FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

علم۔۔۔ سنگ میل

 

 

 

                   (علم کے بارے میں احادیث اور دوسرے مقولوں کی ایک  تدوین)

 

 

مصنف: نا معلوم

 

 

 

﴿الف﴾

 

٭  اسحاق بن ابراہیم سے روایت ہے کہ مولی غفر عمر نے مجھ سے کہا "اسحاق! علم حاصل کر کیونکہ علم میں کوئی نہ کوئی بول ایسا ضرور مل جائے گا جو تجھے ہدایت کی راہ دکھائے گا یا ہلاکت سے بچائے گا‘‘۔

 

٭  حضرت ابوالدرداء نے فرمایا "علم سیکھنے سے آتا ہے، عقل کوشش سے پیدا ہوتی ہے جو کوئی خیر کے لیے سرگرم ہوتا ہے پا جاتا ہے اور جو کوئی شر سے بھاگتا ہے بچ جاتا ہے۔ جس میں تین باتیں ہوں گی وہ بلند رتبے پر نہ پہونچ سکے گا: کہانت، فال اور بد  شگونی کا اعتقاد”۔

 

٭  حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول ہے ” علم تلاش سے بڑھتا اور سوال سے حاصل ہوتا ہے”۔

 

٭  فضیل بن عیاضؓ کہا کرتے تھے ” علم کا پہلا زینہ خاموشی ہے پھر توجہ سے سننا ہے پھر حفظ ہے پھر عمل ہے پھر اشاعت ہے”۔

٭  عبداللہ بن مبارک نے کہا "علم نیت سے شروع ہوتا ہے پھر بتوجہ سماعت ہے پھر فہم ہے پھر حفظ ہے پھر عمل ہے پھر علم کی ترویج ہے”۔

 

٭  سحنون کا مقولہ ہے ” علم اسے راس نہیں آسکتا جو پیٹ پھر کھانا کھاتا ہے”۔

 

٭  حضرت علیؓ نے اپنے ایک مشہور خطبے میں فرمایا "آدمی اپنے ہنر سے آدم ہے آدمی کا رتبہ اتنا ہی ہے جتنا اس کا ہنر ہے لہذا علم میں گفتگو کرو تاکہ تمہارے رتبے ظاہر ہوں”۔

 

٭  فراء نے کہا ہے حکیم جالینوس سے پوچھا گیا؛ "اپنے ساتھیوں سے زیادہ تم نے حکمت کیسے حاصل کر لی؟” جالینوس نے جواب دیا” اس طرح کہ میں نے کتب بینی کے لیے چراغ پر اس سے زیادہ خرچ کیا ہے جتنا وہ شراب پر خرچ کر چکے ہیں”۔

 

٭  یونس بن یزید کا بیان ہے کہ ابن شہاب زہری نے مجھ سے کہا  "یونس! علم سے ضد نہ کرنا، علم کے میدان بہت سے ہیں تو جس میدان میں بھی اترے گا چلتے چلتے تھک جائے گا اور علم ختم نہ ہو گا البتہ علم کو بتدریج حاصل کر، دن رات کی سست رفتاری کے ساتھ چل کر اسے گرفت میں لا، یک مشت لینے کی کوشش نہ کر کیونکہ جو کوئی ہے کوشش کرتا ہے کچھ نہیں پاتا”۔

 

٭  حضرت علیؓ کا مقولہ ہے ” دل کو آزاد بھی چھوڑ دیا کرو، خوش کن نکتے بھی سوچا کرو کیونکہ جسم کی طرح دل بھی تھک جاتا ہے”۔

 

٭  مشہور مقولہ ہے "چار باتیں ایسی ہیں جن سے کسی شریف کو باک نہیں ہوسکتا: باپ کی تعظیم، مہمان کی خدمت، گھوڑے کی نگہداشت اگرچہ نوکر موجود بھی ہوں اور طلب علم میں استاد کی خدمت "۔

 

٭  مثل ہے ” اس عالم پر ترس کھاوٴ جو جاہل ہے”۔

 

٭  حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: "تین شخصوں کی تحقیر منافق ہی کرسکتا ہے؛ بوڑھے مسلمان کی، عادل حاکم کی، نیکی کے معلم کی”۔

 

٭  امام مالک کہا کرتے تھے "طالب علم وہی ہے جس میں سنجیدگی، بردباری، خوف خدا ہے اور وہ اگلے بزرگوں کے اعمال حسنہ کی پیروی کرتا ہے”۔

 

﴿ب﴾

 

٭  پرانا مقولہ ہے ” جیّد عالم وہ ہے جو اپنی بہترین مسموعات لکھتا ہے، اپنی بہترین مکتوبات حفظ کر لیتا ہے اور اپنی بہترین محفوظات روایت کرتا ہے”۔

 

٭  ابراہیم بن ادہم کا قول ہے "شیطان پر عاقل عالم سے زیادہ سخت کوئی نہیں اس لیے کہ عالم بولتا ہے تو علم کے ساتھ بولتا ہے، چپ ہوتا ہے تو عقل کے ساتھ چپ ہوتا ہے آخر شیطان جھنجھلا کر کہہ اٹھتا ہے "دیکھو تو مجھ پر اس کی گفتگو اس کی خاموشی سے بھی زیادہ شاق ہوتی ہے”۔

 

٭  حضرت حسینؓ نے اپنے صاحبزادے کو نصیحت کی "فرزند! علماء کی صحبت میں خود بولنے سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کرنا، حسنِ سکوت کی طرح حسنِ سماعت بھی سیکھنا چاہئے ۔ کسی کی بات کبھی نہ کاٹنا چاہے کتنی دیر بولتا رہے”۔

 

٭  میمون بن مہران کا قول ہے "اہل علم کی ہم نشینی اختیار کرو، اچھائیاں دیکھیں گے تو تعریف کریں گے، برائیاں ہوں گی تو درگزر سے کام لیں گے، غلطی کرو گے تو جھڑکی نہ دیں گے، بے عقلی کا کام کرو گے تو عقل سکھائیں گے اور شہادت کا موقع آئے گا تو نفع پہونچائیں گے”۔

 

٭  مشہور مقولہ ہے” عالم بننا ہے تو کوئی ایک فن منتخب کر لو، ادیب بننا ہے تو ہر فن میں سے موتی چنو!”۔

 

٭  ابوعبید قاسم بن سلام نے کہا "بہت سے فنون جاننے والے پر مناظرے میں مجھے غلبہ حاصل رہا ہے لیکن ایک فن کا ماہر ہمیشہ مجھ سے جیت گیا ہے”۔

 

٭  قدیم مقولہ ہے "عالم وہی ہے جس میں تین باتیں ہوں: اپنے سے کم علم کی تحقیر نہ کرے، اپنے سے بڑے عالم پر حسد نہ کرے، اپنے علم پر اجرت وصول نہ کرے”۔

 

٭  بعض علما ء کا قول ہے: "میرا علم بس اسی قدر ہے کہ جانتا ہوں، کچھ نہیں جانتا”۔

 

٭  محمود ورّاق کا شعر ہے :

 

اتم الناس اعرفھم بنقصہ

واقمعھم لشھوتہ وحرصہ

 

(کامل وہی ہے جو اپنے نقص کو خوب جانتا اور اپنی خواہش و حرص کو اچھی طرح مارتا ہے)۔

 

٭  عبدالرحمن بن مہدی کا بیان ہے کہ ایک حدیث پر عبداللہ بن حسین سے میری گفتگو ہو گئی وہ اس وقت قاضی تھے۔ چند روز بعد میں پھر ان کے یہاں گیا تو ملاقاتی دو صفوں میں بیٹھے تھے۔ عبداللہ نے انھی کے سامنے مجھ سے کہا "اس حدیث کے بارے میں تمھاری رائے صحیح ہے اور میں عاجزی کے ساتھ اپنے قول سے رجوع کرتا ہوں”۔

 

٭  خلیل بن احمد نے کہا "میری زندگی کے دن چار قسم کے ہیں: ایک دن وہ ہے کہ نکلتا ہوں اور اپنے سے بڑے عالم کو دیکھتا اور اس سے سیکھتا ہوں، یہ میری کمائی کا دن ہے۔ دوسرا دن وہ ہے کہ نکلتا ہوں اور اپنے سے کم علم کو پاتا ہوں اور اسے سکھاتا ہوں یہ میرے ثواب کا دن ہے۔ تیسرا دن وہ ہے کہ نکلتا ہوں اور اپنے برابر کے عالم کو دیکھتا ہوں اور اس سے مذاکرہ کرتا ہوں ، یہ میرے اظہار کا دن ہے۔ چوتھا دن وہ ہے کہ نکلتا ہوں اور اپنے سے ادنی کو دیکھتا ہوں مگر وہ خود کو مجھ سے اونچا سمجھتا ہے، میں اس سے مخاطب نہیں ہوتا، یہ میرے آرام کا دن ہے”۔

 

٭  امام مالک کا مقولہ ہے: "علم میں حجت کرنے سے دل سخت اور کینہ پیدا ہوتا ہے”۔

 

٭  کسی دانا نے اپنے دوست کو لکھا "علم کا چھپانا ہلاکت ہے اور عمل کا چھپانا نجات ہے”۔

 

٭  سفیان بن عیینہ نے کہا حضرت عیسی علیہ السلام کا ارشاد ہے "ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرو جن کی صورت دیکھ کر تمھیں خدا یاد آئے ، جن کی گفتگو تمھارے علم میں اضافہ کرے، جن کا عمل تمھیں آخرت کا شوق دلائے "۔

 

٭  حضرت عیسی علیہ السلام کا ارشاد ہے: "حکمت کو اہل سے باز نہ رکھو کہ گناہ ہے اور نا اہل کے سامنے پیش نہ کرو کہ حماقت ہے۔ مہربان طبیب کی طرح بنو جو دوا کا وہیں استعمال کرتا ہے جہاں مفید ہوتی ہے”۔

 

٭  خلیل بن احمد کہا کرتے تھے: "اگر تمہارے روبرو ایسا شخص غلطی کرے جسے سمجھتے ہو کہ نصیحت سے ناراض ہو جائے گا تو اسے نہ ٹوکو کیوں کہ تم اس کی بھلائی چاہو گے اور وہ تمھارا دشمن بن جائے گا”۔

 

٭  حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اپنے تلامذہ سے فرمایا کرتے تھے: "لوگوں کی عقل سے زیادہ بات کہو گے تو کسی نہ کسی کے لیے فتنہ ضرور بن جائے گی”۔

 

٭  حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا "لوگوں سے وہی کہا کرو جو وہ سمجھ سکتے ہیں ورنہ (اللہ-ا م) اور رسول کو جھٹلانے لگیں گے”۔

 

 

﴿ت﴾

 

 

٭  حسن بصری نے فرمایا مومن کے اخلاق یہ ہیں: دین میں استقامت، نرمی میں دانائی، یقین کے ساتھ ایمان، علم کا شغف، تبحر کے ساتھ مہربانی، عبادت میں اعتدال، بے کس پر رحم، سائل کو بخشش، دشمن سے درگزر، محبت میں تقوی، مصیبت میں سنجیدگی، دولت پر شکر، اپنے مال پر قناعت، غیر سے استفادہ (یعنی استفادہٴ علم) سمجھنے کے لیے گفتگو، قبول کرنے کے لیے خاموشی، گواہی سے پہلے ہی اعتراف حق”۔

 

٭  ابو ہمزہ کہتے ہیں: "ایک دن میں حضرت زین العابدین کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا میں تمھیں مومن اور منافق کی علامتیں کیوں نہ بتا دوں؟ مومن وہ ہے جو اپنا علم اپنی عقل میں سمو چکا ہے،سوال کرتا ہے تاکہ سیکھے، خاموش ہوتا ہے تاکہ مانے، بولتا ہے تو حق کہتا ہے نہ کبھی شہادت چھپاتا ہے،نہ دشمن پر ظلم کرتا ہے، نہ حق پر ریاکاری سے چلتا ہے نہ حق کو حیاسے چھوڑتا ہے، اس کی نیکی کا شہرہ ہو جاتا ہے تو خوف سے کانپتا ہے اور اپنے مخفی گناہوں سے توبہ میں لگ جاتا ہے۔ منافق وہ ہے جسے منع کیا جاتا ہے تو باز نہیں آتا ، حکم دیا جاتا ہے تو عمل نہیں کرتا، نماز کے لیے اٹھتا ہے تو دکھاوے کے لیے اٹھتا ہے، رکوع کرتا ہے تو اونٹ کی طرح جھک پڑتا ہے، سجدے میں جاتا ہے تو کوّے کی طرح چونچیں مارتا ہے، روزہ رکھتا ہے مگر کھانے کے شوق میں شام کی راہ دیکھتا ہے، شب بیداری کرتا ہے مگر نیند کی طلب میں رات ختم ہونے کا انتظار کرتا ہے”۔

 

 

﴿ث﴾

 

 

٭  یزید بن ابی حبیب کا قول ہے: ” بولنے والا فتنے کا منتظر ہوتا ہے اور چپ رہنے والا رحمت کا”۔

 

٭  حدیث میں ہے: "جس نے خاموشی اختیار کی نجات پا گیا اور جو کوئی اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے نیک بات کہے یا چپ رہے”۔

 

٭  مشہور مقولہ ہے: ” نیکی کی گفتگو مال غنیمت ہے اور خاموشی میں سلامتی ہے”۔

 

٭  قتادہ کا قول ہے : "مبارک ہے بولنے والا عالم”۔

 

٭  ابوذیّال کہا کرتے تھے: ” جس طرح گفتگو کرنا سیکھتے ہو اسی طرح خاموش رہنا بھی سیکھو کیوں کہ گفتگو اگر ہدایت بخشتی ہے تو خاموشی حفاظت کرتی ہے۔ خاموشی میں دو فائدے اور بھی ہیں، اپنے سے زیادہ عالم سے علم سیکھ سکتے ہو اور اپنے سے زیادہ جاہل کے جہل کو روک سکتے ہو”۔

 

 

﴿ج﴾

 

٭  نبیﷺ سے مروی ہے: "خاکساری سے بندے کی عزت بڑھتی ہے لہذا خاکسار ہوتاکہ (اللہ -ا م)تمھیں عزت بخشے”۔

 

٭  بزر چمہر سے پوچھا گیا ، وہ کون نعمت ہے جس پر حسد نہیں کیا جاتا؟ کہنے لگا: "خاکساری ” پوچھا گیا اور وہ کون مصیبت ہے جس میں رحم نہیں کھایا جاتا؟ کہنے لگا: "خود پسندی”۔

 

٭  ابن عبدوس کا قول ہے: "عالم جس قدر زیادہ با وقار اور بلند ہوتا ہے اسی قدر خود پسندی اس کی طرف دوڑتی ہے مگر ہاں توفیق الہی کسی کو اس آفت سے بچا لے اور حب ریاست اس کے دل سے دور ہو جائے "۔

 

٭  حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں: بخل جس کی اطاعت کی جائے ، خود غرضی جس کی پیروی کی جائے اور خود پسندی کی خصلت”۔

 

٭  مسروقؓ کہا کرتے تھے: ” بس اسی قدر علم کافی ہے کہ آدمی خوف خدا سے واقف ہو جائے اور اتنی جہالت کافی ہے کہ آدمی اپنے علم یا عمل پر مغرور ہو”۔

 

٭  حضرت ابوالدرداءؓ کا قول ہے: "جہل کی تین علامتیں ہیں: خودپسندی، فضول گوئی اور دوسروں کو کسی بات سے منع کرنا مگر خود باز نہ رہنا”۔

 

٭  حضرت علیؓ کا ارشاد ہے "خود پسندی دانائی کی موت ہے”۔

 

٭  مشہور مقولہ ہے: "جو کوئی اپنی رائے پر مغرور ہوا گمراہ ہو گیا، جس نے تکبر کیا ذلیل ہو گیا، جس نے رذیلوں کی صحبت اختیار کی حقیر ہو گیا، جو علماء کا ہم نشیں بنا با وقار ہو گیا”۔

 

٭  مامون رشید کا قول ہے: "جو کوئی اوائل عمر ہی میں سرداری چاہے گا زیادہ علم سے محروم ہو جائے گا”۔

 

٭  ابوعمر کہتے ہیں: "عالم کی شان یہ ہے کہ نہ غلط دعوے کرے، نہ اپنی قابلیت پر فخر کرے”۔

 

٭  مشہور مقولہ ہے : "عالم کا پورا زیور ہے کہ با وقار، سنجیدہ ہو، ادھر ادھر نہ دیکھے، شور و غل نہ مچائے ، کھیل کود نہ کرے، خشک رو نہ ہو، فضول گوئی سے بچے”۔

 

٭  اکثم بن صیفی کا قول ہے: "عالم کی مصیبت یہ ہے کہ جاہل سے پالا پڑ جائے ، جس چیز سے آدمی جاہل ہوتا ہے اس کا دشمن بن جاتا ہے اور جس چیز سے محبت کرتا ہے اس کا غلام ہو جاتا ہے”۔

 

 

 

﴿ح﴾

 

٭  حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کی ایک مناجات یہ بھی تھی ” الہا!  اس علم سے تیری پناہ جو نفع نہ پہنچائے ، اس دعا سے تیری پناہ جو قبول نہ ہو، اس دل سے تیری پناہ جو نرم نہ ہو، اس نفس سے تیری پناہ جو سیر نہ ہو، الہا!۔ ان چاروں سے تیری پناہ”۔

 

٭  حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ صبح بیدار ہو کر یہ دعا مانگتے تھے ” الہا!۔ مجھے علم نافع، رزق طیب اور عمل مقبول عطا فرما”۔

 

٭  سفیان بن عیینہ کا مقولہ ہے "مفید علم سے زیادہ سود مند کوئی چیز نہیں اور غیر مفید سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں”۔

 

 

﴿خ﴾

 

٭  حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا "صحرا میں رہنے والا اجڈ ہو جاتا ہے، شکار کے پیچھے پڑ جانے والا غافل ہو جاتا ہے، حکام کے پاس دوڑنے والا فتنہ کا نشانہ بن جاتا ہے”۔

 

٭  حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا "میری امت میں دو قسم کے آدمی ٹھیک رہے تو امت بھی ٹھیک رہے گی: حکام اور علماء”۔

 

٭  قتادہ کا قول ہے: "علماء نمک ہیں اور نمک ہی وہ چیز ہے جس سے کھانے کا ذائقہ درست ہوتا ہے لیکن جب خود نمک بد مزہ ہو جائے تو اسے کون چیز درست کرسکتی ہے؟”۔

 

٭  قتادہ کہا کرتے تھے: "بدترین حاکم وہ ہیں جو علماء سے دور رہتے ہیں اور بدترین عالم وہ ہیں جو حکام سے نزدیک رہتے ہیں”۔

 

٭  یزید بن ابی حبیب کہتے ہیں: نبی ﷺ سے عرض کیا گیا: مخفی ہوس کیا ہے؟ فرمایا: مخفی ہوس یہ ہے کہ آدمی علم حاصل کرے اور دل میں خواہش ہو کہ لوگ اس کا دربار داری کریں۔

 

٭  سفیان ثوری کا مقولہ ہے "علم کو اپنے اخلاق سے سنوارو، نہ یہ کہ علم سے خود آراستہ ہو”۔

 

٭  عبداللہ بن مبارک نے فرمایا: اگلے بزرگ کہا کرتے تھے: "جاہل عابد اور فاجر عالم کے فتنے سے پناہ مانگو کیوں کہ فتنے میں پڑنے والوں کے لیے دونوں بڑا فتنہ ہیں”۔

 

٭  حدیث میں آتا ہے کہ نبیﷺ سے عرض کیا گیا، سب سے برا آدمی کون ہے؟ فرمایا: بگڑا ہوا عالم”۔

 

٭  حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا مقولہ ہے : گناہ کرنے سے آدمی وہ علم بھول جاتا ہے جو حاصل کر چکا تھا”

 

٭  شداد بن اوس نے وفات کے وقت فرمایا: "اس امت کے حق میں مجھے جو خوف سب سے زیادہ ہے وہ ریاکاری اور مخفی شہوت کا ہے”۔۔۔ سفیان بن عیینہ نے "مخفی شہوت” کے یہ معنی بتائے ہیں کہ نیکی پر تعریف کی خواہش ہو۔

 

٭  حکمت پکارتی پھرتی ہے۔۔۔ "ابن آدم! میں درثمین ہوں اگر تجھے میری تلاش ہے تو سن لے میں تجھ سے بہت دور نہیں ہوں تو مجھے ان دو بولوں میں مستور پائے گا: جتنی نیکی جانتا ہے اس پر عمل کر اور جتنی بدی جانتا ہے اس سے دور رہ!”۔

 

٭  حسن بصری کہا کرتے تھے "لوگوں کو ان کے افعال سے پرکھو نہ کہ اقوال سے (اللہ۔ ا م) نے کوئی ایسا قول نہیں چھوڑا جس کی تصدیق یا تکذیب کے لیے کوئی نہ کوئی عمل نہ ہو۔ کسی کی میٹھی میٹھی باتوں سے دھوکہ نہ کھاوٴ بلکہ یہ دیکھو فعل کیسا ہے؟”

 

٭  مامون رشید کا مقولہ ہے "ہمیں زبانی وعظ سے زیادہ عملی وعظ کی ضرورت ہے۔”

 

٭  حضرت ابوداوٴد (رضی اللہ عنہ) کا قول ہے "آدمی متقی نہیں ہو سکتا جب تک عالم نہ ہو اور علم اسے زیب نہیں دے سکتا جب تک عمل نہ کرے۔”

 

٭  حسن (بصری) کا مقولہ ہے "جو علم میں سب سے آگے نکل گیا ہے اسے عمل میں بھی سب سے آگے ہونا چاہئے۔”

 

٭  سفیان ثوری کہتے ہیں "علم عمل کو پکارتا رہتا ہے، جواب نہیں پاتا تو رخصت ہو جاتا ہے۔”

 

٭  حضرت عیسی علیہ السلام نے حواریوں سے فرمایا "میں تمھیں حکمت کی تعلیم اس لیے نہیں دیتا کہ بیٹھ کر اس پر تعجب کرو بلکہ اس لیے دیتا ہوں کہ اس پر عمل کرو۔”

 

٭  شعبی کہا کرتے تھے "حفظ حدیث میں ہم عمل سے مدد لیتے تھے اس کی تحصیل میں روزے ہمارے مدد گار ہوتے تھے۔”

 

٭  امام مالک نے فرمایا "علم کی یہ بھی بربادی ہے کہ تم ہر سوال کا جواب دینے پر کمر بستہ رہو۔”

 

 

﴿د﴾

 

٭  سفیان ثوری کا قول ہے "عالم اس امت کا طبیب ہے اور مال اس امت کی بیماری ہے اگر طبیب ہی بیماری مول لے لے تو پھر علاج کون کرے گا۔”

 

٭  ابو قلابہ کا قول ہے "خدا کے شکر گزار رہو تو دولت تمھیں ذرا نقصان نہیں پہنچا سکتی۔”

 

٭  عبدالرحمن بن ابری کا قول ہے "دولت دین کا کیسا اچھا سہارا ہے۔”

 

٭  اللہ  کی رحمت ہو حضرت ابو الدرداء (رضی اللہ عنہ) پر کتنا سچ درست فرما گئے ہیں: "اصلاح معیشت آدمی کے علم و دانائی کی علامت ہے” اور فرمایا "درست معیشت درست دین سے ہوتی ہے اور درست دین درست عقل سے ہوتا ہے۔” اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اقرباء سے فرمایا کرتے تھے "نیکیوں میں پیش قدمی کرو، مال حاصل کرو، لوگوں پر بوجھ نہ بنو۔”

 

٭  زہد کی حدود متعین کرنے میں اقوال مختلف ہیں، سب سے بہتر قول ابن شہاب کا ہے۔ زہد یہ ہے کہ حرام تمہارے صبر کو مغلوب کر سکے نہ حلال تمہارے شکر کو۔

 

٭  سفیان ثوری اور امام مالک کا مقولہ ہے "زہد آرزو کم کرنے کا نام ہے۔”

 

٭  حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بہترین رزق کفایت بھر رزق ہے اور بہترین ذکر مخفی ذکر ہے۔”

 

٭  حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) حضرت سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) کی بیمار پرسی کو گئے ، حضرت سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) انھیں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے سبب پوچھا تو فرمایا "رسول اللہﷺ نے ایک حکم دیا تھا جسے ہم نے پورا نہیں کیا، فرمایا تھا "دنیا میں اسے اتنا ہی لینا جتنا ایک مسافر کا زاد راہ ہوتا ہے۔”

 

٭  حدیث میں ہے "تونگری بہت مال کا نام نہیں ہے، تونگری دل کی تونگری ہے۔”

 

٭  حسن بصری کہا کرتے تھے "ہم نے علم دنیا کے لیے حاصل کیا تھا مگر علم ہمیں آخرت کی طرف کھینچ لے گیا۔”

 

﴿ذ﴾

 

٭  حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "علم تین قسم کا ہے اس کے علاوہ جو کچھ ہے زائد ہے: آیت محکمہ، سنت قائمہ اور فریضہٴ عادلہ۔”

 

٭  حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ مسجد میں تشریف لائے تو ایک شخص کے گرد بڑی بھیڑ دیکھی، پوچھا یہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا۔ یا رسول اللہ! "یہ شخص علامہ ہے” فرمایا "علامہ کیا چیز ہے؟” صحابہ نے عرض کیا "انساب عرب کا سب سے زیادہ جاننے والا ہے، عربیت کا سب سے زیادہ ماہر ہے، یہ شعر کا سب سے زیادہ عالم ہے، اختلافات عرب کا سب سے زیادہ حافظ ہے” یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا "یہ علم نہ مفید ہے نہ اس سے جہل مضر۔”

 

٭  حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے تھے "بہت سے حدیثیں یاد کر لینا علم نہیں ہے، خوف خدا کا نام علم ہے۔”

 

٭  ابن عون کہتے ہیں "تین چیزیں مجھے اور میرے بھائیوں کو سب سے زیادہ محبوب ہیں: قرآن جس میں آدمی فکر و تدبر کرے اور وہ علم پا جائے جو پہلے حاصل نہ تھا، علم سنت کی تحصیل و تکمیل میں کوشاں ہو اور تیسری بات یہ ہے کہ سب آدمیوں کی بھلائی چاہے۔”

 

٭  بقیہ ابن الولید کا بیان ہے کہ اوزاعی مجھ سے کہا کرتے تھے "اے بقیہ! علم وہی ہے جو اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں پہنچا وہ علم ہی نہیں ہے۔ اے بقیہ!اپنے نبی ﷺ کے اصحاب میں سے کسی کو برا نہ کہنا اور اپنے نبی کی امت کے ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی کی بھی برائی نہ کرنا، یاد رکھ جو کوئی دوسروں کی برائی کرتا ہے تو دوسرے لفظوں میں مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں اچھا ہوں۔”

 

٭  سعید بن جبیر کا قول ہے "جن مسائل میں رائے زنی کی گنجائش ہے ان میں حاکم کو اجتہاد کرنا چاہئے مگر کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ صرف اسی کی رائے حق ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے ۔ یہ میرا اجتہاد ہے یہ میری رائے ہے۔”

 

٭  امام مالک کہا کرتے تھے "ہمارے فتوے گمان ہی گمان ہیں، ہمیں یقین حاصل نہیں۔”

 

٭  ابن المقنع نے اپنی کتاب "تیمیہ” میں ایک فصل لکھی ہے، کہتا ہے "علماء کا یہ کہنا کہ دین میں بحث و تکرار نہیں، بالکل درست ہے۔ کیونکہ دین بحث ہی سے ہوتا تو لوگوں کے ہاتھ میں بھی ہوتا کہ اپنی رائے و گمان سے اسے ثابت کر دیں حالانکہ جو چیز لوگوں کے ہاتھ میں پڑ جاتی ہے عام طور پر خراب ہی ہو جاتی ہے۔ اہل بدعت کی مذمت اسی لیے کی گئی ہے کہ انہوں نے دین کو رائے بنا دیا ہے حالانکہ کسی انسان کی رائے بھی یقینی و حتمی نہیں ہوسکتی کیونکہ شک و ظن سے آگے کوئی رائے نہیں جاتی۔ کون دعوی کر سکتا ہے کہ میری رائے یقینی اور ناقابل شک ہے؟ اسی لیے جو کوئی اپنی رائے کو یا دوسروں کی رائے کو دین قرار دے لیتا ہے، میں اسے سب سے زیادہ بے وقوف انسان سمجھ لیتا ہوں۔”

 

٭  امام احمد کے شعر ہیں:

 

دین النبی محمد اخبار

نعم المطیة للفتی آثار

 

(محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین حدیث ہے اور حدیث مسلمان کے لیے کیا ہی خوب ہے)۔۔۔

 

لاترغبن عن الحدیث و اہلہ

فالرای لیل والحدیث نہار

 

(خبردار حدیث و اصحاب حدیث سے منہ نہ پھیرنا، حدیث دن ہے اور رائے رات ہے)۔

 

٭  ابو بکر ہذلی کی روایت ہے کہ امام زہری نے مجھ سے پوچھا، تمہیں حدیث سے محبت ہے؟ میں نے اقرار کیا تو فرمایا "بہت خوف! یاد رکھو حدیث سے مرد ہی محبت کرتے ہیں، مخنثوں کو اس سے وحشت ہوتی ہے۔”

 

٭  علم کی تعریف علماء نے یہ کی ہے کہ علم یقین و ظہور کا نام ہے پس جو بات یقینی ہو ظاہر ہو معلوم ہے لیکن جو آدمی یقین نہیں رکھتا بلکہ دوسروں کی دیکھا دیکھی کہنے لگتا ہے وہ عالم نہیں۔

 

٭  ابو بصرہ (رضی اللہ عنہ) کی روایت ہے کہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا "علم نجوم کی اتنی واقفیت ضروری ہے کہ اندھیری راتوں میں خشکی تری کے راستے معلوم کر سکو، اس سے آگے نہ بڑھو۔”

 

٭  حجرت ابو محجن کہا کرتے تھے: "میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ” مجھے اپنے بعد اپنی امت پر تین چیزوں سے اندیشہ ہے: حکام پر ظلم سے، نجوم پر ایمان سے، تقدیر کے انکار سے۔”

 

 

 

﴿ر﴾

 

٭  ایک روایت میں ہے کہ محمدﷺ نے فرمایا: "ایمان کی سب سے مضبوط گرہ اللہ کے نام پر دوستی، اللہ کے نام پر محبت اور اللہ ہی کے نام پر نفرت ہے۔ سب سے افضل وہ ہے جس کا عمل سب سے افضل ہے بشرطیکہ اپنے دین میں سمجھ رکھتا ہو، سب سے بڑا عالم وہ ہے جو لوگوں کے اختلاف کے وقت بھی حق کو پہچانتا ہے اگر چہ عمل میں کوتاہ ہو”۔

 

٭  حسان بن عطیہ کا قول ہے: "بندے کو جتنی زیادہ معرفت ملتی ہے اسی قدر لوگ اس سے قریب ہو جاتے ہیں”۔

 

٭  مجاہد کا قول ہے: "جواللہ سے ڈرتا ہے وہی فقیہ ہے”۔

 

٭  حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ محمدﷺ نے فرمایا: "میں تمھیں اس فقیہ کی شناخت کیوں نہ بتا دوں جو پورا پورا فقیہ ہے؟ یہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو نہ رحمت الہی سے مایوس کرتا ہے نہ  (اللہ کے خوف) سے نڈر بناتا ہے نہ قرآن کو بے پروائی سے چھوڑ دیتا ہے۔ یاد رکھو! اس عبادت میں کوئی بھلائی نہیں جو تفقہ (فہم و تدبر) سے خالی ہے، اس علم میں کوئی فائدہ نہیں جو فہم سے خالی ہو، اس تلاوت میں کوئی نفع نہیں جو تدبر سے خالی ہو”۔

 

٭  لقمان سے پوچھا گیا: "سب سے بڑا مالدار کون ہے؟ ” جواب دیا : "جو اپنے مال پر سب سے زیادہ قانع ہے” پوچھا گیا: "سب سے زیادہ عالم کون ہے؟ کہا: "جو دوسروں کے علم سے اپنے علم میں اضافہ کرتا رہتا ہے”۔

 

٭  حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا مقولہ ہے: "خشیت الہی کافی وافی علم ہے اور اللہ  کے معاملے میں فریب نفس کافی جہالت ہے”۔

 

٭  حضرت ابوالدرداءؓ نے فرمایا: "تم کامل فقیہ نہیں ہوسکتے جب تک محبت الہی کی راہ سے تمھیں شریروں سے بغض نہ ہو، اپنے نفس سے تمھارا بغض اور بھی ہونا چاہئے "۔

 

 

﴿ز﴾

 

٭  خلیل بن احمد نے کہا : ” آدمی چار قسم کے ہیں: وہ جو جانتا ہے اور جانتا ہے کہ جانتا ہے یہ عالم ہے اس سے پوچھو، اس کی پیروی کرو۔ دوسرا وہ جو نہیں جانتا اور جانتا ہے کہ نہیں جانتا ، یہ جاہل ہے اسے سکھاوٴ۔ تیسرا وہ ہے جو جانتا ہے مگر نہیں جانتا کہ جانتا ہے یہ غافل ہے اسے ہشیار کرو۔ چوتھا وہ ہے جو نہیں جانتا مگر بدقسمتی سے نہیں جانتا کہ وہ نہیں جانتا ہے یہ غبی و احمق ہے اس سے بچو، دور بھاگو”۔

 

٭  امام مالک فرما تے ہیں: "چار آدمیوں سے علم نہ لو: کھلے ہوئے بد کار سے، کسی خاص مقصد کی طرف دعوت دینے والے بندہٴ غرض سے، عام گفتگو میں جھوٹ بولنے والے اگر چہ روایت حدیث میں جھوٹ نہ بھی بولتا ہو اور ایسے متدین پرہیز گار سے جو سادہ لوحی کی وجہ سے جھوٹ سچ میں تمیز نہ کرسکے”۔

 

٭  سلیمان بن ابی موسیٰ نے کہا: "عالم کی صحبت میں تین قسم کے آدمی بیٹھتے ہیں:ایک وہ جو اچھا برا جو سن لیتا ہے قبول کر لیتا ہے، دوسرا وہ جو کچھ بھی حاصل نہیں کرتا اور صم بکم بیٹھا رہتا ہے اور تیسرا وہ جو انتخاب کرتا ہے اور یہی تینوں میں بہتر ہے” انہی سلیمان کا قول ہے: "آدمی وہی ہے جس کا علم حجازی ہو اور اخلاق عراقی”۔

 

 

﴿س﴾

 

٭  عبداللہ بن یزید بن ہرمز کا یہ قول امام مالک نقل کرتے تھے: "مجھے پسند ہے کہ عالم اپنی ایک یادگار "لاادری”(میں نہیں جانتا) بھی چھوڑ جائے تاکہ بعد کے لوگ یہ کہتے ہوئے نہ شرمائیں”۔

 

٭  کتاب المجالس میں ابن وہب لکھتے ہیں: "اگر ہم امام مالک کی زبان سے "لا ادری” لکھنا شروع کر دیں تو صفحے کے صفحے بھر جائیں گے”۔

 

٭  عبدالرحمن بن مہدی کی روایت ہے کہ امام مالک نے فرمایا: "دیکھو جلیل القدر فرشتے بھی کہتے ہیں” لا علم لنا” (ہم بالکل بے علم ہیں)۔

 

٭  عبدالرزاق راوی ہیں کہ امام مالک نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول بیان کیا: "عالم جب "لا ادری ” کہنا بھول جاتا ہے تو ٹھوکریں کھانے لگتا ہے”۔

 

٭  حضرت ابوالدرداءؓ فرمایا کرتے تھے "لا علمی کی صورت میں آدمی کا "لا ادری” کہنا آدھا علم ہے”۔

 

٭  ابوالزناد نہ کہا: "’لا ادری‘ کہنا سیکھ اور ’ادری‘ (میں جانتا ہوں) کہنا نہ سیکھو کیوں کہ لاادری کہو گے تو لوگ تمھیں سکھائیں گے اور تم میں درایت پیدا ہو گی لیکن’ ادری‘ ہی کہتے رہو گے تو تم سے سوال ہوتے رہیں گے آخر تمھارا علم ختم ہو جائے گا اور ’لاادری‘ کی منزل میں پہنچ جاوٴ  گے”۔

 

٭  حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے: "جو کوئی ہر مسئلے میں فتوی دیتا ہے دیوانہ ہے”۔

 

٭  حضرت ابوہریرہؓ جب کوئی بات کہتے تو صاف اعلان کرتے "یہ میری اپنی عقل کی پیداوار ہے”۔

 

 

﴿ش﴾

 

٭  حضرت ابوالدرداءؓ فرما یا کرتے تھے: ” لوگو! علما ء کی فراست سے بچو، ایسا نہ ہو کہ تم پر ایسی شہادت دے دیں جو تمھیں دوزخ میں منہ کے بل گرا دے کیوں کہ اللہ  حق کو علماء کے دلوں میں انڈیلتا اور ان کی آنکھوں میں رکھ دیتا ہے”۔

 

٭  حدیث مرفوع میں ہے: "علماء کی فراست سے بچو کیوں کہ وہ نور الہی سے دیکھتے ہیں”۔

 

٭  حضرت عبداللہ بن مسعوؓ فرمایا کرتے تھے: "جو بات مومنین کے نزدیک اچھی ہے اللہ  کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جو بات مومنین کی نظر میں بری ہے ، اللہ بھی اسے برا سمجھتا ہے”۔

 

﴿ص﴾

 

 

٭  امام شافعی کہتے ہیں۔ "اختلاف کی دو صورتیں ہے: منصوصات میں اور محتملات میں، منصوصات میں اختلاف جائز نہیں اور محتملات میں زیادہ تشدد کو میں پسند نہیں کرتا”۔

 

٭  اہل نظر کی رائے یہ ہے کہ جب ایک ہی مسئلے میں دو متضاد قول ہو تو دونوں حق نہیں ہوسکتے، لازمی طور پر ایک صحیح ہو گا دوسرا غلط۔

 

٭  نیکی وہ ہے جس پر دل مطمئن ہو اور بدی وہ ہے جو دل میں کھٹک پیدا کرے، جس بات میں دُبدھا ہو اسے چھوڑ دو اور جس میں دل کو خلش نہ ہو اسے لے لو”۔(حدیث)

 

٭  اشہب کہتے ہیں، امام مالک سے اختلافات صحابہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: "ان میں حق بھی ہے، باطل بھی ہے اور چھان پھٹک ضروری ہے”۔

 

٭  حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے متعدد مسائل میں مروی ہے کہ فرمایا: "یہ میری رائے ہے صحیح ہو تو اللہ  کی توفیق سے ہے غلط ہو تو میری اپنی کوتاہی ہے”۔

 

٭  مجاہد کہا کرتے تھے: "رسول اللہﷺ کے بعد کوئی نہیں جس کا قول ماننا اور رد کر دینا جائز نہ ہو”۔

 

 

﴿ض﴾

 

٭  سلیمان التیمی کا قول ہے: ” قرآن میں حجت کرنا کفر ہے، معنی یہ ہیں کہ قرآن کی کسی آیت کو ایک شخص آیت بتائے اور دوسرا تردید یا شک کرے”۔

 

٭  یحی بن سعید سے مروی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا: "جو کوئی اپنے دین کو بحثوں کا نشانہ بناتا ہے اس کا اعتقاد بھی ڈانواڈول رہتا ہے”۔

 

٭  اوزاعی کہا کرتے تھے: "میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ ” اللہ  کسی قوم کی برائی چاہتا ہے تو اس میں بحث و جدل کی گرم بازاری ہو جاتی ہے اور عمل کا ولولہ جاتا رہتا ہے”۔

 

٭  ابراہیم التیمی نے آیت "فاغرینا بینھم العداوة والبغضاء الی یوم القیامة” (مائدہ/14) کی یہ تفسیر کی "ان لوگوں کے اندر مذہبی مناظرے عام کر دیئے "۔

 

٭  محمد بن الحنفیہ فرمایا کرتے تھے: "دنیا ختم نہیں ہو گی جب تک لوگ اپنے پروردگار کے بارے میں بھی بحث نہ کرنے لگیں” یہی مضمون ایک حدیث مرفوع کا بھی ہے۔

 

٭  ہیثم بن جمیل کہتے ہیں: "میں نے امام مالک سے دریافت کیا، کیا محدث کو حمایت حدیث میں مناظرہ کرنا چاہئے ؟ فرمایا: "ہرگز نہیں، محدث کو چاہئے کہ حدیث سنادے لوگ قبول نہ کریں تو خاموش ہو جائے "۔

 

٭  (مصعب بن عبداللہ کا شعر ہے۔)

 

وما انا والخصومةوھی لبس

تصرف فی الشمال وفی الیمین

 

(مجھے مباحثہ سے کیا کام؟مباحثہ شک ہے اور ادھر ادھر بھٹکنے کا نام)۔

 

٭  مصعب بن عبداللہ سے روایت ہے کہ امام مالک نے فرمایا: دین کے اندر گفتگو مجھے پسند نہیں‘․․․ میں وہی گفتگو پسند کرتا ہوں جس کا نتیجہ عمل ہو۔ دین الہی اور ذات الہی میں مجھے گفتگو نہیں سکوت پسند ہے۔

 

٭  یونس بن عبدالاعلی کہتے ہیں: جب امام شافعی اور حفص الفر د میں مناظرہ ہوا توامام شافعی نے مجھ سے فرمایا: ابوموسی !شرک کے علاوہ اور جس گناہ سے بھی آلودہ ہو کر بندہ پروردگار کے حضور جائے مگر "کلام” کے گناہ سے آلودہ نہ ہو، میں نے حفص کے منہ سے ایسی گفتگو سنی ہے جسے دہرانے کی مجھ میں ہمت نہیں ۔

 

٭  امام مالک کا مقولہ ہے: یہ حجتی لوگ جب اپنے سے بڑے حجتیوں سے ہار جائیں گے تو کیا اپنا دین بھی چھوڑ کر نئے نئے دین قبول کرتے رہیں گے۔

 

٭  حسن بصری کہا کرتے تھے: نہ بدعتیوں کی صحبت اختیار کرو، نہ ان سے بحث کرو، نہ ان کی حدیث سنو۔

 

٭  اور( جعفر نے)فرمایا: قضا و قدر میں بحث کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو سورج پر نگاہیں جما دیتا ہے اور جتنا گھورتا جاتا ہے اسی قدر اس کی نگاہیں خیرہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔

 

٭  ابو عمر کہتے ہیں: نبی ﷺ اور صحابہ کرام سے معتبر و ثقہ راویوں نے صحت کے ساتھ جو کچھ روایت کیا ہے وہی علم ہے اور اسی پر یقین کرنا چاہئے ، جو بات ان کے بعد نکالی گئی ہے اور ان سے ثابت علم پر استوار نہیں وہ بدعت اور گمراہی ہے۔

 

٭  ابراہیم کہا کرتے تھے:تم ایسے کہاں کے برگزیدہ ہو کہ اللہ نے اپنے نبی کریم کے ساتھیوں سے علم چھپا کر تمھارے لیے اٹھا رکھا تھا۔

 

٭  حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ایک ایک کر کے تین مرتبہ فرمایا: کرید کرنے والے ہلاک ہو گئے ۔

 

٭  عبداللہ بن حسن کا مقولہ ہے: بحث و مباحثے سے پرانی دوستیاں غارت ہو جاتی ہیں اور محبت کی گرہیں کھل کر بغض و عداوت کی گرہیں بن جاتی ہیں، مباحثے کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ ہر فریق غالب آنے کی خواہش رکھتا ہے اور اس خواہش سے بڑھ کر پھوٹ ڈالنے والی کوئی چیز نہیں۔

 

٭  مسعر نے اپنے بیٹے کرام کو نصیحت کی:

 

انی منحتک یا کدام نصیحتی

فاسمع لقول اب علیک شفیق

(کدام ! میری نصیحت تیرے سامنے ہے اپنے باپ کی بات پر کان دھر)

 

اما المزاحة والمراء فدعہما

خلقان لا ارضاہما لصدیق

(تمسخراور بحث سے باز رہ! یہ خصلتیں میں کسی دوست کے لیے بھی پسند نہیں کرتا)

 

انی بلوتہما فلم احمدہما

لمجاور جار اولا لرفیق

(دونوں کو خوب آزما چکا ہوں، نہ ہمسائے کے لیے پسندیدہ ہیں نہ ساتھی کے لیے)

 

٭  ابو عمر کہتے ہیں: یہ عمر بن عبدالعزیز وہی ہیں جو دین میں مباحثے اور مناظرے کے سخت مخالف تھے اور فرمایا کرتے تھے: "جس نے اپنے دین کو حجت و تکرار کا نشانہ بنایا اس کے دین میں ضرور تلون پیدا ہو جائے  گا”۔ مگر جب مجبور ہوئے اور دیکھا کہ بحث سے نفع کی امید ہے تو مباحثہ کیا اور غالب رہے کیوں کہ علم میں بلند مقام کے مالک تھے۔

 

٭  بعض علماء کا قول ہے: ہر مناظر عالم ہے لیکن ہر عالم مناظر نہیں، یہ اس لیے کہ ہر عالم کے ذہن میں دلائل ہمیشہ محفوظ نہیں رہتے۔

 

٭  حضرت عمرؓ کا مقولہ ہے: تین چیزیں دین کو ڈھا دینے والی ہیں: عالم کی ٹھوکر، قرآن کو لے کر منافق کی بحث اور گمراہ کرنے والا امام۔

 

 

﴿ط﴾

 

٭  حضرت معاذ بن جبلؓ اپنے حلقے میں روز فرمایا کرتے تھے: "…حکمت رکھنے والے دانا کی گمراہی سے بچو!… شیطان کبھی دانا کی زبان سے بھی گمراہی کا کلمہ بولتا ہے اور کبھی منافق کی زبان پر بھی حق کو جاری کر دیتا ہے۔ تم ہمیشہ حق کو قبول کرو چاہے کسی کے پاس ہو۔ حق کا اپنا نور ہوتا ہے اور تم اسے پہچان سکتے ہو۔”… لوگوں نے سوال کیا: "دانا کی گمراہی کیا ہے؟”… فرمایا: "اس گمراہی کی شناخت یہ ہے کہ ایسی بات کہے جو تمھیں حیرت میں ڈال دے اور سنتے ہی تمہارے منہ سے نکل جائے "ارے یہ کیا؟”…”

 

٭  کمیل بن زیاد نخعی سے حضرت علیؓ کی یہ گفتگو معروف و مشہور ہے: "اے کمیل! یہ دل ظروف کی مانند ہیں ان میں زیادہ اچھا وہی ہے جو نیکی کے لیے زیادہ گہرا ہے۔ آدمی تین قسم کے ہیں: عالم ربانی، نجات کی نیت رکھنے والا متعلم اور باقی سب لوگ ہر آواز کے پیچھے دوڑنے والے بے وقوف، اجڈ، اوباش ہیں، نہ علم سے روشنی حاصل کر چکے ہیں نہ کسی مستحکم بنیاد پر استوار ہیں”۔

 

٭  حارث اعور سے روایت ہے کہ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا مگر آپ نے جواب نہیں دیا اور جلد سے اندر چلے گئے پھر جوتا پہنے، چادر اوڑھے مسکراتے ہوئے برآمد ہوئے ، عرض کیا  گیا "آپ کی اس وقت کیا حالت ہو گئی تھی حالانکہ جب بھی مسئلہ پوچھا جاتا تھا آپ تپائے ہوئے سکے کی طرح نظر آیا کرتے تھے”؟ فرمایا "مجھے بیت الخلاء جانے کی ضرورت تھی۔ اس آدمی کی کوئی رائے نہیں جو گرانی محسوس کرتا ہو”۔

 

﴿ظ﴾

 

٭  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے "رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے میں نے دو ظرف بھرے تھے ، ایک انڈیل چکا ہوں دوسرا باقی ہے اسے بھی انڈیلوں گا تو تم میری گردن اڑا دو گے”۔

 

٭  حضرت ابو قتادہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا "کثرت حدیث سے پرہیز کرو، خبردار! میری نسبت جو کہو حق ہی کہو”۔

 

٭  ابن شبرمہ کا قول ہے : "روایت میں کمی کرو گے تو تفقہ حاصل ہو گا”۔

 

٭  ضحاک بن مزاحم کہا کرتے تھے : "ایسا زمانہ بھی آنے والا جب قرآن کھونٹیوں پر لٹکا دیے جائیں گے، مکڑیاں ان پر جالے لگا لیں گی، لوگ ان سے فائدہ اٹھانا چھوڑ دیں گے اور روایتوں حدیثوں پر چل پڑیں گے”۔

 

٭  مسعر دانت پیستے اور کہتے : ” الہا! جو میرا دشمن ہے اسے محدث بنا دے، کاش یہ علم شیشے میں بند ہوتا اور شیشہ میرے سرپر لدا ہوتا پھر لڑھک کر چور چور ہو جاتا اور میں طالبان حدیث سے چھٹکارا پا جاتا”۔

 

٭  ابوعمر کہتے ہیں: "کثرت حدیث کی علماء نے اسی خیال سے مذمت کی ہے کہ آدمی غور و فکر(اور) فہم و تدبر سے ہٹ کر روایت ہی کا نہ ہو رہے”۔

 

٭  امام ابویوسف کا بیان ہے کہ اعمش نے تنہائی میں مجھ سے ایک مسئلہ دریافت کیا، میں نے بتا دیا۔ خوش ہو کر کہنے لگے” یعقوب! یہ تمھیں کیوں کر معلوم ہوا؟ ” میں نے جواب دیا: "فلاں حدیث سے جو خود آپ نے مجھ سے روایت کی تھی” کہنے لگے: "یعقوب! سچ کہتا ہوں یہ حدیث مجھے اس وقت سے یاد ہے جب تمھارے والدین کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی لیکن آج ہی اس کا مطلب معلوم ہوا”۔

 

﴿ع﴾

 

٭  حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا قول ہے: "فرضی مسائل نہ پوچھا کرو کیوں کہ میں نے عمر بن خطابؓ کو ان لوگوں پر لعنت کرتے سنا ہے جو فرضی مسائل پوچھتے ہیں”۔

 

٭  عمرو بن دینار روایت کرتے ہیں کہ حضرت جابر بن زیدؓ سے کہا گیا، لوگ آپ سے جو کچھ سنتے ہیں لکھ لیتے ہیں۔ اس پر جابرؓ نے کہا : "انا للہ وانا الیہ راجعون”۔

 

٭  حسن بصری فرماتے تھے: "اللہ کے بدترین بندے وہ ہیں جو فتنہ انگیز مسائل ایجاد کر کے (اللہ کے بندوں) کو فتنوں میں ڈالتے ہیں”۔

 

﴿غ﴾

 

 

٭  حماد بن زید سے روایت ہے کہ ایوب سے کہا گیا "آپ رائے سے اشتغال کیوں نہیں رکھتے؟” جواب دیا "گدھے سے پوچھا گیا تو جگالی کیوں نہیں کرتا؟” کہنے لگا” اس لیے کہ میں باطل کو چابنا پسند نہیں کرتا!”۔

 

٭  امام مالک جب اجتہاد سے کچھ کہتے تو یہ آیت بھی پڑھ دیتے تھے "ان نظن الا ظنا وما نحن بمستیقنین

 

٭  خالد بن نزار نے امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہے "ابوحنیفہ تلوار لے کر اس امت پر ٹوٹ پڑے تو اتنا نقصان نہ پہنچا سکتے جتنا اپنی رائے اور قیاس سے پہنچا گئے ہیں”۔

 

٭  لیث بن انس کہتے ہیں میں (امام) مالک کے ستر فتوے ایسے شمار کئے ہیں جو سنت نبوی ﷺ کے خلاف ہیں اور (امام) مالک نے محض رائے سے دیئے ہیں، میں نے انھیں اس بارے میں نصیحت بھی لکھ بھیجی ہے”۔

 

 

 

﴿ف﴾

 

٭  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ” علماء کا علم قبول کرو مگر ایک کے خلاف دوسرے کے قول کا یقین نہ کرو کیوں کہ واللہ۔ بکروں میں بھی ویسی جلن نہیں ہوتی جیسی علماء میں ہوتی ہے”۔

 

٭  اعمش کا بیان ہے کہ مجلس میں ابراہیم نخعی کا تذکرہ ہوا تو بگڑ کر کہنے لگے "وہی کانا جو رات کو مجھ سے فتوے پوچھ پوچھ جاتا ہے او ر دن کو عالم بن کر لوگوں کو فتوے دیتا ہے!” نخعی کو یہ بات پہنچی تو کہنے لگے "یہ شعبی مسروق سے حدیث روایت کرتا ہے حالانکہ اس کذاب نے مسروق سے ایک حدیث بھی نہیں سنی!” ابوعمر کہتے ہیں "معاذ اللہ! شعبی کذاب نہیں ہوسکتے وہ تو جلیل القدر امام ہیں اسی طری ابراہیم نخعی کی دیانت و امانت مسلم ہے”۔

 

٭  اس سلسلے میں ایک نہایت مکروہ واقعہ یہ ہے کہ ضحاک مشک کو مکروہ سمجھتے تھے، لوگوں نے کہا مگر اصحاب محمد ﷺ تو مشک کا استعمال کرتے تھے۔ طیش میں آ کر ضحاک نے کہہ دیا "ہم اصحاب محمد ﷺ سے زیادہ جانتے ہیں”۔

 

٭  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تمیم بن خدیم سے فرمایا،اگر ممکن ہو کہ ہمیشہ دوسروں ہی کی سنو اور خود کچھ نہ بولو تو ایسا ہی کرو”۔

 

٭  حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تین ہی قسم کے آدمی فتوی دیتے ہیں : ناسخ ومنسوخ کے عالم ، امت کے حکام اور تیسری قسم احمقوں کی ہے” محمد بن سیرین یہ قول نقل کر کے کہتے ہیں "پہلی دو قسموں میں میرا شمار نہیں اور امید ہے احمقوں کے گروہ میں بھی کھرا نہ ہوں گا”۔

 

 

 

﴿ق﴾

 

٭  خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے پوتے عبداللہ بن عبدالعزیز نے سب ملنا جلنا موقوف کر دیا تھا اور قبرستان میں رہنے لگے تھے۔ ہمیشہ ہاتھ میں کتاب دیکھی جاتی تھی۔ ایک مرتبہ اس بارے میں سوال کیا گیا تو کہنے لگے "میں نے قبر سے زیادہ واعظ، کتاب سے زیادہ دلچسپ رفیق اور تنہائی سے زیادہ بے ضرر ساتھی کوئی نہیں دیکھا”۔

 

٭  امام بخاری سے پوچھا گیا "حفظ کی دوا کیا ہے؟” فرمایا "کتب بینی”۔

 

(ختم شد)

 

ماخذ: فری لانسر ڈاٹ کو ڈاٹ ان

http://freelancer.co.in

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید