فہرست مضامین
- پنکھ
- انتساب
- حرفِ آغاز
- انفرادی لب و لہجے کا باکمال سخنور
- تقریظ
- ?
- ?
- حمد
- نعت شریف
- امام عالی مقام
- وہ جس کے بنا کٹتا نہیں پل بھی ہمارا
- گلشنِ دل ہرا بھرا ہو گا
- کسی کے ساتھ جو ہوتے برا نہ دیکھے گا
- منظرِ شہر لگا خاک اُڑانے والا
- وہ حقیقت تھی کہ سپنا تھا کسی کو دے دیا
- حسن قدرت نے نگاہِ نرگسی کو دے دیا
- وہ جنگ تھی یا کھیل جنوں کھا گیا اعصاب
- شاید ہمارا پیار بھلانے لگے ہیں آپ
- جہانِ رنگ میں ایسی جوانیاں ہیں بہت
- یہ پھول ہیں گلاب کے یا پھر شرارے ہونٹ
- دل سن کے خوش ہوا ہے کہ وہ شہر ہوں یا بیٹ
- سوا خلوص کے نکلی نہیں کوئی میراث
- حصے بخرے ہو رہی ہے پیار کی جاگیر آج
- پختہ نہیں جہاں میں ابھی آدمی کی سوچ
- ہوئی جوں ہی دلبر کی چلمن میں صبح
- فنا ہو گئی گل کی خاروں میں روح
- سنا رہے ہیں یوں جہاں کو داستان چیخ چیخ
- ہم سے وہ آ ملے ہیں بڑی رد و کد کے بعد
- رات بھر کس کس سے دلبر نے کئے کیا کیا ہیں لاڈ
- حضر کے لذائذ نہ گھر کے لذائذ
- بن آئی نہیں ہم سے کوئی صورتِ انکار
- پیار کرنا ہے تو نہایت کر
- برائی کو روکیں گے بن کے پہاڑ
- کریں کس سے شکوہ ہے کس کا بگاڑ
- ہائے یہ کیا ہوا کہ عیاں ہو گیا وہ راز
- محفل میں گر چلی بھی چلی گفتگو ہے ژاژ
- بجھ گئیں امیدیں اپنی چھا گیا خوف و ہراس
- کیسا تھا یہ وصال کہ من کی بجھی نہ پیاس
- تیری تصویر نظر میں نہ سجاتا اے کاش
- اُن کی نظروں میں بنا میری برائی میرا اخلاص
- عجب تو یہ ہے کی وفا تو ہے وفا پہ اعتراض
- راس آئی ہمیں پیار میں افراط نہ تفریط
- جل رہا ہے آشیاں الامان و الحفیظ
- وفائیں وہ کرتے گئے ہائے ضائع
- نہ پاؤ گے تم نیکیوں کا سراغ
- چشمِ تر ہے اہلِ دنیا میں بڑھاتی اختلاف
- شکوہ ہے تم سے حسن کو اے رہروانِ شوق
- خوش بخت ہے مل جائے جسے دولتِ شوق
- چشم گریاں، دل فسردہ ہے گریباں چاک چاک
- دل میں ہمارے عشق کی جلتی رہے گی آگ
- اُونچا نہ اڑا گرچہ مرا مرغِ تخیل
- صوفی ہیں دل کی بات ادھوری کریں گے ہم
- دل میں سوئی حسرتوں کو ہونٹ پر لے آئے کون
- ہم عجب رنگ سے گذرتے ہیں
- گر کر سکو تو یوں کرو
- پیامِ یار ملا ہے یہ مختصر ہم کو
- داغوں بھرا ہے غم سے مزین ہمارا سینہ
- اعتبارِ وفا نہیں باقی
- ہم خود سے رہے زیست کے ہر موڑ پہ شاکی
- درویشی میں حاصل ہمیں سلطان کے لہجے
- اے مرے یار! مرے ساتھ کچھ ایسا کر دے
- پودوں پہ پھول ساتھ ہی رہتے ہیں خار کے
- بے وفا پر جب کسی دن تم کو پیار آنے لگے
- عالمِ کرب میں نغمات بھی گائے ہیں کسی نے
- مری محبت کی منزلوں کے مٹا دیئے ہیں نشاں کسی نے
- روئے بھی ہیں دنیا کو رلایا بھی ہے ہم نے
- دن ڈھل گیا خوشی کا شبِ غم سوار ہے
- بجز تمہاری عنایتوں کے رہا ہمارا سہارا کیا ہے
- دوستوں میں عیب ہو تو وہ بتانا چاہئے
- نذرانۂ خلوص
- جنم دن کا تحفہ
- نالۂ رحلت
- قطعات
پنکھ
(شعری مجموعہ)
شکیل احمدؔ
انتساب
اپنے بھائی
ڈاکٹر محمد خلیل احمد کے نام
جس کی شخصیت میں مجھے اپنے والد کا پرتو نظر آتا ہے
حاکم کے لئے موت ہے وہ دورِ حکومت
جس میں نہ رہے فرق پسینہ ہے کہ ہے آب
حرفِ آغاز
میں شکر گزار ہوں اپنے مالکِ حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ کا جس کی توفیق و تائید اور نصرت سے اپنی تمام تر کم علمی، نا فہمی اور بے طاقتی کے باوجود ’’پنکھ‘‘ کے نام سے اپنا دوسرا مجموعۂ کلام آپ کے ذوقِ جمیل کی نذر کرنے میں کامیاب ہوا ہوں قبل ازیں میری کتاب ’’دھوپ سروں تک آ پہنچی‘‘ کی صورت میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکی ہے۔ لاکھوں درود و سلام ہوں حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذاتِ با برکات ستودہ صفات پر اُن کی آل اور اصحاب پر جن کی نظر کرم کی طلب خواص و عوام کو ہمیشہ رہتی ہے اگر اُس شفقت بھری محترم و مقدس نظر کا فیض اِس فقیر حقیر پُر تقصیر کو عمر کے ایک ایک پل میں حاصل رہا تو وہ اِسے نوجوانانِ جنت فرزندانِ فاطمہ و علی علیہم السلام حسنین کریمین کا صدقہ تصور کرتا ہے اور اپنے لئے ذریعہ نجات سمجھتا ہے۔
’’پنکھ‘‘ کی اشاعت و تیاری میں جہاں کچھ اپنوں کی نظریں میری علمی کمزوریوں ذہنی لاچاریوں اور فنی لغزشوں سے آگے نہ بڑھ سکیں وہاں صد شکر بہت سے اپنوں کی دعائیں بھی شاملِ حال رہیں۔ اُن کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی میرے بہت کام آئی میں اُن کے تعاون کے بغیر اِس کام کو شاید ہی اِس طرح سر انجام دے پاتا۔
ایسے ہی مہربان دوستوں میں سے میں انتہائی محترم حضرت خواجہ صلاح الدین اکبر صاحب، پروفیسرریٹائرڈملک منظور احمد بھٹہ صاحب، اُستاد مہینوال منگڑوٹھوی صاحب، میجر ریٹائرڈ طارق ندیم صاحب، طارق محمودخان بزدار صاحب زونل ہیڈ، خان منیر احمد خان صاحب زونل ہیڈ، پروفیسر محمد خان ملغانی صاحب، پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف شاہین قیصرانی صاحب کی پُر خلوص محبتوں کا شکر گزار ہوں۔ میں محترم ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب، اُستادِمحترم ابوالبیان شاعرِ ہفت زبان ظہور احمد فاتح صاحب، ارشاد تونسوی صاحب اقبال سوکڑی صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ’’پنکھ‘‘ کے بارے میں اپنی گراں قدر آرا پیش کیں۔ میں شبیر ناقد صاحب، محمد رمضان معینی صاحب، ریاض عصمت صاحب، سید مالک اُشتر صاحب کا احسان مند ہوں کہ وہ اس کتاب کی تیاری میں میرے ساتھ رہے۔ اپنے مرحوم چچا بربط تونسوی اور اُن کے ہونہار فرزند طاہر محمود خان سکھانی مرحوم کے لئے دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ ڈاکٹر محمد شاہ رخ خلیل، اُلفت حسین، امتیاز مٹھوانی، محمد علی خان، امجد علی خان، ماجد علی خان، حنظلہ حسن، راول شہزاد، حیدر حسن، محمد مصعب عزیز، محمد عمر عزیز، محمد طٰہ عزیز، عائشہ عزیز، مہین ارشد، ماہم علی، فروزش علی، ذکریٰ صاحب اور انتہائی پیارے سلمان خلیل کا شکر گزار ہوں اللہ تبارک و تعالیٰ اِن سب کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔
شکیل احمدؔ
15-06-16
٭٭٭
انفرادی لب و لہجے کا باکمال سخنور
شکیل احمد کے پہلے شعری مجموعے ’’دھوپ سروں تک آ پہنچی‘‘ کی باز گشت اہلِ نقد و نظر کے ذہن و ادراک کو اپنی اسلوبیاتی اور موضو عاتی انفرادیت کے تناظر میں نہ صرف متاثر کر رہی تھی بلکہ اِس نے حیرت انگیز صورت حال کے تناظر میں اپنے حصار میں بھی لے رکھا تھا کہ اِس کے نئے شعری مجموعے ’’پنکھ‘‘ نے اُنہیں عالمِ حیرت واستعجاب کی ملی جلی کیفیات سے دوچار کر کے نام کی معنویت اور موضوعات کی انفرادیت کی بنا پر اُنہیں اِس کا گرویدہ کر دیا۔ تحسین تنقید کے یہ جملے میں نے بہ قائمی ہوش و حواس تحریر کئے ہیں اور کہیں پر بھی صنعتِ مبالغہ سے کام نہیں لیا۔ یقین نہ آئے تو ’’پنکھ‘‘ کا مطالعہ اپنے لئے ضروری ہی نہیں بلکہ ’’لا ضروری‘‘ بنا لیں تاکہ میرے محولا بالا جملوں کی صداقت پر اُنہیں بھی یقین آ جائے میں نے اِس کے پہلے شعری مجموعے ’’دھوپ سروں تک آ پہنچی ‘‘کو نئے طرزِ احساس کی شاعری قرار دیا تھا اور اُس کے بیک ٹائٹل پر میری جو رائے درج ہے وہ کچھ یوں ہے۔ شکیل احمد نے اپنی غزلوں میں دردِ محبت سے پیدا شدہ صورتحال کی جو لفظی تصویر کشی کی ہے اس سے اس کی داستانِ عشق جاذب نظر رنگوں سے مزین ہو کر سامنے آتی ہے اس کی خوبی یہ بھی ہے کہ اُس نے سیدھے سادے مگر دل میں اترنے والے انداز میں احوالِ دل بیان کیا ہے اور کہیں پر بھی شعبدہ بازی نہیں دکھائی اِس لئے وہ سچا شاعر بھی ہے اور سُچا بھی، اور جو گیان اُسے حاصل ہوا ہے اِس کی بنا پر وہ اپنے ہم عمر اور ہم عصر شاعروں میں ممتاز و منفرد دکھائی دیتا ہے ‘‘
میرے نزدیک یہی حساسیت اور کیفیت اُس کی نظموں میں بھی موجود ہے اُس کی ایک نظم ’’حسنِ جاناں‘‘ قندِ مقرر کے طور پر دیکھئے :
تمہارے ہونٹوں کی سرخ رنگت چمن میں کھلتے گلاب جیسی
بھڑکتے شعلوں کی مثل یا پھر کشید ہوتی شراب جیسی
٭
تمہارے قدموں کی چاپ سُن کر خیال ترتیب پا رہے ہیں
تمہارے قدموں کی خاک بننے کی جسم ترغیب پا رہے ہیں
٭
تمہاری آنکھوں کے دم سے دنیا میں بن رہا ہے مقامِ شاعر
تمہارے ابرو کی ایک جنبش سے منسلک ہے کلامِ شاعر
حسنِ بیان اور حسنِ احساس کی یہی کیفیت اور یہی طرزِ احساس اور محسوساتی کیفیت اُس کے دوسرے شعری مجموعے ’’پنکھ‘‘ میں بھی موجود ہے اور اُس کی شاعرانہ فعالیت اور فکری حساسیت کا منظر نامہ تشکیل دیتی ہے۔
شکیل احمد کا فن اور اُس کی تخلیقی فعالیت یوں تو اُس کی غزل میں نمایاں طور پر اُبھر کر سامنے آتی ہیں اور اُسے لفظوں کے برتنے کا ہنر بھی آتا ہے تاہم چھوٹی بحر کی غزلوں میں اُس کی فنی مشاطگی بھرپور طریقِ اظہار سے نمایاں دکھائی دیتی ہے چند اشعار میرے محولہ بالا دعوے کی دلیل بن کر سامنے آتے ہیں اور اِس میں ’’میں ‘‘کا وجودی استعمال اُس کے لب و لہجے اور مضمون کو اور بھی نکھار دیتا ہے چند شعر دیکھئے :
پڑتی ہے مگر دیدۂ بینا کی ضرورت
ہو سکتا ہے پت جھڑ میں بہاروں کا نظارا
ہم نے یہ کرشمہ بھی دکھایا ہے جہاں کو
مہتاب انا کرۂ ارضی پہ اُتارا
٭
گلشنِ دل ہرا بھرا ہو گا
راحتِ جاں بنا ہوا ہو گا
آشنائے مزاج دل ہوں میں
تم پہ آئے گا اور فنا ہو گا
٭
ہجر کے درد سے بڑھ کر ہے تِرے وصل کا حظ
اپنے خوابوں میں خیالوں میں نہ آنے والا
میں وہ سادھو ہوں جو ہے عقل و خرد سے بیزار
میں نہیں آنکھ سے کاجل کو چرانے والا
٭
حاکم کے لئے موت ہے وہ دورِ حکومت
جس میں نہ رہے فرق پسینہ ہے کہ ہے آب
احمدؔ تمہیں پاگل ہی کہے گا یہ زمانہ
دیکھو گے اگر جاگتی آنکھوں سے کوئی خواب
اِن انتخابی اشعار کی تشریح و توضیح کی ضرورت نہیں اِس لئے اِن میں تخلیق کار کا تراشیدہ ہوا لفظ اور اُس کے پس منظر میں پوشیدہ معنی شفاف ندی کے پانی کی طرح منور دکھائی دیتے ہیں اور شاعر کا کمال یہ ہے کہ اُس نے الفاظ کا ضیاع کئے بغیر مفہوم و معنی کو ادا کرنے کو ترجیح دی ہے اور اِس طرح اپنے لب و لہجے میں شیرینی اور چاشنی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش بھی شعوری تخلیقی عمل کا نتیجہ بن کر قاری کے سامنے آتی ہے۔
شکیل احمدؔ کی غزلوں کا مطالعہ قاری کے لیے ہر لمحہ ایک نیا بابِ معانی کھول دیتا ہے اور یوں اُس کی سادہ مگر پر اثر لفظیات موضوع کو زمین سے اُٹھا کر آسمان پر منقش کر دیتی ہے شکیل احمدؔ کی غزل کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اِس میں کہیں پر بھی یاسیت کا پرتو نظر نہیں آتا بلکہ امید اور حوصلہ مندی کی کرن اُبھرتی دکھائی دیتی ہے مثال کے طور پر یہ اشعار:
اتنی امید بھر دو دلِ نامراد میں
آئے تو آ نہ پائے کبھی بے بسی کی سوچ
احمدؔ سرور و کیف کا عالم نہ پوچھئے
چھائی رہی دماغ پہ شب بھر کسی کی سوچ
شکیل احمدؔ کی غزلوں کا مطالعہ کرتے جائیں تو اِس بات کا قوی احساس ہوتا ہے کہ اُس کا ذہنِ رسا ایسے ایسے موضوع سامنے لاتا ہے جو کسی دوسرے شاعر کے ہاں نظر نہیں آتے یوں وہ اپنے ہم عصر شاعروں خاص طور پر نئی نسل کے تخلیق کاروں میں لب و لہجے کے لحاظ سے منفرد نظر آنے لگتا ہے اُس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ایک تو اُسے بحور پر قابو ہے دوسرے کم سے کم لفظوں میں اپنی سوچ و فکر کو سمیٹنے کا سلیقہ بھی آتا ہے اور اِن مراحل میں وہ کہیں پر بھی ٹھوکر نہیں کھاتا بلکہ بڑی حوصلہ مندی اور ہنر مندی سے اپنے فکر و خیال کو الفاظ کا ملبوس عطا کر دیتا ہے مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھئے :
پیار کرنا ہے تو نہایت کر
اعتبارِ وفا نہ غارت کر
جب سیاست منافقت ٹھہرے
خود کو بیگانۂ سیاست کر
بے کسوں کو اماں جو دے نہ سکے
ایسے آئین سے بغاوت کر
یوں اُس کا لب و لہجہ احتجاجی رنگ اختیار کرنے لگتا ہے اِس طرح وہ اپنے جذبات و احساسات اور پسند و ناپسند کو واضح طور پر بیان کر دیتا ہے اور یوں وہ لگی لپٹی رکھنے کا قائل بھی نہیں ہے تاہم کہیں کہیں پچھتاوے کی صورت بھی نکل آتی ہے تو وہ کہہ اُٹھتا ہے :
تیری تصویر نظر میں نہ سجاتا اے کاش
اپنے پہلو میں تجھے میں نہ بٹھاتا اے کاش
اور پھر یہ اظہار بھی دیکھئے :
اُس کی گلیوں میں پھرا کرتا میں ننگے پاؤں
تیری یادوں کا کوئی شہر بساتا اے کاش
اِس پس منظر میں ’’پنکھ‘‘ کی غزلوں کا مطالعہ کرتے جائیں تو ہر صفحے پر لفظ و معانی کا ایک نیا جہان آباد دکھائی دیتا ہے۔ تاہم بعض غزلوں کے سبھی اشعار مجموعے میں شامل نہ ہوتے تو اچھا تھا کیونکہ اِس سے تاثریت میں کمی آنے کا خدشہ رہتا ہے مگر شکیل احمد کی تخلیقی خوبی یہ بھی ہے کہ فنی اور معنوی اعتبارات سے لفظوں پر اُس کی گرفت ڈھیلی نہیں پڑی اور اُس نے اپنے تخلیقی جوہر کا کمال واضح طور پر دکھایا ہے یہ شعر اُس کے اعجازِ فن کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں :
ہم کو نجمِ سحر سمجھ لو تم
آخرِ شب میں ہم اُبھرتے ہیں
آئینے سوچ کے تِرے آگے
بے طرح ٹوٹ کر بکھرتے ہیں
میرے نزدیک یہی اُس کا با وقار اور پر تمکنت لب و لہجہ ہے جو غزل کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کراتا ہے اور لمحۂ موجود میں اُس کی شعری آواز ادبی دنیا میں اپنی بھرپور معنویت و تمکنت اور ایقان سے گزرتی ہوئی اپنے عہدکا منظر نامہ تشکیل دیتی ہے۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی
٭٭٭
تقریظ
اللہ مالک القدوس نے لا تعداد مخلوقات پیدا فرمائی ہے اور اُن میں حضرتِ انسان کے سر تاجِ فضیلت رکھا ہے جس کا سبب در حقیقت یہ ہے کہ حضرتِ آدم علمی مسابقت میں گوئے سبقت لے گئے تھے اور معشرِ ملائکہ کو ندامت کا سامنا کرنا پڑا تھا کیوں کہ وہی تخلیقِ آدم پر نا آسودہ دکھائی دے رہے تھے اور اُنہیں ہی حضرت آدم کے مقابلے میں علمی کم مائے گی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اِسی طرح تخلیق شدہ آلات میں سے سب سے معتبر آلہ قلم ہے جو علم و دانش کے نکات کو احاطۂ تحریر میں لانے کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ جس انسان کو متاعِ قلم عطا ہو جاتی ہے وہ خوش نصیب ہے، وہ نیک نام ہے وہ لائقِ عزت ہے اور واجب التکریم ہے کیونکہ اُس کے رشحاتِ قلم کے نتیجے میں بہت سی اچھی اچھی باتیں اور پیارے پیارے کلمات سے بنی نوعِ انسان کی تواضع ہوتی ہے پھر عالمِ ادبیات میں زمرۂ شعرا تو اور بھی ممتاز مقام رکھتا ہے کیونکہ اُسکا ایک ایک شعر بسیط ابواب پر بھاری ہوتا ہے اُسکا کلام ایسا سریع الاثر ہوتا ہے کہ سننے والا قلیل وقت میں بڑے بڑے فیصلے کر گذرتا ہے یوں تاریخِ اقوام میں اِس تلمیذ الرحمان نے بڑے معرکے سَر کئے ہیں اور قومی زندگی کے دھارے کا رخ موڑ دیا ہے۔ ایران میں استاد عبداللہ رود کی، خواجہ حافظ شیرازی، شیخ سعدی، اور مولانا رومی کے اسمائے گرامی سے کون واقف نہیں اِسی طرح ارضِ پاک و ہند میں بھی بہت سے جلیل القدر شعراء پیدا ہوئے میر تقی میرؔ، خواجہ میر دردؔ، حیدر علی آتشؔ، اسد اللہ غالبؔ، الطاف حسین حالیؔ، اکبرؔ الہ آبادی، ڈاکٹر محمد اقبالؔ اور فیض احمد فیضؔ جیسی شخصیات محتاجِ تعارف نہیں جنہوں نے تاریخ برِصغیر کو گلہائے رنگا رنگ سے نواز ہے۔
عصرِ حاضر میں بھی ماشاء اللہ بہت سے سخنور اپنے اپنے انداز میں نجومِ لاعمہ سے کم نہیں یہاں اتنی گنجائش نہیں کہ اِن حضرات کی شعری موشگافیوں کا احصا کیا جائے۔ تاہم آج ہم جس شاعر کا ذکرِ خیر اُسکی تازہ کتاب کے حوالے سے کر رہے ہیں وہ محمد شکیل احمدؔ ہے اور اُسکی مؤقر کتاب ’’پنکھ‘‘ کے نام سے آپ کے خوب صورت ہاتھوں میں ہے۔ یہ موصوف کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے اِس سے قبل ’’دھوپ سروں تک آ پہنچی‘‘ کے نام سے موسوم اِسکی کتاب خوب دادِتحسین سمیٹ چکی ہے در اصل یہ منفرد لب و لہجے کا شاعر اپنے خاص اسلوب میں رہتے ہوئے اشعار کے موتی اہلِ ادب کی نذر کرتا ہے شخصیت کے تناظر میں احاطۂ سخن قدرے آسان ہو جاتا ہے، شکیل احمد ایک متواضع اور منکسر المزاج انسان ہے لیکن یہ بھی نہیں کہ وہ اِس انکساری میں احساسِ ذات کو بالا تر رکھ دیتا ہو کیوں کہ اُسے اپنی اہمیت اور افادیت کا احساس ہے وہ سچا خادم خلق ہے لیکن معصوم بچوں کی طرح رنجیدہ بھی بہت جلد ہو جاتا ہے اور ہونا بھی چاہئے کہ جن احباب کی قدر و منزلت، عزت افزائی اور تواضع شکیل احمد صدقِ دل سے کرتا ہے اگر وہ لوگ بھی اُس کی عزتِ نفس کا خیال نہیں کریں گے تو اُن سے مزید کیا توقع رکھی جا سکتی ہے شکیل احمدؔ سادگی پسند کرتا ہے اور یہی سادگی اُس کے فنی محاسن کا بھی لازمہ ہے وہ گفتگو کے انداز میں شعر کہتا ہے اور شاعری کے رنگ میں گفتگو کرتا ہے بسا اوقات وہ بڑی گہری باتیں کر جاتا ہے اور کبھی کبھی اہلِ جہاں کو کھری کھری بھی سنا دیتا ہے اُسکی طینت میں دینی سرشت بسی ہوئی ہے وہ اپنے مالک و خالق کے علوئے شان کا معترف ہے چنانچہ وہ یہ بات بخوبی سمجھتا ہے کہ:
احمدؔ ہے فقط نصرت باری کا طلبگار
کمزور ہے نا پختہ ہے دنیا کا سہارا
وہ خالص انسانی اقدار کا حامل ہے اور ہر طرح کی افراط و تفریط سے بچنا بچانا ضروری سمجھتا ہے ذرا اُسکا یہ شعر ملاحظہ ہو:
جارحانہ میں عزائم نہیں رکھتا احمدؔ
جھکنے والا ہوں کسی کو نہ جھکانے والا
یہ فطرتِ انسانی کا خاصہ ہے کہ معاشرتی حیوان ہونے کے ناتے مل جل کر رہنا اُس کے نزدیک پسندیدہ ہے تاہم بحیثیت شاعراُس کا مطالبہ اور بھی کچھ بڑھ جاتا ہے اور وہ ہے بزم آرائی یعنی دوست احباب اور ہم ذوق لوگوں سے ہم مجلس ہونا لیکن عصری رویے اُس کی حوصلہ شکنی کرتے دکھائی دیتے ہیں اسی زیادتی کا شکوہ کرتے ہوئے شکیل رقم طراز ہیں :
دو چار دوستوں کی یہی بزم رہ گئی
اُس پہ بھی اعتراض اُٹھانے لگے ہیں آپ
جہاں محفلیں سجتی ہیں وہاں طرح طرح کے لوگ آتے ہیں اپنے بھی بیگانے بھی شائستہ بھی اور ناشائستہ بھی لیکن مہذب لوگوں کو غیر مہذب لوگوں کا انداز کھلتا ہے یہی معاملہ شکیل احمد کے ساتھ ہے :
اپنے بھی بولنے لگے غیروں کی بولیاں
غیروں کو انجمن میں بلانے لگے ہیں آپ
قدرت کا یہ تقاضا ہے اور یہی اصولِ فطرت بھی ہے کہ مالکِ حقیقی کی عنایات پر یوں اظہارِ تشکر کیا جائے کہ وہ ذاتِ مہربان راضی ہو جائے مگر لوگوں کے رویے اِس کے برعکس ہیں یعنی وہ اُلٹا فخر و مباہات کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اِسی باریکی کی طرف شاعرِ حساس کی نگاہ لازمی پہنچتی ہے چنانچہ وہ کہہ اُٹھتا ہے :
وہی ہیں باعثِ آزار اِس زمانے میں
خدا نے بخشی جنہیں شادمانیاں ہیں بہت
شکیل احمد کی شاعری روکھی پھیکی یا پروپیگنڈے کی حامل شاعری نہیں ہے بلکہ وہ جذبۂ محبت کا پاسدار بھی ہے اُس کے کلام میں رومانویت کی لطیف فضا بخوبی مشاہدہ کی جا سکتی ہے ہجر و وصال اور لطف و ستم کی تمام تر کیفیات سے وہ آشنا ہے اور یہ قرینہ رکھتا ہے کہ خود علامی کیسے کی جا سکتی ہے وہ تعمیری ذہن رکھتا ہے اور مسئلے کے حل کی مثبت فکر اُسے مایوسی سے بچائے رکھتی ہے ذرا یہ شعر دیکھئے :
برسوں سے دل میں ہجر کے گھاؤ تھے اَن سلے
حاجت میں کام آ گئی بخیہ گری کی سوچ
شاعری کیا ہے ایک بھر پور وسیلۂ اظہار ہے اور جب موقع اظہارِ شوق کا ہو تو اہلِ سخن ساون بھادوں کے بادل کی طرح برستا ہے شکیل کا یہ شعر دیکھئے :
احمدؔ تمہیں قدرت نے عطا کر دیا موقع
جی بھر کے کرو پیار کا محبوب سے اظہار
واہ واہ سبحان اللہ لطف آ گیا کیا بر جستگی ہے کیا بے ساختہ پن ہے کیا وفورِ شوق ہے اہل دل کا یہ المیہ رہا ہے کہ اُنہیں محبت کا جواب محبت سے شاذ ہی ملتا ہے خلوص کے بدلے میں سرد مہری اور چاہت کے بدلے میں بے رخی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن شاباش ہے اِس علمبردارِ جنوں کو ببانگ دہل یہ اعلان کر رہا ہے کہ چاہے محبت راس آئے نہ آئے ہم اپنے اندازِ شوق سے ہٹنے والے نہیں شعر ملاحظہ ہو:
اے اہلِ شہر پھر بھی محبت کریں گے ہم
آئی کبھی اگرچہ محبت ہمیں نہ راس
ایک اچھا شاعر ہمیشہ کلامِ دلنشیں سے اپنے سامعین کی ضیافتِ طبع کا سامان کرتا ہے اور اِسی طرح کا سخن پارہ شکیل احمد کا یہ شعر ہے :
عشق ایسی شئے ہے جس میں عاشقوں کے واسطے
زہر میں بھی شہد ہے اور شہد سے اُکتائے کون
زندگی بہت پیچیدہ ہے خصوصاً عہدِ رواں کے تقاضوں نے اِسے اور بھی مغلق بنا دیا ہے بظاہر اہلِ جہاں شادماں ہیں کہ وہ رو بہ ترقی ہیں اُن کے ہاں علم و آگہی کا دور دورہ ہے اُن کے تمدن میں عرفان و دانش کو فروغ حاصل ہے اور وہ شاہراہِ ارتقا پر منازل پر منازل طے کر رہے ہیں مگر یہ بات شکیل احمدؔ جیسا سخن سنج محسوس کر سکتا ہے کہ ہمارا موجودہ نظام تعلیم روح انسانیت سے عاری ہے تربیت جلبِ زر اِس کا خاصہ ہے اور اکثر و بیشتر فلسفۂ سودوزیاں پر منحصر ہے شکیل احمدؔ کا یہ شعر اِسی المیہ پر صدائے احتجاج ہے :
درسگاہوں میں پڑھائے جاتے ہیں زر کے اصول
کیا خبر اب رازِ ہست و نیست کو سلجھائے کون
علیٰ ھٰذالقیاس یہ پاسدار شعر و ادب صرف میدانِ غزل کا ہی شہ سوار نہیں بلکہ عالمِ منظومات میں بھی یدِ طولیٰ رکھتا ہے اُسکی نظمیں پُر اثر اور پُر مغز واقع ہوئی ہیں اِسی پر بس نہیں اُس نے خوب صورت قطعات بھی قلمبند کئے ہیں جو خود میں ایک جہانِ معنی لئے ہوئے ہیں شاید گفتگو کے کئی ابواب ابھی تشنہ ہوں تاہم وقت اور صفحات کی تنگ دامانی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے راہوارِ قلم کی باگ کھینچتے ہیں اور شکیل احمدؔ کے حق میں نیز اُسکی شاعری کی نسبت سے دعائے خیر کرتے ہوئے اجازت کے خواستار ہیں۔
ظہور احمد فاتحؔ
فاتح منزل تونسہ شریف
12-06-2016گیارہ بجے شب
0332-6066364
?
شکیل احمدؔ میرے عزیز بھی ہیں اور ہمارے فقیری سلسلے کے ایک رکن بھی ان سے پہلے بھی اس خانوادے میں شاعری کی روایت بڑی مضبوط ہے۔ بربطؔ صاحب اور ہمدمؔ صاحب تونسہ شریف کی ادبی دنیا کے معروف نام ہیں ہمدمؔ صاحب سے میری بھی دیرینہ نیاز مندی ہے اپنے ابتدائی ادبی سفر میں مجھے ان کی رفاقت حاصل رہی اور اُن سے اکتسابِ فیض کا شرف حاصل رہا۔ ہمدمؔ صاحب بہت قادر الکلام شاعر ہیں خاص طور پر کسی کی مدح اور ذم میں ان کا کوئی ثانی نہیں شکیل احمدؔ کی ایک دور کی نسبت علامہ فیضـؔ تونسوی سے بھی ہے علامہ صاحب کی زندگی میں تونسہ کی ادبی فضا میں بڑی گرما گرمی رہی ان کے ہم عصروں میں حضرت خواجہ سدیدالدینؒؔ صاحب سجادہ نشین حضرت شاہ سلیمانؒ تونسوی استاد فدا تونسوی اور طائر صاحب کے نام نمایاں ہیں طائر صاحب کے یہ اشعار تونسہ کے زن و مرد مختلف مواقع پر دہراتے رہتے ہیں خواہ ان کا شعرو شاعری دور کا واسطہ بھی نہ ہو:
یہی رشک بلبل کی جاں لے گیا ہے
مزہ گل کی صحبت کا خاروں نے لوٹا
یہ اپنے مقدر کی باتیں ہیں طائر
بچے دشمنوں سے تو یاروں نے لوٹا
اگر اس روایت کو تھوڑا آگے لے جائیں تو فکر تونسوی بھی اسی زمانے میں شاعری کرتے تھے گو انہیں تونسہ کی فضاؤں میں زیادہ عرصہ رہنے کا موقع نہیں ملا لیکن ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’’ہیولے ‘‘ ہمیشہ تونسہ کے ادیبوں، دانشوروں کو روشنی اور اُن کی فکر کو تازگی عطا کرتا رہیگا۔
شکیل احمدؔ اسی ادبی روایت کا حصہ ہیں شکیل احمدؔ کی شاعری میں قدیم اور جدید افکار کی کشمکش پورے طور پر نمایاں نظر آتی ہے اُن کی شاعری میں جہاں یہ اشعار نظر آتے ہیں :
سر پہ سورج تھا مگر دھرتی پہ تھا ظلمت کا راج
یہ تماشا پانچ جولائی ستتر کو ہوا
چیخنا تو چاہتے تھے لوگ دھرتی کے مگر
خوف و دہشت کا سماں تھا کوئی کچھ بولا نہ تھا
دوسری طرف یہ شعر بھی انہی کی سوچ کا عکاس ہے :
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے جم خانوں کی رونق
ویران مساجد ہوئیں چپ منبر و محراب
حالانکہ یہ شعر کتنا خلافِ واقعہ ہے ان کے ممدوح ضیاء الحق کے بعد مساجد کی رونق دگنی بلکہ چوگنی ہو گئی ہر طرف محافلِ شبینہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر پانچوں وقت کی اذان اور ہر مسجد پر چار چار لاؤڈ سپیکر کے ہارن ہر طرف حمد و نعت کی صدائیں اور ان کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے ہے۔
علامہ اقبالؔ کا اثر بھی ان کی شاعری پر بہت نمایاں ہے علامہ صاحب کا ڈکشن ان کی پوری شاعری پر محیط ہے گو بات کہنے کا اسلوب ان کا اپنا ہے۔
کہیں کہیں علامہ صاحب کے اشعار کا توارد بھی ہو گیا ہے بانگِ درا کا یہ شعر دیکھئے :
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
نگہ ان کی مستی میں ہشیار کیا تھی
شکیل احمدؔ کا یہ شعر:
خدا جانے ہشیاری کیا رنگ لائے
نشے میں لیا اپنے عاشق کو تاڑ
شکیل احمدـؔ نے اپنی غزل کے لیے بڑی مشکل زمینیں منتخب کیں اور بڑے مشکل قافیے لائے شعر کہنے کی اُن میں بڑی صلاحیت موجود ہے میرا انہیں مشورہ ہے کہ وہ شاعری کی نظریاتی بندھنوں سے اپنی فکر آزاد کریں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ارشاد تونسوی
29؍اگست2015ء
٭٭٭
?
ولیؔ دکنی سے لے کر میر تقی میرؔ تک اور میر تقی میرؔ سے لے کر میر انیسؔ تک اُردو زبان اپنی صفائی ستھرائی کا کام کرتی رہی اس عرصے میں بہت سے الفاظ متروک قرار پائے اسی طرح مختلف ادوار میں اردو غزل نے مختلف انداز میں انگڑائیاں لے کر اپنی حیثیت کو منوانے میں کردار ادا کیا۔ زیر نظر مجموعہ شکیل احمد کی کاوش ہے شاعر نے اپنے اس مجموعے میں جہاں قدیم و جدید کا حسین امتزاج متعارف کرایا وہیں اپنے فن میں ایک نئی طرح کی روایتی جدت کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے قارئین کو حیرت زدہ کر دیا کہ اتنے عرصے بعد کسی منچلے نے شاعری کے ساتھ کھیلنا چاہا۔
شکیل احمدؔ نے جہاں ادب برائے ادب کو ملحوظ خاطر رکھا وہیں اپنے کلام میں ادب برائے زندگی کی کڑواہٹ بھری مٹھاس بھی محسوس کرانے کی خوبصورت کوشش کی۔
کچھ لوگ اپنی رائے لکھتے وقت مصنف کے کچھ اشعار یا عبارت بطور نمونہ پیش کرتے رہتے ہیں میرے نزدیک لکھاری کی توہین کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے حالانکہ لکھنے والے سے اُسکی محنت کا تھوڑا سا حصہ الگ کر کے یہ کہا جائے کہ یہ اچھی کوشش ہے میرا مطلب ہے شکیل احمدؔکا یہ مجموعہ اُنکی اچھی کوشش ہے اِسے پڑھئے اور اپنی رائے قائم کیجئے۔
اقبال سوکڑی
5-06-2016
٭٭٭
حمد
تو ہے داتا تو ہے آقا تو ہی سب سے قدیم
تیری ذات ہے اعلیٰ ارفع تیری شان عظیم
بے شک قوت حکمت طاقت ہیں تیرے اوصاف
ہم نے پڑھا قرآن میں تیرے تو رحمان رحیم
تو نے ہماری جانب بھیجے جتنے اپنے رسول
سب نے بلایا تیری جانب سب کا ایک اصول
سیدھی راہ دکھائی سب نے انسانوں کو عام
سب کچھ واضح کر کے دکھا دیا ہر اِک پھول ببول
تو نے ہماری راہنمائی کو بھیجا قرآن
فکر و عمل کی کر دی جس نے ہر مشکل آسان
ستر ماں کے پیار سے بڑھ کر تجھ کو ہم سے پیار
انساں کو بھی چاہئے تیرا شکر کرے ہر آن
تو نے ڈھیروں نعمتیں دے کر بھیجا ہے رمضان
قید میں کر دیا تو نے اس رمضان میں ہر شیطان
بخشش کا سامان دیا ہے تو نے اس کے ہاتھ
فضل و کرم سے اپنے اس میں بخشا پاکستان
اپنا اپنا فرض نبھانے میں چاق و چوبند
دینا ہو آرام کسی کو یا مقصود گزند
نور سے تیرے پیدا ہوئے ہیں عیبوں سے ہیں پاک
تیرے فرشتے تیرے ہر اِک حکم کے ہیں پابند
ہر اِک شخص نے جی اٹھنا ہے موت کے بعد ضرور
سامنے ہوں گی نیتیں سب کی نیکیاں اور قصور
تیرے کرم کی امیدوں کے لے کر ہاتھ میں پھول
خالی دامن آئے گا احمدؔ اُس دن تیرے حضور
٭٭٭
نعت شریف
روئے انور آپ کا ہے عشرتِ شاہ و گدا
آپ کا فرمانِ اقدس فرحتِ شاہ و گدا
آپ ہی آنکھوں کی ٹھنڈک آپ ہی دل کا سرور
آپ ہی سے منسلک ہے راحتِ شاہ و گدا
آپ جیسا اِس جہاں میں کوئی بھی آیا نہیں
آپ کی چشمِ کرم ہے حاجتِ شاہ و گدا
ہم ہمارے بچے بھائی والدین اِس پر نثار
آپ کی حرمت ہے آقا سطوتِ شاہ و گدا
آپ کی دوری میں ہے اندیشۂ بے مائیگی
آپ کا ہے قرب وجہِ وقعتِ شاہ و گدا
گرتے پڑتے آپ تک پہنچے ہیں ہم ہوں باریاب
ماند پڑتی جا رہی ہے طاقتِ شاہ و گدا
اے شفیع المذنبیں اے رحمت اللعالمیں
بحرِ رحمت میں ڈبو دے کلفتِ شاہ و گدا
اے خدا کے پاک پیغمبر رسولِ ذی حشم
دور از راہِ کرم ہو عسرتِ شاہ و گدا
لاج رکھ لی شافعِ محشر نے روزِ حشر بھی
ورنہ سب نے دیکھ لی تھی عزتِ شاہ و گدا
موجزن ہو دل میں شوقِ دیدِ محبوبِ خدا
قابلِ تحسیں ہو احمدؔ رحلتِ شاہ و گدا
٭٭٭
اگرچہ مخلوق اور بھی تھی ہمیں ہی بخشی گئی ذہانت
ہر ایک مخلوق سے ہیں اشرف، ہے رب کی حاصل ہمیں نیابت
جو واحد و لاشریک بھی ہے رؤف بھی ہے رحیم بھی ہے
جہاں میں آئے ہیں اِس لئے ہم کہ اپنے رب کی کریں عبادت
ہمارے قائد محمدؐ مصطفی رسولِ خدا ہیں لوگو
نہ حشر کے روز ہو گی بخشش کریں گے جب تک نہ وہ شفاعت
کلامِ باری تعالیٰ قرآں ہمارا دستورِ زندگی ہے
جو متقین اور اہلِ ایماں کے واسطے ہے نِری ہدایت
ہماری منزل نفاذِ اسلام ہر جگہ ہر کسی کی خاطر
ہمارا رستہ جہاد ہے اور ہمارا مقصود ہے شہادت
ہمارا قبلہ ہے کعبۃ اللہ مقامِ امن اور حج عمرہ
سرورِ قلب و نظر متاعِ حیات جس کی ہے اِک زیارت
ہماری آنکھوں کی تازگی ہے ہمارے پیارے نبیؐ کا روضہ
اِسی سے قائم بھرم ہمارا اِسی سے سینوں میں ہے طراوت
عمل احادیث پر ہے اپنا تو فکر ماخوذ فقہ سے ہے
کمالِ اخلاق ہے تصوف نفوس کی جو کرے طہارت
صحابہ سارے نجوم روشن فلاح پائیں گے اِن کے پیرو
خدا سے راضی ہیں یہ خدا بھی ہے اِن سے راضی بصد سلامت
غلام ہیں ہم بصد عقیدت حسن حسین اور علی کے احمدؔ
کہ جن کا کردار دے رہا ہے ازل سے ہر ناتواں کو طاقت
٭٭٭
امام عالی مقام
لعلِ یمن سے بڑھ کے تھی صورت حسین کی
شوقِ عمل بڑھاتی ہے سیرت حسین کی
فرزندیِ امام کا حق یوں ادا کیا
ضرب المثال بن گئی جرأت حسین کی
کٹنا بھی ہے جو سر کو تو سجدے میں سر کٹے
پیغام دے رہی ہے شہادت حسین کی
ذکرِ حسین باعثِ برکت ہے دوستو
وجہِ سکونِ دل ہے زیارت حسین کی
شاہد ہے خود اذیتی لاکھوں کی ہر برس
رب نے قبول کر لی عبادت حسین کی
پھر پر فشاں یزید ہے اور اُس کی فوج ہے
پھر چاہئے جہاں کو امامت حسین کی
اے کاش اُن کے پاؤں کو چھونا نصیب ہو
پلکیں بچھا بچھا کروں خدمت حسین کی
عالم کو اعتراف ہے صدق و خلوص کا
کس درجہ معتبر تھی سیاست حسین کی
تیر و تفنگ میں بھی خیانت نہ اِس میں ہو
ہے دوستو! نماز امانت حسین کی
رشکِ نجوم و شمس و قمر کیوں نہ ہو بھلا
جس دل میں موجزن ہو محبت حسین کی
لختِ جگر کی لاش کو کاندھے پہ لے چلے
یہ حوصلہ یہ وصف یہ ہمت حسین کی
احمدؔ میں اپنی پیاس بجھاتا ہوں جب کبھی
آتی ہے یاد تشنگی حضرت حسین کی
٭٭٭
وہ جس کے بنا کٹتا نہیں پل بھی ہمارا
مل جائے تو ہوتا نہیں عادت کو گوارا
پڑتی ہے مگر دیدۂ بینا کی ضرورت
ہو سکتا ہے پت جھڑ میں بہاروں کا نظارا
ہم نے یہ کرشمہ بھی دکھایا ہے جہاں کو
مہتابِ انا کرۂ ارضی پہ اتارا
جیتی ہوئی فوجوں کی طرح قاہر و بے باک
اے حسن! ترے بحر کا چڑھتا ہوا دھارا
تنہائی کو بھی بزم بناتی رہیں اکثر
بھولی ہوئی یادیں ہوئیں جب انجمن آرا
کچھ اور تو ہو پایا نہیں ہم سے جہاں میں
اِک زلفِ پریشاں تھی جسے ہم نے سنوارا
مرغانِ گلستان نے کہے تیرے قصیدے
صدقہ تیرے رخسار کا پھولوں نے اتارا
پھر دوست نہ دولت نہ مراتب کوئی اپنے
چھُپ جائے اگر ابر میں قسمت کا ستارا
احمدؔ ہے فقط نصرتِ باری کا طلبگار
کمزور ہے نا پختہ ہے دنیا کا سہارا
٭٭٭
گلشنِ دل ہرا بھرا ہو گا
راحتِ جاں بنا ہوا ہو گا
پیار کرتے ہیں اپنے قاتل سے
ہم سا نادان کوئی کیا ہو گا
کر گیا اِس قدر اثر جلدی
تیر یہ زہر میں بجھا ہو گا
جس کو ہم سہہ رہے ہیں برسوں سے
کب کسی نے ستم سہا ہو گا
آشنائے مزاجِ دل ہوں میں
تم پہ آئے گا اور فنا ہو گا
حال کیا پوچھتے ہو احمدؔ کا
بے کفن دھوپ میں پڑا ہو گا
٭٭٭
کسی کے ساتھ جو ہوتے برا نہ دیکھے گا
وہ بے اثر کبھی اپنی دعا نہ دیکھے گا
میں کہہ رہا ہوں مجھے اپنے عشق پر ہے یقیں
تو میرا دل سے بھلانا ذرا نہ دیکھے گا
ہے اور بھی کوئی شاہد تمہارے عصیاں پر
کرو گے چھپ کے اگر کیا خدا نہ دیکھے گا
یہ اور بات کہ بعد از فلاکتِ مظلوم
ستم گروں کی تباہی زمانہ دیکھے گا
ہمارے ہونٹ سے نکلی ہوئی حقیقت میں
وہ شخص اپنے لئے اِک فسانہ دیکھے گا
کسی کے ضبط کے بندھن پھر اُس کے بعد نہ پوچھ
لہو میں اپنا اگر آشیانہ دیکھے گا
کروں گا نقش گری غم کی اِس طرح کہ عدو
مِری بُکا میں بھی میرا ترانہ دیکھے گا
تباہ کاریِ ایٹم کسے نہیں معلوم
کوئی نہ فصل سلامت نہ دانہ دیکھے گا
ہے نسلِ نو میں مسلم تبحرِ علمی
شعور و علم و ادب کا خزانہ دیکھے گا
حقیقتوں کا جب احمدؔ نہ اعتبار رہا
تو کوئی کیسے بنا کر بہانہ دیکھے گا
٭٭٭
منظرِ شہر لگا خاک اُڑانے والا
اِس طرح روٹھ گیا روٹھ کے جانے والا
چشم حیراں ہے کہ تعبیر تو پا لی ہے مگر
ہو گیا خواب ہمیں خواب دکھانے والا
سینکڑوں قافلے پائیں گے نشانِ منزل
ہر قدم دشت میں تھا نقش بنانے والا
تاکہ کہہ پاؤں کبھی میں نے بھی چوری کی تھی
میں ترے قرب کے کچھ پل ہوں چرانے والا
جانے کیوں دور سے ملنے کا روادار نہیں
مجھ کو پہلو میں تھا جو شخص بٹھانے والا
زندگی موت کی وادی سے صدا دیتی ہے
ہے بڑا مارنے والے سے بچانے والا
ہجر کے درد سے بڑھ کر ہے ترے وصل کا حظ
اپنے خوابوں میں خیالوں میں نہ آنے والا
میں وہ سادھو ہوں جو ہے عقل و خرد سے بیزار
میں نہیں آنکھ سے کاجل کو چرانے والا
آج پیسہ بھی ہے گاڑی بھی ہے شوفر بھی ہے
رہ گیا دور کہیں شہر گھمانے والا
جارحانہ میں عزائم نہیں رکھتا احمدؔ
جھکنے والا ہوں کسی کو نہ جھکانے والا
٭٭٭
وہ حقیقت تھی کہ سپنا تھا کسی کو دے دیا
جو بھی اپنے پاس اپنا تھا کسی کو دے دیا
جسم اپنے کو پرایا جان کر ہی رکھ لیا
روح کیا تھی اِک تماشا تھا کسی کو دے دیا
اِک طرف زوروں پہ تھی فرمائشیں دل دو ہمیں
دوسری جانب یہ کہنا تھا کسی کو دے دیا
گویا اپنی زندگی کے آپ ہم دشمن بنے
عمر کا جو اِک سہارا تھا کسی کو دے دیا
احمدؔ اُن کے حکم کی تعمیل ہم پر فرض تھی
دل کہ اِک انمول ہیرا تھا کسی کو دے دیا
٭٭٭
حسن قدرت نے نگاہِ نرگسی کو دے دیا
رنگ رنگوں میں سے چن کر پنکھڑی کو دے دیا
عدل شاید ان کے رخ کے حسن سے مرعوب ہے
نازکی کا نام اُن کی بے رخی کو دے دیا
جب سے ان کی زلفِ ریشم کے ہوئے ہیں ہم اسیر
عقل و دانش کا دیا دیوانگی کو دے دیا
زندگی تیرے بنا تابندہ تر لگنے لگی
ہم نے ایسا روپ تجھ بن زندگی کو دے دیا
ایک ہیں وہ لوگ جن کا آج ہے کل کے لئے
ایک ہم ہیں کل بھی اپنا آج ہی کو دے دیا
جب کسی بھی مردِ صالح نے جلایا ہے چراغ
ظلمتوں نے آپ اپنا روشنی کو دے دیا
اُس نے دل لینے کی احمدؔ ہم سے کی تھی آرزو
ہم نے روح و جان و دل سب کچھ اُسی کو دے دیا
٭٭٭
وہ جنگ تھی یا کھیل جنوں کھا گیا اعصاب
باقی نہیں جینے کی رمق لہجے ہیں برفاب
حاکم کے لیے موت ہے وہ دورِ حکومت
جس میں نہ رہے فرق پسینہ ہے کہ ہے آب
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے جم خانوں کی رونق
ویران مساجد ہوئیں چپ منبر و محراب
زلفوں کو ہے چہرے سے ہٹاتا ہوا محبوب
لگتا ہے مجھے ابر سے لڑتا ہوا مہتاب
دروازے پہ جا جا کے تجھے دیکھتے رہنا
شاید کوئی اپنا چکے ہم صورتِ سیماب
بچپن کے بڑھاپے کے حقائق سے کہیں دور
اُلفت ہے جوانی کے فسانے کا حسیں باب
دیکھا تجھے غیروں کے جو پہلو میں لگا یوں
جیسے کسی چہرے پہ کوئی پھینک دے تیزاب
اغیار کے چہروں پہ شرارت کی جھلک ہے
معلوم نہیں آج ہمیں نیتِ احباب
احمدؔ تمہیں پاگل ہی کہے گا یہ زمانہ
دیکھو گے اگر جاگتی آنکھوں سے کوئی خواب
٭٭٭
شاید ہمارا پیار بھلانے لگے ہیں آپ
چندا سے چاندنی کو چرانے لگے ہیں آپ
بے شک اسے خلوص سے تعبیر کیجئے
دھوکہ ہماری سوچ میں کھانے لگے ہیں آپ
دو چار دوستوں کی یہی بزم رہ گئی
اُس پہ بھی اعتراض اٹھانے لگے ہیں آپ
ریشم پہ گرتی بوندوں کو دیکھا تو یوں لگا
ساون کی بارشوں میں نہانے لگے ہیں آپ
ہم سے تو عہدِ وصل نبھایا نہیں کبھی
سنتے ہیں اُن سے عہد نبھانے لگے ہیں آپ
دیکھیں ! دکھا نہ بیٹھیں چراغ آفتاب کو
تاریکیوں میں شمع جلانے لگے ہیں آپ
اپنے بھی بولنے لگے غیروں کی بولیاں
غیروں کو انجمن میں بلانے لگے ہیں آپ
احمدؔ سے صاف کہہ دو کہ رکھے نہ واسطہ
دل کی جو اپنے دل میں چھپانے لگے ہیں آپ
٭٭٭
جہانِ رنگ میں ایسی جوانیاں ہیں بہت
کہ دامنوں پہ مزین کہانیاں ہیں بہت
خزاں کی شام، لبِ جو، نشان قدموں کے
ہمارے پاس تمہاری نشانیاں ہیں بہت
نئی سناؤ کوئی کاروبار کی باتیں
وصال و ہجر کی باتیں پرانیاں ہیں بہت
وہی ہیں باعثِ آزار اِس زمانے میں
خدا نے بخشی جنہیں شادمانیاں ہیں بہت
دعائیں دینے کی ہمت نہ بد دعاؤں کی
ستم شعار نے کی مہربانیاں ہیں بہت
ہر ایک لفظ تھا جن کا نسیم کی صورت
سحر گزیدہ یہاں گل فشانیاں ہیں بہت
وہ جلوہ آرا ہیں پہلوئے غیر میں احمدؔ
عجب ہے اُن سے تمہیں خوش گمانیاں ہیں بہت
٭٭٭
یہ پھول ہیں گلاب کے یا پھر شرارے ہونٹ
اللہ رے دہائی ہے کتنے ہیں پیارے ہونٹ
تقویٰ سمجھ لو، خوف، دیانت یا اور کچھ
خواہش کے باوجود نہ چومے تمہارے ہونٹ
کوڑوں سے ہو نہ پائے جب اپنی اداؤں سے
ظالم نے سی دیئے ہیں بالآخر ہمارے ہونٹ
بدلے میں کیا ملا یہ الگ داستاں سہی
رخسار پر کسی کے تھے ہم نے بھی وارے ہونٹ
وہ دن گئے جہاں میں کوئی پوچھتا نہ تھا
کرتے ہیں اب سوال نگاہوں کے بارے ہونٹ
اُن کے حضور ہلنے سے پہلے کریں تلاش
منطق دلیل حرف کے تینوں سہارے ہونٹ
تو ہی بتا اے کاتبِ تقدیر کیا کریں
رخسار و زلف و چشم کی فرقت کے مارے ہونٹ
ایسا کبھی ہوا نہیں احمدؔ کسی کے ساتھ
کوے کو فاختہ کہیں دنیا کے سارے ہونٹ
٭٭٭
دل سن کے خوش ہوا ہے کہ وہ شہر ہوں یا بیٹ
کہنے لگی ہیں عورتیں انڈے کو آملیٹ
پڑھتا ہوا اُنہی کو ہی پایا ہے جن کے پاس
تختی کتاب کاپی قلم ہے نہ ہے سلیٹ
مکھن رہا نہ ہاتھ میں روٹی بھری چنگیر
کچن میں جب سے آئے ہیں کانٹا چھری پلیٹ
کالج کو مدرسوں پہ ہے اتنا سا امتیاز
لڈو اُنہیں پسند ہیں اور اِن کو چاکلیٹ
حق ہے کوئی کہے جو ہوس برتر از خلوص
کچھ دن پرانے خط پہ ہی جب لڑ پڑیں رومیٹ
پھر مجتمع کروں گا میں سوچوں کے آئینے
بکھرے ہوئے خیال کی لوں کرچیاں سمیٹ
باقی جہاں میں مہر و مروت ہے آج بھی
اکرم نے مجھ کو بھیجے ہیں آموں کے دو کریٹ
تہذیب نو کے حشر سے واقف ہیں ایسے ہم
مشاق دایہ کی ہے نگاہوں میں گویا پیٹ
حسرت بھی پوری ہو گئی عزت بھی رہ گئی
پیغامِ وصلِ یار ملا سیلری کی ڈیٹ
جس نے بچھائی عدل کے حق میں کوئی بساط
احمدؔ وہ ہر زمانے میں رکھ دی گئی لپیٹ
٭٭٭
سوا خلوص کے نکلی نہیں کوئی میراث
سو وارثوں میں اُسی دن ہی بٹ گئی میراث
تمہارا نام سلامت رہا ہے شہرت بھی
تمہارے شہر میں لٹتی رہی مری میراث
ہزار یار تھے میں اِس لئے بچا نہ سکا
شعور و مہر و وفا ذکر و فکر کی میراث
خیال دل میں ہے آیا اُنہیں بچانے کا
وہ کب کہ چھن چکی عزت کی جب سبھی میراث
طلا و سیم ہیں بڑھتے ہیں کم بھی ہوتے ہیں
ہوئی ہے علم کی بھی کم بھلا کبھی میراث
یہ سوچتے ہیں سبھی اہلِ زر کے بارے میں
مریں وہ جلد کہ لیں اُن کی جلد ہی میراث
سنبھالنے کو اِسے کچھ تو وقت ہے درکار
مرا ہے باپ ملی ہے نئی نئی میراث
پسر ہے عاری ہے احمدؔ وفا شعاری سے
کہ اِس میں باپ نے چھوڑی بہت بڑی میراث
٭٭٭
حصے بخرے ہو رہی ہے پیار کی جاگیر آج
تھام لی ہے وارثوں نے ہاتھ میں شمشیر آج
سوچتے ہیں روک لے گی راستہ سیلاب کا
ہو رہی ہے ریت کی دیوار کی تعمیر آج
کار فرما تھی رقیبِ رو سیاہ کی سوچ واں
لوٹ آئے انجمن سے ہو کے ہم دل گیر آج
خارج از امکاں کو ممکن کر رہا ہے آدمی
خندہ زن اِس فعل پر ہیں قادر و تقدیر آج
بزمِ غیراں میں اُنہیں مسرور بیٹھا دیکھ کر
ہو گیا پیوست سینے میں ہمارے تیر آج
دزد کے اندیشے لاحق یا ہے ڈر تنہائی کا
مانگتی ہے پاسباں اک عدل کی زنجیر آج
دیکھئے ہے عید کا دن آج مت ترسایئے
رو پڑے تو رک نہ پائیں گے ہمارے نیر آج
آفتاب آتا تو احمدؔ ابر چھا جاتا کبھی
کھیل سا اِک کھیلتے تھے ظلمت و تنویر آج
٭٭٭
پختہ نہیں جہاں میں ابھی آدمی کی سوچ
عرفان و علم و حکمت و دانش وری کی سوچ
غم آشنا دیار کو ایسے لگے ہیں روگ
شادی بیاہ میں بھی ہے نوحہ گری کی سوچ
اتنی امید بھر دو دلِ نامراد میں
آئے تو آ نہ پائے کبھی بے بسی کی سوچ
رہ رہ کے لب پہ آتی ہے بن بن کے آہِ سرد
ساون میں تیرے سنگ صنم مے کشی کی سوچ
نیکی بدی ہو علم و جہالت کہ ظلم و عدل
جیسا طریق جس کا ہے ویسی اسی کی سوچ
برسوں سے دل میں ہجر کے گھاؤ تھے اَن سلے
حاجت میں کام آ گئی بخیہ گری کی سوچ
آرامِ جاں ملا نہ کوئی قدر داں ملا
پھرتا ہوں دل میں لے کے ابھی دل لگی کی سوچ
احمدؔ سرور و کیف کا عالم نہ پوچھئے
چھائی رہی دماغ پہ شب بھر کسی کی سوچ
٭٭٭
ہوئی جوں ہی دلبر کی چلمن میں صبح
بڑے کام آئی ہے درشن میں صبح
اٹھو جاگو دیکھو ہمارے لئے
یہ شب لے کے آئی ہے دامن میں صبح
جگاتی ہے ارمان مخلوق میں
کئی گل کھلاتی ہے گلشن میں صبح
کہ جنت پہ آئی ہے گویا بہار
دکھاتی ہے یوں جلوے ساون میں صبح
یہ سانپوں کا بِس تھا کہ دردِ فراق
نہ دیکھی گئی ہم سے الجھن میں صبح
رہی روز فطرت کے رس گھولتی
مِری زندگانی کے جوبن میں صبح
کئی بار دیکھا اُترتے ہوئے
لگی خوشنما کِشت و خرمن میں صبح
اندھیروں سے خائف ہیں ہم اِس قدر
کہ رکھتے ہیں ہر ایک دھڑکن میں صبح
نہ چھٹتا کبھی اِس سے ظلمت کا رنگ
نہ آتی اگر دل کے آنگن میں صبح
جو احمدؔ بڑھاتی ہے ظلمت کو رات
تو لائی چمک فکرِ روشن میں صبح
٭٭٭
فنا ہو گئی گل کی خاروں میں روح
لٹا آیا میں لالہ زاروں میں روح
سوا اِس کے ساری بہاریں فضول
صبا پھونکتی ہے بہاروں میں روح
جو تھا اِن میں کچھ تو وہ پایا نہ کیوں
نہیں تھی ترے انتظاروں میں روح
وہ دیکھا نہ دیکھا ہے قصہ الگ
رہی ناچتی آبشاروں میں روح
نہیں دیکھتی پھر خوشی ناخوشی
ہے جب جاگتی غم کے ماروں میں روح
گلستاں سے بھی دل کش و دل فریب
وہ بھر دی گئی ریگزاروں میں روح
شرر سے شرارہ بھی بن سکتی ہے
جو ہو دستِ جاں بخش یاروں میں روح
کسی وقت شعلے بھڑک سکتے ہیں
اگر لوٹ آئی شراروں میں روح
رہی اُس کی صورت سے وابستگی
ہو جیسے کوئی فن کے پاروں میں روح
جو مسجد میں آیا میں پڑھنے نماز
مری مل گئی اپنے پیاروں میں روح
فلک کے بھی سینے کو جو چیر دے
رہی وہ نہیں دل فگاروں میں روح
روا ہے تمہیں گر نہ چاہو تو خیر
جو چاہو تو بھر دو نظاروں میں روح
نہ احمدؔ مجھے گھیر لیتے الم
جو ہوتی کہیں غم گساروں میں روح
٭٭٭
سنا رہے ہیں یوں جہاں کو داستان چیخ چیخ
اُٹھا لیا ہو سر پہ جیسے آسمان چیخ چیخ
تمہاری بے وفائی ہو کہ ہجر کی اذیتیں
کریں گے ایک ایک ظلم ہم بیان چیخ چیخ
صدا بہ صحرا ہو نہ جائے رفتہ رفتہ منصفو!
دہائی دے رہا ہے تم کو ہر کسان چیخ چیخ
ہیں بے سہارا ہم اگرچہ بے نوا ذرا نہیں
یقیں میں ڈھال دیں گے ہم ترا گمان چیخ چیخ
کوئی تو بود و باش کا طریق ہو گا ڈھنگ بھی
مکیں سے کہہ رہا ہے آج ہر مکان چیخ چیخ
ترس گیا ہوں بولنے کو کس سے بولوں، کیا کہوں
چپک گئی ہے حلق سے مری زبان چیخ چیخ
نہ آشیاں نہ آب و دانہ سر پہ خوف جان کا
سکوں محال ہے یہاں بھرو اُڑان چیخ چیخ
بجھے ہوئے ہیں زہر میں نگاہِ کج کے تیر ہیں
نشانہ اِن کا دل پہ ہے کہے کمان چیخ چیخ
اب احمدؔ اُن کے روبرو خموش بھی ہے دم بخود
پکارتا ہے دور سے اُسے جہان چیخ چیخ
٭٭٭
ہم سے وہ آ ملے ہیں بڑی رد و کد کے بعد
ریشم سی گفتگو بھی ہوئی نیک و بد کے بعد
بادِ صبا پہ چھائے ہیں جھکڑ سموم کے
گلشن ہے خار خار گلِ سرسبد کے بعد
دامن کو جھاڑ پونچھ کے آیا ہے تیرہ بخت
نیکی کوئی رہی نہیں بغض و حسد کے بعد
وجہِ نشاطِ دل ہے فقط اُسکا ذکرِ خیر
وہ جو ازل سے پہلے تھا وہ جو ابد کے بعد
گالی گلوچ طنز ہو جائز جہاں وہاں
کس رُخ پہ بحث جائے گی اِس شد و مد کے بعد
پھر بھی یہی طریق رہا اہلِ عقل کا
مشکل ہے گرچہ صبر کسی ایک حد کے بعد
دل تھا کہ آپ اپنی اداؤں پہ مر گیا
دھڑکن تھی بند ہو گئی اِک سروقد کے بعد
احمدؔ نمائشی تھی ذرا سی تھی خام تھی
احساں جتا رہے ہیں وہ ایسی مدد کے بعد
٭٭٭
رات بھر کس کس سے دلبر نے کئے کیا کیا ہیں لاڈ
ایک مجھ پر ہی نہیں وہ ہر کسی پر وا ہیں لاڈ
کس نے روکا لاڈ کرنے سے بلا شک کیجئے
دیکھ لینا چاہئے جائز ہیں یا بے جا ہیں لاڈ
لاڈ ہم سے، پیار اُن سے، دل میں کوئی اور ہے
میں نہ کہتا تھا جہاں سے خوشنما دھوکا ہیں لاڈ
ہو نہ پائے گی بسر شب کچھ تو ساماں کیجئے
اے مِرے محبوب کیوں ہیں آج کیوں عنقا ہیں لاڈ
وہ مِرے محبوب ٹھہرے اور میں اُن کا حبیب
کیا یہ نسبت کچھ نہیں جو اَب نہیں کرنا ہیں لاڈ
تلخ و شیریں ذائقوں کا لطف لینے کے لئے
ہم نے اِک دن محفلِ اغیار سے کرنا ہیں لاڈ
ورنہ احمدؔ سرزمینِ عشق سے رہ دور دور
عشق کرنا ہے تو اپنے یار کے سہنا ہیں لاڈ
٭٭٭
حضر کے لذائذ نہ گھر کے لذائذ
پسند آ گئے ہیں سفر کے لذائذ
صفائی کے الطاف دلچسپ خوش کن
اُٹھائے ہیں ہم نے سنور کے لذائذ
دو عالم ہوں قربان اِن پر تو حق ہے
بہت قیمتی ہیں نظر کے لذائذ
مزا اِتفاق اور تنظیم میں ہے
اُٹھائے ہیں کس نے بکھر کے لذائذ
اثر ان کی صحبت کا اب تک ہے طاری
جو پائے کبھی لمحہ بھر کے لذائذ
اُنہیں کیا خبر بھوک ظالم ہے کتنی
ملے ہوں جنہیں خشک و تر کے لذائذ
خدایا خدائی اگر دردِ سر ہے
فزوں تر ہیں اِس دردِ سر کے لذائذ
اذیت جہاں کو ہر اُس شخص نے دی
لئے جس نے دنیا میں زر کے لذائذ
یہ دنیا نہ جنت بنے گر تو کہنا
ہنر ور کو دے دو ہنر کے لذائذ
بدن میں ہے تاثیر اُن کی ابھی تک
کہ اترے نہیں رات بھر کے لذائذ
درندے جو کرتے تو غم بھی نہ ہوتا
بشر نے ہیں لوٹے بشر کے لذائذ
اگر شب نہ آتی زمانے میں احمدؔ
میسر نہ ہوتے قمر کے لذائذ
٭٭٭
بن آئی نہیں ہم سے کوئی صورتِ انکار
کرنا ہی پڑا ان سے ہمیں وصل کا اقرار
افسوس تو یہ ہے کہ نہیں صاحبِ کردار
جس شخص کے افکار کی دنیا میں ہے مہکار
دارو بھی ضروری ہے معالج بھی ہو لیکن
جذبہ نہ ہو بیماری سے اُٹھتا نہیں بیمار
دھرتی پہ ہیں داعش نے قدم آن جمائے
بھولا نہیں دنیا کو ابھی فتنۂ تاتار
آتے ہیں خرد میں تو نہیں بھی ہیں یہ آتے
سادہ ہیں تو گنجلک بھی بہت عشق کے اسرار
زندہ تھی وہ بی بی تو اجالوں کی کرن تھی
جاں دے کے جو دھرتی میں فزوں کر گئی انوار
ہاتھوں میں کبھی جن کے تھیں قوموں کی لگامیں
ملتے نہیں اب ان کے جہاں میں کہیں آثار
پہلے تو زمانے کی ہر اک چیز تھی سانجھی
اب اس کی کسی بات سے مطلب نہ سروکار
تقسیم خوشی کرتا ہوں میں اہلِ جہاں میں
احباب نے دو بانٹ لئے آئے جو غم چار
ہیں اہلِ ہوس کے لئے پھولوں کے بچھونے
عشاق کی خاطر سرِبازار سجے دار
احمدؔ تمہیں قدرت نے عطا کر دیا موقع
جی بھر کے کرو پیار کا محبوب سے اظہار
٭٭٭
پیار کرنا ہے تو نہایت کر
اعتبارِ وفا نہ غارت کر
ساتھ بندوں کے کر حقوق ادا
پھر بصد شوق تو عبادت کر
جب سیاست منافقت ٹھہرے
خود کو بیگانۂ سیاست کر
بے کسوں کو اماں جو دے نہ سکے
ایسے آئین سے بغاوت کر
خود شریعت بھی تجھ پہ ناز کرے
اتنی پابندیِ شریعت کر
اُمتِ مسلمہ کو اے مالک
علم کی برکتیں ودیعت کر
سب سے بڑھ کر مجھے ضرورت ہے
شیخ صاحب! کوئی نصیحت کر
پاس تیرے ہیں چند ہی لمحے
جلد احمدؔ بیان غایت کر
٭٭٭
برائی کو روکیں گے بن کے پہاڑ
ہیں حاصل ہمیں فکر و فن کے پہاڑ
جو ہو جی میں صحرا کو دریا کہو
بنا ڈالو چاہے چمن کے پہاڑ
سنا ہے کہ لاوے اگلنے لگے
غم و حزن کے دشت و بن کے پہاڑ
ہوا جب میں بیمار میرے لئے
مِرے یار لائے کفن کے پہاڑ
چلی ہے بمشکل ہوا پیار کی
ہوئے ریزہ ریزہ گھٹن کے پہاڑ
نجانے ہوں کب ان کی سر چوٹیاں
نظر میں ہیں اِک گل بدن کے پہاڑ
مقابل ہیں ظلمت کے صحرا ہزار
میں لایا ہوں ننھی کرن کے پہاڑ
اُٹھائیں گے مل جل کے ہم اِن کا بوجھ
اگر آئے رنج و محن کے پہاڑ
سمندر ہے پنہاں مِری آنکھ میں
وہ دنیا میں رکھتے ہیں دھن کے پہاڑ
نہ اِن میں ہے لذت نہ اُن میں مزا
جدائی کے جنگل ملن کے پہاڑ
فزوں تر ہیں احمدؔ نظارہ لئے
پرائے چمن سے وطن کے پہاڑ
٭٭٭
کریں کس سے شکوہ ہے کس کا بگاڑ
لیا اپنے گلشن کو خود ہی اجاڑ
چٹانوں کی مانند ہوں گے قوی
اگر بھر گئی نفرتوں کی دراڑ
خدا جانے ہشیاری کیا رنگ لائے
نشے میں لیا اپنے عاشق کو تاڑ
بدیشی ہیں سرکاری، دیسی نجی
لگی شہر میں میرے بینکوں کی باڑ
وہ چُرمُر سے پتوں پہ رکھ کر قدم
ٹہلتا رہا لے کے پھولوں کی آڑ
نفاست میں محسوس ہو گی کجی
جو دیکھو گے آنکھوں کو تم پھاڑ پھاڑ
ہوں جذبے سلامت تو خاشاک ہیں
اگرچہ مقابل ہوں غم کے پہاڑ
رہے سنگ جس کے ہمیشہ بہار
اُسے کیا خبر سخت ہے کتنا ہاڑ
تیرا حرفِ انکار ایسا لگا
کوئی جیسے سینے میں دے تیغ گاڑ
تِرے پائے نازک میں آیا ہے دل
تجھے حق ہے جی بھر کے اِس کو لتاڑ
اَرے نوجواں پرچمِ حق اُٹھا
تو افسونِ باطل دے جڑ سے اکھاڑ
وہی مردِ حق ہے وہی سورما
لیا نفسِ امّارہ جس نے پچھاڑ
ہے کون اور احمدؔ ہے کیا چاہتا
اٹھایا ہے سر پہ فلک دھاڑ دھاڑ
٭٭٭
ہائے یہ کیا ہوا کہ عیاں ہو گیا وہ راز
ہم تو سمجھ رہے تھے نہاں ہو گیا وہ راز
کانوں نے سن لیا تھا جسے اتفاق سے
لب سے نہ چاہ کر بھی بیاں ہو گیا وہ راز
جس کو گناہ سمجھ کے چھپایا ہے عقل نے
دل کے حرم کی آج اذاں ہو گیا وہ راز
رہتا نہیں ہے دل میں اُگلتی نہیں زباں
اُٹھتا نہیں جو بارِ گراں ہو گیا وہ راز
گو مر گیا کسی نے بھی کھولا نہیں اُسے
اسرارِ قلب و جان کی ماں ہو گیا وہ راز
کوئی نہ کوئی ڈھونڈ کے لائے گا ایک دن
اچھا ہوا مرادِ جہاں ہو گیا وہ راز
کل تک جو پیچھے حسن کے پھرتا تھا دربدر
سنتے ہیں آج رشکِ بتاں ہو گیا وہ راز
دل میں وہ تھا تو صبر و عزیمت کا تھا پہاڑ
آیا جو لب پہ آہ و فغاں ہو گیا وہ راز
تو نے نظر اُٹھا کے جو دیکھا تھا اس کی سمت
احمدؔ ترے فقیر کی جاں ہو گیا وہ راز
٭٭٭
محفل میں گر چلی بھی چلی گفتگو ہے ژاژ
دل میں نہ ہو لگن تو ہر اک جستجو ہے ژاژ
اپنی وفا نہ جگ میں پذیرائی پا سکی
لائی نسیمِ صبح اسے کو بہ کو ہے ژاژ
پیاسوں کو ایک بوند جو پانی نہ دے سکے
دشت و دمن کی مثل ہے وہ آبجو ہے ژاژ
ہر چیز قیمتی ہے کوئی خس ہی کیوں نہ ہو
کیوں تو سمجھ رہا ہے کہ دنیا میں تو ہے ژاژ
برسوں کے بعد وصل کی، کی ہم نے آرزو
پوری نہ کر سکے تو کہا آرزو ہے ژاژ
خوشیوں سے بڑھ کے رنج ہوں جب سرخروئی پر
ایسے میں تو ہوا تو ہوا سرخرو ہے ژاژ
خوش کن ہے آبرو ہو اگر دلبروں کے سنگ
ہو لاکھ چاہے یار بنا آبرو ہے ژاژ
مزدور کے پسینے کی بچوں کے جسم کی
برکھا کے بعد مٹی سوا مشک بو ہے ژاژ
اللہ کی رضا کے لئے ہو تو ہے درست
احمدؔ ہے ورنہ جنگ خطا جنگجو ہے ژاژ
٭٭٭
بجھ گئیں امیدیں اپنی چھا گیا خوف و ہراس
ہر بلا، ہر رنج سے بے خوف تھا خوف و ہراس
رفتہ رفتہ وصل کے سب ولولے رخصت ہوئے
دل میں، تیرے ہجر کا بڑھنے لگا خوف و ہراس
تو نے پائی ہے مسرت میں نے دیکھے ہیں عذاب
ایک سی خوشیاں ہیں پھر بھی ایک سا خوف و ہراس
مجھ سے میری نسلِ نو میں منتقل ہونے لگا
میرے ظاہر پر جو باطن کا کھلا خوف و ہراس
سکھ ملا تو میں بھلا دوں اِس کو ہو سکتا نہیں
ہر مصیبت میں تھا میرا ہمنوا خوف و ہراس
موت کا رسوائی کا غربت کا یا جن بھوت کا
کاش نینوں میں ترے میں دیکھتا خوف و ہراس
عین جوبن پر بہار آئی ہے اپنے باغ میں
بانٹتی پھرتی ہے جاڑے کا ہوا خوف و ہراس
آگ لگنے سے ذرا پہلے ہمارے دل میں تھا
لگ گئی جب آگ سارا جل اٹھا خوف و ہراس
کوئی اپنے یار کی آنکھوں میں کب تک دیکھتا
احمدؔ اِس کو ختم ہونا تھا ہوا خوف و ہراس
٭٭٭
کیسا تھا یہ وصال کہ من کی بجھی نہ پیاس
گویا ابھی سے ہجر کی رکھ دی گئی اساس
ہو حسن و زور و دولت و شہرت کہ آبرو
دنیا میں ساری عمر یہ کس کے رہے ہیں پاس
برسوں کے بعد ہی سہی آئے ہیں ایسے پل
خوش ہوں مرے رقیب کہ ہوں آج میں اداس
مومن کو اپنے رب کی ملاقات ہے پسند
کافر ہے لے کے پھرتا ہے جو موت کا ہراس
دل میں ہیں اُس کی دھڑکنیں آنکھوں میں اس کا نور
ہم نے حیات کو کیا محبوب پر قیاس
اے اہلِ شہر! پھر بھی محبت کریں گے ہم
آئی کبھی اگرچہ محبت ہمیں نہ راس
پہچانتے ہیں جوہرِ قابل کو دور سے
اے دوست! ہم نہیں ہیں ذرا قدر ناشناس
یہ محض اِک وقوعے کا ردِ عمل نہیں
برسوں کے سانحوں کی نکالی گئی بھڑاس
پابند حسنِ یار کے احکام کے ہیں یہ
ہے عاشقوں کی اور کوئی آرزو نہ آس
اتنے فریب کھائے ہیں تم نے رقیب سے
احمدؔ تمہاری عقل کیا چرنے گئی تھی گھاس
٭٭٭
تیری تصویر نظر میں نہ سجاتا اے کاش
اپنے پہلو میں تجھے میں نہ بٹھاتا اے کاش
اپنا دل کھول کے رکھتا نہ میں تیرے آگے
تجھ سے بھی راز کوئی دل کا چھپاتا اے کاش
تیری فرقت نے جسے چین سے رہنے نہ دیا
وہ ترے وصل کے کچھ حظ بھی اُٹھاتا اے کاش
اس کی گلیوں میں پھرا کرتا میں ننگے پاؤں
تیری یادوں کا کوئی شہر بساتا اے کاش
تجھ سے سنتا میں صنم لوریاں میٹھی میٹھی
قصۂ درد کبھی تجھ کو سناتا اے کاش
وصل کی رات وہی عالمِ مدہوشی ہے
وصل کی شب ہی ذرا ہوش میں آتا اے کاش
نیند میں جھولتا جھولا میں تری بانہوں کا
آنکھ کھلتی تو تجھے سامنے پاتا اے کاش
تو جو ملتا ہے تو سب زخم رفو ہوتے ہیں
بات ایسی مجھے کوئی نہ بتاتا اے کاش
تجھ سے تعریف سنی جب بھی سنی ہے احمدؔ
شکوۂ یار بھی لب پر کبھی لاتا اے کاش
٭٭٭
اُن کی نظروں میں بنا میری برائی میرا اخلاص
ہائے پل بھر نہ دیا ان کو دکھائی میرا اخلاص
کبھی دیکھا نہ کسی نے اسے مقبول نظر سے
تیری دربار میں دیتا ہے دہائی میرا اخلاص
جس کی اک جنبشِ ابرو سے کئی سازشیں پھوٹیں
کیسے منظور کرے اس کی جدائی میرا اخلاص
تو سمجھتا نہیں وقعت نہ سمجھ کیا تجھے معلوم
میری نظروں میں تو ہے میری خدائی میرا اخلاص
یہ نہیں سب کے لئے صرف تمہیں تک ہی ہے محدود
میرے بد خواہوں نے بے پر کی اُڑائی میرا اخلاص
مجھ سے یاروں کو گلہ ہے کہ وفادار نہیں میں
جبکہ دشمن سے بھی کرتا ہے بھلائی میرا اخلاص
جانے کیوں ان کو ستانے کا خیال آیا ہے من میں
اب تلک کرتا رہا رنج روائی میرا اخلاص
اِس کی بنیاد میں شامل ہے وفا اِس لئے احمدؔ
ڈھونڈتی پھرتی ہے ہر جگ کی ستائی میرا اخلاص
٭٭٭
عجب تو یہ ہے کی وفا تو ہے وفا پہ اعتراض
گھٹن تھی چل پڑی ہوا تو تھا ہوا پہ اعتراض
ملی رضا سہج سہج کیا رضا پہ اعتراض
رضا پہ چھا گئی قضا تو ہے قضا پہ اعتراض
انہیں ہے شک خلوص پر گماں ہر ایک بات پر
ستم ہے یہ کہ ہے نگاہِ پارسا پہ اعتراض
طیور سے ہیں مطمئن نہ خوش کسی گلاب سے
کلی کلی روش روش گل و صبا پہ اعتراض
محبتیں ہیں غیر سے رفاقتیں عدو سے ہیں
شکایتیں ہیں ہم قدم سے ہم نوا پہ اعتراض
ہیں عشوہ گر سے رغبتیں نہ شوخیاں اُنہیں پسند
ہے ہر حسین و دل فریب و دل ربا پہ اعتراض
یہ کیسے کیسے ہیں کرم ہیں کیسی مہربانیاں
مِری فغاں سے بل جبیں پہ اور صدا پہ اعتراض
گھڑی گھڑی وصال کی لذیذ و خوشنما لگی
ملا جو ہجرِ مختصر تو اِس عطا پہ اعتراض
خوشی خوشی کئے ستم ہیں تم نے ایک ایک پر
ہے احمدؔ آج کیوں سلوکِ ناروا پہ اعتراض
٭٭٭
راس آئی ہمیں پیار میں افراط نہ تفریط
حاصل ہوئی دیدار میں افراط نہ تفریط
نسبت نہیں جنگل میں کہ خودرو ہیں گل و خار
منظور ہے گلزار میں افراط نہ تفریط
دنیا نے یہ دیکھا کہ مظفر وہی ٹھہرا
رکھتا تھا جو کردار میں افراط نہ تفریط
غم یہ ہے کہ اس نے بھی مروت نہیں برتی
قاصد نے کی اظہار میں افراط نہ تفریط
عیبوں کا ذخیرہ ہے تو جوہر بھی ہیں ڈھیروں
دیکھی دلِ بیمار میں افراط نہ تفریط
خوش فکر ہے خوش حال ہے تاریخ میں وہ قوم
جس قوم کے بازار میں افراط نہ تفریط
ہنس ہنس کے لٹاتا رہا جاں حسن پہ ہر بار
کی عشق نے ایثار میں افراط نہ تفریط
حق بات بھی کہہ دی ہے رہا پاسِ ادب بھی
احمدؔ نے کی تکرار میں افراط نہ تفریط
٭٭٭
جل رہا ہے آشیاں الامان و الحفیظ
لٹ چکا ہے کارواں الامان و الحفیظ
رک گئیں ہیں گاڑیاں الامان و الحفیظ
خوں چکاں ہے داستاں الامان و الحفیظ
ہجر تیری سختیاں الامان و الحفیظ
وصل تیری مستیاں الامان و الحفیظ
آہن و حدید کی کلہو ہوئی زمیں
سرخ سرخ آسماں الامان و الحفیظ
سنگِ لوح بن گیا گورِ من غریب کی
تیرا سنگِ آستاں الامان و الحفیظ
یہ زمانہ یہ جہاں کس روش پہ چل پڑا
ٹھہرے عیب خوبیاں الامان و الحفیظ
سوچ سوچ دکھ بھری خواب خواب خوفناک
تم ہوئے ہو مہرباں الامان و الحفیظ
دل گرفتہ الفتیں زخم خوردہ چاہتیں
کیا کروں ستم بیاں الامان و الحفیظ
بارشوں نے کر دیا چلچلاتی دھوپ میں
چھید چھید سائباں الامان و الحفیظ
پیش ہے کڑا سفر زادِ راہ مختصر
سست رو ہے سارباں الامان و الحفیظ
ظلم ہے یہاں وہاں خوں کی ندیاں رواں
امن کا نہیں نشاں الامان و الحفیظ
زرنگار بیٹیاں زرپرست خواہراں
شب نورد بیویاں الامان و الحفیظ
عورتوں کو دیکھ کر مسخروں کی ٹولیاں
لوفروں کی سیٹیاں الامان و الحفیظ
احمدؔ آج شہر میں عاشقوں کے واسطے
بند ساری کھڑکیاں الامان و الحفیظ
٭٭٭
وفائیں وہ کرتے گئے ہائے ضائع
ہوئے تیرے غم میں جو غم کھائے ضائع
ہر اِک خوشۂ کشت ہو بار آور
خدایا نہ محنت مِری جائے ضائع
تھے بچپن میں نادان پیری میں کمزور
جوانی کو مستی میں کر آئے ضائع
اُلجھنے کی آپس میں کیا ہے ضرورت
اگر ہو گئی تین کپ چائے ضائع
جو پیغام تیرا صنم تجھ کو بھیجے
وہ لائے تو کر کے ہوا لائے ضائع
نہ تم آئے سورج سروں پر ہے آیا
ہوئے جا رہے ہیں سبھی سائے ضائع
وہ نقشِ قدم تھے کہ تھیں تیری یادیں
عدو چاہ کر بھی نہ کر پائے ضائع
وہ دو ہو کے گیارہ کی صورت قوی تھے
ہوئے جوں ہی آپس میں ٹکرائے ضائع
وہ ہے صائب الرائے اِک ایسا احمدؔ
کہ شاذ اس کی ہو گی کوئی رائے ضائع
٭٭٭
نہ پاؤ گے تم نیکیوں کا سراغ
ہیں داڑھی میں تنکے تو دامن پہ داغ
اجالوں سے خائف اندھیروں کا زیب
بڑے خانوادوں کے چشم و چراغ
بچانے کو آئے نہ اہلِ نظر
اجڑتا رہا آدمیت کا باغ
تصادم سے دونوں بکھر جائیں گے
اگر دل ہے آئینہ ہیرا دماغ
محبت کے بارے میں ہم سوچتے
ملا ہی نہیں نوکری سے فراغ
غنیمت ہے گلشن میں کوئی تو ہے
یہ اُلو گلہری یہ کرگس یہ زاغ
انار ایک احمدؔ تھا بیمار سو
لبوں تک نہ پہنچے لبوں کے ایاغ
٭٭٭
چشمِ تر ہے اہلِ دنیا میں بڑھاتی اختلاف
ہر کسی کے لب پہ ہے یہ حادثاتی اختلاف
ہنستے ہنستے ایک دن خود ہم نوا ہو جائے گی
پیش کرتی ہے جو روتی اور رلاتی اختلاف
اِک خدا ہے، اِک نبیؐ ہے، ایک ہے قرآں مگر
ختم ہو سکتے نہیں کیوں نظریاتی اختلاف
دولتِ اسلامیہ بس ایک ہونی چاہئے
جمعیت اقوام قوموں میں ہے لاتی اختلاف
کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اس کی آنکھوں کا قصور
آگے بڑھتی جا رہی ہے وہ دکھاتی اختلاف
نقش بنتی جا رہی ہے ہم سفیری آج کل
واقعہ در واقعہ ہے واقعاتی اختلاف
کہہ گئے ہیں یہ سیانے ہو جو مبنی بر خلوص
باعثِ رحمت ہے احمدؔ تجزیاتی اختلاف
٭٭٭
شکوہ ہے تم سے حسن کو اے رہروانِ شوق
بے ذوق بے عمل ہیں سخن گسترانِ شوق
دل میں ہے سوز فکر میں رفعت نہ ہے خلوص
نظریں ہوس سے پاک نہ شستہ زبانِ شوق
عقل و دلیل و منطق و سائنس کے روبرو
مرجھا رہا ہے آج ہر اِک گلستانِ شوق
آخر کسی مقام پہ تھک ہار سو گیا
منزل کی سمت بڑھتا ہوا کاروانِ شوق
کوئی نہ تھا جہاں میں جو پڑھتا نمازِ عشق
ہوتی رہی بلند صدائے اذانِ شوق
کل شب تھا حسن و رنگ و نفاست کا اجتماع
لاکھوں مچل مچل گئے نوواردانِ شوق
دار و رسن تو ہیں ہی یہ رسوائیاں بھی ہیں
عشاق کے لئے ہیں کئی زیورانِ شوق
ہنستے ہوئے جو آئے تھے میدانِ شوق میں
رو رو سنا رہے ہیں وہ اب داستانِ شوق
مقصد تلاشِ حسن تھا یا اور کچھ بھی تھا ؟
پہنچے کہاں کہاں نہیں آوارگانِ شوق
لالچ ہے انتظار ہے اور بے وفائی ہے
احمدؔ ہمیں پسند نہ آیا جہانِ شوق
٭٭٭
خوش بخت ہے مل جائے جسے دولتِ شوق
مطلوب ابھی حسن کو ہے صحبتِ شوق
رسوا سرِبازار ہوئے، زخم سہے
عشاق نے یوں بھی کی ادا قیمتِ شوق
ناخن بھی کبھی عشق میں کٹوائے نہیں
کہتے ہیں کہ کرتے ہیں وہی عزتِ شوق
جس سے بھی ملو عشق کا حامی ہے مگر
سدھری نہیں دنیا میں ابھی حالتِ شوق
اے کاش! کبھی حسن کو محبوب رہوں
دل میں لئے پھرتا ہوں یہی حسرتِ شوق
اپنوں سے ملی ہو کہ ہو غیروں سے ملی
سہہ لینا اذیت کا ہے اِک عشرتِ شوق
تکلیف وہاں حسن کو ہوتی نہیں کیوں ؟
لٹتی ہے سرِبزم جہاں حرمتِ شوق
جلوت میں ہو خاموشی تو خلوت میں ہو غل
ہو سکتا ہے ہو یہ بھی کوئی صورتِ شوق
لے ڈوبی اُسے خود سری خود اس کے بقول
راس آئی ہے احمدؔ کو کہاں رفعتِ شوق
٭٭٭
چشم گریاں، دل فسردہ ہے گریباں چاک چاک
بن ترے ہے زیست کا ہر ایک عنواں خاک خاک
حکمرانی پر نہ جانے کون سا فرعون ہے
دیکھتا ہوں آج خاک و خوں میں غلطاں ناک ناک
بے خبر ہم اُس کے تیرِ کج نظر کے زہر سے
جب کہ حملے کر رہا ہے دل پہ بلماں تاک تاک
ہم ہیں اتنے تلخ یا پھر اِس نے بدلا ذائقہ
اے خدا کیوں لگ رہا ہے شہد ساماں آک آک
پتہ پتہ ذہن میں ہے نقش اِس کا دوستو!
آج بھی رہتا ہے دل میں بن کے جاناں ڈھاک ڈھاک
اہلِ گلشن سے عداوت ہے، کہ ہے غفلت شعار
باغبان نے کر دیا سارا گلستاں آک آک
فتنہ و ظلم و جہالت مفسدوں کے دل میں ہے
شرک و بدعت سے ہیں احمدؔ اہل ایماں پاک پاک
٭٭٭
دل میں ہمارے عشق کی جلتی رہے گی آگ
دل کی جو بجھ گئی تو جہاں میں لگے گی آگ
پٹرول بن کے اِس کو جلائیں گے میرے اشک
کر دے گی راکھ راکھ کچھ ایسی اُٹھے گی آگ
کرسی و تخت و تاج سب اِس کی لپیٹ میں
دیکھے گی کس کی اور تو کس کا سنے گی آگ
پہلو میں آپ ہوں میرے جائز ہو ہر گناہ
ایسا کبھی اگر ہوا من کی بجھے گی آگ
دیوانگی کی رہ پہ چلو گے تو عمر بھر
پتھر ملیں گے، خون ملے گا، ملے گی آگ
کامل رہا جو عشق میں آدم کے واسطے
پہرے پہ ہو گا سانپ گلستاں بنے گی آگ
احمدؔ جو ہو سکی نہ زباں میری شعلہ بار
آنکھوں کے راستے میرے دل کی بہے گی آگ
٭٭٭
اُونچا نہ اڑا گرچہ مرا مرغِ تخیل
نیچے بھی کسی کے نہ رہا مرغِ تخیل
ویرانے میں اٹکا ہوا بیٹھا تھا اکیلا
لے آئی ہے گلشن میں صبا مرغِ تخیل
پلکوں سے ہے چننے میں لگا کانچ کے ریزے
اوڑھے ہوئے پھولوں کی ردا مرغِ تخیل
آئے ہیں کئی راہ میں گرجے کئی مندر
لیکن کسی جانب نہ جھکا مرغِ تخیل
دھوکہ بھی ہو عیاری بھی شہوت بھی ہو اس میں
لوگو کبھی ایسا تو نہ تھا مرغِ تخیل
آنکھوں کو جو چاہے تو سمندر بھی بنا دے
زلفوں کو بناتا ہے گھٹا مرغِ تخیل
محفل میں دکھاتا ہے بہار اپنے ہنر کی
تنہائی میں لیتا ہے مزا مرغِ تخیل
شاگرد سمجھتے ہیں اِسے ذوقِ نگارش
استاد نے تحفے میں دیا مرغِ تخیل
دولت ہوئی حاصل تو ملا حسن کسی کو
الحمد کہ احمدؔ کو ملا مرغِ تخیل
٭٭٭
صوفی ہیں دل کی بات ادھوری کریں گے ہم
پوری کریں تو غیر ضروری کریں گے ہم
سنگھڑ میں تیرے سنگ صنم مئے کشی کی سوچ
قسمت نے یاوری کی تو پوری کریں گے ہم
آہِ سحر کا لطف اُٹھائیں گے نیم شب
اب اختیار چاند سے دوری کریں گے ہم
مٹی کا تھا رقیب نے ناری بنا دیا
دل کو تمہاری یاد سے نوری کریں گے ہم
مستی جنون بے خودی دیوانگی حرام
جو کچھ بھی اب کریں گے شعوری کریں گے ہم
شاید قلم کرے نہ ستم گر ہمارے ہاتھ
کہتے ہیں وہ اگر جی حضوری کریں گے ہم
احمدؔ وصال یار کی خواہش میں آج بھی
پھر کوئی انتظام عبوری کریں گے ہم
٭٭٭
دل میں سوئی حسرتوں کو ہونٹ پر لے آئے کون
بن کہے وہ پوری کر دیں آس انہیں سمجھائے کون
گورکن ہے گور بھی ہے اور گورستان بھی
آپ سے وابستہ یادوں کو مگر دفنائے کون
بلبلیں ہیں یا نسیمِ صبح یا چرخِ کبود
نیر کا ملبوس گل کو صبح دم پہنائے کون
آڑ لے کر امنِ عالم اور بقائے دہر کی
دو مخالف لشکروں کو جنگ پر اکسائے کون
رقص ہو یا قہقہے سب دوستوں کے واسطے
خوشبوؤں سے محفلِ اغیار کو مہکائے کون
غیر کی تھی یا تھی اپنی بزم ہم سے سج گئی
فیصلوں کی غلطیوں پر ساتھیو پچھتائے کون
کچھ ادھورے خواب ہیں اور نا مکمل خواہشیں
ورنہ بانہوں میں فنا کی جانے سے گھبرائے کون
عشق ایسی شئے ہے جس میں عاشقوں کے واسطے
زہر میں بھی شہد ہے اور شہد سے اکتائے کون
درسگاہوں میں پڑھائے جاتے ہیں زر کے اصول
کیا خبر اب رازِ ہست و نیست کو سلجھائے کون
احمدؔ اپنے فائدے کی سوچتا ہے ہر کوئی
کشتیِ حق موجِ باطل سے مگر ٹکرائے کون
٭٭٭
ہم عجب رنگ سے گذرتے ہیں
زخمِ دل رفتہ رفتہ بھرتے ہیں
دل کو تابع دماغ کے کر کے
یہ نیا تجربہ بھی کرتے ہیں
ہم ابھی تک ہیں غار میں محبوس
اور وہ چاند پر اترتے ہیں
اے قضا! ایک بار ہی لے جا
آئے دن ذرہ ذرہ مرتے ہیں
ہم کو نجمِ سحر سمجھ لو تم
آخرِ شب میں ہم ابھرتے ہیں
چھپ کے جنگل میں ناچتے ہیں مور
گھر کے آنگن میں وہ سنورتے ہیں
آئینے سوچ کے ترے آگے
بے طرح ٹوٹ کے بکھرتے ہیں
ہم وفادار لوگ ہیں احمدؔ
احترامِ خلوص کرتے ہیں
٭٭٭
گر کر سکو تو یوں کرو
ہونٹوں میں تھوڑا رس بھرو
آنکھوں میں لاؤ رونقیں
پہلو میں اے جلوہ گرو!
اونچے محل کس کام کے
آگے بڑھو اے بے گھرو!
ہنستے نہیں ہم بن ترے
ہر بات پر دیتے ہیں رو
ہم سے تعلق ختم ہے
زندہ رہو چاہے مرو
ویراں کیا دل کا نگر
اب اِس کا خمیازہ بھرو
انگلی اٹھاؤ پیار پر
دل میں مرے پاؤں دھرو
کیسی تھی احمدؔ کی غزل
اے ہم زمان و ہمسرو!
٭٭٭
پیامِ یار ملا ہے یہ مختصر ہم کو
ترا سلوک نہ بھولے گا عمر بھر ہم کو
کہیں تو دار پہ لٹکا دیئے گئے ہیں ہم
کہیں بٹھایا ہے شاہوں نے تخت پر ہم کو
ہزار تحفے دمِ واپسیں دعا کے ملے
گلاب و سنبل و ریحاں سے پیشتر ہم کو
تو کیا ہوا کہ اگر دام کم لگے اپنے
کیا ہے تجربہ یاروں نے بیچ کر ہم کو
وہ غرق ہوتے گئے اپنی اپنی لہروں میں
ڈبونے آئے تھے لوگو کئی بھنور ہم کو
اگرچہ بارہا بھٹکے ہیں اپنی راہوں سے
دکھانے راہ نہ آیا کوئی خضر ہم کو
اتار پھینکتے زنجیر اُس کی چاہت کی
یہ آرزو رہی ہمت نہ تھی مگر ہم کو
طفیل صحبتِ احمدؔ کے آج دنیا میں
ہر ایک پاتا ہے خود سے بلند تر ہم کو
٭٭٭
داغوں بھرا ہے غم سے مزین ہمارا سینہ
جب سے ہے ان کی یاد کا مسکن ہمارا سینہ
تیروں سے ڈر گئے ہیں کہ خدشہ تھا کھل نہ جائیں
اسرارِ عاشقی کا ہے مدفن ہمارا سینہ
فرقت زدہ نگاہ کو وا ہو کہ نیم وا ہو
دیتا ہے اپنے یار کے درشن ہمارا سینہ
ان کے نقوش پا ہوں کہ ہونٹوں سے کھیلتے لفظ
ہر اِک حسین شکل کا مامن ہمارا سینہ
حدت تھی جس میں ہاڑ کی آنکھوں نے کر دیا ہے
رو رو کے ان کے ہجر میں ساون ہمارا سینہ
لپٹے ہو جب سے تم اسے لفظوں میں تولتے ہیں
اخبار والے بن کے مہاجن ہمارا سینہ
رخسار و زلف و لب کے ہیں متروک اِستعارے
لایا ہے شاعری میں نیا پن ہمارا سینہ
لازم ہے سنگ پھول کے کلیاں بھی پنکھڑی بھی
برداشت کر نہ پائے گا جوبن ہمارا سینہ
دہشت کا منہ کھلا کہ چلی توپ تفرقوں کی
ان کے خلاف کوہ گیا بن ہمارا سینہ
کھلتے ہیں پھول اِس میں نسیم اِس میں ہے ٹہلتی
احمدؔ ہے آج دہر میں گلشن ہمارا سینہ
٭٭٭
اعتبارِ وفا نہیں باقی
گلستانِ حیا نہیں باقی
اہلِ گلشن کی چیرہ دستی سے
کوئی غنچہ رہا نہیں باقی
رہ گذر آج بھی وہی موجود
پر ترا نقشِ پا نہیں باقی
زندگی شوق سے گذارتا ہے
جس میں ڈر موت کا نہیں باقی
ہاتھ بہرِ دعا جو اٹھیں بھی
اب لبوں پر دعا نہیں باقی
صورتِ برق آ کے جو چمکے
ایسا کیا دل ربا نہیں باقی
جس کو لگ جائے روگ الفت کا
وہ اسے چھوڑتا نہیں باقی
چھوٹتا جائے دامنِ امید
کیا ترا آسرا نہیں باقی
داستانِ شکیل احمدؔ میں
پہلے جیسا مزا نہیں باقی
٭٭٭
ہم خود سے رہے زیست کے ہر موڑ پہ شاکی
یہ کس نے ہمارے لئے مالک سے دعا کی
شکوے کا بظاہر کوئی پہلو بھی نہیں ہے
ہر چند یہ باتیں نہیں توصیف و ثنا کی
تقدیر کو روتے ہوئے بن جائیں سکندر
گر آپ نے اِک بار انہیں دید عطا کی
تو موم کی مریم سے بھی دل کش نظر آئی
جس دن ہوئی تقریب تری رسمِ حنا کی
جب تک کسی دستور کسی حد میں تھا پابند
افلاک سے اعلیٰ نظر آتا تھا یہ خاکی
وہ لوٹ کے آیا ہے نہ آئے گا تِری سمت
بے کار ہے کوشش یہ تری صبح و مسا کی
اِس قوم نے ہر کھیل میں منوایا ہے لوہا
اس کاش کرکٹ ہو کبڈی ہو کہ ہاکی
راضی بہ رضا، سر بہ اطاعت، دلِ زندہ
احمدؔ میں یہ عادات ہیں بچپن سے بلا کی
٭٭٭
درویشی میں حاصل ہمیں سلطان کے لہجے
ہیں اپنی گذارش میں بھی فرمان کے لہجے
کچھ فرق نہیں پڑتا خزاں ہو کہ بہاراں
صحرا میں جو مل جائیں گلستان کے لہجے
تم خار کے لہجے میں کرو بات کہ گل کے
دونوں ہیں مری جاں چمنستان کے لہجے
افسوس کہ حامی نہیں مسلم کا مسلماں
ہندو کے طرفدار ہیں افغان کے لہجے
خود اپنی حفاظت کی طرف آنا پڑے گا
بدلے ہوئے لگتے ہیں نگہبان کے لہجے
ریشم کی طرح نرم کہیں شہد سے میٹھے
دریا کی طرح وادیِ فاران کے لہجے
گو فرق ہے اِن میں کہ یہ عابد ہے وہ معبود
انسان کے ہونٹوں پہ ہیں یزدان کے لہجے
اندازِ بیاں چاہئے کہنے کو کوئی بات
دانا کہاں اپناتے ہیں نادان کے لہجے
اِس گھر کو اگر اپنا سمجھتے ہو تو اِس میں
اپناؤ مرے یار نہ مہمان کے لہجے
احمدؔ نے اگر دیکھ لیا آنکھ اٹھا کر
لمحوں میں بدل جائیں گے زندان کے لہجے
٭٭٭
اے مرے یار! مرے ساتھ کچھ ایسا کر دے
میری شریانوں میں زہراب انوکھا بھر دے
نسلِ انساں کو مٹانے پہ تلا ہے انساں
ایسا بے خوف نہ ہو اِس کو خدا کا ڈر دے
جو برے ہیں وہ سمجھتے ہیں برائی کی زباں
گرچہ اچھا نہیں اِن کے لئے اچھا پر دے
اِس پہ منصور چلے اِس پہ ہیں سرمد گذرے
یہ محبت ہے صدا دیتی ہے اپنا سر دے
بے گھری کتنی اذیت ہے یہ ہم جانتے ہیں
رات بھر جاگتے انجم کو خدایا گھر دے
تو نے گنجینۂ کردار تو بخشا ہے اِسے
زندہ رہ پائے وہ احمدؔ کو ذرا سا زر دے
٭٭٭
پودوں پہ پھول ساتھ ہی رہتے ہیں خار کے
نقد اور ادھار دونوں ہیں گُر کاروبار کے
دیکھے اگرچہ دن ہیں بہت انتظار کے
چرچے ہیں لب پہ وصل کے اِک گل عذار کے
کس کے چمن پہ آئی جہاں میں خزاں نہیں
نغمات کس نے گائے ہمیشہ بہار کے
خوشیاں کسے ملی نہیں چاہے ہوں مختصر
غم آشنا ہیں لوگ اگرچہ دیار کے
ظالم کو اپنے ظلم پہ کیا ہوں ندامتیں
انساں ڈسے ہوئے ہوں جہاں غم گسار کے
دائم رہا ہے کون اجالوں کا ہم سفر
مانی شکست کس نے ہے ظلمت سے ہار کے
احمدؔ ہزار منت و جد و جہد کے بعد
کچھ نقش اُٹھا کے لایا ہے دامانِ یار کے
٭٭٭
بے وفا پر جب کسی دن تم کو پیار آنے لگے
یوں سمجھ لینا کہ غم کے کوہسار آنے لگے
دو جدا ہوتی ہوئی کونجوں کی حالت دیکھ کر
اشک پلکوں پر مِری بے اختیار آنے لگے
میں کھلی آنکھوں سے دیکھوں یار کی رعنائیاں
تم جگا دینا جو قربت میں خمار آنے لگے
لیجئے صاحب چمن سے دور ہو جاتے ہیں ہم
شاید اپنے بعد گلشن میں بہار آنے لگے
سج گئیں بازار میں قربان گاہیں اور لوگ
ہر گلی ہر چوک سے دیوانہ وار آنے لگے
غم کی ساعت ٹل گئی خوشیوں کے پل آنے لگے
آپ جیسے اب ہزاروں غم گسار آنے لگے
دل کا آنگن بھا گیا اندازِ دل آئے پسند
ایک بار آئے تھے اِس میں بار بار آنے لگے
اِس سے بڑھ کر اور کیا ہو اُن کے خطرے کی دلیل
جاں فدا کرنے کو ان پر جاں نثار آنے لگے
شاید احمدؔ چھو رہی ہے وہ بلوغت کی حدیں
تیر نظروں کے جگر سے ہو کے پار آنے لگے
٭٭٭
عالمِ کرب میں نغمات بھی گائے ہیں کسی نے
اِس طرح دہر سے حالات چھپائے ہیں کسی نے
لبِ دشمن سے بھی ممکن نہ ہوئی جن کی ادائی
بزمِ یاراں میں سوالات اُٹھائے ہیں کسی نے
آج بھی روح اس اسلوب پہ مائل بہ عمل ہے
فکر کے فن کے کمالات دکھائے ہیں کسی نے
یہ تو میں تھا کہ جو بچتا رہا کانٹوں کے ضرر سے
راہ میں خار تو ہر رات بچھائے ہیں کسی نے
مہر کے پھول، وفاؤں کی ہوا، پیار کی خوشبو
کیا حسیں گلشنِ عادات بنائے ہیں کسی نے
اسمِ اعظم بھی، دعا بھی، ہیں یہی دولتِ ہستی
مجھ کو کچھ حرفِ مناجات سکھائے ہیں کسی نے
کفِ دریا کی طرح بیٹھ گئے پل میں اگرچہ
مختصر ہی سہی جذبات تو پائے ہیں کسی نے
حسرت و یاس نگاہوں میں ہے پاؤں میں ہیں چھالے
دل میں صدمات ہی صدمات سجائے ہیں کسی نے
سر چھپانے کو میسر نہیں کٹیا ہمیں احمدؔ
جبکہ مرمر کے محلات بنائے ہیں کسی نے
٭٭٭
مری محبت کی منزلوں کے مٹا دیئے ہیں نشاں کسی نے
تھا ایک ہی راز رازِ ہستی جو کر دیا ہے عیاں کسی نے
میں ہر اذیت سے بچ کے نکلا ہر ایک میں کامیاب ٹھہرا
مِری وفا کے قدم قدم پر لئے ہیں سو امتحاں کسی نے
ہر ایک دھڑکن مثالِ بادِ نسیم چلتی تھی جس کے دل کی
اُسی کے دل میں نفاق و نفرت کا بھر دیا ہے دھواں کسی نے
بہار آئی چمن میں اپنے نئے نئے پھول کھل رہے ہیں
یہ آرزو تھی کسی کے دل میں تو پایا ایسا سماں کسی نے
اے پاک دھرتی سدا سلامت رہے تو اوج و عروج دیکھے
یہ کہہ کے تجھ پر کٹا دیئے ہیں جگر کے پارے جواں کسی نے
بصد سہولت کسی نے پایا ہے رزق دنیائے آب و گل میں
برائے رزقِ قلیل سر پر اُٹھائے بارِ گراں کسی نے
بلند ہوتی رہی مساجد سے ہی صدائے کرم ہمیشہ
قمار خانوں میں کیوں نہیں دی محبتوں کی اذاں کسی نے
وہ جس کے بارے میں دل میں اپنے محبتیں تھیں عقیدتیں تھیں
وہ میکدہ تھا کہ دیر مجھ کو تو کر دیا بد گماں کسی نے
تھے جتنے احباب میری ہی داستان سننے کے شوق میں تھے
نہ انجمن میں سنائی اپنی کسی کو بھی داستاں کسی نے
یہ ماورائے شعور ہو کر بھی فہم و دانش کی حد ہے احمدؔ
کہ لعل بھی روبرو تھا لیکن شرر پہ رکھ دی زباں کسی نے
٭٭٭
روئے بھی ہیں دنیا کو رلایا بھی ہے ہم نے
ظاہر بھی کیا اور چھپایا بھی ہے ہم نے
دنیا نے ہے پایا اسے کھلتے ہوئے گل میں
دھرتی پہ اگر اشک بہایا بھی ہے ہم نے
جیون میں کرائی ہے سدا عیش صنم کو
خود کو ہی ستایا جو ستایا بھی ہے ہم نے
بیٹھا نہ کبھی پاس ہمارے وہ ذرا بھی
حالانکہ کئی بار بلایا بھی ہے ہم نے
آبا تھے بھلا کون ہمارے تو ہیں ہم کیا
محسوس کبھی خود کو کرایا بھی ہے ہم نے
جو پیار کا مظہر ہو وفاؤں سے بھرا ہو
ایسا کوئی نغمہ کبھی گایا بھی ہے ہم نے
ہم نے ہی بسایا تھا اجاڑا جسے تم نے
اجڑا ہوا گھر پھر سے بسایا بھی ہے ہم نے
بجھتے ہوئے انگاروں کو روشن بھی کیا ہے
شعلوں کو ہوا دے کے دکھایا بھی ہے ہم نے
برسائیں گے بارش نہ گرجتے ہوئے بادل
احمدؔ نہیں سمجھا یہ بتایا بھی ہے ہم نے
٭٭٭
دن ڈھل گیا خوشی کا شبِ غم سوار ہے
میں بھی کہوں کہ دل مِرا کیوں بے قرار ہے
گل ہائے رنگا رنگ ہیں دل میں کھلے ہوئے
ہر پھول پر گماں ہے ہوا شعلہ بار ہے
سنتے ہیں ان کے ہاتھ قلم کر دیئے گئے
محنت سے جن کی دیس میں رنگِ بہار ہے
لمحہ بہ لمحہ ذہن پہ حاوی ہے اس کی سوچ
چھائی ہوئی نگاہ میں تصویرِ یار ہے
الطاف سارے وصل کے اغیار لے گئے
ہم سے کہا کہ ہجر بڑا شاندار ہے
جاں وارنے سے ان پہ کریں گے نہ ہم گریز
الفت نئی نئی ہے جواں اعتبار ہے
احباب پر خلوص ہیں جس کے جہان میں
سردار بھی وہی ہے وہی مالدار ہے
صبحِ ازل ملے تھے ملیں گے بروزِ حشر
ثابت ہوا کہ پیار بڑا پائیدار ہے
حاجت حکیم کی نہ کوئی چاہئے دوا
اکسیر تیرا غم ہے اگر غم گسار ہے
احمدؔ کرو معاف بڑائی اِسی میں ہے
بدلے کا بھی اگرچہ تمہیں اختیار ہے
٭٭٭
بجز تمہاری عنایتوں کے رہا ہمارا سہارا کیا ہے
تمہارا لطف و کرم ہے ورنہ سوال کرنے کا یارا کیا ہے
ہم اپنے اندر سمیت جاناں تمہارے چاروں طرف تھے رقصاں
نہ دیکھ پائے جو تم ہمیں تو قصور اِس میں ہمارا کیا ہے
یہ سر ہے، سچ ہے، مگر یہ اپنے ہی تن پہ اِک بوجھ بن رہا ہے
اتار دینے میں ایسے سر کو تمہیں بتاؤ خسارا کیا ہے
ہنسے گا ہم پر کہے گا وہ شخص ہم کو دیوانہ اور پاگل
جسے بتائیں گے عشق میں ہم نے جیتا کیا اور ہارا کیا ہے
یہ کہکشاں کے نجوم سارے مدار اپنے میں گھومتے ہیں
مدار اپنا ہی چھوڑ دے جو اے میرے تارے وہ تارا کیا ہے
کسی کا دل ہے یا کوئی تتلی کوئی خزانہ یا کوئی کنکر
تمہاری مٹھی میں بند یارو ہمیں بتاؤ خدارا کیا ہے
ہمارے چہرے پہ وقت کی تلخیوں نے کیسا اثر کیا ہے
یہ آئینے ہی بتا سکیں گے بگاڑا کیا ہے سنوارا کیا ہے
کنارے لا علم ہیں بھنور کی اگر اذیت سے آج احمدؔ
سوال کرتے تھے خوں کے دھارے بھی کل یہ ہم سے کنارا کیا ہے
٭٭٭
دوستوں میں عیب ہو تو وہ بتانا چاہئے
ہوں عدو میں خوبیاں تو حظ اُٹھانا چاہئے
درد راحت سے ہے بڑھ کر ہجر فائق وصل سے
اہلِ دل کو ہر جفا پر مسکرانا چاہئے
اب مری تنخواہ کے جو آ گئے ہیں دن قریب
اب مجھے پیغامِ وصلِ یار آنا چاہئے
ہو نہ پائیں ضو فشاں گر مثلِ مہر و ماہتاب
صورتِ انجم فلک پر جھلملانا چاہئے
دودھ پی کر زہر افشاں اژدہا نے یہ کہا
جو پلائے دودھ اس کو ڈنک کھانا چاہئے
لوٹ آئی دوستوں میں مہر ساماں دوستی
کینہ پرور دشمنوں کا جی جلانا چاہئے
شاید ایسے عید کی شب وہ ہمیں سے آ ملیں
جو کئے احسان ان پر وہ جتانا چاہئے
چور چوکیدار مل کے گھر کی ماریں مرغیاں
گھر کو خطرہ ہے عزیزو! گھر بچانا چاہئے
ضد کے مارے کیا تعلق توڑنا معقول ہے
روٹھ جائے یار کوئی تو منانا چاہئے
احمدؔ اپنے گھر کی جانب جا رہا ہے شب بخیر
اور تمہیں بھی دوستو اب گھر کو جانا چاہئے
٭٭٭
نذرانۂ خلوص
یہ نظم پروفیسر محمد خان کی ریٹائر منٹ کی تقریب میں گورنمنٹ کالج تونسہ شریف میں پڑھی گئی
وہ مثالِ نخلِ سایہ دار خاص و عام پر
احتراماً سر جھکے رہتے ہیں ان کے نام پر
اپنے شاگردوں پہ ہر دم وہ شفیق و مہرباں
تذکرہ ہے یہ پروفیسر محمد خان کا
ایک دن بھی جس نے کالج میں لیا ان سے سبق
سہل تر ہوتا گیا مضمون اس پر ہر اَدق
ہر محاذِ زندگی پر کامیاب و کامراں
اِک سے اِک شاگرد ہے بڑھ کر محمد خان کا
عمر بھر پابندیِ اوقات کی عادت رہی
محنت و ایمانداری کی سدا طینت رہی
ان کے دم سے ہیں جہاں میں علم کی رعنائیاں
آج اونچا فخر سے ہے سر محمد خان کا
علم کی دنیا ہو یا بہبود کا میدان ہو
شاعری ہو یا ادب کا کوئی بھی عنوان ہو
ڈھونڈتی ہے آنکھ ان کی رہنمائی کے نشاں
مرکزِ فکر و نظر ہے گھر محمد خان کا
گو محبت بھی ہے ان سے اور تکلف بھی نہیں
کھردرا اور سخت لہجہ ان کی فطرت ہی نہیں
گرچہ ان سے ہو رہی ہیں انجمن آرائیاں
جاگزیں ہے دل میں پھر بھی ڈر محمد خان کا
ہے دعا ایامِ فردا میں انہیں خوشیاں ملیں
اور ان کے گھر کے آنگن میں ہمیشہ گل کھلیں
زیست میں چلتی رہیں ان کی سدا پروائیاں
لطف احمدؔ کھٹکھٹائے در محمد خان کا
٭٭٭
جنم دن کا تحفہ
چاند کی دودھیا کرنوں سے میں دھوؤں پہلے
عطر و کستوری و عنبر سے معطر کرتے
اطلس و مخملی خانوں میں پروؤں پہلے
جھلملاتے ہوئے تاروں سے منور کرتے
جو لطافت میں بھی ہو بادِ صبا سے بڑھ کر
جس میں شبنم بھی ہو رعنائی بھی ہو رنگ بھی ہوں
طشتِ دل میں اُسے مژگاں کے سہارے رکھ کر
میں تِری سال گرہ پر تجھے کیا پیش کروں
اجلے اجلے ترے چہرے کی ہو صورت رخشاں
جو تری مہکی ہوئی سانسوں کو گلزار کرے
جو تری خوشیوں کے کچھ اور بڑھائے ساماں
جو ترے ہاتھوں کی مہندی کو بھی گلنار کرے
چند لفظوں کے سوا اور دعاؤں کے سوا
اور کیا شئے ہے مرے پاس کہ شاعر میں ہوں
دے بھی کیا سکتا ہوں میں تجھ کو وفاؤں کے سوا
اے مری جان وہ لے کر یہاں حاضر میں ہوں
سال گرہیں تیرے جیون میں ہزاروں آئیں
تو بصد شوق بصد ناز منائے ہر دن
وہ ترے واسطے پیغامِ مسرت لائیں
عید کی، جشن کی مانند بتائے ہر دن
تجھ پہ مائل بہ کرم رحمتِ باری ہو سدا
تیرا ہر فعل ترے سکھ کا سبب ہو بے حد
تجھ پہ ہر گام برستی رہے رحمت کی گھٹا
یوں دعا گو ہے دعا گو ہی رہے گا احمدؔ
٭٭٭
نالۂ رحلت
کٹ گرا وہ پیڑ ہر ٹہنی تھی جس کی سایہ دار
بجھ گئی وہ شمع جس کی لو سے روشن تھے دیار
چل دیا وہ شخص جو اسلاف کا تھا پیروکار
رونقیں محفل میں جس سے تھیں چمن میں تھی بہار
کیا خبر تھی درد اس کا لادوا ہو جائے گا
یہ نہ سوچا تھا کہ وہ ہم سے جدا ہو جائے گا
متقی تھا نیک تھا وہ صاحبِ اخلاق تھا
ناتواں تھا جسم لیکن شیر کا مصداق تھا
نغمۂ توحید تھا وہ شرک کا تریاق تھا
ظلمتوں کے دشت میں وہ صورتِ چقماق تھا
مدتوں تک اس کے جانے کا الم رہ جائے گا
وہ نہیں تو اس کا ہر نقشِ قدم رہ جائے گا
موت ظالم ہے کسی کو چھوڑتی ہرگز نہیں
بادشاہ و نامور بھی بچ سکے ہیں کیا کہیں
طوعاً و کرہاً کوئی جائے کہ سرشار و حزیں
ہر نفس ذی روح کو جانا ہے آخر بالیقیں
مسکراتا بولتا وہ خوش ادا رخصت ہوا
یوں جہاں کو چھوڑ کر وہ عازمِ جنت ہوا
اے خدا اِس شہر کو اس کی ضرورت تھی ابھی
اور کتنے بے کسوں کو اس کی حاجت تھی ابھی
وہ جو تھا شہر میں رسمِ مروت تھی ابھی
احترامِ دوستاں کی اس میں عادت تھی ابھی
آج اس کی موت پر ہر شخص ہے نوحہ کناں
بچہ بچہ رو رہا ہے کہہ رہی ہے ہر زباں
تیری تربت پر خدا کی رحمتوں کا ہو نزول
حامی و ناصر ہو تیرا حق تعالیٰ کا رسول
تیری قسمت میں رقم ہو جامِ کوثر کا حصول
کھل اٹھیں قدموں میں تیرے روضۂ رضواں کے پھول
تیرا خاکی آشیاں تابندہ و روشن رہے
اور خوشبو سے معطر تیرا یہ آنگن رہے
جنت الفردوس میں ہو اعلیٰ تر تیرا مکاں
تتلیاں اور بلبلیں ہوں تیرے گھر کی پاسباں
ہوں تری شاہِ سلیماں سے ملاقاتیں وہاں
اولیا اللہ کی ہو مثل تیرا امتحاں
حشر میں تیرا محمد مصطفی نگران ہو
صدق اور حبِ رسول اللہ تری پہچان ہو
٭٭٭
قطعات
حسرت
نہیں معلوم کہ کیا سوچ کے حسرت ہر بار
مجھ سے نادار کے سینے میں مچلتی ہو گی
وہی ٹھہرے گا ظفر یاب جہاں میں احمدؔ
جس کے شیشے میں مئے ناب چھلکتی ہو گی
اثرات
اچھے کہ برے جس کے پڑیں صدیوں پہ اثرات
لمحات میں بنتا ہے وہی عالمِ اسباب
اللہ نہ کرے وقت برا آئے کسی پر
جس پر بھی یہ آیا رہی اوقات نہ احباب
مارشل لا
سر پہ سورج تھا مگر دھرتی پہ تھا ظلمت کا راج
یہ تماشا پانچ جولائی ستتر کو ہوا
چیخنا تو چاہتے تھے لوگ دھرتی کے مگر
خوف و دہشت کا سماں تھا کوئی کچھ بولا نہ تھا
تمنا
پھول ہو مقصود جس کا خار وہ بوتا نہیں
مرد ہے وہ جو مصیبت پر کبھی روتا نہیں
کام ہو جاتے ہیں اکثر میری خواہش کے خلاف
جس طرح میں چاہتا ہوں اس طرح ہوتا نہیں
جسارت
توشے کی روٹی کھا کے نحیف و نزار عشق
پہنچا تلاشِ حسن میں تاروں کے پار عشق
لوحِ جہاں پہ حسن کے دامن میں کیا ہے جز
آفت زدہ اسیر و غریب الدیار عشق
ذلت
گیسوئے خمدار ہے زنجیرِ عشق
اور لب و رخسار ہیں اکسیرِ عشق
بے خبر ہے حسن یا غفلت شعار
مل رہی ہے خاک میں توقیرِ عشق
وجد
رات بھر ہوتی رہی عشاق پر برساتِ حسن
کھل رہے تھے نو بہ نو حسنات اور سئیاتِ حسن
پاؤں میں گھنگرو پہن کر عشق نے ڈالی دھمال
ہر گھڑی مہمیز کرتے تھے جسے کلماتِ حسن
قدرِ اخلاص
انمول ہے دنیا میں نہیں قیمتِ اخلاص
خوش بخت ہیں جس جس کو ملی دولتِ اخلاص
بے عزت و ناکام ٹھہرتے ہیں منافق
بڑھتی ہوئی دیکھی ہے سدا عزتِ اخلاص
٭٭٭
تشکر: جلیل حیدر لاشاری جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید