FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

چار خاکے

               خادم علی ہاشمی، حسنین جمال

جمع و ترتیب: راشد اشرف

 

قاضی احسان احمد شجاع آبادی

(خطیبِ پاکستان، بلبلِ پنجاب، صدر مجلس تحفظ ختمِ نبوت پاکستان)

               خادم علی ہاشمی

            یاد نہیں  کب پہلی بار قاضی صاحب کا نام سنا،بچپن ہی سے اُن کا کہیں  نہ کہیں  ذکر ہوتا رہتا۔ وہ  شجاع آباد کے بچوں  کے لیے ایک غیر معمولی کردار اختیار کرتے جا رہے تھے۔’’آج قاضی صاحب امرتسر میں  تقریر کرتے ہوئے پکڑے گئے‘‘،’’قاضی صاحب نے لکھنو میں  تقریر کی‘‘،’’قاضی محمد امین کا اکلوتا بیٹا آوارہ ہو گیا ہے‘‘۔’’ والدین کا سہارا بننے کی بجائے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا چیلا بن کر شہر شہر گھومتا پھرتا ہے یا پھر پولیس کی گرفت میں  ہوتا ہے‘‘۔ اس قسم کے جملے بچپن سے میرے سننے میں  آتے رہے، اور ہمیں  کبھی تو قاضی صاحب کو ہیرو بنانے کی ترغیب ملتی اور کبھی اُن سے اور اُن کے والدین سے ہمدردی۔الغرض وہ ہم لڑکوں  کے لیے ایک افسانوی کردار تھے۔انگریزوں  کا اقتدار اپنے عروج پر تھا۔ ابھی ’ہٹلر‘ کی جنگ شروع  نہیں  ہوئی تھی ایسے میں  انگریز سامراج کی آنکھوں  میں  آنکھیں  ڈال کر اور قید و بند کی صعوبتوں  سے بے نیاز آزادی کی شمع جلانے والے الف لیلوی کردار ہی تو ہوتے ہیں، اور ہمارے کم سن ذہنوں  میں  قاضی صاحب ایک مردِ مجاہد ہی تھے۔

            پانچویں  جماعت کے بعد ہم ابا جی کے ساتھ اُن کی ملازمت کے سلسلے میں  شجاع آباد سے باہر چلے گئے اور میرے ذہن سے قاضی صاحب کے متعلق باتیں  تقریباً محو ہو گئیں ۔ تاہم اخبار پڑھنے کی عادت ابتدا ہی سے پڑ گئی تھی اور کبھی کبھار اُن کے بارے میں  کوئی خبر دیکھ کر یہ باتیں  تازہ ہو جاتیں ۔دوسری عالمگیر جنگ اپنے آخری مراحل میں  تھی، اور قاضی صاحب کے بارے میں  تشویش ناک خبریں  بھی سننے کو ملتیں ۔ 1946 ء کے الیکشن کے زمانے میں  شاہ جی کے ساتھ اُن کی ایک آدھ تقریر بھی سننے کو ملی۔ ابا جی مرحوم سرکاری ملازم ہونے کے باوجود کٹر مسلم لیگی تھے۔ وہ مجلس احرار اسلام کے مخالف تھے، تاہم شاہ جی اور دوسرے مسلم لیگ کے مخالف لیڈروں  کی تقاریر سننے کے لیے وہ خود ہمیں  ساتھ لے جاتے۔

            میں  اپنی تعلیم کے سلسلے میں  اور پھر ملازمت کے سلسلے میں  شجاع آباد سے باہر رہا۔ البتہ 1950 ء سے 1967 ء تک موسم گرما کی تعطیلات شجاع آباد ہی میں  گذریں ۔ اس عرصے میں  قاضی صاحب کی شجاع آباد میں  موجودگی کی صورت میں  صبح سے دوپہر تک کا میرا بیشتر وقت شاہی جامع مسجد میں  قاضی صاحب کی خدمت میں  گذرتا۔ قاضی صاحب جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد دوپہر کا کھانا کھاتے۔ اور ہم تین چار دوست جن میں  افضل علوی، عبد المجید، نور شامل تھے بعض اوقات قاضی صاحب کے ساتھ کھانے میں  شریک ہو جاتے۔ کھانے پر اکثر ایک بڑا پیالہ اچار کا بھرا ہوا ہوتا۔قاضی صاحب اچار رغبت سے کھاتے۔ ایسی مجلس میں  بعض اوقات قاضی صاحب کے مہمانوں  کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا، جن میں  سے اکثریت مجلس احرار اسلام کے ساتھیوں  کی ہوتی۔ ایک مرتبہ کسی ایسے دوست نے کھانے کے دوران پوچھا ـ ’’اچار کھانے سے گلا تو خراب ہو جاتا ہو گا؟‘‘ قاضی صاحب نے بلا تامل کہا ’’جی ہاں، مگر دو اشخاص کا گلا مزید سریلا ہو جاتا ہے، ایک قاضی احسان احمد کا اور دوسرا ملکۂ ترنم نورجہاں  کا!‘‘

            قاضی صاحب انتہائی شگفتہ مزاج تھے۔ مسجد میں  ایجنسیوں  کے دو اہل کار ہمہ وقت اُن کی نگرانی پر مامور رہتے۔ قاضی صاحب کی بیٹی پیالہ لیے آتی کہ امی نے کہا ہے دہی منگا دیں ۔ قاضی صاحب دور بیٹھے ایجنسی کے اہلکار کو آواز دیتے ’’سرکاری کتے! فلاں  دکان سے میرے حوالے سے ایک کلو دہی لے آؤ‘‘۔ ان اہل کاروں  کو وہ اپنے ساتھ کھانے میں  بھی شریک کرتے۔ جب کبھی وہ کہیں  سفر پہ روانہ ہوتے تو ان ملازمین کو بڑی دقت ہوتی۔ اکثر اوقات قاضی صاحب انہیں  اپنی ٹکٹ کا نمبر اور اپنی منزل کے بارے میں  بتا دیتے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ دورانِ سفر قاضی صاحب کسی باریش ہم سفر سے اپنا ٹکٹ تبدیل کر لیتے اور ٹکٹ کی منزل سے ایک سٹیشن پہلے ہی گاڑی سے اتر کر باقی سفر سڑک کے ذریعے طے کرتے۔ ایسی صورت میں  ایجنسی والے منزلِ مقصود پر کسی اور شخص کا پیچھا کرتے رہتے اور بعد میں  انہیں  خفت اٹھانا پڑتی ایسا عام طور پر پاکستان بننے سے پہلے ہوتا رہا ۔

            جب میں  لاہور میں  زیرِ تعلیم تھا، قاضی صاحب لاہور میں  آمد پرسلطان فاؤنڈری بادامی باغ میں  قیام کرتے۔ مجھے اطلاع ملتی تو میں  اپنی کلاس سے فارغ ہوتے ہی قاضی صاحب کی خدمت میں  حاضر ہو جاتا۔ اُن کی معیت میں  بہت سے معروف لوگوں  کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، جن میں  حضرت مولانا احمد علیؒ لاہوری سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور شورشؔ کاشمیری بھی شامل ہیں ۔ایک بار جب قاضی صاحب شورشؔ مرحوم کے پاس چٹان کے دفتر میں  گئے تو مرحوم کھل اُٹھے۔ اور بھائی جان کہہ کر لپٹ گئے۔ اُس زمانے میں  پاکستان میں  فروٹ کی اتنی وافر مقدار نہ ہوتی۔ مگر شورشؔ صاحب نے میز پر فروٹ کا انبار لگا دیا اور وہ دونوں  کافی دیر تک بیتے دنوں  کو یاد کرتے رہے۔ خاص طور پر چوہدری افضل حق مرحوم کا ذکر ہوتا رہا اور شورشؔ صاحب قاضی صاحب سے چوہدری صاحب کے بارے میں  معلومات کا تقاضا کرتے رہے!

            حضرت مولانا احمد علیؒ لاہوری کی خدمت میں  شیرانوالہ گیٹ والی مسجد میں  حاضری دی۔ مولانا مرحوم کا انداز انتہائی دھیما اور منکسر مزاجی کا تھا۔اُن کی نگاہیں  نیچی ہی رہیں  اور انتہائی دھیمی آواز میں  مختصر بات کرتے مگر مجھے جو خاموشی سے ان بزرگوں  کی گفتگو سن رہا تھا، ایسے محسوس ہوتا رہا کہ میری اندر کی غلاظت دھل رہی ہے۔سچ ہے آدمی آدمی بناتے ہیں !

            جن دنوں  منیر انکوائری کمیٹی جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک کے حوالے سے کام کر رہی تھی، قاضی صاحب قادیانیوں  کے لٹریچر سے بھرا لکڑی کا بکس ساتھ لے کر جاتے اور عدالت میں  پیشی کے دوران مختلف اقتباسات پیش کرتے۔ شجاع آباد کے ریلوے سٹیشن پر ہم نے بارہا اس بکس کو اپنے کندھوں  پر اٹھا کر گاڑی میں  رکھوایا۔ ایک دو مرتبہ بکس چوری بھی ہو گیا۔ مگر چرانے والے اینٹوں  سے بھرا ہوا بکس ہی لے گئے!قاضی صاحب کی لائبریری میں  جماعت احمدیہ کی ایسی مطبوعات بھی تھیں  جو بعد میں  ربوہ والوں  نے ضائع کرا دیں  اور ترامیم کے ساتھ شائع کیں ۔احمدیت کے موضوع پر اُن کے ذخیرۂ کتب سے زیادہ لٹریچر غالباًَ ملک بھر میں  اور کہیں  نہیں  تھا۔

            میں  1961 ؁ء میں  مغربی افریقہ کے ملک گھانا میں  بسلسلہ ملازمت گیا۔ سکول کے پرنسپل نے میرا رابطہ، میرے ہونے والے ایک پاکستانی رفیقِ کار سے کرا دیا تاکہ میں  یہاں  سے روانہ ہوتے وقت اجنبیت کا شکار نہ ہوؤں ۔ وہ صاحب احمدی تھے۔ مجھے انہوں  نے یہ پیغام بھیجا کہ میں  عکرہ پہنچ کر وہاں  کے احمدیہ مشن میں  پہنچ جاؤں، وہ بھی وہاں  آ جائیں  گے،  اور اگلے روز ہم دونوں  اکٹھے عکرہ سے کیپ کوسٹ جائیں  گے جہاں  مجھے کام کرنا تھا۔چنانچہ مجھے رات بھر کے لیے عکرہ میں  احمدیہ مشن میں قیام کرنا پڑا۔مشن میں  زیادہ تر پاکستانی حضرات تھے۔ انہوں  نے پُر تپاک انداز میں  استقبال کیا۔ جنہیں  مغرب کی طرف سفر کرنے کا تجربہ ہے، وہ جانتے ہیں  کہ گھڑی پیچھے کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان سے گھانا کا وقت پانچ گھنٹے پیچھے ہے۔ چنانچہ جب میں  شام کے پانچ بجے عکرہ پہنچا تو ہمارے وقت کے مطابق دس بجے تھے۔ شام تک تھکن کے باعث میری حالت غیر تھی۔ مگر مشن کے ایک صاحب بضد تھے کہ مجھے تبلیغ کریں  جب کہ میں  آرام کرنا چاہتا تھا۔ آخر تنگ آ کر میں  نے اُنہیں  بتایا کہ میں  شجاع آباد سے آیا ہوں  اور میں  احمدیہ جماعت کے بارے میں  جانتا ہوں ۔ اس پر انہوں  نے نہ صرف تبلیغ کا عمل ترک کر دیا، بلکہ وہاں  دو برس کے قیام کے دوران جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے دوستوں  نے مذہب کے بارے میں  میرے ساتھ ایک بار بھی بات نہ کی، حالانکہ اُن کے ساتھ مستقل وقت گذرتا۔

            قاضی صاحب کو ملنے کے لیے ایک سرکاری افسرآیا۔ یہ صاحب شجاع آباد میں  سرکاری دورے پر آئے ہوئے تھے۔ قاضی صاحب نے اُٹھ کر معانقہ کیا۔ اُن صاحب نے دعا کی درخواست کی۔ قاضی صاحب نے دعا کی اور وہ صاحب چلے گئے۔ اُن کے جانے کے بعد میں  نے قاضی صاحب سے پوچھا کیا انہیں  معلوم تھا کہ وہ صاحب قادیانی ہیں ۔ قاضی صاحب نے اثبات میں  جواب دیا اور بولے’’ پُتر! میں  کوں  ایں  شخص دے نال تاں  کوئی دشمنی نیں میں  تاں  ایں  دے عقیدے نال اختلاف کریندا ہاں، میں  اوں  دے واسطے ایہا دعا منگی ہے جو اللہ تعالیٰ ایں  کوں  سدھا رستہ ڈکھاون‘‘ (بیٹے! مجھے اس شخص سے تو کوئی دشمنی نہیں، مجھے تو اس کے عقیدے سے اختلاف ہے اور میں  نے یہ دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے راہِ راست پر لائیں )۔مجھ میں  رواداری، دوسروں  کے نقطۂ نظر کو سمجھنے، اُن کے اعتقادات کو برداشت کرنے کا حوصلہ قاضی صاحب ہی کی صحبت میں  نصیب ہوا، اور میرے حلقۂ احباب میں  ہر مذہب اور مکتبِ فکر کے افراد بلا لحاظ علاقائی تعلق کے شامل ہیں ۔

            قاضی صاحب پیکرِ خلوص و محبت تھے، انتہائی جذباتی اور دوسروں  کے دکھ درد میں  شریک ہونے کو تیار۔ ایک مرتبہ کسی سیاسی ساتھی کے انتقال پر غم سے نڈھال ہو گئے، جلد ہی ’’انا للہ و انا الیہ راجعون ‘‘ کہا اور طبیعت قدرے سنبھل گئی اور کہا ’’مجھے اس آیت نے کس قدر سہارا دیا ہے، وہ  بد بخت کیا کرتے ہوں  گے جن کو نہ تو خدا کی ذات پر ایمان ہے اور نہ ہی حیات بعد الموت کے قائل ہیں ‘‘۔ اس پر میں  نے عرض کیا کہ اسی لیے تو اُن لوگوں  میں  ذہنی امراض، طلاقیں  اور خود کُشی کے واقعات کی افراط ہے۔

            ایک بار عید کی تعطیلات کے بعد میں  واپس حیدرآباد جا رہا تھا، اُس زمانے میں  ہم لوگ انٹر کلاس میں  سفر کرتے۔ گاڑی میں  گھسنے کی جگہ نہ تھی، اتنے میں  ریلوے میل سروس کے ڈبے میں  سے ایک ملازم اترا اور میرا سامان اٹھوا کر میل کے ڈبے میں  لے گیا۔ قاضی صاحب پہلے سے اُس ڈبے میں  سوار تھے، اور کراچی جا رہے تھے۔عملے کے افراد کو جو قاضی صاحب کے نیازمند تھے، کہا، دیکھو میرے بیٹے کو کوئی تکلیف نہ ہو اور اسے حیدرآباد کے سٹیشن پر اترنے میں  بھی مدد دینا۔ ہم ڈاک کے تھیلے بچھا کر رات بھر مزے سے سوتے رہے۔

            ایک مرتبہ قاضی صاحب کا شیدائی، نور کالر والی قمیص پہنے مسجد میں  آیا۔ قاضی صاحب نے کالر کو پکڑ کر کہا یہ کتے کے کان کہاں  سے لگا کر آئے ہو؟ اس پر میں  نے کہا کہ آپ نے میرے کالر والی قمیص اور پتلون پہننے پر تو کبھی اعتراض نہیں  کیا، بلکہ اگر میں  کسی دن بغیر شیو بنائے آؤں  تو مجھے ٹوک دیتے ہیں  کہ شیو روزانہ کیا کرو۔ اس پر فرمایا، نور جس ماحول میں  رہتا ہے وہ دینی ہے، جب کہ تم کالج میں  پڑھاتے ہو۔ اگر تم کالج میں  مسیتڑ ملا بن کر جاؤ گے تو اپنے ہم منصبوں  میں  مختلف نظر آؤ گے (یہ بات کوئی پچاس سال پہلے کی ہے)۔ جس ماحول میں  انسان کام کرتا ہو، اُسے اُسی کے مطابق اپنی بود و باش رکھنی چاہئے۔ قاضی صاحب کی بالغ نظر ی عصری تقاضوں   سے ہم آہنگ تھی۔

            قاضی صاحب کی شگفتگی اُن کی تقاریر، جمعہ کے خطبہ، اور روزمرہ گفتگو میں  ہمہ وقت نمایاں  تھی۔ چنانچہ، ہندو دکاندار کا وہابی ہو جانا، یا ’’آپ کے پاس شلجم کا اچار ہو گا‘‘ کے جملے سے کسی کی چھیڑ بن جانا ایسے درجنوں  لطیفے تھے جو زبان زدِ عام و خاص ہو گئے۔ لحنِ داؤدی پایا تھا، قرآنِ حکیم کی تلاوت اس طرح کرتے جیسے اُن پر نازل ہو رہا ہو، بالکل اپنے مرشد، سید عطاء اللہ شاہ بخاری مرحوم و مغفور کی طرح، اُن کی تقاریر میں  فرقہ واریت کا شائبہ تک نہ ہوتا۔ گفتگو میں  بلا کی حلاوت تھی، بہت کم لوگوں  کو معلوم ہو گا کہ اُن کی زبان میں  معمولی سی لکنت تھی، مگر ممبر پر کھڑے ہوئے قاضی احسان احمد کی تقریر سے کسی کو اس نقص کا احساس تک نہ ہوتا۔ الفاظ کی ادائی اور شعر کا برمحل استعمال اُن کی گفتگو کا خاصہ تھا۔ کئی مرتبہ میرے غلط تلفظ پر ٹوک دیتے اور کہتے یہ ایم۔اے۔ پاس نہیں  بلکہ ایویں  پاس ہے! ہر کسی سے اپنائیت سے پیش آتے، کسی معمولی شناسا کو بھی احساس تک نہ ہونے دیتے کہ انہوں  نے اُسے نہیں  پہچانا۔

            ایک مرتبہ جب آپ علاج کی غرض سے لاہور میں  قیام پذیر تھے، میں  کسی سرکاری کام سے حیدرآباد سے پشاور جاتے ہوئے لاہور میں آپ کی عیادت کے لیے رکا۔ جب سلطان فاؤنڈری پہنچا تو قاضی صاحب ایک کلو بھر وزنی آم کاٹ کر کھا رہے اور پاس بیٹھے لوگوں  کو کھلا رہے تھے۔ اُس وقت قاضی صاحب کی بیماری شدت اختیار کیے ہوئے تھی اور معالجوں  نے میٹھا کھانے سے سخت پرہیز برتنے کی تاکید کی ہوئی تھی۔ میرے اظہارِ حیرت پر فرمانے لگے، مجھے ڈاکٹر نے صرف ایک آم کھانے کی اجازت دی ہے۔چنانچہ میں  تاں  فقط ہک امبلی کھاندا پیا ہاں ! (ڈاکٹروں  نے ایک آم کھانے کی اجازت دی  ہے، میں  تو صرف ایک چھوٹا سا آم ہی کھا رہا ہوں !)

            قاضی صاحب خوش خوراک، خوش لباس، خوش اخلاق اور خوش گفتار تھے۔اُن کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا۔ اس میں  نہ صرف سیاسی اور دینی زعماء تھے بلکہ سرکاری افسران تاجر، صنعت کار، اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ وہ ہر طبقے اور ہر مکتبِ فکر کے افراد سے محبت سے پیش آتے۔ اُن کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اُنہیں  خود اپنے علاقے میں  بہت عزت اور محبت ملی۔ ورنہ بہت سے بظاہر’’ بڑے آدمی‘‘  قریب سے بہت چھوٹے نظر آتے ہیں ۔ ہمارے قاضی صاحب کے جس قدر کوئی قریب ہوتا اسی قدر اُس کے دل میں  اُن کی عزت بڑھ جاتی، یہ بات بہت کم لوگوں  کو نصیب ہوتی ہے ۔ بلا شبہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔مجھے یہ فخر ہے کہ مجھے اُن کی محفل میں  1950 تا 1967 ء بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی، ماسوائے اُن دو برسوں  کے جب میں  ملک سے باہر رہا، میری گرما کی تعطیلات قاضی صاحب کی خدمت اقدس میں  گذریں ۔ میرے ذوقِ مطالعہ کو اسی دور میں  تحریک ملی، اور جس قدر مطالعہ میں  نے اُس دور میں  کیا اتنا غالباًَ بعد میں  نہ کر سکا۔ 23 نومبر 1967 ء کو شمعِ رسالت کا یہ پروانہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا۔  انا للہ و انا الیہ راجعون،

  ؎  … خاک میں  کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں  ہو گئیں  !

            بستانِ نبیﷺ کا اک دیوانہ تھا،نہ رہا!  ان کے انتقال کے بعد میں  ایسے اداروں  میں تبدیل ہوتا رہا جہاں  گرما کی تعطیلات نہیں  ہوتی تھیں، اور1967 ء کے بعد مجھے نہ تو چھٹیوں  کی فراغت نصیب ہوئی اور سوائے اُس مختصر عرصے کے جب میں  شجاع آباد کے گورنمنٹ کالج میں  پرنسپل تھا، مجھے شجاع آباد میں  قیام کا موقع بھی نہ ملا۔ شاید مجھے قاضی صاحب سے اکتساب ہی کے لیے شجاع آباد میں  قیام کا موقع ملتا رہا۔

٭٭٭

 

میجر آفتاب حسن

               سائنس دان، منتظم،اور اردو میں  سائنس کی ترویج کا داعی

               خادم علی ہاشمی

             روس کے سائنس دانوں  نے پہلا خلائی سیارہ سپوتنک کیا چھوڑا کہ مغربی دنیا میں  ایک بھونچال آ گیا۔ہم جو فلکیات میں  دلچسپی رکھتے تھے، اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے میں  مصروف تھے۔ امریکہ اور اُس کے اتحادی جاپان پر جوہری بم گرا کر سائنس میں  اپنی برتری قائم کر کے چین کی بنسری بجا رہے تھے کہ خلائی تحقیق میں  روس نے انہیں  مات دے دی۔دنیا بھر کے فلکیات دان اور ماہرین طبیعیات اس دھماکے سے چونک اٹھے، اور خلائی تحقیق کا کام تیزی سے ہونے لگا۔ برطانیہ کے خلائی تحقیق کے ادارے کے سربراہ سر ہیری میسی (Sir Harrie Massy) نے خلائی تحقیق پر ایک تفصیلی مقالہ شائع کیا، جسے میں  نے اردو میں  ترجمہ کر دیا۔ترجمہ کرنے کے بعد میری سمجھ میں  نہ آتا کہ اس مضمون کو کہاں  اور کیسے شائع کراؤں ۔ ایک ساتھی نے مشورہ دیا کہ کراچی میں  قائم سائنٹفک سوسائیٹی پاکستان کے معتمد میجر آفتاب حسن کو مضمون اشاعت کے لیے بھیج دیا جائے۔میرا میجر صاحب سے یہ پہلا غائبانہ تعارف تھا۔ انہوں  نے میرے ترجمے کو سراہا اور خود لکھنے کی ترغیب دی۔ اس سے میرا حوصلہ بڑھا اور سائنسی موضوعات پر اردو میں  لکھنے کا کام تیز کر دیا۔

            میں 1961-63 ء میں افریقہ کے دور افتادہ ملک گھانا میں  ایک استاد کی حیثیت سے گیا ہوا تھا۔ اسی زمانے میں  فرانس نے صحرا میں جوہری دھماکے کیے، جن کے باعث فضا سے تابکار شعاعوں  کی بوچھاڑ (Radio-active Fall-out) کے موضوع پر تحقیقات کا کام تیزی سے ہو رہا تھا۔ میں  نے اس موضوع پر اردو میں  ایک مضمون مرتب کرنے کا ارادہ کیا تو پہلے ابتدائی ذرات اور ایٹم کی ساخت پر ایک مضمون سپردِقرطاس کیا۔اس مضمون کا چونکا دینے والا عنوان ’’تلوار سے ہائڈروجن بم تک‘‘ رکھا اور اسے میجر صاحب کو اشاعت کے لیے روانہ کر دیا۔ابھی یہ مضمون طباعت کے مراحل سے گزر رہا تھا کہ میں  پاکستان واپس آ گیا۔ کراچی گیا، کراچی یونیورسٹی میں  احباب سے ملنے پہنچا، یہاں  شعبہ شماریات میں  صمد ہیرائی صاحب لیکچرار تھے، انہی کے شعبے میں  میرے سابق ساتھی محمد اصغر ایم ایس سی کر رہے تھے۔ اُن سے ملاقات ہوئی تو میں  نے میجر صاحب سے ملاقات کا خیال ظاہر کیا۔ وہ دونوں  میرے ساتھ چل دیے۔ اُس زمانے میں  ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جامعہ کراچی کے وائس چانسلر تھے۔ میجر صاحب اُن کے دستِ راست تھے۔ وہ بیک وقت ناظم شعبۂ تصنیف و تالیف و  ترجمہ، ایڈمنسٹریٹر شعبۂ کیمیا، رجسٹرار یونیورسٹی اور چیف پراکٹر تھے۔ سائنٹفک سوسائٹی کی ذمہ داری ان سب کے علاوہ تھی۔ہم تینوں  ان میں  سے سبھی کے دفاتر میں  یکے بعد دیگرے گئے،جہاں  جاتے یہی معلوم ہوتا کہ میجر صاحب ابھی وہاں  سے گئے ہیں !اتنی بھاگ دوڑ پر ایک خوف بھی دل میں  پیدا ہوا کہ اگر میجر صاحب نے مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا تو میری کرکری ہو جائے گی اور میں  دل ہی دل میں  دعا مانگنے لگا کہ خدا کرے میجر صاحب نہ ملیں ۔جب ہم رجسٹرار کے دفتر میں  پہنچے تو وہ سبز گاؤن پہنے اپنے کمرے سے باہر نکل رہے تھے۔ ہیرائی صاحب نے میرا تعارف کرایا، میجر صاحب نے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور ہمیں  انتظار کرنے کا کہہ کر وائس چانسلر صاحب کے دفتر میں  چلے گئے۔ واپسی پر فون کر کے ش ضحیٰ صاحب (نائب ناظم شبہ تصنیف و ترجمہ)، عظمت علی خاں  اور دوسرے لوگوں  کو اپنے دفتر میں  بلا لیا کہ خادم علی ہاشمی سے ملیں پھر پوچھتے کون سا ہاشمی، جواب ملتا ’’تلوار سے ایٹم بم تک‘‘ والا! اس قدر حوصلہ افزائی میری توقع سے کہیں  زیادہ تھی۔

            بلند و بالا قد، بھرا ہوا کسرتی جسم، چھوٹی سی خشخشی داڑھی، سفید پاجاما، ہلکے رنگ کی شیروانی میں  ملبوس، سر پہ جناح کیپ، ہاتھ میں  خوبصورت چھڑی لیے با وقار انداز میں  چلتا ہوا، ٹھہر ٹھہر کر سمجھاتے ہوئے بات کرنے کا انداز، اپنی غلطی فوراً تسلیم کر لینے والا، یہ تھا میجر آفتاب حسن۔وہ اور ان کی چھڑی لازم و ملزوم تھے۔لاہور میں  کانفرنس کے دوران اُن کی چھڑی کہیں  کھو گئی۔ اس کے بغیر وہ ادھورے ادھورے لگ رہے تھے۔میرے پاس گھر میں  ایک چھڑی موجود تھی، جو میں  مری سے لایا تھا۔ میں  نے وہ پیش کر دی، بہت خوش ہوئے۔ دوسرے دن گم شدہ چھڑی بھی مل گئی۔ کراچی جاتے ہوئے انہوں  نے دونوں  چھڑیاں  ایک ساتھ باندھ لیں  اور جہاز پہ روانہ ہو گئے۔اُن کا ذوق بہت اعلیٰ تھا، عمدہ قلم سے لکھتے، اچھی سٹیشنری استعمال کرتے،دفتر کو نفاست سے صاف ستھرا رکھتے۔ لوگوں  سے اپنے تعلقات واضح اور صحیح رکھتے، تعلقات میں  منافقت نہ کرتے اور نہ ہی منافقت برداشت کرتے! ایک بار کھانے کی میز پر میری کم خوراکی کو دیکھتے ہوئے بولے  رۂ اٹھا ے کے باوجود کٹڑجاز عبید’’ارے میاں  یہ کیا چڑیوں  کی طرح کھاتے ہو! میری طرف دیکھو، جوانی میں  سالم بکرا ہضم کر لیتا تھا! وہ ہر محفل میں  مرکزی حیثیت اختیار کر لیتے۔جوانوں  میں  جوان، بوڑھوں میں  بزرگ،ادیبوں  میں  ادیب اور سائنس دانوں  میں  سائنس دان تھے۔فوج کی ایجوکیشن کور سے تین میجر سول میں  آئے، میجر محمد رفیع، میجر بختیاری اور میجر آفتاب حسن۔ تینوں  نے تعلیم کی دنیا میں  نیک نامی کمائی اور اپنے اپنے شعبے میں  کمال حاصل کیا۔ میجر رفیع نے سائنس ایجوکیشن میں  پی ایچ ڈی کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں  ادارۂ تعلیم و تحقیق کے ڈائرکٹر ہو کر ریٹائر ہوئے، میجر بختیاری کراچی میں  تعلیمی بورڈ کے چیرمین بنے اور انہوں  نے امتحانی نظام میں  قابلِ قدر خدمات انجام دیں ۔ میجر آفتاب حسن نے تو متنوع میدانوں  مین کام کیا تاہم اُن کی شناخت اردو میں  سائنس کی اشاعت کے حوالے سے ہے۔

            بعد میں  میجر صاحب سے مختلف اوقات میں  ملاقاتیں  رہیں ۔ انہوں  نے میری طرح نہ معلوم کتنے اناڑی لوگوں  کو مصنف بنا دیا۔ سچ کہتے ہیں  کورس فقط کتابیں  پڑھاتے ہیں ؛ آدمی آدمی بناتے ہیں !گھانا سے واپسی پر میری تعیناتی دوبارہ گورنمنٹ کالج حیدرآباد میں  ہوئی۔ انہی دنوں  میجر صاحب ایک ضخیم کتاب گلاسٹون کی فزیکل کیمسٹری کا اردو میں  ترجمہ کرا رہے تھے۔ اس کتاب کے کل تیرہ ابواب ہیں، ہر باب تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر محیط ہے۔ انہوں  نے مجھے ایک باب ترجمہ کرنے کو بھیجا۔ میں  نے بطور نمونہ چند صفحوں  کا اردو میں  ترجمہ کر کے انہیں  اس درخواست کے ساتھ روانہ کیا کہ اس پر اصلاح کر کے مجھے واپس کر دیں  تاکہ اُن کے انداز میں  ترجمہ کا کام مکمل کیا جا سکے۔انہوں  نے ٹیلی فون پر صرف اتنا کہا ’’ترجمہ خوب ہے، اپنا کام جاری رکھو‘‘۔ کچھ عرصہ بعد میرا کراچی جانا ہوا تو مجھے دیکھتے ہی ایک ساتھی کو فون کیا کہ خادم علی ہاشمی آیا ہوا ہے، یہ کہتا ہے کہ میں  پنجابی ہوں  اور اردو میں  کمزور ہوں ۔ آپ اہلِ زبان کے ترجمے لے آئیں  اور ان سے اصلاح کرا لیں ۔ اسی حوصلہ افزائی نے اُن کے سبھی نیاز مندوں  میں  اعتماد اور کام کرنے کی لگن پیدا کی۔ انہوں  نے اس کتاب کے تیرہ میں  سے چار ابواب کا ترجمہ مجھ سے کرایا۔

            جن دنوں  میجر صاحب چیف پراکٹر تھے، یونیورسٹی کے طلبہ میں  یہ بات مشہور تھی کہ کراچی یونیورسٹی کے کیمپس پر کسی بھی لڑکے اور لڑکی کے مابین کم سے کم جائز فاصلہ میجر صاحب کی چھڑی کے برابر ہے!اُس زمانے میں  یونیورسٹی کا نظم و ضبط مثالی تھا۔ میجر صاحب کی سربراہی میں  شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ نے قابلِ قدر کام کیا۔ سائنٹفک سوسائٹی کے زیر اہتمام سالانہ سائنس کانفرنس مختلف یونیورسٹیوں  میں  منعقد ہوتی رہی، چنانچہ ملتان، بہاولپور، پنجاب یونیورسٹی اور انجینرنگ یونیورسٹی لاہور میں  منعقد ہونے والی کانفرنسوں  کے انتظامات میں  میں  نے بھی ہاتھ بٹایا۔سوسائٹی دو ماہی جریدہ ’’جدید سائنس‘‘ کے علاوہ بچوں  کے لیے ماہانہ ’’سائنس بچوں  کے لیے‘‘ شائع کرتی رہی، کئی کتابوں  کے ترجمے بھی شائع کیے۔ڈاکٹر نثار احمد(انجینرنگ یونیورسٹی لاہور) کے ساتھ اشتراک سے میں  نے سوسائٹی کا ایک پندرہ روزہ اخبار’’سائنس نامہ‘‘ بھی جاری کیا۔یہ سب کام میجر صاحب کے نیاز مندوں  کے تعاون سے ہوتا رہا۔ وہ ہر کسی کی حوصلہ افزائی کرتے۔اُن کے بعد اب سوسائٹی غالباً کراچی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے!

            پشاور یونیورسٹی میں  سالانہ کانفرنس منعقد ہونا تھی۔ میجر صاحب انتظامات کے سلسلے میں  پشاور جاتے ہوئے لاہور میں  رکے۔ کانفرنس میں  ایک عام فہم لیکچر ’’ابن سینا لیکچر‘‘ کے نام سے کوئی معروف سائنس دان دیتا تھا۔ اُس سال امریکہ میں  مقیم پاکستانی نژاد سائنس دان، ڈاکٹر شہاب کریم نے ابن سینا لیکچر دینے کی حامی بھری۔ تاہم اُن کا پاکستان آنے کا پروگرام ملتوی ہو گیا۔ میجر صاحب کو فکر تھی کہ اس لیکچر کا کیا ہو گا۔ یہ لیکچر فلکیات کے کسی موضوع پر طے تھا۔ جب میجر صاحب لاہور آئے تو میں  نے تجویز پیش کی کہ ڈاکٹر شہاب کریم کی عدم دستیابی کے باعث اسی موضوع پر پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر محمد انور بھٹی کو یہ لیکچر دینے کے لیے تیار کیا جائے۔ بھٹی صاحب رضامند ہو گئے۔لاہور سے میجر صاحب اسلام آباد پہنچے تو اُن کی ملاقات پروفیسرلئیق احمد خان سے ہوئی، لئیق صاحب پاکستان ٹیلی وژن پر سائنسی موضوعات پر کامیاب پروگرام پیش کرنے کی بنا پر معروف تھے۔ وہ بھی ابن سینا لیکچر دینے پر رضامند ہو گئے۔ میجر صاحب نے مجھے اسلام آباد سے فون پر یہ بات بتائی تو میں  نے واضح طور پر بتایا کہ اس طرح انہوں  نے انور بھٹی صاحب کی تحقیر کی ہے، نیز یہ کہ لئیق صاحب میرے دوست اور ہم جماعت ہیں ۔ وہ عین وقت پر لیکچر دینے سے پہلوتہی کریں  گے ۔ ایسی صورت میں  یہ لیکچر میجر صاحب کو خود دینا پڑے گا۔ چنانچہ وہی ہوا اور اُس سال کا ابن سینا لیکچر خود میجر صاحب نے دیا۔ یہ لیکچر عام فہم زبان میں انتہائی شگفتہ اور خیال افروز تھا۔ اتنے کامیاب عام فہم لیکچر بہت کم کہیں  دیے گئے ہوں  گے!

            اردو میں  سائنس کی ترویج کے سلسلے میں  وطنِ عزیز دو گروپوں  میں  تقسیم تھا، ایک گروپ اشفاق احمد خان کی سرکردگی میں  مصروفِ کار تھا، جو اس بات کا قائل تھا کہ جو بھی لکھا جا سکے، شائع کر دیا جائے، چنانچہ اصطلاحات سازی کے عمل کے ساتھ ہی، زبان کی باریکیوں  کو ادیبوں  کے لیے وقف کرتے ہوئے، دوسری زبانوں  کی اصطلاحات کو اردو رسم الخط میں  لکھ کر اردو کے دامن کو وسعت دیتے چلے جائیں ۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ اور مختلف علوم میں  زبان کے استعمال سے بعض اصطلاحات خود بخود ڈھلتی چلی جائیں  گی اور کثرتِ استعمال سے مانوس ہو جائیں  گی۔ اس نکتۂ نظر کا عملی مظاہرہ ثانوی سطح کی ریاضی اور سائنس کی تدریسی کتب میں  سامنے آیا، اور متعدد یورپی اصطلاحات کا اردو میں  بلا تکلف استعمال ہو رہا ہے۔پروفیسرحمید عسکری مرحوم جنہیں  اردو زبان میں  سائنسی موضوعات کو عمدگی سے لکھنے کی مہارت تھی، نے اسی انداز میں  طبیعیات کے مختلف موضوعات پر یک موضوعی رسالے مرتب کیے اور اردو بورڈ نے بی ایس سی آنرز کی سطح تک متعدد کتابیں  شائع کیں ۔جن میں  ریاضیاتی علامات اور ترقیمات انگریزی رسم الخط میں  دی گئیں  اور مساواتیں  انگریزی میں  کتب کی طرح بائیں  سے دائیں  جانب شائع ہوئی ہیں ۔

            دوسرا گروپ میجر آفتاب حسن کی سربراہی میں  کام کر رہا تھا۔اس گروپ کا نظریہ یہ تھا کہ سائنسی موضوعات پر اگر اردو میں  لکھا جا رہا ہے تو وہ ’’اردو زبان‘‘ ہی میں  ہو اور اس میں  بدیشی زبان کے الفاظ اور محاورات ہرگز استعمال نہ ہوں ۔ مثال کے طور پر شعبہ ٗ تصنیف و تالیف و ترجمہ، کراچی یونیورسٹی کی شائع کردہ  ایم ایس سی کی سطح کی کتاب ’’طبیعی کیمیا‘‘، جو دو جلدوں  میں  شائع ہوئی جو گلاسٹون کی Textbook of Physical Chemistry کا ترجمہ ہے،  کے متن میں  سوائے کیمیاوی علامات کے انگریزی زبان کا کوئی حرف نہیں  دیا گیا، البتہ انگریزی مساوات اور دیگر اصطلاحیں  حاشیے میں  دی گئی ہیں ۔ اس کتاب میں  اور اس ادارے کی دوسری کتابوں  میں  ریاضی کی مساواتیں  بھی دائیں  سے بائیں  جانب اردو حروف و علامات میں  دی گئی ہیں ۔

            ہم نئے لکھنے والے بہت مشکل میں  تھے اور ہمیں  کچھ سمجھ میں  نہ آتا تھا کہ کیا لکھا جائے اور کس قسم کی تحریر مرتب کی جائے؟ دونوں  مکاتبِ فکر کا استدلال اپنی اپنی جگہ درست معلوم دیتا۔اس سلسلے میں  کراچی میں  عظمت علی خان نے ایک درمیانی راستہ نکالا، وہ پی سی ایس آئی آر کے لیے سہ ماہی ’’کاروانِ سائنس‘‘مرتب کرتے تھے۔ انہوں  نے ان دونوں  انتہاؤں  کے بین بین راہ اختیار کی اور دونوں  مکاتبِ فکر سے متعلق افراد سے مضامین لکھوائے۔تاہم اشفاق احمد خان اور میجر آفتاب حسن کے مابین رسہ کشی جاری رہی۔ 1985 ؁ء میں  پنجاب یونیورسٹی میں  سائنٹفک سوسائٹی پاکستان کی سالانہ سائنس کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے روحِ رواں  میجر آفتاب حسن تھے۔ کانفرنس کے پروگرام میں  اردو بورڈ کی مطبوعات کی نمائش تو تھی مگر خان صاحب کا کسی سیشن میں  کوئی کردار نہیں  تھا۔ پروفیسر محمد انور بھٹی (شعبہ فلکیات، پنجاب یونیورسٹی) اور میں  بھی سائنٹفک سوسائٹی کی مجلسِ منتظمہ کے رکن اور بیرون کراچی کے جوائنٹ سکریٹری تھے۔ اسی تعلق کی بنا پر ہمیں  سالانہ کانفرنس کے پروگرام میں  اشفاق صاحب کے نام کی عدم موجودگی سے افسوس ہوا۔ چونکہ ہماری ہر دو حضرات سے نیاز ر مثال کے طور پرٍمندی تھی۔ اس لیے کانفرنس کے انعقاد سے پہلے ہم دونوں  مرکزی اردو بورڈ میں اشفاق صاحب سے ملنے گئے۔ انہوں  نے اپنے مخصوص انداز میں ہمارا خیرمقدم کیا۔ کافی کے ساتھ بھنے چنوں کا ڈبہ سامنے رکھا اور اپنی مخصوص دانش ورانہ گفتگو سے ہمیں  مسحور کرتے رہے۔میں  نے اُن سے دریافت کیا کہ سائنٹفک سوسائٹی کی کانفرنس کے پروگرام میں  اُن کا نام کیوں  نہیں  ہے؟ جواب میں  صرف اتنا کہا کہ یہ تو سوسائٹی والوں  ہی سے پوچھیں ۔میں  نے اُن سے دریافت کیا اگر اب میجر صاحب خود آ کر دعوت دیں  تو کیا وہ کانفرنس کے پروگرام میں  شرکت کریں  گے؟تو خان صاحب نے انتہائی خوش اخلاقی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آمادگی کا اظہار کیا۔ہم اُن کا شکریہ ادا کر کے واپس آ گئے۔ میجر صاحب کے کراچی سے آنے پر اُن سے دریافت کیا کہ سوسائٹی کی کانفرنس کی غرض و غایت کیا ہے؟انہوں  نے بلا تأمل کہا ’’اردو زبان میں  سائنس کی ترویج کرنا‘‘۔ اس پر میں  نے کہا کہ اردو سائنس بورڈ بھی تو یہی کام کر رہا ہے۔، مانا کہ آپ دونوں  کے طریقِ کار میں  فرق ہے، مگر مقصد تو ایک ہی ہے، پھر کانفرنس کے پروگرام میں  اشفاق صاحب کا نام کیوں  نہیں ؟حالانکہ اُن کے ادارے کا آپ کو تعاون حاصل ہے اور اُن کی طرف سے کانفرنس میں  کتابوں  کی نمائش کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔میجر صاحب کو پروگرام کے سقم کا احساس ہو گیا اور پوچھا کہ اب کیا کیا جائے؟ میں  نے مؤدبانہ گزارش کی کہ اشفاق صاحب کو کسی سیشن کی صدارت کے لیے کہا جائے۔میجر صاحب نے پوچھا کیا اشفاق صاحب رضامند ہو جائیں  گے؟ پروفیسر انور بھٹی صاحب نے کہا اگر آپ خود جا کر دعوت دیں  گے تو وہ کیوں  نہ مانیں  گے۔میجر صاحب نے کہا کہ اردو کے سلسلے میں  وہ ہر جگہ جانے کو تیار ہیں ۔ہم نے ٹیلی فون پر اشفاق صاحب سے وقت طے کر لیا اور میجر صاحب کے ہمراہ وقت مقررہ پر اردو بورڈ پہنچ گئے۔دونوں  بزرگوں  میں  کوئی گلہ شکوہ نہ ہوا۔اشفاق صاحب نے میجر صاحب کو اپنے سے بڑے ہونے کی حیثیت سے عزت و تکریم دی اور میجر صاحب نے خان صاحب کو خورد کی حیثیت سے توقیر بخشی۔اب ایسے وضع دار لوگ کہاں  ملیں  گے؟ جب اشفاق احمد خان صاحب کانفرنس کے ایک اجلاس کی صدارت کے لیے پہنچے تو کئی لوگوں  کے چہرے حیرانی و پیشانی کا مظاہرہ کر رہے تھے!

                        5 جولائی1977؁ ء کو جنرل ضیاء الحق نے ملک میں  مارشل لاء لگا کر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی، ملک میں  جملہ سیاسی سرگرمیاں  ماند پڑ گئیں ۔طلباء کی تنظیمیں   غیر فعال ہو گئیں، ایک تجربہ تعلیمی اداروں  میں  الیکشن کا کیا گیا جو انتہائی مضحکہ خیز طور پر سرانجام دیا گیا۔اس ماحول میں اکتوبر1978 ؁ء میں  مجھے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی جانب سے ایک مراسلہ موصول ہوا جس میں  ڈاکٹر صاحب کی کراچی کی رہائش گاہ  پر ایک اجلاس میں  شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ یہ اجلاس 25 اکتوبر1978 ؁ء کو بلایا گیا تھا جس میں  چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ایما پر ملک میں  اردو کے نفاذ اور ترویج کے سلسلے میں  ایک لائحۂ عمل تیار کرنا تھا۔

            اس اجلاس میں چاروں  صوبوں  سے اہل الرائے حضرات کو دعوت دی گئی تھی۔ اجلاس کی ابتداء میں  ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے اس اجلاس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں  ایک تقریب کے دوران میں  جنرل  ضیاء الحق صاحب نے جب ڈاکٹر صاحب کو سامعین میں  پہلی قطار میں  بیٹھے ہوئے دیکھا تو سٹیج سے اتر کر آئے، ڈاکٹر صاحب سے انتہائی مؤدب انداز میں  معانقہ کیا اور بتایا کہ وہ جامعہ ملیہ دہلی میں  ڈاکٹر صاحب کے شاگرد رہ چکے ہیں ۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ ڈاکٹر صاحب اُن کی رہنمائی کریں  کہ کس طرح وہ ملک میں  اردو کا نفاذ کر سکتے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے تجویز پیش کی کہ انہیں  ایک اجلاس بلانے کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ چاروں  صوبوں  سے ہم خیال اصحاب کی مشاورت سے لائحۂ عمل تیار کر کے پیش کیا جا سکے۔چنانچہ موجودہ اجلاس طلب کیا گیا تھا۔نتیجۃً مقتدرہ قومی زبان کا قیام عمل میں  آیا۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اس کے بانی صدر نشین اور میجر صاحب معتمد تعینات ہوئے۔ اس ادارے کی روایات قائم کرنے میں  میجر صاحب کا کلیدی کردار ہے۔

            میں  جب بھی کراچی جاتا میجر صاحب کی خدمت میں  ضرور حاضری دیتا۔ ڈاکٹرظفرحسنین زیدی مرحوم (سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی) کو ٹیلی فون کر دیتا وہ خود آ کر مجھے ساتھ لے جاتے اور ہم میجر صاحب کے نیاز حاصل کر لیتے۔آخری مرتبہ میجر صاحب کی بیگم کے انتقال کے بعد کراچی جانا ہوا۔ میں  خط کے ذریعے سے تعزیت کر چکا تھا۔ اس مرتبہ ڈاکٹر زیدی کے ہمراہ میجر صاحب کے پاس پہنچا تو وہ بات کرتے کرتے بھول جاتے۔ تاہم اُن کی گفتگو میں  شگفتگی برقرار تھی کافی دیر بیٹھے رہنے کے دوران میری ہمت نہ پڑتی کہ اُن سے تعزیت کر کے اُن کے غم کو کریدوں ۔ بڑی کوشش کے بعد میں  نے اتنا کہا ’’میں نے آپ کو خط لکھا تھا‘‘۔ اتنا سننا تھا کہ وہ غم میں  ڈوب گئے اور ان سے کوئی بات نہ ہوسکی۔یہ بلبلِ ہزارداستاں  اچانک خاموش ہو گئی!ہم دونوں  نے بصد مشکل فاتحہ پڑھی اور انتہائی فسردگی کے عالم میں  واپس لوٹے!۔میجر صاحب کے ساتھ یہ میری آخری ملاقات تھی۔

٭٭٭

 

ابّا

               حسنین جمال

کشادہ پیشانی، ابرو گھنے، چمپئی رنگت، خط سبز بتدریج مائل بہ سفید، مونچھیں  ایوب خان نما، میانہ قد، لہجے میں  ناگپور اور ملتان کی تمام تہذیب سمیٹے، شاہ حجرہ مقیم، مستقل کتابوں  میں  غرق، ٹی وی اور بچوں  کے شور سے قدرے دور رہنے کی ہمہ دم کوشش میں  مصروف، یہ ہیں  ہمارے ابّا!

 دادی کے لاڈلے، تین بہنوں  کے اکلوتے بھائی، شادی کے بعد پانی والا حمام اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھنا پڑا تو بقول امی، دادی تو رو ہی پڑیں  کہ ہائے میرا منا! کیا کیا سخت کام کرنے پڑ رہے ہیں !  ویسے ایک بات تو ہے، آپ ان کے بستر پر ایک چنے کے برابر کوئی چیز چادر کے نیچے رکھ دیجیے، حتیٰ کہ ڈبل روٹی کے ذرے تک کیوں  نہ ہوں، جب تک وہ اچھے طریقے سے ان کو ہٹا نہیں  لیتے، مجال ہے اس جگہ بیٹھ بھی جائیں، فوراً ا ٹھیں  گے اور ہتھیلی سے سہج سہج تمام جگہ سے ذرے اکٹھے کر، ایک جگہ پھینک، دراز ہو جائیں   گے۔ ساون کے موسم میں  جب ہفتوں  دھوپ نہ ہونے کی وجہ سے کپڑے ٹھیک طور سے نہ سوکھ پائیں  تو ان میں  ایک بدبو رہ جاتی ہے، ایسا کوئی کپڑا پہن کر اگر آپ ان کے کمرے میں  جائیں  تو بمشکل 6 سیکنڈ بعد (اتنی دیر انھیں  سونگھنے میں  لگ جاتی ہے) آپ انھیں  کمرے میں  نہیں  پائیں  گے، یا خود کو شاید، فرق اس میں  بلحاظ مراتب ہوتا ہے ۔

 دادی بتاتی تھیں  کہ چھٹیوں  میں  ابّا صبح آٹھ بجے اور اسکول کے دنوں  میں  شام چار بجے دادا کے کلینک چلے جاتے تھے، جھاڑ پونچھ، صفائی ستھرائی سے فارغ ہو، دکان کے باہر چبوترے پر کرسی جمائے عمران سیریز (ابن صفی ) پڑھنا شروع کر دیتے، اب صاحب کوئی آئے جائے ہماری بلا سے، ہم تو پورا ختم کریں  گے تو دم لیں  گے ۔  یہ تذکرہ تھا آٹھویں  جماعت کا، ابن صفی کے ناول ختم ہوے تو مظہر کلیم، ایم اے راحت۔۔۔ الغرض ایک آنہ لائبریری کا تمام ادب تمام کیا، کالج کے دنوں  میں  اردو ڈائجسٹ اور بعد میں  سب رنگ کے تا عمر (سب رنگ کی عمر) مستقل قاری رہے بلکہ بابر زمان کے انجام کا تو آج تک انتظار ہی ہے انھیں !

 یہ روایت غالباً دادا سے چلی ہو گی کہ بچوں  کو کچھ بھی پڑھنے سے ہرگز نہ روکیں، وہی ہمارے ابّا نے بھی نبھائی اور تا بہ مقدور ہم بھی نبھاتے جاتے ہیں  ۔

لیجیے صاحب، اب راوی بدلتا ہے،  روایت کیا فقیر سے اس کی خواہر پدر نے اور وہ پر تقصیر آپ صاحبوں  کو بیان کرتا ہے :

’’ اسکول ہی کے زمانے میں  رئیس امروہوی کے کالم پڑھ پڑھ کے تمھارے ابّا کو ہپنا ٹزم سیکھنے کا شوق ہو گیا، منصوبہ بنایا کہ استادوں  کو ہپناٹائیز کر کے امتحان میں  اچھے نمبر لے لیا کریں  گے. اس سلسلے میں  کچھ عرصے گھر والوں  سے چھپ کر باقاعدہ شمع بینی کی، مگر بچوں  میں  اتنی مستقل مزاجی کہاں، پھر ٹیلی پیتھی پہ طبع آزمائی کی تاکہ کم از کم سوچ ہی معلوم ہو سکے استادوں  کی، مگر تا بہ کہ!  ابّا جان کی ایک ڈانٹ نے سب اڑنچھو کر دیا”۔  ابّا سے پوچھا تو بولے ” ہاں  میاں، ابجان (ابّا جان ایسے ہی بولا جاتا ہے ہمارے یہاں ) نہ روکتے تو آج کم از کم ڈاکٹر معیز نما کوئی چیز بن چکا ہوتا” ۔  اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ آج تک ابّا ان مشاغل سے خود کو باز نہیں  رکھ سکے، لوسیڈ ڈریمنگ آجکل ان کا پسندیدہ موضوع ہے، کہ جس میں  بندہ خود اپنی پسند کے خواب سوتے میں  دیکھ سکتا ہے، بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ ذرا سی مشق سے اپنے خواب خود کنٹرول کر سکتا ہے۔ جسم لطیف سے عظیمی صاحب کی مانند پرواز کرنا اس فن اور ہمارے ابّا کی بھی منتہائے مقصود ہے ۔

بچپن میں  ہمارے ابّا کی بہت کم تصویریں  بنیں  جیسا کہ ان دنوں  رواج تھا،  ایک دفعہ کسی محفل میں  جاتے وقت دادا ساتھ لے گئے ابّا کو،  ابّا جیسے گھر میں  تھے ویسے ہی بس کپڑوں  کو سلیقے سے ٹھیک کر کے چل دیئے۔  بارے کھانا ختم ہوا، تو جیسا کہ ان دنوں  دستور تھا کہ یادگار محفلوں  کی تصویر لی جاتی تھی اور دیوان خانے میں  آویزاں  ہوتی تھی، کہ ان دنوں  اپنوں  کو فیس بک پر ٹانگنے کی بجائے دیواروں  پر ٹانگنے کا چلن تھا، تو، تصویر کے لیے صف بندی ہوئی، حسب عمر و مراتب سب تین صفوں  میں  ہوئے، شومیِ قسمت، پہلی صف میں  ابّا، اور ابّا کے پاؤں  میں  قینچی چپل!دادی تا حیات اس تصویر کے قلق میں  مبتلا رہیں  کہ کاش منا ڈھنگ کے جوتے پہن جاتا، ایسے سامنے چپل میں  پتلون قمیص کے ساتھ کتنا برا لگ رہا ہے ۔

مصوری کا شوق بھی ابّا کو رہا، لیکن جب رہین ستم ہائے روزگار ہوئے تو اس شوق سے غافل ہو گئے اب کبھی یاد بھی دلاؤں  تو کہتے ہیں  ” میاں  ایک وقت تھا، اب تو ہم کوشش کر بھی لیں  تو نہ بنا سکیں  گے”۔  پنسل اسکیچ اور آبی رنگوں  میں  مہارت رکھتے تھے۔  ماؤزے تنگ، جمال عبد الناصر، غالب، اقبال اور کچھ فلمی ستاروں  کے یادگار خاکے آج بھی میرے سامان میں  محفوظ ہیں ۔  وان گو   کی سٹاری نائٹ سے متاثر ہو کر، بچپن میں، غالباً پانچویں  کے دنوں  میں  انہی رنگوں  کی ترتیب میں  ایک آبی رنگوں  کی تصویر بنائی، جس میں  دو بچے آسمان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، رات ہے اور ستارے ہیں ۔  اسی طرح کچھ تجریدی تصاویر کچھ لینڈ سکیپ اور ہاں  اقبال مہدی مرحوم کے سب رنگ کے لیے بنائے گئے خاکوں  کی کچھ نقول بھی شامل ہیں ۔  صاحبو،  مقصود انہیں  مانی و بہزاد کا ہم پلہ ثابت کرنا نہیں، مگر جس کام میں  مرادوں  کے دن گزار دئیے ہوں، اس کا اتنا ذکر تو جائز ہے۔

 ابا نے ہم لوگوں  کو اتنا دوستانہ ماحول دیا کہ ہم نے ہمیشہ انھیں  دوست ہی سمجھا اور اسی چکر میں  اکثر سنجیدگی سے کی گئی نصیحت کو بھی ہم مذاق میں  اڑا دیتے تھے۔  وہ تو تھوڑا بڑے ہوے، دوسرے لوگوں  کے ابّا دیکھے ان کا اپنی اولاد سے ” حسن سلوک ” ملاحظہ کیا تو عقل آ ئی کہ بھائی ابّا ایسے بھی ہوتے ہیں، تھوڑے دیکھے کو بہت جانا اور تب سے ہم نے انہیں  بقول شخصے سیریس لینا شروع کیا۔

 بڑی سے بڑی بات پر ان کا رد عمل زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے،” احمق! یہ کیا کر دیا!”

 زندگی میں  پہلی اور آخری (اللہ اسے آخری ہی رکھے ) بار  ان سے مار کھانے کا واقعہ اس قدر ناقابل یقین ہے کہ اب بھی سوچا جائے تو غلطی سراسر اسی کی نظر آتی ہے جس نے گھر فون کر کے بتایا کہ حسنین کالج میں کینٹین پر بیٹھ کر سگریٹ پیتا ہے۔ اللہ ہماری امی کو صحت زندگی دے، خیر سے سارا واقعہ من و عن بلکہ کچھ زیادہ تفصیل سے ابا کے گوش گزار کر دیا …

  اب آپ یقین کیجیے کہ وہ کچھ ہوا جسے غالب کے پرزے اڑنا کہتے ہیں، ابا دفتر سے آتے ہی سیدھا ہمارے کمرے میں  آئے، دھڑام سے دروازہ کھلا، چہرہ کان اور آنکھیں  غصے سے لال، ایسی طبیعت سے عزت افزائی ہوئی کہ آج تک حیرت، افسوس، ہنسی، غصہ سب کچھ آتا ہے،اور ہاں، کچھ ایسی شش جہت قسم کی مار تھی کہ آج تک یاد نہیں  پڑتا کہاں  لگی کہاں  نہیں، بلکہ بقول ن.م. راشد، کچھ خدوخال سے ہی باقی ہیں  یادداشت میں !

  نہایت نفیس طنزیہ پیرائے میں  گفتگو کرتے ہیں، موڈ میں  ہوں  تو ایسی بات کہہ جائیں  گے کہ بندہ پانی پانی ہو کر پانی  نہیں  مانگے ۔  دوستوں  میں  گل افشانی گفتار اپنے عروج پر پائیے گا۔ یہ یاد کرنے سے قاصر ہوں  کہ تا دم تحریر انھیں  کسی سے لڑتے جھگڑتے، گالم گلوچ کرتے پایا ہو کہ فولاد صورت مومن کی آج کل یہی نشانیاں  ہیں  ۔  دفتر میں  لوگ یہی کہیں  گے کہ انتالیس سالہ دور ملازمت میں  جائز تو کیا ناجائز بھی شاید ہی کسی کو ڈانٹا ہو ۔  خیر سے اسٹیشن مینیجر پی آئی اے دلی اور ملتان رہے، سو سے زائد عملہ ماتحت لیکن ہم، تم کہ میر، سب رطب اللسان ۔

 نسیم انکل ابا کے یار غار تھے۔  جب تک وہ حیات تھے، ابا، مظفر اور نسیم انکل کی ایسی تکون بنتی تھی جس کا ہر کونا اپنے مقام سے مطمئن، اپنے دن رات پہ نازاں  اور  ایک دوسرے کی صحبت سے بھرپور لطف اندوز ہوتا ہوا زندگی گزارے چلا جاتا تھا۔  سوات اور مری ایک ایک ہفتے کی چھٹی لے کر تینوں  تفریح کے لیے جاتے، کیمپ لگائے جاتے، کھانے بن رہے ہیں، قہقہے لگ رہے ہیں، ایک دوسرے پر جملے کسے جا رہے ہیں، باہر کرسی لگائی دھوپ سینکنے بیٹھ گئے، دل بھر گیا تو واپس اندر۔ کم سے کم سامان کے ساتھ تفریح پر جانا ان کا بنیادی اصول تھا، اور ہمارے دل پر لکھا ہے کہ واپس آتے ہوے بھی یہی اصول ساتھ آتا تھا.۔  نسیم انکل کبھی گھر آ جاتے، کبھی ابا ان کے بینک جا کر مل آتے، ایک بار گھر گئے تو شومیِ قسمت انکل نے چائے کے ساتھ کینو سامنے رکھ دئیے۔  لیجیے صاحب وہ دن اور آج کا دن ہے، ان کی یادوں  میں  یہ منظر ضرور دہرایا جاتا ہے۔  نسیم انکل تو خیر جب تک زندگی رہی کم از کم  ہفت روزہ بنیادوں  پر اس کے عواقب بھگتتے رہے۔

لوح جہاں  سے تکون کا ایک کونا کاتب نے مٹا دیا، اب زندگی ایک لکیر ہے، کہ دو کونوں  کا تو یہی بنتا ہے، تو نہ یہ کونا اس کونے سے مل پاتا ہے نہ وہ اس سے، بس کبھی کبھار وضع داری نبھانے ابّا مظفر انکل سے مل آتے ہیں  یا عید شبرات کسی دن بھولے بھٹکے وہ آ نکلتے ہیں ۔

 یاں  چمپئی دھوپ ہے گلابی سایہ- رہتا ہے سحاب ابدیت چھایا- جوش آؤ کہ منتظر ہے بزم ارواح- ” آیا، یاران رفتہ! آیا،آیا”

جوش صاحب کی یہ رباعی ایک دن ابّا کی ڈائری میں  دیکھی تو دل مسوس کر رہ گئے بس !!

 موصوف نے کبھی نئی گاڑی نہیں  لی کہ ہاتھ بہت خراب ہے، مارنی تو ہے ہی کہیں  نہ کہیں، تو نئی چیز کیوں  داغدار کریں  . اکثر کہتے ہیں  ” یار خبر نہیں  یہ کھمبے اچانک کہاں  سے میری گاڑی کے پیچھے آ جاتے ہیں ”  نتائج بر ایں  مشق چلن (گاڑی کا) و زور کمال (ابّا کا) تمام بمپر مستقل نوحہ خواں  اور دروازے جھریٹوں  سے شکوہ کناں  رہتے ہیں . اور صاحبو جو لطف جھریٹوں  میں  ہے وہ خراشوں  میں  کہاں !

بارے کم سخنی کچھ بیان ہو جائے۔۔۔۔

                        کم سخن، خاموش طبیعت بلکہــــــ بہت حد تک آدم بیزار،  بقول امی، ’’ساری ہنسی اور قہقہے بس دفتر والوں  کے لیے ہی ہیں !!!  ٹیلیفون اٹھانا ہو تو ایسا انقباضِ پر انوار روئے مبارک پر چھلکے گا کہ اللہ ُ ُُُُغنی!!  پوچھیے کیوں ؟؟  تو صاحب، فریق مخالف حسب دستور پہلے اُن کی خیریت دریافت کریگا، پھر بال بچوں  کی اور پھر دیگر احوال سے آگاہی  چاہے گا اب اتنی فرصت کسے، بھئی کام کی بات کیجئے اور فون بند، اچھا اس چکر میں  بارہا فریقین بیک وقت  بولتے ہوئے بھی پائے گئے ہیں،  ہماری ایک بہت شفیق آنٹی تو باقاعدہ شکوہ کرتی ہیں  کہ” ــــ اگر غلطی سے ہم فون اٹھا لیں  تو نہ سلام نہ دعا، چھوٹتے ہی پوچھیں  گے ۔۔۔۔ صاحب ہیں ؟،  بھئی،  ہماری بھی خیریت پوچھ لیں "۔

                        طویل گفتگو سے پرہیزِ کامل کے سبب دوسروں  سے بھی اسی کی توقع رکھتے ہیں، زاہدِ خشک بھی نہیں، کبھی طبیعت سے ہوں  تو خوب چٹکلے چھوڑتے ہیں، مگر۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے مناظر چشمِ فلک ذرا کم ہی  دیکھ پاتا ہے!!!   لہجہ اتنا دھیما کہ سامنے والا کئی دفعہ بات دہرانے کی درخواست من ہی من روکے رکھتا ہے کہ سوئے ادب نہ ٹھہرے، ہاں  امی غریب اکثر کہتی پائی گئی ہیں  "بھئی ہماری سمجھ میں  یہ مُن مُن نہیں  آتی،ذرا منہ کھول کر بات کیجئے”۔

                        بر بِنائے نہایت کم آمیزی کسی اجنبی سے نہ تو ابتدائے کلام کرتے ہیں  اور نہ ہی زیادہ گُھلتے مِلتے ہیں  ( خیر، گھلنا ملنا تو اپنوں  سے بھی ایک ہاتھ کے فاصلے سے ہے) اِسی لیے اتنے اچھے عہدے پر رہنے کے با وجود، جہاں  روز با اثر لوگوں  سے ملاقات اور "ما بعد ملاقات” کے لا محدود مواقع میسّر ہیں، کسی سے تعلقات نہیں  بَنا پائے، اور نہ ہی کوئی فائدہ اٹھا سکے کہ یہ بر خلاف خُود داری و وضع داری بلکہ کم گفتاری بھی ہے۔جوش*سے معذرت کے ساتھ؛

                                   کیا کم سُخنی، کم سُخنی، کم سُخنی ہے!!!*

                        جیسا کہ پہلے تذکرہ کیا، جہاں  گردی کے حد درجہ شوقین ہیں  اور پی آئی اے کی نوکری ملی تو بشکریہ اُستادِگرامی عقیل عباس جعفری صاحب کہ جنہوں  نے فقیر کو ایک بے وزن پیروڈی ٹانکنے سے باز رکھا۔ گویا پانچوں  گھی میں  اور سر کڑھائی میں،  تقریباً ۲۰۔۱۸ ممالک کی سیر کی۔ امریکہ،یوروپ،افریقہ، مشرقِ وُسطیٰ،مشرق بعید، امارات،الغرض ما سوائے آسٹریلیا اور جنوبی امریکہ قریباً ہر بر اعظم کی دیگ سے مُشتے نمونہ از خَروارے چکھا، ہاں،  اہل و عیال کو ان مکروہات دنیاوی سے دور رکھا اور صرف مکّہ مدینہ لے گئے۔

                         جس دور میں  ابّا کو دفتر کی طرف سے چار سال کے لئے دہلی تبادلے پر بھیجا گیا ان کی زندگی کا سب سے سنہرا وقت تھا،کیونکہ نہ کوئی گھر مِلنے آتا اور نہ ہی احتیاطی وجوہات کی بناء پر آپ کسی

سے تعلقات بڑھا سکتے۔حتیٰ کہ کوئی فقیر  یا ڈاکیا تک "راہ سلوک” میں  حائل نہ ہوتا۔ اب اس سے بڑھ کر اور کیا عیّاشی ہو سکتی ہے کہ آپ دنیا کے جَھمیلوں  سے الگ تھلگ کتابیں  پڑھیں  یا کمپیوٹر پر مشغول رہیں  بقول شخصے،فرصتے و کتابے و گوشہ چمنے۔۔۔۔

                        وہ زمانہ آج بھی شدت سے یاد کیا جاتا ہے بلکہ دہلی کا  تو نام سنتے ہی یاد ایام انتہا درجے پر ہوتی ہے (راقم کے خیال میں  وہاں  سے آنے کے بعد موصوف خود کو غریب الوطن سا محسوس کرتے ہیں )۔ ائرپورٹ سے ڈیوٹی کے بعد سیدھے گھر آتے اور پھر اگلے دن تک کہیں  نہ نکلتے، اتوار کو سُلطان جی حاضری اور دہلی کی سڑکوں  پر طویل سیر، اور پھر کار اور پٹرول بھی سرکاری(پھر دیکھ بہاریں  جاڑے کی!!!)،  سفارت خانۂ پاکستان کی تقاریب میں  خصوصی شرکت، الغرض ایک الگ ہی بہار تھی!!

                         ان دِنوں کے واقعات ابا بڑے مزے سے سُناتے ہیں ۔بالخصوص آفس بوائے وَلی کے قصے جو خود کو "مِشٹر وَلی” کہتے تھے، کبھی کوئی انھیں  ڈانٹ دیتا تو کہتے "صاحب آپ تو بیکار میں غُصیا رہے ہیں "، کوئی زیادہ باتیں  کر رہا ہو تو کہتے "میاں  کیوں  فالتو میں  بتیا رہے ہو؟” ایک جگہ جھگڑا ہو رہا تھا،آپ کچھ دیر تو دیکھتے رہے پھر واپس آ گئے،ابّا نے پوچھا،کیا ہوا تھا ؟  بولے "کچھ نہیں  صاحب،بیکار میں  چِلّم چِلّی ہو رہی تھی،ہم تو واپس چلے آئے”۔  ناگپور کے رہنے والے تھے۔ایک دِن ابا نے یونہی تذکرہ کر دیا کہ ہماری والدہ کا تعلق بھی ناگپور ہی سے تھا۔ بہت خوش ہوئے اور بولے” ارے صاحب، کیا بات ہے!! وہ بھی ناگ ہی پور کی رہنے والی ہیں ؟”  بقول ابّا،  یہ گویا سند تھی  "آب گُم- یوسفی”  کے ایک بیان کی، جس کے مطابق کان پور والے  "کان پور ہی” کے بجائے "کان ہی پور ” کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ طبیعت کبھی زیادہ ہی بے قرار ہو جائے تو آپ  گُوگل اًرتھ کھول کر”اپنا گھر”،آس پاس کے بازار،کناٹ پلیس،انڈیا گیٹ،  نظام الدین،قطب صاحب،سروجنی نگر،  جُور باغ کا کشمیریوں  کا اِمام باڑہ شاہِ مرداں،غرضیکہ ہر وہ جگہ جہاں  سے یادیں  وابستہ ہیں،از سرِنو دیکھ کر یادیں  تازہ کر لیتے ہیں ۔

                        بقول خود "میں  خوش نصیب ہوں  کیونکہ میں  اپنے نصیب پہ خوش ہوں "، قناعت پسند، دل کے غنی، متوکّل، بلکہ ” تکیہ کردن بہ خداست، خدائی کہ بہترین تکیہ گاہ است”  کے پرچارک، اب  اس باب میں  کچھ مقامات ایسے ہیں  کہ جن کا اخفا ہی بہتر ہے، کہ از قسم "شہاب نامہ کی حقیقت” مضامین سے ڈرنا فرض ہے۔

                         کمپیوٹر اور کتابوں  کے علاوہ ابا کا ایک شوق فلمیں  دیکھنا ہے ا ور وہ بھی Low Cast یا کم بجٹ کی، کہ حقیقت کے زیادہ قریب ہوتی ہیں ۔  فریڈرک فورسائتھ اور  مُشتاق احمد یوسفی ہمارے  بچپن سے ان کے پسندیدہ ہیں ۔دونوں  کی تمام کتابیں  تقریباً سرہانے دھری رہتی ہیں، گویا، اک ذرا گردن "اٹھائی” دیکھ لی۔ ان کے مطابق یوسفی صاحب کی کتاب جتنی بار بھی پڑھو،ہر دفعہ کوئی نئی بات نکل کرسامنے آتی ہے۔ شاعری کبھی در خور اعتنا نہیں  رہی مگر کچھ عرصہ سے جون ایلیاپسند آ گئے ہیں  اور فی الحقیقت خود بھی کیا خوب کہہ گئے جون صاحب!!!

                                                            شاعر تو دو ہیں   میر تقی  اور  میر جون

                                                            باقی جو ہیں وہ شام وسحرخیریت سے ہیں

                        کمپیوٹر سے ان کی وابستگی بہت پرانی ہے، 80 کی دھائی کے اواخر میں  ہمارے ہاں  کمپیوٹر  اس وقت آیا جب پاکستان میں  صرف چند دفاتِر کی حد تک مستعمل تھا اور اس تک رسائی اتنی سہل نہیں  تھی(سہل تو اس وقت گھر میں ہونے کے باوجود ہم بچوں  کے لیے بھی نہیں  تھی)۔ ہمارے ایک عزیز  ہالینڈ سے چُھٹیاں  گزارنے آئے،  باتوں  باتوں  میں  انہوں  نے بتایا کہ وہ نیا کمپیوٹر خریدنے والے ہیں  اور ان کے لیے پرانا اب کچھ خاص کار آمد نہیں  رہا ۔ابا نے فوراً اسٹیشن مینیجر ایمسٹرڈم سے بات کی، لیجئے صاحب دس دن میں  کمپیوٹر ہمارے گھر پہنچ گیا۔ ظاہر ہے گھر میں  کمپیوٹر ہو تو بچے بھی اس سے حسبِ توفیق مُستفید ہو سکتے ہیں ۔ مگر ہمیں  کمپیوٹر کے "مُضر اثرات” سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک عرصہ تک سی ڈی ڈرائیو پلاسٹک کی پٹی کے پیچھے چھپائے رکھی گئی اور ہمیں  پتہ ہی نہ چل سکا کہ اِس کمپیوٹر میں  سی ڈی ڈرائیو بھی موجود ہے۔آج بھی پیرِ کامل اور مرجعِ خاص و عام ہیں اس ضمن میں ۔

                        ہمارے دادا، کہ جن کے نام کا ایک چھوٹا سا تعزیہ آج بھی لعل شاہ کے تعزیے (یکے از مشہور تعزیہ جاتِ ملتان) کا حصہ ہے، جو فاضلِ لکھنؤ و  قُم تھے، اور جو باقاعدہ مجلس، نذر نیاز کیا کرتے تھے، کے بعد،  اُن کے فرزندِ عزیز کا ایک قول بہت مشہور ہوا ۔”بھئی مجالس میں  شرکت کے لئے اپنے دو ہی اُصول ہیں، یا تو مقرر اعلیٰ پائے کا ہو اور یا پھر تبرک عمدہ ہو”۔

                        دوران گفتگو ایک دن پوچھا، ابّا زندگی میں  سب سے زیادہ پچھتاوا کس بات کا ہوا، بولے  "یار،  دلی میں  ایک دن ہم گھر سے دفتر  آ رہے تھے،  جُوں  ہی ائرپورٹ کی پارکِنگ میں  داخل ہوئے سامنے ایک تبِّتی نقوش والی گوری چِٹّی نازک سی لڑکی اپنے قبائلی لباس میں  دو ہم وطنوں  کے ساتھ کھڑی نظر  آئی۔دل نے چلّا کر کہا ارے یہ  تو "کورا” ہے۔ شکیل صاحب قبلہ نے کورا کے جو خدوخال بیان کئے تھے،یہ ان پر مِن و عَن پورا اتر رہی تھی۔وہی بُوٹا سا قد،معصوم چہرہ،تھوڑی سی سہمی ہوئی، خیر، معلوم ہے یہ مُشاہدہ کتنی دیر میں  مکمل ہوا؟  زیادہ سے زیادہ دوسیکنڈ میں، اس لئے کہ ہمارے پیچھے گاڑیوں  کی ایک طویل قطار تھی اور زیادہ دیر تک رکنا ممکن نہیں  تھا۔ اتنی اہم دریافت پر دل بے قابُو ہو رہا تھا(راوی اپنے تئیں  یہاں  بابر زمان ہی محسوس کر رہا تھا )، سب سے پہلی دستیاب  جگہ پر گاڑی کھڑی کر کے بے طرح  پیچھے دوڑے تاکہ کچھ مختصر سی گفتگو کر کے چند تصویریں  ہی بنا لی جائیں  اور لوگوں  کو دکھایا جا سکے کہ شکیل عادل زادہ کا تشکیل کردہ  پیکر خیالی ،مجسم ہو کر کیسا لگتا ہے۔مگر وائے افسوس کہ نصیب ساتھ نہ تھا اور باوجود تلاش پیہم کے، ان میں  سے کوئی دکھائی نہ دیا۔ بس زندگی بھر اسی محرومی کا افسوس رہے گا۔”

           ہمارے بچپن میں  ابّا کے پاس ایک سکوٹر ہوتا تھا، ویسپا، نیلے رنگ کا، ہم لوگ شام کو اکثر اس پر بیٹھ کر ڈیرے اڈے کی کون آئسکریم کھانے جایا کرتے، آگے ہم کھڑے ہوتے، پیچھے امی بیٹھتیں  اور خاور میاں  (بھائی) امی ابا کے بیچ میں  بیٹھے ہوتے۔کمپنی باغ کا بھی دس پندرہ دن بعد ایک چکر لگ جاتا تھا، آخری ٹھکانہ حسن انکل کا گھر تھا۔  الحمدللہ اب بھی ایسا ہی ہے کہ وہ ابا کے جگری دوست اور ان کے بچے ہمارے ویسے ہی دوست ہیں ۔  خیر، میٹرک میں  آئے تو یہ سکوٹر ہم نے خود ہی چلانا سیکھ لیا، اب روز شام کو ابا سے ایک چکر لگانے کی اجازت ملتی، اس ایک چکر میں  ہمارا بس نہ چلتا کہ پورا ملتان سمو دیں  ۔

 اگر آپ کو کبھی سکوٹر چلانے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ ہماری بات سے متفق ہوں  گے کہ یہ بہت طاقتور سواری ہے، موٹر سائیکل بیچاری عموماً ستر یا ایک سو پچیس سی سی ہوتی تھی مگر یہ ایک سو پچاس سی سی کا اور ٹائر چھوٹے ہونے کی وجہ سے اس کا آر پی ایم بھی بہت زیادہ ہوتا تھا۔ تو اس کو ہم اور نجف (یار غار) بھگاتے پھرتے اور کم و بیش ہر ہفتے ایک نہ ایک ایکسیڈنٹ ضرور کرتے، جو ہوتا تو معمولی سا تھا لیکن ہر بار اپنی کوئی نہ کوئی نشانی سکوٹر پہ چھوڑ جاتا تھا. پٹرول دس روپے لٹر اور ملتان کی وسعتیں  بیکراں  ہوتی تھیں ۔  کالج کا دور آیا،  وہی ویسپا، نجف اور ہم! اسی دور کا وہ یادگار واقعہ بھی ہے جو اوپر بیان کیا ۔  الغرض وہ سکوٹر نہیں  ایک مہربان شفیق بزرگ تھا جس نے ابا کی جوانی، ہمارا بچپن اور پھر جوانی دیکھی۔

ویسپا بک گیا!

 ہماری ضد کہ اب یہ سواری متروک ہو چکی ہے، بہت برے حالوں  میں  ہے (جو ہمارا ہی کارنامہ تھا)، بارش میں  بہت خطرناک ہو جاتی ہے، پٹرول کا خرچ بہت زیادہ ہے، سب لڑکوں  کے پاس موٹر سائیکل ہے، اس پر ہیلمٹ پہن کر بیٹھا بندہ کارٹون لگتا ہے، انجن اوور بہت جلدی ہو جاتا ہے، کک لگانا مشکل ہے، سائیڈ اسٹینڈ بھی نہیں  ہوتا اس کا تو، ہارن بہت آہستہ بجتا ہے، ڈینمو پرانا ہے تو لائٹ بھی رات میں  بہت کم ہوتی ہے، شاکس  اچھے نہیں  رہے، القصہ زمانے بھر کی خرابیاں  گنوا کر، بہت عرصے کی محنت کے بعد ہم نے وہ ویسپا بکوا دیا اور کالی سی ڈی سیونٹی لے لی۔ ابّا اس دن بہت اداس تھے ۔  ویسے وہ بہت شدید غیر جذباتی اور منطقی آدمی ہیں  لیکن اس دن ابا اداس تھے. شاید وہ آج بھی نہ مانیں، شاید ہمیں  ایسا لگتا ہو، شاید گھر کی پوری فضا اداس تھی، ابا ویسپا کا سودا کرنے کے بعد بیٹھک سے نکلے اور کمرے میں  چلے گئے، بوگن ویلیا کی صحن والی بیل، امرود پر بیٹھی چڑیاں، شفق، بادل، اور ہاں  ہم خود، ہم سب بہت اداس تھے! مغرب کی اذان کی آواز دور سے آ رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*جوش ملیح آبادی

 کیا گل بدنی، گل بدنی، گل بدنی ہے

٭٭٭

 

َََََََََ

یادش بخیریا ۔ ندیم صاحب

                                                      حسنین جمال

گرمی رفتار سے طے دم میں  کی راہ فنا

توسنِ عمرِ رواں  رہوار ہے گیلان کا

بہت تیزی سے گزرے،  دم نہیں  لینے دیا!!  اے ایّام گزشتہ،  تم رہوار خیال کو انگیخت رکھنا،  اس قدر سر سبز وادی میں  وہ کہیں  اتنا نہ بھٹک جائے کہ جس ہستی کا ذکر ہے اس کا حق ادا نہ ہو ۔

یادش بخیر،  جاڑوں  کی ایک نرم کنکناتی دھوپ والی صبح،  سبزان چمن،  کہ جن میں  اکثریت سبزہ نو آغاز ہیں،  نشاط ہائی سکول،  نیو نائنتھ اے جماعت میں  اپنی اپنی نشستوں  پر خوش گپیوں  میں  مصروف ہیں  کہ ایک نو جوان،  دراز قد،  اکہری جسامت،  چمکتی افق بین نگاہیں،  بیچ کی مانگ نکال کر پیچھے کو  الٹے ہوے بال،  متناسب مونچھیں،  گندمی رنگ،   داہنے ہاتھ میں  گول کیے ہوے چند کاغذ لے کر دروازے سے داخل ہوتا ہے۔  کسے معلوم ہے کہ یہ وہ پارس ہے کہ جسے چھوا اس پر تا حیات جملہ اصنام جمالیات مہربان رہیں  گی، کبھی وہ سائیکی کے زیر اثر آئے گا، کبھی کیوپڈ کے تیر کھائے گا،  افرودائتی اور اپالو کے سایہ شفقت میں  رہے گا،  تو کبھی اتھینا کے سنگ مسکرائے  گا،  ” ہستِیَم نیست شُدہ، عکسِ جمالِ اُویَم” کی مثال جگمگاتا رہے گا۔

 الغرض فقیر سمیت تمام حاضرین جماعت بے خبر ہیں  کہ وہ لوگ جنہیں  صدیاں  جنم دیتی ہیں، وہ اب روسٹرم کی طرف رواں  ہے۔

"نام تو آپ سب کے جان لیے، انام فلم دیکھی ہے آپ میں  سے کسی نے ؟  ” ایک لڑکا اس امید میں  کہ شاید اب فلم کی کہانی پر بات ہو، بولا، دیکھی ہے سر۔  "انام کا مطلب کیا ہوتا ہے؟”  اب ایک طویل سناٹا ہے۔  ” انام کا مطلب ہوتا ہے بے نام،  جس کی کوئی اہمیت نہ ہو،  جو بالکل غیر اہم ہو عام ہو۔  تو گویا آپ کا نام آپ کو اہم کرتا ہے اور وہ آپ کی پہچان بنتا ہے”ـ۔  انگریزی کے گھنٹے میں  یہ پہلا غیر روایتی تعارف تھا۔  چند دن بعد جب ہم میں  سے کوئی بارہا پکارے جانے کے باوجود جواب نہیں  دے رہا تھا (وجہ نہیں  یاد کہ کیوں ؟) تو بولے  ” یاد رکھو، یہ سکول ایک چھوٹی سی اکائی ہے،  تمہاری پہچان یہاں  تمہارے استاد تمہارے ناموں  سے کرتے ہیں،  کم بختو اس کی قدر کرو،  کل کو جب کالج جاؤ گے تو تم ایک رول نمبر ہو گے،  ایک چلتا پھرتا ہندسہ،  نام!!  نام نہیں  ہو گا!”،  الغرض ایک اہمیت اپنی ذات کی،  اپنی خودی کی اور اس سے ہمارے نام کا تعلق انھوں  نے یوں  نقش کر دی ہمارے ذہنوں  میں ۔

آج برادرم قاضی علی ابو الحسن کی کتاب میں  پہلا افسانہ "جوکر” پڑھنے لگے تو مصنف کا نام "احمد ندیم تونسوی”…،  یا للّہ العجب!!!  یہ افسانے میں  کہاں  آ گئے؟؟  کجا اردو افسانہ، کجا ندیم صاحب ؟؟  پھر خیال گزرا کوئی اور ہوں  گے،  افسانہ شروع کیا،  اب جو کردار سامنے آ رہے ہیں،  وہ تو ہمارے ہم جماعتوں  کے نام ہیں  جو ندیم صاحب نے رکھے، "معنک” سلمان احمد تھے،  "موسیو” بدلتے رہتے تھے،  سارے الفاظ وہی،  ایک خوشگوار حیرت میں  گھرے ہم نے موبائل نکالا،  کتاب پر سے دیکھ کر قاضی صاحب کا نمبر ملایا،  ان سے جو تصدیق کی تو معلوم ہوا کہ ان خوش نصیبوں  میں  سے ہیں  کہ جو تا حال "فیض ندیم” سے لطف اندوز ہو رہے ہیں،  اور ندیم صاحب کے کچھ مزید افسانے بھی ان کے پاس موجود ہیں ۔

اُن کی طبیعت کچھ جلال و جمال کا عجیب امتزاج تھی،  ہم سمیت چند ساتھیوں  کی لکھائی بہت بری تھی،  جب شدید غصے میں  آتے تو انگلیوں  پر لکڑی کے فُٹے سے مارا کرتے،  مارتے وقت جب وہ غصے میں  کچھ بولتے تو ان کی ناک مسلسل پھولتی سکڑتی رہتی،  لیکن چند ساعتوں  بعد سب ایسا کہ جیسے بارش کے بعد دھوپ،  ہاں  بارش کا پانی کبھی کسی کی آنکھوں  میں  ہوتا تو کبھی کسی کی،  حسب استطاعت مارتے سب کو،  اب کوئی کم ظرف برکھا جھڑی لگا جائے تو کیا کہیے،  خیر،  تو جیسے ہی مار ختم ہوتی ایک احساسات کو جھنجوڑ دینے والا،  نہایت ہی نیچے سروں  کا لیکچر ہوتا،  اگلے دن لکھائی کچھ بہتر ہوتی،  پھر بھی نہ ہوتی تو چار لکیری پھر دو لکیری کاپی میں  لکھواتے،  مگر آفرین ہے!   ایک ایک لڑکے کی لکھائی سکول چھوڑتے وقت ایسی تھی گویا موتی پروئے ہوں ۔

انگریزی کی سب سے واہیات چیز،  اس کی گرامر،  ہمارے لیے ایسے تھی گویا پل صراط،  ہمیشہ زخمی ہوئے،  گرے،  پھر اٹھے کوشش کی،  پھر جہنم رسید!!  ندیم صاحب نے ۱۲ زمانوں  یا ٹینسز کے لیے ہمیں  ۱۲ فارمولے دئیے کہ بھائی،  ان کی کسوٹی پر ہر جملہ رکھو اور بناتے جاؤ،  وہ ایک صفحہ جس پر وہ فارمولے تھے،  پوری جماعت میں  بہ شکل نقول تقسیم ہوا، کم از کم ہم تو دعوے سے کہتے ہیں  کہ پھر اس باب میں  کوئی غلطی تا حیات نہیں  کی،  افسوس وہ نسخہ کیمیا زمانے کی دست برد سے محفوظ نہ رہا ورنہ بطور صدقہ جاریہ یہاں  بھی درج کر دیتے۔

خلاصہ،  کہتے تھے کہ خود لکھو،  یا پھر وہ لکھو جو ہم دیتے ہیں،  چہ کنم بھائی،  وہی شیکسپئرانہ انگریزی لکھتے جو وہ لکھاتے لیکن قسم ہے خدائے لم یزل کی،  کہ بعد میں  ایم اے کیا،  ایم بی اے کیا،  جو ندیم صاحب پڑھا گئے، پڑھا گئے، نہ وہ استاد، نہ وہ انگریزی،نہ وہ شفقت، نہ وہ باریکیاں، نہ وہ مہارت !!!  ایسا کہاں  سے لاؤں  کہ تجھ سا کہیں  جسے …

امتحانوں  کے دنوں  میں  ہر جماعت کی یہی خواہش ہوتی کہ ندیم صاحب کی ڈیوٹی ان کی طرف ہو، چہرے کے آگے کوئی کتاب یا اخبار کیے پڑھتے رہتے، بلکہ انہی کا قول تھا (یادداشت اچھی ہونی چاہیے ایسے نازک وقت)،  جی تو قول تھا کہ ” نقل کرنا ہر طالب علم کا حق ہے لیکن صفائی کے ساتھ” اگر کوئی باتیں  کرنے لگتا یا پوچھنے لگتا تو اسے ٹوک دیتے ورنہ آرام سے "کاروبار زندگی” چلتا رہتا،  یہاں  تک کہ خود سے بھی بتا دیتے معروضی سوالات،  اگر کوئی پوچھتا۔۔

راستو کیا ہوئے وہ لوگ جو آتے جاتے

میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے

جلالی طبیعت کا ایک اور مظاہرہ تب دیکھنے میں  آیا جب نویں  جماعت کے آخری دن تھے،  بہت اہم لیکچر جاری تھا،  فیس نادہندگان کے ناموں  کے اعلان کے لیے ایڈمن انچارج صاحب تشریف لائے،  بجائے دروازے سے آنے کے،  کھڑکی میں  شتر مرغ کی سی گردن ڈال کر کچھ کہا چاہتے تھے کہ ندیم صاحب گرج کر بولے "۔۔۔۔ صاحب،  آپ اسی وقت یہاں  سے چلے جائیں ”  انھیں  اپنے کانوں  پر یقین نہ آیا،  ڈر بھی گئے،  اب کے جو بولے تو ایک بے یقینی سے بھری آواز آئی  "سر مایں ؟”  ان کی اس  "مایں ” کو یاد کر کے ہم لوگ بہت عرصے تک ہنستے رہتے تھے۔  بعد میں  کبھی ان کی یا کسی اور ایڈمن والے کی ہمت نہیں  ہوئی لیکچر کے دوران آنے کی ۔

یاد آیا،  ندیم صاحب کسی چیز کی باریکی یا فرق بیان کر رہے تھے تو بولے  ” یار  ان میں  بڑا نازک سے فرق ہے”  لیکن نازک انہوں  نے "ز” کو مکسور کیا اور کہا، اور ان کے منہ سے ایسا خوبصورت لگا کہ آج بھی یاد ہے۔

ہمیں  حسنین جمال کے بجائے  "گمال” کہا کرتے تھے کہ جمال کا مصری تلفّظ یہی ہے، غصے میں  پورا نام صحیح لیتے ورنہ گمال ہی مستعمل رہتا۔  اب مزہ تب آیا جب ہمارے ایک ہم جماعت نعیم اقبال نے گمال کے بجائے جیمل کہنا شروع کیا اور پھر پیار میں  آ کر اسے جیملن بنا دیا، ایک عرصے تک نعیم بھائی اسی نام سے پکارا کئے۔  ویسے اب ہم خود بھی اپنا نام اپنی کھینچی گئی تصویروں  کے نیچے "میک گمال” لکھتے ہیں  یعنی جمال کا بیٹا۔  ہمارا تو صاحبو دستخط بھی انہی کی عطا ہے، اردو میں  احمد ندیم الٹا کر کے لکھتے اور اوپر ایک لکیر سی لگا دیتے،  لگتا کہ گویا ہندی میں  کچھ لکھا ہے،  ہم نے بھی ایک کاغذ پر اردو میں  حسنین لکھا،  کاغذ کو الٹا کر کے سورج کی طرف کیا،  جو کچھ شکل بنی اس پر قلم پھیرا،  اوپر اسی طرح لکیر لگائی،  بیس پچیس بار مشق کی اور لیجے صاحب ہندی دستخط تیار،  آج تک وہی چلے آتے ہیں ۔۔۔۔۔ میں  رانجھن وچ، رانجھن میں  وچ ۔۔۔۔

لباس کے معاملے میں  ندیم صاحب بہت سادگی پسند تھے،  جب تک ہم نے انھیں  دیکھا،  دو نیلی جینز کی پتلونیں،  لیکن انتہائی صاف اور استری شدہ روز بدل کر پہنا کرتے،  قمیص عموماً سفید یا کوئی چیک ڈیزائن کی ہوتی،  سردیوں  میں  ایک میرون سویٹر یا بہت سردی میں  ایک کوٹ ہوتا تھا سلیٹی رنگ کا،  بس یہی کچھ تھا۔  ہاں  کچھ عرصہ ایسا آیا جس میں  ندیم صاحب سرمئی پتلون، سفید قمیص، ٹائی اور بعض اوقات وہی کوٹ زیب تن فرماتے تھے لیکن بہت مختصر رہا وہ دور۔  ان دنوں  میں  ان کا مزاج بہت پر بہار تھا،  خدا جانے کیا معاملات تھے،  لیکن بہت اچھے لگتے تھے سر ان دنوں،  بالکل ڈان یوان!!

ایسے محو ہو کر پڑھاتے کہ گھنٹے کے بعد دوسرے اساتذہ آ کر کھڑے رہتے لیکن ندیم صاحب کا لیکچر رواں  دواں  جیسے کوئی آبشار جاری ہے،  پھر انھوں  نے سکول لگنے سے پہلے علی الصبح ایک "زیرو پیریڈ” لینا شروع کیا،  یہ ان طلبہ کے لیے تھا جو انگریزی میں  کچھ کمزور تھے لیکن ہر خاص و عام مستفید ہوا،  یہ اختراع وہاں  انھوں  نے ہی کی،  ان کے سکول چھوڑنے کے  بعد یہ روایت نہ رہی،  ہاں  چھٹی کے بعد دو دو تین تین پیریڈ چلتے تھے لیکن سوائے سر مہر نیاز کے،  سب مارے باندھے کے ہوتے،  اور پھر اتنی گرم دوپہر اور سہ پہر میں  کہ چیل گھونسلا چھوڑ جائے کون پڑھتا ہے صاحب!!  بات وہی بنتی تھی اپنے مولوی مدن والی،  صبح کے زیرو پیریڈ والی۔

چھٹی کے بعد کوئی چیز سمجھنے بعض اوقات ہم سٹاف روم میں  جاتے تو بڑی شفقت سے باہر آ کر سوال سنتے،  گولڈ لیف کا بڑا طویل کش لیتے،  دھواں  کچھ ناک سے خارج ہوتا کچھ جواب دیتے ہوے منہ سے،  اور بھائیو وہ منظر ایسا ہوتا کہ ہم ان کی شاندار شخصیت کے اسرار میں  کھو کر جواب سننا بھول جاتے۔

ایک دن معلوم ہوا کہ اب ندیم صاحب نہیں  آیا کریں  گے،  بر بنائے ناگزیر انھوں  نے سکول چھوڑ دیا،  شاید سکول کے روایتی ڈھانچے میں  وہ پورے نہیں  سما سکے،  وہ سراسر غیر روایتی،  روایت شکن بلکہ کامریڈ قسم کی شخصیت تھے،  آدرش کے پکے،  غلط بات پر سمجھوتا نہ کرنے والے،  تو یہ تو ہونا ہی تھا،  لیکن جو پودے وہ لگا گئے ان میں  سے ہر ایک بذات خود ایک چھتنار احمد ندیم تونسوی ہے۔  جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں  آفتاب ہے۔

بعد میں  کبھی کبھی ندیم صاحب سے شرف نیاز رہا،  کچھ بار ان کی رہائش گول باغ گیا،  سر راہے کچھ ملاقاتیں  ہوئیں،  گول باغ چائے والے کے پاس کچھ بار ان کے ساتھ نشست رہی،  پھر غم روزگار نے جہاں  جہاں  بھٹکایا وہاں  وہاں  گھومتے لاہور میں  قیام ہوا،  ندیم صاحب کا تذکرہ ہر قریبی شخصیت سے بارہا رہا، والد، بھائی، بیگم، سب سے گاہے بگاہے ان کی کوئی نہ کوئی بات ہوتی رہی،  یادیں  تازہ رہیں  اور آج جب قاضی صاحب کے پروفائل میں  ان کی تصویر دکھائی دی تو بے اختیار دماغ میں  تمام واقعات کے ساتھ مولانا اسعد شاہجہاں  پوری کا یہ شعر گھومنے لگا ؛

تم حفاظت سے  مری تصویر رکھنا  اپنے  پاس

دن گزرتے جائیں  گے،صورت بدلتی جائے گی

٭٭٭

تشکر: راشد اشرف  جنہوں نے فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک تشکیل: اعجاز عبید