چار سال کا بوڑھا
فہرست مضامین
اور دوسری کہانیاں
نغمہ نور
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
علم کی طاقت
کولمبس جس نے امریکہ دریافت کیا تھا ایک جہاز ران کا بیٹا تھا۔ ایسے لوگوں کو ستاروں کی چال بخوبی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اسی علم پر جہاز رانی موقوف ہے۔ ایک دن کولمبس کو خیال آیا کہ سمندر کا دوسرا کنارہ بھی دیکھنا چاہئے۔ کیا عجب کہ ادھر بھی کوئی ملک آباد ہو۔ چنانچہ شاہی دربار کی امداد سے دو جہاز لے کر بحری سفر پر روانہ ہوا اور ستاروں کی رہنمائی سے امریکہ تک جا پہنچا۔
اس وقت تو امریکہ علم اور دولت کی کان بنا ہوا تھا مگر اس وقت وہاں جتنے بھی جنگلی لوگ رہتے تھے، وحشی اور طرح طرح کے وہموں میں پھنسے ہوئے تھے۔ کولمبس نے ان پر حکومت جمانی چاہی تو انہوں نے مقابلہ کیا۔ کولمبس کے ساتھی تعداد میں کم تھے اور لڑائی میں پورے نہ اتر سکتے تھے۔ آخر سوچتے سوچتے اسے یاد آ گیا کہ کل سورج گرہن ہو گا۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے وحشیوں کے سردار کو بلاکر کہا دیکھو! اگر تم ہماری فرمانبرداری نہ کرو گے تو میں سورج کو حکم دوں گا اور وہ تمہیں جلا کر خاک کر دے گا۔اس وقت تو وحشی چپ چاپ سنتے رہے مگر دوسرے دن جب سورج کو گرہن لگنا شروع ہوا تو سخت گھبرائے۔ غرض کے کولمبس کو جادوگر اور کراماتی بزرگ سمجھ کر اس کے پاس حاضر ہو گئے اور اطاعت قبول کر لی۔
علم میں کتنی طاقت ہے کہ جو کام بڑی فوج نہ کرسکتی تھی، وہ علم کے ایک نکتے نے ذرا سی دیر میں کر دیا۔
٭٭٭
عقل کا مُکّا
ایک رات کسی بڑے طاقتور چور نے رستم کے اصطبل سے اس کا گھوڑا چرا لیا۔ اگرچہ رستم اس وقت جاگ رہا تھا مگر اس کا خیال تھا کہ میرے منہ زور گھوڑے پر کوئی سوار نہیں ہوسکتا۔ اس لئے چپ چاپ تماشا دیکھتا رہا لیکن جب چور گھوڑے پر سوار ہو کر اسے باہر لے گیا تو رستم خاموش نہ رہ سکا۔ گھر سے نکل کر وہ دوڑ لگائی کہ چور کے سر پر جا بیٹھا اور چھلانگ لگا کر گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو گیا مگر بہادر چور نہ ڈرا اور نہ کچھ گھبرایا۔ بڑی بے تکلفی سے پوچھنے لگا کہ تم کون ہو؟ رستم نے چور کو اتنا نڈر دیکھا تو چپکے سے اسے پانچ سات زور کے مکے لگا دیئے مگر چور انہیں بھی کچھ نہ سمجھا اور کہا بھی تو یہ کہ ارے میاں! یہ کیا مسخرہ ہے۔ آرام کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے؟
چور کی زبان سے یہ فقرہ سن کر رستم کے اور بھی اوسان خطا ہو گئے کہ جو شخص میرے گھونسوں کو مسخرہ کہتا ہے وہ کشتی سے کب زیر ہو گا۔ پس یہاں کچھ اور ہی داؤ کھیلنا چاہئے۔ یہ سوچ کر رستم نے گھبرائی ہوئی آواز سے کہا۔ لو دوست! میں تو چلا، وہ دیکھو گھوڑے کا مالک رستم آ رہا ہے۔ یہ سنتے ہی چور فوراً گھوڑے سے کود پڑا اور رستم گھوڑا لے کر گھر پہنچ گیا۔ واقعی بعض دفعہ نام بھی بڑا کام دے جاتا ہے مگر نام بھی بغیر کام کے نہیں بنتا۔
٭٭٭
اتفاق کی طاقت
ایک شخص کے بیٹے ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ ایک دن باپ نے سب کو پاس بلایا اور پتلی پتلی لکڑیوں کا ایک گٹھا دے کر کہا تم سب شہ زور جوان ہو۔ آج تمہاری طاقت کا امتحان ہے۔ اگر تم میں سے کوئی اس گٹھے کو ایک دو جھٹکوں میں توڑ دے تو ہم اسے انعام دیں گے۔ یہ بات سنتے ہی باری باری سب نے زور لگایا مگر بندھی لکڑیاں نہ ٹوٹ ںسکیں۔ جب سب عاجز آ گئے تو باپ نے کہا ہر لکڑی الگ الگ کر لو گے تو ٹوٹ جائے گی۔
لکڑیوں کے کھلتے ہی کے کھلتے ہی تکڑے ٹکڑے ہونے لگی۔ باپ نے پوچھا ’’بھلا بتاؤ تو یہ اب کیوں ٹوٹ رہی ہے۔ لڑکوں نے کہا ’’اس لئے کہ جب تک سب لکڑیاں اکٹھے تھیں زور کارگر نہ ہوتا تھا اور اب ہر لکڑی جدا ہو چکی ہے لہذا اسے توڑنے کے لئے انگلی کا اشارہ بھی کافی ہے۔ ‘‘ باپ نے کہا ’’یہی حال اتفاق اور نا اتفاقی کا سمجھ لو۔ اگر تم آپس میں مل جل کر رہو گے تو دشمنوں کے نقصان پہنچانے سے بچے رہو گے اور اگر خودسر ہو کر الگ الگ ہو جاؤ گے تو دنیا کی مصیبتوں کا چھوٹا سا جھٹکا بھی تم سب کو توڑ دے گا
باپ کی یہ نصیحت لڑکوں پر اتنی کارگر ہوئی کہ سب لڑکے لڑنا جھگڑنا چھوڑ کر اتفاق اور محبت سے رہنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے ہی دنوں میں محلے کے لوگ ان کی تعریفیں کرنے لگے اور اتفاق کی طاقت سے کاروبار میں بھی دن دونی رات چوگنی ترقی ہونے لگی۔
٭٭٭
خیالی پلاؤ
ایک دفعہ شیخ چلی بازار گیا وہاں کسی سپاہی نے تیل کا کپا خریدا اور اسے بلاکر کہا ’’ارے میاں! یہ کپا اٹھا کر ہمارے گھر تک لے چلو۔ دو آنے مزدوری دیں گے۔
شیخ چلی نے بہت اچھا کہہ کر کپا تو سر پر اٹھا لیا اور دل ہی دل میں خیالی پلاؤ پکانا شروع کیا کہ دو آنے ملیں گے تو ایک مرغی خریدوں گا اور پھر اس کے انڈوں میں سے بہت سے بچے نکلیں گے۔ پھر انہیں بیچ کر ایک بکری لے لوں گا۔ اس کے بچے بڑھتے بڑھتے بہت ہو جائیں گے تو انہیں بیچ کر ایک بھینس اور بھینس کو بھیچ کر کچھ زمین خرید لوں گا۔ پھر اپنی شادی کر لوں گا تو بال بچے بھی پیدا ہو جائیں گے۔ میں جب کھیت پر سے بھینس کے لئے چارہ کا گٹھا سر پر اٹھا کر گھر میں آؤں گا تو بال بچے میری ٹانگوں سے چمٹ جائیں گے اور کہیں گے کہ ابا آئے، ابا آئے۔ میں انہیں جھڑک کر ہٹو ہٹو کہتا ہوا کٹھا زمین پر پٹک دوں گا۔
یہ خیال آتے ہی شیخ نے تیل کے کپے کو چارے کا گٹھا سمجھ کر زمین پر دے مارا اور تیل سارے کا سارا زمین پر بہہ گیا۔ تیل کے مالک نے کہا۔ ارے نالائق کیا تو نشے میں ہے کہ دس روپئے کا تیل گرا کر سب خاک میں ملا دیا۔
شیخ چلی نے جواب دیا ’’تم تو دس روپئے کو روتے ہو، میرا سارا کنبے کا کنبہ غارت ہو گیا۔
٭٭٭
نیک سیرت
کہتے ہیں نوشیرواں عادل اکثر راتوں کو بھیس بدل کر رعایا کا حال دیکھا کرتا تھا۔ ایک رات وہ کسی زمیندار کے گھر پہنچا جو مہمان نوازی میں بہت مشہور تھا۔ نوشیرواں نے سوداگروں کے لباس میں اس کے گھر جا کر دستک دی تو شریف زمیندار خوشی سے دروازہ کھول کر اسے اندر لے گیا اور پورے شوق کے ساتھ مہمان کی خدمت کرنے لگا۔ کھانا کھلایا اور بستر بچھا کر چارپائی پر سلا دیا اور بہت دیر تک گپ شپ کرتا رہا۔
صبح بادشاہ نے چلنے کی تیاری کی تو اس نے چائے کے ساتھ ناشتہ لا کر مہمان سے پوچھا۔ کسی اور چیز کی خواہش ہو تو فرما دیجئے تاکہ وہ بھی حاضر ہو جائے۔ بادشاہ دیکھ چکا تھا کہ اس شخص کے مکان کے ساتھ پختہ انگوروں کا ایک عمدہ باغ موجود ہے مگر نہ رات کو اور نہ اب اس نے انگور کھلائے۔ اس لئے فرمایا مجھے انگور بہت پسند ہیں۔ ہوسکے تو وہ بھی کھلا دیجئے۔
یہ سن کر زمیندار نے اپنے لڑکے سے کہا کہ تم فلاں زمیندار کے پاس جاؤ اور میرا سلام دے کر کہو کہ ایک دو سیر پختہ انگور ادھار کے طور پر دے دیجئے۔
بادشاہ نے پوچھا کہ آپ اپنے باغ سے انگور کیوں نہیں منگواتے؟
زمیندار نے کہا کہ ابھی سرکاری آدمی انہیں دیکھ کر سرکاری حصہ (مالگزاری) نہیں لے گیا اور جب تک وہ اپنا حق نہ لے لے مجھے ایک دانہ بھی کھانا اور کھلانا حرام ہے۔ بادشاہ تو اس کے برتاؤ ہی سے خوش تھا اب یہ ایمانداری اور دیانت داری جو دیکھی تو اور بھی خوش ہو گیا اور ہمیشہ کے لئے باغ کی مالگزاری بالکل معاف کر دی۔
٭٭٭
دل و زبان
کہتے ہیں جب حکیم لقمان پڑھ کر فارغ ہو چکے تو استاد نے کہا ’’لقمان آج ایک بکرا ذبح کرو اور اس میں سے جو سب سے اچھی چیز سمجھو ہمارے لئے پکا لاؤ۔‘‘ لقمان نے بکرا حلال کر کے اس کے دل اور زبان کو خوب اچھے مسالوں کے ساتھ بھون بھون کر استاد کے سامنے رکھ دیا۔ استاد نے کھایا تو تعریف کر کے کہا کہ لقمان آج تم آدھے پاس ہو گئے۔ دوسرے دن استاد نے فرمایا ’’آج پھر ایک بکرا ذبح کرو اور اس میں سے جو سب سے بُری چیز پاؤ، وہ ہمارے لئے تیار کر کے لاؤ۔‘‘
لقمان نے پہلے کی طرح پھر بکرا ذبح کیا اور دل اور زبان ہی کو چن لیا۔ مگر اس بار اس ترکیب سے پکایا کہ زبان میٹھی پکائی اور دل کڑوا۔ اور پھر دونوں کو ملا کر استاد کے سامنے لا رکھا۔ استاد نے کھایا تو بدمزہ پاکر پوچھا ’’لقمان! آج کیا پکا لائے؟ لقمان نے جواب دیا کہ ’’حضور وہی دل اور زبان جو آپس میں موافق نہیں۔‘‘ استاد نے فرمایا جاؤ اب تم بالکل پاس ہو گئے۔
حکیم لقمان نے دونوں دفعہ کیسی اچھی چیزیں چنیں۔ سچ مچ ایک جیسے دل اور زبان سے بڑھ کر کوئی نعمت لطیف اور لذیذ نہیں اور نہ ایک دوسرے سے مخالف دل اور زبان سے زیادہ کوئی چیز بُری اور بدمزہ نہیں ہے۔ جس آدمی کا دل اور زبان نیک ہو دنیا بھی اس کی عزت کرتی ہے۔ خدا بھی خوش ہوتا ہے اور جس کی زبان دل سے موافق نہ ہو دنیا بھی اسے اچھا نہیں سمجھتی۔ خدا بھی ناخوش ہو جاتا ہے بلکہ وہ خود بھی خوش نہیں رہتا۔
٭٭٭
دو بھائی
دو بھائیوں کو جیب خرچ کے لئے گھر سے ایک ایک پیسہ روز مل جایا کرتا تھا۔ چھوٹے کی تو عادت تھی کہ کبھی خرچ کرتا اور کبھی اس صندوق میں ڈال دیتا جو مدرسے میں غریب بچوں کی امداد کے لئے رکھا رہتا تھا۔
بڑے بھائی کی یہ حالت تھی کہ جب مدرسے میں کھیلنے کی چھٹی ہوتی تو وہ مدرسے کے مٹھائی والے کی دکان پر جا موجود ہوتا۔ بھلا اس کی رنگا رنگ مٹھائیوں کے سامنے اس کا ایک پیسہ کیا چیز تھا۔ دس پندرہ دن تو اس نے اس طرح گزارا کیا کہ آج لڈو لے لئے تو کل بالو شاہی۔ ایک دن جلیبیاں تو دوسرے دن برفی۔ مگر اس سے تسلی کب ہوتی؟ اس نے ادھار لینا شروع کیا تو چند روز میں دو روپئے اس کے ذمہ ہو گئے۔
دکاندار نے روپئے مانگے تو یہ گھبرایا۔ کہ ماں باپ کی آمدنی زیادہ نہ ہونے کے باعث پیسے کے نہ ملنے کی امید تو کیا الٹا مار پڑنے کا ڈر تھا۔ آخر ایک دن دکاندار نے اس کا بستہ چھین لیا اور کہا کہ روپئے دو گے تو بستہ دوں گا۔ اس پر دوسرے دن اسے مدرسے سے غیر حاضر ہونا پڑا۔ چھوٹے کو خبر ملی تو اس نے پہلے تو بڑے بھائی کو سمجھایا۔ پھر دکاندار کی منت کی کہ اس کا بستہ دے دو۔ آج سے دو پیسے روز دے کر میں تمہاری رقم چکا دوں گا۔ چنانچہ دکاندار نے بستہ دے دیا۔ چھوٹا لڑکا بڑے بھائی کا اور اپنا ملا کر دونوں کے دونوں پیسے دکاندار کو دے دیتا۔ اس طرح دو مہینے میں یہ قرض اتر گیا اور ساتھ ہی بڑے کو بھی کفایت کی عادت پڑ گئی۔ چنانچہ اس کے بعد پھر اس نے کبھی قرض نہ لیا۔
٭٭٭
اخلاق کی قید
لوگوں نے ایک دانا سے کہا۔ کل فلاں شخص آپ کی نسبت ایسی بری بری باتیں کہہ رہا تھا، جو آپ کو سخت بدنام کرنے والی ہیں۔ دانا نے فرمایا۔ تم لوگ تو اچھی طرح مجھ سے واقف ہو۔ کیا ان باتوں کے متعلق تمہیں یقین آسکتا ہے کہ وہ درست ہیں؟ انہوں نے کہا ہرگز نہیں مگر جناب ہر شخص تو واقف نہیں کہ اس کے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرسکے۔ بہتر ہے کہ اس کی زبان کو ادب کی لگام دے دی جائے۔ دانا نے جواب دیا۔ میں حاکم نہیں کہ سزا دے سکوں، بیکار نہیں کہ نالش کر کے سزا دلوا سکوں۔ پس کوئی اور ہی تدبیر مناسب ہے۔
تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ وہ بد زبان بھی آ گیا۔ دانا نے اس کی خاطر تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ شربت پلوایا۔ پنکھا جھلوایا اور اس کے خوش کرنے کے لئے ایسی باتیں کیں جن سے وہ نہایت خوش ہو کر واپس چلا گیا۔ اس کے چلے جانے پر شکایت کرنے والوں نے کہا کہ آپ نے یہ کام بالکل عقل کے خلاف کیا کہ ایسے بد زبان دشمن کی اتنی خاطرداری کی۔
دانا نے جواب دیا۔ تم سمجھے نہیں کہ میں نے کس طرح اس کے دل کو اخلاق کے جیل خانے میں اور زبان کو ادب کی زنجیر میں قید کر لیا ہے۔ اب دوچار ملاقاتوں میں یہ قید اور بھی سخت ہو جائے گی۔ جس کے بعد اسے میرے خلاف کہنے کی کبھی ہمت نہ رہے گی۔
٭٭٭
جو ہوا اچھا ہوا
اٹلی کا ایک بادشاہ حکومت اور دولت کے گھمنڈ میں غریبوں سے بات کرنا بھی بُرا جانتا تھا اس لئے اکثر لوگ اسے ناپسند کرتے تھے۔ ایک دن یہ شکار میں کسی جانور کے پیچھے گھوڑا ڈالے اتنی دور نکل گیا کہ نوکر چاکر سب بچھڑ گئے اور بادشاہ اکیلا رہ گیا۔ اتنے میں ایک کسان نے بادشاہ کے گھوڑے کی رکاب پکڑ لی۔ اس کی شکل ہو بہو بادشاہ سے ملتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ اس کی پوشاک اور حالت غریب جیسی تھی۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ میں تین دن سے حضور کی ڈیوڑھی پر بھوکا پیاسا چلا آ رہا ہوں مگر کوئی میری فریاد نہیں سنتا۔ بادشاہ نے غریب کو میلے کچیلے کپڑوں میں دیکھ کر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا کہ میں ذلیل آدمیوں سے بات نہیں کرتا۔ غریب کسان پھر بھی اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ یہاں تک کہ بادشاہ ایک تالاب پر پہنچ کر گھوڑا سے اترا۔ باگ ڈور ایک درخت سے اٹکائی۔ تاج اور کپڑے اتار کر ایک طرف رکھے اور نہانے کو تالاب میں اتر گیا۔ یہ تالاب ایسے نشیب میں تھا کہ نہانے والے کو اوپر کا آدمی نظر نہ آتا تھا۔ جب بادشاہ تالاب میں اتر چکا تو غریب کسان نے اپنے کپڑے اتار دیئے۔ بادشاہ کے کپڑے پہن کر تاج سر پر رکھ لیا اور بادشاہ ہی کے گھوڑے پر سوار ہو کر رفو چکر ہو گیا۔ کسان بادشاہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اسے بادشاہی نوکر چاکر مل گئے جنہوں نے اسے بادشاہ سمجھ کر ادب سے سلام کیا اور یہ بھی بے جھجھک شاہی محل میں جا پہنچا۔ اصلی بادشاہ تالاب سے نہا کر باہر نکلا تو کپڑے، تاج اور گھوڑا کچھ بھی موجود نہ تھا۔ بہت گھبرایا مگر اب کیا ہوسکتا تھا؟ ناچار غریب کسان کے میلے کپڑے پہنے اور کئی دن تک فاقے کرنے اور بھٹکنے کے بعد شہر پہنچا۔ مگر اب اس کی یہ حالت ہوئی کہ جس سے بات کرتا کوئی منہ نہ لگایا اور جب یہ کہتا کہ میں تمہارا بادشاہ ہوں تو لوگ اسے پاگل سمجھ کر ہنس دیتے۔ دو تین ہفتے اسی طرح گزر گئے۔ جب اس پاگل کا قصہ بادشاہ کی ماں نے سنا تو اسے بلوا کر اس کے سینے پر تل کا نشان دیکھا پھر اس کی سچائی کی تصدیق کی۔
کسان نے اصلی بادشاہ کی یہ حالت دیکھ کر کہا کیا تم وہی شخص ہو جو دولت اور حکومت کے گھمنڈ میں غریبوں کی فریاد نہ سنتے تھے؟ اسی کی سزا دینے کو میں نے یہ سوانگ بھرا تھا۔ اگر تم وہ گھمنڈ چھوڑ کر رحم و انصاف کا اقرار کرو تو میں تمہارا تاج و تخت واپس کرنے کو تیار ہوں ورنہ ابھی قتل کا حکم بھی دے سکتا ہوں۔ یہ سن کر بادشاہ نے عاجزی اور ندامت کے ساتھ اپنی غلطی تسلیم کی اور کسان اسے تاج و تخت دے کر گھر چلا گیا۔ جس کے بعد بادشاہ نے اپنی عادتوں کی اصلاح کر لی اور چند ہی دنوں میں نیک نام مشہور ہو گیا۔
٭٭٭
آج کا کام کل پر نہ ڈال
ایک دفعہ کسی گاؤں کا چودھری سامان لینے شہر آیا تو دیکھا کہ لوگ ایک وکیل کی بہت تعریف کر رہے ہیں کہ وہ تو سو سو روپئے کی ایک ایک بات بتاتا اور ہزار ہزار روپئے کا ایک ایک نکتہ سمجھاتا ہے۔ چودھری نے دل میں کہا ہم بھی چل کر اس کی کوئی بات سن آئیں تو بہت اچھا ہو۔ یہ سوچ کر وہ وکیل کے مکان پر پہنچا اور کہا ’’وکیل صاحب! میں نے آپ کی بہت تعریف سنی ہے۔ کوئی بات مجھے بھی سنا دیجئے۔ وکیل نے کہا ہم تو ایک بات کی فیس ایک اشرفی لیا کرتے ہیں۔ یہ سن کر چودھری کا شوق اور بھی بڑھا اور اس نے ایک اشرفی نکال کر وکیل صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ اشرفی لے کر وکیل صاحب نے ایک کاغذ پر یہ بات لکھ دی ’’آج کا کام کل پر نہ ڈال‘‘
چودھری گھر واپس آیا تو مزدوروں نے کھیت کاٹ کر اناج کا ڈھیر لگا دیا ۔ شام کو وہ چودھری سے مزدوری لینے آئے تو اس نے کہا۔ اس اناج کو گھر میں پہنچاؤ گے تو مزدوری ملے گی۔ مزدوروں نے کہا اب تو شام ہو گئی ہے، کل دن نکلتے ہی رکھ دیں گے۔ دوسروں کے اناج بھی تو باہر ہی پڑے ہیں۔ چودھری بولا بھائیو! میں نے آج ہی ایک اشرفی دے کر یہ بات سیکھی ہے۔ پس میں تو اسی وقت رکھواؤں گا۔ آخر کار مزدوروں کو اناج گھر میں رکھنا ہی پڑا۔ اتفاق سے اسی رات زور کی بارش ہوئی اور سارے گاؤں والوں کا غلہ پانی میں بہہ گیا یا خراب ہو کر رہ گیا مگر چودھری کا غلہ بالکل بچا رہا۔ بیچنے پر اتنا نفع ہوا کہ اسے ایک اشرفی کے بدلے بیسیوںاشرفیاں وصول ہو گئیں۔
٭٭٭
آدھا کمبل
ایک دولت مند سوداگر کی بیوی مر گئی۔ تھوڑے عرصے بعد وہ خود بھی دمّے کے مرض میں مبتلا ہو گیا تو اس نے اپنی کل جائیداد اپنے جوان بیٹے کے نام کر دی۔ ہزاروں کی جائیداد پاکر پہلے تو نوجوان لڑکا اور اس کی بیوی سوداگر کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے رہے مگر چھ مہینے بعد انہیں نظر انداز کرنا شروع کر دیا جس سے علاج معالجہ بھی چھوٹ گیا اور کھانا بھی وہی ملنے لگا جو معمولی طور پر گھر میں پکتا تھا۔ ایک دن نوجوان بیٹے نے باپ سے صاف کہہ دیا کہ آپ اپنی چارپائی دروازے پر بچھا لیں تو بہتر ہو کیونکہ ہر وقت کھانستے رہنے سے بچوں میں بیماری پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
بیمار باپ کو صبر و شکر کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔ اس نے کہا مجھے کوئی عذر نہیں مگر ایک کمبل اوڑھنے کو چاہئے اس لئے کہ ابھی سردی باقی ہے۔ نوجوان نے اپنے چھوٹے بیٹے سے کہا۔ دادا کو گائے والا کمبل لا کر دے دو۔ لڑکا جھٹ کمبل اٹھا لایا اور دادا سے کہا ’’لو دادا! اس میں سے آدھا تم پھاڑ لو اور آدھا مجھے دے دو۔ دادا نے کہا ’’بھلا آدھے کمبل سے سردی کیا جائے گی؟ باپ نے بھی بیٹے سے کہا کہ دادا کو سارا ہی کمبل دے دو جس پر چھوٹے لڑکے نے معصومیت سے جواب دیا گھر میں ایسا کمبل تو ایک ہی ہے۔ اگر سارا دادا کو دے دیا تو جب تم بوڑھے اور بیمار ہو کر دروازے پر چارپائی بچھاؤ گے تو میں تمہیں کیا دوں گا۔ نوجوان باپ لڑکے یہ بھولی بات سن کر سہم گیا اور باپ سے معافی مانگ کر پوری اطاعت اور خدمت کرنے لگا جس سے باپ بھی خوش ہو گیا اور بیٹے کی عاقبت بھی سنور گئی۔
٭٭٭
علم کی عمر
کسی نے ایک بڑے تاریخ دان سے پوچھا ’’آپ کی عمر کتنی ہو گی؟‘‘ تاریخ دان نے جواب دیا ’’یہی کوئی سات آٹھ ہزار سال کی۔‘‘ اس نے کہا ’’صورت سے تو آپ چالیس برس کے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ تاریخ دان نے جواب دیا۔ ’’آپ کا خیال بالکل صحیح ہے کہ مجھے اس دنیا میں آئے ہوئے چالیس سال ہی گزرے ہیں لیکن علم نے میری عمر کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ آج سے سات آٹھ ہزار سال پہلے کی باتیں مجھے ایسی معلوم ہوتی ہیں، گویا میرے سامنے ہو رہی ہیں۔ وہ تمام بڑے بڑے شاہی دربار جنہیں معمولی آدمی دیکھ نہ سکتے تھے اور ایسی سخت لڑائیاں جن میں جاتے ہوئے بڑے بڑے بہادروں کے ہوش اڑ جاتے تھے، کتاب کھولتے ہی میرے سامنے آ جاتی ہیں۔ زبانیں میرے روبرو بنتی اور بگڑتی ہیں۔ مذہب میرے سامنے پیدا ہو کر دور دور پھیل جاتے ہیں۔ سلطنتیں میرے سامنے بن کے بگڑ جاتی ہیں اور پرانی جگہیں نئے لوگ سنبھال لیتے ہیں۔
میں ہر زمانے کے مشہور آدمیوں کے ناموں اور ان کے بھلے بُرے کاموں سے واقف ہوں۔ ہر مذہب کے عالموں اور ملک ملک کے بادشاہوں کو جانتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ جہاں اب تم شہر بستے، باغ مہکتے، ریل اور موٹر چلتے دیکھ رہے ہو، وہاں اس سے پہلے ایسے سنسان جنگل تھے کہ آدمی قدم رکھتے ہوئے ڈرتے تھے۔ ملک، ریگستان، دریا، پہاڑ، بستیاں اور ویرانے میرے دیکھتے دیکھتے کچھ سے کچھ ہو گئے۔ علم حاصل کرو گے تو ایسی ہی عمر پاؤ گے۔
٭٭٭
چار سال کا بوڑھا
ایک دن ایران کا مشہور بادشاہ نوشیرواں کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں ایک بوڑھا ملا جسے دیکھ کر بادشاہ نے پوچھا ’’بڑے میاں! تمہاری عمر کتنی ہے؟‘‘ بوڑھے نے جواب دیا ’’جہاں پناہ کی عمر اور دولت زیادہ ہو، اس گنہگار کی عمر صرف چار سال کی ہے۔‘‘
نوشیرواں نے کہا ’’یہ بڑھاپا اور اتنا بڑا جھوٹ؟ تمہاری عمر 80 سال سے کم نہیں ہوسکتی۔‘‘ بوڑھے نے جواب دیا ’’جہاں پناہ! حضور والا کا اندازہ بہت درست اور بالکل صحیح ہے مگر اس میں سے 76 سال اس عاجز نے یونہی گنوا دیئے۔ جن میں صرف اپنا اور بال بچوں کا پیٹ پالنا ہی کام سمجھتا رہا۔ اس کے سوا نہ کوئی نیکی کمائی اور نہ کسی غریب کی مدد کی۔ اب چار سال سے یہ عقل آئی ہے کہ ہم لوگ فقط اپنے ہی لئے پیدا نہیں ہوئے بلکہ دوسروں کا بھی ہم پر کوئی حق ہے اور اب اس پر عمل کررہا ہوں۔ اس لئے اصلی عمر صرف چار سال ہی سمجھتا اور گنتا ہوں، باقی فضول؟
بوڑھے نے کیسی اچھی بات کہی کہ جب تک آدمی اپنے کام کو نہ سمجھ لے، آدمیوں میں نہیں گنا جا سکتا۔ بزرگی عقل پر ہے عمر پر نہیں اور سخاوت دل پر موقوف ہے، مالداری پر نہیں۔ جو لوگ ان باتوں کو پہلے سے سمجھ لیں، ان کی کسی بات سے دوسروں کو تکلیف نہیں پہنچتی بلکہ وہ ہمیشہ کمزوروں اور غریبوں کی مدد کرکے بھلائیاں حاصل کرتے رہتے ہیں۔
٭٭٭
ماخذ:
https://urduyouthforum.org/mazameen/mazameen_topics-Bachchon%20Ki%20Kahaniyan.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل:اعجاز عبید