فہرست مضامین
- پیارے پیارے لوگ
- احمد ہمیش: کیا لوگ تھے جو راہ جہاں سے گزر گئے
- انور خواجہ: ایک رجحان ساز ادیب
- ڈاکٹر داؤد رہبر : گرفت سنگ میں بل کھاتی آب جو ترا غم
- ڈاکٹر فرمان فتح پوری : فصیل دل کے کلس پر ستارہ جو تیرا غم
- آہ ! ڈاکٹر محمد علی صدیقی : نخیل زیست کی چھاؤں میں نے بہ لب تری یاد
- غلام علی خان چین: رستہ دکھانے والا ستارہ نہیں رہا
- حافظ ارشاد احمد: ایک چراغ اور بجھا
- حکیم احمد بخش: ہر رہ گزر پہ تیرے گزرنے کا حسن ہے
- حمید اختر : ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
- لطف اللہ خان: خاموش ہو گیا ہے چمن بو لتا ہوا
- مغنی تبسم: تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
- پروفیسر طحٰہ خان: اٹھ گئے کیسے کیسے پیارے پیارے لوگ
- پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی : مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
- پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی : کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
- قمر علی عباسی: گزر گیا جو جہاں سے عجب مسافر تھا
- قریش پور : زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
- شفیع عقیل : کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
- ڈاکٹر سید اختر حسین اختر: ایک روشن دماغ تھانہ رہا
- قاضی عبدالرحمٰن : رستہ دکھانے ولا ستارہ نہیں رہا
پیارے پیارے لوگ
ڈاکٹر غلام شبیر رانا
احمد ہمیش: کیا لوگ تھے جو راہ جہاں سے گزر گئے
پاکستان میں اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور اپنے دعوے کے مطابق اردو میں نثری نظم کے بانی احمد ہمیش کا اتوار8۔ ستمبر 2013کی شام انتقال ہو گیا۔ مسجد بابا موڑ نارتھ کراچی میں ہزاروں افراد اردو زبان و ادب کے اس رجحان ساز ادیب کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے اور اسے آنسوؤں اور آہوں کا نذرانہ پیش کر کے اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا۔ شہر کا شہر اس سانحے پر سو گوار دکھائی دیتا تھا۔ کراچی میں سخی حسن کے شہر خموشاں کی زمین نے اس دبنگ لہجے میں بات کرنے والے آسمان کی سی فکری بلند پروازی سے متمتع منفرد اسلوب کے حامل اس زیرک تخلیق کار کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا اور اردو ادب کا ہنستا بولتا چمن مہیب سناٹوں اور اعصاب شکن خاموشیوں میں گم ہو گیا۔ اتر پردیش (بھارت )کے ضلع بلیا کا گاؤں بانسپار احمد ہمیش کی جنم بھومی ہے۔ اسی گاؤں میں یکم جولائی 1937کو احمد ہمیش نے دنیا کو پہلی بار دیکھا۔ جس وقت احمد ہمیش کی عمر محض دس سال تھی اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ اس کی والدہ نے بڑے ناز سے اس کی پرورش کی تھی۔ اس کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دی۔ اس کی اچانک وفات نے اس نو نہال کی زندگی کی تمام رتوں کو مسموم ماحول کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ابھی وہ اپنی پیاری ماں کی دائمی مفارقت کے صدمے سے سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ اس کے والد نے دوسری شادی کر لی اور جب اس کی سوتیلی ماں نے گھر میں قدم رکھا تو احمد ہمیش پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ احمد ہمیش کے دو بھائی اور ایک بہن سوتیلی ماں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور غیظ و غضب کو برداشت نہ کر سکے اور اس اذیت اور عقوبت سے نجات حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ حالات نے اس قدر تکلیف دہ صورت اختیار کر لی کہ ان چار بچوں کا جینا دشوار کر دیا گیا۔ اس مسموم ماحول سے دل برداشتہ ہو کر احمد ہمیش نے اٹھارہ سال کی عمر میں گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے کچھ عزیزوں کے ساتھ پاکستان ہجرت کی اور 1955میں لاہور پہنچا۔ اس کی ادبی زندگی کا با قاعدہ آغاز 1958میں ہوا جب اس نے ادبی محافل میں شرکت کا آغاز کیا۔ احمد ہمیش کی تخلیقات میں اس کے ماضی کی تلخ زندگی کے مسموم اثرات کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ ماضی کی متعدد تلخ یادیں اس حساس تخلیق کار کے لیے زندگی بھر سوہان روح بنی رہیں۔ ان مسموم حالات نے ان ذہن پر جو انمٹ نقوش چھوڑے ان کے تخلیقی عمل پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ کچھ عرصہ لاہور میں قیام کے بعد 1970 میں اس نے کراچی میں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا۔ کراچی پہنچ کر احمد ہمیش نے کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان کراچی میں جز وقتی ملازم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ احمد ہمیش نے ریڈیو پاکستان کراچی کی ہندی سروس میں کام کیا لیکن جلد ہی یہ پروگرام کراچی سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے حصول میں احمد ہمیش کام یاب نہ ہو سکا۔ اس کے بعد معمولی نو عیت کی ملازمتوں ہی پر اس کی گزر اوقات رہی اور ہر حال میں صبر، استغنا اور قناعت کا بھرم قائم رکھا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب وہ طویل عرصہ بستر علالت پر رہا کراچی چھوڑ کر کہیں باہر جانے پر آمادہ نہ ہو ا۔
احمد ہمیش کی زندگی مسلسل تجربات اور تغیرات کی زد میں رہی۔ تخلیق فن کے لمحوں میں اس نے نت نئے تجربوں اپنے اسلوب کو ندرت، جدت اور تنوع سے آشنا کیا۔ فنی تجربے اس کے مزاج کا ایک اہم حصہ تھے۔ ان کے اعجاز سے اس نے ہمیشہ نئے امکانات کی جستجو کی اور یکسانیت اور جمود کے خاتمے کی سعی کی۔ 1961میں بھارت سے احمد ہمیش کی نظم ’’یہ بھی ایک ڈائری‘‘ شائع ہوئی۔ یہی نظم 1962میں ماہ نامہ نصرت لاہور میں شائع ہوئی۔ اس نظم کے بارے میں احمد ہمیش کا دعویٰ یہ تھا کہ اردو میں یہ پہلی نثری نظم ہے۔ خود کو اردو میں نثر ی نظم کا بانی قرار دینے کے سلسلے میں احمد ہمیش نے اسی نظم کو اپنے اس دعوے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ احمد ہمیش کی اس نظم کی آخری تین سطور پیش ہیں :
سائباں کے تیسرے کونے میں پہلی دھوپ چمکنے لگی
پہلا کونا دوسرے کونے کا دشمن ہے
اور چوتھے کونے میں دھندلے خاکے ہیں
اپنی بیٹی انجیلا سے احمد ہمیش کو بہت محبت تھی۔ اس بیٹی نے اپنے باپ اسلوب اور فن سے گہرے اثرات قبول کیے۔ احمد ہمیش کی بڑھتی ہوئی عمر میں یہ قلبی وابستگی قربت کی راحت اور دوری کے اندیشوں میں پروان چڑھی۔ اپنی ایک نثری نظم میں احمد ہمیش نے اپنی بیٹی سے مخاطب ہو کر بڑی درد مندی سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا ہے۔ احمد ہمیش کو اس بات کا قلق تھا کہ ہماری معاشرتی زندگی کو ہلاکت آفرینیوں کا سامنا ہے۔ مجبور ، بے بس اور قسمت سے محروم انسانیت کے مسائل جا مد و ساکت مجسموں، سنگلاخ چٹانوں اور چلتے پھرتے ہوئے مردوں کے سامنے پیش کرنے پڑتے ہیں۔ معاشرتی زندگی میں فر د کی چہرگی اور عدم شناخت کے مسئلے نے اب گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔ اپنے ماضی کی یادوں کو دہراتے ہوئے احمد ہمیش نے اپنی بیٹی کو اس زمانے کے بارے میں بتایا ہے جب عورت کی زندگی میں راحت اور آسودگی نا پید تھی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے پہلے یہاں کی تہذیب و ثقافت کی جو کیفیت تھی وہ حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن تھی۔ یا د ایام کے حوالے سے احمد ہمیش نے اپنے تخلیقی عمل میں ماضی سے متعلق یادوں کو بہت اہمیت دی ہے۔ تخلیقی عمل کے دوران احمد ہمیش نے موضوع اور مواد کے حصول کے لیے متخیلہ ہی پر انحصار کیا ہے۔ اس کے تمام تصورات اور تاثرات کی اساس ماضی کی یادیں ہی ہیں۔ ان یادوں کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے میں احمد ہمیش نے جس ریاضت سے کام لیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس نظم میں احمد ہمیش نے اپنی یادوں اور دروں بینی کے اعجاز سے خو ب سماں باندھا ہے :
بیٹی انجیلا کے لیے ایک نظم
میری بیٹی! تم نے لالٹینوں کے ماضی کو نہیں دیکھا
جن میں ہر رات کوئی نہ کوئی عورت روشن ہوتی اور پھر بجھ جاتی ہے
اور بجھی ہوئی عورت دوبارہ کبھی روشن نہیں ہوئی
اگر کوئی بجھی ہوئی عورت دوبارہ روشن ہو جاتی تو محبت اس کے پیڑ اور اس کی پرچھائیوں کو ایک جا کر کے ایک نئی دنیا بنائی جا سکتی تھی
میری بیٹی !ہر ندی کا انتظار کرتے ہوئے سمندر میں اتر جا
سمندر میرا دل ہے اس دل میں اس دل میں کچھ گھڑی رک کے ذرا دیکھو
کہ تجھ میں اب تک کتنا میں زندہ ہوں
اس سے پہلے کہ میں تیرے دیکھتے دیکھتے مر جاؤں
سمندر میں اتر جا
احمد ہمیش نے اپنی شاعری میں عالمی کلاسیک اور پاکستانی زبانوں کی کلاسیکی شاعری کے معتبر حوالوں سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس کی ادبی فعالیت میں اس کا وسیع مطالعہ کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ کتابیں ہی اس کا چمن تھیں جن کی معطر فضاؤں میں اس نے زندگی بسر کی۔ اس نے اپنے دل کو سمندر قرار دے کر زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کیا ہے۔ اس وقت مجھے حضرت سلطان باہو یاد آ گئے جنھوں نے اپنی صوفیانہ شاعری میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ حضرت سلطان باہو نے کہا تھا :
دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ہو
وچے بیڑے وچے جھیڑے وچے ونجھ موہانے ہو
ترجمہ
دل کے دریا تو سمندر سے بھی گہرے ہیں کسے معلوم کہ دل کی کیا کیفیت ہے
اسی میں کشتیاں ہیں اسی میں جھگڑے ہیں اسی میں چپو ہیں اسی میں ملاح ہیں
پاکستان کے ممتاز ادبی مجلات میں احمد ہمیش کی تخلیقات مسلسل شائع ہوتی رہیں۔ لاہور میں مبارک احمد اور اس کے ممتاز رفقائے کار نے احمد ہمیش کے نثری نظم کے بانی ہونے کے دعوے کو لائق اعتنا نہ سمجھا۔ دونوں طرف سے اپنے اپنے موقف کی تائید میں دلائل کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو گیا اور ادب کے عام قاری کے لیے حقائق کی تہہ تک پہنچنا مشکل ہو گیا۔ رام ریاض نے کہا تھا :
کس نے پہلا پتھر کاٹا پتھر کی بنیا د رکھی
عظمت کے سارے افسانے میناروں کے ساتھ رہے
اردو ادب کے بعض محققین کی رائے میں نثری نظم کو فرانسیسی ادیب بو دیلیر نے جب اظہار کا وسیلہ بنایا تو اس کے اثر سے اردو میں بھی یہ مروج و مقبول ہوئی۔ فرانس کے نامور علامت نگار ادیبوں نے اس صنف ادب کی پذیرائی کی۔ بودئیلر کا خیال تھا کہ عروضی جکڑ بندیاں ایک زیرک تخلیق کار کے اشہب قلم کی جولانیوں کی راہ میں حائل ہو کر آزادیِ اظہار کی راہیں مسدود کر دیتی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اردو میں نثری نظم کے سوتے انگریزی ادب سے پھوٹتے ہیں لیکن احمد ہمیش کا اصرار تھا کہ نثر ی نظم کے ابتدائی نقوش کی تلاش کے سلسلے میں سنسکرت ناٹک اور مقدس ویدوں پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (NAPA) کے لیے سنسکرت ناٹکوں کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کے سلسلے میں احمد ہمیش کی خدمات کو فنون لطیفہ سے وابستہ حلقوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ سنسکرت سے دلچسپی رکھنے والے محققین کا خیال ہے کہ نثری نظم کا خمیر سنسکرت ہی سے اٹھا۔ اپنی عملی زندگی میں ناٹک اور ڈرامے سے احمد ہمیش کی دلچسپی اس کے ذاتی عشق کی صورت اختیار کر گئی۔ اس کی تخلیقات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جہاں تک مواد کا تعلق ہے اسے تو ایک اجتماعی شان کا حامل سمجھا جا سکتا ہے جسے معاشرتی زندگی کے مجموعی نشیب و فراز سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ احمد ہمیش کے تخلیقی تجربات کے اعجاز سے اسلوب کو ایک انفرادی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ احمد ہمیش کی شخصیت کے اہم پہلو اس کے اسلوب میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے اسلوب کی اہم بات یہ ہے کہ اس کی تخلیقات میں غیر ترقی پسند سوچ کا غلبہ ہے۔ اردو ادب میں 1936میں سامنے آنے والی ترقی پسند تحریک سے اس نے کوئی تعلق نہیں رکھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اس عالم آب و گل کی زندگی اور اس کے نشیب و فراز کو ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھا اور اپنے تجربات کو افسانوں اور ڈراموں میں اس مہارت سے پیرایۂ اظہار عطا کیا کہ قارئین ادب زندگی کا یہ حیران کن تماشا دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ احمد ہمیش کی شخصیت کے متعدد روپ تھے لیکن ہر جگہ زندگی کو ایک تماشائی کی حیثیت ہی سے دیکھنا اس کا معمول تھا۔ طارق محمود میاں نے اپنے ایک اخباری کالم میں احمد ہمیش کی زندگی کے بدلتے رنگ، ڈرامہ نگاری اور اس کی گل افشانیِ گفتار کے بارے میں لکھا ہے :
’’ ہم نے سنا ہے اسے عام زندگی میں بھی ڈرامہ کرنے کا شوق تھا۔ بے ضرر سے ڈرامے۔ فراق گورکھ پوری کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا اور سریندر پرکاش بھارت کے مشہور افسانہ نگار۔ وہ ضیا الحق کا دور تھا۔ کسی نے بتایا کہ قمر جمیل رمضان میں رگھو پتی سہائے اور احمد ہمیش سریندر پر کاش بن کر ہندوؤں کے ہو ٹل میں دو پہر کا کھانا کھاتے ہیں۔ ‘‘(1)
احمد ہمیش نے اپنی شاعری اور افسانہ نگاری کو جدید فکری اساس پر استوار کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ اس کے اسلوب میں تجریدیت کو غیر معمولی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ان حالات میں ایک بے ترتیبی کی سی کیفیت ہے۔ اس کے علاوہ ایک ڈرامائی کیفیت بھی اسلوب میں جلوہ گر ہے جو قاری کے لیے مسرت اور استعجاب کا باعث ہیں۔ احمد ہمیش کے افسانوں کی تجریدیت اور ڈرامائی کیفیت قاری کو وادیِ خیال میں مستانہ وار گھومنے والے اس تخلیق کار کی زندگی کے کئی گوشوں کے بارے میں آگہی عطا کرتی ہے۔ احمد ہمیش کے اسلوب میں ہیئت، مواد اور تکنیک کا تنوع قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ ثابت ہو تا ہے۔ اس کے افسانے اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس کو خود نوشت سوانح عمری کے ایک باب کی شکل میں قاری کے فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتے چلے جاتے ہیں۔ خود نوشت، افسانہ نگاری اور ڈرامہ نگاری کے امتزاج سے احمد ہمیش اپنے اسلوب کو دھنک رنگ منظر نامہ میں بدل دیتا ہے۔
ایک ادبی نشست میں سامعین اور نقادوں نے نثری نظم اور افسانے کی تجریدیت کو ہدف تنقید بنایا اور اسے سخت نا پسند کرتے ہوئے اس صنف اور اس کے تخلیق کاروں کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے۔ اکثریت کی یہ رائے تھی کہ نثری نظم اور افسانے کی تجریدیت میں کوئی حسن دکھائی نہیں دیتا بل کہ ان کی بدوضع کیفیت انھیں ادب سے بھی خارج کر دیتی ہے۔ احمد ہمیش نے نہایت تحمل سے یہ سب تنقید سنی۔ جب اسے اظہار خیال کا موقع ملا تو اس نے ناقدین سے مخاطب ہو کر کہا:
’’میں اپنی بات شروع کرنے سے پہلے کرائسٹ کی ایک تمثیل سنانا چاہتا ہوں۔ جیسس کرائسٹ کسی جنگل میں سے گزر رہے تھے تو انھوں نے کسی کتے کو مرا ہوا پایا۔ بڑا تعفن تھا۔ ایک حواری نے کہا اس کی کھال تو بالکل ادھڑ گئی ہے۔ دوسرے نے کہا اس کی آنکھیں ابل پڑ رہی ہیں۔ تیسرے حواری نے کہا اس میں تو کیڑے پڑ گئے ہیں لیکن کرائسٹ نے صرف ایک جملہ کہا : تم یہ تو دیکھو اس کے دانت چمک رہے ہیں۔ تو پہلے آپ وہ آنکھ پیدا کیجئے جو کرائسٹ کی آنکھ تھی۔ ‘‘ ( 2 )
اپنی زندگی میں انسانیت کے وقار اورسر بلندی کو احمد ہمیش نے بہت اہمیت دی۔ اپنے کئی افسانوں میں احمد ہمیش نے اپنے منفرد تجربات سے اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا۔ اپنے تجربات، مشاہدات اور جذبات و احساسات کو تجریدی تکنیک سے علامتی تکنیک تک لے جانے کے سفر میں اس کی محنت قابل توجہ ہے وہ زندگی بھر پرورش لو ح و قلم میں مصروف رہا اور کبھی ستائش اور صلے کی تمنا نہ کی۔ اس نے جہاں بھی تجریدیت پر انحصار کیا ہے وہاں ترتیب عنقا ہوتی چلی گئی ہے اور ایک انوکھی کیفیت سامنے آتی ہے جس میں بکھرے ہوئے مظاہر اپنا ایک الگ اور منفر رنگ پیش کرتے ہیں۔ احمد ہمیش نے لفظ کی حرمت کو بہت اہمیت دی اور حریت ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی۔ کسی سے مرعوب ہونا اس کے مزاج کے خلاف تھا۔ اس نے افکار تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کے لیے جد جہد کو اپنا شعار بنایا۔ اس نے لفظوں کو تمام رویوں اور تعلقات کا ایک معتبر حوالہ قرار دیا۔ اس کے قلب و روح، فکر و خیال اور ذہن و ذکاوت کے ارتقا ئی مدارج کو سمجھنے کے لیے اسلوب اور الفاظ کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ احمد ہمیش کی تصانیف درج ذیل ہیں :
(1)مکھی (افسانوں کا پہلا مجموعہ )یہ 1968 میں بھارت سے شائع ہوا۔ (2)کہانی مجھے لکھتی ہے (افسانوں کا دوسرا مجموعہ )سال اشاعت، 1988، ہمیش نظمیں، سال اشاعت، 2005
تخلیق فن کے لمحوں میں احمد ہمیش کی دلی تمنا یہ تھی کہ اس کے اسلوب میں چونکا دینے والا عنصر نمایاں رہے۔ اس کی خطر پسند طبیعت نے کبھی آسانیوں کی جستجونہ کی بل کہ انتہائی کٹھن حالات میں بھی صبر و استقامت کا دامن تھام کر روشنی کا سفر جاری رکھا۔ اس کے آبائی گاؤں میں ہندی اور سنسکرت کی تعلیم پر کافی توجہ دی جاتی تھی لیکن اردو کی تدریس کا خاطر خواہ انتظام نہ تھا۔ اس لیے اردو زبان میں مہارت حاصل کرنے کے سلسلے میں اسے بہت محنت کرنا پڑی۔ ہندی اور سنسکرت سے اس کی دلچسپی بچپن کی تعلیم کا ثمر ہے۔
تجرید ی اسلوب میں تخلیق کار کی تاب نظارہ کو کلید ی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ احمد ہمیش نے نہایت دردمندی اور خلوص کے ساتھ معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں، بے ہنگم کیفیات اور تضادات کا تجزیہ کیا ہے۔ اس کے تجربات اور مشاہدات ہی اس کے فکر و فن کی اساس سمجھے جا سکتے ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو ہوس زر نے شدید ضعف پہنچایا ہے۔ مسلسل شکست دل کے باعث وہ بے حسی ہے کہ انسانیت کو درپیش مصائب و آلام پر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ احمد ہمیش کے افسانے ’’مکھی ‘‘میں تخلیق کار کی تاب نظارہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ معاشرے میں پائی جانے والی غلاظت جہاں سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اٹھ رہے ہوتے ہیں وہاں جس طرح مکھی پلک جھپکتے میں پہنچ جاتی ہے، بالکل اسی طرح ایک زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار سماجی اور معاشرتی قباحتوں اور غلاظتوں تک پہنچنے میں کوئی تامل نہیں کرتا۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی غلاظتوں کو احمد ہمیش نے جس انداز میں دیکھا ہے اسے فنی مہارت کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھالا ہے۔ تخلیق کار کی تاب نظارہ کی قوت اپنی جگہ درست لیکن اس افسانے میں مصنف نے رجائیت کو بارہ پتھر کر کے اسلوب کو قنوطیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ اس افسانے میں کہیں بھی امید کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ ہر طرف گندگی اور غلاظت ہی غلاظت دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سماجی گندگی، معاشرتی گندگی ، سیاسی گندگی، شخصی، اجتماعی گندگی اور سب سے بڑھ کر ذہنی گندگی شامل ہے۔ ان سب غلاظتوں اور گندگیوں کی عفونت کے باعث سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ تخلیق کار ایک مکھی کے مانند ان سب غلاظتوں تک پہنچ کر ان کی عفونت سے خبر دار کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک اجتماعی روئیے کو نمو پذیر کرنے کی سعی کرتا ہے جس سے اصلاح کی ایک موہوم سی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ احمد ہمیش کے افسانوں میں علامت کو ایک نفسیاتی کل کے روپ میں دیکھنا چاہیے۔ اس نے ان علامات کے ذریعے قاری کے لا شعور کی جملہ حرکت و حرارت کو متشکل کرنے کی سعی کی ہے۔ اس نے اپنی کہانیوں میں علامتی تکنیک کو روبہ عمل لانے کی پوری کوشش کی ہے، مثال کے طور پر ’’کہانی مجھے لکھتی ہے ‘‘اور ’’پش اینڈ پل ‘‘ ایسی کہانیاں ہیں جن میں تخلیقی عمل کے دوران علامتی تکنیک کو پورے سلیقے سے استعمال کیا گیا ہے۔ احمد ہمیش کا فن اس کے قلب اور روح کی کیفیات کو اس قدر مو ثر انداز میں زیب قرطاس کرتا ہے کہ قاری اس کے سحر میں کھو جاتا ہے اس نے قاری کو غور و فکر کرنے اور تحلیل و تجزیہ کو شعار بنانے کی راہ دکھائی۔ اس نے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں مثبت شعورو آگہی بیدار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے مزاج کی شدت پر قابو نہ پا سکا اور خود کو جزیرۂ جہلا میں گھر امحسوس کرنے لگا اس کے بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں کیوں کہ چاروں جانب ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر ہے جس کی ہر موج میں حلقۂ صد کام نہنگ موجود ہے۔ اس نے تہذیبی بقا کے لیے ادب کو اہم وسیلہ قرار دیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ادب ہی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کا امین ہوتا ہے۔ سیل زماں کے مہیب تھپیڑے اقوام و ملل کے اقتدار اور با اثر افراد کےجاہ و جلال کو تو بہا لے جاتے ہیں لیکن تہذیب کو دوام حاصل ہے۔ احمد ہمیش نے پاکستان کی نئی نسل کو تہذیبی میراث کی منتقلی کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔
احمد ہمیش نے 1990میں ادبی مجلے ’’تشکیل ‘‘کی اشاعت کا آغاز کیا۔ کراچی سے شائع ہونے والے اس ادبی مجلے کو علمی و ادبی حلقوں میں بالعموم متنازع سمجھا جاتا رہا۔ اس کے سرورق پر جو حروف درج ہوتے تھے وہ اس مجلے کی مجلس ادارت کے اصولوں کے آئینہ دار تھے۔ یہ الفاظ قاری کو چو نکا دیتے تھے۔ تشکیل کی پیشانی پر درج یہ الفاظ ’’ اردو ادب کا شاک انگیز استعارہ ‘‘ قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ اس مجلے کے اداریے اور بیش تر مضامین شاک انگیز ثابت ہوتے تھے۔ ان دنوں احمد ہمیش کی بیٹی انجیلا ہمیش ان کی معاونت پر مامور ہیں۔ مجلس ادارت نے جو تنقیدی معائر اپنائے ان کے بارے میں بھی تحفظات پائے جاتے تھے۔ ادبی مجلہ ’’ تشکیل‘‘ میں ادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے اسلوب، افراد معاشرہ، رسوم و رواج اور اداروں پر تنقید کرتے ہوئے توازن و اعتدال کے بجائے شدت کے ساتھ ان شخصیات پر تنقید کی جاتی۔ احمد ہمیش نے اپنے مجلے کے اصولوں اور صحافتی انداز پر کی جانے والی کڑی تنقید اور شدید رد عمل کی کبھی پروا نہ کی۔ جس بات کو حق سمجھا اسے احاطۂ تحریر میں لانے سے کبھی گریز نہ کیا۔ احمد ہمیش کا خیال تھا کہ راہ راست سے بھٹک جانے والے اور اقدار و روایات کو پامال کرنے والوں کے لیے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ تنقید محض تنقید نہ رہتی بل کہ ذاتیات پر شدید حملے کی صورت اختیار کر لیتی۔ مجلہ تشکیل اپنے حیران کن اسلوب، چونکا دینے والی تحریروں اور کڑی تنقید کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس کے پس پردہ احمد ہمیش کا دبنگ لہجہ قاری کے لیے اجنبی نہ تھا۔ ادبی مجلہ تشکیل کا یہ انداز ادب کے سنجیدہ قارئین کے ذوق سلیم پر گراں گزرتا اور وہ اس ادبی کھٹ پٹ سے بچنے کی جھٹ پٹ فکر کرتے۔
احمد ہمیش کی شخصیت، فنی تجربات، فکری منہاج، صحافتی معائر، اسلوب اور تخلیقی فعالیت زندگی بھرا اختلافات کے گرداب میں رہی۔ اسلوب ہو یا تخلیق ، شخصیت ہو یا رویہ ہر صورت میں احمد ہمیش کی زندگی میں سخت مقامات آتے رہے لیکن وہ پنے موقف پر قائم رہا۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا یہاں تک کہ احمد ہمیش بھی زینۂ ہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ اب احمد ہمیش کی شخصیت سے وابستہ تمام اختلافات ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب مستقبل کا ادبی مورخ ان فکری اختلافات کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر کرے گا۔ احمد ہمیش کے ادبی منصب کا تعین اب مستقبل کے ادبی مورخ اور ادب کے طلبا کو کرنا ہے۔ ہم اپنے رفتگاں کویا دکر کے اپنے دلوں کو ان کی حسین یادوں سے آباد رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس راہ پر کمر باندھے ہم سب تیار بیٹھے ہیں۔ ہماری زندگی تو ریگ ساحل پہ لکھی وقت کی تحریر کے مانند ہے سیل زماں کی موجوں کے ایک تند و تیز تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد زندگی کے سب سلسلے عنقا ہو جاتے ہیں۔ بہ قول مجروح سلطان پوری :
بے تیشۂ نظر نہ چلو راہ رفتگاں
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
٭٭
مآخذ
(1)طارق محمود میاں : کالم ’’ اسرار جاں ‘‘، ’’ایک ٹیڑھا مگر میٹھا آدمی ‘‘روزنامہ ایکسپریس، لاہور، 12ستمبر 2013، صٖفحہ13۔
( 2) ایضاً
٭٭٭
انور خواجہ: ایک رجحان ساز ادیب
آزادی کے بعد پاکستان میں اردو افسانے میں متعدد نئے تخلیقی تجربے کیے گئے۔ ان تجربات کے اعجاز سے اردو افسانے کو عالمی ادب کے پہلو بہ پہلو لانے میں مدد ملی۔ اردو افسانے کو موضوعات، مواد اور تخلیقی تنوع کے اعتبار سے وقیع اور ثروت مند بنانے میں جن نابغہ روزگار ادیبوں نے خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی کامیاب سعی کی ان میں انور خواجہ کا نام بھی شامل ہے۔ انور خواجہ نے گزشتہ ساٹھ برس کے دوران اپنے تخلیقی تجربات اور ترقی پسند سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو افسانے کو گل ہائے رنگ رنگ سے مزین کیا ہے۔ جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو نیرنگی ء سیاست دوراں کے باعث عجب صورت حال پیدا ہو گئی۔ سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ منزل مقصود اور جاہ و منصب پر ان مفاد پرست عناصر نے غاصبانہ قبضہ کر لیا جو سرے سے شریک سفر ہی نہ تھے اور جنھوں نے حریت فکر کے مجاہدوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ ان مفاد پرست عناصر کے مکر کی چالوں کے باعث اجالا داغ داغ اور سحر شب گزیدہ ہو کر رہ گئی۔ بھیانک تیرگی نے مقدر کی سیاہی کی طرح بے بس انسانوں کو دبوچ لیا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سب لوگ گجر بجنے سے دھوکا کھا گئے ہیں۔ انور خواجہ نے ان تمام تلخ تجربات، مشاہدات اور مصائب و آلام کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ انور خواجہ کا اسلوب ان کی ذات ہے۔ انسانی ہمدردی، بے لوث محبت، بے باک صداقت اور حریت فکر ان کے ریشے ریشے میں سما گئی ہے۔ ان کے جذبات اور احساسات جب الفاظ کے پیکر میں ڈھلتے ہیں تو ان کے جان دار اسلوب کے مسحور کن اثر سے پتھر بھی موم ہو جاتے ہیں۔ انور خواجہ کے افسانوں میں حقیقت نگاری کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ انھوں نے معاشرتی زندگی کے تضادات، بے اعتدالیوں، شقاوت آمیز نا انصافیوں اور ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر کی ریشہ دوانیوں کے خلاف ہمیشہ قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے آلام روزگار کے مہیب بگولوں کی زد میں آنے والے قسمت سے محروم افراد کے حالات کو جس طرح دیکھا انھیں بالکل صحیح تناظر میں سامنے لانے کی سعی کی۔ ان کے دل پر جو گزری اسے بلا کم و کاست پیرایۂ اظہار عطا کیا۔ ان کے افسانوں میں حقیقت نگاری کا جو پہلو ہے وہ اسی روایت کا تسلسل ہے جس کا شدید احساس تو سولھویں صدی میں بیدار ہوا لیکن اس احساس کو حقیقت نگاری کی اصطلاح کے طور پر متعارف کرانے کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ فرانسیسی ناول نگار فلابیر(1821-1881)نے ادب میں حقیقت نگاری کی داغ بیل ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ فلابیر کا ناول ’’مادام بواری‘‘ جو کہ 1857میں شائع ہوا اسے تلخ حقیقت نگاری کا عمدہ نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ انور خواجہ نے عالمی ادبیات کا بہ نظر غائر جائزہ لیتے ہوئے اردو ادب کو حقیقت نگاری کے اعلیٰ معیار سے آشنا کیا۔
زندگی کے متعلق یہ طے ہے کہ اسے اندیشۂ سود و زیاں سے بر تر سمجھا جاتا ہے۔ انور خواجہ کے اسلوب میں زندگی کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں کا روپ دھار لیتی ہے۔ انھوں نے زندگی کو امروز و فردا کے پیمانے سے کبھی نہیں ناپا بلکہ زندگی کی حقیقی معنویت کو زیب قرطاس کرنے کی طرف توجہ دی۔ ان کا خیال ہے کہ زندگی زندگی کی برق رفتاریوں نے اقدار و روایات کی کایا پلٹ دی ہے۔ زندگی کے غیر مختتم مسائل کے پس پردہ متعدد لا شعور ی محرکات اور مختلف رویے کارفرما ہوتے ہیں۔ انور خواجہ نے ان تمام مسائل و مضمرات کو حقیقی تناظر میں جانچا اور پرکھا ہے۔ اپنے قوی مشاہدے اور بصیرت افروز تجزیے کے ذریعے انھوں نے حریت ضمیر سے جینے کی جو راہ اپنائی ہے وہ انھیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ وہ تصویر کے تمام رخ دیکھ کر ان کے بارے میں ایک قابل فہم اور حقیقت پسندانہ انداز اپنانے میں کبھی تامل نہیں کرتے۔ وہ زندگی کے تضادات، ارتعاشات اور بے اعتدالیوں کے بارے میں بے ربط اور بے معنی توجیہات کے سرابوں میں بھٹکنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ہر حال میں نیکی اور اعمال صالحہ کو بالاتر ثابت کرنے کی خاطر رندوں کی برائی اور کردار کی خامیوں کو ہدف ملامت بنایا جائے یا رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اتنے دلکش ثابت کیے جائیں کہ قاری ان کے سحر میں کھو جائے اور اور عالم آب و گل میں پائی جانے والی بد ہیتی، شہر کوراں کی قباحت اور جزیرۂ جہلا کی نجاست منظر عام پر نہ آسکے۔ تقلید کی روش سے دامن بچاتے ہوئے انور خواجہ نے جو طرز فغاں تلاش کی ہے وہ ان کے منفرد اسلوب کی اعلیٰ ترین صورت سامنے لاتی ہے۔ صدیوں سے مروج فرسودہ انداز فکر کو ترک کر کے انھوں نے بے باک صداقت اور بے لاگ حقیقت نگاری کا جو منفرد انداز اپنے افسانوں میں اپنایا ہے وہ انھیں عصری ادب میں بلند مقام عطا کرتا ہے۔ وہ زندگی کی حقیقت کو جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں سے تعبیر کرتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی اپنی اصلیت کے اعتبار سے کوئی جامد و ساکت چیز ہر گز نہیں یہ پیہم رواں اور ہر دم جواں ہے۔ ان کے اسلوب سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زندگی کے تمام خارجی حقائق اور رونما ہونے والے واقعات کے پس پردہ جذبات، احساسات اور لا شعوری محرکات کا ایک سیل رواں ہوتا ہے جو تخلیق کار کو اس کی غواصی پر مجبور کر دیتا ہے۔ انور خواجہ کے افسانوں میں حقیقت نگاری کے سوتے گزشتہ ادوار کی تاریخ ، زمانہ حال کے مطالعہ اور زمانہ آئندہ کی پیش بینی سے پھوٹتے ہیں۔ ایک فعال، مستعد اور بے حد زیرک اور حساس تخلیق کار کی حیثیت سے انور خواجہ نے زندگی کے تمام موسموں کے بارے میں پائے جانے والے رویوں کا حقیقی انداز میں مطالعہ کیا ہے۔
انور خواجہ نے فن افسانہ نگاری کو اپنی ذاتی کاوشوں اور انفرادی میلانات کے اعجاز سے ایک قابل فہم اور حقیقت پر مبنی رویے سے آشنا کیا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ قاری کو یہ جان لینا چاہیے کہ حقیقت کا احساس و ادراک انفرادی تحریک کا مرہون منت ہو اکرتا ہے۔ خانۂ فرہاد کی روشنی شرر تیشہ کی بدولت ہے۔ پتھر کی تقدیر صرف اسی صورت میں بدل سکتی ہے جب اسے صدق دل سے تراش کر اسے نکھارا جائے۔ ان کے افسانوں کے مطالعہ سے حقیقت کا صحیح ادراک ہوتا ہے۔ اپنی اصلیت کے لحاظ سے زندگی جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں کے مانند ہے۔ ان افسانوں میں زندگی کے حقائق کا شعور فکر و نظر کو مہمیز کر نے کا وسیلہ ثابت ہو تا ہے۔ قاری یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ اشہب زمانہ طلب کا تازیانہ کھانے کے بعد سر پٹ دوڑتا ہوا موجودہ مقام تک کیسے اور کن حالات میں پہنچا ہے۔ مغرب میں زندگی جس سمت جا رہی ہے اس کی لفظی مرقع نگاری کرتے ہوئے انور خواجہ نے اشہب قلم کی جس انداز میں جولانیاں دکھائی ہیں وہ ان کی انفرادیت اور حقیقت نگاری کا ثبوت ہیں۔
ؒوہ آگے بڑھا تو کھلے ساحل پر آ کر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ حد نظر تک مرد اور عورتیں بر ہنہ اور نیم بر ہنہ حالت میں ریت پر چادریں بچھائے غسل آفتاب لے رہے تھے کہیں جسموں پر دھوپ سے بچاؤ کی کریم تھوپی جا رہی تھی اور کہیں سائبانوں کے نیچے بر ہنہ کو لھوں کی نمائش اور کہیں تاش کھیلتی لڑ کیاں قہقہے لگاتی نظر آ رہی تھیں۔ عمر رسیدہ مرد اور عورتیں بھی جوانوں کی طرح غسل آفتاب کی دلدادہ تھیں مگر ان کے جسم مرجھائے اور مسلے ہوئے پھولوں کی طرح قابل رحم نظر آ رہے تھے۔ ‘‘(بریدہ بدن : صفحہ 14)
انور خواجہ کا ایک افسانہ ’’ وقت کا پہیہ‘‘ معاشرتی زندگی بالخصوص مغرب کی گم راہ کن جنسی بے راہ روی کا حقیقی روپ سامنے لاتا ہے۔ اس افسانے کے دو کردار اہم ہیں ایک تو شانتی ہے جو جنسی جنوں کی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ دوسرا کردار ہاروں ہے جو شانتی کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو جاتا ہے۔ ہارون کو دیر سے ہی سہی ہو ش آ ہی جاتا ہے جب اسے یہ معلوم ہو تا ہے کہ شانتی امریکی ماحول میں پروان چڑھنے کے باعث ایک مرد کی رفاقت پر مطمئن نہیں ہو سکتی بل کہ اسے جنسی تجربات کے لیے متعدد نو جوان مرد مطلوب ہیں جو اس کی جنسی اشتہا اور جنوں کی تسکین کر سکیں۔ وہ ایسے قرم ساق شوہر کی تلاش میں تھی جو اس کا دلال بھی ہو اور شریک جرم اور شریک حیات بھی۔ شانتی کا اصل روپ دیکھ کر ہارون کے اندر چھپا ایک مشرقی اور غیرت مند شوہر جاگ اٹھتا ہے۔ وہ شانتی کی ہف وات سن کر اسے یہ خط لکھ کر اس کے فریب سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس طرح اس نے تہذیب مغرب کے منہ پر ایسا طمانچہ رسید کیا ہے کہ اس تہذیب کا قبیح پہلو دیکھ کر گھن آتی ہے :
’اگر آپ کو جنسی تجربات کر نے ہیں تو لداخ جانے کی ضرورت نہیں، امریکہ زیادہ موزوں ملک ہے، جہاں آپ دو مردوں کے ساتھ رہ سکتی ہیں یا عورتوں سے لذت حاصل کر سکتی ہیں۔
اگر اس سے آپ کا جنسی لذت کا شوق پورا نہ ہو تو بھارت سے آتے ہوئے کسی گرو کی شاگرد بن جائیں اور اس گرو کے سارے چیلوں کے ساتھ باری باری ہم بستری کریں ‘‘( بریدہ بدن : صفحہ 131)
انور خواجہ نے اپنے افسانوں کو حقیقت نگاری کی اساس پر استوار کرتے ہوئے زندگی کی جو حقیقی منظر کشی کی ہے وہ قاری کو متوجہ کر تی ہے اور ذوق سلیم کو بیدار کرتی ہے۔ انور خواجہ کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتا ب ’’سفید پتھر ‘‘اس کی عمدہ مثال ہے۔ اس میں تئیس (23)افسانے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سفید پتھر میں سات خاکے اور ایک ناولٹ ’’تلاش بہار‘‘ شامل ہے۔ انور خواجہ نے تخلیق ادب میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں انھیں پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ ان کی تخلیقات سے اردو ادب کی ثروت میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ ان کی بارہ کے قریب وقیع تصانیف شائع ہو چکی ہیں جن میں سے اکثر کو عالمی سطح پر پذیرائی نصیب ہوئی۔ ان کی اہم تصانیف میں نا شناس، پیکار، بریدہ بدن، سفید پتھر، آواز سنگ، تازہ ہوا، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، شب چراغ شامل ہیں۔
انور خواجہ کے افسانوں کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان افسانوی مجموعوں کے نام ہیں نا شناس، پیکار، بریدہ بدن اور سفید پتھر۔ ان تمام افسانوی مجموعوں کو جو زبردست پذیرائی ملی وہ انور خواجہ کے جان دار اسلوب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جانوروں کی کہانیوں پر مشتمل کتاب ’’ پیکار ‘‘کو اباسین آرٹ کو نسل کی جانب سے بہترین کتاب کے انعام سے نواز اگیا۔ ان کے افسانوی مجموعے ’’بریدہ بدن‘‘ پر انھیں فیض محمد ٹرسٹ کی جانب سے ’’احمد ندیم قاسمی ایوارڈ ‘‘ملا۔ لاس اینجلس (امریکہ)میں قائم لٹریری سوسائیٹیز کی جانب سے انور خواجہ کی بے مثال ادبی خدمات اور تخلیقی فعالیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے انھیں دوسرے انعام سے نوازا گیا۔ عالمی سطح پر ان کی ادبی خدمات کا اعتراف یہ ثابت کرتا ہے کہ انور خواجہ نے وطن، اہل وطن اور ادب کے ساتھ جو عہد وفا استوار کیا اسی کو علاج گردش لیل و نہار سمجھتے ہوئے صدق دل سے اسے حرز جاں بنا لیا۔ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں کا پردہ فاش کرنا اپنا مطمح نظر بنا کر مظلوم انسانیت کے لیے مداوائے الم کی صورت تلاش کرنا ہمیشہ سے ان کا نصب العین رہا ہے۔ زمانہ طالب علمی ہی سے انھوں نے اپنی خدادا د صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کے افسانے عالمی شہرت کے حامل ادبی مجلات کی زینت بنتے رہے۔ ان میں ادب لطیف اور فنون شامل ہیں۔
فن افسانہ نگاری میں انور خواجہ کو جو مہارت حا صل وہ قا بل قدر ہے۔ سفید پتھر کے متعدد افسانے اس معیار کے ہیں کہ انھیں عالمی ادب کے نمائندہ افسانوں کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ زندگی کے مسائل کی تفہیم اور جہد للبقا کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانا ہمیشہ ان کا شیوہ رہا ہے۔ وہ فرد کی ان صلاحیتوں کو صیقل کرنے کے آرزو مند ہیں جنھیں بروئے کار لا کر انسان آزمائش اور ابتلا کی بھٹی میں تپ کر کندن بن کر نکلتا ہے۔ انور خواجہ نے نہایت مستقل مزاجی سے تیشۂ حر ف سے فصیل جبر کے انہدام کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ وہ مصلحت اندیشی کے بالکل قائل نہیں۔ وہ عقلیت کو تخیل کی اساس بنا کر تخلیقی عمل میں جس انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ان کے صاحب طرز ادیب ہو نے کی دلیل ہے۔ وہ سفاک ظلمتوں اور ہجوم یاس میں بھی شعور کی شمع فروزاں کر کے حقائق کی گرہ کشائی میں مصروف رہتے ہیں۔ تشکیک کے اعصاب شکن ماحول سے گلو خلاصی کو وہ انسانی وقار کے لیے نا گزیر خیال کرتے ہیں۔ ان کی حقیقت پسندی ان کے مزاج کا ایک اہم عنصر ہے۔ ایک راسخ العقیدہ مسلما ن کی حیثیت سے انھوں نے توحید پر کامل ایقان کو اپنے اسلوب میں نمایاں جگہ دی ہے۔ ان کے ہاں مایوسی کا کہیں گزر نہیں ہو تا۔ افسانہ سفید پتھر ہی کو لے لیں کس مہارت سے انھوں نے قتل کی واردات کا سراغ لگایا ہے۔ ایک اندھے قتل کی سفاکانہ، مجرمانہ اور عیارانہ واردات جو کہ ایک مار آستین کی شقاوت کے سبب ہوئی اس کا پردہ فاش کر کے اس زیرک تخلیق کار نے زبان و بیان اور اسلوب پر اپنی خلاقانہ دسترس کا لوہا منوایا ہے۔ تازی خانہ کا باسی راشد افسانے سفید پتھر میں جرم کی جس قبیح واردات کا ارتکاب کرتا ہے اس کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس کردار کی ژولیدہ فکری کے باعث معصوم انسان طعمۂ اجل بن گئے۔ فن افسانہ نگاری میں انور خواجہ نے تریا چلتر کا پردہ بھی بڑی مہارت سے فاش کیا ہے۔ انور خواجہ نے ’’افسانے کا افسانہ ‘‘میں تخلیق اور لا شعوری محرکات کے بارے میں افسانوی انداز میں خامہ فرسائی کی ہے۔ اس معاشرے میں کچھ لوگ نام و نمود کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اس قماش کے مسخروں کے بارے میں کسی نے سچ کہا تھا کہ باپ نے نہ ماری پدی مگر بیٹا تیر انداز۔ اس افسانے میں کئی پہلو قابل توجہ ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے کے خبط میں مبتلا خضاب آلود کھوسٹ اور عشقی ٹڈے کس بھونڈے انداز میں پینترے بدلتے ہیں۔ انور خواجہ کا ہر افسانہ گہری معنویت کا حامل ہوتا ہے۔ اپنے افسانے ’’اندر کے دروازے ‘‘میں انھوں نے ایک ایسے شخص کے جنسی جنون اور مکر کی چالوں سے پردہ اٹھایا ہے جو اپنے با اعتماد دوست کی بیوی کی عزت و عصمت کو لوٹنے کے قبیح کام میں ملوث ہو جاتا ہے۔ جوانی کے جوش اور جذبات کے سیل رواں نے دونوں نو جوانوں کے عقل و ہوش کو اس طرح اڑا دیا کہ انھیں کچھ سجھائی نہ دیا لیکن جب اس عورت نے یہ کہا کہ میں تو تمھارے دوست کی امانت ہوں تو اس مرد کے اندر کا درندہ بھی دوستی کی امانت کے لفظ سن کر احتیاط کے پنجرے میں بند ہو جاتا ہے اور اندر کے دروازے خود بہ خود بند ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کٹنی ڈھڈو اور منافق عورت عابدہ کے جنسی جنوں پر مبنی ہتھکنڈے بھی اس قلعہ بند مشتاق کو اندر کے دروازے کھول کر باہر نکلنے پر آمادہ نہیں کر سکے۔ محض چند لمحے پہلے ایک نو جوان حسینہ کے دامن کو حریصانہ انداز میں کھینچنے والاجنسی جنونی راسپوٹین بھی دوستی کے نام پر اپنی تمام ایذا رسانیوں سے تائب اور نادم ہو جاتا ہے۔ اس سے افسانہ نگار یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ چاہ یوسف سے آج بھی یہی صدا آ رہی ہے کہ بھائی تو اس عالم آب و گل میں بہت ہیں مگر سچے دوست عنقا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انور خواجہ کو منظر نگاری اور جذبات نگاری پر جو کامل درست حاصل ہے وہ ان کے نفسیاتی شعور کی دلیل ہے۔ انسانی نفسیات پر ان کے عبور کے اعجاز سے ایسے شاہکار افسانے منصۂ شہو د پر آتے ہیں کہ قاری انھیں پڑھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
معاشرتی زندگی میں اس وقت کئی قباحتوں نے جڑ پکڑ لی ہے۔ ان سماجی برائیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے انور خواجہ نے اس امر کی جانب توجہ مبذول کرانے کی سعی کی ہے کہ ان عیوب کا خاتمہ کر دیا جائے جن کے مسموم اثرات سے رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئی ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر نے مجبوروں اور مظلوموں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کے اعصاب شکن مناظر دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ معاشرے میں جنسی جنون روز بہ روز بڑھ رہا ہے۔ بے جوڑ شادیاں عام ہیں کم عمر لڑکیوں کی شادی جب ضعیف اور ناکارہ مردوں سے کی جاتی ہیں تو لڑکی کے والدین کی مجبوریوں کی داستان نوشتۂ دیوار کے مانند ہر شخص پڑھ لیتا ہے۔ ان حالات میں بڈھے کھوسٹ مرد اپنی مردانہ قوت میں اضافہ کے لیے ادویات اور منشیات کا سہارا لیتے ہیں ان ادویات کے منفی اثرات سے ان کی زندگی کی شمع بجھ جاتی ہے اور یوں ایک نو جوان عورت کی زندگی سفاک ظلمتوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ جسم فروش اور رذیل طوائف کا کردار ادا کر کے اپنا اور بچوں کے پیٹ کا دوزخ بھرتی ہے۔ انور خواجہ کا افسانہ ’’آب حیات ‘‘ اس موضوع پر نہایت عمدہ انداز میں فکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے۔ اس افسانے میں عورتوں اور مردوں کی سوچ کے متضاد پہلو سامنے آتے ہیں۔ انور خواجہ نے لکھا ہے :
’’عورتیں مردوں کے مقابلہ میں زیادہ عقل مند اور عملی ہیں۔ جب ان کے بدن میں تبدیلی آتی ہے اور خواہشوں کی آگ بجھ جاتی ہے تو وہ کوئی دوا، کوئی کشتہ نہیں کھاتیں اور نہ کوئی علاج کرواتی ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ قدرت کے قانون کو نہیں بدلا جا سکتا۔ مرد مر تے مرتے بھی کشتے کھاتے ہیں اور نو جوان لڑکیوں سے شادیاں کر کے ان کی زندگیاں تباہ کرتے ہیں۔ ‘‘ ( سفید پتھر : صفحہ 79 )
انور خواجہ نے معاشرتی زندگی کے جملہ نشیب و فراز اپنی تخلیقات میں پیش کیے ہیں۔ ان کے اسلوب میں تعمیری اور اصلاحی پہلو پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ ان کی تحریریں محض تفنن اور تفریح طبع کے لیے نہیں بلکہ وہ حق گوئی اور حقیقت نگاری کے لیے تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ضمیر کی للکار سے جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتے ہیں۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے ادیبانہ مسلک کے خلاف ہے۔ وہ ان لوگوں کے سخت خلاف ہیں جو ریا کی غم گساری اور غرض کی آشنائی کے لیے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔ چربہ ساز، سارق، کفن دزد اور متفنی مفاد پرستوں کو انور خواجہ نے ہمیشہ ہدف تنقید بنایا ہے۔ ایسے ابن الوقت عناصر جو دکھاوے کی جاں نثاری، ملمع کی فدا کاری اور جھوٹی پارسائی کے لبادے اوڑھ کر سادہ لوح لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی نہ کسی روز وہ بھی حالات کی زد پر آ سکتے ہیں۔ جو فروش گندم نما منا فقوں کے ظالمانہ جھوٹ کا تختۂ مشق بننے والے سادہ لوح لوگوں کی مظلومیت کی داستانیں ایک حساس تخلیق کار کو کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتیں۔ انور خواجہ نے مظلوم طبقے جو عہد وفا استوار کیا اس کو علاج گردش لیل و نہار سمجھتے ہوئے اس پر کار بند رہے۔ ان کے اسلوب میں حرف صداقت کی تاثیر قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں کے وسیلے سے اجتماعی شعور اور اجتماعی لا شعور کے ما بین ایک مؤثر ربط و ارتباط اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی جو سعیِ مشکور کی ہے اس کا ایک عالم معترف ہے ان کی تخلیقی فعالیت اس حقیقت کی مظہر ہے کہ وہ معاشرتی زندگی میں در آنے والی کجیوں پر کبیدہ خاطر بھی ہیں اور ان کی اصلاح کے آرزو مند بھی ہیں۔ ان کی شدید خواہش ہے کہ زندگی کی بے اعتدالیوں، تضادات اور بے ہنگم ارتعاشات کو ایک منظم صورت میں پیش کیا جائے۔ اگر معاشرہ اپنے اندر سرایت کر جانے والے تضادات پر چپ کھینچ لیتا ہے تو یہ اس کی بے حسی کی دلیل ہے۔ مسلسل شکست دل سے بے حسی جنم لیتی ہے یہ معاشرے کے لیے کوئی نیک فال نہیں۔ جس طرح ایک فرد اپنے خوابوں کا صورت گر ہو تا ہے بالکل اسی طرح ایک جری تخلیق کار اپنے معاشرے کے حسین خوابوں کو الفا ظ کے قالب میں ڈھالتا ہے۔ انور خواجہ کی تحریریں قلب اور روح کی وجدانی کیفیات اور متخیلہ کی جولانیوں کی تصویریں بن کر قلم و قرطاس کا معتبر حوالہ بن کر سامنے آتی ہیں۔ ارسطو کے تصور المیہ کے مطابق ان کی تحریریں ایک طرف تو تخلیق کار کے اندرونی جذبات کے اظہار اور تزکیہ نفس کا وسیلہ ہیں تو دوسری طرف ان کے مطالعہ سے قاری بھی ایک گونہ بے خودی، سر مستی اور سرشاری سے متمتع ہو تا ہے۔ وہ اپنی تخلیقی تحریروں میں بہ یک وقت ترکیبی اور تجزیاتی انداز بروئے کار لا کر ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہیں۔ ان کے تخلیقی فن پاروں کے مطالعہ کے بعد ان کی ذات کے جوہر کھلتے چلے جاتے ہیں اور قاری ان کی ہفت اختر شخصیت کے بارے میں جان کر دلی مسرت حاصل کرتا ہے۔
سفید پتھر کو بلا شبہ انور خواجہ کی شاہکار تخلیق کا نام دیا جاتا ہے۔ اس معرکہ آرا تصنیف میں انھوں نے افسانہ نگاری، خاکہ نگاری اور ناولٹ جیسی اصناف ادب میں اپنی فنی مہارت اور اسلو بیاتی تنوع کا لوہا منوایا ہے۔ خاکہ نگاری میں وہ جس شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں وہ شخصیت متکلم دکھا ئی دیتی ہے انھوں نے میرزا ادیب (دلاور علی)، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر ظہور احمد اعوان، فارغ بخاری، احمد فراز، تاج سعید اور قتیل شفائی کے جو خاکے تحریر کیے ہیں وہ اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کا ناولٹ’’ تلاش بہار ‘‘بھی زندگی کی مقتضیات اور معنویت کے بارے گنجینۂ معانی کا طلسم ہے۔ انور خواجہ نے تخلیق فن کے لمحوں میں اس امر پر توجہ مرکوز رکھی ہے کہ قارئین ادب کے لیے مسرت و انبساط کے حصول کے فراواں مواقع فرا ہم کیے جائیں۔ انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے تزکیہ نفس کا جس خوش اسلوبی سے اہتمام کیا ہے وہ ان کے ذوق سلیم کا مظہر ہے۔ وہ زندگی کی حیات آفریں اقدار کی ترویج و اشاعت کے متمنی ہیں اور مرگ آفریں قوتوں کو نیست و نابود کر کے ان کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا ہے۔ انور خواجہ کے اسلوب کا امتیاز ی پہلو یہ ہے کہ انھوں نے معاشرتی زندگی میں در آنے والی قباحتوں کے خلاف قلم بہ کف مجا ہد کا کردار ادا کیا ہے، ان کی دلی خواہش ہے کہ تہذیب و ثقافت، تعلیم و معاشرت اور فرد کے جملہ مسائل کو اس انداز سے دیکھا جائے کہ ان میں ایک قابل فہم اور منضبط طریق کار سامنے آئے۔ وطن اور اہل وطن کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قلبی وابستی نے انور خواجہ کو ایک بلند منصب پر فائز کیا ہے۔ اپنی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو وہ بہت عزیز رکھتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اس خطے کے باشندوں کو بہ ہر حال اپنی مٹی سے پیار کرنا چاہیے۔ اس صداقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جو کچھ آج بویا جا رہا ہے جب وہ پکے گا تو اس کی فصل برداشت کرنے کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ آج جیسا تخم بویا جائے گا اسی قسم کا پودا اگے گا اور اس کے ثمر بھی اس کی تمام صفات کے حامل ہوں گے۔ انور خواجہ کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان کی تخلیقی فعالیت کے سوتے تخیل کی ندرت اور تنوع سے پھوٹتے ہیں۔ اپنے تجربات، مشاہدات، جذبات اور احساسات کو وہ پوری قوت اور شدت کے ساتھ احاطۂ تحریر میں لاتے ہیں۔ خوب سے خوب تر کی جانب ان کا یہ سفر مسلسل جاری رہتا ہے اور مر حلۂ شوق ہے کہ وہ طے ہونے میں نہیں آتا۔ اردو ادب کے قارئین کو ان کی تحریروں کے مطالعہ سے جو سکون ملتا ہے اس کا تعلق وجدان سے بنتا ہے۔ اس مسحور کن وجدانی اسلوب کے حامل تخلیق کار نے اردو ادب کے قارئین کو مسرت کے جس لا زوال روحانی احساس سے فیض یاب کیا ہے اس کا عدم اعتراف نا شکری کے مترادف ہو گا۔ انھوں نے اپنی تخلیقی کامرانیوں کی بنا پر بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا۔ زندگی کو فطرت کے مقاصد کی عملی صورت میں دیکھنے والے اس نابغۂ روزگار ادیب نے اپنی قلبی اور روحانی احساسات کو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر علم و ادب کی جو اہم خدمت انجام دی ہے اسے تاریخ ادب میں نمایاں طور پر لکھا جائے گا۔
٭٭٭
ڈاکٹر داؤد رہبر : گرفت سنگ میں بل کھاتی آب جو ترا غم
ڈاکٹر داؤد رہبر نے 5۔ اکتوبر 2013کو داعی ء اجل کو لبیک کہا۔ ڈئیر فیلڈ بیچ فلوریڈا کے ایک نر سنگ ہوم میں اس یگانۂ روزگار فاضل نے اپنے آبائی وطن پاکستان سے چونسٹھ برس باہر رہنے کے بعد عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ ڈاکٹر داؤد رہبر 1926میں ماڈل ٹاؤن لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ڈاکٹر شیخ محمد اقبال اپنے عہد کے ممتاز دانش ور تھے۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال 29۔ اکتوبر 1894کو پیدا ہوئے اور 1948میں وفات پائی، ان کے والد نے شاعر مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال (پیدائش : 9۔ نومبر 1877وفات : 21۔ اپریل 1938)کے ساتھ قلبی وابستگی، والہانہ محبت اور روحانی عقیدت کی بنا پر اپنے فرزند کا نام محمد اقبال رکھا۔ اس فطین طالب علم نے جامعہ پنجاب سے ایم۔ اے عربی کی ڈگری حاصل کی اور برطانوی حکومت کے محکمہ تعلیم کی طرف سے سٹیٹ سکالر شپ حاصل کیا برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی میں گریجویشن کے عرصے میں محمد اقبال کو برطانیہ کے جن نامور ماہرین تعلیم اور عربی زبان کے ممتاز اساتذہ سے استفادہ کا موقع ملا ان میں آر۔ اے نکلسن، ایڈورڈ۔ جی۔ براؤن اور انتھونی ایشلے بیون کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد 1922میں ان کا تقرر پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں فارسی ادبیات کے پروفیسر کی حیثیت سے ہوا جہاں انھوں نے چھبیس برس تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال اورینٹل کالج لاہور کے پر نسپل بھی رہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر کی عمر تین برس کی تھی جب ان کی والد ہ 13۔ جولائی 1929کو انھیں دائمی مفارقت دے گئی۔ ان کے والد ڈاکٹر شیخ محمد اقبال نے ان کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دی۔ ڈاکٹر داؤد رہبر پاکستان کے نامور براڈ کاسٹر ضیا محی الدین کے چچا زاد بھائی تھے۔ ضیا الدین محی الدین کے والد ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کے چھوٹے بھائی تھے۔ بعض اخبارات میں شائع ہونے والی یہ خبر کہ علامہ اقبال کے صاحب زادے ڈاکٹر داؤد رہبر فلوریڈا میں انتقال کر گئے (1)میں دو الگ الگ شخصیات کو آپس میں یوں ملا دیا گیا ہے کہ قاری ششدر رہ جاتا ہے۔ اسی امر کی جانب ممتاز شاعر اور ادیب تنویر پھول نے بھی اشارہ کیا ہے (2)۔ ڈاکٹر داؤد رہبر کی عیسوی اور ہجری تاریخ وفات لکھنے کے بعد تنویر پھول نے اخبار کی اس شہ سرخی پر گرفت کی ہے (2)۔ انھوں نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ اگرچہ نام ایک جیسے ہیں لیکن ان دو شخصیات کے مقام اور کام جداگانہ ہیں اس لیے ان کا آپس میں خلط ملط کرنا درست نہیں۔ ڈاکٹر داؤد رہبر اپنے والد سے بہت متاثر تھے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنے والد کی سات سو صفحات پر مشتمل سوانح حیات ’’ٖFaith of a lay Muslim‘‘ لکھی جو کہ ویب سائٹ Amazon .comپر قارئین ادب کی دسترس میں ہے۔ ایک دردمند ادیب کی حیثیت سے تنویر پھول نے یہ تاریخ وفات لکھ کر ڈاکٹر داؤد رہبر کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے :
’’عم زاد ضیا محی الدین کاشف قد داؤد رہبر‘‘ (سال عیسوی : 2013 )
تاریخ وفات سال ہجری
زمانے سے اے پھول رخصت ہوا وہ
جو تھا اہل دانش، جو اعلی ٰ سخن ور
ہماری نظر سے وہ روپوش ہے اب
یہ تاریخ ہے ’’غیب داؤد رہبر ‘‘ ( ’’غیب داؤد رہبر‘‘ سال ہجری : : 1434)
داؤد رہبر کو بچپن ہی سے تخلیق ادب سے دلچسپی تھی انھوں نے آٹھ سال کی عمر میں اردو شاعری میں طبع آزمائی کا سلسلہ شروع کیا۔ ابتدائی تعلیم کے مدارج میں انھوں نے اپنے اساتذہ اور ہم جماعت طالب علموں کے دل اپنی شاعری سے جیت لیے۔ تاریخی گورنمنٹ کالج، لاہور (موجودہ گورنمنٹ کالج، یونیورسٹی )سے 1947 میں عربی زبان و ادب میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ان کے اعلا تعلیمی معیار اور امتیازی کام یابی کی بنا پر داؤد رہبر کو میکلو ڈریسرچ سکالر شپ سے نوازا گیا۔ ایم۔ اے عربی کے بعد ان کو پنجاب یو نیورسٹی اورینٹل کالج، لاہور میں عربی زبان و ادب کی تدریس پر مامور کیا گیا۔ یہیں سے شعبہ تدریس میں ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ اس زمانے میں ان کے والد ڈاکٹر شیخ محمد اقبال پنجاب یو نیورسٹی اورینٹل کالج، لاہور کے پر نسپل کے منصب جلیلہ پر فائز تھے۔ اس علاقے میں علوم شرقیہ کی تدریس میں ان کی کاوشیں تاریخ کا اہم باب ہیں۔ 1949 کے اوائل میں داؤد رہبر نے اعلا تعلیم کے لیے برطانیہ جانے کا عزم کیا اور کیمبرج یو نیورسٹی میں داخلہ لیا۔ دوران تعلیم برطانیہ میں کیمبرج یو نیورسٹی میں داؤد رہبر کو پی ایچ۔ ڈی کے دوران تاریخ، فلسفہ، عالمی ادبیات، لسانیات اور تقابل ادیان کے موضوع پر اپنے ذوق سلیم کے مطابق مطالعہ اور تحقیق کے فراواں مواقع میسر آئے۔ دوران تحقیق ان کے رہنما پروفیسر ریو بن لیوی(Prof. Reuben Levy)نے اپنے اس فطین شاگرد کی صلاحیتوں کو صیقل کیا اور اس کے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیا کہ اس نے اپنے اشہب تحقیق کی جولانیوں کی دھوم مچا دی۔ ان کے اساتذہ نے ان کی افکار تازہ میں گہری دلچسپی اور تحقیقی و تنقیدی فعالیت کا بر ملا اعتراف کیا اور علم و ادب کے فروغ کے سلسلے میں ان کے جذبات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ان کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ کیمبرج یو نیورسٹی سے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ لاہور پہنچے جہاں وہ پہلے ہی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ لاہور میں ان کا یہ قیام بہت مختصر رہا کیونکہ 1954میں کینیڈا کی میکگل یونیورسٹی (Mc Gill University )نے انھیں سینئیر ٹیچنگ فیلو مقرر کیا۔ بیرون ملک اس تعلیمی دورے کی دعوت کا اہتمام عالمی شہرت کے حامل ممتاز ماہر تعلیم اور دانش ور پروفیسر ولفرڈ کینٹ ول سمتھ(Prof.Wilfred Cantwell Smith )نے کیا۔ ٹورنٹو (کینیڈا )میں مقیم پروفیسر ولفرڈ کینٹ ول سمتھ (پیدائش : 21۔ جولائی 1916وفات : 7فروری 2000) تقابل ادیان کے موضوع پر ان کی علمی فضیلت کا ایک عالم معترف تھا۔ مذاہب عالم کے آغاز و ارتقا اور تقابل ادیان کے موضوع پر ڈاکٹر داؤد رہبر نے پروفیسر ولفرڈ کینٹ ول سمتھ کے خیالات سے بھرپور استفادہ کیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس موضوع پر ڈاکٹر داؤد رہبر کی مستقبل کی تحقیق کا آغاز یہیں سے ہو تا ہے۔ اس کے بعد حکومت پاکستان نے ڈاکٹر داؤد رہبر کو اردو اور مطالعہ پاکستان کی بیرون ملک چئیر کے لیے منتخب کیا اور ان کا تقرر انقرہ یو نیورسٹی (ترکی )میں کر دیا۔ ترکی میں اپنے قیام (1956-1959)کے دوران انھوں نے مختلف جامعات میں تقابل ادیان، اردو زبان کے ارتقا اور تہذیبی و ثقافتی موضوعات پر متعدد توسیعی لیکچرز دئیے جنھیں بے حد پذیرائی ملی۔ اپنی تدریسی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر داؤ د رہبر نے اپنی تعلیمی استعداد میں اضافے پر بھی اپنی توجہ مر کوز رکھی۔ وہ علم و ادب کے فروغ کے لیے ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں کونی کٹ (Connecticut) سے 1833میں روشنی کے عظیم الشان سفر کا آغاز کرنے والے اس عہد کے معروف تعلیمی ادارے ہارٹ فورڈ سیمینری فاؤنڈیشن (Hartford Seminary Foundation)میں اپنے لیکچرز کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اسی ادارے سے 1938میں ممتاز علمی، ادبی، ثقافتی اور تحقیقی مجلے دی مسلم ورلڈ (The Muslim World)نے اپنی با قاعدہ اشاعت کا آغاز کیا۔ یہ مجلہ دنیا کے پینسٹھ ممالک میں نہایت توجہ اور دلچسپی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ اس ادارے میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ آج کی کثیر المذاہب دنیا میں معاشرتی زندگی میں اخوت کی جہاں گیری اور محبت کی فراوانی ہی سے امن و سکون کی فضا پیدا کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنے توسیعی لیکچرز میں اس امر پر زور دیا کہ سماجی زندگی میں افراد کو باہمی محبت، خلوص، یک جہتی، تعاون اور انسانی ہمدردی کے جذبات کو رو بہ عمل لانا چاہیے۔ ابتدا میں اس ادارے میں ان کا تقر وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے ہو ا۔ اس کے بعد ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں ان کی خدمات پانچ سال (1962-1966)کے لیے حاصل کر لی گئیں۔ یہاں اپنے عرصۂ ملازمت کی تکمیل کے بعد ڈاکٹر داؤد رہبر کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ایک بڑی پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں تدریسی خدمات پر مامور کیا گیا۔ اس بار وہ یونیوررسٹی آ ف وسکانسن ماڈیسن (University of Wisconsin-Madison) میں دوسال کی مدت کے لیے ہندوستانی علوم کی تدریس کے لیے منتخب ہوئے۔ اس جامعہ کا موٹو ’’اللہ ہمارا نور ‘‘(God our Light)ہے۔ اسی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اقوام عالم نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے یقیناً وہی خدا ہے جو نظر بھی رکھتا ہے اور سماعتیں بھی، یہاں تک کہ وہ نیتوں کے حال سے بھی کامل آ گہی رکھتا ہے اور اسی قادر مطلق کی قدرت سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اللہ ہی وہ نور ہے جو زمینوں اور آسمانوں کو منور کرتا ہے۔ 1848میں قائم ہونے و الی نو سو چھتیس (936)ایکڑ پر پھیلی ہوئی اس یو نیورسٹی میں تینتالیس ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں جہاں مختلف علوم کے اکیس سو کے قریب ماہر اساتذہ ان کی تربیت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس جامعہ میں اپنے قیام کے دوران ڈاکٹر داؤد رہبر کو اپنی دلچسپی کے متعدد امور کے بارے میں وافر معلومات حاصل ہوئیں۔ خاص طور پر ہندوستانی مو سیقی کے بارے میں یہاں جو شعبہ قائم ہے اس کے ساتھ مستقل ربط اور با قاعدہ تعلیم اور مطالعہ کے اعجاز سے وہ کلاسیکی ہندوستانی مو سیقی کے بارے میں کئی اسرار و رموز سے آگاہ ہوئے۔ مستقبل میں ہندوستانی مو سیقی پر انھوں نے جو معرکہ آرا کام کیا اس کا آغاز یہیں سے ہوا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اپنے قیام کے دوران ڈاکٹر داؤد رہبر کو وہاں کے علمی و ادبی حلقوں کی جانب سے زبردست پذیرائی ملی۔ وہاں کی جامعات میں ان کے توسیعی لیکچرز کا سلسلہ جاری رہا۔ 1968میں ڈاکٹر داؤد رہبر نے 1939میں قائم ہونے والی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بو سٹن یو نیورسٹی (Boston University)میں تدریسی خد، مات کا آغاز کیا۔ یہاں وہ عربی زبان اور تقابل ادیان کی تدریس پر مامور تھے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں پرائیویٹ شعبے کی یہ بہت بڑی یو نیورسٹی ہے جس میں تینتیس ہزار (33000)طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں اور ان کی تربیت کے لیے تین ہزار آٹھ سو (3800)فیکلٹی ممبران سر گرم عمل ہیں جس طرح پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ سا ئنس دان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام گورنمنٹ کالج جھنگ کے فارغ التحصیل ہیں اسی طرح بو سٹن یو نیورسٹی کا اعزاز و امتیاز یہ ہے کہ اس جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے ولے سات دانشوروں نے مختلف شعبوں میں نوبل انعام حاصل کر کے اس جامعہ کو معزز و مفتخر کر دیا۔ بوسٹن یونیورسٹی (B.U) میں ان کی یہ ملازمت1991میں ان کی ریٹائر منٹ تک جاری رہی۔ بوسٹن یو نیورسٹی میں ان کی علمی فضیلت کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ ملازمت سے ریٹائر منٹ کے بعد ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنا زیادہ تر وقت فلوریڈا میں مطالعہ اور تصنیف و تالیف میں گزارا۔ ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
’’سلام و پیام ‘‘یہ کتاب سنگ میل پبلشرز، لاہور کے زیر اہتمام سال 1996میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں وہ تمام مکاتیب شامل ہیں جو ڈاکٹر داؤد رہبر کو ان کے احباب، قریبی ساتھیوں، مشاہرین اور معاصرین کی جانب سے موصول ہوئے۔ اس نوعیت کے مکاتیب پر مشتمل دو اور جلدیں بھی علی الترتیب سال 2004اور سال 2009میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منصۂ شہود پر آئیں۔ ان دلچسپ مکاتیب کے مطالعہ سے مشاہیر ادب کے انداز فکر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے خود جو مکاتیب اپنے معاصرین کو تحریر کیے انھیں بھی شائع کیا۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مرزا اسداللہ خان غالب کے خطوط کے بعد یہ ایک اہم کام ہے۔ ان خطوط میں ڈاکٹر داؤد رہبر نے غالب کے اسلوب کی پیروی کی ہے جو غالب کے ساتھ ان کی محبت کی دلیل ہے۔ ان میں سے متعدد خطوط ایسے ہیں جو اپنے عہد کی نامور تاریخی شخصیات کے بارے میں اہم حقائق کو سامنے لاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مولوی عبدالحق کے نام لکھے گئے مکاتیب قاری پر فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتے چلے جاتے ہیں۔
’’پرا گندہ طبع لوگ ‘‘اس کتاب میں ڈاکٹر داؤد رہبر کے لکھے ہوئے ممتاز شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔ اس کتاب کو سنگ میل پبلشرز، لاہور نے سال 2000 میں شائع کیا ان کی اہم کتاب ’’تسلیمات ‘‘جنوبی ایشیا میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے ارتقا کے بارے میں ہے اس کتاب کو سنگ میل پبلشرز، لاہور نے سال 2004 میں شائع۔ ’’کلیات ‘‘ڈاکٹر داؤد رہبر کی مکمل شاعری پر مشتمل ہے۔ ان کی شاعری کی کتاب ’’کلیات ‘‘سال 2001میں پاکستان پرنٹرز، کراچی کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ سات سو صفحات پر مشتمل یہ کلیات اس حساس تخلیق کار کے شعری تجربوں کی مظہر ہے۔ اس میں اپنے دل پر گزرنے ولے تمام موسموں کی مرقع نگاری اس فنی مہارت سے کی گئی ہے کہ جی چاہتا ہے لفظی مرقع نگاری کرنے والے اس با کما ل تخلیق کار کے ہاتھوں کی بلائیں لے لیں۔ جنوبی ایشیا کی مو سیقی کے موضوع پر ’’باتیں کچھ سریلی سی ‘‘یہ کتاب سال 2001میں شائع ہوئی اس کے علاوہ ’’نسخہ ہائے وفا ‘‘ بھی موسیقی کے بارے میں ہے۔ موسیقی کے ساتھ ڈاکٹر داؤد رہبر کا معتبر ربط چار عشروں پر محیط ہے۔ سر اور تال کے ساتھ اس سنگت پر وہ ہمیشہ مطمئن و مسرور رہتے۔ موسیقی کے ہر موضوع پر ڈاکٹر داؤد رہبر کی رائے کو ہمیشہ درجۂ استناد حاصل رہا۔ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر ایک مشاق مو سیقار چھپا ہوا تھا جو موزوں ترین موقع پر باہر آ کر اپنے فن کے جو ہر دکھاتا۔ ڈاکٹر داؤد رہبر کو طنبورہ (تان پورہ )بجانے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ طنبورہ ترچھا رکھنے کے بجائے اسے عمودی صورت میں تھام کر انگلی کے بجائے انگوٹھے سے طنبورے کے تار چھیڑتے تو یہ ساز زندگی کے ساز اور دلوں کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو جاتا۔ ان کی فنی مہارت اور موسیقی کے فن پر ان کے عبور کی وجہ سے سامعین پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔ وہ غزل بھی خود ہی چھیڑتے اور ساز بھی خود ہی بجاتے اور اس طرح نہایت بے تکلفی سے عمر رفتہ کو آواز دیتے۔ یہ مو سیقی ہی تھی جس نے ڈاکٹر داؤد رہبر میں یہ استعداد پیدا کر دی کہ وہ زندگی کی حقیقت سے آشنا ہو کر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے، مسائل زیست کو سمجھنے اور موج حوادث سے ہنستے کھیلتے ہوئے گزر جانے کا عزم کر لیتے تھے۔ خاص طور پر غم و آلام کے مسموم ماحول میں موسیقی دل کے تار ایسے چھیڑتی ہے جس سے پھوٹنے والے نغمے قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اترتے چلے جاتے ہیں اور سماعتوں پر اس کے ہمہ گیر اثرات مسلمہ ہیں۔ گیت اور نغمے، سر اور تال، آہنگ اور لے کے معجز نما اثر سے خود اعتمادی کا عنصر نمو پاتا ہے اور ہجوم غم میں دل کو سنبھالنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنے احباب، اپنی ذات بل کہ پوری کائنات کے ساتھ ربط کے لیے مو سیقی کی زبان کو ابلاغ کا ذریعہ بنایا۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں جب کہ ہوس نے نوع انساں کو بے حسی اور انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے، مو سیقی اور شاعری کے اعجاز سے دلوں کو مرکز مہر و وفا کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر کی زندگی میں کئی سخت مقام آئے لیکن ہر بار وہ مو سیقی اور شاعری کو زاد راہ بنا کر منزل تک پہنچنے میں کام یاب ہو گئے۔ ان کا خیال تھا کہ حالات کی زہر ناکی کا تریاق شاعری اور مو سیقی میں تلاش کرنا چاہیے۔ ان کی کتاب زیست کے ہر ورق پر موسیقی اور شاعری کے استحسان کے انمٹ نقوش ثبت ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قارئین ادب پر یہ حقیقت واضح ہو تی چلی جائے گی کہ فکر و عمل کو مہمیز کرنے میں شاعری کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اچھی اور عصری آگہی سے معمور شاعری کے وسیلے سے فہم و ادراک کی خداداد صلاحیتوں کو قارئین ادب کے شعور کا اہم حصہ بنا کر اصلاح کی ایک صورت سامنے لانے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے عالمی ادبیات کے مطالعہ سے اپنے مزاج میں ایک شان استغنا پیدا کر لی تھی۔ وہ اپنی مٹی سے محبت کرنے پر اصرار کرتے تھے۔ اردو زبان و ادب اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی سے ان کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ان کی پہچان بن گئی۔ جنوبی ایشیا کی موسیقی کے ارتقا پر ان کی تحقیق بہت اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔
ڈاکٹر داؤد رہبر نے مرز ااسداللہ خان غالب کے اردو زبان میں لکھے ہوئے مکاتیب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ یہ کتاب جو کہ چھے سو اٹھائیس(628) صفحات پر مشتمل ہے اسے سٹیٹ یونیورسٹی آ ف نیو یارک پریس نے 1987میں شائع کیا۔ ان کی معرکہ آرا تصنیف ’’ کلچر کے روحانی عناصر ‘‘ان کے تبحر علمی اور تفحص بیان کی شان دار مثال ہے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور تاریخ کے مسلسل عمل پر ان کی گہری نظر تھی۔ ’’کلچر کے روحانی عناصر‘‘ میں انھوں نے نہ صرف کلچر کے ارتقا پر عمومی نگاہ ڈالی ہے بل کہ اس کے پس پردہ کارفرما عوامل پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ہے۔ بر عظیم کے کلچر پر اسلا م، ہندو مت، بدھ مت اور چینی اثرات کے بارے میں وہ کھل کر لکھتے ہیں۔ ان سب کو الگ الگ ابواب میں زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس کتاب کا پانچواں باب مہاتما بدھ کے بارے میں ہے جس میں بدھ مت کے چین اور بر عظیم پر تہذیبی اور ثقافتی اثرات کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی سعی کی گئی ہے۔ اس کے بعد جو باب ہے اسے حاصل بحث کی حیثیت حاصل ہے۔ اپنے اختتامی کلمات میں ڈاکٹر داؤد رہبر نے مدلل انداز میں گفتگو کی ہے اور غیر جانب دارانہ انداز میں کلچر کے روحانی اندازا ور ان کے پس پردہ کار فرما عوامل کے بارے میں اپنی غیر جانب دارانہ رائے دی ہے۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے وہ سخت خلاف ہیں۔ کلچر کے روحانی عناصر کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ایک معاملہ فہم نقاد کی حیثیت سے ڈاکٹر داؤد رہبر نے تقلید کی روش سے بچتے ہوئے ایک نئے انداز میں افکار تازہ کی جستجو میں پورے انہماک کا ثبوت دیا ہے روحانیت کے بحر بے کراں کی غواصی کرنے والوں پر انھوں نے واضح کر دیا ہے کہ اگر کسی کو روحانی عناصر کے گہر ہائے آب دار کی جستجو ہے تو اسے یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ یہ روحانی عناصر کسی ایک مقام سے دستیاب ہونا بعید از قیاس ہے۔ کلچر کے روحانی عناصر کی خوشہ چینی کرنے والوں کو اپنے مقصد کے حصول کی خاطر اسلامی کلچر، ہندو کلچر، عیسائی کلچر اور بدھ کلچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جہاں یہ جلوہ گر دکھائی دیں گے۔
تاریخ، ادب، سوشیالوجی، علم بشریات اور مذاہب عالم کے اہم موضوعات پر ڈاکٹر داؤد رہبر کے خیا لات قارئین کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کے ما نند ہیں۔ ایک ہفت اختر شخصیت کی حیثیت سے ڈاکٹر داؤد رہبر نے جس موضوع پر بھی قلم تھام کر لکھنے کا قصد کیا ید بیضا کا معجزہ دکھایا اپنے عمل اور آہنگ سے انھوں نے یہ ثابت کر دیا کہ سنگ و خشت سے جہاں کبھی پیدا نہیں ہو سکتے بل کہ جہان تازہ کی نمود کی خاطر افکار تازہ کی تو نگری بے حد ضروری ہے اردو ادب اور فنون لطیفہ کی ترویج و اشاعت کے لیے انھوں نے مقدور بھر مساعی کیں۔ عملی زندگی میں قلم کی حرمت کو ملحوظ رکھنا، حریت ضمیر سے جینا اور حریت فکر کا علم بلند رکھنا ہمیشہ ان کا نصب العین رہا۔ اس وقت پوری دنیا میں ڈاکٹر داؤد رہبر سے اکتساب فیض کرنے والے لاکھوں طالب علم موجود ہیں جو ان کے نہ ہونے کی ہونی اپنی اشک بار آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر خلاقانہ دسترس رکھنے والے اس یگانۂ روزگار فاضل نے دونوں زبانوں کی ہر صنف ادب میں اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا۔
جب تک ان کی صحت بر قرار رہی علمی اور ادبی محافل میں شرکت کرنا ڈاکٹر داؤد رہبر کا معمول تھا۔ اگرچہ بیرون ملک مقیم ادیبوں سے ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ مسلسل اور باقاعدہ نہیں تھا لیکن یہ بے ترتیب تعلقات بھی اپنی دلکشی، جاذبیت، خلوص اور رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کے مظہر ہوتے تھے۔ افتخار نسیم کے ہاں ایک ادبی نشست میں ڈاکٹر داؤد رہبر بھی موجود تھے۔ کہیں بھی کوئی خوب صورت عکس اور منظر دیکھتے تو انھیں وطن اور اہل وطن کی تصویر دکھائی دیتی۔ اسی طرح کسی بھی موضوع پر گفتگو ہو رہی ہوتی وہ اپنی گل افشانیِ گفتار سے وطن اور اہل وطن کی بات کر کے تزکیہ نفس کی صورت تلاش کر لیتے۔ سمے کے سم کے ثمر نے انھیں نڈھال کر دیا تھا۔ وطن اور اہل وطن کے مسائل کے بارے میں گفتگو کے دوران ایک صاحب نے بیرون ملک کام کرنے والے لوگوں کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے نامور شاعر حفیظ جون پوری کا یہ شعر پڑھا تو حاضرین نے بڑی توجہ سے یہ شعر سنا اور سب پر رقت طاری ہو گئی :
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
اس کے بعد افتخار نسیم نے جب موقع کی مناسبت سے اپنا یہ شعر پڑھا تو سب حاضرین نے پر نم آنکھوں سے داد دی۔ ڈاکٹر داؤد رہبر کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں اور افتخار نسیم نے حاضرین کی فرمائش پر کئی بار یہ شعر پڑھا :
اداس بام کھلا در پکارتا ہے مجھے
جلا وطن ہوں مرا گھر پکارتا ہے مجھے
ڈاکٹر داؤد رہبر کے اسلوب کا مطالعہ کرنے والے ادب کے طالب علم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ڈاکٹر داؤد رہبر ایک آزاد منش سیلانی تخلیق کار ہیں جو اپنی آزاد مرضی سے جس صنف ادب میں چاہیں قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہو جاتے ہیں۔ نشیب زینۂ ایام پر عصا رکھتے ہوئے وہ وہ اپنے تخلیقی سفر پر زندگی بھر رواں دواں رہے۔ اردو نثر میں ان کے اسلوب کے چند نمونے پیش ہیں :
سب سے پہلے اسلامی کلچر کی تشکیل کے بارے میں ڈاکٹر داؤد رہبر کی گل افشانیِ گفتار کا عالم دیکھیے ’’اسلامی کلچر کی معجون کا نسخہ اگر کوئی حکیم لکھے تو اس میں تین اجزا کا شامل کرنا ضروری ہو گا۔ ایک تولہ تسنن، ایک تولہ تشیع اور ایک تولہ تصوف۔ تینوں اجزا اس میں پڑیں تو مفر ح معجون بنے ‘‘ کلچر کی تفہیم کے سلسلے میں ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنے مخصوص انداز میں لکھا ہے : ’’فنون لطیفہ اپنی جگہ سہی، لیکن کلچر زندگی کی ہانڈی پکانے کی ترکیب کا نام ہے۔ کلچر کی ہانڈی کا ایک خاص مسالہ ملت کا حافظہ ہے جس میں اس سارے زمانے کی گونج ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر داؤد رہبر کا خیال ہے کہ کلچر جسمانی غذا اور روحانی غذا سے نمو پاتا ہے۔ یہ دونوں غذائیں کیسے حاصل کی جا سکتی ہیں ؟اس کے بارے میں ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنے شگفتہ انداز میں جو کچھ بتایا ہے وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے:
’’جسمانی غذا کے لیے ہم ناشپاتی درخت سے توڑ کر کھائیں گے، پیاس بجھانے کو تربوز کا رس نچوڑ کر پئیں گے۔‘‘
’’روحانی غذا ہم کو پالتو بلی کی خر خر سے ملے گی یا لہلہاتی ہوئی گھاس کے منظر سے۔ اڑتی چڑیا کو دیکھ کر ہمارا باطن مسکراتا ہے۔ قیس عامری مجنوں نہ ہوتا اگر دشت نہ ہوتا۔ سند باد جہازی کے لیے سمندر لازم ہوا۔ ‘‘ ڈاکٹر داؤد رہبر نے ہندو کلچر کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ہندو کلچر کی ساری فضا دیو مالا کی چہل پہل سے معمور ہے۔ ایسی سوسائٹی جو دیو مالا سے منہ موڑے ہندو عوام کے مزاج کی سوسائٹی نہ ہو گی۔ ‘‘
( اوپر دئیے گئے ڈاکٹر داؤد رہبر کے نثر پاروں کا ثانوی ماخذ درج ذیل ہے )(3)
ایام گزشتہ کی کتاب کا مطالعہ ہر شخص کو مرغوب ہوتا ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنی تحریروں میں بیتیِ لمحوں کی چاپ کی جس درد مندی سے لفظی مرقع نگاری کی ہے اسے پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ ناسٹلجیا کے احساس نے اس زیرک تخلیق کار کے فکر و خیال پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کے با وجود انھوں نے ہر مقام پر اپنی انفرادیت کو بر قرار رکھا ہے۔ د نیا نے تجربات و حوادث کے روپ میں جو کچھ انھیں دیا اسے انھوں نے پوری دیانت سے الفاظ کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا۔ ایام گزشتہ کے واقعات کو عہد حاضر کے حالات کے ساتھ مربوط کر کے پیش کرنا اور اس طرح عصری آ گہی کو پروان چڑھانے کی سعی کرنا ان کے اسلوب کا اہم وصف ہے۔ ٖ اپنی عملی زندگی میں ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنے عہد کے جن عظیم انسانوں سے اکتساب فیض کیا ان میں مولوی عبدالحق، مولوی محمد شفیع اور مولانا صلاح الدین احمد کے نام قابل ذکر ہیں۔ علم و ادب کے یہ آفتاب و ماہتاب ایک عالم کو اپنی تابانیوں سے بقعۂ نور کرنے کے بعد عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر داؤد رہبر کی تحریروں اور تخلیقات میں جہاں بھی ان نابغۂ روزگار ہستیوں کا ذکر آتا ہے ن کی عقیدت صاف دکھائی دیتی ہے۔
اپنی تحریروں میں ڈاکٹر داؤد رہبر نے ایام گزشتہ کے واقعات پر پڑ جانے والی ابلق ایام کے سموں کی گرد کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاریخ کے طوماروں میں دبے تلخ حقائق کی جستجو میں انھوں نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔ انھوں نے توہم پرستی کے تار عنکبوت کو ہٹا کر حقائق کی گرہ کشائی پر توجہ مر کوز کر دی۔ ان کی خواہش تھی کہ ہمارے تخلیق کار تاریخی شعور کو رو بہ عمل لاتے ہوئے ماضی کے واقعات کے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس قسم کی سوچ سے ہر قسم کی عصبیت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں مدد ملتی ہے ور اس کے معجز نما اثر سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ ادب اور کلچر کے حوالے سے ان کی سوچ کا اہم پہلو یہ تھا کہ اقوام عالم کی تاریخ کے مختلف ادوار میں تہذیب و ثقافت اور معاشرتی اقدار و روایات کے ارتقائی مدارج کے متعلق حقیقی شعور کو پروان چڑھایا جائے۔ ہلاکت آفرینی کے موجودہ زمانے میں ایک حساس تخلیق کار کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ زندگی کو درپیش مسائل کا درد مندی اور خلوص سے تجزیہ کرے اور مایوسی کا قلع قمع کر کے طلوع صبح بہاراں کی نوید سنائے۔ اردو نثر ہو یا شاعری ہر صنف ادب میں جس بے تکلفی کے ساتھ انھوں نے اپنے جذبات، احساسات، تجربات اور مشاہدات کو پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے وہ انھیں ایک صاحب طرز ادیب کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ ان کے اسلوب کی نمایاں خوبی عصری آگہی ہے۔
ڈاکٹر داؤد رہبر کے اسلوب میں جہاں ماضی کے واقعات کا پرتو دکھائی دیتا ہے وہاں زمانۂ حال کے تمام اہم واقعات اور مستقبل کے امکانات کی ایک جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ مستقبل کے بارے میں آئینۂ ایام کی جو ہلکی سی تصو یر ان کی تحریروں میں دکھائی گئی ہے، وہ جہد و عمل کی راہ دکھاتی ہے۔ زندگی کی اقدار عالیہ میں سے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو ڈاکٹر داؤد رہبر نے ایک اہم قدر سے تعبیر کیا۔ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کرنے والے درندے قابل نفرت ہیں۔ جب کسی معاشرے میں شقاوت آمیز نا انصافیاں اس قدر بڑھ جائیں کہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا تصور خیال و خواب بن کر رہ جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ معاشرہ بے حسی کا شکار ہے اور یہ لرزہ خیز، اعصاب شکن اور الم ناک کیفیت کسی بھی قوم کے لیے بہت برا شگون ہے۔
تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔ اس عالم آب و گل میں ہر نفس فنا کی زد میں ہے اور بقا صرف رب ذوالجلال والاکرام کو حاصل ہے۔ اس کے باوجود ہم دائمی مفارقت دے جانے والوں کے غم میں اپنے جذبات حزیں کا اظہار کر کے اپنے دلوں کو ان کی یادوں سے آباد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو لوگ راہ جہاں سے گزر جاتے ہیں ہم ان کی خوبیوں کو یاد کر کے ان کے حضور اپنے آنسو ؤں اور آہوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر داؤد رہبر جیسے علم دوست تخلیق کار لوح جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیتے ہیں اور اندھیروں کی دسترس سے دور روشنی کے ما نند ہمیشہ اجالوں کو ہر سو پھیلانے کا سفر جاری رکھتے ہیں۔ جس جادہ سے ہمارے رفتگاں کی یادیں وابستہ ہیں اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی ذات میں سمٹے ہوئے اس تخلیق کار کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس کے افکار میں سمندر کی سی بے کراں وسعت پائی جاتی تھی۔ اس دنیا کی سرائے سے جو بھی نکلے پھر کبھی نہ پلٹے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر اب اس دنیا میں نہیں رہے، اب تو ان سے وابستہ یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ رستہ دکھانے والا یہ ستارہ اب غروب ہو چکا ہے۔ اب دنیا میں ایسے لوگ کم یاب نہیں بل کہ نایاب ہیں۔ فرشتۂ اجل نے اس تخلیق کار سے قلم چھین لیا جس نے گزشتہ چھے عشروں سے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کو شعار بنا رکھا تھا۔ زندگی کا یہی انجام ہے جسے دیکھ کر لفظ ہونٹوں پر پتھرا گئے ہیں اور سب محو حیرت ہیں کہ زندگی کا ساز بھی کیسا عجب ساز ہے جو مسلسل بج رہا ہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اپنی انگلیوں سے ستار پر ساز بجانے والے اس دردمند مو سیقار کی زندگی کے تار فرشتہ اجل نے اس طرح توڑے کہ اب سکوت مرگ طاری ہے اور کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں سبھی آ خر
حاصل سیر جہاں کچھ نہیں حیرانی ہے
٭٭
مآخذ
(1)پاکستان پوسٹ، نیویارک، امریکہ، شمارہ 1072، Vol #1، 10۔ اکتوبر تا 16۔ اکتوبر 2013، صفحہ 1۔
(2)تنویر پھول : تاریخ وفات ڈاکٹر داؤد رہبر، مشمولہ اردو نیٹ جاپان، 22۔ اکتوبر 2013۔
(3) بہ حوالہ انتظار حسین : بندگی نامہ، کالم ’’ایک روشن دماغ تھا نہ رہا ‘‘مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، لاہور، 11۔ اکتوبر 2013، صفحہ 12۔
٭٭٭
ڈاکٹر فرمان فتح پوری : فصیل دل کے کلس پر ستارہ جو تیرا غم
عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیب، دانش ور، محقق، نقاد، ماہر تعلیم، ماہر لسانیات سوانح نگار، لغت نویس، ادبی مورخ، ماہر اقبالیات، ماہر غالبیات، اور ماہر علم بشریات ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے 3۔ اگست2013 کی صبح کو عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان علم و ادب تھے۔ انھوں نے ہمیں قاموس و لغت سے بے نیاز کر دیا وہ خود علم و ادب، تاریخ و فلسفے اور علوم و فنون کا ایک دائرۃ المعارف تھے۔ ان کی وفات ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل سوگوار ہے۔ ان کی الم ناک وفات سے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کی مساعی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت اردو زبان کے علمی و ادبی حلقے سکتے کے عالم میں ہیں۔ ان کی دائمی مفارقت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا ٍ۔ زمانہ لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتا چلا جائے اب ایسے با کمال لوگ دنیا میں کبھی نہیں آئیں گے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اردو زبان و ادب کے ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹی کراچی یونیورسٹی کے شہر خموشاں میں زمیں بوس ہو گئی ہے۔ اردو ادب کی ایک دبنگ آواز اور بے خوف صدا ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ہے۔ ایک جامع صفات ہشت پہلو شخصیت اور عظیم انسان اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہا۔ رمز لا تخف کا عملی پیکر رخصت ہو گیا۔ حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ شبیرؓ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے والا حریت فکر کا مجاہد عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ جبر کا ہر انداز مسترد کر کے لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھنے والے اس زیرک، فعال، مستعد اور جری تخلیق کار کی رحلت کی خبر سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے فرشتۂ اجل نے اس نابغۂ روزگار ادیب کے ہاتھ سے قلم چھین لیا جس نے پچاس وقیع تصانیف، پانچ سو تحقیقی و تنقیدی مقالات، چھے سو کتب پر تبصرے، ایک سو کتب کے دیباچے اور مقدمے ایک ہزار مطبوعہ مکاتیب اور چار سو سے زائد ادبی مجلہ ماہ نامہ نگار کے مطبوعہ اداریے لکھ کر علم و ادب کی خدمت کی۔ کیسے کیسے آسمان اس زمین نے اپنے دامن میں چھپا لیے ہیں۔ راہ جہاں سے گزر جانے والے اس عظیم انسان نے فروغ علم و ادب، تہذیبی اور ثقافتی سطح پر جو گراں قدر خدمات انجام دیں اور قومی تشخص کو اجاگر کرنے میں جو اہم کردار ادا کیا وہ تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھا جائے گا۔ ان کا عظیم نام اندھیروں کی دسترس سے دور روشنی کے مانند سدا قارئین ادب کے لیے خضر راہ ثابت ہو گا۔ اب تو ان کی یادیں ہی زندگی کا اثاثہ ہیں۔ ان کے نقش قدم کو دیکھ کر آنے والی نسلیں اپنی منزل کا تعین کرے گی۔ ان کی آواز لمحے نہیں صدیاں سنیں گی اس لیے ان کی آواز جو قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے اسے محفوظ رکھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
فرمان فتح پوری کا اصل نام سید دلدار علی تھا۔ وہ 26۔ جنوری 1926کو فتح پور سہوہ، یو پی، بھارت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید عاشق علی بن سید عمر علی اس علا قے کے ممتاز عالم تھے۔ اپنے علم و فضل وار زہد و تقویٰ کی وجہ سے ان کی بہت عزت و تکریم کی جاتی تھی۔ فرمان فتح پوری کی والدہ سیدہ عزیز النسا بنت حافظ سید مقصود علی ایک عبادت گزار، نیک دل اور پرہیز گار خاتون تھیں۔ انھوں نے اپنے گھر میں علوم دین کی تدریس کا اہتمام کر رکھا تھا۔ پورے علاقے کے بچے اور بچیاں اس سر چشمۂ فیض سے سیراب ہوتیں۔ 1933میں فرمان فتح پوری کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی والدہ نے انتہائی نا مساعد حالات میں بھی اپنے لخت جگر کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اپنے آبائی قصبے فتح پور سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ الٰہ آباد پہنچے جہاں سے انھوں نے انٹر میڈیٹ کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ اس کے بعد انھوں نے 1950میں آگرہ یو نیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1950کے اواخر میں انھوں نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا اور اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی پہنچے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جامعہ کراچی سے انھوں نے جو امتحانات پاس کیے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے :
ایل ایل بی 1953، بی ٹی 1955، ایم۔ اے اردو 1958، پی ایچ۔ ڈی (اردو)موضوع : اردو کی منظوم داستانیں 1964، ڈی لٹ : موضوع : اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری 1974۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اردو میں ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے وہ پہلے پاکستانی ہیں۔ یہ ان کا وہ اعزاز و امتیاز ہے جس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔
اپنی عملی زندگی میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے جس مستعدی اور ذمہ داری کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انھوں نے ایک کامیاب اور بھرپور زندگی گزاری۔ انھیں جو بھی ذمہ داری تفویض کی گئی اس سے عہدہ بر آ ہونے میں انھوں نے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ وہ جہاں بھی رہے خوب سے خوب تر کی جانب ان کا سفر جاری رہا۔ ان کی سیرت و کردار میں جو حسن و جمال موجود تھا اس کے پس پردہ ان کی علمی فیاضی تھی۔ وہ طالبان علم کی علمی اعانت کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ وہ سب سے بے لوث محبت کے قائل تھے۔ در اصل وہ محبت کے وسیلے سے اپنی علم دوستی اور ادب پروری کو فروغ دینے کے آرزو مند تھے۔ اپنے فرائض منصبی کی تکمیل میں وہ کسی رکاوٹ کی پروا نہ کرتے اور جب تک ان کی زندگی رہی وہ پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی میں کن اداروں میں خدمات انجام دیں اور ان کی زندگی کے شب و روز کیسے گزرے ان کا مختصر احوال درج ذیل ہے :
تدریسی خدمات جامعہ کراچی 1958 سے تا حیات، پاکستان کی ممتاز جامعات کے بورڈ آف سٹڈیز کی رکنیت 1958سے تا حیات، مدیر ماہ نامہ ’’نگار پاکستان‘‘ کراچی 1962سے تا حیات، اعلا و ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کی رکنیت، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، ادارہ یادگار غالب، اردو سائنس بورڈ، لاہور، اقبال اکیڈمی، لاہور، پاکستان رائٹرز گلڈ، قومی اعزازات کے لیے بنائی گئی کمیٹیوں کے رکن، مزار قائد اعظم کمیٹی کے رکن، دنیا کی ممتاز جامعات میں ایم۔ اے، ایم۔ فل اور پی ایچ۔ ڈی کے رہنما اور ممتحن(تین سو سے زائد طلبا و طالبات نے ان کی نگرانی میں اردو زبان و ادب میں ایم فل اور پی ایچ۔ ڈی کے اپنے تحقیقی مقالات مکمل کیے اور متعلقہ جامعات سے ڈگریاں حاصل کیں، فنی اصطلاحات کمیٹی کے رکن، قومی نصاب کمیٹی کے رکن، وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ماہر مضمون اور ممتحن، انھوں نے متعدد بار قومی اور بین الاقوامی کا نفرنسوں میں شرکت کی اور اردو زبان کے فروغ کی مساعی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، فتح پور ایجو کیشنل سوسائٹی کے بانی رکن، صدر و جنرل سیکرٹری، دنیا کی مختلف جامعات میں اردو زبان کے بارے میں توسیعی لیکچرز، رکن سندھ سول سروسز بورڈ 1996میں مقرر ہوئے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اردو ڈکشنری بورڈ کے سیکرٹری اور چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کا ایک عالم معترف ہے۔ 1985میں جب انھوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت اردو ڈکشنری کی چھے جلدیں مکمل ہو چکی تھیں۔ ان جلدوں کی تکمیل ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی نگرانی میں ہوئی۔ ااس شعبے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نو وارد تھے لیکن اس کے با وجود انھوں نے عزم و ہمت سے کام لیا اور اردو ڈکشنری کے کام کو تپاک جاں سے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی مقدور بھر سعی کی۔ جہاں تک ذخیرۂ الفاظ کا تعلق ہے انگریزی کے بعد اردو کا دوسرا نمبر ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اردو ڈکشنری کو مرتب کرتے وقت آکسفورڈ ڈکشنری کے اسلوب کو پیش نظر رکھا۔ ماہرین لسانیات کی متفقہ رائے ہے کہ آکسفورڈ ڈکشنری کو دنیا کی تمام زبانوں کی ڈکشنریوں میں معیار اور ثقاہت کے لحاظ سے اولیت کا اعزاز حاصل ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اردو ڈکشنری کو جس محنت، لگن اور فرض شناسی سے مرتب کیا اس کے اعجاز سے اس کی بائیس سے زائد جلدیں مکمل ہوئیں اور ان کو پوری دنیا میں بے حد پذیرائی نصیب ہوئی۔ انگریزی زبان کے بعد دنیا کی کسی زبان میں لسانیات پر اس قدر وقیع اور جامع کام منظر عام پر اب تک نہیں آ سکا۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے بعد اردو ڈکشنری کا مقام ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا یہ کارنامہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ اس کی بدولت اردو زبان کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میں منفرد اور ممتاز مقام نصیب ہوا۔ اب تک انھوں نے اردو ڈکشنری میں تین لاکھ سے زائد الفاظ کو شامل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اردو زبان کا ذخیرہ الفاظ انگریزی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری پاکستان کی تہذیبی، ثقافتی، تاریخی، لسانی اور قومی اقدار و روایات کے ترجمان تھے۔ انھوں نے پوری دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ اردو زبان کی وقعت، ہمہ گیری اور اظہار و ابلاغ پر قدرت دنیا کی دوسری زبانوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اردو ڈکشنری کو مرتب کرتے وقت ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے جس تدبر، فہم و فراست، تحقیق و تنقید، وسیع مطالعہ اور احتیاط سے کام لیا اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے اپنے رفقائے کار پر واضح کر دیا کہ امیر خسرو سے لے کر لمحۂ موجود تک اردو زبان کے تمام تخلیق کاروں کی تصانیف کا عمیق مطالعہ کیا جائے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ انھوں نے اپنی تصانیف میں اپنے ما فی الضمیر کے اظہار و ابلاغ کے لیے کن الفاظ کو کس انداز اور کس مقصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس طرح الفاظ کے حقیقی مفہوم تک رسائی کو یقینی بنایا گیا۔ انھوں نے اس ڈکشنری کی تیاری میں پہلے سے موجود دوسری ڈکشنریوں کی نقالی نہیں کی بل کہ تقلید کی مہلک روش سے دامن بچاتے ہوئے افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہان تازہ کی جانب اپنا سفر جاری رکھا ایک ماہر لسانیات کی حیثیت سے انھوں نے اردو زبان کو عصر ی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر پوری توجہ دی۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ اردو زبان کو غیر مانوس قدیم الفاظ سے نجات دلا کر اس کا دامن نئے اور قابل فہم الفاظ سے بھر دیا جائے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اردو زبان مختلف زبانوں کے باہمی میل ملاپ سے وجود میں آئی ہے اس لیے اس میں دنیا کی دوسری زبانوں کے الفاظ کا شامل ہونا ایک قابل فہم بات ہے۔ جن الفاظ کا کوئی متبادل اردو میں موجود نہیں انھیں من و عن اردو میں شامل کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ مثال کے طور پر ’’کالج ‘‘کا کوئی متبادل اردو میں موجود نہیں اس لیے یہ لفظ اب اردو میں مانوس سا لگتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے واضح کر دیا کہ لسانی تغیرات کی موجودہ صورت حال میں اردو زبان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ طرز کہن پر اڑنے کے بجائے آئین نو پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے۔
اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنی پوری زندگی وقف کر رکھی تھی۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ پاکستان کی قومی زبان کو اس کا جائز مقام دینے کے سلسلے میں مقتدر حلقوں کی جانب سے سنجیدہ کوششوں کا فقدان رہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اردو پاکستان کے طول و عرض میں کثرت سے بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اردو دنیا کی دوسری یا تیسری اہم اور بڑی زبان ہے۔ پاکستان میں کوئی شخص ایسا نہیں جسے اردو بولنے یا سمجھنے میں کسی دشواری کا سا منا کرنا پڑے۔ اس کے باوجود بیوروکریسی کے فرامین ہوں یا عدالتی فیصلے سب کے سب انگریزی زبان میں لکھے جاتے ہیں۔ اس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اردو میں ظہار و ابلاغ کی استعداد نہیں۔ اس بات پر وہ اکثر دلی رنج کا اظہار کرتے تھے۔
جامعہ کراچی میں پروفیسر امریطس کی حیثیت سے ان کی خدمات اس عظیم مادر علمی کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔ ہر ملنے والے کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے پیش آنا ان کا معمول تھا۔ بر صغیر پاک و ہند میں 1857کے بعد سر سید احمد خان اور ان کے نامور رفقائے کار نے علی گڑھ تحریک کے ذریعے ایک نئے طرز فکر کے اعجاز سے نہ صرف جمود کا خاتمہ کیا بل کہ حالات کی کایا پلٹ دی۔ فروغ علم و ادب کے حوالے سے وہ سرسید احمد خان، مرزا اسداللہ خان غالب، میر ببر علی انیس اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھوں نے اپنے تجزیاتی مقالات میں ان نابغۂ روزگار ہستیوں کے افکار کی تشریح و توضیح کو اپنا نصب العین بنایا۔ مسائل ادب پر با لعموم اور ان ہستیوں کے افکار پر بالخصوص ان کی تحریروں کو درجۂ استناد حاصل تھا۔ مرزا اسداللہ خان غالب کی شخصیت اور فن پر ان کی پانچ وقیع تصانیف شائع ہو چکی ہیں جنھیں علمی و ادبی حلقوں میں زبر دست پذیرائی نصیب ہوئی۔ مرزا اسداللہ خان غالب کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی کا ذکر کرتے وقت وہ حکیم الامت علامہ اقبال کے یہ اشعار ضرور پڑھتے :
فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا
تھا سراپا روح تو، بزم سخن پیکر ترا
زیب محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے پاکستان کی تہذیب و ثقافت اور اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے انتھک جد وجہد کی۔ اردو زبان و ادب اور اردو لسانیات کی ترقی کو وہ اپنا فرض اولین سمجھتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ تعمیری انداز فکر اپنایا انھیں کسی کی عیب جوئی سے کوئی غرض نہ تھی۔ وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے کہ لوگوں کو اس قسم کی لا حا صل سرگرمی سے کیا حاصل ہوتا ہے اوراس کے لیے وہ وقت کیسے نکال لیتے ہیں ؟۔ زمانہ طالب علمی ہی سے انھیں اپنے گھر میں جو علمی و ادبی ماحول میسر آیا اس نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کیا۔ وہ با قاعدگی سے نماز ادا کرتے۔ تہجد کے وقت جاگتے اور تلاوت قرآن حکیم مع ترجمہ و تفسیر پڑھنا ان کا معمول تھا۔ ان کے پاس فارغ وقت کوئی نہیں تھا۔ انھیں جو بھی وقت میسر آتا وہ تصنیف و تالیف اور مطالعہ میں گزرتا۔ یہی ان کی مصروفیت تھی اور یہی ان کا سلسلۂ روز و شب تھا۔ جو لوگ بے کار بیٹھے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے خوابوں کی خیاباں سازیوں، ہوا میں گرہ لگانے اور بے پر کی اڑانے میں مصروف رہتے ہیں ان کے طرز عمل پر وہ تعجب کا اظہار کرتے اور سوچتے کہ جو لوگ وقت کو ضائع کرتے ہیں در اصل وہ اپنی تخریب کے خود ذمہ دار ہیں۔ ان کی کور مغزی اور بے بصری کے باعث وقت انھیں ضائع کر دیتا ہے۔
شاعری سے ان کی دلچسپی بچپن ہی سے تھی۔ اللہ کریم نے اعلا ذوق شاعری سے متمتع کیا تھا۔ وہ خود بھی شاعر تھے اور ان کی شاعری میں اپنے وطن، اہل وطن، سماج اور معاشرے کے مسائل کی عکاسی ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایک سچے شاعر کا اپنے سماج اور معاشرے سے تشخص ہی اسے عزت و وقار عطا کر سکتا ہے۔ وہ تاریخ اور فطرت کے غیر مختتم عمل پر نظر رکھتے تھے۔ ان کی شاعری میں سچے جذبات کی ترجمانی ملتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کے جملہ نشیب و فراز اور تمام موسم ان کے فکر و خیال پر جس طرح اثر انداز ہوئے انھیں پیرایۂ اظہار عطا کرنے میں انھوں نے پورے خلوص سے کام لیا ہے۔ ان کے چند منتخب اشعار پیش خدمت ہیں ان میں ایک دردمند تخلیق کار کے جذبات، احساسات، تجربات اور مشاہدات جس خلوص کے ساتھ جلوہ گر ہیں وہ قاری کو ادراک اور وجدان کی حسین و دلکش فضا میں لے جاتے ہیں۔
طبیعت انجمن کے نام سے گھبرائی جاتی ہے
کسی کی یاد وہ ظالم کہ پیہم آئی جاتی ہے
نشیمن پھونکنے والو !چمن کو پھونک دینا تھا
ابھی امید تعمیر نشیمن پائی جاتی ہے
ہ میں شکوہ سنج قسمت نہ میں شاکیِ زمانہ
مجھے غم کے پاس لایا مرا شوق والہانہ
وہی ایک جذب صادق وہی ایک عزم کامل
جو قفس کی تیلیوں سے بھی بنا لے آشیانہ
وہ دن بھی یاد ہیں جب ہچکیاں لے لے کے روتے تھے
مگر رہ رہ کے اب اکثر ہنسی معلوم ہوتی ہے
خدا نا خواستہ فرمان کی دنیا سے رخصت ہے
شباہت خاں کی آنکھوں میں نمی معلوم ہوتی ہے
(شباہت خاں کے ساتھ فرمان فتح پوری کا قلبی لگاؤ تھا اور وہ ان کے محرم راز اور ہمدم دیرینہ تھے۔ اپنے بچپن کے اس ساتھی کے بارے میں انھوں نے ہمیشہ اچھی رائے ظاہر کی )
ڈاکٹر فرما ن فتح پوری نے تصنیف و تالیف کے ذریعے قارئین ادب کے احساس و ادراک کو اس طرح مہمیز کیا کے ان کے معجز نما اثر سے ان کی فکر پرور اور بصیرت افروز باتیں قارئین کے شعور پر دوررس اثرات مرتب کرتی ہیں۔ جب وہ قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتے ہیں تو وہ اپنے اشہب قلم کی جولانیوں سے ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہیں۔ ان کے پیش نظر ہمیشہ یہ بات رہی کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے قارئین ادب کے خیالات، جذبات و احسات کی تہذیب و تزکیہ اس انداز سے کریں کہ اس کے وسیلے سے معاشرتی زندگی کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھ سکے اور اس طرح مجموعی طور پر عصری آگہی کی نمو کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان کی تصنیف میں زندگی کی اقدار عالیہ، درخشاں روایات اور تخیل کی جو سطح فائقہ دکھائی دیتی ہے وہ انھیں اپنے معاصرین میں ایک ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ ان کی تصانیف اپنے موضوعات کا مکمل احاطہ کرتی ہیں اور اپنے دامن میں مقصدیت کے لا محدود خزانے سموئے ہوئے ہوتی ہیں۔ انھوں نے پاکستانی قوم کے عمومی مزاج اور قومی کردار کی نمو کے لیے جو فقید المثال جدو جہد کی ہے وہ ان کی تصانیف میں نمایاں ہے۔ ان کی جملہ تصانیف میں انسانی ہمدردی، حب الوطنی، قومی دردمندی اور خلوص کے جذبات رچ بس گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تصانیف کو پاکستانی ادبیات کی حقیقی ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ ان کی وقیع تصانیف اور قومی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں 1985میں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ ان کی یہ تمام تصانیف روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہیں۔ قارئین ادب کے ساتھ انھوں نے درد کا جو رشتہ استور اکر رکھا تھا اسے عمر بھر نبھا یا۔ قارئین ادب نے ان کی تصانیف کو جو شرف پذیرائی بخشا وہ ان کے ذوق سلیم کا مظہر ہے۔ اردو زبان وا دب کا ہر سنجیدہ قاری اس بات سے اتفاق کرے گا کہ تخلیق فن کے لمحوں میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری خون بن کر رگ سنگ میں اتر جانے کی صلاحیت سے متمتع تھے۔ تصنیف و تالیف میں ان کی کامرانیوں نے انھیں پوری دنیا میں بلند مقام عطا کیا۔ ان کی تصانیف کی بے پناہ مقبولیت نے انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں اعلا منصب پر فائز کیا۔ ان کا اسلوب سماجی زندگی سے منسلک ہے اور اس میں انسانی زندگی کے جملہ نشیب و فراز، تاریخی اور معاشرتی ارتعاشات، تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں قارئین ادب کو حقیقی آگہی نصیب ہوتی ہے۔ ڈاکٹر فرما ن فتح پوری نے اپنی تصنیف و تالیف کے ذریعے ہر مکتبۂ فکر کے قارئین کو متاثر کیا اور ہر جگہ اپنی مقبولیت کا لوہا منوایا۔ انھوں نے جو کچھ لکھا وہ پوری ذمہ داری اور دیانت داری سے لکھا یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب کی ندرت، موضوعات کی صداقت اور اظہار و ابلاغ کی ہمہ گیری اور وسیع مطالعہ کی اساس پر کیے جانے والے تجزیات کی بنا پر ان کی ہر بات کو پوری دنیا میں مستند سمجھا جاتا ہے۔ ان کی تصانیف نے قارئین ادب کے فکر و خیال کو وسعت دی اور ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت سے آشنا کیا۔ ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
1۔ اردو رباعی کا فنی اور تاریخی ارتقا، کراچی، لاہور 1962،
2۔ تحقیق و تنقید، کراچی، دہلی 1962،
3۔ تدریس اردو، اسلام آباد 1962،
4۔ مولانا جوہر حیات اور کارنامے، لاہور، 1962،
5۔ غالب شاعر امروز و فردا، لاہور 1969،
6۔ اردو کی منظوم داستانیں، کراچی 1970،
7۔ نواب مرزا شوق کی مثنویاں، لاہور، 1972،
8۔ دریائے عشق اور بحر المحبت کا تقابلی جائزہ، لاہور، 1972،
9۔ اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری، کراچی۔ لاہور، 1972،
10۔ زبان اور اردو زبان، کراچی۔ لاہور 1973،
11۔ اردو کی نعتیہ شاعری، کراچی۔ لاہور 1973،
12۔ نیا اور پرانا ادب، کراچی 1974،
13۔ قمر زمانی بیگم کراچی۔ لاہور 1974،
14۔ ارمغان گوگل پرشاد، کراچی 1975،
15۔ میر انیس حیات اور شاعری، کراچی 1976،
16۔ ڈاکٹر محمود حسین : شخصیت اور کارنامے، لاہور 1976،
17۔ ہندی اردو تنازع، کراچی۔ اسلام آباد، 1976،
18۔ قائد اعظم اور تحریک پاکستان، لاہور، 1976،
19۔ اردو املا اور رسم الخط، کراچی، لاہور 1977،
20۔ اقبال سب کے لیے، کراچی، دہلی 1977،
21۔ اردو افسانہ اور افسانہ نگار، کراچی، دہلی 1982،
22۔ خطبات محمود، لاہور، 1983،
23۔ دید و باز دید (سفرنامہ )، ملتان، 1983،
24۔ فن تاریخ گوئی اور اس کی روایت، کراچی، لاہور، 1984
،25۔ تاویل و تعبیر، لاہور، 1984،
26۔ نیاز فتح پوری شخصیت اور فن، کراچی، 1986،
27۔ اردو کی ظریفانہ شاعری، لاہور، دہلی، 1987،
28۔ اردو کا افسانوی ادب، ملتان، دہلی 1988،
29۔ نیاز فتح پوری دیدہ و شنیدہ، لاہور، 1989،
30۔ اردو املا اور قواعد، اسلام آباد، 1990،
31۔ اردو شاعری اور پاکستانی معاشرہ، کراچی، 1990،
32۔ اردو کی بہتر مثنویاں، لاہور، 1993،
33۔ ادبیات و شخصیات، لاہور، 1993،
34۔ اردو نثر کا فنی ارتقا، کراچی، لاہور، دہلی 1997-1989،
35۔ اردو شاعری کا فنی ارتقا، کراچی، لاہور، ، دہلی1997-1990،
36۔ مولاناحسرت مو ہانی شخصیت اور فن، لاہور، 1991-1970،
37۔ قومی یک جہتی اور پاکستان، کراچی 1992،
38۔ سری پرکاش اور پاکستان، لاہور 1992،
39۔ غزل اردو کی شعری روایت، کراچی 1995،
40۔ ادب اور ادب کی افادیت، کراچی 1996،
41۔ ادا جعفری شخصیت اور فن، کراچی، 1998،
42۔ تمنا کا دوسرا قدم اور غالب، کراچی 1998,،
43۔ میر کو سمجھنے کے لیے، کراچی 1999۔
43.Sir Syyed Ahmad Khan on the present state of the Indian politics Karachi, 1982.
44. Pakistan movement and Hindi Urdu conflict, Lahore, 1986
جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت فکر کا علم بلند رکھنا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ وہ سلطانیِ جمہور کے زبردست حامی تھے۔ انھوں نے پاکستان میں غیر نمائندہ اور غیر جمہوری حکومتوں کے خلاف ہمیشہ کھل کر بات کی اور کبھی کسی مصلحت کا شکار نہ ہوئے۔ وہ ایک وسیع النظر، مخلص، دردمند، قناعت پسند اور ہمدرد انسان تھے۔ ان کی شخصیت میں بے لوث محبت، ایثار، انسانی ہمدردی اور سخاوت کے جذبات نے انھیں سب کا محبوب بنا دیا تھا۔ وہ سب ملنے والوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے اور ان کی ہر جائز خواہش کی تکمیل کے لیے ممکنہ حد تک تمام وسائل بروئے کار لاتے۔ بغض و عناد اور کینہ پروری سے انھیں شدید نفرت تھی بے لوث محبت اور بے باک صداقت کو وہ ایک ایسے عمل صالح سے تعبیر کرتے جس کے ہمیشہ خوشگوار نتائج سامنے آتے ہیں۔ زندگی کی یہی اقدار انسان کو خود اپنی نظروں میں معزز و مفتخر کر دیتی ہیں۔ ادب کی درخشاں اقدار کے سوتے بھی انھی اوصاف سے پھوٹتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ایک تخلیق کار کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھے اور ریاکاری سے اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دے کیونکہ ریاکاری سے وہ نہ صرف اپنے قارئین کو فریب دیتا ہے بل کہ خود اپنے آپ کو بھی دھوکے میں مبتلا رکھتا ہے۔ وہ مصلحت وقت کو کبھی خاطر میں نہ لائے۔ اس وقت مجھے مولانا ظفر علی خان کا یہ شعر یاد آ رہا ہے جو ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی شخصیت اور انداز فکر کی ترجمانی کرتا ہے۔
نکل جاتی ہو جس کے منہ سے سچی بات مستی میں
فقیہہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا
ان کے اسلوب کا مطالعہ کرتے وقت تین امور قاری کو متوجہ کرتے ہیں۔ انھوں نے تخلیق کار، ادبی تخلیقات اور تخلیق ادب کو اس انداز میں مربوط کیا کہ ان کی تخلیقی فعالیت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ان کے فکر پرور اور بصیرت افروز تخلیقی عمل کی اساس معاشرتی اور سماجی زندگی میں ان کے تجربات اور مشاہدات ہیں۔ جو کچھ ان کے دل پر گزرتی تھی اسے وہ پورے خلوص اور دیانت سے زیب قرطاس کرتے چلے جاتے تھے۔ ان کے ابد آشنا اسلوب اور ہمہ گیر تخلیقی عمل کو محض جمالیات کے اصولوں کی روشنی میں پرکھنے سے قاری اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتابل کہ اس کے لیے وہ دل بینا اور وسعت نظر درکار ہے جو خالص ادب کی عطا ہے۔ ان کی بات دل سے نکلتی ہے اور سیدھی دل کی گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں ہوس نے نوع انساں کو جس انتشار اور پرا گندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے وہ اس پر سخت مضطرب تھے۔ ہوس زر کے ہاتھوں مجبور ہو کر لفظ کی حرمت کو پامال کرنے والے قلم فروشوں سے وہ سخت نفرت کرتے تھے۔ ذاتی مقاصد کی خاطر لکھی جانے والی تحریریں اپنی نوعیت کے اعتبار سے ادب ہر گز نہیں بل کہ عیاری اور فریب کاری کی ایک قابل نفرت مثال ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ہمیشہ قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہوائے جور و ستم میں بھی رخ وفا کو بجھنے نہ دیا۔ اب دنیا میں ایسی ہستیاں کہا ں ملیں گی ؟
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں جو بلند مقام حاصل کیا ہے اس کا راز در اصل ان کی انفرادیت میں مضمر ہے۔ وہ ایک عظیم محب وطن اورراسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ انھوں نے اردو لسانیات، اقبالیات، غالبیات، تحقیق و تنقید، لغت نویسی، سفرنامے اور تدریس ادب کے شعبوں جو کامرانیاں حاصل کیں ان کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ وہ ہر اعتبار سے ایسی نایاب ہستی تھے جن کے مانند بننے کی تمنا کی جا سکتی ہے ۔ انھوں نے ہر صنف ادب میں اپنا ایک الگ رنگ پیدا کیا۔ سب سے بڑھ کر انھوں نے تحقیق و تنقید کو جو معتبر و موقر انداز عطا کیا وہ انھیں عظمت کی بلندیوں پر فائز کرتا ہے۔ دنیا بھر میں ان کے لاکھوں مداح ان کی راست گوئی اور تحقیقی و تنقیدی ثقاہت کے گرویدہ ہیں۔ ان کے مداحوں میں ممتاز فرانسیسی ما ہر لسانیات ژاک دریدا، ڈاکٹر این میری شمل، رشید حسن خان، شہر یار، مغنی تبسم، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر بشیرسیفی، ڈاکٹر صابر کلوروی، ڈاکٹر فہیم اعظمی، ڈاکٹر صابر آفاقی، محسن بھوپالی، سمیع اللہ قریشی، ڈاکٹر اعجاز راہی، ڈاکٹر رشید گوریجہ، ڈاکٹر رحیم بخش شاہین، ڈاکٹر محمد ریاض اور محمد منشا یاد شامل ہیں۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون کی نئی نسل کو ترسیل معتبر اور موقر دانش وروں کی مرہون منت ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا شمار ایسے ہی ممتاز دانش وروں میں ہوتا ہے۔ وہ ہماری نئی نسل کے لیے ایک عظیم رہبر کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا وجود ابر کرم کے مانند تھا جو ہمیں آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتا ہے اور ٖ فضا کی تمام حدت اور سمے کے سم کو ہم سے دور رکھتا ہے۔ اب ہم نشیب زینۂ ایام پر کھڑے حسرت و یاس کے عالم میں اپنے رفتگاں کو یاد کرتے ہیں۔ مگر سکوت کے صحرا سے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی وفات نے دل پر جو گھاؤ لگایا ہے اس کے اندمال کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ اب ہم ایسا کہاں سے لائیں جسے ان جیسا کہا جا سکے۔ ایسے یادگار زمانہ لوگ تو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں وہ بلا شبہ نا یاب تھے۔
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نا یاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
٭٭٭
.
آہ ! ڈاکٹر محمد علی صدیقی : نخیل زیست کی چھاؤں میں نے بہ لب تری یاد
آج صبح ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی وفات کی خبر پڑھ کر دل میں اک ہوک سی اٹھی۔ وہ عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی ادیب، دانش ور، نقاد، محقق، مورخ اور ماہر تعلیم تھے۔ ان کی وفات ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے۔ وطن، اہل وطن اور پوری انسانیت سے والہانہ محبت کرنے والے اس یگانۂ روزگار ادیب نے پوری دنیا میں اپنی تخلیقی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ 7۔ مارچ 1938کی صبح امروہہ(بھارت )سے طلوع ہونے والے علم و ادب کے اس آفتاب نے اپنی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے علمی دنیا کو اپنی چکا چوند سے حیرت زدہ کر دیا۔ مہیب سناٹوں کو ختم کرنے والی یہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ اردو زبان و ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی اجل کے ہاتھوں زمیں بوس ہو گئی۔ حریت فکر و عمل کا یہ عظیم علم بردار اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہا۔ 9۔ جنوری 1913کی شام کو اردو ادب کا یہ خورشید جہاں تاب کراچی کے افق سے غروب ہو کر عدم کی وادیوں میں اوجھل ہو گیا۔ سخی حسن کے شہر خموشاں کی زمین نے اردو زبان و ادب کے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ اردو زبان و ادب کی پوری دنیا پر ایک سکتے کی کیفیت ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان ادب تھے۔ ایک رجحان ساز ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے انھوں نے انسانی آزادی اور حریت فکر و عمل کو ہمیشہ اپنا مطمح نظر بنایا۔ حریت ضمیر سے جینے کے لیے انھوں نے ہمیشہ اسوۂ شبیرؓ کو پیش نظر رکھا۔ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے انھوں نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ پاکستان کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار و روایات کو وہ دل و جان سے عزیز رکھتے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کی تحقیق و تنقید میں ثقافتی مورخ کا رنگ نمایاں ہے۔ ان کی تحریریں زمان و مکاں اور زندگی کی حقیقی معنویت کو نہایت منظم و مربوط انداز میں پیش کرتی ہیں۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر گہری نظر رکھنے والا اتنا عظیم دانش ور جس خاموشی کے ساتھ زینۂ ہستی سے اتر گیا اس پر ہر دل شدت غم سے سو گوار ہے اور ہر آنکھ ساون کے بادلوں کی طرح برس رہی ہے۔ زندگی کے تمام کھلے ہوئے امکانات سے بھرپور استفادہ کرنے اور فکر و نظر کو اپنے تخیل کی جولانیوں سے مہمیز کرنے والے اس جر ی تخلیق کار کے بعد تو وفا کے سب ہنگامے ہی قصۂ پارینہ بن کر رہ گئے ہیں۔ پوری انسانیت کے سا تھ اخلاق اور اخلاص سے بھرپور برتاؤ کرنے کا داعی اور جلیل القدر ادیب کیا گیا کہ بہار کے دن ہی ہم سے مستقل طور پر روٹھ گئے۔ ہماری محفل کے چاند چہرے موت کے بے رحم ہاتھوں سے دائمی مفارقت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور وہ لوگ جنھیں دیکھ دیکھ کر ہم جیتے ہیں جب آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو زندگی سوہان روح بن جاتی ہے۔ ایسے لوگ علم و ادب کا دائرۃ المعارف ہو تے ہیں اور ان کی زندگی شمع کی صورت ہو تی ہے۔ ان کی رحلت کے صدمے سے روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔ یہ ایک جان لیوا صدمہ ہے، تقدیر کے اسچاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
ڈ اکٹر محمد علی صدیقی کا خاندان 1948میں امروہہ سے ہجرت کرنے کے بعد کراچی میں مقیم ہوا۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کراچی کے ممتاز تعلیمی ادارے کرسچین مشن سکول سے مکمل کی۔ اسی درس گاہ میں بانی ء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی زیر تعلیم رہے۔ 1953میں انھوں نے ڈی۔ جے سائنس کالج کراچی سے انٹر میڈیٹ کا امتحان بہت اچھے نمبر لے کر پاس کیا۔ 1964میں انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ کراچی ہی سے انھوں نے 2003میں مطالعہ پاکستان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان کی عظیم اور تاریخی جا معہ کراچی سے مطالعہ پاکستان میں ڈی۔ لٹ کی پہلی ڈگری بھی انھوں نے حاصل کی۔ انھوں پرورش لوح و قلم میں بھر پور کردار ادا کیا۔ وہ گزشتہ دو عشروں سے پاکستان کے ممتاز انگریزی اخبار ڈان (Dawn)میں ایریل(Ariel)کے قلمی نام سے کالم لکھتے تھے۔ ان کے کالم معاشرتی زندگی کے جملہ معاملات اور مسائل کا بھر پور احاطہ کرتے تھے۔ ان کی دوربین نگاہ سماجی زندگی کے ان مسائل تک بھی پہنچ جاتی تھی جو عام آدمی کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ان کے یہ کالم بڑی توجہ اور دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ زندگی کے مسائل، مشکلات، ابتلا، آزمائش اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے بارے میں وہ ہمیشہ کھل کر لکھتے تھے۔ ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ تیشۂ حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔ وہ معاشرتی زندگی میں امن، اخوت، تحفظ، ایثار، بے لوث محبت اور حق و صداقت کی فراوانی کے متمنی تھے۔ ان کا اسلوب مثالی تھا۔ اپنے اسلوب کی شان دلربائی سے وہ پتھروں کو بھی موم کر دیتے تھے۔ کئی ادبی مجلات کے مہمان مدیر کی حیثیت سے انھوں نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ صہبا لکھنوی کی ادارت میں کراچی سے شائع ہونے والے مجلے ’’افکار ‘‘میں ان کی تحریریں زندگی سے پیار کے اچھوتے پہلو سامنے لاتی تھیں۔ وہ تخلیق ادب کے وسیلے سے نئے زمانے نئی صبح اور شام کی جستجو پر اصرار کرتے تھے۔ وہ اپنی تخلیقی فعالیت کے ذریعے محبت اور خلوص کی شمع فروزاں کر کے زندگی کی رعنائیوں میں اضافہ کرنے کے آرزو مند تھے۔ ان کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ کہ فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ روز بہ روز گمبھیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ اس کے مسموم اثرات سے معاشرے میں زندگی کی بے معنویت کا خوف سرایت کرتا چلا جا رہا ہے۔ انھوں نے اس امر کو یقینی بنانے کی سعی کی کہ افراد کو زندگی کے ان تمام استعاروں سے روشناس کیا جائے جن کا تعلق رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی سے ہے۔ ان کا پیغام محبت اور اخوت پر مبنی ہے، ان کی تصانیف میں یہی پیغام قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ان کی تصانیف درج ذیل ہیں :
توازن (1976)، کروچے کی سر گزشت (1976)، نشانات (1981)، مضامین(1991)، اشارے (1994)، تلاش اقبال (2002)، سر سید احمد خان اور جدت پسندی (2003)، مطالعات جوش (2005)، غالب اور آج کا شعور(2005)، ادراک (2007)
بانی ء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے وہ بہت عقیدت رکھتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں قارئین میں مثبت شعور و آگہی پیدا کی جائے۔ وہ تحریک پاکستان کو تہذیبی ارتقا سے تعبیر کرتے تھے۔ قائد اعظم کی بے مثال قیادت میں اس خطے کے مسلمانوں نے جو فقید المثال جد و جہد کی وہ ہر عہد میں دلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتی رہے گی۔۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے تاریخ کے موضوع پر اہم کتب لکھ کر نئی نسل کو تہذیبی و ثقافتی میراث کے بارے میں حقیقی شعور و آگہی سے متمتع کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ قائد اعظم کے بارے میں ان کی وقیع تصانیف کو بے حد پذیرائی ملی۔ ان کتب میں سے چند درج ذیل ہیں :
قائد اعظم (اردو )، Quaid-i-Azam (English)، Quaid-i-Azam Speeches(English)، قائد اعظم اردو ادیبوں کی نظر میں، ذکر قائد اعظم
زمانہ طالب علمی ہی سے انھوں نے تخلیق ادب پر توجہ مرکوز کر دی۔ ان کے بلند پایہ تحقیقی و تنقیدی مضامین کی ممتاز ادبی مجلات میں اشاعت کا سلسلہ 1958میں شروع ہو گیا۔ ان کے ایک سو سے زائد تحقیقی و تنقیدی مقالات شائع ہوئے جن کے مطالعہ سے فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دنیا کی ممتاز جامعات میں ان کے توسیعی لیکچرز ہوتے تھے۔ ان کے عالمانہ تجزیاتی لیکچرز کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ دنیا کے نامور دانش ور ان کے علم و فضل کے مداح تھے۔ ان میں رالف رسل، ژاک دریدا، ڈاکٹر این میری شمل، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر بشیر سیفی، شہر یار، مغنی تبسم اور صابر کلوروی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اپنے ترقی پسند نظریات پر وہ تمام زندگی عمل پیرا رہے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے صدر تھے۔ انھوں نے گزشتہ نصف صدی میں دو نسلوں کو فکری رہنمائی فراہم کی۔ ان کے بار احسان سے ہر پاکستانی کی گردن خم رہے گی۔ دنیا لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتی چلی جائے ایسے لوگ اب کبھی پیدا نہیں ہو سکتے۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی ایک وسیع المطالعہ ادیب تھے۔ انھوں نے تخلیق ادب، تحقیق، تنقید، تراجم، صحافت، تدریس اور تاریخ کے شعبوں میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان اک ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ انھوں نے طویل عرصہ تک جامعہ کراچی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد وہ چھ برس تک قائد اعظم اکیڈمی میں ڈائریکٹر کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ وہ ہمدرد یو نیورسٹی کراچی میں ڈین فیکلٹی کی حیثیت سے خدمات پر مامور وولارہے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ انسٹی ٹیوٹ آف آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ ٹیکنالوجی (بز ٹیک )میں ڈین فیکلٹی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کی علمی، ادبی، تدریسی اور معاشرتی خدمات کا پوری دنیا میں اعتراف کیا گیا۔ انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے :
صدارتی تمغہ حسن کار کردگی (2003)، ستارۂ امتیاز (حکومت پاکستان)۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی کا شمار دنیا کے نامور ادیبوں میں ہوتا تھا۔ 1984میں کینیڈین ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایشین سٹڈیز نے ان کی عالمی سطح پر علمی خدمات کے اعتراف میں انھیں دنیا کے بہترین سکالر کے اعزاز سے نوازا۔ ان کی یہ کامرانیاں ان کے منفرد اور ممتاز ادیب ہونے کی دلیل ہیں۔ ان کی ان فقید المثال علمی و ادبی فتوحات میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ ان کا نام افق ادب پر تا ابد مثل آفتاب ضو فشاں رہے گا۔
ہے ارر
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
قدامت پسندی کو وہ ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ قدامت پسندی کے مسموم اثرات نے پوری قوم کو فکری انتشار، نفاق، خانہ جنگی اور تقلید کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ ترقی پسند سوچ کے مثبت پہلوؤں کو وہ ہمیشہ پیش نظر رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ترقی پسند سوچ کے ذریعے افراد کو زندگی کے مسائل کے بارے میں حقیقی شعور سے متمتع کیا جا سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب تک تمام مسائل زیست کے بارے میں سائنسی انداز فکر کو رو بہ عمل نہیں لایا جاتا اس وقت تک زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے میں خاطر خواہ کامیابی ممکن نہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ہمیں سستی جذباتیت سے ہٹ کر عقل و خرد اور فہم و ادراک کی کسوٹی پر تمام اقدار و روایات کو پر کھنا چاہیے۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے عظیم ادیبوں اور ان کے ادب پاروں کو پرکھنے کے لیے سائنسی انداز فکر اپنایا۔ ان کے اسلوب میں ترکیبی اور تجزیاتی انداز فکر کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی نے اپنے تخلیقی عمل اور لسانی تجربات سے اردو زبان کی ثروت میں جو اضافہ کیا ہے وہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ نامور پاکستانی شاعر جوش ملیح آبادی نے اپنی رباعیات ’’نجوم و جواہر ‘‘میں اپنے اشہب قلم کی جس طرح جولانیاں دکھائی ہیں، وہ انھیں منفرد و ممتاز مقام عطا کرتی ہیں۔ ان رباعیوں کا نمایاں وصف یہ ہے کہ ان میں جوش کی فکری پرواز اور لہجہ عمر خیام سے بھی بلند ہے۔ اپنی تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے انھوں نے اپنے مطالعہ، تجربات، احساسات، تجزیہ اور تاثرات کو جس مہارت سے زیب قرطاس کیا ہے اسے پڑھ کر قاری مسرت کے احساس سے سرشار ہوتا ہے۔ اس تجزیہ کو پڑھ کر قاری کو نہ صرف ادب پارے کے بارے میں آگہی ملتی ہے بل کہ وہ تخلیق کار اور اس کے لا شعوری محرکات کے بارے میں کافی معلومات حاصل کر لیتا ہے۔
1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد اس خطے کے مظلوم عوام پر جو کوہ غم ٹوٹا اس کے متعلق ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے نہایت خلوص اور دردمندی سے اپنے تجزیے پیش کیے ہیں۔ جب برطانوی تاجر مکر کی چالوں سے تاج ور بن بیٹھے تو انھوں نے یہاں کے عوام کے چام کے دام چلائے۔ اس خطے کے عوام نے برطانوی استعمار سے نجات حاصل کرنے کے لیے جو صبر آزما جمہوری جد و جہد کی ہے وہ تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ آزادی کی یہ جدو جہد جس میں ادیبوں نے بھر پور حصہ لیا اسے ان کے جذبۂ حب الوطنی اور جذبۂ انسانیت نوازی کی شان دار مثال سمجھا جاتا ہے۔ وہ سلطانیِ جمہور کے پر جوش حامی تھے اور جبر کا ہر انداز مسترد کر کے انھوں نے حریت فکر کا علم بلند رکھا۔ سلطانیِ جمہور کا خواب اسی وقت شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے جب ادیب اس کے لیے مثبت شعورو آگہی کو پروان چڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس موضوع پر ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے خیالات قابل غور ہیں :
’’آج بھی با ضمیر اور روشن خیال ادیب جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جب تک ادیب بہتر مستقبل کے خواب دیکھتے رہیں گے اس وقت تک آزادی ایک آدرش کے طور پر با معنی اصطلاح رہے گی۔ ‘‘(1)
ان کا خیال تھا کہ جدیدیت اور ما بعد الطبیعات پر کامل انحصار کرنا سرابوں میں بھٹکنے کے مترادف ہے۔ جدیدیت اور ما بعد الطبیعات اپنی نوعیت کے اعتبار سے اقتضائے وقت کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں۔ بادی النظر میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ جدیدیت اور ما بعد الطبیعات کی وجہ سے افراد کو رجعت پسندی اور یاس و ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے ادب اور عصری آگہی پر پوری توجہ دی۔ وہ چاہتے تھے کہ ادب کو تزکیہ نفس کا وسیلہ بنایا جائے۔ زندگی کی اقدار عالیہ کے فروغ کو وہ بہت اہم قرار دیتے تھے۔ وہ ترقی پسندانہ خیالات کو جدیدیت سے مماثل سمجھتے تھے۔ جہاں تک ما بعد الطبیعیات کا تعلق ہے، یہ عصری تقاضوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ ایک زیرک فعال اور مستعد تخلیق کار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وہ اپنے عہد کے حالات و واقعات کا بہ نظر غائر جائزہ لے اور تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کے رگ سنگ میں اترنے کی سعی کرے۔ اس طرح وہ اپنے عہد کے تقاضوں سے عہدہ بر آ
ور پیشکش: عندلیبی تشکیل: اعجاز عبیدہونے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے اپنی خیال افروز اور فکر پرور تحریروں سے اجتماعی شعور اور اجتماعی لا شعور کے ما بین ارتباط و ہم آہنگی کے امکانات پر بھر پور توجہ دی۔ ان کے تخلیقی عمل میں وجدان اور متخیلہ کی دلکشی کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے۔ وطن، اہل وطن اور پوری انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کے لا شعور میں رچ بس گئی ہے۔ تخلیق فن، زبان و ادب اور تخلیق ادب کے وسیلے سے تزکیہ نفس کے بارے میں ان کے خیالات نہایت واضح ہیں۔ اپنی تصنیف ’’ادراک ‘‘میں انھوں نے میر تقی میر، مرزا اسداللہ خان غالب، یاس یگانہ چنگیزی، صبا اکبر آبادی، حمیرہ رحمٰن، پیرزادہ قاسم اور شاہد نقوی کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی کو دنیا کی متعدد زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ان میں انگریزی، اردو، عربی، فارسی، سندھی، پنجابی، پشتو، جرمن، ترکی، بنگالی اور چینی زبان قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے سندھی زبان کے نامور شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹا ئی کے کلام کو جو تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے وہ قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ انھوں نے تخلیق فن کے وسیلے سے نئے حقائق تک رسائی کے امکانات کا جائزہ لیا۔ ان کی تنقید اور تجزیہ کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جن میں وہ سائنسی انداز فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے قاری کو تخلیق کے استحسان پر مائل کرتے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ ان تمام ادیبوں کے ادبی کارناموں کو حقیقی تناظر میں دیکھا جائے۔ انھوں نے مجاز لکھنوی، ابراہیم جلیس، اور عبداللہ حسین کے اسلوب کے بارے میں نہایت پر مغز مقالے لکھے ہیں۔ ان کی تحریروں میں جہاں تاریخ کے شعور کا واضح پر تو موجود ہے وہاں تہذیب و ثقافت کے بارے میں ایک قابل فہم طرز فکر بھی جلو گر ہے۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی پوری زندگی صبر و تحمل، قناعت اور استغنا کی مثال ہے۔ وہ ابن الوقت اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے مفاد پرستوں کے قبیح کردار سے شدید نفرت کرتے تھے۔ وہ سر سید اور غالب کی مثال دیا کرتے تھے جنھوں نے انتہائی کٹھن حالات میں بھی اپنی وضع داری کا بھرم قائم رکھا۔ غالب کی پوری زندگی تنگ دستی اور قرض کی بھینٹ چڑھ گئی اور جب سر سید کا انتقال ہوا تو گھر سے ان کی تجہیز و تکفین کے لیے کچھ نہ نکلا اور ان کی تدفین کے تمام اخراجات خیراتی فنڈسے ادا کیے گئے۔ 1857کے بعد یہاں حالات نے جو رخ اختیار کیا ان کے باعث یہاں کے عوام ایک مستقل نوعیت کے احساس کم تری میں مبتلا ہو گئے۔ برطانوی استعمار کو یہاں سے کچھ ایسے ضمیر فروش عناصر مل گئے جنھوں نے انتہائی گھٹیا ذاتی مفادات کی خاطر قومی مفادات کو پس پشت ڈال دیا۔ بر عظیم کی جن ریاستوں نے برطانوی استعمار کا ساتھ دیا ان پر وہ شدید تنقید کرتے تھے۔ انھیں اس بات کا شدید قلق تھا کہ موجودہ دور میں ہوس نے نوع انساں کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
قارئین ادب کو عصری آگہی سے متمتع کرنے کے سلسلے میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی خدمات کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ ایک روشن خیال اور ترقی پسند ادیب تھے۔ انھوں نے اپنے ترقی پسندانہ خیالات کا ہمیشہ بر ملا اظہار کیا۔ وہ کبھی کسی مصلحت کا شکار نہ ہوئے۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔ اپنے تجزیاتی مقالات میں انھوں نے دنیا کی طاقت ور اقوام کے پیش کردہ نیو ورلڈ آرڈر پر اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ تیسری دنیا کے مجبور، مظلوم اور بے بس و لاچار انسانوں کو طاقت ور ممالک کے مکر کی چالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ اس دور کی ظلمت مین ہر قلب پریشاں کو فسطائی جبر کی مسلط کردہ ہلاکت خیزیوں سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ دنیا کے غریب ممالک کی آزادی اس قدر بے وقار بنا دی گئی ہے کہ بہ ظاہر تو ان کے سر پر تاج سجا دیا گیا ہے مگر ان کے پاؤں میں بیڑیاں پہنا دی گئی ہیں۔ معاشی اور اقتصادی زبوں حالی نے غریب ممالک کے مظلوم عوام کے لیے رتیں بے ثمر کر دی ہیں۔ طاقت ور اقوام کا نیو ورلڈ آرڈر اور ما بعد جدیدیت کا تصور جبر کی اس فضا میں اعصاب شکن کیفیت پیدا کر چکا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آج دنیا میں ہر طرف اہل ہوس نے دام بکھیرے ہیں افراد مایوسی اور اضمحلال کا شکار ہیں۔ بے حسی کا عفریت ہر طرف منڈلا رہا ہے مظلوم انسانیت کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اپنی تحریروں میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے غیر منصفانہ اور ظالمانہ استحصالی نظام پر سخت تنقید کی۔ دنیا کی طاقت ور اقوام جس بے دردی سے غریب اقوام کا استحصال کرنے میں مصروف ہیں اس پر وہ بہت دل گرفتہ تھے۔ ان کے دل میں ساری دنیا کے مظلوم انسانوں کا درد سما گیا تھا۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی ایک با کردار اور وضع دار انسان تھے۔ وہ ایک بلند پایہ ادیب تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ ان کی عظمت کا راز ان کی دردمندی، خلوص اور انسانی ہمدردی کے فراواں جذبات میں پوشیدہ تھا۔ وہ سب کے ساتھ بلا امتیاز بے لوث محبت کے قائل تھے۔ ان کی محبت لین دین کی کوئی صورت ہر گز نہ تھی بل کہ وہ تو اپنے احباب پر سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ ان کے اچھے اعمال ہمیشہ خوشگوار نتائج سامنے لاتے۔ بے لوث محبت کے اعجاز سے وہ اپنے خلوص پر مبنی جذبات کو فروغ دے کر اپنی ذات کی تکمیل کرتے تھے۔ انھوں نے انسانی کردار کے ان تمام پہلوؤں کا مطالعہ کیا جو معاشرتی زندگی میں امن و عافیت کے نقیب ثابت ہوتے ہیں۔ ان کی عظیم شخصیت انھیں ایک اچھے شہری، عظیم محب وطن، حریت فکر کے مجاہد، بے مثال تخلیق کار اور عظیم انسان کے روپ میں سامنے لاتی ہے۔ انھوں نے ملت اور معاشرے سے ہمیشہ اپنا قلبی تعلق استوار رکھا۔ ان کی تحریریں قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہیں۔ ادب کی جمالیاتی اقدار ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی کا دوام جریدۂ عالم پر ثبت رہے گا۔ تاریخ ہر دور میں ان کے عظیم الشان کام اور نام کی تعظیم کرے گی۔ ان کی یاد دلوں کو مرکز مہر و وفا کرتی رہے گی۔ آلام روزگار کے مہیب بگولوں نے زندگی کے جن مظاہر کو منتشر کر دیا ہے ان کی تحریروں کے اعجاز سے انھیں پھر سے ایک لڑی میں پرونے کی صورت تلاش کی جا سکتی ہے۔ ان کی یاد دلوں سے کبھی محو نہیں ہو سکتی۔
پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اٹھی آواز تیری آئی
٭٭
مآخذ
(1)محمد علی صدیقی: مضامین، ادارہ عصر نو، کراچی، پہلا ایڈیشن، 1991، صفحہ 74۔
٭٭٭
غلام علی خان چین: رستہ دکھانے والا ستارہ نہیں رہا
جھنگ کے ممتاز ماہر تعلیم، ادیب، دانش ور، حریت فکر کے مجاہد، توحید و رسالت کے سچے عاشق اور نامور سماجی کارکن غلام علی خان چین 1996میں دائمی مفارقت دے گئے۔ مسلسل شکست دل کے باعث معاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈلا رہا ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ راہ رفتگاں کو دیکھنے والوں کی آنکھیں نم نہیں ہوتیں اور کوئی بچھڑ کے چلا جائے کسی کو اس کی پروا نہیں۔ جب کارواں کے دل سے احساس زیاں عنقا ہو جائے تو ایسی ہی انہونی سامنے آتی ہے جو کسی مہذب قوم کے لیے بہت برا شگون ہے۔ اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا اور اپنے دلوں کو ان کی دائمی مفارقت کے درد سے آباد رکھناسعادت مند اولاد، عقیدت مند لواحقین اور فکری اعتبار سے ثروت مند قوم کا امتیازی وصف ہوتا ہے۔ جو عظیم لوگ راہ جہاں سے گزر جاتے ہیں ان کے کارہائے نمایاں سے نئی نسل کو آگاہ کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
غلام علی خان چین کے والد میاں برخوردار خان جھنگ شہر کے تاریخ علاقے ممنا گیٹ کے مکین تھے۔ رانا عزیز احمد خان ان کے کوچے کو کوچۂ چہل امیراں کا نام دیتے تھے۔ ایک اور مورخ شیخ محمد اسلم اس علاقے کو جھنگ کا چلیسی کہا کرتے تھے۔ یہی وہ مردم خیز خطہ ہے جہاں سے ایسی نابغۂ روزگار ہستیاں اٹھیں جنھوں نے اپنی کامرانیوں کی ساری دنیا میں دھاک بٹھا دی۔ دنیا کی تیرگیِ مسلسل میں جن کا وجود ایک مینارۂ نور ثابت ہوا۔ نظام دہر کو تیورا کر دیکھنے والوں پر ان لوگوں نے واضح کر دیا کہ رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام تر استعارے سعیِ پیہم کے مرہون منت ہیں۔ نظام کائنات کو ایک بے ربط سی زنجیر والے سمجھنے قنوطیت کے مارے اور یبوست زدہ لوگوں کی ژولیدہ خیالی کو مسترد کرتے ہوئے انھوں نے عوام کو حوصلے اور ہمت کا پیغام دیا اور دلوں کو ایک ولولۂ تازہ تازہ سے متمتع کیا۔ ان دانش وروں نے نظام کہنہ کے سائے میں عافیت سے بیٹھنے والوں پر واضح کر دیا کہ یہ سب کچھ تو ایک گرتی ہوئی عمارت کے ما نند ہے نظام کہنہ جو کہ خود ہی غرقاب ہو رہا ہو اسے ڈبونے کی سعی ء رائیگاں کرنا وقت اور محنت کے ضیاع کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس علاقے سے جو آفتاب و ماہتاب طلوع ہوئے ان کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اکناف عالم کا گوشہ گوشہ منور ہو گیا۔ پاکستان میں کون ہے جو ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان)، سید جعفر طاہر، ڈاکٹر محمد کبیر خان، ڈاکٹر محمد عمر، حاجی محمد یوسف، ملک محمد عمر حیات، اللہ دتہ سٹینو، محمد بخش آڑھتی، محمد شیر افضل جعفری، عبداللہ خان، امیر اختر بھٹی، حکیم محمد اسماعیل ، عبدالحلیم انصاری، بختاور خان، حکیم محمد صدیق، رانا سلطان محمود، میاں احمد بخش، محمود بخش بھٹی ، رام ریاض، فضل الٰہی خان، حکیم احمد بخش، اللہ داد اور میاں برخوردار کے نام سے واقف نہیں۔ دور زماں کی ہر کروٹ ان ہستیوں کے عظیم نام اور فقید المثال کام کا اثبات کرے گی اور تاریخ ان کے مقام کی تعظیم کرے گی۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں جب کہ لہو کی لہر، اشک رواں کی نہر، اور دل و جاں سے اٹھنے والے دھوئیں نے تمام منظر نامہ ہی دھندلا دیا ہے اور رتیں بے ثمر ہو چکی ہیں حساس انسان سوز دروں سے کام لیتے ہوئے اس عہد کو یاد کرتے ہیں جب اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی نے دلوں کو مرکز مہر و وفا کر دیا تھا۔ اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کے معجز نما اثر سے حریم کبریا سے آشنا کرنے والے انسانیت کے ان بے لوث خادموں کے کار ہائے نمایاں ہماری قومی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہیں۔
میاں برخوردار خان کے نور نظر غلام علی خان نے 1917میں جنم لیا۔ غلام علی خان چین کی جنم بھومی ممنا گیٹ ہی ہے اور جھنگ شہر کے اس قدیم تاریخی علاقے میں اس عظیم انسان کی آنول نال گڑی ہے۔ میاں برخوردار خان کا آبائی پیشہ زراعت اور تجارت تھا۔ انھوں نے مقامی مدرسے سے قرآن حکیم اور حدیث و فقہ کی دینی تعلیم حاصل کی اور لکھنے پڑھنے کی استعدا د بھی حاصل کر لی۔ ان کا شمار اپنے عہد کے محترم، قناعت پسند، خدا ترس، فیاض، سخی، عابد، زاہد اور متقی لوگوں میں ہوتا تھا۔ مثل مشہور ہے کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات اسی طرح غلام علی خان چین نے بھی بچپن ہی سے اپنی خدا داد ذہانت سے اپنے اساتذہ اور ہم جماعت طالب علموں کو بہت متاثر کیا۔ ہر جماعت کے امتحان میں پہلی پوزیشن غلام علی خان چین ہی کی آتی۔ گورنمنٹ کالج جھنگ میں وہ رانا عبدالحمید خان کے شاگرد تھے۔ اس زمانے میں گورنمنٹ کالج جھنگ میں میٹرک کی کلاسز بھی ہوتی تھیں۔ گورنمنٹ کالج جھنگ میں اپنے زمانہ طالب علمی کی یادوں کو غلام علی خان چین اپنی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ قرار دیتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پورے بر صغیر کو برطانوی فوجوں نے اپنے بوٹوں تلے روند ڈالا تھا۔ ہر چوک کو مظلوم اور نہتے حریت پسندوں کا مقتل بنا دیا گیا اور بے بس عوام اپنے گھروں میں اس طرح محبوس تھے جیسے زنداں میں بے گناہ قیدی پا بہ جولاں ہوتے ہیں۔ گھر سے بازار کو نکلتے ہوئے بے بس و لاچار نہتے عوام کا زہرہ آب ہوتا تھا۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے طالب علم وطن عزیز سے برطانوی افواج کے انخلا اور وطن کی آزادی کے حق میں مسلسل پر امن جلوس نکال رہے تھے۔ اسی نوعیت کے ایک جلوس پر انگریز ایس۔ پی کے حکم سے پولیس نے گولی چلا دی۔ جس کے نتیجے میں سیکڑوں نہتے طالب علم زخمی ہو گئے اور گورنمنٹ کالج جھنگ کا ایک طالب علم قاضی محمد شریف شہید ہو گیا۔ ان لرزہ خیز، اعصاب شکن حالات میں شہر وفا کے سہمے ہوئے بند دریچے، آنکھیں میچے اپنے مکینوں کی مظلومیت، عذاب در بدری، حبس دوام اور دائمی مفارقت پر نوحہ کناں تھے۔ وہ سب کے سب موہوم قافلہ ہائے خندۂ گل جن کی تمنا میں نوے سال بیت چلے تھے فسون تمنا کی صورت اختیار کر گئے۔ حقائق خیال و خواب بن گئے اور منزل کی جانب جانے والے راستے سراب بن گئے۔ نوجوان یہ سوال کرتے تھے کہ مستقبل کے خوابوں کے بھنور میں ڈگمگاتی ہوئی کشتیِ جاں خدا جانے کب ساحل عافیت پر پہنچے گی۔ وہ صبح بہاراں کب طلوع ہو گی جب نوے سال سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی بے بس قوم کا سیل زماں کے گرداب میں ہچکولے کھاتا ہوا سفینہ آزادی کے گھاٹ اترے گا۔
غلام علی خان چین نے زمانہ طالب علمی میں آزادی کی جدو جہد میں بھرپور حصہ لیا۔ حریت ضمیر سے جینے کے لیے انھوں نے ہمیشہ اسوۂ شبیرؓ کو پیش نظر رکھا۔ ان کی یادوں کے دئیے دل کے طاق میں ہر سو فروزاں ہیں۔ انھوں نے اپنے عہد جوانی میں وطن کی آزادی کے لیے جو جد و جہد کی اس پر انھیں فخر تھا۔ آج جب ہم ایام گزشتہ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ان کے افکار کی ضیا پاشیاں ہمارے لیے نشان راہ ثابت ہوتی ہیں۔ حریت فکر کے ایسے مجاہد کے بارے میں فکر پرور اور خیال انگیز یادوں کا در اسم اعظم پڑھ کر کھولنا اقتضائے وقت کے عین مطابق ہے۔ اگر ہم نئے زمانے اور نئی صبح و شام پیدا کرنے کے صدق دل سے آرزو مند ہیں تو ہمیں غلام علی خان چین جیسے آزادی کے متوالوں کے عظیم الشان کردار کو لائق تقلید بنانا ہو گا جو زہر ہلا ہل کو کبھی قند نہ کہہ سکے اور ہمیشہ وہی بات کی جسے وہ سچ سمجھتے تھے۔ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے سفاک ظلمتوں میں حوصلے اور امید کے ستاروں کی فصل کاشت کی تا کہ ایک دن آزادی کا گل خورشید یہیں سے نمو یاب ہو۔ آزادی کے ان متوالوں نے دنیا کے جنجالوں کی کبھی پروا نہ کی اور تہی داماں محاذ زیست سے سرخرو ہو کر خود کو پوری قوم کی نظروں میں معزز و مفتخر کر دیا۔
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد غلام علی خان چین نے تربیت اساتذہ کے ایک مشہور ادارے میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے جے۔ وی کا امتحان امتیازی حیثیت میں پاس کیا۔ جے۔ وی کرنے کے بعد وہ حکومت کے محکمہ تعلیم میں تدریسی خدمات پر مامور ہو گئے۔ ان کا تقرر جھنگ کے دور دراز علاقے میں واقع ایک دیہی پرائمری مدرسے میں ہوا۔ ان کی موثر تدریس کے اعجاز سے اس علاقے میں تعلیمی انقلاب آ گیا۔ ہر طرف تعلیم و ترقی کے چرچے ہونے لگے۔ عوام میں آزادی کے بارے میں مثبت شعورو آ گہی پیدا کرنے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پورے کا پورا گاؤں بے بس و لاچار، مظلوم اور بے نوا سائلوں پر مشتمل تھا جو اپنی محرومیوں اور الم نصیبی کا سبب معلوم کرنا چاہتے تھے۔ غلام علی خان چین نے ان سادہ لوح دیہاتیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی سعی کی اور ان کو اس حقیقت کے احساس و ادراک کی راہ سجھائی کہ برطانوی استعمار نے یہاں کے باشندوں پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ جبر کی اس فضا میں کلیاں شرر، آبادیاں پر خطر، آہیں بے اثر اور زندگیاں مختصر کر دی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی مظلوم اقوام کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جس طرح سر شام ایک پسینے میں شرابور محنت کش کو اس کی مزدوری تھما دی جاتی ہے، بالکل اسی طرح ظالم و سفاک، موذی و مکار استعماری قوتیں محکوم اور مظلوم عوام کی فلاح کے داعی بن کر ان کے کشکول میں کچھ رقم ڈال کر ان کی آنکھوں میں دھول جھونکتی ہیں۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ دنیا کی غریب اقوام اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے سلسلے میں اس انہماک کا مظاہرہ نہیں کر رہیں جو حالات کا تقاضا ہے۔ غریب اقوام کی مثال ان بد قسمت طیور کی ہے جو گلزار ہست و بود کے اشجار کی ان شاخوں پر اپنے آشیاں بناتے ہیں جو موسم گل میں بھی برگ و بار اور گل و ثمر سے محروم رہتی ہیں۔ غلام علی خان چین کہا کرتے تھے کہ غریب ملکوں کی آزادی کو عالمی طاقتوں نے اپنے مکر کی چالوں سے بے وقار بنا دیا ہے۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ غریب اقوام کے سر پر تو آزادی کا تاج سجا ہوا ہے مگر ان کے پاؤں میں معاشی پا بندیوں کی بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ ان ممالک کے عوام کو اب طلوع صبح بہاراں کا کوئی اعتبار نہیں یہاں اجالا داغ داغ اور سحر شب گزیدہ ہو چکی ہے۔ گجر بجنے سے دھوکا کھانے والی اقوام پھر بھیانک تیرگی میں پھنس گئی ہیں۔ تیسری دنیا کے غریب، پس ماندہ اور مفلس و قلاش لوگوں کی شکل و صورت اور معیار زندگی کے کھنڈر کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کے سبز باغ دکھانے والی جابر قوتیں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان ممالک میں موجود قسمت سے محروم سسکتی انسانیت کے دل صد چاک کو کہاں سجائیں گے جو کب کا کرچیوں میں بٹ چکا ہے۔ ان مجبوروں کی نا آسودہ خواہشات، دل کے مقتل میں خوں ہونے والی حسرتیں، آرزوؤں کے بکھرے سلسلے اور ریزہ ریزہ خواب کس طاق میں رکھے جائیں گے ؟۔ ہمارے معاشرے کا روح فرسا المیہ یہ ہے کہ بلند و بالا عمارتوں اور قصر و ایوان پر مشتمل جنگل بڑھ رہے ہیں۔ ان جنگلوں میں مقیم درندے اپنی پوری قوت اور شقاوت آمیز نا انصافیوں سے جنگل کا قانون نافذ کر چکے ہیں۔ یہاں درندے مردوں کے ساتھ شرط باندھ کر سو رہے ہیں مگر ان کی بے حسی، سفاکی اور دہشت نے ان بے بس انسانوں پر جو اپنی قبر نما جھونپڑیوں محبوس سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں اس قدر ہیبت طاری کر دی ہے کہ ان کی نیندیں اڑ چکی ہیں اور وہ زندگی سے بیزار ہیں۔ روم جل رہا ہے اور وقت کا نیرو چین کی با نسری بجانے میں مصروف ہے۔
غلام علی خان چین نے شہر کے انتشار سے باہر ایک چھوٹے سے گاؤں میں تدریسی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔ اپنے فرائض منصبی سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنا وقت کھیتی باڑی میں صرف کرتے۔ یہاں سے وہ اپنے بچوں کے لیے خالص دودھ، تازہ سبزیاں اور اجناس خوردنی لاتے۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ہمارے معاشرے کی پستی کا بڑا سبب جہالت ہی ہے۔ معاشرے میں پائی جانے والی مختلف قسم کی عصبیت، جہالت، مقدمہ بازی، منشیات اور فرسودہ رسوم و رواج کے مسموم اثرات نے کئی گھر بے چراغ کر دئے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ دیار چشم و لب میں دل کی ویرانی اور جاں کی تنہائی کا بڑا سبب جہلا کی بے بصری، کور مغزی اور ذہنی افلاس ہے۔ وہ اکثر اس بات پر کرب کا اظہار کرتے کہ استحصالی معاشرے میں حساس اور تعلیم یافتہ انسان خود کو جزیرۂ جہلا میں گھرا ہو امحسوس کرتا ہے جس کے بچ نکلنے کی راہیں مسدود ہو چکی ہیں کیونکہ اس جزیرۂ جہلا کی چاروں جانب ٹھاٹیں مارتا ہو اسمندر ہے جس کی ہر موج میں حلقۂ صد کام نہنگ کو دیکھ کر اس کا پتا پانی ہو جاتا ہے۔ ان کی گفتگو میں فکری اور شعوری روح پوری تاب و تواں کے ساتھ اپنے جلوے دکھاتی۔ وہ بولتے تو باتوں سے پھول جھڑتے وہ سب کے لیے اچھی رائے رکھتے تھے۔ کسی کی عیب جوئی یا غیبت سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ ان کی سوچ ہمیشہ تعمیری رہی کسی کی تخریب سے انھیں کو ئی غرض نہ تھی۔
اپنی عملی زندگی میں غلام علی چین نے سادگی اور وضع داری کو اپنا شعار بنایا۔ انھوں نے گھر میں بھینس پال رکھی تھی اس کو چارہ ڈالنے اور دیکھ بھال کی ذمہ داری انھوں نے خو د سنبھال رکھی تھی۔ اس طرح انھیں خالص دودھ، مکھن اور گھی میسر آ جاتا۔۔ مقامی طور پر تیار کیا ہوا کھدر ان کا پسندیدہ لباس تھا۔ سر پر سفید رنگ کی طرہ دار پگڑی باندھتے۔ اس پگڑی پر کلف لگانا وہ ضروری سمجھتے تھے۔ اپنے گھر میں تہمد یا لنگی باندھتے تا ہم شلوار قمیض بھی ان کا پسندیدہ لباس تھا۔ شلوار اور قمیص وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرتے وقت پہنتے تھے۔ لباس کے لیے ان کا انتخاب صرف اور صرف سفید رنگ تھا۔ اپنا لباس وہ اپنے دیرینہ ساتھی سرور ٹیلر سے سلواتے۔ سرور ٹیلر کی یہ ادا انھیں بہت پسند تھی کی وہ لباس کے تیار ہو جانے کے بعد بچ جانے والا کپڑا خواہ ایک انچ بھی ہوتا گاہک کو واپس کر دیتا۔ دیانت داری کا یہ معیار اب نا پید ہے۔ انھوں نے ڈاڑھی نہیں رکھی البتہ مونچھیں بڑھا رکھی تھیں۔ وہ دراز قد تھے اور ان کا جسم بھرا ہوا تھا، کشادہ پیشانی اور چوڑا چکلا سینہ ان کی مردانگی اور دلیری کی علامت تھی۔ سر کے بال گھنے تھے لیکن ضعیفی میں کچھ بال جھڑ گئے تھے۔ اپنے سفید بالوں پر بھیرے کی مہندی لگا کر انھیں سرخ کر لیتے تھے۔ بڑھاپے میں وہ ضعف بصارت کے باعث نظر کی عینک لگاتے تھے۔ اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ بڑھاپے میں سفید بالوں کو کالا کرنا خود فریبی کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ نا معلوم لوگ کیوں سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے کی نا کام کوشش کرتے ہیں۔ پاؤں میں جوتا فیکٹری کا بنا ہو ابھی پہن لیتے تا ہم اپنی پسند کے مطابق کھسہ وہ گاؤں کے موچی سے سلواتے اور اس پر تلہ (سنہری اور روپہلی دھاگے کی تاریں ) ضرور لگواتے۔ ان کا لباس اگرچہ سادہ ہوتا تھا لیکن صفائی اور سلیقے کی بدولت یہ سادہ لباس پہننے سے ان کی شخصیت کو چار چاند لگ جاتے۔ ان کے لباس میں سلوٹ کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ جب چلتے تو ایک شان کے ساتھ قدم بڑھاتے۔ گھر میں سونے کے لیے مونج کے بان سے بنی ہوئی چار پائی انھیں پسند تھی۔ ان کی اولاد نے جب فوم کے گدے آرام کے لیے خریدے تو انھوں نے کوئی اعتراض نہ کیا اور کہا وہ جہاں رہیں خوش رہیں۔ اسی طرح جب ان کے بچوں نے مصنوعی ریشے کے لباس پہننا پسند کیا تو انھوں نے کہا اب جلدی امراض کے لیے بھی تیار رہیں۔ ممنا گیٹ میں بیٹھی دائی کے تنور کی روٹی انھیں پسند تھی اور ساگ ان کی پسندیدہ سبزی تھی۔ وہ جس مدرسے میں تدریسی خدمات پر مامور تھے وہ دریائے چناب کے نزدیک تھا۔ مقامی ماہی گیر اکثر کنڈیاں لگا کر دریا سے مچھلیاں پکڑتے تھے۔ غلام علی خان چین کو مچھلی بہت پسند تھی وہ ان ماہی گیروں سے مچھلی خریدتے اور گھر میں دیسی گھی میں پکوا کر کھاتے تھے۔ اب تو حالات یکسر بدل چکے ہیں ان کے پوتے دیسی گھی سے قطعی نا واقف ہیں۔ اب ان کے گھر میں صرف بناسپتی گھی استعمال ہوتا ہے۔ غلام علی خان چین کے بعد پالتو جانوروں کو گھر سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ جس کمرے بھینس باندھی جاتی تھی اب وہاں مہمان خانہ بن چکا ہے۔ اور اب ان کا پوتا یہاں آنے والی بھینسوں کے آگے بین بجانے کا شغل جاری رکھے ہوئے ہے۔
غلام علی خان چین نے گھر میں کئی پالتو جانور پال رکھے تھے۔ گائے، بکری، مرغیاں اور بھینس ان کے محبوب جانور تھے۔ ان پالتو جانوروں کی خدمت کے کاموں میں ان کا بیٹا غلام قاسم خان بھی ان کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ نواحی گاؤں پاتوآنہ سے ایک اعلا نسل کی بھینس خرید لائے۔ یہ بھینس ایک وقت میں دس کلو دودھ دیتی تھی۔ نئی بھینس کیا آئی متعدد مسائل بھی ساتھ لائی۔ ریوڑ کے ساتھ مل کر چراگاہ میں آزادانہ گھوم پھر کر چرنے والی اس بھینس کو چاردیواری میں محبوس ہو کر اور ہمہ وقت کھونٹے سے بندھ کر کھڑے رہنا ایک اذیت اور عقوبت لگتی تھی۔ بھینس اس جانگسل تنہائی کے باعث ڈپریشن کا شکار ہو گئی اور ہر شخص کو سینگ مارنے کے لیے آگے بڑھتی۔ سردیوں کی ایک شام تھی غلام علی خان چین کے بیٹے نے بھینس کو صحن سے کھول کر کمرے میں باندھنے کی کوشش کی۔ بھینس نے اپنی عقابی نگاہوں سے یہ تاڑ لیا تھا کہ لڑکا کم زور ہے چنانچہ وہ رسی چھڑا کر حویلی کے دروازے سے باہر نکلی اور دوڑتی ہوئی سیدھی سبزی منڈی کی طرف نکل گئی۔ سب لوگ اس مرکھنی بھینس کے خوف سے چھپ گئے۔ غلام علی خان چین کا بیٹا ننگے پاؤں بھاگا مگر بھینس اس کے قابو میں نہ آئی اور سینگ لہراتی اور پھنکارتی ہوئی بھینس کے سامنے وہ بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ غلام علی خان چین کو معلوم ہوا تو وہ ایک مضبوط لاٹھی لے کر وہاں پہنچے۔ بھینس نے جوں ہی غلام علی خان چین کی آنکھوں میں شعلے اور ہاتھ میں پانچ فٹ کی مضبوط موٹی سی لاٹھی دیکھی اس نے سر جھکا لیا اور ان کے پیچھے پیچھے گھر روانہ ہو گئی۔ بھینس کی اس فوری اطاعت کو دیکھ کر سب لوگ دم بہ خود رہ گئے۔ غلام علی خان چین نے کہا کہ اب تو تمھیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ جس کی لاٹھی ہوتی ہے اسی کی بھینس ہوتی ہے۔
خلوص، دردمندی، انسانی ہمدردی، ایثار اور انسانیت کے ساتھ بے لوث، محبت غلام علی خان چین کا اہم وصف تھا۔ وہ ایک صحت مند شخصیت کے مالک تھے اس لیے انھوں نے آزمائش کی ہر گھڑی میں موقع اور محل کی مناسبت سے موزوں کردار ادا کیا۔ جھنگ میں دریائے چناب کے سیلابوں نے 1950اور 1973نے جو تباہی مچائی اس کے اثرات اب تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ دریا کی طوفانی موجوں کا آٹھ فٹ اونچا ریلا حفاظتی پشتے توڑتا ہوا شہر میں داخل ہو گیا اور نشیبی علاقے میں رہنے والے لوگوں کا سار سامان بہا لے گیا۔ سیلاب زدگان نے بڑی مشکل سے جان بچائی اور پناہ گزین کیمپوں میں پناہ لی۔ جھنگ شہر کا ممنا گیٹ بلند ترین مقام پر واقع ہے اس لیے دریا کی طغیانی سے محفوظ رہا۔ غلام علی خان چین نے مصیبت کی اس گھڑی میں سیلاب زدگان کی غذائی، رہائشی اور طبی ضروریات کی تکمیل کے لیے انتھک کام کیا۔ اپنے مکان کے ایک حصے میں ایک سو کے قریب پردہ دار خواتین اور ان کے کم سن بچوں کو ٹھہرنے کی جگہ دی۔ گھر سے کھانا پکوا کر ان تک پہنچایا اور حکیم احمد بخش اور ڈاکٹر محمد کبیر خان کے ساتھ مل کر سیلاب سے پھیلنے والی وبائی امراض کی روک تھام پر توجہ مرکوز کر دی۔ جھنگ کے حفاظتی بند کی دوسری طرف جو دریائے چناب کے قریب تھی وہاں کوئی امدادی ٹیم فوری طور پر نہ پہنچ سکی۔ مصیبت زدہ لوگ درختوں پر بیٹھے کسی لطیفۂ غیبی کے منتظر تھے۔ چنڈ بھروانہ سے جھنگ تک آٹھ کلو میٹر کا علاقہ دریائے چناب کی آٹھ فٹ بلند اور تیز لہروں میں ڈوبا سمندر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ان انتہائی تکلیف دہ حالات میں غلام علی خان چین نے اپنی مدد آپ کے تحت پلاؤ، دال، سبزی، گوشت اور حلیم کی دس دیگیں پکوائیں دو ہزار کے قریب نان پکوائے اور محکمہ سول ڈیفنس کی کشتی میں یہ سامان رکھا۔ اس کے بعد وضو کیا تسبیح ہاتھ میں لی اور درود پاک کا ورد کرتے ہوئے کشتی میں بیٹھ گیا اور ملاح کو چپو لگانے کا حکم دیا وہ جان پر کھیل کر زندگی اور موت کے اس کھیل میں کود پڑے۔ لوگوں نے اشک بار آنکھوں سے عزم و ہمت کے ان عظیم کو ہساروں کو رخصت کیا اور ان کی بہ خیریت واپسی کی دعا کی۔ ملاح نے ترنگ میں آ کر یہ تان اڑائی :
بیڑی دتی ٹھیل اوئے
مقدراں دے کھیل اوئے
رب چا کریسیں ساڈا
پتناں تے میل اوئے
ترجمہ: کشتی کو ڈالا بیچ منجدھار مقدر سے یہ لگے گی پار
مجبوروں سے جا کے ملیں گے، رب ہی کرے گا بیڑا پار
غلام علی خان چین کی یہ سر فروشی بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی۔ ان کے بعد بہت سے دلاور اور ہمت کے محیط کے شناور ان کی تقلید پر کمر بستہ ہو گئے چھ گھنٹے کے بعد جب غلام علی خان چین سیلاب کے پانی میں گھرے تین دیہاتوں کے مجبور عوام کو غذائی اشیا پہنچا کر بہ خیریت واپس پہنچے تو چار اور کشتیاں خوراک اور ادویات لیے تیار کھڑی تھیں۔ علاقہ مجسٹریٹ نے غلام علی خان چین کے اس جذبے کی تعریف کی تو اس مر د حق پرست نے بر ملا جواب دیا کہ اس نے جو کچھ کیا اور اس کے بعد بھی جو خدمت انجام دے گا وہ صر ف اور صرف اللہ کی رضا کی خاطر ہے۔ انھوں نے اس موقع پر سب حاضرین کو پر نم آنکھوں سے دیکھا اور جب شہر یار کا یہ شعر گلو گیر لہجے میں پڑھا تو سننے والوں پر رقت طاری ہو گئی :
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
پورا علاقہ دس دن قیامت خیز سیلاب کے پانی میں گھرا رہا۔ جھنگ کی ضلعی انتظامیہ اور مقامی لوگوں کے علاوہ لاہور، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، گوجرہ، کمالیہ، پیر محل اور سمندری سے امدادی ٹیمیں مسلسل سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچ رہی تھیں لیکن اس کار خیر کی ابتدا کرنے والوں میں غلام علی خان چین، حاجی محمد یوسف، حکیم احمد بخش، ڈاکٹر محمد کبیر خان اور اللہ دتہ سٹینو شامل تھے۔ آج بھی دریائے چناب کے کنارے آبا د بزرگ لوگ اپنے بچوں کو غلام علی چین کی سر فروشی کی داستانیں سناتے ہیں کہ کس طر ح اس شخص نے اپنی جان پر کھیل کر بھوک اور پیاس سے بلکتے بچوں اور خواتین کے لیے سب سے پہلے اس وقت غذائی اشیا فراہم کیں جب اس طرف کا رخ کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ دس دن کے بعد جب سیلاب کا پانی اترا اور سیلاب زدگان اپنے شکستہ کھنڈرات میں پہنچے تو ان کی بحالی کا کام حکومتی سطح پر شروع ہو گیا۔ غلام علی خان چین نے اس عمل پر بھی کڑی نظر رکھی اور متعلقہ اداروں کو ضروری مشورے دیتے رہے۔
اردو، پنجابی اور پاکستان کی علاقائی زبانوں کے دب سے غلام علی خان چین کو گہری دلچسپی تھی۔ حضرت سلطان باہو کے کئی ابیات انھیں زبانی یاد تھے۔ میاں محمد بخش کے کلام کو وہ افادیت سے لبریز اور اصلاحی شاعری قرار دیتے تھے۔ پنجابی کی لوک داستانوں کا انھوں نے بہ نظر غائر مطالعہ کیا تھا۔ اردو کے کلاسیکی ادب کا بھی انھوں نے مطالعہ کر رکھا تھا۔ عالمی کلاسیک کے تراجم سے انھیں ان کے بیٹے اور نامور ماہر تعلیم پروفیسر غلام قاسم خان نے روشناس کیا۔ علی گڑھ تحریک نے بر عظیم کے مسلمانوں میں بیداری کی جو لہر دوڑا دی اس کی وہ قدر کرتے تھے۔ گرچہ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، فلسفہ، عالمی ادبیات، لسانیات اور مذاہب عالم کے موضوعات پر ان کے خیالات کی تونگری دیکھ کر رشک آتا تھا۔
غلام علی خان چین کے ساتھ میرا عقیدت کا تعلق اس وقت استوار ہوا جب میں جماعت نہم کا طالب علم تھا۔ ان کا بیٹا غلام قاسم خان میرا ہم جماعت ہے۔ میں شہر کے اہم تعلیمی ادارے گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ کے دار الاقامہ میں ٹھہر ہوا تھا۔ میرا آبائی گاؤں شہر سے پچاس کلو میٹر دور ہے اس زمانے میں ذرائع آمد و رفت کی حالت بہت خراب تھی۔ گاؤں سے آنے والی اکلوتی کھٹارہ بس یہ سفر پانچ گھنٹے میں طے کرتی تھی۔ اس خرابے کو خراب انجن بہت کم چلاتا تھا بالعموم مسافروں کے دست و بازو کے بھروسے پر بس کچی سڑک پر کچھوے کی رفتار سے رینگتی تھی۔ غلام علی خان چین ہر ہفتے میری خیریت دریافت کرنے سکول آتے، رئیس مدرسہ مہر محمد امیر خان ڈب سے ان کے قریبی تعلقات تھے، انھیں میرے بارے میں تا کید کرتے کہ اس طالب علم کی تعلیمی ترقی اور سکون قلب پر توجہ دی جائے۔ دار الاقامہ کے مہتمم عبدالحلیم انصاری سے بھی ملتے اور میری رہائش اور طعام کے معیار کے مسائل کا خود جائزہ لیتے تھے۔ ان کے گھر میں جب بھی کوئی خاص کھانا تیار ہوتا میرے لیے ٹفن بھر کر ضرور بھجوایا جاتا۔ ہم سب دوست جن میں رانا عزیز احمد، ظفر اللہ ملک، رانا ارشد علی، نور محمد سوز، پرویز اقبال اور غلام احمد شامل تھے جب مل کر یہ مزے دار کھانے کھاتے تو ان کی مہمان نوازی کے قائل ہو جاتے۔ رانا ارشد علی اسے من و سلویٰ کا نام دیتے اور شدت سے اس کے منتظر رہتے۔ ہفتے میں دو بار یہ ٹفن ہم تک ضرور پہنچتا۔ سچ تو یہ ہے کہ غلام علی خان چین ان تمام طالب علموں کو جو کہ ان کے بیٹے غلام قاسم خان کے ہم جماعت تھے، اپنے بیٹے کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ انسان دوستی اور انسانیت نوازی کا اس قدر بلند معیار کوئی بھی پیش نہیں کر سکتا۔ میرے ساتھ یہ معتبر ربط انھوں نے زندگی بھر بر قرار رکھا جو ان کی عظمت کی دلیل ہے۔ تعلیم و تدریس کے جدید ترین اسالیب پر غلام علی خان چین کو کامل دسترس حاصل تھی۔ اصول تعلیم، تعلیمی نفسیات، نصاب سازی اور نظم و نسق مدرسہ کے تمام مسائل پر انھیں عبور حاصل تھا۔ ان کی موثر تدریس کے اعجاز سے ان کے شاگرد جماعت پنجم کے امتحان میں ضلع بھر پہلی تین پوزیشنیں کہیں باہر نہ جانے دیتے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ان کی جماعت کے اگر دس طالب علم ہوتے تو پہلی دس پوزیشنیں ان کے شاگرد لے جاتے۔ یہ ان کا اتنا بڑا اعزاز و امتیاز ہے جس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔
تعلقات قائم کرنے میں غلام علی خان ایک وضع احتیاط کے قائل تھے لیکن جب کسی سے خلوص کا رشتہ استوار کر لیتے تو اس کو ہر صورت میں نبھاتے۔ ان کی دوستیاں لا محدود تھیں لیکن کسی سے کوئی مخاصمت ہر گز نہ تھی۔ انھوں نے ہر قسم کے امتیازات سے بالا تر رہتے ہوئے سب کی خدمت کو اپنا نصب العین بنا رکھا تھا۔ رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ )پر جب 1977میں فوجی حکومت کی طرف سے جبری برطرفی کی افتاد پڑی تو اس منظر جور و جفا کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ فالج کے جان لیوا عارضے میں مبتلا ہو گیا۔ اس پر ایسا برا وقت آیا کہ سب عزیز اسے چھوڑ گئے۔ غلام علی خان چین اس کی عیادت کو ہر ہفتے جاتے اور موسم کے کچھ پھل بھی ساتھ لے جاتے۔ ایک شام جب رام ریاض کی طبیعت سخت خراب تھی تو غلام علی خان چین وہاں پہنچے۔ انھیں دیکھتے ہی رام ریاض نے یہ شعر پڑھا :
چین آیا ہے تو اب نیند بھی آ جائے گی
اور دھرتی ہمیں آرام سے کھا جائے گی
اس کے چند روز بعد رام ریاض نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ رام ریاض کی یہ نعت وہ اکثر پڑھتے اور کہتے کہ رام ریاض ایک سچا عاشق رسول ﷺ تھا اس کی شاعری قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتی ہے :
جو بھی شیریں سخنی ہے میرے مکی مدنیﷺ
تیرے ہونٹوں کی چھنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ
نسل در نسل تیری ذات کے مقروض ہیں ہم
تو غنی ابن غنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ
غریب طالب علموں کے تعلیمی اخراجات وہ خود برداشت کرتے۔ حاجی محمد یوسف کی کتابوں کی دکان سے سٹیشنری خریدتے اور سکول کے مستحق طالب علموں میں بلا قیمت تقسیم کر دیتے۔ اپنی تدریس کو موثر بنانے کے لیے وہ تدریس کے دوران سمعی بصری معاونات کے بر محل استعمال سے اپنی تدریس کو مزید مو ثر بنا دیتے۔ تربیت اساتذہ کے مختلف کورسز کے دوران نو آموز اساتذہ کو تدریسی اسالیب سے آشنا کرنے کی غرض سے غلام علی خان چین کو بہ طور ماہر دعوت دی جاتی اور ان سے نمونے کے اسباق پڑھانے کی استدعا کی جاتی۔ وہ جب چاک تھام کر تختۂ تحریر پر لکھتے تو ید بیضا کا معجزہ دکھاتے۔ ان کی خوش نویسی، گل افشانی ء گفتار اور مسحور کن طریقہ تدریس کو دیکھ کر نو آموز اساتذہ حیرت زدہ رہ جاتے۔ غلام علی خان چین بلا شبہ استاد الاساتذہ تھے۔ آج ایسا استاد کہاں سے لائیں جسے ان جیسے اسلوب کا حامل کہا جا سکتا ہو؟ان کے تدریسی اسباق کی باز گشت آج بھی تربیت اساتذہ کے اداروں کمالیہ، گکھڑ، چنیوٹ اور پنڈورا (راول پنڈی )میں سنائی دیتی ہے۔
تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
تخلیق ادب سے غلام علی خان چین کو گہری دلچسپی تھی۔ اردو اور پنجابی زبان میں وہ شاعری کرتے تھے۔ ان کی شاعری کی بیاض میری نظر سے گزری ہے۔ ان کی شاعری قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے۔ اپنی خود نوشت سوانح عمری ’’ میری زندگی کا سفر ‘‘ کے عنوان سے انھوں نے تحریر کی۔ اپنی اس خود نوشت میں انھوں نامور شخصیات سے اپنی ملاقات کا احوال نہایت دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ جن ممتاز شخصیات سے ملے ان میں قدرت اللہ شہاب، محمد حسین آزاد، مولانا ظفر علی خان، تقی الدین انجم (علیگ )، سید عبدالباقی (عثمانیہ)، حکیم آفتاب احمد قرشی، محسن بھوپالی، ملک فیروز خان نون، فیض لدھیانوی، ڈاکٹر عبد السلام، یوسف شاہ قریشی، سید غلام بھیک نیرنگ، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، محمد منشا یاد، پریشان خٹک، غفار بابر، خاطر غزنوی اور حفیظ جالندھری کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس خود نوشت کا پیش لفظ اللہ دتہ سٹینو نے تحریر کیا اور حاجی محمد یوسف کی رائے بھی اس میں شامل تھی۔ اردو املا کے مسائل پر بھی انھوں نے ایک کتابچہ لکھا جس کا مسودہ ان کے کاغذات میں موجود ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے زیرک ، عبادت گزار اور فطین فرزند پروفیسر غلام قاسم خان ان مخطوطوں کی اشاعت پر توجہ دیں گے۔ یہ بات لائق صد افتخار ہے کہ اب غلام علی خان چین کی ہو نہار پوتی اردو ادبیات میں جامعہ پنجاب، لاہور سے ایم۔ اے کر چکی ہے۔ محمد شیر افضل جعفری پر اس ذہین طالبہ کا ایم۔ اے سطح کا تحقیقی مقالہ زیر طبع ہے۔ جس خلوص اور لگن کے ساتھ یہ خاندان پرورش لوح و قلم میں مصروف ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ روشنی کا وہ سفر تا ابد جاری گا جس کا آغاز غلام علی خان چین نے کیا تھا۔ بہ قول محسن بھوپالی :
ہم اندھیروں کی دسترس سے دور
روشنی کی طرح سفر میں ہیں
غلام علی خان چین ایک راسخ العقیدہ سنی مسلمان تھے۔ فرقہ وارانہ تعصب کے وہ سخت خلاف تھے۔ رنگ، نسل اور ذات پات کے امتیازات کو وہ لائق اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ توحید اوررسالت کو وہ ہر مسلمان کے لیے زاد راہ قرار دیتے تھے۔ وہ ایک عالم با عمل تھے، نماز با جماعت پڑھتے اور تہجد کی نماز بھی ادا کرتے تھے۔ وہ ایک مقرب بارگاہ ہستی تھے۔ ان کی دعائیں قبولیت کا درجہ حاصل کرتی تھیں۔ معرفت الٰہی کے جس ارفع مقام پر وہ فائز تھے اسے دیکھتے ہوئے رانا عزیز احمد (مرحوم)کہا کرتے تھے کہ غلام علی خان چین ایک صاحب باطن ولی ہیں اور ان کے بعد اس منصب پر ان کا عبادت گزار اور نیک فرزند پروفیسر غلام قاسم خان فائز ہے۔ پروفیسر رانا ارشد علی خان(مرحوم) جوپروفیسر غلام قاسم خان کے قریبی ساتھی تھے وہ اس بات کی تصدیق کیا کرتے تھے کہ عشق رسول ﷺ اور معرفت الٰہی کے اعجاز سے پروفیسر غلام قاسم خان اپنے عظیم والد غلام علی خان چین کے ما نند اپنے عہد کے ابدال ہیں۔ پروفیسر دیوان الیاس نصیب (مرحوم )بھی اس خاندان کے کشف و کرامات سے واقف تھے۔ اس لیے وہ کہا کرتے تھے کہ پروفیسر غلام قاسم خان جو ایک ولیِ کامل ہیں اگر ریٹائر منٹ کے بعد بے لوث انداز میں دم درود اور تعویذ دھاگہ دینے کا سلسلہ شروع کر دیں تو یہ دکھی انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ مستقبل کے واقعات زندگی کے ارتعاشات ، تقدیر اور ایام کے نشیب و فراز سے مکمل طور پر آشنا یہ مرد فقیر اپنی حقیقت کا بھید کسی کو نہیں بتاتا۔
محرم بھی ہے ایسا ہی جیسا کہ ہے نا محرم
کچھ کہہ نہ سکا جس پر یاں بھید کھلا تیرا
فلاحی اور رفاہی کاموں میں غلام علی خان چین نے بے دریغ رقم خرچ کی۔ اپنے گھر کے عین سامنے موجود تیرہ سو سال قدیم تاریخی مسجد شلیانی کی تعمیر نو کے سلسلے میں ان کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ انھوں نے خود گارا اٹھایا اور تعمیری کام میں مزدور کی حیثیت سے کام کر کے محنت کی عظمت کے انمٹ نقوش دیکھنے والوں کی لوح دل پر ثبت کر دئیے۔ اپنی زندگی میں مسجد کے جملہ اخراجات کے سلسلے میں وہ کسی کے دست نگر نہ رہے۔ وہ اور ان کے مخلص دوست باہمی تعاون سے اس نیک کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف رہے۔ شہر میں موجود درد مندوں اور ضعیفوں کی داد رسی کے لیے وہ اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے۔ حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )کے مطب کے لیے درکار جڑی بوٹیاں اور عرقیات کی کشید کے لیے ایندھن کی فراہمی کی ذمہ داری انھوں نے رضاکارانہ طور پر لے رکھی تھی۔ اس طرح صدقۂ جاریہ کے متعدد کاموں میں حصہ لے کر اور فیض کے اسباب بنا کر انھوں نے ایک ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک ان کا نام زندہ رکھے گی۔ ایسے لوگ یادگار زمانہ ہوتے ہیں جن کا وجود اللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہوتا ہے۔ ان کی نیکیاں، عبادات، فلاحی کام اور خدمت خلق ہمیں آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتی ہے۔ ہم صدائے جرس کی جستجو میں دیوانہ وار بھٹکتے پھرتے ہیں لیکن اپنے رفتگاں کے غم سے نڈھال ہو کر سکوت کے صحرا کے سرابوں میں پھنس جاتے ہیں۔ آج جب میں پیچھے مڑ کر بیتے لمحوں کی چاپ پر دھیان دیتا ہوں تو اپنے ان شفیق بزرگوں کی دائمی مفارقت خون کے آنسو رلاتی ہے اور پوری زندگی دکھ اور کرب کے سانچے میں ڈھلی معلوم ہوتی ہے۔ کیا زندگی میں ان جیسا کوئی محسن اور مل سکے گا اس کا جواب حد درجہ غیر امید افزا ہے بہ قول شہر یار :
زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہو گی
دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے
نامور شاعر امیر اختر بھٹی جھنگ کو شہر صد رنگ کے نام سے تعبیر کرتے تھے۔ اس شہر کا ہر رنگ جس طرح عجب سے عجیب رہا ہے یہ ایک ایسا معما جو نہ سمجھنے کا ہے اور نہ ہی سمجھانے کا ہے۔ اس شہر میں کئی پر اسرار فقیر اور درویش منش انسان ہر دور میں موجود رہے ہیں جن کی حقیقت کا کوئی شناسا نہ تھا۔ ان کے بحر خیالات کا پانی اس قدر گہرا تھا کہ اس کی غواصی کرنے والوں کو بھی گوہر مراد نہ مل سکا۔ ان میں جھنگ کا کرموں موچی (کرم دین جفت ساز )جس کا ذکر قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت ’’شہاب نامہ ‘‘ میں کیا ہے وہ غلام علی خان چین کا قریبی دوست تھا۔ یہ صاحب بصیرت درویش جھنگ صدر میں پہلے ریل بازار چوک پر واقع نور ہوٹل (اب اس مقام پر اونی، سوتی اور ریشمی کپڑے کے تجارتی مرکز کی چار منزلہ عمارت تعمیر ہو چکی ہے )کے سامنے زمیں پر بیٹھ کر غریب راہ گیروں کے سفر کے دوران ٹوٹ جانے والے پرانے جوتے مفت گانٹھتا تھا۔ اس کے بعد وہ شہید روڈ پر فردوس سنیما(اب یہ سنیما گرا دیا گیا ہے اور اس مقام پر بڑی مارکیٹ بن چکی ہے )کے سامنے سارا دن بیٹھا رہتا اور پرانے جوتوں کی مرمت کرتا۔ یہاں سے اٹھا تو وہ سیشن چوک میں چلا آیا اور یہاں ڈیرے ڈال دئیے۔ یہ پر اسرار موچی ( کرم دین عرف کرموں )ہر جمعہ کو غلام علی خان چین اور اللہ دتہ سٹینو (اس کا ذکر بھی قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت ’’شہاب نامہ ‘‘ میں کیا ہے )سے ملنے جھنگ شہر آتا سر شام یہ ایک آنے والے حجام (اللہ دتہ )، چار آنے والے حکیم (احمد بخش)اور حاجی محمد یوسف کے پاس پہنچ جاتے۔ کبھی کبھی بابا مودا (میاں مراد علی )بھی ادھر آ نکلتا۔ اقلیم معرفت کے یہ پر اسرار بندے دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پا چکے تھے۔ ان سب کی زندگی شمع کے ما نند گز رہی تھی اور ان کا وجود مہیب سناٹوں میں بانگ درا اور سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر ثابت ہوا۔ ان سب کی مثال اس شجر سایہ دار کی تھی جو سارا دن دھوپ میں جلتا ہے لیکن راہ گیروں کو خنک چھاؤں فراہم کرتا ہے۔ یہ وہ بور لدے چھتنار تھے جن کی ثمر بار زندگی اہل درد کے لیے فیض رساں تھی۔ پھر ہم نے آسمان کا یہ رنگ بھی دیکھا کہ زمین ایسے مستغنی فقیروں، پر اسرار درویشوں اور فیض کے سر چشموں سے خالی ہونے لگی۔ ریگ ساحل پر مرقوم وقت کی ان یادگار تحریروں کو سیل زماں کی موجیں بہا لے گئیں۔ معرفت، درویشی اور فقیری کی یہ دنیا اب ماضی کی داستان بن چکی ہے۔ یہ سب درویش اس عالم آب و گل میں فقیرانہ آئے، نیکی اور فلاح کی صدا کی اور عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ اب انھوں نے اتنی دور بستیاں بسا لی ہیں کہ یاد رفتگاں کا بھی حوصلہ نہیں ہوتا۔ ان کے نقوش قدم کوہساروں کی بلندی کا پتا دیتے ہیں جن پر چلنے کے لیے تیشۂ نظر اور بصیرت کی ضرورت ہے جو قحط الرجال کے موجودہ دور میں عنقا ہو چکی ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ ان فقیروں نے دکھی انسانیت کو سکون قلب، درویشی، عشق و مستی ، قناعت اوراستغنا کے جن لمحات سے آشنا کیا وہ اب خیال و خواب بن چکے ہیں۔ یہ لوگ کیا گئے کہ حسن و خوبی کے تمام استعارے اور سسکتی انسانیت کے بے لوث سہارے کہیں نظر نہیں آتے۔ خار مغیلاں سے اٹے ہوئے راستوں کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے مسرت اور اطمینان کے احساس سے سرشار زندگی کا سفر طے کرنے والے ان آبلہ پا مسافروں نے زندگی کی جن کٹھن مسافتوں کو طے کیا، وہ ان کی عظمت کی دلیل ہے۔
اف وہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہ جہاں سے گزرے
غلام علی خان چین آج ہمارے درمیان موجود نہیں۔ ان کے نہ ہونے کی ہونی پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل سوگوار ہے۔ تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔ ہم پر لازم ہے کہ اس درویش منش، فرشتہ سیرت مرد قلندر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بے لوث محبت، دکھی انسانیت کی خدمت اور علم کی روشنی کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں انھیں خراج تحسین پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے حصے کی شمع فروزاں کریں تا کہ سفاک ظلمتوں کو کافور کیا جا سکے۔ اللہ کریم انھیں جوار رحمت میں جگہ دے ان کی زندگی روشنی کا ایسا سر بہ فلک مینار ہے جسے دیکھ کر ہر دور کے رہروان منزل اپنے رستوں کا تعین کریں گے۔ میری دعا ہے کہ اللہ کریم غلام علی خان چین کی قبر کو جنت کے باغ میں بدل دے اور ان کی روح جنت میں سکون سے رہے۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
٭٭٭
حافظ ارشاد احمد: ایک چراغ اور بجھا
پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اٹھی آواز تیری آئی
30جون 2011کی صبح حافظ ارشاد احمد نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ وہ12۔ اگست1957کو جھنگ شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد برکت علی انصاری کا تعلق ایک ممتاز مذہبی خاندان سے تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہوشیارپور (بھارت)سے ہجرت کر کے جھنگ پہنچا۔ انتہائی نا مساعد حالات میں بھی اس خاندان نے عزت نفس، شخصی وقار، خودی اور انا کا بھرم برقرار رکھا۔ ہجرت کے بعد قناعت، خود داری اور استغنا کی جو درخشاں مثال اس خاندان نے پیش کی وہ ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہو س زر و مال کے اسیر لوگ زندگی کی اعلیٰ اقدار و روایات کو بالائے طاق رکھ کر جس بے دردی سے جعلی کلیموں کے ذریعے لوٹ کھسوٹ میں مصروف تھے یہ ایک لرزہ خیز اعصاب شکن المیہ ہے۔ چربہ ساز، سارق اور کفن دزد عناصر نے وسائل کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا مگر حافظ ارشاد احمد کا خاندان ہجرت کے بعد کی پریشاں حالی میں صبر و استقامت کا پیکر بن گیا جھنگ شہر کے ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں گزر بسر کی، محنت مزدوری کو شعار بنایا۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ رزق حلال کمایا اور اپنا پیٹ کاٹ کر پندرہ سال میں اس قدر معقول رقم پس انداز کر لی کہ جھنگ شہر کے جنوب میں واقع ایک کچی آبادی (مصطفیٰ آباد )میں اپنے لیے سر چھپانے کے لیے ایک جھونپڑا تعمیر کرنے کے قابل ہو گئے۔ ان کے والدین نے کبھی در کسریٰ پر صدا نہ کی وہ خوب جانتے تھے کہ یہ جامد کھنڈر اور سنگلاخ دیواریں زندہ انسانوں کے مسائل کا احساس و ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ اس رزق پر موت کو ترجیح دیتے تھے جس کے حصول کے لیے حریت فکر اور حریت ضمیر سے جینے کی راہیں مسدود ہو جائیں۔
حافظ ارشاد احمد نے ایک معزز دینی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد اور والدہ پابند صوم و صلوٰۃ تھے اور تہجد گزار تھے۔ وہ اکثر اپنی اولاد کو سمجھایا کرتے تھے کہ فغان صبح گاہی سے انسان کو اپنے رب کی معرفت نصیب ہوتی ہے اور انسان اپنے خالق کے حضور سر بہ سجدہ ہو کر جب رو رو کر اپنے دکھوں کا مداوا چاہتا ہے تو رحمت خداوندی جوش میں آ جاتی ہے اور دعا کرنے والے کو اللہ ہو میں امان مل جاتی ہے۔ یہ ایک سجدہ جو انسان کی طبع نازک پہ گراں گزرتا ہے یہی سجدہ انسان کو در بہ در اور خاک بہ سر ہونے اور ہزار جگہ پر جعلی بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے بچاتا ہے۔ جھنگ شہر سے ابتدائی پرائمری تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ایک مقامی مسجد میں دینی تعلیم کے لیے درس میں داخل ہو گئے۔ اپنی خداداد ذہانت اور لگن سے انھوں نے ایک سال میں قرآن پاک حفظ کر لیا اور وفاق المدارس پاکستان سے انھیں اس کی سند عطا کی گئی۔ وہ ایک فطین طالب علم تھے۔ انھوں نے درس نظامی کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ تحصیل علم کے لیے ان کی مساعی جاری رہیں اور انھوں نے عربی اور اسلامیات میں ایم کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد حافظ ارشاد احمد نے محکمہ شناختی کارڈ میں کچھ عرصہ ملازمت کی لیکن جلد ہی اس محکمے کو خیر باد کہہ دیا اور محکمہ تعلیم پنجاب میں عربی اور اسلامیات کے معلم کی حیثیت سے اپنی پسند کی ملازمت کا آغاز کیا اور آخری سانس تک وہ درس قرآن و حدیث اور سیرت و تاریخ اسلام کی تدریس پر مامور رہے۔ جب ان کا آخری وقت آیا تو وہ تلاوت قرآں حکیم میں مصروف تھے۔ اچانک دل میں ایک درد اٹھا، انھوں نے سجدے میں سر رکھا، چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
نشان مرد مومن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست
نیکی کس روحانی جذبے کا نام ہے اور نیکی انسان کے ریشے ریشے میں کیسے سما جاتی ہے اس کو سمجھنے کے لیے حافظ ارشاد احمد جیسے فرشتہ سیرت، نیک خصلت انسان کی عملی زندگی کا مطالعہ بہت اہم ہے۔ بہترین انسانوں کی زندگی کے روز و شب کا عمیق مطالعہ اور مشاہدہ اس صلاحیت سے متمع کرتا ہے جو مس خام کو کندن بنا نے پر قادر ہے۔ حافظ ارشاد احمد کے حلقۂ احباب میں کئی نابغۂ روزگار علما و فضلا شامل تھے۔ ان میں سے بعض تو افق ادب پر مثل آفتاب و ماہتاب ضو فشاں رہے۔ میر ی مراد سید جعفر طاہر، شیر افضل جعفری، رام ریاض، رفعت سلطان، کبیر انور جعفری، تقی الدین انجم (علیگ)، خادم مگھیانوی، سید مظفر علی ظفر، مجید امجد، رانا سلطان محمود، غلام علی چین، خادم رزمی، عبدالعزیز خالد، الحاج سید غلام بھیک نیرنگ، حفیظ ہوشیارپوری اور پروفیسر سمیع اللہ قریشی جیسے مشاہیر علم و ادب ہیں جنھوں نے اپنے افکار کی ضیا پاشیوں سے اکناف عالم کا گوشہ گوشہ منور کر دیا۔ حافظ ارشاد احمد نے ان تمام مشاہیر علم و ادب سے بالواسطہ یا بلا واسطہ اکتساب فیض کیا اور تمام عمر اس پر نازاں رہے۔ وہ اکثر ان عظیم ہستیوں کو یاد کرتے اور ان کی تخلیقی کامرانیوں کہ بہ نظر تحسین دیکھتے ہوئے بر ملا کہتے کہ زمانہ لاکھ ترقی کرے ایسے آفتاب و ماہتاب پھر کبھی افق ادب پر طلوع نہیں ہو سکتے۔ یہ لوگ اپنی ذات میں انجمن اور ایک دبستان تھے۔ انھیں محشر خیال نہیں بلکہ ایک ایسا محشر عمل قرار دیتے جن کے افکار نہ صرف فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا مؤثر ترین وسیلہ ہیں بلکہ ان رجحان ساز ادیبوں نے اذہان کی تطہیر و تنویر کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان سے حالات کی کایا پلٹ گئی اور دلوں کا ایک ولولۂ تازہ نصیب ہو ا۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے جب وہ ان عظیم تخلیق کاروں کو یاد کرتے تو یہ شعر ضرور پڑھتے :
وہ صورتیں الہٰی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
گورنمنٹ کالج جھنگ کے تاریخی ادبی مجلے ’’ کاروان ‘‘کے وہ بہت بڑے مداح تھے۔ 1926سے باقاعدگی سے شائع ہونے والے اس رجحان ساز علمی و ادبی مجلے نے گزشتہ آٹھ عشروں میں علم و ادب اور تاریخ، اسلامیات، جدید و قدیم علوم اور فنون لطیفہ کے فروغ میں جو عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں وہ انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ہر سال جب ’’کاروان‘‘ شائع ہوتا تو حافظ ارشاد احمد اسے حاصل کرنے کے لیے اپنی عظیم مادر علمی گورنمنٹ کالج جھنگ پہنچتے اور اور اس کے صدر دروازے پر پہنچ کر اسے سلیوٹ کرتے اور اس بات کا اعتراف کرتے کہ یہ عظیم درس گاہ ذرے کو آفتاب بنا دیتی ہے۔ جو اس عظیم مادر علمی کی تاریخی خدمات کا معترف نہیں وہ آپ بے بہرہ ہے۔ حافظ ارشاد احمد ایک وسیع المطالعہ دانش ور تھے۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے کتب خانے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد نادر و نایاب کتب موجود ہیں۔ ان میں سے بیشتر حافظ ارشاد احمد کے زیر مطالعہ رہیں۔ وہ مذہب، فلسفہ، تاریخ، ادب، نفسیات اور علم بشریات سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ متعدد زبانوں پر دسترس رکھتے تھے ان میں عربی، فارسی، اردو ، پنجابی، انگریزی، پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچی، پشتو اور ہندکو قابل ذکر ہیں۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے اکثر اساتذہ کے ساتھ ان کے عقیدت سے لبریز تعلقات تھے۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے جو نامور اساتذہ حافظ ارشاد احمد کی علمی فضیلت، تنقیدی اور تحقیقی بصیرت کے معترف رہے ان میں مہر بشارت خان، دیوان الیاس نصیب، نور احمد ثاقب، اقتدار واجد، محمد شریف خان، غلام مرتضیٰ شاکر ترک، عمر حیات بالی، عباس ہادی، عبد الستار چاولہ، محمد عبدالسعید اور عاشق حسین فائق کے نام بہت اہم ہیں۔ ان سب کے ساتھ وہ مختلف اوقات میں رابطے میں رہے اور علمی، ادبی اور مذہبی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ یہ نشستیں اکثر شام کو باغ نباتات کے حسین سبزہ زار میں ہوتیں ان میں حافظ ارشاد احمد سے مولانا ظفر علی خان کی یہ نعت ترنم کے ساتھ سنی جاتی۔ جب وہ یہ نعت پڑھتے تو تمام حاضرین پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔ وہ ایک سچے عاشق رسول تھے۔ یہ نعت انھیں خود بھی بہت پسند تھی ؛
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
پھوٹا جو سینۂ شب تار الست سے
اس نور اولیں کا اجالا تمہی تو ہو
سب کچھ تمھارے واسطے پیدا کیا گیا
سب غایتوں کی غایت اولیٰ تمہی تو ہو
جلتے ہیں جبریل کے پر جس مقام پر
اس کی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو
دنیا میں رحمت دو جہاں اور کون ہے
اے تاجدار یثرب و بطحا تمہی تو ہو
جھنگ کے ممتاز شاعر رام ریاض کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ جھنگ شہر میں وہ ان کے ہمسائے تھے۔ حافظ ارشاد احمد نے انھیں بتایا کہ ان کی نعت گوئی ان کے لیے آخرت میں زاد راہ ثابت ہو گی۔ انہی کے اصرار پر رام ریاض نے یہ نعت لکھی اور جب حافظ ارشاد احمد نے یہ نعت سنی تو ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ وہ مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ کون کہتا ہے کہ رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ )صرف غزل کا شاعر ہے اردو نعت گوئی میں بھی وہ بہت امکانات سامنے لا سکتا ہے۔ ان کی یہ نعت موضوع، اسلوب اور اظہار میں اس قدر بلند پایہ ہے کہ انھیں شہرت عام اور بقائے دوام عطا کرنے کا وسیلہ ہے۔ یہ نعت اردو کے نعتیہ سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہے۔ رام ریاض کی یہ نعت حافظ ارشاد احمد نے کئی ادبی محفلوں میں پڑھی وہ اس بات پر نازاں تھے کہ ان کی تحریک پر رام ریاض نے اردو نعت گوئی پر توجہ دی اور اپنی نعت گوئی کی بدولت صف حسان بن ثابت میں شامل ہو گئے۔
جو بھی شیریں سخنی ہے مرے مکی مدنی
تیرے ہونٹوں کی چھنی ہے مرے مکی مدنی
نسل در نسل تیری ذات کے مقروض ہیں ہم
تو غنی ابن غنی ہے مرے مکی مدنی
دست قدرت نے ترے بعد پھر ایسی تصویر
نہ بنائی نہ بنی ہے مرے مکی مدنی
ترا پھیلاؤ بہت ہے ترا قامت ہے بلند
تری چھاؤں بھی گھنی ہے مرے مکی مدنی
رام ملحد کہ مسلماں ہے کوئی فیصلہ دے
ہر طرف رائے زنی ہے مرے مکی مدنی
حافظ ارشاد احمد تمام عمر ہوس مال و زر سے متنفر رہے۔ وہ رزق حلال کے ذریعے جو کچھ کماتے وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت اور گھر کے روزمرہ اخراجات پر خرچ کرتے۔ جو رقم پس انداز کرتے اسے محتاجوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کر دیتے۔ زر و مال کو جمع کرنے کے بجائے وہ اسے مستحقین میں تقسیم کرنے کی کوئی نہ کوئی صورت تلاش کر لیتے۔ یہی ان کی شخصیت اور کردار کے حسن و جمال کا راز ہے۔ وہ یہ بات زور دے کر کہا کرتے تھے کہ یہ مال و دولت دنیا اور رشتہ و پیوند سب بتان وہم و گماں ہیں۔ دولت کو پائے استقامت سے ٹھکرانے میں جو خاص لطف ہے وہ اس کے دیوانہ وار حصول میں نہیں۔ ان کی زندگی لین دین کے بجائے دین ہی دین کا ایک نمونہ تھی۔ انسانیت سے بے لوث محبت ہمیشہ ان کا نصب العین رہا۔ غریب اور مستحق طلبا کی مالی امداد کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتے۔ اپنے پڑوس میں رہنے والے متعدد طلبا کو انھوں نے درسی کتب اور یونیفارم اپنی گرہ سے خرید کر دی۔ وہ کچی آبادی پر مشتمل ایک ایسے علاقے میں رہتے تھے جہاں کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا ہے۔ ان کی کوششوں سے وہاں علم کی روشنی پھیلی اور چائلڈ لیبر کے بڑھتے ہوئے رجحان میں کمی واقع ہوئی۔ وہ بچے جو برقی کھڈیوں پر دھاگہ پا ور لوموں پر کپڑا بننے کے لیے نلیوں پر بھرتے تھے اب وہ سکول جانے لگے اور وہ کم سن بچیاں جو غربت کے باعث قالین بافی پر لگا دی جاتی تھیں اب تعلیمی اداروں کا رخ کرنے لگیں۔ آج سے چار عشرے قبل شروع کی جانے والی ان کی یہ مساعی اب رنگ لا رہی ہیں اور گھر تعلیم کے چرچے ہیں۔ جب بھی کوئی طالب علم اعلیٰ کامیابی حاصل کرتا تو وہ اس طالب علم کو انعام دیتے اور اس کا حوصلہ بڑھاتے۔ ایسے کمٹڈ اساتذہ اب معاشرے میں عنقا ہیں۔
انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے انھوں نے مقدور بھر جد و جہد کی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حیات اور کائنات کے تمام درد وہ اپنے دل پر محسوس کرتے تھے۔ ان کی خواہش ہوتی تھی کہ سفاک ظلمتیں کافور ہوں اور قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دیا جائے اور اس عالم آب و گل کے چپے چپے پر اسم خاتم النبیین سے اجالا کر دیا جائے۔ ہر برباد کو آباد کرنے والا اور غم زدہ کو مسرور اور دلشاد کرنے والا یہی مبار ک نام ہے۔ وہ توحید، رسالت، قرآن حکیم، حدیث پاک اور بزرگان دین کی تعلیمات کو مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کے لیے نا گزیر خیال کرتے تھے۔ وہ کثیر المطالعہ استاد تھے ان کے ذاتی کتب خانے میں سیکڑوں نادر کتب موجود ہیں۔ اردو ادب سے انھیں گہر الگاؤ تھا۔ اردو ادب کی تحریکوں کے بارے میں ان کی رائے ہمیشہ بصیرت افروز ہوتی تھی۔ علی گڑھ تحریک کو بر عظیم پاک و ہند میں جمود کے خاتمے کا نقطۂ آغاز قرار دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1857کے بعد ملت اسلامیہ کی مثال ایک ایسے ہجوم کی تھی جو سرابوں میں بھٹک رہا تھا۔ سر سید احمد خان اور ان کے نامور رفقائے کار کی آواز گویا بانگ درا تھی جس نے اسے کارواں کی شکل دی اور یہ کارواں ایک نئے عزم اور ولولے سے سوئے منزل جادہ پیما ہو گیا۔
موجودہ زمانے میں قحط الرجال نے ایک گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔ خود غرضی، غیبت، مفاد پرستی اور ایذا پسندی کی قبیح روش کے باعث معاشرتی زندگی کو نا قابل اندمال صدمات کا سامنا ہے۔ ان ہولناک حالات میں بھی وہ لوگ عظیم ہوتے ہیں جو ایک شان استغنا، خود داری اور قناعت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ حافظ ارشاد احمد ایسے ہی انسان تھے۔ وہ ہمیشہ تعمیر پر توجہ دیتے۔ کسی کی تخریب، عیب جوئی یا غیبت سے انھوں نے کبھی کوئی تعلق نہ رکھا۔ مساجد کی تعمیر و تزئین ہو یا تعلیمی اداروں کی توسیع و ترقی وہ ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے مگر کبھی ستائش اور صلے کی تمنا نہ کی۔ غربت و افلاس، مجبوری و محرومی اور بے سروسامانی کے پاٹوں میں پسنے والی انسانیت کے تکلیف دہ مسائل کو وہ خوب سمجھتے تھے کیونکہ وہ خود ان تجربات کا حصہ رہ چکے تھے۔ دنیا کے دیئے گئے تجربات و حوادث سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا اور اس کی روشنی میں اپنا مستقبل کا لائحہ عمل منتخب کیا۔ اہل درد سے انھوں نے جو پیمان وفا باندھا تمام عمر اسے استوار رکھا اور اسی کو علاج گردش لیل و نہار سمجھتے ہوئے اس پر کار بند رہے۔
آج کے دور کو وہ ایک دور بیگانگی سے تعبیر کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہوس نے نوع انساں کو انتشار اور پراگندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہوا ہے کہ انسان کی عدم شناخت اور فرد کی بے چہرگی کا مسئلہ روز بہ روز شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ انسان کی اس بوالعجبی کا احساس مفقود ہے۔ انسان شناسی میں جو مہارت حافظ ارشاد احمد کو حاصل تھی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ انسانی ہمدردی ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی۔ ان کی کتاب زیست کے متعدد اوراق ابھی ناخواندہ ہیں۔ وہ ایک صاحب باطن ولی تھے۔ انھوں نے معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں کے خلاف انتھک جدوجہد کی اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے ذاتی اثر و رسوخ استعمال کیا۔ سرکاری اہل کاروں، مقامی کونسلروں اور معززین علاقہ سے ان کا رابطہ رہتا۔ وہ یتیموں، بیواؤں اور فاقہ کش غریبوں کی اس زندگی جو کہ ایک جبر مسلسل بن چکی تھی اس میں بہتری لانے کے آرزو مند تھے۔ ان کا خیال تھا کہ فقیروں کے حالات تو جوں کے توں ہیں جب کے بے ضمیروں کے وارے نیارے ہیں۔ اہل وفا کی صورت حال دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتے اور اسے نیرنگیِ سیاست دوراں قرار دیتے کہ جاہ و منصب پر ان لوگوں نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے جو کبھی شریک سفر ہی نہ تھے۔ ایک زیرک معلم اور حساس ادیب کی حیثیت سے انھوں نے زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ کی خاطر حریت فکر کا علم بلند رکھا۔ نوجوان نسل میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کے لیے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ وہ ایک مصلح تھے ان کے بار احسان سے معاشرے کے تمام افراد کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔
حافظ ارشاد احمد نے اگرچہ علوم اسلامیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن عالمی ادبیات پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ ادب، کلچر اور اس سے متعلقہ مسائل کے بارے میں وہ حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک جری تخلیق کار اور حریت ضمیر سے زندگی بسر کرنے والا ادیب تیشۂ حرف سے فصیل جبر کو منہدم کر سکتا ہے۔ اللہ کریم نے انھیں ایک ایسی جمالیاتیحس سے متمتع کیا تھا جس کی بدولت وہ ان تمام مظاہر کو پہچان لیتے تھے جن کے باعث زندگی کا حسن گہنا رہا ہے۔ انھیں اس بات کا رنج تھا کہ بعض لوگوں کی بے بصری، کور مغزی اور کوتاہ اندیشی کے باعث زندگی کا تمام منظرنامہ ہی مسموم ماحول کی بھینٹ چڑھ گیا ہے اور رتیں بے ثمر، کلیاں شرر اور زندگیاں پر خطر ہو گئی ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ زندگی کی صورت گری ایسی ہونی چاہیے جیسی کہ قدرت کاملہ کی منشا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی سر آدم بھی ہے اور ضمیر کن فکاں بھی۔ زندگانی کی حقیقت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں کا منظر نگاہوں میں رہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ محنت پیہم کے بغیر کوئی جوہر کبھی نہیں کھلتا۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ عقیق سو بار کٹتا ہے تب نگیں بنتا ہے اور خانۂ فرہاد میں اگر امید کی کرن دکھائی دی تو وہ شرر تیشہ کی مرہون منت ہے۔ وہ زندگی میں رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے پوری آب و تاب کے ساتھ دیکھنے کے متمنی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ زندگی کی حسین مرقع نگاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ اہل قلم سے ان کی ہمیشہ یہ توقع رہی کہ وہ لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھیں اور تخلیق فن کے لمحوں میں حسن کاری سے ید بیضا کا معجزہ دکھائیں۔ اس طرح زندگی کی حقیقی معنویت کا اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔ انھیں اس بات کا شدید قلق تھا استحصالی عناصر ہمیشہ مکر کی چالوں سے سادہ لوح عوام کو جل دے جاتے ہیں اور غریب اکثر مات کھا جاتے ہیں۔ وہ سلطانی ء جمہور کے زبردست حامی تھے۔ وطن اور اہل وطن سے ان کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کا امتیازی وصف تھا۔ ارض وطن کے ذرے ذرے سے ان کو پیار تھا۔ وہ یہ بات ببانگ دہل کہتے کہ حب وطن ملک سلیماں سے بہتر ہے اور وطن کا خار سنبل و ریحان سے حسیں ہے۔ وطن کو وہ مادر وطن کہتے تھے اور اسی لیے کہ یہاں سے تمام شہریوں کے لیے بلا امتیاز راحت، مسرت، خوشحالی، ترقی اور وقار کے سوتے پھوٹتے ہیں جن سے نہاں خانۂ دل میں امیدوں کی فصل سیراب ہوتی ہے۔ مادر وطن کے خلاف الزام تراشی کرنے والوں سے وہ بیزار تھے اور یہ شعر اس حوالے سے پڑھتے تھے:
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
ہر ملنے والے کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے بھر پور رویہ اختیار کرنا حافظ ارشاد احمد کا معمول تھا۔ عجز و انکسار، صبر و تحمل اور شفقت ان کی طبیعت کا اہم پہلو سامنے لاتے تھے۔ ان سے مل کر واقعی زندگی سے والہانہ محبت ہو جاتی تھی۔ وہ ہر حال میں راضی بہ رضائے الٰہی رہتے۔ ان کی زندگی میں بھی متعدد نشیب و فراز آئے، کئی سخت مقام آئے مگر انھوں نے مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کا جو ارفع معیار قائم کیا وہ نہ صرف لائق صد رشک و تحسین ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں جب کہ اہل جور نے دروغ گوئی، غیبت طرازی اور ایذا رسانی کو اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے ایسے افراد کا وجود پروردگار عالم کا بہت بڑا انعام ہے جو دکھی انسانیت کے لیے سراپا فیض ہیں۔ حافظ ارشاد احمد بھی پروانے کی صورت تھی جو انسانی ہمدردی کی شمع پر نثار ہونے کے لیے بے قرار رہا اور کسی خوف کی پروا کیے بغیر سب کچھ اپنے ابنائے وطن پر نچھاور کر دیا۔ اگرچہ کم گوئی اور سنجیدگی ان کا شعار تھا اس کے با وجود کبھی کبھی وہ مسکراتے بھی تھے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا نے کی سعی کر رہے ہیں۔ ان کی مستحکم شخصیت ماحول اور معاشرے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور متنوع کیفیات سے ایک تعلق استوار کر لیتی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ نے ذاتی پسند اور دلچسپیوں کے تمام تصورات کو یکسر بدل دیا ہے۔ حافظ ارشاد احمد نے اپنے چاروں بچوں کو حافظ قرآن بنایا اور اس کے بعد یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے اعلیٰ تعلیم دلائی۔ وہ جدید دور کی ٹیکنالوجی سے آگاہ تھے۔ کمپیوٹر کے استعمال اور انٹر نیٹ پر موجو سائبر کتب خانوں سے وہ استفادہ کرتے تھے۔ علامہ اقبال سائبر لائبریری، لاہور میں موجود اردو زبان و ادب کے بیش بہا مخزن کو وہ عالمی ادب کے لیے بہت بڑا اثاثہ سمجھتے تھے۔ سائبر کتب خانوں کی بدولت بنیادی مآخذ تک رسائی میں جو مدد ملی ہے اسے وہ ایک انقلاب سے تعبیر کرتے تھے۔ اسے وہ جہان تازہ کی ایک جھلک سمجھتے تھے۔ وہ اکثر محو حیرت ہو کر کہتے کہ اب مطالعہ اور تحقیق کا انداز بالکل بدل گیا ہے۔ اب پوری دنیا نے ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر لی ہے۔ وہ انسانیت کے سفینے کو بحر بے کراں میں رواں دواں دیکھنے کی تمنا کرتے۔
حافظ ارشاد احمد کے دوست احباب کثیر تعداد میں تھے لیکن کسی دشمن کے بارے میں انھیں کچھ معلوم نہ تھا۔ میرا خیال ہے ان کا کوئی مخالف کبھی موجود نہیں رہا۔ ان کی شرافت، پاکیزگی، زہد و تقویٰ کی وجہ سے سفہا اور اجلاف و ارزال کو ان کے قریب آنے کی ہمت نہ ہوتی۔ سارے بے کمال اس صاحب کمال کی ضیا پاشیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے مانند شپر غائب ہو جاتے۔ وہ بے لوث محبت کے اعجاز سے اپنی محفلوں کو پر رونق بنا دیتے۔ احباب ان کی طرف کھنچے چلے آتے۔ بے لوث محبت، بے با ک صداقت اور حریت فکر کے ارفع جذبات نے ان کی شخصیت کو باغ و بہار کا روپ عطا کر دیا تھا۔ ان کی محبت کئی مداروں میں بہ یک وقت سر گرم عمل رہتی ان میں توحید، رسالت، قرآن حکیم، مشاہیر اسلام، وطن اور اہل وطن کے علاوہ اولاد ۔۔حتیٰ کہ پور ی انسانیت کے دھنک رنگ مناظر قلب و نظر کو مسخر کر رہے ہیں۔ یہ ایسی محبت تھی جو انھیں حصار ذات سے باہر نکال کر ایک وسیع معنویت سے آشنا کرتی اور ایک ایسے حیاتیاتی رشتے کی نمود ہوتی جو تخلیق کائنات کا مظہر ہے۔ وہ بولتے تو باتوں سے پھول جھڑتے۔ ان کی محفل میں ہر شخص کو اتنی عزت و تکریم ملتی کہ سب ان کے گرویدہ ہو جاتے
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
ورق ورق نہ سہی عمر رائیگاں میری
ہوا کے ساتھ مگر تم نہ عمر بھر رہنا
کچھ عرصہ پہلے ان سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی کتاب زیست کو مرتب کر رہے ہیں۔ حیف صد حیف کہ فرشتۂ اجل نے ان کے ہاتھ سے قلم چھین لیا اور ایک فعال تخلیق کار اچانک ہماری محفل سے اٹھ گیا۔ حافظ ارشاد احمد آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کے افکار، تدریسی تجربات اور مذہبی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور سراپا خیر تھے۔ انھوں نے نہایت نیک نیتی سے نئی نسل کی تربیت کی۔ ان کی نیت طیبہ ان کی دیانت داری اور تقویٰ کا ثمر تھا۔ انھوں نے ہونہار بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم کی طرف راغب کیا۔ ان کا وجود کتنی بڑی نعمت تھا اس کا احساس ان کی وفات کے بعد شدت سے ہونے لگا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی وفات کے اثرات تعلیم، تدریس اور اصلاح معاشرہ کے تمام شعبوں پر نمایاں ہوں گے۔ اپنے قلم کا احترام کرنے والے اس محنتی اور با وقار معلم نے جو طرز فغاں ایجاد کی وہی طرز ادا قرار پائے گی۔ علم و ادب کا یہ آفتاب جہاں تاب عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا ہے مگر اس کی تابانیوں سے وطن کا گوشہ گوشہ منور ہے۔ آج ان کی یاد میں ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار ہے وہ اس قدر ہر دلعزیز تھے کہ ان کی وفات کی خبر سن کر ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ اللہ کریم حافظ ارشاد احمد کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
٭٭٭
حکیم احمد بخش: ہر رہ گزر پہ تیرے گزرنے کا حسن ہے
جھنگ کو شہر صد رنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر دور میں یہاں سے ایسے یادگار زمانہ لوگ اٹھے جن کی ہفت اختر شخصیت نے دلوں کو مرکز مہرو وفا کیا اور اس علاقے کے لوگوں کی کشت جاں میں بے لوث محبت، ایثار، انسانی ہمدردی، وفا، خدمت، خلوص و مروت ، دردمندی، بے باک صداقت اور انسایت نوازی کے ایسے تخم بوئے جن کے نمو پانے سے قریۂ جاں معطر ہو گیا اور اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا۔ ہوس زر نے نوع انساں کو فکری انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ زر کے لیے بہتات کی حرص نے انسان کو اس قدر غافل کر دیا ہے کہ وہ ننانوے کے پھیر میں پڑ کر اپنے انجام سے بے خبر ہے۔ ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کا حصول آج کے انسان کا مطمح نظر بن چکا ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دولت کو ذاتی مفاد کے بجائے عوامی خدمت پر خرچ کرتے ہیں اور ہر قسم کے طمع، ہوس اور لالچ سے دامن بچا کر اپنی زندگی کو فیض رساں بنانے کی مقدور بھر سعی کرتے ہیں۔ بڑے ادیبوں کو بالعموم نامور لوگوں پر لکھنے کا شوق ہوتا ہے، ادب کے ایک عام طالب علم کی حیثیت سے میں ایک گم نام شخص کا احوال لکھوں گا۔ ایک ایسے شخص کا حال جس نے زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیا رہتے ہوئے دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کی اور اپنی زندگی انسانیت کی فلاح اور بہبود کے کاموں کے لیے وقف کر دی۔ جو کچھ کمایا وہ سب کچھ درد مندوں، ضعیفوں، بیماروں اور لا چاروں پر بے دریغ لٹایا اور اپنے لیے کچھ بھی نہ بچایا۔ جب اس تارک الدنیا اور قناعت پسند مر د درویش کا آخری وقت آیا تو گھر میں تجہیز و تکفین کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ ایک ایسا شخص چپکے سے راہ جہاں سے گزر گیا جس کی زندگی شمع کے مانند گزری۔ وہ معالج مسیحا زینۂ ہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا جس کے تیر بہدف طب یونانی کے طبی نسخوں سے لاکھوں جاں بہ لب مریضوں کو نئی زندگی کی نوید ملی۔ اس نے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کی، اپنے پیشے سے وفاداری بہ شرط استواری کو اپنا نصب العین بنایا۔ عجز و انکسار کا یہ پیکر جس خاموشی سے پیمانۂ عمر بھر گیا اس پر اس کے لاکھوں مداح دنگ رہ گئے۔ تقدیر کا یہی تو المیہ ہے کہ یہ ہر تدبیر کی دھجیاں اڑا دیتی ہے اور ہر سر کے ساتھ فقط سنگ ہی باقی رہ جاتا ہے۔ جھنگ شہر کے نواحی شہر خموشاں کے اک گم نام گوشے میں یہ دبنگ لہجے میں بات کرنے والا مسیحا جس نے سات عشروں تک اس علاقے میں دکھی انسانیت کے زخموں کے اندمال کی مساعی کیں آسودۂ خاک ہے۔ آج بہت کم لوگوں کو اس عظیم انسان کے کام اور مقام کے بارے میں علم ہے۔ بہ قول ظفر اقبال :
نمود بھی نہیں اور نام بھی نہیں میرا
مقام خاص تو کیا عام بھی نہیں میرا
درخشاں اقدار و روایات کا امیں قدیم، عظیم اور تاریخی شہر جھنگ جس کی تاریخ چار ہزار سال قبل مسیح سے جا ملتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر کی فوج نے اس شہر کے نواح میں ڈیرے ڈالے اور حسن کی دیوی (ہیر )کا مندر آج بھی یونانیوں کی آمد کا پتا دیتا ہے۔ یونان میں حسن کی دیوی کو ہیر (Heer )ے نام سے یا د کیا جاتا ہے۔ امیر اختر بھٹی نے اس شہر صد رنگ کی قدامت کے بارے میں قیاس آرائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شہر اس وقت بھی موجود تھا جب طوفان نوح نے پوری دنیا کی بساط لپیٹ دی تھی۔ غلام علی چین کا خیال تھا کہ اس شہر میں عربوں کی آمد کا سلسلہ 712 میں محمد بن قاسم کی شورکوٹ آمد سے پہلے بھی جاری تھا۔ جب آفتاب اسلام طلوع ہوا اور حرا کے غار سے سر چشمۂ آب بقا پھوٹا تو اس علاقے میں مقیم خزاں آباد ہستی کو بھی پیام نو بہار ملا۔ ہجرت مدینہ کے فوراً بعد مسلمان عرب تاجر یہاں پہنچے۔ وہ یہاں سے اونی مصنوعات، سوتی کپڑے، دریاں، کھیس، کھسے، لنگیاں ، پیتل اور تانبے کے بنے ہوئے برتن، تیر کمان او ر گھریلو دستکاریوں کے شہ کار خریدتے اور عرب لے جاتے تھے۔ اس طرح اس خطے میں آفتاب اسلام کی ضیا پاشیوں کے عظیم الشان سلسلے کا آغاز ہوا جس سے سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں۔ اسی شہر میں واقع تیرہ سو برس قدیم مسجد شاہ علیانی جس کی عمارت چونے، کچی اینٹوں اور گارے سے بنی تھی اور چھت کھجور کے تنے اور پتوں سے تیار کی گئی تھی جو کہ قدیم عربوں کے فن تعمیر کی یاد دلاتی تھی۔ پروفیسر غلام قاسم خان کے آبا و اجداد نے اس مسجد کی نسل در نسل خدمت اور دیکھ بھال کی۔ یہ قدیم اور تاریخی مسجد اب بھی موجود ہے لیکن 1960میں اس کی تعمیر نو ہوئی اور اب یہ مسجد قدیم و جدید فن تعمیر کے حسین امتزاج کی مثال ہے۔ گنبد، محراب اور ڈاٹوں کو اسی قدیم انداز میں بنایا گیا ہے۔ اس قدیم اور تاریخی مسجد کی تعمیر نو غلام علی چین، حاجی محمد یوسف، میاں اللہ داد، حکیم اسماعیل، میاں محمود بخش بھٹی، محمد بخش آڑھتی، اللہ دتہ سٹینو، محمد کبیر بھٹی ، ڈاکٹر محمد عمر اور حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم)کی انتھک مساعی کی مرہون منت ہے۔ ان دنوں ممتاز ماہر تعلیم اور عالم دین ابو ذر غفاری اس مسجد کے خطیب ہیں۔ پروفیسر غلام قاسم خان اسی مسجد میں گزشتہ چار عشروں سے درس قرآن دے رہے ہیں۔ ان سے قبل ان کے والد، دادا اور پردادا یہ مذہبی فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ اب وہ اپنے بیٹے کو اس کام کی تربیت دے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم چراغ آخر شب ہیں ہمارے بعد روشنی کا یہ سفر نئی نسل نے جاریر کھنا ہے، اس لیے ان کو مستقبل کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیار کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ یہ قدیم تاریخی مسجد جو پروفیسر غلام قاسم خان کے آبائی گھر کے عین سامنے واقع ہے ان کی ذاتی دلچسپی اور توجہ کی وجہ سے ہمیشہ صاف اور پاکیزہ ماحول پیش کرتی ہے جہاں کا نورانی اور روحانی ماحول خالق و مخلوق میں کوئی پردہ حائل نہیں ہونے دیتا۔ ہر سال ماہ صیام میں وہ اور علاقے کے عابد و زاہد لوگ اسی مسجد میں اعتکا ف میں بیٹھتے ہیں۔ حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم) جب تک زندہ رہے اس مسجد میں اعتکاف میں بیٹھنے والوں کے لیے سحری و افطاری کے وقت طعام کا بندو بست کرتے رہے۔ آج بھی بزرگ نمازی ان کی پر تکلف ضیافتوں کو یاد کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی ہیں۔
دریائے چناب کے کنارے واقع جھنگ کے قدیم شہر کے چاروں طرف ایک بلند و بالا فصیل تعمیر کی گئی تھی۔ اس فصیل میں چاروں سمتوں میں ایک ایک بہت بڑا دروازہ موجود تھا۔ پر زمانہ تو پرواز نور سے بھی تیز تر ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شہر پناہ تو سیل زماں کے تھپیڑوں کی تاب نہ لا کر رفتہ رفتہ نیست و نابو دہو گئی اور اس کے سنگ و خشت اور دروازوں کے کواڑ بھی اٹھائی گیرے لے اڑے البتہ بے کواڑ دروازے اب بھی موجود ہیں۔ جھنگ شہر کی فصیل کی شمالی جانب واقع ممنا گیٹ کے باہر حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم) کا مطب آج ایام گزشتہ کی نوحہ خوانی میں مصروف ہے۔ حکیم احمد بخش المعروف چونی (چار آنے )والا حکیم گزشتہ صدی کی طبی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) نے جھنگ کے ایک ممتاز علمی گھرانے میں 1880میں جنم لیا۔ ابتدائی تعلیم جھنگ میں مکمل کرنے کے بعد دہلی کا سفر کیا اور وہاں حکیم اجمل خان کے طبیہ کالج سے طب کی تعلیم حاصل کی حکیم اجمل خان کو اپنے اس ہو نہار شاگرد سے بہت محبت تھی۔ 1920میں جب حکیم اجمل خان نے جامعہ ملی اسلامیہ دہلی میں اہم ذمہ داریاں سنبھالیں تو حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) بھی اپنے استاد کے ہمراہ وہاں چلے گئے اور ان سے اکتساب فیض کا سلسلہ جاری رکھا۔ تاریخ اور تاریخ کے مسلسل عمل پر حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) کو پختہ یقین تھا۔ بیسویں صدی میں طب یونانی کے فروغ کے سلسلے میں حکیم اجمل خان کی مساعی کو حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ حکیم اجمل خان کی عظیم شخصیت خاک کو اکسیر بنا دیتی تھی اور غبار راہ سے ایسے جلوے پیدا ہوتے جو نگاہوں کو خیرہ کر دیتے تھے۔ بیسویں صدی کے اس یگانۂ روزگار طبیب، دانش ور، حریت فکر کے مجاہد اور مرد مومن نے پارس کی صورت مس خام کو کندن بنا دیا اور ذرے کو آفتاب بننے کے فراواں مواقع میسر آئے۔ زمانہ لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتا چلا جائے ایسے لوگ چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے نہیں مل سکتے۔
حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) نے جھنگ شہر میں اپنا مطب قائم کر کے دکھی انسانیت کی خدمت کا عزم کر لیا۔ ایک خستہ حال سی جھونپڑی میں قائم یہ مطب بھی ان کی درویشی، فقیری، سادگی، قناعت اور عجز و انکسار کی عمدہ مثال تھا۔ حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم ) ایک چٹائی پر بیٹھتے، سامنے گھڑونچی پر پانی سے بھرے مٹی کے گھڑے رکھے ہوتے ان پر چپنی اور مٹی کے پیالے دھرے رہتے۔ سامنے ایک الماری میں چند مرتبان، کچھ بو تلیں اور سفوف کے ڈبے رکھے ہوتے۔ وہ ہر وقت ہاون دستے میں کوئی نہ کوئی سفوف تیار کرنے میں مصروف رہتے۔ ان کا ایک شاگرد ان کا ہاتھ بٹاتا اور اس طرح مل جل کر ادویات کی تیاری کا کام جاری رہتا۔ مقامی طور پر تیار کیے جانے والے کھدر کے صاف اور سادہ لباس میں ملبوس سر پر کلاہ و دستار باندھے حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) اپنی گل افشانیِ گفتار سے حاضرین کو مسحور کر دیتے۔ ان کے پاس جو بھی مریض علاج کی غرض سے آتا وہ اس سے صرف چار آنے وصول کرتے اور مریض کو ایک بوتل شربت، ایک بوتل عرقیات، معجون، مربہ جات اور پھکی دیتے۔ اگر کوئی مریض زیادہ رقم دینا چاہتا تو ہرگز قبول نہ کرتے البتہ کم پیسے دینے والے سے کبھی جھگڑا نہ کرتے۔ وہ دوا بھی دیتے اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے اللہ کے فضل و کرم سے مریض شفا یاب ہو جاتا۔ شہر کے لوگ آج تک محو حیرت ہیں کہ اس قدر کم قیمت میں علاج معالجہ کرنے والا حکیم اپنی گزر اوقات کیسے کرتا ہو گا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کہ یہ سب کچھ سات عشروں تک ہوتا رہا اور عقل ہمیشہ کی طرح محو تماشائے لب بام ہی رہی۔ چار آنے والا حکیم اس قدر مشہور ہوا کہ اکثر لوگوں کو اس کے اصل نام کا علم ہی نہیں۔ لوگ طویل مسافت طے کر کے یہاں آتے اور ایک ہی خوراک سے شفا یاب ہو کر گھروں کو لوٹتے۔ غلام علی چین کا کہنا تھا کہ مریضوں کا دوا علاج، نباضی اور تشخیص تو محض ظاہری صورت تھی، باطنی کیفیات سے بہت کم لو گ آگاہ تھے۔ اس کا تعلق ما بعد الطبیعات سے ہے کہ کبھی یہاں جھنگ شہر کے مغرب میں واقع نور شاہ گیٹ میں فٹ پاتھ پر زمین پر بیٹھ کر صرف ایک آنہ وصول کر کے حجامت کرنے ولا اللہ دتہ (ایک آنے والا حجام ) لوگوں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے اور کبھی زمین پر بیٹھا غریب راہ گیروں کے سفر کے دوران ٹوٹ جانے والے بوسیدہ جوتوں کو مفت پیوند لگانے والا جھنگ کا کرموں موچی (کرم دین جفت ساز)قدرت اللہ شہاب جیسے سخت بیوروکریٹ پر ہیبت طاری کر دیتا ہے، کبھی جھنگ کا ایک حال مست فقیر میاں مودا (مراد علی ) جون کی چلچلاتی دھوپ میں شہر کی پختہ سڑکوں پر ننگے پاؤں بھوکا پیاسا چل کر یہ ثابت کرتا ہے کہ آج بھی اگر براہیم ؑ کا ایماں پیدا ہو جائے تو آگ انداز گلستاں پیدا کر سکتی ہے اور دو پہر کے وقت تانبے کی طرح تپتی زمین بھی شبنم افشاں گل تر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہ پر اسرار بنجارے اپنی دنیا آپ پیدا کرتے ہیں، حرص و ہوا کو ترک کر کے دکھی انسانیت سے عہد وفا استوار کرنے والے ایسے لوگ یادگار زمانہ ہوتے ہیں۔ مظلوم اور مفلوک الحال انسانیت کی بے لوث خدمت ان کے وقار اور سر بلندی کو یہ علاج گردش لیل و نہار خیال کرتے ہیں اور ہر سو بچھے دکھوں کے جال ہٹانا ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ متعدد قرائن و شواہد کو دیکھ کر یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ حکیم احمد بخش (چار آنے والا حکیم) بھی ایک پر اسرار اور یاد گار زمانہ شخص تھا جس نے واضح کر دیا کہ یہ دنیا ایک آئینہ خانہ ہے، وہ دولت پانے کے بجائے اسے ٹھکرانے کا قائل تھا۔ وہ مال و دولت دنیا اور یہاں کے رشتہ و پیوند کو بتان وہم و گماں سے تعبیر کرتا تھا اور اس میں وہ دولت کے حریص اور ہوس کے مارے لوگوں کو تماشا بنا کر اس دنیا سے چلا گیا۔ عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ایسے لوگوں کے نام اور کام کی ہر دور میں تاریخ تعظیم کرتی ہے اس تمام سلسلے کو سمجھنے کے لیے بصیرت کی ضرورت ہے۔ بڑے بڑے سگھڑ سیانے بھی ان نازک معاملات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔ مجروح سلطان پوری نے کیا خوب بات کہی ہے :
بے تیشۂ نظر نہ چلو راہ رفتگاں
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
حکیم احمد بخش (چار آنے والا حکیم )نے سو سال سے زیادہ عمر پائی۔ اس کی جن بھومی وہ علاقہ تھا جہاں سے ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان )، سید جعفر طاہر، محمد شیر افضل جعفری، حاجی محمد یوسف، غلام علی چین، مجید امجد ، میاں اللہ داد، فلائٹ لیفٹنٹ خواجہ یونس حسن شہید، حکیم یار محمد اور اللہ دتہ سٹینو جیسے متعدد مشاہیر نے جنم لیا۔ ان سب شخصیات نے اپنے زمانے میں اپنے اپنے متعلقہ شعبوں میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن بیماری کے جان لیوا کرب سے سسکتی مجبور، غریب، بے بس و لا چار دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کی جو درخشاں مثال حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )نے قائم کی اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ وہ رات دن، شام و سحر ہمہ وقت اپنے مطب کے دروازے پر بچھی چٹائی پر موجود رہتے۔ رات کے وقت کچھ دیر سستا بھی لیتے لیکن مطب کا دروازہ کبھی بند نہ کرتے۔ وہ پنجگانہ نماز با جماعت مسجد شلیانی میں ادا کرتے اور نماز تہجد اپنے مطب میں ادا کرتے تھے۔ یہ فقیر سارے جہاں کے درد کو اپنے جگر میں سموئے دنیا و ما فیہا سے بے خبر ایام کا مرکب نہیں بل کہ راکب بن کر زندگی گزارتا رہا اور کبھی حرف شکایت لب پر نہ لایا۔ اس کا طرز زندگی فقیری اور درویشی کا مظہر تھا اس نے زندگی بھر اپنی خودی کی حفاظت کی اور غریبی میں بھی قناعت اور استغنا کا بھرم قائم رکھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس مر د فقیر نے مہر و مہ و انجم کے محاسب کا کردار ادا کیا۔ وہ دن بھر جو کچھ کماتا سر شام علاقے کے غریبوں، بے سہارا ضعیفوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کو بھجوا دیتا تھا۔ اس نیک کام میں حاجی محمد یوسف، غلام علی چین اور اللہ دتہ سٹینو اس کی مدد کرتے تھے۔ خدمت خلق کا یہ کام اس راز داری سے ہوتا تھا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ اگرچہ وہ اپنے کام تک محدود تھا اور وہ کبھی حصار ذات سے نہ نکل سکا لیکن اس کی وسیع النظر ی کا ایک عالم معترف تھا۔ اپنی ذات میں سمٹے ہوئے اس معالج کے خیالات میں سمندر کی سے گہرائی اور وسعت تھی۔ یہ اس کی عالی ظرفی تھی کہ وہ دام غم حیات سے بچ کر ہمیشہ خاموشی سے عوامی خدمت کے کاموں میں مصروف رہا۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ وہ صرف چار آنے ہر مریض سے دوا اور علاج کے طلب کرتا تھا لیکن کچھ مریض ایسے بھی ہوتے جو ایک پائی ادا کرنے کی بھی سکت نہ رکھتے تھے۔ ایسے مریضوں کے قیام ، طعام، دوا، علاج اور سفر خرچ کے تمام اخراجات بھی حکیم احمد بخش (چار آنے ولا حکیم )کے ذمے تھے۔ روشنی کا جو سفر اس شخص نے شروع کیا وہ ان کی زندگی میں جاری رہا اور یہ نیک کام تاریکیوں کی دسترس سے ہمیشہ دور رہا۔ راہ جہاں سے گزر جانے والے ایسے عالی ہمت لوگوں کی تقلید وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ لوح دل پر ان کی خدمات کے نقوش ہمیشہ ثبت رہیں گے۔ آج بھی دور دراز علاقوں سے آنے والے دکھی لوگ اس یگانۂ روزگار طبیب کو یاد کر کے اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔ فضاؤں میں ہر سو اس مسیحا صفت معالج کی یادیں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ ممنا گیٹ میں جس سمت بھی نگاہ اٹھتی ہے اس کے مانوس، پر درد اور ہمدردانہ لہجے کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ فراق گورکھ پوری نے کہا تھا :
بھولیں اگر تمھیں تو کدھر جائیں کیا کریں
ہر رہ گزر پہ تیرے گزرنے کا حسن ہے
مطب کے لیے درکار جڑی بوٹیاں جمع کرنے میں حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم ) کو کبھی کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ ان کے پنسار سٹور میں جڑی بوٹیوں کے انبار لگے رہتے۔ یہ سب جڑی بوٹیاں ان کے عقیدت مند انھیں مفت لا کر دیتے۔ گورنمنٹ کالج جھنگ سے املتاس، گلاب کی پتیاں اور کیسو پھول مل جاتے، کاسنی اور مکو کی بوریاں منڈی شاہ جیونہ کے علاقے سے آ جاتیں، بھکر اور منکیرہ سے جو حنظل آتے وہ خربوزے کی جسامت کے برابر ہوتے تھے۔ یہ حنظل اس قدر کڑوے ہوتے تھے کہ ان کے استعمال سے لبلبے میں پائی جانے والی شوگر میں معتد بہ کمی واقع ہو جاتی۔ مرزا محمد رفیع سودا نے کہا تھا :
فیض تاثیر ہوا ہے کہ اب حنظل سے
شہد ٹپکے جو لگے نشتر زنبور عسل
سونف، اناردانہ، السی، ڈیہلے، پیلوں، لسوڑیاں اور پودینہ وغیرہ شہر کے مضافاتی علاقوں سے عبداللہ خان بھجوا دیتا۔ عرقیات اور شربت تیار کرنے کے لیے ایندھن کے لیے درکار لکڑی بھی ان کے عقیدت مند بھجوا دیتے۔ غلام علی چین بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور اپنے کھیتوں میں اگے درختوں کی موسم سرما میں صفائی سے جو شاخیں اکٹھی ہوتیں ان کے بڑے بڑے گٹھے بنوا کر بیل گاڑی پر لاد کر مطب کے عقب میں واقع خالی جگہ پر رکھوا دیتے یہ ایندھن عرقیات کی کشید میں کام آتا۔ اس کے علاوہ بازار سے جو اشیا خریدی جاتیں ان کے لیے رقم بھی اللہ کریم اپنے خزانے سے عطا کرتا۔ اس کے لیے حکیم احمد بخش کو کسی کے آگے دست سوال کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہ آئی۔ مطب کے سامنے ہر وقت قرع انبیق کے نیچے آگ سلگتی رہتی اس میں مختلف اوقات میں عرق گلاب، عرق سونف، عرق گاؤ زبان اور عرق کاسنی مکو کی موقع پر تیاری کا عمل جاری رہتا۔ اس مطب میں جو شربت تیار ہوتے تھے ان میں صندل، بزوری، انار اور بنفشہ بہت پسند کیے جاتے تھے۔ حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )نے گرمی میں لو سے بچنے کے لیے شربت مفرح دل کشا تیار کیا جو تاثیر میں اپنی مثال آپ تھا۔ حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )کا تیار کردہ ’’شربت شفا ‘‘یک مجرب نسخہ تھا جو وہ ہر مریض کے لیے لکھتے تھے۔ کوئی مریض خواہ وہ کسی عارضے میں مبتلا ہوتا اسے ہر حالت میں پہلی خوراک ایک گلاس ’’شربت شفا ‘‘ چاروں عرقیات میں ملا کر اور ایک پڑیا ’’سفوف مفرح قلب ‘‘ لازمی دیا جاتا۔ حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )با وضو ہو کر اپنے ہاتھوں سے یہ دوا پلاتے اور اشک بار آنکھوں سے زیر لب دعا بھی کرتے رہتے۔ اللہ پاک کی شان کریمی جوش میں آ جاتی اور جاں بہ لب مریض ہنستا مسکراتا اٹھ بیٹھتا۔ نامور ماہر تعلیم پروفیسر سمیع اللہ قریشی کہا کرتے تھے کہ حکیم احمد بخش (چار آنے ولے حکیم ) اپنے مریضوں کو جو ادویات دیتے ہیں ان کا اثر تو واجبی سا ہوتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ تمام مریض اس صاحب باطن و لی کی دعا سے صحت یاب ہوتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ مرد مومن کے دل سے نکلی ہوئی دعا سے تو تقدیریں بھی بدل جاتی ہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ حکیم احمد بخش نے درویشی کی خاطر طبابت اور دنیا داری کا ایک پردہ بنایا ہوا تھا ورنہ لوگ جب سے زمانہ ساز ہوئے ہیں انھوں نے تو اپنی انا کو ختم کر کے فقیری کی راہ اختیار کر لی تھی۔ اس دنیا کے مال و دولت اور رشتہ و پیوند کو بتان وہم و گماں سمجھتے تھے۔ جھنگ کے علمی و ادبی حلقوں میں ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ الحاج سید غلام بھیک نیرنگ کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی عصبیتوں، افراد کا غیظ و غضب اور سماجی برائیوں پر وہ دلی کرب کا اظہار کرتے۔ ن کا خیال تھا کہ مسلسل شکست دل کے باعث معاشرتی زندگی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ تشدد، منشیات اور دہشت گردی کی فضا نے ان کی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے وہ الحاج سید غلام بھیک نیرنگ کے یہ شعر اکثر پڑھتے تھے :
ایک آفت ایک شامت ہو تواس کو روئیے
ہے مصیبت نت نئی ہر روز فتنہ ہے نیا
شامت اعمال تیری آنکھ کھلتی ہی نہیں
جب تلک سر سے گزر جائے نہ سیلاب بلا
حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )نے زندگی بھر قناعت، استغنا اور صبر کا دامن تھامے رکھا۔ لاہور، کراچی اور بڑے شہروں کے اہم دوا خانوں نے انھیں بھاری معاوضے پر اپنے ہاں کام کرنے کی پیش کش کی لیکن اس درویش منش انسان نے روکھی سوکھی کھا کر اور ٹھنڈا پانی پی کر اس علاقے کے لوگوں کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائے رکھا جہاں کا ماحول آج بھی پتھر کے زمانے کی یا دلاتا ہے۔ وہ جہاں بھی گئے انھیں اپنی جنم بھومی کے اداس بام اور کھلے در پکارتے رہے اور وہ جلد ہی واپس لوٹ آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وطن کی محبت تو ملک سلیماں سے بھی زیادہ دل کش ہے یہاں تک کہ وطن کا ایک کانٹا بھی سنبل و ریحان اور گلاب اور چنبیلی سے کہیں زیادہ عنبر فشاں ہے وطن کا کانٹا بھی قریۂ جاں کو معطر کر دیتا ہے۔ وطن کو وہ محض چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں دیتے تھے بل کہ ان کا خیال تھا کہ وطن تو اہل وطن کے جسم اور روح سے عبارت ہے۔ وطن اور اہل وطن سے ان کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کا بہت بڑا اعزاز اور امتیاز رہا۔ اپنے علاقے کے لوگوں کی خوشی اور غم میں شریک ہونا حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم ) کا معمول تھا۔ جب کوئی زیادہ علیل ہوتا تو اس کی عیادت کو جاتے اور دوا کے ساتھ دعا بھی کرتے۔ کئی غریب، یتیم اور مسائل کے شکار طالب علموں کی مالی اعانت کرتے اور اس طرح ان کو مستقبل کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے۔
اپنی عملی زندگی میں حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) نے متعدد فکر پرور تجربات اور خیال افروز بصیرتوں کی نمو کا اہتمام کیا۔ ان کی بے لوث خدمت نے افراد کی سماجی، معاشرتی اور معاشی زندگی کو نئی جہات سے آشنا کیا۔ جس انداز میں انھوں نے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی سعی کی وہ ہر عہد میں فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہو گی۔ ان کے طرز عمل نے نہ صرف افراد معاشرہ کی جسمانی صحت پر توجہ مرکوز رکھی بل کہ ذہن و ذکاوت، بصیرت، فکر و خیال اور شعور ی روح کی صحت یابی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔ ان کا خیال تھا کہ معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں، کجیوں، بے ہنگم ارتعاشات اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا از بس ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے تاریخی شعور کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔ تاریخی شعور کے معجز نما اثر سے دلوں کو مرکز مہر و وفا کیا جا سکتا ہے۔ ہوس زر سے دامن بچا کر اور راہ طلب سے گریزاں رہ کر اس درویش نے جس طرح زندگی بسر کی اسے دیکھ کر میر تقی میر کا یہ شعر یاد آ گیا :
راہ طلب میں گرے ہوتے سر کے بل ہم بھی
شکستہ پائی نے اپنی ہمیں سنبھال لیا
حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم)کے بعد وفا کے سارے ہنگامے عنقا ہو چکے ہیں۔ دنیا کی بے ثباتی اور کار جہاں کے ہیچ ہونے کا دکھ بڑھ گیا ہے۔ اس نے دنیا کو ایک نقش فانی اور اس کی روداد کو ایک کہانی سے تعبیر کیا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ کہ اس دنیا میں اس کا قیام سرائے میں رہنے والے مسافر کی طرح ہے۔ خدا اس کی مغفرت کرے جو اس سرائے سے نکل کر ابدی نیند سو گیا۔ بہ قول افتخار نسیم :
سرائے چھوڑ کر وہ پھر کبھی نہیں آیا
چلا گیا جو مسافر کبھی نہیں آیا
٭٭٭
حمید اختر : ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی ادیب، دانش ور، صحافی اور ترقی پسند تخلیق کار حمید اختر 16۔ اکتوبر 2011کو داغ مفارقت دے گئے۔ ان کا نام اختر علی تھا وہ چار جون 1924 کو ضلع لدھیانہ کی ریاست فرید کوٹ کے نزدیک واقع ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ابھی وہ تین برس کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کی والدہ نے بیوگی کی چادر اوڑھ کر بڑے کٹھن حالات میں اپنے بچے کی تربیت کی۔ ان کی زندگی سعیِ پیہم اور گردش حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ انھیں کینسر کا عارضہ لاحق تھا۔ وہ کینسر کا نہایت مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے رہے۔ ہوائے جورو ستم میں بھی رخ وفا کو فروزاں رکھنے والے حریت فکر کے اس مجاہد نے حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ شبیر کو اپنایا۔ لاہور کے ایک شہر خموشاں میں آسودۂ خاک یہ ترقی پسند ادیب لوح جہاں پہ اپنا دوام ثبت کر گیا۔ ہر دور میں جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق ادا کرنے والے اس زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار نے حرف صداقت لکھنے کا وہ معیار پیش کیا جو ہر عہد میں ان کی شخصیت کے درخشاں پہلوؤں کو سامنے لاتا رہے گا۔ ان کے پس ماندگان میں ایک بیوہ، ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں ان کو جو عزت و تکریم حاصل تھی اس کا ایک عالم معترف ہے۔ انھوں نے خود داری، عزت نفس اور قناعت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ در کسریٰ پہ صدا کرنا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔ وہ یہ بات بر ملا کہتے تھے کہ جامد و ساکت کھنڈروں اور سنگلاخ چٹانوں کے روبرو دکھی انسانیت کے مصائب و آلام بیان کرنا سرابوں کی جستجو میں بھٹکنے کے مترادف ہے۔ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے قائل تھے کسی بھی باب رعایت سے داخل ہو کر زندگی کی آسائشوں کا حصول ان کے نزدیک استحصالی عناصر کے مکر کی چال ہے اور اس قسم کے قبیح ہتھکنڈے انسانی حقوق کی پامالی پر منتج ہوتے ہیں۔ حمید اختر کا اس دنیا سے اٹھ جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ وہ ایک نظریاتی ادیب تھے اپنے نظریات پر ان کا پختہ اور اٹل یقین تھا۔ دنیا کی کوئی طاقت ان کو ان کے نظریات سے دور نہ رکھ سکی۔ اپنے لیے انھوں نے جو لائحۂ عمل منتخب کیا اس پر ان کا غیر متزلزل یقین ان کی شخصیت کا امتیازی وصف تھا۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
حمید اختر نے ایک ممتاز مذہبی گھرانے میں جنم لیا۔ ان کے خاندان کی اجمیر کے عظیم صوفی بزرگ اور ولی اللہ خواجہ قطب الدین بختیار سے قلبی عقیدت اور والہانہ وابستگی تھی۔ ان کے خاندان نے حمید اختر کی تعلیم و تربیت میں مذہب کی درخشاں اقدار و عظیم روایات کو ملحوظ رکھا اور انھیں ایک مقامی درس میں بھیج دیا۔ حمید اختر نے دس برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔ جلد ہی حمید اختر نے درس کی دینی تعلیم کو خیر باد کہہ دیا اور دنیا کے تلخ حقائق کا سامنا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کی زندگی عجیب کشمکش میں گزری کبھی تو سوز و ساز رومی اور کبھی پیچ و تاب رازی کی کیفیت قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے افکار و نظریات میں ایک واضح تبدیلی سامنے آئی اور انھوں نے استحصالی معاشرے کے گھناؤنے کردار، فرد کے فرد کے ہاتھوں استحصال، شقاوت آمیز نا انصافیوں، انسانی حقوق کی پامالی اور انسانیت کی توہین تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہمارا معاشرہ قحط الرجال کے باعث بے حسی کا نمونہ بن چکا ہے۔ اس معاشرے میں بگلا بھگت، جو فروش گندم نما، سفید کوؤں، کالی بھیڑوں اور گندی مچھلیوں نے پورے ماحول کو ویران کر دیا ہے کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہوتے نہیں یہ بازی گر کھلا دھوکا دیتے ہیں۔ ہم میں نہ تو کوئی دیوتا ہے اور نہ ہی کوئی فرشتہ، ہر رنگ چھونے پر اتر جاتا ہے۔ حمید اختر نے چربہ ساز، سارق اور کفن دزد عناصر کو آئینہ دکھانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے اس نصب العین کی صراحت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے :
’’میں نے دس برس سے کم عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا مگر اس دینی مدرسے میں طلبا سے جو سلوک ہوتا تھا، اس کے رد عمل کے نتیجے میں بلوغت تک پہنچتے پہنچتے میں تمام دینی رشتوںسے بھاگ کھڑا ہوا۔ میں ایسے لوگوں سے سخت نفرت کرتا ہوں جو زندگی بھر لوٹ مار، چوری، دھوکا، بے ایمانی اور ہر قسم کے لہو و لعب میں مصروف رہتے ہیں اور آخری عمر میں داڑھی بڑھا کر ہاتھ میں تسبیح پکڑ لیتے ہیں۔ ‘‘
شباب کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی حمید اختر نے اپنی رفاقتیں اور دوستیاں اس عہد کے نامور ادیبوں سے استوار کر لیں اور تمام عمر اس عہد وفا کو نبھایا۔ اس عہد میں وہ ابن انشا، ساحر لدھیانوی، انور علی، کرشن چندر، ابراہیم جلیس، اے حمید، احمد راہی، استاد دامن، ساغر صدیقی، رام ریاض اور فیض احمد فیض کے قریب رہے۔ یہ قربتیں اور چاہتیں اتنی دیرپا ثابت ہوئیں کہ ان کے معجز نما اثر سے حمید اختر کی زندگی کو ایک نئی اور منفرد جہت نصیب ہوئی۔ ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا ان کا مطمح نظر بن گیا۔ سلطانیِ جمہور کے لیے جد و جہد ہمیشہ ان کا نصب العین رہا۔ اپنی تحریروں کے ذریعے ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرنے میں انھوں نے کبھی تامل نہ کیا۔ انھوں نے کبھی زہر ہلاہل کو قند نہ کہا اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مظلوم کی حمایت میں پورے جوش و خروش سے میدان عمل میں آ گئے۔ طالع آزما، مہم جو اور ابن الوقت عناصر نے انھیں ترغیب، تحریص اور دھونس و دھمکی کے ذریعے اپنے ڈھب پر لانے کی بہت کوشش کی مگر جب وہ اپنے مکروہ عزائم میں ناکام ہوئے تو یہ مفاد پرست لوگ سنگ ملامت لیے نکل آئے اور اس آواز کو خاموش کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ حمید اختر کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں مگر ان کے پائے استقامت میں کبھی لرزش نہ آئی۔ تخلیق ادب اور مطالعہ ادب ہی حمید اختر کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ حمید اختر اور ساحر لدھیانوی تلاش معاش میں لاہور بھی آئے اور یہاں ایک مکان میں اکٹھے قیام کیا۔ وہ 1942سے لے کر 1945 تک کے عرصے میں لاہور میں مقیم رہے اور یہاں ان کے شب و روز ایک ہی سوچ اور جذبے کو پروان چڑھانے میں گزر گئے۔ ساحر لدھیانوی کی دوستی انھیں ممبئی لے گئی اور وہاں نگار خانوں کی آب و تاب سے بھی انھوں نے دل بہلایا۔ یہاں انھوں نے ایک فلم ’’آزادی کی راہ پر ‘‘ میں بہ حیثیت اداکار کام کیا۔ یہ فلم 1946میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں حمید اختر کو فلمی دنیا کے اس وقت کے مشہور اداکاروں پرتھوی راج کپور، جے راج اور جگدیش سیٹھی کے ہمراہ کام کرنے کا موقع ملا ادب اور فنون لطیفہ کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی عمر بھر بر قرار رہی۔ ساحر لدھیانوی نے اس فلم کے لیے مکالمے لکھے۔ اس میں ابراہیم جلیس، ہاجرہ مسرور اور محمود بریلوی نے ان کی معاونت اور مشاورت کی۔ حمید اختر نے اس فلم کو اپنے کیرئیر میں ایک اہم موڑ قرار دیا۔ وہ اس دور کو یاد کرتے تو ان کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں۔
تقسیم ہند کے بعد حمید اختر نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اور یہاں وہ کئی ماہ تک مہاجر کیمپ میں بے سرو سامانی کے عالم میں قیام پذیر رہے۔ کچھ دنوں کے بعد ساحر لدھیانوی بھی لاہور آ گئے، حمید اختر نے ساحر لدھیانوی کے کلیم پر ایبٹ روڈ پرایک رہائشی مکان حاصل کر لیا اور دونوں دوست پھرسے اکٹھے رہنے لگے۔ قیام پاکستان کے بعد کے نئے ماحول میں انھوں نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا اب ان کے
ساتھ صر ف ساحر لدھیانوی کی ماں تھی باقی سب لوگ نئے اور اجنبی تھے۔ یہ دونوں کنوارے نو جوان ایک ماں کی سر پرستی میں زندگی کے کٹھن سفر پر رواں دواں تھے۔ قلزم ہستی کی ہر موج میں حلقۂ صد کام نہنگ اور پھر یہ تجسس کہ قطرے پہ گہر ہونے تک کیا گزرتی ہے ؟ساحر لدھیانوی نے تو تخلیق ادب سے اپنی قلبی وابستگی برقرار رکھی اور اس دور کے ممتاز ادبی مجلات جن میں ادب لطیف، شاہ کار، اور سویرا شامل تھے ان میں کام جاری رکھا اور اس طرح دال روٹی کا سلسلہ چل نکلا۔ حمید اختر نے ادب کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی دلچسپی لی۔ بائیں بازو کی سیاست اور تخلیقی نظریات کے ساتھ ان دونوں کی قلبی وابستگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ افلاس کی پر درد کراہیں سن کر ہر دردمند انسان کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے حمید اختر نے معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں، تضادات، نا انصافیوں، استحصال اور شقاوت آمیز انصافیوں کے لرزہ خیز اعصاب شکن واقعات کو بڑے کرب اور دکھ کے ساتھ دیکھا اور ان کے خلاف بھرپور آواز بلند کی۔ وہ تیشۂ حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے کے آرزومند تھے۔ اردو ادب کی ترقی پسند تحریک جس نے 1936میں یہاں رنگ جمایا۔ حمید اختر اور ساحر لدھیانوی اس سے بہت متاثر تھے۔ 1944میں انھوں نے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر کرشن چندر کے شاہ کار افسانے ’’ان داتا‘‘ کی ڈرامائی تشکیل کا فیصلہ کیا۔ حمید اختر اورساحرلدھیانوی نے عوامی مسائل کے بارے میں مثبت شعور و آگہی بیدار کرنے کی کوشش کی۔ اس فکر پرور خیال افروز ڈرامے کو سٹیج پر پیش کرنے کا انقلابی تصور ساحر لدھیانوی اور حمید اختر کی مشترکہ سوچ کا مظہر تھا۔ ساحر لدھیانوی نے ’’ان داتا‘‘ کا پورا متن پس پردہ رہتے ہوئے پڑھ کر سنایا۔ ان کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجے نے سامعین کو مسحور کر دیا۔ اس لافانی ڈرامے میں اثر آفرینی قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر کر پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منو لیتی تھی۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ غربت، افلاس اور بھوک سے نڈھال بے بس و لاچار انسان سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور تھے مگر بے حس سرمایہ دار ٹس سے مس نہ ہوئے۔ یہ ڈرامہ ظالم و سفاک حکمرانوں اور بے ضمیر استحصالی عناصر کے لیے تازیانۂ عبرت بن گیا۔ اس ڈرامے کی پیش کش میں شامل تمام افراد کو فرضی مقدمات اور جھوٹی شہادتوں کے ذریعے ہراساں کیا گیا اس کے باوجود ان لوگوں نے جنوں کی حکایات خوں چکاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہر چند اس میں ان کے ہاتھ قلم ہوئے۔
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
سید سجاد ظہیر کے ساتھ حمید اختر اور ساحر لدھیانوی کے قریبی تعلقات تھے۔ ترقی پسند تحریک کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے ان میں نظریاتی ہم آہنگی مو جود تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اگرچہ ساحر لدھیانوی اور حمید اختر نے لاہور میں قیام کا فیصلہ کیا تھا مگر ساحر لدھیانوی یہاں کے حالات سے مطمئن نہیں تھے اور حبس کے ماحول سے بیزار ہو چکے تھے۔ کئی بار انھوں نے واپس بھارت جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ 1948کے آغاز میں حمید اختر کو کسی نجی اور تنظیمی مصروفیت کے سلسلے میں کراچی جانا پڑا۔ حمید اختر جب ایک ماہ کے بعد لاہور واپس آئے تو انھیں یہ دیکھ کر دلی صدمہ ہوا کہ ساحر لدھیانوی اور ان کی ماں وہ مکان خالی کر کے بھارت جا چکے تھے۔ حمید اختر کے لیے یہ سانحہ سوہان رو ح بن گیا اور انھوں نے چند روز بعد وہ مکان خالی کر دیا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ جس مکان کے حقیقی مکین ہی اسے خالی کر کے چلے جائیں وہاں ان کا قیام غاصبانہ قبضے کے مترادف ہے۔ وہ طویل عرصہ تک ان احباب کی یاد میں تڑپتے رہے۔ زندگی کا ساز بھی عجب ساز ہے یہ مسلسل بج رہا ہے مگر اس کی آواز پر کوئی کا ن نہیں دھرتا۔ اپنی اصلیت کے اعتبار سے زندگی بھی سیل رواں کے مانند ہے۔ اس سیل رواں کی موجیں سب کچھ بہا کر لے جاتی ہیں۔ کوئی بھی شخص اپنی تمام تر تمناؤں، توانائیوں اور حسرتوں کے باوجود اس کی گزر جانے والی پر شور لہروں کے لمس سے دوبارہ فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ ساحر لدھیانوی لاہور سے دہلی پہنچے، وہاں سے انھوں نے حیدرآباد کا رخ کیا اور آخرکار اپنے پسندیدہ شہر ممبئی میں مستقل قیام کا فیصلہ کیا۔ لوگ بچھڑتے ہیں اور اس کے بعد ان کا ملنا خوابوں ہی میں بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے ایام گزشتہ کی کتابوں کے اوراق میں پڑے سوکھے پھول بیتے دنوں کی کیفیات کا تمام منظر نامہ تو چشم تصور سے دکھا دیتے ہیں مگر حقائق تو کب کے خیال و خواب بن چکے ہوتے ہیں۔ عبرت سرائے دہر میں ایسا اکثر ہوتا چلا آیا ہے۔ ان دو قریبی دو دوستوں میں جدائی کی یہ رات تیس سال پر محیط رہی۔ اس کے بعد جب حمید اختر بھارت گئے تو انھوں نے ساحر لدھیانوی کے ہاں قیام کیا اور اس طرح ثابت کر دیا کہ جذبوں کی صداقت کا بھرم ہمیشہ بر قرار رہتا ہے۔ قلب اور روح کے رشتے زمانی اور مکانی تصور سے بالاتر ہوتے ہیں۔
فکر کر تعمیر دل کی وہ یہیں آ جائے گا
بن گیا جس دن مکاں خود ہی مکیں آ جائے گا
حمید اختر نے تخلیق ادب کو تزکیہ نفس کا وسیلہ بنایا۔ اپنی تخلیقی زندگی میں انھوں نے افسانے کی تخلیق پر بھر پور توجہ دینے کی تمنا کی مگر سیاست، فلم، صحافت اور دیگر فنون لطیفہ میں ان کی دلچسپی کے باعث وہ کسی ایک صنف پر پوری توجہ سے کام نہ کر سکے۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنی تخلیقی فعالیتوں سے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ ان کی سیمابی اور انقلابی طبیعت ان کی تخلیقات میں نمایاں ہے۔ فلم’’ سکھ کا سپنا‘‘میں ان کے جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں۔ ان کے اشہب قلم نے اس میں وہ جولانیاں دکھائی ہیں کہ مفلوک الحال طبقے کی حسرت و یاس بھری زندگی کے تمام موسم حقیقی صورت میں سامنے آ جاتے ہیں۔ دل کے کھلنے اور مرجھانے ہی سے تمام موسم عبارت ہیں۔ ہم عمر بھر خواب دیکھتے رہتے ہیں مگر ان خوابوں کی تعبیر بہت درد ناک ہے۔
حمید اختر نے پرو گریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبار ’’امروز‘‘ میں 1948میں کام شروع کر دیا۔ اس اخبار میں وہ مدیر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ ایوب خان نے 1958کے مارشل لا کے بعد پورے ادارے پر قبضہ کر لیا اور حمید اختر پر روزگار کے دروازے بند ہو گئے۔ اس کے بعد حمید اختر نے عبداللہ ملک اور آئی۔ اے رحمان کے اشتراک سے روزنامہ ’’آزاد ‘‘ کا اجرا کیا۔ کچھ عرصہ بعد یہ اخبار بھی بند ہو گیا۔ حمید اختر نے اخبارات میں کالم نویسی پر توجہ مرکوز کر دی۔ ایک سنجیدہ، زیرک، مستعد اور فعال کالم نویس کی حیثیت سے حمید اختر نے قومی، ملکی، ملی معاشرتی اور سماجی مسائل پر جو کالم لکھے ان کے مطالعہ سے فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جا تے ہیں۔ اپنی وفات کے وقت وہ لاہور کے ممتاز اخبار’’ روزنامہ ایکسپریس ‘‘کے ساتھ بہ حیثیت کالم نو یس وابستہ تھے۔ ان کا مشہور زمانہ کالم ’’پرسش احوال ‘‘قارئین میں بہت مقبول تھا۔ ترقی پسند اور روشن خیال ادیب کی حیثیت سے انھوں نے معاشرے میں امن و سکون، عدل و انصاف اور ترقی و خوش حالی کے یکساں مواقع مہیا کیے جائیں۔ وہ اس بات کے آرزومند تھے کہ مساوات کی بنیاد پر ہر شخص کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔ وہ محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کے متمنی تھے تاکہ بندہ و بندہ نواز کے تمام مصنوعی امتیازات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی کوئی امید بر آئے۔ قیام پاکستان سے قبل وہ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سرگرم اور معتمد کارکن تھے۔ اس کے ساتھ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین ممبئی کے 1946-1947کے عرصے میں سیکرٹر ی رہے۔ وہ اپنے نظریات میں اٹل تھے۔ اپنے نظریات کے باعث انھیں اسیری کا سامنا کرنا پڑا وہ 1951-1952 اس کے بعد 1954-1955کے دوران سیفٹی ایکٹ کے تحت قید میں رہے۔
راول پنڈی سازش کیس اور متعدد دیگر مقدمات کے باعث ان کی زندگی اجیرن کر دی گئی۔ ان کے ساتھ جن ترقی پسند ادیبوں کو پابند سلاسل کیا گیا ان میں محمود علی قصوری، آئی۔ اے رحمان، حبیب جالب، اور اداکار محمد علی کے نام قابل ذکر ہیں۔
جبر کا ہر انداز مسترد کر تے ہوئے حمید اختر نے استحصالی معاشرے اور وسائل پر قابض افراد کے کر دار کو ہدف تنقید بنایا۔ نہ صر ف انھیں حکومتی جبر و عتاب کا سامنا کر نا پڑا بلکہ ان کی اولاد کو بھی نا کردہ گناہوں کی سزا بھی ملی۔ ن کی بیٹیوں پر روز گار کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ صحافت میں انھوں نے چھ عشروں تک خون دل میں انگلیاں ڈبو کر پروش لوح و قلم کا فریضہ انجام دیا۔ ان کے نامور رفقائے کار میں سید سجاد ظہیر، سبط حسن، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور فیض احمد فیض شامل ہیں۔ سبھی ان کی حق گوئی کے معترف تھے۔ قید و بند کی صعوبتیں حمید اختر کو ہراساں نہ کر سکیں بلکہ ان کا لہجہ دبنگ ہو
گیا اور ان کہ کتاب ’’ کال کو ٹھری ‘‘ ان ایام اسیری کی یاد دلاتی ہے۔ یہ کتاب جس درد مندی اور خلوص اور انسانی ہمدردی سے سر شار ہو کر لکھی گئی ہے۔ وہ قاری پر رقت طاری کر دیتی ہے۔ 1953 میں پہلی بار شائع ہونے والی اس تصنیف کے اب تک دس ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں جو کہ اس کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ کال کوٹھڑی ان الم نصیب قیدیوں کی زندگی کی روداد سامنے لاتی ہے جن کی زندگی جبر مسلسل کی تصویر بن گئی۔ یہ بد نصیب لوگ لمحہ لمحہ وقت کی تہہ میں اتر کر موت کا انتظار کرتے ہیں اور ایک دن قلزم خون پار کر جاتے ہیں عمر قید اور سزائے موت کے قیدیوں کی زندگی کا احوال جس دردمندی اور خلوص سے حمید اختر نے بیان کیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال اردو ادب میں موجود نہیں۔ اپنے ایام اسیری کے دوران حمید اختر کو کال کوٹھڑی کے اسیروں کی الم ناک زندگی کے شب و روز بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان تمام قیدیوں کے ساتھ ان کا بھائی چارے پر مبنی درد کا ایک رشتہ استوار ہو گیا۔ ان کا خیال تھا کہ درد کا یہ رشتہ بڑی اہمیت کا حامل ہو اکرتا ہے۔ اس رشتے کو وہ انسانیت کی بنیاد پر پروان چڑھانے کے متمنی تھے۔ کال کوٹھڑی کو ایک علامت کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے، جس سے لا شعور کی توانائی کو متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے سزائے موت کے قیدی اس ہجوم یاس میں بھی موہوم امید پر رہتے ہیں کہ شاید کوئی معجزہ رونما ہو جائے اور ان کی نجات کا مژدۂ جانفزا لیے کوئی فرشتۂ رحمت آئے اور ان کو اسیری سے نجات مل جائے۔ حمید اختر نے خاکے بھی لکھے۔ ان کے لکھے ہوئے خاکوں کی دو کتب ’’ آشنائیاں کیا کیا‘‘ اور ’’احوال واقعی ‘‘ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس اور لفظی مرقع نگاری کا عمدہ نمونے ہیں۔ یہ خاکے 1930-1940کے عرصے میں لکھے گئے۔ اس عرصے میں حمید اختر کی ملاقات جن با کمال شخصیات سے ہوئی ان کا احوال انھوں نے نہایت دیانت داری اور خلوص کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ ان میں سے ساحر لدھیانوی، سید سبط حسن، ابن انشا، اخلاق احمد دہلوی، ابراہیم جلیس، سید سجاد ظہیر، کرشن چندر اور فیض احمد فیض کے خاکے نہایت بلند پایہ ہیں۔ یہ خاکے تاریخ کا انتہائی معتبر اور مؤقر حوالہ ہیں۔ نام ور ادیب احمد سلیم نے حمید اختر کی سوانح عمری تحریر کی جسے لاہور کے ممتاز اشاعتی ادارے ’’بک ہوم ‘‘ نے 2010میں شائع کیا۔
ان کی خاکہ نگاری ہر قسم کے تصنع سے پاک ہے انھوں نے شخصیات کو حقیقی روپ میں پیش کر کے ان کی زندگی کی صحیح عکاسی کی ہے۔ یہ تمام شخصیات روز مرہ زندگی میں فعال اور مستعد دکھائی دتیں ہیں۔ خاکہ نگاری کے فن کی مقتضیات سے وہ آگاہ تھے ان کے خاکوں میں شخصیات زندگی کی حرکت و حرارت لیے جلوہ گر ہوتی ہیں اور ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے حمید اختر نے انھیں مصنوعی رکھ رکھاؤ اور وضع احتیاط سے بے نیاز کر کے اپنے اصلی روپ میں پیش کیا ہے۔ کہیں بھی بھاری بھر کم عبا اور تصنع پر مبنی قبا دکھائی نہیں دیتی۔ ان کا اسلوب ان کی حقیقت نگاری کا آئینہ دار ہے۔ حمید اختر کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ 1857 کے سانحے کے بعد اس خطے کے لوگ ایک مستقل نوعیت کے احساس کم تری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ وہ احساس کم تری کو رفع کر کے اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث اور اسلاف کے کار ناموں کے حوالے سے ایک منفرد روپ پر توجہ مر کوز کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کا رجحان نیوراتیت کی جانب تھا۔ نیوراتیت دراصل احساس کمتری کا ازالہ کر کے احساس بر تری کی جانب تو جہ مبذول کرانے پر اصرار کرتی ہے۔ دراصل وہ خود نیوراتی نہیں تھے۔ وہ قوم کو ایک سطح فائقہ پر دیکھنے کے متمنی تھے۔ یہی تمنا ان کے اسلوب میں نمایاں ہے۔
حمید اختر نے اردو صحافت میں مولانا ظفر علی خان اور مولانا حسرت موہانی کا لہجہ ہمیشہ پیش نظر رکھا جو کہ ان کی تحریروں میں نمایاں ہے۔ اپنی تحریروں میں حمید اختر ایک محب وطن، بے باک اور ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے ابھرے ہیں اور بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ وہ ایک ایسے جری تخلیق کار، زیرک اور بے باک انسان ہیں جو انسانی ہمدردی، بے لوث محبت، بے باک صداقت، ایثار، خلوص اور دردمندی کو حرز جاں بنا کر زندگی کے تلخ حقائق کی گرہ کشائی پر قادر ہے۔ ان کے اسلوب میں گہرے نفسیاتی شعور کی موجودگی قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ خاص طور پر وہ اپنے کالم کے ذریعے منطقی نتائج کے حصول کی غرض سے استقرا(Induction)اور استخراج(Deduction)پر مبنی افادیت سے لبریز طریقوں کو رو بہ عمل لانے کی مقدور بھر سعی کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں متن کی جامعیت اور افادیت کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ ان کی فکر پرور تحریریں تخلیق اور اس کے لا شعوری محرکات کو ان کے حقیقی تناظر (Context) میں پیش کرتی ہیں۔ صورت حال کا یہ تناظر جسے وہ اپنی تحریروں کی اساس بناتے ہیں قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی لا محدود اثر آفرینی سے متمتع ہے۔ وطن، اہل وطن اور بنی نوع انسان کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی اور ان کے مسائل کے بار ے میں ان کی تحریریں گہرے نفسیاتی شعور کی مظہر ہیں۔ ان کے مطالعہ سے قاری کو ایک جہان دیگر تک رسائی کی امید بندھتی دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح وہ شکوۂ ظلمت شب کے بجائے اپنے حصے کی شمع فروزاں کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔
اردو ادب، تاریخ، صحافت اور ترقی پسندانہ شعور کے لیے اپنی زندگی وقف کر دینے والے اس نامور تخلیق کار کی زندگی شمع کی صورت گزری۔ سفاک ظلمتوں میں ان کا وجود ستارۂ سحر کے مانند تھا۔ ان کی تحریریں دلوں کا ایک نیا ولولہ عطا کرتیں اور حوصلے و امید کا دامن تھام کر سوئے منزل رواں دواں رہنے کی راہ دکھاتیں۔ انھوں نے اردو صحافت میں علی گڑھ تحریک کی مقصدیت کی عظیم روایت کو پروان چڑھانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا۔ ان کا دبنگ لہجہ جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتا۔ شعور اور اجتماعی لا شعور کے بارے میں ان کی تحریروں میں ایک منفرد شان جلوہ گر ہے۔ اپنی تحریروں میں حمید اختر ایک انسان دوست، محب وطن، بے باک اور روشن خیال ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ ان کی تمام تحریریں گہرے نفسیاتی شعور کی آئینہ دار ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ افکار و حوادث، مسائل و مضمرات اور صورت حالات کا وہ تمام تناظر جسے وہ اپنی تحریروں میں جگہ دیتے ہیں اصل میں لا محدود اثر آفرینی کا حامل ہے۔ تحریروں میں گنجینۂ معانی کا طلسم اسی تناظر کا مرہون منت ہے مگر اس تناظر کی وسعت لا محدود ہے۔
حمید اختر کی وفات سے تاریخ ادب کا ایک درخشاں باب اپنے اختتام کو پہنچا۔ تاریخ پاکستان کا ایک چشم دید گواہ اور تحریک پاکستان کا سر گرم مسافر راہی ء ملک عدم ہو گیا۔ وہ تاریخ، ادب، فنون لطیفہ اور اور عالمی سیاست کے ایک ایسے انسائکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے تھے جو جام جہاں نما کے مانند علم کے متلاشیوں کے لیے خضر راہ ثابت ہوتا ہے۔ انسانیت کے وقار اور عظمت کو اپنی لا زوال تحریروں سے آسمان کی بلندیاں عطا کرنے والا تخلیق کار پیوند زمیں ہو گیا۔ تنقید اور احتساب کے ذریعے مقتدر حلقوں کو آئینہ دکھانے والا محب وطن صحافی ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔ تخلیق کی عظمت اور لفظ کی حرمت کے اس محافظ سے فرشتۂ اجل نے قلم چھین لیا۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کو زندگی کا نصب العین بنانے والا حریت فکر کا مجاہد یہاں سے بہت دور چلا گیا جہاں سے کوئی کبھی واپس نہیں آیا۔ گل چین ازل نے گلشن ادب سے وہ پھول توڑ لیا جس کی عطر بیزی گزشتہ چھ عشروں سے چمن زار وطن کو مہکا رہی تھی۔ ان کے جانے سے وطن کے دیوار و در پر حسرت و یاس کا عالم ہے۔ جب تک دنیا باقی ہے ان کا نام زندہ رہے گا۔ حریت ضمیر سے جینے کی تمنا کرنے والوں کے لیے ان کا کردار لائق تقلید رہے گا۔ ان کی زندگی درد مندوں اور ضعیفوں سے محبت کی شاندار مثال تھی۔ آلام روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والی مجبور، مظلوم اور بے بس و لاچار انسانیت کے مسائل پر وہ تڑپ اٹھتے تھے۔ انھوں نے کئی ضرورت مندوں، محتاجوں اور بے سہاروں کی مدد کے لیے اپنے کاموں کے ذریعے اہل درد سے اپیل کی اور اس کا مثبت رد عمل سامنے آیا۔ اس طرح بے چراغ گھروں کے لیے ان کی آواز امید فردا کی شعاع اور طلوع صبح بہاراں کی نوید ثابت ہوئی ان کے کالم اخلاق اور اخلاص سے لبریز ہوتے تھے۔ پوری دنیا میں ان کی تحریروں کو توجہ سے پڑھا جاتا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی انھوں نے قلم و قرطاس سے اپنا تعلق بر قرار رکھا۔ مجلہ ادب لطیف لاہور کی مجلس ادارت نے اس سال کے آغاز میں ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا۔ اس یادگار محفل میں انھوں نے تاریخ کے متعدد واقعات کا چشم دید احوال بیان کیا۔ کاش یہ گفتگو جس کی ریکارڈنگ موجود ہے اسے تحریری شکل میں سامنے لایا جا سکے۔ اس طرح مستقبل کے ادبی مورخ کو اپنے تحقیقی کام کی تکمیل میں مدد مل سکتی ہے۔ انھوں نے اپنی وقیع تصانیف کال کوٹھڑی، لا مکاں، احوال دوستاں، آشنائیاں کیا کیا اور روداد انجمن کے ذریعے اردو ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں آب زرسے لکھا جائے گا۔ روداد انجمن ان کی ایک ایسی تاریخی تصنیف ہے جو انجمن ترقی پسند مصنفین ممبئی کی مختلف نشستوں کی روداد پر مشتمل ہے۔ ان کی وفات سے تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں ایک عہد کا اختتام ہوا۔ ان کی یاد میں بزم ادب مدت تک سوگواررہے گی۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
٭٭٭
لطف اللہ خان: خاموش ہو گیا ہے چمن بو لتا ہوا
مایہ ناز پاکستانی ادیب، دانش ور، محقق اور ماہر آثار قدیمہ لطف اللہ خان نے ترک رفاقت کی۔ ایک بے خوف صدا ہمیشہ کے لیے مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ وہ شعلۂ جوالا تہہ خاک چلا گیا جس نے مسلسل آٹھ عشروں تک بزم ادب کو اپنی مسحور کن گفتگو اور تخلیقی کامرانیوں سے باغ و بہار کیے رکھا اور دلوں کو گرمائے رکھا۔ ان کی علمی، ادبی، تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی خدمات تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ 3۔ مارچ 2012کی صبح اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھا اس میں لطف اللہ خان کا نام بھی رقم تھا۔ علم و ادب، فنون لطیفہ اور تاریخ کا وہ نیر تاباں جو25۔ نومبر 1916کو مدراس (چنائے )کے افق سے طلوع ہوا، علمی دنیا کو اپنی چکا چوند سے منور کرنے کے بعد 3۔ مارچ 2012کو کراچی میں غروب ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ان کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ ان کے غم میں بزم ادب سوگوار ہے اور ہر علم دوست کی آنکھ اشک بار ہے۔ لطف اللہ خان کی زندگی جہد مسلسل کی عملی صورت تھی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ 17۔ اکتوبر 1947کو کراچی پہنچے اور یہیں مستقل طور پر رہائش اختیار کر لی۔ ان کی وفات سے فروغ علم و ادب اور تاریخ کے تحفظ کا ایک درخشاں باب ختم ہو گیا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک دبستان علم و ادب تھے۔ آثار قدیمہ، تحقیق تنقید اور علم بشریات پر انھیں کامل دسترس حاصل تھی۔ ان کے بعد وفا کے سب ہنگامے ختم ہو گئے اور تاریخ کے نادر و نایاب واقعات کی روداد سنانے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ وہ تاریخ کے مسلسل عمل کے چشم دید گواہ اور معتبر ترین راوی تھے۔ اللہ کریم انھیں جوار رحمت میں جگہ دے۔ اور جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند کرے۔
تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
لطف اللہ خان کے والد ساؤتھ انڈین ریلوے میں ملازم تھے۔ انھوں نے اپنے فرزند کی ابتدائی تعلیم کے لیے اسے مدراس کے ایک معیاری تعلیم ادارے میں بھیجا۔ بر صغیر کے عوام کے ساتھ المیہ یہ ہوا ہے کہ جب 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد ظالم و سفاک، موذی و مکار غاصب برطانوی تاجر مکر کی چالوں سے تاجور بن بیٹھے تو یہاں کے عوام کے چام کے دام چلائے گئے۔ عقابوں کے نشیمن اب زاغوں کے تصرف میں تھے۔ یہاں ایسا نظام تعلیم وضع کیا گیا جس کے تحت شاہین بچوں کو خاک بازی کا سبق ملتا اور اہل مدرسہ ان ہو نہار بچوں کا گلا گھونٹ کر انھیں حریت فکر و عمل سے بے بہرہ کرنے میں کوئی تامل نہ کرتے۔ لطف اللہ خان کے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا میٹرک کے امتحان میں جب دو بار مسلسل انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو وہ دل برداشتہ ہو گئے۔ وہ تعلیم کو خیر باد کہہ کر آرٹ اور فنون لطیفہ کی طرف مائل ہوئے۔ اور اپنی دنیا آپ پیدا کر کے دنیا میں نام پیدا کرنے کی ٹھان لی۔ وہ جانتے تھے کہ زندگی جوئے شیرو تیشہ و سنگ گراں کا نام ہے۔ بچپن ہی سے انھیں کھیل کود سے دلچسپی تھی۔ کھیلوں میں وہ باکسنگ کے دلدادہ تھے۔ انھوں نے باکسنگ کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور کئی مرتبہ اپنے مخالف کھلاڑی کو نا ک آؤٹ کیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ عمر بھر عزم و ہمت کی چٹان بن کر اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور سبک نکتہ چینیوں سے بے نیاز رہتے ہوئے اس صاحب کمال نے ہمیشہ بے کمالی کے نمونوں کو مسلسل ناک آؤٹ کر کے ثابت کر دیا کہ روشنیوں کی راہ میں دیوار بننے والے ہر حال میں ہزیمت اٹھاتے ہیں اور لطف اللہ خان جیسے اولوالعزم ان دانش مند ستاروں پہ کمند ڈال کر جریدۂعالم پر اپنا دوام ثبت کر دیتے ہیں۔
اپنی ابتدائی زندگی میں لطف اللہ خان نے فنون لطیفہ، مصوری، فوٹو گرافی، موسیقی اور اداکاری میں گہری دلچسپی لی۔ موسیقی سے ان کا جو قلبی لگاؤ تھا اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جب وہ کم عمر طالب علم تھے وہ تعلیمی اداروں میں منعقد ہونے والی ایسے مقابلوں میں بھر پور حصہ لیتے جہاں غزلیں ترنم کے ساتھ پڑھی جاتی تھیں۔ اس نوعیت کے مقابلوں میں انھیں 1939سے 1945 تک کے عرصے میں متعدد انعامات ملے۔ یہ دلچسپی عمر بھر بر قرار رہی۔ فنون لطیفہ سے ان کی دلچسپی ان کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی۔ فلمی دنیا سے بھی ان کی دلچسپی روز افزوں تھی۔ وہ فلمی اشتہارات، اداکاروں اور نامور فن کاروں کی تصاویر اور ان کے کردار پر نظر رکھتے اور ان کا تجزیاتی مطالعہ کرنے میں اپنی تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے۔ ان کے خیالات سن کر اس عہد کے ممتاز اور کہنہ مشق تجزیہ کار حیرت زدہ رہ جاتے اور انھیں داد دیتے تھے۔ اپنے ذوق مو سیقی کی تسکین کے لیے لطف اللہ خان نے اس عہد کے ایک ماہر مو سیقار کی شاگردی اختیار کی۔ جس نے استاد عبدالکریم خان سے اکتساب فیض کیا تھا۔ لطف اللہ خان نے راگ درباری میں اپنی مہارت سے استاد کو حیرت زدہ کر دیا۔ ان کا استاد ان کی خداداد صلاحیتوں کا معترف تھا۔ اس نے اس ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات دیکھ کر اس کی صحیح سمت میں رہنمائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ لطف اللہ خان اپنے دبنگ لہجے اور الفاظ کی ترنگ سے سامعین کو مسحور کر دیتے تھے۔ ان کے استاد نے ان کی اس خداداد صلاحیت کا احساس کرتے ہوئے انھیں نشریاتی اداروں میں اپنے فن کے جوہر دکھانے کا مشورہ دیا۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ فطرت خود بہ خود لالے کی حنا بندی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ لطف اللہ خان کو خود بھی یہ احساس تھا کہ وہ صدا کاری، اداکاری اور گلو کاری میں اپنے جوہر دکھا سکتے ہیں۔ وہ اپنے استاد کے ہمراہ آل انڈیا ریڈیو مدراس پہنچے جہاں ان کی آواز کا ٹیسٹ ہوا۔ ریڈیو کے ماہرین نے متفقہ طور پر اس نوجوان کو اپنے ہاں کام کرنے کے لیے منتخب کر لیا۔ یہ 1933کا واقعہ ہے جب انھیں آل انڈیا ریڈیو میں پیش کار (Presenter)کی حیثیت سے کنٹریکٹ پر کام ملا۔ اس ملازمت کو لطف اللہ خان کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے بعد انھوں نے جو تاریخی کامرانیاں اور علمی و ادبی فتوحات حاصل کیں ان کی بدولت ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ 1935میں لطف اللہ خان نے آل انڈیا ریڈیو مدراس سے ’’مدراس میں موسیقی ‘‘کے موضوع پر دو گھنٹے دورانیے کا ایک پروگرام پیش کیا۔ اس پروگرام میں لطف اللہ خان نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر اس انداز سے دکھائے کہ ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔ اس پروگرام کا نمایاں ترین پہلو یہ تھا کہ لطف اللہ خان نے خود کرناٹک کی موسیقی پیش کی اور سامعین کے دل جیت لیے۔ یہیں سے ان کی صدا کاری اور گلو کاری کے جوہر کھلنے لگے اور ان کے پیش کردہ پروگراموں کو بے پناہ مقبولیت اور پذیرائی ملنے لگی۔ انھوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے اور جو کامرانیاں حاصل کیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے :
کون ستارے چھو سکتا ہے راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے
شبنم رومانی کے ساتھ لطف اللہ خان کے قریبی تعلقات تھے۔ وہ شبنم رومانی کی شاعری کے شاہ کار ’’مثنوی شہر کراچی ‘‘کو بہت پسند کرتے تھے۔ اس زمانے کے کراچی شہر کے بارے میں شبنم رومانی نے جو لفظی مرقع نگاری کی ہے اسے پڑھ کر قاری چشم تصور سے ایام گزشتہ کی تصویر دیکھ لیتا ہے۔ لطف اللہ خان اپنے احباب کو اس زمانے کی یاد داشتوں کے حوالے سے بتایا کرتے تھے کہ اب تو زمانے کے انداز یکسر بدل گئے ہیں۔ جب انھوں نے پہلی مرتبہ 17۔ اکتوبر 1947کی صبح ساڑھے گیارہ بجے اس شہر میں قدم رکھا تو مسرت اور اطمینان کا عجیب احساس ہوا۔ دل میں ایک لہر سی اٹھی جیسے طلوع صبح بہاراں کے بعد اس شہر کی ہوا ان کے مشام جاں کی تطہیر و تنویر میں مصروف ہے۔ اس شہر میں چلنے سے دامن دل معطر ہو گیا۔ اس زمانے کے کراچی شہر کے بارے میں وہ بتاتے تھے کہ شہر کیا تھا محض کیماڑی سے لے کر پلازہ ہو ٹل صدر تک آبادی تھی پور اشہر ان دو کناروں کے اندر سمٹا ہوا تھا۔ اب تو کراچی کے چاروں طرف بھی کراچی ہی ہے۔ یہ شہر اب اس قدر پھیل گیا ہے کہ کہ اس کی پرانی کیفیات اب خیال و خواب محسوس ہو تی ہیں۔ انھیں اس بات کا شدید قلق تھا کہ آبادی میں بے ہنگم اضافے اور شہر کے بے تحاشا پھیلاؤ کے باعث یہاں کے مکیں لا ینحل مسائل میں گھر گئے ہیں۔ مسائل و مشکلات اور مصائب و آلام کا ایک غیر مختتم سلسلہ ہے جس سے گلو خلاصی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس زمانے میں شہریوں کو ٹرانسپورٹ کے لیے صرف اونٹ گاڑیوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا یہ درست ہے کہ اب اونٹ گاڑیوں کی جگہ بڑی تعداد میں کاریں دکھائی دیتی ہیں لیکن زندگی کی سادگی اور فطری حسن اب عنقا ہے۔ ان کی یہ بات درست ہے کہ زندگی کی برق رفتاریوں میں زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو ہم نے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
جھنگ کے ممتاز ادیب محمد شیر افضل جعفری کے ساتھ لطف اللہ خان کی دیرینہ رفاقت رہی۔ سید جعفر طاہر جو ریڈیو پاکستان راول پنڈی سے ’’فوجی بھائیوں کا پروگرام ‘‘پیش کرتے تھے وہ بھی لطف اللہ خان کے بہت بڑے مداح تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ریڈیو نشریات کے بنیاد گزاروں میں پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس اور سید ذوالفقار علی بخاری کے نام ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ پوری دنیا میں ان نابغۂ روزگار ادیبوں کا نام بڑی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ بر صغیر میں نشریات کے شعبہ میں ان کی خدمات کا عدم اعتراف نہ صرف نا شکری بلکہ تاریخی صداقتوں کی تکذیب کے مترادف ہو گا۔ بر صغیر میں روایتی انداز کی براڈ کاسٹنگ کا آغاز 1857کی ناکام جنگ آزادی کے کافی بعد ہوا۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ مسٹر فیلڈن اس کے بنیاد گزار تھے۔ اس کام میں مسٹر فیلڈن کو پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس اور سید ذوالفقار علی بخاری کی معاونت حاصل تھی۔ اس طرح بر صغیر میں روایتی براڈ کاسٹنگ کی ایک مضبوط و مستحکم روایت قائم ہو گئی۔ لطف اللہ خان نے ریڈیو نشریات کی اس درخشاں روایت کو پروان چڑھانے میں اہم خدمات انجام دیں۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے اس وقت پاکستان میں ریڈیو پاکستان کی لائبریری کا سنٹرل پروڈکشن آرکائیو سرکاری شعبے میں بہت اہم اور وقیع ترین سرمایہ ہے۔ آج سے نصف صدی قبل وجود میں آنے والی اس عظیم لائبریری میں قدیم تاریخ کے جو خزانے موجود ہیں اسے پوری دنیا میں معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرنے میں تمام وسائل کو بروئے کار لایا گیا ہے۔
سید جعفر طاہر نے ایک ملاقات میں بتایا کہ لطف اللہ خان کثیر الاحباب شخص تھے۔ ریڈیو پاکستان میں کلیدی عہدوں پر کام کرنے والے افسران سے ان کے قریبی تعلقات عمر بھر بر قرار رہے۔ اس معتبر ربط کے ذریعے وہ اپنے ذوق اور مشغلے کی تسکین اور تکمیل کی صورت تلاش کر لیتے تھے۔ ان کے ذاتی آواز خزانے میں موجود بیش تر اہم آوازیں اسی ماخذ کی مرہون منت ہیں۔ لطف اللہ خان نے ذاتی کاوشوں اور محدود وسائل میں رہتے ہوئے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ان کا موازنہ سرکاری اداروں کے لا محدود وسائل سے تیار ہونے والے آرکائیو سے کرنا غیر حقیقت پسندانہ سوچ کے مترادف ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض ایسی نادر و نا یاب آوازیں بھی ہوں جو سوائے لطف اللہ خان کے خزانے کے کہیں اور دستیاب نہ ہوں۔ نجی سطح پر یہ اتنا بڑا کام ہے جس میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں۔
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
آوازیں محفوظ کرنے کا سلسلہ لطف اللہ خان نے 1936میں شروع کیا جب انھوں نے پہلی مرتبہ اپنی والدہ محترمہ کی آواز محفوظ کی۔ ان کی میوزیم گیلری میں نادر و نا یاب اشیا کی موجودگی جہاں ان کے ذوق سلیم کی مظہر ہے وہاں ان کی محنت لگن اور انتھک جد و جہد کا اندازہ بھی اس سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی میوزیم گیلری میں انواع و اقسام کی اشیا موجود ہیں ان میں قدیم تصاویر، فوٹو گرافی کا سامان، ملکی اور غیر ملکی سکے، سٹیشنری کا سامان، آواز ریکارڈ کرنے کا سامان، ڈرائنگ کاسامان، استاد بڑے غلام علی خان کی موسیقی کے البم اور قدیم فلمیں۔ جہاں تک کتب کا تعلق ہے ان کے اس عجائب گھر میں متعدد اہم اور نا یاب کتب بھی محفوظ ہیں۔ ان میں مذہب، فنون لطیفہ، آرٹ، کلچر اور سماج کے موضوعات پر ایک وقیع ذخیرہ موجود ہے۔ لطف اللہ خان کی شخصیت اور فن پر جو تحقیقی کام ہوا ہے وہ بھی اس ذخیرے میں یک جا کر دیا گیا ہے۔ کوئی دس برس قبل لطف اللہ خان کے اسلوب، فن اور شخصیت پر قریب قریب دو سو مقالات شائع ہو چکے تھے۔ ان میں سے 185مقالات اس ذخیرے میں دستیا ب ہیں۔
لطف اللہ خان نے تخلیق ادب پر بھی توجہ دی۔ اردو نثر میں ان کا اسلوب سادگی اور سلاست کی شاندار مثال ہے۔ ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
تماشائے اہل قلم، سر کی تلاش، ہجرتوں کے سلسلے، زندگی کا سفر
لطف اللہ خان نے اپنے ذخیرے میں جس مہارت اور ذوق سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے تاریخ کو محفوظ کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ انھوں نے مذہب، بر صغیر کی مو سیقی، اردو ادب، اہم شخصیات کی تقاریر، تعلیمی اہمیت کے حامل موضوعات، آرٹ اور فنون لطیفہ اور نادر مخطوطات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ اس ذخیرے میں موسیقی کا ایک گراں قدر انتخاب موجود ہے۔ اس ذخیرے میں قدیم آلات مو سیقی، قدیم گلوکاروں کی آواز، کلاسیکی اور نیم کلاسیکی گائیکی کے نمونے، غزل، گیت لوک موسیقی، دھمال، علاقائی گیت اور قوالی شامل ہیں۔ جن ممتاز شخصیات کی تقاریر اس ذخیرے میں موجود ہیں ان میں قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو ، حکیم محمد سعیداور مولانا ابوالکلام آزاد کے نام قابل ذکر ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے آواز خزانے میں پانچ ہزار آوازیں محفوظ ہیں۔ اگر ان کو سننا مقصود ہو تو تو پیہم ساڑھے تین سال تک یہ سلسلہ جاری رکھا جائے تب بھی یہ ختم نہیں ہو سکتا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ذخیرہ کس قدر ضخیم اور عظیم ہے۔
اپنی عملی زندگی میں لطف اللہ خان نے بے پناہ محبتیں سمیٹیں۔ دنیا بھر میں ان کے مداح کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ نامور علمی اور ادبی شخصیات کے ساتھ ان کے نہایت قریبی مراسم تھے۔ ان کے حلقۂ احباب میں مشفق خواجہ، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر بشیر سیفی، صاحب زادہ رفعت سلطان، سید جعفر طاہر، محمد شیر افضل جعفری، ڈاکٹر رحیم بخش شاہین، ڈاکٹر محمد ریاض اور مجید امجد شامل تھے۔ پاکستان میں تحقیق اور تنقید پر بالعموم توجہ نہیں دی جاتی۔ لطف اللہ خان کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ نو جوان نسل کو تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی ترسیل وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اگر نوجوان نسل کو اس ورثے کی منتقلی میں غیر معمولی تاخیر ہو گئی تو ان کے بھٹک جانے کا خطرہ ہے۔ لطف اللہ خان کی زندگی شمع کے مانند گزری ان کے اعمال و افعال ایک کھلے ہوئے امکان کی صورت میں فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں۔ وہ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلا ص سے بھر پور رویہ اپناتے۔ وہ مصلحت وقت کے بالکل قائل نہ تھے۔ جو بات کہتے وہ بر ملا کہتے تذبذب اور گو مگو کی کیفیت ان کے مزاج میں ہر گز نہ تھی۔ ایسے ابن الوقت لوگ جو در کسریٰ پر صدا کر کے ان بوسیدہ کھنڈرات میں گدا گری کی عادت میں مبتلا ہیں وہ انھیں سخت نا پسند تھے۔ سلطانیِ جمہور کے وہ زبردست حامی تھے۔ اس بے حس معاشرے میں جو فروش گندم نما اور موقع پرست عناصر نے اندھیر مچا رکھا ہے۔ لطف اللہ خان نے ہمیشہ عظمت کردار پر زور دیا۔ وہ تخلیقی فعالیت کو تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی شعور کو پروان چڑھانے کے لیے بروئے کار لانے کے سد آرزو مند رہے۔
لطف اللہ خان نے اپنی تمام عمر تاریخی اور تہذیبی تحفظ کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ وہ ایک روشن خیال ادیب اور حریت فکر کے مجا ہد تھے۔ ان کی بے مثال خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ وہ اگرچہ تمام عمر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہے مگر ان کے مداح ان کی تاریخی، سماجی، علمی اور ادبی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ سماج اور تاریخ کے ساتھ انھیں گہری دلچسپی تھی ان کی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ وہ ہمیشہ قومی دردمندی اور خلوص کے مدار میں سر گرم سفر رہنے پر اصرار کرتے۔ ان کی عظیم الشان آرکائیو کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل سے غفلت برتنا حد درجہ مہلک روش ہے۔ یہ تاریخ ہی ہے جو افراد معاشرہ کو مستقبل کی پیش بینی کی راہ دکھاتی ہے۔ تاریخ کی مدد سے ایام گز شتہ کی کتاب کے اوراق کا مطالعہ ممکن ہے۔ جو اقوام تاریخ کے سبق کو فراموش کر دیتی ہیں ان کا جغرافیہ انھیں حرف غلط کی طرح مٹا دیتا ہے۔ لطف اللہ خان کو قدرت کاملہ کی جانب سے جو فقیدالمثال تاریخی شعور عطا کیا گیا تھا اس کے اعجاز سے وہ حالات و واقعات پر پڑنے والی ابلق ایام کے سموں کی گرد صاف کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ہر قسم کی عصبیت سے بالا تر رہتے ہوئے اور وسعت نظر سے کام لیتے ہوئے قومی تعمیر و ترقی کی جانب اپنا سفر جاری رکھا جائے۔ وہ تاریخ انسانی کو اس عالم آب و گل کی سب سے عظیم قدر سے تعبیر کرتے تھے۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو وہ بہت اہم خیال کرتے تھے۔ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کو درندگی کا نام دیتے تھے انسانیت پر کوہ ستم توڑنے والوں کو وہ سماج اور معاشرے کا دشمن قرار دیتے تھے ان درندوں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ مشق ستم کے باعث زندگی کی رعنائیاں گہنا جاتی ہیں گھر ویران ہو جاتے ہیں اور جہاں پہلے سر و صنوبر اگا کرتے تھے وہاں زقوم اور حنظل سر اٹھانے لگتے ہیں۔ لطف اللہ خان نے ہمیشہ اخلاقی، انسانی، تہذیبی اور ثقافتی اقدار کی ترویج و اشاعت پر زور دیا۔ ان اقدار عالیہ کا وجود معاشرتی زندگی میں امن اور اطمینان کا وسیلہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رخش عمر مسلسل رو میں ہے۔ انسان کا نہ تو ہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی پا رکاب میں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کہاں جا کر دم لیتا ہے۔ موت اک ماندگی کا وقفہ ہے۔ انسان تھوڑا سا دم لے کر آگے چلتا ہے۔ لطف اللہ خان اب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی یادیں تا ابد دلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتی رہیں گی۔ فضاؤں میں ہر طرف ان کی یادیں بکھری ہوئی ہیں ہم جس سمت بھی نگاہ دوڑاتے ہیں ان کی صدائے باز گشت سنائی دیتی ہے کہ ابھی نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی۔ پر عزم انداز میں سر گرم سفر رہو کیوں کہ ابھی منزل بہت دور ہے۔ وہ سراپا محبت اور خلوص تھے۔ ایسے عظیم لوگ کبھی مر نہیں سکتے۔ شہرت عام اور بقائے دوام ان کا مقدر بن جاتا ہے۔
روشن کسی اور افق پر ہو گاسورج کبھی ڈوبتا نہیں ہے
٭٭٭
مغنی تبسم: تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
عالمی شہرت کے حامل نامور ادیب، دانش ور، ماہر تعلیم، نقاد، محقق اور مدیر پروفیسر ڈاکٹر اے۔ ایم مغنی تبسم نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ 15فروری 2012کی سہ پہر پانچ بج کر تیس منٹ پر اردو زبان و ادب کے اس آفتاب جہاں تاب کو قطب شاہی شہر خموشاں حیدرآباد (خیرت آباد )میں ہزاروں سوگواروں نے پھولوں کا کفن پہنا کر، آنسوؤں، آہوں اور سسکیوں کے جذبات حزیں کا نذرانہ پیش کر کے سپرد خاک کر دیا، جس کی ضیا پاشیوں سے مسلسل سات عشروں تک اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا اور سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں۔ اس شہر خموشاں کی خاک نے اس عنبر فشاں پھول کو اپنے دامن میں سمو لیا جس کی عطر بیزی سے پوری علمی و ادبی دنیا مہک اٹھی تھی۔ رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اس کے دم سے تھے۔ ان کا وجود طلوع صبح بہاراں کی نوید تھا اور ان کی تعلیمات، ادبی خدمات اور تخلیقی کامرانیاں تاریک شب میں ستارۂ سحر کے مانند تھیں۔ اتنے بڑے مدبر کی وفات کی خبر سے پوری علمی دنیا پر سکتے کی کیفیت طاری ہو گئی۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
ابھی دو روز قبل (13۔ فروری 2012)ان کے دیرینہ رفیق اور محرم راز شہر یار نے ترک رفاقت کی تھی۔ یکے بعد دیگرے یہ سانحات روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر گئے۔ مغنی تبسم اور شہر یار کی آپس میں گہری دوستی اور دیرینہ رفاقت تھی۔ انھوں نے مل کر رہنے اور مل کر کام کرنے کا جو عہد وفا استوار کیا اس پر صدق دل سے عمل کیا اور اسے علاج گردش لیل و نہار سمجھا۔ تقدیر کے فیصلے اور راز بھی عجیب ہوتے ہیں۔ انسانی عقل اور فہم و فراست ان کی گرہ کشائی سے قاصر ہے۔ شہر یار کی وفات کے صرف دو دن بعد مغنی تبسم نے اپنی بزم وفا سے جانے والے دوست کو آواز دی تم تنہا چلے گئے، میں تمھاری تنہائی کا مداوا کروں گا۔ میں بھی تمھارے بغیر اب اس سراب میں مزید بھٹک نہیں سکتا۔ عمر بھر ساتھ رہنے اور ساتھ نبھانے کا جو عہد کیا تھا اس کی تکمیل کا وقت آ گیا ہے۔ اب تمھیں زیادہ انتظار کی زحمت نہیں ہو گی۔
جو تجھ بن نہ جینے کا کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
مغنی تبسم کی وفات سے اردو زبان و ادب کے فروغ کی مساعی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ان کی مثال علم و ادب کے ایک ایسے دائرۃا لمعارف کی تھی جس کی بدولت طالب علموں کو نشان منزل مل جاتا، اساتذہ کو فکر پرور اور بصیرت افروز رہنمائی میسر آتی، محققین کو بنیادی مآخذ تک رسائی کی صورت دکھائی دیتی، نقادوں کو صحت مند تنقید کا حو صلہ ملتا اور تخلیق کاروں کو پرورش لوح و قلم کا قرینہ سمجھ میں آ جاتا۔ ان کی ذات ایک جام جہاں نما تھی جس میں عالمی ادبیات کے تصورات اور عصری آگہی کے جملہ معائر حقیقی تناظر میں دکھائی دیتے تھے۔ ایک ایسے منبع علم وا دب کا اجل کے ہاتھوں یوں خشک ہو جانا تقدیر کا ایک جان لیوا ستم ہے۔ مغنی تبسم زینۂ ہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے۔ ان کے بعد وفا کے سب ہنگامے عنقا ہو چکے ہیں۔ اس سانحے پر ناطقہ سر بہ گریباں اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ اپنی بے بسی، محرومی اور علمی کم مائیگی کی فریاد کیسے کی جائے۔ زمانے کے یہ انداز اور تقدیر کے یہ راز کو ن سمجھ سکا ہے۔
پر زمانہ تو پرواز نور سے بھی ہے تیز
کہاں ہے کون تھا جس نے ابھی کہا تھا کہ میں ہوں (ضیا جالندھری)
اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے مغنی تبسم کی خدمات تاریخ ادب میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ ان کی وفات سے اردو ادب کا ایک درخشاں عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ مسلسل سات عشروں تک پرورش لوح و قلم میں مصروف رہنے والے اس نابغۂ روز گار ادیب نے اپنی تخلیقی کامرانیوں سے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ ان کی بیس کے قریب وقیع تصانیف اور دو سو سے زائد عالمانہ تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع ہوئے جو ان کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز ہے۔ فانی بدایونی پر ان کا پی ایچ۔ ڈی سطح کا تحقیقی مقالہ معیار اور وقار کی رفعت کا مظہر ہے۔ اس مقالے میں مطالعۂ احوال کا جو ارفع معیار نظر آتا ہے وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ اردو زبان میں تحقیق اور تنقید کو جو اعلیٰ ترین معیار انھوں نے عطا کیا وہ ان کی علمی فضیلت، تنقیدی بصیرت اور ذوق سلیم کا مظہر ہے۔ تاریخ ادب ہر دور میں ان کے عظیم الشان کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی اور ان کے نام کی تعظیم کرتی رہے گی۔ ان کی وفات پر ہر آنکھ پر نم ہے۔
جان کر منجملۂ خاصان مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے(جگر مراد آبادی)
مغنی تبسم 13۔ جون 1930کو حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک علمی و ادبی خاندان سے تھا۔ انھوں نے اردو اور فارسی زبان میں ایم۔ اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اس کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی میں تدریس اردو پر مامور ہوئے۔ اس تاریخی مادر علمی میں انھوں نے بیس برس سے زائد عرصے تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ وہ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے شعبہ اردو کے سربراہ بنے۔ ان کی نگرانی میں شعبہ اردو نے بہت ترقی کی۔ یہاں کے طلبا و طالبات نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے سخت محنت، لگن اور فرض شناسی کو شعار بنایا۔ ان کے عالمانہ لیکچرز کو سن کر طلبا و طالبات گہرا اثر قبول کرتے اور اپنے دلوں میں ایک ولولۂ تازہ موجزن محسوس کرتے۔ مغنی تبسم نے متعدد جامعات میں توسیعی لیکچرز دئیے ان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ اردو یونیورسٹی، یونیورسٹی آف حیدرآباد، میسور یونیورسٹی، آندھرا پردیش اوپن یونیورسٹی، اور ممبئی یونیورسٹی قابل ذکر ہیں۔ مغنی تبسم کی علمی، ادبی اور تدریسی خدمات کا پوری دنیا میں اعتراف کیا گیا۔ ان کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ ان اعزازات میں کچھ تو اردو اکیڈیمیوں کی جانب سے ملے۔ ان میں اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال، آندھرا پردیش کی اردو اکیڈیمیاں شامل ہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں آندھرا پردیش کے میڈاناٹرسٹ، بابول ریڈی فاؤنڈیشن (حیدرآباد)، پٹی سری رامولا ٹیلیگویونیورسٹی (حیدرآباد)اور مہاراشٹریا ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے بھی ایوارڈ ملے۔ ان کی شاعری اور ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں غالب ایوارڈ بھی ملا۔ عالمی سطح پر ان کی بہت پذیرائی ہوئی۔ سال 2007میں انھیں عالمی فروغ اردو ایوارڈ قطر سے ملا۔ دوحہ قطر سے ملنے والے اس گراں قدر ایوارڈ کی مالیت ایک لاکھ پچاس ہزار روپے نقد اور طلائی تمغہ تھا۔ ان کی یہ فقید المثال کامرانیاں انھیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتی ہیں۔
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے مغنی تبسم نے انتھک جد و جہد کی۔ انھوں نے دو رجحان ساز ادبی مجلات کی ادارت کی۔ ان میں سب رس اور شعر و حکمت شامل ہیں۔ شعر و حکمت میں وہ نامور ادیب شہر یار کے ساتھ مل کر ادارتی فرائض انجام دیتے تھے۔ ان دو مجلات نے پوری دنیا میں اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ سب رس اور شعر و حکمت نے اسی روایت کو آگے بڑھایا جسے تہذیب الاخلاق نے نمو بخشی تھی۔ تخلیق ادب کو عصری آگہی سے متمتع کرنے میں ان مجلات کا کردار اردو ادب کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ادارۂ ادبیات اردو کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے انھوں نے اس ادارے کو حد درجہ مؤثر اور فعال بنایا۔ اس کے بعد وہ ادارۂ ادبیات اردو کے سربراہ کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے اور اس عظیم ادارے کی ترقی کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ قدیم مخطوطات کے تحفظ اور قدیم تذکروں اور شعری مجموعوں کو ان کی اصل صورت میں محفوظ کرنا ان کی اولین ترجیح رہی۔ متن کے محقق کی حیثیت سے انھوں نے ہمیشہ اولین مآخذ کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ انھوں نے زندگی بھر تخلیق ادب اور تدریس اردو سے اپنا تعلق بر قرار رکھا دنیا بھر میں فروغ اردو کے لیے کی جانے والی کوششوں کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پاکستان میں انجمن ترقی اردو، کراچی، مجلس ترقی ء ادب، لاہور اور حلقہ ارباب ذوق کی علمی و ادبی خدمات کے وہ معترف تھے۔ اردو نظم کے حوالے سے وہ ن۔ م۔ راشد اور میراجی کی شاعری کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ حالات نے میراجی کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قسمت سے محروم اس تخلیق کار کو اس عالم آب و گل میں محض سینتیس سال پانچ ماہ اور نو دن سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ابتدائی عمر کے سترہ برس اور میرا کے عشق کے جنون کا عرصہ اس سے نکال دیا جائے تو تخلیق فن کے لیے اسے محض بیس برس کی مہلت ملی۔ اس قلیل عرصے میں بھی میرا جی نے جو ابد آشنا کام کیا وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ پاکستان میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کی جانے والی مساعی کو انھوں نے ہمیشہ بہ نظر تحسین دیکھا۔ پاکستانی ادیبوں سے ان کے قریبی اور خلوص پر مبنی تعلقات عمر بھر بر قرار رہے۔ ان کے احباب میں محسن بھوپالی، غفار بابر، معین تابش، بشیر سیفی، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر رحیم بخش شاہین، ڈاکٹر محمد ریاض، نظیر صدیقی، قدرت اللہ شہاب، صہبا لکھنوی، شبنم رومانی، اظہر جاوید، محمد شیر افضل جعفری، مجید امجد، تقی الدین انجم (علیگ)، سید عبدالباقی (عثمانیہ)، صاحب زادہ رفعت سلطان، الحاج سید غلام بھیک نیرنگ، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، کبیر انور جعفری، غلام علی چین، رانا سلطان محمود، منصور قیصر اور اشفاق احمد شامل تھے۔ اب تو یہ سارا گلستان ادب اور اس سے وابستہ تمام حقائق آنکھوں سے اوجھل ہو چکے ہیں۔ کیسے کیسے آفتاب و ماہتاب اور چاند چہرے شب فرقت پہ وارے جا چکے ہیں۔ ان سب کی یاد آتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہ باغ نہ جانے کس کی نظر کھا گئی۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
مغنی تبسم کی شاعری قلب اور روح کی گہرائی میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ خون بن کر رگ سنگ میں اتر جانے کی سعی میں کام یاب ہیں۔ ان کی شاعری کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی۔ انھوں نے متعدد عالمی مشاعروں میں شرکت کی۔ ان کے کلام کو بڑی توجہ کے ساتھ سنا جاتا اور اس کی جی بھر کے پذیرائی کی جاتی۔ انسانیت کا وقار اور سر بلندی انھیں دل و جان سے عزیز تھی۔ دکھی انسانیت کے لیے وہ ہمہ وقت مرہم بہ دست رہتے اور ان کے مصائب و آلام پر دلی رنج کا اظہار کرتے۔ مغنی تبسم نے تخلیق ادب کو تہذیبی اور ثقافتی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ 1857 کے الم ناک سانحہ کے بعد اس علاقے کے بے بس و لاچار اور مظلوم عوام پر جو کوہ غم ٹوٹا اس کے مسموم اثرات تخلیق ادب پر بھی پڑے۔ جب ظالم و سفاک برطانوی استعمار سے گلو خلاصی کی نوبت آئی تو 1947میں حالات یکسر بدل گئے۔ ان جغرافیائی تبدیلیوں کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ یہ اثرات اردو ادب کے تخلیق کاروں کے اسلوب میں نمایاں ہیں۔ ان تبدیلیوں نے اردو ادب کو نئی جہات اور متنوع تجربات سے آشنا کیا۔ مغنی تبسم کی شاعری میں ان کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
چھپا رکھا تھا یوں خود کو کمال میرا تھا
ہر ایک دست طلب میں سوال میرا تھا
ہر ایک پائے شکستہ میں تھی مری زنجیر
ہر ایک دست طلب میں سوال میرا تھا
میں ریزہ ریزہ بکھرتا چلا گیا خود ہی
کہ اپنے آپ سے بچنا محال میرا تھا
ہر ایک سمت سے سنگ صدا کی بارش تھی
میں چپ رہا کہ یہی کچھ مآل میرا تھا
ترا خیال تھا تازہ ہوا کے جھونکے میں
جو گرد اڑ کے گئی ہے ملال میرا تھا
میں رو پڑا ہوں تبسم سیاہ راتوں میں
غروب ماہ میں شاید زوال میرا تھا
اردو شاعری میں حریت فکر کی ایک مضبوط اور مستحکم روایت موجود ہے۔ مغنی تبسم کی شاعری اسی روایت کا تسلسل ہے۔ ادبی محقق کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام نئی جہات کا جائزہ لے جن کے متنوع اثرات سے تخلیق ادب کا نیا منظر نامہ سامنے آ رہا ہے۔ مغنی تبسم نے ہمیشہ حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھا۔ وہ اردو زبان و ادب کے بے لو ث خدمت گار تھے۔ اردو زبان و ادب کو ثروت مند بنانے کے سلسلے میں ان کی خدمات کو پوری دنیا میں بہ نظر تحسین دیکھا گیا۔ وہ حریت ضمیر سے جینے کو اپنا نصب العین سمجھتے تھے۔ زندگی کے مسائل سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے وہ زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کی پاس داری کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیتے تھے۔ اردو ادب میں تہذیبی اور ثقافتی ارتقا پر ان کی گہری نظر تھی۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک اس علاقے کے لوگ اپنے کلچر کے تحفظ کو یقینی نہیں بناتے اس وقت تک فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم یہاں نہیں آ سکتا۔ سلطانی ء جمہور کے وہ بہت بڑے حامی تھے۔ آمریت کے خلاف ادیبوں کی جد و جہد کو وہ ایک بہت بڑی خدمت سمجھتے تھے جس کی بدولت عوام میں مثبت شعورو آگہی پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ تاریخ کے مسلسل عمل کو وہ بہت اہم سمجھتے تھے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کسی بھی قوت کو دوام نہیں، ہر کمال کو بالآخر زوال سے ہم کنار ہونا پڑتا ہے۔ ہر اولی لامر کو یہ صدا سن لینی چاہیے تا کہ وہ اپنی فر د عمل پر نظر رکھے اور جزا و سزا کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ مغنی تبسم کی شاعری میں وسیع تجربات، عمیق مشاہدات، دردمندی اور خلوص پر مبنی بے باک تجزیات کی مسحور کن کیفیت قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ان کا اسلوب نئی جہات، حسین الفاظ اورمسحور کن معنویت کی بدولت فکر و نظر پر انمٹ نقوش چھوڑتا ہے۔ انھیں زبان و بیان اور اظہار پر جو بے پناہ قدرت حاصل تھی وہ ان کے اسلوب میں نمایاں ہے۔ ان کے اسلوب کی انفرادیت انھیں مقبولیت عطا کرتی ہے۔
چڑھے ہوئے تھے جو دریا اتر گئے اب تو
محبتوں کے زمانے گزر گئے اب تو
نہ آ ہٹیں ہیں نہ دستک نہ چاپ قدموں کی
نواح جاں سے صدا کے ہنر گئے اب تو
صبا کے ساتھ گئی بوئے پیرہن اس کی
زمیں کی گود میں گیسو بکھر گئے اب تو
مسافتیں ہیں کڑی دست نا رسائی کی
تمام راستے دل میں ٹھہر گئے اب تو
بسا لے جا کے کہیں تو بھی گوشۂ حرماں
جو تیرے چاہنے والے تھے مر گئے اب تو
ادبی تحقیق اور تخلیق ادب میں گہرا تعلق ہے۔ مغنی تبسم نے تخلیق ادب کے لیے تحقیق اور تنقید کی اہمیت کو سمجھنے پر زور دیا۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ تخلیقی عمل کا قصر عالی شان تحقیق اور تنقید کی اساس پر استوار ہوتا ہے۔ تحقیق کے اعجاز سے ایک زیرک تخلیق کار وسیع النظری، بے باکی اور صداقت نگاری کے اوصاف سے متمتع ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں متعدد نئے، متنوع اور نادر خیالات نمو پاتے ہیں۔ مغنی تبسم نے زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ پر ہمیشہ زور دیا۔ ان کا خیال تھا کہ بے لوث محبت، ایثار اور دردمندی کے اعجاز سے تخلیق کار ید بیضا کا معجزہ دکھا سکتا ہے۔ زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنا ایک تخلیق کار کا فرض ہے۔ اس طر ح معاشرے کی اجتماعی زندگی کو امن و سکوں کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ مغنی تبسم نے عملی زندگی کے تجربات سے جو نتائج اخذ کیے انھیں قلم و قرطاس کے معتبر حوالے کے طور پر اشعار کے قالب میں ڈھالا۔ اس سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ان کے یہ مسحور کن تجربات جو بہ ظاہر ان کے ذاتی احساسات اور انفرادی میلانات کی عکاسی کرتے ہیں ان کے پس پردہ ایک طویل مسافت ہے۔ یہ مسافت ان کے عرصۂ حیات پر محیط ہے۔ اس کے اثرات ہمہ گیر اور آفاقی نوعیت کے ہیں۔ ان ہمہ گیر تجربات کی سماجی اہمیت مسلمہ ہے۔
مغنی تبسم کے انتقال سے اردو زبان ایک جری تخلیق کار سے محروم ہو گئی ہے۔ وہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے بہت بڑے مداح تھے جنھوں نے فاصلاتی تعلیم میں پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ جب مغنی تبسم کی وفات کی خبر سنی تو دل دھک سے رہ گیا غم جہاں کے ہجوم میں ان مشاہیر ادب کی یاد نے دل گرفتہ کر دیا۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے پاس سب رس اور شعرو حکمت مسلسل آتے تھے اور وہ ان ادبی مجلات کو بہت پسند کرتے تھے۔ حیف صد حیف فرشتۂ اجل نے علم و ادب کی ساری بساط ہی الٹ دی۔ اب نہ تو اس پائے کے ادبی مجلات ہیں اور نہ ہی ان کے مدیر موجود ہیں۔ ساری حقیقتیں اب خیال و خواب ہو چکی ہیں۔ تقدیر ہر لحظہ انسان کی تدبیر کی دھجیاں اڑا رہی ہے اور انسان بے بسی کے عالم میں سب کچھ دیکھ رہا ہے اور مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ مغنی تبسم کو پاکستانی ادبیات سے جو گہری وابستگی تھی اس کی وجہ سے یہاں بھی ان کا وسیع حلقۂ احباب مو جود ہے۔ ان کی وفات پر یہاں کے اہل علم و دانش کی طرف سے اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے جس کے باعث اردو ادب کا ہر طالب علم دل گرفتہ ہے۔ زندگی اور موت کے راز ہائے سربستہ کی تفہیم پر کون قادر ہے۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے جب وہی لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ ان کے ساتھ ہم بھی موت کی زد میں آ گئے ہیں۔ عزیزوں کی موت ہمیں بھی مار ڈالتی ہے اور زندگی ایک تہمت بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ ایک ماندگی کا وقفہ ثابت ہوتا ہے اور آگے تھوڑا دم لے کر چلنے کا اشارہ ہے۔ اس کے بعد بہت جلد ہم اپنے ان عزیزوں سے جا ملتے ہیں۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
٭٭٭
پروفیسر طحٰہ خان: اٹھ گئے کیسے کیسے پیارے پیارے لوگ
پاکستان کے نامور ادیب، دانش ور، ماہر تعلیم نقاد، محقق اور مزاح نگار پروفیسر محمد طحٰہ خان خالق حقیقی سے جا ملے۔ وہ کچھ عرصے سے بستر علالت پر تھے۔ اس پیرانہ سالی میں وہ بلند فشار خون، اعصابی کم زوری اور ذیابیطس کے امراض کا بڑی استقامت سے مقابلہ کر رہے تھے۔ گزشتہ تین ماہ سے وہ کمبائنڈ ملٹری ہسپتال پشاور میں زیر علاج تھے۔ علم و ادب کا وہ ماہ منیر جو 2۔ فروری 1936کو لکھنو (بھارت )سے طلوع ہوا، وہ 25۔ اگست 2013کو پشاور میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کے شہر خموشاں کی زمین نے اردو زبان و ادب کے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ اردو شاعری میں طنزو مزاح کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمین بوس ہو گئی۔ اردو اور پشتو زبان ایک یگانۂ روزگار ادیب سے محروم ہو گئی۔ وہ عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیب تھے۔ وطن اور اہل وطن سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے اس یگانۂ روزگار ادیب کی وفات کی خبر سن کر ہر آنکھ پر نم ہے اور ہر دل غم و اندوہ میں ڈوب گیا ہے۔
لوح مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
پروفیسر محمد طحٰہ خان کی وفات سے اردو شاعری میں طنزو مزاح کے ایک عہد کا اختتام ہوا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان علم و ادب تھے۔ ان کی گل افشانیِ گفتار کا ایک عالم گرویدہ تھا۔ وہ جب بولتے تو ان کی باتوں سے پھول جھڑتے اور محفل کشت زعفران بن جاتی۔ ان کی وفات پر بزم ادب برسوں تک سوگوار رہے گی۔ ایسی تابندہ صورتوں کا پیوند خاک ہو جانا ایک بہت بڑاسانحہ ہے۔ وہ لوگ جنھیں ہم ہر لمحہ دیکھ کر جیتے ہیں جب دائمی مفارقت دے جاتے ہیں تو اس سانحے پر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ منوں مٹی کے نیچے ایسے آفتاب و ماہتاب رکھ کر ہم تقدیر کے ستم سہہ کر کار جہاں کے بے ثبات ہونے پر دل گرفتہ ہو جاتے ہیں۔ تقدیر تو ہر لمحہ اور ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اڑا دیتی ہے۔ ہم اپنے رفتگاں کی لوح مزار اور مر قد کی مٹی سے ایک قلبی تعلق کو زندگی بھر نبھاتے ہیں یہاں تک کہ ہم بھی خاک ہو جاتے ہیں۔
کس مٹی سے کس مٹی کا رشتہ ہے معلوم تو ہو
کتبوں پر یہ بات بھی لکھ دو لوگ کہاں سے آئے تھے
محمد طحٰہ خان کا تعلق لکھنو کے ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا۔ زمانہ طالب علمی ہی سے وہ شعر و ادب میں دلچسپی لینے لگے۔ ان کے بزرگوں کے مولانا صبغت اللہ فرنگی محلی سے مراسم تھے۔ اس وسیلے سے محمد طحٰہ خان کو مولانا صبغت اللہ فرنگی محلی سے اکتساب فیض کے مواقع میسر آئے۔ اس کے علاوہ انھیں مولانا عبدالماجد دریا بادی سے ملنے اور ان سے علمی مسائل سمجھنے کے مواقع ملے۔ اس عہد کے نامور ادیبوں سے محمد طحٰہ خان کے معتبر ربط کا سلسلہ جاری رہا۔ آزادی سے قبل سفید بارہ دری لکھنو میں کل ہند مشاعرے کا انعقاد ہوتا تھا۔ اس قسم کی علمی و ادبی محافل میں شرکت سے محمد طحٰہ خان کے ذوق ادب کو صیقل کرنے میں مدد ملی۔ اس عہد کے بڑے شعرا سے ملنے کے جو مواقع ملے ان کے اعجاز سے محمد طحٰہ خان کے ذوق ادب اور تخلیقی فعالیت کو مہمیز کرنے کی صورتیں پیدا ہوتی چلی گئیں۔ وہ جوش ملیح آبادی، مولانا فضل الحسن حسرت مو ہانی، فانی بدایونی، فراق گورکھپوری، حفیظ جالندھری، سید غلام بھیک نیرنگ، احسان دانش، سید جعفر طاہر، مجید امجد اور محمد شیر افضل جعفری کے اسلوب کے بہت مداح تھے۔ 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد محمد طحٰہ خان کے آبا و اجداد نے برصغیر میں برطانوی استعمار کے خاتمے کے لیے بہت قربانیاں دیں۔ ان کے والد نے تحریک پاکستان میں فعال کردار ادا کیا۔ مولانا محمد علی جوہر اور مو لانا شوکت علی کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ وہ تحریک خلافت کے سر گرم کا رکن تھے اس سلسلے میں انھوں نے قندھار اور کابل کا سفر کیا۔ برطانوی استبداد کے خلاف جدو جہد کے دوران وہ درہ آدم خیل میں مقیم رہے اور کسی دشواری اور صعوبت کی پروا نہ کی۔ فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم دیکھنے کی تمنا میں ان کے بزرگوں نے ابتلا اور آزمائش کے اس دور میں جس صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اس پر محمد طحٰہ خان کو بہت ناز تھا۔ ان کی شاعری میں وطن اور اہل وطن کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کے جذبات نمایاں ہیں۔ پشتو دھنوں پر ان کے لکھے ہوئے اردو ملی نغمے بہت مقبول ہوئے۔ اس طرح وہ تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتے تھے۔ ان کا یہ ملی نغمہ آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے اور سننے والوں پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔
محبتوں کا آشیانہ، جنت نگاہ یہ چمن میرا
حیا کے پھول کھلے ہیں گلاب چہروں پر نئی سحر ہے
قیام پاکستان کے بعد محمد طحٰہ خان اپنے خاندان کے ساتھ پشاور پہنچے اور یہیں مستقل قیام کا فیصلہ کیا۔ 1958میں محمد طحٰہ خان نے جامعہ پشاور میں ایم۔ اے اردو میں داخلہ لیا اور اس میں امتیازی حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد وہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ انھوں نے شعبہ تعلیم میں اپنی ملازمت کا آغاز 1964میں کیا جب وہ ایڈور ڈ کالج پشاور میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے۔ اس تاریخی کالج میں انھوں نے چار سال تک خدمات انجام دیں اور فروغ علم و ادب کے لیے مقدور بھر سعی کی۔ ایڈورڈ کالج پشاور میں ان کی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اوراسے اس ادارے کی تاریخ کا ایک یادگار دور قرار دیا گیا۔ اس کے بعد 1968میں انھوں نے پشاور میں واقع پاکستان فضائیہ کے ڈگری کالج میں تدریسی خدمات انجام دینے کا فیصلہ کیا۔ یہاں ان کی بے حد پذیرائی کی گئی۔ اس لیے انھوں نے اپنی ساری مدت ملازمت اسی ادارے میں نہایت عزت اور وقار کے ساتھ گزاری۔ اسی مادر علمی سے وہ 1999میں ریٹائر ہوئے۔ پاکستان کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں وہ مسلسل پینتیس سال مصروف رہے۔ وہ ایک ہر دل عزیز استاد تھے ان کی موثر تدریس کے اعجاز سے طلبا کے دلوں میں ایک ولولۂ تازہ پیدا ہوا اور ان میں ستاروں پر کمند ڈالنے کا حوصلہ نمو پانے لگا۔ 1988میں علالت کی وجہ سے وہ بصارت سے محروم ہو گئے لیکن اس سانحے پر وہ دل برداشتہ نہ ہوئے۔ پورے عزم و استقامت سے زندگی گزاری اور اپنی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ مسلسل پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے۔ وہ ہر حال میں راضی برضا رہتے۔ اللہ کریم نے انھیں دل بینا سے نوازا تھا اس لیے وہ کبھی حرف شکایت لب پر نہ لائے۔ ان کے اسلوب میں واقعہ کر بلا کو حریت فکر کے استعارے کی حیثیت حاصل ہے۔ اپنی زندگی کے ان مہ و سال کا ذکر کرتے ہوئے جب وہ بصارت سے محروم ہو گئے تھے مجید امجد کا یہ شعر پڑھتے تو ان کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں۔
سلام ان پہ تہ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا ، جو تو چاہے
انھوں نے اپنی زندگی تصنیف و تالیف کے کاموں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ان کی زندگی میں ان کی بیس وقیع تصانیف شائع ہوئی جن سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا۔ نظم اور نثر کا یہ گنج گراں مایہ جو بیس تصانیف پر مشتمل ہے انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند منصب پر فائز کرنے کا وسیلہ ثابت ہوا۔ ان کی اہم تصانیف میں بنیادی اردو، داستان کر بلا ، ظریفانہ شاعری کی کلیات اور کلیات رحمٰن بابا کا منظوم اردو ترجمہ شامل ہیں۔ کلیات رحمٰن بابا کو پشتو سے اردو میں ترجمہ کرنے پر انھوں نے پوری توجہ کی اور اس کام پر ان کے تین سال صرف ہوئے۔ ان کے ترجمے ’’متاع فقیر ‘‘کو پوری دنیا میں زبردست پذیرائی ملی۔ اردو زبان میں تراجم کے حوالے سے یہ بہت بڑی کامیابی تھی، اس کی بدولت پاکستانی ادبیات کو عالمی ادبیات میں ممتاز مقام حاصل ہوا۔ کلیات رحمٰن بابا کے اردو ترجمے کی اہمیت اور افادیت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا اور اس شاہکار ترجمے کا مخطوطہ برٹش میوزیم لندن میں محفوظ کر لیا گیا۔ یہ ان کا پشتو اور اردو زبان کا اور خاص طور پاکستان کا بہت بڑا اعزاز ہے کہ دنیا بھر کے ادیب ان کے افکار کی جولانیوں سے استفادہ کر رہے ہیں۔ تراجم کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی ان کی مساعی کو دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں سراہا گیا۔ ممتاز ادیب پروفیسر آفاق صدیقی جنھوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے سندھی کلام ’’شاہ جو رسالو‘‘کا اردو میں ترجمہ کیا تھا وہ محمد طحٰہ خان کے بہت بڑے مداح تھے۔ محمد طحٰہ خان تراجم کی اہمیت پر ہمیشہ زور دیتے تھے۔ پروفیسر اسیر عابد نے دیوان غالب کا جو منظوم ترجمہ پیش کیا اسے وہ پاکستان کی علاقائی زبانوں اور قومی زبان کے مابین ربط کی ایک صورت سے تعبیر کرتے تھے۔ محمد طحٰہ خان کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے خوشحال خان ختک کے پشتو کلام کا اردو ترجمہ کیا۔ ان کی علمی، ادبی اور قومی خدمات کی بنا پر جریدۂ عالم پر ان کا دوام ثبت ہو گیا۔ حکومت پاکستان نے ان کی فقید المثال ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں 2007میں پرائڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے نوازا۔
رحمٰن بابا کے کلام کے منظوم اردو ترجمے میں محمد طحٰہ خان کی فنی مہارت زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس اور علم عروض پر عبور کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے۔ انھوں نے رحمن بابا کے کلام کے فنی محاسن کو قارئین ادب کے سامنے لانے کے سلسلے میں جس تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا ہے وہ ان کے تبحر علمی کی دلیل ہے۔ خاص طور پر صنائع بدائع کو ترجمے میں بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ان کے ترجمے میں تخلیق کی چاشنی کا کرشمہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ رحمٰن بابا کی کئی غزلیں ایسی ہیں جن کا ترجمہ کرتے وقت محمد طحٰہ خان نے اسی بحر، ردیف اور قافیے کو استعمال کیا ہے جو رحمٰن بابا نے کیے ہیں۔ بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ رحمٰن بابا نے خود اردو میں شاعری کی ہے۔ نیچے دی گئی غزل میں رحمٰن بابا نے صنعت عکس و تبدیل کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ اس صنعت میں ایک با کمال تخلیق کار پہلے مصرعے میں جو مضمون پیش کرتا ہے دوسرے مصرعے میں اس کا عکس شعر کی باز گشت کی صورت میں قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔
سر ہوا ساماں ہوا، صدقۂ جاناں ہوا
صدقۂ جاناں ہوا، سر ہوا ساماں ہوا
سب گل و ریحاں ہوا گیسوئے جاناں مجھے
گیسوئے جاناں مجھے سب گل و ریحاں ہوا
جو زیاں نقصاں ہوا، ہجر میں اے جاں ہوا
ہجر میں اے جاں ہوا، جو زیاں نقصاں ہوا
وصل کہ ہجراں ہوا دونوں مجھے ہیں عزیز
دونوں مجھے ہیں عزیز، وصل کہ ہجراں ہوا
آخری شعر میں رحمٰن بابا نے جو مضمون پیش کیا ہے وہی مضمون ان سے پونے دو سو سال بعد مرزا اسداللہ خان غالب نے کچھ اس طرح اپنے ایک شعر میں بیان کیا ہے :
وداع و وصل جداگانہ لذتے داردہ
زار بار برو، صد ہزار بار بیا
غالب کے اس مشہور شعر کو صوفی غلام مصطفی تبسم نے پنجابی زبان کے قالب میں اس طرح ڈھالا ہے :
بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووے وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں
میرے سو ہنیا جا ہزار واری، آ جا پیاریا تے لکھ وار آ جا
اپنی پشتو شاعری میں رحمٰن بابا نے صنعت تشابہ کو جس مہارت سے استعمال کیا ہے وہ ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔ اس نوعیت کے فنی تجربوں کے ذریعے اس نابغۂ روزگار تخلیق کار نے پشتو شاعری کو نئے تخلیقی امکانات سے رو شناس کرایا۔ محمد طحٰہ خان نے رحمٰن بابا کی شاعری کے منظوم ترجمے میں ان تجربات کی جانب مبذول کرائی ہے۔ نیچے دی گئی غزل میں صنعت تشابہ کے ذریعے کلام میں حسن پیدا کیا گیا ہے۔ اس قسم کے شعری تجربوں کے چشمے رحمٰن بابا کی شاعری اس طرح پھوٹتے ہیں کہ گلشن ادب میں تخلیقات کے گل ہائے رنگ رنگ ان سے سیراب ہو جاتے ہیں۔
برابر ہے یہاں شمس و قمر اور شکل دلبر کی
مقابل قامت محبوب ہے سرو صنوبر کی
نہ میں ہوں شہد کی مکھی نہ میں گل کا شکر خورا
لب محبوب سے لیتا ہوں لذت شہد و شکر کی
عجب معجز نمائی ہے مشام جاں نے پائی ہے
غبار کوچۂ جاناں میں خوشبو مشک و عنبر کی
فراق یار سے، غارت گری سے، قتل سے توبہ
کہ تینوں میں یہاں تکلیف ہوتی ہے برابر کی
پاکستان کے ذرائع ابلاغ کی ترقی میں محمد طحٰہ خان نے گہری دلچسپی لی۔ وہ ایک با کمال براڈ کاسٹر تھے۔ وہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر جو پروگرام بھی پیش کرتے اسے بہت پذیرائی ملتی۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے مشاعروں میں ان کی شرکت سے محفل کی شان دو بالا ہو جاتی۔ انھوں نے تخلیق فن کے لمحوں میں جو کچھ بھی لکھا وہ تپاک جاں سے لکھا ان کا منفرد اسلوب قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے۔ وہ پاکستانی صحافت کو حریت فکر پر عمل پیرا دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ روزنامہ مشرق پشاور کے ادارتی صفحے پر ان کا ایک اردو قطعہ روزانہ شائع ہوتا تھا۔ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے وہ اس قطعے میں مسائل عصر اور حالات حاضرہ کے بارے میں قارئین میں مثبت شعورو آگہی پروان چڑھانے کی سعی کرتے۔ وہ سلطانیِ جمہور کے زبردست حامی تھے۔ انھوں نے ہمیشہ حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنایا۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلاف تھا۔ حریت ضمیر سے جینا ہی ان کا نصب العین رہا۔ پاکستان اور پاکستان سے باہر ان کا ایک وسیع حلقۂ احباب تھاجس کے ساتھ معتبر ربط کو وہ اپنا فرض اولین سمجھتے تھے۔ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک کرنا ان کا شیوہ تھا اسی وجہ سے لوگ ان کے حسن سلوک کے گرویدہ تھے۔ وہ ایک عظیم انسان تھے اور انسانیت کا وقار اور سر بلندی ا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ انھوں نے اپنے احباب کی جو کہکشاں سجائی اس کے درخشاں ستاروں میں صابر کلوروی، خا طر غزنوی، سجاد بخاری، احمد ندیم قاسمی ، محسن بھوپالی، پروفیسر آفاق صدیقی، فہیم اعظمی، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر بشیر سیفی، رام ریاض، عطا شاد، صابر آفاقی، رشید احمد گوریجہ، آفتاب نقوی، اقبال زخمی، میرزا ادیب، اشفاق احمد، منصور قیصر، تاج سعید، صاحب زادہ رفعت سلطان اور امیر اختر بھٹی کے نام قابل ذکر ہیں۔ فرشتۂ اجل نے سب حقائق کو خیال و خواب میں بدل دیا۔ اب دنیا میں ایسی ہستیاں کہاں ؟یہ سب نایاب لوگ خاک میں پنہاں ہو گئے۔ دنیا لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتی چلی جائے اب دنیا میں ایسے یادگار زمانہ لوگ کبھی پیدا نہیں ہو سکتے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
فنی تجربوں کو انھوں نے ہمیشہ اہم سمجھا۔ ان کا خیال تھا کہ نئے فنی تجربوں کے ذریعے ایک زیرک تخلیق کار یکسانیت اور جمود کا خاتمہ کر کے جہان تاہ کی نوید سنانے کی کوشش کرتا ہے۔ محمد طحٰہ خان کے فنی تجربے جدت، ندرت اور تنوع کے مظہر ہیں۔ وہ ایک ما ہر ابلاغیات تھے اس لیے انھوں نے شعر و ادب کے ساتھ ساتھ موسیقی کے ذریعے بھی اظہار اور ابلاغ کی نئی راہوں کی جستجو کی۔ انھوں نے اردو گیتوں کو پشتو دھنوں سے مزین کر کے پیش کیا۔ ان کی اس جدت اور انوکھے تجربے سے سے ان گیتوں کی اثر آفرینی اور مقبولیت کو چار چاند لگ گئے۔ تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے ان کی یہ کاوش بہت ثمر بار ثابت ہوئی اور دنیا بھر میں ان کے اس فقید المثال کارنامے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ مثال کے طور پر انھوں نے اس نغمے کے لیے پشتو دھن کا انتخاب کرتے وقت جس محنت اور موسیقی کی ریاضت کا ثبوت دیا ہے وہ ان کے ذوق سلیم کی آئینہ دار ہے۔
پشاور سے میری خاطر دنداسہ لانا۔۔۔۔۔ او میری دلبر جاناں
محمد طحٰہ خان نے سنجیدہ شاعری میں بھی اپنے افکار کی جولانیاں دکھائی ہیں لیکن اردو کی ظریفانہ شاعری میں ان کا منفرد اسلوب ان کی پہچان بن گیا۔ اردو کی ظریفانہ شاعری کے فروغ میں ان کی خدمات تاریخ ادب میں آب زر سے لکھی جائیں گی۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا(سابق صوبہ سر حد )میں انھوں نے مرزا محمود سر حدی کے بعد اردو کی ظریفانہ شاعری کے فروغ کے لیے بہت محنت کی اور یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ان کی گل افشانیِ گفتار نے انھیں اپنے عہد کے عظیم مزاح نگار کے منصب پر فائز کیا۔ ان کی ظریفانہ شاعری میں زندگی کی نا ہمواریوں، سماجی بے اعتدالیوں اور معاشرتی تضادات اور بے ہنگم ارتعاشات کے بارے میں ایک ہمدردانہ شعور پایا جاتا ہے۔ وہ پورے خلوص، دردمندی اور فنی مہارت سے اپنے جذبات، احساسات، تجربات اور مشاہدات کو پیرایۂ اظہار عطا کرتے ہیں۔ ان کی ظریفانہ شاعری سماجی زندگی کی قباحتوں اور مناقشات کے بارے میں قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ قاری ایک خندۂ زیر لب کی کیفیت میں ان امور کے بارے میں ایک حساس تخلیق کار کا تجزیہ پڑھ کر خود احتسابی پر مائل ہوتا ہے۔ پاکستان میں موسم گرما کی شدت اور اس پر بجلی کا بحران اور سب سے بڑھ کر مقتدر حلقوں کی حقائق سے شپرانہ چشم پوشی عوام کے صبر کا امتحان ہے۔ اپنی نظم ’’پشاور کی گرمی ‘‘میں انھوں نے ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو چھپا کر اس مسئلے کے بارے میں پر لطف انداز میں جو کچھ لکھا ہے وہ ان کی حب الوطنی، انسان دوستی اور قومی دردمندی کی عمدہ مثال ہے۔
پشاور کی گرمی
گرمیاں تیز ہیں پشاور کی
ایک سو بیس ہارس پاور کی
جب بھی موسم شدید ہوتا ہے
گھر میں نلکا یزید ہوتا ہے
پانی مانگو تو خرخراتا ہے
تشنہ لب کی ہنسی اڑاتا ہے
برف سونے کے بھاؤ ملتا ہے
سیر کا تین پاؤ ملتا ہے
مکھی ہیضے کو عام کرتی ہے
دانہ پانی حرام کرتی ہے
اہل مکتب کا کام کرتی ہے
کار طفلاں تمام کرتی ہے
اسپرے گیس سے خفا نہ ہوئی
یہ فنائل سے بھی فنا نہ ہوئی
ڈی ڈی ٹی بھی چکھی ہے
مکھی کیا ہے یہ اللہ رکھی ہے
لوگ مچھر کے ہاتھوں مرتے ہیں
بستروں میں ٹوسٹ کرتے ہیں
آ کے چہرے پہ مو نگ دلتا ہے
ہاتھ مارو تو بچ نکلتا ہے
منہ طمانچوں سے لال کرتے ہیں
لوگ صحت بحال کرتے ہیں
رات بھر بے قرار رہتے ہیں
شب ہجراں اسی کو کہتے ہیں
ہے پسینے سے ایسی غرقابی
سارے مرغے ہوئے ہیں مرغابی
اپنے ڈربوں سے دور رہتے ہیں
الاماں الحفیظ کہتے ہیں
ماجرا یہ ہے کوئے جاناں کا
حال پتلا ہوا ہے خوباں کا
منہ چھپائے گھروں میں رہتے ہیں
فون پر عاشقوں سے کہتے ہیں
گرم موسم عذاب ہوتا ہے
سارا میک اپ خراب ہوتا ہے
شکل اصلی بھلا دکھائیں کیا
دن دہاڑے تمھیں ڈرائیں کیا
ہائے کس منہ سے سامنے آئیں
یا الہٰی یہ گرمیاں جائیں
ہمارے معاشرے میں سیاسی، سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل کی جکڑ بندیوں نے بے ہنگم صورت اختیار کر لی ہے۔ محمد طحٰہ خان کی ظریفانہ شاعری کے سوتے یہیں سے پھوٹتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سنجیدہ ادب کے تخلیق کار جہاں اپنی تمام تر قوت اور فعالیت کے با وجود پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں ایک مزاح نگار بڑی آسانی کے ساتھ وہاں اپنے شگفتہ اسلوب کی جولانیاں دکھانے پر قادر ہے۔ جذبۂ انسانیت نوازی سے سرشار محمد طحٰہ خان نے معاشرتی زندگی کی نا ہمواریوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور کی اساس پر فن کارانہ انداز میں جس طرح گرفت کی ہے وہ ان کے کمال فن کا ثبوت ہے۔ ان کے اسلوب میں طنز کا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ معاشرے کی کم زوریوں کو طنز کا ہدف بناتے ہیں۔ جب وہ اپنی ذات کو ہدف بناتے ہیں تو یہ خالص مزاح کی صورت میں قاری کو متاثر کرتا ہے۔ طنز کا اہم ترین مقصد اصلاح ہی ہے اس کے بر عکس مزاح کو محض تفریح کا ایک وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کے اس قطعے میں طنز کا عنصر نمایاں ہے۔ پاکستان میں رویت ہلال کے بارے میں انھوں نے جس حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے وہ ارباب اختیار لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اپنے عہد کے تضادات، معاشرتی بے اعتدالیوں اور انتشار کو انھوں نے بر ملا طنزو مزاح کا ہدف بنایا ہے۔
قطعہ
جان طحٰہ ملک الموت کو الزام نہ دے
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
عید کا چاند ہوں میں وقت سے پہلے دو دن
دیکھ لینا کہ پشاور میں نظر آؤں گا
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں خلوص اور دردمندی عنقا ہے۔ معاشرتی زندگی کو ہوس زر کے اندھے رجحان نے نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ غربت اور افلاس کی چکی میں پسنے والی مظلوم اور بے بس و لاچار مخلوق کاکوئی پرسان حال ہی نہیں۔ محمد طحٰہ خان نے معاشرتی زندگی کی اصلاح کے لیے طنز و مزاح کا سہارا لیا۔ ان کی ظریفانہ شاعری معاشرتی عیوب کو طنزو مزاح کا ہدف بنایا گیا ہے۔ جب وہ معاشرے میں استحصالی عناصر کی بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں اور مکر کی چالوں کو دیکھتے ہیں تو وہ تیشۂ حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ معاشرے کی اصلاح کا جذبہ انھیں طنزو مزاح لکھنے پر مائل کرتا ہے۔ مثال کے طور پر آج ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب لوگوں کا جینا دشوار کر دیا ہے۔ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، نا جائز منافع خوری اور گراں فروشی نے تو زندگی کی تمام رتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں۔ ان کی ظریفانہ شاعری میں ان عیوب پرجس انداز میں گرفت کی گئی ہے اس سے قاری گہرا تاثر قبول کرتا ہے۔ وہ ہنستے مسکراتے اور سوچتے ہوئے ان عیوب کی اصلاح کی اہمیت کا قائل ہو جاتا ہے۔ اپنی نظم ’’مہنگائی ‘‘میں انھوں نے اس کے مسموم اثرات کو طنز و مزاح کا ہدف بنایا ہے۔
مہنگائی
نہ کلچا نہاری نہ روٹی فقیری
چلی چائے کے سنگ ٹوٹی پتیری
جوانی سے پہلے ہی احساس پیری
کہ سہراب و رستم ہوئے ہیں بھنبھیری
ڈنر میں ابالے چنے کھا لیے ہیں
وہ مہنگائی ہے شیر بھی دالیے ہیں
نکلنے لگی اب تو پنجوں سے یخنی
جو مرغے کا ٹخنہ تو مرغی کی ٹخنی
پیو تا کہ کھل جائے دل کی چٹخنی
پیو اور دشمن کو دو اک پٹخنی
ملاتا ہے یخنی میں پانی عجب گل
پتیلے سے نکلا ہے دریائے کابل
پتیلے پہ مرغا جو لٹکا ہوا ہے
اسے دیکھ کر دل کو کھٹکا ہوا ہے
مریض محبت کا جھٹکا ہوا ہے
کہ دم اب بھی مرغی میں اٹکا ہوا ہے
اپنی شگفتہ شاعری میں محمد طحٰہ خان نے معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے ہنگم کیفیات اور قباحتوں کی اصلاح کی جانب توجہ مبذول کرا ئی ہے۔ وہ کسی کی دل آزاری نہیں چاہتے بل کہ ان کے شگفتہ اسلوب میں خلوص، دردمندی، اصلاح اور ہمدردی کی فراوانی ہے۔ ان کی ظریفانہ شاعری میں طنز کے بجائے ترحم کا عنصر نمایاں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قاری کو ان تمام کرداروں سے ہمدردی ہو جاتی ہے جو معاشرتی زندگی کی کجیوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پران کی نظم ’’ریل کا سفر ‘‘میں مسافر، قلی، گارڈ کا بھائی اور ہجوم کے باعث بیت الخلا میں سونے والے مسافر کی حالت زار دیکھ کر ترحم کے جذبات بیدار ہوتے ہیں۔ محمد طحٰہ خان کی ظریفانہ شاعری ایک شان دل ربائی رکھتی ہے جسے پڑھ کر ہم معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں پر ہنستے چلے جاتے ہیں۔ اپنے متخیلہ کے اعجاز سے وہ خالص مزاح کی صورت میں قاری کے لیے سامان انبساط فراہم کر دیتے ہیں۔ نظم ’’ریل کا سفر ‘‘ جذبات، احساسات اور تجربات کو اپنے تخیل کی جولانی سے اس پر لطف انداز میں پیرایہ اظہار عطا کیا گیا ہے کہ قاری ریل کے سفر کی مضحک صورت حال کا تصور کر کے اپنی ہنسی ضبط نہیں کر سکتا۔
ریل کا سفر
کرتے رہے قلی وہ بھرائی تمام رات
دیتا رہا ہر ایک دہائی تمام رات
لیٹا رہا جو گارڈ کا بھائی تمام رات
بیٹھی رہی خدا کی خدائی تمام رات
اک باپ میرے سوٹ پہ پانی گرا گیا
بیٹا مچل کے مصرع ثانی لگا گیا
باتیں بگھارتے تھے جو قومی وقار کی
جن کو خبر تھی گردش لیل و نہار کی
جورو جو ایک آئی غریب الدیار کی
ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
دو پتلیاں تو بہر تماشا قلی رہیں
کچھ اس ادا سے سوئے کہ آنکھیں کھلی رہیں
بے ٹکٹ تو سیٹ سے اپنی جڑا رہا
ہر با ٹکٹ نصیب سے اپنے کھڑا رہا
سامان سو برس کا جو باہر اڑا رہا
بیت الخلا میں ایک مسافر پڑا رہا
بیوی زنانے ڈبے میں جا کر جو سو گئی
شوہر کو ریل ہی میں شب ہجر ہو گئی
ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے محمد طحٰہ خان نے طنزو مزاح کو ایک ذہنی کیفیت کی صورت میں اپنے اسلوب میں جگہ دی۔ ان کی شگفتہ بیانی کے پس پردہ ان کا خلوص، دردمندی، نسانی ہمدردی, بصیرت، زندگی کی تاب و تواں اور اندرونی کرب نمایاں ہے۔معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی شقاوت آمیز نا انصافیوں کو دیکھ کر وہ بہت دل گرفتہ رہتے لیکن اس کے با وجود وہ اپنے آنسو ضبط کر کے قارئین ادب کے لیے مسرت کے مواقع تلاش کرتے۔ ان کا شگفتہ پیرایۂ اظہار فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتا ہے۔ ان کے اسلوب کی شگفتگی اور ندرت قاری کے لیے حوصلے اور امید کی نوید ثابت ہوتی ہے اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ زندگی کا سفر جاری رکھنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ محمد طحٰہ خان کی وفات سے بزم اردو میں جو خلا پیدا ہوا ہے ، وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ ان کی رحلت ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس کے مسموم اثرات ہر شعبۂ زندگی پر مرتب ہوں گے۔ اردو شاعری میں طنزو مزاح کا ایک عہد اختتام کو پہنچا۔ اس کے بعد اردو کی ظریفانہ شاعری کے ارتقا کی رفتار کم ہو نے کا خدشہ ہے۔ تقدیر کے چاک کوسوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی وفات کی خبر سن کر ان کے لاکھوں مداح سکتے کے عالم میں ہیں۔ ایسے احباب کے بغیر کار جہاں کی بے ثباتی کا دکھ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے اور دل پر ایک قیامت گزر جاتی ہے۔ بہ قول حفیظ جالندھری :
احباب ہی نہیں تو کیا زندگی حفیظ
دنیا چلی گئی میری دنیا لیے ہوئے ٭٭٭
پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی : مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
نابغۂ روزگار شاعر، محقق، مترجم، نقا د، دانش ور، ماہر تعلیم اور ما ہر لسانیات پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی طویل علالت کے بعد 17۔ جون2012کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ پاکستانی ادبیات کے اس آفتاب جہاں تاب کو سخی حسن شہر خموشاں کراچی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس خاک نے اس آفتاب کو اپنے دامن میں چھپا لیا جس نے سفاک ظلمتوں کو کافور کیا اور اذہان کی تطہیر و تنویر میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی وفات سے فروغ علم و ادب کی مساعی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔ اردو سندھی لسانی روابط کی حب الوطنی کی آئینہ دار درخشاں روایت کو شدید ضعف پہنچا۔ وطن اور اہل وطن اور بنی نوع انسان سے بے لوث اور والہانہ محبت کرنے والا حریت فکر کا عظیم مجاہد ہمیں دائمی مفارقت دے گیا۔ وہ عظیم تخلیق کار جس نے اپنی چالیس سے زائد تصانیف سے پاکستانی ادب کی ثروت میں اضافہ کیا نہایت خاموشی سے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ اردو زبان اور سندھی زبان کے اس جری تخلیق کار نے اپنے جان دار اور مسحور کن اسلوب سے دلوں کو مسخر کر کے پوری دنیا سے اپنی تخلیقی مہارت اور زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ قدرت کا لوہا منوایا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’شاہ جو رسالو ‘‘ کو اردو کے قالب میں ڈھال کر انھوں نے جو فقید المثال کارنامہ انجام دیا وہ تاریخ ادب میں آب زرسے لکھنے کے قابل ہے۔ سندھی زبان کے ادب کو اپنی اٹھارہ وقیع تصانیف سے ثروت مند بنا کر انھوں نے بلا شبہ ستاروں پہ کمند ڈالی ہے۔ پرو فیسر محمد آفاق احمد صدیقی کی علمی، ادبی اور قومی خدمات کا پوری دنیا میں اعتراف کیا گیا۔ وہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خا طر تمام عمر جدو جہد کرتے رہے۔ ان کی علم دوستی، ادب پروری اور انسانی ہم دردی کا ایک عالم معترف تھا۔ انھیں ساٹھ کے قریب قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ ملے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ جریدۂ عالم پر ان کا دوام ثبت ہو چکا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’پرائڈ آف پرفارمنس ‘‘ اور سندھ کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’شاہ عبد الطیف بھٹائی ایوارڈ ‘‘بھی انھیں ملا۔ ان کی یہ کامرانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ علمی، ادبی اور تہذیبی و ثقافتی شعبوں میں ان کی فتوحات میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ ان کی رحلت پر پوری دنیا میں دلی رنج و غم کا اظہار کیا گیا اور مقتدر حلقوں کے علاوہ زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ افراد کی جانب سے بھی جذبات حزیں کا اظہار کیا گیا۔ جو کہ ان کی ہمہ گیر مقبولیت اور مستحکم شخصیت کا اعجاز ہے۔ ان کی ذات کو ایک زندہ دائرۃ المعارف کی حیثیت حاصل تھی۔ وہ علم و ادب، تاریخ، ادیان، تہذیب و ثقافت، تنقید و تحقیق، تعلیم و تعلم اور فلسفہ کے اتنے بڑے ماہر تھے کہ اب ان کے بعد ان کے پائے کی کوئی شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔ ان کی وفات نے اہل علم و دانش کو ایک مستقل نوعیت کی محرومی کا شکار بنا دیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فروغ علم و ادب، لفظ کی حرمت، حریت فکر و عمل اور وفا کے سارے ہنگامے اور ان سے متعلق تمام حقائق خیال و خواب ہو چکے ہیں۔ مسلسل سات عشروں تک پرورش لوح و قلم میں مصروف رہنے والے اس یگانۂ روزگار فاضل کی وفات نے روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا۔ آج ان کے غم میں دیدۂ گریاں کے غم کی کیفیت سوہان روح بن گئی ہے۔ اب دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے۔ فضاؤں میں ہر سمت ان کی یادوں کی مہک رچی بسی ہوئی ہے، جس سمت بھی نظر اٹھتی ہے ان کی آواز کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔
برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم
قدح قدح تیری یادیں سبو سبو تیرا غم
محمد آفاق احمد صدیقی 4۔ مئی 1928کو مین پوری (بھارت )میں پیدا ہوئے۔ یہ قصبہ فرخ آباد کے قریب واقع ہے جو کہ اتر پردیش میں شامل ہے۔ ان کا تعلق علاقے کے ممتاز اور معزز علمی و ادبی خاندان سے تھا۔ ان کے والد محمد اسحاق(عرف للو بھیا)ایک وسیع المطالعہ عالم تھے۔ وہ اردو، فارسی، عربی، ہندی اور کئی مقامی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ انگریزی زبان و ادب سے بھی انھیں بہت لگاؤ تھا۔ علاقے کے تمام طلبا ان سے اکتساب فیض کرتے۔ ان کو شعر و شاعری سے گہری دلچسپی تھی ان کے تین شعری مجموعے ’’درد دل ‘‘، ’’درد جگر ‘‘ اور ’’ درد دگر ‘‘ کے نام سے شائع ہوئے جن کی بہت پذیرائی ہوئی۔ ابتدا میں انھوں نے محکمہ ریلوے میں ملازمت کی لیکن جلد ہی یہ ملازمت چھوڑ دی۔ 1917میں وہ محکمہ پولیس میں بہ طورآفیسر بھرتی ہوئے لیکن یہ ملازمت بھی انھوں نے 1932میں چھوڑ دی۔ انھیں برطانوی استعمار کی لڑاؤ اور حکومت کر و کی پالیسی سے اختلاف تھا۔ محمد آفاق احمد صدیقی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ نواحی قصبے کمال گنج کے سرکاری مدرسے میں داخل ہوئے اور ورنیکلر فائنل کا امتحان 1942میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور انھیں اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر وظیفہ بھی ملا۔ زمانہ طالب علمی ہی سے ان کے شعری ذوق اور تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا۔ ان کے اساتذہ نے اس ہو نہار طالب علم کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ ان کے استاد مولوی بنے خان سر خوش اپنے اس شاگرد کی خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے۔ اردو، فارسی، ہندی اور اردو کے اس قابل استاد نے اپنے شاگرد کو سکول کی بزم ادب کا سیکرٹری مقرر کیا۔ ابتدائی جماعتوں میں انھوں نے اپنی شاعری سے اپنے اساتذہ اور ہم جماعتوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ انھوں نے متعدد انعامات حاصل کیے۔ اس طرح ان کے شعر ی ذوق کو صیقل کرنے میں ابتدائی تعلیم نے اہم کردار ادا کیا۔ میٹرک کے لیے وہ گورنمنٹ ہائی سکول فتح گڑھ چھاونی میں داخل ہوئے۔ ان کے خاندان کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا تھا۔ تعلیمی اخراجات کو پورا کرنا ایک کٹھن مرحلہ بن گیا۔ نو عمر محمد آفاق احمد صدیقی نے تعلیم کے ساتھ ساتھ چھوٹی کلاسز کے طلبا کو ٹیوشن پڑھا کر بڑی حد تک مالی مشکلات پر قابو پا لیا۔ اس طرح تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پیہم محنت سے ان کے جوہر کھلتے گئے وہ ان حقائق سے اچھی طرح آگاہ تھے کہ خانۂ فرہاد میں روشنی کی کرن ضرب تیشہ کی مرہون منت ہے۔ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے قائل تھے۔ کسی بھی باب رعایت سے داخل ہو کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں سے وہ سخت نفرت کرتے تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی سے انھیں ترقی پسند تحریک اور تحریک پاکستان سے قلبی لگاؤ تھا۔ انھوں نے ان تحریکوں سے جو عہد وفا استوارکیا اسے علاج گردش لیل و نہار سمجھتے ہوئے تمام عمر اس پر کار بند رہے۔ انھوں نے زندگی کے مصائب و آلام کو بڑے قریب سے دیکھا تھا۔ یہ تمام کیفیات ان کے تجربات، مشاہدات اور احساسات کی اساس بن گئیں۔
قیام پاکستان کے بعد محمد آفاق احمد صدیقی اپنے خاندان کے واحد فرد تھے جنھوں نے ارض پاکستان کی جانب ہجرت کی۔ ان کے خاندان کے باقی تمام افراد نے بھارت ہی میں قیام کا فیصلہ کیا۔ ہجرت کے وقت انتقال آبادی کے موقع پر جو فسادات ہوئے اور جس بے دردی سے املاک اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا انھیں دیکھ کر وہ بہت دل گرفتہ ہوئے۔ ان کے والد انھیں دیکھ دیکھ کر جیتے تھے اور ان سے قلبی وابستگی اور دلی پیار کرتے تھے۔ اس بات کا انھیں قلق تھا کہ جب انھوں نے اپنے والد کی رضامندی کے بغیر پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا تو ان کے والد کو بہت صدمہ ہوا اور وہ اس جدائی کی تاب نہ لاتے ہوئے چند ماہ بعد چل بسے۔ وہ اپنے پیارے والد کی تجہیز و تکفین میں بھی شامل نہ ہو سکے۔ وطن سے محبت کی خاطر انھوں نے یہ صدمہ بھی برداشت کر لیا اور والد کے لیے دعائے مغفرت کر کے نئے عزم سے تعمیر وطن میں مصروف ہو گئے۔ وطن کو وہ اپنے جسم اور روح کی طرح عزیز رکھتے تھے۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
محمد آفاق احمد صدیقی نے اپنی اعلیٰ تعلیم پاکستان میں مکمل کی۔ یہاں انھوں نے سندھی اور اردو زبان و ادب میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان پہنچنے کے بعد وہ کچھ عرصہ کراچی میں مقیم رہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ سکھر منتقل ہو گئے اور شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ سکھر میں ان کا تقرر بہ حیثیت معلم اردو سینٹ میریز ہائی سکول میں ہوا۔ انھوں نے سکھر میں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا اور اس شہر کی علمی اور ادبی فضا میں پائے جانے والے جمود کا خاتمہ کر دیا۔ اپنے ممتاز ساتھیوں کے اشتراک سے انھوں نے پرورش لوح و قلم پر بھر پور توجہ دی اور عوام میں مثبت شعور و آگہی پیدا کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ ان کے رفقا میں حسن حمیدی، شیخ ایاز، محسن بھوپالی، فتح اللہ عثمانی اور نکہت بریلوی جیسے جلیل القدر تخلیق کار شامل تھے۔ تعمیر وطن کے کاموں میں انھوں نے گہری دلچسپی لی۔ سکھر میں انھوں نے مسلم ایجو کیشن سوسائٹی کی بنیا د رکھی۔ اس سوسائٹی نے اس علاقے میں تعلیم عام کرنے کے سلسلے میں انتھک کام کیا۔ ان کی شبانہ روز محنت سے اس علاقے میں سوسائٹی نے چودہ مدارس کا سنگ بنیا د رکھا گیا۔ اس طرح ان جدید تعلیم اداروں کے قیام سے یہاں تعلیمی انقلاب آ گیا۔ گھر گھر میں تعلیم اور ترقی کے چرچے ہونے لگے اور دلوں کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہوا۔ 1971کے بعد حکومت پاکستان نے ان تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا اور رفتہ رفتہ یہ تعلیمی ادارے نوکر شاہی کی ریشہ دوانیوں کے باعث اپنے معیار اور وقار سے محروم ہو گئے۔ جلد ہی ان کا انتخاب بہ حیثیت لیکچرر اردو ہو گیا اور وہ محکمہ تعلیم کالجز میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے۔ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے وہ پر نسپل کے عہدے تک پہنچے اور گورنمنٹ کالج میر پور خاص (سندھ )سے بہ حیثیت پر نسپل ریٹائر ہوئے۔ ملازمت سے ریٹائر منٹ کے بعد وہ مستقل طور پر کراچی منتقل ہو گئے۔ کراچی میں انھوں نے ’’اردو سندھی ادبی فاؤنڈیشن ‘‘ کے نام سے ایک ادبی مجلس کی داغ بیل ڈالی۔ ان کے اس کام کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا اور ادیبوں کی طرف سے انھیں زبردست پذیرائی ملی۔ پاکستان بھر کے ممتاز ادیبوں سے ان کے رابطے تھے ان میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی، پروفیسر بشیر سیفی، ڈاکٹر محمد ریاض، ڈاکٹر رحیم بخش شاہین، محمد شیر افضل جعفری، رام ریاض، سید جعفر طاہر، غلام علی چین، رانا سلطان محمود، امیر اختر بھٹی، کبیر انور جعفری، صاحب زادہ رفعت سلطان، محمد فیروز شاہ، ارشاد گرامی، پروفیسر محمد حیات خان سیال، مہر بشارت خان، شیر محمد، مظفر علی ظفر اور سمیع اللہ قریشی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اردو سندھی ادبی فاؤنڈیشن نے ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لیے جدو جہد کا آغاز کیا اور متعدد کتب، مسودات اور مخطوطے اس کی کوششوں سےز یور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آئے۔ وہ تاریخ کے مسلسل عمل پر پختہ یقین رکھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ سیل زماں کے تھپیڑوں سے کوئی بھی اولی الامر محفوظ نہیں رہ سکتا۔ تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے سیل زماں کی مہیب لہروں اور گرداب میں خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتے ہیں۔ اس کے با وجود لفظ کی حرمت پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی کیوں کہ زندہ اور سچا لفظ تہذیبی بقا کی علامت ہے۔
ادیبوں اور ادب کے طالب علموں سے ان کو جو قلبی لگاؤ تھا وہ ان کی شخصیت کو نکھار عطا کرتا ہے۔ اپنے عہد کے بڑے ادیبوں، عظیم دانش وروں اور ادب کے شائقین کے ساتھ مراسم بڑھا کر وہ اپنے لیے اطمینان اور ذہنی سکون کی ایک صورت تلاش کر لیتے تھے۔ ادبی نشستوں میں شرکت کرنا اور ان کے انعقاد میں گہری دلچسپی لینا ان کا معمول تھا۔ وہ خود ایک بڑے شاعر تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بڑے انسان بھی تھے۔ نو آموز شعرا کی حوصلہ افزائی کرنا ان کا شیوہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی چراغ مستقبل کی امید ہیں۔ ان کے پاس جس کسی نے بھی اپنی کسی کتاب کا مسودہ ارسال کیا، انھوں نے اس کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے فوری طور پر ارسال کر دی۔ اس سلسلے میں وہ کسی رعایت کے قائل نہ تھے۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔ انھوں نے ہمیشہ وہی لکھا جو ان کے ضمیر کی آواز تھی۔ تنقیدی نشستوں میں ان کی وقیع رائے کو ہمیشہ اہمیت دی جاتی۔ مصر کے عرب طلبا اور طالبات کو اردو پڑھانے کے سلسلے میں پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی الازہر (قاہرہ)میں تدریسی کامرانیوں کے وہ بہت مداح تھے۔ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کو وہ اپنی ذمہ داری خیال کرتے اور اس کام میں حصہ لینے والے احباب کی خدمت کو وہ ایک ایسی نیکی سے تعبیر کرتے جس کا اجر عظیم بارگاہ رب العزت سے ضرور ملے گا۔ شبلی نعمانی کی سیرت النبیﷺ کو وہ سیرت نگاری کا بلند پایہ نمونہ قرار دیتے تھے۔ محمد آصف خان کی تحریک پر وہ کلیات شاہ حسین کا منظوم اردو ترجمہ لکھنا چاہتے تھے لیکن حیف صد حیف کہ محمد آصف خان کے اچانک انتقال کے باعث یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور اردو زبان ایک عظیم پنجابی صوفی شاعر کے منظوم اردو ترجمے سے محروم ہو گئی۔ اسیر عابد کے منظوم پنجابی ترجمہ دیوان غالب کو انھوں نے پسند کیا۔ سید جعفر طاہر کے کینٹوز کو اردو میں ایک منفرد شعری تجربہ قرار دیتے تھے۔ محمد شیر افضل جعفری کے لسانی تجربے کو وہ پسند کرتے تھے اور یہ بات بر ملا کہتے تھے کہ اردو زبان میں اتنی گنجائش ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر جذب کر سکے۔ محمد شیر افضل جعفری نے اردو زبان میں پنجابی زبان کے الفاظ کو استعمال کیا اور اسے جھنگ رنگ کا نام دیا تھا۔ ان کے اس لسانی تجربے کو بہت پذیرائی نصیب ہوئی۔
جھیں جھیں کتنی چنگی ہے
کاٹھ کنواں سارنگی ہے
مستقبل کی اردو بھی
افضل کی نیرنگی ہے (محمد شیر افضل جعفری )
اردو کلاسیکی شاعری، جدید اردو شاعری، عالمی ادبیات، پاکستانی زبانوں کے ادب، عربی، فارسی اور سندھی ادب پر انھیں کامل دسترس حاصل تھی۔ وہ قومی تہذیب و ثقافت اور ماضی کے عظیم تاریخی ورثے کو بہت اہم سمجھتے تھے۔ اپنی خیال افروز اور فکر پرور شاعری سے انھوں نے قارئین کے احساس و شعور کو نئے آفاق سے روشناس کرانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان کے اسلوب کی انفرادیت کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ ان کے اخلاق حمیدہ کا واضح پرتو ان کے اسلوب میں موجود ہے۔ وہ ترجمے کے اعجاز سے دو تہذیبوں کے باہم ملاپ کی صورت تلاش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں تہذیبی و ثقافتی اقدار اور زندگی کے مختلف رویوں کے متعلق ایک قابل فہم انداز فکر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔۔ ان کا شعری مزاج اپنے عہد کے معاشرتی، ثقافتی اور تہذیبی اقدار کی مہک اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
جب تک ترے جمال کی رعنائیاں رہیں
کیا کیا نہ میری حوصلہ افزائیاں رہیں
یاد آئی جب کبھی ترے لہجے کی نغمگی
دھیمے سروں میں گونجتی شہنائیاں رہیں
آفاق وہ نہیں ہے تو کیا رونق حیات
کہنے کو لاکھ انجمن آرائیاں رہیں
زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ زندگی نے تجربات و حوادث کی شکل میں ان کو جو جذبات ، مشاہدات اور احساسات عطا کیے، وہ ان کے لیے ایک اہم شعری مواد بن گئے۔ اسی کی اساس پر وہ اپنے قصر شاعری کی تعمیر کرتے ہیں۔ ان کے فکر و خیال کے سوتے زندگی کے مسائل اور واقعات سے پھوٹتے ہیں۔ ان کے خیالات قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں۔ ان کی شاعری متعدد نئے تجربات کے یقینی ابلاغ کی صورت میں قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ ان کے شعری تجربات قاری کو ایک منفرد، متنوع، دل کش اور مانوس تجربے سے آشنا کرتے ہیں۔ ان کا شگفتہ، عام فہم اور پر لطف پیرایۂ بیان ایک ایسے وسیع تر تناظر میں سامنے آتا ہے جو قاری کو شعور اور فکر و خیال کی وسیع و عریض وادی میں مستانہ وار گھومنے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ دل کی بات اس خلوص سے لبوں پر لاتے ہیں کہ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے۔ ان کی دروں بینی اور جذبوں کی صداقت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ وہ اپنی داخلی کیفیات کو مخفی نہیں رکھتے بل کہ اپنے جذبات واحساسات کو من و عن الفاظ کے قالب میں ڈھال کر اپنے متنوع تجربات سے قاری کو ایک جہان تازہ کی نوید سناتے ہیں۔
ہوک سی اٹھی دل میں آنسوؤں نے شہ پائی
دیکھ اے غم دوراں پھر کسی کی یاد آئی
بے کھلی کلی دل کی بے کھلے ہی مرجھائی
تم کہاں تھے گلشن میں جب نئی بہار آئی
دل کے ایک گوشے میں تیرے پیار کی حسرت
جیسے شہر خوباں میں کوئی شام تنہائی
کون ہاں وہی آفاق جانتے ہیں ہم اس کو
ہوشیار دیوانہ، با شعورسودائی
پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی ایک کثیر التصانیف ادیب تھے۔ ان کی کتب کو دنیا بھر میں شرف پذیرائی ملا۔ ان کی علمی، ادبی، صحافتی اور قومی خدمات تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ انھوں نے تراجم، شاعری، تنقید، تحقیق اور تدریس کے شعبوں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کی تصانیف کی متعدد جہتیں ہیں جو کہ ان کے صاحب اسلوب ادیب ہونے کی دلیل ہے۔ انھوں نے تمام اصناف ادب میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی ترجمہ نگاری نے ان کو منفرد اور ممتاز مقام عطا کیا۔ سندھی کلاسیکی شاعری بالعموم اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کا بالخصوص اردو زبان میں جو ترجمہ اس عظیم تخلیق کار نے کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان تراجم کے اعجاز سے جہاں فکر و خیال کو ندرت ملتی ہے وہاں اس کے بصیرت افروز مباحث سے علوم کو ایک جہان تازہ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ان تازہ افکار کے وسیلے سے قاری کو نئے خیالات، نئے تصورات اور نئے علوم سے آگاہ ہونے کا موقع ملتا ہے۔ انھوں نے اپنے مسحور کن اسلوب سے ذہنی بالیدگی اور وسیع النظری کو یقینی بنایا۔ ان کے تراجم نے اردو زبان و ادب کو متعدد نئے، منفرد، حسین اور سدا بہار اسالیب سے روشناس کرایا۔ انھوں نے اردو زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں تراجم کے ذریعے اضافہ کیا۔ ان کی اس علمی خدمت کے ذریعے اردو زبان کے دامن میں گل ہائے رنگ رنگ کی فراوانی ہو گئی۔ نئے مضامین اور موضوعات کی آمد سے تخلیقی یکسانیت اور جمود کا قلع قمع ہو گیا۔ تجربات، مشاہدات، ابلاغ اور اسالیب کے نئے در ہو تے چلے گئے۔ اردو میں تر جمہ نگاری کی جو شمع انھوں نے فروزاں کی اس کی بہ دولت سفاک ظلمتیں کافور ہو گئیں اور تراجم کی لہر سے ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ ان کی تصانیف نے اردو زبان و ادب کے قارئین اور تخلیق کاروں کو جدت تخیل اور فکر ی تنوع کی وہ راہ دکھائی جس سے وہ پہلے نا آشنا تھے۔ ان کی درج ذیل تصانیف ان کے لیے شہرت عام اور بقائے دوام کا وسیلہ ثابت ہوں گی۔
ادب جھروکے (مضامین)، ارمغان عقیدت، ادب زاویے، احوال سچل (انتخاب کلام سائیں سچل سرمست )، بابائے اردو وادیِ مہران میں، بوئے گل نالۂ دل (شیخ ایاز کا اردو کلام )، بڑھائے جا قدم ابھی (سال اشاعت1965)، بساط ادب (تنقیدی و تحقیقی مضامین )، پیام لطیف (شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام اور پیام )پاکستان ہمارا ہے (ملی نغمے )، تاثرات (تنقیدی مضامین)، جدید سندھی ادب، جدید سندھی ادب کے اردو تراجم (تحقیق)، ریگ زار کے موتی (شمالی سندھ کے شعرا)، ریزۂ جاں (شعری مجموعہ ) سال اشاعت 1966، سیرۃالبشر (تہذیب کا سفر )، سر لطیف (گیت )، شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور عصر حاضر، شخصیت ساز (مضامین)، شاعر حق نما (سچل سرمست کی شاعری اور شخصیت )، شاہ جو رسالو: تصنیف شاہ عبداللطیف بھٹائی (منظوم اردو ترجمہ )، صبح کرنا شام کا (خود نوشت )سال اشاعت 1998، عکس لطیف (شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شخصیت اور شاعری )سال اشاعت 1974، قلب سراپا (شاعری )سال اشاعت 1964، کوثر و تسنیم (حمد و نعت )سال اشاعت 1949,، کلاسیکی ادب : ایک مطالعہ، شاہ عبداللطیف لطیف کی شاعری اور شخصیت (تحقیق اور تنقید )، شکیلہ رفیق : فن اور شخصیت (تنقید )۔
پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم تھے۔ اپنے شاگردوں کو وہ اپنی اولاد کی طرح محبت اور شفقت سے نوازتے۔ ان کا ناصحانہ انداز نو خیز طلبا پر گہرا اثر چھوڑتا اور ان کی لوح دل پر ان کی دردمندی اور خلوص سے لبریز گفتگو کے انمٹ نقوش مرتب ہوتے۔ اپنے عزیزوں کو وہ اکثر یہ بات بتایا کرتے کہ جب دولت ہاتھ سے چلی جائے تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ کچھ بھی نقصان نہیں ہوا۔ انسان محنت شاقہ سے کھوئی ہوئی دولت اور گم شدہ زر و مال اور میراث حاصل کر سکتا ہے۔ جب کسی جسمانی عارضے کے باعث انسانی صحت میں ضعف کے آثار دکھائی دیں تو یہ بات قابل توجہ ہے اور یہ جان لینا چاہیے کہ معمولی نقصان ہو گیا ہے جس کی تلافی دوا، علاج اور پرہیز سے ممکن ہے۔ اس کے بر عکس جب کوئی انسانی متاع کردار سے عاری ہو جاتا ہے تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے کہ وہ بد نصیب شخص متاع زیست گنوا بیٹھا۔ اس کی شخصیت راکھ کے ڈھیر میں بدل جاتی ہے جس میں کچھ باقی نہیں رہتا۔ یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ جس کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی کی کوئی صورت نہیں۔ معاشرتی زندگی میں قحط الرجال کے باعث زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کو شدید ضعف پہنچا ہے۔ شعبۂ ادب میں لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں نے تمام منظر نامہ ہی گہنا دیا ہے۔ چربہ ساز، سارق اور کفن دزد عناصر نے جعل سازی اور مکر کی چالوں سے ہوس زر اور جلب منفعت کو وتیرہ بنا رکھا ہے۔ ان حالات میں جوہر قابل کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی اس لرزہ خیز اعصاب شکن صورت حال سے بہت دل برداشتہ تھے اور اکثر اپنے عزیزوں کو یہ نصیحت کرتے کہ تخلیق ادب کو کبھی منفعت بخش خیال نہ کرنا یہ تو سراسر جی کا زیاں ہے۔ معاشرتی زندگی میں ادیبوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی شقاوت آمیز نا انصافیوں پر وہ بہت دل گرفتہ رہتے تھے۔ اس مناسبت سے وہ غالب کا یہ شعر اپنے دبنگ لہجے میں پڑھتے تو سامعین کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں۔
ہمارے شعر ہیں اب صر ف دل لگی کے اسد
کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں
اللہ کریم نے پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی کو بردباری، تحمل، حق گوئی و بے باکی، خلوص و درد مندی، حب الوطنی اور انسانی ہمدردی کے اوصاف سے متمتع کیا تھا۔ وہ ایک وسیع المطالعہ، وسیع النظر اور وسیع المشرب انسان تھے۔ ان کے دل کی دھڑ کن سے ایک ہی نغمہ پھوٹتا تھا اور یہ صدا آتی تھی کہ میرا پیغام بے لوث محبت ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ وہ بلا امتیاز سب سے والہانہ محبت کرتے۔ ہر قسم کے لسانی، علاقائی، نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے وہ عمر بھر دور رہے۔ ان کی روشن خیالی اور ترقی پسندانہ روش کی بنا پر بعض لوگ انھیں سیکولر خیالات کا حامل گردانتے۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ توحید، رسالت اوراسلام کی آفاقی تعلیمات پر یقین کامل رکھتے تھے۔ ان کی حمدیہ، نعتیہ، اور ملی شعری اس کا واضح ثبوت ہے کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور ملت اسلامیہ کی فلاح انھیں دل و جان سے زیادہ عزیز تھی۔ وہ لسانی، نسلی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات اور ہر قسم کی انتہا پسندی کو ملکی سالمیت اور بقا کے خلاف سمجھتے تھے۔ ایک عظیم محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے انھوں تمام عمر قومی تعمیر و ترقی کے لیے سخت جد و جہد کی۔ وہ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے بھر پور سلوک کرتے اور ان سے مل کر ہر ملاقاتی خود اپنی نظروں میں معزز اور مفتخر ہو جاتا۔ وہ مس خام کو کندن اور ذرے کو آفتاب بنانے والے معلم تھے۔ ان کے شاگرد ان کے فیضان نظر سے ترقی کے مدارج طے کرتے چلے جاتے اور ہمیشہ ان کے مداح رہتے جس خلوص، دردمندی اور قلبی وابستگی سے وہ پتھروں کی تراش خراش سے انھیں در نایاب میں بدل دیتے وہ ان کی معجز نما شخصیت کی انفرادیت کی دلیل ہے ایسا با عمل عالم اور با کمال معلم ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتا۔ ان کے لاکھوں شاگرد اپنے استاد کے بارے میں یہ رائے دیتے ہیں۔
اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
اپنی آہ سحر سے خرد افروزی کا معجز نما کرشمہ دکھانے والے پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی نے تمام عمر اپنی خو د داری، انا اور استغنا کا پرچم سر بلند رکھا۔ جبر کا ہر اندازمسترد کرنا ان کا شیوہ تھا۔ فسطائی جبر کے سامنے سپر انداز ہو نا ان کے نزدیک جبر سے بھی زیادہ قبیح اور اہانت آمیز فعل تھا۔ وقت کے فراعنہ کو ان کی اوقات یا دلانے میں انھوں نے کبھی تامل نہ کیا۔ در کسریٰ پر صدا کرنے والوں اور کوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں تلاش کرنے والے سگان راہ سے انھیں شدید نفرت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جامد و ساکت اہرام، کھنڈرات اور سنگلاخ چٹانوں میں موجود حنوط شدہ لاشیں انسانیت کے مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ بے بس، مظلوم اور قسمت سے محروم انسانوں کے مصائب و آلام مجسموں، کٹھ پتلیوں اور پتھروں کے سامنے بیان کرنا پڑتے ہیں۔ پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی کی زندگی قناعت کی عمدہ مثال ہے ان کی گزر اوقات پنشن کی معمولی رقم اور کتابوں کی حقیر رائیلٹی پر ہوتی تھی۔ اس تنگ دستی کے با وجود انھوں نے کسی قسم کی لابنگ اور جی حضوری کا سہارا نہ لیا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ ذیابیطس کے عارضے میں مبتلا ہو گئے۔ وہ رفتہ رفتہ وقت کی تہہ میں اترتے چلے گئے اور بے مہری عالم کو دیکھ کر اپنی یاد داشت تک کھو بیٹھے۔ اور پھر ان کی چشم کے مرجھا جانے کا سانحہ ہو کے رہا اور وہ زینۂ ہستی سے اتر کر قلزم خوں پار کر گئے۔ اس خود غرض، بے حس، ابن الوقت اور مفاد پرست معاشرے نے ایک زیرک، فعال، مستعد اور دردمند تخلیق کار کو جیتے جی مار ڈالا۔ حریت فکر کے ایک مجاہد کو زندہ در گور کر دیا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام انھوں نے جس کس مپرسی کے عالم میں گزارے وہ مقتدر طبقے کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہر دور میں حریت ضمیر سے جینے والوں کے لیے پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی کا کردار لائق تقلید رہے گا۔ انھوں نے دل پہ جبر کیا اور لب اظہار پہ تالے لگا لیے اور کسی کی بے اعتنائی، بے توجہی اور کینہ پروری کے بارے میں کبھی حرف شکایت لب پر نہ لائے۔ صبر کی روایت میں انھوں نے لب کبھی بھی وا نہ کیے اور جبر کے سامنے کبھی سر نہ جھکایا۔ یہ درست ہے کہ کاروان حسینؓ کو ہمیشہ صعوبتوں کا سفر درپیش رہا ہے جب کہ وقت کے شمر اور یزید چین سے مسند نشین رہتے ہیں۔ پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی نے عمر بھر کسی کا بار احسان نہیں اٹھایا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں ایک توازن اور اعتدال کی صورت پیدا کر لی تھی۔ اسی لیے وہ اپنا خو د ہی احتساب کر لیتے تھے۔ اپنی ذات کے حوالے سے وہ نفس کشی کے قائل تھے اور اس بات پر زور دیتے تھے کہ نفس امارہ پر قابو پا کر انسان کئی مصائب و آلام سے نجات حاصل کر سکتا ہے انھوں نے ہمیشہ قوم کے ضمیر کی ترجمانی کی اور حرف صداقت لکھنے کو اپنا نصب العین بنایا۔ انھوں نے اپنی تخلیقی فعالیت سے ایک ایسی با وقار ذہنی فضا پیش کی، جس کے مثبت اثرات سے دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے میں مدد ملی۔ ان کی شاعری میں جو نئی احساساتی کیفیت جلوہ گر ہے وہ ان کے متنوع اور منفرد شعری تجربات کی مرہون منت ہے۔ آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہوس زر اور جلب منفعت نے انسانیت کو انتشار اور پرا گندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی نے معاشرتی زندگی کی ان قباحتوں سے دامن بچائے رکھا۔ تخلیق فن کے لمحوں میں جس خلوص، درد مندی، تہذیب و شائستگی اور گل افشانی گفتار کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ انھیں اپنے معاصر شعرا میں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ ان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن ان کی نظر ہمیشہ فراز پر رہی۔ مشکلات سے ہراساں ہو کر دل شکستہ ہونا ان کے نزدیک بزدلی کی علامت ہے۔ انسانیت کی اعلیٰ اقدار اور زندگی کی حیات آفریں اور درخشاں روایات کی سر بلندی کی خاطر انھوں نے ہمیشہ لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھا۔ وہ چاہتے تھے کہ عظیم صوفی شعرا نے انسانیت کے بارے میں جو آفاقی تصور پیش کیا ہے اسے گھر گھر پہنچایا جائے اس طرح عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں یقینی مدد مل سکتی ہے ان کی عظیم شخصیت کی بے مثال خوبیاں جن میں وضع داری، خلوص، وفا، ایثار ، دردمندی اور محبت شامل ہیں ان کے اسلوب میں نمایاں ہیں۔ دائمی مفارقت دینے والوں کو یاد رکھنا اور ان کے بارے میں اپنے جذبات حزیں کا اظہار کرنا ایک جان لیوا دکھ ہے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی اور تقدیر کے وار ہیں جو سب پس ماندگان کو مستقل محرومی اور الم نصیبی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ جب بھی کوئی رفیق عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیتا ہے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے، میرے وجود کا ایک حصہ مجھ سے الگ ہو کر اس عزیز کے ساتھ لحد میں سما گیا ہے۔ اس کے بعد ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے جب کچھ بھی باقی نہ رہے گا اور ہم بھی رفتگاں سے جا ملتے ہیں۔ موت جو درد لا دوا دے جاتی ہے اس کا مداوا کسی صورت ممکن نہیں۔ ہم اپنے دلوں کو رفتگاں کی یاد سے عطر بیز رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ مضمون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ رفتگاں کی یادوں کے زخم کبھی بھر نہیں سکتے جب تک دم میں دم ہے ان کی یادیں نہاں خانۂ دل میں اپنے وجود کا اثبات کرتی رہیں گی اور ہمیں زندگی کی کم مائیگی کا احساس دلاتی رہیں گی۔ اس عظیم تخلیق کار کی یاد میں اپنے جذبات حزیں پیش کرتے وقت مجھے ان کے یہ اشعار یاد آئے جو ان کی یاد میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
ہے وہی دنیا وہی ہم ہیں مگر تیرے بغیر
سونے سونے سے ہیں یہ شام و سحر تیرے بغیر
راس کیا آئے گی کوئی رہ گزر تیرے بغیر
کیسے طے ہو گا یہ غربت کا سفر تیرے بغیر
روشنی تھی جن چراغوں سے وہ سارے بجھ گئے
ماتمی ہیں آج سب دیوار و در تیرے بغیر
رو بہ رو اک ڈھیر ہے مٹی کا باقی کچھ نہیں
اب نہ گھر والے سلامت ہیں نہ گھر تیرے بغیر
کھو گئیں وہ صورتیں سب جانی پہچانی ہوئی
کس کو دیکھوں اور کیا آئے نظر تیرے بغیر
رہ گیا ہوں پھڑ پھڑا کر زندگی کے جال میں
ایک پنچھی کی طرح بے بال و پر تیرے بغیر
چھوڑ کر اس حال میں او جانے والے دیکھ تو
بوجھ کتنا ہے دل آفاق پر تیرے بغیر
٭٭٭
پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی : کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
22۔ دسمبر 2012کو پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے داعی ء اجل کو لبیک کہا۔ موت کے بے رحم ہاتھوں علم و ادب کا ایک اور خورشید غروب ہو گیا۔ بیس سے زائد کتب کے مصنف اس بے مثال ادیب نے پوری دنیا میں اپنی ادبی کامرانیوں کے جھنڈ ے گاڑ دئیے۔ ان کے کئی اہم اور وقیع مقالات کے دنیا کی بڑی زبانوں میں تراجم ہوئے اور ان کو ممتاز علمی اور ادبی مجلات میں شائع کیا گیا۔ اردو تنقید و تحقیق کے ہمالہ کی ایک سربہ فلک چوٹی موت کے بے رحم ہاتھوں سے دیکھتے ہی دیکھتے سہسوان (ضلع بدایون، بھارت ) میں زمیں بوس ہو گئی۔ اردو تنقید و تحقیق کو معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرنے والا حریت فکر کا دلیر مجاہد اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہا۔ عالمی سطح پر اردو تنقید و تحقیق کو بلند ترین درجۂ استناد اور وقیع ترین مقام ثقاہت پر فائز کرنے والا ایک زیرک تخلیق کار، وسیع المطالعہ ادیب، یگانۂ روزگار فاضل، انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا علم بردار اور عالمی ادبیات کا زندہ دائرۃ المعارف راہیِ ملک عدم ہو گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے اردو تنقیدو تحقیق کی اسی روایت کو پروان چڑھایا جسے رشید حسن خان، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر بشیر سیفی، ڈاکٹر رحیم بخش شاہین، ڈاکٹر محمد ریاض اور ڈاکٹر صابر کلوروی نے خون جگر سے سینچا۔ علم و ادب کا یہ دبستان اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ زمین نے کتنے بڑے آسمان اپنے دامن میں چھپا لیے ہیں، اس کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہ سب اہل کمال علم و ادب کے خورشید جہاں تاب تھے جن کی تابانیوں سے اکناف عالم کا گو شہ گوشہ منور ہو گیا۔ علم و ادب، تہذیب و ثقافت، تحقیق و تنقید، تخلیق ادب و تاریخ اور لسانیات کے اتنے بڑے دانش وروں کا ایک ایک کر کے ستاروں کے مانند غروب ہو جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ ان کی وفات سے اتنا بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے جو کبھی پر نہیں ہو سکتا۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی 17۔ اکتوبر 1936کو بدایوں (اتر پردیش۔ بھارت )میں پیدا ہوئے۔ وہ صحیح معنوں میں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی ایک قابل تقلید مثال تھے۔ اپنے آبائی گاؤں سہسوان سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے اجین(Ujjain)میں واقع وکرم یو نیورسٹی (Vikram University )پہنچے۔ ایک فطین طالب علم کی حیثیت سے انھوں نے اس جامعہ میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور ہر امتحان میں پہلی پوزیشن اور درجہ اول حاصل کر کے پاس کیا۔ انھوں نے گریجویشن 1959میں کیا اور اس کے بعد پو سٹ گریجویشن 1961میں کیا۔ ان کی بے مثال تعلیمی کارکردگی ایک شاندار ریکارڈ ہے۔ پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری انھوں نے 1963میں حاصل کی۔ انھوں نے اس جامعہ میں کامیابی کے جو عظیم الشان ریکارڈ قائم کیے ان میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ آج بھی ان کی تعلیم کامرانیوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
1970میں پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے بنارس ہند ویونیورسٹی میں تدریسی خدمات کا آغاز کیا۔ 1973میں انھوں نے اسی جامعہ سے فار سی زبان و ادب ایم۔ اے کیا اور پہلی پو انفر زیشن اور درجہ اول میں کامیابی حاصل کر کے اپنی فقیدالمثال کامرانیوں کے نئے باب رقم کیے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی میں اردو، فارسی اور عربی شعبے کا قیام 1916میں عمل میں لایا گیا۔ اس کے بعد 1973میں اردو زبان و ادب کا ایک الگ شعبہ بنا یا گیا۔ وہ سال 2000کے اختتام تک اس جامعہ سے وابستہ رہے اور ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے صدر شعبہ ار دو کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے۔
اردو لسانیات اور غالبیات کے موضوع پر پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی اور پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے خیالات ایک جیسے تھے۔ دونوں دانش ور ادب کو عصر ی آگہی سے متمتع کرنے کے متمنی تھے۔ جدید لسانیات کے موضوع پر ان دونوں محققین نے جو قابل قدر کام کیا ہے وہ تاریخ ادب کا اہم باب ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے ساتھ ان کے علمی روابط گزشتہ چار عشروں پر محیط تھے۔ فرانسیسی ماہرین لسانیات کے افکار پر انھیں کامل دسترس حاصل تھی۔ خاص طور پر سوسئیر، ژاک دریدا، ژٓک لاکاں، رولاں بارتھ اور فوکو کے افکار کی جولانیوں کو افکار تازہ کی ایک ایسی صورت سے تعبیر کرتے جس کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات مو جود ہیں۔ 1995میں جب ڈاکٹر نثار احمد قریشی الازہر (قاہرہ)میں تدریسی خدمات پر مامور تھے تو ان کے کئی بین الاقوامی لیکچرز ہوئے جنھیں دنیا کی اہم جامعات میں پیش کیا گیا۔ ان اہم لیکچرز کو پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے فروغ علم و ادب کے سلسلے میں سنگ میل قرار دیا اور ان کی بہت پذیرائی کی۔ یہ ان کی علم دوستی اور ادب پروری کی اعلیٰ مثال ہے۔ اردو زبان و ادب کی فاصلاتی تدریس کے سلسلے میں وہ بہت پر جوش تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اردو زبان کو دنیا کی مقبول زبان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تدریس پر توجہ دی جائے۔ عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی ادیب، ماہر تعلیم، نقاد اور محقق پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے اردو کی فاصلاتی تدریس کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا۔ ان کے مرتب کیے ہوئے اسباق کا پوری دنیا میں خیر مقدم کیا گیا۔ یہ اسباق ابتدائی جماعتوں سے لے کر پی ایچ۔ ڈی سطح تک کے لیے ہیں۔ پوری دنیا میں اردو کے اساتذہ اپنے شاگردوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان اسباق سے ضرور استفادہ کریں۔ دنیا بھر میں اردو زبان و ادب کے فروغ کی مساعی میں ان ادبی یونٹس کی بدولت اہم کامیابیاں نصیب ہوئی۔ پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے بھی اس موضوع پر ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی مساعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ٍپاکستان میں ان کی تمام تصانیف کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جاتا ہے اور ہزاروں تشنگان علم ان سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
(1)شعرائے اردو کے تذکرے نکات الشعرا سے گلشن بے خار تک، 1976 (2)رجب علی بیگ سرور : چند تحقیقی مباحث1991، (3)رائے بینی نرائن دہلوی : سوانح اور ادبی خدمات، 1997، ۰ (4)مرزا غالب کے پنج آہنگ، 1997، ( 5)انتخاب رجب علی بیگ سرور، 1988
ڈاکٹر بشیر سیفی کی طرح پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے بھی تاریخ ادب اردو کے سلسلے میں اردو تذکروں کو بہت اہم قرار دیا۔ اردو میں تذکرہ نویسی کا آغاز فارسی ادب کے زیر اثر ہوا۔ اہل عرب کے نزدیک تذکرہ کو گنجینۂ معانی کے طلسم کی حیثیت حاصل ہے۔ اہل علم و دانش نے زمانہ قدیم سے تذکرہ نویسی کو شعار بنائے رکھا۔ جو کچھ ان کے دل پر گزرتی اور جو باتیں کے حافظے میں محفوظ رہ جاتیں وہ اسے زیب قرطاس کرنے میں کبھی تامل نہ کرتے۔ وہ اپنے معاصرین کو ذکر کرتے، انھیں یاد کرتے، ان کی زندگی کے نشیب و فراز اور ان کی تخلیقی فعالیت پر اپنی رائے دیتے، ادبی نشستوں اور محافل اور مشاعروں کی یادداشتیں احاطۂ تحریر میں لاتے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری اور تخلیقات کو بھی لکھ کر محفوظ کرتے جاتے۔ اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بیاض نویسی اور تذکرہ نویسی کا تعلق زمانہ قدیم سے ہے اور اس کی افادیت آج بھی مسلمہ ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ادیبوں کی بیاضیں، یادداشتیں، منتشر اوا ق اور کتاب زیست کے واقعات پر مبنی تحریریں ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی تذکروں کی شکل میں ایک جامع صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ان تذکروں کے معجز نما اثر سے جدید دور کے محقق نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا اور تاریخ ادب کی کئی گم شدہ کڑیاں ملا کر قاری کو تاریخی حقائق اور ادبی واقعات کے ادراک کے قابل بنایا۔ اردو تذکرہ نویسی پر جو وقیع اور مستند تحقیقی کام پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے کیا ہے وہ انھیں اپنے عہد کے محققین میں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ اردو ادب کے وہ طالب علم جو صدیوں سے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے تھے ان کو نشان منزل مل گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے اپنی تحقیقی کامرانیوں سے ادبی تحقیق کو نئی جہت عطا کی۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ صحت زبان پر ستم ڈھانے والوں نے تحقیق و تنقید کو پشتارۂ اغلاط بنا دیا ہے۔ وہ حریت فکر کے مجاہد تھے، انھوں نے تمام زندگی فروغ علم و ادب کے لیے وقف کر دی اور ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہے۔ وہ زندگی کی اقدار عالیہ کو پروان چڑھانے کی تمنا کرتے تھے۔ ان کی زندگی بے لوث محبت، ایثار، قناعت، دردمندی، سب کے لیے مسرت کے مواقع کی فراہمی، حق گوئی و بے باکی اور انسانی ہمدردی کی شاندار مثال تھی۔ انھی اوصاف کی بدولت ان کی زندگی میں نکھار پیدا ہوا اور اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے جذبہ میں فولادی قوت پیدا ہوئی۔ زندگی جو اپنی اصلیت کے اعتبار سے جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں کی ایک مشقت طلب صورت ہے اس کے غیر مختتم مسائل سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے انھوں نے ہمیشہ صبر و تحمل اور اخلاق و اخلاص کو مقیاس العمل قرار دیا۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ جب تک دنیا میں انسانیت کو انصاف، راست گوئی اور روزگار کے مواقع مہیا نہیں کیے جاتے اس وقت تک معاشرتی زندگی کو امن و سکون کا گہوارہ نہیں بنایا جا سکتا۔ وہ احترام انسانیت کے قائل تھے۔ تخلیق ادب میں انھوں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ ادب کو اخلاقیات کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ ایک با کردار، با ضمیر اور با اخلاق ادیب مادی زندگی کی آلودگی سے اپنا دامن بچا کر ہو س زر اور جلب منفعت کو اپنے پائے استقامت سے ٹھو کر مارتا ہے۔ ادب میں وہ مادیت کے بجائے روحانیت کی اہمیت پر زیادہ توجہ دیتے تھے اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ روحانیت کے اعجاز سے فکر و نظر کی کایا پلٹ جاتی ہے اور انسانیت کے احترام اور تقدیس کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر ان کی گہری نظر تھی۔ تاریخی اعتبار سے یہ بات واضح ہے کہ 1857کے بعد بر عظیم میں مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی تعلیم کی وجہ سے اخلاقی اور روحانی اقدار کو طاق نسیاں کی زینت بنا دیا گیا۔ اس روش کے مسموم اثرات سے تا حال گلو خلاصی نہیں ہو سکی۔ مادی دور کی آلائشیں افراد کو پستیوں کی جانب دھکیل دیتی ہیں، ان اعصاب شکن حالات میں روحانیت ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہے اور افراد کو پریشاں حالی اور درماندگی سے نجات دلا کر ارفع مقاصد کے حصول پر مائل کرتی ہے۔ موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر ادیبوں کی ذاتی مجبوریوں اور مفادات کے باعث تخلیق ادب میں روحانیت، دیانت اور اخلاقیات کو بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تخلیق فن کا عمل بھی مصلحتوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ گلشن ادب میں لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں نے رتیں بے ثمر کر دی ہیں۔ چربہ ساز، سارق اور کفن دزد قماش کے لوگوں نے تحقیق کو بازیچۂ اطفال بنا دیا ہے۔ ایسے عناصر کے خلاف انھوں نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ اپنی عملی زندگی میں تیشۂ حرف سے حریت فکر کی راہ میں حائل فصیل مکر کو منہدم کرنے میں انھوں نے کبھی تامل نہ کیا۔ اردو ادب میں ایسے جری تخلیق کار اب بہت کم باقی رہ گئے ہیں۔
لوح مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
تخلیق اور اس کے لا شعور ی محرکات کے بارے میں ان کا ایک واضح انداز فکر تھا۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ تمام علامتوں اور تمثالوں کے سوتے انسانی لا شعور ہی سے پھوٹتے ہیں۔ جہاں تک روحانیت کے ہمہ گیر اثرات کا تعلق ہے وہ زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتی ہے۔ ان کی تخلیقی تحریریں پڑھ کر یہ احساس قوی ہو جاتا ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ خون بن کے رگ سنگ میں اترنے کی سعی کرتے ہیں۔ تخلیق ادب میں علامتی اظہار کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ علامتی اظہار کی بو قلمونی اور مسحور کن دل کشی کو رو بہ عمل لا کر ایک زیرک تخلیق کار وجدانی کیفیات کو لاشعوری محرکات سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی کے اسلوب میں لا شعور کے جملہ محرکات کو بہ طریق احسن پیش کیا گیا ہے.ان کی تحریریں قاری کو زندگی کی حقیقی معنویت سے آشنا کرتی ہیں اور اس کی وجہ سے جہد و عمل کی متعدد نئی صورتیں سامنے آتی ہیں۔ ان کی تحقیق سائنسی انداز فکر کی مظہر ہے اس کے اعجاز سے تخمین و ظن کے بجائے ٹھوس حقائق تک رسائی کا یقین ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی عالمانہ تنقید و تجزیہ پڑھ کر قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کی تحریریں پڑھ کر ذہنی بیداری پیدا ہوتی ہے اور ایک ایسا رد عمل پیدا ہوتا ہے جو جہد و عمل اور گہرے غور و خوض کا نقیب ثابت ہو تا ہے۔۔ انھوں نے تخلیقی عمل اور اس کے لا شعوری محرکات کو اشاریت کی صورت میں اپنے فکر و فن کی اساس بنایا ہے۔ اپنے عہد کے حالات و واقعات، نشیب و فراز، ارتعاشات، تہذیب و معاشرت اور سماج کے بارے میں انھوں نے نہایت دردمندی اور خلوص کے ساتھ اپنا ما فی الضمیر بیان کیا ہے۔ ادب کی جمالیاتی اقدار کو وہ بہ نظر تحسین دیکھتے تھے۔
پاکستان میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ ادب کے وسیلے سے دنیا بھر کی اقوم کو قریب تر لانے کے داعی تھے۔ پاکستانی ادیبوں سے انھوں جو عہد وفا استوار کیا تمام زندگی تپاک جاں سے اس پر عمل کیا۔ پاکستان سے شائع ہونے والے علمی و ادبی مجلات کا وہ باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے۔ ان کی وفات پر پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں نے اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا ہے۔ ایک بے خو ف صدا مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اردو ادب کا ہنستا بولتا چمن دائمی خاموشی اختیار کر گیا۔ ان کی یاد میں ہر دل سوگوار ہے اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
٭٭٭
قمر علی عباسی: گزر گیا جو جہاں سے عجب مسافر تھا
اردو زبان میں سفر نامے اور بچوں کے ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کرنے والے نابغۂ روزگار ادیب قمر علی عباسی نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ اردو زبان کے تخلیقی ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی اجل کے ہاتھوں زمیں بوس ہو گئی۔ 13۔ جون1938کو امروہہ (یو۔ پی۔ بھارت )میں طلوع ہونے والا علم و ادب، فنون لطیفہ، سیاحت، علم بشریات، ابلاغیات اور تنقید و تحقیق کا یہ آفتاب جہاں تاب اکناف عالم میں اپنی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے، اذہان کی تطہیر و تنویر کرنے اور علمی دنیا کو بقعۂ نور کرنے کے بعد 31۔ مئی 2013کی شام نیو یارک (امریکہ )میں عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا۔ نیویارک کے شہر خموشاں کی زمین نے اردو زبان و ادب کے اس آسمان کو ہمیش کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ پوری دنیا میں ان کی مسحور کن شخصیت اور دلکش اسلوب کے لاکھوں مداح اس یگانۂ روزگار تخلیق کار کی دائمی مفارقت پر سکتے کے عالم میں ہیں۔ ان کی وفات پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل سوگوار ہے۔ وفا کے سب ہنگامے عنقا ہو گئے ہیں، طلوع صبح بہاراں اور فروغ گلشن و صوت ہزار کے موسم کی تمنا اب خیال و خواب محسوس ہوتی ہے۔ قلم کی حرمت اور لفظ کے تقدس کو سب سے مقدم سمجھنے والے اس زیرک، فعال، جری اور مستعد تخلیق کار کی رحلت ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس سے پاکستانی ادبیات کے فروغ کی مساعی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اردو دنیا عالمی ادبیات کے ایک ایسے ماہر سے محروم ہو گئی ہے جس کا منفرد اسلوب اپنی مثال آپ تھا۔ پر زمانہ تو پرواز نور سے بھی تیز ہے لیکن زمانہ لاکھ ترقی کرے اب دنیا میں ایسے عظیم اور یادگار زمانہ تخلیق کار کبھی پیدا نہیں ہو سکتے۔ قمر علی عباسی تو اقلیم عدم کی جانب اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے لیکن دنیا بھر میں ان کے کروڑوں پر ستار حسرت و یاس، رنج و غم اور محرومی کے سرابوں میں گریہ کناں ہیں۔ قمر علی عباسی پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کے امین تھے۔ وہ زندگی کی اقدار عالیہ، انسانیت کے وقار اور سر بلندی اور حریت فکر کے علم بردار تھے۔ حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ شبیرؓ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے والے اس لافانی ادیب کا دوام لوح جہاں پر ثبت رہے گا اور تاریخ ہر دور میں اس رجحان ساز سفر نامہ نگار، صاحب اسلوب ناول نگار، با کمال کالم نگار، عظیم براڈ کاسٹر اور بچوں کے لیے اصلاحی، افادی اور تربیتی نوعیت کا ادب تخلیق کرنے والے زیرک تخلیق کار کے نام کی تعظیم کرے گی۔
قمر علی عباسی کے آبا و اجداد کا تعلق بغداد کے عباسی خاندان سے تھا۔ ان کے ددھیال اور ننھیال کے تمام افراد علم و ادب اور فنون لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اور تخلیق ادب کے اعلا ذوق سے متتمع تھے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ادب اور شاعری قمر علی عباسی کی گھٹی میں پڑی تھی۔ ان کے والد یعقوب علی عباسی اور والدہ کنیز فاطمہ نے اپنے بچوں ذیشان عباسی، ثمر علی عباسی، ظفر علی عباسی، منور علی عباسی، درخشاں عباسی اور قمر علی عباسی کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دی۔ گھر کے علمی و ادبی ماحول اور تعلیم یافتہ والدین کے فیضان نظر نے ان شاہیں بچوں کی خداداد صلاحیتوں کو اس طرح صیقل کیا کہ ان بچوں نے اپنی ذہانت اور اعلا تعلیمی کار کردگی سے اپنے اساتذہ کو بہت متاثر کیا۔ جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو قمر علی عباسی اپنے خاندان کے ہم راہ دسمبر 1947میں مری پہنچے جہاں ان کے والد سروے آفیسر کی حیثیت سے خدمات پر مامور کیا گیا۔ مری میں اپنی پرائمری تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ حیدرآباد (سندھ ) پہنچے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ حیدر آباد کی علمی و ادبی فضا نے نو جوان قمر علی عباسی کے فکر و نظر کو مہمیز کیا۔ اس عہد کے متعدد نامور ادیب حیدر آباد میں پرورش لوح و قلم میں مصروف تھے، ان میں قابل اجمیری، حمایت علی شاعر، محسن بھو پالی، صبا اکبر آبادی، رعنا اکبرآبادی، برگ یوسفی، ارتضیٰ عزمی، سوز شاہ جہان پوری، پیکر واسطی، غنی دہلوی اور اختر سکندروی کے نام قابل ذکر ہیں۔ قمر علی عباسی نے ان مشاہیر ادب کے افکار سے اکتساب فیض کیا۔ اس زمانے میں روزنامہ جنگ کراچی میں بچوں کے لیے ایک صفحہ با قاعدگی سے شائع ہوتا تھا۔ قمر علی عباسی بچوں کے اس ادبی صفحے کا مطالعہ بہت دلچسپی سے کرتے تھے۔ بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کی تحریک اسی اخبار کے بچوں کے صفحے کے مطالعہ سے ہوئی۔ اس زمانے میں نامور ادیب شفیع عقیل (پیدائش لاہور : 1930وفات : کراچی 6۔ ستمبر 2013)روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے بچوں کے اس ادبی صفحے کے نگران تھے۔ شفیع عقیل نے ’’بزم نو آموز مصنفین ‘‘کی بنیاد رکھی تو قمر علی عباسی بھی اس میں شامل ہو گئے اور بچوں کے ادب کی تخلیق میں فعال کردار ادا کیا۔ قمر علی عباسی نے ابتدائی عمر میں شعر گوئی میں بھی دلچسپی لی ان کا تخلص انجم تھا۔ ان کا قلمی نام قمر امروہوی تھا۔ زمانہ طالب علمی میں وہ پاکستان کے طول و عرض میں بین الکلیاتی علمی و ادبی تقریبات میں شرکت کے لیے گئے۔ گورنمنٹ کالج جھنگ (قائم شدہ 1926)میں پروفیسر محمد حیات خان سیال کی دعوت پر قمر علی عباسی نے ان تقریبات میں شرکت کی اور تقریری مقابلے میں اول انعام حاصل کیا۔ سید جعفر طاہر، رام ریاض، مجید امجد، امیر اختر بھٹی، محمد شیر افضل جعفری، کبیر انور جعفری، سید مظفر علی ظفر، غلام علی چین، حاجی محمد یوسف اور صاحب زادہ رفعت سلطان کے ساتھ قمر علی عباسی کے روابط اسی زمانے کا ثمر ہیں۔ ان کی ابتدائی عمر کی شاعری کا ایک نمونہ پیش ہے :
کیا قیامت ہے یہ قمر انجم
چاند پورا ہے روشنی کم ہے
گل کو چوما چاند کو دیوانہ وار آواز دی
اک پردہ ان کے اپنے درمیاں رہنے دیا
جلد ہی انھوں نے اپنے اشہب قلم کی جولانیاں دکھانے کے لیے نثر کا انتخاب کیا اور اردو نثر میں اظہار اور ابلاغ میں وہ فقید المثال کامرانیاں حاصل کیں کہ پوری دنیا میں ان کے اسلوب کو سرا ہا گیا۔ قمر علی عباسی نے اعلا تعلیم کے مدارج بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کیے۔ انھوں نے جامعہ سندھ سے بی۔ اے آنرز، ایم۔ اے معاشیات اور ایم۔ اے اردو کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ابتدا میں متروکہ وقف املاک کے بورڈ میں ملازمت کی اس کے بعد کچھ عرصہ نیشنل کالج کراچی میں معاشیات کی تدریس پر مامور رہے۔ وفاقی پبلک سروس کمیشن سے مقابلے کا امتحان (CSS)امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان میں ملازمت کا انتخاب کیا۔ ان کا شمار عالمی شہرت کے حامل ماہرین ابلاغیات میں ہوتا تھا۔ انھوں نے نیشنل براڈ کاسٹنگ سکول لندن سے نشریات کی اعلا تربیت حاصل کی اس کے علاوہ ملائیشیا سے اے آئی بی ڈی کور س کیا۔ تحقیق اورتجسس سے انھیں گہری دلچسپی تھی انھوں نے انوسٹی گیٹر (Investigator) کی تربیت بھی حاصل کی۔ ان کی شادی نیلو فر عباسی سے ہوئی جنھوں نے مائیکرو بیالوجی میں ایم۔ ایس سی کیا تھا۔ نیلو فر عباسی نے پاکستان ٹیلی ویژن کی یادگار سیریل ’’شہزوری ‘‘میں ناقابل فراموش کردار ادا کر کے بے پناہ مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔ ڈرامے میں شہزوری کا کردار اد کر کے نیلو فر عباسی نے ثابت کر دیا کہ ان کی خطر پسند طبیعت طوفاں حوادث سے الجھنا جانتی ہے۔ شہزوری ظالم و سفاک، موذی و مکار عناصر و چیلنج کرتے ہوئے بر ملا کہتی ہے ’’میں بہت بری آدمی ہوں ‘‘۔ اس کردار نے واضح کر دیا کہ جب کوئی معاشرہ اپنی خامیوں کی اصلاح پر آمادہ نہ ہو تو یہ تاثر ملتا ہے بے حسی کا عفریت ہر سو منڈلا نے لگتا ہے۔ نیلو فر عباسی نے خواتین کو ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ بہتر زندگی کی جد و جہد میں حصہ لینے کی راہ دکھائی۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ جو ناروا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اس کے مسموم اثرات عمرانیات کا اہم موضوع ہیں۔ یہ صورت حال کسی بھی قوم کے لیے انتہائی برا شگون ہے۔ نیلوفر عباسی اور قمر علی عباسی نے خواتین کی عزت و تکریم کو ہمیشہ اہم قرار دیا ان کی تحریروں میں خواتین کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونے پر مائل کیا گیا ہے۔ بہ قول پروین فنا سید :
جو فصل گل میں بھی سہمی ہوئی تھیں
وہ کلیاں سر اٹھانا چاہتی ہیں
ریڈیو پاکستان پر نیلو فر عباسی کی آواز قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر کر پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی تھی۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر جب انھوں نے اے۔ حمید کی لکھی ہوئی کہانی ’’جہاں برف گرتی ہے ‘‘میں مرکزی کردا ادا کیا تو مقبولیت اور شہرت میں انھوں نے رفعت و وسعت افلاک کو چھو لیا۔ کو ہساروں میں رہنے والی ایک سادہ لوح دوشیزہ کا کردار نیلو فر عباسی نے مہارت سے فطری انداز میں ادا کیا وہ یادگار بن گیا۔ ڈرامے کے فنی تقاضوں کے مطابق کردار کو اپنی شخصیت پر طاری کر لینے کی جو استعداد نیلو فر عباسی کو قدرت کامل کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ ادب اور فنون لطیفہ کے بعض نقاد یہ کہتے ہیں کہ عوامی مقبولیت اور شہرت میں نیلو فر عباسی بہت آگے تھیں۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستاں ٹیلی ویژن میں نیلو فر عباسی نے جس محنت، لگن اور فرض شناسی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ نیلو فر عباسی کی کتاب ’کہی ان کہی ‘‘ان کی زندگی کے بارے میں دلچسپ حقائق کو سامنے لاتی ہے۔ پاکستان میں تانیثیت کے حوالے سے ان کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ قمر علی عباسی اور نیلوفر عباسی کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے ممتاز ادیب اور نامورافسانہ نگار سلطان جمیل نسیم نے لکھا ہے :
’’جب کبھی بات نکلتی ہے تو قمر عباسی اپنی شادی کے تعلق سے یہ بات بہت ہنس ہنس کر بتاتا ہے کہ ہر اخبار نے شادی کی خبر کے لیے سرخی جمائی ’’نیلو فر عباسی کی شادی قمر علی عباسی کے ساتھ ہو گئی۔ ‘‘صرف ایک اخبار نے یوں لکھا ’’ قمر علی عباسی نے نیلو فر عباسی سے شادی کر لی۔ ‘‘ (1)یہ شادی ان دونوں شخصیات کی زندگی کے لیے نیک فال ثابت ہوئی اور یہ ایک مثالی جوڑا ثابت ہوا۔ نیلو فر عباسی نے اپنے شریک حیات کے بارے میں لکھا ہے :
’’یہ میرا اعزاز ہے کہ مجھے قمر علی عباسی کا ساتھ ملا، جنھوں نے ہمیشہ میری چھوٹی سے چھوٹی خوشی اور خواہش کو افضل جانا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میں زندگی کا آخری سانس بھی اس دنیا میں لوں جہاں قمر علی عباسی کا توانائی ے بھر پور اور مہر بان وجود ہو:
کچھ اور مانگنا میرے مشرب میں کفر ہے
لا اپنا ہاتھ دے میرے دست سوال میں ‘‘ (2)
قمر علی عباسی اپنی اہلیہ اور اولاد سے بہت محبت کرتے تھے۔ نیلو فر عباسی کے نام اپنی کتب کا انتساب کرتے ہوئے قمر علی عباسی نے لکھا ہے :
میرے ہر نفس کی راحت
میرے ہر قدم کی ساتھی
اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر انھوں نے بہت توجہ دی۔ ان کے بیٹے وجاہت علی عباسی بھی ذہین ادیب ہیں اور پاکستان کے اہم اردو اخبار روزنامہ ’’ایکسپریس ‘‘ میں ’’ سلسلہ تکلم کا ‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔ وجاہت علی عباسی نے اپنے عظیم والد قمر علی عباسی کی وفات پر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’چھے مہینے پہلے میری زندگی کا سب سے اہم شخص مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلا گیا میرے والد قمر علی عباسی وہ انسان، جن کی انگلی پکڑ کر میں نے چلنا سیکھا، زندگی کیسے گزارتے ہیں، آگے کیسے بڑھتے ہیں، کیا صحیح کیا غلط ہے کی سیکھ مجھ کو دے کر اپنی زندگی کے اس سفر پر نکل گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ ‘‘(3)
ابلاغیات کے شعبے میں وہ زیڈ۔ اے بخاری اور احمد شاہ بخاری پطرس کی خدمات کے معترف تھے۔ وہ ریڈیو پاکستان خضدار اور کراچی میں سٹیشن ڈائریکٹر کے منصب پر فائز رہے۔ پاکستان کا لنگ اور آہنگ شعبہ مطبوعات ریڈیو پا کستان میں اہم ذمہ داریاں انجام دیں۔ ریڈیو پاکستان کا ادبی مجلہ آہنگ ان کی نگرانی میں معیار اور وقار کی رفعت کا مظہر تھا۔ انھوں نے مسلسل بتیس (32) سال تک ریڈیو پاکستان میں اہم خدمات انجام دیں۔ ریڈیو کی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انھوں نے انفو لائن جنگ کراچی کے مدیر اعلا کی حیثیت سے کام کیا۔ بعض نا مساعد حالات کے باعث قمر علی عباسی نے 1991میں امریکن شہریت حاصل کر لی اور 1999 میں وہ امریکہ منتقل ہو گئے۔ وہ امریکہ پہنچے تو ہفت روزہ عوام نیو یارک کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ قمر علی عباسی نے اپنی وقیع تصانیف سے اردو ادب کی ثروت میں جو گراں قدر اضافہ کیا وہ تاریخ ادب کے اوراق میں آ ب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اردو زبان میں سفر نامے اور بچوں کے ادب کی تخلیق کے سلسلے قمر علی عباسی نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کے بار احسان سے دنیا بھر میں اردو داں طبقے کی گردن ان کے سامنے ہمیشہ خم رہے گی۔ انھوں نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اتر جانے کی سعی کی اور ایک عالم کو اپنے اسلوب کا گرویدہ بنا لیا۔ نامور شاعر بیدل وطنی نے قمر علی عباسی کے اسلوب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :
کیا خوب اردو کو انداز دیا
رنگ سفر ناموں میں نیا بھر دیا
سلامت رہے تو اے قمر عباسی
ولولہ بچوں کو جینے کا دیا
بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کتب بہت مقبول ہوئیں۔ ان کتب کی تفصیل درج ذیل ہے :
رحم دل ڈاکو، بہادر شہزادہ، شیشے کی آنکھ، ایک تھا مرغا، بہادر علی (اس پر یونیسکو کی طرف سے انعام ملا اور دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے تراجم بہت مقبول ہوئے )، شرارتی خرگوش، سمندر کا بیٹا، کائیں کائیں، میاؤں میاؤں، ہمارا پاکستان، عزم عالی شان، قوت عوام، منزل مراد، چوہدری رحمت علی، علامہ اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح
بچوں کے لیے لکھتے وقت قمر علی عباسی نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ بچوں کی مقیاس ذہانت کا خیال رکھا جائے۔ اس لیے انھوں نے سادہ، سلیس اور عام فہم انداز میں بچوں کا دب تخلیق کیا۔ مثال کے طور پر ’’سمندر کا بیٹا ‘‘میں وہ بچوں کے لیے لکھتے ہیں :
ہم نے ایک سنہری مچھلی پکڑی ہے
سمندر ہمارے گھر دعوت پر آیا ہے
ہم اسے ناریل کا دودھ پلائیں گے
سمندر ہماری ماں ہے
سمندر ہمارا باپ ہے
ہم سمندر کے بیٹے ہیں
قمر علی عباسی کی خود نوشت سوانح عمری پر مشتمل دو کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی ملازمت کے مہ و سال کی یادداشتوں پر مشتمل’’32 ناٹ آؤٹ‘‘ بہت دلچسپ کتاب ہے ’’، اک عمر کا قصہ‘‘ میں انھوں نے اپنی زندگی کے سفر کی جو لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ ان کے اچھوتے خیالات کی مظہر ہے۔ یہ دونوں کتب قاری کو اس رجحان ساز ادیب کی زندگی کے نشیب و فراز کی مکمل داستان سے روشناس کراتی ہیں۔ ’’دل دریا ‘‘ کے عنوان سے ان کے کالموں کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے جسے قارئین ادب کی بہت پذیرائی نصیب ہوئی۔ قمر علی عباسی نے 1986 میں ’’لندن لندن ‘‘ جیسا دلچسپ سفر نامہ لکھ کر قارئین ادب کے دلوں کو مسخر کر لیا۔ ان کے اسلوب کی شگفتگی اور بے تکلفی قاری کو ایک جہان تازہ میں پہنچا دیتی ہے :
’’لندن جانے سے نو سال پہلے شادی اور ایک سال پہلے حج کی سعادت حاصل کی۔ جب لندن پہنچے تو بے تکلف دوستوں نے پو چھا۔۔۔ اب کیا کرنے آئے ہو ؟‘‘
ممتاز ادیب ارتضا عزمی نے ’’لندن لندن ‘‘کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے شگفتہ انداز میں لکھا :
’’ہم کبھی لندن گئے ہی نہیں اس لیے کچھ جانتے ہی نہیں۔ قمر علی عباسی صاحب کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ سچے انسان ہیں اس لیے جھوٹ لکھا ہی نہیں ہو گا۔ ‘‘
گزشتہ نصف صدی کے دوران اردو کے ممتاز تخلیق کاروں نے شعر و ادب کو متعدد نئی جہتوں اور اسالیب سے آشنا کیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں دنیا نے ایک گلوبل ویلج (Global Village)کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اردو سفر نامہ نے جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اس پر ایک نگاہ ڈالنے سے اس صنف کی مقبولیت کا احساس ہوتا ہے کہ اس میں کیسے کیسے جو ہر قابل معجزۂ فن سے فکر و نظر کو مہمیز کر تے رہے ہیں۔تاریخ ادب کے حقائق کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخری عشرے تک بر عظیم کے بہت کم لوگ بیرونی ممالک کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اس سے قبل اگر کوئی مقامی باشندہ بیرونی ممالک کے سفر پر روانہ ہوا تو اس نے اپنے سفر کی یادداشتوں کو فارسی زبان میں تحریر کیا۔ ان یادداشتوں کو بر عظیم میں سفر نامہ نگاری کے ابتدائی رجحانات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اردو کے پہلے سفر نامہ نگار یوسف خان کمبل پوش کا آبائی وطن حیدر آباد دکن تھا۔ بچپن ہی سے وہ ایک سیلانی مزاج کا مالک تھا۔ وہ بچپن ہی سے سیر وسیاحت کا دلدادہ تھا اس نے ملک کے اندر پہلا سفر 1828میں کیا۔ اس کے بعد اس نے بیرون ملک دنیا دیکھنے کا فیصلہ کیا اور پھر اس پر عمل بھی کیا۔ انیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں ’’عجائبات فرنگ ‘‘کے نام سے جو سفر نامہ لکھا اسے اردو کا پہلا سفر نامہ سمجھا جاتا ہے۔ 30مارچ 1870کو بحری جہاز کے ذریعے اپنے بیرون ملک سفر پر روانگی کے وقت یوسف خان کمبل پوش اردو ادب میں صنف سفر نامہ کے ارتقا کی جانب ایک اہم پیش رفت کا آغاز کر رہا تھا۔ اس کا یہ سفر اردو سفر نامے کے ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے پیرس، لزبن، جبرالٹر، مالٹا، مصر اور سیلون کا سفر کیا۔ اس سیاحت کے اعجاز سے اس کے خیالات میں جو وسعت پیدا ہوئی اس نے اس تخلیق کار کے فکر و نظر کیا کایا پلٹ دی۔ اپنے اس سفر سے واپسی کے بعد جب وہ بمبئی پہنچا تواس کی دلی خواہش تھی کہ وہ بر عظیم کے محکوم اور مظلوم باشندوں کو آزاد دنیا کے بارے میں اپنے تجربات، مشاہدات، تاثرات اور مطالعات سے آ گاہ کرے، چنانچہ اس نے اپنے سفر کی یادداشتوں کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوسف خان کمبل پوش نے سب سے پہلے اپنے سفر کی یادداشتوں کو فارسی زبان میں تحریر کیا لیکن فارسی زبان میں لکھے گئے اس سفر نامے کی اشاعت کی نوبت نہ آ سکی۔ اس زمانے میں اردو زبان پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا، اس لیے یوسف خان کمبل پوش نے قارئین کے ذوق سلیم کا احساس کرتے ہوئے اپنے سفرکی تمام یادداشتوں کو اردو زبان میں از سر نو تحریر کیا۔ یوسف خان کمبل پوش کا لکھا ہوا اردو کا یہ پہلاسفر نامہ پہلی بار ’’تار یخ یوسفی ‘‘ کے نام سے 1847میں مکتبہ العلوم دہلی کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ قارئین ادب نے اس سفر نامے کی بہت پذیرائی کی۔ قارئین ادب کے لیے اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ پہلی اور انوکھی کتاب تھی جس میں مصنف نے اپنی لفظی مرقع نگاری اور اسلوب بیاں سے سماں باندھ دیا تھا۔ اردو کے اس پہلے سفر نامہ نگار کا یہی سفر نامہ دوسری بار مکتبہ نول کشور کے زیر اہتمام ’’عجائبات فرنگ ‘‘ کے نام سے 1873میں شائع ہوا۔ اسے بھی توقع کے عین مطابق قارئین نے بہ نظر تحسین دیکھا۔ اردو ادب میں صنف سفر نامہ کو بہت مقبولیت نصیب ہوئی۔ اردو میں پہلی خاتون سفر نامہ نگار عطیہ فیضی ہیں۔ انھوں نے 1906میں حصول علم کے سلسلے میں برطانیہ کا سفر کیا۔ ایک سال بعد جب وہ اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد واپس آئیں تو اپنی یادداشتوں کو ’’روزنامچہ ‘‘کے عنوان سے مرتب کیا جو مجلہ ’’تہذیب النسواں ‘‘لاہور سے اگلے سال شائع ہوا۔ اس کے بعد عطیہ فیضی کا یہ سفر نامہ 1921میں ’’زمانۂ تحصیل ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ آج سفر نامہ اردو ادب کی ایک مقبول صنف ہے لیکن اس صنف ادب کے بنیاد گزاروں کے نام یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ اردو کے ممتاز شاعر رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ )نے کہا تھا :
کس نے پہلا پتھر کاٹا پتھر کی بنیاد نو رکھی
عظمت کے سارے افسانے میناروں کے ساتھ رہے
قیام پاکستان کے بعد یہاں اردو ادب کے فروغ کی مساعی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ با صلاحیت تخلیق کاروں نے تخلیقی ادب کو متعدد نئی جہات سے آشنا کیا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ اس وقت اردو کے زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار اسلوبیاتی تنوع کو اہمیت دے رہے ہیں۔ اردو نثر میں سوانح نگاری، خود نوشت، سفر نامہ اور خاکہ نویسی، جیسی اصناف کی مقبولیت سے یہ واضح ہو تا ہے کہ تخلیقی سطح پر زندگی کی حرکت و حرارت کو ملحو ظ رکھا جا رہا ہے۔ زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ کی خاطر کی جانے والی ان کاوشوں کے قومی کلچر پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ جہان تازہ کی جستجو میں تخلیق کار افکار تازہ پر انحصار کر رہے ہیں۔ اہل نظر نے تازہ بستیاں آباد کرنے کا عزم کر رکھا ہے جس کا پر تو اظہار و ابلاغ، تہذیب و معاشرت، رہن سہن اور ادب و فنون لطیفہ میں مسحو کر دیتا ہے۔ اردو میں جن ممتاز ادیبوں نے سفر نامے لکھ کر اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا ہے ان میں سے کچھ اہم نام درج ذیل ہیں :
آصف محمود، اعجاز مہاروی، اے۔ بی اشرف ڈاکٹر، احمد شجاع پاشا، امجد ثاقب، ابن انشا، امجد اسلام امجد، بشریٰ رحمٰن، تقی عثمانی، جمیل الدین عالی، حکیم محمد سعید، حسن رضوی، حسین احمد پراچہ ڈاکٹر، حنا یعقوب، خواجہ ممتاز احمد تاج، ڈاکٹر عباس، ذوالفقار احمد تابش، رفیق ڈوگر، رضا علی عابدی، ریاض الرحمٰن ساگر، سلیم اختر ڈاکٹر، سعیدآسی، سعید شیخ، شاہد حسین بخاری ڈاکٹر، ضمیر جعفری سید، ظہیر احمد بابر، عطیہ فیضی، عطا الحق قاسمی، عنایت اللہ فیضی، عزیز علی شیخ، علی سفیان آفاقی، عبد الرؤف ڈاکٹر، عبدالرحمٰن خواجہ ڈاکٹر، عبدالحمید، عبد الر حمٰن عبالہ، غازی صلاح الدین، فرخندہ لو دھی، فرید احمد، فوزیہ صدیقی، قمر علی عباسی، کوثر نیازی، کرنل محمد خان، کشور ناہید، کوکب خواجہ، محمد حمزہ فاروقی، محمد اعجاز، مسکین علی حجازی، محمد اختر ممونکا، محمد توفیق، محمد حسن صدیقی، محمد لطف اللہ خان، مستنصر حسین تارڑ، مسعود قریشی، مسرت پراچہ، مہر عبدالحق ڈاکٹر، ناصر ناکاگاوا، نصیر احمد ناصر ڈاکٹر اور نیلم احمد بشیر۔
پاکستان میں قمر علی عباسی وہ ادیب ہیں جنھوں نے سب سے زیادہ سفر نامے لکھے۔ ان کی سفر نامہ نگاری ے انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں اعلا مقام عطا کیا۔ وہ شفیق الرحمٰن، کرنل محمد خان، ابن انشا اور مجتبیٰ حسین کے اسلوب کو پسند کرتے تھے۔ قمر علی عباسی نے درج ذیل سفر نامے لکھے :
لندن لندن، دلی دور ہے، چلا مسافر سنگا پور، امریکہ مت جائیو، برطانیہ چلیں، واہ برطانیہ، ایک بار چلو وینس، نیل کے ساحل، بغداد زندہ باد، لر نا کا آیا، لا پیرس، قرطبہ قرطبہ، جاناں سوئٹزر لینڈ، اور دیوار گر گئی، ترکی میں عباسی، کینیڈا انتظار میں، شو نار بنگلہ، ماریشس میں دھنک، میکسیکو کے میلے، سنگاپور کی سیر، عمان کے مہمان، صحرا میں شام، سات ستارے صحرا میں، شام تجھے سلام، ہندوستان ہمارا، لنکا ڈھائے، ساحلوں کا سفر، ناسو ہرا ہے، ذکر جل پری کا، ہوا ہوائی
قمر علی عباسی کی علمی، ادبی اور قومی خدمات کے اعتراف میں انھیں درج ذیل اعزازات سے نوازا گیا :
اے پی این ایس بہترین کالم نگار ایوارڈ (1992)، بے نظیر ٹیلنٹ ایوارڈ (1995)، بہترین کالم نگار ایوارڈ (1996)، صوبائی اسمبلی (سندھ )ایوارڈ برائے ادب (1997)، پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ برائے سفر نامہ ’’سات ستارے صحرا میں ‘‘(2007)پاکستان رائٹرز گلڈ کی جانب سے قمر علی عباسی کو بچوں کے لیے بہترین ادب تخلیق کرنے پر چار بار (1973,1976,1982,1987)انعامات سے نواز اگیا۔ گولڈ میڈل ادبی ایوارڈ ڈنمارک (2004)، طبا طبائی ایوارڈ بہترین ادب، لاس اینجلس (2007)، کراچی یونیورسٹی المنائی ایوارڈ، کینیڈا (2011)، لٹریری سوسائٹی مکتا گاشا ایوارڈ، بنگلہ دیش (2002)، تمغۂ امتیاز (حکومت پاکستان ) (2000)
قمر علی عباسی نے وطن اور اہل وطن سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کو اپنا شعار بنایا۔ وطن کو وہ بلند و بالا عمارات، سنگ مر مر کے ایوانوں اور چمکتے دمکتے محلات پر محمول نہیں کرتے تھے بل کہ مادر وطن تو ان کے جسم اور ان کی روح سے عبارت تھی۔ ارض وطن سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے اس ادیب کو بھی اہل وطن کی جانب سے بے پناہ محبتیں اور پذیرائیاں ملیں۔ پاکستان میں حیدر آباد (سندھ ) کی وہ سڑک جس کے قریب قمر علی عباسی کی رہائش گاہ تھی اس کا نام ’’قمر علی عباسی روڈ ‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ زندہ قومیں اپنے رفتگاں کی عظمت کے نقوش تا ابد تازہ رکھنے کے لیے اسی طرح سپاس گزار رہتی ہیں۔ جھنگ شہر کے وسط میں واقع ایک خوب صورت باغ جہاں بور لدے چھتنار، پھولوں اور پھلوں والے اشجار کی فراوانی ہے اسے ’’مجید امجد پارک ‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
5۔ جولائی 1977کو جب ضیا الحق نے پاکستان میں مارشل لا نافذ کر دیا تو پوری قوم کو کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ آئین اور بنیادی حقوق معطل کر دئیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی رتیں بے ثمر، کلیاں شرر، آہیں بے اثر، آبادیاں پر خطر اور زندگیاں مختصر ہو کر رہ گئیں۔ اس عہد ستم میں کئی ادیب بھی حرف صداقت لکھنے کی پاداش میں روزگار سے محروم ہو گئے۔ ان میں جھنگ کے ادیب رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ )، عباس ہادی چغتائی، فضل الٰہی خان اور احمد حیات بالی بھی شامل تھے۔ یہ حساس تخلیق کار سمے کے سم کے ثمر سے نڈھال ہو کر ایک ایک کر کے زینۂ ہستی سے اتر گئے۔ قمر علی عباسی نے ان سب ادیبوں سے معتبر ربط برقرار رکھا لیکن جھنگ کے ان ادیبوں کے نہ ہونے کی ہونی ہو کے رہی اور چشم کے مرجھا جانے کا سانحہ روکا نہ جا سکا۔ رام ریاض پر فالج کا شدید حملہ ہوا اور وہ چارپائی پر یوں گرا کہ پھر کبھی نہ اٹھ سکا اس کا جنازہ ہی اٹھا۔ رام ریاض نے کہا تھا
ہم تو چپ ہیں کہ ہمیں مارنے والے تم ہو
خیر مانگو کہ زمانے کے حوالے تم ہو
اسی عہد میں قمر علی عباسی کو بھی متعدد مسائل کا سامناکرنا پڑا۔ انتہائی تکلیف دہ حالات میں بھی وہ ثابت قدم رہے اور ہرقسم کی دشواریوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ صبر آزما حالات، ہوائے جور و ستم اور ہجوم غم میں بھی انھوں نے حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھی۔ قمر علی عباسی پر جو اعصاب شکن محکمانہ افتاد پڑی اس کے بارے میں نیلو فر عباسی نے لکھا ہے :
’’مشکل سے مشکل وقت میں بھی قمر علی عباسی گھبراتے نہیں۔ جنرل ضیا الحق کے دور کا آغاز تھا شاہ سے زیادہ ’’شاہ کے مصاحب ‘‘ایکٹو تھے۔ ٹیلی ویژن کے پروگرام سات رنگ میں لکھے ایک خاکے پر ان کو سسپنڈ کر دیا کیونکہ معین اختر نے اس خاکے میں جو گیٹ اپ کیا تھا وہ مصاحب کے خیال میں جنرل ضیا الحق سے ملتا جلتا تھا۔ اگر ایسا تھا تو اس میں رائٹر کا کیا قصور ؟یہ تو پروڈیوسر اور میک اپ آرٹسٹ اور آرٹسٹ کا معاملہ تھا بہر حال
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
قمر علی عباسی کو نہ صرف suspend کیا گیا بل کہ Demote بھی کیا حالانکہ وہ پبلک سروس کمیشن سے آئے تھے اور اس طرح کی تنزلی ڈیپارٹمنٹ نہیں کر سکتا لیکن ہر قاعدے قانون میں ترمیم ہو جاتی ہے۔ کیا مشکل ہے کچھ لائنیں کچھ clause ہی تو اِدھر اُدھر کرنے ہوتے ہیں اور اس ’’ اِدھر اُدھر‘‘ میں قمر علی عباسی کی کئی سال کی seniority اِدھر اُدھر ہو گئی۔ گورنمنٹ یا نیم سرکاری اداروں میں ترقیاں ویسے بھی دیر سے ہوتی ہیں اور کئی طرح کے طریقہ کار کی مرہون منت ہوتی ہے ایسے میں یہ ہو جانا کسی کو بھی ذہنی اور جذباتی طور پر توڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ ‘‘(4)
اس نوعیت کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ مشق ستم کو دیکھ کر بھی وہ دل برداشتہ نہ ہوتے اور اس بات کا یقین رکھتے کہ جب انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تو انھیں کسی قسم کے خوف اور اندیشے میں مبتلا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ در کسریٰ پر صدا کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلا ف تھا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کھنڈرات میں موجود حنوط شدہ لاشوں اور جامد و ساکت چٹانوں کے سامنے زندہ انسانوں کے مسائل بیان کرنا بے سود ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ جب انھوں نے تیر کھا کے کمین گاہ کی جانب دیکھا تو پرانے آشنا چہرے دکھائی دئیے۔ قمر علی عباسی نے اس بات کی مطلق پروا نہ کی اور ہر بار صرف دو الفاظ ’’میرا نصیب ‘‘ کہہ کر معاملہ ہی ختم کر دیا۔ ان کی دوستیاں لا محدود تھیں لیکن کسی کے ساتھ عناد کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ غیبت کرنا جن لوگوں کا وتیرہ ہو ان سے قمر علی عباسی نے فاصلہ رکھا۔
اپنے سب ملاقاتیوں کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے پیش آنا قمر علی عباسی کا شیوہ تھا۔ بے لوث محبت، بے باک صداقت اور حریت فکر و عمل ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ اخوت کی جہاں گیری اور محبت کی فراوانی ان کا دستور العمل رہا۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ بے لوث محبت کے جذبات سے معمور ان کا پیغام دنیا بھر میں پہنچ سکے۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو انھوں نے ہمیشہ مقدم سمجھا۔ سلطانیِ جمہور کے وہ زبردست حامی تھے تعصب، تنگ نظری، حسد اور عصبیت سے ان کا دامن کبھی آلودہ نہ ہوا۔ اپنی کامیابیوں پر اللہ کریم کا شکر ادا کرتے اور دوسروں کی کامیابی کے بارے میں جان کر صدق دل سے ان کو سراہتے اور ان کو مبارک باد پیش کرتے۔ اپنے شعبے میں نئے آنے والوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے اور ان کی ہر مرحلے میں حوصلہ افزائی کرتے۔ سید جعفر طاہر ریڈیو پاکستان راول پنڈی سے ’’فوجی بھائیوں کا پروگرام ‘‘ پیش کرتے تھے۔ قمر علی عباسی نے ان کے اس پروگرام کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ہر مرحلے پر ان کی نہ صرف رہنمائی کی بل کہ ان کے کام کو خوب سر اہا۔ ان کی سوچ ہمیشہ تعمیری نوعیت کی رہی اور کسی کی تخریب سے انھوں نے کبھی کو ئی تعلق ہی نہ رکھا۔ بعض اوقات عزیز و اقارب کے درمیان کوئی عقرب بھی گھس جاتا لیکن مار کے تلے پروان چڑھنے والے یہ سب عقرب اور مار آستین جب سادیت پسندی (Sadism) کی لت میں مبتلا ہو کر قمر علی عباسی پر وار کرتے تو قمر علی عباسی کے ذاتی وقار اور عظمت کردار کی مار نہ سہہ سکتے اورسب کے نیش جھڑ جاتے۔ جب کچھ لوگ اشتعال اور غیظ و غضب کے عالم میں ہوتے قمر علی عباسی خندہ پیشانی سے ان کی باتیں سنتے اور دل میں کوئی ملال نہ رکھتے۔ اخبارات میں شائع ہونے والے قمر علی عباسی کے کالم زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں قارئین میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کا اہم ترین وسیلہ ثابت ہوتی تھیں۔ تقدیرجس طرح ہر مرحلۂ زیست پر انسانی تدبیر کی دھجیاں اڑا دیتی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔ قمر علی عباسی نے نیو یارک میں آنے والے ایک سمندری طوفان کی تباہ کاریوں کا احوال بیان کرتے ہوئے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے :
’’امریکہ جیسا طاقت ور ملک جو انسانوں کی، قوموں کی، ملکوں کی تقدیروں کو بدلنے کا دعویٰ کرتا ہے، اپنے علاقے کے سمندر کو قابو نہیں کر سکا۔ وہ بے آپے ہو کر نیو یارک میں گھس آیا۔ نیو جرسی کو پانی میں ڈبو دیا۔ کتنے علاقے ایسے ہیں جہاں ابھی تک بجلی نہیں آئی اور اس کے بحال ہونے میں ابھی دیر ہے۔ نیو یارک میں سینڈی کی تباہی کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کا ہر آدمی، چاہے وہ امریکی کیوں نہ ہو، سب کچھ ہونے کے باوجود قدرت کے ہاتھوں مجبور ہے۔ ‘‘(5)
سچ ہے کہ قدرت کاملہ جب اختیار بشر پر پہرے بٹھا دیتی ہے تو انسان کو اپنی اوقات کا علم ہو جاتا ہے۔ قمر علی عباسی نے انسانیت کو درپیش مسائل کے بارے میں جس دردمندی اور خلوص کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے وہ قارئین ادب کے لیے ولولۂ تازہ کا نقیب ہے۔ دنیا کی سپر طاقت امریکہ کو پس ماندہ اور مسائل کی شکار اقوام کی حالت زار کے بارے میں متوجہ کرتے ہوئے قمر علی عباسی نے لکھا ہے :
’’جس طرح مین ہٹن کے نشیبی علاقوں میں طوفان کو روکنے کے لیے دیواریں بنائی جا رہی ہیں، اسی طرح دنیا سے جہالت، بے روزگاری، غربت کو روکنے کے لیے بھی دیواریں بنائی جائیں۔ سینڈی ایک طوفان کا نام نہیں، یہ ہر اس طوفان کا نام ہے جو دنیا کے کونے کونے سے ہر لمحے اٹھتا ہے اور انسانیت کے لیے للکار بن جاتا ہے۔ ‘‘(6)
قمر علی عباسی اب اس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کی تصانیف ان کا نام ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ ان کی وفات کی خبر سن کرد ل پر قیا مت گزر گئی۔ انھوں نے اپنی تخلیقی فعالیت سے قارئین ادب کے دلوں کو مسخر کر لیا۔ ان کی خیال افروز، فکر پرور اور بصیرت افروز تصانیف سے اردو ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ دنیا بھر میں قارئین ادب ان کی وفات کے جان لیوا صدمے سے نڈھال تقدیر کے اس سانحے پر آہ و زاری میں مصروف ہیں۔ قمر علی عباسی نے روشنی کا جو سفر شروع کیا وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ ازل سے ہر جان دار کی قسمت میں فنا لکھ دی گئی ہے اور بقا صرف قادر مطلق کو حاصل ہے۔ قمر علی عباسی جیسی ہفت اختر شخصیات کی علمی، ادبی اور قومی خدمات قارئین ادب کی لوح دل پر نقش ہیں۔ ان کی آنکھیں مند جانے کے بعد بھی ان کے افکار کی ضیا پاشیوں کا سلسلہ کبھی ماند نہیں پڑ سکتا۔ وہ لوگ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں جب ہماری آنکھوں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو جاتے ہیں تو روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو جاتا ہے لیکن فکر انساں زندگی اور موت کے ان سر بستہ رازوں کی تفہیم سے قاصر ہے۔ رخش عمر مسلسل رو میں ہے اور ہمارا ہاتھ باگ پر نہیں اور نہ ہی پاؤں رکاب میں ہے۔ خدا جانے زندگی کا یہ سفر کس مرحلے پر اختتام پذیر ہو۔ اپنے رفتگاں کے بغیر زندگی کا سفر تو افتاں و خیزاں جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے لیکن پس ماندگان جن کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہوتی ہے وہ کر چیوں میں بٹ جاتے ہیں۔ جب تک دم میں دم رہتا ہے یہ غم ساتھ رہتا ہے۔ قمر علی عباسی کی یادیں ہی اب زندگی کا اثاثہ ہیں۔
برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم
قدح قدح تیری یادیں سبو سبو تیرا غم
٭٭
مآخذ
(1)سلطان جمیل نسیم : ’’بنانے والے کی تعریف ‘‘مضمون مشمولہ ماہ نامہ چہار سو راول پنڈی، جلد 22 ، شمارہ مارچ۔ اپریل 2013 ،صفحہ17۔
(2)نیلو فر علیم عباسی : ’’میرے ہر قدم کا ساتھی ‘‘ مضمون مشمولہ ماہ نامہ چہار سو راول پنڈی، جلد 22 ، شمارہ مارچ۔ اپریل 2013،صفحہ 15۔
(3)وجاہت علی عباسی : ’’ کالم سلسلہ تکلم کا ‘‘ لمبی جدائی ‘‘مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، لاہور ، 11نومبر 2013، صفحہ 13۔
(4)نیلو فر عباسی : میرے ہر قدم کا ساتھی، صفحہ 15۔
(5)قمر علی عباسی : ’’مین ہٹن میں دیواریں ‘‘ ’’اور پھر بیاں اپنا ‘‘، کالم مطبوعہ روزنامہ پاکستان، لاہور،23نومبر 2012 صفحہ 4۔ (6)ایضاً صفحہ 4۔ ٭٭٭
قریش پور : زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
قریش پور نے 5۔ اگست 2013کی صبح عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ قریش پور (ذوالقرنین قریشی )کا شمار عالمی شہرت کے حامل ان ممتاز پاکستانی دانش وروں میں ہوتا تھا جنھوں نے وطن، اہل وطن اور بنی نوع انسان سے ٹوٹ کر محبت کی اور زندگی بھر انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے کوشاں رہے ۔ انھوں نے اپنی ذاتی محنت، لگن اور ابلاغیات سے والہانہ محبت کی بدولت جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ پاکستان کے ممتاز دانش ور، ناول نگار، مصنف، کالم نگار اور میڈیا ایکسپرٹ تھے ایک ایسے یگانۂ روزگار فاضل کا ہماری محفل سے اٹھ جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ وہ اپنے عہد کے نابغہ تھے ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن نے ستر کی دہائی میں اپنی نشریات کوبام عروج پر پہنچا دیا۔ اس تمام تر کامیابی اور نیک نامی کا سہرا اس عہد کے ممتاز براڈ کاسٹرز کے سر ہے جنھوں نے اپنے خون جگر سے ان نشریاتی اداروں کو معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرے نہ صرف قومی تشخص کو اجاگر کیا بل کہ ان قومی اداروں کو پوری دنیا میں معزز و مفتخر کر دیا۔ ان نشریاتی اداروں کے اس عہد زریں میں جن مایۂ ناز ہستیوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں ان میں مصطفیٰ علی ہمدانی، انور بہزاد، شکیل احمد، انیتا غلام علی، شائستہ زید، مہ پارہ صفدر، نیلو فر عباسی، یاسمین طاہر ، عبید اللہ بیگ، قریش پور، اشفاق احمد اور سید جعفر طاہر کے نام قابل ذکر ہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کا وہ دور نشریات کی تاریخ کا یادگار دور سمجھا جاتا ہے۔ اس قدر معیاری پروگرام پیش کیے جاتے تھے کہ گھر کے تمام افراد مل کر انھیں دیکھتے اور اور نہ صرف تفریح کے مواقع سے فیض یاب ہوتے بل کہ ان کی معلومات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا۔ مثال کے طور پر ففٹی ففٹی اور الف نون کو کلاسیک کی حیثیت حاصل تھی۔ اسی زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن سے ایک ایسا پروگرام ٹیلی کاسٹ کیا جاتا تھا جسے ہر عمر کے ناظرین میں بے پنا مقبولیت حاصل تھی۔ سوال و جواب (quiz)پر مشتمل یہ پروگرام ’’کسوٹی ‘‘کے نام سے پیش کیا جاتا تھا۔ کسوٹی نے اس عہد میں مقبولیت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے۔ اس رجحان ساز پروگرام میں جن نامور ہستیوں نے حصہ لیا ان میں عبید اللہ بیگ (جو گزشتہ برس خالق حقیق سے جا ملے )اور قریش پور کے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان دو میڈیا ایکسپرٹس نے کسوٹی کو معلومات عامہ، علوم و فنون، تاریخ وا دب، سائنس و ٹیکنالوجی، جغرافیائی حالات، عالمی سیاسیات، مذاہب عالم اور علم بشریات کا ایک اہم ترین اور معتبر مخزن معلومات بنا دیا۔ قریش پور کی شخصیت کسوٹی میں اہم ترین کردار ادا کر رہی تھی۔ سوال و جواب پر مشتمل ایک خشک سے پروگرام کو انھوں نے اپنی باغ و بہار شخصیت اور گل افشانیِ گفتار سے سدا بہار بنا دیا۔ وہ بولتے تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے جس سوال کا جواب دیتے سب کو لاجواب کر دیتے۔ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ عبید اللہ بیگ اور قریش پور ہی کی معجز نما شخصیات کی بدولت کسوٹی کو فقید المثال کامیابی نصیب ہوئی۔ قریش پور یک وسیع المطالعہ دانش ور تھے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دائرۃ المعارف تھے۔ ان کے تبحر علمی کا ایک عالم معترف تھا۔ علوم کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جو ان سے مخفی ہوتا۔ جو بھی موضوع ہوتا وہ اس پر پورے اعتماد سے گفتگو کرتے ان سے جو بھی سوال پوچھا جاتا وہ اس کا فی الفور جواب دینے کی صلاحیت سے متمتع تھے۔ اس عہد کے سب چاند چہرے دائمی مفارقت دے گئے۔ کیسے کیسے آفتاب و ماہتاب زیر زمین چلے گئے۔ کتنے بلند و بالا آسمان زمین نے نگل لیے۔
قریش پور کی وفات سے نشریات کے عہد زریں کی حسین یادیں تاریخ کے طوماروں میں دب گئیں۔ اللہ کریم انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ایام گزشتہ کی یادوں میں کھویا میں اپنی محفل کے ان مشاہیر کو نشیب زینۂ ایام میں اترتے دیکھ کر اپنے آنسو ضبط نہیں کر سکتا۔ ان مشاہیر کا نوحہ لکھ کر تزکیہ نفس کی ایک صورت تلاش کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ رفعت سروش نے یاد رفتگاں کے حوالے سے بڑی دردمندی سے لکھا ہے :
نوحہ ان کا نہیں گزر گئے جو
زندگی کی اداس راہوں سے
پھینک کر بوجھ اپنے کاندھوں کا
نوحہ ان کا جو اب بھی جیتے ہیں
مرنے والوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے
قریش پور کی حسین یادیں اب تو زندگی بھر ان کی دائمی مفارقت کا احساس دلاتی رہیں گی۔ اپنی محفل سے رخصت ہونے والوں کو یاد کر کے در اصل ہم اپنے قلب اور روح کو ان کی حسین یادوں اور دائمی مفارقت کے غم و اندوہ سے منور رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ قریش پور نے زندگی بھر حریت فکر کا علم بلند رکھا۔ وہ حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ شبیرؓ پر عمل پیرا رہے۔ جبر کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔ وہ ایک گوشہ نشین درویش تھے۔ وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز تعمیر وطن کے کاموں میں مصروف رہتے۔ انھوں نے کبھی در کسریٰ پر صدا نہ کی وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کھنڈرات میں موجود جامد و ساکت بت زندہ اور جان دار انسانوں کے دکھ درد کو محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔ انھوں نے پوری دنیا میں جو عزت و تکریم اور بلند مقام حاصل کیا وہ ہر عہد میں لائق تقلید سمجھا جائے گا۔ تاریخ ہر دور میں ان کے فقید المثال کام اور عظیم نام کی تعظیم کرے گی۔ انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام حاصل رہے گا۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بہ قول فراق گورکھ پوری :
بھولیں اگر تمھیں تو کدھر جائیں کیا کریں
ہر رہ گزر پہ تیرے گزرنے کا حسن ہے
٭٭٭
شفیع عقیل : کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
شفیع عقیل (ش۔ ع)نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ علم و ادب کا وہ نیر تاباں جو لاہور کے مضافات میں واقع ایک تھینہہ(village)سے1930میں طلوع ہوا پوری علمی دنیا کو اپنی تابانیوں سے بقعۂ نور کرنے کے بعد جمعہ 6۔ ستمبر 2013کی رات گیارہ بجے کراچی کے افق سے غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں ہمیشہ کے لیے چھپ گیا۔ وہ زندگی کے آخری ایام میں پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہو گئے، مرض میں شدت آتی چلی گئی، اس بلند ہمت ادیب نے پوری استقامت کے ساتھ حالات کا سامنا کیا۔ آخر اس بیماری نے ان کی زندگی کی شمع بجھا دی۔ وہ با کمال تخلیق کار جس نے اپنی پینتالیس وقیع تصانیف سے اردو اور پنجابی ادب اور فنون لطیفہ کی ثروت میں اضافہ کر کے تخلیق فن کی نئی تاریخ رقم کی اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ خلوص و مروت، انسانی ہمدردی، علم دوستی، ادب پروری، فنون لطیفہ سے گہری دلچسپی وطن اور اہل وطن سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت اور وسیع النظر ی کی لائق صد رشک و تحسین صفات سے متمتع یہ لا فانی تخلیق کار جو لفظ کی حرمت کا پاسبان تھا اور تخلیق فن کے اعجاز سے خاک کو اکسیر بنانے پر قادر تھا پیوند خاک ہو گیا۔ شفیع عقیل کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے جس پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل سوگوار ہے۔ مسجد احسن العلوم کراچی میں ان کی نماز جنازہ میں ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ شہر کا شہر سوگوار دکھائی دے رہا تھا اور شخص کی آنکھیں پر نم تھیں۔ خاص طور پر بچے اپنے اس عظیم ادیب کی رحلت پر دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے جس نے چھ عشروں تک بچوں کے ادب کی تخلیق، ترویج اور اشاعت پر اپنی توجہ مر کوز رکھی اور بچوں کے ادبی مجلے ’’بھائی جان ‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے دلوں کو مسخر کر لیا۔ شفیع عقیل کی وفات مقصدی اور اصلاحی ادب کی تخلیق کی ایسی شام ہے جس کی صبح کبھی نہ ہو گی۔ پاپوش نگر کراچی کے شہر خموشاں کی خاک نے علم و ادب کے اس افلاک کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ ان کی وفات سے ادب اور صحافت کے ایک عہد کا چشم دید گواہ دائمی مفارقت دے گیا۔ شفیع عقیل کی جنم بھومی بھی اب ماضی کی تاریخ بن چکی ہے۔ وہ گاؤں (تھینہہ)جس میں اس لا فانی تخلیق کار کی آنول نال گڑی تھی وہ صدر بازار لاہور کی جانب جانے و الی شاہراہ سے کچھ فاصلے پر واقع تھا۔ لاہور کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے مضافاتی گاؤں رفتہ رفتہ اس تاریخی شہر کا حصہ بنتے چلے گئے اور اب تو یہ حال ہے کہ لاہور کی چاروں طرف لاہور ہی پایا جاتا ہے۔ پہلے جہاں میلوں تک کھیت اور کھلیان ہوا کرتے تھے اب وہاں اس تاریخی شہر کی خود رو آبادیاں سر اٹھا رہی ہیں۔ ایل۔ ڈی۔ اے کے قدیم نقشہ نویسوں کا کہنا ہے کہ جس مقام (تھینہہ ذیل داراں ) کو شفیع عقیل کا آبائی گاؤں بتایا جاتا ہے، اب وہاں لاہور کا جدید رہائشی علاقہ گل برگ IIIموجود ہے۔ اہل نظر نے تازہ بستیاں آباد کر لیں لیکن شفیع عقیل نے اپنی بستی اس قدر دور بسا لی ہے کہ اب یاد رفتگاں اور دل حزیں کو ان کی دائمی مفارقت کے درد سے آباد رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔
شفیع عقیل کا تعلق ایک خو د دار اور معزز خاندان سے تھا۔ علمی و ادبی ذوق انھیں ورثے میں ملا تھا۔ ان کے بزرگوں نے تحریک پاکستان میں سر گرم حصہ لیا۔ ایک نو عمر طالب علم کی حیثیت سے شفیع عقیل مسلم لیگ کے جلسوں میں شرکت کرتے اور قائدین کی تقاریر بڑی توجہ سے سنتے اور آزادی کے حق میں پر جوش نعرے لگاتے۔ اس دور کی یادوں کو وہ اپنی زندگی کا یادگار اثاثہ قرار دیتے تھے۔ مالی مشکلات اور وسائل کی عدم دستیابی کے باعث شفیع عقیل با قاعدہ تعلیم تو حاصل نہ کر سکے لیکن انھوں نے بڑی محنت اور لگن سے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی ان اور خودی کا بھی تحفظ کیا اور غریبی میں نام پیدا کر نے کا عزم کر لیا۔ وہ علوم شرقیہ کی جانب مائل ہوئے سب سے پہلے تو انھوں نے منشی فاضل کا امتحان پاس کیا اس کے بعد انھوں نے ادیب فاضل کے امتحان میں بھی شان دار کام یابی حاصل کی۔ ان کی پہلی ادبی تحریر 1948میں مولانا ظفر علی خان کے اخبار ’’زمیندار ‘‘ میں شائع ہوئی۔ مولانا ظفر علی خان نے اس جو ہر قابل کو پہچان لیا جو تخلیقی صلاحیتوں سے متمتع تھا۔ ان کی خوب حوصلہ افزائی کی اور یہ ہو نہار نو جوان محمد شفیع ’’زمیندار ‘‘میں اپنی پہلی تحریر کی اشاعت کے ساتھ ہی شفیع عقیل کے نام سے مستقبل کے صحافی کے طور پر ابھر کر سامنے آنے لگا۔ ان کی زندگی میں کئی سخت مقام بھی آئے لیکن انھوں نے ہمیشہ حوصلے اور ہمت سے کام لیا اور طلوع صبح بہاراں کی امید میں سمے کے سم کے مسموم اثرات سے خود کو بچائے رکھا۔ اپنی روزی کمانے کے لیے وہ محنت مزدوری کرتے۔ لاہور میں شفیع عقیل نے نامور مصور اور دانش ور محمد حنیف رامے کے بڑے چچا زاد بھائی چودھری برکت علی کے ادبی مجلے ’’ادب لطیف ‘‘میں بھی مختصر مدت کے لیے کام کیا۔ انھوں نے لاہور شہر میں سائن بورڈ کے پینٹر کی حیثیت سے بھی کچھ عرصہ مزدوری کی۔ اس قسم کے مشقت طلب کام کرنے کے بعد ان کے بعد وہ ہر گز دل برا نہ کرتے بل کہ ان دل میں محنت کی عظمت کے نقوش مزید گہرے ہو جاتے۔ ان صبر آزما حالات میں وہ روکھی سوکھی کھا کر اللہ کریم کا شکر ادا کرتے۔ صبر اور استغنا ان کے مزاج کا حصہ بنتا چلا گیا انھیں یقین تھا کہ آزمائش کی یہ رات ضرور ڈھلے گی۔ 1950میں انھوں نے کراچی جا کر قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجید لاہوری نے انھیں اپنے مجلے ’’نمک دان ‘‘میں کام کرنے کا موقع دیا۔
معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی شقاوت آمیز نا انصافیوں، مظلوم طبقے کی محرومیوں اور مجبوریوں کے خلاف شفیع عقیل نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ حریت فکر کے مجاہد کی حیثیت سے انھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ہوائے جو رو ستم میں بھی حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھی۔ مظلوم طبقے کے ساتھ انھوں نے زندگی بھر عہد وفا استوار رکھا اور اسی کو علاج گردش لیل و نہار قرار دیا۔ حق گوئی اور بے باکی ان کا شعار تھا۔ وہ کسی مصلحت کے قائل نہ تھے الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلاف تھا۔ 1952میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’بھوکے ‘‘ شائع ہوا۔ اس افسانوی مجموعے کا رد عمل بھی اسی صورت میں سامنے آیا جو اس سے قبل 1936 میں ’’ انگارے ‘‘کی اشاعت کے بعد سامنے آ چکا تھا۔ سعادت حسن منٹو کو بھی اسی قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ شفیع عقیل کے مخالفین سنگ ملامت لیے نکل آئے، فرضی مقدمات اور جھوٹی شہادتوں سے یاس و ہراس کی فضا پیدا کر دی گئی اور اس افسانوی مجموعے کی اشاعت پر انھیں فحاشی کے مقدمے کا سامنا کر نا پڑا۔ انھیں تیس ماہ تک عدالتوں کے چکر لگانے پڑے تب کہیں جا کر گلو خلاصی کی نو بت آئی۔ آزمائش کی اس گھڑی میں اس عہد کے ممتاز ادیبوں نے ان کے ساتھ مقدور بھر تعاون کیا۔ اپنے قلم کو انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے استعمال کرنے والے ادیبوں نے ان کی صفائی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں مولانا عبدالمجید سالک، سعادت حسن منٹو، اور شورش کاشمیری کے نام قابل ذکر ہیں جنھوں نے شفیع عقیل کو اس فرضی مقدمے سے بچانے کی خاطر ان کی صفائی پیش کی اور تاریخ کے اس اہم موڑ پر یہ گواہی فروغ ادب کا ایک معتبر حوالہ ثابت ہوئی۔ اس کے بعد شفیع عقیل کی ادبی فعالیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔
بچوں کے ادب پر شفیع عقیل نے بہت توجہ دی۔ ان کی کتاب ’’نامور ادیبوں کا بچپن‘‘ بہت مقبول ہوئی۔ اسے قارئین ادب کی زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔۔ ان کا خیال تھا کہ بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرنا، ان کے ذوق سلیم کو نکھارنا اور ان کے فہم و ادراک کو صیقل کر کے انھیں تخلیق ادب پر مائل کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ آج کے یہ کم سن بچے مستقبل کے معمار ہیں اس لیے انھیں مستقبل کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا بہت ضروری ہے۔ شفیع عقیل کی ادارت میں شائع ہونے والا بچوں کا ادبی مجلہ ’’بھائی جان ‘‘ بچوں میں بہت مقبول ہوا۔ یہ ادبی مجلہ بچوں میں پائی جانے والی خوابیدہ تخلیقی صلاحیتوں کی نشو و نما کے سلسلے میں ایک موثر پلیٹ فارم ثابت ہوا۔ شفیع عقیل کم سن لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور ان کی تحریروں کی نو ک پلک سنوار کر انھیں معیار و وقار کی بلندیوں سے آشنا کرتے۔ اس طرح ان کی رہنمائی سے بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوتی چلی گئی جس کے اعجاز سے بچوں کے ادبی مجلے ’’بھائی جان ‘‘کے متعدد کم سن لکھاری وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قدر مشاق اہل قلم ثابت ہوئے کہ افق ادب پر وہ مثل آفتاب ضو فشاں ہوئے اور اپنے افکار کی ضیا پاشیوں سے علمی دنیا کو منور کر دیا۔
شفیع عقیل نے ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی اور روزنامہ جنگ کراچی میں طویل مختلف حیثیتوں سے طویل عرصہ تک خدمات انجام دیں۔ روزنامہ جنگ میں ان کی خدمات کا عرصہ ساٹھ برس پر محیط ہے۔ اس عرصے میں انھوں نے میگزین کے مدیر اور ایڈیٹوریل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے جو اہم کردار ادا کیاوہ اس ادارے کی تاریخ میں ہمیشہ یا د رکھا جائے گا۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس اشاعتی ادارے کو قارئین میں مقبول بنانے اور اسے معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرنے میں جن ادیبوں نے اپنی ذمہ داریاں بہ طریق احسن نبھائیں ان میں شفیع عقیل کا نام نمایاں ہے۔ روزنامہ جنگ میں شفیع عقیل نے اپنی جدت طبع کو بروئے کار لاتے ہوئے ہو نہار بچوں کو اپنے ما فی الضمیر کے اظہار کے لیے ’’نو نہال لیگ ‘‘کی صورت میں ایک موثر فورم مہیا کر دیا۔ بچوں میں اس طرح لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی اور ’’نو نہال لیگ ‘‘کے گھر گھر چرچے ہونے لگے۔ پاکستان کے متعدد نامور ادیب اپنے بچپن میں ’’نو نہال لیگ ‘‘سے وابستہ رہے اور اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا۔ ان میں انور شعور، رام ریاض، ظفر سعید، مستنصر حسین تارڑ، شفیع بلوچ ، عبید اللہ علیم، بشیر سیفی، محمد فیروز شاہ، ارشاد گرامی، غازی صلاح الدین، قمر علی عباسی، سجاد بخاری، غفار بابر اور غلام علی چین کے نام قابل ذکر ہیں۔
تخلیق فن کے لمحوں میں جہاں وہ جدت اور تنوع کا خیال رکھتے تھے وہاں انھوں نے اپنے فنی تجربات سے بھی اپنی ذہانت کی دھاک بٹھا دی۔ وہ اپنے فنی تجربات کے اعجاز سے تخلیق ادب میں نئے امکانات کی جستجو میں بڑے انہماک سے مصروف عمل رہے۔ ان کے فنی تجربات ان کی بصیرت اور ذوق سلیم کا منہ بو لتا ثبوت ہیں۔ ان کی مدد سے نہ صرف یکسانیت اور جمود کا خاتمہ ہوا بل کہ فکر و نظر کو مہمیز کرنے میں مدد ملی۔ جس طرح سید جعفر طاہر نے اردو شعری کو ایک نئی صنف ’’کینٹوز‘‘ سے متعارف کرایا بالکل اسی طرح شفیع عقیل نے اپنی پنجابی شاعری میں چار مصرعوں پر مشتمل ایک نئی صنف شاعری میں طبع آزمائی کی اور خوب رنگ جمایا۔ ان کی یہ شاعری اردو ترجمے کے ساتھ روزنامہ جنگ کی زینت بنتی رہی اور ان کے اس تجربے کو قارئین ادب نے پسند کیا۔ اس کی مقبولیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے کتابی صورت میں دو جلدوں میں شائع کیا گیا۔
پنجابی ادب کی روایات اور اقدار سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ پنجابی کلاسیکی شاعری اور لو ک داستانوں سے قلبی وابستگی ان کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ کہانیاں تو ازل سے اسی طرح منصۂ شہود پر آتی رہی ہیں۔ ان کے موضوعات ایک جیسے ہیں صرف انداز بیاں میں معمولی تبدیلی سے بات بدل جاتی ہے۔ شفیع عقیل نے بڑی محنت سے پنجابی لوک کہانیاں اکٹھی کیں۔ پنجاب کی مقبول لوک داستانیں (Popular Folk Tales of the Punjab) ان کی معرکہ آرا تحقیقی کتاب ہے ان داستانوں کا تعلق اس علاقے سے ہے جو گزشتہ کئی صدیوں سے تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کے اس علاقے کے بارے میں ماہرین آثار قدیمہ اور مورخین اس بات پر متفق ہیں لوک داستانوں کا خمیر یہیں سے اٹھاجس کی باز گشت پوری دنیا میں سنائی دی اور اسی کی اساس پر عالمی ادب میں لوک داستانوں کا قصر عالی شان تعمیر ہوا۔ اپنے اس عظیم تحقیقی منصوبے میں انھوں نے اپنی تمام صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا اور ترتیب و تدوین میں اپنی خداداد صلاحیتوں کی اس طرح تجسیم کی کہ پوری دنیا نے ان کی محنت کو تسلیم کیا۔ پنجابی لو ک کہانیوں پر مشتمل ان کی کتاب کو قارئین ادب نے جو شرف مقبولیت بخشا اس کے پیش نظر عالمی سطح پر اسے متعارف کرانے کے سلسلے میں یو نیسکو(UNESCO)نے اہم کردار ادا کیاجس کے تعاون سے پنجابی لوک کہانیوں کی اس کتاب کے تراجم اردو، انگریزی اور دنیا کی کئی بڑی زبانوں میں شائع ہوئے۔ لو ک کہانیوں سے ان کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے دنیا کی تمام بڑی زبانوں کی لو ک کہانیوں کا عمیق مطالعہ کیا اور انھیں اکٹھا کر کے ان میں سے منتخب لوک کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کیا، عالمی ادب کی یہ لو ک کہانیاں گیارہ جلدوں میں شائع ہوئیں۔ عالمی ادب کی لوک کہانیوں کو اردو کے قالب میں ڈھال کر وہ مختلف تہذیبوں کے مابین ربط کی ایک صورت تلاش کرتے تھے۔ ان تراجم کے وسیلے سے اردو داں طبقے کو اقوام عالم کی تہذیبی و ثقافتی میراث کے بارے میں مثبت شعور و آگہی نصیب ہوئی۔ اردو ادب کے قارئین شفیع عقیل کے ان تراجم کے اعجاز سے اقوام عالم کی تہذیب، تمدن، ثقافت، معاشرت، مزاج اور انداز فکر کے بارے میں تمام حقائق کا چشم تصور سے مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ان کے اسلوب کے معجز نما اثر سے وہ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے احساس اور ادراک کے قابل ہو سکے۔ انھوں نے پنجابی، فارسی، اردو، چینی، جاپانی، جرمن اورروسی زبان کی نمائندہ تخلیقات کو اردو کے قالب میں ڈھال کر اردو زبان کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے بھر دیا۔شفیع عقیل کو پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ادب کے ساتھ بالعموم اور پنجابی ادب کے ساتھ بالخصوص دلی لگاؤ تھا۔ ان کی دس تصانیف پنجابی زبان کے ادب سے متعلق ہیں۔ ان میں سے’’ سوچاں دی زنجیر‘‘،۔ ’’زہر پیالہ ‘‘ اور ’’میری پنجابی شاعری ‘‘قابل ذکر ہیں۔ ان کی تمنا تھی کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کو نہ صرف پاکستان کی قومی زبان میں منتقل کیا جائے بل کہ دنیا کی بڑی زبانوں میں بھی ان کے تراجم شائع کیے جائیں۔ اس طرح ہم اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث کو اقوام عالم کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ پنجابی کلاسیکی شاعری کے تراجم پر انھوں نے اپنی توجہ مر کوز رکھی۔ وہ سلطان باہو، شاہ حسین، بلھے شاہ، میاں محمد بخش اور وارث شاہ کے اسلوب کو بہت پسند کرتے تھے۔ انھوں نے ان شعرا کے کلام کو اردو کے قالب میں ڈھال کر بہت بڑی قومی خدمت انجام دی ہے جب وہ پنجابی کلاسیکی شاعری اور پنجابی لوک داستانوں پر تحقیق کام میں مصروف تھے تو انھوں نے پنجاب کے دور دراز علاقوں میں جا کر مآخذ تک رسائی حاصل کی۔ جھنگ میں وہ محمد حیات خان سیال، ڈاکٹر سید نذیر احمد، ڈاکٹر محمد ظفر خان، صاحب زادہ رفعت سلطان، مجید امجد، محمد شیر افضل جعفری، سمیع اللہ قریشی اور خیر الدین انصاری سے ملے۔ پنجابی کلاسیکی شاعری پر ان کا تحقیقی کام جو کئی ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، ان کی جگر کاوی اور محنت کا اعلا معیار پیش کرتا ہے۔ اس کے مطالعہ سے پنجابی زبان کے کلاسیکی ادب کی افادیت کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ انھوں نے پنجابی، چینی، جاپانی جرمن اور ایرانی ادبیات کے شاہ کاروں کو تراجم کے ذریعے اردو میں منتقل کر کے ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔ پنجابی زبان میں ان کا ایک اور اہم اور نا قابل فراموش کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مرزا اسداللہ خان غالب اور قائد اعظم محمد علی جناح کی باتوں کو پنجابی زبان کے قالب میں اس خوش اسلوبی سے ڈھالا ہے کہ قاری چشم تصورسے ان ہستیوں کو پنجابی میں گفتگو کرتے دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ مترجم کی حیثیت سے وہ زبان و بیان کی اشنی سے سماں باندھ دیتے ہیں اور ترجمے میں تخلیق کی کشش پیدا ہو جاتی ہے۔
فنون لطیفہ کے بارے میں اردو زبان میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ آرٹ، مصوری اور سنگ تراشی جیسے فن جو صدیوں سے اس خطے کی پہچان چلے آ رہے ہیں ان کی تاریخ پر ابلق ایام کے سموں کی گرد ایسے پڑ گئی ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ تمام حقائق خیال و خواب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ شفیع عقیل نے فنون لطیفہ کی تاریخ اور اس خطے میں ان کے ارتقا پر خوب داد تحقیق دی ہے۔ فن مصوری پر شفیع عقیل نے جس اعتماد سے بصیرت افروز اور فکر پرور انداز میں اظہار خیال کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پانچ جلدوں پر مشتمل ان کا یہ وقیع کام انھیں اپنے عہد کے مصوری کے ناقدین میں ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ ان سے پہلے فن مصوری پر اردو زبان میں ایسا معیاری کام کبھی نہیں ہو ا۔ فن مصوری پر ان کی تصانیف کی تفصیل درج ذیل ہے :
(1)دو مصور (2)چار جدید مصور (3)تصویر اور مصور (4)مصوری اور مصور (5)پاکستان کے سات مصور
پاکستان کے سات مصور شفیع عقیل کی مقبول اور اہم تصنیف ہے۔ فن مصوری پر اپنی اس کتاب میں انھوں نے پاکستان کے جن سات نامور مصوروں کے فن کو موضوع بنایا ہے ان میں محمد حنیف رامے
، غلام رسول، احمد سعید ناگی، صادقین، اقبال مہدی، ابرار ترمذی، گل محمد کھتری شامل ہیں۔ ان مصوروں کے فن پر بحث کرتے وقت ان کے فن پاروں کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہیں اور ان کے اسلوب میں پائی جانے والی ان کے شخصی اور انفرادی انداز کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ وہ نہایت خلوص اور بے تکلفی سے کام لیتے ہوئے قاری کو فن مصوری کے اسرار و رموز سے آگاہ کرتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ تصویر کے ظاہری اور باطنی حسن کا احوال بیان کرتے وقت شفیع عقیل کی شخصیت کا ظاہری حسن و دل کشی اور باطنی روشنی و رعنائی بے ساختہ انداز میں قاری کے سامنے آ جاتی ہے اور وہ اس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔
’’تصویر اور مصور ‘‘شفیع عقیل کی فن مصوری پر ایک اور اہم تصنیف ہے۔ اس وقیع تصنیف میں انھوں نے اڑتالیس (48)نابغۂ روزگار مصوروں کے فن کا ماہرانہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ ان کے فن کے جملہ اسرار و رموز کی گرہ کشائی کرتے وقت مصنف نے اپنے تبحر علمی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے مصنف کی مصوری، خطاطی، مجسمہ سازی، سنگ تراشی اور رنگوں سے دلچسپی کے بارے میں وسیع معلومات کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ فن مصوری پر شفیع عقیل نے جو عظیم الشان کام کیا ہے اردو ادب کی تاریخ میں یہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ن کی یہ فقید المثال خدمات تاریخ ادب میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ ان کی خدمات کا علمی و ادبی حلقوں نے بر ملا اعتراف کیا۔ ان کی علمی، ادبی، قومی، ملی اور لسانی خدمات کے اعتراف میں انھیں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغۂ امتیاز عطا کیا گیا۔ اس کے علاوہ انھیں داؤد ادبی انعام اور خوش حال خان خٹک ایوارڈ سے بھی نواز گیا۔
شفیع عقیل ایک ہفت اختر شخصیت تھے۔ انھوں نے کئی شعبوں میں اپنے کمال فن کا لوہا منوایا۔ ترجمہ نگاری، تبصرہ نگاری، تحقیق، تنقید، شاعری۔ افسانہ نگاری، عالمی ادبیات، لوک ادب، پنجابی کلاسیکی شاعری، اردو کلاسیکی شاعری، علوم شرقیہ، طب، فلسفہ، علم بشریات، تاریخ اور نفسیات کے موضوعات پر کئی نادر تحریریں پیش کیں۔ مضامین، مواد اور اسلوب کا یہ تنوع اور بو قلمونی انھیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ روزنامہ جنگ کی اتوار کی اشاعت میں شامل ادبی ایڈیشن میں شامل ان کے لکھے ہوئے نئی کتابوں پر تبصرے ان کی تنقیدی بصیرت کے آئینہ دار ہوتے تھے۔ وہ کتاب کے محاسن و معائب کو کھل کر بیان کرتے اور کوئی لگی لپٹی نہ رکھتے۔ وہ ہر قسم کی عصبیت سے بالا تر رہ کر زیر تبصرہ کتاب کے بارے میں اپنی رائے دیتے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ عصبیت اور جانب داری نقاد کی دیانت اور رائے کی ثقاہت پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے۔ کتابوں پر ان کے عالمانہ تبصرے کتاب کے موضوع، مواد، ہیئت اور مشمولات کے بارے میں ان کے عمیق مطالعہ کے آئینہ دار ہوتے تھے۔ وہ قاری کو ان تمام حقائق کے بارے میں آگاہ کر دیتے جو ان کے علم میں آئے۔ ان تبصروں کے مطالعہ کے بعد قاری اس کتاب کے بارے میں جملہ حقائق کے احساس و ادراک کے قابل ہو جاتا۔
اپنی عملی زندگی میں شفیع عقیل کو کئی بار کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن وہ ہر مرحلۂ زیست میں ہنستے مسکراتے طوفان حوادث سے بچ نکلے۔ تقدیر ہر مر حلہ اور ہر گام انسانی تدبیر کے پرخچے اڑا دیتی ہے۔ شفیع عقیل کی زندگی میں ایک نشیب ایسا آیا جس سے وہ زندگی بھر نہ نکل سکے۔ ان کی بہن جس کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے عین عالم شباب میں بیوہ ہو گئی۔ بیوگی کی چادر اوڑھے ان کی بہن نے اللہ کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور لب اظہار پر تالے لگا کر اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا۔ تقدیر کے چاک سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں ہو سکتے۔ اس سانحے نے شفیع عقیل کو مکمل طور پر منہدم کر دیا۔ بہن کی بیوگی، بہن کے کم سن بچوں کی گریہ و زاری اور مظلومیت نے اس حساس تخلیق کار کی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا۔ شفیع عقیل نے فیصلہ کیا کہ وہ کبھی شادی کر کے اپنا الگ گھر نہیں بسائے گا بل کہ بہن کے کم سن بچوں کی تر بیت کر کے انھیں مفید شہری بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گا۔ بہن کی خوشیوں کی خاطر اس نے اپنے ارمانوں کو سینے ہی میں دبا دیا اور بہن کے چہرے پر خوشیاں دیکھنے کی تمنا میں اپنی خوشیوں کی پروا نہ کی۔ وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ ان کی بیوہ بہن اور اس کے بچے آرام سے رہے اور عملی زندگی میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کی زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا تھا۔ اس واقعے سے ان کے ایثار اور خدا ترسی کا ثبوت ملتا ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں ایسے لوگ نایاب ہیں۔
شفیع عقیل بہت خوش اخلاق اور مخلص ادیب تھے۔ ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کے ساتھ پیش آنا ان کا شیوہ تھا۔ اپنے عہد کے ممتاز ادیبوں اور دانش وروں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ ان کے احباب میں خضر تمیمی، مولانا عبدالمجید سالک، مولانا ظفر علی خان، چودھری بر کت علی، محمد حنیف رامے، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، سیدضمیر جعفری ، حفیظ جالندھری، چراغ حسن حسرت، اظہر جاوید، رضا ہمدانی، فارغ بخاری، خاطر غزنوی، عطا شاد، محسن بھوپالی، صابر آفاقی، میرزا ادیب، رحیم بخش شاہین، رام ریاض، کبیر انور جعفری، پروفیسر عتیق احمد اور بشیر سیفی شامل تھے۔
اپنے معاشرے میں رہتے ہوئے انھوں نے افراد معاشرہ کے ساتھ باہمی ربط و ارتباط اور افہام و تفہیم کی فضا کو پروان چڑھانے کے لیے سخت محنت کی۔ ان کے داخلی اور نفسیاتی تجربات ان کے اسلوب میں نمایاں ہیں۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے اپنے خارجی ماحول سے جو اثرات قبول کیے انھیں تخلیق فن کے لمحوں میں زاد راہ بنایا۔ وہ چاہتے تھے کہ ادب کی مقصدیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جائے۔ ان کے اسلوب میں جدت اور تنوع کی جو کیفیت ہے اس کے اثرات دوررس ہیں۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے عصر ی آگہی کو پروان چڑھانے کے آرزو مند تھے۔ انھوں نے اپنی تخلیقی تحریروں میں ایک علمی شان پیدا کر دی جب کہ ان کے تراجم میں پوری دنیا کا منظر نامہ دھنک رنگ سماں پیدا کر دیتا ہے۔ علم کو وہ ایک نعمت خداوندی سے تعبیر کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ادب کے وسیلے سے معاشرتی زندگی میں نکھار لایا جا سکتا ہے۔
اپنے اسلوب میں شفیع عقیل نے فہم و ادراک، جذبات و احساسات اور تکنیک کے تنوع سے جو سماں باندھا ہے وہ دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی صلاحیت سے متمتع اس نابغۂ روزگار تخلیق کار نے اپنے اشہب قلم کی جولانیوں سے ہر صنف ادب میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ ان کے سفر نامے قاری کو اسی دنیا میں لے جاتے ہیں جس میں شفیع عقیل انھیں لے جانے کا آرزو مند ہے۔ تعلیم، تفریح اور مقصدیت سے لبریز شفیع عقیل کی تخلیقات قارئین کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر ترین وسیلہ بن کر سامنے آتی ہیں۔ ان کا اسلوب قاری کے شعور کو واحد تاثر کی نعمت سے مالا مال کر کے فہم و ادراک کے لطیف جذبات و احساسات سے مزین کرتا ہے۔ ان کے اپنے احساسات اسی بے ساختگی کے ساتھ منصۂ شہود پر آتے ہیں جس کا تعلق ان کے تخلیقی تجربات سے ہے۔ ان کی تصانیف جو ادیبوں، مصوروں، فنون لطیفہ کے ماہرین، مجسمہ سازوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ممتاز ہستیوں کے انٹرویوز پر مشتمل ہیں، چشم کشا صداقتوں سے لبریز ہیں۔ شخصیت نگاری میں شفیع عقیل کو کمال حاصل تھا۔ اپنے عہد کے نامور مزاح نگار مجید لاہوری کے وہ بڑے مداح تھے۔ مجید لاہور ی کی حیات اور ادبی خدمات پر شفیع عقیل کی کتاب اس لافانی ادیب کے شایان شان ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے مجید لاہور ی کے اخباری کالم ’’حرف و حکایت‘‘ کے نام سے مرتب کیے جن کی اشاعت سے قارئین ادب کو اس مزاح نگار کے ادبی منصب کو سمجھنے میں مدد ملی جس کے تخلیقی عمل میں صبر و استقامت اور جہد مسلسل کی شان دل ربائی قاری کو ہجوم غم میں بھی دل کو سنبھال کر سوئے منزل رواں دواں رہنے پر آمادہ کرتی ہے۔ معاشرتی زندگی کی نا ہمواریوں، بے اعتدالیوں، بے ہنگم ارتعاشات اور تضادات کے ہمدردانہ شعور پر مبنی سوچ کو فن کارانہ انداز میں پیش کر کے مجید لاہور ی نے کئی چشم کشا صداقتوں کو اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ حاضر جوابی اور شگفتگی مجید لاہور ی کی جبلت میں شامل تھی۔ اپنی گل افشانیِ گفتار سے وہ محفل کو کشت زعفران میں بدل دیتے تھے۔ ہر مزاح نگار کی طرح وہ مسائل زیست کی تلخی کے بارے میں اندر سے بہت سنجیدہ اور رنجیدہ تھے۔ مجید لاہوری نے کہا تھا :
میں اپنے آنسو چھپا رہا ہوں ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں
سزا ملی ہے یہ مجھ کو ایسی خدا کسی کو نہ یہ سزا دے
سوانح نگاری میں شفیع عقیل نے موضوع تحقیق کی افادیت اور اہمیت کو پیش نظر رکھا ہے۔ مجید لاہوری کی شخصیت کے متعلق مواد کے حصول کے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کیے ہیں اور کہیں بھی تشنگی کا احساس پیدا نہیں ہونے دیا۔ اسلوب میں واقعات اور شہادتوں کی چھان پھٹک پر پوری توجہ دی گئی ہے۔ اس طرح وہ سوانح عمری کو ایک انسان کی حقیقی تصویر اور مستند تاریخ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کی تصانیف درج ذیل ہیں :
بھوکے (افسانے )، ڈھل گئی رات، ایک آنسو ایک تبسم، تیغ ستم، سرخ سفید سیاہ، باقی سب خیریت ہے۔
شفیع عقیل نے ادب کو ایک موثر سماجی عمل کی حیثیت سے رو بہ عمل لانے کی کوشش کی۔ اپنی تحریروں کو تحلیل و تجزیہ سے مزین کر کے اصلاح اور مقصدیت کی شمع فروزاں رکھنے والے اس عظیم ادیب کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا انھوں نے ہر قسم کی عصبیت کو لائق استرداد ٹھہراتے ہوئے انسان دوستی اور روشن خیالی کی جو شمع فروزاں کی اس کی تابانیاں سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی اور آنے والی نسلوں کے لیے ان کے افکار خضر راہ ثابت ہوں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کمی کا احساس شدت سے بڑھتا چلا جائے گا۔ با مقصد ادب، انسانیت کے وقار اور سر بلندی اور سلطانیِ جمہور کے لیے انتھک جد و جہد کرنے والے اس نابغۂ روزگار ادیب کا نام جریدۂ عالم پر تا ابد ثبت رہے گا اور تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔ ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے زندگی بھر روشنی کے جس سفر کو جاری رکھا ان شا اللہ وہ جاری رہے گا۔ بہ قول محسن بھوپالی:
ہم اندھیروں کی دسترس سے دور
روشنی کی طرح سفر میں ہیں
٭٭٭
ڈاکٹر سید اختر حسین اختر: ایک روشن دماغ تھانہ رہا
عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز ادیب دانشور، ماہر تعلیم اور صحافی ڈاکٹر سید اختر حسین اختر نے ترک رفاقت کی۔ 3مئی 1937کوٹیگرام(بالا)تحصیل چک درہ ضلع دیر مالا کنڈ ڈویژن صوبہ خیبر پختون خواہ سے طلوع ہونے والا علم و ادب کا آفتاب جہاں تاب 15 مارچ 2011کی شام کو لاہور کے افق پر غروب ہو گیا۔ یہ درویش منش تخلیق کار پوری دنیا کو اپنے افکار کی ضیا پاشیوں سے منور کرنے کے بعد عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ سوڈیوال کالونی ملتان روڈ لاہور سے کچھ فاصلے پر واقع شہر خاموشاں کے ایک گوشے میں یہ لافانی ادیب آسودۂخاک ہے۔ اپنی تمام زندگی علم و ادب کے فروغ کے لیے وقف کر دینے والے حریت فکر کے اس جلیل القدر مجاہد کا نام جریدۂ عالم پرتا ابد ثبت رہے گا۔ انھوں نے علم، ادب، تاریخ، تہذیب و ثقافت، زندگی کی اقدار عالیہ اور معاشرتی زندگی میں امن و آشتی کے فروغ کی خاطر جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ ہماری قومی تاریخ اور تاریخ ادب کا ایک درخشاں باب ہیں۔ ان کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔
برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم
قدح قدح تیری یادیں سبو سبوتیرا غم
ڈاکٹر سید اختر حسین اختر ایک عظیم محب وطن پاکستانی تھے۔ وطن، اہل وطن اور پوری انسانیت کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کا ایک عالم معترف تھا۔ ان کی مادری زبان اگرچہ پشتو تھی مگر انھیں دنیا کی بیشتر اہم زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ان میں اردو، فارسی، عربی، انگریزی، ہندی، پنجابی، سندھی، سرائیکی، بنگالی، ہندکو، بلوچی، جاپانی، چینی اور جرمن زبانیں قابل ذکر ہیں۔ عالم ادبیات کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا اور اس طرح تہذیبی ہم آہنگی کے لیے مقدور بھر سعی کی۔ دنیا بھر کے ادیب ان کی علمی وادبی خدمات کو بہ نظر تحسین دیکھتے تھے۔ ان میں رالف رسل، جیکوئس دریدا، سبط الحسن ضیغم، استاد دامن، قرۃ العین حیدر، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر بشیر سیفی، میاں اقبال زخمی، شریف کنجاہی، سمیع اللہ قریشی، احمد حسین قلعہ داری، راجا رسالو، محمد آصف خان، نور احمد ثاقب، اقتدار واجد، رام ریاض، معین تابش اور صاحب زادہ رفعت سلطان شامل ہیں۔ ان کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا ان کی دوستیاں لا محدود تھیں لیکن کسی کے ساتھ معمولی رنجش کے بھی وہ روادار نہ تھے۔ ان کی شخصیت بے لوث محبت، خلوص، دردمندی، ایثار، انسانی ہمدردی، حریت فکر و عمل اور قومی وقار اور سر بلندی کے اوصاف سے متمتع تھی۔
پنجابی زبان و ادب کی عظیم روایات سے انھیں عشق تھا۔ وہ پنجابی زبان کے کلاسیکی شعرا کے بہت بڑے مداح تھے۔ وہ شاہ حسین، بلھے شاہ، حضرت سلطان باہو، میاں محمد بخش، وارث شاہ، علی حیدر ملتانی اور پیر مہر علی شاہ کے شیدائی تھے۔ پنجابی زبان کے کلاسیکی ادبی ورثے سے متاثر ہو کر انھوں نے اس زبان کی ادبی روایات کو آگے بڑھانے کا عزم صمیم کر لیا۔ 1965میں انھوں نے اپنا ایک ادبی مجلہ جاری کیا جس کا نام ’’ لہراں ‘‘ تھا۔ وقت گزرنے کا ساتھ ساتھ اس رجحان سازادبی مجلے نے ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی۔ اپنی مدد آپ کے تحت شائع ہونے والا پنجابی زبان کا یہ ادبی مجلہ سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر بن کر اذہان کی تطہیر و تنویر کا وسیلہ ثابت ہوا۔ روشنی کا یہ سفر اب تک جاری ہے اور ’’ لہراں ‘‘ کا مئی 2011کا شمارہ دیکھ کر آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ مجلہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہو ا ہے صر ف مجلس ادارت میں سے ڈاکٹر سید اختر حسین اختر کا نام حذف کر دیا گیا ہے اب یہ تاریخی مجلہ ان کی یاد میں شائع ہوا کرے گا۔ اب ان کا نام لہراں کے بانی ایڈیٹر کے طور پر درج ہے یہی تو تاریخ کا مسلسل عمل کہلاتا ہے۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
ایک وسیع النظر ادیب کی حیثیت سے انھوں نے اپنی تخلیقی فعالیت کا اس طرح اثبات کیا کہ پوری دنیامیں ان کے کام کی تحسین ہوئی۔ پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی عظیم الشان خدمات کا علمی و ادبی حلقوں میں اعتراف کیا گیا۔ انھیں متعدد ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ ملے جن میں سے اہم ایوارڈ حسب ذیل ہیں :
استاد عشق لہر ایوارڈ، مسعودکھدر پوش ایوارڈ، بلھے شاہ ایوارڈ، سائیں مولا بخش ایوارڈ، پروفیسر پیارا سنگھ سرومنی ایوارڈ(کینیڈا)، بھائی ویر سنگھ ایوارڈ(بھارت)
وہ تمام عمر ستائش اور صلے کی تمناسے بے نیاز پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے۔ ایک مستعد، جری اور زیرک تخلیق کار کے طور پر انھوں نے بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا۔ ان کی تخلیقی فعالیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ اکثر نو آموز ادیبوں کو ان کے وسیلے سے ادبی حلقوں تک رسائی نصیب ہوئی۔ ان کا ادبی مجلہ نو خیز ادیبوں کی ایک تربیت گاہ تھا جہاں ہونہار اور باصلاحیت ادیبوں کی صلاحیتوں کو صیقل کیا جاتا تھا۔ اس تمام کام میں وہ ہمہ وقت مصروف رہتے اور اپنا سب کچھ اس کام کے لیے وقف کر دیا۔ ان کے ادبی منصب کے اعتراف میں انھیں جو اہم ذمہ داریاں اور اعزاز ملے ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں :
پنجابی سائنس بورڈ کی مجلس عاملہ کے رکن، مسعود کھدر پوش ٹرسٹ لاہور کے ادبی مشیر، پاکستان رائٹرز گلڈ کے سینئیر رکن، پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگیویج آرٹ اینڈ کلچر (PILAC)کے بورڈ ممبر اور لہراں ادبی بورڈ کے جنرل سیکرٹری۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ لہراں ادبی بورڈ کا قیام فروغ علم و ادب میں کلید ی اہمیت کا حامل اقدام ہے۔ یہ اسی طرز پر کام کرتا ہے جس پر شبلی نعمانی کا دار المصنفین اعظم گڑھ کام کرتا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ دنیابھر سے شاہ کار ادبی تخلیقات کے تراجم پنجابی میں شائع کیے جائیں۔ اس طرح دو مختلف تہذیبوں کے مابین سنگم کی ایک صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ لہراں ادبی بورڈ کو اپنی زندگی کا ایک اہم ترین نصب العین قرار دیتے تھے۔ اس کے زیر اہتمام وہ ان نابغہ روزگار ادیبوں کے کارہائے نمایاں منظر عام پر لانے کے آرزومند تھے جو ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے لہراں کے متعدد خاص نمبر بھی شائع کیے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں :
خواجہ فرید نمبر، رفیع پیر نمبر، افضل احسن رندھاوا نمبر، عشق لہر نمبر، امرتا پریتم نمبر، فیض نمبر، مسعود کھدر پوش نمبر، احمد راہی نمبر، شریف کنجاہی نمبر اور ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نمبر۔
ان کی زندگی میں لہراں ادبی بورڈ نے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ان کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی۔ ایک سو کے قریب کتب کی اشاعت کے منصوبے پر کام جاری تھا۔ ان میں سے نصف زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ڈاکٹر سید اختر حسین اختر کی زندگی ایک شمع کے مانند گزری۔ روشنیوں کے جس سفر کا آغاز انھوں نے نصف صدی قبل کیا تھا وہ تا ابد جاری رہے گا۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
ایک راسخ العقیدہ مسلمان، سچے عاشق رسول اور عظیم محب وطن کی حیثیت سے ان کو بہت عزت و احترام حاصل تھا۔ 1998میں انھوں نے فریضۂ حج ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔ وہ اپنا سفر نامۂ حج مکمل کر رہے تھے۔ اس عرصے میں مذہب کی جانب ان کا میلان بڑھتا چلا گیا۔ وہ نماز روزے کے پابند تھے اور حقوق العباد پر پوری توجہ دیتے تھے۔ جب میں نے علامہ اقبال اور پنجابی کالسکی شعرا میں پائے جانے والے فکری اشتراک پر تحقیقی کام کا آغاز تو انھوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ میری کتاب ’’فکر اقبال کے نئے افق، ، جب 2006میں نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد کے زیر اہتمام شائع ہوئی تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ مجھے فون پر مبارک باد دی اور تحقیق و تنقید کا سلسلہ جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ ان سے مل کر زندگی سے واقعی پیار ہو جاتا تھا۔ ان کے ریشے ریشے میں خلوص، مروت، حریت فکر، ایثار، انسانی ہمدردی، بے لوث محبت، وفا اور اسلامی اقدار سما گئی تھیں۔ ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا عمر بھر ان کا شعار رہا۔ ان کا خیال تھا کہ ظلم کو بے چون و چرا سہہ لینا اور اس کے خلاف آواز بلند نہ کرنا ظلم سے بھی زیادہ اہانت آمیز فعل ہے۔ اس طرح ظالم و سفاک، موذی و مکار درندوں کو کھل کھیلنے کا مو قع مل جاتا ہے۔ مظلوم انسانیت کی ان حالات میں نہ تو کوئی امید بر آتی ہے اور نہ ہی اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے انھوں نے تمام عمر قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ در کسریٰ پر صدا کرنے والوں کوسخت نا پسند کرتے تھے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ چٹانوں اور کھنڈروں کے سامنے مظلوم اور بے بس و لاچار دکھی انسانیت کے مسائل بیان کرنا اس عہد کا لرزہ خیز اعصاب شکن المیہ ہے۔
ڈاکٹر سید اختر حسین اختر نے جامعہ پنجاب لاہور سے ’’پنجابی واراں ‘‘ کے عنوان کے تحت سندی تحقیق کا جو معیار قائم کیا وہ آنے والے زمانے میں لائق تقلید رہے گا۔
٭٭٭
قاضی عبدالرحمٰن : رستہ دکھانے ولا ستارہ نہیں رہا
قاضی عبدالرحمٰن1908میں بھٹے وڈ ضلع امرتسر (بھارت )میں پید ہوئے۔ ان کا تعلق ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا۔ ان کے بزرگوں نے علی گڑھ تحریک اور تحریک خلافت کے قائدین کے ساتھ بھر پور تعاون کیا۔ بر عظیم پاک و ہند سے برطانوی استعمار کے خاتمے اور یہاں کے مسلمان باشندوں کے لیے ایک آزاد اور خود مختار اسلامی مملکت کے حصول کی جد و جہد میں ان کے بزرگوں نے جو قربانیاں دیں وہ ان کے لیے سرمایۂ افتخار تھا۔ قاضی عبدالرحمن نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر سے حاصل کی اور انٹر میڈیٹ کا امتحان اسلامیہ کالج لاہور سے پاس کیا یہیں سے تربیت اساتذہ کا امتحان بھی پاس کیا۔ اسلامیہ کالج لاہور کے زمانہ طالب علمی میں وہ ایک پر جوش طالب علم تھے۔ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے اور نماز با جماعت ادا کرتے تھے۔ اپنے ہم جماعت طالب علموں میں ان کو بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اسلامیہ کالج لاہور کے طلبا نے اس عہد میں کئی انتخابی جلوس نکالے اور مسلماں قائدین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جدو جہد آزادی میں بھر پور حصہ لیا۔ اسی قسم کے ایک انتخابی جلوس میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے لکھا ہے :
’’ایک انتخابی جلوس میں علامہ خود بھی شریک ہوئے۔ مجھے یاد ہے کہ جلوس کے دوران میں جب نماز مغرب کا وقت آ گیا تو جلوس رک گیا اور قاضی عبدالرحمٰن طالب علم اسلامیہ کالج کی امامت میں نماز پڑھی گئی۔ ‘‘(1)
جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو ان کا خاندان پاکستان پہنچا اور عارف والا میں قیام کیا۔ قیام پاکستان سے پہلے ہی قاضی عبدالرحمٰن عارف والا میں مقیم تھے۔ انھوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی۔ اس کے ساتھ ہی منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے اور ضلع ساہیوال کے مختلف ثانوی مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ قاضی عبدالرحمٰن کے آبا و اجداد نے علم و ادب کے فروغ میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔ شعر و ادب سے دلچسپی قاضی عبدالرحمٰن کی گُھٹی میں پڑی تھی۔ انھوں نے علامہ فیروز الدین طغرائی امرتسری، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور مولانا ظفر علی خان سے اپنے کلام پر اصلاح لی۔ سر سید احمد خان اور ان کے نامور رفقائے کار کی مقصدیت اور اصلاح پر مبنی کاوشوں کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے اسلوب پر مولانا الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی ، سید اکبر حسین اکبر الٰہ آبادی، علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان کے اثرات نمایاں ہیں۔ ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے اپنے اسلوب میں وقار، شائستگی، متانت، سادگی اور سلاست کو اولیت دی۔ مولانا ظفر علی خان (پیدائش : 1873 وفات : 27۔ اپریل 1956)نے برطانوی استبداد کے خلاف جس بہادری کے ساتھ جد و جہد کی اسے وہ اسے ملی آزادی کے لیے سنگ میل قرار دیتے تھے۔ بابائے اردو صحافت مو لانا ظفر علی خان کے اخبار ’’زمیندار ‘‘کو وہ جبر کے خلاف حریت فکر کی پیکار کا نام دیتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان کی شاعری کے مجموعوں ’’بہارستان ‘‘، ’’نگارستان‘‘ اور ’’چمنستان‘‘ سے اردو شاعری کی ثروت میں اضافہ ہوا۔ ان کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے ساہیوال میں ایک سٹیڈیم کو ’’ظفر علی خان سٹیڈیم ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ مولانا ظفر علی خان کی وفات پر قاضی عبدالرحمٰن کی نظم ’’ظفر علی خان نہیں ملے گا ‘‘جو شور ش کاشمیری کی ادارت میں لاہور سے شائع ہونے والے مجلے ’’چٹان‘‘ میں 4۔ جنوری 1965کو شائع ہوئی، ان کے دلی صدمے اور رنج کی مظہر ہے :
ظفر علی خاں کو ڈھونڈتے ہم رہیں گے لیکن نہ پا سکیں گے
بہت کریں گے تو یاد میں اس کی غم کے آنسو بہا سکیں گے
ہزاروں عمریں گزرنے پر بھی یہی فقط ہم بتا سکیں گے
ظفر علی خاں نہیں ملے گا
قاضی عبدالرحمٰن علامہ اقبال سے بڑی عقیدت رکھتے تھے اور انھیں ملت اسلامیہ کے اقبال کی علامت قرار دیتے تھے۔ 21۔ اپریل 1938کو جب علامہ اقبال نے لاہور میں داعیِ اجل کو لبیک کہا تو قاضی عبد ا لرحمٰن کے دل پر قیامت گزر گئی۔ اگلے روز اپنے جذبات حزیں کو ایک مرثیے میں پیش کیا اور تزکیہ نفس کی ایک صورت پیدا کی۔ وہ جب بھی لاہور جاتے مزار اقبال پر حاضری دیتے اور بادشاہی مسجد میں نماز ادا کرتے۔ سامنے لاہور کے شاہی قلعہ پر نظر پڑتی تو بے اختیار کہتے سیل زماں کے ایک تھپیڑے نے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے ہی نیست و نابود کر دئیے۔ علامہ اقبال کی وفات پر ان کا لکھا ہوا ’’مر ثیۂ اقبال ‘‘جو اردو ڈائجسٹ لاہور کے اپریل 1996کے شمارے میں شائع ہوا حکیم الامت کے ساتھ ان کی عقیدت کا مظہر ہے :
ہر بادہ کش کو جس نے کہ بھر بھر پلائے جام
جاری تھا اک جہاں کے لیے جس کا فیض عام
ملک سخن میں جس کا تھا اک منفرد مقام
راوی کو جس کے دم سے ملی شہرت دوام
مدفون ہے وہ مسجد شاہی کے پاؤں میں
ہے محو خواب چادر رحمت کی چھاؤں میں
اپنی ملازمت کا زیادہ عرصہ انھوں نے ٹاؤن کمیٹی ہائی سکول عارف والا میں گزارا۔ 1968میں جب وہ ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو وہ بہ حیثیت صدر معلم اسی ادارے میں تعینات تھے۔ ان کی تخلیقات پاکستان کے اہم علمی و ادبی مجلات کی زینت بنتی رہیں۔ وہ خیالات کے تنوع، مضامین کی جدت، موضوعات کی ندرت اور اسالیب کی تازگی اور شگفتگی کے دلدادہ تھے۔ اپنی تحریروں کے ذریعے انھوں نے عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی بھر پور کوشش کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے سماج اور معاشرے، وطن اور اہل وطن اور کائنات کے تمام باشندوں کے ساتھ بے لوث محبت، خلوص اور درد کا ایک مستحکم رشتہ استوار کرنے کے آرزو مند تھے۔ انھوں نے ہمیشہ زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کی پاسداری کی۔ خزاں اور بہار کے آنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرد کی زندگی کے تمام موسموں کا تعلق دل کی کلی کے کھلنے اور مرجھانے سے ہوتا ہے۔ زندگی کی تاب و تواں اور رعنائیاں ہر حال میں اپنے وجود کا اثبات چاہتی ہیں۔ قاضی عبدالرحمٰن کے اسلوب میں زندگی کی حرکت و حرارت پورے ولولے کے ساتھ موجود ہے۔ پاکستان کے قومی مسائل کے بارے میں ان کی نظم و نثر پر مبنی تحریریں ’’زمیندار ‘‘، اصلاح (منٹگمری )، چٹان (لاہور )، سیارہ، قندیل، نوائے وقت، سیارہ ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ میں تواتر سے شائع ہوتی رہیں۔ یہ اہم تحریریں ان کے ذوق سلیم کی آئینہ دار ہیں۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ ہوس نے نوع انساں کو فکری انتشار میں مبتلا کر رکھا ہے، حق گوئی اور بے باکی کو ترک کر کے لوگوں نے مصلحت کی راہ اپنا لی ہے۔ چلتے پھرتے ہوئے مُردوں اور جامد و ساکت پتھروں کے سامنے زندگی کے مسائل بیان کرنے پڑتے ہیں۔ المیہ یہ ہوا ہے کہ اس لرزہ خیز کیفیت میں زندگی کی حقیقی معنویت ہی عنقا ہو چکی ہے۔ اگر انسان اپنے انجام پر نظر رکھے تو وہ منزل سے بھٹک کر سرابوں میں خوار و زبوں ہونے سے بچ سکتا ہے ان کی شاعری قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ وہ پنجابی کلاسیکی شعرا سے بہت متاثر تھے۔ سلطان باہو، بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید، بابا فرید گنج شکر، شاہ حسین، میاں محمد بخش اور وار ث شاہ کے کلام کو انھوں نے بڑی توجہ سے پڑھا اوراسے اپنے عہد کی ایک بھر پور آواز سے تعبیر کیا۔ ان تمام شعرا نے اپنی شاعری میں انسانیت کے وقار اور سر بلندی اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کیا۔ قاضی عبدالرحمٰن کی شاعری میں بھی اسی نوعیت کے جذبات کا اظہار ملتا ہے :
تو بھی کر لے سفر کی تیاری
دیکھ تو لد چلے ہیں بنجارے
وہ محلات اب ہیں زیر زمیں
تھے فلک بوس جن کے مینارے
قاضی عبدالرحمٰن ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ توحید اور رسالت سے عقیدت اور والہانہ محبت ان کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی۔ روحانی اور اخلاقی رفعت ان کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کا امتیازی وصف ہے۔ اسی کے اعجاز سے وہ حق گوئی اور بے باکی کو شعار بناتے ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’’ ہوائے طیبہ ‘‘جو پہلی بار1981میں شائع ہوا ان کی حد یہ اور نعتیہ شاعری پر مشتمل ہے اس کتاب میں انھوں نے قلبی احساسات، فکری اور روحانی بصیرتوں اور فنی تجربات کے امتزاج سے ایک دھنک رنگ منظر نامہ پیش کیا ہے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں ان کے قلب و ذہن میں توحید اور رسالت کے مبارک تصورسے تطہیر و تنویر کی جو ایمان افروز وجدانی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کی پورے خلوص کے ساتھ لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں آشوب زیست میں سر گرداں انسانیت کے تمام مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ توحید و رسالت کی تعلیمات کو زاد راہ بنا کر زندگی کا سفر طے کیا جائے۔ آج معاشرتی زندگی جس لرزہ خیز، اعصاب شکن اور تباہ کن انتشار، خلفشار، تشکیک، دہشت گردی، ہوس زر اور خود غرضی کی زد میں آ چکی ہے اس کے مسموم اثرات نے تہذیبی، ثقافتی اور ملی اقدار و روایات کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ قاضی عبدا لر حمٰن کی شاعری میں اس جانب متوجہ کیا گیا ہے کہ اگر آج بھی ایمان کامل پیدا ہو جائے تو آگ انداز گلستاں پیدا کر سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذات اور مفادات کے حصار سے نکل کر توحید و رسالت کی پناہ میں زندگی بسر کی جائے۔ نظام ہستی چلانے والی عظیم ہستی اور اپنے معبود کے حضور نذرانۂ حمد پیش کرتے ہوئے قاضی عبدالرحمٰن نے لکھا ہے :
اے خالق کل دو جہاں کے والی
ہر شان ہے تری لا یزالی
ہیں تیرے جلال نے مٹائے
عاد اور ثمود جیسے غالی
آیا ہوں میں تیرے در پہ مولا
لے کے اپنی تباہ حالی
اپنے اسلوب میں قاضی عبدالرحمٰن نے عشق رسولﷺ کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ عشق رسولﷺ کے فیض عام سے حضرت بلال حبشیؓ کو دوام مل جاتا ہے جب کہ اس عشق کی تمازت سے محروم سکندر تمام قوت و ہیبت کے باوجود سیل زماں کے تھپیڑوں میں خس و خاشاک کے ما نند بہہ گیا۔ عشق رسول ﷺ کی قوت ہر پست کو بالا کرنے پر قادر ہے۔ ان کے اسلوب میں جمالیاتی حس قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ عقیدت کے جذبے سے سر شار ہو کر وہ حسن حقیقی کے کے جلووں کی جس فنی مہارت سے لفظی مرقع نگاری کرتے ہیں اس سے قاری کو جمالیاتی سوز و سرور اور سکون قلب کی دولت میسر آتی ہے۔ آج کے دور میں فرد کو انتشار، دہشت گردی اور اندیشہ ہائے دور دراز نے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ پنے اسلوب میں انھوں نے زندگی کے جملہ اسرر و رموز کی مو ثر تنظیم اور شیرازہ بندی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی جو سعی کی ہے اس کے نتیجے میں ان کے اسلوب میں جذباتی، روحانی اور نفسیاتی عوامل کے بارے میں مثبت شعور کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری میں ان تمام امور کی عکاسی ہوتی ہے :
نگہ بلند رہی ان کی کیف اور کم سے
ترے غلام بڑھے مرتبہ میں ہر جم سے
بنایا خاک نشینوں کو تو نے سِدرہ شناس
ثریٰ کو شان ثریا ملی ترے دم سے
جہاں میں آنا ترا وجہ صد سکوں ٹھہرا
ملی نجات زمانے کو حزن اور غم سے
اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو توحید و رسالت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے سکون قلب کی دولت مل سکتی ہے۔ قاضی عبدالرحمٰن کی شاعری میں توحید اور رسالت کے ساتھ قلبی لگاؤ قارئین کے لیے ایمان افروز تجربے کا نقیب ہے۔ یہی روحانی تجربہ ہر انسان کے لیے پیام نو بہار کی نوید لاتا ہے۔ اسی کے معجز نما اثر سے سفاک ظلمتیں کافور ہو جاتی ہیں اور طلوع صبح بہاراں کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ توحید و رسالت کی تعلیمات کے فروغ کو قاضی عبدالرحمٰن نے اپنا نصب العین بنا رکھا تھا۔ وہ اس بات کا بر ملا اظہار کرتے تھے کہ کہ جب انسانیت پریشاں حالی و درماندگی، حسرت ویاس اور ہجوم غم میں گھر جاتی ہے تو اس وقت تو حید و رسالت ہی کے سائے میں پناہ ملتی ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے قاضی عبدالرحمٰن نے اپنے اسلوب میں اصلاح اور مقصدیت کو ہمیشہ اولیت دی۔ وہ ادب کے وسیلے سے زندگی میں وحدت، تنظیم، قوت، مقصدیت، جاذبیت اور بصیرت کو پروان چڑھانے کے آرزومند تھے۔ قیام پاکستان کے بعد حالات نے جو رخ اختیار کیا اس پر ان کی گہری نظر تھی۔ ان کے اسلوب میں قومی اور ملی اقدار کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
اپنے سب ملنے والوں کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک کرنا قاضی عبدالرحمٰن کا معمول تھا۔ وہ خو ش اخلاقی، دیانت داری، خلوص، دردمندی اور انسانی ہمدردی کو ایک فرض اور نیکی سے تعبیر کرتے۔ یہ نیکیاں ایسی ہیں جن کے حصول کے لیے کسی ریاضت اور تپسیا کی ضرورت نہیں۔ معاشرتی زندگی میں ان نیکیوں کے فراواں مواقع میسرہیں۔ عارف والا کے علاقے میں قاضی عبدالرحمٰن نے نصف صدی تک جو تدریسی، سماجی، معاشرتی، رفاہی اور قومی خدمات انجام دیں ان کا ایک عالم معترف ہے۔ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے قاضی عبدالرحمٰن نے وطن اور اہل وطن کی مقدور بھر خدمت کی۔ وہ چاہتے تھے کہ اس علاقے میں نئی نسل کو حصول تعلیم کے فراواں مواقع میسر آئیں۔ وہ عارف والا میں اسلامیہ ڈگری کالج کے بنیاد گزاروں میں شامل تھے۔ 1970میں جب عارف والا میں اسلامیہ ڈگری کالج نے روشنی کے سفر کا آغاز کیا تو اس علاقے کے طلبا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس تعلیمی ادارے نے نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا اور جلد ہی ترقی کے مدارج طے کر کے یہ انٹر کالج ڈگری کالج بن گیا۔ قاضی عبدالرحمٰن کا شمار عالمی شہرت کے حامل پاکستان کے نامور ماہرین تعلیم میں ہوتا تھا۔ تعلیمی انصرام، نصاب سازی، امتحانات اور تدریسی مسائل کے بارے میں ان کی وقیع رائے کو ہمیشہ مستند سمجھا جاتا تھا۔ تربیت اساتذہ کے تعلیمی اداروں میں ان کے توسیعی لیکچرز سے نو آموز اساتذہ نے ہمیشہ بھرپور استفادہ کیا۔ آج بھی کمالیہ، گکھڑ، پنڈورا (راول پنڈی )ملتان، فیصل آباد، چنیوٹ اور سرگودھا کے تربیت اساتذہ کے اداروں میں ان کے دبنگ لہجے کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ 25۔ اپریل 1990کی شام علم و ادب کا یہ آفتاب جہاں تاب پوری دنیا کو اپنی افکار کی ضیا پاشیوں اور علمی خدمات سے بقعۂ نور کرنے کے بعد عارف والا میں غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا۔ عارف والا کے شہر خموشاں کی زمین نے علم و ادب، تدریس و تربیت اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ ان کی قومی خدمات کے اعتراف میں ان کے مکان کے سامنے سے گزرنے والی سڑک کا نام ’’قاضی عبدالرحمٰن روڈ ‘‘ رکھ دیا گیا۔ مایہ ناز شاعر یو نس متین نے اپنی نظم ’’ قاضی عبدالرحمٰن روڈ ‘‘ (مطبوعہ سہ ماہی فنون لاہور شمارہ : 121)میں اس عظیم انسان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :
شعورِ انسانیت کی صبحِ اذاں کی سطوت
میں سیر کرتا اسی سڑک پر رواں دواں ہوں
کہ جس سے پیہم
وہ اک مرد قلندر مزاج، روشن صفات تھا منحرف
مگر جب۔۔۔۔۔
وہ سانس کی ڈور سے کٹا تو
مرے زمانے نے اس سڑک کو اُسی سے منسوب کر دیا ہے
اپنی زندگی کے حسین ترین دن عارف والا کے لوگوں کی تعلیم و ترقی کی نذر کرنے کے بعد یہ یگانۂ روزگار فاضل نشیب زینۂ ایام پر عصا رکھتا زینۂ ہستی سے اتر گیا۔ تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔ جس دانش ور نے لاکھوں طلبا کی خاک کو اکسیر کر دیا وہ خود پیوند خاک ہو گیا۔ وہ با کمال ماہر تعلیم جس نے اس علاقے کے لاکھوں نوجوانوں کو ذرے سے آفتاب بننے کے مواقع فراہم کیے، ماضی کا حصہ بن گیا۔ اسی کا نام تو تقدیر ہے جو ہر لمحہ ہر گام انسانی تدابیر کی دھجیاں اڑا دیتی ہے۔ وقت کی مثال بھی پانی کے ایک ایسے تند و تیز دھارے کی سی ہے جس کی لہریں ایک بار گزر جائیں تو کوئی بھی شخص اپنی شدید تمنا اور سخت جد و جہد کے با وجود دوبارہ ان کے لمس سے کبھی فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ پنجاب کے اس دور افتادہ علاقے کے نو جوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے سلسلے میں انھوں نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کے بار احسان سے اہل وطن کی گردنیں ہمیشہ خم رہیں گی۔ عارف والا کا ذکر کرتے تو ان کی آنکھوں میں ایک نورانی چمک پیدا ہو جاتی۔ مخدوم محی الدین کے یہ اشعار عارف والا کے بارے میں ان کی قلبی کیفیات کی ترجمانی کرتے ہیں :
یہیں کی تھی محبت کے سبق کی ابتدا میں نے
یہیں کی جرأتِ اظہارِ حرفِ مدعا میں نے
یہیں دیکھے تھے عشوے ناز و اندازِ حیا میں نے
یہیں پہلے سنی تھی دل دھڑکنے کی صدا میں نے
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
نہ اب وہ کھیت باقی ہیں نہ وہ آب رواں باقی
مگر اس عیش رفتہ کا ہے اک دھندلا نشاں باقی
قاضی عبد الرحمٰن کی وفات پر ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر دل سو گوار تھا۔ ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگ شامل تھے۔ ان میں اساتذہ اور طلبا کی کثیر تعداد شامل تھی۔ یہ سب عارف والا، ساہیوال، ملتان جھنگ، کمالیہ، چیچہ وطنی ، پاکپتن ، کبیر والا اور لاہور سے آئے تھے۔ اس علاقے میں اتنی بڑی تعداد میں اپنے آنسوؤں اور آہوں کی صورت میں اپنے جذبات حزیں کا نذرانہ پیش کرنے والے سوگواروں کا یہ بہت بڑا اجتماع تھا۔ تعلیمی ادارے اہم کاروباری اور تجارتی مراکز بند ہو گئے ، شہر کا شہر سوگوار تھا۔
اللہ کریم نے قاضی عبدالرحمٰن کو جس بصیرت سے متمتع کیا تھا اس کے اعجاز سے وہ ایک صاحب باطن ولی کے منصب پر فائز تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اس مملکت خداداد کے نئے وفاقی دار الحکومت کے لیے راول پنڈی کے نزدیک مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں جگہ کا انتخاب ہوا تو اس شہر کے لیے نام تجویز کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے دعوت عام دی گئی۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اس اہم مشاورت میں حصہ لیا۔ ملک کے طول و عرض سے پاکستان کے نئے وفاقی دار الحکومت کے لیے بے شمار نام تجویز کیے گئے لیکن قاضی عبدالرحمٰن کا تجویز کردہ نام ’’اسلام آباد ‘‘منتخب کر لیا گیا۔ یہ وہ اعزاز ہے جس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کا ماسٹر پلان 1951میں قائم ہونے والی یونان کے معروف تعمیراتی ادارے ڈوکسی ایڈس ایسوسی ایٹس (Doxiadis Associates)نے تیار کیا تھا۔ اس شہر کا نام قاضی عبدالرحمٰن نے تجویز کیا۔ اس کا ذکر انسائیکلو پیڈیاپاکستان کے صفحہ 651، اور پاکستان کر و نیکل کے صفحہ 170پر بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ممتاز ادارہ نوائے وقت لاہور کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ہفت روزہ مجلے ’’قندیل ‘‘نے اس سلسلے میں ایک انعامی مقابلے کا اہتمام کیا پاکستان کے نئے وفاقی دار الحکومت کا نام تجویز کرنے کی دعوت عام ہفت روزہ قندیل، لاہور میں 19۔ جولائی 1959کو شائع ہوئی۔ قاضی عبدالرحمٰن نے ’’قندیل ‘‘میں یہ نام تجویز کیا تھا اس لیے ادارہ قندیل کی جانب سے انھیں ایک ہزار روپے کا انعام دیا گیا۔ (2ٌ) لاہور سے شائع ہونے والے اردو اخبار نوائے وقت کے مدیر مجید نظامی نے اسی زمانے میں اپنے ایک مکتوب میں قاضی عبدالرحمٰن کو پاکستان کے وفاقی دار الحکومت کا نام اسلام آباد تجویز کرنے پر مبارک باد دی۔ ایوان صدر اور حکومت پا کستان کی طرف سے پاکستان کے وفاقی دار الحکومت کا نام ’’اسلام آباد ‘‘ تجویز کرنے پر قاضی عبد ا لرحمٰن کو ایک پلاٹ دینے کا تحریری وعدہ کیا گیا۔ (3) اس کے بعد وہی کچھ ہوا جو کہ اس ملک کی بیورو کریسی کا وتیرہ ہے۔ سب وعدے، یقین دہانیاں، احکام اور فرمان متعلقہ عملے شقاوت آمیز نا انصافی اور ظالمانہ بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ المیہ یہ ہے کہ اس بے حس معاشرے میں جاہل تو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اپنی جہالت کا انعام لے جاتا ہے مگر حساس اور زیرک تخلیق کار کا کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ وقت کے ایسے حادثے اور انہونی کو کس نام سے تعبیر کیا جائے۔ قاضی عبدالرحمٰن نے صبر اور قناعت کا دامن تھام کر وقت گزارا اور کبھی حر ف شکایت لب پر نہ لائے۔ پاکستان کے قومی اخبارات میں نامور دانش وروں اور کالم نویسوں نے حکومت پاکستان کی توجہ اس پیمان شکنی کی جانب مبذول کرائی اور قاضی عبدالرحمٰن کو ان سے کیے گئے وعدے کے مطابق اسلام آباد میں پلاٹ دینے کی درخواست کی۔ اس موضوع پر مجیب الرحمٰن شامی نے 4۔ اگست 1984کو نوائے وقت لاہور میں شائع ہونے ولے اپنے کالم ’’جلسۂ عام ‘‘میں لکھا کہ جس مستقل مزاجی سے اسلام آباد میں دار الحکومت کا ترقیاتی ادارہ (سی۔ ڈی۔ اے) کی انتظامیہ قاضی عبدالرحمٰن کو پلا ٹ دینے سے مسلسل انکار کر رہی ہے، اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ اپنے کالم میں انھوں نے متعلقہ حکام کی غفلت پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا اور حکام کی بے حسی پر طنز کرتے ہوئے لکھا :
’’جناب صدر پاکستان کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس ’’عظیم تاریخی استقلال پر ‘‘سی۔ ڈی۔ اے کے متعلقہ کارکنوں کو نشان امتیاز مرحمت فرمائیں۔ محتسب بھی انھیں شاباش دیں۔ تمام سرکاری اور نیم سرکاری محکمے اس مثال سے سبق حاصل کر سکتے ہیں اور تاخیری حربے سیکھنے کے لیے ان افراد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر سکتے ہیں ‘‘(4)
نامور صحافی جمیل احمد عدیل نے روزنامہ ’’دن ‘‘ لاہور میں اپنے کالم ’’بر جستہ ‘‘میں 24نومبر 2001کو قاضی عبدالرحمٰن کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے اس اعزاز کے بارے میں متعلقہ حکام کی توجہ مبذول کرائی۔ ممتاز صحافی جاوید چودھری نے روزنامہ ایکسپریس لاہور میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’’زیرو پوائنٹ ‘‘میں 21جولائی 2013کو لکھا:
’’اسلام آباد کا نام عارف والا کے ایک ہیڈ ماسٹر عبدالرحمٰن نے تجویز کیا۔ ہم اسلام آباد کی کوئی عمارت ان کے نام سے منسوب کر سکتے ہیں اور اس عمارت کو بھی اسلام آباد کی تاریخ اور ہیڈ ماسٹر عبدالرحمٰن کی تصویروں کی یادگار بنا سکتے ہیں َ‘‘(5)
روزنامہ نوائے وقت، لاہور میں ایک ادارتی نوٹ میں حکومت پا کستان کی توجہ قاضی عبد الرحمٰن کو پاکستان کے وفاقی دار الحکومت کا نام تجویز کرنے پر حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں پلاٹ دینے کے وعدے کے ایفا کے سلسلے میں مدیر نے لکھا:
’’قاضی عبدالرحمٰن کو اسلام آباد میں پلاٹ دینے کا وعدہ ان کی طرف سے کسی طلب کے بغیر حکومت و مملکت کے سر براہ نے کیا تھا جسے بہ ہر صورت پورا کرنا چاہیے اور غیر معمولی تاخیر کی تلافی جلد از جلد مثبت کارروائی سے کر دینی چاہیے۔ حکمرانوں کی تبدیلی سے با ضابطہ وعدے ختم نہیں ہو جاتے بل کہ برقرار اور موثر رہتے ہیں جو حکومت سرکاری اور تحریر ی طور پر کرتی ہے۔ ‘‘(6)
حیف صد حیف کہ کہ یہ سب وعدے سرخ فیتے کی روایتی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے اور قاضی عبدالرحمٰن کو وعدے کے مطابق پلاٹ نہ مل سکا۔ یہاں تک کہ 25۔ اپریل1990کو وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے۔ کسی نے آج تک ان کے پس ماندگان سے ان کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا۔ منیر نیازی نے بے حسی کے اس نوعیت کے المیے کے بارے میں لکھا تھا:
تمام عمر رہ رفتگاں کو تکتی رہے
کسی بھی آنکھ میں اتنا تو دم نہیں ہوتا
وہ بے حسی ہے مسلسل شکست دل سے منیر
کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا
قاضی عبدالرحمٰن کی وفات سے تاریخ کا ایک باب اپنے اختتام کو پہنچا۔ تاریخ ہر دور میں ان کی خدمات اور قابل صد احترام نام کی تعظیم کرے گی۔ ان کی نماز جنازہ میں ملک بھر سے نامور علمی و ادبی شخصیات نے شرکت کی ان میں محمد شیر افضل جعفری، سید جعفر طاہر، سید مظفر علی ظفر، امیر اختر بھٹی، محمد فیروز شاہ، غلام علی خان چین، حاجی محمد یوسف، چودھری ظہور احمد شائق، رجب الدین مسافر، تقی الدین انجم (علیگ )، عبدالستار چاولہ، رام ریاض، محسن بھوپالی، سید عبدالباقی (عثمانیہ)، مرزا معین تابش، دیوان الیاس نصیب میر تحمل حسین جعفری، مہر محمد امیر خان ڈب، عبدالحلیم انصاری، میاں رب نواز بھٹی، میاں علی محمد اور فیض محمد خان ارسلان کے نام قابل ذکر ہیں۔ قاضی عبدالرحمٰن کی وفات پر ان کے بیٹے قاضی حبیب الرحمٰن نے اپنے جذبات حزیں کا اظہار ایک رثائی غزل میں کیا :
اب کہاں پہلا سا وہ رنگِ محبت دیکھنا
اڑ رہی ہے صحنِ دل میں خاکِ وحشت دیکھنا
رات کے پچھلے پہر جب دفترِ امکاں کُھلے
دیر تک بے حرف لفظوں کی عبارت دیکھنا
آئنہ در آئنہ اُتری ہیں کیا کیا صورتیں
دائرہ در دائرہ اک رقصِ حیرت دیکھنا
آنکھ کیا کھولی درِ شہر تمنا کُھل گیا
دردِ تازہ کار کی گھر گھر اشاعت دیکھنا
جلتی بُجھتی ساعتوں کے درمیاں، اے ذوقِ دید !
رنگِ وصلت دیکھنا، نیرنگِ ہجرت دیکھنا
کس کے روکے رُک سکا ہے سیلِ دریائے وجود
کس کے ٹالے، ٹل سکا ہے وقتِ رخصت دیکھنا
یوں بھری محفل سے اُٹھ جانا تری عادت نہ تھی
اپنی قسمت تھا مگر روزِ قیامت دیکھنا
تیرے زیرِ سایہ، یہ ہر گز پَنپ سکتا نہ تھا
اب زمینِ دل میں نخلِ غم کی نشات دیکھنا
میں کہ اک درماندہ رہرو ہوں، مجھے معلوم ہے
ایک اک لمحے میں صدیوں کی مسافت دیکھنا
کیسے کیسے لوگ تھے، پل میں فسانہ بن گئے
اپنی جانب بھی ذرا۔ اہلِ بصیرت دیکھنا
دل پہ پڑتی ہے براہِ راست، ضرب اس کی حبیب
کس قدر سفاک ہے، تیغِ مودت دیکھنا
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے موجودہ زمانے میں فکر و خیال کی کایا پلٹ گئی ہے۔ افکار تازہ کے سیل رواں میں توہمات اور خام خیالی پر مبنی فرسودہ تصورات خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں۔ آج قارئین ادب جس طرح افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہان تازہ کی جانب سر گرم سفر ہیں یہ سب کچھ ہمارے بزرگوں کی فکری کاوشوں کا ثمر ہے۔ قاضی عبدالرحمٰن نے نصف صدی تک خون جگر سے گلشن ادب کو سیراب کیا۔ تمام زندگی ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کا فریضہ انجام دیا۔ شعر و ادب میں خیالات، احساسات، موضوعات، تخلیقی تجربات اور اظہار و ابلاغ کے نئے معائر کی جستجو مین ان کی دلچسپی آج بھی فکر و نظر کو مہمیز کرتی ہے۔ انھیں استاد الاساتذہ کا درجہ حاصل تھا، اس لیے ان کی اصلاحی کاوشیں ہر دور میں اہل نظر کو متوجہ کرتی رہیں گی۔ زندگی کی برق رفتاریوں نے حالات کو ایک نیا رخ عطا کیا ہے۔ ان کے پیش نظر زندگی کی نئی اور حقیقی معنویت کی تفہیم پر توجہ دے کر قاضی عبدالرحمٰن نے قابل قدر کام کیا ہے۔
قاضی عبدالرحمٰن اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ انھوں نے اس قدر دور اپنی بستی بسا لی ہے کہ اب یاد رفتگاں کے سوا کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی رحلت یک ایسا درد لا دوا ہے جس کا مداوا سوائے صبر کے ممکن ہی نہیں۔ وہ عظیم ہستیاں جنھیں ہم دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں جب ہمیں دائمی مفارقت دے جاتی ہیں تو حوصلے اور صبر کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ بالآخر مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے، اسی کا نام تو تقدیر ہے۔ مجید امجد نے مصیبت میں صبر کے حوالے سے واقعۂ کر بلا کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا تھا :
سلام ان پہ تہِ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے
درد مندوں، مصیبت زدہ لوگوں اور ضعیفوں سے بے لوث محبت کرنے والے اس عظیم انسان کی یادیں فضاؤں میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ جس سمت بھی نظر اٹھتی ہے ان کی پر کیف یادوں کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ ان کی نیکیاں، خوبیاں اور علمی و ادبی خدمات انھیں تا ابد زندہ رکھیں گی۔ فروغ علم کے سلسلے میں ان کی فقیدالمثال خدمات کی وجہ سے جریدۂ عالم پر ان کا دوام ثبت رہے گا۔ ان کی یادیں ہی اب سرمایۂ حیات ہیں۔ یہ حسین یادیں خورشید جہاں تاب کی شعاعوں کے مانند اندھیروں کی دسترس سے دور سدا روشنی کے سفر میں رہیں گی۔ ان کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی ہے، ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے بزم وفا سجا رکھی ہے اور یہ نئے تارے افق علم و ادب کے افق پر نئی تابانیوں کے ساتھ اُبھرے ہیں۔ ان با صلاحیت اور پر عزم نو جوانوں نے روشنی کے اس سفر کو جاری رکھا ہوا ہے جس کا آغاز قاضی عبدالرحمٰن نے کیا تھا۔ عبدالمجید سالک کے یہ اشعار میرے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں :
چراغِ زندگی ہو گا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے ڈُوبنے کے بعد اُبھریں گے نئے تارے
جبینِ دہر پر چھٹکے گی افشاں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے دور میں ڈالیں خِرد نے اُلجھنیں لاکھوں
جنوں کی مُشکلیں جب ہوں گی آساں ہم نہیں ہوں گے
٭٭
مآخذ
(1) ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی : اقبال کی صحبت میں، مجلس ترقی ادب، لاہور، صفحہ 179۔
(2)مولانا محمد اسماعیل ذبیح : اسلام آباد۔ منزل مراد، القلم اسلام آباد، طبع دوم، صفحہ 139۔
(3)Govt. Of Pakistan NO.FCC-15(10)/59 R. Pindi The 15th April 1960
(4)مجیب الرحمٰن شامی : قاضی صاحب کا ایک پلاٹ، کالم جلسۂ عام، روزنامہ نوائے وقت لاہور، 4۔ اگست 1984صفحہ 2۔
(5)جاوید چودھری : سیاحت، مشمولہ کالم ’’زیرو پوائنٹ ‘‘ روزنامہ ایکسپریس، لاہور، 21۔ جولائی 2013، صفحہ 4۔
(6)مدیر نوائے وقت : ’’یہ سرکاری وعدہ پورا ہونا چاہیے ‘‘ادارتی نوٹ، اشاعت 20۔ ستمبر1984، صفحہ 4۔
٭٭٭
مصنف کے شکرئیے کے ساتھ کہ انہوں نے فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید