FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

خانہ بدوش

اور دوسرے افسانے

                   پروفیسر ابن کنول

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

خانہ بدوش

گذشتہ ستر سال سے بلال کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی اور اس آواز کے ساتھ وہ صلاۃ اور فلاح کی طرف دوڑ پڑتا تھا۔ پہلی اذان کی آواز اس نے اس وقت سنی تھی جب ماں کے بدن سے الگ ہو کر باپ کی گود میں آنکھیں کھولی تھیں۔ خدا کی وحدانیت ، رسول کی شہادت اور فلاح کی جانب بڑھنے کا یہ پہلا سبق تھا اور اس سبق کو وہ ستر سال تک دہراتا رہا جس کے سبب اس کی پیشانی کے درمیان سیاہ نشان نمودار ہو گیا تھا اور اب اس پیشانی کے نشان نے عمر کے اس آخری پڑاؤ میں اس کے اندر یہ تڑپ پیدا کر دی تھی کہ وہ اس سمت کا سفر اختیار کر کے آخری فریضہ کو بھی ادا کر دے کہ جس کی جانب سجدہ کرتے کرتے اس کی پیشانی سیاہ ہو گئی تھی۔ اور جب اس ارادے کا اظہار اس نے اہل خانہ کے روبرو کیا تو سب بہت خوش ہوئے کہ وہ خاندان کا پہلا شخص تھا کہ جس نے بیت اللہ کا قصد کیا تھا۔ سب نے بخوشی اس کے لیے اسباب سفر مہیا کئے،سب خوش تھے، بہت خوش کہ بیت اللہ کی زیارت ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔ اس کے بیٹے، بیٹیوں اور بہوؤں نے اپنے ماں باپ کے لیے تمام ضروری اشیا فراہم کی تھیں کہ وہ جانتے تھے کہ اتنا طویل سفر ان کی زندگی کا پہلا سفر ہے۔ چاروں بیٹے خوف زدہ بھی تھے کہ انھیں اپنے والدین کی ضعیف العمری کا احساس تھا وہ سب اپنے بوڑھے ماں باپ کو اس طرح سمجھا رہے تھے جیسے وہ ان سے بہت بڑے ہو گئے ہوں۔ مشتاق بھائی اور فاطمہ بی بی سعادت مند بچوں کی طرح ہر ایک کی بات سنتے تھے۔ اقبال جو سب سے بڑا بیٹا تھا کہتا :

’’ابا اماں کو کہیں اکیلا مت جانے دیجئے گا اور اماں تم بھی ابا کا ہاتھ پکڑے رہنا۔وہاں پچیس تیس لاکھ حاجیوں کی بھیڑ ہو گی۔‘‘

ابراہیم کہتا :

’’ہاں اگر خدا نخواستہ بچھڑ گئیں تو ملنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘

سب سے چھوٹا بیٹا کہتا:

’’ابا شیطان کے کنکریاں مارتے وقت بڑی بھیڑ ہوتی ہے، آپ لوگ بھیڑ میں نہیں جائیے گا۔ سنا ہے اس بھیڑ میں اگر کوئی گر جائے تو اٹھ نہیں پاتا، آپ رش کم ہونے کے بعد جائیے گا۔‘‘

بیٹیوں اور بہوؤں نے سارا سامان پیک کر دیا تھا۔اٹیچی میں کپڑے رکھتے ہوئے زینت کہہ رہی تھی :

’’دیکھو ماں! آپ دونوں کے چھ چھ جوڑی کپڑے رکھ دیئے ہیں، وہاں زیادہ گندے تو ہوں گے نہیں، ویسے کپڑے دھونے کا صابن بھی رکھ دیا ہے۔ اور ہاں اماں جب مدینہ شریف جاؤ تو بالکل نئے کپڑے پہننا، روضہ پر جاکر ہمارا بھی سلام کہنا اور دعا کرنا کہ اللہ ہمیں بھی زیارت کی توفیق دے۔‘‘

دوسری طرف سے عائشہ پکارتی:

’’اماں میرے لئے بھی دعا کرنا۔ اور یہ دیکھو میں نے اس بیگ میں میٹھی پوریاں رکھ دی ہیں، ناشتہ میں کام آئیں گی ،بسکٹ اور نمکین بھی اسی بیگ میں۔‘‘

گھر کا ہر فرد تیاری میں لگا ہوا  تھا رشتہ دار اور ملنے والے دعاؤں کی درخواست کے لئے مستقل آرہے تھے۔ بچے، بڑے سبھی خوش تھے۔ دعاؤں کی درخواست کے ساتھ ان کی فرمائشیں بھی تھیں۔ کوئی کہتی :

’’اماں میرے لئے اچھا سا برقعہ لائیے گا۔‘‘

کسی کی فرمائش ہوتی:

’’نانی میرا اسکارف نہیں بھولئے گا۔‘‘

بچے معصوم لہجہ میں کہتے:

’’دادا میاں میرے لئے اچھے نمبروں کی دعا کیجئے گا۔‘‘

’’دادی آپ میرے لئے دعا کیجئے گا کہ میرا حافظہ جلدی پورا ہو جائے۔‘‘

دعاؤں کی درخواستیں اور معصوموں کی فرمائشیں مشتاق بھائی اور فاطمہ بی بی نے اپنے ڈائری میں لکھ لی تھیں۔ روانگی سے قبل انھوں نے اپنے سب بچوں کو پاس بلایا اور کہا :

’’دیکھو اقبال تم سب سے بڑے ہو سب کا خیال رکھنا، کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ہمارے آنے سے پہلے پورے گھر کی سفیدی کرا لینا، عید پر بھی نہیں ہو پائی تھی اور دیکھو اوپر کے کمرے کی چھت باقی رہ گئی ہے وہ پوری کرا لینا۔ گووند بھائی کے یہاں سے جو بھی سامان چاہیے منگوا لینا میں آ کر حساب کر دوں گا۔‘‘

’’ہاں ابا آپ بے فکر ہو کر جائیے، میں سب کام پورا کرالوں گا۔‘‘

’’ اور ابراہیم تم پابندی سے دکان پر جانا، ذرا جلدی اٹھنے کی عادت ڈال لینا۔ صبح ہی صبح سب کو کام پر بھیجنا ہوتا ہے، تنخواہ سب کی وقت پر دے دینا، کرشنا اور اسماعیل خاں کے سو سوروپے پچھلے مہینے کے رہ گئے ہیں ، وہ ضرور دے دینا ورنہ میرا حج بھی نہیں ہو گا۔‘‘

’’جی ابا۔۔۔ آپ پریشان نہ ہوئیے۔۔۔۔ اپنے سفر کی تیاری کیجئے۔‘‘

مشتاق بھائی سب کو سب کام سمجھا رہے تھے کہ ان کا سفر چالیس دن کا تھا ا ور جب وہ اس مبارک سفر کے لیے ہوائی اڈے کے اندر داخل ہوئے تو خوشی اور غم کے آنسو لئے گلے مل کر سب نے رخصت کیا۔ خوشی تھی کہ بیت اللہ کی زیارت کے لئے جا رہے ہیں، غم تھا کہ بچھڑ رہے ہیں، سفر مبارک ہے لیکن دشوار ہے۔ عزیز و اقربا سے بچھڑ کر مشتاق بھائی کے منھ سے نکلا ’’لبَّیک اللّٰہم لبّیک ‘‘اب اس نے خود کو خدا کے سپرد کر دیا تھا۔ ایئر پورٹ کے احاطے میں جس وقت اس نے احرام باندھا تو موت یاد آ گئی۔ اس وقت بھی تو یہی دو سفید چادریں ہوں گی اسے لگا کہ جیسے سفر آخرت کے لئے روانہ ہو رہا ہے۔ یوں بھی ہوائی جہاز کے سفر اور حج کے مجمع کثیر سے وہ دونوں ہی خوف زدہ تھے۔ جس وقت ہوائی جہاز نے پرواز کی تو عازمین حج نے بیک زبان لبّیک کا نعرہ بلند کیا۔ لبیک کی گونج سے ان دونوں کا خوف جاتا رہا کہ اب وہ خدا کے راستے میں تھے۔۔۔۔۔۔ جہاز ہزاروں فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا نیچے سمندر تھا مگر کسی کے دل میں خوف نہیں تھا۔ اس لئے کہ وہ سب بیت اللہ کی زیارت کی تڑپ دل میں لئے ہوئے تھے اور جب کسی کی زیارت کی تڑپ دل میں ہوتی ہے تو تمام خدشات رفع ہو جاتے ہیں۔

جدہ ایرپورٹ پر اتر کر مشتاق بھائی نے سجدۂ شکر ادا کیا اور حیرت و عقیدت سے وہاں کی زمین کو دیکھا اور یاد کیا کہ یہ وہ مقدس مقام ہے جہاں سے بوقت ہجرت رسول اکرم کا گزر ہوا تھا۔ نہ جانے کیوں اسی وقت اس نے سوچا رسول کو تو مدینہ مل گیا تھا ، ہمارا مدینہ کہاں ہے کہ ہماری زمین بھی تو ہم پر تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ اب وہ سب مضطرب تھے کہ جلد از جلد مکہ معظمہ پہنچ جائیں کہ ان کی منزل مقصود وہی تھی۔ تا حد نگاہ ریگستان اور پہاڑوں کو دیکھ کر وہ اپنے سفر کی آسانیاں اور رسول اکرم  ﷺ کے سفر کی پریشانیوں کے بارے میں سوچ کر نمدیدہ ہوا۔ اسی لمحہ اس نے اس ریگستان میں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں محسوس کیں کہ جو قیصر و کسریٰ کے تخت کو روندتی چلی گئیں۔ دور سمندر کے کنارے اسے طارق بن زیاد کے جہازوں کے بادبان نظر آئے جن کے رخ اسپین کی جانب تھے۔ اسے اپنا قد بلند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔ اور اسی افتخار کے عالم میں جب وہ دونوں سب کے ساتھ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو چہار جانب دل و نگاہ نے گلہائے عقیدت بکھیر دیئے۔ تمام عالم کے مسلمانوں کا اتنا بڑا اجتماع دیکھ کر وہ اپنی بے بسی اور کسمپرسی کی حالت بھول گیا، کہ مکہ معظمہ کی زمین پر قدم رکھتے ہی اسے اس زمین سے اپنے رشتے کا احساس ہونے لگا۔ وہ اس زمین سے لپٹ جانا چاہتا تھا کہ صدیوں پہلے یہیں سے اس نے ہجرت کی تھی کہ رسول ﷺ کا حکم تھا کہ تمہاری اونٹنیوں کا رخ جس سمت کو ہے،چلے جاؤ کہ تمہیں تمام عالم میں امن و امان کا پیغام پہنچانا ہے۔

اب وہ بیت اللہ کے بالکل قریب تھے وہ دونوں سوچ رہے تھے کہ سب سے پہلے وہ اپنے بچوں کی خیر کی دعا مانگیں گے کہ وہ تو اپنی عمر گزار چکے۔ دعا کے لئے الفاظ ڈھونڈھتا ہوا وہ خانہ کعبہ کی جانب بڑھا اور جلال خداوندی دیکھ کر سب کچھ بھول گیا۔ ستر سال کے سجدوں کی حقیقت آج اس پر منکشف ہوئی۔

وہ بے اختیار سجدے میں گر پڑا، آج اس کا ایک سجدہ سترسال کے سجدوں سے زیادہ اہم تھا اور اس سجدے میں اس نے سب کے لئے خیر کی دعا مانگیں۔ پھر اس نے خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ فاطمہ بی بی بھی اس کے ساتھ تھی، فاطمہ کو اپنے بیٹوں کی باتیں یاد تھیں ، اس نے اپنے شوہر کا ہاتھ چھوڑا نہیں تھا،بعد طواف کرنے کے وہ مقام ابراہیم تک پہنچے اور دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر آب زمزم پی کر صفا و مردہ کی پہاڑیوں کی طرف چلے گئے۔ اب پہاڑیاں نہیں تھیں صرف نشان باقی تھے، انھیں بی بی ہاجرہ کی پانی کی تلاش یاد آئی ، فاطمہ اپنے بچوں کو یاد کر کے افسردہ ہو گئی۔ مشتاق بھائی نے دلاسا دیا، اور پھر عمرہ کے ارکان کی ادائیگی کے بعد اس نے سب سے پہلے اپنے گھر فون کر کے حال معلوم کیا، سب کچھ ٹھیک تھا ان کی آواز سن کر سب خوش ہوئے۔

اگلے روز انھیں مدینہ منورہ جانا تھا وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کون سا مقدس شہر ہے جو مہاجرین کے لئے راستوں میں پلکیں بچھا دیتا ہے، وہ کون لوگ ہیں جو گھروں کے دروازے ان کے لئے کھول دیتے ہیں۔۔۔۔۔ تصویروں میں دیکھی ہوئی مسجد نبوی کو دیکھ کر وہ خود تصویر بن گیا، جمال نبی  ﷺ ہر گوشے سے ٹپک رہا تھا۔۔۔۔ ایک بار پھر اس نے دست دعا بلند کئے اور گڑ گڑایا:

’’اے رب العالمین تو مجھے بھی کوئی مدینہ دے دے۔‘‘

مدینہ منورہ کے راستوں پر وہ برہنہ پا چلتا رہا کہ یہاں رسول  ﷺ کے قدموں کے نشان باقی تھے۔ اسے تین سو تیرہ کی فتح یاد آئی، وہ سوچنے لگا کہ اس وقت وہ تین سو تیرہ کیوں فتح یاب ہوئے تھے اور آج۔۔۔۔۔۔

بعد چند روز کے مدینہ منورہ سے بادل نخواستہ آنکھوں میں آبشار لئے مکہ معظمہ آئے کہ فریضہ حج ادا کرنا تھا کہ جس کے لئے یہ سفر دور دراز اختیار کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر لاکھوں عازمین حج کا سفید پوش قافلہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے منیٰ روانہ ہوا۔ منیٰ خیموں کا شہر ہے، پہاڑوں کے بیچ میں تا حد نگاہ خیمے نظر آرہے تھے۔ ان دونوں نے ایک خیمے میں اپنی چٹائیاں بچھائیں اور عبادت الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ اگلے روز وہ قافلہ لبیک کی صدا بلند کرتا ہوا میدان عرفات میں پہنچ گیا۔ مستقبل کے اس میدان حشر میں وہ بہت رویا، دعائیں مانگیں اپنی سلامتی کے لئے، اپنے بچوں کی کامرانی کے لئے۔ وہ اپنے بچوں کا مستقبل تابناک دیکھنا چاہتا تھا۔ غروب آفتاب کے وقت عرفات سے مزدلفہ کے لئے روانہ ہوئے ، مزدلفہ کے وسیع و عریض میدان میں پہنچ کر پھر اس نے اپنی چٹائی بچھائی اور عبادت میں مشغول ہو گیا۔ اسے یاد آیا کہ یہ وہی میدان ہے جہاں ابرہہ کی فوج آ کر ٹھہری تھی، جس کا ارادہ بیت اللہ کو ڈھانے کا تھا لیکن ابابیلوں نے اس قدر ان پر کنکریاں برسائیں کہ وہ بے دم بے جان ہو گئے۔۔۔۔۔۔ پوری رات اس میدان میں گزار کر مشتاق بھائی پھر اپنی چٹائی اٹھا کر سب کے ساتھ منیٰ میں اپنے خیمے کی طرف چل دئے، آج انھیں شیطان کو کنکریاں مارنے کی رسم ادا کرنی تھی وہ سوچنے لگا کہ ہر سال لاکھوں آدمیوں کے ہاتھوں سنگسار ہونے کے باوجود شیطان آج بھی کس طرح زندہ ہے۔ شاید شیطان ہمارے اندر سما گیا ہے۔۔۔۔۔۔ تمام ارکان حج کی ادائیگی کے بعد اسے ایسا لگا جیسے دوبارہ زندگی ملی ہے۔ احرام کی سفید چادریں اتار دی تھیں، جن سے کفن کا احساس ہو رہا تھا، اب ان دونوں کو اپنا گھر یاد آنے لگا تھا، وہ اپنی حیات نو کے ساتھ اپنے عزیز و اقربا کے درمیان جانا چاہتا تھا کہ جن سلامتی اور خوشحالی کی دعا اس نے خدا اور رسول  ﷺ کے دربار میں مانگی تھی ، اسے یقین تھا کہ اس کی دعا قبولیت کے مقام تک ضرور پہنچی ہو گی۔ اس نے حج کی روداد اپنے گھر والوں کو ٹیلی فون پر بتائی۔ وہ سب بھی ان سے ملنے کے لئے بے چین ہوئے ، اقبال نے بتایا کہ گھر کی سفیدی ہو چکی ہے۔ اوپر کے کمرے کی چھت پڑ گئی ہے، کام اچھا چل رہا ہے، سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔

اب فاطمہ بی بی کو سب کی فرمائشیں یاد آئیں ، اس نے اپنے بیٹے، بیٹیوں، بہوؤں اور ان کے بچوں کے لئے بہت سا سامان خریدا، وہ دونوں بہت خوش تھے کہ بہت جلد اپنے گھر پہنچ جائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔ اور جب اس زمین سے رخصت کا وقت قریب آیا تو انھوں نے خدا اوررسول  ﷺ سے اجازت چاہی، پھر اپنی نگاہوں میں تمام مناظر کو سمیٹ کر وطن کے لئے روانہ ہوئے۔ وہ دونوں جہاز کی بلندی سے بے نیاز محو گفتگو تھے۔

’’ہمارے بچے ہمیں دیکھ کر کتنا خوش ہوں گے۔‘‘

’’ہاں۔۔۔۔ وہ سب ہی ہمارے منتظر ہونگے، اقبال نے گھر کی سفیدی کرالی ہے۔ اوپر کا کمرہ بھی پورا ہو گیا ہے۔اب مہمانوں کو پریشانی نہیں ہو گی۔ تم نے سب کے لئے تحفہ لے لئے ہیں نا ؟‘‘

’’ ہاں لے تو لئے ہیں، سب سے بڑا تحفہ تو زم زم اور کھجوریں ہیں۔‘‘

’’ وہ تو ٹھیک ہے لیکن تمہارے بچے تو سب سے پہلے تمہارے سامان کی تلاشی لیں گے۔‘‘

’’اسی لئے تو میں نے سب کے لئے کچھ نہ کچھ لے لیا ہے۔ گھڑیاں تو اقبال، ابراہیم ، نوشاد اور ندیم کی ہو گئیں، زینت ،عائشہ اور رقیہ کے لئے برقعے لے لئے ہیں۔ امینہ نے اسکارف کے لئے کہا تھا عالیہ کے لئے بھی اسکارف لے لیا ہے۔ زید، سعد، یوسف تو اپنے کھلونے ہی دیکھ کر خوش ہو جائیں گے۔‘‘

’’’اچھا سنو! احمد بھائی کو جانماز ضرور دینی ہے، انھوں نے ہم دونوں کے کپڑے بھی بنائے تھے اور دعوت بھی کی تھی۔‘‘

’’ہاں! ہاں! خاص خاص لوگوں کو تو جا نمازیں دینی ہی ہیں۔‘‘

جہاز مسلسل اپنا سفر طے کر رہا تھا، ان دونوں کو وقت کا احساس ہی نہیں تھا، فاطمہ پھر پوچھنے لگی :

’’ہمارے آنے کی تاریخ تو ان لوگوں کو معلوم ہے نا۔‘‘

’’سارا کام ہی اقبال نے کرایا ہے۔ فون پر بات ہو جاتی تو اور بھی اچھا ہوتا لیکن ملا ہی نہیں، ایک حاجی کہہ رہے تھے کچھ جھگڑا ہو گیا ہے۔‘‘

’’یہ ٹیلی فون کو بھی ابھی خراب ہونا تھا۔۔۔ خدا کرے سب ٹھیک ٹھاک ہو۔۔۔۔۔ ویسے تو جب معلوم ہے تو سب ائیرپورٹ پر آ ہی جائیں گے۔‘‘

انھیں چالیس دن پہلے کا ایئرپورٹ کا منظر یاد تھا۔ ایک ایک کا چہرہ ان کی نظروں میں گھوم گیا ایک بار پھر ان کے ہاتھوں میں ہار اور چہرے کی خوشیاں محسوس کر کے مشتاق بھائی اور فاطمہ خوش ہوئے۔۔۔۔۔ اور جب احمد آباد کی ایئرپورٹ پر جہاز اترا تو انھوں نے خدا کا شکریہ ادا کیا، وہ سب باہر آئے۔ منظر بدلا ہوا تھا، تمام حاجیوں میں عجیب سی خاموشی تھی، سب ایک دورے کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، کوئی کسی کے استقبال کے لئے نہیں آیا تھا، کسی کے ہاتھوں میں ہار نہیں تھا، ایک سناٹا سا تھا، موت کا سا سناٹا۔۔۔۔۔ وہ سب حیران و پریشان تھے۔۔ ۔۔۔ سب کی نگاہیں اپنے عزیزوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ ایئرپورٹ فوج سے گھرا ہوا تھا، انھیں پولیس کی گاڑیوں میں بٹھا دیا گیا، وہ سب بے زبان سے ہو گئے تھے، انھیں اس نئے انداز کے استقبال کی امید نہ تھی۔ مشتاق بھائی نے فاطمہ کو حسرت و بے بسی کے عالم میں دیکھا، اس کی آنکھوں میں آب تھا اور زم زم کہنے والا کوئی نہ تھا، تمام راستے جلے ہوئے مکان و دکان ، خون آلودہ سڑکیں اور دیواریں دیکھ کر خوف اور دہشت ان کے دلوں میں اتر آئی تھی۔ بار بار اس کا دل چاہا کہ پولیس والوں سے معلوم کر ے کہ یہ سب کیا ہے؟ یہ کب ہوا؟ کس وجہ سے ہوا ؟ لیکن اس نے اپنے اندر ہمت نہیں پائی۔ میدان عرفات کا اجتماع اور یہاں کی لاچاری اور بے بسی کا موازنہ کر کے اس کی آنکھیں چھلک آئیں۔ پولیس کی گاڑی مشتاق بھائی کے گھر کے پاس رکی لیکن گھر کہاں تھا۔۔۔۔۔ جلے ہوئے ٹوٹے ہوئے ملبے کا ایک ڈھیر تھا، وہ تو سفیدی کرایا ہوا نیا مکان ڈھونڈ رہے تھے لیکن یہ منظر دیکھ کران دونوں کی چیخیں حلق کے اندر ہی پھنس گئیں۔ انھیں اپنے بچوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں

’’ابا ! اماں کو کہیں بھی اکیلا نہیں چھوڑئیے گا۔‘‘

’’اگر خدانخواستہ بچھڑ گئیں تو ملنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘

’’آپ لوگ بھیڑ میں نہیں جائیے گا۔‘‘

’’اماں ہمارے لئے دعا کیجئے گا کہ اللہ ہمیں بھی زیارت کی توفیق دے۔‘‘

’’اماں میرے لئے اچھا سا برقعہ لائیے گا۔‘‘

’’نانی میرا اسکارف نہیں بھولئے گا‘‘

وہ دونوں سکتے کے عالم میں تھے۔ بچوں کی آوازیں مسلسل گونج رہی تھیں۔

’’میری گھڑی کہاں ہے؟‘‘

’’میرا برقعہ کہاں ہے؟‘‘

’’یہ اسکارف میں لوں گی‘‘

’’ یہ کار زید کی ہے۔۔۔۔۔ ہوائی جہاز سعد کا ہے‘‘

’’پہلے سب کو کھجوریں کھلاؤ اور زم زم پلاؤ‘‘

انھیں لگا جیسے ان کے سامان کی اٹیچی کھل گئی۔ گھڑیاں اور کھلونے ٹرک کے نیچے کچل گئے۔ برقعے اور اسکارف ہوا میں اچھل گئے۔ جا نمازیں آگ میں گر پڑیں۔۔۔۔ آب زم زم سڑک پر بہنے لگا۔۔۔۔ کھجور کچرے کے ڈبے میں ڈال دی گئیں۔۔۔۔ وہ حیران و پریشان تھے کہ ایک سپاہی نے دوسرے سے کہا :

’’ان کا تو گھر جل گیا۔ چلو کیمپ میں چھوڑ دیتے ہیں۔ کوئی گھر والا بچا ہو گا تو مل جائے گا‘‘

دوسرے نے کہا :

’’ہاں یہ ٹھیک ہے‘‘

تیسرے نے کہا :

’’اور حاجی جی کیا کیا مال لائے ہو۔۔۔ یہاں تو سب لٹ گیا۔۔۔ پھر جمع کرو۔۔۔‘‘

چوتھے نے کہا :

’’تم وہاں سے مال لاتے رہو۔۔۔ اور ہم۔۔۔۔‘‘

چاروں ہنس دیئے۔ مشتاق بھائی کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا، پولیس کی گاڑی نے انھیں ایک کیمپ میں اتار دیا۔ اسے منیٰ کے خیمے یاد آئے، عرفات اور مزدلفہ کے بے سایہ میدان اس کی نظروں میں گھوم گئے لیکن منظر بدلا ہوا تھا، چاروں طرف آہ و بکا، بے سروسامانی، برہنہ پا، برہنہ سرخواتین کا ہجوم، بے کفن لاشیں، اس نے محسوس کیا کہ اب وہ ابرہہ کے نرغے میں ہے۔ اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی۔ ابابیلوں کا دور دور تک پتہ نہیں تھا، اس لئے کہ وہ اب تین سو تیرہ میں سے نہیں تھا۔

٭٭٭

سراب

        پانی کی بھری ہوئی گگری لے کر پگڈنڈی پر جاتی ہوئی دیہاتی حسینہ کے انداز خرام کی مانند چلتی ہوئی ریل جب ایک جھٹکے کے ساتھ اکبر پور اسٹیشن پر رکی تو بہت سے دہقان سروں پر گٹھر یاں رکھے ہوئے انڈوں میں سے چوزوں کی طرح ریل کے ڈبوں سے نکل کر پلیٹ فارم پر آ گئے۔ ساعت نہ گزری تھی کہ گاڑی کے آخری ڈبے کے دروازے پر کھڑے ہوئے نیلے کوٹ اور سفید پینٹ والے آدمی نے اپنا بایاں ہاتھ بلند کیا۔ ہاتھ میں لگا ہوا سبز پرچم وفادار کتے کی دم کی طرح لہرایا۔ انجن کے سیاہ جسم سے سیٹی کی آواز نکلی۔ اور ریل آہستہ آہستہ اگلی منزل کی طرف رینگنے لگی۔ ریل سے اترے ہوئے مسافر بنیان پہنے ہوئے ایک موٹے سے آدمی کو ٹکٹ تھما کر پلیٹ فارم سے باہر آ گئے۔ یوں تو پلیٹ فارم لامحدود تھا لیکن دو جانب اکبر پور کے دو بورڈ اور ان دونوں کو ملانے کے لیے پان پھول کے پیڑوں کی ایک لمبی سی قطار نے محدود کر دیا تھا۔ رام چرن بھی ایک ہاتھ میں تھیلا اور دوسرے میں اٹیچی لٹکا کر پلیٹ فارم نما جگہ سے باہر آیا۔ چار سال پہلے جب پہلی بار دہلی سے گاؤں واپس گیا تھا تو اس نے یہ اٹیچی پچیس روپے میں خریدی تھی۔ ایسی ہی اٹیچی تو چودھری کا لڑکا لے کر آیا  کرتا تھا۔ جو شہر کے ایک کارخانے میں منشی ہے۔ گاؤں والوں نے جب رام چرن کے پاس یہ اٹیچی دیکھی تھی تو نہ جانے کتنی رشک وحسد کی نظریں اٹیچی کے اندر اتر گئی تھیں۔ گاؤں کے لڑکوں میں تو جھگڑا ہو گیا تھا۔ ایک کہتا تھا میں لے چلوں گا۔ دوسرا کہتا نہیں، میرے چاچا کی ہے، میں لے چلوں گا۔اور رام چرن کی پتنی سکھیا تو بہت دیر تک اٹیچی کو چمٹائے رہی تھی۔ پلیٹ فارم کے باہر ایک رکشے والا اس امید پر کھڑا تھا کہ شاید کوئی صاحب حیثیت آدمی ریل سے اترے۔ لیکن قدیم روایت کی طرح ریل سے اترے ہوئے مسافروں نے پگڈنڈی کی راہ لی۔ گاؤں دوکوس کے فاصلے پر تھے۔ بیل گاڑیاں چلنے کی وجہ سے راستہ چوڑا بن گیا تھا۔ رام چرن کو آتا ہوا دیکھ کر رکشہ والا گوشت کی بوٹی پر چیل کی طرح جھپٹا۔

’’ارے رام چرن بھیا! آؤ، تمہرے لیے تو آج رکسہ لایو ہوں۔ تم تو بالکل سہر کے بابو لگت ہو۔‘‘

بوٹی پنجوں میں پھنس گئی تھی۔رام چرن کا سینہ اتنا پھولا کہ اوور کوٹ بھی تنگ معلوم ہونے لگا تھا۔ رکشہ والے نے بڑھ کر اٹیچی لے لی۔ اور رکشہ کے پائیدان پر رکھ دی۔ رام چرن اس طرح رکشہ پر بیٹھا جیسے زمیندار گھوڑے پر بیٹھتا ہے۔ رکشہ والے کے جسم میں کئی گنا قوت بڑھ گئی تھی۔ اس نے رکشہ کھینچنا شروع کیا۔

’’کیوں رے نندو، تو تو شہر میں رکسہ چلاتا تھا۔‘‘ رام چرن نے بڑے لوگوں کی طرح نندو سے پوچھا۔

’’ہاں بھیا ! کچھ دنا سے گاؤں میں آگیا ہوں۔ اماں بیمار رہت ہے۔ کوئی اور دیکھنے والا ہے نہیں۔‘‘

’’ گاؤں میں تو آمدنی بھی نہ ہوت ہو گی۔ یاں کون رکسہ میں بیٹھتا ہے۔‘‘

’’یاں کیا آمدنی ہوئے گی۔چار آنے دینے میں بھی میاّ مرتی ہے۔‘‘

’’ارے دلّی میں بڑی آمدنی ہے۔ لال کلے سے ٹیشن اتنی دور بھی نہ ہو گا جتنو گاؤں ہے۔ لیکن ایک سواری بھی ہو تو پورا ڈیڑھ روپیہ لیتے ہیں۔‘‘

نندو کے منہ میں پانی آگیا۔ رام چرن کا خون بڑھ گیا۔ رکشہ برابر آگے بڑھ رہا تھا۔ رام لیلا ختم ہو چکی تھی۔ خریف کی فصلیں کھیتوں سے گھروں میں پہنچ چکی تھیں اور ربیع کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ کھیت صاف پڑے تھے۔ رام چرن کی نگاہیں چاروں طرف گھوم رہی تھیں۔ ان ہی کھیتوں میں اس کا بچپن کھیلتے کودتے گزرا تھا، اور ان ہی کھیتوں میں اس کی جوانی کا خون پسینہ بن بن کر جذب ہوا تھا۔ اسے وہ دن یاد آنے لگے جب وہ گاؤں میں زمیندار کے یہاں نوکر تھا۔ پھر زمیندار نے ٹریکٹر اور تھریسر خرید لئے اور اس جیسے کئی لوگوں کو جو کئی پشتوں سے زمیندار کے نوکری کرتے چلے آرہے تھے، کام سے ہٹا دیا گیا۔ رام چرن وہ حالات بھولا نہیں تھا جن کے سبب اسے اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا تھا۔ رکشہ گاؤں میں داخل ہوا تو بہت سے بچے تالیاں بجاتے ہوئے رکشے کے پیچھے دوڑنے لگے۔ گاؤں والوں کی نگاہیں اس کی طرف اٹھ گئیں۔ ہر ایک اسے بڑی حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ پورے رکشے میں اکیلے بیٹھ کر تو بڑے آدمی آتے ہیں۔ رام چرن اوور کوٹ اور پینٹ پہنے ہوئے تھا۔ جو دو سال پہلے اس نے سنڈے مارکیٹ سے خریدے تھے۔ گھر والوں کے لیے بہت سے کپڑے لے کر آیا تھا۔ کئی روز تک گاؤں میں گھر گھر اس کی چرچا ہوئی تھی۔ گھر کے دروازے پر جب رکشہ رکا تو اچھی خاصی بھیڑ جمع ہو گئی۔ رام چرن رکشے سے اترا۔ اٹیچی اور تھیلا اندر پہنچ چکا تھا۔ اس نے جیب سے ایک روپیہ نکال کر نندو کو دیا تو پاس کھڑے ہوئے لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ کسی نے کہا :

’’ایک روپیہ تو چودھری کا لڑکا ہی دیوت ہے۔‘‘

رکشے والے نے سن لیا اور خوش ہو کر بولا’’ ارے ہمرے بھیا کا کسی سے کام ہیں۔‘‘

رام چرن نے بھی یہ باتیں سن لی تھیں مگر اس طرح نظر انداز کرتا ہوا گھر میں چلا گیا جیسے سنا ہی نہ ہو۔

رام چرن ہر سال رام لیلا ختم ہونے پر گاؤں آیا کرتا تھا اور آٹھ دس روز رہ کر واپس چلا جاتا۔ رام لیلا کے میلے میں چھ مہینے کے برابر آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔ اس بار بھی کچھ دن رہ کر رام چرن واپس دلّی گیا۔ گاؤں میں رام چرن کے ساتھ اس کے چاچا بھی رہتے تھے جن کے پاس پانچ بیگہہ کھیت کا ایک ٹکڑا تھا اور پانچ بچیّ تھے۔ بیچارے تنہا کھیت پر لگے رہتے۔ لیکن گزارے کے لائق بھی حاصل نہ کر پاتے۔ ان کا خیال تھا کہ گھنشیام ، جو ان کا سب سے بڑا لڑکا تھا۔ اگر ان کا ہاتھ بٹائے تو وہ اس زمین سے چاندی ہی نہیں سونا بھی اُگا سکتے ہیں۔ لیکن گھنشیام رام چرن کے ساتھ دہلی جانے کے لیے بے چین تھا۔ اس نے دلّی کے بارے میں ایسی ایسی باتیں سن رکھی تھیں کہ اس کا دل گاؤں کی محدود زندگی کو چھوڑ کر شہر کی رنگین دنیا کی طرف بھاگنے لگا تھا۔ وہ ہر بار رام چرن سے دہلی کے بارے میں طرح طرح کی باتیں پوچھا کرتا تھا۔ رام چرن اپنی برتری کا احساس جمانے کے لیے دہلی کا نقشہ بہت بڑھا چڑھا کر کھینچتا تھا۔ ایسی تعریفیں کرتا کہ سامعین کے دل و نظر دہلی دیکھنے کے لئے بے قرار ہو اٹھتے۔

اور پھر ایک دن گھنشیام اس وقت گھر میں بغیر کسی سے کہے دہلی چلا گیا جب جاڑے کا موسم شباب پر تھا۔ دوسرے دن جب وہ دہلی کے اسٹیشن پر اترا تو اسے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دنیا اتنی بڑی ہے۔ رکشے ، اسکوٹر اور ٹیکسیوں کی بھیڑ تھی۔ اسٹیشن کے احاطے سے نکل کر باہر والی سڑک پر آیا۔ اس نے اتنی چوڑی دو طرفہ سڑک پہلی بار دیکھی تھی اور اس سڑک پر چلتی ہوئی دو منزلہ بسیں گھنشیام کے لیے اور بھی باعث حیرت بنی ہوئی تھیں۔ باہر آ کر وہ سوچنے لگا کہ اس بھیڑ میں رام چرن کو کیسے تلاش کرے۔ اس رام چرن کی بتائی ہوئی جگہوں کے نام یاد تھے۔ رام چرن لال قلعہ کے پاس خوانچہ لے کر بیٹھتا تھا۔ گھنشیام کو رام چرن تک پہنچنے میں دقت تو ہوئی لیکن پہنچ گیا۔ اسے دیکھ کر رام چرن کو بڑی حیرت ہوئی۔’’تو کیسے آگیا رے ہاں۔‘‘

’’بس یوں ہی‘‘۔ گھنشیام نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

رام چرن نے اسے پاس ہی بٹھا لیا ور گھر کی خیریت پوچھنے لگا۔ شام ہو چکی تھی۔ گھنشیام خوش تھا۔ بار بار کسی نہ کسی بات کو رام چرن سے پوچھتا۔ رام چرن کبھی بتا دیتا اور کبھی چپ رہنے کے لیے کہہ دیتا۔

رات ہوئی تو رام چرن نے اپنا سامان ایک دکان میں رکھا اور گھنشیام کے ساتھ کھانا کھایا۔ جب رات کے ساتھ ساتھ سردی بھی بڑھنے لگی تو گھنشیام بولا۔’’بھیا! گھرنا ہیں چلو گے؟‘‘

رام چرن نے اس کی معصومیت پر ہنستے ہوئے کہا۔

’’ابے کیسا گھر؟ پوری دہلی اپنا گھر ہے۔ چاہے جہاں رہو۔‘‘

گھنشیام نے رام چرن کو دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ جب سب بازار بند ہو گیا۔ اور فٹ پاتھ پر سونے والے اپنی جگہوں پر پہنچ گئے۔ رام چرن بھی اپنی جگہ پر پہنچا۔ جگہ کو جھاڑ کر چادر بچھائی۔ گھنشیام سے بیٹھنے کو کہا۔ وہ بیٹھ گیا۔ گھنشیام اپنے ساتھ ایک چادر لایا تھا۔ رام چرن نے کھیس اور چادر کو ملا لیا اور دونوں اوڑھ کر لیٹ گئے۔ گھنشیام میں کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ جاڑوں کی رات جب نقطہ عروج پر پہنچی تو گھنشیام ٹھنڈ کی وجہ سے سکڑنے لگا۔ لیکن رام چرن بڑے آرام سے سو رہا تھا، جیسے اسے سردی کا احساس ہی نہ ہو۔ سردی جب ناقابل برداشت ہوئی تو گھنشیام منمنایا:’’بھیا!بھیا!!‘‘

’’کا بات ہے ؟‘‘

’’ٹھنڈ لاگت ہے‘‘

’’ابے سوجا یہاں لحاف کہاں رکھا ہے۔ دیکھ اسے دیکھ ایک چادر ہی اوڑھ رکھی ہے اور کتنے آرام سے سو رہا ہے۔ اور وہ دیکھ اس کے پاس چادر بھی نہیں۔ لے سنبھا ل کے اوڑھ لے۔‘‘

گھنشیام نے کھیس کو اچھی طرح لپیٹا اور چپ چاپ پڑا رہا۔ لیکن ٹھنڈ کی وجہ سے اسے نیند نہیں آئی۔ دوسرے دن رام چرن نے خوانچہ نہیں لگایا۔ تاکہ گھنشیام کو دلی کی سیر کرا دے۔ مہرولی جانے کے لیے دونوں لال قلعہ سے بس میں سوار ہوئے۔ بس میں چڑھتے وقت گھنشیام کو ایسا لگا جیسے آج اس کے کپڑے پھٹ جائیں گے۔ یا پسلیاں آپس میں کھینچ جائیں گی نیچے کھڑے ہوئے تمام لوگ چڑھ بھی نہ پائے تھے کہ بس چلنے لگی۔ گھنشیام کو لگ رہا تھا کہ بس کے پیچھے دوڑنے والے آدمی چڑھنے کی کوشش میں گر جائیں گے۔ بس کی کھڑکی سے ہر چیز بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ پورا ماحول اس کے لیے ایک خواب کی دنیا تھی۔ اچانک وہ ایک منظر کو دیکھ کر چونک پڑا تیز جاتی ہوئی ایک بس کے دروازے پر لٹکا ہوا آدمی سڑک پر گرا اور پیچھے سے ایک ٹرک تربوز کی طرح اس کے سر کو کچلتا ہوا گزر گیا۔ گھنشیام چیختے چیختے رہ گیا۔

’’بھیا، بھیا! دیکھو وہ آدمی!‘‘ رام چرن نے اس طرف دیکھا۔ ’’مرنے دے۔ اس طرح روز جانے کتنے مرتے ہیں۔ یہ دلی ہے‘‘۔اس منظر کو دیکھ کر گھنشیام کا دل خوف سے دھڑکنے لگا۔ اپنے آپ کو بس کے بیچ میں پاکر اسے اطمینان ہوا اور ان لوگو ں پر ترش کھانے لگا جو دروازے پر لٹکے ہوئے تھے۔ لیکن ان لٹکنے والوں کے چہروں سے کسی طرح کا اظہار خوف نہیں تھا۔ جیسے وہ اسکے عادی ہوچکے ہیں۔ بس سے اترتے وقت اگر رام چرن گھنشیام کو سنبھا ل نہ لیتا تو اس کے گرنے میں کوئی کمی نہ رہی تھی۔ کیونکہ اس کے اترنے سے پہلے ہی بس رینگنے لگی تھی۔

’’سالے ذرا دیر بھی ناہیں روکت‘‘ گھنشیام نے جھنجھلا کر کہا۔ اس کا دل اور بھی تیزی سے دھڑکنے لگا۔ ’’یہ سالے نہیں ، دلی کی بسوں کے ڈرائیور ہیں۔ کسی کے یار نہیں ہوتے۔ ذرا سی چوک ہوئی اور جان گئی‘‘۔ رام چرن نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کی۔ بے چارہ گاؤں کا رہنے والا گھنشیام پہلے ہی دن دلی کی بھاگتی دوڑتی زندگی سے ڈر گیا۔ اسے شک ہونے لگا کہ وہ صحیح و سلامت گاؤں واپس پہنچ سکے گا یا نہیں۔ شام کو وہ پھر چاندنی چوک لوٹ آئے۔ رات آہستہ آہستہ اپنا سفر شروع کرنے لگی تھی۔ گھنشیام کو پھر رات کی سردی کا مقابلہ کرنا تھا۔ اسے گاؤں میں لحاف کی گرمی اور چارپائی کے بستر کی یاد آ رہی تھی۔ سوچتے سوچتے اس کے خیالات اپنے چھوٹے سے کھیت پر جاکر ٹھہر گئے اور وہ سوچنے لگا کہ یہاں رہنے سے تو بہتر ہے کہ میں باپو کے ساتھ کھیت پر کام کروں۔ اس خیال کے آتے ہی وہ رام چرن سے پوچھنے لگا:

’’بھیا! گاؤں کے لیے کل ریل کسی سمے جاوے گی۔‘‘

رام چرن نے متعجب نگاہوں سے گھنشیام کو دیکھا۔ ریل بڑی تیز رفتاری سے ناگن کی طرح لہراتی ہوئی سرسبز و شاداب کھیتوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جہاں گاؤں کے لوگ جھوم جھوم کر ملہار گار ہے تھے۔ اچانک ایک ٹرک اپنی کرخت آواز کے ساتھ رام چرن کے سامنے سے گزرا۔ اس نے چونک کر اس سمت دیکھا۔ جدھر ٹرک گیا تھا۔ وہ ایک اور ہی دنیا تھی وہاں لوہے کے بھاگتے دوڑتے لوگوں کی بھیڑ تھی۔ جن کے جذبات نہیں تھے۔ رام چرن کو لگا جیسے وہ ان لوگوں میں سے ایک ہے۔ اس نے ٹرک کے چھوڑے ہوئے گرد و غبار کے بیچ ریل کو دیکھنا چاہا لیکن وہ دور جاچکی تھی۔ اور پھر وہ گھنشیام سے بہت آہستہ آواز میں کہنے لگا۔

’’صبح دس بجے۔‘‘

٭٭٭

 

دوسرا پاگل

          وہ بہت زیادہ تھک چکا تھا۔ نہ صرف جسمانی اعتبار سے بلکہ ذہنی طور سے بھی وہ محسوس کر رہا تھا کہ کچھ دیر میں اس کے دماغ کی رگیں غباروں کی طرح پھٹ جائیں گی۔ یاوہ خود شدت کرب سے گھبرا کر ہمیشہ کے لیے اپنی سانسوں کی آمدورفت کے سلسلے کو منقطع کر کے حرکت قلب کو خاموش کر دے گا۔ کئی ماہ کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ کیا نکلا؟ صفر۔ جو پہلے تھا، جواب بھی ہے اور جو۔۔۔

وہ ہر روز اپنی پچیس سال کی محنت کے صلے میں حاصل کیے ہوئے کاغذوں کو ایک خاص فائل میں سلیقہ سے رکھ کر اس طرح آشرم کے بس اسٹاپ پر آ کر کھڑا ہو جاتا، جیسے آفس جا رہا ہو۔ آفس۔آفس کو پانے کی خواہش کے لیے ہی وہ سوا نیزے پر اُترے ہوئے آفتاب کی حدّت کو برداشت کر کے بس کا انتظار کیا کرتا تھا۔ بس اسٹاپ پر کھڑے کھڑے اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ اس کی پہلی اور آخری منزل یہی ہے وہاں کی تمام چیزیں اس کی نظروں میں تصویر کی طرح اتر گئی تھیں۔ حلوائیوں کی دکانیں، فوٹو گرافر،کیمسٹ، بس اسٹاپ کے نزدیک بیٹھا ہوا موچی، پٹرول ٹنکی، ٹھیلوں پر رکھے ہوئے پھل، سب کچھ اس کی نگاہوں میں اس طرح بس گیا تھا ، جیسے برسوں سے وہ ان سب کو دیکھ رہا ہے۔ بس اسٹاپ پر کھڑے ہوئے مسافروں کو نہ صرف وہ پہچان گیا تھا بلکہ ان کے بارے میں بہت کچھ جان بھی گیا تھا۔ یہ لمبے اور دبلے پتلے سانولے سے صاحب ۴۱۰ میں جائیں گے۔ جو لاجپت نگر سے سنٹرل سکریٹریٹ جاتی ہے۔ اور ریڈیواسٹیشن پر اتر جائیں گے۔ یہ صاحب جن کے ہاتھ میں کالے رنگ کا آفس بیگ ہے۔ اوکھلا سے آنے والی منی بس میں سوار ہوں گے اور اسٹیشن میں پر اتر جائیں گے۔ یہ دوہرے بدن والی میم صاحبہ ریلوے اسٹیشن جانے والی کسی بس میں سوار ہوں گی اور دلی گیٹ پر اتر کر ارون ہاسپٹل کی جانب چلی جائیں گی۔ ہر روز وہ ان سوالات کے جواب دینے کے لئے وہاں کھڑا ہوتا تھا:

’’بابو جی ، لال قلعہ کے لیے کون سی بس ملے گی؟‘‘

’’بٹیا405 نمبر آئے تو بتا دینا۔‘‘

’’بھیا قطب مینار پر کتنے نمبر کی بس جائے گی؟‘‘

اور وہ اپنے اطراف سے بے نیاز ہو کر دو طرفہ سڑکوں کے درمیانی راستے پر اچھلتے کودتے اور قہقہہ لگاتے ہوئے پاگل کو گھورتا رہتا ہے۔ وہ نوجوان پاگل آشرم کے بس اسٹاپ کا ایک لازمی حصہ بن چکا تھا۔ بس اسٹاپ پر کھڑے سبھی اشخاص اس کی مضحکہ خیز حرکات پر مسکرانے کی کوشش کیا کرتے اور وہ پاگل ان سب اشخاص کی بے بسی پر قہقہہ لگاتا تھا۔ وہ دیکھتا کہ ہر روز اس پاگل کے ہاتھ میں ضرور کچھ نہ کچھ ہوتا۔ بسکٹ، روٹی، مٹھائی،پیسے۔ وہ ان سب چیزوں کو ایک یادو منہ مارکر ہی حقارت سے کتوں کے آگے ڈال دیا کرتا۔ اس کی نظر میں ان کھانے کی چیزوں کی کوئی قدر نہیں تھی۔ یا وہ ان کی قدر نہیں جانتا تھا۔ شاید اسے معلوم نہیں تھا کہ بس اسٹاپ پر کھڑی ہوئی بوڑھی زندگیاں چلتی ہوئی بسوں کے ڈنڈے پر صرف اس لیے لٹکتی ہیں تاکہ دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں کو گزارنے کے لیے غذا حاصل کرسکیں۔ شاید اس نے پل کے نیچے بیٹھے اس بھکاری کو نہیں دیکھا تھا جس کے آگے بچھے ہوئے کپڑے پر ہمیشہ پانچ پیسے کے تین چار سکے ہی پڑے رہتے ہیں۔ اُسے پاگل سے کچھ خاص دلچسپی ہو گئی تھی۔ا گر کسی روز وہاسے نہیں دیکھتا تو اسے محسوس ہوتا کہ وہ ان مردہ لوگوں کے درمیان کھڑا ہے جن کے ہونٹوں سے مسکراہٹیں جدا ہو گئی ہیں۔ وہ خود بھی تو ان مردہ لوگوں میں سے ایک تھا جو قہقہہ نہیں لگا سکتے تھے۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ کہیں نہیں جائے گا۔ گھر سے آئے ہوئے تمام روپے آہستہ آہستہ ختم ہو چکے تھے۔ کب تک وہ گھر سے پیسے منگاتا رہے گا؟ہر روز کئی روپے بس کے ٹکٹوں میں بے مقصد ضائع ہو جاتے ہیں۔ جگہ جگہ درخواستوں کے ساتھ پوسٹل آرڈر لگاتے لگاتے وہ تنگ آ چکا تھا۔ پچھلے تین روز سے وہ کہیں نہیں گیا تھا۔ ذہنی کرب اور بھوک کی شدت اُسے تڑپا رہی تھی۔ اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے پیسہ درکار تھا۔

وہ بہت دیر تک بستر پر لیٹا ہوا چھت کو گھورتا رہا۔ نوکری۔ بھوک۔ پیسہ۔ پیسہ۔ بھوک۔ نوکری۔ مکڑی کے جالے کی طرح یہ تین الفاظ اس کے ذہن میں الجھ گئے تھے۔ اچانک اسے چھت کی سفید سطح پر اس پاگل کی متحرک تصویر نظر آئی۔ وہ زور زور سے ہنس رہا تھا۔ اور اپنے ہاتھ میں میں لی ہوئی روٹی کتے کو کھلا رہا تھا۔ اچھل اچھل کر اپنی خوشی اور بے فکری کا اظہار کر رہا تھا۔ اس کے ذہن میں پھر وہی الفاظ ابھرے:

  بھوک

   پیسہ

   نوکری

    اور پھر وہ اتنی تیزی سے اٹھا، جیسے بستر میں کرنٹ دوڑ گیا ہو۔میز پر پڑی فائل اٹھا کر اس میں رکھے ہوئے کاغذوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ بی اے۔ ایم اے، اس نے ان کاغذوں کو یک جا کر کے ایک بھرپور نظر ڈالی۔دوسرے ہی لمحے انہیں چاک کر ڈالا۔ پھر آئینہ اٹھا کر اپنا چہرہ دیکھنے لگا۔ کئی روز سے شیو نہ کرنے کے سببداڑھی بڑھ گئی تھی۔ بڑے بڑے بال بے ترتیبی سے الجھے ہوئے تھے۔ وہ اپنا عکس دیکھ کر زور سے ہنسا،جیسے وہ پاگل ہنستا ہے۔ اس نے پوری طاقت سے آئینہ کو دیوار پر دے مارا اور کھڑے ہو کر اپنے کپڑے پھاڑے۔ کمرہ کا سامان ادھر ادھر پھینکنے لگا۔ اور پھر اچھلتا کودتا، قہقہے لگاتا ہوا کمرہ سے باہر نکل کر سڑک کی طرف بھاگتا چلا گیا۔

                                                                                                                                                           (آہنگ۔ دسمبر ۱۹۷۹)

٭٭٭

 

نیا درندہ

اپنے ساتھی بچوں کو ڈراتے ڈراتے اس کی عادت سی بن گئی تھی، وہ ہر روز جنگل سے گاؤں کی طرف یہ کہتا ہوا دوڑا چلا آتا تھا :

"شیر آیا ….. شیر آیا”۔

وہ گڈریے کا لڑکا تھا اور اس نے گڈریے کے لڑکے کی کہانی سن رکھی تھی جو برسوں سے سینہ بہ سینہ چلی آ رہی تھی۔ وہ اپنی بکریوں کے ساتھ دن بھر جنگل میں رہتا تھا، جنگلی جانوروں کا خوف اس کے دل سے محو ہو چکا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اب شیر کبھی نہیں آئے گا، سارے شیر بوڑھے ہو چکے ہیں یا چڑیا گھروں میں قید ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ سب کو ڈرانا چاہتا تھا۔ اس کی آواز سن کر اکثر لوگ اس کا مذاق بناتے تھے ، وہ پھر بھی پر امید تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہو گا۔ ایک مرتبہ اس کی آواز سن کر احمد حسین نے اپنے بچوں سے کہا:

’’یہ لونڈا بھی پاگل ہو گیا۔ ایسے چلاتا ہے جیسے شیر اس کے پیچھے چلا آ رہا ہے۔ اب کہاں شیر؟ اب تو شیر کا بچہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ شیر تو انگریز بہادر کے زمانے میں تھے۔‘‘

’’کیسے ہوتے تھے شیر؟ احمد حسین کا لڑکا پوچھتا۔

’’ہوتے کیسے؟ جیسے ہوتے ہیں۔ ایک بار خبر ملی کہ پاس کے جنگل میں شیر آگیا ہے، انگریز بہادر نے ہمارے دادا کو بلایا۔ ہمارے دادا کو شکار کا بڑا شوق تھا۔ اپنی تلوار لے کر پہنچ گئے۔تلوار سے مارتے تھے شیر کو؟‘‘

’’ آپ کے دادا کیا شیر شاہ سوری تھے؟‘‘ دوسرا لڑکا سوال کرتا۔

’’ہاں ہمارے دادا تلوار ہی سے شیر کا شکار کرتے تھے۔ انگریز بہادر کے پاس بندوق بھی تھی۔ آٹھ دس آدمی گئے شیر کو مار لائے پھر اس کے پاس کھڑے ہو کر تصویر کھینچوائی۔‘‘

’’مردہ شیر کے ساتھ کیا تصویر کھنچوانا، زندہ کے ساتھ کھنچواتے تو بات تھی۔‘‘ لڑکا طنز کرتا۔

’’اے زندہ ہوتا تو کھا نہیں جاتا۔ آج کل کے شیروں کی طرح تھوڑے ہی تھے وہ شیر، جو آدمی سے ڈرتے ہیں۔‘‘

’’آدمی سے تو سبھی جانور ڈرتے ہیں…. سرکس میں دیکھا نہیں، کس طرح شیر، چیتے ، بھالو، ہاتھی آدمی کے سامنے گھگھیاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘‘ لڑکا باپ کی بات کو آگے بڑھاتا ہے۔

باپ اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’ ہاں ! یہ بات تو ہے، پہلے لوگ جنگل میں جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ آج کل شہر میں جاتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں۔‘‘

گڈریے کا لڑکا کبھی کسی پہاڑی پر چڑھ کر چلاتا اور کبھی کسی پیڑ پر بیٹھ کر چیختا:

’’بھیڑیا آگیا….. بھیڑیا آگیا…. بچاؤ….. بچاؤ…..‘‘

گڈریے کے لڑکے کی آواز سن کر کوئی گھر کے اندر نہیں بھاگتا، دروازے کھلے رہتے ، کھڑکیاں بند نہیں ہوتیں، دوکانیں کھلی رہتیں، لوگ معمول کے مطابق سڑکوں پر گھومتے رہتے۔

عبداللہ کی دادی کہتی:

’’یہ لڑکا بھی پگلا گیا ہے۔ اگر کسی دن سچ مچ شیر یا بھیڑیا آگیا تو چلانا بھول جائے گا۔ کہانی والا حال ہو گا۔‘‘

’’دادی ماں آپ نے کبھی بھیڑیا دیکھا ہے؟ ‘‘ عبداللہ پوچھتا۔

’’ہاں کئی بار…. لیکن بچپن میں…. جب ہم چھوٹے تھے، تمہاری طرح…. گاؤں میں اکثر بھیڑیا آ جایا کرتا تھا۔ کبھی کبھی بچوں کو اٹھا کر لے جایا کرتا تھا۔‘‘

’’ لوگ اسے مارتے نہیں تھے؟‘‘ عبداللہ دریافت کرتا۔

’’ہاں مارتے کیوں نہیں تھے۔ ہمارے گاؤں میں اس وقت کسی کے پاس بندوق نہیں تھی۔… لاٹھی اور بلم ہی سے مارتے تھے۔‘‘

’’لوگوں کو ڈر نہیں لگتا تھا؟‘‘ عبداللہ پھر کہتا۔

’’ڈر بھی لگتا تھا لیکن اپنی حفاظت بھی تو ضروری تھی۔‘‘

’’دادی ماں اب بھیڑیا کیوں نہیں آتا؟‘‘

دادی ماں ہنس کر کہتیں:

’’اب تم سے ڈرتا ہے… اور اب تو ہر طرف بھیڑیے موجود ہیں۔ اس لیے اب اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔‘‘

’’ کیا مطلب؟‘‘ عبداللہ حیرانی ظاہر کرتا۔

’’آہستہ آہستہ تم سب سمجھ جاؤ گے۔ خدا تمہیں ان بھیڑیوں سے سلامت رکھے۔‘‘ وادی بڑی پر درد آواز میں کہتیں،عبداللہ دادی کی بات سمجھنے کی کوشش کرتے کرتے سو جاتا۔

’’گڈریے کا لڑکا گھاس کے میدان میں بکریوں کو چھوڑ کر کھیت کی منڈیر پر چلاتا ہوا دوڑ رہا تھا۔

’’بھاگو… بھاگو… لکڑبگھا آ گیا.. بھاگو۔‘‘

اس نے سوچا شاید لکڑبگھے کا نام سن کر لوگ بھاگیں گے لیکن کوئی نہیں بھاگا۔ سب یونہی کام کرتے رہے۔ لکڑ بگھے کا خوف دل سے دور ہو چکا تھا۔ سب جانتے تھے کہ لکڑبگھا آدم خور خطرناک جانور ہے لیکن اب ڈرتا کوئی نہیں تھا۔ لوگ اس کتے نما جانور کو محض کتا سمجھنے لگے تھے۔ عمر نے اپنی ماں سے کہا:

’’ماں لکڑ بگھے کے تو بہت سے قصے مشہور ہیں۔‘‘

’’ہاں یہ جانور بڑی خاموشی سے حملہ کرتا ہے۔ آدمی کے پیچھے پیچھے آہستہ آہستہ چلتا رہتا ہے لیکن آدمی سے بھلا کون جیت پایا ہے۔ کچھ دن پہلے ایک لکڑ بگھا غلطی سے گاؤں میں آگیا تھا۔ یہاں آ کر اپنی سب حیوانیت بھول گیا اور اپنی دم دبا کر بھاگ لیا۔‘‘

گڈریے کا لڑکا چلاتے چلاتے اکثر سوچتا تھا کہ کیا بات ہے جو شیر، بھیڑیے اور لکڑ بگھے کے نام سے بھی لوگ خوفزدہ نہیں ہوتے۔ کہانیوں میں تو بتایا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ یہ جانور بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں سے ان کا ڈر نکل گیا ہے۔ وہ روزانہ گاؤں والوں کو ڈرانے کی کوشش کرتا تھا لیکن لوگ اس کے چیخنے کو اس کا پاگل پن سمجھتے تھے…. پھر ایک دن یوں ہوا کہ بکریاں چراتے چراتے وہ بہت تیزی سے چلاتا ہوا گاؤں کی طرف بھاگا:

’’بھاگو… بھاگو…. بلوائی آ گئے… دنگائی آ گئے…. بھاگو‘‘

اس کی یہ آواز جیسے ہی لوگوں کے کانوں سے ٹکرائی پورے گاؤں میں ہلچل مچ گئی۔ لوگ بے تحاشہ اپنے گھروں کی طرف بھاگنے لگے۔ پلک جھپکتے ہی گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند ہو گئے۔ لوگ اپنی بہو، بیٹیوں اور بچوں کو محفوظ جگہوں پر چھپانے لگے۔ بازار بند ہو گئے۔ ذرا سی دیر میں چاروں طرف سناٹا ہو گیا۔ دہشت اور وحشت سڑکوں پر منڈلانے لگی۔ گڈریے کا لڑکا ایک گوشے میں خاموش کھڑا مسکرا رہا تھا۔

٭٭٭

ماخذ:مختلف ویب سائٹس

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید