فہرست مضامین
پروفیسر آل احمد سرور۔ فکر و فن
ڈاکٹر محمد ناظم علی
نوٹ: اس کتاب کی پروف ریڈنگ اگرچہ بہت عرق ریزی سے کی گئی ہے پھر بھی مشورہ دیا جاتا ہے اس کے متن کا تکنیکی استعمال نہ کیا جائے۔
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
دانشوران
اردو کے
نام
پیش گفتار
پروفیسر آل احمد سرور، دنیائے اردو شعر و ادب کی نہایت ممتاز و محترم شخصیت ہیں۔ اُن کے مطالعہ کی وسعت، فکر کی گہرائی، تخیل کی بلندی، اُن کی تجزیاتی سوچ بوجھ، نتائج کے امتزاج میں ان کی معروضیت اور شگفتہ طرزِ تحریر، ان کا ایک زمانہ قائل رہا ہے۔ سرور صاحب نے کبھی شدت پسندی سے کام نہیں لیا۔ لچکدار رویہ اُن کی شخصیت کا وصف ہے۔ انہوں نے اس کا حق ادا کیا۔ ترقی پسند تحریک کی ترویج و توسیع میں بھی ان کا حصہ رہا اور جب جدیدیت اپنا رنگ جمانے لگی تو سرور صاحب اس کے ہر اول دستے میں رہے۔ اس طرح کچھ بھی ہو انہوں نے قلم کو ایک امانت سمجھا اور جو بھی لکھا اس میں اُن کے ضمیر کی آواز شامل تھی۔ سرور صاحب کے فکر و فن پر لکھا گیا ہے لیکن اتنا نہیں جتنا اُن کی تحریریں استحقاق رکھتی ہیں۔ ان کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر اچھے کام بھی ہوئے ہیں۔ بہت اچھے کام، انہیں بہت اچھے کاموں میں ڈاکٹر ناظم علی کا مقالہ بھی ہے جس پر عثمانیہ یونیورسٹی نے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری عطا کی ہے۔ نہایت خوشی کی بات ہے کہ ناظم علی نے مقالہ پر نظر ثانی کی اور اب وہ اس کی اشاعت کا اہتمام کر رہے ہیں۔ ناظم علی نے سرور صاحب کی شخصیت کے ہر پہلو کو ملحوظ رکھا ہے۔ ان کے حالاتِ زندگی نہایت تفصیل سے ضبط تحریر میں لائے۔ یہ نہایت معلوماتی باب ہے۔ سرور صاحب کی شخصیت کے کئی رخ سامنے آتے ہیں اور ایسی کئی باتیں ہیں جو عام طور پر لوگوں کے علم میں نہیں ہیں۔
سرور صاحب کی علمی ادبی خدمات کا دائرہ از حد وسیع ہے۔ انہوں نے تنقید میں نئے چراغ روشن کیے۔ اُن کی صحافی کی حیثیت سے شخصیت بھی مثالی رہی ہے۔ اردو ادب، ہماری زبان اور کئی جرائد سے وہ وابستہ رہے۔ ایک سوانح نگار کے بطور بھی ان کا درجہ بلند ہے۔ اقبال کا اُن کا مطالعہ انفرادیت رکھتا ہے۔ ماہرین اقبالیات میں وہ اپنا مقام رکھتے ہیں۔ اس کا علم زیادہ لوگوں کو نہیں ہو گا کہ سرور صاحب شاعر بھی تھے اور ایک خوش فکر شاعر۔ اُن کے شعری مجموعے "سلبیل”،”ذوقِ جنوں "،”خواب”،”خلش” اور "لفظ”ہیں۔ شاعر کی حیثیت سے بھی اُن کی مرتبت ہے اور جہاں تک دانشوری کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اردو کے دانشوروں کی مختصر ترین فہرست میں بھی ان کا نام شامل رہے گا۔ اردو کا افق ان کی دانشوری سے نمایاں ہے۔ سرور صاحب کا اسلوب اُن کا اپنا رہا ہے۔ رشید احمد صدیقی کے اسلوب سے وہ متاثر ضرور رہے لیکن اپنا اسلوب پیدا کیا۔ اردو کے صاحبِ طرز انشا پردازوں میں اُن کی انفرادیت مسلم ہے۔ ڈاکٹر ناظم علی نے سرور صاحب کی شخصیت اور اُن کی علمی و ادبی خدمات کا سیر حاصل جائزہ لیا ہے۔ اُن کی کتابوں کا گہری نظر سے مطالعہ کیا۔ اُن کے بارے میں مشاہیر کی آراء کو پیش نظر رکھا اور کسی دو رعایت کو روا نہیں رکھا۔ انہوں نے غالب کی طرفداری نہیں کی، سخن فہمی سے کام لیا اور جو بھی کہنا ہوا، صاف صاف کہہ دیا۔ ناظم علی کا طرز تحریر صاف اور شفاف ہے وہ جو کہنا چاہتے ہیں اپنے قرینے سے کہتے ہیں۔ سرور صاحب کی بھاری بھرکم شخصیت اور اُن کے افکار کی بلندی سے وہ متاثر ضرور ہیں لیکن مرعوب نہیں۔ اس وجہ سے اُن کی تحریر کشش رکھتی ہے۔ سرور صاحب پر اور لکھا جائے گا۔ لوگ اپنے اپنے زاویوں سے کام لیں گے لیکن ناظم علی کی یہ کتاب سرور صاحب کی تحریروں کی تفہیم میں اپنی مرتبت رکھے گی۔ سرور صاحب کی شخصیت اور اُن کے افکار کا مطالعہ اور اصل اردو شعر و ادب کے ایک دور، ایک تہذیبی منظر نامہ، دانشوری کی ایک روایت، ان کی گہری نظر اور زندگی دوست ادبی نظریے کا ترجمان ہے۔ بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی ربع صدی کے ادبی اور تہذیبی منظر نامہ کا جائزہ قطعی مکمل نہیں ہو سکتا تا آنکہ سرور صاحب کی شخصیت اور ادبی کارناموں کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ جائزہ نہ لیا جائے ان کی شخصیت بھی مکمل اور بھرپور طریقہ سے سامنے نہیں آ سکتی اگر اس (۵۰) سال کی مدت سے صرفِ نظر کر لیا جائے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ناظم علی کی یہ کتاب قدر و قیمت کی حامل ہو جاتی ہے۔ سرور صاحب کے بارے میں جاننے کے خواہشمند ہی نہیں۔ اردو ادب اور تہذیب کا شستہ ذوق رکھنے والے بھی اس کتاب کی پذیرائی کریں گے۔ ڈاکٹر ناظم علی کو اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد !
۵؍ جون ۲۰۱۱ء
ارونا کالونی، ٹولی چوکی
حیدر آباد۔ ۵۰۰۰۰۸
سلیمان اطہر جاوید
بِسُمِ اللہ الرَّحُمٰنِ الرَّحِیُم
پیش لفظ
تمام حمد و ثنا اس رب کائنات کی جس کی ذات بڑی قدرت والی اور حکمت والی ہے۔ اور جس نے علم کی بنیاد پر انسان کو اشرف بنا یا۔ لاکھوں درود وسلام پیغمبر انسا نیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس پر ، جن کا اُمتی ہو نا خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے سب سے بڑا انعام ہے۔ خدا نے مجھے حیات بخشی، ایمان کی دولت سے سر فر از کیا۔ اور میرے حق میں علم کی راہیں آ سان فر مائیں۔ بچپن میں مجھے یہ حدیث پڑھائی گئی تھی کہ ” گود سے گور تک علم حا صل کر و” ۔ جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا اور میں علم کے مدارج طے کرتا گیا تو مجھے یہ احساس ہوا کہ خدا کی بنائی ہوئی اس وسیع و عریض کائنات میں علم کی کوئی حد نہیں۔ زندگی میں آ نے والا ہر دن انسان کے لئے کتاب زیست کا ایک نیا سبق ہوتا ہے جسے پڑھ کر وہ اپنی زندگی کو خوب سے خوب تر بنا تا ہے۔ خدا کا لا کھ لا کھ شکر ہے کہ اُس نے مجھے علم کے سمندر سے کچھ موتی حاصل کرنے کا موقع دیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے یہ مقالہ لکھنے کا اعزاز بخشا۔
پروفیسر آل احمد سرور صاحب پر تحقیقی مطالعہ کا خیال آتے ہی میں نے عثمانیہ یونیورسٹی میں پی ایچ۔ ڈی میں داخلہ لیا اور اپنی نگران پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ سے مواد کی فراہمی کے سلسلے میں مشاورت کرتا رہا۔ اور مختلف ذرائع سے آل احمد سرور سے متعلق مواد اکھٹا کرتا رہا۔ ایک محقق کے لئے موضوع کے انتخاب کے بعد سب سے کٹھن مرحلہ مواد کی فراہمی کا ہوتا ہے۔ میں نے مواد کی حصولیابی کے لئے جن کتب خانوں سے استفادہ کیا ان کے نام اس طرح ہیں۔
۱۔ ا ندرا گا ند ھی میمو ریل لا ئبر یری یو نیور سٹی آف حیدرآباد۔ گچی باؤ لی حیدرآباد
۲۔ عثما نیہ یو نیو رسٹی لا ئبر یری عثما نیہ یو نیور سٹی کیمپس حیدرآبا د
۳۔ کتب خانہ آ صفیہ افضل گنج حیدرآباد
۴۔ نظام ٹرسٹ لا ئبر یری ملک پیٹھ، حیدرآباد
۵۔ ادا رہ ادبیات اردو لا ئبریری پنجہ گٹہ، حیدرآباد
۶۔ ہنری ما رٹن انسٹی ٹیوٹ لا ئبر یری شیو رام پلی، حیدرآباد
۷۔ اردو ہال لا ئبر یری حمایت نگر، حیدرآباد
۸۔ سٹی گر ند ھا لیہ نا رائین گو ڑہ، حیدرآباد
۹۔ سٹی گر ند ھا لیہ با زار گا رڈ، نا مپلی حیدرآباد
۱۰۔ سٹی گر ند ھا لیہ نظام آباد
۱۱۔ سٹی گرندھالیہ نلگنڈہ
۱۲۔ مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ۔ اتر پردیش
۱۳۔ خدا بخش لائبریری پٹنہ۔ بہار
۱۴۔ وینکٹ رام ریڈی ریسرچ سنٹر۔ پرانی حویلی۔ حیدرآباد
۱۵۔ نجی کتب خانہ عبدالصمد۔ حیدرآباد
۱۶۔ نجی کتب خانہ ڈاکٹر مغنی تبسم پنجہ گٹہ، حیدرآباد
۱۷۔ نجی کتب خانہ پروفیسر اشرف رفیع حیدرآباد
۱۸۔ ہاشمی کتب خانہ۔ مانصاحب ٹینک، حیدرآباد
ان کتب خانوں کے علاوہ میں نے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر آل احمد سرور کے رشتے داروں، دوست احباب،عزیز و اقارب، شاگردوں، اساتذہ اردو، دانشوروں، نقادوں، شعرا اور ادیبوں سے شخصی ملاقات کرتے ہوئے ، انٹرویو لیتے ہوئے اور خطوط کے ذریعہ ضروری مواد اکھٹا کیا۔
مو اد کے حصول کے بعد ایک محقق کے رو بر و اہم کام ضروری اور غیر ضروری مو اد میں فرق کرنا اور کارآمد مو اد کو منا سب انداز میں ترتیب دینا ہوتا ہے۔ تا کہ مقالہ کے تسوید میں آسانی ہو۔ ایک محقق کو پہلے مفروضہ قائم کرنا پڑ تا ہے۔ اور ایک ایک گتھی سلجھاتے ہوئے نتائج حا صل کرنا پڑ تا ہے۔ تحقیق کے طالب علم کو ہر بات شک کی نظر سے دیکھنی پڑتی ہے۔ اور کسی بات پر آنکھ بند کر کے بھر وسہ کرنے کے بجائے مختلف ذرائع اور حوالوں سے کسی ایک بات کی تہہ تک پہونچنا ہوتا ہے۔ چنانچہ آل احمد سرورؔکی حیات شخصیت اور اُن کے کارناموں سے متعلق دستیاب مو اد کو داخلی شہا دتوں اور بیرونی عوامل کے ذریعہ پرکھا گیا اور نتائج حا صل کئے گئے۔ مقالے کے تسو ید سے قبل ایک اور ضروری مر حلہ موضوع کی مختلف ابو اب میں تقسیم ہوتا ہے۔ تاکہ مقالے میں پیش ہونے والے مو اد کی درجہ بندی آسانی سے ہو۔ استاد محترم پر وفیسر اشرف رفیع صاحبہ نے موضوع کو مختلف ابو اب میں تقسیم کرنے میں میری بھر پور رہنمائی کی۔ اور ایک ایک باب کی تسوید کے بعد اس کی گہرائی سے جا نچ کی۔ اور دوران تسو ید مفید مشورے دئے۔ اس طرح میرا تحقیقی مقالہ ” آل احمد سرور فکرو فن” مکمل ہوا۔
آخر میں، میں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت دے کر اس مقالہ کے لئے ” پیش گفتار "لکھا۔ اس کے علاوہ اس کتاب کی اشاعت کے لئے نصاب پبلشرس کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے اس مقالہ کو کتاب کی شکل دی۔
زیر نظر مقالہ ” آل احمد سرور فکرو فن”کودس ابو اب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن کے نام اس طرح ہیں۔
۱) پہلا باب:۔ آل احمد سرور۔ حالات زندگی اور شخصیت۔
۲) دوسرا باب:۔ آل احمد سرور۔ علمی و ادبی خدمات۔
۳) تیسرا باب:۔ آل احمد سرور بہ حیثیت نقاد۔
۴) چوتھا باب:۔ آل احمد سرور اور اقبال۔
۵) پانچواں باب:۔ آل احمد سرور بہ حیثیت صحافی۔
۶) چھٹا باب:۔ آل احمد سرور بہ حیثیت سوانح نگار۔
۷) سا تواں باب:۔ آل احمد سرور بہ حیثیت شاعر۔
۸) آٹھواں باب:۔ آل احمد سرور بہ حیثیت دانشور۔
۹) نواں باب:۔ آل احمد سرور کا اسلوب۔
۱۰) دسواں باب:۔ آل احمد سرور مشاہیر کی نظر میں۔
امید کہ قارئین اس پیشکش کو درجہ قبولیت عطا کریں گے۔
حیدرآباد
بتاریخ : /05 مارچ 2012 ء
ڈاکٹر محمد ناظم علی
پہلا باب
آل احمد سرور۔ حالات زندگی اور شخصیت
پروفیسر آل احمد سرور اردو شعر و ادب کے ایک نامور نقاد، صاحب طرز ادیب، اچھے شاعر، فعال صحافی، سوانح نگار، مفکر، مبصر، مدبر، غیر معمولی دانشور، اردو تحریک کے معتبر راہ نما، مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے علمبردار، نکتہ شناس، قابل استاد، بہترین منظم اور لائق انسان گذرے ہیں۔ اُن کی شخصیت اور خدمات کا دائرہ مختلف جہات پر محیط رہا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہی نہیں بلکہ اُن کی شخصیت ایک مینارہ نور اور کئی انجمنوں کا مجموعہ تھی۔ وہ علم و ادب، تہذیب و ثقافت اور انسانیت کے ایک ایسے رودِ رواں تھے جس سے زندگی کے کئی شعبے سیراب ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ وہ ایک نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔ سر زمین ہندوستان کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ ہر زمانے میں یہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی شخصیتوں کا ظہور ہوتا رہا۔ شہنشاہ سخن میر تقی میرؔ نے ایسی شخصیات کے بارے میں کہا تھا کہ:
مت سہیل ہمیں جانو پھر تا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
کچھ اس طرح کا خیال پیش کرتے ہوئے سرورؔ نے خود کہا کہ
ستارے کتنے یہاں ڈوبتے ابھرتے ہیں
کبھی کبھی ہی نکلتا ہے آفتاب کوئی
واقعی سرور صاحب علم و ادب، فکر و دانشمندی کا ایک ایسا آفتاب تھے۔ جو صدیوں میں طلوع ہوتا ہے۔ اُردو شعر و ادب کے روشن ستاروں میں جہاں میرؔ، غالبؔ ، انیسؔ ، اقبالؔ، سر سیدؔ ، حالیؔ، شبلیؔ، فانیؔ، اکبرؔ، آزادؔ، جگرؔ، جوشؔ، فراقؔ، فیضؔ وغیرہ کا شمار ہوتا ہے وہیں آل احمد سرور اپنے عہد کے شعرا اور ادیبوں، نقادوں اور دانشوروں میں صدر محفل کی حیثیت رکھتے تھے۔ سرور صاحب کا دوسرا تعارف علی گڈھ کے حوالے سے بھی ہے سر سید احمد خان نے یہاں مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلم یونیورسٹی قائم کی۔ آج علی گڈھ اسی یونیورسٹی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ابتداء میں اکبرؔ جیسے لوگوں نے سر سید کی شدید مخالفت کی تھی لیکن تعلیم کے ثمرات دیکھ کر انہیں بھی کہنا پڑا تھا۔
جی میں آتا ہے علی گڈھ جا کے سید سے کہوں
مجھ سے چندہ لیجئے مجھ کو مسلماں کیجئے
علی گڈھ کے متوالوں میں رشید احمد صدیقی کے بعد آل احمد سرور کا نام آتا ہے۔ سرور صاحب علی گڈھ کے سچے عاشق اور سر سید کی اصلاحی تحریک کے ہمنوا تھے۔ وہ علی گڈھ کو اس قدر چاہتے تھے کہ پہلے اُس نے سرور صاحب کو اردو دنیا سے متعارف کروایا بعد میں علی گڈھ سرور صاحب کے نام سے جانا جانے لگا۔ آل احمد سرور کی حیات اور اُن کے علمی و ادبی کارنامے اُردو تنقید کے لئے خصوصاً اور عمومی طور پر اُردو والوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ذیل میں آل احمد سرور کی حیات، شخصیت اور اُن کے علمی و ادبی کارنامے پیش کئے جا رہے ہیں۔
آباء و اجداد
آل احمد سرور کے آباء و اجداد کا تعلق مصر کے علاقے فرشور سے تھا۔ اور اُن کا سلسلہ نسب حضرت عبدالرحمن بن ابو بکرؓ سے ملتا تھا۔ اُن کے آباء و اجداد صدیقی شیوخ تھے۔ اور فرشور مصر سے نقل مقام کر کے ہندوستان آ گئے اور یہیں پیوند خاک ہوئے۔ اُن کے خاندان کی ایک شاخ آج بھی اپنے نام کے ساتھ فرشوری لکھتی ہے۔ سرور کے پر دادا کے والد شاہ ذاکر اللہ مشہور صوفی بزرگ تھے۔ جبکہ پر دادا بھی اللہ والے فقیر منش آدمی تھے۔ سرور صاحب کے دادا حافظ محمد احمد سیدھے سادے مذہب پرست انسان تھے۔ صوم صلوٰۃ کے پابند تھے۔ مارہرے کے قادری سلسلے میں بیعت تھے حج کے لئے گئے تھے۔ واپسی میں اُن کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت اُن کی عمر پچاس سال تھی۔ سرور صاحب کے اسلاف ابتداء میں سر سید کے مخالف تھے۔ لیکن اُن کے دادا حافظ محمد احمد نے یہ روایت توڑی اور اپنے بچوں کو سر سید کے ایم۔ اے۔ او کالج میں داخل کرایا۔ بنیادی طور پر سرور صاحب کا خاندان مذہبی تھا۔ معاشی اعتبارسے اُن کا خاندان متوسط طبقہ میں شمار کیا جاتا تھا۔ اُن کے ہاں چھوٹی سی زمین داری تھی۔ سرور صاحب کے دادا حافظ محمد احمد کی اولاد میں کرم احمد تھے۔ یہ سرور کے والد تھے کرم احمد اپنے والد کے برخلاف کسی سے بیعت نہیں تھے۔
والدین
سرور صاحب کے والد کا نام کرم احمد تھا۔ یہ بھی اپنے بزرگوں کی طرح مذہبی آدمی تھے اور احکام شریعت کی بڑی پابندی کیا کرتے تھے۔ کرم احمد کا حافظہ بہت اچھا تھا جو بھی تحریر ایک دفعہ پڑھ لیتے ذہن نشین کر لیتے تھے۔ مطالعہ کے بہت شوقین تھے۔ ہر وقت مطالعہ میں غرق رہتے تھے۔ اُن کے والد حافظ محمد احمد نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے انہیں اعلی تعلیم کے لیے سر سید احمد خاں کے قائم کردہ ایم۔ اے۔ او کالج علی گڈھ میں داخلہ دلوایا۔ تاہم اپنے والد کی بے وقت موت نے انہیں انٹرنس کامیاب کرنے کے بعد ترک تعلیم کے لیے مجبور کیا۔ انہوں نے صرف ایف۔ اے کیا۔ اور انہیں ملازمت اختیار کرنی پڑی۔ کرم احمد محکمہ ڈاک میں ملازم ہو گئے۔ ملازمت کے سلسلے میں وہ یو پی کے مختلف شہروں بدایوں، آگرہ، غازی پور، میرٹھ، پیلی بھیت، الہ آباد، بجنور، سیتا پور، گونڈہ اور علی گڈھ وغیرہ میں رہے۔ کرم احمد کی شادی بدایوں کے مشہور رئیس مولوی حامد بخش کی بیٹی تنویر فاطمہ سے ہوئی۔ یہ سرور کی والدہ تھیں۔ بے حد سیدھی سادی، کم سخن اور سنجیدہ خاتون تھیں۔ انہوں نے کچھ زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق انہیں صرف دینی تعلیم دلوائی۔ وہ نیک اور خوش اخلاق خاتون تھیں۔ سرور کے والد کرم احمد نے محکمہ ڈاک میں طویل مدت تک خدمات انجام دیں۔ پوسٹ ماسٹر فرسٹ گریڈ کے عہدے پر ترقی پائی۔ ۱۹۴۱ء میں وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔ کرم احمد کا انتقال ۱۹۷۱ء میں ہوا۔ انہوں نے ۸۶ سال عمر پائی۔ اُن کی آخری آرام گاہ علی گڈھ میں ہے۔ سرور صاحب کا ننھیال بہت دولت مند اور خوشحال تھا۔ اُن کے نانا مولوی حامد بخش ایک رئیس خاندان سے تعلق رکھتے تھے وہ شہر کے زمیندار اور میونسپل بورڈ کے وائس چیرمین تھے۔ سرور صاحب کا ددھیال بدایوں کے مولوی ٹولے علاقے میں تھا تو اُن کا ننھیال محلہ سوتھ میں تھا۔
بھائی بہن
کرم احمد اور تنویر فاطمہ کو خدا نے اٹھارہ اولادیں دیں۔ لیکن اُن میں سے بارہ جلد ہی فوت ہو گئیں۔ سرور کے بشمول چھ اولادوں کو طویل عمر ملی۔ کرم احمد کے بڑے بھائی ابن احمد تھے۔ جن کا انتقال ۱۹۷۰ئ میں ہوا۔ ایک بڑی بہن بیوہ تھیں۔ جن کا انتقال ۱۹۳۵ء میں ہو گیا۔ سرور کی چھوٹی بہن نے ۱۹۶۶ء میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ ایک بھائی علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں معاشیات کے ریڈر رہے۔ چھوٹی بہن نے کراچی پاکستان میں قیام کیا۔
ولادت
آل احمد سرور ۱۵؍ رمضان المبارک ۱۳۲۹ھ م ۹؍ ستمبر ۱۹۱۱ء کو شمالی ہند کی ریاست اتر پردیش کے علاقہ پیلی بھیت ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے۔ بدایوں مغربی اتر پردیش کا تاریخی شہر ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں آل احمد سرور نے اپنے وطن کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ :
"شاید یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ میرا آبائی وطن بدایوں ہے۔ بدایوں ایک تاریخی شہر ہے اور وہاں کے کھنڈر اور ٹوٹی پھوٹی حویلیاں اب بھی اُس کی گزشتہ عظمت کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بستی قدیم زمانے سے علماء و فضلا، شعرا اور صوفیائے کرام کا مرکز رہی ہے۔ میرے بچپن کا زمانہ وہیں گذرا میں نے جب آنکھ کھولی تو گھر گھر شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ آئے دن مشاعرے ہوتے جس میں باہر سے مشہور شعرا شریک ہونے کے لیے آتے اور بدایوں کے چھوٹے بڑے سبھی اپنا کلام سناتے۔ وہاں بزرگوں کے مزار بڑی کثرت سے ہیں۔ جن کے عرس بڑی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔ بدایوں کی تہذیبی و سماجی زندگی میں ان عرسوں کی بڑی اہمیت ہے۔ اس موقع پر کھیل تماشے اور میلے ٹھیلے کے علاوہ مشاعروں کا بھی رواج تھا۔ ۱؎
بدایوں کی تاریخی اہمیت اور کئی لحاظ سے بھی ہے۔ یہاں فتح دہلی سے پہلے کے مسلمانوں کی نو آبادی کے آثار ملتے ہیں۔ اور عہد سلطنت میں اس شہر کو قبلۃ الاسلام کہا جاتا تھا۔ بعد میں اسے مدینۃ الاولیاء کہا جانے لگا۔ اس شہر سے کئی ممتاز ہستیوں کے نام وابستہ ہیں۔ تصوف میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ، حدیث کے میدان میں علامہ رضی الدین حسن صغاری، شعر و ادب میں فانی بدایونی ضیاء، احمد بدایونی، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، علامہ حیرت بدایونی، محترمہ جیلانی بانو وغیرہ شامل ہیں۔ آل احمد سرور کا وطن یہی بدایوں شہر تھا۔ آل احمد سرور کے تاریخ پیدائش میں اختلاف اس وقت ہوا جبکہ ۱۷؍ جنوری۱۹۲۱ء کو اُن کا نام پیلی بھیت کے گورنمنٹ ہائی اسکول کے تیسرے درجے میں داخلے کے لیے درج کیا گیا۔ اُس وقت اُن کے والد نے اُن کا تاریخ پیدائش۱۷؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء درج کرایا۔ جو درست نہیں ہے۔ بعد کے محققین میں اسی بناء آل احمد سرور کے تاریخ پیدائش کے تعین کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اردو کی نامور محقق پروفیسر سیدہ جعفر لکھتی ہیں کہ :
"آل احمد سرور پیلی بھیت میں ۱۱؍ اگست ۱۹۱۲ء میں پیدا ہوئے۔ "۲؎
پروفیسر سیدہ جعفر نے یہ بات احتشام حسین کی کتاب "اردو ادب کی تنقیدی تاریخ کے حوالے سے لکھی۔ جب کہ پروفیسر سیدہ جعفر کے زیر نگرانی عابد النساء نے ایم فل کی ڈگری کے لیے ایک تحقیقی مقالہ "پروفیسر آل احمد سرور حیات اور ادبی خدمات ” کے نام سے لکھا جو ۱۹۷۰ئ میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ اس کتاب میں عابد النساء نے آل احمد سرور کا تاریخ پیدائش۱۱؍ اگست ۱۹۱۱ء لکھا۔ ۱۷؍ فروری۲۰۰۲ء کو آل سرور کی یاد میں روزنامہ سیاست کے ادبی سپلمنٹ کا سرور نمبر شائع ہوا۔ اس میں آل احمد سرور سے متعلق پروفیسر نثار احمد فاروقی، پروفیسر سلیمان اطہر جاوید، مولانا محمد رضوان القاسمی اور ڈاکٹر ابرار رحمانی کے مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین میں آل احمد سرور کے تاریخ اور سنہ پیدائش کے بارے میں اختلاف واضح دکھائی دیتا ہے۔ اسی اختلاف کو اُجاگر کرتے ہوئے حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک محقق اور اپنے معلوماتی مراسلوں کے ذریعہ ادبی مسائل کی طرف توجہ دلانے والے ڈاکٹر م۔ ق۔ سلیم نے ۲۵؍ فروری۲۰۰۲ء کے سیاست ادبی سپلمنٹ میں پروفیسر آل احمد سرور کے صحیح سنہ پیدائش کے تعین کے سلسلہ میں بنیادی سوال اُٹھایا۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں :
"اتنے بڑے ادیب، مفکر اور نقاد کی تاریخ پیدائش کے بارے میں متضاد رائے ہے۔ ادبی ڈائری میں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید سنہ پیدائش۱۹۱۱ء بتائے ہیں۔ مولانا رضوان القاسمی نے اپنے مضمون میں ۹؍ ستمبر ۱۹۱۱ء بتائے ہیں۔ مولانا رضوان القاسمی نے اپنے مضمون میں ۹؍ ستمبر۱۹۱۱ء ہی لکھا ہے۔ جبکہ "آل احمد سرور ایک نظر”میں ڈاکٹر ابرار رحمانی کے مضمون کے نیچے سنہ پیدائش۹؍ ستمبر ۱۹۱۲ء بتائی گئی ہے۔ اور پروفیسر نثار احمد فاروقی نے بھی۹؍ ستمبر ۱۹۱۲ء بدایوں ہی لکھا ہے۔ جبکہ ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء کو شائع پروفیسر سیدہ جعفر کا مضمون "آل احمد سرور”میں انہوں نے ایک نئی تاریخ۱۱؍ اگست ۱۹۱۲ء لکھا ہے۔ اور جائے پیدائش پیلی بھیت درج کی مندرجہ بالا چار مضامین۱۷؍ فروری کے ہیں۔ اور چار مضامین میں چار علیحدہ باتیں ہیں۔ بدایوں سے پیلی بھیت کا فاصلہ ۱۰۰ کلو میٹر سے زیادہ ہے اصل تاریخ پیدائش کیا ہے اور مقام پیدائش کیا ہے۔ "۴؎
بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے اردو کے ایک نامور ادیب و نقاد کے سنہ پیدائش کے تعین کے سلسلے میں اردو کے ادیبوں، محققین اور نقادوں کی رائے میں اختلاف تعجب خیز امر ہے۔ م۔ ق سلیم نے اس ضمن میں اُصولی سوال اُٹھائے۔ راقم نے روزنامے سیاست کے ادبی سپلمنٹ میں ہی اُن کے سوال کا تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کی۔
تاریخ پیدائش کے تحفظ اُس کی اہمیت کے سلسلے میں چند اصولی باتیں مد نظر رکھنی چاہئے۔ سب سے پہلے یہ کہ ہندوستان میں ۱۹۷۰ء کے بعد حقیقی تاریخ پیدائش کی پیشکشی پر زور دیا جانے لگا۔ اور اُس کے لیے پیدائش کا صداقت نامہ (Birth Certificate) سرکای محکمے کی طرف سے جاری کیا جانے لگا۔ اس سے قبل اسکول کے ریکارڈس میں والدین کی جانب سے دی گئی تاریخ کو ہی کسی بچے کی تاریخ پیدائش تسلیم کیا جاتا تھا۔ پہلے زمانے میں مسلمانوں میں بچے کی تسمیہ خوانی پانچویں سال میں ہوتی تھی۔ اس کے بعد گھر پر دینی اور مشرقی علوم کی تعلیم کا نظم رہتا تھا۔ پھر اسکول میں داخلے کا مرحلہ آتا تھا۔ چنانچہ عام طور سے والدین کی یہ نفسیات ہوا کرتی تھی کہ بچے کی عمر کم کرا کر لکھوائی جائے تاکہ بچے کو ملازمت کے دوران نقصان نہ ہو۔ کیونکہ وظیفہ کے لیے حد عمر مقرر ہوا کرتی ہے۔ بہت کم مثالیں ایسی ہیں جن میں کسی کی عمر کم کر کے لکھوائی گئی ہو۔ جہاں تک حقیقی تاریخ پیدائش کا ریکارڈ رکھنے کا معاملہ ہے خاندان کا کوئی ایک فرد کسی ڈائری یا کتاب میں خاندان میں پیدا ہونے والے بچوں کی تاریخ پیدائش، سنہ، دن وقت ولادت اور سال ہجری، عیسوی اور فصلی میں لکھا کرتا ہے۔ کبھی کسی خاص موقع پر یہ ریکارڈ کھول کر دیکھا جاتا۔ لیکن مدارس میں داخلے کے وقت عام طور سے عمر بڑھا کر لکھوائی جاتی تھی۔
آل احمد سرور نے اپنی سوانح میں خود یہ واضح کر دیا کہ اُن کا تاریخ پیدائش۹؍ ستمبر ۱۹۱۱ء ہے۔ تاہم اسکول میں ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء درج کرایا گیا۔ اگر آل احمد سرور اپنا پہلا تاریخ پیدائش نہیں ظاہر کرتے تو اُن کے اسکول کے ریکارڈ کے مطابق ہی اُن کی تاریخ پیدائش اور سنہ کا تعین ہو جاتا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ ۱۵؍ رمضان المبارک کو پیدا ہوئے تھے۔ عموماً چاند کی تاریخوں میں لوگ دیگر مہینوں کی تواریخ یاد رکھیں یا نہ رکھیں ماہ رمضان کی تاریخیں اچھی طرح یاد رکھتے ہیں۔ اس طرح ماہ رمضان کی مناسبت سے اُن کے تاریخ پیدائش کے تعین کے سلسلے میں غلط فہمی یا غلط بیانی کا احتمال کم ہے۔ تحقیق کے میدان میں خارجی دلائل کو اُسی وقت قبول کیا جاتا ہے جب کہ داخلی شہادت نہ ہو۔ یہاں آل احمد سرور کے تاریخ پیدائش کے ضمن میں داخلی شہادت واضح طور پر موجود ہے۔ اس لئے میری رائے میں اُن کا حتمی تاریخ پیدائش۹؍ ستمبر ۱۹۱۱ء ہی ہے۔ اور ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء والی تاریخ اسکولی ضرورت کے لیے استعمال کی گئی۔ اس طرح اردو کے محققین نے آل احمد سرور کے تاریخ پیدائش کے ضمن میں کوتاہی برتی ہے۔ جہاں تک سرور کے جائے پیدائش کا معاملہ ہے وہ پیلی بھیت ہی ہے۔ جو بدایوں کے تحت آتا ہے عام طور سے جب کسی ادیب کو قومی اور بین الاقوامی شہرت مل جاتی ہے تو اُس سے وابستہ بڑے شہروں کے نام لئے جاتے ہیں۔ چنانچہ سرور نے بھی بیشتر مقامات پر اپنا جائے پیدائش بدایوں بتایا ہے جبکہ پیلی بھیت بدایوں ضلع کا ہی حصہ ہے۔ اس لئے پیلی بھیت اور بدایوں کو الگ نہیں سمجھنا چاہئے۔
نام
۹؍ ستمبر ۱۹۱۱ء کو کرم احمد اور تنویر فاطمہ کے گھر جس لڑکے نے آنکھ کھولی اُس کا نام خاندان کے ایک بزرگ کے نام پر آل احمد رکھا گیا۔ آل احمد کے بڑے بھائی کا نام ابن احمد تھا۔ نام کے ساتھ احمد کنیت کا استعمال سرورؔ کے دادا حافظ محمد احمد سے اُن کے خاندان میں چلا آیا۔ آل احمد نے آگے چل کر اپنا قلمی نام اور تخلص سرورؔ رکھا۔ ابتداء میں انہوں نے ارشدؔ تخلص اختیار کیا لیکن آگے چل کر اپنا تخلص سرورؔ کر لیا۔ اور علمی دنیا میں آل احمد سرورؔ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
ابتدائی تعلیم
آل احمد سرور کا بچپن پیلی بھیت، بجنور، سیتا پور، گونڈہ اور غازی پور میں گذرا۔ کیونکہ اُن کے والد کرم احمد کو ملازمت کے سلسلے میں مختلف مقامات کی سکونت اختیار کرنی پڑی تھی۔ کرم احمد جہاں بھی جاتے اپنے خاندان کو ساتھ رکھتے تھے۔ اس وقت کی روایت کے مطابق سرو رکی تعلیم کا آغاز تسمیہ خوانی کے بعد ہوا۔ پانچ سال کی عمر میں انہیں مکتب بھیجا جانے لگا۔ مکتب میں ناظرہ قرآن پڑھایا گیا۔ آمد نامہ اور گلستان کے کچھ ابو اب پڑھے۔ یہ ابتدائی تعلیم بدایوں میں ہوئی پھر اُن کے والد کا تبادلہ پیلی بھیت میں ہو گیا۔ ۱۹۲۰ئ کے آخر میں سرور نے مکتب میں قرآن شریف ختم کر لیا تھا۔ اس کے بعد اُن کی اسکولی تعلیم کا آغاز ہوا۔ چنانچہ ۱۷؍ جنوری۱۹۱۲ء کو گورنمنٹ ہائی اسکول پیلی بھیت میں تیسرے درجے میں اُن کا داخلہ کرایا گیا۔ اس دوران اُن کے والد بدایوں، بجنور، سیتا پور اور گونڈہ اور غازی پور منتقل ہوتے رہے۔ اور سرور کی تعلیم بھی ان مقامات پر ہوتی رہی۔ جب گونڈہ سے اُن کے والد کا تبادلہ غازی پور ہوا۔ تب سرور سا تویں درجے میں تھے۔ غازی پور کے کوئین وکٹوریہ ہائی اسکول سے انہوں نے ۱۹۲۸ء میں ہائی اسکول کا امتحان کامیاب کیا۔
بچپن کی یادیں
ہر انسان کو اُس کا بچپن عزیز ہوتا ہے اور وہ زندگی کے ہر موڑ پر کہیں نہ کہیں بچپن کی یادوں کے سہارے اپنا جی بہلاتا ہے۔ سرور نے بھی اپنی خود نوشت سوانح "خواب باقی ہیں "میں اپنے بچپن کے واقعات بیان کئے ہیں۔ جس سے اُن کے عادات و اطوار اور علمی استعداد اور ذہانت و فطانت اور اُن کے مشاغل کا پتہ چلتا ہے۔
آل احمد سرور بچپن ہی سے تیز تھے انہیں اپنے والد سے ذہانت ورثے میں ملی تھی۔ اُن کا حافظہ بہت تیز تھا۔ پڑھائی میں سب سے آگے رہتے تھے حافظہ کا یہ عالم تھا کہ درجے میں ایک مرتبہ جو سبق پڑھایا جاتا وہ ذہن پر نقش ہو کر رہ جاتا۔ اپنے بچپن کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"ایک دفعہ سنیچر کے دن ماسٹر نے کہا کہ پیر کو آموختہ سنا جائے گا۔ اور پورا سبق دو دفعہ پڑھ لیا جائے۔ پیر کو امتحان ہوا میں نے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا تھا۔ پوچھنے پر بتایا کہ ایک دفعہ سبق پڑھا تھا۔ ماسٹر نے اس پر مارا کہ جب دو دفعہ پڑھنے کو کہا تھا تو ایک دفعہ کیوں پڑھا۔ لطف یہ ہے کہ ایک دفعہ بھی نہیں پڑھا تھا۔ ” ۵؎
سرور کو عام بچوں کی طرح ابتداء میں کھیل کود سے دلچسپی رہی۔ لیکن آہستہ آہستہ اُن کی دلچسپی کھیل سے زیادہ مطالعہ کی طرف ہوتی گئی۔ بچپن میں اُنہوں نے گلی ڈنڈا بھی کھیلا۔ انہیں بڑے بوڑھوں کی باتیں سننے میں مزہ آتا تھا۔ سرور نے ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں شعر و ادب کا چرچا تھا۔ گھر میں بیت بازی کا رواج تھا۔ جس میں گھر کے سبھی افراد حصہ لیتے تھے۔ بیت بازی کے اسی شوق نے اُن میں شاعری کا ذوق پروان چڑھایا۔
کتب بینی اور بیت بازی کے علاوہ سرور کو عرسوں میں شرکت کا شوق تھا۔ بدایوں میں کئی بزرگوں کے مزارات ہیں اور آئے دن وہاں اعراس منعقد ہوا کرتے تھے۔ جن میں محفل سماع اور قوالی کی محفلیں جمتی تھیں۔ سرور ان محفلوں میں شرکت کرتے تھے۔
سرو رکے مطالعہ کا ذوق پروان چڑھتا رہا۔ وہ اکثر اپنے والد کی انگریزی یا اُردو کی کتابیں چھُپا کر پڑھنے لگتے تھے۔ جس کی وجہ سے انہیں مار بھی کھانی پڑی۔ مگر اُن کی عادت نہ چھوٹی۔ اسی شوق کی بناء پر کم سنی ہی میں اردو ادب کی کئی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اور ڈپٹی نذیر احمد کی "مرأۃ العروس”توبۃ النصوح اور الف لیلیٰ جیسی کتابیں پڑھیں۔ ایک دفعہ "فسانہ آزاد”کا مطالعہ کرتے ہوئے پکڑیے گئے۔ اور مار کھائے۔ اسی طرح ادبی کتابوں کے مطالعہ کے دوران اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے سرور لکھتے ہیں :
"ایک دفعہ ایسا ہوا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں طلسم ہو شربا کی کئی جلدیں اور تاریخ ابن خلدون کے کئی حصے مل گئے۔ میرا برا حال تھا کبھی ایک کو صبح سے دوپہر تک پڑھتا۔ کبھی دوپہر سے شام تک دوسری کو کچھ سمجھتا تھا کچھ نہیں مگر پڑھ سب جاتا تھا” ۔ ۶؎
سرور صاحب کے والد کرم احمد ۱۹۱۷ء اور ۱۹۱۸ء کے درمیان میرٹھ میں تعینات تھے۔ اس وقت سرور کی گھریلو تعلیم جاری تھی۔ اس زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے سرور لکھتے ہیں :
"پڑوس میں ایک مسلمان گھرانہ سال بھی تھا۔ جس میں ایک لڑکی مجھ سے دو تین بڑی تھی۔ اس کا نام غالباً عائشہ رہا ہو گا۔ مگر ہم لوگ اُسے آشا کہتے۔ یہ لڑکی اکثر دلہن بنتی اور مجھے دولہا بناتی۔ اپنا دوپٹہ ہم دونوں میں ڈال دیتی یہ سب باتیں بہت عجیب اور پر اسرار معلوم ہوتی تھیں۔ ان میں ایک بے نام سی لذت بھی تھی” ۔ ۷؎
بچپن کی ان یادوں کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا نے سرورؔ کو بچپن ہی سے شاعرانہ ذہن اور مزاج دیا تھا۔ آگے چل کر وہ جس پائے کے ادیب، نقاد، شاعر اور دانشور بنے تھے اُس کی بنیاد بچپن ہی میں پڑ گئی تھی۔
سرورؔ کو اکثر بچوں کی طرح خیالی پلاؤ پکانے کی عادت تھی۔ کبھی وہ اپنے اسکول سے والد کے ڈاک خانے تک پیدل جایا کرتے تھے جو دو میل کے فاصلے پر تھا۔ سرور گھر سے نکلتے اور پیدل چلتے ہوئے خواب و خیال میں کبھی بادشاہ بنتے، کبھی سیاست دان، کبھی سپہ سالار اور کبھی منصف۔ اس طرح وہ دھوپ کی پرواہ کئے بغیر پیدل چلتے جاتے تھے۔ سرور کو پڑھائی سے دلچسپی تھی۔ اور فطری طور پر وہ ذہین واقع ہوئے تھے۔ انہیں اردو کے ساتھ انگریزی سے بھی لگاؤ ہو گیا۔ اس زمانے میں بہت کم لوگ انگریزی پڑھا کرتے تھے۔ خاص طور سے بچوں کو اردو کے علاوہ عربی فارسی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ سرور پڑھائی میں آگے بڑھتے رہے اور اسکول کے مختلف درجوں میں اول آتے رہے۔ وہ ریاضی میں شروع سے کمزور رہے اور یہ سلسلہ آگے تک جاری رہا۔ خاص تیاری کرنے پر بھی وہ ہر سال ریاضی میں کم نشانات حاصل کر پاتے تھے۔
سا تویں اور آٹھویں جماعت ہی سے سرورسلیس اردو لکھنے لگے تھے۔ اور شعر بھی موزوں کرنے لگے تھے۔ شمالی ہند کے آم کافی مشہور ہیں ملیح آباد آموں کے لئے جانا جاتا ہے۔ دسہری وہاں کا خاص آم ہے وہاں آموں کی دعوت کا رواج بھی پایا جاتا تھا۔ آموں کی دعوت مقرر کی جاتی بڑے سے ہال یا برآمدے میں پانی میں ڈوبے آموں کے پتیلے رکھ دئے جاتے۔ اور احباب کو جی بھر کر آم کھانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ امراء اور نوابین کے گھروں میں آموں کی دعوتیں اور اُن دعوتوں میں آموں سے متعلق کہی گئی باتیں ادبی شان رکھتی ہیں۔ ایسی ہی ایک آم کی دعوت کا ذکر کرتے ہوئے سرور لکھتے ہیں کہ :
مدت کے بعد ماموں نے کھلوائے آج آم
کھانے کو زیادہ تھے ولے کم کھا کے رہ گئے
کھانا ضرور تھا ہمیں کچھ ان کے سامنے
دندان شکن تھے آم تو غم کھا کے رہ گئے
"اس زمانے کی تہذیب یہ تھی کہ ان اشعار پر ڈانٹ نہ پڑی بلکہ الٹی تعریف ہوئی۔ ہاں اُس کے بعد پھر آموں کی دعوت نہ ہوئی۔ اس زمانے میں ہم لوگ شام کو یا تو چھوٹے چچا کے یہاں جمع ہوتے یا ایک رشتہ دار ماسٹر منور کے یہاں۔ وہاں شعر و شاعری ہوتی کتابوں کی باتیں ہوتیں۔ اور ہندوستان کی سیاست پر اظہار خیال۔ میں اب باقاعدہ غزل کہنے لگا تھا۔ اس زمانے میں ارشدؔ تخلص کرتا تھا۔ بعد میں سرورؔ تخلص اختیار کیا” ۔ ۸؎
سرورؔ کو کتابوں کے مطالعے کے شوق کے علاوہ اخبار بینی کا بھی شوق تھا۔ بچپن سے ہی وہ انگریزی اخبار پڑھنے لگے تھے۔ اردو اخبار "مدینہ”کا بھی بچپن میں پابندی سے مطالعہ کرتے تھے۔ ہائی اسکول کامیاب کرنے کے بعد سرور کو اُن کے چچا کے پاس آگرہ بھیج دیا گیا۔ جہاں اُن کے ادبی ذوق کو مزید جلا ملی۔
بچپن کے اساتذہ
سرورؔ نے بچپن میں جن اساتذہ سے علم حاصل کیا اور جن لوگوں سے وہ متاثر رہے ان میں مہدی حسن ناصری ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی اسکول، ماسٹر رام ناتھ استاد وکٹوریہ ہائی اسکول، مولوی عطاء اللہ صاحب، مولانا عبدالماجد بدایونی، مولوی شفیع احمد صاحب اور خود اُن کے والد کرم احمد شامل ہیں۔ مولوی عطاء اللہ صاحب اُن کے پڑوس میں رہتے تھے اور قصائد لکھنے میں ماہر تھے۔ مولانا عبدالماجد بدایونی بڑیے اچھے مقرر تھے اُن کی تقریریں سننے سے سرور صاحب کو بہت لطف آتا تھا۔ مولوی شفیع احمد صاحب آل احمد سرور کے چچا تھے وہ بچوں سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں غیر معمولی دلچسپی لیا کرتے تھے۔ سرور کے بچپن کے ساتھیوں میں افضال احمد قادری بھی قابل ذکر ہیں۔ جو رشتہ میں سرور کے خالہ زاد بھائی تھے۔ وہ آگے چل کر کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ہوئے۔ اُن کا انتقال کراچی میں ۱۹۷۵ء میں ہوا۔ سرور اپنے والد کے ملنے جلنے والوں کے ساتھ وقت گزارتے اور اُن کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے۔ اس طرح بچپن میں سرور کو کئی ذی علم ہستیوں کی صحبت میں رہنے اور اُن سے اکتساب فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ سرور جس اسکول میں پڑھتے تھے وہاں ہندو اور مسلمان طلباء ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ وہاں مذہبی بھید بھاؤ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ سرور شروع ہی سے ملنسار واقع ہوئے تھے۔ اور ہر ایک سے مخلصانہ رویہ اختیار کرتے تھے۔ اس طرح دانشور سرور بچپن ہی سے اپنی استعداد اور صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگے تھے۔ آل احمد سرور جس وقت آٹھویں کلاس میں تھے۔ اُس وقت ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ کی گولڈن جوبلی تقاریب منائی جا رہی تھیں۔ سرور کو جلسوں میں شرکت کا شوق تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح علی گڑھ جائیں۔ یہ۱۹۲۵ء کی بات ہے۔ انہوں نے اپنے والد سے منت سماجت کی۔ جس پر اُن کے والد نے اپنے دوستوں کے ہمراہ سرور کو علی گڑھ جانے کی اجازت دی۔ اس زمانے میں سرور کے بڑے بھائی ابن احمد اور خالہ زاد بھائی افضال حسن قادری علی گڑھ کالج کے طالب علم تھے۔ ابن احمد منٹو سرکل کے کرشنا آشرم میں رہتے تھے۔ افضال قادری سے سرور کی بڑی بے تکلفی تھی۔ سرور نے انہیں کے ساتھ جوبلی تقاریب میں شرکت کی۔ یہ تقاریب بڑی دھوم دھوم سے منائی گئیں۔ خاص طور سے اختتامی اجلاس کی شان و شوکت اور مشاعرے کے مناظر سرور کے ذہن پر نقش ہو گئے۔ سرور کا علی گڑھ سے یہ پہلا تعارف تھا۔ اور اس کی خوشگوار یادیں لئے وہ مستقبل میں اس کالج سے فیض حاصل کرنے کا ارادہ کر چکے تھے۔
اعلیٰ تعلیم
سرور نے ۱۹۲۸ میں کوئن وکٹوریہ اسکول سے میٹرک کا امتحان کامیاب کیا۔ اپنے چچا کے گھر آگرہ منتقل ہو گئے۔ سینٹ جانسن کالج میں ایف۔ ایس۔ سی (انٹر میڈیٹ سائنس) میں داخلہ لیا۔ اکثر والدین کی طرح سرور کے والدین بھی اپنے بیٹے کو ڈاکٹری کی تعلیم دلانا چاہتے تھے۔ تاہم سرور کو سائنس کے مضامین سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن وہ والدین کی خلاف ورزی بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کسی طرح انہوں نے انٹر میڈیٹ درجہ دوّم میں کامیاب کیا وہ سائنس کی تعلیم ختم کر کے بی۔ اے میں داخلہ لینا چاہتے تھے۔ لیکن اپنے والدین کی چاہت کا خیال رکھتے ہوئے سینٹ جانسن کالج آگرہ میں بی۔ ایس۔ سی میں داخلہ لیا۔ دو سال چچا کے گھر میں رہنے کے بعد سرور ہاسٹل منتقل ہو گئے۔ اس دوران اُن کی ادبی سر گرمیاں تیز ہو گئیں۔ آگرہ میں اُن کی ادبی سر گرمیاں بیان کرتے ہوئے سلطان احمد لکھتے ہیں۔
” آگرہ میں انہیں نصابی کتابوں کے علاوہ انگریزی اور اُردو زبان و ادب سے بھی گہرا شغف رہا۔ اور کالج میگزین میں اُن کی تخلیقات شائع ہوئیں اُن کے ادبی ذوق کے پیش نظر اُنہیں کالج کی "انجمن اُردوئے معلی "کا سکریٹری نامزد کیا گیا۔ جس کے تحت ادبی اور ثقافتی تقریبات پابندی سے ہوتی تھیں۔ انجمن کے سالانہ مشاعرے میں سرور صاحب کی ملاقات فانی بدایونی، یاسیگانہ چنگیزی، میکش اکبر آبادی سیماب اکبر آبادی، مخمورؔ اکبر آبادی اور مانیؔ جائسی جیسے با کمال شعرا سے ہوئی۔” ۹؎
اسی دوران سینٹ جانسن کالج کے زیر اہتمام انعامی مباحثہ کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ جس میں سرور کو انعام دوم ملا۔ اپنی ادبی سر گرمیوں کے دوران سرور نے ۱۹۲۳ء میں بی۔ ایس۔ سی کا امتحان درجہ دوم میں کامیاب کیا۔ وہ محض چند نشانات کی کمی سے اوّل نہیں آ سکے۔ نتیجہ سے دل برداشتہ ہو کر سرور نے بالآخر سائنس سے آگے تعلیم جاری رکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اور انگریزی سے ایم۔ اے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جولائی۱۹۳۲ء کی بات ہے سرور کے والد کرم احمد کا تبادلہ علی گڑھ ہو گیا۔ سرور کو تعلیم جاری رکھنے میں مزید سہولت ہو گئی۔ چنانچہ انہوں نے ۱۹۳۲ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایم۔ اے انگریزی میں داخلہ لے لیا۔
علی گڑھ میں تعلیم
سرور جولائی۱۹۳۲ کو علی گڑھ آئے۔ اُس وقت اُن کے والد علی گڑھ کے صدر ڈاک خانے میں پوسٹ ماسٹر تھے۔ شروع میں سرور کا قیام اپنے والد کے ساتھ ڈاک خانے کے ایک حصے میں رہا۔ ان دنوں یونیورسٹی جولائی سے ستمبر تک بند رہتی تھی۔ یونیورسٹی کھلنے پر سرور نے ایم۔ اے سال اول (انگریزی) میں داخلہ لے لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنی تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی سر گرمیوں میں امتیازی شان رکھتی تھی۔ اساتذہ اور طلباء دونوں معیاری ہوا کرتے تھے۔ درس و تدریس کے علاوہ یونین کا سالانہ مشاعرہ، بحث و مباحثہ، ڈبیٹ، سبھی طرح کے پروگرام ہوا کرتے تھے۔ جس سے طلباء کی تقریری و تحریری صلاحیتیں اُجاگر ہوتی تھیں اُن کے شعری، ادبی، تہذیبی ثقافتی ذوق کی تربیت ہوتی تھیں۔ اور طلباء میں قائدانہ صلاحیتیں اُجاگر ہوتی تھیں۔ سرور سبھی مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا کرتے تھے۔ سرور نے علی گڑھ میں کس طرح اپنی تقریری صلاحیتیں اُجاگر کیں۔ اس ضمن میں عابد النساء لکھتی ہیں۔
” آل احمد سرور اپنے دور طالب علمی میں ہمیشہ نمایاں اور سر گرم رہے۔ وہ کالج کے زمانے میں کالج کی یونین میں سائنٹفک سو سائٹی اور اُردو سو سائٹی کے جلسوں میں برابر شریک ہوا کرتے تھے۔ ان ہی جلسوں میں سرور صاحب کو تقریر کرنے کا شوق ہوا مگر وہ مجمع کے سامنے جا کر تقریر کرنے سے گھبراتے تھے۔ اور اس گھبراہٹ پر قابو پانے کی ہر وقت کوشش کیا کرتے تھے۔ وہ انگریزی میں اچھی دستگاہ رکھتے تھے۔ اور عام معلومات میں بھی اپنے ہم جماعتوں میں سب سے آگے تھے۔ "۱۰؎
سرور نے جس وقت علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا اُس وقت سر راس مسعود یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ اور یونیورسٹی میں اُن کے زیر نگرانی زائد از نصابی سر گر میاں بھی عروج پر تھیں۔ خواجہ منظور حسین شعبہ انگریزی میں ریڈر تھے۔ اور سرور کے استاد بھی تھے انہوں نے سرور کے ادبی ذوق کے پیش نظر انہیں علی گڑھ میگزین (اُردو ) کا ایڈیٹر مقرر کیا۔ سرور کو یونیورسٹی میں قدم رکھے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔ نومبر ۱۹۳۲ء میں انہوں نے علی گڑھ میگزین کی ادارت سنبھالی ان سے قبل میگزین پابندی سے نہیں نکلتا تھا۔ سرور نے اس بے قاعدگی کو دور کیا۔ مضامین کی فراہمی کے سلسلہ میں رشید احمد صدیقی، خواجہ غلام السیدین جیسے اساتذہ اور دیگر احباب سے ملاقاتیں کیں اور اس میگزین کے چار شمارے کامیابی سے نکالے۔ اسی زمانے میں یونیورسٹی میں سالانہ آل انڈیا ڈبیٹ مقابلہ ہوا۔ موضوع تھا "سرمایہ داری اسلام کی تعلیم کے منافی ہے "انصار ہروانی نے موضوع کی حمایت میں اور سرورؔ نے مخالفت میں تقریر کی جج کے فرائض پروفیسر رشید احمد صدیقی، ڈاکٹر اشرف اور بشیر ہاشمی نے انجام دیے۔ سرور نے اپنی مسبوط اور مدلل تقریر سے حاضرین کو متاثر کیا۔ رشید احمد صدیقی نے سرور کی تقریر کی تعریف کی اور اُن کی حوصلہ افزائی کی۔
سرور کو انگریزی لٹریری کلب کا سکریٹری بنایا گیا۔ ایک جلسے میں انہوں نے سمویل جانسن پر سیرحاصل مقالہ پیش کیا۔ ۱۹۳۳ء میں سالانہ انعامی مباحث میں سرور کو تین انعام اول اور دو انعام دوم حاصل ہوئے۔ یونیورسٹی میں ہونے والے مباحثوں کا حال بیان کرتے ہوئے سرور لکھتے ہیں :
"ہر سال ایک انگریزی میں اور ایک اردو میں آل انڈیا ڈبیٹ ہوا کرتا تھا۔ اس میں ایک اچھی روایت یہ تھی کہ علی گڈھ کے نمائندے مباحثے کا آغاز کرتے تھے مگر انعام باہر والوں کے لیے مختص تھے۔ خواہ یہاں کے مقر رین کی تقریریں سب سے اچھی ہی کیوں نہ ہوں۔ ۱۹۳۳ء کے آخر میں جب انعامی مقابلے ہوئے تو سب سے زیادہ مجھے اور میرے بعد خواجہ احمد عباس کو انعام ملے "۱۲؎
ایم۔ اے سال اول کے امتحانات کے بعد سرور نے افضال حسین قادری اور دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ کشمیر کی سیاحت کی۔ وہاں کے قدرتی مناظر، باغات، ندی نالے، آبشار، خوبصورت جھیلوں، فلک بوس پہاڑوں اور مناظر فطرت نے سرور کو بے حد متاثر کیا۔ سرور نے ان قدرتی مناظر سے متاثر ہو کر متعدد نظمیں لکھیں۔ جو اُن کے پہلے مجموعہ کلام "سلسبیل”میں شامل ہیں۔
موسم گرما کی تعطیلات کے بعد یونیورسٹی میں طلباء یونین کے انتخابات ہوئے۔ اس زمانے میں یونیورسٹی انتخابات کی یہ روایت تھی کہ جب کوئی طالب علم الیکشن میں حصہ لیتا تو اُس کا تعلیمی ریکارڈ دیکھا جاتا تھا۔ اس کی تقریری اور تحریری صلاحیتوں اور اُس کے ڈسپلن پر نظر رکھی جاتی تھی۔ سرور کا تعلیمی ریکارڈ شروع سے ہی اچھا تھا۔ اور وہ طلباء اور اساتذہ دونوں کے ہر دلعزیز تھے۔ چنانچہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نائب صدر کے عہدہ کے لیے لوگوں کی نظر سرور پر پڑی چنانچہ سرور نے یونیورسٹی انتخابات میں حصہ لیا۔ اس طرح وہ ۱۹۳۳ء میں اسٹوڈنٹس یونین علی گڈھ یونیورسٹی کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ انتخابات میں انہوں نے معین الحق چودھری کو شکست دی۔ یونیورسٹی میں یونین کے اراکین کا اعزاز کیا جاتا تھا۔ اس ضمن میں سر آغا خان کی علی گڈھ آمد کا حال بیان کرتے ہوئے سلطان احمد لکھتے ہیں :
"فروری۱۹۳۴ء کے آغاز میں سر آغا خان علی گڈھ تشریف لائے۔ اُن کے اعزاز میں اسٹریچی ہال میں جلسہ ہوا۔ حسب روایت بہ حیثیت نائب صدر سرورؔ صاحب استقبالیہ خطبہ پیش کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو یونین کے تمام سابق عہدہ داران کے ساتھ مولانا شوکت علی اور ڈاکٹر ذاکر حُسین بھی کھڑے ہو گئے۔ یہ اُس زمانے کی روایت اور طلباء یونین کے نائب صدر کا وقار تھا۔ "۱۱؎
ایم۔ اے سال اول کے دوران سرور اپنے والد کے ساتھ رہتے تھے۔ دوسرے سال جب وہ یونین کے نائب صدر منتخب ہوئے تو وہ ایس۔ ایس۔ ایسٹ ہاسٹل میں منتقل ہو گئے۔ اس زمانے میں ہاسٹلوں میں طلباء کی تعداد کم ہوا کرتی تھی۔ اکثر کمروں میں دو یا تین طالب علم رہتے تھے۔ ایس۔ ایس ہاسٹل کے نگران یونیورسٹی کے فلسفہ کے ریڈر میاں محمد شریف تھے۔ طلباء کو رات نو بجے کے بعد اجازت کے بغیر باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر جانا ہو تو پاس جاری کیا جاتا تھا۔ ڈائننگ ہال میں طلباء کا حاضر رہنا لازمی تھا۔ ہفتہ میں ایک مرتبہ طلباء کو خاص پکوان جیسے پلاؤ، شاہی ٹکڑے وغیرہ سربراہ کیا جاتا تھا۔ یونین کی مصروفیات اور دوسری سرگرمیوں کے باوجود سرور نے ۱۹۳۴ء میں ایم۔ اے (انگریزی) امتیازی نشانات کے ساتھ کامیاب کیا۔ اُن کے والد کی خواہش تھی کہ وہ آئی۔ سی۔ ایس کریں۔ لیکن ڈاکٹر ذاکر حسین نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ پیشہ تدریس سے وابستہ ہو کر علی گڑھ ہی میں رہیں۔ اسی زمانے میں شعبۂ انگریزی کے استاد غلام سرور صاحب دو سال کی چھٹی پر انگلستان جا رہے تھے۔ صدر شعبۂ انگریزی ہیڈ وہیرس نے سرور کو اُن کی جگہ تقرری کی پیشکش کی جسے ذاکر حسین کے مشورے پر سرور نے مقبول کر لیا۔ اس طرح سرور ۱۹۳۴ میں شعبۂ انگریزی میں لیکچرر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ذاکر صاحب کے مشورے پر انہوں نے ۱۹۳۶ء میں ایم اے اُردو امتیاز کے ساتھ کامیاب کر لیا۔ اسی دوران ۱۹۳۵ میں "سلسبیل”کے عنوان سے سرور کا پہلا مجموعہ کلام علی گڑھ سے شائع ہوا۔ جس میں زیادہ تر نظمیں ہیں اُردو سے ایم۔ اے کرنے کے بعد سرور کا تقرر علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو میں بہ حیثیت لکچرر ہو گیا۔ رشید احمد صدیقی کی ایماء پر سرور نے رسالہ "سہیل”کو از سر نو جاری کیا۔ جنوری۱۹۳۶ء میں چار سو صفحات پر مشتمل رسالہ ” سہیل”جاری ہواجس کی ادبی حلقوں میں پذیرائی ہوئی۔ اس رسالے کے ایڈیٹر رشید احمد صدیقی اور جوائنٹ ایڈیٹر سرور تھے۔ اس خاص نمبر میں سرور نے متعدد کتابوں اور رسالوں پر تبصرہ کیا تھا۔ جس کی مولوی عبدالحق نے تعریف کی تھی۔
شادی
سرور کی شادی۳؍ اگست ۱۹۳۶ء کو بدایوں کے کلکٹر رحمن بخش قادری کی بیٹی زاہدہ خاتون سے ہوئی زاہدہ خاتون ادب کا اچھا مذاق رکھتی تھیں۔ اور سرور کی کہی ہوئی کئی نظمیں انہیں یاد تھیں۔ سرور نے اپنی بیگم کے لئے "مہندی”کے عنوان سے جو نظم کہی تھی بیگم سرور نے اپنے ایک انٹر ویو میں اُس نظم کے چند اشعار سنائے جو اس طرح ہیں۔
لگا لو ناز نیں ہاتھوں میں اپنے زاہدہ مہندی
بتائے گی تمہیں عیش و مسرت کا پتہ مہندی
دلہن کیا ہے سراپا حسن کی تصویر ہے بالکل
دوبالا اور بھی اس کو کرے گی خوش نما مہندی
سجا کر لائی ہے مالن اسے پھولوں کی کشتی میں
دلہن کا حسن بھی دلکش ہے اور ہے خوشنما مہندی۔ ۱۳؎
سرور کا گھرانہ اجتماعی گھرانہ تھا۔ اُن کی والدہ تنویر فاطمہ اور خالہ طفیل فاطمہ نے نئی دلہن زاہدہ خاتون کا اچھا خیال رکھا۔ سرور کے والد اور بھائی بھی زاہدہ خاتون سے اچھے انداز میں پیش آتے تھے۔ شادی سے قبل زاہدہ خاتون نے سرور کو چند ایک تقاریب میں دیکھا تھا۔ اس ضمن میں وہ کہتی ہیں :
” ہماری دوسری بہن کی شادی تھی۔ ہمارے اور پھوپھی کے گھر کے بیچ میں ایک بڑی کھڑکی تھی۔ ہم لوگ بڑے جوش میں اس کھڑکی پر کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک سرور صاحب اور اُن کے بڑے بھائی ابن احمد پھوپھی کے گھر میں داخل ہوئے۔ ان لوگوں کی نظر ہم پر پڑی اور ہماری نظر اُن پر پڑی۔ ہم فوراً اندر چلے گئے۔ بس دو ایک دفعہ ایسے ہی دیکھا تھا”۱۴؎
سرور کے بارے میں بیگم سرور کے اور بیگم سرور کے بارے میں سرور کے خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے۔ سرور اپنی سوانح میں شادی کی یادیں رومانی انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” میری شادی برسات میں ہوئی تھی۔ ایک ہفتے کے لئے چھٹی لی۔ والدین پہلے ہی بدایوں پہنچ گئے تھے۔ شادی کے موقع پر میرے پرانے دوست رضی الحسن چشتی آ گئے تھے۔ رخصت سہ پہر میں ہوئی تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ شام ڈھلتے ہی حجلۂ عیش میں پہنچ جاتا۔ مگر چشتی دس بجے رات کی گاڑی سے جانے والے تھے۔ اُن کے جانے کے بعد زنانے میں گیا۔ نئی نویلی دلہن کو رام کرنے کے لئے دیر تک باتیں کرتا رہا۔ صبح اتنی جلدی ہو گئی کہ اگلی رات کا صبح سے انتظار کرتا رہا۔ اس زمانے میں دن دعوتوں میں گذرتے رات جاگنے میں علی گڑھ واپس آیا تو نیند آنے میں دس پندرہ دن لگ گئے۔ اُس زمانے میں سب سے زیادہ لطف بیوی کو خط لکھنے اور اُن کے خط پڑھنے میں آتا تھا۔ "۱۵؎
اولاد
زاہدہ خاتون اور آل احمد سرور کو خدا نے چار اولاد یں دی تھیں۔ ۱۹۳۷ء لڑکا پیدا ہوا۔ جس کا نام اُن کے والد نے صدیق احمد صدیقی رکھا۔ ۱۹۳۸ء میں لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام عائشہ مہہ جبین رکھا گیا۔ ۱۹۳۹ء میں سرور کو دوسرا لڑکا ہوا۔ جس کا نام جاوید احمد صدیقی رکھا گیا۔ پھر ۱۹۴۲ء میں ایک لڑکی مردہ پیدا ہوئی۔ اس طرح سرور کے دو بیٹے اور ایک بیٹی بقید حیات رہیں۔ سرور نے اپنے بچوں کی پرورش اچھے انداز میں کی۔ سرور کا گھر رشید احمد صدیقی کے گھر سے قریب تھا۔ دونوں گھرانوں میں دوستانہ مراسم تھے۔ اپنے بڑے لڑکے صدیق کا بچپن کا ایک لطیفہ بیان کرتے ہوئے سرور لکھتے ہیں :
” میں جب گھر سے نکلتا تو یہ ضرور پوچھتے کہ ابا کہاں جا رہے ہیں ؟ ایک دفعہ میں نے جھلا کر کہہ دیا "جہنم میں "اس کے بعد کچھ لوگ ملنے آئے تو اُن کے دریافت کرنے پر کہ تمہارے ابّا کہاں گئے ہیں۔ اُنہوں نے سادگی سے کہا۔ "جہنم میں "یہ لطیفہ بہت دن تک دوستوں میں گشت کرتا رہا”۱۶؎
رشید احمد صدیقی نے سرور کے چھوٹے بیٹے جاوید کا نام ” بگڑے دل بدایونی”رکھا تھا۔ کیونکہ یہ بات بات پر خفا ہو جاتے تھے اور اپنے کپڑے اُتار کر فرش پر لوٹنے لگتے تھے۔ سرور اپنی بیٹی کو پیار سے بٹو کہتے تھے۔ سرور کے دونوں بیٹوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بڑے بیٹے صدیق نے علی گڑھ سے انگریزی میں ایم۔ اے کیا۔ ناگپور کالج سے جرنلزم میں ڈپلوما کیا اور وہ انڈین اکسپریس میں کام کرتے تھے۔ لکھنو کے قیام کے زمانے میں انہوں نے وہاں کے پریس کلب کو آگے بڑھانے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ انڈین ایکسپریس میں اُن کی قدر نہ ہوئی تو اُنہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ نوجوان لیڈر چندر شیکھر کے ہفتہ وار اخبار "ینگ انڈین”میں کچھ عرصہ کام کیا۔ پھر مشہور صحافی چلپتی راؤ نے صدیق کی خدمات نیشنل ہیرالڈ کے لئے حاصل کر لیں۔ وہاں سے دوبارہ انڈین اکسپریس میں ملازمت اختیار کی اور طویل عرصہ تک اخبار کی خدمت کرتے رہے۔ سرور کے چھوٹے لڑکے جاوید احمد صدیقی نے حصول تعلیم کے بعد جرمنی کا رُخ کیا۔ جاوید نے ۱۹۶۱ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے نفسیات میں ایم۔ اے کیا تھا۔ وہ انگلستان سے پی۔ ایچ۔ ڈی کرنا چاہتے تھے تاہم حالات ساز گار نہ ہونے کی وجہ سے جرمنی کا رُخ کیا۔ میونخیونیورسٹی سے تیس مہینے میں جرمن بول چال سیکھی۔ اور پی۔ ایچ۔ ڈی میں راست داخلہ لے لیا۔ ۱۹۶۶ء میں پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اور اسی شعبہ میں لکچرر ہو گئے۔ کچھ عرصہ علی گڑھ میں گذار کر پھر جرمنی چلے گئے۔ وہاں ڈی۔ لٹ کی مساوی ڈگری کے لئے مقالہ لکھا۔ مقالہ طویل ہونے کی وجہ سے اُنہیں ڈگری نہیں مل سکی۔ جاوید نے سائیکو تھراپی اور کونسلنگ کے لئے اپنا ذاتی کلینک وہیں کھول لیا تھا۔ اور منشیات کے عادی نوجوانوں کا کامیابی کے ساتھ علاج کیا۔ جاوید نفسیات کے طالب علم تھے۔ لیکن انہیں اُردو ادب سے بھی دلچسپی تھی۔ آل احمد سرور کو ۷؍ نومبر ۱۹۹۷ء کو ایک گہرے صدمہ سے دو چار ہونا پڑا جبکہ انہیں اطلاع ملی کہ اُن کے چھوٹے لڑکے جاوید کا بحالت نیند انتقال ہو گیا۔ ۵۸ سال کی عمر میں چھوٹے بیٹے کی ناگہانی موت نے سرور کو شدید رنج و الم سے دو چار کر دیا۔ اپنے بیٹے کو یاد کرتے ہوئے سرور لکھتے ہیں :
” آخری زمانے میں اُس کو پھیپھڑوں کی کوئی تکلیف ہو گئی تھی۔ چونکہ وہ سگریٹ بہت پیتا تھا۔ اس لئے غالباً پھیپھڑوں کی خرابی میں اس کا اثر رہا ہو گا۔ اٹھاون سال کی عمر میں اُس کا اچانک داغ مفارقت دے جانا اُس کی ماں کے لئے میرے لئے اس کے بہن بھائی اور دوسرے اعزّہ کے لئے ایک ایسے خلا کا باعث ہے جو کبھی پُر نہ ہو سکے گا۔ مجھے اُس کی موت پر کسی انگریزی شاعر کے یہ اشعار اکثر یاد آیا کرتے ہیں :
” اس نے اپنی شمع کو دونوں سروں سے جلایا
شمع پوری رات نہ جل سکی
لیکن اے میرے دوستو اور اے میرے دشمنو
دیکھنا اُس کی روشنی کیسی تابناک تھی” ۱۷؎
سرور کی بیٹی مہ جبین کی شادی۱۹۵۹ء میں ڈاکٹر عبدالجلیل سے ہوئی۔ اُن کی شادی کی تقریب میں اُن کے والد کرم احمد خسر رحمن بخش اور دیگر دوست احباب نے شرکت کی۔ مہ جبین کو دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں سرور نے اپنے بچوں کے نام سے ” تین فتنے "نظم لکھی تھی۔ بعد میں نو اسے نو اسیوں کے لئے ” چار فتنے "نظم لکھی۔ مہہ جبین کی ایک بیٹی تابندہ نے بھی ڈاکٹری پڑھئی۔ سرور کے داماد عبدالجلیل کا انتقال جنوری۲۰۰۲ء میں ہوا۔
ملازمت اور دیگر مصروفیات
آل احمد سرور نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے انگریزی کرنے کے بعد ۱۹۳۴ء میں شعبۂ انگریزی میں بہ حیثیت لکچرر اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ ذاکر حسین کے مشورے پر ایم۔ اے اُردو کیا۔ اور جولائی۱۹۳۶ء میں یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو میں لکچرر کی حیثیت سے اُن کا تقرر ہوا۔ اسی زمانے میں اُنہیں ریڈیو پر تقاریر کے لئے بلایا جانے لگا۔ سرور اپنی تقریر ریکارڈ کرانے کے لئے علی گڑھ سے دہلی جایا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۵ء تک جاری رہا۔ ۱۹۳۸ء کے بعد ہر مہینہ کسی نہ کسی موضوع پر وہ تقریر کرنے لگے تھے۔ ریڈیو پر اپنی تقاریر ریکارڈ کرانے کی یادیں بیان کرتے ہوئے سرور لکھتے ہیں :
"۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۵ تک اکثر ریڈیو پر تقریر کے سلسلہ میں دہلی جانا ہوتا تھا۔ ۔ ۔ اُس زمانے میں ریڈیو پر تقریر کے تیس روپئے ملتے تھے۔ اور میں اُن روپیوں میں دہلی سے بہت سے پھل بیوی کے لئے ساری اور متفرق چیزیں لے آیا کرتا تھا”۱۸؎
سرور کی ریڈیو پر پڑھی گئی تقاریر کافی مقبول ہوئیں۔ بعد میں یہ تقاریر۱۹۴۳ء میں ” تنقیدی اشارے "کے عنوان سے زیور طباعت سے آراستہ ہو کر شائع ہوئیں۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء میں علی گڑھ میں اُردو کا نفرنس کا انعقاد ہوا۔ سرور نے مولوی عبدالحق، پریم چند اور دیگر کئی دانشوروں اور ادیبوں سے ملاقات کی۔ اپریل۱۹۳۷ء میں سرور کو ترقی ہوئی اور وہ گریڈ ٹو لکچرر بن گئے۔ سجاد ظہیر کی ایماء پر علی گڑھ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخ قائم ہوئی۔ سرور کو اس انجمن کا سکریٹری بنایا گیا۔ اسی دور ان سرور کے والد کا تبادلہ بمبئی ہو گیا تھا۔ ۱۹۳۷ء سرور اپنے والد کے پاس بمبئی گئے۔ پھر حیدرآباد سفر کیا۔ جہاں مولوی عبدالحق، عبدالقادر سروری، ڈاکٹر محی الدین قادری زور اور ہاشمی فریدآبادی سے ملاقاتیں کیں۔ ۱۹۳۷ء میں علی گڑھ یونیورسٹی میں توسیعی خطبات کا آغاز ہوا۔ سرور نے ” جدید اُردو شاعری کے میلانات "پر خطبہ دیا جو رسالہ "جامعہ”میں شائع ہوا۔ اس زمانے میں انسٹی ٹیوٹ گزٹ پابندی سے نکلتا تھا۔ سرور کو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین نے اس گزٹ کا اسٹنٹ ایڈیٹر مقرر کیا۔ ۱۹۳۸ء میں سرور کو سینئر لکچرر کے عہدے پر ترقی ملی۔ ۱۹۳۹ء میں دہلی میں انجمن ترقی اُردو کی کل ہند کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں سرور نے ” علی بخش شر ر۔ سر سید کے ایک مخالف”کے عنوان سے مضمون پڑھا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں سرور کے معمولات طے تھے۔ وہ ہر ہفتہ ۲۷ گھنٹے پڑھاتے تھے۔ اور رشید احمد صدیقی صدر شعبۂ اُردو کی انتظامی امور میں معاونت کرتے تھے۔ اسٹاف کلب جانا ٹینس کھیلنا اور رات میں کچھ وقت رشید احمد صدیقی کے ساتھ گذار نا اُن کے معمولات میں شامل تھا۔ رات کے کھانے کے بعد کافی وقت مطالعہ میں مشغول رہتے۔ اور سوکر صبح دیر سے جاگتے تھے۔ سرور لائبریری میں بھی کافی وقت گذارتے تھے۔ ۱۹۴۱ء میں یوم سرسید کے موقع پر سرور نے علی گڑھ پر ایک نظم پڑھی کہا جا تا ہے کہ اس کے بعد سے ہی اُن کے اور وائس چانسلر ضیاء الدین کے مابین تعلقات بگڑ گئے۔ اور سرور کو مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کے ایک مضمون کی اشاعت کے بعد اُن پر وائس چانسلر کے بغاوت کا الزام عائد کیا گیا۔ اس پر سرور نے اپنا جواب ان الفاظ میں دیا:
” میں شعبۂ اُردو میں لکچرر ہوں۔ اور میرا کام لکھنا پڑھنا ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں لکھنا پڑھنا چھوڑ دوں تو یہ میرے لئے ممکن نہیں۔ البتہ ملازمت سے سبکدوش ہو سکتا ہوں۔ "۱۹؎
۱۹۴۴ء میں ڈاکٹر زور کی دعوت پر سرور نے رشید احمد صدیقی کے ہمراہ حیدرآباد کا سفر کیا۔ اور اُردو کانفرنس میں شرکت۔ اس کانفرنس میں سرور نے ” اسٹائل کیا ہے "کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ حیدرآباد ریڈیو سے اُن کی تقریر بھی نشر ہوئی۔
حیدرآباد سے واپسی کے بعد ذاکر صاحب نے سرور کو مشورہ دیا کہ وہ رام پور جائیں۔ اور رضاء انٹر کالج میں بہ حیثیت پرنسپل جائزہ حاصل کر لیں۔ وہاں پرنسپل کی جائداد مخلوعہ تھی۔ چنانچہ ۱۳؍ مارچ ۱۹۴۵ء کو سرور نے رضا کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے جائزہ حاصل کر لیا۔ اس سے قبل سرور نے تقریباً۱۱سال علی گڑھ میں اپنی خدمات انجام دیں۔ علی گڑھ کے جن اساتذہ کو سرور یاد کیا کرتے تھے۔ اُن میں پروفیسر محمد حبیب (تاریخ) خواجہ غلام السیدین اور پروفیسر حبیب الرحمن (تعلیم) مولانا عبدالعزیز میمن (عربی) ڈاکٹر ہادی حسن، ڈاکٹر ضیاءالدین بدایونی اور کیپٹن حمید الدین خان (فارسی )مولانا سلیمان اشرف (صدر شعبۂ دینیات) ابو بکر شیث فاروقی (ناظم دینیات) پروفیسر ایل۔ کے۔ حیدر ( کمیسٹری ) عبدالمجید قریشی اور رحمت اللہ (ریاضی ) ڈاکٹر ظفر الاسلام (فلسفہ ) رشید احمد صدیقی، ظہیر الدین علوی اور مولانا احسن مارہروی (اُردو ) خواجہ منظور حسین، محمود حسین، حامد علی اور بی۔ اے خاں (انگریزی) قابل ذکر ہیں۔ علی گڑھ میں آل احمد سرور کے جوہر دلعزیز شاگرد تھے ان میں خواجہ شبیر حسن، عشرت عثمانی اور عبدالرحمن ٹونکی (انگریزی ) حسن عبداللہ، شبیر علی، مسعود حسین خاں، مسعود علی ذوقی، جاں نثار اختر، نور الحسن ہاشمی، رشید مودودی، عبدالرؤف نور محمد، صدیق احمد صدیقی، ساجد علی خان، سلیمہ سلطانی اور سلمیٰ سلام الحق (اُردو ) قابل ذکر ہیں۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران سرور نے اپنے تنقیدی مضامین کا مجموعہ "نئے اور پرانے چراغ”مرتب کر لیا تھا۔ یہ مجموعہ جون ۱۹۴۶ء میں شائع ہوا۔ آل احمد سرور مارچ ۱۹۴۵ء سے اگست ۱۹۴۶ تک رضا انٹر کالج رام پور کے پرنسپل رہے۔ اس ایک سال کے عرصہ میں سرور نے کالج میں "یوم اقبال”تقاریب کا اہتمام کیا۔ جس میں ذاکر صاحب رشید احمد صدیقی اور پروفیسر مسعود حسین خاں نے شرکت کی۔ ۱۹۴۵ء میں سرور نے جے پور میں منعقدہ P.E.Nکانفرنس میں شرکت کی۔ اور اُردو ادب کے نئے میلانات پر مقالہ پڑھا۔ اس کانفرنس میں جواہر لال نہرو اور سی ایم فارسٹر نے شرکت کی تھی۔ سرور نے اپنی سوانح خواب باقی ہیں۔ میں رام پور کے زمانہ قیام کی یادیں، وہاں کے لوگوں کے احوال اور کالج کی سرگرمیوں کو تفصیل سے بیان کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں پوسٹ گرائجویشن کی تدریس کے بعد رام پور میں انٹر کالج کی ملازمت میں سرور کا دل نہیں لگا تھا۔ وہ کسی طرح وہاں سے نکل جانا چاہتے تھے۔ چنانچہ مولوی عبدالحق کی کوشش سے اُن کا تقرر لکھنو یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو وفارسی میں بہ حیثیت ریڈر ہو گیا۔
۲۱؍ اگست ۱۹۴۶ء کو سرور نے لکھنو یونیورسٹی میں شعبۂ اردو فارسی کے ریڈر کی حیثیت سے جائزہ حاصل کر لیا۔ مسعود حسن رضوی صدر شعبۂ تھے۔ جو سرور کے آنے سے خوش نہیں تھے۔ لکھنو میں قیام کے دوران سرور درس و تدریس کے علاوہ مختلف تحریکوں اور تنظیموں کے پروگراموں سے وابستہ رہے۔ ترقی پسند مصنفین کے جلسے اُن کے گھر پر ہوا کرتے تھے۔ مشاعرے، ادبی محفلیں، مجالس عزاء سبھی محفلوں میں سرور شریک رہا کرتے تھے۔ ان محفلوں کا ذکر سرور نے اپنی سوانح "خواب باقی ہیں "میں تفصیل سے کیا ہے۔ مسعود حسین رضوی کی سبکدوشی کے بعد سرور کو شعبہ اردو و فارسی کا انچارج بنایا گیا۔ کیونکہ وہ ہی سینئر تھے۔ لیکن اُس وقت کے وائس چانسلر رادھا کمل مکرجی نے اپنے ایک حکم نامے کے ذریعہ شعبہ فارسی کے ریڈر سیدیوسف حسین مولوی کو صدر مقرر کر دیا۔ جبکہ وہ جونیر تھے اور ایک سال قبل ریڈر ہوئے تھے۔ ضابطے کے اعتبار سے سرور صدر شعبہ کے مستحق تھے۔ لکھنو یونیورسٹی میں اپنے ساتھ ہوئی نا انصافی کو دیکھ کر سرور نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ یہ نومبر ۱۹۵۵ء کا واقعہ ہے۔ لکھنؤ میں قیام کے دوران سرور کے مزید دو مجموعے تنقید کیا ہے "۱۹۴۵ء اور "ادب اور نظریے” ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئے۔ جبکہ شعری مجموعہ "ذوق جنوں "۱۹۵۵ء میں شائع ہوا۔ لکھنو یونیورسٹی سے سرور کے استعفیٰ کی ایک اور وجہ علیحدہ شعبہ اردو کے قیام کی اُن کی تجویز کا رد ہو جانا بھی تھا۔ سرور نے اس زمانے میں پاکستان جانے کا بھی ارادہ کر لیا تھا۔ وہاں کراچی یونیورسٹی میں اُنہیں پروفیسر بنانے کی پیشکش ہو چکی تھی۔ اس ضمن میں سرور لکھتے ہیں :
"میں ہندوستان میں رہنا نہیں چاہتا تھا مگر اردو کی خدمت کے موقع کی وجہ سے اسے آسانی سے نظر انداز بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میری بیوی تو اصرار کر رہی تھی کہ میں اس پیش کش کو قبول کر لوں۔ میں نے اپنے والد اور اپنے خسر سے رائے لی۔ دونوں کی رائے یہ تھی کہ مجھے پاکستان نہ جانا چاہئے۔ پھر ذاکر صاحب سے مفصل بات ہوئی انہوں نہ یہ کہا کہ آپ جانا چاہیں تو آپ کو روکوں گا نہیں۔ مگر مجھے یہ محسوس ہو گا کہ میرا دایاں بازو ٹوٹ گیا۔ بہرحال میں نے اس کے بعد یہ فیصلہ کر لیا کہ نہ جاؤں گا اور جیسے بھی حالات ہوں اُن کا مقابلہ کروں گا” ۲۰؎
سرور کے ان خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اہم معاملات میں بڑے لوگوں سے مشورہ لیتے تھے اور اُن کے مشوروں کی قدر بھی کرتے تھے۔ لکھنؤ سے استعفیٰ کے بعد سرور علی گڈھ آ گئے۔ در اصل وہاں "سید حسین ریسرچ پروفیسر”کا عہدہ قائم ہوا تھا۔ امریکہ سے ایک صاحب رفیق عطا اللہ درانی نے دیوان غالب کا انگریزی ترجمہ کرنے اور نول کشور پر کتاب لکھنے کے لیے عطیہ دیا تھا۔ ذاکر صاحب نے اس ریسرچ پروفیسری کے لیے سرور کو علی گڈھ چلے آنے کی دعوت دی۔ سرور نے یہ پیشکش قبول کر لی۔ اور علی گڈھ میں اس تحقیقی کام کے نگران مقرر ہوئے۔ ریسرچ فیلو کے لیے ابتداء میں نسیم قریشی کا انتخاب عمل میں آیا۔ اُن کے لکچرر ہو جانے کے بعد نادر علی خان کو ریسرچ فیلو بنایا گیا۔ جنہوں نے تین سال کی تحقیق کے بعد نول کشور کی خدمات پر اچھا خاصا مواد جمع کر لیا۔ جسے بعد میں انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔
سرور نے سید حسین ریسرچ پروفیسر کا عہدہ یکم؍ ڈسمبر ۱۹۵۵ء کو حاصل کیا۔ ۱۹؍ جنوری۱۹۵۶ء کو انہیں انجمن ترقی اردو کا سکریٹری بنایا گیا۔ اس زمانے میں سرور کے خاص دوست اور رہنما ڈاکٹر ذاکر حسین علی گڈھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ ذاکر حسین کے بعد ۷ٖ اکتوبر ۱۹۵۶ء کو کرنل بشیر حسین زیدی نے ذاکر صاحب سے علی گڈھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا چارج لیا۔ انہوں نے سرور کو سر سید ہال کا پرووسٹ نامزد کیا۔ جس کی وجہ سے سرور کے سید حسین ریسرچ پروفیسر کے کام میں تاخیر ہوئی۔ لیکن۱۹۴۱ء میں سرور نے دیوان غالب کا مکمل انگریزی ترجمہ اور نول کشور کی خدمات کا انگریزی ترجمہ کر کے اس کام کے معطی درّانی صاحب کو روانہ کر دیا۔ تاہم سرور کا یہ کام شائع نہیں ہو سکا۔ سرور نے جولائی۱۹۵۷ء میں انجمن ترقی اُردو کے زیر اہتمام سہ روزہ آل انڈیا اُردو کانفرنس منعقد کی۔ جس میں انجمن کے کاموں کا جائزہ لیا گیا۔ اور مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کیا گیا۔ اپریل۱۹۵۸ء میں رشید احمد صدیقی سبکدوش ہو گئے۔ اُن کی جگہ سرور کو صدر شعبۂ بنا یا گیا۔ یکم اگست ۱۹۵۸ء سے وہ پروفیسر بھی ہو گئے۔ اسی زمانے میں یو۔ جی۔ سی نے شعبۂ اُردو کو علی گڑھ تاریخ ادب اُردو مرتب کرنے کے لئے گراں قدر عطیہ دیا۔ بہ حیثیت صدر شعبہ کے سرور صاحب اس کے ڈائرکٹر قرار پائے۔ پہلی جلد کا کام مکمل ہوا۔ کتاب ٹائپ میں ہوئی جس میں بہت سی غلطیاں رہ گئی تھیں۔ جب اس کی پہلی جلد شائع ہوئی تو رشید حسن خان نے غلطیوں کو اُجاگر کرتے ہوئے ایک مضمون لکھا رشید حسن خان کے مضمون کو سرور نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور کتاب کی فروخت روک دی گئی۔ اس سے یونیورسٹی کا وقار مجروح ہوا۔ ۱۹۵۸ میں سرور کو یونیورسٹی کی تہذیبی سر گرمیوں کا نگران مقرر کیا گیا۔ یونیورسٹی میں کئی تہذیبی پروگرام ہوئے۔ نصیر الدین شاہ جیسے فنکار اُبھرے جنہوں نے آگے چل کر تھیٹر اور فلموں میں نام کمایا۔
حکومت ہند کی جانب سے سرور نے ۱۹۶۰ء میں ماسکور وس میں منعقد انٹر نیشنل اور ینٹلسٹ کانگریس میں شرکت کی اور وہاں ” جدید اُردو ادب کے میلانات "پر انگریزی میں مقالہ پیش کیا۔ ۱۹۶۱ کے آغاز میں یونیورسٹی کی عاملہ کونسل کے رکن نامزد ہوئے۔ ۱۹۶۷ء میں سرور کو ساہتیہ اکیڈمی کا اُردو کنوینر نامزد کیا گیا۔ اور اسی سال انہیں فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین کی ذمہ داری سونپی گئی۔ نواب علی یاور جنگ اپریل۱۹۶۵ میں وائس چانسلر بن کر علی گڑھ آئے۔ اس سے قبل وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ اُن پر بد عنوانیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے طلباء نے پتھر اؤ کر دیا۔ جس میں سرور شدید زخمی ہو گئے۔
جون ۱۹۶۶ء میں سرور نے کابل (افغانستان) میں منعقد بین الاقوامی ترجمہ سمینار میں بہ حیثیت مشاہد observer کے شرکت کی۔ موضوع تھا "فارسی میں تراجم کی صورتحال "ستمبر ۱۹۶۷ء میں سرور نے بحیثیت وزیٹنگ پروفیسر شکاگو یونیورسٹی (امریکہ )کا دورہ کیا۔ اور چھ ماہ تک جنوبی ہند کی زبانوں کے مرکز میں کام کیا۔ حکومت ہند نے بین الاقوامی ثقافتی تبادلہ پروگرام کے تحت سرور کو ہنگری اور پولینڈ جانے کے لئے کہا۔ چنانچہ سرور امریکہ سے یورپ آئے۔ مانٹر یال، لندن جرمنی اور اٹلی کا دورہ کیا جرمنی میں اپنے بیٹے جاوید احمد سے ملاقات کی۔ آٹھ ماہ کے بیرونی سفر کے بعد سرور ۲۸؍ اپریل۱۹۷۰ء کو علی گڑھ واپس آئے۔
حکومت ہند کی تحریک پر سرور نے دوبارہ ۱۹۷۲ء میں رومانیہ ہنگری اور سویتیونین کا دورہ کیا۔ انہیں ملازمت میں ایک سال توسیع دی گئی۔ اس وقت عبدالعلیم صاحب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ وزیر تعلیم ڈاکٹر نور الحسن نے ۱۹۷۲ میں یونیورسٹی کا نیا ایکٹ نافذ کیا۔ جس سے سرور کو ملازمت میں مزید توسیع نہیں ملی۔ بالآخر ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو سرور شعبۂ اُردو سے سبکدوش ہو گئے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آل احمد سرور کی خدمات کے دوسرے دور کا احاطہ کرتے ہوئے سلطان احمد لکھتے ہیں
"سرور صاحب نے اپنے زمانہ ملازمت میں شعبۂ اُردو کی شش جہت ترقی کی۔ اُن کی خصوصی توجہ اور محنت سے اگست ۱۹۶۸ میں شعبۂ کو لسانیات کے پروفیسر کی جگہ تفویض ہوئی۔ جس پر ڈاکٹر مسعود حسین خان کی تقریری عمل میں آئی۔ بعد ازاں اُن کی مساعی جمیلہ سے لسانیات کا الگ شعبۂ قائم ہوا۔ سرور صاحب نے اپنے زمانہ اقتدار میں متعدد سمیناروں کا انعقاد کیا ان میں ” نثر کا اسلوب، تنقید کے بنیادی مسائل، جدیدیت اور ادب، غالب، اُردو فکشن، اقبال "قابل ذکر ہیں ان میں پہلے اور آخری موضوع سے قطع نظر باقی تمام سمیناروں کے مقالات کو کتابی صورت میں شائع کیا۔ جن کی ادبی حلقوں میں پذیرائی ہوئی” ۲۱؎
شعبۂ اُردو سے سبکدوشی کے بعد آل احمد سرور انجمن ترقی اُردو کی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ پھر انہیں شملہ کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز میں وزیٹنگ فیلو مقرر کیا گیا۔ انجمن ترقی اُردو کی ذمہ داری ڈاکٹر خلیق انجم کو دے کر سرور شملہ روانہ ہو گئے۔ شملہ میں قیام کے دوران کشمیریونیورسٹی کے وائس چانسلر سید رضی الحسن چشتی نے اطلاع دی کہ کشمیریونیورسٹی میں اقبال چئیر قائم ہو رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ کشمیر شیخ عبداللہ کی خواہش ہے کہ سرور صاحب اس چئیر کے پروفیسر رہیں۔ چنانچہ سرور شملہ سے کشمیر چلے آئے۔ اور مئی۱۹۷۷ء میں کشمیریونیورسٹی میں پروفیسر ہو گئے۔ ۱۹۷۹ء میں وہاں اقبال انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں آیا۔ سرور اس ادارے کے پہلے ڈائرکٹر تھے۔ اس ادارے کے لئے سرور نے ۱۹۸۷ تک خدمات انجام دیں۔ اس دوران انہوں نے ۱۹۷۷ اور ۱۹۸۳ میں لاہور پاکستان میں منعقدہ بینالاقوامی اقبال کانگریس میں شرکت کی۔ کشمیر میں قیام کے زمانے میں سرور نے اقبالیات پر یکسوئی سے کام کیا۔ اور اقبال اور اُن سے متعلقہ موضوعات پر یکے بعد دیگرے اُن کی متعدد کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ان میں عرفان اقبال (۱۹۷۷ء ) اقبال اور اُن کا فلسفہ (۱۹۷۷ء) اقبال کے مطالعہ کے تناظرات (۱۹۷۸ ء)، اقبال نظریہ اور شاعری (نظام خطبات دہلی یونیورسٹی۱۹۷۹ء ) ہندوستان کدھر (۱۹۸۳ء)، جدید دنیا میں اسلام (۱۹۸۳ ء)اردو میں دانشوری کی روایت۱۹۸۵ ئ، اقبال فیضؔ اور ہم (اردو مرکز لندن ۱۹۸۵ء ) اقبال کی معنویت۱۹۸۶ء قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۸۷ء کے بعد آل احمد سرور کشمیر سے پھر علی گڈھ واپس آ گئے اور اپنے مضامین، مسودے، اشعار اور مشاہیر کے خطوط کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ اُن کی خواہش تھی کہ ان میں موجود اہم مواد کتابی شکل میں محفوظ ہو جائے۔ اُن کی یہ کوشش کامیاب رہی۔ اور سرور کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہوئیں۔
پہچان اور پرکھ (۱۹۹۰ء)، خواب باقی ہیں (خود نوشت سوانح) ۱۹۹۱ء، خواب اور خلش (شعری مجموعہ)۱۹۹۱ء، فکر روشن (۱۹۹۴ء )، خطبے کچھ کچھ مقالے (۱۹۹۴ء )، دانشور اقبال (۱۹۹۴ء ( مجموعہ تنقیدات (۱۹۹۴ء ) اردو تحریک (۱۹۹۹ء ) اور افکار کے دئیے (۲۰۰۰ء)۔
اعزازات
آل احمد سرور کی مجموعی خدمات کے اعتراف میں کشمیریونیورسٹی نے ۱۹۸۹ء میں اُنہیں ڈی۔ لٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ ۱۹۹۰ء میں انہیں شعبۂ اُردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس مقرر کیا گیا۔ انہیں اتر پردیش اُردو اکیڈمی سے چار مرتبہ اور ساہتیہ اکیڈمی سے ایک مرتبہ انعام ملا۔ سرور کو ۱۹۹۲ء میں حکو مت ہند نے پدم بھوشن کا خطاب دیا۔ اور ۲۰۰۱ء میں حکومت مدھیہ پردیش نے اقبال سمّان ایوارڈ دیا۔
بیماری
آل احمد سرور پر ۲۷۔ ۲۸ مارچ ۱۹۹۶ء کی درمیانی شب فالج کا حملہ ہوا۔ بائیں ہاتھ اور بائیں پیر پر ہلکا سا اثر ہوا تھا۔ اور دماغ محفوظ رہا تھا۔ اور بات کرنے کی رکاوٹ نہیں تھی۔ داماد ڈاکٹر جلیل نے اُن کا دہلی میں علاج کرایا۔ اپنے علاج کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے سرور لکھتے ہیں :
"ڈیڑھ مہینے تک میرا قیام دہلی میں رہا۔ ڈاکٹر عبدالجلیل کا علاج رہا۔ اور تابندہ جلیل (نواسی) نے جو خود بھی ڈاکٹر ہے باقاعدہ مجھے دوائیں پلائیں اور ایک دن کے وقفے سے پندرہ انجکشن دئے۔ میں ایک آدمی کی مدد سے کچھ ورزش بھی کرتا تھا۔ اور واکر کے سہارے دو چار قدم چل بھی لیتا تھا۔ ڈیڑھ مہینے کے بعد ڈاکٹر عبدالجلیل نے کہا کہ اب کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن دوائیں برابر چلتی رہیں اس کا خیال رہے کہ بلڈ پریشر نہ بڑھنے پائے۔ اور خاص طور سے ورزش کا التزام "۲۲؎
فالج کے حملے کے بعد سرور میں پہلی جیسی تیزی اور توانائی باقی نہیں رہی تھی۔ مستقل ورزش کے بعد انہوں نے واکر کا استعمال تو چھوڑ دیا لیکن سہارے کی چھڑی استعمال کرتے تھے۔ بڑھاپے میں انسان اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرتا ہے اور اُسے اپنی موت کی یاد آنے لگتی ہے۔ اپنی عمر کے ستر اسی سال گزار لینے کے بعد سرور بھی کچھ اسی کیفیت سے دو چار تھے وہ لکھتے ہیں۔
"جب آدمی کی عمر خاصی ہو جائے تو اُسے موت کا خیال تو آتا ہی ہے مجھے بھی اکثر آتا ہے میں موت کے خیال سے خائف تو نہیں ہوں مگر اس خیال کا سایہ اکثر میرے ذہن پر منڈلا تا رہتا ہے۔ ۔ کچھ لوگ بڑھاپے میں ہر وقت نبض پر ہاتھ رکھے رہتے ہیں جب دیکھو اپنی بیماریوں کا تذکرہ، ہنسنا بولنا بھی تکلف سے تذکرہ بھی صرف ماضی کا اور اُن میں اپنے کارناموں کا شکر ہے کہ عمر کی اس منزل میں ابھی مجھ میں جینے کا ولولہ۔ کچھ کام کر جانے کا ارمان، کوئی اچھی سی کتاب پڑھنے کا شوق، دنیا کی رنگینیوں سے زندگی سے حسن سے دلچسپی باقی ہے۔ "۲۳؎
آل احمد سرور کی زندگی کے آخری چند سال نہایت تکلیف دہ اور صبر آزما ثابت ہوئے۔ یکے بعد دیگرے اُن پر صدمے ٹوٹتے رہے۔ پہلے اُن پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ فریش ہو گئے۔ پھر ۱۹۹۷ء میں اُن کے چھوٹے بیٹے جاوید احمد کے انتقال کی خبر نے اُنہیں شدید صدمے سے دوچار کر دیا۔ ابھی اُن کے بیٹے کی جدائی کی یادیں تازہ تھیں کہ جنوری۲۰۰۲ء میں اُن کے داماد ڈاکٹر عبدالجلیل بھی داغ مفارقت دے گئے۔ یہ وہ سلسلہ وار حادثات تھے جنہوں نے سرور کو بجھا سا دیا تھا۔ ان حادثات سے سرور سنبھل نہیں سکے۔
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں