فہرست مضامین
پرانے گھر کا چاند اور دوسری کہانیاں
صغیر رحمانی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ناف کے نیچے
مقام۔ ۔ ۔ شمالی ٹولے کا ایک تاریک کمرہ
۔ ۔ ۔ اس سے قبل کہ اژدہا اسے اپنے دہانہ میں بھر لیتا اس کی نیند ٹوٹ گئی اور اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی تو اس کے منہ سے کراہ نکل گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جسم کا ایک ایک عضو پھوڑے کی شکل میں ٹیس رہا ہے۔ وہ پسینے سے تر بہ تر ہو گیا تھا اور پیاس کی شدت سے اس کا حلق سوکھنے لگا تھا۔ کمرے میں گہری تاریکی تھی اور ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دے رہا تھا۔
آج پھر اس نے وہی خواب دیکھا تھا۔ ایک طویل و عریض بد ہیئت اژدہا اسے چاروں جانب سے اپنے حصار میں جکڑے ہوئے ہے اور اپنے دہانہ کو پھیلا کر اسے ثا بت نگلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے جسم کی ہڈیاں چٹک رہی ہیں اور روح گھٹتی جا رہی ہے۔ اس سے قبل کہ اس کی روح فنا ہو جاتی اور وہ ہیبت ناک اژدہا اسے اپنے سخت دہانہ کی گرفت میں لے لیتا۔ ۔ ۔ اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ یہ خواب وہ مسلسل کئی راتوں سے دیکھ رہا تھا۔ خواب اس قدر ڈراؤنا تھا کہ اس کا اثر اس کے ہوش و حواس پر کئی کئی دنوں تک مسلط رہتا تھا۔ اور آج تو اس کا پورا جسم گھاؤ ہی بنا ہوا تھا۔
اس کا ذہن ماؤف ہونے لگا۔ اسی کیفیت میں اس نے بمشکل گردن گھما کر بغل میں سو رہی اپنی بیوی اور بچے کو دیکھا۔ تاریکی میں ان کی ناک سے نکلنے والی گھرگھراہٹ کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے اٹھا اور چارپائی سے پیر نیچے لٹکا کر بیٹھ گیا۔ پیاس کی شدت کے باوجود اندھیرے میں پانی کے مٹکے تک جانے کی اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ چارپائی سے پیر لٹکائے وہ گہری سانسیں لیتا رہا۔
اس کی عمر کوئی ایک پینتیس سال تھی۔ اکہرا جسم اور درمیانہ قد ہونے کی وجہ سے ڈنڈوں کی مار اس سے اندر اندر تک حائل کر گئی تھی۔ بیوی نے ہلدی اور چونے کا مرکب پورے جسم پر مل تو دیا تھا لیکن اس نے تنبیہ بھی کی تھی، ’جب جب پروا چلے گی، انگ انگ ٹیسے گا ‘ اور اس کا انگ انگ ٹیس رہا تھا۔
دفعتاً اس کے کانوں میں ایک مترنم اور قدرے مانوس سی آواز ٹکرانے لگی۔ یہ گاؤں کی گول گنبد والی عبادت گاہ سے آنے والی آواز تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ رات ڈھل چکی ہے اور اب نور کا تڑکا پھیلنے ہی والا ہے۔ پورے دن میں کل پانچ دفعہ عبادت کے لیے اس آواز کے ذریعہ لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ بلا تفریق سب لوگ ایک ساتھ اپنے معبود کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے حواس ذرا بحال ہونے لگے۔ ایک ایک منظر یاد آنے لگا۔ نکیلے گنبد والی عبادت گاہ۔ ۔ ۔ چارپائی۔ ۔ ۔ چپل۔ ۔ ۔ ڈنڈے۔ ۔ ۔
اس کے باپ کی ایسی ہی ٹیس سے موت واقع ہوئی تھی۔ ٹولے کی سامنے والی سڑک سے بڑے گھر کی سواری نکل رہی تھی۔ شراب کے نشے میں اس کا باپ اپنے گھر کے سامنے چارپائی پر بیٹھا رہ گیا تھا۔ اس وقت تو سواری نکل گئی تھی مگر شام کو بلاوا آ گیا تھا۔ بڑے گھر کے دالان کے ستون سے باندھ کر اس پر اتنے ڈنڈے برسائے گئے تھے کہ اس کا باپ نیم مردہ ہو گیا تھا۔
کسی کم ذات کی یہ مجال کہ سامنے سے اشراف گزریں اور وہ چارپائی پر بیٹھا رہ جائے۔ یہ تو خوش آئند بات نہیں ہے۔ یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ بڑے گھر کے لوگوں کا خیال ہے کہ۔ ۔ ۔ اس طرح مذہب کا خطرے میں پڑنا لازم ہے اور جب مذہب خطرے میں پڑے گا تو معاشرتی نظام کو درہم برہم ہونے سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔ ہر کسی کے لیے حد مقرر ہے۔ ۔ ۔ آج معاشرے میں سکون اور امن و امان کا فقدان اس لیے ہے کہ طے شدہ کام طے شدہ حدوں کے اندر نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ایسی حالت میں افراتفری مچنا فطری ہے۔ مذہب کا پیمانہ ٹوٹنا لازمی ہے۔ اور جب یہ پیمانہ ٹوٹے گا تو معاشرے کا تانا بانا بکھر جائے گا۔ ۔ ۔
اس کے باپ نے مذہب کو خطرے میں ڈالا تھا۔ معاشرتی نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ مجرم تھا۔
وہ اپنے باپ کے نیم جاں جسم کو اٹھا کر گھر لے آیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو اس کا لاغر باپ بستر پر پڑا کھو۔ ۔ ۔ کھو۔ ۔ ۔ کرتا رہا پھر ایک دن اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔ اس کے سینے میں اتنی شدید چوٹ تھی کہ وہ زیادہ دنوں تک نہ جی سکا۔ لیکن مرنے سے قبل اس کے پاس ایک امانت تھی جسے اس نے اس کے حوالے کیا تھا۔ اور وہ تھی پشتینی نصیحت۔ ۔ ۔
’ ہم ناف کے نیچے والے ہیں، ناف کے اوپر والوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہی ہمارا فرض ہے۔ مجھ سے بھول ہوئی۔ تم ایسی بھول نہ کرنا۔ اپنی حد کو عبور نہ کرنا۔ ‘
اس کے باپ نے اسے نصیحت کی تھی۔ اس کے باپ کو اس کے باپ یعنی اس کے دادا نے یہ نصیحت کی تھی اور اس کے دادا کو اس کے پر دادا نے۔ اسی طرح یہ نصیحت نسل در نسل ان کے درمیان چلی آ رہی تھی۔ اب یہ نصیحت اس کے معرفت اس کے بیٹے تک پہنچے گی۔ اس کے باپ تک اس نصیحت کی خوب پاسداری ہوئی لیکن اس سے بھول ہو گئی۔ وہ بھول گیا۔ اپنے باپ کی نصیحت بھول گیا۔ پشتینی نصیحت کو بھول گیا۔
کل کی بات ہے۔ ۔ ۔
بڑے گھروں کے یہاں سے خدمت گزار کر واپس لوٹ رہا تھا کہ بارش شروع ہو گئی۔ بھیگنے سے بچنے کے لیے نکے لیے گنبد والی عبادت گاہ کے چبوترے پر چڑھ گیا۔ ناپاک کر دیا اس نے عبادت گاہ کو۔ پھر کیا تھا، اس کا بھی بلاوا آ گیا۔ اس نے بہت معافی مانگی، زمین پر ناک رگڑی۔ بیوی نے جان بخش دینے کی منّت کی۔ اسے بھی ذلیل کیا گیا کہ اپنے مرد کی خبر پا کر وہ بد حواس چپل پہنے گاؤں میں بھاگتی آ گئی تھی۔ اس کی جان تو بخش دی گئی لیکن پورا جسم ڈنڈوں سے چور کر دیا گیا۔
اسے اپنے سر میں شدید درد کا احساس ہوا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے گردن گھما کر ایک بار پھر اندھیرے میں سو رہی اپنی بیوی اور بچے کو دیکھا۔ ان کو دیکھتے ہوئے اس کے اندرون میں تلاطم سا برپا ہوا۔ ’نہیں، ہرگز نہیں۔ ۔ ۔ وہ اپنے بیٹے تک اس پشتینی نصیحت کو منتقل نہیں کرے گا۔ ‘
کچھ لمحوں تک ان کی جانب دیکھتے رہنے کے بعد وہ آہستگی کے ساتھ چارپائی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ تاریکی کے باوجود اسے اندازہ تھا کہ دروازہ کس جانب ہے۔ وہ دھیرے دھیرے دروازے کی جانب بڑھا۔ اس نے دروازہ کھولا تو ایک خوش گوار احساس سے بھر اٹھا۔ کیا ہی خوب منظر تھا۔ تاریکی رخصت ہو رہی تھی اور نسیم سحر میں لپٹی ہوئی نرم روشنی اس کا استقبال کر رہی تھی۔ اس کے انگ انگ میں پیوست درد کو سہلا رہی تھی۔ لمحہ بھر کے لیے وہ سب کچھ فراموش کر بیٹھا۔ وہ کھڑا روشنی کو پیتا رہا۔ دفعتاً اس کے اندرون میں عجیب سی ہلچل ہوئی اور بیک وقت خیال گزرا کہ اندر واپس لوٹ جائے اور بستر پر جا کر سو جائے۔ اس نے گردن گھما کر اندر دیکھا۔ اس نے دیکھا اس کے بستر پر، جہاں وہ لیٹا ہوا تھا، وہاں ایک بڑا سا اژدہا بیٹھا ہوا تھا اور جو اس کے بیٹے کو خوں بار آنکھوں سے گھورے جا رہا تھا۔ ایک بار پھر اس کے ہوش و حواس اڑ گئے۔ اس نے گھبرا کر نگاہیں ہٹا لیں۔ دروازے پر کھڑا وہ گہری گہری سانسیں لیتا رہا۔ کچھ لمحہ بعد اس نے دل کو مضبوط کیا اور لرزتے قدموں سے باہر آ گیا۔
تقریباً پچیس تیس گری پڑی، ٹوٹی بکھری جھونپڑیوں اور کچے مکانوں والا اس کا ٹولہ شمن پورہ گاؤں کے شمالی حصے میں واقع تھا۔ وہ اپنے ٹولے سے نکل کر گاؤں میں داخل ہونے والی سڑک پر آ گیا۔ وہ دورا ہے پر کھڑا ہو گیا تھا جہاں سے گاؤں کے مکانوں کی شروعات ہوتی تھی۔ سیدھی سڑک گاؤں کی گول گنبد والی عبادت گاہ کی طرف جاتی تھی اور سیدھے ہاتھ کی سڑک نوکیلے گنبد والی عبادتگاہ کی طرف۔
نوکیلے گنبد والی عبادتگاہ سے بھی آواز گونجنے لگی تھی۔ وہاں بھی عبادت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس کے جسم کا ایک ایک حصہ چیخ اٹھا اور اس کے اندرون میں ایک بار پھر تلاطم سا برپا ہو گیا۔ اس نے یاس و حسرت بھری نگاہوں سے نوکیلے گنبد والی عبادتگاہ کی طرف دیکھا اور گہری گہری سانسیں لینے لگا۔ چند ثانیہ وہ بے حس بنا کھڑا رہا پھر سیدھے رستے پر بڑھ گیا۔ وہ جوں جوں گول گنبد والی عبادتگاہ کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے قدموں میں تیزی آتی جا رہی تھی۔ اس کے دروازے کے پاس پہنچ کر وہ ایک کنارے کھڑا ہو گیا تھا۔ گاؤں کے اکا دکا لوگ صبح کی عبادت سے فارغ ہو کر واپس جا رہے تھے۔ ذرا دیر بعد ان میں سے معتبر اور نمایاں سا دکھنے والا ایک شخص باہر نکلا تو وہ قدرے لپکتے ہوئے اس کے پاس پہنچا۔
’سنیے، سنیے۔ ۔ ۔ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔ ر کیے مالک۔ ۔ ۔ ‘ وہ سرگوشی میں چلایا۔
اس شخص نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ ’کون ہو بھائی، کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘
’میں۔ ۔ ۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ۔ ۔ ۔ کہ کیا میں بھی آپ کی اس عبادتگاہ میں۔ ۔ ۔ ‘ اس نے عبادتگاہ کی طرف انگلی اٹھائی۔ ’۔ ۔ ۔ عبادت کر سکتا ہوں؟ کوئی روک ٹوک تو نہیں ہو گی نا؟‘
’یہ عبادتگاہ میری نہیں ہے بھائی۔ یہ تو اس کی ہے جو ایک ہے اور جو سب کا مالک ہے۔ اس ایک کو ماننے والا کوئی بھی اس میں عبادت کر سکتا ہے۔ ‘
’اگر میں اس کو ماننے لگوں تو کیا میں بھی اس میں عبادت کر سکتا ہوں۔ ۔ ۔ ؟‘
’ہاں۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ کر سکتے ہو۔ ۔ ۔ پر تم ہو کون؟‘
’میں۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ اسی گاؤں کے ’شمالی ٹولہ ‘پر رہتا ہوں مالک۔ ۔ ۔ ‘ اس کی آواز میں قدرے لکنت کی آمیزش تھی۔
مطلع صاف ہو چکا تھا۔
صاف روشنی میں وہ شخص اسے بغور دیکھے جا رہا تھا۔
مقام۔ گول گنبد والی عبادت گاہ کا صحن
شام کی عبادت کے بعد وہ سب وہاں یکجا ہوئے تھے۔ سب خاموش تھے اور غور و خوض میں غرق تھے۔ بظاہر تو یہ محض ایک تجویز تھی لیکن اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنا لازمی تھا۔
’مجھے لگتا ہے، ہمیں اسے اپنی جماعت میں شامل کر لینا چاہیے۔ ‘ کچھ لمحہ کے بعد ان میں سے ایک شخص نے گردن کو جنبش دیتے ہوئے کہا۔
’لیکن جناب یہ بھی تو سوچیے کہ اس کا اثر کیا ہو گا؟‘ ایک دوسرے شخص نے اندیشے کا اظہار کیا۔
پہلے والے شخص نے اپنی گردن کو پھر جنبش دی۔ ’اثر کیا ہو گا بھئی، ہم تو اس کے پاس گئے نہیں ہیں۔ اس تجویز کو لے کروہ خود آیا ہے۔ اس نے خود سے اپنا منشا ظاہر کیا ہے اور یہ تو اچھی بات ہے کہ اس طرح ہمارا حلقہ وسیع ہو گا۔ ہماری مقدس کتاب بھی تو یہی کہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تبلیغ کرو اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے میں شامل کرو۔ یہ شخص تو خود سے چل کر ہمارے پاس آیا ہے۔ اور پھر ہمارے ملک کے آئین میں بھی درج ہے کہ کوئی بھی بالغ فرد ان تمام معاملات میں اپنا فیصلہ کرنے کے لیے خود مختار ہے۔ ‘اس شخص نے اپنی بات کو واضح کرنے کی کوشش کی۔
’لیکن حضور ہمیں یہ بھی تو دیکھنا ہو گا کہ اس کا اصل منشا کیا ہے؟ کہیں اس طرح ہمیں فائدہ کے بجائے نقصان نہ پہنچ جائے؟‘ ایک دوسرے نے پہلے والے شخص سے سوال کیا۔
’ارے بھائی، ظاہر سی بات ہے وہ ہمارے یہاں کی خوبیوں اور اچھائیوں سے متاثر ہو کر ہی ہم میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ آخر ہماری مثل۔ ۔ ۔ ہماری نظیر کہیں اور ہے کیا؟‘ ایک شخص نے فخریہ لہجے میں کہا۔ ’ہمارے یہاں کی مساوات دیکھو۔ ہمارے یہاں کی اخوت دیکھو۔ ہمارے یہاں کا عدل دیکھو۔ ہمارے یہاں کی یکجہتی دیکھو۔ کیا کیا دیکھو گے۔ ہم بلا تفریق شانہ بشانہ ہو کر عبادت کرتے ہیں۔ ہمارا امام کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے مقدس صحیفے کوئی بھی پڑھ سن سکتا ہے۔ ہمارے ما بین کوئی امتیاز نہیں۔ کوئی بندش نہیں۔ ہم سب ایک رب کو ماننے والے ہیں۔ ‘ ایک سانس میں بولنے کے بعد اس شخص نے ذرا تحمل سے کام لیا اور پھر آگے کی بات پوری کی۔ ’کیا یہ سب کہیں اور ملے گا؟‘
وہاں خاموشی مسلط ہو گئی تھی۔ وہ شخص اپنی تقریر کا اثر جاننے کے لیے وہاں موجود ایک ایک فرد کا چہرہ بغور دیکھ رہا تھا۔
’آپ کی بات سو فیصد درست ہے۔ یقیناً وہ ہماری ان منفرد اور اعلیٰ خصوصیات کی بنا پر ہی ہماری جانب راغب ہوا ہے۔ ‘ ایک شخص نے پہلے والے شخص کی حمایت میں دھیرے سے کہا۔
’چلیے مان لیتے ہیں کہ وہ ہماری اعلیٰ خصوصیات کی بنا پر ہم میں شامل ہونا چاہتا ہے لیکن اس کی طرز زندگی تو الگ رہی ہے؟ کیسے ممکن ہے کہ وہ ہمارا طریقۂ کار اپنا سکے گا؟‘ بولنے والے نے اپنی دانست میں دور کی کوڑی پیش کی۔
’دیکھئے حضرات، ایک محاورہ ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے۔ ۔ ۔ صحبت میں رہے گا تو کیا کچھ نہیں سیکھ جائے گا۔ ہم لوگ یہ نہ بھولیں کہ ہم کوئی براہ راست کھجوروں کے دیس سے نہیں آئے ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد یہیں کے تھے اور دوسرے حلقے سے ہی اس میں منتقل ہوئے ہیں لیکن کیا کوئی ہمیں دیکھ کر آج یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم پہلے کچھ اور تھے؟‘
شاید بولنے والے نے کچھ تلخ مثال پیش کر دی تھی۔ کئی لوگوں نے اسے اضطراب میں دیکھنا شروع کر دیا تھا۔
اس شخص کے بولنے کے بعد کافی دیر تک سکوت کا عالم طاری رہا۔
رات کی عبادت کا وقت ہو چلا تھا۔
’حاضرین، ایک شخص جو خود چل کر ہمارے پاس آیا ہے، اگر ہم اس کا خیر مقدم نہیں کریں گے تو ہم گنہگار ہوں گے۔ کل وہ ہمارا دامنگیر ہو گا۔ وہ ہم سے سوال کرے گا اور ہم اپنے معبود کے سامنے مجرم ٹھہرائے جائیں گے۔ کیا اس عدالت میں اس کے سوالوں کا کوئی جواب ہو گا ہمارے پاس؟‘ اس عمر دراز شخص نے بولتے ہوئے اپنے بدن میں لرزش سی محسوس کی۔
لوگ خاموش تھے اور غور و فکر میں مبتلا تھے۔
’ویسے بھی اس گاؤں میں ہم لوگ تعداد کے اعتبار سے کافی کم ہیں۔ ہماری تعداد کچھ تو بڑھے گی۔ ہم کچھ تو مستحکم ہوں گے؟‘ ایک نئی عمر کے شخص نے ذرا طیش میں آ کر کہا تو یک لخت موجود سبھی کی عقل و فہم کے دروازے گویا واہو گئے۔ نہ جانے کیوں اس کی دلیل سب کو پسند آئی۔ لیکن کچھ لوگوں نے اسے نا پسندیدگی سے بھی دیکھا۔ انہیں اس کی بات گراں گزری تھی۔ نئی عمر کا شخص سٹپٹا گیا۔ اس کو گھور کر دیکھنے والوں میں سے ایک نے، جس کو ان سبھی میں شاید معتبر مقام حاصل تھا، حتمی طور پر بولا۔ ’ہمیں بہر حال یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ہماری نمایاں اور اعلیٰ خصوصیات کی بنا پر ہم میں داخل ہو رہا ہے۔ ‘
اس فیصلے پر سبھی کا اجماع ہوا اور سب نے ایک آواز میں کہا۔ ’خوش آمدید۔ ۔ ۔ خوش آمدید۔ ۔ ۔ مبارک۔ ۔ ۔ مبارک۔ ۔ ۔ ‘
مقام۔ نوکیلے گنبد والی عبادت گاہ کا چبوترہ
ماحول میں اگر بتی، چندن اور ناریل کے جلنے کی بھینی بھینی خوشبو بکھری ہوئی تھی۔ وہاں موجود سبھی لوگ یوں تو چپ تھے لیکن ان کے چہرے کی طنابیں کسی ہوئی تھیں۔ بتانے والے نے جو بتایا تھا اس پر یقین کرنا ویسے تو مشکل تھا لیکن یقین نہیں کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں سمجھ میں آ رہی تھی۔ یقینی اور بے یقینی کے بھنور میں غوطے لگاتے جاننے والے نے پھر تسلی کرنی چاہی۔
’کیا تمہیں پکا یقین ہے کہ وہی تھا؟‘
’ہاں میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہی تھا۔ ‘
’آخر وہ ان کے پاس کیوں گیا ہو گا؟‘
’ہو سکتا ہے اس دن جو کچھ اس کے ساتھ ہوا اس کی وجہ سے۔ ‘
’ارے نہیں، یہ وجہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے تو وہ عادی ہو چکے ہیں۔ اس کو اس کی بھول کی جو سزا ملی وہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں؟ وہ بھول کرتے آ رہے ہیں اور انھیں سزا ملتی رہی ہے۔ یہ تو زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا ہے۔ ‘ بولنے والے شخص کی آواز کے پیمانے سے اعتماد چھلک چھلک کر باہر آ رہا تھا۔
’میرے خیال سے وہ ان کے پاس کام مانگنے کی غرض سے گیا ہو گا؟ آخر ایسے لوگوں کو معاش کا مسئلہ بھی تو درپیش ہوتا ہے؟ یا پھر علاج کرانے کے لیے قرض ورض لینے گیا ہو گا؟ ان لوگوں سے انھیں بنا بیاج کا قرض بھی تو مہیا ہوتا ہے۔ ‘ ایک شخص نے اپنا جواز پیش کیا۔
’میں سمجھتا ہوں۔ ۔ ۔ ‘ ایک شخص ذرا سا رکا پھر بولا۔ ’وہ ان سے اپنا دکھڑا سنانے گیا ہو گا، مدد مانگنے گیا ہو گا؟‘
’ارے نہیں۔ ان سے بھلا اسے کیا مدد ملے گی۔ ؟اسے دکھڑا سنانا ہوتا اور مدد لینی ہوتی تو’ لال جھنڈین ‘کے پاس جاتا۔ جا کر ان میں شامل ہو جاتا۔ ‘ پہلے والے شخص نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔
’ان کے پاس وہ کیا جائے اور کیوں جائے؟‘ ایک شخص مضحکہ خیز انداز میں بولا۔ ’اب ان سے ان کے توقعات وابستہ ہی کہاں رہ گئی ہیں۔ ؟ ان کے خواب خواب ہی رہ گئے۔ اب تو ان خوابوں پر گرد و غبار جم چکا ہے۔ جو اندھیرے میں اپنا وجود تلاش کر رہا ہو، اپنے ہونے کا جواز ڈھونڈ رہا ہو، جو خود راستے سے بھٹک گیا ہو وہ دوسرے کو کیا راستہ دکھائے گا؟ اچھا ہی ہے، ایک دم جینا محال ہو گیا تھا۔ ‘
’لیکن یہ سوال تو اپنی جگہ ہنوز استادہ ہے کہ وہ گول گنبد والوں کے پاس کیوں کر گیا تھا؟‘ وہاں بیٹھے سب سے بزرگ شخص نے اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرا۔
’وہ ان میں شامل ہونے کے لیے گیا تھا۔ اتنا ہی نہیں اطلاع کے مطابق پورا کا پورا شمالی ٹولہ ان میں شامل ہونے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ ‘ نووارد شخص کے اس انکشاف سے وہاں کھلبلی مچ گئی۔ کچھ لوگ مشتعل ہو اٹھے اور طیش میں کھڑے ہو گئے، کچھ زور زور سے بولنے لگے۔ کچھ وقفہ تک وہاں کا ماحول افرا تفری کا شکار رہا پھر معتبر دکھنے والے شخص نے کسی طور سب کو شانت کرایا۔
سکوت ایسا کہ سوئی بھی گرے تو کان کے پردے پھٹ جائیں۔ سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے؟ سبھی کے چہرے پر ایک ہی سوال پتا ہوا تھا۔
’سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر اس نے ان میں ایسی کیا خاص بات دیکھی جو ان میں شامل ہونے چلا گیا؟ کیا اسے علم نہیں کہ ہم سے بہتر کوئی نہیں۔ ہم سب سے پرانے ہیں۔ ہمارے ریتی رواج دنیا کے سب سے پرانی ریتی رواج ہیں۔ ہمارے یہاں ہر کسی کے لیے اور ہر کام کا ایک منظم طریقہ ہے۔ ہمارے بزرگوں نے زندگی گزارنے اور اپنی دوسری دنیا کو سنوارنے کے لیے جو آئین بنایا ہے اس کے مطابق ہر کسی کی حیثیت، اس کا مقام اور اس کے کام مقرر کر دیے گئے ہیں۔ کسی کے معاملے میں کسی کا کوئی دخل نہیں۔ یہ دنیا کی سب سے قدیم تہذیب اور سب سے بہتر نظام زندگی ہے۔ اتنے بہتر نظام کو چھوڑ کر وہ کس گڈھے میں گرنے جا رہا ہے۔ کیا اس کی عقل و دانش پر پردہ پڑ گیا ہے؟ ہمارا متبادل کوئی ہے کیا؟‘ ایک بزرگ شخص نے درمیان میں گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے اپنی بات پوری کی۔
’میں تو کہتا ہوں، اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ وہ ہم لوگوں کو صرف نیچا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے کسی قدر یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ ہم سے بہتر بھی کوئی ہے اور اس کی جب کبھی بھی خواہش ہو گی وہ ہمیں ٹھینگا دکھا سکتا ہے۔ ‘ ایک شخص نے اپنی کھیج نکالی۔
’آپ لوگ خواہ مخواہ اس پر اپنی ناراضگی ظاہر کر رہے ہیں۔ مسئلے کی اصل جڑ تو کہیں اور ہے۔ ہمارے لوگ تو بڑے معصوم ہوتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں اسے ضرور گمراہ کیا گیا ہے۔ اسے ہمارے خلاف بد ظن کیا گیا ہے۔ ‘ ایک نئی عمر کے شخص نے اپنی بات رکھی۔ ایک دوسرے شخص نے اس کی تائید کی۔
’بلکہ میری سمجھ میں تو یہ آ رہا ہے کہ اسے ضرور کسی نہ کسی طرح کا لالچ دیا گیا ہو گا۔ یہ بڑے عیار قسم کے لوگ ہیں۔ ان کی ہر کوشش میں یہی مقصد پنہاں ہوتا ہے کہ۔ ۔ ۔ ایک دن پوری سرزمین پر ان کا ہی پرچم لہرائے، پوری دنیا پر ان کی ہی حکومت ہو۔ ‘
’ہاں، ہاں۔ ایسا ہی ہے۔ ۔ ۔ ایسا ہی ہے۔ ‘ تقریباً سبھی نے بولنے والے سے اتفاق کیا اور اپنے ہاتھوں کو ہوا میں لہرانے لگے۔
مقام۔ گاؤں کا فٹ بال میدان
بچے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ میدان کے کنارے قطاروں میں گل موہر کے پیڑ لگے ہوئے تھے۔ ایک گل موہر کے نیچے دری بچھی ہوئی تھی اور فریقین آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ کشیدگی دونوں اطراف حائل تھی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ایک جانب سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔
’ ہم لوگ اتنے دنوں سے ساتھ رہتے آ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ‘
’ ہمیں بھی اس کا پاس ہے۔ ۔ ۔ ‘
’ آپ لوگوں نے ایسا کیوں کیا۔ ۔ ۔ ؟‘
’ ہم لوگوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ ۔ ۔ ‘
’ کیا آپ لوگوں نے اسے گمراہ نہیں کیا۔ ۔ ۔ کیا آپ لوگوں نے اسے ہمارے خلاف نہیں بھڑکایا۔ ۔ ۔ کیا آپ لوگوں نے اسے لالچ نہیں دیا۔ ۔ ۔ ؟‘
’ ہم لوگوں نے اسے قطعی گمراہ نہیں کیا۔ ۔ ۔ ہم نے اسے قطعی نہیں بھڑکایا۔ ۔ ۔ اور ہم نے اسے کوئی لالچ بھی نہیں دیا۔ ۔ ۔ ‘
’ کیا یہ بھی غلط ہے کہ آپ لوگ اس کے پاس گئے تھے۔ ۔ ۔ ؟‘
’ بالکل غلط ہے۔ ۔ ۔ وہ خود چل کر ہمارے پاس آیا تھا۔ ۔ ۔ ‘
’ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ۔ ۔ ‘
’ ایسا ہی ہوا ہے۔ ۔ ۔ ‘
’ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ ؟‘
’ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ ۔ ۔ ؟‘
’ اس کی تصدیق کون کرے گا۔ ۔ ۔ ؟‘
’ اس کی تصدیق وہی کرے گا۔ ۔ ۔ ‘
’ اگر وہ منع کر دے تو۔ ۔ ۔ ؟‘
’ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ۔ ۔ ‘
’ اگر وہ منع نہیں کرے تو۔ ۔ ۔ ؟‘
’ تو ہمارا دروازہ کھلا ہے۔ ۔ ۔ ‘
’ اس کا فیصلہ آپ کو منظور ہو گا۔ ۔ ۔ ؟‘
’ کیا آپ کو منظور ہو گا۔ ۔ ۔ ؟‘
’ ہاں ہمیں منظور ہو گا۔ ۔ ۔ ‘
’ ہمیں بھی منظور ہو گا۔ ۔ ۔ ‘
طے پایا کہ اگلی نشست میں اسے بلا کر اس کا حل نکالا جائے۔ فٹ بال کا کھیل بھی ختم ہو گیا تھا۔ نہ کوئی جیتا نہ کوئی ہارا۔ بچے تالیاں بجا رہے تھے۔
مقام۔ سیاسی پارٹی کا دفتر
رہنما کے تشریف رکھتے ہی کارکن بھی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے اور میٹنگ کی کار روائی شروع ہو گئی۔
’جیسا کہ آپ سبھی کو علم ہے کہ انتخاب سر پر آن پہنچا ہے۔ ‘ رہنما نے بات شروع کی۔ ’اور جب سے آپ سب نے مجھے اپنا رہنما منتخب کیا ہے تب سے مخالف پارٹیوں کے درمیان کھلبلی مچی ہوئی ہے اور ان لوگوں نے اپنی تیاریاں زور و شور سے شروع کر دی ہیں۔ ہمیں بھی کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا ہے اور ہر طرح سے اپنی تیاری مکمل کرنی ہے۔ اگر ہمیں حکومت حاصل کرنی ہے تو اس انتخاب میں ہمیں اپنا دھیان ان علاقوں پر مرکوز کرنا ہو گا جہاں سے ہمیں گزشتہ انتخابات میں یا تو کم ووٹ ملے ہیں یا پھر بالکل صفر ملے ہیں۔ ایسے علاقوں کے لیے ہمیں کچھ خاص منصوبے تیار کرنے ہوں گے۔ ‘
’ایسے علاقوں میں ہم جلسے جلوس زیادہ منعقد کریں گے اور اشتہار پر زیادہ زور دیں گے۔ ۔ ۔ ‘ ایک کارکن نے جوش و ولولوں سے لبریز ہو کر کہا۔
’ان علاقوں میں ہم موجودہ حکومت کی ناکامیوں کو بھی مشتہر کریں گے تاکہ لوگوں کو ہم میں امید کی نئی کرن نظر آئے۔ ۔ ۔ ‘ ایک دوسرے کارکن نے بھی اسی لہجے میں کہا۔
’ان علاقوں میں ہم اپنے ترقیاتی منصوبوں کو بیان کریں گے اور ترقی کی نہر بہا دینے کا وعدہ کریں گے تاکہ برسوں سے زبوں حالی کے شکار وہ لوگ دوسرے کو اپنا مسیحا بنانے کے اپنے سابقہ فیصلے کو مسترد کر دیں۔ ۔ ۔ ‘ ایک کی، دوسرے کی پھر تیسرے کارکن کی بات بھی رہنما نے بغور سنی، ذرا تو قف کیا پھر بولنا شروع کیا۔
’دوستو۔ ۔ ۔ آپ لوگ جن حربوں کی بات کر رہے ہیں، اب ان کا زمانہ نہیں رہا۔ جنتا بخوبی سمجھ چکی ہے کہ یہ سب محض سیاسی نعروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ ان کی ترقی، ان کے مسئلوں سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ جو بھی آتا ہے وہ صرف انہیں چھلنے کے لیے آتا ہے۔ ۔ ۔ ایسی حالت میں، جب ترکش کے سارے تیر ناکام ہو جائیں، کیا بچتا ہے؟‘ رہنما نے گہری نظر کارکنوں پر ڈالی۔ ’ تب بچتا ہے اموشن۔ ۔ ۔ جذبات۔ ۔ ۔ عقائد۔ ۔ ۔ یہ ایک ایسا آزمودہ ہتھیار ہے جو کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ نشانے پر لگتا ہی لگتا ہے۔ اور اپنے ملک میں تو لوگ اموشن کے اس قدر غلام ہیں کہ صبح کی اپنی ٹٹی سے بھی ان کا اموشن جڑا ہوتا ہے۔ یہی کمزور رگ ہے یہاں کے عوام الناس کی۔ اسے پکڑنے کی کوشش کیجئے۔ ۔ ۔ ‘ رہنما اپنی بات آگے جاری رکھتا کہ ایک شخص نے آ کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔ رہنما کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک ابھر آئی، اس نے آگے کہا۔
’جیسا کہ میں کہہ رہا تھا کہ ہمیں ان علاقوں پر اپنا دھیان مرکوز کرنا ہو گا جہاں کے ووٹر مخالف کے زیر اثر ہیں اور انہیں اپنا ووٹ دیتے رہے ہیں۔ جیسے کہ شمن پورہ۔ تاریخ گواہ ہے، آزادی کے بعد سے اب تک ہماری لاکھ کوششوں کے باوجود وہاں سے ہمیں ایک بھی ووٹ نہیں ملا ہے جبکہ وہاں اکثریت ہمارے لوگوں کی ہی ہے۔ ‘ کچھ لمحہ رک کر سانس لینے کے بعد اس نے کہا۔ ’۔ ۔ ۔ آپ لوگ اپنے پورے جسم کو کان بنا کر میری بات سن لیں، اگر اس بار بھی وہاں کے لوگ آپ کی طرف نہیں جھکے اور آپ کو اپنا ووٹ نہیں دیا تو سمجھ لیجئے حکومت کرنے کا ہمارا خواب، خواب ہی رہ جائے گا۔ ۔ ۔ ‘ کہہ چکنے کے بعد رہنما اپنے کارکنوں کے چہرے کے تاثرات پڑھنے لگا۔
’وہاں تو کامیابی ملنا مشکوک ہے۔ بالکل مشکوک ہے۔ ۔ ۔ ‘ کارکنوں کے درمیان سرگوشی جاری ہو گئی تھی۔
’کچھ بھی مشکوک نہیں۔ ۔ ۔ کچھ بھی نا ممکن نہیں۔ آپ سب میری بات سنیں۔ ۔ ۔ ‘ رہنما نے انہیں شانت کرایا، ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور پھر سرگوشیوں میں انہیں کچھ سمجھانے لگا۔ اس کی بات جوں جوں پوری ہو رہی تھی، کارکنوں کے چہرے کھلتے جا رہے تھے۔
’اس سے قبل کے وہاں کا معاملہ رفع دفع ہو جائے آپ۔ ۔ ۔ ‘ آخری بات ادھوری بول کر رہنما چپ ہو گیا تھا۔
’آپ اطمینان رکھیں۔ ۔ ۔ آپ اطمینان رکھیں۔ ۔ ۔ ‘ کارکنوں کا جوش ٹھاٹھیں مارنے لگا تھا۔ رہنما کچھ لمحوں تک ان کے جوش اور ولولوں کو محسوس کرتا رہا پھر اپنے دو مخصوص کارکنوں کی جانب مخاطب ہو کر بولا۔
’وہاں کے لیے پارٹی نے جو لائحۂ عمل تیار کیا ہے اس کے متعلق آپ لوگوں کو کچھ کہنا تو نہیں ہے؟‘
’نہیں، بالکل نہیں۔ آپ بجا فرماتے ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم آپ کے وفادار ہیں، ہم آپ کے وفادار ہیں۔ ‘ بولتے ہوئے دونوں مخصوص کارکنوں کو محسوس ہوا گویا ان کے جسم کے عقبی حصے میں کوئی زائد عضو نمودار ہو آیا ہے اور تیزی سے ہلنے لگا ہے۔
رہنما کے ہونٹ مسکراہٹ میں پھیل گئے تھے۔
مقام۔ شمن پورہ گاؤں
وہ غائب ہو گیا تھا۔ اس کی تلاش شدت کے ساتھ کی جا رہی تھی لیکن وہ اپنی بیوی بچے کے ساتھ غائب ہو چکا تھا۔ اس کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور گھر کے اندر اس کے اثاثے جوں کے توں پڑے ہوئے تھے لیکن وہاں اس کی یا اس کی بیوی اور بچے کی موجودگی کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔
گاؤں کی فضا مکدر ہو گئی تھی۔ ماحول میں افواہ، شک و شبہات، غصہ، نفرت کسی وبائی مرض کی طرح پھیلنے لگی تھی۔
’بھاگ گیا سا۔ ۔ ۔ لا۔ ۔ ۔ ‘ ایک جماعت کا خیال تھا۔
’ڈر کی وجہ سے بھاگ گیا۔ ‘
دوسری جماعت کا خیال تھا۔
’بھاگ گیا یا بھگا دیا گیا؟‘ دونوں جماعتیں سوچ رہی تھیں۔
’ضرور ان لوگوں نے اسے بھگا دیا ہے؟‘ ایک جماعت نے نتیجہ اخذ کیا۔
’ضرور انہوں نے ہی اسے خوف زدہ کر کے بھگایا ہے۔ ۔ ۔ ‘ دوسری جماعت نے بھی فیصلہ کن طریقے سے سوچا۔
دونوں جماعتوں میں غلط فہمی بھی خوش فہمی بھی۔ دونوں جماعتیں اسے اپنی اپنی میراث سمجھ رہی تھیں اور اس کو لے کر دونوں جماعتوں کے مابین صف آرائیاں شروع ہو گئی تھیں۔
’آپ لوگوں کو اس کی قیمت چکانی ہو گی۔ ۔ ۔ ‘
’آپ لوگوں کو بھی اس کی قیمت چکانی ہو گی۔ ۔ ۔ ‘
’ہم دکھا دیں گے۔ ۔ ۔ ‘
’ہم بھی دکھا دیں گے۔ ۔ ۔ ‘
وہ رات دونوں جماعتوں نے رتجگا کر کے گزاری۔
صبح صبح سب کی ناک تیز خوشبو سے پھڑکنے لگی۔ گاؤں کی گلی گلی خوشبو سے معطر ہو اٹھی۔ اس نے عطر کی پوری شیشی شاید بدن پر انڈیل رکھی تھی۔ چار خانے کی لنگی، سفید کرتا اور کندھے پر چار خانے کا ہی ہرے رنگ کا صافہ۔ آنکھوں میں گہرا سر مہ لگائے وہ جدھر سے گزر رہا تھا سب کی آنکھیں برساتی ندی کی طرح چوڑی ہوئی جا رہی تھیں۔
وہ لوٹ آیا تھا۔
پورا دن گرم اور اجنبی ہوائیں گاؤں کا محاصرہ کرتی رہیں۔ رات ہوئی تو شعلہ بار ہو اٹھیں۔ مکانات دھو دھو کر جلنے لگے۔ چیخ و پکار، کہرام۔ ۔ ۔ نوحہ۔ ۔ ۔ بین۔ ۔ ۔
نقصان دونوں طرف ہوا۔ لوگ دونوں طرف کے مارے گئے۔ وہ اور اس کی بیوی بچہ بھی مارے گئے۔ لیکن ان کا مارا جانا کس کا نقصان تھا، نقصان تھا بھی یا نہیں، اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہ تھا۔
مقام۔ گاؤں کا قبرستان
جو زندہ بچ گئے تھے وہ مرنے والوں کو دفنا رہے تھے۔ بچوں کے۔ ۔ ۔ بوڑھوں کے۔ ۔ ۔ عورت اور مردوں کے۔ ۔ ۔ ایک ایک کر سارے جنازے دفنائے جاتے رہے۔ اس کا اور اس کی بیوی بچے کا جنازہ بھی اپنے دفنائے جانے کا منتظر رہا۔ وقت گزرتا رہا، گزرتا رہا، کافی گزر گیا۔ ان کے جنازے پڑے رہے۔
مسئلہ درپیش تھا۔ ۔ ۔
’ان کے جنازے ہمارے قبرستان میں کیسے دفنائے جا سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ؟‘
’کیوں، اب تو وہ ہماری جماعت کا حصہ تھے۔ ۔ ۔ ‘
’ہاں۔ ۔ ۔ لیکن انہوں نے تبدل اختیار کیا تھا۔ ۔ ۔ ‘
’ہم لوگوں نے بھی تو تبدل ہی اختیار کیا ہے۔ ۔ ۔ ‘
’ہماری بات کچھ اور ہے۔ ۔ ۔ ہم لوگ وہاں ناف سے اوپر والے تھے اور یہ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے۔ ۔ ۔ ۔ ‘
جنازوں کے اپنے دفنائے جانے کا انتظار طویل سے طویل ہوتا گیا یہاں تک کہ ان میں تعفن پیدا ہونے لگا۔
مقام۔ عالم ارواح
وہ، اس کی بیوی اور اس کا بیٹا ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے ہیں۔
وہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر مسکرایا۔ بیٹا سمجھ نہ سکا، ماجرا کیا ہے۔ اس کا باپ کیوں مسکرا رہا ہے۔ وہ اس کے مسکرانے کا سبب جاننا چاہتا تھا۔
وہ بھی سمجھ رہا تھا کہ اس کا بیٹا اس کی مسکراہٹ کی وجہ سے تذبذب میں مبتلا ہے۔
عفونت سے اس کی ناک بجبجا اٹھی۔
’میرے پاس تمہارے لئے ایک امانت ہے۔ ۔ ۔ ‘
اس نے پشتینی امانت اپنے بیٹے کو سونپ دی۔
٭٭٭
داڑھی
ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے ہی اس نے اپنا پرس کھولا۔ سو سو کے دو پتے ٹیکسی ڈرائیور کی جانب بڑھاتے ہوئے بڑبڑائی۔ ’ روہنی سے یہاں تک کے دو سو روپے۔ ۔ ۔ ؟ سچ ایک دم گلا کاٹنے لگے ہو تم لوگ۔ ‘
ٹیکسی ڈرائیور بھی کچھ کم ٹھس نہیں تھا، چھوٹتے ہی بولا۔ ’ وقت بھی تو کافی لگتا ہے میڈم اور پھر پیٹرول بھی تو۔ ۔ ۔ ‘
’ارے مجھے معلوم ہے، پیٹرول سے ہی چلتی ہے، پانی سے نہیں۔ ۔ ۔ ‘ اس کی آواز میں قدرے جھلاہٹ تھی۔ کھسک کراس نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا۔ ’ چلو بیٹے، باہر نکلو۔ ‘ اسٹینڈرڈ تھری میں پڑھ رہی اپنی بیٹی کو اس نے باہر کیا پھر خود بھی باہر آ گئی۔ کچھ نیچے تک سرک آئے نظر کے چشمے کو اس نے انگلی سے اوپر کیا پھر موبائل میں وقت دیکھنے لگی۔ ابھی سوا دس بجا تھا۔ اس کے چہرے پر اطمینان کا تاثر پیدا ہوا۔ شکر ہے، وقت سے اسٹیشن پہنچ گئی۔ اس کی ٹرین گیارہ پینتالیس میں تھی۔
جب کہیں جانا ہوتا ہے، ایک عجیب طرح کے، نامعلوم اندیشہ سے بھر جاتی ہے وہ۔ کئی روز پہلے سے ہی سفر کا ایک ایک سامان بیگ میں رکھتی جاتی ہے۔ یہ نہ چھوٹ جائے وہ نہ چھوٹ جائے۔ کہیں ٹریفک کے جام میں نہ پھنس جائیں، کہیں ٹرین نہ مس ہو جائے، اتنے بجے گاڑی ہے، اتنے بجے نکلنا ہو گا۔ عجیب طرح کی گھبراہٹ، اضطراب اور خدشات سے گھری رہتی اور سامان اکٹھا کرتی رہتی۔ ساتھ ہی سارا جوڑ گھٹاؤ اس کے اندر چلتا رہتا۔
لیکن وہ تو وقت سے کافی پہلے اسٹیشن پہنچ گئی تھی۔ تین روز قبل سے جو ایک بے چینی غالب تھی اس پر، اچانک وہ راحت میں تبدیل ہو گئی تھی۔ گہری سانس خارج کرتے ہوئے پر سکون نظروں سے اس نے چاروں جانب دیکھا۔ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کا نظارہ ہی بدلا ہوا تھا۔ چپے چپے پر پولیس لگی ہوئی تھی۔
’ارے یہ کیا بھیا، اتنی فورس کیوں ہے۔ ۔ ۔ ؟‘ اس کے منہ سے یکلخت نکلا۔
’ کچھ ہوا ہو گا میڈم۔ ۔ ۔ ‘ ڈرائیور نے لاپرواہی سے کہا اور اتنی ہی لاپرواہی سے ڈگی سے اس کا سامان نکال کر اس کے پیروں کے پاس پٹک دیا۔
’ارے سنبھال کے بھیا۔ پاپا کے آچار کی شیشی ہے اس میں۔ نہ جانے ٹوٹی یا بچی۔ ۔ ۔ ؟‘ اس نے تھیلا اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا۔ ’پر یہاں ہوا کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ اتنی پولیس۔ ۔ ۔ ؟ ریل منتری تشریف لا رہے ہیں کیا۔ ۔ ۔ ؟‘
’ارے ہٹا لے وہاں سے۔ ۔ ۔ جلدی کر۔ ‘ ذرا دور کھڑے پولیس کے جوان نے ٹیکسی ڈرائیور کو آواز لگائی تھی۔
ٹیکسی آگے بڑھ گئی تو وہ قلیوں کی طرف دیکھنے لگی۔ دو دو قلی اس کے پاس آ کھڑے ہوئے تھے۔
’ارے بھئی دو نہیں، ایک چاہیے۔ سامان ہی کتنا ہے۔ ۔ ۔ ؟‘
’ہاں میڈم چلیے۔ ۔ ۔ ‘ ایک آگے بڑھ کر بولا تو دوسرا واپس مڑ گیا۔
’ریوا ایکسپریس۔ ۔ ۔ ‘
’چار نمرّ میڈم۔ ۔ ۔ ‘
’ چلو۔ ۔ ۔ ‘
’پچاس روپیا میڈم۔ ۔ ۔ ‘
’کیا۔ ۔ ۔ ؟ ‘ حیرت و استعجاب سے اس کا منہ کھل گیا۔
’ایہے ریٹ ہے میڈم۔ ۔ ۔ ‘
’کیا مجھے نہیں معلوم؟پہلی بار جا رہی ہوں؟ہر دو ماہ پر کانپور جاتی ہوں۔ بیٹے، جاتے ہیں نا ہم؟مجھے الّو بنا رہے ہو؟ایکدم سے لوٹ مچی ہے۔ ۔ ۔ ؟‘
’ایہے ریٹوے ہے میڈم۔ چلنا ہو تو۔ ۔ ۔ ‘ وہ اس کا بیگ اٹھاتے اٹھاتے رک گیا تھا۔
’ اوہ مما، چلئے نا۔ ۔ ۔ ‘ اس کی بیٹی زچ ہو رہی تھی۔
’یہاں رکیے نہیں، رکیے نہیں۔ چلتے رہیے۔ ۔ ۔ ‘ وہی پولیس والا پاس آ کھڑا ہوا تھا۔
عجیب بے بسی تھی۔ شش و پنچ میں پڑی بیٹی کا ہاتھ تھامے کھڑی رہی کچھ دیر، پھر قلی سے مخاطب ہوئی۔
’ چلو لیکن ٹرین میں برتھ تک چھوڑنا ہو گا۔ ۔ ۔ ؟‘
قلی مسکراتا ہوا تیار ہو گیا۔ عام طور پر قلی برتھ تک ہی سامان پہنچاتے ہیں، پر اسے لگا، اس کی بات رہ گئی، اب پچاس وصول ہو جائیں گے۔
’بھیا، آج اتنی پولس کیوں ہے یہاں؟ آپ کے لالو جی آرے ہیں کیا۔ ۔ ۔ ؟ ارے بیٹا ٹھیک سے۔ ۔ ۔ نیچے دیکھ کر چلو نا۔ ۔ ۔ ‘ وہ بیٹی کا ہاتھ تھامے قلی کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔
’میڈم، آپ کو کچھوؤ معلوم نہیں ہے کا۔ ۔ ۔ ؟ بمبے ٹیشن پر اتنک وادیوں نے بم بسپھوٹ کیا ہے نا۔ ابھی ایک دو گھنٹا پہلے ہی کی تو بات ہے۔ بہتے لوگ مارے گئے ہیں۔ ٹرینوں کو اڑا دیا ہے۔ اسی لیے اینہا بھی سکورٹی لگی ہے۔ اندر تو بڑی چیکنگ ویکنگ چل رہی ہے۔ ای موہمڈنون چین سے جینے نہیں دے گا سب۔ ۔ ۔ ‘ آخری جملہ اس نے ہونٹ دبا کر دھیرے سے ادا کیا تھا۔
چلتے چلتے اس کے قدم لڑکھڑا گئے تھے۔ کپڑوں کے نیچے، جسم کے سارے رواں یکلخت کھڑے ہو گئے تھے۔ قلی اپنی رفتار میں آگے بڑھا جا رہا تھا۔ وہ ٹھٹھکی کھڑی رہی۔ سوچا، قلی کو روکے، نہیں روک سکی۔ اس نے بیٹی کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کی گرفت سخت کی، خود کو متوازن کرنے کی کوشش کرتی دھیرے دھیرے بڑھنے لگی۔ بڑی سخت سکیورٹی تھی۔ پولیس کے جوان ہتھیار سنبھالے بالکل مستعد کھڑے تھے۔ پولیس کے کتے ایک ایک شئے سونگھتے پھر رہے تھے۔ جگہ جگہ بالو بھری بوریاں رکھی ہوئی تھیں، ان کے پیچھے بندوق سنبھالے کمانڈو الرٹ کھڑے تھے۔ میں گیٹ پر اتنی سخت چوکسی کہ ایک ایک آدمی مٹل ڈٹکٹر سے ہو کر گزر رہا تھا۔ پولیس والے مسافروں کے بیگ، سوٹ کیس کھلوا کھلوا کر دیکھ رہے تھے۔ ایک ایک چیز کی باریکی سے جانچ پڑتال کی جا رہی تھی۔
مٹل ڈٹکٹر سے ہو کر وہ اندر پہنچی تو ایک سہرن پیدا کر دینے والے سنّاٹے نے اس کا استقبال کیا۔ لگ ہی نہیں رہا تھا، اسٹیشن ہے۔ نہ شور شرابہ۔ ۔ ۔ نہ بھاگا بھاگی۔ ۔ ۔ ایکدم خاموشی اور خاموشی میں لپٹے رینگتے ہوئے لوگ۔ گاڑیوں کی آمدو رفت کا اعلان اور چیتاؤنی۔ ۔ ۔ ۔
’۔ ۔ ۔ یاتریوں سے انرودھ ہے کہ کسی بھی سندگدھ ویکتی سے ساؤدھان رہیں۔ ۔ ۔ اس کی سوچنا ترنت پولیس یا ریلوے کرمچاری کو دیں۔ ۔ ۔ یاتریوں سے نویدن ہے کہ کسی بھی لا وارث وستو کو ہاتھ نہ لگائیں۔ ۔ ۔ کرپیا دھیان دیں، کسی بھی آپات استھتی میں خود کو فوراً سرکچھت استھان پر لے جائیں۔ ۔ ۔ ‘
اس نے محسوس کیا، اس کے سینے کی دھڑکن تیز تیز چلنے لگی ہے۔ اس نے اپنا چشمہ ٹھیک کیا اور خود کو پرسکون کرنے کی سعی کرنے لگی۔ دھیان بٹانے کی غرض سے اس نے بیٹی سے پوچھا۔
’بیٹے ‘ نانا کا سویٹر کس والے بیگ میں رکھا ہے۔ ۔ ۔ ؟‘
’بلیک والے میں۔ ۔ ۔ ‘ بیٹی نے مختصر سا جواب دے کر بات ہی ختم کر دی لیکن اسے تو کچھ بولتے رہنا تھا۔ یہ سکوت اس کے ذہن و دل پر بڑا اثر انداز ہو رہا تھا۔
’لیکن بیٹے۔ ۔ ۔ ، نانا کو زیادہ تنگ نہ کرنا۔ ۔ ۔ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ۔ ۔ ہم لوگ ان سے مل کر دو ایک دنوں میں واپس آ جائیں گے۔ ۔ ۔ ‘
اس کی بیٹی چپ رہی، چلتی رہی۔
’یہ بول کیوں نہیں رہی۔ ۔ ۔ ؟ ڈری ہوئی تو نہیں ہے۔ ۔ ۔ ؟‘
’بیٹے، آپ نے مما کی بات کا جواب نہیں دیا۔ ۔ ۔ ؟‘
’مما، نانا کو دلی کیوں نہیں لاتے؟ میں ان کے ساتھ گھوڑا گھوڑا کھیلتی۔ ۔ ۔ ؟‘
بر جستہ وہ مسکرا پڑی۔ ہونٹوں کی دھاریاں پھیل گئیں۔ ’ وہ نہیں آئیں گے بیٹے، انھیں کانپور ہی اچھا لگتا ہے۔ ‘
اس کی ٹرین پلیٹ فارم پر لگی ہوئی تھی۔ قلی رک کر اس کی طرف دیکھنے لگا تھا۔
’ایس الیون بھیا۔ برتھ نمبر ۲۹۔ ۲۸۔ ۔ ۔ ‘ اس نے قلی کو بتایا۔
ٹرین کے اندر آئی تو یہاں بھی خاموشی۔ لوگ چپّی کی چادر تانے اپنی برتھ تلاش کر اپنا سامان رکھنے میں مصروف تھے۔ اس نے بیٹی کو برتھ پر بیٹھا دیا۔ پیسے لے کر قلی جا چکا تو وہ بھی اپنا سامان برتھ کے نیچے رکھنے لگی۔ تھیلا اس نے اوپر ہی رکھا کہ اس میں پانی کی بوتل اور کھانے پینے کی چیزیں تھیں۔ پوری بوگی کا ماحول وہاں چھائی ہوئی خاموشی سے بوجھل ہو رہا تھا۔ گو کہ بوگی میں بہت کم لوگ تھے، آدھی سے زیادہ برتھ خالی تھیں۔ جبکہ عام طور پر اس ٹرین میں کافی بھیڑ ہوا کرتی تھی۔ وہ جب بھی کانپور جاتی تھی، اسی ٹرین سے جاتی تھی۔ یہ دیر رات کھلتی تھی اور اہل صبح کانپور پہنچا دیتی تھی۔ پتا ہی نہیں چلتا تھا، کب چلے، کب پہنچ گئے لیکن آج اتنی کم بھیڑ۔ ۔ ۔ ؟
سامان اڈجسٹ کر کے وہ بیٹھ گئی تھی۔ وہ کچھ متفکر بھی لگ رہی تھی۔ اس کی برتھ جہاں تھی، وہ پورا کمپارٹمنٹ تو بالکل ہی خالی تھا۔ ۲۹۔ ۲۸، لوور مڈل برتھ اس کی تھی۔ اس کے اوپر سامنے کی تینوں اور کنارے کی دونوں برتھ خالی تھیں۔ ابھی ٹرین چھوٹنے میں دیر بھی تھی۔ ہر کوئی اس کی طرح تھوڑا ہی ہوتا ہے کہ دو گھنٹا پہلے ہی اسٹیشن آ جائے۔ اس نے سوچا تو ہنسی آ گئی۔
سچ، وہ تو ایکدم نمونہ ہے۔ کئی روز پہلے سے تیاری کر رہی ہے پھر بھی پاپا کا ایش ٹرے رہ ہی گیا۔ راجیوسے بول کر جے پور سے منگوایا تھا۔ لے تو آیا تھا، پر اس کا نان اسٹاپ لیکچر بھی سننا پڑا تھا۔ ’ ایک طرف تو پاپا کو سگریٹ پینے سے روکتی ہو، دوسری طرف ایش ٹرے لے جا کر دے رہی ہو۔ تمہاری تو بات ہی سمجھ میں نہیں آتی۔ ہونہہ، چھوڑ دی پاپا نے سگریٹ اور تم نے چھڑوا دی۔ ۔ ۔ ‘
’بات سمجھا کرو راجیو۔ ۔ ۔ بولتی ہوں اس لیے کہ ان کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔ کیسے ہانپتے ہانپتے بے سدھ ہو جاتے ہیں؟ یہ بیماری ہوتی ہی ایسی ہے۔ پر میں یہ بھی تو جانتی ہوں، وہ چھوڑیں گے نہیں اس کو۔ ان کے ساتھ ہی جائے گی۔ اس عمر کی عادتیں کہاں جاتی ہیں۔ ۔ ۔ ؟‘
’بیٹے ‘ آپ کچھ کھاؤ گے؟ چپس نکال لو تھیلا میں سے۔ ۔ ۔ ‘ اس نے بیٹی سے کہا۔
اس کا موبائل بجا۔ راجیو تھا۔ چنّئی گیا ہے آفس کے کام سے۔
’ہاں راجیو، ٹرین میں بیٹھ گئی ہوں۔ اب چلے گی ہی۔ ہاں ہاں، اسٹیشن آئی تب پتہ چلا ممبئی کے بارے میں۔ یہاں بھی بہت سخت سکیورٹی ہے۔ ارے نہیں، چلی جاؤں گی۔ اب تو بیٹھ چکی ہوں۔ ڈونٹ وری۔ ۔ ۔ ہاں ہاں، بیٹی ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ نہیں، ڈری نہیں ہے۔ ۔ ۔ لو بات کر لو۔ ۔ ۔ ‘ اس نے فون بیٹی کی طرف بڑھایا۔ ’بیٹے پاپا سے بات کرو۔ ۔ ۔ ‘
’ہلو پاپا۔ ۔ ۔ جی، چپس کھا رہی ہوں۔ ۔ ۔ آپ نے کھانا کھایا۔ ۔ ۔ جی میں ٹھیک ہوں۔ ۔ ۔ آپ کب لوٹیں گے پاپا؟ مما بتا رہی تھی کہ نانا سے مل کر ہم لوگ بھی دو دن میں دہلی لوٹ جائیں گے۔ ۔ ۔ جی پاپا۔ ۔ ۔ بائے پاپا۔ ۔ ۔ ‘
ٹرین کھلنے میں اب زیادہ وقت نہیں رہ گیا تھا۔ کنارے والی دونوں برتھ پر مسافر آ گئے تھے۔ اَپر برتھ والا تو با ضابطہ لمبی تان کر لیٹ چکا تھا۔ نیچے والا نیم دراز کوئی میگزین الٹ پلٹ کر رہا تھا۔
اس نے مڈل والی برتھ کھولی۔ تھیلے سے چادر نکال کر بچھایا اور بیٹی کو لٹا دیا۔ ’بیٹے، سردی لگے تو دوسری والی چادر اوڑھ لینا۔ ۔ ۔ چلو، اب تم سو جاؤ۔ ۔ ۔ گڈ نائٹ۔ ۔ ۔ ‘
اس نے اپنی برتھ پر بھی چادر بچھا لی۔ موبائل میں چھ بجے کا الارم لگایا اور کھسک کر کھڑکی کے پاس بیٹھ گئی۔ نومبر کی ہلکی نم ہوا نے اس کے جسم کو چھوا تو اس کے اندر کنکنی گدگدی بھر گئی اور قدرے تازگی محسوس کرنے لگی وہ۔ باہر پلیٹ فارم پر لوگ ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ پولیس کے مسلح جوان بھی گشت لگا رہے تھے۔
’نہ جانے ممبئی کی کیا خبر ہے۔ ۔ ۔ ؟‘ اس نے سوچا، پاپا کو فون کر دینا چاہیے۔ فکر مند ہوں گے وہ۔ ‘اس نے پاپا کو فون ملایا۔ ’جی پاپا۔ ۔ ۔ میں بول رہی ہوں۔ ۔ ۔ جی، ٹرین میں ہوں۔ ۔ ۔ ٹھیک ہوں۔ ۔ ۔ ہاں ہاں۔ ۔ ۔ وہ بھی ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ سو رہی ہے۔ ۔ ۔ آپ فکر نہ کریں۔ ۔ ۔ میں صبح پہنچ جاؤں گی۔ ۔ ۔ ‘
گاڑی رینگنے لگی تھی۔
’۔ ۔ ۔ گاڑی کھل چکی ہے پاپا۔ ۔ ۔ میں صبح پہنچ رہی ہوں۔ ۔ ۔ ‘
فون بند کر اس نے سامنے دیکھا۔ سامنے نیچے والی برتھ کا مسافر بھی آ چکا تھا۔ شاید رینگتی ہوئی ٹرین لپک کر اس نے پکڑی تھی۔ اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہا ہے۔ یہی ہوتا ہے، ہاتھ میں کچھ وقت لے کر نہیں چلنے سے۔ ایسی ہی بھاگا بھاگی مچتی ہے۔ نا بابا نا۔ ۔ ۔ اپنا فنڈا ٹھیک ہے۔ کم سے کم گھنٹا، آدھ گھنٹا پہلے پہنچو۔ بھلے انتظار کرنا پڑے۔ سامنے والے مسافر کی ہانپتی کانپتی کیفیت دیکھ کراس میں اس کی دلچسپی پیدا ہونے لگی۔ دیکھو تو‘ بندے کی سانسیں پھول رہی ہیں۔ کیسا پسینے پسینے ہو رہا ہے؟کالی جینس اور گرے کلر کا جیکیٹ۔ بے وقوف ہے کیا؟ اتنے ماڈرن ڈریس آپ کے اوپر چادر کیوں لپیٹ رکھی ہے اس نے؟ اور پھر دہلی میں ابھی اتنی سردی کہاں؟ عجیب شخص ہے، چادر سے ہی چہرہ صاف کر رہا ہے؟ گورا چٹّا چہرہ۔ ۔ ۔ گھنی لمبی داڑھی۔ ۔ ۔
داڑھی۔ ۔ ۔ ؟
تو مسلمان ہے۔ ۔ ۔ ؟
چہرہ صاف کرنے کے بعد اس نے اپنی داڑھی چادر کے نیچے کر لی ہے اور چہرے کا زیادہ تر حصہ چھپا لیا ہے۔
پر کیوں؟ یہ اپنا چہرہ اور داڑھی کیوں چھپا رہا ہے۔ ۔ ۔ ؟
’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘
اس نے محسوس کیا، پیروں کے نیچے سے سنسناہٹ جیسی کوئی چیز اوپر اس کے پورے جسم میں بھرنے لگی ہے۔
’یاتریوں سے انرودھ ہے کی کسی بھی سندگدھ ویکتی سے ساؤدھان رہیں۔ ۔ ۔ ‘
’ای موہمڈنون چین سے۔ ۔ ۔ ‘
گاڑی پوری رفتار سے بھاگی جا رہی تھی۔
اس نے بے چینی سے چشمے کا شیشہ صاف کر دوبارہ آنکھوں پر چڑھایا۔ رفتہ رفتہ اس کے ارد گرد شک کا گھیرا کستا جا رہا تھا۔ کہیں یہ۔ ۔ ۔ ؟ کہیں کیا۔ ۔ ۔ ؟ یقینی طور پر۔ ۔ ۔ یہ خود کو چھپا نے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیسا اکبکایا ہوا ہے۔ بے چین سا ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ ۔ ۔
اس کے دل کی دھڑکن بڑھنے لگی۔ محسوس ہوا، اندر سے کوئی شئے اوپر آ کر حلق کے پاس پھنس گئی ہے جس سے اس کی سانسوں میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ کھڑکی سے نم ہوا آنے کے باوجود اس کی پیشانی گیلی ہونے لگی۔ نظر ترچھی کر، چشمہ کے کنارہ سے وہ اس کے حرکات وسکنات کا جائزہ لینے لگی۔ اس کی ایک ایک جنبش پر دھیان دینے لگی۔
چوکنیّ نظر سے آس پاس دیکھ رہا ہے وہ۔ ایک ایک چیز کو بھانپ رہا ہے۔ کہیں۔ ۔ ۔ ۔ اسی ٹرین میں کچھ کرنے کا اس کا ارادہ تو نہیں؟ کنارے کی برتھ والے دونوں مسافروں کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ وہ دونوں تو جیسے ہر غم سے آزاد نیند کی آغوش میں ہیں۔ انھیں تو کسی انہونی کی کوئی فکر ہی نہیں۔ گمان ہی نہیں کہ یہاں کیا ہونے والا ہے۔ ۔ ۔ ؟
کیا کرے وہ۔ ۔ ۔ ؟ کیا انہیں جگا کر بتائے، بھائی صاحب وہ آدمی۔ ۔ ۔ لیکن تب تک تو وہ۔ ۔ ۔ تڑ۔ ۔ ۔ تڑ۔ ۔ ۔ تڑ۔ ۔ ۔ نہ جانے کتنوں کو موت کی نیند سلا دے گا۔ نہیں نہیں، اس وقت کوئی بھی حرکت کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ ارے۔ ۔ ۔ وہ تو سوئی ہوئی اس کی بیٹی کو دیکھ رہا ہے۔ ۔ ۔ ا یکدم سے اس کی سانسیں رک گئیں۔ ہائے، میری بچّی۔ ۔ ۔ نہیں نہیں، اگر اس نے اس کی بچّی کو کچھ کیا تو وہ اس کا خون پی جائے گی۔ ۔ ۔ جان سے مار دے گی اُسے۔ ۔ ۔ بھلے وہ اسے بھی مار دے۔ ۔ ۔ اس کا چہرہ سخت ہو اٹھا تھا لیکن بدن کے سارے رواں بھی کھڑے تھے۔ گھبراہٹ ایسی کہ اپنی جگہ پر شل ہو گئی تھی جیسے۔
اس نے اپنا ہاتھ چادر کے اندر کر لیا ہے۔ ضرور۔ ۔ ۔ ضرور چادر کے اندر کچھ چھپا رکھا ہے اس نے؟ اے کے ۴۷ یا کوئی اور مہلک ہتھیار؟ لیکن اتنی سکیورٹی کے ہوتے۔ ۔ ۔ ؟ ضرور پولیس والوں کو چکما دے کر اندر آیا ہو گا؟ ارے ہاں، یاد آیا۔ ٹرین کھل گئی تھی، جب تو دوڑ کر چڑھا تھا وہ۔ جب پولیس کے کھوجی کتّے بوگی کا چپّہ چپّہ سونگھ کر چلے گئے تھے۔
گاڑی کسی کراسنگ سے گزر رہی تھی۔ کھٹر پٹر کی تیز آواز کے ساتھ دائیں بائیں زور کے جھٹکے کھانے لگی تھی۔ اس کا توازن بگڑ گیا تھا۔ لیکن وہ۔ ۔ ۔ وہ تو ایکدم چست درست بیٹھا ہوا تھا۔ کیا غضب کی ٹریننگ ہوتی ہے ان کی۔ جسم میں بجلی بھری ہوتی ہے جیسے۔ جبھی تو پلک جھپکتے ہی قیامت ڈھا دیتے ہیں۔ ۔ ۔
ارے، ارے، اٹھ کر کہاں جا رہا ہے وہ؟ ضرور بوگی کا معائنہ کرنے گیا ہو گا۔ وہ ڈرتے ڈرتے کھسک کر برتھ کے کنارے آئی، گردن باہر نکال کر جھانکا۔ ٹائلٹ کے اندرگھسا ہے۔ وہ جھانکتی رہی۔
بوگی کے اندر تقریباً سارے لوگ سو چکے تھے یا پھر سونے کی تیاری کر رہے تھے۔ خوفناک لگنے جیسی خاموشی مسلّط تھی۔ ایسی حالت میں تو وہ آرام سے ایک ایک کو مار دے گا۔ کوئی نہیں بچ پائے گا۔ خوف اور خدشہ سے وہ لرزا ٹھی۔ کھسک کر سابقہ جگہ پر بیٹھ گئی۔
بیٹی گہری نیند میں تھی۔ اس کی اپنی نیند تو کافور ہو چکی تھی۔ سامنے موت ہو تو نیند بھلا کسے آئے گی؟ جانے کب کیا ہو جائے؟ وہ ابھی تک لوٹا نہیں؟ اتنی دیر تک ٹائلٹ میں کیا کر رہا ہے؟ کہیں ٹائلٹ میں ہی بم تو نہیں پلانٹ کر رہا ہے؟ اور اتنی دیر کیا کرے گا ٹائلٹ میں؟ سہمی سہمی پھر کنارے پر آ کر جھانکنے لگی۔ گیٹ کے پاس کھڑا موبائل سے باتیں کر رہا ہے۔ ضرور۔ ۔ ۔ اپنے آقاؤں سے بات کر رہا ہو گا؟ سارے حالات سے واقف کرا رہا ہو گا؟ اسے ہدایت دی جا رہی ہو گی؟ کیسے کرنا ہے؟ کب کرنا ہے؟کہاں کرنا ہے۔ ۔ ۔ ؟ سب کچھ اسے بتایا جا رہا ہو گا۔ جہاد کا گھونٹ پلایا جا رہا ہو گا۔ جنت میں گھر بنانے کا خواب دکھایا جا رہا ہو گا۔ وہ جلدی جلدی اپنی گردن ہلا رہا ہے۔ آقاؤں کے ایک ایک حکم پر لبیک کہہ رہا ہے۔
یا پھر وہ اپنے کسی ساتھی سے بات کر رہا ہو گا۔ وہ اکیلا تو نہیں ہی ہو گا؟ اور بھی ساتھی ہوں گے اس کے۔ شاید ابھی اسی ٹرین میں ہوں۔ الگ الگ بوگی میں۔ سب ایک دوسرے کے کانٹکٹ میں ہیں۔ کب، کیسے، کیا کرنا ہے۔ منصوبے کو فائنل ٹچ دے رہے ہیں۔
آ رہا ہے۔ ۔ ۔ آ رہا ہے۔ ۔ ۔ وہ جلدی سے اپنی جگہ پر آ گئی۔ آنکھیں بند کر لیں، جیسے سونے کی کوشش کر رہی ہو۔ ذرا سی آنکھیں وا کر، چشمہ کے پیچھے سے دیکھنے لگی۔ اپنی برتھ پر بیٹھ گیا ہے۔ بیگ سرہانے رکھ کر لیٹ گیا ہے۔ ارے، اس نے اس کے بیگ کی طرف تو دھیان ہی نہیں دیا۔ ضرور اسی بیگ میں تباہی کا سارا سامان ہے۔ ورنہ اتنے جتن سے سرہانے نہیں رکھتا۔ برتھ کے نیچے ڈال دیتا۔
ٹی ٹی ای آیا تھا۔ ٹکٹ مانگ رہا تھا۔ بھائی صاحب وہ آدمی۔ ۔ ۔ وہ ٹی ٹی ای کو بتانا چاہتی تھی، پر منہ سے لفظ باہر نہیں نکل پائے۔ وہ لیٹا ہوا ہے، پر اس کا ہاتھ تو اس کے بیگ پر ہی ہے۔ سہم گئی وہ۔ کچھ بولنے کا مطلب تھا، فوراً دھڑام۔ ۔ دھڑم۔ ۔ لاشیں۔ ۔ ۔ خون۔ ۔ ۔ چتھڑے۔ ۔ ۔
’ہاں بھئی۔ ۔ ۔ ٹکٹ۔ ۔ ۔ ‘ ٹی ٹی ای اس سے مخاطب ہوا تھا۔ اس نے لیٹے لیٹے ہی اپنا ٹکٹ دکھایا ہے۔ کوشش کر رہا ہے، چہرہ سامنے نہ آئے۔ آنکھیں اور ناک دکھائی دیر رہی ہے
’آپ کی برتھ ٹونٹی سکس ہے۔ ۔ ۔ مڈل والی۔ ۔ ۔ ‘ اس کا ٹکٹ دیکھ کر ٹی ٹی ای آگے بڑھ گیا تھا۔
۔ ۔ ۔ تو اس کی وہ برتھ نہیں ہے۔ دوسرے کی برتھ پر جما ہوا ہے۔ خالی پا کر بیٹھ گیا ہے۔ نہیں نہیں، یہ اتفاق نہیں ہو سکتا۔
وہ جان سمجھ کر اپنی برتھ پر نہیں بیٹھا ہے تا کہ واردات کرنے کے بعد اس کی سہی نشان دہی نہ ہو سکے، اس کی شناخت نہ ہو سکے۔ اس کے بارے میں سہی سہی کچھ پتہ نہ چل سکے۔ ٹی ٹی ای بغل کے کمپارٹمنٹ میں ٹکٹ دیکھ رہا ہے۔ وہ پیچھے سے جا کر ٹی ٹی ای کو بتا دینا چاہتی تھی۔ ٹائلٹ۔ ۔ ۔ ہاں ٹائلٹ کا بہانا ٹھیک رہیگا۔ وہ اٹھی، من ہی من کچھ پڑھتی آگے بڑھی۔ ٹی ٹی ای کے پاس پہنچ، مڑ کر پیچھے دیکھا۔ کلیجہ دھک سے کر کے رہ گیا۔ غضب کا عیار ہے وہ۔ برتھ کے کنارے سے جھانک رہا ہے۔ بس یونہی ٹائلٹ کی طرف گئی، لوٹ آئی الٹے پیر۔ بیٹھی تو اس طرح جیسے جسم کی ساری طاقت نچوڑ لی گئی ہو۔
ٹرین کی رفتار دھیمی ہو رہی تھی۔ کوئی اسٹیشن آ رہا تھا۔ علی گڑھ ہو گا۔ علی گڑھ ہی تھا۔ گاڑی پلیٹ فارم پر رک گئی تھی۔ پیٹھا والے، چائے والے آواز لگا رہے تھے۔ وہ اپنی شیشہ لگی کھڑکی سے باہر جھانک رہا ہے۔ اس کا موبائل بجا ہے۔ وہ ایکدم سے چونک گیا ہے۔ جیب سے فون نکال کر نمبر دیکھتا ہے۔ اٹھ کر کمپارٹمنٹ کی دوسری جانب چلا جاتا ہے۔
ضرور اسے اشارہ کیا گیا ہے۔ اسی جگہ اڑا دینا ہے، ٹرین کو اور اسٹیشن کو بھی۔ اے بھیا سنو۔ ۔ ۔ ایکدم بوکھلا کر پلیٹ فارم پر کسی کو پکار اٹھی۔ مزید کچھ کہتی، وہ برتھ پر آ کر بیٹھ گیا ہے۔ اس کی آواز حلق میں ہی گھٹ کر رہ گئی۔ سہم کر وہ کھڑکی سے چپک گئی۔
گاڑی کھل چکی تھی۔ دھیرے دھیرے رفتار پکڑنے لگی تھی۔ دھیرے دھیرے اس کا خوف، اس کی دہشت بھی زور پکڑتی جا رہی تھی۔
اس نے لائٹ آف کر دی ہے۔ کمپارٹمنٹ میں اندھیرا چھا گیا ہے۔ لیکن۔ ۔ ۔ اس نے لائٹ کیوں آف کر دی؟ اندھیرا کیوں کر دیا؟ کیا وہ تاریکی کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے؟ بیگ کی زپ کھلنے کی آواز آئی ہے۔ اندھیرے میں بیگ کیوں کھول رہا ہے؟ کیا ہتھیار نکال رہا ہے؟ یا بم میں ٹائمر لگا رہا ہے؟ وہ آنکھیں پھیلا کر دیکھنے لگی۔ چشمہ کے باوجود کچھ صاف نہیں دکھ رہا۔ نہ جانے کیا کر رہا ہے وہ؟ نہ جانے کیا کرنے والا ہے؟
ضرور ہی فدائین ہے۔ لگتا ہے، خود کے ساتھ ہی ٹرین کو بھی اڑا دے گا۔ تب تو۔ ۔ ۔ وہ اوراس کی بچی۔ ۔ ۔ ان کے تو چیتھڑے بھی نہیں ملیں گے۔ ادھر راجیو سوچے گا، ہم لوگ پاپا کے پاس گئے ہیں۔ ۔ ۔ ادھر پاپا انتظار ہی کرتے رہ جائیں گے اور ہم لوگ۔ ۔ ۔ ہم لوگ۔ ۔ ۔ نہیں نہیں۔ ۔ ۔ بوگی کے سارے لوگ سو رہے ہیں۔ انھیں تو پتا بھی نہیں چلے گا اور وہ کال کے گال میں چلے جائیں گے۔ لیکن۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ اس کی آنکھیں تو کھلی ہوئی تھیں۔ وہ تو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔
سامنے۔ ۔ ۔ اپنے سامنے۔ ۔ ۔ موت کو دیکھ رہی تھی۔ موت کو دیکھتے ہوئے مرنا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے، اس کرب سے بڑی شدت سے گزر رہی تھی وہ۔
لیکن کیا وہ ایسے ہی مر جائے گی؟ مرنے سے پہلے، زندہ رہنے کے لیے، آخری کوشش سمجھ کر، کیا وہ کچھ نہیں کر سکتی؟ کیوں نہیں کر سکتی؟ وہ اس پر جھپٹ پڑسکتی ہے۔ اسے دبوچ لے سکتی ہے۔ دبوچ کر شور مچا سکتی ہے۔ اسے اپنے دانتوں سے نوچ سکتی ہے۔ اپنے ناخنوں سے اس کی آنکھیں پھوڑ سکتی ہے۔
ہاں ہاں، اسے اپنے آپ کو، اپنی بیٹی کو بچانا ہو گا۔ ورنہ راجیو کا تو سب کچھ ہی اجڑ جائے گا۔ اس کا تو ہم دونوں کے سوا کوئی ہے بھی نہیں۔ باپ رے، مجھ سے شادی کرنے کے لیے کون سی مصیبت نہیں جھیلی ہے اس نے۔ اس کے پریوار کا کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ سب ناراض تھے۔ سب کی مخالفت سہہ کر اس نے مجھ سے شادی کی تھی۔ سب کے طعنے برداشت کر اس نے مجھے اپنایا تھا۔ میرے لیے بہت بڑی قربانی دی ہے اس نے۔ کتنا پیار کرتا ہے وہ ہم سے۔ وہ تو جیتے جی مر جائے گا۔
اور۔ ۔ ۔ اس عمر میں پاپا تو ایکدم بے سہارا ہو جائیں گے۔ وقت بے وقت کون دیکھے گا ان کو؟ دور ہے، پر ماہ دو ماہ میں آ کر اُن کو دیکھ تو لیتی ہے۔ اتنے ہی سے ان کو کتنا بل مل جاتا ہے۔ اور یہ، یہ میری بیٹی۔ ۔ ۔ ابھی دنیا ہی کہاں دیکھی ہے اس نے؟ ابھی ابھی تو آنکھ کھولی ہے۔ اگلے ماہ تو اس کا ساتواں برتھ ڈے ہے۔ کتنا انتظار ہے اس کو اپنے برتھ ڈے کا؟ کتنی تیاری کر رکھی ہے اس نے؟ کیا ساری کی ساری تیاری۔ ۔ ۔ نہیں نہیں، اسے اس پر جھپٹ ہی پڑنا چاہیے۔ موقع اچھا ہے۔ بیٹھا ہوا ہے۔ اس سے قبل کہ بیگ سے ہتھیار نکالے وہ اسے دبوچ لے سکتی ہے۔ اگر اس کی لمبی داڑھی پکڑ میں آ جائے، تب تو وہ ایکدم مجبور ہو جائے گا۔ پوری طرح گرفت میں آ جائے گا۔ درد اتنا ہو گا کہ کچھ کر ہی نہیں پائے گا۔ ہاں ہاں، اسے اس پر حملہ کر ہی دینا چاہیے۔
ایک۔ ۔ ۔ دو۔ ۔ ۔ ارے باپ رے، کس طرح گھور رہا ہے وہ۔ اس کے اندر چل رہی ساری باتوں کو پڑھ رہا ہے۔ کتنا محتاط ہو گیا ہے۔ کیا صرف بیگ میں ہی ہتھیار ہوں گے اس کے؟ چادر کے اندر بھی تو رکھے ہوں گے؟ ان کے پاس کیا نہیں ہوتا؟ چاقو سے لے کر اے کے ۴۷، ہتھ گولے، آرڈی اکس تک۔ اور پھر جسم سے بھی تو گٹھیلا پھر تیلا ہے۔ اس کے پاس پہنچنے سے قبل ہی اس کا کام تمام کر دے گا۔ تو پھر۔ ۔ ۔ پھر۔ ۔ ۔
گاڑی اپنی پوری رفتار میں بھاگ رہی تھی۔ چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں کو لانگھتی، تیز شور کرتی گزر رہی تھی۔ نہ جانے وقت بھی کیا ہوا تھا؟ پوری بوگی میں مرگھٹ جیساسنّاٹا پسرا ہوا تھا۔ تابوت میں رکھی لاش کی مانند لوگ اپنی اپنی برتھ پر سوئے ہوئے تھے۔ ایک اسی کے کمپارٹمنٹ میں غیبی طور پر، لیکن دکھنے جیسی چیزیں چل رہی تھیں۔
کچھ تو کرنا ہی ہو گا؟ کیوں نہیں وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ لے؟ اس کے پیر پکڑ لے؟ اس سے گڑگڑا کر بولے، دیکھو بھیّا، تمہاری بھی کوئی بہن ہو گی، میری بیٹی جیسی بیٹی ہو گی، کیا تمہارے دل میں رحم نہیں ہے؟ کیا تم انسان نہیں ہو؟ اگر تمہاری بہن یا بیٹی کو کوئی مارے تو تم پر کیا بیتے گی؟ آخر ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ آخر یہ سب کیوں کرتے ہو تم لوگ؟ کیا ملتا ہے تمھیں بے قصوروں کا خون بہا کر؟ یہ اندھی لڑائی کیوں لڑ رہے ہو تم لوگ؟
اس طرح گڑگڑانے سے اسے ضرور دیا آ جائے گی۔ بخش دے گا وہ ہمیں۔ ہاں، یہی ٹھیک رہے گا۔ ایسا ہی کرنا چاہیے۔
’بھائی صا۔ ۔ ۔ ‘
وہ بولنے کے لیے منہ کھولنے ہی والی تھی کہ اس کے موبائیل کا الارم گھنگھنا اٹھا۔ اس کا مطلب صبح ہو گئی تھی۔ چھ بج گئے تھے؟ باہر کہرا ہے، صبح پتا نہیں چل رہی ہے لیکن یہ طے تھا ٹرین کانپور پہنچنے والی ہے۔ کانپور پہنچنے کے احساس سے ہی اس کے اندر توانائی بھر گئی۔ بس تھوڑی دیر میں ہی۔ ۔ ۔ بس تھوڑی دیر اور۔ ۔ ۔
گاڑی کی رفتار دھیمی پڑنے لگی تھی۔ رفتار کم ہوتے ہی وہ اپنا بیگ اٹھا کر تیزی سے گیٹ کی جانب بڑھ گیا ہے۔ لگتا ہے، وہ یہیں اترے گا۔ ۔ ۔ نہیں، لگتا ہے یہیں کچھ کرے گا۔ ۔ ۔ اسی اسٹیشن پر۔ ۔ ۔
’چلو بیٹے۔ ۔ ۔ اٹھو، جلدی چلو۔ ۔ ۔ ‘ اس نے بیٹی کو نیچے اتارا۔ نیند سے جگی وہ آنکھیں ملنے لگی۔
’ چلو بیٹے جلدی کرو۔ ۔ ۔ ‘
وہ سامان گھسیٹتے ہوئے گیٹ تک آئی۔ ٹرین رک چکی تھی۔ نیچے اتر کر ہرنی کی طرح ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ اس کا کہیں اتا پتا نہیں تھا۔ وہ گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہو چکا تھا۔
’ یا اللہ۔ ۔ ۔ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ ۔ ۔ ‘
اس کے منہ سے نکلا اور وہ بیٹی کا ہاتھ تھامے قلی کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔
٭٭٭
چھو۔ تی۔ تی۔ تی۔ تا
اراؤں ۔ وسطی بہار کا ایک گاؤں اور اس کی ایک صبح۔ ادھر، جدھر آسمان جھکا ہے، دھرتی کی کوکھ سے نوزائیدہ بچے جیسی ملائم، گلابی صبح دھیرے دھیرے پاؤں نکال رہی ہے۔ بیٹھے بیٹھے ریڑھ کی ہڈیاں اکڑ گئی ہیں مجری کی۔ جسم کے ایک ایک حصے میں درد چبھنے لگا ہے۔ ہاتھ کی دسوں انگلیاں پھنسا کر جسم کو اینٹھتی ہے۔ چرر…ر… انگ انگ سے رس ٹپکنے لگا تھا لاج کا۔ چہرہ سرخ ہو اٹھا تھا ۔ دھت… جھینپ جاتی ہے۔ زور پڑنے سے پٹھے پر قمیص کی کئی کئی برسات کھائی سلائی بھسک گئی تھی۔ انگلی بھر چاک کے اندر سے گوری چمڑی لجائی لجائی جھانکنے لگی تھی۔
صبح کاذب سے قبل۔ ابھی صبح پوری طرح نمودار نہیں ہوئی تھی۔ کونے کھدرے سے کھدبدی چڑیاں کھلی ہوا میں نکل آئی تھیں اور چھت اور اس کی ریلنگ پر پھدکنے لگی تھیں۔ دیکھتی ہے انہیں مجری اور پھدکتی ہے من ہی من، اور چہچہاتی ہے پھر شانت ہو جاتی ہے۔ زور زور سے جماہی لینے لگتی ہے۔ رات بھیانک تھی۔ پوری رات اس نے چھت پر بیٹھے بیٹھے گزاری ہے۔ سونا تو دور چارپائی پر لیٹنے تک کی خواہش نہیں ہوئی تھی اس کی۔ بناس پوری رات بہتی رہی تھی بلکہ رات اس کا بہاؤ کچھ زیادہ ہی تیز تھا۔ رہ رہ کر اس کی دھار سے ایک عجیب طرح کا شور پیدا ہوتا تھا۔ پوری رات اس نے خوف اور دہشت کے بیچ گزاری ہے۔ رات کا ایک ایک منظر اب تک اس کی آنکھوں میں کسی خوفناک ڈراؤنے خواب کی طرح گھوم رہا ہے۔ ریت کی طرح گڑ رہا ہے چبھ چبھ، جگنوؤں کی طرح ٹمٹماتی بے شمار بتیاں…بڑے بھیا کا کھیت خالی ہو چکا ہے۔ بوجھے ڈھوئے جا چکے ہیں۔ عجیب ہے۔ رات کی سیاہی میں سب کچھ دکھائی دے رہا تھا، صبح کے اجالے میں کچھ بھی نہیں۔ سوالیہ نشان لگ گیا تھا اجالے پر۔ اٹھ کر ریلنگ تک آتی ہے۔ پیپل کا درخت پہاڑ کی طرح کھڑا ہے۔ عرصہ پہلے بندھی ہوئی سوت کالی پڑ چکی ہے۔ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر لٹک رہی ہے۔ بناس اب بھی بہہ رہی ہے۔ برسوں سے بہتی آ رہی ہے۔ جن دنوں وہ تین ربر والی جانگیا پہنا کرتی تھی اور دو دو چوٹیاں آگے پیچھے لٹکائے نو گھروں میں سے ایک گھر میں غوٹی ڈال چھو۔ تی۔ٹی ۔ٹی ۔ تا کا کھیل کھیلا کرتی تھی، بناس کو تب سے بہتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ ضرور بناس میں اور اس کے کنارے پر کھڑے پیپل کے درخت میں کوئی گہرا رشتہ تھا۔ گاؤں میں کئی پیپل ہیں، بوڑھے بوڑھے، اور کسی میں کوئی سوت کیوں نہیں لپٹتا؟
چھو۔ تی۔ تی۔ٹی ۔ تا ….
نو گھروں میں سے ایک گھر۔ یہ گھر میرا ہے۔ پورے حق کے ساتھ اس میں نشان لگا دیا کرتی گویا خواب دیکھنا اس کا حق ہو۔
اماں، بناس والے پیپل میں سوت کیوں لپیٹتی ہیں؟
یہ جان کر تو کیا کرے گی؟
میں بھی لپیٹوں؟
تیرا بیاہ ابھی نہیں ہوا ہے۔
یہ گھر میرا ہے۔ چھو۔ تی۔ تی۔ تا۔ برسات کے دنوں میں بناس جب پوری طرح بھر جاتی وہ اپنے کھیت میں کام کرنے والی بنیہار عورتوں کے ساتھ گھاٹ پر چلی جاتی۔ یہ صرف بہانا ہوتا۔ دیکھنا تو ہوتا تھا پیپل کو۔ کیسے لپیٹتی ہیں سوت؟
چانچر پر بیٹھ کر دونوں پیر پانی میں لٹکا دیتی۔ ڈرپوک پر تھا ۔ پانی اسے کاٹتا تھا کئی کئی دنوں پر نہاتا۔ کلوٹاّ۔ تم جانتے ہو، پیپل میں سوت کیوں لپیٹتی ہیں؟
وہ نا میں سرہلاتا۔ دور سے ہی تاکہ اس کی چھپر چھپر سے بھیگے نہیں۔ کھل کھل ہنس دیتی وہ۔ بدھو…تم بھی نہیں جانتے ۔ ابھی میرا بیاہ نہیں ہوا ہے۔ بیاہ ہو جائے گا تو …
بھیگ بھاگ کر گھر لوٹتی تو اماں ڈانٹتیں۔
تو لڑکی ذات ہے۔ وہ بھی بڑے گھر کی۔ بنیہاروں (مزدوروں) کے ساتھ تیرا میل جول ٹھیک نہیں۔ بڑے بابو کو پتہ چل گیا تو… اماں کی صرف دھونس ہوتی تھی، ڈرانے کے لیے۔ بیٹی کے باپ کا پورا جسم آنکھ اور کان ہوتا ہے۔ انہیں پتہ تو ہوتا ہی تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ بس گود میں لے کر سمجھا دیتے۔ تم کوندی میں نہیں جانا چاہیے۔ کچھ ہو ہوا گیا تو ہم کیا کریں گے۔ ہم تو خوب روئیں گے۔ اوں… اوں…اوں۔ بڑے بابو رونے کا ناٹک کرنے لگتے۔ تبھی وہ زورسے چھینکتی اور بڑے بابو سچ مچ رونے رونے کو ہو جاتے۔ فوراً آرہ، فاروق حسین کے دوا خانہ، مٹھیا والے ڈاکٹر کے یہاں لے جاتے۔ بڑے بابو کافی پڑھے لکھے تھے۔ پہلے زمانے کے بی۔ اے۔ تھے۔ انگریزی فر فر بولتے تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی انگریزی دوائی نہیں دلوائی۔ کچھ ہوا نہیں کہ مٹھیا والے ڈاکٹر کے یہاں پہنچ جاتے۔ مٹھیا والے ڈاکٹر پہلے اسے دلارتے پھر اس کے منہ میں دوچار بوند دوائی ڈال دیتے۔ اتنی کسیلی کہ منہ کھرا ہو جاتا۔ پھر میٹھی گولیاں کھانے کے لیے دیتے۔ رفتہ رفتہ وہ اس کی عادی ہو گئی۔ پہلے ہی میٹھی گولیاں ہاتھ میں لے لیتی اور دوائی پینے کے بعد فوراً منہ میں ڈال لیتی ۔ چلتے وقت وہ بھی تنبیہ کرتے۔
ندی کے پانی میں مت کھیلنا۔
میں تو کھیلوں گی۔ وہ من ہی من ضد کرتی۔
بڑے بھیا کو تو پھوٹی آنکھ نہیں بھاتا تھا اس کا ندی پر جانا۔ اس کے کان اینٹھے جاتے ۔ لیکن وہ مانتی کب تھی۔ اس کا کان کئی کئی دنوں تک ٹس ٹس دکھتا رہتا لیکن وہ وہی پر تھا وہی اور ندی کی چھپر چھپر وہی۔
اماں نے ہمیشہ لڑکی ہونا سکھایا، بڑے گھر کی۔ وہ سمجھ نہیں پاتی، لڑکی ہونا کیا ہوتا ہے؟ لیکن گھر سچ مچ بڑا تھا۔ سولہ کمرے تھے۔ بڑا سا آنگن تھا اور اس میں ڈھیر ساری دھوپ تھی۔ بڑا سا دالان جس میں بڑے بابو ہمیشہ مجمع لگائے رہتے۔ گرام وکاس سمیتی کے مکھیا (صدر) تھے بڑے بابو۔ مکھیا جی۔ جواہر روزگار یوجنا۔ اور سماجک سہائتا یوجنا۔ کی باتیں ہوتی رہتی تھیں دالان میں۔ چوسر بچھا ہو تا تھا اور بہاری حقے کی آگ کو تاڑ کے پنکھے سے جھل جھل کر سلگاتا رہتا تھا۔ دالان کے آگے ایک طرف گوشالہ تھی جہاں سیمنٹ کی بنی ناد پر گائے، بھینس اور بیل بندھے ہوتے تھے اور بالکل پھاٹک کے پاس ہرن کے چھوٹے چھوٹے دو بچے کان کھڑا کیے ہمکنے کے لیے بے چین رہا کرتے تھے۔ وہ ان کا گھر تھا ۔ میرا گھر؟ چھو۔ تی۔ تی۔ تی۔ تا۔ پچھلی بار جب گاؤں میں اندر اآواس کے مکان بن رہے تھے، بی ڈی او صاحب آئے ہوئے تھے۔ بڑے بابو کے نہ چاہتے ہوئے بھی ہرن کے بچوں کو اٹھا لے گئے تھے۔ ان کا گھر بدل گیا تھا۔
اندر زمانہ قطعہ۔ صرف اماں اور وہ۔ اور تھا ہی کون؟ لگتا ہی نہیں گاؤں کا پریوار ہے۔ لیکن گاؤں کا پریوار بھی صرف بڑے بابو کی پرانی باتوں میں دیکھنے کے لیے ملتا تھا۔ پچاس، پچاس ۔ ساٹھ،ساٹھ لوگوں کا پریوار۔ عورتیں آٹا گوندھنے اور روٹی سینکنے بیٹھتی تھیں تو بانہیں چڑھ جاتی تھیں۔ بہتوں کے یہاں تو روٹی بنتی ہی نہیں تھی۔ دس سیرا تسلے میں چاول کھدکتا تھا۔ لیکن اب گھر گھر میں روٹی بننے لگی ہے۔ چھوٹی چھوٹی پتیلی میں آرام سے گوندھا جاتا ہے آٹا۔ لیکن بڑے بابو کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ چار جنوں سے اوپر بڑھا ہی نہیں پریوار ۔ بڑے بابو اکلوتے تھے۔ بابا آئی کے گزر نے کے بعد وہ اور ان کے بدن سے دو اور ایک تین ۔ اتنا بڑا گھر بھائیں بھائیں۔ بھائیوں کے شادی ہوئی تو خوب خوب رونق بڑھی۔ پورا گھر رنگا پتا کر دلہن بن گیا۔ بنیہاروں میں دھوتی ساڑی بٹی اور پوری رات ڈوم کچ ہوا۔ خوب مزہ آیا۔ ہائے ہلا پسند نہیں تھا بڑے بابو کو۔ لیکن اماں نے ان کی ایک نہ سنی۔ ایک ایک کور کسر نکالی جی بھر کر۔ کہیں سوتیلی نہ کہہ دے کوئی۔
جب ماں مری تھی وہ تین سال کی تھی اور بڑے بھیا پانچ کے آس پاس ۔ اماں آئیں تو چھوٹکا بھیا آیا۔ کیسا تھا لال لال۔ چھوٹی چھوٹی بھینچی آنکھیں۔ دیکھنے میں سرکنڈے جیسا لخ لخ۔ بچپن میں ہی اس کا سر ٹیڑھا ہو گیا تھا۔ پہلا بچہ، اماں بھی اناڑی تھیں۔ کنواری آ ئی تھیں۔ خود تو سنبھلتی نہ تھیں بچہ کیا سنبھلتا۔ زیادہ تر سوتا رہتا۔ ایک کروٹ۔ بس ایک طرف سے پچک کر سر ٹیڑھا ہو گیا۔ جوان ہوا تو ایک دم گبرو نکلا۔ بڑے بھیا بھی اس کے سامنے ہچ۔ یہ بڑے بھیا کا حصہ…. یہ بڑے بابو کا حصہ… اور … اور یہ چندا ماما کا حصہ… اماں نوالوں کا حصہ لگا کر کھلاتیں۔
جوان تو وہ بھی ہوئی تھی ۔ پہلے پہل جب شلوار گندی ہوئی تھی اماں نے پرانی ساڑھی پھاڑ کر کئی تہہ کر کے اس کے اندر لنگوٹے کی طرح کس کر باندھ دیا تھا۔ بڑا پراسرار تھا سب کچھ۔ جانے کیسے سن لیا تھا اس نے اماں کو بڑے بابو سے کہتے ہوئے۔ اب اس کی شادی بیاہ کی چنتا کرو… چھو۔ تی۔ تی۔ تا….تی۔ تی۔ تی۔ تی۔ تا… یہ گھر ….
بڑے بابو نے کہا تھا۔ پہلے گھر میں گھر کرنی آ جائیں، پھر میاں کو وداع کریں گے لیکن اماں تنکا تنکا جمع کرنے لگی تھیں اسی دن سے۔ تب اس کا بناس پر جانا تقریباً بند ہو گیا تھا۔ بہت ضد بھی کیا اس نے۔ صرف ایک بار جانے دو بناس پر۔ ایک بار بھی نہیں جا سکی تھی۔ لیکن اس نے اتنا پوچھا تھا، اماں لڑکی ہونا کیا ہوتا ہے؟ اماں کو جواب ہی نہیں ملا تھا۔ دیر تک سوچتی رہی تھیں۔ پھر جیسے کھوئی کھوئی بولی تھیں… جیسے دھرتی… اور اب چاہ کر بھی وہ ضد نہیں کر سکتی۔ نہیں جا سکتی بناس پر۔ بوند بوند کچھ بھرنے لگا تھا اس کے اندر۔
کچھ ہی دنوں میں سب کچھ بدل گیا ۔ پر تھا گاؤں چھوڑ کر آرہ چلا گیا۔ پرتھا ہی کیا گاؤں کے بہت سارے لوگ آرہ چلے گئے۔ کچھ تو وہیں بس گئے اور کچھ ادھر ادھر مر مجوری کرنے لگے اور جو بچے ہیں …
ایک دم کاٹھ مار گیا مجری کو۔ جلدی سے جھک کر ریلنگ کے نیچے ہو گئی۔ آنکھیں نکال کر باہر دیکھنے لگی۔ دکھن ٹولہ کی خلیج میں پرچھائیاں کانپ رہی ہیں۔ اندر ہی اندر کانپنے لگی وہ بھی۔ دھک دھک اتنی تیز کہ دل چھاتی پھاڑ کر باہر آ نکلے۔ آنکھوں کو پھیلا کر صاف دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ ایک دو، تین، پانچ، کئی کئی۔ سانس حلق میں کہیں پھنسی رہی تھی۔ پگڈنڈی پر ان کے آنے کا انتظار کرنے لگی ۔ رینگتی ہوئی پرچھائیاں ایک ایک کر پگڈنڈی پر آئیں تو اس کی جان میں جان آئی۔ وہ نہیں تھے۔ دکھن ٹولہ کی عورتیں فراغت کے لیے نکلی تھیں۔ دھم سے چارپائی پر بیٹھ گئی ۔ جیسے کئی بار سیڑھیوں پر چڑھی اتری ہو، زور زور سے سانس لینے لگی۔
آسمان تھوڑا صاف ہوا تھا۔ پیپل دکھ رہا تھا اور بناس کی دھار بھی۔ پھر اندر بوند بوند کچھ… پورا منہ کھول دیتی ہے جیسے پوری صبح اتار لیگی اپنے اندر۔ بناس پی جائے گی پوری کی پوری۔ شمال جانب چھٹی گھاٹ اور جنوب کی طرف شمشان گھاٹ۔ ہلکا ہلکا دکھائی پڑ رہا تھا۔ درمیان میں اس طرف جانے کے لیے بانس کا چانچر۔ پیپل کی ایک شاخ جھک کر پانی میں ڈوب گئی ہے جس کی آواز سے خوفناک ڈر پیدا ہو رہا تھا۔ اس طرف ٹیلے کے اوپرپولیس کی کیمپ۔ سناٹا ہے وہاں۔ کیمپ کے اندر لالٹین کی دھیمی بتی جل رہی تھی ابھی۔ نیچے سوروں کے چھوٹے چھوٹے کھوباڑ۔ ان سے لگی درجنوں جھونپڑیوں اور کچے مکانوں کا سلسلہ۔ دھوئیں میں لپٹی ہوئی دھیرے دھیرے لرز رہی تھیں جھونپڑیاں اور لرز رہا تھا وقت …
بناسی ٹولا۔
لڑیکے لڑائی اور یائی نا جھگرواای، بیٹھی کے لنا پھر یائی ہو سنگھتیا،
بھئیلے مسنوا انگو اسنگھتیا۔
اس طرف املی کے درخت کے نیچے بہاری مسہرالاپ رہا تھا۔ پاگل۔ دو ہی تو پاگل ہوئے گاؤں میں۔ ایک یہ دوسرے کوی چاچا۔ کوی راجہ رام پر یہ درشی ۔ لمبا قد، اکہرا بدن، الجھی الجھی ڈاڑھی اور سر کے بال۔ آنکھیں چھوٹی، ٹھہری اور سوچتی ہوئی۔ شاہ پو ر کے ٹھاکر کے یہاں اس کی رشتہ لگایا تھا انہوں نے۔ لڑکا آرہ مہاراجہ کالج میں وکالت پڑھ رہا تھا اور اس
ا کیلے پر بیس بیگھے کی جوت تھی۔
اماں میں بھی لپیٹوں…؟
تیرا بیاہ …
چھو۔ تی۔ تی۔ تا …
بڑے بابو کلف لگی ادّھی کی کھر کھراتی دھوتی اور کرتا پہن کر کوی چاچا کے ساتھ جیپ میں چیوڑا اور گنے کا نیا گڑ لے کر دن تاریخ پکی کرنے گئے تھے۔ واپسی میں گاؤں کی سرحد پر کسی نے ایک چٹھی پکڑا دی تھی۔ گھر پہنچے تو کسی سے کچھ نہیں بولے۔ کوی چاچا کے ساتھ دونوں بھائیوں کو لے کو چھت کے اوپر چلے گئے۔ اماں کو بھی پاس نہیں بلایا۔ اماں بڑے بابو کے مزاج سے واقف تھیں اچھی طرح ۔ آدرش وادی، اصول اور آدرش کی خاطر نہ کہیں جھکے اور نہ کبھی ٹوٹے۔ چوہتر میں جیل گئے تو جے۔ پی کے آدرشوں کی گرہ ہی باندھ لی وہ بندھی تو بجر جیسی، آج تک نہ کھلی۔ اسی بڑے بابو کے چہرے پر پسری ہوئی ضد دیکھ کر خیر منا رہی تھیں اماں من ہی من، ضرور کچھ برا ہوا ہے۔ نگدی اگدی کو لے کر بات اٹکی ہو گی اور انہوں نے انکار کر دیا ہو گا۔ لڑکا سستے میں کہاں ملتا ہے؟ لاکھ کا تلک چڑھاؤ، ہزاروں کا سرو سامان دو، تب کہیں بیٹی کی مانگ میں سندور بھرتا ہے۔ کیسی ہوتی ہیں بیٹیاں بھی۔ چھی۔ لیکن لڑکا اچھا تھا اور کھاتا پیتا بھی تھا۔ آج کے زمانے میں کسی اکیلے کی دس، بیس، بیگھے کی جوت ہوتی ہے کیا؟ نا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اب پہلے جیسا وقت بھی تو نہیں رہا۔
نہیں رہا گیا اماں سے۔ سیڑھیوں پر جا کر ان کی باتیں سننے لگیں، ان کے پیچھے پیچھے وہ بھی۔ سن کر ششدر رہ گئیں۔ نہیں سنبھلتیں تو بھر بھرا کر سیڑھیوں پر گر جاتیں۔ دستہنے چٹھی بھجوائی تھی۔ پچیس ہزار نقد اور چاول کے دس بورے چندہ دینے کے لیے کہا تھا۔ دستہ؟ اس گاؤں میں تو کوئی دستہ یا سینا وینا نہیں تھی اور نہ ہی کسی طرح کی مر مجوری کا جھگڑا۔ کسان یہیں کے اور مزدور بھی یہیں کے۔ بڑے بابو نے خود کتنوں کو اپنی زمین میں بسایا تھا اور کچھ پورب کی طرف جدھر سے سڑک گاؤں میں داخل ہوتی ہے اس کے کنارے بسے ہوئے تھے۔ کبھی کچھ بھی تو نہیں ہوا یہاں۔ البتہ قرب و جوار کے گاؤں میں …
کوی چاچا کی سوچتی ہوئی آنکھیں سنجیدہ تھیں… بچا لو مکھیا جی…اس گاؤں کو بچا لو…شاید کوئی بیماری تھی۔ اتنا ہی بولتے بولتے کوی چاچا کی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں اور آنکھیں لت پت ہو گئی تھیں۔ اماں جلدی سے گلاس میں پانی لے آئیں۔ ایک ہی سانس میں غٹ غٹ۔ تم کیوں آئیں یہاں؟ بڑے بابو نے گھور کر دیکھا اماں کو۔ اماں پاس ہی کھڑی ہو گئیں، ڈر اور ضد میں جیسے۔ صرف سبقت …دے دو چندہ …اور بندوقیں آئیں گی اور لاشیں گریں گی…چپ ہو گئے۔ اماں سے اور پانی مانگا۔ اماں گئیں، آئیں۔ خلاء میں دیکھ رہے تھے کوی چاچا۔ بندوق کی اپنی مجبوری ہوتی ہے۔ سب کچھ اسی کے ذریعے طے ہونے لگتا ہے۔ مقصد پیچھے کسی اندھیرے گڈھے میں پڑ جاتا ہے، غیر اہم ہو جاتا ہے۔ کھیتی کرنے والے مزدوروں کے حق اور دلتوں کے سماّن کے نام پر شروع ہو کر پورے ملک میں انقلاب لانے کے عظیم مقصد کے تحت شروع ہوا یہ آندولن آج کہاں پہنچ گیا ہے…؟
نہیں نہیں مکھیا جی، اسے کلاس اسٹر گل نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں تو ذات اہم ہو گئی ہے… کاسٹ اسٹرگل… نہیں، کاسٹ وار… بڑے بابو بے چینی میں ٹہل رہے تھے۔ نہ جانے کیا ہو گیا تھا کوی چاچا کو۔ بول رہے تھے اور جانے کتنا کچھ اور بولنا چاہتے تھے۔ سامنت واد؟ جسے اس نسل نے دیکھا ہی نہیں۔ جس کے قلعے مسمار ہوئے زمانہ بیت گیا ۔ کھنڈر رہ گیا ہے باقی۔ زمین بوس، دھول چاٹتا ہوا۔ صرف دکھنے کی چاہ اور للک …
تم اسے مانو مکھیا جی، یہ سب ووٹ کی سیاست ہے۔ کچی عمر میں سماج کو اس کی جگہ سے آگے لے جانے کی کوشش آندولن کو الٹی سمت دے گی ہی۔ بندوق اور ووٹ، کوڑھ میں کھاج ہو جائے، زخم ناسور بنے گا ہی بنے گا نا۔ کتنا عجیب ہے اور کیسا المیہ؟ جتنا ہے اس سے زیادہ، جیسا ہے اس سے الگ، جانتے ہیں لوگ اس لڑائی کو… چارپائی پر سر جھکائے الغم بلغم گراتے رہے کوی چاچا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ کوی چاچا کی باتیں اکثر سمجھ میں نہیں آتیں۔ بڑے بابو کی سمجھ کچھ آیا ہو تو آیا ہو شاید۔
سورج کی پہلی کرن مجری پر پڑی ہے۔ بڑے بھیا کی فصل کٹ چکی ہے۔ بناس بہہ رہی ہے۔ پیپل ہری ہری پتیوں سے لدا دکھ رہا ہے۔ نیچے جانے کی طبیعت نہیں ہوتی۔ کافی اندر تک امس بھر گئی تھی اس میں۔
بڑے بابو اجتماعی طور پر جینے اور سوچنے کے عادی تھے۔ یہ مسئلہ ان کا ہوتے ہوئے بھی گاؤں کا مسئلہ تھا اور اس کا حل بھی ممکنہ طور پر گاؤں کے پاس ہی تھا۔ لیکن کتنی مایوسی ہوئی تھی پنچایت میں بڑے بابو کو۔ سب کو سانپ سونگھ گیا تھا جیسے۔ کسی کی زبان نہیں ہلی تھی۔ پہلی بار لگا تھا، اعتماد کا قتل ہو گیا ہے، بے اعتمادی پھیل گئی ہے۔
اس دن کے بعد عجیب تبدیلی آئی گاؤں میں۔ گھنٹوں ساتھ بیٹھ کر شیوئیشر رائے اور لوچن کہار کا تاش کھیلنا تقریباً بند ہو گیا تھا۔ خوف اور اندیشہ کسی چھوت کی بیماری کی طرح پھیل گیا تھا پورے گاؤں میں۔ اب رانا جی کے دروازے پر رات رات تک محفلیں نہیں لگتی تھیں اور نہ ہی تڑ بنے میں تاڑی پینے والوں کا جم گھٹ لگتا تھا۔ طوفانی درزی، جس کے متعلق عام تھا کہ اس کے ریڈ یو میں صرف گانا ہی گانا ہے اور کچھ نہیں۔ وودھ بھارتی ہو یا شیلانگ، صبح ہو، دوپہر ہو یا شام ہو، اس کے دو بینڈ کے ریڈیو میں صرف گانا ہی گانا بجتا تھا، اور جو چھ وولٹ کی بیٹری چارج کرا کر صرف دوسروں کو سنانے کے لیے فل ساؤنڈ کیے رہتا تھا، اس کے ریڈیو نے گانا، گانا بند کر دیا تھا۔ سب مشکوک، دہشت زدہ، اجنبی اجنبی چہرہ لیے اپنے ہی خول میں سمٹ گئے تھے۔ لیکن بڑے بابو…جانے کیسے تھے بڑے بابو۔ انکار کر دیا تھا انہوں نے چندہ دینے سے۔ جرم کر دیا تھا بڑے بابو نے۔ فیصلہ تو ہونا ہی تھا۔ دستہ نے لگائی جن عدالت آخری صف میں بیٹھنے والے جلسے کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے۔ آرتھک ناکہ بندی لگا دی گئی تھی بڑے بابو پر۔ مکھیا جی کے کھیتوں میں کوئی کام نہیں کرے گا۔ حکم صادر فرما دیا گیا تھا۔ کسی نے کچھ نہیں کہا، احتجاج کی کوئی آواز نہیں۔ کسی کے اندر کوئی بے چینی نہیں۔ صرف بہاری نے کہا۔ ہمنی کے کام نا کرب تہ کھائب کا…؟ یہ اس کا اپنا مسئلہ تھا اور اس جیسوں کے ایسے مسئلوں پر غور ہ فکر کرنا کہیں سے شامل نہیں تھا ان عدالتوں کے آئین و قانون میں۔
تھکے تھکے لوٹ آئے تھے بڑے بابو۔
گاؤں کے لہلہارہے کھیتوں کے درمیان بڑے بابو کا کھیت خالی رہ گیا تھا۔ ہری مخملی چادر پر ٹاٹ کے پیوند جیسا۔ میڈھ پر کھڑے سونی آنکھوں سے دیکھتے رہتے تھے بڑے بابو۔ بنیہار کام کی تلاش میں ادھر ادھر نکلنے لگے تھے۔ پرتھا بھی آرہ جا کر رکشا چلانے لگا تھا۔ بہاری رہ گیا تھا بلکہ وہ جاہی نہیں سکا تھا کہیں۔
بڑے بھیا غصے سے پاگل ہو رہے تھے۔ چھوٹا بھائی چندہ دے دینے کے حق میں اپنی دلیلیں دے رہا تھا۔ پچیّس ہزار کی تو بات تھی… یہ سب تو نہیں ہوتا۔
حیران رہ گئے تھے بڑے بابو۔ پوری رات سوئے نہیں تھے۔ اٹھ اٹھ کر دیکھتی رہی تھی انہیں وہ۔ آرام کرسی پر ٹانگیں سیدھی کیے چھت کو گھورتے رہے تھے پوری رات اور پوری رات وہ کسی انہونی کی غیبی آہٹ سنتی رہی تھی۔ پہاڑسی پوری رات۔
چھوٹا بھائی رات کو دیر سے لوٹتا۔ اماں تو اماں تھیں۔ کھول دیتی تھیں خود کو دروازے کی طرح۔ چل کھانا کھا لے۔ پوچھتی بھی نہ تھیں، کہاں رہتا ہے اتنی اتنی رات تک۔ جب پوچھنا چاہا، دیر ہو چکی تھی۔ گرہن لگ چکا تھا۔ مجھے میرا حصہ چاہیے۔ ماں باپ کے زندہ ہوتے اس نے زمین جائداد میں اپنا حصہ مانگا تھا۔ اماں کے چہرے پر سناٹا پھیل گیا تھا۔ یہ بڑے بھائی کا حصہ… یہ بڑے بابو کا حصہ… ٹکر ٹکر دیکھتی رہ گئی تھیں بڑے بابو کو۔ پھرکئی کئی رات بڑے بابو آرام کرسی پر ٹانگیں سیدھی کئے چھت کو گھورتے رہے تھے۔ کئی ایک دنوں تک گھر کے کونے کونے سے خاموشی کے سسکنے کی آوازیں آتی رہی تھیں۔ بربادی گھر کی دیواروں پر چھپکلی کی طرح رینگ رہی تھی۔ نہ جانے کیا ہو گا؟ نہ جانے کیا ہونے والا ہے؟ جیسے گھر میں کوئی گھس آیا ہے۔ کوئی کچھ چرا رہا تھا۔ دیوار میں بڑی سی نقب گلا دی ہو کسی نے۔ اس کے راستے کسی کے دونوں پیر اندر آئے ہیں۔ ذرادیر میں پورا کا پورا وہ اندر آ جائے گا۔ اسے کوئی پکڑنا چاہے تو نہیں پکڑ سکتا۔ اس کے پورے جسم سے تیل چو رہا ہے۔ پکڑتے ہی چھٹ سے چھٹک جائے گا۔ لاکھ جتن کرو ہاتھ نہیں آئے گا، پھسل جائے گا۔ پھسل گیا تھا سب کچھ۔ بڑے بابو نے خاموشی توڑی تھی۔ دونوں بھائیوں کو ساتھ بیٹھایا تھا ایک دن اور بانٹ دیا سب کچھ۔ یہ تمہارا اور یہ تمہارا۔ الگ الگ ہو گئی تھی ایک چنے کی دو دال۔ ادھر گھر پھوٹا اور ادھر گاؤں ۔ پورب کی طرف جدھر سے سڑک گاؤں میں داخل ہوتی تھی، اس کے کنارے بسی ہوئی جھونپڑیاں ایک ایک کر بناس اس پار جا لگیں اور آباد ہوا بناسی ٹولہ۔
جتیا کے بتیا میں متیا مرائل کاہے، سہے لاانیر درگیتا سنکھتیا۔
گنواں کے نواں ہنساؤ جن سنگھتیا۔
چمپئی دھوپ میں بہاری مسہر کا جسم تانبے جیسا چمک رہاتھا۔ سور باڑ سے نکل کر تازہ ٹٹیوں پر تیزی سے تھوتھنا رگڑ رہے تھے۔ ٹیلے کے اوپر کیمپ کا سپاہی منہ میں داتون پھنسائے ترکاری کاٹنے والی چھری سے بندوق کی نال پر لگی زنگ کھرچ رہا تھا۔ دور تھا لیکن عجیب طرح کی آواز آرہی تھی مجری کے کانوں تک۔
عجیب آواز تھی ۔ گاؤں کے منہ منہ ہوتے گھر تک پہنچی تھی۔ چھوٹکا دستہ میں چلا گیا۔ نکسلائٹ بن گیا ۔ کانوں پر یقین نہیں ہوا تھا۔ بڑے بابو کا وہ سبق جو انہوں نے بکسے پر رکھے لالٹین کی روشنی میں آدھی آدھی رات تک طوطے کی طرح رٹایا تھا،بھول گیا تھا چھوٹکا بھائی۔ اماں چپ۔ بڑے بابو چپ ۔ گونگے بہرے گاؤں کے منہ میں اچانک زبان اگ آئی تھی۔ کہئے مکھیا جی، گاؤں بچانے کی بات کر رہے تھے آپ؟
نہیں بچا پائے تھے۔ کچھ بھی تو نہیں بچا پائے تھے بڑے بابو۔ کئی چیزیں ایک ساتھ ٹوٹ گئی تھیں، جس میں ایک بیٹی کا رشتہ بھی تھا۔ چھو۔ تی۔ تی…یہ گھر…گھر اجڑا تھا، بسا کہاں تھا۔ بانس کے کونپل بانس کی کوٹھی میں ہی بوڑھے ہو گئے تھے۔ صرف پھلمی بیاہی گئی تھی۔ وہ بھی آرہ مندر میں جا کر۔ اس سال اس کی باری تھی… تجھے یہ دوں گی… تجھے وہ دوں گی…تنکا تنکا جمع کرنے والی اماں کی آنکھیں رو بھی نہ سکی تھیں۔ البتہ بڑے بابو کی آنکھیں خوب روئی تھیں۔ رو کر ایک دم ہلکا ہو گئے تھے بڑے بابو۔ اتنا کہ اس کا اندازہ ان کی ارتھی کو کندھا دینے والوں کو بھی ضرور ہوا ہو گا۔
بڑے بابو نہیں رہے تھے۔ تھے بھی، تو نہیں ہی تھے۔ لیکن ان کا ہونا صرف،کچھ نہ کچھ تو تھا ہی۔ جب بالکل ہی نہیں رہے تو جو کچھ تھا وہ بھی نہیں رہا۔
جنوب جانب شمشان گھاٹ۔ بناسی ٹولہ سے چند گز کی دوری۔ سب کو پتہ تھا، اس پار ہیہر کی جھلاس او ر اس پار بناس کے ارار پر ہر وقت مورچہ لگا رہتا ہے۔ بندوقیں تنی ہوتی ہیں۔ پتا کھڑکا، ہوا سرسرائی، دونوں طرف سے دھائیں دھائیں۔ ادھر جانے کی ہمت کسی کی نہ ہو سکی۔ بڑے بابو کی چتا کو آگ گاؤں سے لگے کھیت میں دی گئی۔ پہاڑ ایسا شریر مٹھی بھرراکھ بن کر مٹی میں مل گیا۔ ایک جگہ خالی ہو گئی۔ کسی کا ہونا یا نہ ہونا کس طرح اثر پذیر ہوتا ہے، یہ منظر ابھر ا جب چھوٹے بھائی نے ایک بار پھر راگ چھیڑا… حصہ پھر سے لگے گا۔ مجھے بنجر زمین ملی ہے۔ بڑے بابو کہا کرتے تھے….عمل ایک حد کو پار کر جانے کے بعد رد عمل کو جنم دیتا ہے جو زیادہ بے رحم ہوتا ہے۔
تجھے اب ایک دھور زمین نہیں ملے گی۔ بڑے بھیا…بڑے بھیا، سینا میں چلے گئے تھے۔
سولہ کمروں کے درمیان دیوار کی سرحد کھڑی کر دی گئی تھی۔ ناد پر بندھی گائے، بھینس کی طرح بانٹ دی گئی تھیں اماں اور وہ۔ ایک اس کھونٹے، ایک اس کھونٹے، اماں چھوٹے بھائی کے حصے لگیں اور وہ بڑے بھائی کے حصے۔ وہاں پہلے سے ہی بھابھیاں ایک ایک کھونٹے بندھی ہوئی تھیں۔ ان کی صورت حال اور بھی مختلف تھی شاید۔
بڑے بابو یاد آرہے ہیں اور یاد آ رہی ہیں ان کی باتیں۔ عمل ایک حد کو پار کر جانے کے بعد رد عمل کو ….
بناسی ٹولہ کو لاشوں سے پاٹ دیا گیا تھا۔ تم ایک تو ہم دس۔ سینا نے بڑے فخر کے ساتھ اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پورے اکیس لوگ۔ نصف سے زیادہ عورتیں۔ بہادروں نے شیر خوار بچے تک کو ….
ستیہے میں خونواکجو نوابہاؤ جنی، ماٹی میں ملاؤ جنی جنگیا سنگھتیا۔
کُفتے میں بہریلا چھتیا سنگھتیا۔
اپنے پریوار میں بہاری بچ گیا تھا۔ بچا کہاں تھا، پاگل ہو گیا تھا۔ دن دوپہریا املی کے پیڑ کے نیچے پڑا رہتا۔ کوی چاچا،جن کے گیت گاتا تھا بہاری مسہر، زار و قطار روتے۔ باڑھی گرام میں نوسینا حمایتوں کا قتل، گاؤں کے کھیتوں میں دھان کے بچڑوں کی بے رحمی سے روندائی، سانجھ سویرے نکلنے والی بہو بیٹیوں پر چھینٹا کشی۔ ایک طرف دہشت گردی، ایک طرف غم و غصہ۔
کوی چاچا کے دماغ میں بے اطمینانی کی گھنٹی بج رہی تھی۔ انہوں نے انتظامیہ کو اطلاع کی تھی۔ لیکن انتظامیہ، اس کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ کیا کیا جائے؟ فور س کی کمی ہے اور ویسے ہتھیار بھی نہیں۔
کچھ نہیں کیا گیا اس وقت، بعد میں قافلہ پہنچا۔ اخبار میں بیان اور چناؤ کے لیے مدعا ہاتھ آیا۔ نیتاؤں نے بھاشنوں کی برسات کی، منتریوں نے اعلانات کی۔ بناسی ٹولہ جل تھل ہو گیا۔ کچھ تیرنے لگے، کچھ غوطہ لگانے لگے۔ نیتا کے….اب سب آوترن…کال تک کونو پوچھے والا نا رہے…(نیتا کے…اب سب آرہا ہے…کل تک کوئی پوچھنے والا نہیں تھا) نفرت اور غصہ۔ اخبار والوں نے فوٹو کھینچے۔ روئیے نا… نہیں نہیں، ایسے نہیں…. ذرا سینہ پیٹ پیٹ کر۔ ہاں پلیز ویپ، کلیک۔ راتوں رات بناسی ٹولہ دنیا جہاں میں مشہور ہو گیا۔
غریبوں کے ایک مسیحا نے نعرہ دیا۔ خون کے بدلے خون۔ کسی نے نہیں کہا، اب اور نہیں۔ سب آئے اور گئے ۔ کرمچ کے کپڑوں اور بھاری بوٹوں والے گاؤں گاؤں سونگھتے پھرے۔ گھر گھر چھانا، پھٹکا۔ برہنہ کیا اونچی ذات کی عورتوں کو، بے رحمی سے پیٹا۔ بول تیرا بھتار کہاں ہے؟ کئی کئی گاؤں کی مسہر ٹولیاں حاملہ ہو گئیں۔ ایک آندھی آئی اور گئی۔ نتیجہ؟ بے قصور پکڑے گئے قصوروار چہرہ بدل کر گھومتے رہے۔ کچھ کو آرہ شہر نگل گیا، کچھ سون ندی کی تلہٹی میں سما گئے۔ بھابھی کو میکے پہونچا کر بڑے بھیا نے تو پہلے ہی گھر چھوڑ دیا تھا۔ کندھے پر لوہا اٹھائے کبھی اس گاؤں، کبھی اس گاؤں۔ پورے گرام پنچایت کا بھار تھا ان پر۔ جس گھر میں رات ہوتی، گھر والا باہر سوتا اور وہ اندر….بھیا …بھیا، آپ کی بھی ایک بہن ہے بھیا۔
نہیں جانتی، یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ سنتی تھی، طبقاتی سنگھرش ہے۔ وچار دھارا کی لڑائی ہے۔ تبدیلی نظام کی تحریک ہے۔ سیاست کا کھیل ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور برتری حاصل کرنے کی جنگ ہے۔ باپ رے باپ۔ اسے کیا معلوم، اتنی بڑی بڑی باتیں۔ اگر ان بڑی باتوں کا مطلب یہ لاشیں ہیں تو اسے نہیں جاننا ان باتوں کو۔ وہ تو بس اتنا جانتی ہے، خواندگی مہم میں گھر گھر حرف کی جیوتی چلانے والی مدھو جس کا اس کے پتا کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا اور جسے ذات کی بنیاد پر دستہ حمایتی قرار دے کرپولیس نے اپنے فریضے سے منھ موڑ لیا تھا، اس مدھو کا کسی دستہ یا سینا سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ڈومن بہو، جس کی قتل عام کے دوران فرج میں گولی مار دی گئی تھی، وچار دھارا لفظ کے معنی نہیں جانتی ہو گی، بھیکھنا کے دو ماہ کا شیر خوار بچہ جس نے ماں کی چھاتی سے ابھی منہ بھی نہیں ہٹایا تھا اور جسے بھالے کی نوک پر ٹانگ دیا گیا تھا، طبقاتی جدو جہد یا کسی تبدیلی نظام کے آندولن میں شامل نہیں رہا ہو گا۔ پھر کیوں، کیوں….؟
جیسے ہوا میں تیزاب گھل گیا تھا۔ سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ بڑے بابو، کہاں چلے گئے آپ۔ بڑے بابو یاد آرہے ہیں…. کسی ایک انسان کا قتل، اس میں چھپے بے شمار امکانات کا قتل ہے۔ لیکن یہاں تو چھوٹا بھائی اکیس کے بدلے اکیاون طے کرنے میں مصروف تھا۔ گاؤں گاؤں دستہ کی نشستیں ہو رہی تھیں، اور آج کی رات …
…..جانے کہاں سے آئے تھے یہ لوگ۔ یہاں کے نہیں تھے۔ پورے گاؤں کی گھیرا بندی کی گئی تھی۔ پوری رات کاٹی گئی تھی بڑے بھیا کی فصل، پوری رات جگنوؤں کی طرح بھک بھک بتیاں جلی تھیں اور پوری رات روکے رہی تھی وہ اپنی سانس۔
دھوپ تیز ہو گئی ہے۔ لہرانے لگا تھا مجری کا جسم۔ کھیتوں سے نظریں ہٹا کر دور سڑک کی جانب دیکھنے لگی۔ آٹھ بجیا بس آ کر رکی ہے۔ گاؤں کا کوئی اترا ہے۔ اٹیچی نیچے رکھ کر بالوں میں کنگھی کرتا ہے۔ بیل باٹم اور چھاپے کا کرتا۔ آنکھوں پر کالا چشمہ۔ اٹیچی سر پر اٹھا کر گاؤں کی طرف چلنے لگتا ہے۔ قریب آتا ہے تو دیکھتی ہے مجری اور پہچان جاتی ہے۔ پرتھا؟ ارے یہ تو ایک دم شہری بابو بن گیا۔
جانتے ہو پیپل میں سوت کیوں لپیٹتی ہیں؟
مچل اٹھی من ہی من۔ میں چلی اس کے اندرسے وہ نکلی اور سیڑھیاں پھلانگتی چوکھٹ سے باہر۔ وہ بناس میں اور بناس اس میں۔
پرتھا گاؤں کی طرف آنے کے بجائے بناسی ٹو لہ کی طرف مڑ گیا۔ ارے ارے ادھر کیوں نہیں آرہا۔ شانت پڑ گئی مجری ۔ ہاں ادھر کیوں آئے گا؟ اِدھر سے اُدھر یا اُدھر سے اِدھر کہاں کوئی آتا جاتا ہے۔ گاؤں کی گلیاں سنسان رہتی ہیں۔ کتنے ہی گھروں میں تالے لٹک رہے ہیں۔ اب کوئی پیپل میں سوت لپیٹنے بھی نہیں جاتا۔
بچپن میں پوچھتی رہ گئی اماں سے… اماں بتاؤ نا، کیوں لپیٹتی ہیں پیپل میں سوت؟ اماں نے بتایا ہی نہیں۔ ہمیشہ ایک ہی جواب ۔ تو کیا کرے گی جان کر۔ آج تک یہ سوال بنا جواب کے ہی رہ گیا جیسے اپنے آپ میں بنا جواب کے رہ گیا تھا یہ سوال کہ لڑکی ہونا کیا ہوتا ہے؟
اماں میں بناس پر جاؤں؟
نہیں تو لڑکی ذات ہے۔ جیسے …جیسے دھرتی …. دھرتی صرف سنتی ہے۔ دھرتی صرف دیکھتی ہے۔ دھرتی چپ رہتی ہے۔ ہمیشہ سے ایسا ہے۔ دھرتی صرف سہتی ہے۔ بنا جواب کے ہی تو تھا اماں کا یہ جواب۔
گویا نیند میں چلنے لگی وہ۔ سیڑھیوں سے نیچے آئی۔ جیسے اماں کہہ رہی تھیں،دھرتی کے پاؤں میں بیڑیاں ہیں، اس نے پاؤڈ چوکھٹ سے باہر نکالا۔ بیچ کی دیوار کا حصہ طے کر کے دوسری طرف چھوٹکا بھائی کے گھر پہونچی۔ اماں نے دیکھا تو پیلی پڑ گئیں۔ لرزنے لگی سوکھے پتے کی طرح چھوٹکی بھابھی۔ جلدی سے کواڑ اڑھکایا۔
اماں، پیپل میں سوت کیوں لپیٹتی تھیں؟ اماں نے منہ میں آنچل ٹھونس لیا۔ بھابھی، پیپل میں سوت لپیٹنے کیوں نہیں جاتیں؟ کیا آپ کو اپنے پتی کی لمبی عمر نہیں چاہئے؟
اس نے کواڑ کے دونوں پٹ کھول دیئے۔
گھر گھومن چاچی، کملا کی عمر بیت رہی ہے۔ اس کا بیاہ کب ہو گا؟ تمہارے بچے اسکول نہیں جا پا رہے ہیں مونا کو بھوجی۔ ان کا مستقبل کیسے بنے گا؟ تمہارے کھیت بوئے نہیں جا رہے ہے۔ اناج کا ایک دانا نہیں۔ دھرم کرم کیسے چلے گا بھاگ منی کاکی؟
اس گھر سے اس گھر۔ تھک کر چور ہو گئی تھی مجری۔ پیشانی پر پسینے کی بوندیں چھلچھلا آئی تھیں اور آنکھیں موندی جا رہی تھیں۔ غروب ہو رہے سورج کی رفتہ رفتہ زائل ہوتی سرخی شام کی آنکھوں میں کاجل لگا رہی تھی۔ مجری کو فکر ہوئی۔ ابھی اسے بناسی ٹولہ جانا تھا۔ اوپر سے ٹٹہری کی ٹیہہ ٹیہہ۔ نہ جانے کیوں، کب سے بولے جا رہی ہے؟ اماں ہوتیں تو خوب خوب گالیاں دیتیں۔ رانڈی، نا جانے اب کس کو نگلے گی؟ اس نے زور لگا کر بند ہوتی آنکھوں کو کھولا۔ اس نے محسوس کیا، اسے کافی قوت لگانی پڑی ہے۔ اب انہیں کھول رکھنے کے لیے اسے پہلے سے زیادہ محنت کرنا پڑ رہی تھی۔ اس نے ایک نظر سنسان گلیوں اور بند ہو چکے دروازوں کو دیکھا۔ آدم زاد کا سایہ تک نہیں ۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ انہیں گلیوں میں کھڑی ہے جہاں اس کا پورا بچپن گزرا ہے اور جہاں بسنت نے پہلی بار دوشیزگی کی کنڈی کھٹکھٹائی تھی۔ تو ے کی کالک کی مانند اندھیرا گھپ ہوتا جا رہا تھا اور ہوا سائیں سائیں کرنے لگی تھی۔ اس کی رفتار میں قدرے تیزی آ گئی۔ دکھن ٹولہ کی خلیج میں آئی تو اندر تک سہر گئی۔ لگا ریڑھ کی ہڈیوں کے راستے اچانک کچھ اوپر تک چڑھ گیا ہو۔ جیسے ڈر۔ کشمکش کی حالت میں کھڑی رہی کچھ دیر۔ بناسی ٹولہ دکھائی دے رہا تھا۔ اوبڑ کھابڑ ٹیلوں کی مانند ۔ اندھیرے میں اور اندھیرا۔ عجیب سا۔ اندر سے کسی نے روکا…مت جا اُدھر۔ ضد سے بھر گئی…جاؤں گی۔ اور بناس کی طرف بڑھنے لگی۔ یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی، ذرا دیر قبل پہاڑ سے بھاری ہو رہے اس کے پاؤں میں غیر معمولی تیزی آ گئی تھی۔ چانچر تک پہونچی تو خود بہ خود اس کے پاؤں رک گئے۔ بناس کل کل بہہ رہی تھی۔ اندر کی گانٹھ بھر سے کھل گئی۔ ہری ہو گئی ایک دم سے وہ۔ خواہش ہوئی، سما جائے پانی میں۔ بھگو دے پرتھا کو۔ کئی کئی دنوں پر نہاتا۔ پھر کچھ سوچ گہری سانس خارج کر، سامنے دیکھنے لگی۔ ہیہر کا جنگل ۔ جنگل میں… سانس رک سی گئی۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ کوئی نہیں، کئی لوگ۔ کاٹھ بنی کھڑی رہی۔ ٹکٹکی لگائے ٹوہتی رہی۔ کچھ دیر گزر گئی تو من نے کہا، وہم ہے۔ من کو ٹٹولنے لگی۔ سچ مچ لگا، وہاں کوئی نہیں، مٹی کا تو دہ ہے یا پھر اندھیرے کا گولا۔ من کو ذرا اطمینان ہوا۔ ہمت یکجا کر کے آگے بڑھی۔ چند قدم ۔ پھر رک گئی۔ اس بار وہم نہیں ہو سکتا۔ اس نے من کو لعنت ملامت کیا۔ پیچھے سے بالکل صاف آواز آئی ہے۔ کچھ لوگوں کی پھسپھساہٹ۔ جسم بے حرکت ۔ گردن گھما کر اس نے پیچھے دیکھا۔ اوبڑ کھابڑ ارار کے علاوہ یہاں سے وہاں تک سناٹا دکھائی پڑ رہا تھا۔ بڑے بابو ….بڑے بابو ….اماں….. اس کی خواہش ہوئی، چیخ چیخ کر رونے لگے۔ تکلیف اتنی شدید کے رونے کے باوجود آنکھوں سے آنسوں نکل پڑے۔ سبکنے لگی۔ بڑے بابو کہاں ہیں آپ؟ اسے لگا، کسی نے اس کا ہاتھ پکڑا ہو۔ جیسے کسی نے کہا ہو…. آوَ چلو، میں ہوں تمہارے ساتھ۔ اس نے حیرت سے دیکھا۔ اسے محسوس ہوا، اچانک ایک نئی طرح کی قوت اس کے اندر داخل ہو گئی ہو ۔ وہ آگے بڑھی۔ اس نے سنبھل کر چانچر پر پاؤں رکھا۔ چرر…ر… کی آواز دور تک گونجی اور ساتھ ہی ایک دھماکہ ہوا۔ پیپل کے درخت پر بیٹھے پرندے پھڑ پھڑا کر اڑے اور آسمان میں کھو گئے۔
صبح بناس کے بیچ چانچر کے بانس پر مجری اور پرتھا کا جسم جھول رہا تھا۔
سورج نکل آیا تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ اب تک، سورج چڑھنے تک، اس واقعے کی ذمہ داری نہ سینا نے قبول کی تھی اور نہ ہی دستہ نے۔ بھیڑ جمع تھی۔ اس پار اور اس پار۔ خاموشی تھی، جھکی ہوئی آنکھیں تھیں، اور ایک سوال تھا……؟
٭٭٭
پرانے گھر کا چاند
اوم کار بابو اداس رہتے ہیں۔ سارے آرام و آسائش کے درمیان اوم کار بابو اداس رہتے ہیں۔ انہیں یہ گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ اوم کار بابو نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ ان کا بیٹا شہر میں بسے۔ شہر کے نام سے ہی انہیں کوفت ہوتی تھی۔ ان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے جنم لینے لگتے تھے۔ لیکن بیٹا اونچے عہدے کا بابو بن گیا تو ایک شاندار فلیٹ لے کر شہر میں ٹک گیا۔ فلیٹ، یہ انگریزی نام سننے میں کتنا اچھا لگتا ہے۔ لیکن کیا یہ گھر ہوتا ہے؟ نہ ہوادار کمرے اور نہ دھوپ بھر آنگن۔ اوم کار بابو کو اس کابک نما فلیٹ میں رہتے بڑی قباحت ہوتی ہے جیسے گھر نہیں کسی بکسے میں رہ رہے ہوں۔
بیٹا بہت دنوں سے اصرار کر رہا تھا کہ چار چار کمروں ما فلیٹ ہے، آپ گاؤں میں کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں۔ لیکن جب تک بدن میں ایندھن تھا، اوم کار بابو نے خود کو روکے رکھا۔ جب پوری طرح تھک گئے تو چپ ہو رہے اور بیٹا انہیں شہر لے آیا۔ راستے میں بار بار ان کا من پرانے گھر میں اٹک جاتا تھا کہ اپنی مٹی کی خوشبو سے اتنی جلدی کوئی الگ ہوتا ہے کیا۔ دکھ تو ہوتا ہے نا۔ جس پیڑ پر جھولتے بچپن اور جس کشادہ آنگن میں جیون سنگنی کے ساتھ جوانی گزری ہو، آخری وقت میں اس سے الگ ہوتے دکھ تو ہوتا ہی ہے۔ پرانے گھروں کی اپنی یادیں ہوتی ہیں۔ ان کی بوسیدہ دیواروں میں گزاری گئی لمبی زندگی کی داستانیں منعکس ہوتی ہیں۔ ان کی اینٹ اینٹ میں چہرہ اور گارے گارے سے دھڑکن سنائی دیتی ہے۔ صدیوں گزر جانے کے بعد بھی زندگی سے بھرپور دھڑکن۔ اوم کار بابو جیسے اپنی دھڑکن سے جدا ہو رہے تھے۔
اوم کار بابو شہر آئے تو سب سے پہلے انہوں نے رات میں چاند دیکھنے کی کوشش کی، لیکن جیسا کہ نئے مکانوں کا المیہ ہے کہ ان میں سے چاند تارے نہیں دیکھتے، انہیں چاند نظر نہ آیا۔
اوم کار بابو جب کبھی خوشگوار موڈ میں ہوتے، پتنی کہتی….. ’’میں چاند بن جاؤں گی،دیکھنا، میں چاند بن جاؤں گی۔ ‘‘
و ہ سچی تھی۔ اوم کار بابو کو ایک بیٹا دینے کے بعد چاند میں کھو گئی تھی۔
اوم کار بابو کے اب تک کے سارے دکھ اس نے بانٹے تھے۔ اس کے ہوتے اوم کار بابو کو کوئی دکھ ہوا ہی نہیں۔ اگر کبھی ہوا بھی تو پتنی ان کے اندر شکتی بن کر ابھری۔ انسان دکھوں سے پاک نہیں ہوتا نا۔ لیکن اس حالت میں بھی کوئی ایسا ہوتا ہے جو طاقت دیتا ہے۔ ہونا اور نہیں ہونا کا فرق مٹاتا ہے۔ تنہائی میں چپکے سے آ کر کہہ جاتا ہے…… ’’تم اداس ہوتے ہو تو اچھے نہیں لگتے……‘‘
پتنی چاند میں کھو گئی تھی لیکن اوم کار بابو نے اسے ہمیشہ ہی اپنے پاس محسوس کیا تھا۔ جب کوئی دکھ ہوتے چپکے سے اس سے کہہ دیتے……’’شیوانی، اس بار بارش نہیں ہوئی۔ گاؤں کی فصل نشٹ ہو رہی ہے، پانی بھیجو نا…..‘‘
یہاں آ کر اوم کار بابو کو پتنی نظر نہ آئی اور وہ اداس ہو گئے۔ انہیں یہاں ذرا بھی اچھا نہیں لگتا۔ وہ اپنی شیوانی سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ کہنا چاہتے کہ وہ شہر آ گئے ہیں، جو سپنے بیچنے اور خریدنے کا شہر ہے اور جس کی گاؤں پر حکمرانی چلتی ہے اور جس کے پاس اندرونی اور بیرونی تمام فیصلے کرنے کے اختیارات موجود ہوتے ہیں۔ وہ شہر آ گئے ہیں اور انہیں یہاں ذرا بھی اچھا نہیں لگتا۔
اوم کار بابو پھر سے اڑ کر پرانے گھر میں چلے جانا چاہتے ہیں۔ بہت تیز چلنے والی گاڑی پر سوار ہو کر گاؤں پہنچ جانا چاہتے ہیں۔ انہیں یہاں کی تیز رفتار زندگی اور بے وقعت چہروں سے اکتا ہٹ ہوتی ہے۔ یہاں کوئی کسی سے ملتا جلتا بھی نہیں۔ بہو بیٹے کتنے عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ ان کی بغل کے فلیٹ میں کون رہتا ہے۔ بس اپنی زندگی اور اپنے کام۔ جب کہ گاؤں میں ایسا نہ تھا۔ اپنے دروازے پر بیٹھے ہوئے اوم کار بابو کو پورے گاؤں کی خبر ہوتی تھی۔ کس کی بیٹا فوج سے واپس آیا ہے اور کس کی گائے بچھڑا جنی ہے، تمام خبریں ان کے پاس ہوتی تھیں۔
یہاں کی صورتحال عجیب ہے۔ صبح بہو بیٹے اپنے اپنے دفتر چلے جاتے ہیں۔ پنکی کالج اور ڈبلو اسکول۔ پورا دن وہ تنہا کمرے کی دیواروں سے خاموش گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ رات کو بہو بیٹے دیر سے لوٹتے ہیں۔ تب تک بچے سو گئے ہوتے ہیں۔ ان کا کمرہ بھی الگ الگ ہے ۔ ان کی ملاقات چند گھڑی کے لیے صبح ناشتے پر ہی ہوتی ہے۔ جیسے یہ پورا پریوار ایک نہیں، الگ الگ حصوں میں بٹ کر الگ الگ زندگیاں جی رہا ہو۔ سب کی اپنی مصروفیت، اپنے کام۔ ان کی ملاقاتیں بھی بڑی بناوٹی معلوم ہوتی ہیں۔ بس مختصر،بہت ضرورت بھر، ایک خاص قسم کے سانچے میں ڈھلے ہوئے لفظوں کے سہارے ہی ان کی گفتگو ہوتی ہے۔ او م کار بابو کبھی کھبی سوچتے ہیں۔ ان کا گاؤں ایک پورا پریوار تھا۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں سانجھا۔ وہاں ایک دوسرے سے ملنے پر جب تک گرد و نواح کی باتیں نہ ہو جاتیں، ملاقات ادھوری لگتی تھی۔ اور اپنے گھر میں، وہاں تو باتیں ہی باتیں ہوتی تھیں۔ ان باتوں کا کوئی مطلب نہیں ہوتا تھا۔ ان کا کوئی وزن بھی نہیں ہوتا ستھا۔ صرف وہ باتیں ہوتی تھیں۔ جب کہ یہاں ایک ایک بات کا مطلب ہوتا ہے۔ ایک ایک بات کا وزن ہوتا ہے اور شاید اسی لیے یہاں کا ایک ایک فرد بوجھ ڈھوتا ہواسا لگتا ہے۔
اوم کار بابو سوچتے ہیں، شہر کے بوڑھے عجیب لگتے ہیں۔ جیسے وہ چلتے پھرتے انسانی جسم نہ ہوں، کسی اخبار میں چھپا گم شدہ کا اشتہار ہوں۔ وہ اکثر اپنی بالکنی سے دیکھتے ہیں۔ سامنے میدان میں جہاں شام کو درجنوں بوڑھے جمع ہوتے ہیں اور اپنے بہو بیٹوں کے تئیں دل میں بھرے غبار کو خارج کرتے ہیں۔
ان بوڑھوں کے پاس سپنے نہیں ہوتے جب کہ یہاں کے نوجوانوں کے پاس صرف سپنے ہی ہوتے ہیں۔ اوم کار بابو کو یہ نوجوان بھی عجیب لگتے ہیں۔ ان کا چہرہ بشاش اور بدن کسرتی نہیں ہوتا۔ من اور تن دونوں سے اس طرح چپٹے اور سوکھے ہوتے ہیں کہ ڈگریوں کا بوجھ بھی اٹھایا نہیں جاتا۔ اس دفتر سے اس دفتر کے چکر میں کمہلائے ہوئے پھول کی مانند اپنے جسم پر جھولتے رہتے ہیں۔
سب سے زیادہ ترس اوم کار بابو کو بچوں پر آتا ہے، جو ایسے باپ کی اولاد ہوتے ہیں جو فائلوں میں گم رہتے ہیں اور جن کی مائیں لپ اسٹک سے لتھڑی، دیر رات تک کلب میں رقص فرما رہتی ہیں۔ ان بچوں کی نگاہوں میں ان کی آیاؤں کے چہرے زیادہ مانوس ہوتے ہیں کہ ان بے چاروں کی وہی سب کچھ ہوتی ہیں۔
سپنے یہاں کی لڑکیوں کی آنکھوں میں بھی ہوتے ہیں۔ اوم کار بابو دیکھتے ہیں، کس طرح وہ مس ورلڈ اور مس یونیورس کے نام پر جھوم جاتی ہیں اور کسی اشتہاری کمپنی کو اپنے حسن کے جلوں سے متاثر کرنے کی کوشش میں زیادہ سے زیادہ کپڑے اتارنے میں عار محسوس نہیں کرتیں۔ اوم کار بابو نے گاؤں میں ہی سن رکھا تھا کہ ان کے ملک میں ودیشی کمپنیاں تجارت کرنے آ رہی ہیں، جو بڑے بڑے دانے پیدا کرنے کی صلاحیت سے بھر پور چھوٹے چھوٹے بیج تیار کریں گی اور چھوٹے چھوٹے بیماریوں کے لیے بڑی بڑی دوائیاں۔ اس وقت انہیں یقین نہ آیا تھا کہ وہ یہی سوچ رہے تھے کہ جب ایک بار یہاں سے ودیشی نکالے جا چکے ہیں تو دوبارہ کیوں کر آنے لگے اور اس ملک کے لوگ کیوں کر انہیں بلانے لگے۔ لیکن یہاں آئے اور ان کے خیر مقدم کے لیے ماحول تیار دیکھا تو انہیں اپنی آنکھ اور کان دونوں پر یقین کرنا پڑا۔
ودیشیوں کی ذہانت کو تو وہ پہلے بھی تسلیم کرتے تھے کہ کس طرح انہوں نے اس ملک اور یہاں کے لوگوں کو غلام بنائے رکھا۔ اب تو وہ ان کی ذہانت کے قائل ہو گئے ہیں کہ اس بار انہوں نے کس چالاکی سے اس ملاک کی آنکھوں کو اپنے ’’پرویش دوار‘‘ کے طور پر منتخب کیا ہوا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہاں کے عوام سپنے دیکھنا پسند کرتے ہیں اور انہوں نے ایک ایک کر سب کی آنکھوں میں بیج بو دیے ہیں۔ سپنوں کے غیر تخلیقی بیج….. نوجوانوں کی آنکھوں میں روزگار کے سپنے۔ لڑکیوں کی آنکھوں میں مس کے سپنے اور بچوں کی آنکھوں میں خوبصورت چٹک دار ریپر میں بند لیمن جوس کے سپنے…… انہیں لگا سپنوں کا یہ غیر تخلیقی بیج، آنکھوں سے ان کی روشنی بھی چھین لے تو کیا مضائقہ۔
اوم کار بابو کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ پتنی کو یاد کرتے ہیں اور اداس ہو جاتے ہیں۔
اوم کار بابو نے اپنی زندگی میں اس طرح کی قید کبھی محسوس نہ کی تھی۔ ان کے من کا پنچھی مسلسل پنجرے میں پھڑ پھڑا تا رہتا ہے۔ وہ کسی سے ملنا جلنا چاہتے ہیں تو بہو بیٹے کو اچھا نہیں لگتا۔ اس دن تو انہیں نہایت ہی رنج اور تعجب ہوا جب بیٹے نے پاس کے فلیٹ کے خان صاحب سے زیادہ ربط ضبط نہ بڑھانے کی تاکید کی کہ یہاں کا فرقہ وارانہ ماحول خوشگوار نہیں ہے۔ تب وہ رحمت خان کے بارے میں سوچے بنا نہیں رہے۔ گاؤں میں شاید ہی کوئی شام ہو جو رحمت کے بغیر گزری ہو۔ رمضان کی شام جب رحمت روزے سے ہوتا تھا، لطف ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ دونوں شام کو بازار سے پھل اور سبزیاں لے کر لوٹتے تھے اور انہیں آنگن کے کنویں میں انڈیل دیتے تھے۔ اور تب، جب افطار کا وقت نزدیک آتا تھا وہ اور ان کے پوتے پوتیاں مل کر ڈولچی سے ایک ایک پھل اور سبزی کنویں سے کھینچ کر باہر نکالتے تھے۔ ٹھنڈے اور تازگی سے بھر پور پھل، لذیذ اور خوشبودار۔ اوم کار بابو کو رحمت اور بچوں کے ساتھ مل کر کنویں سے ان پھلوں کو ایک ایک کر نکالنے میں بڑا لطف آتا تھا۔ کبھی کبھی اپنا کوئی پسندیدہ پھل خود سے نکالنے کی رحمت ضد پکڑ لیتا تو بچے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ اس وقت ان کی عمر ایک دم گھٹ تو جاتی تھی۔
لیکن یہاں رحمت ہے اور نہ اس کے آنگن کا کنواں۔ شہر کتنا خراب ہوتا ہے۔ یہاں کوئی کنواں نہیں ہوتا۔ سوچتے ہیں اوم کار بابو اور اداس ہو جاتے ہیں۔ اوم کار بابو کو عجیب لگتا ہے یہ شہر جس کی صبح چائے اور اخبار کی کڑواہٹ کے ساتھ بیدار ہوتی ہے اور رات شور شرابے والی موسیقی کے ساتھ۔ و ہ روزانہ دیکھتے ہیں، صبح بیٹے کو جگانے چائے کی ٹرے میں اخبار جاتا ہے اور رات کو پنکی کی آنکھوں میں بے ہنگم شور نیند بن کر اترتا ہے۔
اوم کار بابو کو سچ مچ یہاں سب کچھ بڑا عجیب، ایک الگ طرح کا لگتا ہے اور وہ اداس رہتے ہیں۔ ان کی اداسی دیکھتے ہوئے بہو بیٹے انہیں باہر گھوم پھر آنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اوم کار بابو دیکھتے ہیں….. جیسے پورا شہر افرا تفری کا شکار ہے۔ سبھی لوگ اپنی اپنی سمت کو بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس حالت میں کوئی لڑکھڑا،یا گر پڑتا ہے تو کوئی اسے اٹھانے یا سنبھالنے کے لیے آگے نہیں بڑھتا، بلکہ گرنے والا ان کے لیے پل بن جاتا ہے۔ ان کے چہرے پر لڑکھڑا جانے یا گر پڑنے کا ایک انجانا سا بھئے، ایک خوف مسلط ہے اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ان کی رفتار سے بے اطمینانی کی کیفیت ظاہر ہو رہی ہے۔ سب غیر مطمئن ہیں اور بھاگے جا رہے ہیں۔ وہ زیادہ دیر باہر نہ رہ سکے اور لوٹ آئے۔ گھر لوٹ کر وہ بیٹے سے جاننا چاہتے ہیں کہ وہ لوگ کیوں اس قدر پریشان نظر آ رہے تھے اور کس سمت بھاگے جا رہے تھے۔ بیٹا ہلکے سے مسکرا تا ہے اور کہتا ہے کہ یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہ آ سکیں گی ۔ یہاں کے لوگ پڑھے لکھے ہیں اور وہ اخبار پڑھتے ہیں۔ اوم کار بابو پھر سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ پڑھے لکھے ہوتے ہیں اسی لیے کسی سے ملتے جلتے نہیں اور اسی لیے شہر میں کوئی کنواں نہیں ہوتا۔ یہاں کے لوگ پڑھے لکھے ہوتے ہیں اسی لیے یہاں کے نوجوان زیادہ دنوں تک جوان نہیں رہ پاتے اور اسی لیے ان کے بچے اپنی توتلی زبان میں اپنی آیا سے دودھ والی شیشی مانگتے ہیں کہ ان کی آیاؤں کی چھاتیوں میں سب کچھ تو ہوتا ہے مگر دودھ نہیں ہوتا۔
انہیں لگتا ہے بیٹا ٹھیک ہی کہتا ہے۔ یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آنے والی۔ اس لیے نہیں آنے والی کہ انہیں اخبار پڑھنا نہیں آتا۔ صرف وہ بیٹے کے کہنے کے مطابق اتنا سمجھ سکے ہیں کہ یہ لوگ پریشان رہتے ہیں، اس لیے کہ یہ اخبار پڑھتے ہیں اور یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ انہیں لگتا ہے ساری مصیبتوں اور پریشانیوں کی جڑ پڑھا لکھا ہونا ہے۔
اوم کار بابو ایک دم سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے اگر وہ زیادہ دنوں تک یہاں رہے تو انہیں بھی اخبار پڑھنا آ جائے گا۔ وہ بے چین ہوتے ہیں او ر گاؤں لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ اوم کار بابو نے من ہی من گاؤں لوٹ جانے کہ تہیہ کر لیا ہے۔ ایک دن بیٹے کو وہ اس فیصلے سے آگاہ کر دینا چاہتے ہیں۔ بیٹا ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے۔ اس کے ہاتھ میں اخبار ہے، وہ بتاتا ہے کنویں کا پانی پینے سے گاؤں کے لوگوں کی صحت خراب ہو رہی ہے اور اب ان کی آنکھیں ٹیوب ویل کا سپنا دیکھ رہی ہیں……
بیٹا اور جانے کیا کیا کہہ رہا ہے۔ اوم کار بابو مزید کچھ سننے کی سکت محسوس نہیں کرتے۔ وہ ایک دم سے اداس ہو جاتے ہیں اور ہیبت ناک نگاہوں سے اخبار کو دیکھتے رہتے ہیں…… ان کا من کہتا ہے، شاید بہت دیر ہو چکی…..
اوم کار بابو کو پتنی شدت سے یاد آتی ہے۔ وہ اس سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ کہنا چاہتے ہیں کہ…… اور اب وہ ہر وقت اداس رہنے لگے ہیں۔ بہو بیٹے متفکر ہو اٹھتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ انہیں کیا چاہئے، کیوں اداس رہتے ہیں وہ؟
اوم کار بابو باری باری بہوں اور بیٹے کو دیکھتے ہیں جیسے جاننے کی کوشش کر رہے ہوں کہ انہوں نے جو کچھ پوچھا ہے، صرف پوچھنے کے لیے پوچھا ہے، یا سچ مچ کا پوچھا ہے۔ وہ کچھ لمحے اس الجھن میں گھر ے رہتے ہیں اور پھر نگاہیں جھکا لیتے ہیں….. ’’مجھے چاند چاہئے…..‘‘
بیٹا باپ کی اس بے معنی خواہش پر مسکرائے بنا نہیں رہتا۔ وہ انہیں اوپر کی منزل پر لے جاتا ہے اور چاند کی طرف انگلی اٹھا دیتا ہے۔
چاند پورے آ ب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ اوم کار بابو دیکھ رہے ہیں اور اسے پوری شدت سے آنکھوں میں بھر لینا چاہتے ہیں۔
۔ ایوان اردو، دہلی، مئی ۱۹۹۵ء
۔ کائنات،آن لائن میگزین، دسمبر ۲۰۰۱ء
٭٭٭
مرتو بابا
کئی بار ماچس پر تیلی رگڑنے اور پھر تیلی پھر پھر اکے جلنے کی آواز بابا کے کانوں کے اندر گئی۔
’’کون ہے رے؟‘‘
’’میں ہوں انا اور کون؟ تجھے اتا بھی نہیں سوجھتا۔ اندھیرے میں کیوں پڑا رہتا ہے؟‘‘
’’چور کی طرح کیوں آتی ہے۔ آواز تو دیا کر۔ ‘‘
’’چور ہی تو ہوں۔ تیرے یہاں جھانجھر جو پڑے ہیں۔ ‘‘
’’جھانجھر تو نہیں پر پتہ نہیں تو کیا چر ا لے۔ تیری حرکتیں تو کچھ چرانے جیسی ہی ہوتی ہیں۔ ‘‘
’’اندھیرے میں کیوں پڑا رہتا ہے۔ تو اتنا بوڑھا بھی تو نہیں۔ ‘‘
’’گہرائی میں اندھیرا ہی ہوتا ہے۔ وہاں کوئی ہلچل، کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ سمندر کا تل شانت ہوتا ہے۔ ہلچل اس کی اوپری سطح میں ہوتی ہے۔ جس کی گہرائی جتنی شانت ہو گی وہ اتنی ہی ہلچل پیدا کرے گی۔ یہی قدرت کا اصول ہے۔ ‘‘
’’پر تو دھوپ کیوں نہیں لگاتا بدن کو۔ اندھیرے میں سڑتا رہتا ہے۔ ‘‘
بابا ہنس دیتا ہے۔ ’’اتنی نفرت ہے تجھے مجھ سے۔ پھر کیوں سانجھ سویرے میری ہڈیوں کو دیا دکھانے چلی آتی ہے۔ بول…… اری بول نا۔ کنٹھ کو لقوا مار گیا کیا؟‘‘
’’مرتو …..‘‘ کٹورے میں تیل لے کر پائتی بیٹھ گئی وہ۔
’’ٹانگیں سیدھی کر۔ کیسی اندھیرے میں اینٹھ گئی ہیں۔ ذرا دھوپ ہوا لگتی تو چکنی ہوتیں۔ ‘‘
’’ایک بات پوچھوں بابا؟‘‘ اس نے ہاتھوں میں تیل چپچپایا۔
’’پوچھ نا۔ ایسی بے چاری کیوں بن جاتی ہے؟‘‘
’’تیرے گھٹنے کا درد کیسا ہے؟‘‘
’’یہی پوچھنا تھا تجھے؟‘‘ بابا مسکرا دیتا ہے۔
’’بتی میں تیل ڈال دے۔ تیرا من بھی بہت اشانت رہتا ہے۔ یہ اچھا نہیں ہے۔ بول کیا پوچھ رہی تھی؟‘‘
وہ چپ رہتی ہے۔ ہاتھ رگڑتی رہتی ہے اس کے گھٹنے پر۔
’’سنتی نہیں ۔ تیل ڈال دے بتی میں۔ ‘‘
تب بھی وہ چپ رہتی ہے۔
’’تیرے بچے تجھے یاد نہیں آتے کیا۔ کیا ایک جھلک دیکھنے کا من نہیں کرتا انہیں؟‘‘
’’کرتا ہے۔ پر یہ تو کیوں پوچھ رہی ہے؟ تو نے تو ابھی بچے نہیں جنے نا۔ ابھی تو تیری شادی بھی نہیں ہوئی۔ پر میں سب جانتا ہوں۔ دوسری ٹانگ لے۔ ایک ہی پر رگڑتی رہے گی کیا؟‘‘
بابا کی آنکھیں دیے کی روشنی میں جاگ رہی تھیں۔ وہ اوپر چھت کو دیکھ رہا تھا ۔ ’’بچے ہوئے تو ارمان جگا کہ مجھے بابا کہیں گے اور میری پتنی کو اماں۔ پر ان کی ماں نے انہیں کچھ اور ہی کہنا سکھایا۔ تو اس رکشہ والے کے بچے کی ماں بنے گی۔ اس کے ساتھ رہنے کو من کرتا ہے تیرا؟‘‘
’’بابا تو بہت بولنے لگا ہے۔ کم بولا کر۔ تیرے جیسے کو کم ہی بولنا چاہئے۔‘‘
’’کیوں؟ میری زبان بند کر دینا چاہتی ہے؟ یہی تو جیون ہے۔ جب تک یہ چلتی ہے، آدمی جیتا ہے۔ تو مجھے مرا ہوا سمجھنے لگی ہے کیا؟ مجھے بولنے دے۔ کچھ زیادہ بول دوں تو سن لیا کر، سہہ لیا کر، اتے سے تیرا کچھ چلا نہیں جائے گا۔ زندہ آدمی ہمیشہ حدوں کو توڑتا ہے۔ تالاب کے لیے حد ہوتی ہے، ندی کے لیے نہیں۔ انسان کو طے کرنا پڑتا ہے کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ لا تھوڑا پانی پلا دے۔ ‘‘
’’سچ کہتا ہوں۔ تیری زبان بہت پھسلنے لگی ہے۔ اس پر تیل کم لگایا کر۔ زہر اتنی آسانی سے نہیں ملتا، اور مل بھی جائے تو اتنی آسانی سے اسے کوئی کھاتا نہیں۔ بولتے ہوئے تیری آنکھوں میں ذرا بھی لاج نہیں اترتی؟ دیکھ رہا ہوں آج کل تیری حرکتیں۔ ‘‘
وہ چپ ہوتا ہے پھر بولتا ہے۔ ’’تو ایک کام کر…….‘‘
جواب میں اسے کچھ سنائی نہیں دیتا تو چڑھ جاتا ہے۔ ’’تو یہاں ہے یا نہیں؟‘‘
’’ہاں ہوں ہی۔ بول نا۔ ‘‘
’’ایسے مرے ہوئے کی طرح رہتی ہے۔ ہوتی ہے تو لگتا ہے، نہیں ہے۔ نہیں ہوتی ہے تو لگتا ہے کہ ہے۔ اچھا سن،مٹکے کا پانی بدل دے۔ کچھ کیا کر۔ ‘‘
انا اسے گھور کر دیکھتی ہے۔ اندر ہی اندر ابلتی ہے او ر چپ رہتی ہے۔
’’اس پپیتے کے گانچھ کا کیا ہوا۔ اسے دیکھتی بھالتی ہے یا نہیں؟‘‘
’’تو کیو ں نہیں دیکھتا، تو نے ہی تو لگایا تھا، اپنے ہاتھوں سے مٹی کھود کے۔ جب وہ انگلی بھر تھا۔ اب تو وہ کافی بڑا ہو گیا ہے۔ کبھی دیکھ لے نا اس بھوتنی کو ٹھریا سے نکل کر۔ بس چو کھٹ سے سٹے ہی تو ہے۔ یا اتا بھی نہیں چلا جاتا۔ جانگر میں گھن لگ گئی ہے کیا؟‘‘انا نے بھڑاس نکالی۔
’’کچھ بھی کہہ لے، پر مجھ سے نہیں دیکھا جاتا۔ انجام دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ہاں، اس معاملے میں میں بزدل ہوں، اورتو کہہ سکتی ہے لیکن مجھے ڈر لگتا ہے۔ ‘‘
بابا آنکھیں موند لیتا ہے اور گہری خاموشی چھا جاتی ہے۔
کچھ دیر گزر جانے کے بعد وہ آنکھیں کھولتا ہے۔
’’انجام کو دیکھنے سے جتنا میں ڈرتا ہوں اتنی ہی اس کائنات سے میں محبت بھی کرتا ہوں کہ محبت ہی واحد وجہ ہے پوری کائنات کی تخلیق کی۔ میں اس سے نفرت بھی کرتا ہوں کہ نفرت اور محبت میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہوتا۔ ‘‘
بابا کو لگتا ہے، اس کی باتیں کوئی نہیں سن رہا۔ وہ مڑ کر دیکھتا ہے۔ اناّ جا چکی ہے۔ ’باؤلی ‘ بول کر وہ چپ ہو جاتا ہے۔
دوسرے دن پاؤں کی آواز سے بابا انا کو پہچان جاتا ہے۔ وہ اس کی آہٹ کو جانتا ہے۔ وہ آتی ہے تو اس کمرے میں جہاں وہ رہتا ہے، اس میں ہوا بھر جاتی ہے اور روشنی بھی۔ تب وہ کہتا ہے۔
’’ کل ناراض ہو کر چلی گئی تھی۔ مجھ سے ناراض نہ ہوا کر۔ تیرے سوا میرا کوئی ہے کیا؟‘‘
’’جھوٹ مت بولا کر۔ میں جانتی ہوں تیرے سگے والے ہیں، شاید بڑے بڑے بابو ہیں۔ پر تیرے پاس آنا نہیں چاہتے۔ جا کر دیکھ لے نا ایک نظر ان کو۔ کیسے شہری بابو دکھتے ہوں گے، اجلے اجلے۔ ‘‘
’’باؤلی، کس کی بات کر رہی ہے۔ میرا سگاکوئی نہیں۔ میں سب جانتا ہوں ۔ تو مجھے حیران کرنا چاہتی ہے۔ ‘‘
’’نہیں رے، وہ تیرے بیٹے ہیں۔ لوگ تو یہی کہتے ہیں۔ ‘‘
بابا اس کی باتوں کا جواب نہیں دیتا۔ کھلی آنکھوں کو چھت میں گاڑ ے رہتا ہے۔ پھر وہ ہاتھوں کو چھت کی طرف لے جا کر کچھ تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ انا اس کی اس حرکت سے ڈر جاتی ہے۔
’’ایسا نہ کرو بابا۔ وہاں کچھ بھی نہیں۔ ‘‘
’’جانتا ہوں۔ لیکن تو ڈرتی کیوں ہے، میں ابھی زندہ ہوں۔ ‘‘
’’لیکن تمہاری بیوی؟‘‘
’’ہاں وہ اب زندہ نہیں رہی۔ میرے بیٹے مجھے اسی لیے مجرم سمجھتے ہیں۔ میں نے اس کا قتل کر دیا تھا۔ میرے بیٹے سمجھتے ہیں، وہ میری بیوی کی مرضی سے پیدا نہیں ہوئے۔ انہیں زبردستی پیدا کیا گیا ہے، اور وہ میں نے کیا ہے اپنی بیوی کے ساتھ زنا کر کے۔ ان کا خیال ہے کہ میں مسلسل پندرہ سالوں تک ان کی ماں کے ساتھ زنا کرتا رہا ہوں۔ ‘‘
وہ ذرا دیر کے لیے چپ ہوا۔ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا، اس کے اندر آڑی ترچھی لکیریں کھنچ رہی ہیں۔ وہ خلاء میں گھورتا رہا۔ ’’میں اپنی بیوی کو پسند نہیں تھا۔ جس چیز کی تلاش تھی اسے، وہ میرے اندر کہیں،کسی کونے میں نہ تھی۔ وہ اپنے گھر والوں کی مرضی کی بھینٹ چڑھی ایک مورت تھی۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کر سکتی تھی، لیکن دنیا گواہ ہے، میں اس سے محبت کرتا تھا، جیسے مجھے کرنا چاہئے تھا، اسی لیے میں نے اس کا قتل کر دیا۔
لیکن میرے بیٹے کچھ نہیں جانتے۔ وہ کچھ نہیں سمجھتے۔ وہ مجھ سے نفرت کرتے ہیں لیکن نفرت کو نہیں جانتے۔ وہ محبت کو بھی نہیں جانتے، جب کہ یہ دونوں لافانی موضوعات ہیں۔ ہاں محبت کو امتیازی مقام حاصل ہے۔ یہ بنیادی احساس اور ضرورت ہے۔ اس کی ڈور جب چھوٹتی ہے تب انسان بے چین ہوتا ہے، وحشی بنتا ہے۔ رغبت اس بنیادی احساس کا اثر ہے۔ ملن اس کا عمل اور تخلیق اس کا انجام۔ محبت تخلیق سبب ہے۔ ‘‘
انا ٹکر ٹکر بابا کو دیکھتی رہتی ہے۔ بابا پرسکون لگ رہا تھا۔ رہ رہ کر اس کے چہرے کی مہین طنابوں میں لرزش ہو رہی تھی۔
’’لیکن میرے بیٹے نہیں جانتے کہ ان کی ماں میرے ساتھ زنا کرتی تھی۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتی تھی۔ اس طرح وہ مجھ سے انتقام لیا کرتی تھی۔ مجھے اس کا انتقام بھی پسند تھا کہ محبت میں اسیر کسی سے صحبت کی جائے یا نفرت میں زنا، انجام تخلیق کی صورت میں ہی سامنے آئے گا۔ پھر دونوں میں فرق کہاں۔ کوئی بنیادی فرق نہیں۔
لیکن میں نے کبھی انجام کی فکر نہیں کی، عمل میں یقین کیا۔ جب وہ بیمار رہا کرتی، میں اس کی دیکھ ریکھ کیا کرتا۔ اس کا گو موت کرتے مجھے کبھی گھن نہیں آئی۔ لیکن وہ شدید تکلیف میں جیا کرتی۔ مجھ سے مس کی تکلیف دیکھی نہ جاتی۔ ایک لمبا سفر ہم نے ایک ساتھ محبت اور نفرت کے بیچ طے کیا تھا۔ وہ تھک چکی تھی اور تھکتی جا رہی تھی۔ ان دنوں مجھے لگا تھا، وہ اپنے اندر برسوں لڑتی رہی ہے۔
ایک دن اس نے بہت اچھے سے مجھے اپنے پاس بلایا۔ مجھے غور سے دیکھا۔ دیکھتی رہی بہت دیر تک اور روتی رہی۔ پھر اس نے کہا۔ ’’مجھے مار دو، مجھ سے اور تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔ ‘‘ سچ مچ وہ بہت تکلیف میں تھی۔ اچانک مجھے لگا میں اس سے بہت، بہت محبت کرتا ہوں، اور تب میں نے اس کا قتل کر دیا۔ اسے اس کی تکلیف سے نجات مل گئی۔ اسے آرام مل گیا، اور میں اپنے بیٹوں کی نگاہوں میں مجرم، ان کی ماں کا قاتل بن گیا۔ لیکن میرے بیٹوں نے ہمیشہ صداقت سے چشم پوشی کی ہے۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے۔
بنیاد کے بنا کوئی شے نہیں ٹک سکتی، یہ اصول ہے، لیکن پوری کائنات بنا کسی بنیاد کے ہوا میں ٹکی ہے، یہ قدرت کا خاص اصول ہے۔ کیا اس صداقت سے انکار ممکن ہے، اور کیا ایسا ہونا چاہئے؟‘‘
انا جانے کے لیے اٹھی۔ ’’تیرے بیٹے یہاں آئے ہیں۔ وہ تجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ‘‘
بابا کو حیرت نہیں ہوئی ۔ جیسے اس نے انا کی آواز سنی ہی نہ ہو۔ وہ چپ پڑا رہا۔ صبح بابا کے دروازے پر بھیڑ جمع تھی۔ بھیڑ میں اس کے بیٹے تھے اور انا بھی۔ اندر بابا گہری، بہت گہری نیند سو رہا تھا۔ کسی کو علم نہیں تھا کہ رات بابا نے کوٹھری سے باہر نکل کر پپیتے کے گانچھ کو نظر بھر کے دیکھا تھا اور اس کی جڑوں میں پانی ڈالا تھا۔ اس بات کو صرف انا سمجھ رہی تھی۔
۔ ایوان اردو۔ دہلی، مارچ ۱۹۹۸ء
۔ بادبان۔ پاکستان، شمارہ۶
۔ روزنامہ ہندوستان (ہندی) پٹنہ
٭٭٭
بوڑھے بھی تنگ کرتے ہیں
’شرما وِلا‘ میں رہنے والے ایک ایک فرد کا چہرہ سوال بنا ہوا تھا۔
اے پی شر ما… ملازمت سے سبک دوش ہو چکے انردھ پرساد شرما شام پانچ بجے اِوننگ واک کیلئے گھر سے نکلے تھے، اور ابھی رات کے دس بجے تک واپس نہیں لوٹے تھے۔ دو بیٹوں بڑے اور چھوٹے، دو بہوؤں بڑی اور چھو ٹی اور سو نو نام کے ایک پوتا والے اے پی شرما کا یوں تو یہ ان کی اپنی خاص طرز زندگی کا ایک حصہ تھا لیکن تشویش والی بات یہ تھی کہ اس ہاڑ کپا دینے والی سردی میں اے پی شرما یعنی کہ ڈیڈ اپنا اوور کوٹ اور ہیٹ ساتھ لے جانا بھول گؤ تھے۔ اس کے بنا انہیں سردی لگ جائے گی، سانس کی پریشانی بڑھ جائے گی اور’ شرما وِلا‘ کی اینٹیں ہل جائیں گی۔
بڑے دو بار احمد بھائی کی چائے دکان کا چکّر لگا آیا تھا۔ اکثر بیٹھا کرتے ہیں وہاں۔ ٹیکسی ڈرائیوروں کا اڈا ہے۔ خوب چھنتی ہے ان کے ساتھ بڑھؤ کی۔ کتنی بار منع کیا ہے، مت بیٹھا کریں وہاں… کیسے بیٹھ لیتے ہیں، ماں کا لونڑا… بین کا لونڑا کرنے والوں کے ساتھ… پر کہاں ماننے والے۔ بس ایک ہی جواب، دخل مت دیا کرو میرے معاملوں میں…ٹھیک ہے بھئی، نہیں دیتے دخل…کرو جو جی میں آئے…
لیکن آج تو وہاں بھی نہیں تھے۔ چھوٹے نے ان کے سبھی ملنے والوں، جو انگلیوں کی گنتی بھر تھے، کو فون لگا کر پوچھ لیا تھا۔ کہیں نہیں تھے، کسی کے پاس نہیں تھے۔
ٹی وی پر موسم کا حال بتانے والی اس لڑکی نے جو، جیسے ناک سے بولا کرتی تھی، جو بالکل پسند نہیں آتی تھی ڈیڈ کو، ان کے مطابق ’ممیاتے‘ ہوئے بتایا تھا، ٹیمپریچر پانچ ڈگری۔ کہنے پر یقین ہی نہیں کریں گے۔ نہیں کریں گے کہ انہیں اس کا ’ممیانا‘ پسند نہیں۔ ار…رے…کسی کی ممیانے جیسی آواز کیول ہونے سے حقیقت تھوڑے بدل جائیگی۔ درجۂ حرارت پانچ ڈگری ہے تو وہ پانچ ڈگری بتائے گی۔ اس کی آواز سے کیا لینا دینا؟لینا دینا تو پانچ ڈگری کے ٹیمپریچر سے ہے۔ اب اسے وہ ممیا کر بتائے یا ہنہنا کر بتائے۔ پچھلے پانچ سالوں کا رکارڈ ٹوٹا ہے۔ ایسا کہرا اور سردی کہ گلی کے کتّے کتّیاں بھی دبکے پڑے ہیں کونے کھدروں میں۔ بھئی کیا کریں…دبکیں نہیں تو…کچھ ہو ہوا گیا تو انہیں کون لے جانے والا ڈاکٹر حکیم کے پاس۔ یہاں تو یہ ہے کہ…ہم ہیں پڑے… ایک ایک فرد…ایک ایک پیر پر کھڑا…یہ ڈاکٹر، وہ ڈاکٹر کرنے والا…سانس کے مریض کے لیے ٹھنڈک، دھول، دھواں تو ویسے بھی زہر ہے، لیکن کون سمجھائے… سمجھایا تو سونو کو جاتا ہے…بچیّ کو…ناتی، پوتا والے کو سمجھانا، کیا خود کو بے وقوف بنانے جیسا نہیں ہے۔ اور اگر کوئی سمجھانے کی جرأت کر بھی لے تو چھلاّ بنا کر سگریٹ کا دھواں ایسے اس کے منہ پر اگلیں گے جیسے…کر لو، جو کرنا ہے…
بڑھؤ نے ایکدم سے ناک میں دم کر دیا ہے…
بڑی کئی بار جھانک آئی تھی چینل سے باہر۔ سونو کو بھیجا کئی بار مفلر ٹفلر باندھ کر گلی کے موڑ پر، آنکھیں گڑا کر دیکھنے کے لیے کہرے میں۔ اوپر سے شال بھی لپیٹا۔ چو رہا ہے ٹپ ٹپ۔ جیسے اوس نہیں، پگھلے ہوے اولوں کی بارش ہو رہی ہو۔
چھو ٹی، شام سے ہی جو کھڑکی سے لگی کھڑی تھی، تو ہلی نہیں تھی۔ ابھی پچھلے سال آئی تھی وہ۔ اتنے دنوں میں ہی پہچان گئی تھی ڈیڈ کی آہٹ کو۔ ہر آہٹ پر کان لگائے کھڑی تھی۔
بڑے سے رہا نہیں گیا۔ وِنڈ چیٹر کی ٹوپی باندھتا پھر نکلا بے چین من کو شانت کرنے۔ دل میں اندیشہ…سردیوں میں اینٹھ کر کہیں گرے پڑے نہ ہوں…بڑھاپے کی ہڈیاں…کہاں جھیل پائیں گی ہڈیوں میں چھید کر دینے والی کنکنی… اور من میں کھیج بھی…کیا ضرورت تھی ایسی سردی میں باہر جانے کی… اور وہ بھی بنا گرم کپڑوں کے… سچ، بڑھؤ نے ایکدم سے…کیا، کوئی اس طرح بھی پریشان کرتا ہے…اور یہ اوس…چہرہ بھیگ رہا ہے، جیسے اوس کی شکل میں پھوہاریں پڑ رہی ہیں۔
روزانہ کا معمول ہے۔ مارننگ واک اور اِوننگ واک۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی بیماریاں ہیں یہ سب۔ ریل میں تھے تو اٹارسی ممبئی سفر کرتے رہے۔ وہ جو پھرکی بندھی پیروں میں تو آج تک بندھی ہے۔ کتنی بار کہا، تھک گئے ہیں…آرام سے رہیے…محلّے کے اور بوڑھوں کو دیکھئے…آرام کر رہے ہیں…ان سے کسی کو پریشانی نہیں ہوتی…شام کو سب پارک میں جمع ہوتے ہیں…لیکن انہیں تو دنیا کے سبھی بوڑھوں سے چڑھ ہے… کیسی حقارت سے کہتے ہیں… بلڈی اولڈ مین… ہاں بھئی، اولڈ مین تو ہیں…آپ بھی تو کوئی جوان نہیں ہو…سانس کے مریض ہیں…پانچ بجے سے جو نکلے ہیں تو اس سردی میں ابھی تک کہاں ہیں، کچھ اتا پتا نہیں ہے…
گلی کا موڑ مڑتے ہی چوراہے کی طرف جانے والی سڑک تھی۔ گھنگھور کہرے کی وجہہ سے زیادہ دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی، بس کچھ دور تک دھواں بھرے پائپ ہول سی لگ رہی تھی۔
چوراہے پر دھند کے پیراہن میں لپٹے ایک ٹھیلے کے پاس ڈیڈ دہی بڑے کھاتے ہوئے نظر آ گئے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر تو بڑے کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین سرک گئی تھی۔
’ڈیڈ…یہ کیا کر رہے ہیں…؟‘ بے انتہا سردی اور بے انتہا خفگی… اس کے منہ سے بھک بھک بھاپ کے گولے نکلے۔
’دہی بڑے کھا رہا ہوں…‘ ڈیڈ پرسکون تھے۔ ٹھیلے والے سے اور مرچی ڈلوا رہے تھے۔
’اس موسم میں…؟‘ وہ اندر سے تقریباً اپنی پوری قوت کے ساتھ چیخ رہا تھا۔
’دہی بڑوں کا کوئی موسم ہوتا ہے…؟‘ ذرا رکے تھے ڈیڈ، پہلے کی طرح پرسکون لہجہ میں بولے۔ ’دراصل یہاں تم دہی بڑا اور موسم کی بات نہیں کر رہے، تم ان دونوں کے چشمہ سے میری عمر کو دیکھ رہے ہو… اکثر دیکھتے ہو… اکثر لوگ دیکھتے ہیں…برخوردار…جیون کا پہیا عمر سے نہیں من کی طاقت سے چلتا ہے…‘ ڈیڈ نے لکڑی کا چمچ دونے کے کونے کونے میں گھمایا تھا۔ ’پر تم‘ اتنی سردی میں، اتنی رات کو، کہاں جا رہے ہو…؟‘
حالات بدل گئے تھے۔ جملے کو توڑ توڑ کر ڈیڈ نے جو الٹ بانسی کی تھی اس سے اس کا ذہن ماؤف ہو گیا تھا۔ ’کہاں جا رہا ہوں…؟‘ کہاں تو اسے اتنی دیر تک ان کے غائب رہنے کی وجہہ پوچھنی تھی اور پوچھ کر اپنی کھیج کو شانت کرنا تھا، کہاں اب اسے اپنی صفائی سوچنی پڑ رہی تھی۔ اس مضحکہ خیز، بے بس حالات کیلئے وہ قطعی تیار نہیں تھا۔
’میں تو آپ کو دیکھنے نکلا تھا…‘
’مجھے دیکھنے…کیا میں بچہّ ہوں… سونو ہوں… کیا میں اپنی دیکھ بھال بھی نہیں کر سکتا…دیکھومسٹر…‘
’اوکے…اوکے…‘ سپردگی کا تاثر۔ ’چل آ، گھر چلتے ہیں…‘ زبردست صبرواستقلال کا ثبوت دیتے ہوئے اس نے کہا۔ اس کی خواہش ہو رہی تھی، زور زور سے چیخے، چیخنے لگے۔
وہی ہوا تھا۔ ڈیڈ چھینکنے لگے تھے۔ چھینکنا شروع کرتے تو چھینکوں کی لڑی جھڑی لگا دیتے۔ بڑی نے جلدی جلدی جوشاندہ اونٹا، چھو ٹی لے کر کمرے میں گئی۔ سوچا، کمبل ومبل اوڑھ کر لیٹے ہوں گے ڈیڈ۔ لیکن ڈیڈ تو…کمپیوٹر پر فیس بک کھلا ہوا تھا۔ تھوڑا جھکے، مانیٹر پر آنکھیں گڑائے، ڈیڈ نیٹ سرفنگ میں مصروف تھے۔ جوشاندہ کا پیالہ ماؤس کے پاس رکھتے ہوئے وہ کن انکھیوں سے دیکھنے لگی۔ خوبصورت گھنے بالوں والی تھی وہ، جسکی پروفائل ڈیڈ غور سے پڑھ رہے تھے۔ اس نے ہڑبڑا کر پیالہ رکھ دیا اور جانے کے لیے مڑ گئی ۔
’رکو…‘ ڈیڈ کی رعب دار آواز گونجتے ہی اس کے پیر زمین سے چپک گئے، کھڑی ہو کر ان کی آواز کی اگلی کڑی کا انتظار کرنے لگی۔
’برکھا اوستھی… میری نئی فرینڈ…گڑگاؤں کی ہے…عمر ۳۱ سال…انٹیرئیر ڈزائنر ہے۔ جانتی ہو، کل میں نے اسے فرینڈ بننے کے لیے انویٹیشن بھیجا تھا… میرا انوٹیشن قبول کر اس نے مجھے ’ہاے‘ کہا ہے…‘ ڈیڈ مچل اٹھے تھے۔ ’…اور اسی کے ساتھ میرے نائنٹی نایئن فرینڈ ہو گئے…‘ ان کا جوش اور ولولہ دیکھنے کے قابل تھا۔
ڈیڈ مانیٹر پر کچھ اور جھک گئے تھے ۔ ’ار…رے…یہ کیا…؟‘ ان کا جوش مزید بڑھ گیا تھا۔
برکھا آن لائن تھی۔ ڈیڈ کو چیٹ کی دعوت دے رہی تھی۔
’بیٹھو بیٹھو…چیٹ کرتے ہیں…‘ ڈیڈ نے چھو ٹی کا ہاتھ پکڑ کر پاس میں بیٹھا لیا تھا۔
’ہائے…آپ کون ہیں؟‘ ادھر سے برکھا پوچھ رہی تھی۔
’میں اے پی شرما …انردھ پرساد شرما…‘ ڈیڈ میسیج باکس میں ٹائپ کرنے لگے۔ ’آپ نے میرا پروفائل دیکھا ہو گا…ریٹائرڈ ریلوے ملازم ہوں…دو بیٹے ہیں …دہلی میں کچھ کچھ کرتے ہیں… دونوں بہویں تعلیم یافتہ اور مہذب ہیں… آپ کو دھرتی پر جنت اگر دیکھنا ہے تو میں آپ کو ’شرما ولا‘ آنے کی دعوت دیتا ہوں…‘
’رومانس…؟‘
ڈیڈ پھڑک اٹھے تھے۔ چھو ٹی کے کان کے پاس منہ لے جا کر پھسپھسائے، ’رومانس کے بارے میں پوچھ رہی ہے…‘ اس قدر دھیمی آواز کہ برکھا سن نہ لے۔ ’بتاؤ…بتاؤ کیا لکھوں اسے…؟‘
چھو ٹی اکبکا گئی ۔ ڈیڈ کا منہ دیکھنے لگی ۔ کیا کہے، اسے کچھ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ ذرا دیر انتظار کے بعد ڈیڈ خود ہی جواب ٹائپ کرنے لگے تھے۔
’میرے خیال سے رومانس کوئی خاص واقعہ یا عمل نہیں ہوتا…یہ ایک نظریہ ہے…مثبت بھی…منفی بھی… یہ آپ پر انحصار کرتا ہے کہ آپ زندگی میں مثبت ہیں یا منفی… زندگی میں ملنے والا ہر درد…ہر خوشی…ہر جیت…ہر ہار، عمر کا ہر پڑاؤ… پوری کی پوری زندگی…پیدا ہونے سے لے کر موت تک کا پورا سفر، رومانس ہے… پوری زندگی ہی رومانس ہے… اس کی وسعت کو کسی دائرے میں محدود کرنے کے حق میں میں نہیں…اسے اس کے حقیقی شکل…‘
چھو ٹی کو نیند آ رہی تھی۔ بار بار منہ پھاڑ کر جمائی لے رہی تھی۔ نہ جانے ڈیڈ کا یہ دوستانہ کب تک چلنے والا تھا۔ دروازہ پر آ کر چھوٹے کئی بار اشارہ کر گیا تھا، اپنا سر پیٹ گیا تھا۔ ڈیڈ بھی جو ہیں نا…خود تو اس عمر میں…آج تو بری طرح پھنس گئی تھی وہ۔ اس نے قصداً منہ کو پورا پھیلا کر جمائی لی۔ ’ڈیڈ…بارہ بج گئے…‘
ڈیڈ کا ذہن وقت کی جانب مبذول ہوا۔ ’ارے ہاں‘ جاؤ جاؤ، سو جاؤ…‘ ڈیڈ نے ایسے کہا تھا جیسے اسے جانے کی اجازت دیکر اس پر بڑا سا احسان کیا ہو۔
رات میں سردی بارش بن کر برس گئی تھی۔ صبح سب کی آنکھیں کھلیں تو تیز بھیگی ہوئی، کنکنی ہوا چل رہی تھی۔ گھر آنگن، گلی محلہ کچ کچ ہو رہا تھا۔ ڈیڈ کے کمرے میں دیکھا گیا تو ڈیڈ نہیں تھے۔ مارننگ واک پر نکل گئے تھے۔ بڑے کا دماغ گرم ہو گیا تھا۔
’بتاؤ تو…پوری رات کھائیں کھائیں کیے ہیں…اور اتنے خراب موسم میں مارننگ واک سوجھ رہی ہے بڑھؤ کو…میں تو کہتا ہوں، آج ہمیں انہیں اچھی طرح سمجھانا ہی ہو گا…دیکھو چھوٹے…تمہیں بھی اگر چین سے رہنا ہے تو…ہمیں منہ کھولنا ہی ہو گا…ارے یار، اب تو حد ہو گئی …اس طرح بھی کوئی …‘
جوتوں کی دھمک سنائی دی تھی۔ یقیناً ڈیڈ ہوں گے۔ ڈیڈ کے جوتوں کے علاوہ، ایسی دھمک کوئی اور پیدا کر ہی نہیں سکتا تھا۔ سب کے کان کھڑے ہو گئے تھے۔ آٹا چالتی بڑی، لوکی کترتی چھو ٹی، ڈاڑھی بناتا بڑے، اِستری کرتا چھوٹے اور دانت مانجھتا سونو ۔ لمحہ بھر کے لیے سب کے ہاتھ جہاں تھے، وہیں رک گئے تھے۔ سب کی آنکھیں ایک دوسرے سے الجھ گئی تھیں۔ ’کھڑا کیا ہے…جا کر دیکھ نا…‘ بڑی نے منہ سے کم آنکھوں سے زیادہ کہا تھا سونو سے۔ وہ گیا، آیا۔ ہاں میں گردن ہلائی۔ لوکی کترنا چھوڑ چھو ٹی نے برآمدہ میں جھانکا تھا۔ چینل کے باہر ڈیڈ پیر پٹک کر جوتوں میں لگی کیچڑ جھاڑ رہے تھے۔
’اوف‘ اتنی کیچڑ… پھر دلی میں رہنے کا کیا فائدہ…گاؤں ہی ٹھیک ہے…‘
محض اتنا ہی سن پائی تھی وہ۔ کلیجہ دھک…اب گاؤں جانا پڑے گا…چینل کھول برآمدے میں آ کر ڈیڈ جوتا کھولنے لگے تھے۔ جھکاجھک سفید جوتا کیچڑ سے گدڑی بن گیا تھا۔ اس درمیان چھوٹی سے بڑی تک۔ بڑی سے بڑے تک، بڑے سے چھوٹے تک اور چھوٹے سے سونو تک پھس پھس کرتی لیکن تیز رفتار سے بات پہنچ گئ تھی، اب گاؤں جانا پڑے گا۔ کیوں رات میں بوندا باندی ہو گئی…کیوں ڈیڈ اس موسم میں بھی ٹہلنے نکل گئے…کیوں ان کے جوتوں میں کیچڑ لگ گئی…کیوں…کیوں…اچانک نہ جانے کتنے سوال سبھی کے دلوں کو کچوٹنے لگے تھے۔
’بڑے…‘ یہ ڈیڈ کی آواز تھی۔ ہو گئی چھٹی ۔ اب باندھو بوریا بستر…
’گاؤں جانا ہے ڈیڈ…؟‘سامنے حاضر ہوتے ہی بڑے نے پوچھا تھا۔
’گاؤں…‘ڈیڈ اکھڑ گئے تھے۔ گاؤں جا کر کیا کرو گے تم لوگ؟ گاؤں میں تم لوگوں کا گزارا ہو گا؟چلے ہو گاؤں جانے…تم تو اتنا کرو کہ میونسپل کمشنر کے نام ایک درخواست لکھو… وارڈ میں اتنی گندگی ہو گئی ہے کہ… آخر ہم ٹیکس کس بات کا دیتے ہیں…؟‘
سبزی چھونکتی بڑی، ڈیڈ کا جوتا صاف کرتا چھوٹے، اور جوتے کی کیچڑ سے کچ کچ ہو گئی فرش پر پوچھا لگاتی چھو ٹی کی ٹھہری ہوئی سانسیں چلنے لگیں۔ سب نے بیک وقت ایک ساتھ راحت کی سانس کھینچی۔
ڈیڈ نے اپنے کمرے میں فولڈنگ ڈال ایک اور بستر لگانے کا حکم دیا تھا۔ گاؤں سے گجا دھر چاچا آرہے تھے۔ ان کے آنے کی خبر پا کر ڈیڈ میں بے انتہا جوش بھر گیا تھا۔ یوں تو گاؤں سے اکثر کوئی نہ کوئی آتا ہی رہتا تھا۔ ڈیڈ نے پورے گاؤں والوں سے کہہ رکھا تھا، جب بھی کسی کو، کسی کام سے دہلی آنا پڑے، اسے’ شرما وِلا‘ کو چھوڑ کر کہیں اور رکنے ٹھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اوپن ٹنڈر کی طرح اس کھلی دعوت کا فائدہ گاؤں والے خوب اٹھاتے تھے۔ کوئی کام کی تلاش میں، کوئی علاج کرانے کی غرض سے، کوئی قطب مینار،لال قلعۂ دیکھنے…خواہ جس کسی غرض سے دہلی آتا ہو،ٹھرتا تھا ’شرما ولا‘ میں ہی۔ اور جتنے دن تک ٹھرتا تھا، اس کی خاطر توجہ میں ’شرما ولا‘ کا ایک ایک فرد لگا رہتا تھا۔ ان کے کھانے پینے سے لے کر ہگنے موتنے تک پر توجہ دینی پڑتی تھی۔
گجا دھر چاچا کو لے کر ڈیڈ زیادہ حساس تھے۔ ڈیڈ کی دانت کاٹی روٹی کھانے والے تھے۔ بچپن میں، ڈیڈ کے ساتھ اونچے اونچے، سفید چکنے پیڑوں پر چڑھ کر ؤیتا اور کھیتوں میں سے بھٹا چرانے والے صرف ایک وہی بچے ہوئے تھے۔ ڈیڈ آج بھی ان کئتوں کی سہرن پیدا کر دینے والی ترشی اور بھنے ہوئے بھٹوں کی نرم نرم گرمی اپنے دانتوں کی جڑوں میں محسوس کیا کرتے تھے۔ باڑھ کا پانی اترنے کے بعد ندی میں پیلا ٹینگرا اور کالا کالا کینکڑا پکڑنے میں جو پورا کا پورا دن گذرتا تھا، اس کا بکھان کرتے ہوئے ڈیڈ اتنا جذباتی ہو اٹھتے تھے کہ آنکھوں کی کوروں سے پانی رسنے لگتا تھا۔
گجا دھر چاچا دہلی آرہے تھے۔ وہی گجا دھر چاچا، جو کبھی ٹرین پر نہیں چڑھے تھے۔ چڑھتے ہی نہیں تھے۔ کہتے، ’دو اِنچ کی پٹری پر چلے لے ٹرینوا…ایکر کا بھروسہ…‘ کہیں آنا جانا ہوتا تو بس وس سے ہی، ورنہ نہیں۔ پہلی بار ڈیڈ نے انہیں ٹانگ ٹونگ کر طوفان اکسپریس میں بیٹھایا تھا اور دلی لے کر آئے تھے۔ گجا دھر چاچا پورا سفر دم روکے ہوئے تھے۔ جب سہی سلامت دلی پہنچ گئے تو ایسا تاثر ان کے چہرے پر تھا جیسے غضب ہو گیا ہو۔ لیکن چسکا بھی لگ گیا گجا دھر چاچا کو۔ جب جی میں آتا، من کرتا ’تو پھنوا‘ پر چڑھ جاتے۔ پھر ڈیڈ اور گجا دھر چاچا، دونوں جب ملتے تو لگتا دنیا ان کی ٹھوکروں پر آ گئ ہو۔ پو را پورا دن قطب مینار، لال قلعۂ، جامع مسجد، ہمایوں کا مقبرہ… نہ جانے کہاں کہاں گھمّکڑی کرتے، چوکڑی بھرتے رہتے۔ آنے سے قبل گجا دھر چاچا جب مطلع کرتے تو ڈیڈ کہتے’ ستوا لیتے اۂا،ایہیجا لِٹّی چوکھالگاوے کے…‘
گجا دھر چاچا ستو لے کر آتے تھے اور ڈیڈ پورے گھر کو ناچ نچا کر رکھ دیتے تھے۔ نہ جانے کہاں کہاں سے لِٹّی چوکھا کے لیے کنڈے کا انتظام کرنا پڑتا تھا۔
گجا دھر چاچا جب تک رہتے، ڈیڈ ایکدم سے بدلے ہوئے رہتے۔ ان کا ایک ایک پل گجا دھر چاچا کے نام منسوب ہوتا۔ دو دو بجے رات تک اور کبھی کبھی تو صبح ہو جایا کرتی، لیکن گاؤں اور گاؤں کے لوگوں کی باتیں ختم نہیں ہوتی تھیں۔ گاؤں کی سڑک پکی ہو گئی ہے…مکھیا کے چناؤ میں گاؤں دو پھانک ہو گیا ہے… دلِتوں نے غیر مزروعہ زمین کے پٹا کے لیے بلاک کا گھیراؤ کیا… نہ جانے کتنی باتیں، کوئی اور چھور نہیں ہوتی تھی۔ اور آخر میں بات پھر وہیں آ جاتی تھی، تڑ بنّے میں کھجور کے پیڑوں پر لٹکتی ہوئی تاڑی کی لبنی…ادھواڑ سے اس پر نشانہ لگانا…تیز پرویّا میں تاڑی کا چھر چھرا کر گِرنا اور اسے چلّو میں بھر کر سڑ سڑ پینا…
لیکن تھے تو ڈیڈ کے لنگوٹیا یار ہی۔ بہت ساری یکسانیت رکھتے تھے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا تھا، صبح صبح مِرانڈا کی دو لیٹری بوتل میں پانی بھرکر بس میں بیٹھا کر ان کو دور لے جانا۔ یہ ایک ایسا کام تھا کہ دن بھر طبیعت مچلاتی رہتی تھی۔ دراصل گجا دھر چاچا ٹائلٹ میں ’فریش‘ نہیں ہو پاتے تھے۔ انہیں بس کے ذریعۂ دور کھلے میں ’جھاڑا‘ کیلئے لے جانا پڑتا تھا۔ وہ کھلے میں ہی صبح کے معمول سے فارغ ہو پاتے تھے۔ ظاہر سی بات تھی، اس نیکی کے لیے اکثر چھوٹے ہی مہّیا ہوا کرتا تھا۔ خود کو ٹھیل ٹھال کر جاتا تھا، بھنبھناتا تھا، ’ایک کیا کم تھے جو یہ دوسرے بھی…‘
گجا دھر چاچا آئے تو گھر میں ہلچل بڑھ گئی۔ ’کاہو چھوٹکا ببوا…کاہو بڑکا ببوا…کا حال با تو ہر لوگن کے…‘ان کی زبان سن چھوٹی پورے منہ میں ساڑی کا پلّو ٹھونس ہنسی روکنے کی کوشش کرتی۔ سونو نقل اتارتا تو بڑی جھِڑکتی۔ بڑے بھی جھلاّتا۔ ڈیڈ جو ہیں نا…سوچنا چاہیے، گھر میں ایک بچہّ ہے…
سچاّئی یہ تھی کہ گھر میں اس وقت دو اور بچیّ تھے۔ رات کے بارہ بجے لوڈو کھیل رہے تھے۔ ڈیڈ نے پاسا پھینکا… چھّکا…ایک…دو…تین… چار…پانچ…اوؤر ہئی چھ… مار دینی… چل گھر میں گھس جا… گوٹی پٹ جانے سے گجا دھر چاچا کا منہ لٹک گیا تھا جبکہ ڈیڈ زور زور سے تالیاں پیٹ رہے تھے، ’اے…اے… گجوا… منھ دیکھ اپنا… کیئن لٹک گئل باہو…‘
اب باری گجا دھر چاچا کی تھی۔ پاساپھینکاتو چار آیا۔ ایک… دو… تین… اوؤر ہئی مرنی چار…اتفاّق سے ڈیڈ کی گوٹی بھی پٹ گئی۔ گجا دھر چاچا تو جیسے اچھلنے کودنے لگے۔ ’آہو بڑکا ببوا…آہو چھوٹکا ببوا…تنی شیشا لے آو ہو…بابو کے منھ دِکھاد…‘
بغل والے کمرے میں بڑے پھرکی کی طرح ناچ رہا تھا، ’یہ گھر ہے یا چڑیا گھر…؟ خود تو سوتے نہیں، دوسروں کا آرام بھی حرام کیے ہوئے ہیں…‘
نہیں رہا گیا اس سے۔ ڈیڈ کے کمرے میں پہنچا۔
’ڈیڈ…‘
دونوں حلق پھاڑ کر ہنس رہے تھے۔ ’اچھاّ ہوا تم آ گئے بڑے…‘ نہیں تھم رہی ہنسی کو تھامنے کی محض کوشش سی کرتے ہوئے ڈیڈ نے کہا، ’…دو کپ چائے کے لیے بڑی سے کہہ دو…اور تم، ابھی تک سوئے نہیں…؟تمہیں صبح کام پر نہیں جانا کیا؟‘ پھر ہنسی کا ابال۔ بڑے پھین کی طرح بہتا ہوا کمرے سے باہر نکلا، سارا غصہ بڑی پر نکلا،’انہیں چائے کیوں نہیں دے آتی…‘
بڑے کا منہ دیکھتے رہ جانے کے علاوہ بڑی کے پاس دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا۔
ایک ہفتہ رہنے کے بعد گجا دھر چاچا گاؤں لوٹ گئے تھے۔ پر ڈیڈ کے اندر نہ جانے کتنی توانائی بھر گئے تھے۔ اب انہیں موسم کی نرمی گرمی کی رتّی برابر بھی پروا نہیں رہ گئی تھی۔ ساری بندشوں، رکاوٹوں کو تہس نہس کر جس طرح بے لگام دریا بہتا ہے، اسی طرح ڈیڈ بہہ رہے تھے۔
اس دن بڑے کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ سگریٹ کی بو آ رہی تھی۔ اس نے نتھنوں کو سکوڑا، پھیلایا۔ سگریٹ کی بو ہی تھی۔ ڈیڈ کے کمرے سے آ رہی تھی۔ اسے سمجھتے دیر نہیں لگی، ڈیڈ سگریٹ پی رہے ہیں… دل ہی دل میں کچھ فیصلہ کر وہ ڈیڈ کے کمرے میں پہنچا۔
’ڈیڈ…‘ کمرے میں دھواں اور اس کی کسیلی گندھ بھری ہوئی تھی۔
ڈیڈ نے ضد بھری نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔
’ہم لوگ تنگ آ گئے ہیں ڈیڈ… آخر کیا چاہتے ہیں آپ…؟‘
’تم لوگ کیا چاہتے ہو…؟‘ ڈیڈ کی الٹ بانسی۔ لیکن بڑے مضطرب نہیں ہوا۔
’محلّے میں اور بھی بوڑھے ہیں…‘
’ہاں سچ مچ… وہ بوڑھے ہیں…‘
’ڈیڈ آپ…‘
’ٹھیک ہے…‘
اس رات سانس کی بیماری نے زور پکڑ لیا تھا۔ ڈیڈ پوری رات نہیں سو سکے۔ پوری رات ایک ایک فرد، ایک ایک پیر پر کھڑا رہا۔ بڑی تیل گرم کر کر کے مالش کرتی رہی، چھوٹی اِنہیلر کی پچکاری دیتی رہی، بڑے پیٹھ دباتا رہا،چھوٹے چھاتی سہلاتا رہا، سانس لینے میں کافی دشواری… سونو گہری سانسیں چھوڑتا رہا… پلنگ سے نیچے پیر لٹکائے، دونوں ہاتھوں کو بستر پر ٹکائے، اکھڑی اکھڑی سانسوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے رہے ڈیڈ…رات کے آخری پہر میں ڈیڈ کی آنکھ لگ گئی، پھر نہیں کھلی۔
اے پی شرما …انردھ پرساد شرما یعنی ڈیڈ نہیں رہے۔ نہیں رہے تو ’شرما ولا‘ میں بہت ساری حرکتیں بھی نہیں رہیں۔ ڈیڈ کے سبب ایک ایک کی، جو جسمانی اور ذہنی مصروفیت بنی رہتی تھی، اس سے ایک ایک کو نجات پانے جیسا احساس ہونے لگا۔ ایک ٹھیراؤ…سکون جیسا کچھ محسوس ہونے لگا۔ سر پرسے کوئی وزنی سی چیز ہٹ جانے سا لگنے لگا۔ ذہن کو آرام کا سا گمان ہونے لگا۔ پرسکون، آرام دہ صبح اور اسی طرح کی رات۔ بڑے اور بڑی، چھوٹے اور چھوٹی اپنے اپنے کاموں میں، اپنی اپنی مصروفیت میں…
اس دن… اس وقت… بڑی کچن سے نکلی، چھوٹی اپنے کمرے سے… بڑے چھت پر سے بھاگا، چھوٹے برآمدہ سے…
سب ایک ساتھ ڈیڈ کے کمرے میں تھے۔
ڈیڈ کی آواز سنائی دی تھی۔
بڑے، میرا ہیٹ کہاں ہے؟
چھوٹی، ایک کپ چائے دینا۔
بڑی، جوشاندہ کا کیا ہوا؟
چھوٹے، میرا جوتا صاف ہوا کہ نہیں؟
ڈیڈ کا بستر …ڈیڈ جس پر بیٹھے ہوتے تھے، خالی تھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ سب نے ایک دوسرے کو دیکھا، سب کی آنکھوں میں پانی بھرا ہوا تھا۔ بڑے دھم سے ڈیڈ کے بستر پر بیٹھ گیا۔ ہتھیلیوں سے چہرہ ڈھک پھپھک پڑا، ’بہت تنگ کرتے ہیں بڑھؤ… ‘
٭٭٭
مجھے بوڑھا ہونے سے بچاؤ
دسمبر کے کسی دن کی ڈھلتی عمر میں وہ ملا تھا۔
شام کی پیشانی سیندوریا ہو رہی تھی ۔ اس کے ساتھ دیسی نسل کا ایک چھوٹا سا کتا آگے پیچھے ہو رہا تھا۔ ان دونوں کے بیچ زیادہ دوری نہیں رہتی تھی۔ ان کو جوڑ نے والی بیلٹ بہت چھوٹی تھی۔ ایک یا ڈیڑھ میٹر کی۔
’’آپ کی ذراسی کوشش سے کسی اچھی نسل کا کتا تو آپ کو مل سکتا تھا؟‘‘
’’ہوں…‘‘ اس نے بیلٹ کھینچ کر کتے کو آگے جانے سے روکا تھا۔
’’ویسے یہ بھی پیارا ہے، سلم باڈی کا۔ رنگ سیاہ اچھا ہے اور اس کے کان تو کافی لمبے ہیں۔ ‘‘
’’آپ نے اس کی ایک خاصیت نوٹ نہیں کی …‘‘ اس نے ہاتھ لمبا کر کے کتے کو آگے جانے دیا۔
’’کیا؟‘‘
’’اس کی پیشانی پر بھورے رنگ کا جو داغ ہے وہ اس کے پورے سیاہ جسم پر بڑا چھا لگتا ہے۔ ‘‘
میں نے ذرا سا تیز چل کر کتے کی پیشانی کو دیکھا تھا، پھر مڑ کر اسے بھی۔
’’آپ نے اس کا کوئی نام تو رکھا ہو گا؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’دراصل یہ میری بہو کو پسند نہیں ہے۔ ‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس نے ایک بار میرے پوتے کو زخمی کر دیا تھا۔ ‘‘
’’آپ رہتے کہاں ہیں؟‘‘
وہ خاموش چلتا رہا تھا۔ گردن گھما کر اور پیشانی پر سلوٹیں ڈال کر ایک طرف دیکھا تھا۔ ’’ادھر ہی،یہ سڑک وہاں سے ادھر ہی جاتی ہے۔ ‘‘
پھر ہم لوگ خاموش چلنے لگے تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ بولا تھا۔
’’آپ جوان ہیں۔ آپ کو سردی کم لگتی ہو گی۔ ‘‘ شاید اس کے پاس بات کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ صرف اس لیے کرتا تھا کہ خاموشی کے غیر مہذب لمحات پاؤں نہ پساریں۔
’’اسے بھی سردی نہیں لگتی۔ ‘‘ اس نے اپنے کتے کی طرف اشارہ کیا تھا۔
’’سردی تو سب کو لگتی ہے۔ ‘‘
اس نے ہنستے ہوئے مجھے دیکھا تھا۔
’’تعجب ہے، آپ کو سردی لگتی ہے؟ جوان رگوں میں تو گرمی ہوتی ہے،آگ جیسی…‘‘
میں نے کچھ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے اس کا ساتھ دیا تھا اور اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا تھا۔ جلی ہوئی گندمی رنگت سے لگ رہا تھا کہ کبھی وہ گور ابھک بھک آگ رہا ہو گا۔ صاف اور شفاف آنکھوں میں موم کی طرح ہر وقت کچھ پگھلتا رہتا تھا۔ بال پیشانی سے دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے اور ایک دوسرے سے الجھے ہوئے تھے۔ اس طرح جیسے کانٹوں کے بجائے کاٹھ کی تیلی پر سوئٹر بننا سیکھنے والی گاؤں کی نئی نئی کسی لڑکی نے اون کو آپس میں الجھا دیا ہو۔ پھیلی ہوئی ناک کے سوراخوں میں سمائی ہوئی جھاڑو جیسی بہ ترتیب مونچھوں کو دیکھ کر چھینک آنے لگتی تھی۔
’’آں…ں چھی…‘‘
’’ارے ارے، آپ کو تو سچ مچ سردی لگ گئی۔ ‘‘ وہ کتے کو سنبھالتا ہوا پھر ہنسا تھا۔
’’آیئے، آپ کو گرم قہوہ پلاتا ہوں۔ ‘‘
میں نے اس کی طرف ضد میں دیکھا تھا۔
’’ہاں ہاں، بس پاس میں ہی ریستراں ہے۔ ‘’ لگتا تھا وہ مجھے تاڑ گیا ہے۔ پھر بھی مجھے شکست دینا اپنا فرض سمجھ رہا تھا۔
’’اب ریستراں میں بوڑھے نہیں آتے۔ ‘‘پھر ایک بار وہ بیرا کو قہوہ لانے کو کہہ رہا تھا۔
’’جس طرح گرم دھوپ والا جاڑا نہیں آتا۔ ٹھنڈی ہوا والی شام نہیں آتی۔ اسی طرح اب بوڑھے ریستراں نہیں آتے… اور جس طرح ستاروں بھرے آسمان اب خواب میں نہیں آتے…‘‘
اس کا کتا میرے پاس آ کر کچھ سونگھنے لگا ۔ میں نے اسے چھونا چاہا تو اس کے چکنے بالوں سے میری انگلیوں میں گد گدی ہونے لگی۔ میں باہر دیکھنے لگا۔ سڑک کی اوٹ میں چمپئی دھوپ اس طرح شرمائی کھڑی تھا جیسے پہلی بار سسرال آئے بہنوئی سے شرمائی ہوئی سالی کواڑ سے لگی باتیں کرتی ہو۔
سڑک پر چلتے ہوئے اس کا کتا اڑتی ہوئی مکھیوں میں سے کسی کسی کو منہ سے پکڑنے کے لیے لپک پڑتا تھا پھر ناکام واپس ہو کر اس کے پیروں کو گھوم پھر کر سونگھنے لگتا۔
’’آپ کو معلوم ہے، پوری دنیا میں بوڑھوں کی تعداد کتنی ہے؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘
’’بہت کم…گھر کے کھانے کی میز پر تو بوڑھے دکھتے ہی نہیں۔ کیا یہ کہیں کسی دوسری ایک جگہ آباد ہونے لگے ہیں؟کل میرا بیٹا اخبار کی ایک خبر میری بہو کو سنا رہا تھا کہ ہماری سرکار بہت جلد بوڑھوں کو کچھ خاص سہولت فراہم کرنے والی ہے۔ کہیں یہ بوڑھے اخبار ہی میں تو جمع ہونے لگے ہیں؟تب تو ٹھیک نہیں ہے۔ اخبار میں تو گرمی ہوتی ہے۔ آپ کو اب بھی سردی لگ رہی ہے؟ نہیں نا؟‘‘
وہ ایک جگہ ٹھہر گیا تھا، جہاں سے راستے ہم دونوں کو الگ کر رہے تھے۔
دوسرے دن ہم وہیں ملے تھے جہاں سے گزشتہ روز الگ ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ بولا تھا۔
’’آپ کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے جیسے آپ میرے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ‘‘
اس نے سڑک پر دور تک نظر دوڑائی تھی۔ ’’یہ دنیا بہت تیز رفتار ہو گئی ہے اور پھر انتظار میں کافی گھٹن بھی ہوتی ہے۔ انتظار نہ کریں۔ کل آپ سے الگ ہونے کے بعد میں گھر نہیں گیا تھا۔ ٹالا برج کے کلورٹ پر کافی دیر بیٹھا رہا تھا۔ اسے وہ جگہ بہت پسند ہے۔ ‘‘ اس نے اپنے کتے کی جانب اشارہ کیا تھا۔ ’’ میں گھر دیر سے جاتا ہوں، سبھی لوگ سو جاتے ہیں جب۔ صرف پہلی تاریخ کو ان کے جگے رہنے سے پہلے پہنچنا ضروری ہوتا ہے،جیسا کہ آج۔ ‘‘
’’شاید آپ اسے لے کر ہمیشہ ادھر آتے ہیں؟‘‘ میں نے اس کے کتے میں دلچسپی لی تھی۔
’’عموماً۔ ‘‘
’’جبھی تو یہ تمام راستوں سے آشنا ہے۔ ‘‘
’’اس میں کئی بری عادتیں بھی ہیں۔ آپ بے جا تعریف نہ کریں اس کی۔ شام کو یہ اکثر چلاّنے لگتا ہے۔ میرے پوتے کی پڑھائی ڈسٹرب ہوتی ہے۔ پانچ سال کا ہے، لیکن عمر سے زیادہ ذہین لگتا ہے۔ اس کے چلاّنے سے میرے بہو بیٹے ٹی وی پر کوئی خاص پروگرام آ رہا ہوتا ہے تو نہیں دیکھ پاتے۔ ‘‘
’’ اس نے آپ کے پوتے کو زخمی بھی کر دیا تھا نا؟‘‘
’’ہاں، لیکن اس دن قصور میرے پوتے کا ہی تھا۔ وہ خواہ مخواہ اس کی سواری کرنا چاہ رہا تھا۔ اپنی ماں کا رنگ روپ لیا ہے۔ میری بہو کافی بڑے گھرانے سے آئی ہے۔ خوبصورت بھی ہے۔ میرا بیٹا بھی ماسٹر ڈگری حاصل کئے ہوئے ہے۔ مگر ان دونوں وہ بے روزگار تھا جب اس کی شادی ہوئی تھی۔ بہو کے گھر والوں نے لڑکا پسند کر لیا اور فوراً شادی پر مصر ہو گئے۔ میری نوکری تھی، اس لیے میں نے بھی نا نہیں کی۔ میرا بیٹا بھی اسی لڑکی سے شادی کرنے کے لیے بضد تھا۔ اس کا کچھ افییر وفیر کا چکر تھا شاید۔ ‘‘ وہ کچھ دیر رک کر سستانے لگا تھا اور میری آنکھوں میں جھانکا تھا۔ ’’تھک جاتا ہوں۔ مسلسل کب تک چل سکتا ہے کوئی۔ کیا آپ اس سڑک کی سیما بتا سکیں گے؟‘‘
’’ارے ہاں، مجھے افسوس ہے کہ کل آپ کو سردی لگ گئی تھی۔ کل آپ نے کچھ خاص پہنا بھی تو نہیں تھا۔ اچھا کیا جو آپ نے یہ شال ڈال لیا ہے اپنے اوپر۔ آپ پر اچھا بھی لگ رہا ہے۔ شخصیت میں ایک طرح کا وقار پیدا ہو گیا ہے۔ ‘‘ وہ پھر چلنے لگا تھا۔ مگر اس بار پہلے کی بہ نسبت دھیرے دھیرے چل رہا تھا اور اس کا کتا ہمیشہ اس سے آگے آگے رہ رہا تھا۔
’’دراصل، بہو مجھے بھی پسند تھی اور پھر ہمارے گھر کو دو ایسے ہاتھوں کی ضرورت بھی تھی جو اس کے بکھراؤ کو سمیٹ سکیں۔ میری بیوی کے مرنے کے بعد گھر میں ویرانی چھا گئی تھی لگ بھگ۔ آپ شاید نہیں سمجھ پائیں۔ بڑھاپے میں بیوی سے لگاؤ کچھ زیادہ ہی ہو جاتا ہے۔ ایسے میں تنہائی کا ایکبارگی احساس بڑا تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ انسان کے اندر کا نجی مکان کھنڈر ہو جاتا ہے۔ ‘‘
میں دیکھ رہا تھا اس میں سے جوانی اگ رہی تھی۔ وہ پیچھے کی طرف تیزی سے لوٹ رہا تھا۔ اچانک میرے ہم عمر وہ میرے ساتھ چلنے لگا۔
’’میں اپنی بیوی سے کبھی الگ نہیں رہا۔ بڑھاپے میں بھی نہیں۔ بچپن میں جب کوئی بچہ کسی دن اسکول جانا چاہتا تو وہ اور کسی کی نہیں صرف اپنی ماں کی خوشامد کرتا ہے۔ ’’ممی، میں آج اسکول نہیں جاؤں گا،پلیز…‘‘
’’…سنو آج سنڈے ہے، کیا آج ناشتہ کچھ دیر سے نہیں بن سکتا۔ ‘‘ جب کبھی اسے اپنے پاس، بالکل پاس رکھنے کی خواہش ہوتی، میں اس سے کہتا۔ اب آپ سمجھ سکیں گے کہ جس کے صرف پاس رہنے کی کشش زندگی میں مضبوطی دیتی ہو، اچانک اس کے نہیں رہنے سے کتنا ٹوٹ جاتا ہو گا انسان…ہے نا… وہ سمٹ کر دائرے سے نقطے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لیکن انسان خوں غرض بھی تو ہے۔ زندگی میں جس سے اتنا انس ہوتا ہے، جس کے بغیر جینے کا تصور بھی بے معنی لگتا ہے…داستانوں کے سوا ایسا کہاں نظر آتا ہے کہ ایک کے مرنے کے بعد دوسرا بھی مرگیا ہو؟ یہ سب ڈھونگ نہیں کیا؟ اتنے کڑاکے کی سردی میں وہ کس حال میں ہو گی، اس سوچ سے بچنا چاہتا ہوں میں، اور یہ… یہ گرم کوٹ پہنتا ہوں۔ انسان جیتا ہے تو اس خلا کو پُر کرنے کی کسی نہ کسی طرح کوشش بھی کرتا ہے اور اسی کوشش میں بہو ہمارے گھر آ گئی ۔ لیکن ایک چادر کئی لوگوں کو ڈھکنے میں ناکام ثابت ہو رہی تھی۔ کبھی کوئی ادھر سے ایک کونا کھینچ لیتا تو ادھر کھل جاتا۔ کبھی کوئی ادھر تانتا تو ادھر کھل جاتا۔ لیکن میری بہو جتنی خوبصورت ہے، اتنی ہی سمجھ دار بھی ہے۔ اس نے اپنے جوان پتی کے لیے اپنے بوڑھے سسر کے سامنے ایک تجویز رکھی۔ تجویز مجھے پسند آئی، اور میں نے وہ چادر اپنے بیٹے کو دے دی۔ حتی کے وقت سے پہلے نوکری سے سبکدوش ہونے اور اس جگہ اپنے بیٹے کو مقرر کرانے میں مجھے کافی بھاگ دوڑ کرنا پڑی، ایسے میں میرا پی ایف بھی کافی کٹ گیا۔ افسروں کو خوش کرنا پڑا۔ ماتحتوں کو بخشش دینا پڑی اور مجھے اپنی پنشن کا نصف حصہ بیچنا پڑا۔ لیکن اتنا اطمینان ہوا کہ میرے بہو بیٹے میری دی ہوئی چادر میں آرام سے رہنے لگے۔ پھر میرا پوتا پیدا ہوا تو میری بہو نے ایک بار پھر اپنی سمجھداری کا ثبوت دیا اور اس نے پھر ایک تجویز رکھی، مجھے اس کی یہ تجویز بھی پسند آئی اور میں نے اپنی پنشن کا ایک اور حصہ بیچ کر اپنے پوتے کے نام سے بینک میں ایف ڈی کرا دیا۔ اب میرے بیٹے کو میرے پوتے کے مستقبل کے بارے میں بھی زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی۔ اس کی عمر کے ساتھ وہ پیسہ بڑھتا ہی جائے گا اور جب وہ جوان ہو جائے گا تو اس پیسے سے کسی چادر کا بندوبست کر لے گا۔ ‘‘ وہ چند لمحوں کے لیے چپ ہوا تھا۔ میری طرف دیکھا تھا پھر چلنے لگا تھا۔
’’آپ کو معلوم ہے کہ ہماری سرکار نے یہاں کے بوڑھوں کے لیے کئی کئی منصوبے تیار کیے ہیں۔ جیسے انہیں ضعیف العمری پنشن دینا، مفت علاج سینٹر قائم کرنا اور لاوارث بوڑھوں کے لیے لوجنگ کا انتظام کرنا وغیرہ…‘‘
اس نے رک کر ایک دکان سے اپنے کتے کے لیے بسکٹ خریدا تھا اور سیدھی سڑک کی طرف جانے کی بجائے پارک کی طرف مڑ گیا تھا۔ گھاس پر بیٹھ کر وہ کتے کو بسکٹ کھلانے لگا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے وہ مجھے بھول گیا تھا شاید۔ وہ اپنے کتے کو بسکٹ کھلا نے میں منہمک رہا۔ اچانک اس نے اپنی سکڑی ہوئی گردن اٹھا کر کہا۔
’’آپ کو تعجب نہیں ہوتا… اب بوڑھے کہیں نظر نہیں آتے؟‘‘اس کے اچانک اس سوال سے میں جھلا سا گیا۔ میرے کچھ بولنے سے قبل پھر اسنے کہا۔ ’’تصور کیجئے کہ دنیا میں ایک بھی بوڑھا نہیں ہو، تب کیسا لگے گا؟ یا پھر یہ سوچئے کہ ایک بھی جوان نہیں ہو تب…؟ ‘‘ میں آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھ رہا تھا۔
وہ ہنسا تھا۔ ’’آپ کو میرے دماغ کی صحت مشکوک لگ رہی ہے نا؟ چھوڑیے جانے دیجئے۔ صرف یہ سوچئے کہ دنیا میں اگر صرف کتے ہی کتے ہوں تو کیسا لگے گا؟ ہاں اس میں عمر کی کوئی قید نہیں۔ پلا…جوان…بوڑھا…ہر عمر کے کتے…‘‘ مجھے لگا کہ میری آنکھیں اپنی جگہ سے باہر آ جائیں گی۔
’’آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ اچھا ہے، آپ کو سوچنا چاہیے۔ جوان سوچ بہت کچھ کر سکتی ہے۔ ‘‘
وہ اپنے کتے کو بسکٹ کھلا چکا تو وہ خوش ہو کر گھاس پر کھیلنے لگا تھا۔ اسی درمیان ایک نئی بات ہوئی تھی۔ پارک کی دوسری طرف کیاریوں کے بیچ سے ایک پیارا سا بچہ وارد ہوا تھا اور اس کے ساتھ کھیلنے لگا تھا۔ وہ اسے پکڑنے کے لیے ہوا میں ہاتھ مار رہا تھا ۔ اس کے کئی بار ایسا کرنے پر کتا اس کے ہاتھ نہیں لگ سکا۔ البتہ بوڑھے نے کتے کی بیلٹ جلدی سے کھینچ کر اسے اپنے قریب کر لیا اور اسے اپنی بانہوں میں چھپانے کی کوشش کرنے لگا۔ اچانک اس کی آنکھیں ایک دم سے خوف زدہ ہو اٹھی تھیں اور وہ چوکنّا ہو کر اپنی چکنی آنکھوں سے آس پاس دیکھنے لگا تھا۔ بچے نے ایک بار پھر کتے کو ہمکنے کی ضد بھری کوشش کی تو وہ اسے اپنے سے دور ہٹانے لگا۔ ’’نہیں، ہٹو… چلے جاؤ یہاں سے… یہاں نہیں آؤ…ہا… دھر…دھر…‘‘ اسے کھانسی کا دورہ پڑا تھا اور اس کی آنکھیں بھیگ کر لت پت ہو گئی تھیں۔ وہ زمین کے سہارے بیٹھ کر گہری گہری سانس لینے لگا۔ اس کی سہمی ہوئی نظریں اب بھی اس جانب اٹھ رہی تھیں جدھر سے بچہ وارد ہوا تھا تھوڑی دیر بعد بچے کے ماں باپ آ کر اسے لے گئے تو وہ رفتہ رفتہ پرسکوں ہوا۔ لیکن اب بھی وہ کتے کو اپنی بانہوں سے نیچے نہیں اتار رہا تھا۔ وہ اسے گود میں اٹھائے ہوئے پارک سے باہر آگیا۔ اس کے سر پر اپنی ہتھیلی پھیرتے ہوئے وہ اسے چمکار رہا تھا۔ پھراس نے اپنی آنکھیں میری آنکھوں میں الجھا دیں۔
’’جانتے ہیں یہ اسے زخمی کر دیتا تو کیا ہو جاتا…؟‘‘
میں نے محسوس کیا کہ میری آنکھیں اس کی آنکھوں سے اس طرح الجھ گئی ہیں کہ نکالنے کے ساتھ ہی دیدے بھی نکل کر باہر آ جائیں گے۔ میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ زچ ہو کر بولا۔ ’’آپ کچھ نہیں جانتے۔ یہی تو تعجب ہے کہ آج کا نوجوان کچھ بھی نہیں جانتا۔ جب کہ اسے جاننا چاہیے کسی بوڑھے سے زیادہ۔ ‘‘ اب وہ سڑک کی سیدھ میں چلنے لگا تھا۔ ’’میں یہ بھی سمجھ رہا ہوں کہ آپ مجھے پاگل یا کچھ اسی طرح کا سمجھ رہے ہیں۔ میری بہو بتا رہی تھی کہ کتے کسی کو زخمی کر دیں تو وہ انہیں کی طرح بھونکنے لگتا ہے اور کتوں کی بہت ساری خصلتیں اس میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ‘‘
’’کیا آپ کے پوتے کے ساتھ ایسا ہوا تھا؟‘‘ مجھے حیرت ہوئی کہ بولتے ہوئے مجھے زیادہ تکلیف نہیں ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ میں آسانی سے بول سکتا ہوں۔
’’نہیں، اسے صرف بخار ہوا تھا۔ ‘‘
’’آپ نے اسے کہا ں سے حاصل کیا تھا؟‘‘
’’میرے پڑوس میں ہی ایک کتیا نے کئی بچے جنے تھے۔ مجھے اس کا رنگ زیادہ پسند آیا۔ اس کے رنگ کی تو آپ نے بھی تعریف کی ہے اور جانتے ہیں ان میں سب سے بڑی خوبی کیا ہے؟‘‘ اس بار پھر وہ اپنی آنکھیں مجھ میں اتار رہا تھا، لیکن میں ہوشیاری سے اس کا بار بچا گیا۔ عجیب سی راحت محسوس ہوئی۔ وہ ہنسا تھا۔ ’’ان میں یہ تشخیص کرنے کی قوت نہیں ہوتی کہ ان کی اولاد کہاں پل بڑھ رہی ہے اور کس حال میں ہے؟‘‘
’’لائیے، اس تھوڑی دیر میں اپنے ساتھ لے چلتا ہوں۔ ‘‘ میں نے یونہی پیش کش کی۔
’’نہیں، تب آپ اس کے ساتھ نہیں چل سکتے یا یہ آپ کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ آپ نے کبھی کسی جوان آدمی کو کتے کے ساتھ یا کسی کتے کو جوان آدمی کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھا ہے؟ امیر گھروں میں آپ نے دیکھا ہو گا بڑے بڑے بالوں والے چھوٹے چھوٹے کتے ہوتے ہیں لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان کی بیلٹ بھی کسی بوڑھے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے، پہلے فیشن تھا۔ مگر اب تو جیسے بوڑھے ہاتھوں اور کتے کی بیلٹ کا ایک تعلق سا بن گیا ہے جیسے دونوں ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہوں۔ آپ اس طرح غیر یقینی سے مجھے کیوں گھور رہے ہیں۔ آئیے آپ کو ایک منظر دکھاتا ہوں۔ ‘‘ وہ اسی سڑک سے ہوتے ہوئے پارک کی دوسری طرف پہنچ گیا۔ یہاں مختلف لوگ مختلف قسم کے کتے لیے اپنے ساتھ ٹہل رہے تھے اور اتفاق کی بات کہ وہ سب بوڑھے تھے۔ یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں مسکرائی تھیں۔ وہ سمنٹ کی بنی ایک بینچ پر بیٹھ گیا تھا، اور اپنے کتے کے بالوں میں کچھ ڈھونڈنے لگا تھا۔ ٹھہر ٹھہر کر اس کی آنکھیں ہنسنے لگتی تھیں۔ میں نے کہا۔
’’آپ ہنستے ہیں تو عجیب لگتے ہیں۔ ‘‘
’’ہاں، مجھے معلوم ہے۔ ‘‘ وہ بغیر نظریں اٹھائے دھیرے سے بولا تھا۔
’’دراصل آج مہینے کی پہلی تاریخ ہے نا، آج کے دن میں اپنی ہنسی چھپا نہیں پاتا۔ دراصل آج میری اپنے بیٹے سے ملاقات ہوتی ہے۔ ویسے بھی آدمی کو مہینے میں ایک بار تو ہنس ہی لینا چاہیے۔ ‘‘
میں اسے کس نظر سے دیکھ رہا تھا مجھے پتا نہیں تھا۔
’’آپ کا بیٹا کسی دوسری جگہ رہتا ہے کیا؟‘‘
’’نہیں، پاس ہی رہتا ہے…مگر پاس رہنا اور ملنا دونوں متضاد باتیں ہیں نا؟میں سمجھتا ہو ں آپ سمجھ نہیں پا رہے ہیں یا پھر میں آپ کو سمجھا نہیں پا رہا ہوں۔ دراصل اس میں قصور آپ کا یا میرا نہیں ہے۔ Generation Gapنے انسان کو یہی ابہام تو دیے ہیں۔ آدمی چاہ کر نہیں سمجھ پاتا یا پھر کوشش کرتے ہوئے سمجھا نہیں پاتا۔ ‘‘ اس کی ہنسی کچھ اور گاڑھی ہو گئی تھی۔ ’’ آپ ایک بار پھر مشکوک ہو رہے ہیں شاید۔ ‘‘ پھر اس نے میرا دھیان دو بوڑھوں کی جانب مبذول کرایا تھا جو کسی بات پر آپس میں جھگڑ رہے تھے۔
’’دیکھئے، ان میں ایک بوڑھا پاگل ہے۔ اسے کوئی کتا نہیں مل سکا ہے۔ وہ کسی کے کتے پر بھی اپنا حق جما لینا چاہتا ہے۔ ایک دفعہ میرے کتے کو بھی اپنا کہہ کر جھگڑ پڑا تھا، اور آپ ہیں کہ اتنی دیر سے مجھے ہی پاگل سمجھ رہے ہیں۔ ‘‘
پارک میں چہل پہل بڑھ گئی تھی۔ اکثریت بوڑھوں کی تھی اور ان کے ساتھ کے کتوں کی مگر یہ سب کچھ بڑا عجیب لگ رہا تھا۔ کوئی بوڑھا کسی دوسرے سے مخاطب نہیں ہوتا تھا۔ جیسے سب اپنے اپنے کھنڈر کی اینٹیں چننے میں مصروف تھے ۔ ٹہلنے کے دوران اگر کبھی ایک دوسرے کے سامنے آ بھی جاتے تو ان کی آنکھوں میں کسی طرح کا کوئی شائبہ نہیں لہراتا تھا۔ عموماً ا ن کی آنکھیں ریت کے ٹیلے جیسی خشک اور چہرے فصل کٹے کھیت کی طرح سپاٹ ہوتے تھے۔ ہاں ان کے کتے جب ایک دوسرے سے تعلق کی کوئی پرانی شناخت ڈھونڈنے کی کوشش کرتے تو وہ پل بھر کے لیے زچ ہو اٹھتے۔ پھر اپنے کتے کو سنبھالتے ہوئے اپنی راہ کی دوری ناپنے لگتے، اور ان کے چہرے پر جلدسفر مکمل کر لینے کی بیزاری پھیل جاتی۔
وہ اب بھی سمنٹ کی بنی بینچ پر بیٹھا اپنے کتے کے بالوں میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ خالی بوتل کی طرح اس کی نگاہیں کبھی کبھی اٹھتیں اور پھر جھک جاتیں۔ وہ اپنے کوٹ کی آستین سے کتے کا لعاب صاف کر کے اٹھا اور پارک سے باہر جانے والے راستے پر چلنے لگا۔
’’تنہائی میں انسان خود کو ڈھونڈ لیتا ہے۔ یہ سب اسی عمل میں لگے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اپنے آپ کو پالیں۔ ‘‘
وہ اپنے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا۔ مگر اس راستے سے نہیں جو ایک جگہ ہم دونوں کو الگ کرتا تھا۔ میں اس کے ساتھ چلتا رہا۔ جیسے اس کے ہاتھ کی بیلٹ کتے کی گردن میں نہیں بلکہ میری گردن میں بندھی ہو۔
’’یہ لوگ اپنی تلاش میں یوں ہی صدیوں تک جیتے رہتے ہیں اور اپنے اندر کے سناٹے سے جوجھنے کے اس عمل میں اگر کوئی کبھی کسی پل کے لیے خودسے ملتا ہے تو وہ صدیوں پر احسان کرتا ہے جیسے۔ آپ نے دیکھا نہیں، ان میں سے بیشتر کے چہروں کے خطوط مشابہت رکھتے ہیں۔ دراصل ان کی اپنی گردن پر گوئی نہ کوئی چہرہ رہے اس کے لیے وہ ایک مقام پر پہنچ کر اپنے چہرے کے نقش ایک ہی قالب میں ڈھال لیتے ہیں۔ ‘‘ وہ اپنے گھر کے پاس پہنچ کر رکا، اور میری طرف دیکھا تھا اس نے۔
پھر میں اس کے ساتھ اندر داخل ہوا تھا۔
دو کمروں کی بغل کا ایک سیلن بھرا حصہ جسے کمرے کی شکل دے دی گئی تھی۔ درمیان میں چکٹ ہو رہے بستر پر شاید وہ اپنے کتے کے ساتھ سو تا تھا۔ اس کے کہنے پر میں بستر پر بیٹھ گیا لیکن میرے نتھنوں میں بستر سے نکلنے والی سڑے انڈے جیسی بساندھ پھیلنے لگی تھی۔ میں اپنے جسم کے سینے والے حصے میں ناک چھپا کر اپنے کپڑوں سے خوشبو اخذ کرنے لگا۔ اسی درمیان کمرے میں اس کا بیٹا داخل ہوا تھا۔ اس نے بوڑھے سے الگ، میری ہی طرح صاف ستھرے کپڑے پہن رکھے تھے جس میں سے اچھی خوشبو پھوٹ رہی تھی۔ اس نے مجھ پر نگاہیں جما دیں جیسے مجھ میں اپنی شناخت تلاش کر رہا ہو۔ پھر وہ بوڑھے سے مخاطب ہوا۔
’’بابو جی، آج پہلی تاریخ ہے نا… آپ کی پنشن مل گئی ہو تو…؟‘‘
’’ہاں ہاں۔ ‘‘ بوڑھے نے اس کی بات پوری ہونے سے قبل ہی اپنے کوٹ کی جیب سے کچھ نئے نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیے تھے۔ میں نے دیکھا تھا اس کے بیٹے کے چہرے پر اطمینان کا سایہ لہراتے ہوئے۔ اس نے بھی میرے چہرے پر کسی لکیر کی شناخت کر لی تھی شاید۔ میں گڑبڑا گیا اور بوڑھے کے کتے میں خود کو مصروف کرنے لگا۔ دروازے کی اوٹ میں آہٹ ہو ئی تھی۔ غالباً اس کی بہو تھی۔ سامنے نہیں آنا چاہ رہی تھی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ وہ خوبصورت تھی اور سمجھدار بھی۔ اس کے پوتے کی توتلی آواز سنائی دی تھی اور روکتے روکتے اس کی بہو کی مبہم آواز بھی تیر گئی تھی کمرے میں۔
’’بیٹے، دادا کو دما ہے…،خلاب خلاب بیمالی… اچھے بیٹے ایسے دادا کے پاس نہیں جاتے۔ ‘‘
بیٹے نے بڑی ہمدردی سے باپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔ ’’بابوجی، آپ اپنا خیال کیوں نہیں رکھتے… آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کر لینا چاہیے۔ بس سامنے والے چوراہے کے قریب ہی تو سرکاری ڈاکٹر ہے جو شام کو بیٹھا کرتا ہے۔ ‘‘ شاید وہ تیز چلنے کا عادی تھا۔ اس کے چلے جانے کے بعد بوڑھے نے اپنے کتے کو بستر پر بیٹھا دیا اور میری آنکھوں میں اپنی آنکھیں اتارنے لگا۔ مجھے کراہت محسوس ہوئی اور میں وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ راستے میں اس کی آنکھیں میری آنکھوں کی طرف حملہ آور ہوتی رہیں۔ میں جلد سے جلد گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ موڑ مڑتے ہی نگاہ گھر کی طرف اٹھ گئی تھی۔ پتا جی دروازے سے باہر نکل رہے تھے۔ برسوں سے ان کے جسم سے لپٹا ان کا اوور کوٹ ان کی پہچان تھا، لیکن… میں نے قریب پہنچ کر دیکھا، ایک خارش زدہ کتا کچھ سونگھتے ہوئے ان کے آگے پیچھے ہو رہا تھا اور اس کی کافی چھوٹی بیلٹ پتاجی نے اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ رکھی تھی۔
۔ ’آج کل‘ مارچ ۱۹۹۳ء
۔ اوراق، لاہور، شمارہ ۷۔ ۸
۔ ہنس (ہندی) ستمبر ۱۹۹۴ء
۔ کائنات، آن لائن میگزین، ستمبر ۲۰۰۱ء
٭٭٭
ایک اور وہ
ایک اور وہ
اور اس نے بے قابو ہو کر سارے دروازے کھول دیے۔
جب اسے پیاس کی شدت محسوس ہوئی تو اس نے ٹھنڈے پانی کی پوری بوتل حلق میں انڈیل لی اور شاور چلا کر اس کے نیچے کھڑی ہو گئی۔ اس کے سارے کپڑے بھیگ گئے تو وہ انہیں ایک ایک کر کے جسم سے الگ کرنے لگی اور جب ایک دھاگا بھی نہ بچا تووہ آئینے کے روبرو کھڑی ہو گئی۔ اسے شروع سے اپنی کمر کا کٹاؤ پسند ہے۔ ایک خاص مرکزسے اس کی مٹی مختصر ہونے لگی ہے اور ایک خاص مرکز سے ایک خاص مقدار میں بڑھنے لگی ہے۔ گویا جس وقت وہ چاک پر چڑھی تھی خمار کی غنودگی میں اس کے خالق کے ہاتھ وہاں کس گئے ہوں گے۔ پھراس نے محسوس کیا کہ اس کے پورے بدن کی رنگت بدلنے لگی ہے۔ اس نے ناف کے نیچے ہاتھ پھیرا تو جیسے نیلا سمندر ہاتھ میں آ گیا۔ اس نے تڑپ کر پاوش کا ریزر اٹھا لیا اور بڑی بے دردی سے اس انگ کو زخمی کرنے لگی جس نے سمندر پینے کی جستجو کی تھی۔ کچھ لمحہ درد میں تڑپنے کے بعد وہ شانت ہو گئی لیکن اسے لگ رہا تھا، ماہواری کے کپڑے کی طرح اب بھی کوئی چپچپی اور غلیظ شئے اس کے اندر کہیں چپکی ہوئی ہے۔
کیا اس نے اسے پوری طرح حاصل کر لیا ہے ؟ شک کے کیڑے کلبلا تے تو وہ بے چین ہو اٹھتی۔
‘وہ‘ اپنے حریف کے مقابل نہیں آنا چاہتا۔ اس کی غیر موجودگی میں اس کے اندر داخل ہوتا۔ "ہائے سویٹ ہارٹ۔ ” ایک عجیب مقناطیسی کشش ہوتی اس کی آواز میں، جیسے کہیں دور گھنٹیاں بج رہی ہوں۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اس کی لا متناہی پرواز کا محض ایک پڑاؤ بھر ہے لیکن یہاں ٹھہر کروہ کس قدر سرشار ہوتی۔ اس کے لمس کی حرارت اس کے جسم کے سنسان جزیرے میں بوند بوند ٹپکتی تو اس کی روح کی سر سبز وادیوں میں دھواں سا اٹھنے لگتا، اور اس کے صندلی بدن پر اس کی انگلیوں کے سانپ رینگتے تو وہ بے ساختہ اکڑ جاتی مگر اس سے بھی کیا ہوتا ہے۔ زبان انگارے کو چاٹنے سے کب باز رہتی ہے۔ حقیقی لذت کا یہ لمحہ انہیں اسی طرح اپنی گرفت میں لیے لیتا ہے جیسے سجدے میں گرا بندہ صرف اپنے معبود کو اپنے سامنے محسوس کرتا ہے اور اپنے کو سمیٹنے کی کوشش میں اس حد کو پار کر جاتا ہے جہاں اس کی خودی زائل ہو کر رہ جاتی ہے اور منزل کا ایک ایک زینہ بڑے انہماک سے عبور کرتے ہوئے ایک نقطے پر پہنچ کر وہ مرکوز ہو جاتا ہے جہاں دوسرا کچھ نہیں رہ جاتا لیکن اس نقطے کو پانے میں ان دروازوں کا بڑا دخل ہوتا ہے جو انسانی رنگ محل میں موجود ہیں اور جنہیں بند کر کے ہی اس مقام کو محفوظ کیا جا سکتا ہے، اور ایک بھی دروازہ وا رہ گیا تو وہ لذت نہیں میسر آنے والی، اور یہی لمحہ سخت امتحان کا لمحہ ہوتا ہے۔ محسوسات کے اس بھنور میں جب وہ غوطے لگاتی تو اسی امتحان سے دوچار ہوتی۔
وہ جاء نماز کی طرح بچھ جاتی تو وہ سجدے میں گر جاتا، اور وہ جیسے جیسے ایک ایک دروازے کو مقفل کرتی اسے محسوس ہوتا کہ اس کی منزل کے سامنے سے دھندلکا بتدریج چھٹتا جا رہا ہو، اور آخری دروازہ بند ہونے تک عبادت کی اس گھڑی میں اس کی والہانہ سپردگی جو سفر طے کرتی ہے بظاہر اپنے پیچھے کوئی نشان تو نہیں چھوڑتی مگر جانے کیوں اسے ایک خلاء کا احساس ہوتا۔ اس کا سفر مکمل ہوتا ہے یا نہیں، یہ وہ نہیں جانتی۔ اسے صرف اتنا احساس رہتا ہے کہ اس نے سمندر کو جذب کرنے میں کچھ قطرے باقی چھوڑ دیے ہیں۔ پھر اس کی آنکھوں کی مچھلیاں تیرتے تیرتے ڈوبنے لگتیں تو وہ اپنے جسم کو ڈارمیٹری میں بغیر برف کی رکھی لاش سی ڈھیلا چھوڑ دیتی۔
الیٹ سوسائٹی کی زندگی کا ایک الگ انداز ہوتا ہے۔ جہاں کچھ بھی برا نہیں سمجھا جاتا۔ جہاں فرد کو ذہنی اور جسمانی آزادی میسر ہوتی ہے اور جہاں سب کچھ چلتا ہے لیکن وہاں بھی جینے کے لیے ایک ایک پل جینے کے لیے، ضروری اور غیر ضروری خوشیوں میں حصہ دار بننے کے لیے انسان کو اپنی انفرادی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرنا بڑتا ہے۔ ورنہ پاوش کے مطابق جینے کے لیے یہ سب ضروری نہیں ہے لیکن وہ انہیں ضروری سمجھتی ہے اور قدرت کی طرف سے اسے جو کچھ ملا ہے وہ ان کا بھر پور استعمال کرتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا سرمایہ اس کا مقناطیسی حسین جسم ہے۔ وہ ان خیالوں سے لڑتی ہے جو اس میں احساس کمتری پیدا کرتے ہیں۔ شاید وہ جانتی ہے اس حقیقت کو کہ جس دن اس کے اندر احساس کمتری کے عناصر پیدا ہوئے وہ اس کا لہو چاٹ چاٹ کر اسے کھوکھلا کر دیں گے، اور اس کی موت واقع ہو جائے گی۔ وہ آزاد ذہن سے سوچتی ہے اور خود میں اعتماد بحال کرتی ہے۔ وہ جینا چاہتی ہے ہمیشہ خوبصورت رہ کر اور وہ پوری دنیا کو جوان دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ کبھی بوڑھی ہونا نہیں چاہتی۔ اس احساس کی تکمیل کی خاطر وہ ہر کسی سے فراخ دلی سے ملتی ہے۔ ہنستی ہے، بولتی ہے اور خوش ہوتی ہے لیکن ایسے میں بھی وہ اپنا ایک الگ معیارِ حسن رکھتی ہے۔ اس نے مختلف مردوں پر تحقیق کر کے اپنی ایک رائے قائم کر رکھی ہے اور اس کی بنیاد پر ایک فہرست مرتب کر رکھی ہے۔ اس فہرست میں جس مرد کا داخلہ ہوتا ہے اسے ہی وہ اپنا اثاثہ سمجھتی ہے اور وہ دنیا کی دوسری سبھی عورتوں کو حقارت کی نظروں سے دیکھتی ہے۔ بلڈی کیج برڈس…
پاوش اس کا ہم سفر مرد تھا۔ مگر اسے حیرت تھی کہ وہ اس کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اکثر میوزک فلور پر کسی دوسرے کی بانہوں میں ہوتی تھی۔ پاوش کے بہت کم ملنے جلنے والے تھے۔ وہ ان کے یہاں کبھی کبھی رات کے کھانے پر جایا کرتا تھا اور کھانے میں ٹومیٹو سوپ اور فرائڈ فش کی فرمائش کیا کرتا تھا۔ وہ گھر میں ہوتا تو مائکرو بائلوجی اور عیسائی مذہب کی کتابیں پڑھتا، چیس کھیلتا اور کھڑکی کے پاس کھڑا ہو کر کولتار کی سڑک کو تکا کرتا۔ وہ گھر میں بھی جینس اور سلیولیس ٹی شرٹ پہنے ہوئے رہتا اور اس کی ننگی بالوں بھری بانہیں اسے بڑی اچھی لگتی تھیں۔ مردوں کے ہاتھوں میں گھنے بال ویسے بھی اچھے لگتے ہیں۔ اسے یاد ہے کہ شادی کے بعد اس نے اس کی آزاد خیالی پر صرف ایک بار احتجاج کیا تھا اور بھری پارٹی میں اس کی تضحیک کر بیٹھا تھا۔ وہ بھی بپھر پڑی تھی، یو اسناب، تم اعلی سوسائٹی میں رہنے کے قابل نہیں ہو۔ تب سے وہ کچھ نہیں کہتا۔
وہ ان مردوں سے جن میں کچھ خاص بات ہوتی ہے، دوستی کرنا چاہتی ہے۔ وہ ہر بار الگ الگ پرکشش لوگوں کے ساتھ خود کو دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ اپنی بے پناہ خوبصورتی کے ساتھ کوئی تضاد نہیں چاہتی بلکہ اپنی بے پناہ خوبصورتی کی طرح بخوشی قبول کر لی جانے والی شئے کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ وہ اپنے یہاں نت نئے لوگوں کو مدعو کرتی ہے اور اپنے کپڑے اور کمرے کی نمائشی چیزیں دکھا کر داد وصول کرتی ہے۔ اسے اپنے دوستوں سے بہت سارے قیمتی اور نایاب تحفے ملے ہیں۔ وہ ان کی تعریف سن کر خوش ہوتی ہے اور اس کا اظہار وہ اپنے بے تکلف دوستوں کو بوسہ لے کر کرتی ہے۔ پاوش اس لمحہ ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے، اٹس میٹر آف پلیزر، وہ کہتا ہے اور انہیں چائے کا کپ تیار کر کے دیتا ہے اور ان کی کسی فرمائش کے انتظار میں کھڑا رہتا ہے۔ مگر جلد ہی ان کی الڑا ماڈ باتوں سے اوب بھی جاتا ہے اور کھڑکی کے پاس جا کر کولتار کی سڑک دیکھنے لگتا ہے اور جب سارے لوگ چلے جاتے ہیں تو وہ اس کے پاس آتا ہے۔ اسے ٹھہری ہوئی لیکن شکایت بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہے اور اس کے شانوں پر بوسہ لیتا ہے۔
ایک چھوٹی سی ملاقات کے بعد ایک دن ’وہ‘ آیا تھا۔
اس کے آنے پر بھی پاوش نے ہی اس کو انٹرٹین کیا تھا اور کچھ دیر اس سے باتیں کرتا رہا تھا۔ جہاں ’وہ‘ اپنے حریف کی عنایتوں سے حیرت زدہ تھا وہیں پاوش اس کی ویلر اپیل پر سالٹی سے مرعوب دکھ رہا تھا۔ غضب کی باڈی لینگوج تھی اس کے پاس۔ اپنی اس کھوج پر اس کی گردن اکڑی جا رہی تھی۔ اس کے چوڑے شانے پاوش کے شانوں سے کہیں زیادہ خوبصورت تھے اور وہ مسکرا تا تھا تو اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی شرارتی چمک ابھر آتی تھی۔
وہ پاوش کی غیر موجودگی میں آتا اور بغیر دستک دیے اس کے بیڈروم میں داخل ہو جاتا۔ اس کے لیے تو سب معاف تھا۔ "ہائے سویٹ ہارٹ۔ "وہ مسکرا پڑتا۔ اسے بھی اس کی کمر کا کٹاؤ بے حد پسند ہے۔ وہ جھکتا اور اپنے ہونٹ وہاں رکھ دیتا۔ پھر اسے آگاہ کراتا کہ اس کے جسم کا کون سا حصہ کتنا خوبصورت ہے۔ اسے اپنے جسم کی خوبصورتی کا شعوری طور پر اعتراف ہے لیکن وہ جب اس کے منہ سے اپنے جسم کے ایک ایک عضو، چہرہ، شانے، پستان، کمر، کولہے اور پنڈلیوں کے بارے میں سنتی تو محسوس کرتی جیسے کسی اجنبی جہان کی سیر کر رہی ہو۔ وہ اس کے سینے پر ہولے ہولے ہتھیلی مارتے ہوئے اس کی بانہوں سے سٹ جاتی”تم بے ایمان ہو۔ ” وہ زور زور سے قہقہہ لگا کر ہنس پڑتا تو اس کے اندر جوار بھاٹے جیسی کیفیت پیدا ہو جاتی اور جنون کی شدت میں وہ اس کا ہاتھ کھینچ لیتی۔
انسان کے اندر اس کے من میں اس کا اپنا ایک گھر، ایک نجی دائرہ ہوتا ہے جسے وہ اپنا کہتا ہے اور جس پر صرف اپنا ہی اختیار محسوس کرتا ہے۔ اور جس کے تحت یہ میرا اپنا ہے، وہ میرا اپنا ہے کے احساس سے باہر نہیں نکل پاتا لیکن پاوش میں وہ خاص بات کیوں نہیں ہے۔ وہ حسین ہے، اس کی بانہوں کی مچھلیاں بھی مضبوط ہیں پھر وہ چھوتا ہے تواسے اپنی ہتک کیوں محسوس ہوتی ہے۔ اس کی رگوں کے اندر کے پارے کیوں نہیں تھر تھرا اٹھتے۔ جن لمحوں کو وہ پوری طرح جینا چاہتی ہے، محسوس کرنا چاہتی ہے، پاوش کاجسم ان عظیم لمحوں کو سرد کیوں کر دیتا ہے۔ کوئی فاصلہ ہے جس کی بنا پر پاوش اس کا آئیڈیل نہیں ہو سکتا۔ اور تب اس نے اپنے اور پاوش کے بیچ کے لمحے سمیٹ دیے۔ جب کبھی پاوش کی پلکیں بوجھل ہونے لگتیں وہ عاجزی سے کہتی "پلیز پاوش، میں ان دنوں کپڑے سے ہوں یا پھر، مجھے زکام ہے۔ ” پاوش اسے چادر سے ڈھک دیتا اور سمجھدار بچے کی طرح صوفے پر سو جاتا۔
اس دن’ وہ‘ نیلی دھاری دار قمیض اور ڈھیلی پتلون میں آیا تھا۔ اس نے بالوں کو پریس کر کے پیچھے کی طرف سنوار رکھا تھا جس سے اس کا اٹیلین لک اکسپوز ہو رہا تھا اور چہرے پر ایک قسم کی لیکوڈ کی چکنی پرت تھی جس سے لڑکیوں سا گلیمر پھوٹ رہا تھا۔ آج وہ بے حد سمارٹ دکھ رہا تھا۔
ہائے سویٹ ہارٹ۔ ” وہ کھڑا بدستور مسکرا رہا تھا اور وہ اپنی گردن میں پھر اکڑن محسوس کر رہی تھی، نگاہیں جھکا کر اس کی قمیض کے بٹن سے کھیلنے لگی۔ کتنے دنوں بعد آیا تھا وہ… شاید عرصہ بعد … وہ اس کے لیے بلیک کوفی تیار کر کے لے آئی۔ اسے پسند تھی۔ لیکن وہ جانتی ہے اس کے مزاج کی ندرت کو۔ وہ آدھی کوفی سپ کرے گا اور میز پر رکھ دے گا۔ پھر جیسے ایک دم سے اس میں بے قراری پیدا ہو جائے گی۔ اس کے ہونٹ انگارے کی طرح تپنے لگیں گے اور وہ انہیں جہاں رکھے گا نیلی مہر ثبت ہو جائے گی۔
اسے اپنی پشت پر جلن محسوس ہوئی۔ اسے کے ہونٹ داغ دے رہے تھے۔ وہ تڑپ گئی اور اس میں سمٹ گئی۔ وہ ایک تجربہ کار مانجھی کی طرح بھنور کے ارد گرد پتوار ڈالنے لگا۔ اس کی اس بے رحمی پر اپنے اندر سے اٹھنے والی چھٹپٹاہٹ کو اس نے سختی سے روکا۔ پھر دھیرے دھیرے خود کو بچھاتی چلی گئی۔ اس نے اسے پوری طرح ڈھک لیا۔ لہریں چڑھائی کی طرح اٹھنے لگیں، اور ایک دھند لکے میں اس کا وجود گم ہونے لگا۔ اس کی سماعت میں زور زور سے گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ وہ پوری طرح اس کے اندر تک سما جانے کی سعی میں لگا تھا اور وہ اسے پوری طرح محسوس کرنے کی کوشش میں۔ اس نے پہلا دروازہ بند کیا۔ اس کی آنکھوں میں چراغوں کے جھرمٹ کوندے۔ وہ احتیاط کے ساتھ ایک ایک دروازہ بند کرنے لگی اور قریب تھا کہ منزل اسے اپنی آغوش میں لے لیتی دفعتاً اس کی روح میں کرچیاں بھر گئیں . "نہیں نہیں ” اس سے پہلے کہ وہ آخری دروازہ بند کر پاتی، پرستش کے اس بہت ہی نجی لمحے میں کسی تیسرے کی موجودگی کی بو پھیلنے لگی تھی۔ ’وہ‘ بہت پھرتی سے چادر کھینچ کر اپنا منہ چھپا چکا تھا اور وہ برہنگی کا لباس اوڑھے پاوش کے سامنے کھڑی تھی۔ کچھ لمحہ گزر جانے تک پاوش اس کے برف کی طرح گلتے جسم کو دیکھتا رہا پھر بڑی انکساری سے نگاہیں جھکا کر بولا۔
"دروازہ تو بند کر لیا ہوتا .”
وہ آخری قطرہ بہا رہی تھی۔
٭٭٭
ماخذ: مختلف ویب سائٹس
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں