FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

بچوّں کی نظمیں

 

 

 

محمد خلیل الرحمٰن

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ  کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

گرمی کا موسم آیا

 

 

گرمی کا موسم آیا

لمبی دوپہریں لایا

 

اکّڑ بکّڑ بمبے بو

کھیل میں مجھ کو آنے دو

 

برگد کے سائے میں ہم

ناچیں کودیں چھم چھم چھم

 

کوئل گیت سناتی ہے

کُو ہُو کُو ہُو گاتی ہے

 

میٹھے آم درختوں سے

کل جو ہم نے توڑے تھے

 

خوب مزے سے کھائیں گے

مِل کر شور مچائیں گے

 

گرمی کے یہ لمبے دِن خوابوں میں بس جائیں گے

صبح سویرے اُٹھ کر ہم، جب اسکول کو جائیں گے

یادوں کو، اِن با توں کو، باجی سے لِکھوائیں گے

سامنے سارے بچوں کے، اِک مضمون سنائیں گے

 

گرمی کا موسم آیا

لمبی دوپہریں لایا

٭٭٭

 

 

 

 

سمتیں

 

 

مشرِق، مغرِب، شِمال، جُنوب

سِمتوں کے یہ نام ہیں خُوب

 

اُوپر اللہ، نیچے ہم

ہم پر اُس کا ہے یہ کرم

 

دُنیا ہم کو پیاری سی

اُس نے ہی رہنے کو دی

 

سُورج مشرِق سے نِکلے

شام کو مغرِب میں ڈوبے

 

صبح سویرے اُٹھّو سب

سُورج کو پھِر دیکھو جب

 

ہاتھ اپنے پھیلاؤ گے

سَمتوں کو یوں پاؤ گے

 

مشرِق میں سورج دیکھو

پیٹھ کے پیچھے مغرِب ہو

 

داہنے ہاتھ جنوب ہے

سَمت یہ کیسی خوب ہے

 

قطبِ جنوبی کی یہ سَمت

نقشے کی نچلی یہ سَمت

 

بائیں ہاتھ شِمال ہے

بھولنا اب تو محال ہے

 

قطبِ شمالی کی یہ سَمت

تارہٗ قطبی کی یہ سَمت

 

رات کے بھٹکے راہی کا

رہبر ہے قطبی تارا

 

رات جب اِس کو دیکھو گے

سَمتوں کو بھی سیکھو گے

٭٭٭

 

 

 

 

سب سے پیارا ہیری پوٹر

 

 

 

ہر دم جادو کرنے والا

جادو کا دم بھرنے والا

جادوگر تھا ہیری پوٹر

 

ماں کی آنکھوں کا یہ تارا

چاہے اُس کو یہ جگ سارا

سب سے پیارا ہیری پوٹر

 

گرفن ڈور کا یہ متوالا

اچھی کوئڈچ کھیلنے والا

کپ لے آیا ہیری پوٹر

 

والڈے مارٹ کی دہشت طاری

ڈرتی تھی یہ خلقت ساری

سامنے آیا ہیری پوٹر

 

والڈے مارٹ کو مار بھگایا

قید سے اس کی سب کو چھڑایا

 

ہیرو اپنا ہیری پوٹر

٭٭٭

 

 

 

 

میں جِم پوٹر کا لڑکا ہوں

 

(جناب جمیل الدین عالی سے معذرت کے ساتھ)

 

 

 

میں جِم پوٹر کا لڑکا ہوں

اور کام کروں گا بڑے بڑے

میں جِم پوٹر کا لڑکا ہوں

اور کام کروں گا بڑے بڑے

 

جتنے بھی لڑاکا لڑکے ہیں

اُن کو تعظیم سِکھاؤں گا

جو ہاگورٹس کے ہمجولی ہیں

میں اُن کی ٹیم بناؤں گا

ڈی اے کی ٹیم بنائیں گے

جو رہتے ہیں اب لڑے لڑے

میں جِم پوٹر کا لڑکا ہوں

اور کام کروں گا بڑے بڑے

 

جادو کی ہیں جو روشنیاں

میں گھر گھر میں پھیلاؤں گا

جادو کی چھڑی کو لہرا کر

میں جادوگر بن جاؤں گا

بے کار گزاروں وقت بھلا

زینے کے نیچے پڑے پڑے

میں جِم پوٹر کا لڑکا ہوں

اور کام کروں گا بڑے بڑے

 

میں چار طرف لے جاؤں گا

پُرکھوں نے جو پیغام دیا

اپنا اُلّو سیدھا کر لوں

جسے میں نے ہیڈوِگ نام دیا

کوئڈِچ میں ایسے کھیلوں گا

اسنِچ کو پکڑ لوں کھڑے کھڑے

میں جِم پوٹر کا لڑکا ہوں

اور کام کروں گا بڑے بڑے

 

گر ٹام رِڈِل بھی آئے گا

میں اُس کو بھی چِت کر لوں گا

ہر گتھی کو سلجھاؤں گا

ہر مشکل اپنے سر لوں گا

میں مات انہیں بھی دے دوں گا

جو جادو گر ہیں سڑے سڑے

میں جِم پوٹر کا لڑکا ہوں

اور کام کروں گا بڑے بڑے

٭٭٭

 

 

 

 

ایک لوک گیت

 

 

ہیری پوٹر ہیری پوٹر کہاں گئے تھے

گھر میں اپنی کوٹھری میں سو رہے تھے

ڈڈلی نے لات ماری رونے لگے

امی نے یاد کیا، ہنسنے لگے

٭٭٭

 

 

 

 

ہیری پوٹر اور پارس پتھر

 

نا مکمل نظم کے تین باب

 

باب اول: وہ لڑکا جو زندہ رہا

 

ایک چھوٹے سے لڑکے کی ہے داستاں

جس کی پیشانی پر تھا بنا اِک نشاں

 

اپنی خالہ کے گھر پر ہی رہتا تھا وہ

ظلم خالہ کے، خالو کے سہتا تھا وہ

 

یوں تو بیٹا خود ان کا ہی ڈڈلی بھی تھا

تھا شریر اِس قدر، اس کا ثانی بھی تھا؟

 

حرکتوں سے تو اُس کی سبھی تنگ تھے

کام اُس کے جو تھے، باعثِ ننگ تھے

 

جب شرارت کا کوئی خیال آ گیا

ہیری پوٹر ہی اُس کا نشانہ بنا

 

پھر بھی ماں باپ کا لاڈلا تھا وہی

بد تمیز اور شرارت کا پتلا وہی

 

یوں تو جب بھی کہیں آتے جاتے تھے وہ

ہیری پوٹر کو یوں ہی ستاتے تھے وہ

 

بس اکیلے ہی گھر چھوڑ جاتے اُسے

بند کرتے تھے گھر کو، ڈراتے اُسے

 

ایک دِن شام کو سیر کرنے گئے

ساتھ اپنے وہ ہیری کو بھی لے گئے

 

سیر کرنے چلے، سانپ گھر آ گیا

ڈڈلی حیرت سے اِس گھر کو دیکھا کیا

 

اِک کٹہرے میں اِک اژدھا بند تھا

ہیری مسحور جوں اُس کو دیکھا کیا

 

تب اچانک ہی ہیری نے اُس سے کہا

اتنے بے حِس ہیں یہ لوگ، میرے خدا!

 

بات سنتے ہی یہ، اژدھا اُٹھ گیا

سر ہلا کر وہ ہیری سے گویا ہوا

 

ہاں مرے دوست، کچھ سچ ہی کہتے ہو تم

کیا اِدھر ہی کسی گھر میں رہتے ہو تم؟

 

بس اسی دن سے اس کو پتہ چل گیا

پارسل ٹنگ ہے اور خدا جانے کیا

 

یوں کہیں سے جو اس کا گزر ہو گیا

ایک مجمع اِکٹھا اُدھر ہو گیا

 

دیکھ کر اُس کو ہر شخص کہنے لگا

کیا یہی ہے وہ لڑکا جو زندہ رہا؟

 

للی پوٹر نے نازوں سے پالا جسے

جِس کے جادو نے اُس دِن سنبھالا جسے

 

جِس گھڑی تاک کر اُس نے حملہ کیا

نام بھی جِس کا لینا نہیں اب سدا

 

للی پوٹر نے خود تھا بچایا جسے

خود تو وہ مر گئے اور چھپایا اِسے

 

بس اسی دن سے خود وہ بھی غائب ہوا

نام بھی جس کا لینا نہیں اب سدا

 

یوں ہی ہنستے ہوئے دن گزرتے رہے

زخمِ ماضی جو تھے سب ہی بھرتے رہے

 

اب ذرا والڈے مارٹ کی بھی سنو

اِس کہا نی میں اُس کی کہا نی سنو

 

یوں تو قاتِل تھا وہ، اِک درندہ تھا وہ

اِک پرانی سی کاپی میں زندہ تھا وہ

 

حال کچھ اب نہ اس کا سنائیں گے ہم

بعد کے واسطے کچھ بچائیں گے ہم

٭٭٭

 

 

 

باب دوم: گمنام خطوط کا معمہ

 

 

ایک دِن کیا ہوا، ایک خط آ گیا

دیکھتے ہی جسے ہیری گھبرا گیا

 

یوں تو خط کوئی نام اُس کے آتا نہ تھا

ملنے کوئی اُسے آتا جاتا نہ تھا

 

ایک بھاری سا کالا لفافہ تھا وہ

نام ہیری کا اس پر لکھا تھا سنو!

 

ہیری پوٹر نے بس جونہی دیکھا اُسے

ہو کے بے تاب فوراً ہی تھاما اُسے

 

عین ممکن ہے وہ کھول لیتا اُسے

بڑھ کے خالو نے فوراً ہی چھینا اُسے

 

جونہی دیکھا اُسے، یوں چھپایا اُسے

بس اُٹھایا، بغل میں دبایا اُسے

 

بعد اِس خط کے اِک دوسرا آ گیا

پھر خطوں کا تو سمجھو کہ تانتا بندھا

 

ہائے افسوس خالو دباتے رہے

خط وہ سارے کے سارے چھپاتے رہے

 

پھر اچانک انہیں اِک خیال آ گیا

سب کو لے کر اِرادہ سفر کا کیا

 

ایک ایسا جزیرہ جو سنسان تھا

اُن کی منزل بنا جب کہ ویران تھا

 

ڈا کیا، ڈاک خانہ، وہاں کچھ نہ تھا

کوئی خط واں پہ آتا تو کیسے بھلا

 

ڈاک بنگلہ جو ساحل پہ موجود تھا

واں پہنچ کر انھوں نے اُسے گھر کیا

٭٭٭

 

 

 

 

باب سوم: بن بلایا مہمان

 

 

 

گھر اسے کیا کہیں، بھوت بنگلہ کہیں

ہولناکی کہیں، جن سراپا کہیں

 

پہلی طوفانی شب یونہی ڈھلنے لگی

ہر طرف ایک آندھی سی چلنے لگی

 

جونہی بارہ بجے، ہیری مرجھا گیا

اپنی اماں کا پیار اس کو یاد آ گیا

 

اب بتائیں تمہیں، تھا یہ دن کونسا

یہ وہی دن تھا جب ہیری پیدا ہوا

 

ہیری پوٹر کو تھا بس یہی دکھ بڑا

ہیپی برتھ ڈے کسی نے نہیں تھا کہا

 

بس اسی دم وہاں اک دھماکا ہوا

روشنی کا بھی ساتھ اک جھماکا ہوا

 

کھڑکیاں اور کواڑ ایسے بجنے لگے

جیسے بادل کہیں پر گرجنے لگے

 

یہ جو دیکھا تو خالو بھی آگے بڑھے

رائفل ایک ہاتھوں میں تھامے ہوئے

 

’’کون ہے ؟‘‘ چیخ کر یہ انہوں نے کہا

پھر بھی دستک کا یہ سلسلہ نہ رکا

 

’’ مار دوں گا میں گولی‘‘ انہوں نے کہا

ان کی دھمکی کا فوراً جواب آ گیا

 

پہلے دروازہ ٹوٹا، دھماکا ہوا

دیو قامت کوئی کود کر آ گیا

 

اندر آتے ہی اس نے غضب یہ کیا

چھین لی رائفل اور نہتا کیا

 

خالی ہاتھ اس کو خالو بھی دیکھا کیے

ہاتھ دو چار اس نے انہیں جڑ دئیے

 

’’میں نہیں مانتا! بس نہیں مانتا‘‘

بس یہی ایک جملہ انہوں نے کہا

 

پھر وہ چپ چاپ ہیری کو دیکھا کیے

دل میں کیا جانے کیا کیا تمنا لیے

٭٭٭

 

 

میرے ابا نے مجھ کو تہذیب سِکھائی چار بجے

 

 

آج ہوئی ہے میری گھر میں خوب دھُنائی چار بجے

میرے ابا نے مجھ کو تہذیب سِکھائی چار بجے

 

آج بُزرگوں کی یادوں کا سایہ تھا مجھ پر شاید

اِن یادوں نے نانی مجھ کو یاد دِلائی چار بجے

 

ساڑھے پانچ بجے روزانہ ابو گھر کو آتے ہیں

آج یہ کیسی سر میں اُن کے آن سمائی چار بجے

 

افسر سے جب لڑ کر ابو جلدی گھر کو لوٹ آئے

اِس دِن گویا گھر پر میری شامت آئی چار بجے

 

پہلے امّی سے جھگڑے اور پھِر مجھ پر تھی نظرِ کرم

پہلے ہات اور بعد میں اپنی لات چلائی چار بجے

٭٭٭

 

 

نرگس کے پھول

 

میں پھرتا تھا جنگل کی تنہائیوں میں

کبھی وادیوں میں کبھی کھائیوں میں

 

اچانک مری آنکھ میں جگمگایا

وہ نرگِس کے پھولوں کا رنگین سایا

 

درختوں کے سائے میں دھومیں مچاتے

کبھی ناچتے، موج میں آ کے گاتے

 

چمکدار تاروں کی مانند روشن

قیامت تھا نرگِس کے پھولوں پہ جوبن

 

وہ چشمے کے دامن پہ پھیلے ہوئے تھے

وہ ہاتھوں پہ مالن کے پھیلے ہوئے تھے

 

بہت مجھ کو مشکل ہوئی گل شماری

مزے جن سے لیتی تھی بادِ بہاری

 

ندی میں جو موجیں تھیں لہرا رہی تھیں

مزے وہ بھی پھولوں سے ہی پا رہی تھیں

 

مگر مال و دولت سے بڑھ کر یہ دولت

جو پھولوں نے شاعر کو کی تھی عنایت

 

بہت میں نے سوچا مگر کچھ نہ پایا

کہ اس لعل سے قیمتی شے ہے کیا کیا

 

دھندلکوں سے یادوں کی وہ جھانکتے ہیں

خوشی سے وہ تنہائی کو ڈھانپتے ہیں

 

زمانے کے غم سے میں اکتا گیا ہوں

مگر جب بھی پھولوں کو میں دیکھتا ہوں

 

تو قلب و نظر میں سماتی ہے وسعت

خیالات میں سر چھپاتی ہے رفعت

 

خوشی کی پری کا میں منہ چومتا ہوں

تو پھولوں کے ہمراہ میں جھومتا ہوں

 

خلیل ؔ آج خوشیوں کا کیا ہے ٹھکانا

گلستاں میں گاؤ خوشی کا ترانا

 

ولیم ورڈزورتھ کی نظم دی ڈیفوڈلز کا آزاد منظوم ترجمہ   ٭٭٭

 

 

آزادی

 

چلو آؤ بچو تمہیں ہم کھِلائیں

شتر مرغ کی اِک کہانی سنائیں

 

عجیب و غریب اِس کی ہیئت ہے بچو!

تو معصوم سی اس کی صورت ہے بچو!

 

اگر اونٹ کو دو پہ تقسیم کر دیں

ذرا شکل میں اس کی ترمیم کر دیں

 

پھر اس پر پر و بال بھی کچھ لگا دیں

کہ من موہنی ایک صورت بنا دیں

 

پھر اِس شکل کو اب شتر مرغ کہیے

جو ہونا ہے خوش تو اِسے تکتے رہیے

 

شتر مرغ اِک تھا کراچی میں رہتا

وہیں انڈے دیتا وہیں ان کو سہتا

 

یہیں پر اسے چھوڑ کر آگے آئیں

کہانی کو یوں ہی کچھ آگے بڑھائیں

 

اچانک یہ اعلان خبروں میں آیا

نمائش کا منصوبہ ہے اِک بنایا

 

نمائش پرندوں چرندوں کی ہو گی

کہ یوں عید سب چھوٹے بچوں کی ہو گی

 

شتر مرغ کو اس کے مالک نے تولا

ہنسا اور پھر اپنے لوگوں سے بولا

 

ذرا ہم بھی سوچیں، نمائش میں جائیں

شتر مرغ کو واں گھمائیں پھرائیں

 

کوئی اس کا گاہک وہاں پر جو پائیں

اسے بیچ ڈالیں تو پیسے بنائیں

 

شترمرغ گھبرایا اور سوچتا تھا

اگر مجھ کو مالک نے یوں بیچ ڈالا

 

تو گاہک مِرا کاٹ ڈالے گا مجھ کو

مِرا گوشت بیچے گا، کھا لے گا مجھ کو

 

یہ سوچا تو اُس نے بہت سر لڑایا

کوئی حل مصیبت کا اُس نے نہ پایا

 

تو چاہا کہیں اپنی گردن چھپا لے

مصیبت سے اِس طرح خود کو بچا لے

 

مگر آخرِ کار وہ دِن بھی آیا

ہوئی صبح، مالک نے اس کو اُٹھایا

 

کہا اس کو مالک نے چل میرے بھائی

تری آج کر دوں گا ورنہ پٹائی

 

اِسے لے کے مالک نمائش میں پہنچا

بڑے سے کٹہرے میں یوں اس کو رکھا

 

کٹہرا تھا لکڑی کا اس نے بنایا

بہت کم تھا خرچ اس کا لکڑی پہ آیا

 

ہوئی صبح اور لوگ آئے وہاں پر

شتر مرغ تھا بند پنجرے کے اندر

 

شتر مرغ جیسا پرندہ جو دیکھا

تو بچوں نے دیکھا، بہت غُل مچایا

 

شتر مرغ کی یوں جو سٹّی ہوئی گُم

بہت دیر تک وہ رہا یونہی گُم سُم

 

اچانک حرارہ اسے پھر جو آیا

تو سب زور اپنا وہیں پر لگایا

 

جہاں ایک نازک سی لکڑی لگی تھی

وہیں سے یکایک وہ ’ٹک‘ کر کے ٹوٹی

 

نظارہ یہ دیکھا، شتر مرغ بھاگا

ذرا دیر میں اس کا مالک بھی جاگا

 

شتر مرغ اُٹھا اور بگٹُٹ جو بھاگا

تو دیکھا نہیں اس نے پیچھا، نہ آگا

 

کہیں اس کے مالک نے پھر پایا اس کو

شتر مرغ بھاگا، نہ ہاتھ آیا اس کو

 

سبق اس کہانی سے ملتا یہی ہے

کہ آزادی سب نعمتوں سے بڑی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ٹوئیڈل ڈم اور ٹوئیڈل ڈی

 

ٹوئیڈل ڈم اور ٹوئیڈل ڈی کی

آؤ سنائیں تمہیں کہانی

 

ٹوئیڈل ڈم اور ٹوئیڈل ڈی جی

جھگڑا کرنے پر تھے راضی

 

ٹوئیڈل ڈم یوں چیخ کے بولا

پول بھی ٹوئیڈل ڈی کا کھولا

 

میرا بھالو تُم نے توڑا

تُم نے اُس کا کان مروڑا

 

اتنے میں پھر اڑ کر آیا

اک موٹا اور کالا کوّا

 

اتنا موٹا اور کا لا تھا

ڈامر کے پیپے جیسا تھا

 

دیکھا اُس کو، ڈر کر بھاگے

ڈم ڈم پیچھے، ڈی ڈی آگے

٭٭٭

 

 

 

 

چھوٹا سا مگر مچھ

 

چھوٹا سا مگر مچھ کیسے اپنی دُم کو

ہر دَم سنبھال رکھتا ہے

گنگا جل میں دھوکر کیسے چمکیلی

اپنی وہ کھال رکھتا ہے

 

کیسی میٹھی میٹھی اس کی مسکراہٹ

کیسے ہیں تیز اس کے دانت

چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو دھیرے دھیرے کھاتا ہے

کتنا خیال رکھتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جھولا کون جھُلائے

 

(شیل سلور اسٹائن کی نظم کا ترجمہ)

 

دادی نے جھولا بھیجا ہے

اور ہوا بھیجی ہے خدا نے !

جھولا جھولنے بیٹھی ہوں میں

کون جھُلائے کوئی نہ جانے

٭٭٭

 

 

 

ننھی چمگادڑ

 

(شیل سلور اسٹائن کی نظم کا ترجمہ)

 

ننھی چمگادڑ یوں چیخی

امی ! امی! جلدی آؤ

روشنیوں سے ڈر لگتا ہے

جلدی آؤ اندھیرا لاؤ

٭٭٭

 

 

 

 

جب ہم چھوٹے ہوتے تھے

 

جب ہم چھوٹے ہوتے تھے

رات کو ایسے سوتے تھے

 

دادی پاس سُلاتی تھیں

باتیں کرتی جاتی تھیں

 

پھول نگر کے راجا کا

قصّہ ہم کو بھاتا تھا

 

روز ہی فرمائش کر کے

ایک کہانی سنتے تھے

 

لیکن ایک ہی مشکل تھی

روز کہانی لمبی سی

 

کہتے کہتے کھو جاتیں

دادی خود ہی سو جاتیں

 

ہم بھی تو سو جاتے تھے

نیند میں یوں کھو جاتے تھے

 

پھول نگر کا راجا تھا

راجا تھا یا باجا تھا

 

روپ نگر کی رانی تھی

رانی تھی یا نانی تھی

 

ان کا کیا انجام ہوا

کچھ بھی یاد نہیں رہتا

 

اگلے روز جب اٹھتے تھے

سب کچھ بھولے بھولے سے

 

پیلا دیو یا زنگارو

اور سنائیں کیا یارو

 

دادی کی وہ باتیں تھیں

مزے مزے کی راتیں تھیں

 

اب جو بچّے ہوتے ہیں

ٹی وی دیکھ کے سوتے ہیں

 

ملکِ آز کا جادوگر

دیکھ چکے ہیں ٹی وی پر

 

پیلا دیو یا زنگارو

جو یہ دیکھ چکے یارو

 

ہم تو اِن کرداروں سے

پریوں سے اِن تاروں سے

 

اپنے خواب سجاتے تھے

اُن میں سب کو پاتے تھے

 

کوہِ قاف کے جادوگر

راجا اور پرجا کے گھر

 

اُڑتے اُڑن کھٹولے بھی

عیّاروں کے ٹولے بھی

 

خوابوں اور خیالوں میں

اِن گزرے ہوئے سالوں میں

 

اب تک بھول نہیں پائے

کاش وہ بچپن لوٹ آئے

٭٭٭

 

 

 

 

ہمارا بکرا خواب میں

 

(علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)

 

میں سویا جو اِک شب تو دیکھا یہ خواب

بڑھا اور جِس سے مرا اضطراب

 

یہ دیکھا کہ میں جا رہا ہوں کہیں

چلا آتا ہے ایک ریوڑ وہیں

 

عجب تھا تقدس، عجب نور تھا

ہر اِک جانور ایسے مخمور تھا

 

جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھا

تو دیکھا کہ ریوڑ یہ بکروں کا تھا

 

زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے

گلے میں تھے مالا سی ڈالے ہوئے

 

مجھے یاد اب پچھلی عید آ گئی

جو مجھ سے بھی قربانی کروا گئی

 

یہ رب کی رضا کا تھے ساماں ہوئے

یہ بکرے وہی تھے جو قرباں ہوئے

 

اسی سوچ میں تھا کہ بکرا مرا

اچانک مجھے یوں نظر آ گیا

 

وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا

وہ آدھا تھا بس، باقی آدھا نہ تھا

 

کہا میں نے پہچان کر میری جاں

مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں

 

جدائی میں رہتا ہوں میں بے قرار

پروتا ہوں ہر روز اشکوں کے ہار

 

نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی

گئے چھوڑ اچھی وفا تم نے کی

 

جو بکرے نے دیکھا مِرا پیچ و تاب

دیا اُس نے منہ پھیر کر یوں جواب

 

رُلاتی ہے تُجھ کو جدائی مِری

نہیں اِس میں کچھ بھی بھلائی مِری

 

یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چُپ رہا

دھڑ اپنا دِکھا کر یہ کہنے لگا

 

سمجھتا ہے تُو ہو گیا کیا اِسے

تِرے ہی فریزر نے کھایا اِسے

 

اِسی دَم مجھے یاد بھی آ گئیں

وہ بکرے کی رانیں جو فریزر میں تھیں

 

جنہیں میں نے رکھّا بچا کر وہاں

بچا کر کہوں یا چھپا کر وہاں

٭٭٭

 

 

 

 

تیز گرمی میں ٹھنڈا مٹکا

 

اک مسافر غریب بے چارا

تھک چکا تھا وہ پیاس کا مارا

 

شام سے پہلے گھر پہنچنا تھا

تیز گرمی سے پھر بھی بچنا تھا

 

دھوپ تھی تیز، لُو بھی چلتی تھی

ریت اڑتی تھی، آگ جلتی تھی

 

راستے میں اسے نظر آیا

اک گھنے سبز پیڑ کا سایا

 

پیڑ کے پاس جونہی وہ پہنچا

ایک مٹکا اسے نظر آیا

 

ساتھ رکھا تھا آبخورہ بھی

یعنی مٹی کا اک کٹورا بھی

 

شکر رب کا ادا کیا اُس نے

ٹھنڈا پانی جو پی لیا اُس نے

 

پانی پی کر اُسے خیال آیا

ذہن میں اس کے یہ سوال آیا

 

کیسی گرمی ہے، لُو بھی چلتی ہے

جیسے چولھے میں آگ جلتی ہے

 

پھر بھی پانی ہے کس قدر ٹھنڈا

راز کیوں یہ سمجھ نہیں آتا

 

پاس رکھا ہوا تھا جو مٹکا

بات اُس کی سنی تو یوں بولا

 

کارنامے ہیں یہ تو مٹی کے

میں بنایا گیا تھا مٹی سے

 

کچی مٹی کا اِک گھڑا ہوں میں

مجھ کو معلوم ہے کہ کیا ہوں میں

 

یوں ہمہ وقت ٹھنڈا رہتا ہوں

دھوپ، گرمی میں ہنس کے سہتا ہوں

 

لوگ ایسے ہی اچھے رہتے ہیں !

گرم سہہ کر جو ٹھنڈے رہتے ہیں

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ  کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل