ٹرمینس سے پَرے
راجندر سنگھ بیدی
پنجاب میل چلی تو خاصی سست رفتاری سے پلیٹ فارم کے احاطے سے باہر نکلی۔دیر تک موہن جام کو اپنی نازک سی بیوی سومترا کا بدن، ایک سادہ سی ہینڈلوم کی ساڑی میں لپٹا ہوا نظر آتا رہا۔ سومترا کمپارٹمنٹ کے دروازے میں کھڑی تھی، جب کہ موہن ایک اسٹال کے برابر کھڑا آخر دم تک اپنا رومال ہلاتا رہا۔
گاڑی چلنے سے پہلے سومترا کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ الفاظ ہمیشہ کی طرح بیکار ہو گئے تھے —— ’’پیچھے گھر کا خیال رکھنا۔‘‘ ’’ہوٹل کی روٹی مت کھانا۔‘‘ ’’ہفتے میں ایک نہیں، دو بار خط ضرور لکھنا۔‘‘ یہ سب باتیں آنکھوں کی زبان کے سامنے گونگی ہو گئی تھیں۔ اور انھوں نے موہن جام ایسے آدمی کے دل کو بھی گداز کر دیا تھا… ہر بیوی الگ ہونے سے پہلے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی تائید مانگتی ہے۔ اس وقت تو کوئی جھُوٹ بھی بول دے۔ لیکن کچھ لوگ … موہن نے کچھ نہ کہا ۔ وہ پہلے تیز تیز اور پھر آہستہ آہستہ رومال ہلاتا رہا۔ یہ حرکت ایک رسم بن چُکی تھی ،لیکن اچھی معلوم ہوتی تھی۔ دل کہاں، کیوں اور کس کے لیے دھڑک رہا ہے، یہ تو دکھائی نہیں دیتا، البتہ رومال نظروں کے دھندلکے میں حل ہونے تک برابر اس آدمی کو دکھائی دیتا ہے، جو —— جا رہا ہے!
یہ سفر ہئی بکواس۔ میں تو جب بھی کہیں جانے لگتا ہوں،میری طبیعت گر سی جاتی ہے۔ اسٹیشن پہ ہجوم، محض ہجوم کی وجہ سے آدمی تنہا رہ جاتا ہے۔ پھر آگے جانے کے لیے گاڑی تھوڑا پیچھے ہٹتی ہے۔ پھر کوئی سیٹی ، کوئی آواز —— ’’ارے ارے، گاڑی چھُوٹ گئی، میرا سامان رہ گیا‘‘— آخر … کوئی کسی کا نہیں ۔ یہ دنیا … جب ایک بار تو جی چاہتا ہے، آدمی ٹِکٹ وکٹ لَوٹا دے اور گھر جا کر مزے سے بیٹھ جائے۔ چاہے بیوی سے لڑے ہی۔
زندگی کی فتحمندی یہی ہے کہ اُداسی کے سائے میں بھی کہیں خوشی کے جذبے رینگتے رہیں اور گاڑی کے چھوٹتے ہی لپک کر سامنے آ جائیں اور ان کی روشنی میں اُداسیاں غائب ہو جائیں۔ کبھی جس کے ساتھ پروگرام بنتے تھے، اب اس کے بغیر بننے لگیں … موہن نے ایک گہرا سانس لیا —— چلو، دو مہینے کی گئے چھُٹّی۔ کچھ چیزوں کا نہ ہونا ہی ایک طرح کا ہونا ہے۔ سومترا لوٹے گی، تو ایک بار اسے بھی پتہ چل چکا ہو گا کہ میرے بغیر زندگی کے کیا معنی ہیں؟… پھر سے غارت کرنے کے لیے اس کی صحت بھی اچھی ہو چکی ہو گی۔ پھر وہ کیسے لپٹے گی… اُلٹا مجھی سے کہے گی ’’تو کہاں چلی گئی تھی، موہنی؟‘‘
موہن وکٹوریہ ٹرمینس کے پلیٹ فارم سے باہر نکلنے کے لیے مُڑا ، تو اسی طرف سے کوئی دوسری گاڑی پلیٹ فارم پہ آ رہی تھی۔ موہن چونک گیا۔ اُسے یوں لگا جیسے سومترا اُس گاڑی سے گئی اور اس سے لوٹ آئی ہے۔ جبھی اس نے ایک موٹی عورت کو کمپارٹمنٹ کے دروازے میں پھنسے ہوئے دیکھا۔مسکرایا اور چل دیا۔ اِسے ریڈیو کلب جانا تھا۔ تاش کے کچھ مداریوں کے ساتھ فلاش کھیلنے کے لیے، جہاں بیچ بیچ میں کبھی کبھی پان کی بیگم زندہ ہو جایا کرتی تھی اور سمندر سے آنے والے جھکّڑ میں اس کی عنابی ساری کا پلّو کسی نہ کسی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتا تھا۔ پلّو کے ہٹائے جانے تک ساری میں لپٹے ہوئے ایک وجود کے بجائے دو کا احساس ہونے لگتا…
موہن جا رہا تھا۔ اَن جانے میں گھر اور کار کی چابیاں اس کے بائیں ہاتھ کی انگلی پہ گھوم رہی تھیں۔ دایاں ہاتھ پتلون کی جیب میں تھا، جس سے وہ پلیٹ فارم کا ٹکٹ ٹٹول رہا تھا ،جبھی اس کی نظر سامنے پڑی۔
’’اچّی!‘‘ وہ رُکتے ہوئے بولا۔
موہن اَچلا کو جانتا تھا، لیکن کوئی خاص اتنا بھی نہیں۔ اَچلا کے شوہر رام گدکری کو تو وہ شاید زندگی میں ایک آدھ بار ہی ملا ہو گا، لیکن اَچلا سے اکثر مِشٹان میں ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں، جہاں وہ اپنی ایک اوباش سی سہیلی —— دیبی کے ساتھ ویجی ٹیرن کھانا کھانے آیا کرتی تھی۔ نمستے نمستے کے علاوہ موہن جام اور اَچلا گدکری کے بیچ آٹھ دس نہیں، تو بارہ پندرہ فقرے ہوئے ہوں گے جن سے پتہ چلا تو صرف اتنا کہ وہ بھی کولابہ میں رہتی ہے۔ فرق یہ تھا کہ موہن کف پریڈ کے ایک اچھے سے فلیٹ میں رہتا تھا اور اَچلا کازوے پر کی ایک پُرانی بلڈنگ میں رہتی تھی۔
شاید موہن اسے ’اچّی‘ کے نام سے نہ پکارتا ،لیکن دیبی نے موہن کا اس سے تعارف ہی اسی نام سے کروایا تھا۔ دیبی کو موہن اچھی طرح جانتا تھا۔ دیبی سمجھتی بھی تھی کہ پانی مصری کے لیے کتنا خطرناک ہوتا ہے۔ اس پہ بھی وہ چھوٹتے ہی کسی بھی پرائے مرد سے گھُل مل جاتی تھی۔ اس کی آزاد زندگی کچھ ایسا ہی شربت تھی جو زندگی کی ٹھِلیا میں رات بھرا پڑا رہتا ہے۔ صبح تک پانی کسی تبخیر سے اُڑ جاتا ہے اور پھر سے مصری کی ڈلیاں ٹھلیاں کی تہ میں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ پہلے سے بھی صاف شفاف، چمکیلی، نوکیلی…
موہن کے پُکار نے پر اَچلا نے گھوم کر دیکھا اور صرف اتنا کہا — ’’مو…‘‘ اور کچھ دیر کے بعد بولی …’’ہن۔‘‘
اور پھر اس نے اپنی ساری کے پلّو سے آنکھوں کی نم پونچھ ڈالی۔ اب وہ مُسکرا رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ایکا ایکی کسی نے کوئی سنہرا تاج اُس کے سر پر رکھ دیا۔ تھوڑا موہن کے قریب آتے ہوئے وہ بولی — ’’آپ! — یہاں کیسے؟‘‘
’’بیوی کو چھوڑنے آیا تھا‘‘ موہن نے جواب دیا—— ’’کشمیر جا رہی ہیں —— بچّے کی چھٹیاں ہو گئیں نا … آپ؟ …‘‘
’’میں؟‘‘ —— اور اَچلا ایک دم کھلکھلا کر ہنس دی اور پھر اسی دم چُپ بھی ہو گئی۔ کچھ شرماتے ہوئے بولی —— ’’میں اُن کو چھوڑنے آئی تھی …‘‘
’’او‘‘ —— اور موہن بھی ہنس دیا۔ ایک نظر اَچلا پہ ڈالنے کے بعد وہ دوسری گاڑی کے انجن کی طرف دیکھنے لگا ،جس میں سے ابھی تک دھُواں اُٹھ رہا تھا۔ پھراَچلا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا —— ’’کہاں گئے گدکری صاحب؟‘‘
’’دلّی۔‘‘
’’کب آئیں گے؟‘‘
’’یہی کوئی —— ہفتہ دس دن میں‘‘ اَچلا نے کہا۔ ’’کوئی کانفرنس ہو رہی ہے۔‘‘
’’شاید زیادہ دن بھی لگ جائیں؟‘‘
’’ہاں … شاید …‘‘
اور اَچلا اپنے بالوں کو سنوارنے لگی، جو پہلے ہی سنورے ہوئے تھے۔ صرف ان میں ایک پِن ڈھیلا ہو کر قدرے اُوپر اُٹھ آیا تھا، جسے اَچلا نے اپنے مومی ہاتھوں سے دبا دیا۔ جبھی اسے یوں لگا جیسے اس کے ہاتھ دیر تک اُوپر اُٹھے رہے ہیں۔ موہن کی نظر اُس کے پورے بدن کا طواف کرتی ہوئی ایک پل بہت دیر اس کے بدن کے اُس حصّے پر جا رُکی تھی، جو چولی اور ساری کے درمیان ہوتا ہے۔ ایکا ایکی ہاتھ نیچے کرتے ہوئے اس نے ساری سے اپنے بدن کے ننگے حصے کو ڈھک لیا۔
موہن نے سوچا بدن کے اس حصّے کو انگریزی میں مڈرف کہتے ہیں اور شہد کی مکھّی کی طرح اسٹیشن سے باہر نکلنے تک یہ لفظ اس کے دماغ میں بھنبھناتا رہا —— مڈرف … مڈرف… مڈرف… مڈرف۔
اور موہن نے اسے دماغ سے نکالنے کی کوشش بھی نہ کی۔ سب بے کار تھا۔ موہن جانتا تھا —— مکھّی کتنی ڈھیٹ ہوتی ہے۔ بار بار اُڑ کر پھر وہیں آ بیٹھتی ہے جہاں سے اُڑی تھی۔ جھلاّ کر اسے ہٹانے کی کوشش کریں تو ناک ٹوٹ جاتی ہے، مکھّی چھوٹ جاتی ہے۔
باہر گرمی بہت چکنی چکنی، گیلی گیلی تھی۔ بلوز سینوں سے چپک رہے تھے اور اس سونے کی طرح سے خوبصورت لگ رہے تھے ،جو کانوں کو پھاڑے ڈالتا ہے۔ پسینے کے قطرے ساریوں اور پتلونوں کے اندر ہی اندر پنڈلیوں پر ٹپکتے اور جونک کی طرح رینگتے معلوم ہو رہے تھے… اسٹیشن کا چلتا پھرتا پیاؤ پیچھے رہ گیا تھا اور یہ اسی کی وجہ سے تھا، جو پیاس اور بھی تیکھی ہو رہی تھی۔ باہر ہال کے ایک کونے میں تھوڑی جگہ تھی ،جہاں اوپر چھت پہ دو پروں والا پنکھا سست سی رفتار سے چل رہا تھا۔ اس کے نیچے ایک بڈھا مُنھ کھولے ہوئے سو رہا تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی لاش شناخت کے لیے شہر کے مُردہ خانے میں پڑی ہے ——
موہن اور اَچلا نے دو چار باتیں کیں اور اس کے بعد ان کی باتیں ختم ہو گئیں۔ دونوں اپنے اپنے ذہن میں کوئی موضوع ڈھونڈ رہے تھے، جو زیادہ سوچنے کی وجہ سے ہاتھ میں نہ آ رہا تھا۔ اَچلا دو قدم آگے جا رہی تھی اور موہن پیچھے۔ جبھی اَچلا میں اپنے بدن کے ان خطوں کا شعور عود کر آیا، جنھیں عورت بدصورت سمجھتی ہے اور مرد خوبصورت سمجھتے ہیں اور ہر عورت انھیں مُفت میں دکھانا نہیں چاہتی۔ وہ یا پیسے مانگتی ہے یا محبت … محبت … جو ہمیشہ عریاں ہوتی ہے اور جسے کپڑے پہنا دیے جائیں تو وہ محبت نہیں رہتی۔ اَچلا نے اپنے جسم کے پچھلے حصّے پہ ساری کھینچ لی۔ اسے یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے نظروں کی برچھیاں پیچھے سے اس کے بدن کے ہر پور پہ لگ رہی ہیں۔
’’اچھّا موہن جی‘‘ وہ مُڑتے ہوئے بولی —— ’’میں اب گھر جاؤں گی۔‘‘
’’کیسے جائیں گی؟‘‘ موہن نے پوچھا۔
’’ایسے‘‘ اور اَچلا نے تھوڑا چل کے دکھایا اور پھر دونوں کِھلکھِلا کے ہنس دیے۔ اِتنی سی بات میں دونوں کے بیچ ایک یگانگت پیدا ہو گئی تھی۔ آخر موہن نے کہا —— ’’میرا مطلب ہے… آپ گاڑی نہیں لائیں؟‘‘
’’اچّی نے سر ہلاتے ہوئے کہا — ’’مجھے ڈرائیونگ نہیں آتی۔‘‘
’’مَیں جو ہوں‘‘ موہن نے کہا ’’آج تھوڑی دیر کے لیے مجھے ہی اپنا ڈرائیور سمجھ لیجیے۔‘‘
’’جی؟‘‘ اَچلا بولی۔ ’’نہیں نہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں —— میں بس سے چلی جاؤں گی۔ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں؟‘‘
’’آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں‘‘ کا جُملہ ہی ایسا ہے جس سے کوئی کسی کو تکلیف دینا چاہتا ہے اور اس کے بچ نکلنے کی گنجائش بھی رکھتا ہے۔ گویا اسے ٹٹولتا ہے ،تم میرے ساتھ کس حد تک بڑھ سکو گے؟ یہ جُملہ مرد کہے تو ایک عام سی بات ہوتی ہے، لیکن عورت کہے تو خاص بات… یہ عورتوں کے فِقرے، جیسے — ’’جھوٹے کہیں کے‘‘… ’’میں مر گئی‘‘… وغیرہ۔
’’اس میں تکلیف کی کیا بات ہے؟‘‘ موہن بولا— ’’میں گھر ہی تو جا رہا ہوں۔ راستے میں آپ کو چھوڑ دوں گا۔‘‘
گو ریڈیو کلب موہن کے دماغ سے اپنے آپ براڈکاسٹ ہو گئی تھی۔
تھوڑی حیص بیص کے بعد اَچلا گدکری، موہن جام کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔
گاڑی فرئیر روڈ کی طرف سے نکلی۔ کراسنگ پہ پولس مَین نے اُلٹا ہاتھ دے رکھا تھا، جس کی وجہ سے موہن کو گاڑی روکنی پڑی۔ موہن پولس مَین کے اُلٹے ہاتھ پہ ہمیشہ جھلاّیا اور منھ میں گالیاں بھنبھنایا کرتا تھا، لیکن آج وہی ہاتھ اسے مسیح کا ہاتھ معلوم ہو رہا تھا۔
’’دیبی کیسی ہے؟‘‘… موہن نے گفتگو کا موضوع ڈھونڈ ہی لیا۔
اَچلا نے جواب دیا — ’’ویسی ہی…‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ موہن نے چَونک کر کہا۔ ’’میں تو سمجھتا ہوں، وہ ایک بہت ہی نیک لڑکی ہے۔‘‘
’’میں نے کب کہا، بُری ہے؟‘‘ اچی بولی اور ہنسنے لگی۔
موہن اچّی کے جال میں آ گیا تھا اور اب یونہی بچ نکلنے کے لیے اِدھر اُدھر اپنے پر پھڑپھڑا رہا تھا۔ پسینے کے باریک سے قطرے اس کے ماتھے پہ چلے آئے۔ اَچلا اس سے دور ہٹ کر دروازے کے ساتھ لگی بیٹھی تھی جیسے کپڑا بھی چھُو گیا تو کوئی رشتہ پیدا ہو جائے گا۔ اپنی جھینپ مٹانے کے لیے موہن بولا — ’’آپ مجھ سے اتنی دُور کیوں بیٹھی ہیں؟‘‘
’’یونہی‘‘ اَچلا نے کہا اور مشکل سے انچ بھر موہن کی طرف سرک آئی… ’’میں نے سوچا آپ کو گیئر بدلنے میں تکلیف نہ ہو۔‘‘
’’پھر وہی —— تکلیف!‘‘
جب تک پولس مَین نے ہاتھ دے دیا تھا، لیکن موہن کی کار بدستور کھڑی تھی۔ پولس مَین کی سیٹیاں اور پچھلی کاروں کے ہارن ایک ساتھ سنائی دینے لگے۔ موہن نے جلدی سے گاڑی کو گیئر ڈالا اور گھبراہٹ میں فوراً پیر کلچ پر سے ہٹا لیا۔ گاڑی جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھی۔ بند ہوتے ہوتے رُکی۔ پولس مَین سے کچھ آگے نکلے تو اَچلا بولی — ’’کیا آپ گاڑی ایسے ہی چلاتے ہیں؟‘‘
’’نہیں‘‘ موہن نے کہا — ’’میں تو اتنے پیار سے چلاتا ہوں کہ پتہ بھی نہیں چلتا— مگر آج…‘‘
’’آج کیا ہوا؟‘‘…
’’آپ ہوئی ہیں —— اور کیا ہو گا؟‘‘
موہن اور اَچلا دونوں ٹاؤن ہال کے سامنے جا رہے تھے۔ نہ جانے کیوں موہن کا جی چاہ رہا تھا، آج کوئی ایکسیڈینٹ ہو جائے۔ ایک بس تیزی سے گزری اور موہن کو اپنے اندر اس عجیب سی خواہش کو دبانا پڑا۔ سامنے ٹاؤن ہال کی طرف جاتی ہوئی سیڑھیوں پر سے ہال کی طرف دیکھتے ہوئے موہن نے کہا ——
’’کتنا اچھّا ہے۔‘‘
’’بہت اچھّا ہے۔‘‘
الفسٹن سرکل کی طرف سے جوانی کے عالم میں بپھری ہوئی ایک بے حد خوبصورت لڑکی ایک لڑکے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے رجسٹرار کے دفتر کی طرف جا رہی تھی۔ شاید اس کی شادی ہونے والی تھی، اسی لیے اس کا چہرہ کسی اندرونی تمازت سے تمتمایا ہوا تھا۔ اَچلا نے موہن سے پوچھا — ’’آپ کو کیسی معلوم ہوتی ہے؟‘‘
’’اچھی۔‘‘
اور موہن نے ’’اچھی‘‘ کچھ اس انداز سے کہا کہ اچھی اور اچّی میں کوئی فرق نہ رہا۔ اچّی خوش ہو گئی، کوئی کیا کرسکتا تھا — وہ خوش ہو گئی۔ یونہی دکھاوے کے لیے بولی — ’’میں اتنی خوبصورت کہاں ہوں؟‘‘
موہن نے ایک نظر اَچلا کی طرف دیکھا اور وہ سب کہہ دیا جو وہ یوں نہ کہہ سکتا تھا۔
کاما ہال، لوائین گیٹ گزر گئے اور اب موہن کی گاڑی ریگل سینما کے پاس سے نکل رہی تھی۔ سامنے کا بُت من موہنا تھا۔ پھلیرے کی دُکان اچھی تھی … گاڑی کازوے پر ستیہ سدن کے سامنے رُک گئی جہاں اچّی رہتی تھی۔
اچّی نے چھچلتی نظر سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ سوائے سامنے کے ٹیلر ماسٹر کے، جو اچّی کا ناپ جانتا تھا، کسی دوسرے نے اَچلا کو دوسرے کسی کی کار سے اُترتے نہ دیکھا تھا۔ دیکھتا بھی تو اِسے کیا پروا تھی؟ موہن کو کیا حیا تھی؟ اس پہ بھی ایک دم دروازہ کھول کر اَچلا گاڑی سے اُتر گئی۔ تھوڑا ٹھٹھک کر —— ’’اچھّا موہن جی، بہت بہت شکریہ‘‘ کہا اور چل دی۔
موہن بدستور ڈرائیور کی سیٹ پہ بیٹھا تھا۔ ایک ٹانگ اندر تھی اور دوسری کھلے ہوئے دروازے کے باہر۔ وہ اُتر کر اَچلا کے لیے دروازہ کھولنا چاہتا تھا لیکن اس نے موقع ہی نہ دیا ۔کچھ دور جا کر اَچلا کو جیسے کچھ یاد آیا… وہ تھوڑا رُکی اور جو کہا بھی تو صرف اس لیے کہ وہ اسے نہ کہنا چاہتی تھی اور اپنے اندر کسی فقرے کو روکے ہوئے تھی۔ لیکن … بعض وقت جسم رُوح سے بھی آگے نکل جاتا ہے…
’’کبھی آئیے گا موہن جی۔‘‘
اور موہن کے جواب کا انتظار کیے بغیر اَچلا گھر کی طرف لپک گئی ۔ پیچھے جیسے موہن ہَوا سے باتیں کر رہا تھا۔ ’’آؤں گا، آؤں گا کیوں نہیں؟‘‘
اَچلا کا خیال تھا — موہن اتنا تو سمجھ دار ہو گا ہی۔ اِن کے گھر نہ ہونے پہ … کتنا بُرا معلوم ہوتا ہے۔ یہ دعوت تو صرف تکلف کی بات تھی!…
موہن واقعی سمجھ دار تھا، ورنہ وہ دوسرے ہی دن اَچلا کے ہاں پہنچ جاتا؟ جب کہ اپنے پتی رام گدکری کا اَچلا کے دماغ میں تصوّر بھی نہ تھا۔
موہن جام نے گھنٹی کچھ اِس زور سے بجائی کہ اچلا گھبرا کر بھاگی چلی آئی۔ جیسے رام اگلے ہی روز کسی پشپ بوان پہ بیٹھ کے آ گئے۔ ابھی تو … اَچلا کو کپڑے بھی ٹھیک کرنے کا موقع نہ ملا تھا۔ دروازہ کھولتے ہوئے اس نے تھوڑا سا منھ باہر نکالا اور پھر ایکا ایکی پیچھے ہٹ گئی، اپنے آپ میں سِمٹ گئی اور بولی —— ’’ذرا رُک جائیے…‘‘
پر وہ اندر بھاگ گئی۔
موہن میں اتنی تاب ہی کہاں تھی؟ وہ تو نیچے ہی سے یوں آیا تھا، جیسے فسٹ گیئر میں لگا ہو۔ اس نے دروازے کو یوں ہلکا سا دھکّا دیا اور وہ کھل گیا۔ اگلے ہی لمحے وہ ڈرائینگ روم میں تھا اور سر گھما گھما کر اندر کی سب چیزوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس کے تو سر پہ بھی جیسے کوئی آنکھ تھی۔ جہاں وہ کھڑا تھا، وہاں سے اَچلا کا بیڈ روم صاف دکھائی دے رہا تھا۔
عورت اور گھر میں فرق ہی کیا ہے؟ کم سے کم پوچھ تو لینا چاہیے۔ آخر اتنا بھی کیا؟ لیکن موہن پیر سے سر تک اُمڈا ہوا تھا، جیسے اَچلا بیڈروم کے کھلے دروازے میں سے سمٹی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ دونوں بالکل ایسے تھے جیسے جذبات اور خیالات، آنکھوں اور جسم کے اعتبار سے بھگوان نے انھیں بنایا تھا۔ اَچلا پلنگ کی پائینتی پر سے ساری اُٹھا کر جلدی جلدی میں اُسے نیچے کے کپڑوں پہ لپیٹ رہی تھی۔
’’معاف کیجیے…‘‘ موہن جام نے وہیں سے کہا اور وہیں سے وَیسا ہی اَچلا نے جواب دیا —— ’’کوئی بات نہیں۔‘‘
ڈرائینگ اور بیڈروم کے بیچ ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔ جہاں شیشے کے ایک کیبنٹ کے اندر شیو جی بھولے ناتھ کی تصویر ٹنگی تھی اور اس پہ ایک باسی ہار لٹک رہا تھا۔ یہی نہیں، ساتھ کنواری مریم کی شبیہہ بھی تھی اور گورونانک کی بھی … اور اس کے ساتھ ہی باہر ایک کلنڈر لٹک رہا تھا جس پر لیڈا ننگی کھڑی تھی اور ایک راج ہنس اسے اپنے پَروں میں دبائے، چونچ اُٹھائے خوشہ چینی کی کوشش کر رہا تھا۔
اس ایک لمحے میں موہن جام نے دُنیا بھر کی عورتیں دیکھ لی تھیں۔ سومترا دیکھ لی تھی اور دیبی دیکھ لی تھی، زازاگیبور دیکھ لی تھی، کوئی اور بھی دیکھ لی تھی اور رادھا دیکھ لی تھی جو موہن کی سگی بہن تھی اور پاریل میں اپنے دیونگ ماسٹر پتی کے ساتھ رہتی تھی۔
موہن نے ہمیشہ عورت کو مایا کے روپ میں دیکھا تھا۔ وہ باہر سے اور، اندر سے اور معلوم ہوتی تھی۔ اچھا اور بُرا، گناہ اور ثواب ، کبھی خوبصورت، کبھی بدصورت طریقے سے آپس میں گھلے ملے ہوتے تھے۔ پھر، جو عورت کپڑوں میں بھری پُری دکھائی دیتی، وہ دُبلی نکلتی اور دُبلی دکھائی دینے والی بھری پُری… اسے ہی تو مایا کہتے ہیں یا لیلا۔ مثلاً ایسی تندرست عورت جسے دیکھتے ہی گُردے میں درد ہونے لگے، اس سے ڈرنا بے کار کی بات ہے اور ہڈیوں کے ڈھانچے سے اُلجھنے پہ اتنا بھی نفع نہیں ہوتا، جتنا کسی مزدور کو بیس سیر لکڑیاں کاٹنے سے۔
مایا— جس کے بارے میں سوچیں کہ رام ہوئی، وہیں حکمت ناکام ہوئی اور جس کے بارے میں کہیں ’’یہ ہاتھ نہ آئے گی‘‘ وہی گردن دبائے گی… اور مایا کیا ہوتی ہے؟… البتہ ایک اور مایا ہوتی ہے جو پا لینے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوتی۔ اس دُنیا سے جاتے سمے یوں معلوم ہوتا ہے، آپ نے کسی کو نہ پایا، آپ کو سب نے پا لیا۔
جبھی ساری اور بالوں کو ٹھیک کرتی ہوئی اچّی ڈرائینگ روم میں چلی آئی۔ وہ کتنی حسین لگ رہی تھی۔ کیا صرف اس لیے کہ وہ دوسری عورت تھی؟ نہیں نہیں، وہ پہلی ہوتی تو بھی اتنی ہی خوبصورت معلوم ہوتی۔ اس میں —— کوئی بات تھی، جو کسی دوسری میں نہ تھی۔ لیکن … ایسا تو پھر ہر ایک کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔ مگر اس کی بھوؤں پہ بچپن کی کسی چوٹ کی وجہ سے ہلکی سی خراش تھی، جس نے بالوں کی تحریر کو دو حصّوں میں بانٹ دیا تھا اور وہ خراش ہی تھی جسے چُوم چُوم لینے کو جی چاہتا تھا۔
موہن کے قریب آتے ہوئے پھر سے ہاتھ اُوپر اٹھا کر اچّی نے سامنے سے اپنے بال قدرے اوپر اُٹھا دیے۔ بالوں کا ایک Tiara سا بن گیا تھا۔ سونے اور ہیرے کے تاج جس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ وہ اپنی ہی ساری کے پلّو سے اپنے آپ کو ہوا کرتی ہوئی آئی۔ ’’اُف! آج کتنی گرمی ہے…‘‘
اور پھر ہاتھ دائیں طرف بڑھاتے ہوئے دیوار پہ پنکھے کے سوچ کو دبا دیا۔ جبھی موہن بولا —— ’’میں بھی سوچ رہا تھا … ‘‘
’’کیا سوچ رہے تھے آپ؟‘‘ اَچلا نے ایک منتظر نگاہ سے موہن کی طرف دیکھا۔
’’یہی‘‘ موہن نے کہا ’’آج کتنی گرمی ہے۔ اُف!‘‘
اور جب پنکھے سے ہوا کا پہلا جھونکا آیا ،تو موہن اور اَچلا تسکین کا سانس لیتے ہوئے، آمنے سامنے صوفے پہ بیٹھ گئے۔ کتنا ظلم تھا۔ وہ ایک دوسرے کے پاس بھی نہ بیٹھ سکتے تھے۔ سب کچھ کتنا غیر فطری معلوم ہو رہا تھا۔ یہ ٹھیک بھی تھا ۔اگر دنیا بھر کے مرد عورت ’فطری‘ زندگی گزارنے لگیں تو کیا ہو؟ لیکن —— مرد اور عورت دونوں نامکمل ہیں۔ ان کی تکمیل ——؟ جسموں کو ماریے گولی، روحوں کو پا لینے کے بھی کیا ایلاسکا سے ہو کر آنا پڑے گا؟
ایسے ہی تکلف میں لوگ ایک دوسرے سے میلوں دور چلے جاتے ہیں۔ پھر عجیب طرح کشاکش شروع ہوتی ہے، جان نہ پہچان اور آتے ہی ہاتھ پکڑ لیا اور یہ بھی — پہلے کیوں نہ بُلایا؟ کیا سمجھتے ہو؟… محبت کے کھیل میں تو پہلی نظر، پہلا جملہ اور پہلی ہی حرکت ابدیہ چھا جاتی ہے… ایک دن دیبی ایک پینٹر کے بارے میں کہہ رہی تھی، جس سے وہ محبت کرتی تھی اور اب بھی کرتی ہے —‘‘ میں تو اپنا سب کچھ اس پر لُٹا دیتی ،لیکن چھوٹتے ہی کیسے بھونڈے طریقے سے اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور میرے سب چھوٹے بڑے راز جاننے کی کوشش کرنے لگا … ایسے تھوڑے ہوتا ہے؟ میں نے اس بھونڈے طریقے سے اسے روک دیا۔ اب میں اس کے پیچھے بھاگ رہی ہوں اور وہ کسی ضد میں پڑ گیا ہے۔ جانے سمے کا وہ کون سا انش تھا جس میں … سنا ہے وہ اگری پاڑے میں کسی رنڈی کے پاس جاتا ہے …‘‘
اَچلا کے کوئی بچہ نہ تھا۔ پانچ چھ سال کی شادی کے باوجود اس کی مامتا ویسے ہی دبی پڑی تھی۔ البتہ پندرہ سولہ برس کی ایک نوکرانی تھی جو اچّی کے اشارے پر چائے بنا کر لے آئی۔ پھر ایک پلیٹ میں ختائیاں بھی لائی، جو اَچلا نے گھر میں ہی بنائی تھیں، جن پہ پستہ فراوانی سے بکھرا ہوا تھا۔ نوکرانی نے موہن کو، کبھی دیکھا نہیں، کے انداز میں دیکھا اور پھر رسوئی میں کام کرنے کے لیے چلی گئی۔
’’لڑکی اچھی معلوم ہوتی ہے‘‘ موہن نے ختائی منھ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’ہاں‘‘ اور اَچلا نے اندر کی طرف دیکھا ’’پر جوان لڑکیوں کو گھر میں رکھنا نہیں چاہیے۔‘‘
’’کیوں… رکھنا کیوں نہیں چاہیے؟‘‘
’’کیا بتاؤں؟‘‘ اَچلا ہنس دی ’’روز کوئی نیا البیلا دروازے پر موجود ہوتا ہے۔‘‘
اور پھر دونوں مل کر ہنسے۔ موہن نے بات شروع کی — ’’میں بھی تو ہوں۔‘‘
اچّی کے چہرے پر لالی دوڑ گئی۔ نگاہیں چُراتے، چائے میں چمچ ہلاتے ہوئے بولی۔ ’’آپ کی بات دوسری ہے۔‘‘ اور پھر ایکا ایکی —— ’’اب کے رام آئیں گے تو انھیں آپ سے ملواؤں گی، بڑے مزے کے آدمی ہیں۔‘‘
موہن نے چھیڑا —— ’’اس کا مطلب ہے، اس سے پہلے نہ آؤں؟‘‘
’’نہیں نہیں‘‘ اَچلا نے گھبراتے ہوئے کہا —— ’’آپ جب جی چاہے، آیئے… آپ کا اپنا گھر ہے۔‘‘
پھر اَچلا نے سوچا، وہ کیا کہہ گئی، عورت ہونا بھی ایک ہی مصیبت ہے۔ کیوں وہ ہر وقت ڈری رہتی ہے۔ کیوں، کہتی کچھ ہے، مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔
اور اَچلا نے رام گدکری کی باتیں شروع کر دیں۔ جیسے ان سے اچھا مرد کوئی اس دنیا میں نہیں۔ ایک رام ایودھیا میں پیدا ہوئے تھے اور ایک اب بیسویں صدی میں پیدا ہوئے ہیں اور کولابا میں رہتے ہیں۔
موہن جام کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ سومترا کی باتیں کرے۔ دونوں میں فاصلہ اور بھی بڑھ گیا تھا اور برابر بڑھتا جا رہا تھا۔ ان کے جانے بوجھے بغیر، وہ ایک دوسرے سے دور ہو کر قریب ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ موہن نے بتایا، سومترا بڑی گریٹ عورت ہے، لیکن اس کی صحت کی خرابی نے پوری زندگی پہ ایک غم کی چھاپ لگا دی ہے…
جبھی نوکرانی ہاتھ پونچھتی ہوئی آئی—— ’’بائی، میں جاؤں؟‘‘
’’نہیں نہیں‘‘ اَچلا نے موہن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا —— ’’کپڑے دھوؤ جا کر، دیکھتی نہیں غسل خانے کے پاس کتنا ڈھیر لگا ہے؟ چلو، چلو…‘‘
اور نوکرانی مُنھ پھُلاتی ہوئی چلی گئی۔ اس کے سوا چارہ ہی کیا تھا؟
موہن بدستور سومترا کے بارے میں کہہ رہا تھا—— ’’دس سال سے جس عورت نے تمھارا ساتھ دیا ہو، اُسے تم صرف اس لیے چھوڑ دو کہ وہ بیمار ہے، جس نے اپنی جوانی کے بہترین سال تمھاری خدمت میں لگا دیے اور جس کی صحت کی خرابی کے تم ذمّے دار ہو… میں تو سوچ بھی نہیں سکتا…‘‘
اور موہن کی آنکھوں میں آنسو چلے آئے۔
اَچلا کو نہ جانے کیا ہوا، اس میں برسوں سے دبی ہوئی کوئی چیز اُبل پڑی— ’’نہیں نہیں موہن جی‘‘ وہ بولی —— ’’ٹھیک ہو جائیں گی‘‘ اور پھر موہن کے ایک دم پاس پہنچتے ہوئے اس نے اپنی ساری کے پلّو سے موہن کی آنکھیں پونچھ دیں۔
موہن ایک قطعیت کے ساتھ اُٹھا اور بولا —— ’’اچھّا، —— میں چلوں گا۔‘‘
’’بیٹھیے تو کچھ دیر‘‘ اَچلا نے پھر ویسا ہی جملہ کہا۔
لیکن موہن نے انکار کر دیا۔ اس نے جلدی سے اپنی گھڑی کی طرف دیکھا اور بولا — ’’مجھے ساڑھے گیارہ بجے اجوانی پیپر ملز میں جانا ہے۔‘‘
اور موہن فریادی نظروں سے اَچلا کی طرف دیکھتا ہوا چلا گیا۔
اَچلا اُٹھی۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ بیڈروم میں جا کر اس نے اپنے سراپا کی طرف دیکھا— وہ کیسی لگ رہی تھی۔ اسے اپنا آپا اچھا لگا۔ پھر وہ نوکرانی کے پاس پہنچی۔
’’تمھارا جوہنی نہیں آیا؟‘‘ اَچلا نے کہا۔
اس بات کا جواب دینے کے بجائے روزی بولی —— ’’وہ صاحب جو آئے تھے، چلے گئے؟‘‘
’’ہاں‘‘ اَچلا کو کتنی تسلّی تھی۔‘‘
’’تم جاہنی کے ساتھ پکچر چلی جانا‘‘ اچّی نے کہا ’’تمھارے سب لڑکوں سے ایک وہی مجھے ٹھیک معلوم ہوتا ہے…‘‘
اور روزی ایکا ایکی خوش ہو اُٹھی۔
اچّی سے موہن کی غالباً یہ پانچویں یا چھٹی ملاقات تھی۔ اب وہ ٹیلر ماسٹر اور دوسرے لوگوں کی نظروں سے بچتی بچاتی موہن کی گاڑی میں آبیٹھتی تھی اور دونوں شام کی ہَوا خوری کے لیے نکل جاتے تھے۔
اس اثنا میں موہن نے سومترا کو ہفتے میں ایک چٹھی لکھنے کی بجائے تین تین لکھنا شروع کر دیں۔ ایک چٹھی میں تو مذاق بھی کیا —— اگر تم نہ آؤ گی تو میں کسی دوسرے سے لو لگا لوں گا۔ اور یوں اس نے سومترا کو بے فکر کر دیا۔
ایک شام کُوپریج کے پاس سے ہوتی ہوئی گاڑی، بیک بے کے پاس اندھیرے میں کھڑی ہو گئی۔ اَچلا نے بھی اعتراض نہ کیا۔ آج وہ بائیں دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھنے کے بجائے سیٹ کے عین بیچ میں بیٹھی تھی۔ موہن جام کے ہاتھ سیٹ پہ اچّی کے گرد تھے اور اچّی ایک ہاتھ سے نیوٹرل میں پڑے ہوئے گیئر کو فرسٹ اور سیکنڈ میں لگا رہی تھی، جیسے وہ گاڑی چلانے کی کوشش کر رہی ہو۔
موہن نے اَچلا کا ہاتھ تھام لیا۔ مزاحمت تو ایک طرف، اس نے موہن کا ہاتھ دبا دیا، اور دونوں کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے۔ حتیٰ کہ موہن کو کہنا پڑا——
’’گدکری کب آنے والے ہیں؟‘‘
’’یہی کوئی دو ایک دن میں۔‘‘
’’کانفرنس لمبی ہو گئی؟‘‘
’’بھگوان جانے — ان مردوں کا کیا پتہ، کسی سوتن کے سنگ راس رچا رہے ہوں۔‘‘
’’کیا بات کر رہی ہو؟‘‘ موہن نے اچّی کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا— ’’وہ تو بھگوان رام ہیں تمھارے لیے۔‘‘
’’بھگوان رام ہوتے تو سیتا کو ساتھ نہ لے جاتے؟‘‘
موہن نے ہنستے ہوئے کہا —— ’’اب سیتا کانفرنس میں تھوڑے جا سکتی ہے؟‘‘
اور موہن نے اچّی کو بغل میں ہاتھ ڈال کر اسے کچھ اور اپنی طرف کھینچ لیا۔ اچّی نے تھوڑی سی مزاحمت کی۔ لیکن پھر جیسے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اسے یوں بھی کسی آسائش کی ضرورت تھی، کیونکہ جب سے گاڑی بیک بے میں آ کر اندھیرے میں کھڑی ہوئی تھی، اس نے اندر ہی اندر کانپنا شروع کر دیا تھا۔ اس کی نسوں کو کسی آرام کی ضرورت تھی۔ اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنا سر موہن کی چھاتی پہ رکھ دیا…
موہن اَچلا سے پیار کرنے ہی والا تھا کہ ایک آدمی گاڑی کے پاس چلا آیا اور بولا— ’’ناریل پانی۔‘‘
’’نہیں چاہیے‘‘ موہن نے اَچلا سے الگ ہوتے ہوئے کہا۔ لیکن ناریل والے کو بدستور وہیں کھڑے پاکر وہ ایک دم جھلّا اُٹھا —— ’’ابے کہا نا —— نہیں چاہیے۔‘‘ اور پھر —— ’’جاتا ہے یا؟ … ‘‘ اور موہن جیسے اسے مارنے کے لیے لپکا۔
اَچلا نے اسے پیچھے سے پکڑ لیا — ’’کیا کر رہے ہیں؟‘‘ کچھ گھبراتے اور اپنے کپڑے درست کرتے ہوئے بولی —— ’’دیکھتے نہیں۔ اس کے ہاتھ میں چھُری ہے؟‘‘
’’ہو گی‘‘ موہن نے بے پروائی کے انداز میں کہا۔
ناریل والے نے اپنی مالاباری زبان میں کچھ کہا اور چلا گیا۔ کچھ دور پتھر کی دیوار پہ بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے آواز دی— ’’مجا کرا بابو … مجا کرا…‘‘
موہن تھوڑا پیچھے ہٹ کر بیٹھ گیا اور اَچلا سے کہنے لگا—— ’’گھر چلتے ہیں۔‘‘
’’کس کے گھر؟‘‘
’’میرے… تمھارے، روزی کیا وہیں ہو گی؟‘‘
’’نہیں——وہ پکچر دیکھنے گئی ہے، اپنے جوہنی کے ساتھ۔‘‘
’’تو پھر —— ٹھیک ہے…‘‘
’’نہیں نہیں‘‘ وہ بولی —— گھر پہ ہمیں کیا کرنا ہے؟‘‘
دراصل اچلا کو گھر میں وہ شیشے کا کیبنٹ اور اس میں لگی ہوئی تصویریں یاد آ گئی تھی۔ وہ تو اپنے شوہر سے بھی پیار کرنے سے پہلے بیچ کا دروازہ بند کر لیا کرتی تھی۔ اس کے بعد پتھّر پہ بیٹھے ہوئے بے فکرے کی موجودگی کے احساس سے بے خبر ہو کر جب موہن نے اَچلا کا مُنھ چُوما تو اس میں پہلی سی خودسپردگی نہ رہی تھی … ’’نہیں نہیں۔‘‘ اس نے خفیف سا کہا ،جو احتجاج تھا اور نہیں بھی۔ البتہ جب موہن نے ہاتھ بڑھا کر اچّی کے چھوٹے بڑے راز معلوم کرنے کی کوشش کی تو وہ بدک کر الگ ہو گئی۔ موہن کو بُرا سا لگا۔ اُس نے کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد پھر ایک بھرپور حملہ کیا، لیکن اَچلا کسی نہایت مضبوط قلعے میں محبوس ہو بیٹھی تھی۔ وہ شکایت کے لہجے میں بولی —— ’’نہیں نہیں، اتنا ہی بہت ہے۔‘‘
’’بے وقوف نہ بنو، اچّی ‘‘ موہن نے برافروختہ ہو کر کہا —— ’’نہیں تم بھی دیبی کی طرح پچھتاؤ گی…‘‘
’’نہیں موہن‘‘ اَچلا نے بڑے پیار سے روٹھتے ہوئے کہا —— ’’پیار کا یہی مطلب تھوڑے ہوتا ہے؟‘‘
’’جو ہوتا ہے، وہ سمجھا دو۔‘‘
’’کیوں؟… بہن بھائی کا پیار نہیں ہوتا؟‘‘
’’ہوتا کیوں نہیں؟‘‘ موہن نے اپنی مردانہ خفت کو چھُپاتے ہوئے کہا ،اور اسے اپنی بہن رادھا یاد آ گئی جو پاریل میں رہتی تھی ——
’’یہ رشتہ تو ہم ہمیشہ نہیں رکھ سکتے‘‘ اچّی بولی —— ’’ایک دو روز میں یہ آ جائیں گے… مہینے ڈیڑھ مہینے میں سومترا بہن بھی لَوٹ آئیں گی۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’بہن بھائی کا پیار ہے جس میں کوئی ڈر نہیں، کوئی کھٹکا نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے‘‘ موہن نے اپنے ماتھے پر سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا — ’’آج سے میں نے تمھیں بہن کہا‘‘ اور زنّاٹے سے گاڑی چلا دی۔
’’اچّی بہت ڈر گئی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے موہن کا بایاں بازو پکڑ لیا اور شانے پہ اپنے بالوںکا خوبصورت تاج رکھتے ہوئے بولی —— ’’تم تو رُوٹھ گئے——‘‘
’’رُوٹھوں گا کیوں؟‘‘ موہن نے کہا —— ’’بھلا بھائی بھی بہن سے روٹھ سکتا ہے؟‘‘ اَچلا نے جھٹکے سے اپنا سر موہن کے کاندھے سے ہٹا لیا۔
کچھ دیر بعد گاڑی ستیہ سدن کے سامنے کھڑی تھی۔ آج دروازہ کھولنے کے لیے موہن نے ذرا بھی جدوجہد نہ کی۔ اَچلا بے دلی سے اُتری۔ سامنے کا ٹیلر ماسٹر غور سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا اور آس پاس کے کچھ لوگ بھی۔ لیکن اَچلا کو جیسے کوئی ڈر نہ لگ رہا تھا۔ اس نے آج موہن کا شکریہ بھی ادا نہ کیا۔ وہ بے حد متفکر تھی۔ ایسے وسوسے اور ڈر اس کے دل میں پیدا ہو گئے تھے جنھیں وہ خود بھی نہ جانتی تھی۔ اسے ایک ڈر تھوڑے تھا؟— ہزاروں تھے جن میں سے ایک کو دوسرے سے الگ کر کے دیکھنا اور پہچاننا ممکن نہ تھا۔
’’اب آؤ گے؟اس نے پُوچھا۔
’’آؤں گا، آؤں گا کیوں نہیں؟‘‘موہن نے کہا اور پھر ایک دم کھلکھلا کے ہنس دیا ،جیسے کوئی بچّے کو ڈرا تو سکتا ہے، مگر ایک حد تک، اس کے بعد موہن ’ٹاٹا‘ کہہ کر چل دیا۔ اَچلا جب گھر لَوٹی تو کسی قسم کا بوجھ اس کے سر سے اُتر چکا تھا…
اگلے ہی روز گدکری چلے آئے۔
اچّی اُنھیں اسٹیشن پہ لینے گئی تو یہ دیکھ کر حیران ہوئی۔ اس کے شوہر نے مونچھیں رکھ لی ہیں۔
’’یہ کیا؟‘‘ اَچلا نے پوچھا۔
’’ایسے ہی‘‘ اس کے پتی نے ہنستے اور عاشقانہ نظر سے اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا—— ’’من کی مَوج…‘‘
اور پھر قلی کے سر پر سوٹ کیس رکھواتے، اچّی کے پاس آتے ہوئے بولے— ’’ بُری لگتی ہیں؟‘‘
’’نہیں، بُری نہیں لگتیں ۔ مگر ——یُوں معلوم ہوتا ہے جیسے میں کسی اور ہی مرد کے ساتھ جا رہی ہوں‘‘ اَچلا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
رام گدکری نے چھیڑا —— ’’اچھا ہے نا، ایک ہی زندگی میں دو مرد دیکھ لیے۔‘‘
اس نے سوچا اچّی ہنسے گی اور اس لطیفے سے پورا لُطف اُٹھائے گی، یا دھپ سے پیٹھ پہ ہاتھ مار کے کہے گی ’’شرم نہیں آتی؟…‘‘ لیکن اَچلا نے کچھ نہ کہا۔ اُلٹا جیسے کسی فکر کی پرچھائیں اس کے چہرے پر سے گزر گئی۔ ایک متجسسّ نگاہ سے اس نے رام کے چہرے پہ دیکھا، جو مونچھوں کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ بے وقوف نظر آ رہا تھا۔ اَچلا کو یقین ہو گیا، کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہے۔ اب وہ پیار کی باتیں کر رہی تھی مگر —— مگر رام گدکری کانفرنس کا قضیہ لے بیٹھے تھے۔
گھر پہنچ کر اچّی نے اپنے پتی کو سامان بھی ٹھیک سے نہ رکھنے دیا۔ وہ ایک بچی کی طرح مچل گئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی اندر بیڈروم میں لے گئی اور اس کے گلے لگ کر زار زار رونے لگی۔ رام گدکری حیران ہی تو رہ گیا — ’’ارے! گیارہ ہی دن تو لگے ہیں۔‘‘
لیکن اچّی رو رہی تھی اور مچل رہی تھی۔ اسے لپٹاتے، دِلاسا دیتے ہوئے آخر میں رام نے کہا— ’’مجھے کیا معلوم تھا ،تم اتنا ہی ڈر جاؤ گی۔‘‘
’’میں یہ سب ڈر کے مارے کر رہی ہوں؟‘‘ اَچلا نے ایک دم پرے ہٹتے ہوئے کہا۔
’’نہیں … پیار کے مارے۔‘‘ اور رام گدکری ہنس دیا۔ آگے بڑھ کر پھر سے اچّی کو آغوش میں لیتے ہوئے بولا —— ’’میں جانتا ہوں، اچّے … میں بھی تم سے اتنا ہی پیار کرتا ہوں۔‘‘
’’بس؟‘‘
’’اس سے بھی زیادہ۔‘‘
’’جھوٹے کہیں کے … مجھ سے پیار کرتے تو یہ —— مُونچھیں رکھتے؟‘‘
اَچلا کا خیال تھا رام نے مُونچھیں کسی لڑکی کی انگیخت پہ رکھی ہیں۔ رام سمجھ گیا۔ اسے اَچلا کے جذبات سے زیادہ اپنے سمجھ جانے پہ خوشی تھی۔ پیار میں اس نے منھ آگے بڑھایا تو اَچلا نے منھ پیچھے کی طرف موڑ لیا، جس پہ رام نے وعدہ کیا، اگلے ہی روز وہ مُونچھیں و ونچھیں سب منڈوا ڈالے گا۔ اپنی ہی نہیں، جو بھی دکھائی دے گا، اس کی بھی ——
دو ایک روز کے بعد، وعدے کے مطابق موہن جام چلا آیا۔ پہلے تو اچّی چونکی۔ پھر اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے وہ اپنے پتی رام گدکری کی طرف لپکی اور بولی —— ’’جی، میں نے آپ کو بتایا ہی نہیں۔ میں نے نے اپنا ایک بھائی بنایا ہے۔‘‘
’’بھائی؟…بنایا ہے؟‘‘
’’ہاں‘‘ اَچلا کہنے لگی —— ’’کیا بھائی نہیں ہوتے؟‘‘
اور اسی طرح رام گدکری کو پکڑ کر اَچلا موہن جام سے ملوانے کے لیے اسے ڈرائینگ روم میں لے آئی۔ دونوں مرد ایک دوسرے سے اس طرح ملے، جیسے وہ نا سمجھی کے عالم میں ملتے ہیں۔ یہ نہیں کہ رام گدکری نے موہن جام کو ٹھیک طریقے سے اُٹھایا بٹھایا نہیں، یا اس کی مناسب خاطر مدارت نہیں کی۔ اس نے سب کچھ کیا، لیکن وہ ایسے ہی تھا جیسے آدمی کچھ نہیں سمجھتا، مگر کرتا چلا جاتا ہے۔ مسکراہٹیں بناوٹی تھیں، ہنسی بناوٹی تھی …
اور اَچلا تھی کہ لُٹی جا رہی تھی۔ ایک بار بھائی کہہ دینے کے بعد جیسے چھٹی ہو گئی۔ اس نے نہ صرف چائے ختائی وغیرہ سامنے رکھیں، بلکہ روزی کو بھی بازار بھیج دیا۔ کچھ نمکین چیزیں لانے کے لیے۔ رام گدکری یہ سب برداشت کر رہا تھا، لیکن ایک چیز جو اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی وہ یہ تھی کہ موہن جام کے آنے پر اَچلا اسے بھی بھول چکی تھی ،جو اُس کا پتی تھا، اُس کے بھائی کا جیجا۔ اور رام گدکری دیکھ رہا تھا کہ ایسا کرنے میں اَچلا کتنی بے بس ہے۔
جب کوئی چیز لینے کے لیے اَچلا اندر جاتی تو یہ مرد لوگ ایک دوسرے سے سرسری طور پر تکلف، محض تکلف میں ایک آدھ جُملہ کہتے۔ رام گدکری کچھ کانفرنس کا رعب ڈالنے کی فکر میں تھے اور موہن جام اس شپ مینٹ کا ذکر کر رہے تھے، جو انھوں نے ابھی ابھی جاپان سے منگوایا تھا۔ دونوں کے فقرے بیچ میں ٹوٹ ٹوٹ جاتے تھے۔
اچّی اندر سے آئی تو وہ ساری بدلے ہوئے تھی اور سامنے کے بالوں میں پھر سے کراؤن بنا لیا تھا اور خوشبو تو اس کے ساتھ ہی باہر لپکی آئی تھی۔
’’بھابی نہیں آئیں بھائی صاحب!—؟‘‘ اَچلا نے پوچھا اور پھر رام گدکری کی طرف منھ کرتے ہوئے بولی—— ’’وہ کشمیر گئی ہیں … میں ملی تو نہیں، پر سُنا ہے بڑی اچھی عورت ہیں۔‘‘
’’اچھی ہوں گی‘‘ رام نے اِتفاق کیا۔
اور پھر رام متعجب سی نگاہ سے موہن جام کی طرف دیکھنے لگا۔
سب کچھ کھا چکنے اور مصافحہ کے بعد موہن جام اُٹھ کر چل دیا۔ ’’میں ابھی آتی ہوں‘‘ کہہ کر اَچلا دروازے تک اسے چھوڑنے گئی اور پھر کسی خیال کے آنے سے وہ دروازے سے نکل کر لینڈنِگ تک، اور پھر لینڈنِگ سے بھی نیچے چلی گئی۔ حالانکہ اس کا شوہر، مہمان کو رخصت کرنے کے لیے، تھوڑی دیر کے لیے محض تکلفاً اُٹھا تھا۔ یوں بھی سالے بہنوئی میں سالے کا رشتہ چھوٹا ہوتا ہے!
نیچے بازار میں آنے سے پہلے موہن جام کا جی چاہا ،وہ اَچلا سے پیار کرے۔ اچّی کتنی اچھی معلوم ہو رہی تھی۔ وہ صرف اس کا ہاتھ پکڑ سکا ، جسے اس نے کچھ پیار سے دبایا اور بولا—— ’’اچّی! کبھی تم بھی میرے ہاں آؤ نا۔‘‘
’’آؤں گی‘‘ اچّی نے کہا اور پھر بولی —— ’’ان کو بھی لاؤں گی۔‘‘
اس کے بعد اَچلا گاڑی تک چلی آئی۔ موہن جام رخصت ہوئے تو اَچلا اور موہن دونوں کی آنکھیں نم تھیں۔
اَچلا اتنی ہی تیزی سے اُوپر چلی آئی۔
رام گدکری کو اَچلا نے سوچنے کا موقع ہی نہ دیا۔ وہ بولتی چلی گئی—— ’’دیکھے میرے بھائی صاحب؟——اچھے آدمی ہیں، لاکھوں میں ایک…‘‘
رام سر ہلاتا گیا… حالانکہ اس کے ماتھے پہ تیور تھے۔ یہ بیچ میں خواہ مخواہ کا بھائی آٹپکا۔ اس کی ضرورت کیا تھی؟ کچھ اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ جبھی تو اُس نے کہا —— ’’اگر سچ مچ تمھارا بھائی بہن کا رشتہ ہے، تو پھر بھائی صاحب کیوں کہتی ہو —— بھیّا جی کیوں نہیں کہتیں؟‘‘
’’لو، یہ بھی کوئی بات ہے بھلا؟‘‘
اور اَچلا بدستور موہن کے گُن گاتی گئی۔ کیسے وہ دیبی کے ساتھ سیر کر رہی تھی تو کچھ موالی پیچھے لگ گئے۔ اگر موہن جام وہاں نہ آ جاتا تو جانے کیا ہوتا۔ اور اَچلا کو اس رشتے کی صحت اور صفائی جتانے کے لیے اور بھی بہت سے جھوٹ بولنے پڑے، جن کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ یہ رشتہ بھگوان نے نہیں، انسان نے بنایا تھا…
اس کے بعد ایک دو بار پھر موہن جام آیا اور اَچلا اسی طرح سے بے اختیار اور بے خود لپکی جھپکی۔ موہن جام کے چلے جانے کے بعد رام گدکری دیر تک خاموش بیٹھے رہے،حتیٰ کہ اپنی خاموشی انھیں خود ہی ناگوار سی محسوس ہونے لگی۔ سامنے طاق پہ ٹرانسسٹر پڑا ہوا تھا، جس کی سوئی گھماتے ہوئے رام نے اچّی سے کہا ——
’’جانتی ہو ٹرانسسٹر کسے کہتے ہیں؟‘‘
’’یہی جو سامنے پڑا ہے۔‘‘
’’نہیں‘‘ رام نے خفگی اور کچھ مسکراہٹ کے ملے جُلے جذبات میں کہا — ’’سسٹر بہن کو کہتے ہیں اور ٹرانسسٹر وہ بہن ہوتی ہے جو سگی نہ ہو، ایسے ہی بھاڑے میں لے کر بنائی ہو… اسی لیے تم شور بھی مچاتی ہو۔‘‘
اَچلا کو بہت غصّہ آیا —— ’’کیا مطلب؟… آپ بہن اور بھائی کے رشتے پہ شک کرتے ہیں؟ اس کا مذاق اُڑاتے ہیں؟‘‘
’’میرا مطلب ہے…‘‘
’’میں سب جانتی ہوں‘‘ اچّی نے ہانپتے ہوئے کہا ’’تم مرد لوگ سب کمینے ہو، تمھاری نظروں میں کوٹ کوٹ کر غلاظت بھری ہے … کیا دنیا میں مرد عورت ، پتی پتنی بن کر ہی مل سکتے ہیں۔ کیا سنسار میں …‘‘ اور اچّی کا گلا بھر آیا۔ وہ روتی ہوئی کیبنیٹ کے سامنے بھگوان کی تصویر کے پاس جا کر دو زانو ہو گئی اور دُہائی دینے لگی —— ’’میں نے کوئی بھی پاپ کیا ہو بھگوان، تو میرے شریر میں کیڑے پڑیں۔ کوڑھ لگ جائے…‘‘
رام اب پچھتانے لگا تھا۔ پھر بھگوان کی سند تھی۔ اس نے پیچھے سے آ کر اَچلا کو دونوں کاندھوں سے پکڑ کر اُٹھایا ،لیکن اَچلا نے اس زور سے جھٹک دیا کہ رام دیوار سے جا لگا۔ سر پہ معمولی سی چوٹ بھی لگی۔ اَچلا اتنی تندرست تھی کہ رام گدکری ایسے اکہرے بدن والے آدمی کا اسے سنبھالنا مشکل تھا۔ پھر وہ اندر جا کر، اپنے آپ کو بستر پر گرا کر زور زور سے رونے لگی۔
رام اب بہت پچھتا رہا تھا ، اور آپ جانتے ہیں پچھتاتے ہوئے مرد کی کیا شکل ہوتی ہے؟ رام کی ساری شام اچّی کو منانے میں لگی۔ حالانکہ وہ برلا مُتوشری سبھا گھر میں ولایت حسین کی ستار سننے کے لیے جانے والا تھا اور اَچلا کے لیے ٹکٹ بھی خرید کر لایا تھا، جو اب اس نے حسین مگر غصیلی بیوی کے سامنے پھاڑ کر پھینک دیا۔ پھر وہ وہیں بستر پر پڑی گھر کی اس ستار کی کمر میں بازو ڈال کر اس کے تار درست کرنے لگا۔ چونکہ استاد آدمی نہ تھا، اس لیے ایک بھی سُر ٹھیک نہ نِکلا۔ آخر اس نے کہا بھی تو صرف اتنا—— ’’میں تم پہ اتنا سا بھی شک کروں، اچّے، تو گائے کھاؤں، میں تو صرف یہ کہتا ہوں، تمھارے اپنے بھائی بھی تو ہیں…‘‘
’’کہاں ہیں؟‘‘… اَچلا بولی—— ’’ایک کلکتہ میں بیٹھا ہے، دوسرا بجواڑے میں۔‘‘
’’پچھواڑے میں بھائی کا ہونا ضروری ہے؟‘‘
’’ہاں، ضروری ہے‘‘ اچّی نے سر کو ایک فیصلہ کُن جھٹکا دیتے ہوئے کہا ’’کوئی تو ہو، تم سے پوچھنے والا …‘‘ رام گدکری پھر بھی کچھ نہ سمجھا۔ بڑی مرگھلّی سی آواز میں اس نے کہا— ’’تمھاری مرضی، لیکن میں تو سمجھتا ہوں، اس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
تمھیں مونچھیں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
مہینے ڈیڑھ کے بعد سومترا چلی آئی۔
سومترا، پہلے سے واقعی اچھی معلوم ہو رہی تھی۔ بچے کی بھی صحت پہلے سے اچھی تھی۔ وہ کاشمیری زبان کے چند لفظ سیکھ آیا تھا ، جسے جا اور بے جا طور استعمال کرتا رہتا تھا۔ سومترا بار بار اسے پکڑ کر کہتی —— ڈیڈی کو یہ سناؤ، ڈیڈی کو وہ سناؤ۔ لیکن وہ بدمعاش وہی رٹے ہوئے فِقرے دُہراتا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ کاشمیری زبان کی گندی گالیاں تھیں۔
موہن جام نے اَچلا کی سی حماقت نہ کی۔ سومترا سے اَچلا کی ملاقات کروانے سے بہت پہلے اس نے کہہ دیا، اس نے ایک بہن بنائی ہے۔
سومترا سنتی رہی۔ اسے اپنے موہن پہ پورا بھروسا تھا؟ نہیں… وہ ان عورتوں میں سے تھی، جو مرد کے لا اُبالی پن سے محبت کرتی ہیں اور یا ان کی صحت اس غایت درجے کی خراب ہوتی ہے کہ وہ محبت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتیں اور زندگی کو ہر حالت میں موت پر ترجیح دیتی ہوئی کچھ ایسے فقرے کہتی ہیں —— ’’جھک مارتے ہیں تو مارتے پھریں‘‘ اور پھر … ’’بھگوان کو جواب انھیں دینا ہے، مجھے تو نہیں دینا۔‘‘
آخر رات کو چپکے میں ایسی آواز میں روتی ہیں، جو انھیں خود بھی سنائی نہیں دیتی۔
سومترا نے کہا بھی تو صرف اِتنا —— ’’ضرورت کیا تھی،تمھاری اپنی بہن جو تھی۔ اس پہ نچھاور کرو اپنا پیار … یا ایسی ہی کوئی پیار کی باڑھ آئی ہے؟‘‘
’’ہاں‘‘ موہن نے قدرے دُرشتی سے کہا۔
سومترا دَب گئی، صحت تو خراب ہونا ہی تھی، ابھی سے کیوں شروع ہو؟ اس نے جواب کے سے انداز میں سوال کیا —— ’’رادھا کیسی ہے؟‘‘
’’میں تو اس سے ملا نہیں۔‘‘
’’ہائے رام ——جب سے مَیں گئی ہوں، اپنی بہن سے بھی نہیں ملے؟‘‘
’’وقت نہیں ملا۔‘‘
’’اور وہ خود بھی نہیں آئے؟—— رادھا اور کیلاش پتی؟‘‘
’’آئے تھے، تین چار بار—— لیکن میں ہی گھر پہ نہ تھا۔‘‘
سومترا کہنا چاہتی تھی —— ملتے بھی کیسے؟ وہ تو سگی بہن تھی، بنائی ہوئی تھوڑی تھی؟ لیکن اس نے کچھ نہ کہا۔ اس کی صحت ابھی بہت اچھی نہ تھی۔
اور پھر موہن جام نے جو کہہ دیا —— ’’چوبیس کو رکھشابندھن کا تیوہار ہے، جاؤں گا اور مِل آؤں گا…‘‘
رکھشا بندھن کے دن موہن جام پاریل اپنی بہن رادھا کے ہاں پہنچا۔ ساتھ سومترا بھی تھی۔ رادھا یوں پَر پھیلا کر لپکی جیسے برسوں کے بعد ملی ہو۔ اسے اس بات کا احساس بھی نہ تھا کہ وہ عورت ہے اور نہ موہن کو اپنے مرد ہونے کا پتہ تھا۔ اس نے رادھا کو گال سے چُوم لیا، پھر سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرا۔ اور بہن کی آنکھوں سے شکایت کے آنسو پونچھے۔
کچھ دیر بعد رادھا بڑے مزے سے اُٹھی اور لکڑی کی جالی میں سے مٹھائی کی طشتری اُٹھا لائی۔ پھر چوکی سامنے رکھ کر بھائی کو بٹھایا۔ اس کا منھ پورپ کی طرف کیا۔ جاجُو، موہن کا بچّہ بھی ساتھ دوسری چوکی رکھ کر بیٹھ گیا۔ جیسے اشٹمی کا لینکڑا…
’’ارے!‘‘ رادھا نے جاجُو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا — ’’پہلے تُو راکھی بندھوائے گا؟‘‘
’’ہاں!‘‘ جاجُو نے گھڑا سا سر ہلا دیا۔
’’نہیں، پہلے میرے باندھو۔‘‘
’’ایسا ہی حکم چلانا ہے‘‘ رادھا پیار سے بولی ’’تو بھگوان سے کہہ، تجھے بھی ایک بہن لادیں، چھوٹی سی، جو ہر سال راکھی باندھا کرے۔‘‘
اور ایسا کہنے میں جاجو، موہن اور کیلاش پتی، تینوں نے سومترا کی طرف دیکھا، جس نے شرما کر مُنھ ساری میں چھُپا لیا۔
رادھا نے موہن بھیّا کی کلائی پہ سادہ سی مَولی کی راکھی باندھی۔ مُنھ میں میٹھے کا ایک ٹکڑا ڈالا۔ موہن نے جیب سے دس روپئے کا ایک نوٹ نکالا اور رادھا کی ہتھیلی پہ رکھ دیا۔ رادھا نے اس کا نوٹ اپنی آنکھوں سے لگایا اور پرارتھنا کی —— ’’یہ دن ہر بہن کے لیے آئے بھگوان!‘‘… اور اس کی آنکھوں میں پیار اور عقیدت کی نمی تھی۔
سومترا اور بچّے کو گھر چھوڑ کر، موہن جام اَچلا کے ہاں جانے کے لیے نکلا۔ وہ سومترا کو بعد میں کبھی لے جانا چاہتا تھا، اس روز نہیں۔ اس کی کوئی خاص وجہ تھی۔ عورتیں کئی باتوں میں مردوں کو خواہ مخواہ روکتی رہتی ہیں —— یہ کرو، وہ نہ کرو، …جیسے عورتوں کی بہت سی باتیں مردوں کی سمجھ میں نہیں آتیں، اسی طرح مردوں کی بعض باتیں عورتوں کے پلّے نہیں پڑتیں۔
موہن، بازار میں ایک کپڑے کی دُکان پہ گیا۔ بہت کچھ اُلٹ پلٹ کرنے کے بعد اسے بنارس کی ایک ساری ملی جس پہ ہلکی ہلکی زردوزی کی گئی تھی۔ اس پہ بھی اس کی قیمت سوا تین سو روپئے طے ہوئی۔ موہن نے پیسے دیے۔ ساری کو ایک خوبصورت سے گفٹ پیپر میں بندھوایا اور کازوے پر کے ستیہ سدن کے لیے چل نکلا۔
اَچلا اپنے گھر میں بیٹھی قینچی ہاتھ میں لیے کتر بیونت کر رہی تھی، جو صبح ہی سے ختم نہ ہوئی تھی۔ رام گدکری کھڑکی میں کھڑا یونہی بازار میں لوگوں کو دیکھ رہا تھا اور نیچے ٹیلر ماسٹر کی دُکان پہ آتے جاتے ہر آدمی کے سر پہ اپنے سگریٹ کا گل جھاڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جبھی سامنے موہن جام کی کار آ کر رُکی۔
پیچھے ہٹتے ہوئے رام گدکری نے آواز دی — ’’اچّی۔‘‘
’’جی‘‘ اچی نے بڑی مٹھاس سے جواب دیا۔
’’وہ آیا ہے۔‘‘
’’کون وہ ——؟ بھیّا جی؟…‘‘
’’بھیّا جی نہیں … مچلا۔‘‘
’’مچلا؟‘‘
’’ہاں ——تُو اَچلا ہے نا اور وہ مچلا ——۔‘‘
جب تک موہن دروازے پہ آچکا تھا، گھنٹی بجا چکا تھا، روزی دروازہ کھول چکی تھی۔
رام گدکری کا خیال تھا کہ موہن اس دن نہیں آئے گا۔ اگر وہ راکھی بندھوانے کے لیے آ گیا تو پھر وہ کوئی گڑبڑ نہیں کرسکتا۔ پھر تو سب ٹھیک ہے اور موہن آ گیا تھا، جس کے لیے اچّی صبح ہی سے کلابتون اور جھل مل اور نہ جانے کن کن چیزوں سے ایک خوبصورت راکھی بناتی رہی تھی۔ رادھا کی غریبانہ، مولی کی راکھی تو موہن نے اُتار کر کہیں پھینک دی تھی اور اب —— اس کی کلائی پہ کچھ بھی نہ تھا۔ موہن کے آتے ہی اَچلا ہمیشہ کی طرح بوکھلا کر اُٹھی اور بھاگ کر ڈرائینگ روم میں چلی آئی اور اس کی یوں آؤ بھگت کی جیسے کوئی راجا کی کرتا ہے۔
رام گدکری ہمیشہ کی طرح سمجھ رہا تھا اور نہیں بھی سمجھ رہا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں موہن جام پورب کی طرف مُنھ کیے پیڑھی پہ بیٹھا تھا اور گدکری کچھ پرے بے اعتنائی سے اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔
جبھی اَچلا آئی۔ وہ بہت چُست قمیص اور شلوار پہنے ہوئے تھی۔ گلے میں پیاز کے چھلکے کی طرح کا ایک دوپٹّہ تھا جس نے اچّی کے گلے اور سینے کو صحت کا رنگ دے دیا تھا۔ قمیص نے چھاتی، کمر اور نچلے حصّے کی بہت ہی خوبصورت حدبندیاں کر رکھی تھیں۔ اس کے ہاتھ میں تھالی تھی، جس پہ رکھی ہوئی مٹھائی پہ سونے کے ورق کانپ رہے تھے اور اس کے ایک طرف راکھی تھی، جس کی جھل مل میں کچھ سچّے موتی ٹنکے ہوئے تھے——
موہن نے بڑی ہمت سے ہاتھ بڑھایا۔ اَچلا نے جب موہن کی کلائی پہ راکھی باندھنا شروع کی، تو رام گدکری کو اس کے ہاتھ خوشی سے کانپتے ہوئے دکھائی دیے۔ پھر موہن نے مٹھائی کے ٹکڑے کے لیے مُنھ کھولا اور اَچلا نے اس میں قلاقند رکھ دی۔ جبھی موہن نے گفٹ پیپر کھولا اور اس میں سے ساری نکالی، اس پہ سو روپئے کا نوٹ رکھا اور دونوں چیزیں اَچلا کی طرف بڑھا دیں۔
رام گدکری کی آنکھیں تھوڑی دیر کے لیے پھیلیں اور پھر معمول کی سی ہو گئیں۔
رکھشا کی یہ رسم ادا کرنے میں اَچلا بھی خاموش تھی اور موہن بھی۔ دونوں کے بدن میں ایکا ایکی کہیں ہاتھ چھو جانے سے ایک بجلی سی دوڑ گئی۔ پھر اَچلا نے دھیمی آواز میں کہا—
’’یہ دن بار بار آئے بھگوان‘‘… اور جب موہن نے اَچلا کی آنکھوں میں دیکھا، تو ان میں حیا کی سُرخی تھی…
کچھ دیر بعد یونہی سی گفتگو کے بعد موہن نے رام گدکری سے ہاتھ ملایا۔ اَچلا سے نمستے کی اور چل دیا۔ دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے ایک آہ بھری اور چل دیا۔
اَچلا ہمیشہ کی طرح اسے نیچے چھوڑنے کے لیے جانا چاہتی تھی، لیکن آج —— اس کے پیر جواب دے گئے تھے۔
’’تمھیں خوش ہونا چاہیے، اچّی‘‘ رام نے کہا… بھائی کی راکھی باندھی ہے۔‘‘
’’ہاں!‘‘ اچّی نے کہا —— ’’پر آج صبح ہی سے میری طبیعت کچھ …‘‘
’’صبح ہی سے تو یہ سب بناتی رہی ہو۔ اکٹھا کرتی رہی ہو۔‘‘
اَچلا نے سر ہلا دیا۔ رام نے آگے بڑھ کر کہا —— ’’میں تو سمجھتا تھا تم اپنے بھائی کی دی ہوئی ساری پہن کر مجھے دکھاؤ گی۔‘‘
اچّی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی آنکھیں بند سی ہوتے دیکھ کر رام گدکری نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا اور بڑے پیار سے بولا —— ’’کیا ہو گیا میری اچّی کو؟‘‘
’’کچھ نہیں‘‘ اچّی نے ایک دِھیمی سی آواز میں کہا اور پھر اپنا بازو رام کے گرد ڈالتے ہوئے بولی —— ’’مجھ سے پیار کرو۔‘‘
رام نے اچّی کو سینے سے لپٹا لیا اور بھینچنے لگا۔
’’اور‘‘… اچّی نے کہا۔
اس کے بعد اچّی کی آنکھیں بند تھیں، اور مُنھ کھلا ہوا … جب تک موہن جام، اَچلا اور رام گدکری کے خیالوں سے بھی پرے جا چکا تھا…
٭٭٭
ماخذ:
http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید