ٹیشو پیپر
’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘ کتاب میں مشمولہ ایک طویل کہانی
مشرف عالم ذوقی
آپ کو کیا لگتا ہے، سیکس … ! نہیں۔ میں سیکس کے بارے میں ہی پوچھ رہا ہوں — اور بالکل بھی سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ بھلا سیکس کے نام پر اس طرح چونکنے یا بھنویں سکوڑنے کی کیا ضرورت ہے —؟ آپ گھبرائے ہوئے بھی لگتے ہیں — اور بے حد الجھن بھری نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہے ہیں جیسے میں نے کوڑھ یا ایڈس جیسی بھیانک بیماری کے بارے میں پوچھ لیا ہے۔ نہیں — اتنا سخت بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ آرام سے صرف میرے اس سوال کا جواب دیجئے … کہ کیا سیکس کے بغیر آپ رہ سکتے ہیں ؟ کیا سیکس کو زندگی کا حصہ بنائے بغیر آپ ساری عمر گذار سکتے ہیں ؟ سیکس کتنا بستا ہے آپ میں ؟ نہیں اتنا غصہ مت کیجئے۔ اس چینی فلسفی وانچو کی طرح — جو کہا کرتا تھا، آنکھ کھلنے کی کہانی بس ناف کے نیچے ذرا سا پائجامہ سرکنے کی کہانی ہے — اور اس کہانی سے ہی ہم سماج، مذہب، معاشیات اور اخلاقیات تک کے اصول اور قانون بُنتے رہتے ہیں — سب ایک مقدس پانی کے قطرے کی کرامت … اور آپ پائجامہ اتارنا نہیں چاہتے تو آپ کے آدمی ہونے پر شک کیا جا سکتا ہے — نہیں، ہنسئے مت۔ وانچو کو اس وقت بھی اچھی نظر سے دیکھا نہیں گیا۔ اور شکر تھا کہ وہ یونان کی جگہ چین میں پیدا ہوا ورنہ سقراط کے چاہنے والوں کی طرح اسے بھی زہر کا پیالہ پینا پڑتا جاتا …
اب آپ غصے سے دیکھ رہے ہیں۔ اور جناب، یہ کوئی مناسب بات نہیں ہے — ناف کے نیچے پائجامہ سرکنے کی بات پر اتنا برا منہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے — مذہبی، مقدس کتابوں سے مندروں تک — ایک دوسرے میں گم، عورت اور مرد کی ہزار تصویریں جو اشتعال پیدا کرتی ہیں … اور ایک انجانی سی بھوک بھی — جو قدم قدم پر آپ کو بے چین کیے رہتی ہے — نہیں، غصہ مت ہوئیے … ایک بار میرے کہنے سے مقدس عمارتوں کو ہی دیکھ لیجئے — مسجد کے گنبد، کراس کے نشان یا شیو لنگ — ایک ساتھ محبت، عقیدت اور انسانی جسم سے وابستہ بھوک کی نشاندہی کرتے ہوئے — آپ کی مذہبی کتابیں بھی ان کے ذکر سے خالی نہیں ہیں — ایک دن اچانک ناسترو دومس کس کی طرح سیکس کی تیسری آنکھ کھل گئی اور اس کہانی نے جنم لے لیا —
مقام دہلی مہانگر، جمنا پار کا پریت وہار انکلیو —
ٍٍکردار: پچاس کی عمر میں پہنچے کامتا بابو اور ان سے دس سال چھوٹی ان کی بیوی … سلیکھا۔ اور سلیکھا کا ایک قریبی رشتے دار — وجندر۔ جسے وہ چھوٹا بھائی کہتی ہے۔ عمر یہی کوئی 28-30 کے آس پاس۔ تین کمروں والے اس فلیٹ میں ایک کمرہ اس کا بھی ہے۔ نوکری کی کوشش میں لگا ہے۔ تھوڑی سی دوڑ بھاگ — اور باقی بچا وقت کمپیوٹر — دماغ پریشان ہو تو چیٹنگ سے بہتر کوئی چیز نہیں — اور دیکھئے، اس وقت بھی وہ یہی کر رہا ہے —
اس کی آنکھیں نشے میں ہیں اپسراؤں کا رقص جا ری ہے۔
۔۔ وجیندر کی آنکھیں نیٹ پر جم کر رہ گئی تھیں۔ رنگ برنگی پریوں کی قطار جیسے نیٹ سے نکل کر کمرے میں آ گئی ہو۔ دعوت نظارہ دینے کے لیے … یاہو چیٹنگ باکس پر وہ شاید اب تک دنیا کے تمام ممالک کی اپسراؤں سے مل چکا تھا — اور ان اپسراؤں کے بارے میں اس کا علم حیران کرنے والا تھا۔ ایران کی لڑکیاں کیسی ہوتی ہیں … فلپائن کی … بیچارا غریب ملک … جلد ہی ’کیم‘ پر آ کر کپڑے اتارنے لگیں گی۔ دوست بنانے میں جلد باز۔ پھر آپ سے پیسے مانگے گی۔ کالج میں پڑھتی ہے۔ فیس دینے کے پیسے نہیں۔ اور پاکستان … کچھ تو شرافت کی پتلیاں اور کچھ آپ کے پوچھنے سے پہلے ہی پوچھیں گی۔ Do you have cam? اور دوسرا سوال ہو گا۔ ڈو یو لائک سیکس چیٹ — کیم روشن … دنیا گلوبل ہو کر ایک چھوٹے سے کمرے میں اپنی رنگینیاں بکھیرنے لگتا … کپڑے اترنے لگتے اور — آسٹریلیا، سنگارپور، چین، جاپان، اور اپنا پڑوسی ملک نیپال … جب تک نوکری نہیں ہے … وجیندر کے پاس ذہنی اور جسمانی بھوک کی تکمیل کا بس یہی ایک ذریعہ تھا — اور اس کے باہر —
لیکن وجیندر جانتا ہے۔ حقیقت کی زمین ہر بار دوسری ہوتی ہے۔ سخت، تکلیف دہ۔ اس گھر میں جیسے وہ اچانک ہی اجنبی ہو گیا ہے۔ بہت کچھ بدل رہا ہے۔ بڑے شہروں میں یوں تو زندگی بسر کرنے کے طریقے آہستہ آہستہ بدلنے لگتے ہیں۔ پھر اچانک ایک دن مہانگر تہذیب کا راکشش آپ کو نگلنے چلا آتا ہے۔ وجیندر سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ یا اسے یوں کہیں کہ اپنی حدود میں رہ کر وہ سب کچھ دیکھنے پر مجبور ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کچھ بول نہیں سکتا۔ منہ نہیں کھول سکتا۔ اسے لگتا ہے نیٹ کی یہ پریاں نہ ہوتیں تو شاید اس گھر میں اس کا دم گھٹ گیا ہوتا … سلیکھا کو وہ دیدی کہتا ہے۔ بچپن سے کہتا آیا ہے مگر اسے لگتا ہے، اچانک دیدی، گھر میں آئی تبدیلی کا شکار ہو کر شاید نئی تہذیب کے پل یا کسی نئے راستے پر نکلنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ مگر کیوں ؟
۔۔ عام بیویوں جیسی ہی ایک بیوی — مگر جب خواہشات اندر سے سر نکالتی ہیں تو شاید آگے پیچھے کچھ نہیں دیکھتیں۔ ایسی ہی کسی دبی خواہش نے جب پہلی بار سر نکالا تو ایک انجانی محبت کو جنم دیا۔ پھر شادی بیاہ کے بعد نوکری — فلیٹ اور بڑھتی خواہشات بھیانک شکل اختیار کرتی گئی — تھوڑا صبر کریں۔ کیونکہ خواہشات کے اسی بھیانک جنگل سے اس کہانی کی شروعات ہوئی —
۔۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ کہانی میری ہے۔ میں یعنی کامتا ناتھ — مجھے لگتا تھا، شاید سب کچھ بدل رہا ہے لیکن بدلنا تو ایک فطری عمل ہے۔ پھر بدلنے میں ڈر کیسا؟ لیکن آپ رشتوں کے بدلنے کا درد نہیں جانتے — یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ شاید میں اس طرح تفصیل سے نہیں بتا پاؤں، جیسے مصنف یا جذباتی قسم کے لوگ مرچ مسالہ لگا کر آپ کو بتا سکتے ہوں — یہ ہنر میرے پاس نہیں ہے۔ پھر بھی پچاس سالہ زندگی کی ایک ایک تفصیل میرے پاس ہے۔ ٹھیک ویسے ہی، جیسے کوئی دکاندار اپنے آٹے چاول کی قیمتیں یاد رکھتا ہے۔
شاید میں اس بھیانک ڈراؤنے خواب سے باہر نکل آیا، جیسا ابھی کچھ دن پہلے میرے ساتھ ہوا — ایک عجیب سا ڈراؤنا خواب — یقین کرنے کی ہمت نہیں ہوتی کہ کیا سچ مچ ایسا میرے ساتھ ہو سکتا ہے —؟ میں پریکٹیکل نہیں ہوں — اصول پرست یا آدرش وادی بھی نہیں — لہٰذا اس تفصیل میں، جو اب میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں، ممکن ہے کچھ آگے پیچھے یا اونچ نیچ ہو جائے تو اس کے لیے میں ابھی سے آپ سے معافی چاہوں گا — چلئے زیادہ وقت نہ لیتے ہوئے میں تھوڑی سی تفصیل ڈائری کی شکل میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
۔۔ مجھے لگ رہا ہے … میرے اندر کچھ ہو رہا ہے — دفتر سے گھر آنا صرف ایک مجبوری ہے۔ کیونکہ اب یہاں سلیکھا نہیں ملتی۔ سلیکھا کی خوشبو بھی نہیں۔ سلیکھا کے آ جانے کے بعد بھی اس کا احساس نہیں ہوتا۔
۔۔ سوچتا ہوں، کیا محبت کبھی اُداس یا تھکن کا شکار ہو سکتی ہے —؟ سلیکھا کئی دنوں سے کافی لیٹ آ رہی تھی۔ رات کے بارہ ایک بج جاتے۔ آنے کے بعد بھی ہم میں بات نہیں کے برابر ہوتی۔ شاید زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب ازدواجی زندگی صرف نبھائے جانے کی چیز بن جاتی ہے۔ مجھے احساس ہے کہ میں رومانی آدمی کبھی نہیں رہا۔ اس لیے سلیکھا کی جسمانی خوبصورتی بیان کرنے کے لیے بھی میرے پاس لفظ نہیں ہیں — نہیں جانتا۔ ایک وقت ہم نے لو میرج کیسے کی۔ (اس کی تفصیل آگے آئے گی) مگر اب زندگی کے اس پت جھڑ میں کوئی بھی رومانی مکالمہ مجھے چھو بھی سکتا — کبھی سوچتا ہوں، شاید سلیکھا کے ذہنی طور پر تقسیم ہونے کا یہی راز رہا ہو …
۔۔ رات کے دو بج گئے تھے۔ سلیکھا کے انتظار میں آنکھیں پریشان ہو رہی تھیں — لیکن میں مطمئن تھا۔ اس کی تاخیر کی کوئی وجہ حادثے سے نہیں جڑ سکتی — میں کھڑکی پر کھڑا تھا۔ باہر رات سو گئی تھی۔ گاڑی رکی تھی۔ سلیکھا کے ساتھ ایک اسمارٹ سا شخص اترا تھا — اس نے سلیکھا کو اپنی بانہوں میں لیا اور ایک گرم بوسہ دیا … میں کھڑکی سے ہٹ گیا۔ شاید اس منظر کا تانا بانا تو میرے اندر پچھلے کئی مہینے سے بُنا جا چکا تھا — اگرآپ خاموش ہوتے ہیں اور اندر تک صرف لہولہان ہونا جانتے ہیں تو سمجھ لیجئے — آپ اپنی تمام ذہنی اور جسمانی سطح پر نامرد ہو چکے ہیں۔
شاید میرے ساتھ یہی ہوا تھا۔
سنہرے رنگ کا خوبصورت سا بیگ لہراتی وہ کمرے میں آئی تو سارا کمرہ خوشبو سے معطر ہو اٹھا۔ اس کے وجود میں ایک تھرکن سی تھی وہ بہت خوش لگ رہی تھی۔ اور یہ بیگ بھی اس سے پہلے میں نے اس کے ہاتھ میں نہیں دیکھا تھا۔ اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔
’آج نہیں پوچھو گے، کہ میں کہاں تھی اتنی دیر — ‘
میں نے نظر نہیں اٹھائی … سنّاٹے میں اس کے اس جواب کو محسوس کرتا رہا۔ اچانک وہ ہنسی — ’دہلی والے ہونے لگے ہو — تھوڑا تھوڑا بدلنا بھی سیکھ رہے ہو۔ چلو اچھا ہے۔ یہ ایٹی کیٹ تمہارے اندر آ جائے گا تو پھر جینا آسان ہو جائے گا۔ ‘
وہ پھر خاموش رہا۔ شاید یہی اس کی غلطی تھی۔ سلیکھا چیخی تھی۔
’مجھے ہرٹ کر رہے ہو تم۔ بولتے کیوں نہیں۔ دیر رات آ کر کوئی گناہ نہیں کیا میں نے …‘
شاید وہ پہلی رات تھی میرے لیے — جب ایک گہری خاموشی کا احساس ہوا تھا اپنے اندر — ممکن ہے بولنا چاہا ہو۔ لیکن اندر کے اندھیرے نے بولنے ہی نہیں دیا۔ اندر ہی اندر گھٹتی رہی آواز۔
۔۔ ہوم لون کا انٹرسٹ ہمیشہ ہی وقت پر دینے میں ناکام رہا۔ پہلے صرف فون کی گھنٹی بجتی تھی۔ اب فون پر وارننگ بھی دی جانے لگی۔ یاد آیا، پہلے ہم اندر لوک میں تھے۔ کرائے کے مکان پر — سلیکھا کی جاب ہو جانے کے بعد سے ہی اس نے اپنے گھر کا راگ الاپنا شروع کر دیا تھا۔ فون پر ہر وقت بجتی گھنٹیوں میں ایک سریلی آواز پرائیوٹ بینک والوں کی بھی ہوتی ہے۔ سر … آپ کو ہوم … گاڑی وغیرہ کے لیے لون تو نہیں چاہئے۔ تبھی پرم جیت ٹکرایا تھا۔ ایک سکھ نوجوان — سارے کاغذات کی خانہ پری اسی نے کی۔ سلیکھا اور میرے آئی کارڈ، ایڈریس پروف، تین سال کے انکم ریٹرن … اس کا اپنا کمیشن الگ … ان سب سے فارغ ہو کر بینک کے افسر سے ملنا تھا۔ وہ ایک خوبصورت سی پچیس سال کی لڑکی تھی۔ کچھ اہم اور رسمی باتیں — اور چند دنوں کے بعد پرمجیت کی محنت رنگ لائی۔ لان سیکشن ہو گیا۔ پہلے ہی پریت وہار کالونی کے ایک فلیٹ کی بکنگ سلیکھا کرا چکی تھی۔ بینک سے آیا ملازم اس فلیٹ کی تصویر لے جا چکا تھا۔ اٹھائیس لاکھ کا لون۔ پرمجیت کا فائیو پرسینٹ کا کمیشن — اور ہر مہینے بینک انٹرسٹ کے بیس ہزار روپے — سلیکھا اور مجھے ملا کر کر مہینے کے پینتیس ہزار ہو جاتے تھے۔ اب ہر مہینے کے بیس ہزار بینک انٹرسٹ میں چلے جا رہے تھے — بینک لون کے لیے بھی پرمجیت کو شروع میں دینے کے لیے کچھ پیسوں کی ضرورت پڑی تھی۔ سوچتا ہوں، اپنا مکان آپ کو کتنی شرطوں پر حاصل ہوتا ہے۔ جب آپ اپنا سکھ چین سب کچھ ان شرطوں کے نام گروی رکھ دیتے ہیں۔
۔۔ صبح صبح باہر گدھ منڈراتے دیکھے تو ڈر سا گیا —
’گدھ کیوں آئے —؟‘
آئے ہوں گے … خود سے کہا۔
مگر کیوں ؟ ایسے تو نہیں آتے —؟
ٹھیک یہی وقت تھا، جب سلیکھا باہر آ کر بولی تھی … جا رہی ہوں۔ آج دفتر میں کام بہت ہے۔ شاید زیادہ وقت لگ جائے۔ وہ یہ دیکھنے کے لیے بھی نہیں رکی کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں یا نہیں — آج اس نے سلیو لیس شرٹ پہنی تھی اور جینس۔ میں نے غور کیا اس نے اپنا پہناوا بھی چینج کر لیا ہے — شاید پہناوے کے ساتھ بہت کچھ۔ تھوڑی دور جانے کے بعد وہ پلٹی۔
’اور ہاں — میں نے موبائل کا سم، چینج کر دیا ہے۔ وہ بینک والے بہت پریشان کرنے لگے ہیں — لینڈ لائن کا فون مت اٹھانا — مگر ہاں — دو مہینے کا انٹرسٹ ہے۔ وہ ٹھہری — کسی دوست سے مانگ لو نا — ‘ ایک بار پھر وہ بیگ ہلاتی نظروں سے اوجھل تھی۔
میرے اندر کی بے چینی بڑھ چکی تھی۔ شاید اب دماغ میں پٹاخے بھی چھوٹنے لگے تھے اور ہر گزرنے والے وقت کے ساتھ ان چھوٹتے پٹاخوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔
۔۔ پڑوس میں وِمل نام کے آدمی نے خودکشی کر لی تھی۔ اس کی بیوی اسے چھوڑ کر دو دن پہلے بھاگ گئی تھی۔ کالونی میں پولس آئی تھی۔ کافی لوگوں سے پوچھ تاچھ ہوئی۔
۔۔ کافی دنوں بعد وجیندر آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ آج وہ رات کو یہیں رکے گا۔ مگر دوسرے دن صبح ہی چلا جائے گا۔ وہ بار بار میری طرف دیکھ رہا تھا — میرے چہرے پر پھیلی خاموشی کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
وجیندر کے ہونٹ نفرت سے سکڑے ہوئے تھے۔
’مجھے پتہ تھا، ایک دن تم بیمار پڑ جاؤ گے۔ اندر لوک کیا برا تھا — مانا کہ کرائے کا گھر تھا۔ مگر یاد کرو۔ افّ … اس نے مجھے ہلانا بند کر دیا — یہاں کی فضا صرف بیمار کر سکتی ہے تمہیں۔ اور تم بیمار ہو گئے — اب چلو یہاں سے —
میں نے اس کی طرف نگاہ اٹھائی۔ شاید میں بہت کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر میرا ذہن مفلوج تھا۔ لفظ اندر ہی گھٹ گئے تھے۔ لگا، کچھ دنوں سے مسلسل چلنے والی پریشانی نے، مجھ سے میرے سارے لفظ چھین لیے ہوں۔
وجیندر دوسرے دن صبح ہوتے ہی چلا گیا۔ شاید اگر میرے اندر کی زبان کو وہ سمجھ پاتا تو وہ رک سکتا تھا۔ مگر پتھروں کے، گونگے درو دیوار کے درمیان جہاں چین کی دو سانسیں لینا مشکل ہوں، بھلا کون رک سکے گا —؟
۔۔ ہوم لون کے لیے مسلسل کئی بار فون آئے۔ دہلی اور ممبئی دونوں شاخوں سے — میں نے فون ضرور اٹھایا۔ لیکن میری آواز ہی جواب دے گئی تھی — صبح 11 بجے باہر ڈمرو کی آواز نے مجھے جگایا — کھڑکی کھولی۔ کبھی کبھی کالونی میں ایسے کھیل تماشہ کرنے والوں کو بڑی مشکل سے کسی کے کہنے پر اندر آنے کی پرمیشن دے دی جاتی ہے — وہ ایک بندر والا تھا۔ کالونی کی کچھ عورتیں تماشا دیکھ رہی تھیں۔ بندر والا ڈگڈگی بجاتا بندروں کا کھیل دکھا رہا تھا۔ اس کے ساتھ جمورا بھی تھا۔ جمورا یعنی ایک چھوٹا سا دس سال کا بچہ۔ بندر سے تھوڑا ہی بڑا — اور بندر کی طرح ہی کودتا پھاندتا اپنے کھیل دکھانے میں محو تھا … میں بس ایک ٹک بندر اور اس بچے کو دیکھے جا رہا تھا — اندر ایک بے چینی سی تھی۔ ڈمرو کی آواز یکایک بری لگنے لگی۔ وہ بچہ یکایک مجھے پپیٹ یا کٹھ پتلی جیسا دکھنے لگا تھا — محسوس ہوا، بندر نہیں — اسے نچایا جا رہا ہو۔ اور بندر والے کے ساتھ رہتے رہتے — شاید اپنے انسان ہونے کے احساس کو مار کر، اس نے خود کو ایک بندر ہونے کی سانچے میں ڈھال لیا ہے۔
اس وقت بندر، بندر نہیں بلکہ وہ ہے — وہ بندر اندر ہلچل مچا رہا تھا — آگے کھیل دیکھنا میرے بس کی بات نہیں تھی — اپنے بستر تک آنے تک جیسے دماغ آگ کا انگارا بن چکا تھا — میں مسلسل اپنے سر ہلا رہا تھا۔ جیسے سارا نظام ہی بدتر ہو اور اس سارے نظام کو خراب کرنے میں صرف سلیکھا کا ہاتھ ہو — نہیں، شاید آپ یقین نہیں کریں، اس وقت میرے اندر کچھ عجیب سی کارروائی چل رہی تھی۔ میں اپنے ہی سوال و جواب میں الجھا ہوا تھا —
سوال: بندر والا کیوں آیا —؟
جواب: سلیکھا لائی۔
سوال: بندر والے نے روٹی کھائی —؟
جواب: سلیکھا نے نہیں دی۔
سوال: کالونی میں کسی کو بھی آنے کیوں دیا جاتا ہے ؟
جواب: سلیکھا قصور وا رہے۔
سوال: کشمیر میں برف کیوں گری؟
جواب: سلیکھا جواب دہ ہے۔
سوال: چار دہشت گرد مارے گئے ؟
جواب: سلیکھا جانتی ہے۔
سوال: پالیوشن بہت بڑھ گیا ہے ؟
جواب: سلیکھا قصور وار ہے۔
آپ سمجھ سکتے ہیں، جیسے میرے آخری نشانے پر صرف سلیکھا تھی — لیکن میں بولنے سے معذور تھا۔ سننے سے بھی — میرے جسم کے اندر عجیب سے کیمیائی رد عمل ہو رہے تھے — جیسے شاید اس کیمیائی عمل کو سمجھ پانا اب میرے لیے آسان نہیں تھا۔ مگر اس پورے عمل میں، میں صرف ایک بے زبان جانور بن گیا تھا — شاید میرے اندر اس قدر اندھیرا اور سنّاٹا اکٹھا ہو چکا تھا، جس کے بارے میں، میں خود بھی نہیں جانتا تھا، کہ اس بے حد گہرے سنّاٹے اور اندھیرے کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ؟ بستر … بستر سے بالکنی … پھر بستر … اندر جیسے دھماکے چل رہے تھے — کبھی مسکراتا، جیسے ملک، سیاست اور سازش کے ہر ایک پہلو سے کوئی واقف ہے تو صرف میں — میں اندر ہی اندر ہنس رہا تھا۔ شاید میں اس وقت اس دنیا کا ذہین ترین انسان تھا — اور میں اس دن، کسی بات پر دیر تک ہاتھوں کی انگلیوں سے اشارہ کرتا، کچھ بتانے یا کہنے کی بھی خود سے کوشش کر رہا تھا — پھر کچھ بدبداتا۔ مگر لفظ، شاید لفظ نہیں تھے — لفظ کہاں تھے — میں نے نظر اٹھائی۔
ذہن میں اب بھی پٹاخے چھوٹ رہے تھے — دروازے پر سلیکھا کھڑی تھی — اور میں سلیکھا کی جانب ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کسی چھپکلی، گلاس، سامنے کی دیوار یا اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو دیکھ رہا ہوں — اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ شاید اُس کی آنکھوں میں ماند پڑی ہوئی چمک کے ساتھ ایک نفرت رہ گئی تھی — گہری نفرت — جیسے اس کی الجھی الجھی سی آنکھیں مجھے ایک نفسیاتی مریض یا پاگل سمجھ رہی ہوں — شاید وہ چیخی بھی تھی —
’ناٹک بند کرو … سنا تم نے …‘
وہ وہیں کھڑی رہی۔ میری طرف آگے نہیں بڑھی۔
’مجھے ڈراؤ مت — سنا تم نے — ایسا کیوں کر رہے ہو — پاگل ہو گئے ہو کیا؟ نہیں، تم ناٹک کر رہے ہو۔ بینک کے لیے کسی کو فون کیا —؟ ناٹک مت کرو۔ اسکیپ ہے یہ تمہارا — ذمے داریوں سے بچنا چاہتے ہو — سنو! زیادہ پاگل پن کرو گے تو چلی جاؤں گی تمہیں چھوڑ کر۔ یونو، میں نہیں سہنے والی تمہارا ڈرامہ — ‘ لفظ غائب تھے۔ اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے، اس وقت سلیکھا ایلس ان ونڈر لینڈ کی بلّی بن گئی تھی۔ میں بلّی کی مونچھوں کو دیکھ رہا تھا۔ سلیکھا غائب تھی۔ بلّی کی مونچھیں میرے سامنے تھیں اور ان مونچھوں کو دیکھ کر میں ہنس رہا تھا۔ شاید سلیکھا مجھے ہنستا دیکھ کر گھبرا گئی تھی۔
۔۔ سلیکھا صبح جلد اٹھ گئی۔ شاید رات والے کامتا ناتھ کو برداشت کرنا اس کے لیے نا ممکن سا تھا — صبح وہ کب اٹھی، تیار ہوئی۔ شاید میں یہ سب جاننا بھی نہیں چاہتا تھا یا میرے پاس سوچنے لائق اس وقت کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ کیونکہ صبح ساڑھے سات کے آس پاس میں نے صرف اس کی ایک جھلک دیکھی تھی۔ وہ سفید جھینے سوٹ میں تھی۔ گھبرائی سی — آہستہ سے میرے کمرے کا دروازہ کھول کر مجھے دیکھنے کی کوشش کی تو میں نے ’سیمل‘ کے پیڑ پر بیٹھے بندروں کی طرح اسے دیکھ کر اپنی کھیسیں نپوڑ دیں — ایک چیخ کے ساتھ اسے دروازے سے بھاگتا دیکھا میں نے — مگر شاید ٹھیک سے کچھ یاد نہیں کہ ایسا کیسے ہو گیا تھا۔ شاید بچپن کے احساس آپ کے اندر کہیں رہ جاتے ہیں — بچپن، گھر کی دیوار کے اس پار کھنڈر میں وہ سیمل کا پیڑ — جنوری فروری کی خوشگوار ہواؤں میں سیمل سے روئی اڑاتے بندر۔ میں اُنہیں مارنے کو ہاتھ ہلاتا تو وہ زور سے اپنی ’دولتّی‘ چلاتے ادھر سے اُدھر پھاندنے لگتے — شاید انسان ہونے کے تمام احساسوں کے باوجود وہ ڈارون‘ کا جانور اندر ہی ہوتا ہے … سلیکھا کے جانے کے بعد بھی شاید یہ بندر ’آزاد‘ تھا۔ یا چہک رہا تھا۔ یا شاید سب کچھ بھول گیا تھا۔ کارنس پر چڑھ گیا۔ یہاں ایک قطار سے دوا کی خالی شیشیاں پڑی تھیں … اب میں اُنہیں پھینک رہا تھا۔
’لے کُلبُل آ … پکڑ …‘ یہ کلبل آ کون تھا —؟ اچانک دماغ میں دھول میں سنا چہرہ کیسے آ گیا —؟ جبکہ شاید میں نیم بیہوشی کی حالت میں تھا۔ دماغ سو رہا تھا … پر بوا کا بدمعاش بچہ کلبل آنکھوں کے آگے تھے …
’لے … سالے پکڑ … آم پکڑ۔ لے یہ امرود پکڑ … لے نا … ایک دو تین سات … شیشیاں دھائیں دھائیں زمین پر گر کر ٹوٹتی رہیں — آنکھوں کے آگے لال دھندلی پرچھائیاں پھیل گئیں تھیں۔ دماغ جل رہا تھا۔ کارنس سے نیچے کودنے تک میں زور سے چیخا تھا … اور شیشیوں کی ٹوٹی کرچیاں میرے پاؤں کو زخمی کر چکی تھیں …
نیم بیہوشی کی حالت میں تھا۔ اس لیے دروازے کے اندر آتے وجیندر کی زور دار چیخ بھی شاید میں نہیں سن پایا تھا۔ اب سوچتا ہوں، وجیندر اس وقت اچانک نہیں آیا ہوتا؟ کیا من کی آنکھیں ہوتی ہیں —؟ یا روح کے اندر ’ٹیلی پتھی‘ کا کوئی وائر ہوتا ہے، جو کہیں نہ کہیں میرے لیے وجیندر کے احساس سے بھی وابستہ تھا …
شام، دونوں پاؤں میں پٹّیاں بندھی تھیں — وجیندر میرے پاس بیڈ پر بیٹھا تھا۔ میری آنکھوں میں جھانکتا … جیسے اس لمحے کے دردناک منظر کو اپنی گہری حساس آنکھوں سے، ایک نئی دلیل کے ’ٹیسٹ ٹیوب‘ میں ڈال رہا ہو۔
’سنو جیجو … میرے کمرے میں آنے تک شیشے کے ہزاروں ٹکڑوں کے درمیان تمہارا جسم ایسے پڑا تھا، جیسے تاج محل کی تعمیر کرنے والے کاریگر کام سے تھک کر سنگ مرمر کے مرمریں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے درمیان آرام کر رہے ہوں — تمہارے پاؤں سے خون نکل رہا تھا … اور یہ خون شیشے کے چھوٹے چھوٹے ان گنت ٹکڑوں سے نکل کر دھول میں پیوست ہونے کی تیاری کر رہے تھے — سنو، جیجو — دیکھو مت — ایسے مت دیکھو مجھے — تب پہلی بار لگا، تالستائے کوانّا کا رنینا کی بیوفائی میں بھی کیسی وفاپرست عورت نظر آئی ہو گی — یا پھر دوستووسکی کا وہ ایڈیٹ جوپر نسنر کی محفل میں شرمایا شرمایا سا، ایلٹ کلاس کے لوگوں کے درمیان آتا ہے — اور بے وقوفوں کی طرح ہاتھ سے شراب کا گلاس چھوٹ جاتا ہے … تم ایک بیوقوف نظر آ رہے تھے — یا شاید ایک بے حد نیک آدمی — جس نے اپنے من کی شانتی کے لیے شیشے اور خون کا ملا جلا روپ چنا تھا — ‘ وجیندر لہروں کی طرح شانت تھا — ’بے حد شریف لوگ شاید سب سے بے رحم ہوتے ہیں۔ بے حد شریف لوگ خود ہی اپنی پریشانیوں کے خیمے لگاتے ہیں، اور زندگی کے پریشان کن سفر میں بھی بے حد شرافت سے گزر جاتے ہیں — بے حد شریف لوگ صرف خود سے پیار کرتے ہیں یا خود سے ڈرتے ہیں — اپنی ضروری خواہشات سے ’کام واسنا‘ کی تکمیل تک وہ بے حد شرافت سے خود ہی دائرے کھینچتے ‘ بناتے اور توڑتے رہتے ہیں۔ وہ بے حد ڈراؤنی آواز میں بولا تھا — سلیکھا میری بہن ہے تو کیا ہوا؟ ہے تو ایک عورت نا؟ عورت کو مرد میں شرافت نہیں، بھرے بھرے بالوں والوں والا ایک ریچھ چاہئے — ایک وحشی آدمی … اس نے دھیرے سے بتایا — ابھی کچھ دنوں تک یہیں رہوں گا۔ ڈرو مت — تمہارے لیے رہوں گا۔ اور ہاں — تمہارے لیے ایک سر پرائز پیکج ہے۔ آگے بڑھ کر اس نے بیگ سے وہ پر اسرار آلہ کھول لیا تھا پھر مین سوئچ میں پلک لگاتے ہوئے بولا تھا — ہم جس عمر کے بھی ہوں، تھک جاتے ہیں — گلوبل گاؤں کا سب سے بڑا تحفہ ہے — تھکان — سائبر سے کال سینٹر تک — آنکھوں سے جسم تک — ہم صرف خون کی جگہ تھکان لے کر زندگی کی ریس میں آگے بڑھنے کا ناٹک کرتے ہیں — جاگنگ پارک سے لافٹر کلب، ’یوگ‘ سے رام دیو کی چھوٹی چھوٹی ورزش یا دونوں انگلیوں کے ناخونوں کو آپس میں رگڑنے تک — ہم صرف اپنے حصے کی تھکان اتارنا چاہتے ہیں — پھر یہ تھکان اچانک ایک بند کمرے میں ہمارے لیے خوشیوں کے ہزاروں دروازے کھول دیتی ہے … اور دوسرے ممالک کے، ہم سے زیادہ تھکے ہوئے پرندے، تھکن مٹانے کے لیے اپنے لباس اتارنے لگتے ہیں … پینٹی اتاروں، برا … ؟ تم وہ دکھاؤ گے — مسٹر وجیندر … ؟ میں پوری طرح سے ننگی ہوں۔ تمہارا انتظار کر رہی ہوں … ہاٹ چیٹ، سیکس … ننگے جسم … ننگی باتیں … اس لمحہ میں لگتا ہے، طالبان جیسے مجرموں کے ہاتھوں ایٹم بم لگ گیا ہو — تہذیب ختم … دنیا کا خاتمہ — صرف ایک بدنما جسم رہ گیا ہو … اور جانوروں جیسا ننگا ناچ … ہم ایک بے حد، مہذب صدی میں سارے کپڑے اتار کر داخل ہو گئے ہیں …‘
وہ پر اسرار آلہ کھل گیا تھا، جسے ہم آگے لیپ ٹاپ کے نام سے جانیں گے، مگر اس وقت وہ صرف ایک آلہ تھا۔ بیگ سے ہٹتے ہی، باہر نکلتے ہی میں رقص کرتی انگلیوں کے ساتھ ایک پر اسرار پردے کی رنگین روشنیوں کو دیکھ رہا تھا — لیکن لفظ؟ دماغ صفر تھا۔ آنکھیں بیجان … اور جسم کسی لاش کی طرح — میں دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں دیکھ رہا تھا — سنتے ہوئے بھی کچھ نہیں سن رہا تھا …
رات سلیکھا دیر سے آئی — اس نے صرف وجیندر سے میرے بارے میں سنا۔ پھر اپنے کمرے میں چلی گئی — شاید ایک وقت آتا ہے، جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہی جینا اور مرنا چاہتے ہیں — اور شاید ایک وقت آتا ہے، جب یہ رسمیں دھند میں ایسے کھو جاتی ہیں، جیسے کبھی ماضی کا حصہ بھی نہ ہوں — جیسے دو جسم ایک دوسرے کے لئے اُداس ہو کر — ایک دوسرے نظر چرانے لگتے ہیں۔
اسی رات — ایک واقعہ اور ہوا — بارہ بجے کے آس پاس آنکھیں کھل گئیں۔ ذرا سا ہوش آیا تھا — سر کے پچھلے حصے میں دنا دن نگاڑے بج رہے تھے … دونوں پیروں میں پٹیاں بندھی تھیں۔ پھر بھی سہارا لیتے ہوئے اٹھ بیٹھا — دوسری طرف زمین پر وجیندر سو رہا تھا۔ اس کے خرّاٹے گونج رہے تھے۔ ڈری ڈری سلیکھا کا چہرہ آنکھوں کے پردے پر تیر رہا تھا۔ بچوں کی طرح دل تالیاں بجانے کو کر رہا تھا — خواہش ہوئی، سلیکھا کو دیکھوں — وہ کہاں ہے ؟ صبح کیسے بھاگی تھی … ؟
بھاگ سلیکھا …
اب دماغ میں میزائلیں چل رہی ہیں۔
بھاگ سلیکھا … بھاگ … لے … دیکھ۔ بندر … دونوں ہاتھوں کو بندر کی طرح کر کے ڈراؤں — پاؤں کی پٹیاں بھول گیا۔ لنگڑاتے بستر سے اٹھا … دماغ سائیں سائیں … اسی حالت میں جانے کیسے طاقت آ گئی تھی۔ چلتا ہوا سلیکھا کے کمرے میں پہنچ گیا۔ ہاتھ کے پنجے پھیلائے … دانت نپوڑے … منہ سے بندر کی آواز نکالی — کاؤں … کاؤں — کمرے کا اندھیرا۔ بستر پر سوئی سلیکھا … تیز چیخ کے ساتھ، لائٹ جلا کر وہ دیوار سے لگی کانپ رہی تھی۔
چھوڑ دو مجھے … چھوڑ دو۔
کاؤں … کاؤں …
چیخ سن کر دروازے میں داخل ہوا وجیندر ہنس رہا تھا —
یہ کیا شرارت تھی جیجو؟
کاؤں … کاؤں …
’او دیدی … تم اتنی گھبرائی کیوں ہو … ؟‘
اچانک وجیندر کو قریب محسوس کرتے ہوئے وہ اپنا خوف بھول گئی تھی — سلیکھا کی دہاڑ گونجی تھی … مہذب سماج میں پاگل کتوں کو شوٹ کر دیا جاتا ہے …
’یہ کتّا نہیں ہے …‘
’کاؤں … کاؤں …‘
’کتّے سے بدتر ہے …‘
’کاؤں کاؤں …‘
وہ رو رہی تھی — ’بہت ہو گیا۔ اب اس سے میرا پنڈ چھڑواؤ وجیندر۔ یہ اپکار کرو۔ میں اس گھر میں نہیں رہ سکتی … لمبی سانس لیتے ہوئے وہ بولی تھی … میرے باس اوبرائے نے مکان کے لون بھر دیئے ہیں۔ میں نے ایک دوسرا فلیٹ دیکھا ہے۔ وہ اس سے کم قیمت کا ہے …‘
’پھر —؟‘
’اس کا پیسہ ایڈوانس میں لے کر بینک کا باقی قرض ادا کر دوں گی۔ پھر دوسرے فلیٹ میں چلی جاؤں گی — ‘
کاؤں … کاؤں …
شاید نیم بیہوشی کی حالت میں بھی بہت کچھ سن رہا تھا۔ بلکہ مسکرا رہا تھا — دماغ کا تناؤ اتر گیا تھا۔ صرف صفر ہی صفر … بستر میں لیٹنے تک پاؤں بھاری بھاری لگ رہے تھے۔
’دیدی تمہیں چھوڑ دے گی …‘
کاؤں … کاؤں …
’اوبرائے نئے فلیٹ کے لیے اسے لون دلائیں گے۔ شاید کچھ اور بھی …‘
کاؤں … کاؤں …
انسان بنو جیجو … پاگل پن تمہیں مار ڈالے گا …
بے دلی سے اس نے پر اسرار آلہ کھول لیا تھا — شاید رات کے وقت، اس ڈراؤنے ناٹک سے باہر نکلنے کے لیے، وہ تھرکتی پرچھائیوں میں اپنی تھکن پیوست کرنا چاہتا تھا … دماغ صفر ہوتے ہوئے بھی آنکھیں جاگ رہی تھیں … اسکرین پر ننگی حسیناؤں کے جسم روشن تھے …
دماغ صفر ہوتے ہوئے بھی اندر کے اعضاء میں ایک کھنچاؤ محسوس کر رہا تھا …
3 اکتوبر 2007
بعد کے دو دن بھی عجیب سے گزرے — اب سوچتا ہوں تو شاید آنکھوں کے آگے صرف ایک لال رنگ رہ گیا تھا۔ سامنے کی پرچھائیں اسی لال رنگ میں نہائی ہوئی لگتی تھی — شاید کوئی بھی آواز میرے کانوں سے نہیں ٹکرا رہی تھی — بس ایک ہلکی پِپ کی آواز … آنکھوں کے آگے جیسے صرف ایک لال دائرہ — سامنے کا ہر ایک چہرہ ان لال پرچھائیوں میں سمٹ گیا تھا۔ دماغ بوجھل تھا۔ شاید دماغ کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو چکا تھا۔ یہ وجیندر کے ذریعے لائی گئی دوائیوں کا نتیجہ تھا۔ جس نے مجھے گہری نیند سلا دیا تھا — لیکن دوا کا اثر کم ہوتے ہی وہ بندر پھر سے زندہ تھا۔
کاؤں … کاؤں …
سلیکھا مار ڈالے گی مجھے …
کاؤں … کاؤں …
بہت گندی ہے سلیکھا …
کاؤں …
اب یاد کرتا ہوں تو جیسے یادوں کی کسی حسین کشمیر میں — کسی ڈل جھیل کے کنارے — یا کسی حسین شکارے پر، یا کسی برف پوش وادی میں سلیکھا کے دھندلے پڑ گئے چہرے کے نقوش مجھے پھر سے بے چین کر دیتے ہیں — تب میں پینتس کا تھا اور سلیکھا پچیس کی — لیکن وہ پیار میں عمر کی کسی حد کو نہیں مانتی تھی …
’مان لو اگر اُلٹا ہوتا تو — یعنی میں 35کی ہوتی اور تم … ؟‘
اس کی آنکھیں سچ مچ کشمیر کی ڈل لیک بن جاتیں، جن پر چپّو چلاتا میں محبت کے حسین شکارے کو بس دور تک بہتا ہوا دیکھتا رہتا …
شاید سب کچھ ایک طلسم کی طرح ہے — جینا ایک راز ہے — اور جیسا کہ اس چینی فلاسفر نے کہا تھا‘ — ماضی، تاریخ سے زیادہ صرف ایک ’مسٹری‘ ہے — ایک جادو کا ڈبّہ، وہاں صرف ان چیزوں کو محسوس کرو، جو تم سے چھوٹ گئی ہے … ایسے واقعات جو بے حد حسین تھے — یا شاید تم بھی، جب ماضی میں کسی کی انگلیاں پکڑے چل رہے تھے …
لیکن شاید آج کی سلیکھا میں وہ ماضی کہیں دفن ہو چکا ہے — اسے کسی شمشان، مرگھٹ یا قبرستان سے زندہ بھی کرنا چاہوں تو کامیاب نہیں ہو سکتا۔
۔۔ حالت ویسی ہی بنی ہوئی تھی — ڈاکٹر میری دماغی حالت کو لے کر فکر مند تھے۔ شاید کوئی بھیانک صدمہ — شوگر لیبل ہائی — بلڈ پریشر بھی ضرورت سے زیادہ بڑھا ہوا۔ اٹیک آسکتا تھا۔ برین ہیمبرج یا پھر … وجیندر کو فکر تھی کہ میں آہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھ رہا ہوں۔ ورنہ اتنی ساری بیماریاں ؟ یہ بیماریاں اچانک تو نہیں آئی ہوں گی۔ کیا میں برسوں سے اندر ہی اندر گھلتا جا رہا تھا؟ کیا سلیکھا کی وجہ سے … ؟ تو کبھی اس سے کھل کر باتیں کیوں نہیں کی؟ دونوں بیٹھ کر اندر پسری اداسی کو ایک راستہ تو دے ہی سکتے تھے … لیکن شاید ضرورت سے زیادہ کھل جانے اور اچانک ’پر‘ (پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے۔ ) مل جانے کی امید نے اسے ایک باغی عورت میں تبدیل کر دیا تھا — ایک ایسی عورت‘ جواب دوسرے کمرے میں سوتی تھی۔ اس سے گھریلو مسائل کے علاوہ کسی بھی مدعے پر بات نہیں ہو سکتی تھی۔ نئے کپڑے، نئے موبائیل، نئی اڑان … اور محض نبھائے جانے کے رشتے پر غور کرتا ہوا میں صرف ایک نامرد بھر رہ گیا تھا — اپنی ہی آگ میں جلتا۔ اپنی ہی تسلی یا تسکین سے خود کو بہلاتا یا اپنی عام خواہشات سے لڑتا، بستر پر شہید ہو جانے والا ایک نامرد …
اس رات میں نے ایک اور حرکت کی — رات گیارہ بجے تک سلیکھا نہیں آئی تھی۔ وجیندر پاس ہی بیٹھا اس پراسرار آلہ میں الجھا ہوا کیم اسکرین پر روشن پریوں سے دل بہلا رہا تھا۔
وہ کب کیسے کچن سے سبزی کاٹنے والی چھری لے کر سلیکھا کے بیڈ روم میں پہنچ گیا، نہیں جانتا … اندر نفرت کی تیز آگ، جیسے کسی جانور میں تبدیل کر رہی تھی …
اچانک آہٹ ہوئی۔ اور ماحول میں ایک تیز گونج گئی — وجیندر کا ہاتھ پکڑے سلیکھا آنکھیں پھاڑے چیختی … لمبی لمبی سانسیں لیتی ہوئی جیسے ’بابل‘ کے ہلتے مینار میں تبدیل ہو گئی تھی — سامنے میں کھڑا تھا — ہاتھ میں چاقو پکڑا تھا … بستر کے تکیے اُدھڑ گئے تھے … اس کی روئی بستر پر بکھری تھی …
وجیندر نے آگے بڑھ کر ہاتھوں میں چاقو لیا — اور مجھے لے کر سیدھے میرے کمرے میں آ گیا …
۔۔ پچھلی رات والے واقعہ کی تفصیل مجھے وجیندر سے ملی۔
’وہ مینٹل ہو چکا ہے ؟‘ سلیکھا روتی ہوئی کانپ رہی تھی۔
’نہیں دیدی …‘
’وہ مجھے مارنے آیا تھا۔ تم نے دیکھا نا … میرے بستر کی کیا شکل بنا دی اس نے۔ اس کے ہاتھ میں چاقو تھا۔ وہ مجھ پر حملہ کر سکتا تھا۔ ‘
’میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں، ایسے لوگ حملہ نہیں کر سکتے۔ ‘
’لیکن کیسے کہہ سکتے ہو …‘
’کیونکہ جیجو جو کچھ بھی کرتے ہیں، تمہاری غیر حاضری میں کرتے ہیں — تمہارے سامنے ہمت نہیں پڑتی — اب دیکھو نہ دیدی۔ برسوں کی محبت کے بعد اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ اب تمہارے اندر محبت باقی نہیں رہ گئی ہے …‘
’تو کیا یہ صرف میری غلطی تھی؟‘
’نہیں دیدی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا۔ شاید جو تمہارے لیے قابل قبول رہا ہو، وہ جیجو کے لیے نہیں رہا۔ جیسے نئی ہوا، نیا ماحول یا نئی اڑان …‘
’اگر وہ نہیں بدلے، تو اس میں میری کیا غلطی … ؟‘ سلیکھا چیخ رہی تھی — بس بہت ہو گیا۔ اب یہ آدمی جان بھی لے سکتا ہے میری۔ ڈاکٹر سے بات کرو اور اسے مینٹل ہاسپٹل بھجواؤ۔ اس سے آگے میں کچھ بھی نہیں سننا چاہتی …‘
’جیجو کو ایک موقع اور دو دیدی۔ بس ایک موقع۔ کل میں ڈاکٹر راجیندر سے پھر بات کروں گا۔ اگر ضرورت محسوس کی گئی تو کسی سائکریٹس سے …‘
’فالتو میں پیسہ برباد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ‘ سلیکھا نے پانچ سو کے دو نوٹ اس کی طرف بڑھائے — ڈاکٹر سے بات کرو اور پاگل خانے میں مرنے دو بڑھؤ کو۔ ’ایسے بھی اس کے پاس جینے کے لیے کچھ نہیں رہ گیا ہے …‘
حیرت زدہ وجیندر اس خالی جگہ کو دیکھ رہا تھا، جہاں ابھی کچھ دیر پہلے دیدی کھڑی تھی — کتابوں اور ناٹک کے شوقین وجیندر کی آنکھوں سے جیسے اس وقت دنیا کا سارا ادب ایک ایک کر کے گزر گیا تھا — پھر ایک دن ہم، اسی بے رحم بازار کا حصہ بن جاتے ہیں — پھر محبت خاموش ہو جاتی ہے۔ پھر ہم بھی گم ہو جاتے ہیں۔
۔۔ تین چار دن گزر گئے تھے۔ پٹیاں کھل گئی تھیں۔ زخم کسی قدر بھر گیا تھا۔ وہ صبح عام صبح سے کچھ الگ تھی۔ وجیندر نے نیلی حینس اور سفید ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ دو دن پہلے اس نے سائیکریٹس سے وقت لیا تھا۔ اس نے کیا پوچھا — کچھ یاد نہیں — میں نے کیا جواب دیا، شاید یہ بھی یاد نہیں — ڈاکٹر اور وجیندر کچھ دیر آہستہ آہستہ باتیں کرتے رہے — پھر ہم گھر چلے آئے۔ وجیندر زیادہ تر خود میں کھویا رہا۔ پرانی دوائیوں کی جگہ کچھ نئی دوائیاں آ گئی تھیں … اس دن ناشتے کے بعد وجیندر کچھ دیر تک غور سے میری طرف دیکھتا رہا۔ پھر بولا۔
’میں کچھ دنوں کے لیے رک گیا ہوں جیجو۔ لیکن مجھے جانا تو ہو گا نا … اور اگر میں چلا گیا تو —؟ تم دیدی سے آپسی مکالمے کے دروازے بھی بند کر چکے ہو … پھر —؟ شاید دنیا اس لیے بے حد بری ہو گئی ہے کہ ہم سارے جذبوں کو ایک ایک کر کے ختم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ممکن ہے دیدی یہ سوچے کہ تمہیں مرنا ہی ہے — پھر تمہارے لیے وہ خود کو کیوں مارے ؟ ایک نئی زندگی باقی ہے۔ اس کے پاس — جہاں تمہارے بغیر بھی، شاید تم سے زیادہ بہتر طریقے سے وہ اپنے لیے تاروں بھرا آسمان چن سکتی ہے — مگر تم —؟ تم تو یوں ہی دیکھتے دیکھتے مر جاؤ گے …‘ وہ گھوما — اس کی آنکھیں نم تھیں — ہیمنگ وے نے کہا تھا — زمین کا ایک ٹکڑا بھی سمندر بہا کر لے گیا تو زمین کم ہو جاتی ہے۔ ایک بھی آدمی مرتا ہے تو، انسانی برادری میں کمی آ جاتی ہے — پھر کیوں مرنے دوں تمہیں —؟ یہاں کوئی جذباتیت، آدرش یا رشتے نہیں ہیں — شاید اسی لیے میں رک گیا … زندگی بھر نہیں رک سکتا۔ پاگل مت بنو — میری بات سنو …
ٹہلتے ہوئے وہ دہاڑا تھا — ’سنو جیجو۔ چہرے کو شمشان بنانے سے کام نہیں چلے گا — جاگو۔ اٹھو، دیدی تمہیں پاگل کہتی ہے — لیکن میں جانتا ہوں تم پاگل نہیں ہو — اس نظام میں کون پاگل نہیں ہے۔ میں ؟ دیدی یا تم؟ میں نظام کو قصور وار نہیں کہتا، کیونکہ یہ سسٹم ہم نے ہی تیار کیا ہے۔ جہاں ایک بڑا سا مین ہول ہے۔ گٹر … اور ہم آہستہ آہستہ یہاں اپنا کوڑا ڈالتے جا رہے ہیں — اس سسٹم نے صرف ایک چیز سکھائی ہے — اڑنا ہو تو سامنے والے کے پرکاٹ دو — سب اپنی خواہش، اپنی آزادی اور اپنے آسمان کے لیے خود غرض ہو چکے ہیں — مگر جیجو، اس سسٹم میں مر جانا کوئی حل نہیں ہے — اور نہ یہ تمہاری عمر مر جانے کے لیے ہے …
وہ دوبارہ میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ وہ ہنس رہا تھا — ’پینسٹھ سال کی عمر میں رچرڈگیئر ہماری شلپا شیٹی کو کس کر سکتا ہے — ان کے جیمس بانڈ، زیرو زیرو سیون پچاس سے زیادہ عمر میں ہزاروں فٹ کی بلندی سے کودنے کا فیصلہ لیتے ہیں اور جیجو تم —
وہ مسکرا رہا تھا — سچ کہوں تو یہ دنیا بہت حسین ہے جیجو۔ مگر ان کے لیے جو جینا جانتے ہیں۔
اُس نے لیپ ٹاپ اوپن کیا … چہرے پر مسکراہٹ تھی … دیدی بری نہیں ہے — تمہیں چھوڑ کر اگر وہ کہیں اور اپنی خوشیاں تلاش کرتی ہے تو اس میں برا کیا ہے —؟ یہ تلاش تم کیوں نہیں کرتے — جب تم دونوں کے درمیان بے حد نراشا یعنی نا امیدی کے دن چل رہے ہوں گے، اس نے اپنی تلاش شروع کر دی ہو گی — ایک نئی زندگی۔ ایک نیا آسمان — ویسے صرف نبھائے جانے کو میں شادی شدہ جوڑے کی کمزوری مانتا ہوں — رشتے چل نہیں پا رہے تو اپنی مرضی سے اپنی نئی خوشیاں تلاش کر لو۔
لیپ ٹاپ پر اس کی انگلیوں کا رقص جاری تھا۔ اسکرین روشن تھا۔ اس نے یاہو میسنجر کھول لیا تھا … ہاتھ چیٹ پر تیز تیز چل رہے تھے … کوئی فلورا یا، کوئی عینا، کوئی جسمین … ڈڈ یو جسٹ ام … می؟ ہائے۔ آئی ایم 18 ہاٹ فیمل — آئی ایم گیٹنگ نیکڈ اون مائی ویب کیم — واناسی — لو کنگ فار سم کمپنی سیکسی —؟
وہ ہنس رہا تھا — دیکھو جیجو میں جانتا ہوں سب دیکھ رہے ہو تم — پاگل پن کا ڈھونگ مت کرو — دیکھو، یہاں سب اپنی تھکان مٹانا چاہتی ہیں۔ آپ کو ریلیکس کرانا چاہتی ہیں۔ آپ کے آن لائن ہوتے ہی سمجھ جاتی ہیں کہ آپ چاہتے کیا ہیں … کبھی کبھی کارل مارکس، لینن اور دوستووسکی کا ادب پھینک کر سب کچھ بھول جانے کی خواہش ہوتی ہے — کچھ دیر، دنیا بھر کی الجھنوں سے الگ، ان ہاٹ پریوں کے ساتھ … وہ دیکھو جیجو … اس نے سارے کپڑے اتار دیئے ہیں … ہندوستان سے پاکستان، شری لنکا، نیپال اور ایران تک — یا پھر رومانس چیٹ روم کی یہ بند اس پریاں — جیسے دنیا میں صرف ایک چیز رہ گئی ہے — بھوک — یہ بھوک صرف وہیں نہیں ہے — ذرا اپنے انڈیا کے روم میں تو جا کر چیٹ کرو — سترہ سے ستّر تک کی عورتیں جیسے سب کچھ بھول کر ہاٹ اور سیکس کا مزا لینا چاہتی ہیں۔ یہ اسکول اور کالج کی لڑکیاں پڑھتی بھی ہوں گی۔ کچھ سرکاری محکموں میں — کچھ ہاؤس وائف بھی ہوں گی — مگر کیوں جیجو … ؟ کیونکہ دماغی الجھنوں اور دباؤ سے کچھ لمحہ ہم آزادی چاہتے ہیں — غلط یہ ہے کہ سیکس پر ہم کبھی بات کرنے کو تیار نہیں ہوئے — یہ لڑکیاں بھی ہاٹ چیٹ کے بعد سب کچھ بھول کر ایک عام لڑکی یا عورت میں تبدیل ہو جاتی ہوں گی۔ کچن میں چائے تیار کرتی ہوئی — یا کالج کے نوٹس تیار کرتی ہوئی — بھوک ہے تو بھوک کا اقرار کرتے ہوئے شرمندگی کیسی؟ جسم میں آگ ہے تو اسے ٹھنڈا کر کے کیسے جیا جا سکتا ہے —؟ یہاں تہذیب و روایت کی کوئی تھیوری کام نہیں کرتی۔ اس لیے میں کارل مارکس اور پریم چند کو پڑھتے ہوئے بھی ان کا ساتھ چاہتا ہوں کہ یہ مجھے آسانی سے حاصل ہو جاتی ہیں۔
ایک لمحے لے لیے میری پلکیں ہلی تھیں شاید … اسکرین پر ننگی 20 سالہ لڑکی اپنے حسین، پرکشش، ننگے جسم کی نمائش کر رہی تھی — بس ایک لمحے کو … بُم … بُم … بُم … بُم … آنکھیں پھر سکڑ گئی تھیں …
وجیندر لوٹ آیا تھا — میرے چہرے کے ری ایکشن کو دیکھتے ہوئے ہنس رہا تھا — ’سالے جیجو دیکھ … نو … یہاں یہاں ہاتھ رکھو … کمپیوٹر کی طرح یہاں ماؤس نہیں ہے۔ بس آپ کی انگلیوں کا لمس۔ دو چار بار پریکٹس کرو گے تو سب آ جائے گا۔ پہلے تمہاری میل آئی ڈی بناتے ہیں … پھر میسنجر پر چیٹ کرنا …
کچھ دیر تک وہ میرے بے حرکت ہاتھوں کو چلانے کی پریکٹس کراتا رہا۔ اب وہ خوش تھا — ’جیجو دیکھو … دیکھو۔ یہ گوگل ہے، یہ جی میل، یہ آرکٹ … یہ فیس بُک … ساری دنیا تمہارے پاس ہے۔ اپنی تنہائیاں شیئر کرو۔ اپنی اُداسیاں بانٹو اور بھول جاؤ کہ دنیا کیا کہتی ہے … کیونکہ دنیا تمہاری پروا نہیں کرتی — اور نہ ہی دنیا تمہارے جسم کی بھوک سے واقف ہے — تم جلدی بوڑھے اس لیے ہو گئے کہ تم نے خود کو تمام خوشیوں سے محروم کر لیا تھا۔
پلکیں ایک لمحے کو پھر ہلی تھیں … جیسے اچانک دماغ میں تیز سنسناہٹ سی دوڑ گئی ہو …
لیکن کیا وہ سب کچھ جو وجیندر کہہ رہا تھا، کیا ممکن تھا میرے لیے — میں ایکیوریرم کے باسی پانی میں رکھی بے جان مچھلی کی طرح مردہ تھا — سانسیں تو چل رہی تھیں، لیکن دماغ سے جسم تک سب کچھ ایک بے جان روح کی طرح سرد۔
۔۔ اچھی بات صرف ایک ہوئی کہ اس درمیان میں ’وائلڈ‘ نہیں ہوا — ممکن ہے۔ یہ دوا کا بھی نتیجہ ہو۔ اس درمیان اکثر ایسا ہوتا جب وجیندر لیپ ٹاپ لے کر میرے سامنے ہی شروع ہو جاتا … دنیا بھر کی پریوں کا رقص — چیٹنگ کرتے ہوئے اس کی تیز تیز چلتی انگلیاں … وہ مجھے لگاتار ایک انوکھی دنیا کو جیتنے کے لیے پریکٹس کرا رہا تھا …
اس دن وہ دیر سے آیا۔ لیکن اس سے پہلے ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا۔ سلیکھا کسی مرد کے ساتھ آئی تھی۔ شام کے آٹھ بجے ہوں گے۔ میں صرف اتنا دیکھ سکا، دونوں ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالے ہوئے تھے۔ دو گھنٹے کے بعد وہ مرد باہر نکلا تھا — شاید سلیکھا اسے گیٹ تک چھوڑنے گئی تھی۔ واپس لوٹتے ہوئے میرے کمرے کے پاس آ کر ٹھٹھکی وہ …
’اب طبیعت کیسی ہے تمہاری؟‘
میں نے صرف چہرہ اٹھا کر دیکھا تھا۔ وہ ٹھہری نہیں۔ واپس لوٹ گئی — لیکن اس کے چہرے کی خوشی اس کے پورے وجود سے پھوٹ رہی تھی۔
دوسرے دن صبح صبح فریش ہونے اور کپڑے بدلنے کے بعد وجیندر میرے پاس آ گیا۔
’سنو جیجو۔ میں ایک ہفتہ کے لیے باہر جا رہا ہوں۔ یہ اپنی دوائیاں سمجھ لو۔ اور ہاں — اب تمہیں اپنا کیئر خود کرنا ہے — دیدی کھانا بھی نہیں دینے والی — گھر سے باہر نکلو تو ڈھیر سارے ڈھابے ہیں — پھل والے ہیں۔ جوس کی دکان ہے۔ زندگی قیمتی چیز ہے اور بہادری وہی ہے جو مرتے دم تک ہار نہیں مانے …
جاتے ہوئے وہ ٹھہرا … اور ہاں۔ لیپ ٹاپ چھوڑ ے جا رہا ہوں۔ تمہیں اپنی آئی ڈی اور پاس ورڈ یاد ہے نا …
وجیندر کے جانے کے بعد بھیانک سناٹے کا احساس ہوا تھا — جیسے سلیکھا کے ہوتے ہوئے بھی ایک دم سے تنہا ہو گیا ہوں — کوئی بھی نہیں — زندگی کے راستوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دم تنہا … دماغ میں ابھی بھی سنسناہٹ تھی۔ دکانیں کھلی تھیں … باہر سڑکوں پر لوگوں کی آمدو رفت جاری تھی۔ گاڑیاں، ریہڑی والے — سجی ہوئی دکانیں — بہت دنوں بعد میں بغیر کسی سہارے کے اس حسین صبح کا احساس کر رہا تھا … آنکھوں کو سورج کی روشنی چندھیا رہی تھی۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے سڑک پار کیا — کھانے کے لیے کچھ سامان خریدے اور گھر لوٹ آیا۔
۔۔ زندگی کی اُن خاموش رضامندیوں کو، جہاں خود ہی ایک راستہ بن جاتا ہے — شاید میں نے بھی خاموشی سے آگے بڑھتے ہوئے ان نئے راستوں کو اپنی رضا مندی دے دی تھی — آدمی کی اپنی ترقی کے راستے میں نہ لالچ ہے نہ بے حیائی — نہ تہذیب اور نہ ہی آگے بڑھنے کے راستے میں کوئی بھی شے کبھی رکاوٹ بنتی ہے — صرف ایک خاموش رضامندی — یہاں اس ڈائری کا خاتمہ ہوتا ہے، جو ایک ایسے انسان کے ذریعے لکھی گئی جو اپنی بیوی کے اُداس رویّے سے ڈر کر — خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے ایکیوریم کی مردہ مچھلی کی طرح ہو گیا تھا — جسے ایکیوریم کے باسی پانی راس نہیں آئے تھے …
کامتا ناتھ کا کیا ہوا، اسے جاننے کے لیے آپ کو ذرا سا ٹھہرنا پڑے گا۔ یا پھر وجیندر کا کیا ہوا؟ سلیکھا کیا اپنے نئے مکان میں چلی گئی؟ لیکن ان سب سے پہلے زندگی کے میں تیزی سے آنے والی تبدیلیوں کا سچ جاننا ضروری ہے — جہاں ہماری تہذیب میں صدیوں سے دبے ہوئے آتش فشاں کا دھماکہ ہوا تھا — آپ اسے اخلاقیات یا روایت کے ٹوٹنے سے مت جوڑیئے — یا یہ کہ سب کچھ اسی انداز سے چلتا رہا تو ہمارے اقدار کا کیا ہو گا؟ بس یہیں ہماری کہانی آپ کے صدیوں کے سنسکار سے لڑتی نظر آتی ہے — نیلے لیوائی جینس پہنے ہوئے وجیندر کو دیکھ لیجئے، جس کے لو بیس سے اس کے برانڈ انڈویئر کو دیکھ کر اس کی گرل فرینڈ مسکرا سکتی ہے — اور اپنی گرل فرینڈ کی ’برا‘ کے بینگی اسٹریپ کو دیکھ کر وہ کہہ سکتا ہے — یس‘ ہم برانڈ کی دنیا میں وہ سب دکھانے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے جسے آپ صدیوں سے چھپاتے آئے تھے — وہ سیکس اور مسرت کی باتیں ایسے کر سکتے ہیں جیسے آپ بہاریؔ کے دوہے اور غالبؔ کی شاعری پر باتیں کر رہے ہوں — سیکس نئے ماحول میں اخلاقیات کی اپنی تعریفیں تیار کر رہا ہے، جہاں مرد عورت دونوں اپنا پورا ہوم ورک تیار کر کے ملتے ہیں — آرکڈ یا کنڈوم کیسا ہو —؟ سیکس کے بعد مارٹن لاکر دینا — یا پھر کمرے میں خوشبودار موم بتیوں سے ماحول بنانا — نہیں معلوم کہ کہانی کے ہیرو کامتا ناتھ نے اسے کس طور پر لیا — ڈائری کے آخری صفحات تک وہ اس پر اسرار آلہ یعنی لیپ ٹاپ کے ذریعے، اس نئی تہذیب میں اپنی ذہنی تکلیف کے ساتھ داخل ہو گیا تھا — اور پھر جیسا کہ اس نے بتایا — دو دن لگے تھے اسے لیپ ٹاپ پر اپنی انگلیوں سے چھونے اور جگہ بنانے میں … آہستہ آہستہ اندر تک تناؤ کم ہوا تھا — میسنجر کھولنے اور چیٹ روم جانے تک ایک دلچسپ ایکسپرینئس رہا — 50 سے زیادہ عمر کے آدمی کے ساتھ بھلا کون چیٹ کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ تناؤ کم ہوتے ہی سوجھ بوجھ اور سازش کے جالے اپنا سر نکالنے لگے تھے … جیسے اس نے میل بارن کی اس لڑکی کو اپنے بارے میں بتایا — میل 35 انڈیا۔ اور یہ کہ اس کے پاس کیم نہیں ہے۔
یہ وجیندر کے جانے کے بعد کی تیسری رات تھی … کمرے میں نشیلی بارش شروع ہو چکی تھی — وہ آدمی گم تھا، جو ابھی کچھ دن پہلے ڈارون کے بندر میں تبدیل ہو گیا تھا — یا پھر زمین پر بکھرے شیشے کے انگنت ٹکڑوں میں اپنا پاؤں شہید کر بیٹھا تھا … دماغ کے جھناکے بند تھے — لیپ ٹاپ اسکرین پر پریاں روشن تھیں … ہاتھوں کی انگلیوں میں خون کی گردش بڑھ گئی تھی …
اس کے ٹھیک دوسرے دن تک اپنے ملک سے لے کر فلپائن تک کئی چیٹ فرینڈ بن چکی تھیں … اور جیسے اندر سے ایک مردہ روح نے پہلی بار ایکیوریم سے باہر آ کر اپنی زبان نکالی تھی۔
’وہ جینا چاہتا ہے۔ ‘
اور جیسے اس دن، اس ہندوستانی عورت سے بات کرتے ہوئے وہ چونک گیا تھا — وہ ٹیچر تھی۔ عمر 37 سال۔ شادی نہیں کی تھی۔ وہ بتا رہی تھی۔
’تم نے اپنی عمر اوڑھ لی ہے — نکلو اس سے۔ ‘
’لیکن کیسے … ؟‘
’کیونکہ عمر کوئی چیز نہیں ہوتی …‘
’اگر میں کہوں کہ میں 52 کا ہوں …‘
وہ ہنسی تھی … ’تو تم ابھی نئے سرے سے جنم لے رہے ہو — اپنی عمر کو ریفریجریٹر میں ڈال کر باہر نکالو۔ کول …‘
’زندگی اتنی کول بھی نہیں۔ ‘
’ہے … لیکن پہلے عمر کو نکالو۔ ‘
’یہ تمہارے ماضی میں نہیں بستی۔ ماضی میں صرف بھوت بستے ہیں — بھوت کو جسم سے جھاڑ دو — پھر اپنے جسم کو دیکھو۔ ایک نوجوان اپنی ساری توانائی اور آگ کے ساتھ جاگ رہا ہے تم میں۔ ‘
پہلی بار، بہت دنوں بعد کامتا ناتھ نے خود کو آئینے میں دیکھا … الجھے، سفید بال۔ بڑھی داڑھی … اور جسم کی جگہ … جیسے ایک بوسیدہ ڈھانچہ — اس ڈھانچے کو بدلنا تھا — وارڈ روب کھولا — لیوائس کی نیلی جینس نکالی۔ اس سے میچ کرتا، شرٹ — شیو کیا — جینس ٹی شرٹ پہن کر وہ ایک بار پھر آئینے کے سامنے تھا …
ٹھہریئے — ابھی اُسے، باہر نکلنا ہو گا — شاپنگ کرنی ہے۔ واپس آ کر دوبارہ لیپ ٹاٹ پر بیٹھنا ہے۔ شالنی اور کیتھرین کو وقت دیا ہے اس نے۔
کہانی یہیں تک ہے۔
لیکن کہانی ختم نہیں ہوئی — کہانی ابھی جاری ہے — ممکن ہے آنے والے دنوں میں آپ مسٹر کامتا ناتھ کو کسی کیتھرین، کسی ڈور تھی، مسز مہتہ یا مسز کھنہ کے گھر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یا ممکن ہے، وہ کسی کے ساتھ ’لیونگ رلیشن شپ‘ کے مزے لے رہے ہوں — کچھ بھی ممکن ہے۔ وہ مسلسل خود پر توجہ دے رہے ہیں۔ بالوں میں کالی مہندی لگانا، مونچھوں کے بال رنگنا۔ صبح اٹھ کر جاگنگ کرنا۔
ایک دن وجیندر آ کر اپنا لیپ ٹاپ لے گیا — سلیکھا نئے گھر میں چلی گئی۔ جس وقت سلیکھا آخری بار ملنے آئی تھی، کامتا ناتھ اس سوچ میں ڈوبے تھے کہ آرکڈ اور رجنی گندھا میں بہتر کون ہے —؟ اور کیا سر کے بالوں کو چھپانے کے لیے اُنہیں ایک اچھا سا ہیٹ لے لینا چاہئے —؟
اس لیے وہ پلٹ کر یہ بھی نہیں دیکھ سکے کہ جاتے وقت سلیکھا کی آنکھیں ذرا سی نم تھیں — شاید ماضی کے گھنے بادلوں کے ساتھ ایسے حادثے ہوتے رہتے ہیں — سلیکھا … ذرا دیر کو ٹھہری — پھر نم آنکھوں کو پونچھنے کے بعد آگے بڑھ گئی …
اُنہیں پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی —
٭٭٭
ماخذ: ’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘ کتاب میں مشمولہ ایک طویل کہانی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید