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ مشابہت متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وہ تفصیلی فرامین ان شاء اللہ آٹھویں باب میں بیان کیے جائیں گے، جن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نمونے کے طور پر چند امور کے متعلق خبردار فرما دیا کہ بعض مسلمانوں سے کفار کی مشابہت کا ارتکاب ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اس خطرہ سے پیشگی متنبہ فرما دیا تاکہ ہم اس سے بچ سکیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان بھی انتہائی اہم ہے کہ اس امت میں ایک جماعت حق کا کاربند رہے گی۔ جو ان سے دشمنی کریں گے یا ان کی حمایت و مدد سے ہاتھ کھینچیں گے وہ انہیں قیامت تک کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ مشابہت کے مسائل پر نظر ڈالتے وقت ان اصول و قواعد کو ایک ودسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اگر ہم ان احادیث کو علیحدہ علیحدہ دیکھیں گے تو بعض لوگوں کو یقیناً یہ وہم ہو گا کہ شاید تمام مسلمان ہی مشابہت کا شکار ہو جائیں گے۔ حالانکہ یہ نا ممکن ہے۔ کیونکہ یہ بات دین حنیف کی حفاظت کے منافی ہے۔ اور حفاظت اللہ تعالی نے خود اپنے ذمہ لی ہے۔ اسی طرح یہ چیز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان سے بھی متصادم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اس امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر رہے گی۔ اگر صرف اس حدیث کو لیکر دوسری حدیث چھوڑ دیں جس میں آپ نے فرمایا کہ تم ضرور اپنے سے پہلوں کے طریقوں کی پیروی کرو گے، تو بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ شاید یہ امت کفار کی مشابہت سے بالکل پاک ہے۔ حالانکہ بات دراصل یہ ہے کہ امت وسط یعنی اہل سنت کی جماعت ہمیشہ موجود رہے گی۔ یہ لوگ سنت مطہرہ پر کار بند اور کفار کی مشابہت سے دور رہیں گے اور وہ دوسرے گروہو جو اہل سنت کی راہ چھوڑ بیٹھے ہیں ان کا یہ افتراق و گمراہی اصل میں مشابہت کفار ہی کا شاخسانہ ہے۔ بلاشبہ اس امت میں موجود جتنے گروہ اور جماعتیں ہیں ان میں سے کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں کہ جس نے سنت مطہرہ سے دوری بھی اختیار کی ہو اور وہ پچھلی امتوں کے اطوار و عادت اپنانے سے محفوظ بھی رہے ہوں ۔ جیسے آئندہ مثالوں سے ان شاء اللہ یہ بات واضح ہو گی۔
جن امور میں کفار کی مشابہت سے روکا گیا ہے
عامۃ الناس کو چار قسم کے امور میں کفار کی مشابہت سے روکا گیا ہے جو درج ذیل ہیں ۔
۱۔ اعتقادی امور
مشابہت کے باقی ماندہ امور میں سے یہ معاملہ سب سے زیادہ خطر ناک ہے۔ عقائد میں مشابہت دراصل کفر اور شرک ہے۔ جیسے نیک لوگوں کو مقدس جان کر ان کی تعظیم میں مبالغہ آرائی کرنا۔ اسی طرح اقسام عبادت میں سے کسی کا رخ غیر اللہ کی طرف پھیر دینا یا مخلوق میں سے کسی کو اللہ کا بیٹا یا اللہ کا باپ بنا دینا جیسے عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور یہودیوں نے سیدنا عزیر علیہ السلام کے بارے میں دعویٰ کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں ۔ دین میں فرقہ بندی( اس سے مراد ہے حق اور اہل سنت کو چھوڑ دینا ورنہ اجتہادی مسائل میں اختلاف اس میں داخل نہیں کیونکہ یہ دین سے علیحدگی نہیں ) یا قانون الٰہی کی بالادستی تسلیم کرنے کی بجائے کوئی دوسرا قانون اپنا لینا۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے کفر و شرک کے جو معاملات ہیں ان سب کا تعلق عقائد سے ہے۔
۲۔ جشن و تہوار
عید و تہوار اگرچہ عبادات ہی میں داخل ہیں لیکن بعض اوقات ان کا شمار عادات میں ہوتا ہے مگر شریعت نے مختلف دلائل اور قطعی احکام کے ذریعے انہیں خاص کر دیا ہے۔
ان کی اہمیت کے پیش نظر خصوصی طور پر ان کے منانے میں کفار کی مشابہت سے روکا گیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے سال میں صرف دو تہوار یعنی دو عیدیں ہیں ۔ ان کے علاوہ دوسرے تہوار یا جشن جیسے سالگرہ منانا، قومی دن کا انعقاد یا وہ باقاعدہ جشن جن کے لیے سال میں یا مہینے میں کوئی خاص دن مقرر ہو۔ اسی طرح کوئی دن یا ہفتہ جو تکرار سے منایا جائے اور لوگ اس کے منانے کا اہتمام کریں ، مشابہت کی ایسی واضح باتیں ہیں جن کے متعلق شرعی نصوص موجود ہیں ۔
۳۔ عبادات سے متعلق امور
نبی علیہ السلام نے اپنے بہت سے فرامین میں تفصیل کے ساتھ عبادات میں کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا اور ان باتوں کا بھی تذکرہ فرمایا جن میں مشابہت ممنوع ہے۔ جیسے مغرب کی نماز میں تاخیر روزہ افطار کرنے میں دیر کرنا، سحری کھائے بغیر روزہ رکھنا اور اس طرح کی کچھ دوسری چیزیں جن کی تفصیل بعد میں آئیگی۔ ان شاء اللہ
۴۔ عادات و اطوار اور اخلاق
آخری قسم کا تعلق عادات و اطوار اور اخلاق سے ہے۔ جیسے لباس وغیرہ جسے’’ الہدی الظاھر‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ (الھدی الظاھر) سے آدمی کی ہیئت کذائی ، ظاہری شکل و صورت، لباس، طور و اطوار اور عادات و اخلاق وغیرہ مراد ہے۔ ان باتوں میں بھی واضح طور پر کہیں مختصر اور کہیں تفصیل سے مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے۔
مثلاً داڑھی منڈوانے سے روکا گیا ہے۔ سونے کے برتن استعمال کرنا اور ایسا لباس پہننا جو کفار کا شعار و امتیاز ہو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے بے پردگی، مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل جول، مردوں کی عورتوں سے مشابہت اور عورتوں کی مردوں سے مشابہت اور اسی قسم کی دوسری عادات میں مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔
مشابہت کے احکام
مشابہت کے تمام احکام کا مکمل تفصیل کے ساتھ احاطہ ممکن نہیں کیونکہ مشابہت کی تمام صورتوں میں ہر ایک کا حکم جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اسے شرعی نصوص کی کسوٹی پر پر کھا جائے ، اہل علم اور فقہاء دین کے بتائے ہوئے شرعی قواعد پر پیش کیا جائے۔ مگر یہاں بعض ایسے عمومی احکام ضرور ہیں جن کے ضمن میں مشابہت کی تقریباً تمام صورتیں آ جاتی ہیں جو ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں :
٭مشابہت کی اقسام میں سے ایک قسم ایسی ہے جس کا اختیار کرنا شرک اور کفر ہے جیسے عقائد و عبادات میں مشابہت اختیار کرنا۔ اسی طرح یہودیوں ، عیسائیوں اور مجوسیوں سے ان باتوں میں مشابہت جو عقیدۂ توحید سے متصادم ہیں ۔ مثلاً تعطیل کا عقیدہ اختیار کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا انکار اور ان میں الحاد کی راہ اپنانا۔ اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق میں حلول کرنا اور اپنی مخلوق کے ساتھ اتحاد کا گستاخانہ عقیدہ رکھنا۔ اسی طرح انبیاء کرام اور صالحین عظام کی تقدیس و تعظیم کے ساتھ ساتھ ان کی عبادت کرنا۔ اللہ کے سوا ان کو پکارنا۔ وضعی قوانین ، انسان کی تخلیق کردہ نظام اور ضابطوں کو ایسے قوانین سمجھ لینا جن کے مطابق فیصلے کئے جائیں ، ان سب باتوں کا ارتکاب شرک اور کفر ہے۔
٭ مشابہت میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کفر یا شرک تک تو نہیں پہنچتیں ۔ تاہم وہ فسق و فجور اور گناہ و معصیت کے زمرے میں ضرور آتی ہیں ۔ جیسے بعض عادات و اطوار میں کفار کی تقلید و پیروی۔ مثلاً بائیں ہاتھ سے کھانا پینا، مردوں کا سونے کی انگوٹھی پہننا، یا سونے کے دوسرے زیورات استعمال کرنا، داڑھی منڈوانا، مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے سے مشابہت اختیار کرنا اور اسی طرح کی دوسری چیزیں اس قسم میں شامل ہیں ۔
٭ مشابہت کے باب میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا اختیار کرنا مکروہ ہے اور یہ وہ ہیں جن کا حکم واضح نہ ہونے کی بناء پر حرام اور مکروہ کے درمیان معلق ہے۔ اس سے مراد وہ دنیاوی چیزیں اور عام عادات و اطوار ہیں جن کی حرمت واضح نہیں اور وہ کراہت و اباحت کے مابین ہیں مگر مسلمانوں کو مشابہت سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کا اختیار کرنا مکروہ کے حکم میں آتا ہے ۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کفار کے کچھ ایسے کام بھی ہیں جو ہمارے لیے مباح ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ کام مباح ہیں جو صرف کفار کے ساتھ خاص نہیں اور نہ ان کا طرہ امتیاز سمجھے جاتے ہیں ۔ ان کے کرنے سے نہ تو وہ پرہیزگار اور صالح مسلمانوں سے ممتاز و منفرد نظر آتے ہوں اور نہ وہ ایسے کام ہوں جن کے کرنے سے مسلمانوں میں فتنہ وفساد پھوٹنے کا اندیشہ ہو، یا ان کا کرنا مسلمانوں کے زوال اور کافروں کی ترقی کا سبب بنے۔ مباح کاموں میں سے ایک تو خالص مادی ترقی ہے یا وہ ایجادات وغیرہ ہیں جن میں ان کی پیروی مسلمانوں کے لیے نقصان دہ نہیں ۔ اسی طرح وہ خالص دنیاوی علوم جو اسلامی عقائد و اخلاقیات سے متصادم نہیں وہ بھی مباح ہی سمجھے جائیں گے یہی نہیں بلکہ بعض اوقات یہ خالص دنیاوی علوم جو کفار کے پاس ہیں ان سے فائدہ اٹھانا مسلمانوں پر واجب ہو جاتا ہے اور جب ہم خالص کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد ہے کہ ان میں کوئی ایسی بات نہ پائی جائے جو شرعی اصول و ضوابط یا نصوص سے متصادم ہو یا مسلمانوں کی ذلت و اہانت اور تحقیر کا سبب بنے۔ لہذا جو علوم ان خطرات سے خالی ہوں گے۔ ان کے حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں (مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ حتی الامکان کوشش کریں کہ وہ کفار کے دست نگر نہ رہیں ۔ لیکن اس کوشش میں ایسا نہ ہو کہ بنیادی اور واجب احکام کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ جیسے جہاد ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ، دعوت و تبلیغ اور اقامت دین وغیرہ۔ ان چیزوں کا خیال رکھتے ہوئے کوئی بھی مسلمان شرعی قواعد و ضوابط میں رہ کر کسی ملک یا قوم سے دنیاوی فوائد حاصل کرسکتا ہے۔ جیسے عام ایجادات وغیرہ سے استفادہ کرنا۔ رسول مقبول ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین کا یہی طریقہ رہا۔ صنعت و حرفت اور منفعت وغیرہ میں کفار سے استفادہ کرنے میں کوئی مضائقہ خیال نہ کرتے، جب تک کہ یہ چیز مسلمانوں کی ذلت و کمتری کا باعث نہ بن رہی ہو اور یہ کہنا سوائے مبالغہ آرائی کے اور کچھ نہیں کہ آج کے دور میں مسلمانوں کی ذمہ داریوں میں سے اہم ترین کام فقط مادی ترقی ہی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان پہلے اقامت دین اور شرعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوں اور پھر مادی برتری کے لئے کوشاں ہوں ۔ یہ ایک منطقی امر ہے کہ اقامت دین سے ہی یقینی طور پر دنیاوی ترقی اور برتری کی راہ ہموار ہو گی ۔ واللہ أعلم)
مختصر یہ کہ عقائد و عبادات اور عید و تہوار منانے میں کفار کی مشابہت اختیار کرنا قطعی طور پر حرام ہے، اسی طرح وہ معاملات جن کا تعلق عادات و اطوار سے ہے اگر وہ صرف کفار کے ساتھ ہی خاص ہیں تو حرام ہیں ورنہ ان کا حکم حرام و مکروہ کے درمیان معلق ہو گا اور جن باتوں کا تعلق علوم و فنون یا خالص دنیاوی امور سے ہے جیسے صنعت و حرفت اور اسلحہ سازی وغیرہ تو یہ پہلے بیان کردہ شروط کے ساتھ جائز ہوں گی۔
ان لوگوں کی اقسام جن سے مشابہت ممنوع ہے
شرعی نصوص کو جمع کرنے سے ہم ایسے بہت سے لوگوں کی اقسام کو جان سکتے ہیں ۔
پہلی قسم … عام کفار
مجموعی طور پر بلا تخصیص تمام کفار کی مشابہت سے روکا گیا ہے۔ اس ممانعت میں مشرکین، یہودی، عیسائی، مجوسی، صابی، ملحد، بے دین اور دوسرے کفار سبھی شامل ہیں ۔ عبادات ، عادات ، لباس اور اخلاق غرض ہمیں ہر اس چیز میں مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے جو کفار کے ساتھ خاص ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے جب سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دو زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایا :
’’اِنَّ ھَذِہِ مِنْ ثِیَابِ الْکُفَّارِ فَلاَ تَلْبَسْھَا‘‘
’’بیشک یہ کفار کا لباس ہے تم اسے مت پہنو۔‘‘
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو لباس کفار کے خصائص میں سے ہو اس کا پہننا جائز نہیں ۔ (آج کے دور میں جس لباس کو امتیازی حیثیت حاصل ہے اور اس کا شمار کفار کے خصائص میں ہوتا ہے وہ پتلون ہے۔ مسلم ممالک میں اس کا پہننا جائز نہیں ۔ اگرچہ یہ مغرب زدہ لوگوں میں بہت مقبول ہے اور ایسے لوگوں کی مسلم ممالک میں کثرت ہے مگر معیار تو دین دار اور متقی لوگ ہوں گے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ تو پتلون وغیرہ نہیں پہنتے۔ ویسے بھی مروجہ پتلون میں انسانی وقار برقرار نہیں رہتا کیونکہ اس میں مکمل ستر پوشی نہیں ہوتی۔ اسی طرح کچھ چیزیں کفار کے مختلف گروہوں میں سے ہر گروہ کی الگ سے علامت سمجھی جاتی ہیں ۔ جیسے یہودیوں کا ہیٹ ہے اور عیسائیوں کی صلیب وغیرہ۔ واللہ أعلم)
دوسری قسم … مشرکین
مشرکین سے عبادات، عید و تہوار اور افعال و اعمال میں مشابہت ممنوع قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح سیٹیاں بجانا، تالیاں پیٹنا یا اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی کو دنیا میں اپنے لیے اللہ کے ہاں سفارشی یا وسیلہ سمجھنا، قبروں پر نذر و نیاز اتارنا، چڑھاوے چڑھانا، قربانی وغیرہ پیش کرنا اور بعض دوسرے مشرکانہ افعال ہیں جن میں مشرکوں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔ مشرکین کا ایک طریقہ یہ تھا کہ حج میں میدان عرفات سے سورج غروب ہونے سے پہلے ہی لوٹ آتے۔ ایسا کرنا بھی ان سے مشابہت ہے۔ سلف صالحین مشرکوں کے اعمال و خصائص کو ناپسند کرتے تھے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا قول ہے : ’’ مَنْ بَنَی بِبِلاَدِ الْمُشْرِکِینَ وَصَنَعَ نَیرُوزَھُمْ وَمَھرَجَانَھُمْ حَتَّی یَمُوتَ حُشِرَ مَعَھُمْ یَوَمَ الْقِیَامَۃٍ‘‘ (سنن البیھقی ۹/۲۳۴)
’’جس نے مشرکین کے ملک میں گھر بنایا، ان کے نو روز و مہرجان کے جشن منائے اور اسی حالت میں اس کی موت آ گئی تو وہ قیامت کے روز انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔‘‘
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے مساجد پر برج وغیرہ کی تعمیر کو ناپسند کیا اور کئی مرتبہ اس سے منع فرمایا کیونکہ وہ اسے مشرکین کے صنم کدوں اور ان کی عبادت گاہوں سے مشابہ خیال کرتے تھے۔
تیسری قسم … اہل کتاب
اہل کتاب سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں ۔ ہمیں ان تمام اعمال سے منع کیا گیا ہے جو ان کے خصائص اور شعائر کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے یہود و نصاریٰ کے عقائد و عبادات، عادات و اطوار، ان کا لباس، عید و تہوار ، اسی طرح قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنا پھر انہیں سجدہ گاہ بنا لینا ، تصویریں لگانا، عورتوں کے ذریعے فتنہ انگیزی کرنا، سحری نہ کھانا، بڑھاپے کے سفید بالوں کو نہ رنگنا، صلیب اٹھانا، ان کے تہوار خود منانا یا ان کے تہواروں میں شریک ہونا، یہ تمام ایسے کام ہیں جن میں یہودیوں اور عیسائیوں کی مشابہت ممنوع ہے۔
چوتھی قسم …مجوس
مجوسیوں کی عادات و خصائص میں سے ایک آگ کی پرستش ہے۔ اس کے علاوہ اپنے بادشاہوں اور بڑوں کو حد سے بڑھا کر مقدس جاننا، سر کے پچھلی جانب سے بال منڈوا کر اگلے حصے کے بال چھوڑ دینا، داڑھی منڈوانا اور مونچھیں بڑھانا، سیٹیاں بجانا اور سونے چاندی کے برتن استعمال کرنا، یہ سب مجوسیوں کے اعمال و اطوار ہیں جن کا اختیار کرنا ان کی مشابہت ہے جو ممنوع قرار دی گئی ہے۔
پانچویں قسم … اہل فارس اور اہل روم
روم اور فارس کے لوگ اگرچہ اہل کتاب کے ضمن ہی میں آتے ہیں تاہم علیحدہ سے بھی ایسی باتوں کے اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے جو ان کا امتیاز سمجھی جاتی ہیں ۔ جیسا کہ عادات و عبادات اور تمام قسم کے مذہبی رسم و رواج مثلاً اپنے اکابر کی حد سے بڑھی ہوئی تعظیم وتقدیس نیز مذہبی پیشواؤں کی پیروی و اطاعت میں ایسی باتوں کو بھی شریعت سمجھ بیٹھنا جنہیں اللہ تعالیٰ نے شریعت کا درجہ نہیں دیا اور اسی طرح دین میں غیر ضروری تشدد اختیار کرنا ان اقوام کے خصائص ہیں ۔
چھٹی قسم … غیر مسلم (اعجمی)
غیر مسلم عجمیوں سے مشابہت بھی جائز نہیں ۔ اس کی بنیاد نبی علیہ السلام کا یہ فرمان ہے:
نَہَی أَنْ یَجْعَلَ الرَّجُلُ فِیْ أَسْفَلِ ثِیَابِہِ حَرِیْرًا مِثْلَ الأَعَاجِمِ ، أَوْ یَجْعَلَ عَلَی مَنْکِبَیْہِ حَرِیْرًا مِثْلَ الأَعَاجِمِ ۔ (أبو داؤد ، حدیث:4049)
’’آپ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص عجمیوں کی طرح اپنے لباس کے نیچے یا کندھوں پر ریشم کا کپڑا استعمال کرے۔‘‘
آپ ﷺ نے کسی شخص کے لیے تعظیماً کھڑا ہونے سے بھی منع فرمایا بلکہ آپ ﷺ نے اس بات سے بھی روک دیا کہ اگر امام کسی وجہ سے نماز بیٹھ کر پڑھے تو مقتدی پیچھے کھڑے ہوں ، اس احتیاط کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ عام دیکھنے والے کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ کھڑے ہونے والے مقتدی امام کی تعظیم میں کھڑے ہیں ۔ حدیث پاک میں اس ممانعت کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ طریقہ تعظیم عجمیوں کے انداز سے مشابہت رکھتا ہے۔ چونکہ وہ اپنے اکابر ، روساء اور بڑوں کے لیے کھڑے ہوتے تھے اسی لیے یہ عمل مشابہت کی بناء پر ممنوع ٹھہرا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عجمی اور مشرکین و کفار جیسا لباس پہننے سے سختی سے منع فرماتے۔ ایسی بہت سی باتوں کی طرف سلف صالحین نے توجہ دلائی ہے۔
ساتویں قسم… جاہلیت اور جہلاء
جاہلیت کے ان تمام اعمال سے عمومی طور پر منع کر دیا گیا ہے جن کا تعلق اہل جاہلیت کے اخلاق و عبادت اور عادات و اطوار سے ہے۔ جیسے بے پردگی یعنی عورتوں کا حسن و زینت دکھائے پھرنا۔ اسی طرح جہلاء کی طرح احرام باندھنے کے بعد اپنے اوپر کسی چیز کا سایہ نہ پڑنے دینا، جیسے آج کل روافض کرتے ہیں ۔ جسم کی نمائش اور عریانی و فحاشی، قومی عصبیت، حسب ونسب پر فخر و غرور ، دوسرے کے نسب ناموں پر طعن و تشنیع ماتم کرنا اور ستاروں کے ذریعے بارش مانگنا۔ رسول مقبول ﷺ نے اسلام کے پیغام کے ساتھ ان تمام جاہلی احوال، افعال، رسم و رواج ، آباؤ اجداد کی تقلید اور ان کے نقش قدم پر چلنا، اور جاہلیت میں قائم ہونے والے بازار سب پر خط تنسیخ پھیر دیا۔ ان چیزوں میں بے پردگی، اختلاط مرد و زن اور سود وغیرہ بھی شامل ہیں ۔
آٹھویں قسم … شیطان
شیطان کی مشابہت سے بھی روکا گیا ہے۔ یعنی شیطانی کاموں سے۔ نبیؐ نے شیطان کے بعض کاموں کا تذکرہ فرمایا اور ان کو اختیار کرنے سے منع فرمایا۔ ارشاد فرمایا: ’’لاَ یَاْکُلَنَّ أَحَدُکُمْ بِشِمَالِہِ وَلاَ یِشْرَبْ بِھَا فَاِنَّ الشَّیْطَانَ یَاْکُلُبِِشِمَالِہِ وَیَشْرَبُ بِھَا ۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ، باب آداب الطعام والشراب وأحکامہما حدیث:5367)
’’تم میں سے کوئی بھی اپنے بائیں ہاتھ سے ہرگز نہ کھائے نہ پیئے۔ بے شک شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے۔‘‘
یہ ایک قابل افسوس امر ہے کہ اب یہ عادت اکثر مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کا سبب یا تو سستی، تساہل اور بے توجہی ہے یا پھر حق سے روگردانی، تکبر اور شیطان کے دوستوں اور اللہ کے نافرمانوں کی مشابہت۔
نویں قسم… عرب کے وہ گنوار بدو جن میں دین راسخ نہیں ہوا
یہ گنوار لوگ بہت سی ایسی عادات اور رسم و رواج کو ایجاد اختیار کرتے ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ،عموماً یہ چیزیں جاہلیت کی میراث ہوتی ہیں ۔ یہ بدو لوگ اپنی عادات، رسم و رواج اور اصطلاحات کے معاملے میں بہت سخت ہوتے ہیں اگرچہ یہ چیزیں شریعت کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں ۔ جیسے جاہلی تعصب، حسب ونسب پر فخر، دوسروں کے نسب ناموں پر طعنہ زنی، مغرب کو عشاء کہنا اور عشاء کی نماز کو عتمہ کے نام سے پکارنا۔ طلاق کی قسم اٹھانا یا کاموں کو طلاق سے مشروط کرنا۔ چچا کی بیٹی کو کسی دوسری جگہ شادی کرنے سے روکنا اور اسے اپنے چچا زاد ہی سے شادی کرنے پہ مجبور کرنا یہ تمام کام اور اس طرح کی دوسری جاہلی عادات وغیرہ
٭٭٭
ماخذ: جریدہ: اسوۂ حسنہ
http:/uswah.org
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید