FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

ایک محبت کافی ہے

 

 

 

 

 

 

                   حسنؔ عباسی

 

 

 

 

انتساب

 

 

عطاء الحق قاسمی کے نام

 

 

 

ایک محبت کافی ہے

باقی عمر اضافی ہے

 

(محبوب خزاں ؔ)

 

 

 

 

نعت

 

 

دل ہے تاریک اسے نور کا ہالہ کر دے

اِک نظر میری طرف بھی شہِ والاؐ کر دے

 

خوف کے غار میں ہوں اور تعاقب میں عدو

کہہ دے مکڑی سے درِ غار پہ جالا کر دے

 

میں جسے بیچ کے اِک تیشۂ محنت لے لوں

کوئی آنسو مرا مٹی کا پیالہ کر دے

 

دُنیا داری جو حمائل ہے گلے میں میرے

اپنی رحمت سے اسے عشق کی مالا کر دے

 

شوق کے ابر جو ٹکرائیں تو پھر رم جھم ہو

میرے ایمان کا قد مثلِ ہمالہ کر دے

 

ہے مرا نام حسنؔ اور تجھے پیارا ہے

بس یہی نام تو محشر میں حوالہ کر دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مرتی ہوئی زمیں کو بچانا پڑا مجھے

بادل کی طرح دشت میں آنا پڑا مجھے

 

وہ کر نہیں رہا تھا مری بات کا یقیں

پھریوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے

 

بھولے سے میری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا

چہرے پہ ایک زخم لگانا پڑا مجھے

 

اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے

محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے

 

یادیں تھیں دفن ایسی کہ بعد از فروخت بھی

اُس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے

 

اُس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار

کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے

 

ایسے بچھڑ کے اُس نے تو مر جانا تھا حسنؔ

اس کی نظر میں خود کو گرانا پڑا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پربت ہیں وہی سامنے، جھیلیں بھی، مکاں بھی

ہر سمت سے اٹھتا ہوا یادوں کا دھواں بھی

 

پیڑوں تلے تنہائی کے بکھرے ہوئے پتے

پتوں کے کناروں پہ اُداسی کے نشاں بھی

 

کھلتے ہوئے پھولوں میں چھپا ہے کوئی چہرہ

وہ چہرہ جسے ڈھونڈ نہیں سکتی خزاں بھی

 

پگڈنڈی پہ گزرے ہوئے لمحوں کی خموشی

خاموشی میں آئندہ کی آواز نہاں بھی

 

اک شک سا فرشتوں کا کھلی دھوپ میں ہر سو

پتوں پہ درودوں کی صداؤں کا گماں بھی

 

اُڑتی نظر آتی ہیں ابابیلیں فلک پر

وادی میں کبھی گونجنے لگتی ہے اذاں بھی

 

بہتے ہوئے جھرنے پہ ہیں ٹھہری ہوئی آنکھیں

ٹھہری ہوئی آنکھوں میں کئی خواب رواں بھی

 

اُڑتے ہوئے بادل کبھی پورب کبھی پچھم

بے آسرا کچھ لوگ یہاں اور وہاں بھی

 

سورج کے تعاقب میں چلے آئے تھے ہم لوگ

اب جائیں کہاں یار اندھیرا ہے یہاں بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُن آنکھوں کی اجازت مار دے گی

مجھے اس بار ہجرت مار دے گی

 

ہنسی میں دکھ چھپا لیتا ہوں اپنے

کسی دن یہ سہولت مار دے گی

 

کبھی سوچا نہیں تھا تیرے ہوتے

کوئی تازہ محبت مار دے گی

 

کسی کو اپنا دشمن ہی بنا لوں

وگرنہ یہ فراغت مار دے گی

 

محبت کرنے سے پہلے پتہ تھا

قبیلے کی روایت مار دے گی

 

کسی کا ہو تو جاؤں اس کی خاطر

مگر دہری اذیت مار دے گی

 

حسنؔ یہ وقت آنے پر کھلے گا

کسے کس کی ضرورت مار دے گی

٭٭٭

 

 

 

 

جب آئے وہ ساحل پہ کبھی گھر سے نکل کر

لہریں اسے چھوتی ہیں سمندر سے نکل کر

 

اِس اپنی خموشی سے بہت تنگ ہوں خود بھی

آیا ہوں میں جیسے کسی پتھر سے نکل کر

 

بے جنگ نہیں مارا گیا صلح سے پہلے

دشمن پہ جھپٹتا تھا میں لشکر سے نکل کر

 

بیٹھوں گا ترے پاس کبھی حوصلہ کر کے

دیکھوں گا کسی روز تجھے ڈر سے نکل کر

 

ہوتی ہے ملاقات حسنؔ خواب میں جس سے

وہ شخص کہاں جاتا ہے منظر سے نکل کر

٭٭٭

 

 

 

ہماری آنکھ کھلے کیسے آفتاب کے ساتھ

ہماری نیند جڑی ہے تمہارے خواب کے ساتھ

 

پھر اس کے بعد ترا چہرہ ساتھ ساتھ رہا

میں اپنے گھر سے تو نکلا تھا ماہتاب کے ساتھ

 

مرا خیال ہے خوشبو میں ڈھل گیا وہ شخص

کہ اب نظر نہیں آتا کسی گلاب کے ساتھ

 

سنا رہا تھا کہانی کوئی محبت کی

کسی کی آنکھ بھی بہتی رہی چناب کے ساتھ

 

شکستگی کا سبب صرف تیرا ہجر نہیں

عذاب اور بھی کافی ہیں اس عذاب کے ساتھ

 

تعلق اس کا مرے ساتھ صرف اتنا ہے

کہ ایک پھول کا ہوتا ہے جو کتاب کے ساتھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

رات یہ کون مرے خواب میں آیا ہوا تھا

صبح میں وادیِ شاداب میں آیا ہوا تھا

 

اک پرندے کی طرح اڑ گیا کچھ دیر ہوئی

عکس اس شخص کا تالاب میں آیا ہوا تھا

 

میں بھی اس کے لئے بیٹھا رہا چھت پر شب بھر

وہ بھی میرے لئے مہتاب میں آیا ہوا تھا

 

سرد خطے میں سلگتا ہوا جنگل تھا بدن

آگ سے نکلا تو برفاب میں آیا ہوا تھا

 

یہ تو صد شکر خیالوں نے ترے کھینچ لیا

میں تو حالات کے گرداب میں آیا ہوا تھا

 

یاد ہیں دل کو محبت کے شب و روز حسنؔ

گاؤں جیسے کوئی سیلاب میں آیا ہوا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جانے والے کو بھلایا جائے

کوئی آنسو نہ بہایا جائے

 

عین ممکن ہے پلٹ آؤں میں

مجھ کو شانوں سے ہلایا جائے

 

ڈوب جائیں نہ کہیں ہم دونوں

ہاتھ سے ہاتھ چھڑایا جائے

 

ایسے اترا ہے مرے دل سے وہ

جیسے دیوار سے سایہ جائے

 

آخری سانس لیے بیٹھا ہوں

مجھ کو با توں میں لگایا جائے

 

شہر سے اب بھی محبت ہے ہمیں

ہم کو کچھ اور ستایا جائے

 

ہو گئیں حسن سے خالی آنکھیں

چاند کو ڈھونڈ کے لایا جائے

 

آندھی جس کی ہو طرفدار حسنؔ

وہ دیا خود ہی بجھایا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پہلے کچھ دیر چراغوں میں نظر آتا ہے

پھر وہ چہرہ مری آنکھوں میں نظر آتا ہے

 

اک زمانہ ہوا بچھڑے اُسے لیکن اب بھی

راہ چلتے ہوئے لوگوں میں نظر آتا ہے

 

تتلیاں ورنہ کہاں ڈھونڈتیں اُس کو جا کر

اس کا احساں ہے کہ پھولوں میں نظر آتا ہے

 

دشت و دریا کے مناظر میں ہے بکھرا بکھرا

حسن جیسا ترے وعدوں میں نظر آتا ہے

 

دل بھی ساتھ اس کے دھڑکتا ہو ضروری تو نہیں

ہاتھ جس کا مرے ہاتھوں میں نظر آتا ہے

 

یہ جو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اندر کی گھٹن

ایسا ماحول تو باغوں میں نظر آتا ہے

 

جانے کیا ہے کہ سمندر ہی سمندر ہر سو

پچھلے کچھ روز سے خوابوں میں نظر آتا ہے

 

اور پیغام لئے پھرتی ہے ساحل کی ہوا

اضطراب اور ہی لہروں میں نظر آتا ہے

 

مجھ کو آغوش میں لے لیتی ہے تنہائی حسنؔ

چاند جب پیڑ کی بانہوں میں نظر آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب بارش کی بوندیں آنے لگتی ہیں

یاد کسی کی پلکیں آنے لگتی ہیں

 

صرف خبر سنتے ہی اس کے آنے کی

واپس میری سانسیں آنے لگتی ہیں

 

دیکھ نہیں سکتا میں اس کی آنکھوں کو

میرے اندر لہریں آنے لگتی ہیں

 

بے دھیانی کے جنگل میں جب کھو جاؤں

تیرے دھیان کی کرنیں آنے لگتی ہیں

 

وہ گھر لوٹ کے آئے تو دیواروں پر

پھولوں والی بیلیں آنے لگتی ہیں

 

کائی جم جاتی ہے اس کی یادوں کی

جب جھیلوں پر کونجیں آنے لگتی ہیں

 

جنگل کے اطراف سے، چاند نکلتے ہی

رونے کی آوازیں آنے لگتی ہیں

 

تیز ہوا سے پردے، ہلتے ہیں اور پھر

میری طرف وہ بانہیں آنے لگتی ہیں

 

جیسے ہو جنات کا قبضہ گھر پہ حسنؔ

شام ڈھلے ہی شمعیں آنے لگتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دریچے سے جھانکتی وہ لڑکی عجیب دکھ سے بھری ہوئی ہے

کہ اس کے آنگن میں پھول پر ایک نیلی تتلی مری ہوئی ہے

 

کبھی اذانوں میں کھوئی کھوئی کبھی نمازوں میں روئی روئی

وہ ایسے دنیا کو دیکھتی ہے کہ جیسے اس سے ڈری ہوئی ہے

 

درود سے مہکی مہکی سانسیں وظیفہ پڑھتی ہوئی وہ آنکھیں

کہ ایک شمع اُمید اُن میں کئی برس سے دھری ہوئی ہے

 

وہ دکھ کی چادر میں لپٹی لپٹی وہ کالے کپڑوں میں سمٹی سمٹی

محبت اُس نے کسی سے شاید مری طرح ہی کری ہوئی ہے

 

بڑے زمانوں کے بعد برسی ہیں میری آنکھیں کسی کی خاطر

بڑے زمانوں کے بعد دل کی زمین پھر سے ہری ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُداس چاند کھلے پانیوں میں چھوڑ گیا

وہ اپنا چہرہ مرے آنسوؤں میں چھوڑ گیا

 

ہوا کے جھونکے سے لرزی تھی ایک شاخِ گل

کسی کا دھیان مجھے خوشبوؤں میں چھوڑ گیا

 

گلے ملے تھے محبت کی تیز دھوپ میں ہم

یہ کون اڑتے ہوئے بادلوں میں چھوڑ گیا

 

سفر کے پہلے پڑاؤ میں مرنے والا شخص

عجیب خوف ہمارے دلوں میں چھوڑ گیا

 

یہ کس نے ہم کو بنایا شکستہ مٹی سے

پھر اس کے بعد گھنی بارشوں میں چھوڑ گیا

 

اس اہتمام سے بکھرے ہوئے ہیں پھول حسنؔ

نشانی جیسے کوئی راستوں میں چھوڑ گیا

٭٭٭

 

 

 

ہر طرف پھیلی تھی اُس کی یاد جنگل کی طرح

میں گزر کر آ گیا ہوں اُڑتے بادل کی طرح

 

ایک لمحے کو جدا ہونے دے ممکن ہی نہیں

دھیان رکھتی ہے مرا وہ اپنے آنچل کی طرح

 

چھوٹی چھوٹی بات پر رونے کی عادت ہے اُسے

اور آنکھوں میں مجھے رکھتی ہے کاجل کی طرح

 

مسکرا کر دیکھتی ہے جب وہ کھڑکی سے کبھی

ایک خواہش دل میں کھل جاتی ہے کونپل کی طرح

 

جب بھی پانی پھینکتی ہے وہ شرارت میں حسنؔ

جسم لگتا ہے مجھے بھیگے ہوئے تھل کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

 

شام سے پہلے کوئی حشر بپا ہوتا ہے

روز اک خوف مرے دل میں نیا ہوتا ہے

 

تجھ کو رخصت کروں کیسے کہ مرا دکھ ہے یہی

پھر نہیں ملتا جو اک بار جدا ہوتا ہے

 

کون کرتا ہے تعاقب کہ جہاں بھی جاؤں

مڑ کے دیکھوں تو کوئی پھول پڑا ہوتا ہے

 

جس میں نقصان ہی نقصان ہو سارا دل کا

کام وہ کرنے کا اک اپنا مزا ہوتا ہے

 

حوصلہ ہارنا اچھا نہیں لگتا اُس کو

آنکھ بھر آئے تو وہ مجھ سے خفا ہوتا ہے

 

شام سے پہلے مٹا دیتا ہے کوئی جا کر

صبح دیوار پہ وہ نام لکھا ہوتا ہے

 

غصہ آتا ہے کسی اور پہ ہر بار حسنؔ

دل کسی اور کی با توں سے دکھا ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سراپا اشک ہوں میں بھی بکھر جاؤں تو بہتر ہے

جدھر جاتے ہیں یہ بادل اُدھر جاؤں تو بہتر ہے

 

یہ دل کہتا ہے تیرے شہر میں کچھ دن ٹھہر جاؤں

مگر حالات کہتے ہیں کہ گھر جاؤں تو بہتر ہے

 

دلوں میں فرق آئیں گے تعلق ٹوٹ جائیں گے

جو دیکھا جو سنا اس سے مکر جاؤں تو بہتر ہے

 

یہاں ہے کون میرا جو مجھے سمجھائے گا آ کر

میں کوشش کر کے خود ہی اب سنور جاؤں تو بہتر ہے

 

یہاں اچھی طرح ہر شخص مجھ پر کھل چکا ہے جب

تعلق اپنے سارے توڑ کر جاؤں تو بہتر ہے

 

یہاں جتنے مسائل ہیں وہ سارے آگہی کے ہیں

حسنؔ میں ہر خبر سے بے خبر جاؤں تو بہتر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جلتا ہوا اک خواب یہاں چھوڑ کے جاؤں

جنگل میں کوئی اپنا نشاں چھوڑ کے جاؤں

 

کچھ دیر تو آباد رہیں گے در و دیوار

آنگن میں چراغوں کا دھواں چھوڑ کے جاؤں

 

دل اِس کا نہیں لگتا کہیں میرے علاوہ

میں تیری جدائی کو کہاں چھوڑ کے جاؤں

 

ممکن ہے مرے بعد اُتر آئے یہاں چاند

اِس شہر کی را توں کو جواں چھوڑ کے جاؤں

 

لے جاتی ہے مجبوری حسنؔ گھر سے وگرنہ

کب دل مرا کہتا ہے کہ ماں چھوڑ کے جاؤں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ساتھ تو خیر نبھانے سے گئے

یار تو منہ بھی دکھانے سے گئے

 

شرمساری ہے محبت میں یہی

ہم ترے بعد زمانے سے گئے

 

لوگ پہنچے تھے جہاں دل لے کر

ہم وہاں اور بہانے سے گئے

 

شہر میں آگ لگانے والے

اب تو خود کو بھی بچانے سے گئے

 

مر نہ جائیں کوئی تدبیر کرو

اب ہمیں دکھ بھی رلانے سے گئے

 

وہ نظر پھیرے تو لگتا ہے حسنؔ

جیسے ہم اپنے ٹھکانے سے گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کیوں جلدی تجھے ہاتھ چھڑانے کے لئے ہے

اک زخم ابھی اور دکھانے کے لئے ہے

 

لگتا ہے مجھے گھر کی طرح شہر تمہارا

ہر شخص یہاں دل ہی دکھانے کے لئے ہے

 

ہمراز کوئی میرا نہیں میرے علاوہ

اک بات مگر پھر بھی چھپانے کے لئے ہے

 

ہم اہل محبت کو نہیں موت کی پرواہ

یہ ساتھ کوئی ایک زمانے کے لئے ہے

 

آنکھوں میں اُتر آئی گھنی شام تو کیا غم

ہر خواب مرے پاس جلانے کے لئے ہے

 

ہم اس سے اگر آنکھ چرا لیں تو الگ بات

دل اس کا بہر طور چرانے کے لئے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

شکر ہے اُس کا کہ اتنا حوصلہ رکھتا ہوں میں

دوسروں کے غم بھی سینے سے لگا رکھتا ہوں میں

 

آج کل رہنے لگا ہے جانے کس کا انتظار

شام کو ساحل پہ اک جلتا دیا رکھتا ہوں میں

 

پوچھتے ہیں دوست جب کس سے محبت ہے تجھے

بے زباں ہو کر بھرم اُس شخص کا رکھتا ہوں میں

 

چند لمحوں میں ڈبو بھی سکتا ہوں سارا جہاں

اپنی آنکھوں میں سمندر دوسرا رکھتا ہوں میں

 

ڈھونڈتی رہتی ہیں کرنیں قریہ قریہ کو بکو

چاندنی را توں میں خود کو لاپتہ رکھتا ہوں میں

 

بارشیں آتی ہیں مجھ میں آندھیوں کے ساتھ ساتھ

دشت و دریا سے پرانا سلسلہ رکھتا ہوں میں

 

کون آ کر چھیڑتا ہے جانے دل کو اِن دنوں

اُس جگہ ہوتا نہیں ہے جس جگہ رکھتا ہوں میں

 

کون سا موسم ہے کوئی یہ بتا سکتا نہیں

اپنی حالت اپنے چہرے سے جدا رکھتا ہوں میں

 

جن کی چھاؤں میں حسنؔ گزرے مرے بچپن کے دن

اُن درختوں سے ابھی تک رابطہ رکھتا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس لئے ان کو خام جانتا ہوں

اپنے اشکوں کے دام جانتا ہوں

 

اور تو کوئی خوبی مجھ میں نہیں

دکھ اٹھانے کا کام جانتا ہوں

 

خواہشیں ہاتھ باندھ لیتی ہیں

ایک ایسا کلام جانتا ہوں

 

کون ہوں اس کی کیا خبر مجھ کو

میں تو بس اپنا نام جانتا ہوں

 

بے سبب تو نہیں جھجک اتنی

میں تمہارا مقام جانتا ہوں

 

گھر پہنچنے میں دیر کیسے کروں

اپنی گلیوں کی شام جانتا ہوں

 

کام لیتا ہوں بھولپن سے حسنؔ

ورنہ باتیں تمام جانتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

اَن دیکھے زمانوں کے کچھ قصے سناتا ہے

اک شخص ستاروں سے ملنے مجھے آتا ہے

 

جو باتیں محبت کی اُس لڑکی سے کرتا ہوں

وہ باتیں محبت کی مجھے کون سکھاتا ہے

 

تا حد نظر پھیلی ان پیار کی فصلوں میں

دوڑا ہوا جاتا ہوں وہ جب بھی بلاتا ہے

 

ہر شخص سے پہلے کا بچھڑا ہوا لگتا ہوں

ہر چہرہ مجھے جیسے کچھ یاد دلاتا ہے

 

تالاب کے پانی پر یہ پھول گراتا پیڑ

دکھ تیری جدائی کا کچھ اور بڑھاتا ہے

 

یہ جھیل کی خاموشی کرتی ہے سخن مجھ سے

اک غول پرندوں کا کچھ گیت سناتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چوم کے ماتھا مرا روز جگائے کوئی

اٹھ کے دیکھوں تو نظر بھی نہیں آئے کوئی

 

پاؤں اُٹھتے ہی چلے جاتے ہیں جنگل کی طرف

مجھ کو مانوس سی آواز بلائے کوئی

 

لوگ آتے ہیں ٹھہرتے ہیں چلے جاتے ہیں

ایسالگتا ہے کہ مجھ میں ہے سرائے کوئی

 

بحث و تکرار مناسب نہیں خود سے ہر وقت

مجھ کواس بات کا احساس دلائے کوئی

 

اپنی نظروں سے کسی روز مجھے دیر تلک

کس طرح میں نظر آتا ہوں دکھائے کوئی

 

ہر قدم پر مجھے لگتا ہے کہ گر جاؤں گا

حوصلہ میرا لگاتار بڑھائے کوئی

 

ایسے حالات میں کیا کرنا ہے میں جانتا ہوں

مجھ کو جینے کا سلیقہ نہ سکھائے کوئی

 

چاند کو کھڑکی کے اس پار میں کب تک دیکھوں

میرے کمرے میں دیا آ کے جلائے کوئی

 

خود سے میں روٹھ گیا تھا مگر اب چاہتا ہوں

کسی دن مجھ سے مری صلح کرائے کوئی

 

مجھ میں ! اِہرام بھی ہیں اور خزانے بھی حسنؔ

دھوپ کی رتھ پہ کسی روز تو آئے کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ناریل کے پیڑ اور نیلا سمندر کیا ہوا

وہ جزیرہ وہ سرِ ساحل ترا گھر کیا ہوا

 

بادباں کھولے ہوئے وہ تتلیوں سی کشتیاں

کشتیوں میں پھول سے چہروں کا منظر کیا ہوا

 

دور کے اک دیس سے ہر سال آتا تھا یہاں

موسمی آبی پرندوں کا وہ لشکر کیا ہوا

 

کچھ دنوں سے پڑ گیا ہے ماند کیوں وادی حسن

جس پہ تیرا نام لکھا تھا وہ پتھر کیا ہوا

 

کیا ہوئی دل کی حویلی جس میں تیری یاد تھی

چاند را توں میں کھلا کرتا تھا جو در کیا ہوا

 

جس طرف بھی دیکھوں میری آنکھ بھر آئے حسنؔ

یہ مجھے اس بار اپنے گاؤں آ کر کیا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھوں کے آس پاس سمندر نہیں رہا

شاید میں پہلے والی جگہ پر نہیں رہا

 

دیکھا گیا ہوں چاندنی را توں کو صحن میں

گھر سے تمام عمر تو باہر نہیں رہا

 

آنکھیں تو خیر پہلے سے ہجرت پسند تھیں

کچھ دن سے دل بھی سینے کے اندر نہیں رہا

 

اب تو دئیے بھی اپنے بجھاتے ہیں لوگ خود

اتنا بھی اعتماد ہوا پر نہیں رہا

 

وہ شہر چھوڑ کر بھی ابھی تک وہیں ہوں میں

دل رہ گیا ہے میرا مگر گھر نہیں رہا

 

یہ گاؤں خالی کرنا پڑے گا ابھی ہمیں

سیلاب اور کنارہ برابر نہیں رہا

 

روٹھا رہا میں جس کے لئے نیند سے حسنؔ

وہ چاند میرے واسطے شب بھر نہیں رہا

٭٭٭

 

 

 

 

جب اسے یاد کروں کتنا بدل جاؤں میں

دیکھتے دیکھتے اک خواب میں ڈھل جاؤں میں

 

دل تو کرتا ہے کبھی ہاتھ چھڑا کر سب سے

تیری آنکھوں میں کہیں دور نکل جاؤں میں

 

اُس کی الفت ہے کہ نفرت سے مجھے دیکھتا ہے

وہ کبھی پیار سے دیکھے تو پگھل جاؤں میں

 

فیصلہ ہو نہیں پایا یہ کئی برسوں سے

آج جاؤں کہ ترے شہر سے کل جاؤں میں

 

سادگی راس نہیں آئی محبت میں حسنؔ

اب مناسب ہے کوئی چال ہی چل جاؤں میں

٭٭٭

 

 

 

زندگی میں شخص کوئی ایسا بھی آ جائے ہے

ساتھ رکھا جائے جس کو اور نہ چھوڑا جائے ہے

 

یاد اس کی پھر نہ اُگ آئے در و دیوار سے

بادلوں کو دیکھ کر دل میرا ڈوبا جائے ہے

 

دیکھا کرتا تھا جسے گھر کے دریچے سے کبھی

میری آنکھوں سے گزر کر اب وہ دریا جائے ہے

 

جیسا میں ہوتا ہوں ویسا دیر تک رہتا نہیں

بیٹھے بیٹھے مجھ میں کوئی دوسرا آ جائے ہے

 

ایک ان دیکھے نگر کی جیسے ہو مجھ کو تلاش

پاؤں اٹھتے ہیں اُدھر جس سمت رستہ جائے ہے

 

سامنے وہ آ بھی جائے تو یقیں آتا نہیں

دیکھتا ہوں ایسے جیسے خواب دیکھا جائے ہے

 

وہ جو رکھ لیتا تھا میری جھوٹی با توں کا بھرم

ہائے اُس سے اب مرا دل بھی نہ رکھا جائے ہے

 

کیا کروں کوئی بتاتا ہی نہیں مجھ کو سبب

آپ ہی کچھ سوچ کے ہر دوست روٹھا جائے ہے

 

پہلے سے تو کافی بہتر ہے مری حالت حسنؔ

رونا چاہوں میں اگر تو مجھ سے رویا جائے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ بھی گھر سے کسی وحشت میں نکل آیا ہے

چاند شاید تری چاہت میں نکل آیا ہے

 

دیکھ پایا نہیں چہرہ میرے ہاتھوں میں ترا

شاخ سے پھول رقابت میں نکل آیا ہے

 

میں تجھے بھول چکا ہوں یہ یقیں ہے مجھ کو

آنکھ سے اشک ندامت میں نکل آیا ہے

 

آپ مجھ سے یونہی ناراض ہوئے بیٹھے ہیں

لب سے شکوہ تو محبت میں نکل آیا ہے

 

پہلے آنکھوں سے نکلتا تھا وہ آنسو بن کر

اب کسی پھول کی صورت میں نکل آیا ہے

٭٭٭

 

 

 

منظر تھے سارے بھید بھرے ہر صورت ایک پہیلی تھی

وہ دن بھی کتنے اچھے تھے جب دنیا نئی نویلی تھی

 

خوابوں میں اب بھی دیر تلک اس آنگن میں ہم کھیلتے ہیں

وہ جس میں رات کی رانی تھی وہ جس میں چمپا چنبیلی تھی

 

وہ آنکھیں دیکھنے کی خاطر ہم دریا پار چلے جاتے

وہ دریا پار گھنا جنگل‘ جنگل میں ایک حویلی تھی

 

جب ہجر سندیسہ لے آئی اُس برفانی خطے میں شام

مرے گرم دہکتے ماتھے پر اک سندر نرم ہتھیلی تھی

 

بس مجبوری رسوائی کی ملنے میں حائل تھی ورنہ

میں دل کی سڑک پر تنہا تھا وہ پیار کی چھت پہ اکیلی تھی

 

اب خاک میں خاک ہوئی ہے وہ اس دل کا چاک ہوئی ہے وہ

جو دوست تھی ساون بھادوں کی جو چنچل رُت کی سہیلی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

سورج کبھی تو میرے نشانے پہ آئے گا

پھر چاند کا دماغ ٹھکانے پہ آئے گا

 

میں مانتا ہوں کوئی نہیں اُس سا خوش مزاج

میں جانتا ہوں جب وہ رُلانے پہ آئے گا

 

ہر کام اپنا ہو گا برابر اسی طرح

جھونکا ہوا کا دیپ جلانے پہ آئے گا

 

تنہا نہیں پھروں گا میں جنگل میں عمر بھر

کوئی پرند تو مرے شانے پہ آئے گا

 

کل شام جھیل پر نہیں جاؤں گا میں حسنؔ

کل شام میرے گھر کوئی کھانے پہ آئے گا

٭٭٭

 

 

 

میں غلط تھا تو مجھے سمجھانے والا کون تھا

دوست اور دشمن مرا میرے علاوہ کون تھا

 

دیکھ کر تجھ کو خیال آتا ہے رہ رہ کر مجھے

اس جہاں سے پہلے میرے ساتھ تجھ سا کون تھا

 

خود ہی تھوڑی دور جا کر لوٹ آیا اپنے پاس

جو مجھے آواز دیتا مجھ میں ایساکون تھا

 

رات بیٹھے بیٹھے مجھ کو آیا تھا کس کا خیال

لہر کی مانند میرے دل سے گزرا کون تھا

 

عمر بھر دریا کنارے ہی رہا ہوں میں اگر

دشت میں وہ مارا مارا پھرنے والا کون تھا

 

اس لئے بھی دکھ نہیں ہے چھوڑ آنے کا حسنؔ

گھر تو اپنا تھا مگر اس گھر میں اپنا کون تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جاؤں باہر میں کس طرح گھر سے

خوف کے سانپ لٹکے ہیں در سے

 

دیر تھی اک چراغ بجھنے کی

چھپ گیا چاند رات کے ڈر سے

 

وہ جو بچھڑا تو میری آنکھوں کی

دوستی ہو گئی سمندر سے

 

جب بھی رستے میں اس کی یاد آئے

بیٹھ جاتا ہوں لگ کے پتھر سے

 

دن گزرتے ہی ایسے لگتا ہے

بوجھ جیسے اُتر گیا سر سے

 

اس کی یادوں کے پاس بیٹھا ہوں

اُٹھ رہا ہے دھواں برابر سے

 

سال کے بعد ملنے آتا ہے

یہی شکوہ ہے بس دسمبر سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کب ہے ایسا کسی زنجیر نے جانے نہ دیا

گھر سے باہر تری تصویر نے جانے نہ دیا

 

دشت میں تیری صدا پر میں پہنچ سکتا تھا

پشت سے پھینکے گئے تیر نے جانے نہ دیا

 

روز اک خواب نے پاؤں سے سفر باندھا مگر

روز اک خواب کی تعبیر نے جانے نہ دیا

 

جھیل کی تہہ میں کوئی چاند بلاتا تھا مجھے

پر کسی آنکھ کی تاثیر نے جانے نہ دیا

 

اب ترے ساتھ کسی اور جہاں میں ہوتا

ہائے افسوس کہ تقدیر نے جانے نہ دیا

 

پوری ہو سکتی تھی یہ آدھی ملاقات حسنؔ

خط میں لکھی ہوئی تحریر نے جانے نہ دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب بھی ٹھوکر کھانی ہے

تیری یاد تو آنی ہے

 

سورج سچ ہی کہتا تھا

ہر پل نقل مکانی ہے

 

کل اک سپنا دیکھا تھا

آج اک منت مانی ہے

 

گھر میں کب تنہا ہوں میں

صحن میں رات کی رانی ہے

 

چاند کو گھر ہی لے آؤں

رات بڑی طوفانی ہے

 

ڈوب رہا ہے میرا دل

ماں کی آنکھ میں پانی ہے

 

دل کے بند کواڑوں میں

کوئی یاد پرانی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جیسا بھی وقت آئے سانسیں بحال رکھنا

تم میری زندگی ہو اتنا خیال رکھنا

 

تنہائی میں پرندے نعمت سے کم نہیں ہیں

آنگن میں اپنے دانہ ہر وقت ڈال رکھنا

 

دیکھو گرفت ڈھیلی ہاتھوں کی پڑ نہ جائے

دیکھو میں گر نہ جاؤں مجھ کو سنبھال رکھنا

 

کوئی نہیں کسی کا کوئی نہیں کسی کا

خوش فہمیوں کو اپنے دل سے نکال رکھنا

 

ہو جائے وقت رخصت آنسو چھپانا مشکل

آنکھوں میں تم نہ ایسا کوئی سوال رکھنا

٭٭٭

 

 

 

سلوک کچے گھروں سے جو بارشوں نے کیا

وہ میرے ساتھ مرے اپنے آنسوؤں نے کیا

 

ہم ایسے سادہ طبیعت کہاں سمجھ پاتے

ترے مزاج سے واقف تو موسموں نے کیا

 

جو قربتوں میں تھے وہ فاصلے بھی ختم ہوئے

قریب اور ہمیں تو جدائیوں نے کیا

 

اب اتنا تنگ مجھے کرتی ہے تمہاری یاد

کہ جتنا پہلے تمہاری شرارتوں نے کیا

 

یونہی نظر نہیں آتا ہرا یہ دشتِ دل

قیام اس میں بہت دیر بادلوں نے کیا

 

وگرنہ پہلے تو ہجرت کا اتنا شوق نہ تھا

ہمیں خراب ہوا کی رفاقتوں نے کیا

 

نکھار چہرے پہ ایسا کہاں تھا پہلے حسنؔ

حسین ہم کو کسی کی محبتوں نے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دشت میں گوشہ گلزار نے روکے رکھا

مجھ کو دنیا میں ترے پیار نے روکے رکھا

 

کتنے منظر تھے مرا راستہ تکنے والے

صرف اک شخص کے دیدار نے روکے رکھا

 

لوٹ آنا بڑا آسان تھا اپنی جانب

پر ترے وقفۂ انکار نے روکے رکھا

 

رات گلیوں میں قضا ڈھونڈ رہی تھی ہم کو

سانس تک میرا مرے یار نے روکے رکھا

 

اس کو بھی پھول نگر نے کوئی رستہ نہ دیا

مجھ کو بھی وادیِ پر خار نے روکے رکھا

 

کس طرح چھوڑ کے جاتا میں ترے بعد یہ شہر

ہر قدم پر تری مہکار نے روکے رکھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اگرچہ زخم تو گہرا لگا ہے

مگر اس بار چلنا آ گیا ہے

 

گلہ مجھ کو نہیں ہے تم سے کوئی

ابھی تم سے فقط اتنا گلہ ہے

 

میں کیسے زندگی سے روٹھ جاؤں

کوئی مجھ سے ابھی تک روٹھتا ہے

 

تمہارے بعد اکثر سوچتا ہوں

کہ دل کا آنکھ سے کیا واسطہ ہے

 

جہاں مشکل تھا پل بھر سانس لینا

وہاں برسوں ہمیں جینا پڑا ہے

 

میں اپنے پاس آنا چاہتا ہوں

کسی نے راستہ روکا ہوا ہے

 

میں گھر جھوٹی خبر ہی لے کے جاؤں

مری ماں کب سے مصروفِ دعا ہے

 

کہیں خود سے بھی نفرت ہو نہ جائے

کوئی اتنا پسند آنے لگا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو بات خاص ہے اب اس کو عام کرتا ہوں

میں اپنی تازہ غزل تیرے نام کرتا ہوں

 

کبھی کبھی نظر آتا ہوں جھیل کی صورت

کبھی کبھی ترے دکھ میں قیام کرتا ہوں

 

میں کر رہا ہوں محبت بھی اس لیے شاید

جو کام کر نہیں سکتا وہ کام کرتا ہوں

 

ندی کنارے کسی ٹی سٹال پر اکثر

میں ایک شام کے پہلو میں شام کرتا ہوں

 

ہوا کی طرح تجھے چھیڑ سکتا ہوں لیکن

تو حسن ہے میں ترا احترام کرتا ہوں

 

اگر یہ زندگی کچھ ہے تو بس محبت ہے

میں اپنی بات یہیں پر تمام کرتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

بچھڑتے وقت کی جو رسم ہے پوری ادا کی تھی

اُسے رخصت کیا تھا اور پھر میں نے دعا کی تھی

 

ہماری زندگی ساری گئی ہے رائے گاں تو کیا

یہ کہہ کے صبر کر لیں گے یہی مرضی خدا کی تھی

 

یقیں آتا نہیں پر کیا کروں جب سامنے تم ہو

اچانک اس طرح آنے میں شہرت تو ہوا کی تھی

 

مجھے اب کس لیے ہجرت کی باتیں اچھی لگتی ہیں

مجھے تو اپنی مٹی سے محبت انتہا کی تھی

 

وہ اتنی تیز آندھی تھی کہ اب تک سوچتا ہوں میں

درختوں اور پرندوں نے نجانے کیا خطا کی تھی

٭٭٭

 

 

 

وہ تو ساحر ہیں کچھ ایسے کہ جدھر دیکھیں گے

نیند سے اُٹھ کے سبھی لوگ ادھر دیکھیں گے

 

یونہی خاموش نہیں پھرتے بہت دیر سے ہم

دل میں ٹھانی ہے اُسے مار کے مر دیکھیں گے

 

جانے والوں نے تو یہ بھی نہیں سوچا ہو گا

جو انہیں دیکھ کے جیتے تھے کدھر دیکھیں گے

 

یونہی صحرا میں نہیں بیٹھے ہیں آنسو لے کر

جو یہاں بعد میں آئے وہ شجر دیکھیں گے

 

ہم کو گہرائی سمندر کی بہت کھینچتی ہے

چاند کے ساتھ کسی روز اتر دیکھیں گے

 

سو رہی ہیں جہاں بچپن کی سبھی یادیں حسنؔ

گاؤں میں جا کے کسی روز وہ گھر دیکھیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

گفتگو کیجئے احتیاط کے ساتھ

مر بھی جاتے ہیں لوگ بات کے ساتھ

 

ہو بھی سکتا ہے ختم سارا لحاظ

اُٹھ بھی سکتا ہے ہاتھ‘ ہاتھ کے ہاتھ

 

کچھ اندھیروں کو قتل کرنا تھا

گھر سے نکلا میں چاند رات کے ساتھ

 

مہرباں ہے ہوا، شجر ہیں دوست

دل لرزتا ہے پات پات کے ساتھ

 

ہوتا جاتا ہے قصہ ختم حسنؔ

لگتی جاتی ہے آنکھ ساتھ کے ساتھ

٭٭٭

 

 

نہیں ہے سامنے کوئی مگر ہوا تو ہے

چلو ہمارا کسی سے مقابلہ تو ہے

 

ہمیں تو اس سے غرض ہے کہ رات کٹ جائے

کہ چاند دیکھتے رہنا بھی مشغلہ تو ہے

 

ہمیں ٹھہرنا نہیں پر‘ یہی خوشی ہے بہت

کسی کے دل میں ہمارے لئے جگہ تو ہے

 

چراغ سانس کی حدت سے جل نہیں سکتا

تمہارا نام کسی نے یہاں لیا تو ہے

 

کسی سے کیسی توقع خراب حالوں کو

یہی بہت ہے کہ اک شخص پوچھتا توہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جسے سارا زمانہ چاہتا ہے

مری بانہوں میں آنا چاہتا ہے

 

اگر اس کو محبت ہے تو ہو گی

مجھے وہ کیوں جتانا چاہتا ہے

 

مری آنکھوں سے تم ہجرت نہ کرنا

سمندر تو ٹھکانا چاہتا ہے

 

مواقع خود ہی میں پیدا کروں گا

اگر وہ چھوڑ جانا چاہتا ہے

 

اسے چھوٹی سے چھوٹی بات بھی دل

نجانے کیوں بتانا چاہتا ہے

 

مجھے اس کی مدد کرنی پڑے گی

وہ میرا دل دکھانا چاہتا ہے

 

بظاہر لاتعلق رہ کے مجھ سے

تعلق وہ نبھانا چاہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

ہم دشت میں کیوں خاک اُڑاتے ہوئے جائیں

آئے ہیں تو کچھ پھول کھلاتے ہوئے جائیں

 

پاؤں سے لہو رسنے دیا ہے اسی دھن میں

جنگل میں کوئی رستہ بناتے ہوئے جائیں

 

اب تو یہی صورت نظر آتی ہے خوشی کی

دکھ اور کسی کا بھی اٹھاتے ہوئے جائیں

 

ویسے کبھی اظہار نہ کر پائیں گے یہ لب

اک آدھ غزل اس کو سناتے ہوئے جائیں

 

ہجرت میں کوئی قتل بھی کر سکتا ہے ان کو

یادیں اسی آنگن میں چھپاتے ہوئے جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

کب انہیں بھی قبول ہیں ہم لوگ

جن درختوں کے پھول ہیں ہم لوگ

 

دکھ نہیں بانٹ سکتے آپس کے

یار کتنے فضول ہیں ہم لوگ

 

کبھی لڑنا تو سوچ کر لڑنا

جنگ میں بے اصول ہیں ہم لوگ

 

جانے کیا بات ہو گئی ہے یہاں

کچھ دنوں سے ملول ہیں ہم لوگ

 

اسی رستے میں کہکشاں جیسے

اسی رستے کی دھول ہیں ہم لوگ

٭٭٭

 

 

 

کرتے ہیں پرندوں کی طرح پیار مجھے بھی

آغوش میں لے لیتے ہیں اشجار مجھے بھی

 

کچھ ایسا دھواں دار میں گزرا تھا وہاں سے

بادل ہی سمجھتے رہے کہسار مجھے بھی

 

یہ شام جو بیٹھی ہے سمندر کے کنارے

اس سے کبھی ہوتا تھا سروکار مجھے بھی

 

صد شکر ہوئی مجھ سے ادا سنتِ یوسف

کھینچا ہے زلیخا نے کئی بار مجھے بھی

 

اب اس کے علاوہ کوئی صورت ہی نہیں تھی

ہونا پڑا دشمن کا طرفدار مجھے بھی

 

جو دشت میں لے آئی سدھارتھ کو محل سے

پاگل کیے رکھتی ہے وہ مہکار مجھے بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنا دکھ درد بتانا بھی نہیں چاہتا میں

کچھ مگر اس سے چھپانا بھی نہیں چاہتا میں

 

انتقام اپنا وہاں جا کے مجھے لینا ہے

دل جہاں کوئی دکھانا بھی نہیں چاہتا میں

 

اس کی تصویر بھی آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں

اور کبھی سامنے آنا بھی نہیں چاہتا میں

 

بات چپ رہنے سے کچھ اور بگڑ جاتی ہے

لفظ کو تیر بنانا بھی نہیں چاہتا میں

 

ایک ہجرت ہے کہ ہر حال میں کرنی ہے مجھے

شہر کو چھوڑ کے جانا بھی نہیں چاہتا میں

 

چھوٹی سی بات پہ دھڑکا ہو بچھڑ جانے کا

اتنا نزدیک تو آنا بھی نہیں چاہتا میں

 

اس کو مشکوک نگاہوں سے میں کیوں دیکھتا ہوں

جس کو نظروں سے گرانا بھی نہیں چاہتا میں

 

اب حسنؔ ٹوٹتا جاتا ہے جدائی کا نشہ

خود کو جب ہوش میں لانا بھی نہیں چاہتا میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

سامنے جب وہ چاند سی صورت ہوتی ہے

میری سمندر جیسی حالت ہوتی ہے

 

پہلی آخری کی اس میں تفریق نہیں

یار محبت صرف محبت ہوتی ہے

 

ایسے ایسے صدمے جھیلے ہیں میں نے

خود کو زندہ دیکھ کے حیرت ہوتی ہے

 

اور کسی کے ساتھ نظر آتا ہوں میں

جس دن مجھ کو اپنی ضرورت ہوتی ہے

 

میرے سامنے تو میری تعریف نہ کر

مجھ کو اس سے دوست اذیت ہوتی ہے

 

سامنے اس کے بات نہیں کر پاتامیں

رونے میں کچھ دیر سہولت ہوتی ہے

 

یونہی خواب اور آنسو نہیں بن جاتا میں

ان آنکھوں کی مجھ کو اجازت ہوتی ہے

 

بعد میں ہو جاتا ہے اکثر پیار حسن

پہلے پہل جس شخص سے نفرت ہوتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آموں کی شاخوں نے بور اٹھایا پھر

آندھی اور بارش کا موسم آیا پھر

 

آج اچانک پھر میں خود سے بھاگ گیا

کوئی مجھ کو مجھ میں کھینچ کے لایا پھر

 

جس نے پہلے میرا گھر ویران کیا

دیواروں پر دیکھتا ہوں وہ سایا پھر

 

کل اس قبر کو جانے کتنے پت جھڑ بعد

روتے روتے میں نے ہاتھ لگایا پھر

 

جن رستوں سے خود کو ڈھونڈ کے لایا تھا

اُن رستوں میں اپنا آپ گنوایا پھر

 

جس سے بچپن کی یادیں وابستہ تھیں

اُس نغمے کو آج کسی نے گایا پھر

 

دوست یا دشمن ؟کی دھمکی دی پہلے حسنؔ

اس نے میری جانب ہاتھ بڑھایا پھر

٭٭٭

 

 

 

 

 

دھیان میرا اسے آیا ہو گا

ابھی سورج وہاں ڈوبا ہو گا

 

رونے والوں کو تسلی مت دو

اُن کے اشکوں میں اضافہ ہو گا

 

مجھ کو بھی خود سے محبت ہے بہت

میرا انجام بھی تجھ سا ہو گا

 

اس لیے موت سے ڈر لگتا ہے

پھر ہمیشہ مجھے جینا ہو گا

 

بھول جانے کا اگر کہتے ہو

ساتھ میرا تمہیں دینا ہو گا

 

روز جاتا ہوں سمندر کی طرف

میرے اندر کوئی دریا ہو گا

 

وہ ابھی اٹھ کے گیا ہے لیکن

سوچتا ہوں کہ وہ کیسا ہو گا

 

میں یہاں بیٹھا غزل لکھتا ہوں

چاند اس شہر میں نکلا ہو گا

 

آنے والی ہے مصیبت کوئی

دل کسی بات پہ دھڑکا ہو گا

 

دشت میں پھول کھلے ہیں تازہ

وہ یہاں سے ابھی گزرا ہو گا

 

کب تک آباد رہے گی دنیا

جانے کب تک یہ تماشا ہو گا

 

بات بے بات دھڑک اٹھتا ہے

دل سے اس بات پہ جھگڑا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جنگل جنگل ساتھ مرے شہزادی ہے

بستی بستی لشکر اور منادی ہے

 

پیار کے دشمن ہیں یہ تیر کمان تو کیا

ہر اک پیڑ اور پنچھی مرا امدادی ہے

 

ناچتے موروں سے تو لگتا ہے کہ یہاں

دل کی باتیں کرنے کی آزادی ہے

 

دور تلک آنکھوں میں رقصاں ہیں شعلے

سرد ہوا نے بن میں آگ لگا دی ہے

 

خیمے سے تم باہر آ کر دیکھو تو

چاند کے ساتھ ستارا بھی فریادی ہے

 

کچھ چڑیوں نے گیت و داعی گائے ہیں

اک بوڑھے برگد نے ہم کو دعا دی ہے

 

صبح سے پہلے جانا ہے اُس دریا پار

اُس دریا کے پار وفا کی وادی ہے

 

پتھر پتھر پر لکھا ہے پیار حسنؔ

پھولوں جیسے لوگوں کی آبادی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جن میں دریا رہا کرے کوئی

ایسی آنکھوں کا کیا کرے کوئی

 

میں تو خود میں الجھ گیا ہوں بہت

مجھ کو، مجھ سے جدا کرے کوئی

 

مدتوں سے میں گھر نہیں آیا

اب تو میرا پتہ کرے کوئی

 

حال میں تو بتانے والا نہیں

میرا چہرہ پڑھا کرے کوئی

 

کونسی بات ہے نئی اس میں

کیوں مرا دکھ سنا کرے کوئی

 

کچھ بھی کر سکتا ہوں جدائی میں

پاس میرے رہا کرے کوئی

 

خود کو کب تک برا بھلا میں کہوں

مجھ سے میرا گلہ کرے کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

چہروں پہ پھیلی دھوپ کا دم خم وہی رہا

آنکھیں برس کے تھک گئیں موسم وہی رہا

 

ٹہنی پہ تازہ غنچے کئی کھل گئے مگر

مرجھانے والے پھول کا ماتم وہی رہا

 

تجھ سے بچھڑ کے جینے کی کوشش فضول تھی

دل میں جو تیرا غم تھا ترا غم وہی رہا

 

کل رات ہر ستارے کو دیکھا میں غور سے

جو چاند کے قریب تھا مدھم وہی رہا

 

’’آتا کوئی میان ہمارے تو کس طرح‘‘

رشتہ تھا اعتماد کا باہم وہی رہا

٭٭٭

 

 

 

شہر بھر کو خفا کروں گا میں

ذکر اتنا ترا کروں گا میں

 

خشک پتے ہوا میں اڑنے لگے

اب کوئی فیصلہ کروں گا میں

 

کون سا تحفہ اس کو بھجواؤں

چاند سے مشورہ کروں گا میں

 

جانے والے انہیں بھی لیتا جا

تیری یادوں کو کیا کروں گا میں

 

مر نہیں جاؤں گا تمہارے بعد

دیکھ لینا جیا کروں گا میں

 

یاد بکھری ہے شہر میں اس کی

اپنے گھر میں رہا کروں گا میں

 

کتنے موسم بدل چکے ہوں گے

جب دریچوں کو وا کروں گا میں

٭٭٭

 

 

 

مجھے اور اس کی خبر نہیں مجھے اور اس کا پتہ نہیں

مگر اتنا مجھ کو یقین ہے کہ وہ شخص دل کا برا نہیں

 

یہ ملال کیسا ملال ہے ترے دل میں بھی مرے دل میں بھی

کہ خفا ہیں کتنے دنوں سے ہم پہ لبوں پہ کوئی گلہ نہیں

 

یہ گئے دنوں کا ہے ماجرا مرا چہرہ اس کا تھا آئینہ

یہ ہے آج صبح کا واقعہ مجھے دیکھ کر وہ رکا نہیں

 

سبھی جانتے ہیں یہ کس طرح‘ ترے پیار کے میں نشے میں ہوں

کبھی شہر میں یونہی لہر میں ترا نام تک تو لیا نہیں

 

تجھے بھولنے کی سزا ہے یہ کہ بہاریں کتنی گزر گئیں

کوئی نظم دل میں اُگی نہیں کوئی شعر لب پہ کھلا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک شرارت کرتے ہیں

آؤ محبت کرتے ہیں

 

ہنستی آنکھوں سے کہہ دو

دریا ہجرت کرتے ہیں

 

کچھ دل ایسے ہیں جن پر

ہم بھی حکومت کرتے ہیں

 

کوئی بات تو ہے مجھ میں

دشمن عزت کرتے ہیں

 

زندہ رہنا ہے دشوار

اچھا ہمت کرتے ہیں

 

ویسے ہوتے نہیں ہیں لوگ

جیسی چاہت کرتے ہیں

 

اکثر اپنے آپ سے ہم

تیری شکایت کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جب بھی لہو کا گرم ہو بازار دیکھنا

کس نے اٹھائی کس لئے تلوار دیکھنا

 

لشکر لڑے بغیر چلے جائیں گے سبھی

میدان جنگ میں مرا کردار دیکھنا

 

کر لو ابھی سے دور غلط فہمیاں کہ پھر

یہ دھند بنتی جائے گی دیوار دیکھنا

 

مجھ کو اتارا جائے گا جس روز دار سے

ہر آنکھ ہو گی میری طرفدار دیکھنا

 

جنگل میں جا رہا ہوں میں اپنی تلاش میں

آؤں نہ لوٹ کر تو مجھے یار دیکھنا

٭٭٭

 

 

کسی کی یاد بھی آ سکتی ہے دریچوں سے

ہلیں جو پردے تو اس کو فقط ہوا نہ سمجھ

 

یہ تیرا شہر مرے شہر خواب جیسا ہے

میں حیرتی ہوں مجھے اس جگہ نیا نہ سمجھ

 

کسی نے ہاتھ کو تھاما ہے زندگی کی طرح

میں زندہ ہوں تو اسے میرا حوصلہ نہ سمجھ

 

یہ جھوٹ اس سے کئی بار بولا ہے میں نے

مجھے تو اپنی محبت میں مبتلا نہ سمجھ

 

در قبول پلک بھیگنے سے کھلتا ہے

دعا جو اشک نہیں ہے اُسے دعا نہ سمجھ

٭٭٭

 

 

 

 

جہاں سے دشمنی پہلے تو تھی پر اب نہیں ہے

کہ تم سے دوستی پہلے تو تھی پر اب نہیں ہے

 

یہ سارے خوبصورت لفظ اپنے پاس رکھو

کہ مجھ میں سادگی پہلے تو تھی پر اب نہیں ہے

 

تمہارے ساتھ رہ جاؤں میں جتنے دن یہاں ہوں

یہ خواہش آخری پہلے تو تھی پر اب نہیں ہے

 

محبت کے نئے معنی کھلے ہیں مجھ پہ جب سے

اجڑنے کی خوشی پہلے تو تھی پر اب نہیں ہے

 

حسنؔ اک شخص کی با توں سے دکھ پہنچا ہے اتنا

ان آنکھوں میں نمی پہلے تو تھی پر اب نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یونہی تو دیپ نہیں راہ میں جلایا تھا

چراغ جیسا کوئی شخص یاد آیا تھا

 

کسی کو میری ضرورت نہ تھی دوبارہ وہاں

میں اپنے آپ کو بیکار ڈھونڈ لایا تھا

 

قصور وار سمجھنے لگا میں خود کو بہت

کچھ اس تپاک سے اس نے گلے لگایا تھا

 

وہ دوست تھا مگر اس نے کبھی نہ پوچھا حال

یہ اور بات کہ میں نے بھی کب بتایا تھا

 

نجانے کیوں مری حالت پہ لوگ ہنستے رہے

کسی کا میں نے یہاں دل نہیں دکھایا تھا

 

وہاں پہ لوگ اکٹھے تھے نیند کے ڈر سے

پر اپنا خواب کسی نے نہیں سنایا تھا

 

خزاں درختوں سے کمرے میں آ چکی تھی حسنؔ

ہوا نے مجھ کو بہت بعد میں جگایا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تم یونہی دیکھتے رہ جاؤ گے حیرانی سے

ہم کسی اور کے ہو جائیں گے آسانی سے

 

خواب اور آب نے وہ حشر اٹھائے ہیں یہاں

باز آیا! میں اِن آنکھوں کی نگہبانی سے

 

کرتا ہوں اور بھی سامان اذیت کے لئے

کام چلتا ہے کہاں صرف غزل خوانی سے

 

عمر بھر دوسرے لوگوں کی سہولت کے لئے

میں نے دوچار کیا خود کو پریشانی سے

 

عمر گزری ہے سمندر کے کنارے ان کی

ہائے وہ لوگ جو ڈرتے تھے بہت پانی سے

 

معتبر آج اسی جنگ کے باعث ہوں حسنؔ

سب نے تعبیر کیا تھا جسے نادانی سے

٭٭٭

 

 

 

 

حسن تازہ جو چھپا ہے وہ عیاں ہو جائے گا

بارشوں میں بوڑھا جنگل پھر جواں ہو جائے گا

 

بھٹکی روحیں، سرد چیخیں، چاندنی اور دشتِ خوف

دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ دھواں ہو جائے گا

 

پُر سکوں دیوار و در ہیں مطمئن ہیں لوگ سب

پھر بھی یوں لگتا ہے جیسے کچھ یہاں ہو جائے گا

 

شہر میں کچھ دن اگر بارش یونہی ہوتی رہی

مجھ سے آوارہ مزاجوں کا زیاں ہو جائے گا

 

راستے میں ڈوب جائے گا اگر سورج حسنؔ

کوئی جگنو کوئی تارا مہرباں ہو جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

چھوٹی سی ایک ناؤ بنانے کی دیر ہے

دریا کے پار بس مرے جانے کی دیر ہے

 

اک پل میں جاگ جائے گا سویا ہوا محل

پھر سے قدیم گیت سنانے کی دیر ہے

 

شہزادی چل پڑے گی مرے ساتھ خودبخود

اس سے تو صرف آنکھ ملانے کی دیر ہے

 

قالین بادلوں میں اڑے گا لئے ہمیں

قدموں میں ایک بار بچھانے کی دیر ہے

 

سر پر ہمارے ہو گا پرندوں کا سائباں

اک دھوپ کی کرن فقط آنے کی دیر ہے

 

آنے لگیں گی تتلیاں کھلنے لگیں گے پھول

صحرا میں جا کے خیمہ لگانے کی دیر ہے

 

جگنو کی طرح چاند اڑے گا ہمارے گرد

سورج کے خواب گاہ میں جانے کی دیر ہے

 

اتریں گی پریاں ہاتھ میں تارے لئے ہوئے

نظریں فلک کی سمت اٹھانے کی دیر ہے

 

ہاتھوں سے اپنی ریت پر لکھتی پھرے گی نام

ہم کون ہیں ہوا کو بتانے کی دیر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

چاند تم سے شکایتیں ہیں بہت

 

چاند تم ہو بہت ہی آوارہ

کتنی راتیں نظر نہیں آتے

پھرتے رہتے ہو جا بجا یونہی

پر کبھی میرے گھر نہیں آتے

چاند تم دور دور رہتے ہو

چاند تم سے شکایتیں ہیں بہت

 

کس محبت میں زخم کھائے ہیں

دل پہ اتنے جو داغ رکھتے ہو

یہ کہانی کبھی سناتے نہیں

آسماں پر دماغ رکھتے ہو

چاند تم بولتے نہیں ہم سے

چاند تم سے شکایتیں ہیں بہت

 

چاند تم ایک سے نہیں رہتے

شکل اور راستے بدلتے ہو

چاند تم رات کو تن تنہا

ایسے ویسوں کے ساتھ چلتے ہو

ہاتھ آتے نہیں کسی صورت

چاند تم سے شکایتیں ہیں بہت

 

چاند جب بھی ملے کوئی موقع

چھپتے رہتے ہو ایسے چپکے سے

پیڑ اور بادلوں کے پیچھے تم

حسن گھٹتا ہو جیسے دیکھے سے

ہاتھ آتے نہیں کسی صورت

چاند تم سے شکایتیں ہیں بہت

 

میری آنکھوں میں کیا کمی ہے جو

جھیل میں دیکھتے ہو عکس اپنا

آئینے میں اتار کر تم کو

کوئی تعبیر کرنا ہے سپنا

خواب کیا ہیں یہ جانتے ہی نہیں

چاند تم سے شکایتیں ہیں بہت

 

روشنی مستعار ہے پھر بھی

جانے کس بات کی بڑائی ہے

ہم سے ملتے ہو اجنبی کی طرح

جبکہ بچپن سے آشنائی ہے

چاند تم سے گلہ نہیں کوئی

چاند تم سے شکایتیں ہیں بہت

٭٭٭

 

 

 

 

 

اجنبی شہر میں نامکمل نظم

 

 

یہ تیرا شہر کتنا خوبصورت ہے

نظر جس سمت اٹھ جائے

پلٹ کر پھر نہیں آتی

یہ پربت اور ان کی گود میں سوئی ہوئی گلیاں

کھلونوں کی طرح بکھرے ہوئے ننھے مکاں ہر سو

مکانوں کی چھتوں پر دھوپ کی چادر

ہے کیسا خواب سا منظر

یہ تیرا شہر کتنا خوبصورت ہے

یہ بچوں کی طرح اک دوسرے سے کھیلتے بادل

یہ وقفے وقفے سے ہوتی ہوئی بارش

یہ بارش میں ازل سے بھیگتے پتھر

ہے کیسا خواب سا منظر

یہ تیرا شہر کتنا خوبصورت ہے

یہ پیڑوں کا گھنا سایا

یہ سائے میں اُگی بیلیں

اُگی بیلوں پہ کھلتے پھولوں کی خوشبو

مگر ان سب سے بڑھ کر یہ

کہ رہتی ہے یہاں پر تو

یہاں سے کس طرح جاؤں

قدم جب بھی اٹھاتا ہوں

تو خط وہ یاد آتا ہے

کہ جس میں تو نے لکھا تھا

کہ میرے شہر جب آنا

اگر تم نظم لکھنا تو

مری آنکھیں بہت ہی خوبصورت ہیں

انہیں مت بھول جانا ہاں

مگر تجھ کو خبر ہی کیا

کہ تیرے شہر میں پھرتا رہا ہوں آج سارا دن

نجانے کتنے چہروں میں تری آنکھوں کو ڈھونڈا ہے

یہ تیرا شہر کتنا خوبصورت ہے

یہاں سے کس طرح جاؤں

کہ میری نامکمل نظم کو بس

تیری آنکھوں کی ضرورت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اسے کہنا

 

اسے کہنا

کہ جس آئینے میں چہرہ بگڑتا ہو

اگر وہ ٹوٹ بھی جائے

تو اتنا غم نہیں ہوتا

اسے کہنا

کہ جس گھر میں

فقط کچھ تلخ یادیں ہوں

اگر ہر فرد اس کا روٹھ بھی جائے

تو اتنا غم نہیں ہوتا

اسے کہنا

دلوں میں فرق آ جائیں

تو پھر پہلی محبت کا صلہ مانگا نہیں کرتے

اسے کہنا جسے خود چھوڑ آئیں

اُس سے ملنے کی دعا مانگا نہیں کرتے

اسے کہنا

جسے تم دوست کہتے ہو

وہ سارا دن نجانے کیسے کیسے دُکھ اُٹھاتا ہے

اسے کہنا

ریاست جب اجڑ جائے

تو شہزادوں پہ ایسا وقت آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

SYMPTOMS

 

سبب کوئی نہیں لیکن

وہ مجھ سے ہر گھڑی ناراض رہتی ہے

کہیں رستے میں مل جائے

تو نظریں پھیر لیتی ہے

کوئی اس سے مرا پوچھے

تو اس سے روٹھ جاتی ہے

کبھی با توں ہی با توں میں

جو میرا ذکر آ جائے

چلی جاتی ہے اٹھ کر وہ

وہ مجھ سے اتنا چڑتی ہے

کہ اب تو سوچتا ہوں میں

کہیں مجھ سے

’’محبت تو نہیں اس کو‘‘

٭٭٭

 

 

 

دو منظر

 

کمرے سے باہر کا منظر

بادل بارش اور ہوا

کمرے کے اندر کا منظر

آنکھیں، آنسو اور دعا

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھیں سچی ہوتی ہیں

 

 

جھوٹی ہنسی کے لمحوں میں

آنسو آنسو روتی ہیں

آنکھیں سچی ہوتی ہیں

 

ہجر میں بھیگی پلکوں سے

یاد میں خواب پروتی ہیں

آنکھیں سچی ہوتی ہیں

 

منظر جب کھو جائیں تو

خاک نگر جا سوتی ہیں

آنکھیں سچی ہوتی ہیں

٭٭٭

تشکر: کتاب ایپ

ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید