FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

سمندر کا بلاوا

 

 

 

                میرا جی

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

تعارف

 

نام: محمد ثناء اللہ ثانی ڈار

ولادت میرا جی: ۲۵  مئی ۱۹۱۲ء

تخلص: پہلے ’’ساحری‘‘ اور پھر ’’میرا جی‘‘۔ہزلیہ شاعری میں تخلص ’’لندھور‘‘ آیا ہے۔

قلمی و فرضی نام: ’’بسنت سہائے‘‘ کے نام سے سیاسی مضامین ’’ادبی دنیا ‘‘لاہور میں لکھے۔ ’’بشیر چند‘‘ میرا سین کے نام خطوط میں ملتا ہے۔ وشونندن کے نام ایک خط مورخہ ۲۰ اگست ۱۹۴۶ء میں ’’میرا جی المعروف بندے حسن‘‘ بھی لکھا ہے۔

تعلیم: میٹرک پاس نہ کر سکے۔

وفات: ۳ نومبر ۱۹۴۹ء

تصانیف:

شاعری: میرا جی کے گیت مکتبہ اردو لاہور ۱۹۴۳ء میرا جی کی نظمیں ساقی بک ڈپو دہلی ۱۹۴۴ء گیت ہی گیت ساقی بک ڈپو دہلی ۱۹۴۴ء پابند نظمیں کتاب نما،راولپنڈی ۱۹۶۸ء تین رنگ کتاب نما،راولپنڈی ۱۹۶۸ء سہ آتشہ بمبئی ۱۹۹۲ء کلیاتِ میرا جی۔مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی اردو مرکز لندن ۱۹۸۸ء کلیاتِ میرا جی۔مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی ،نیا ایڈیشن۔لاہور ۱۹۹۴ء

تنقید: مشرق و مغرب کے نغمے:(تنقید و تراجمِ شاعری) اکادمی پنجاب (ٹرسٹ)لاہور ۱۹۵۸ء اس نظم میں: ساقی بک ڈپو۔دہلی ۱۹۴۴ء

تراجم: نگار خانہ : (سنسکرت شاعر دامودر گپت کی کتاب  ’’نٹنی مَتَم‘‘  کا نثری ترجمہ)۔ پہلے ماہنامہ خیال بمبئی میں شائع ہوا۔جنوری ۱۹۴۹ء۔ اور پھر کتابی صورت میں مکتبۂ جدید لاہور سے نومبر۱۹۵۰ء میں شائع ہوا۔ خیمے کے آس پاس:(عمر خیام کی رباعیات کا ترجمہ)۔مکتبۂ جدید لاہور۔۱۹۶۴ء

٭٭٭

 

 

 

جُزو اور کُل

 

سمجھ لو کہ جو شے نظر آئے اور یہ کہے میں کہاں ہوں

کہیں بھی نہیں ہے

سمجھ لو کہ جو شے دکھائی دیا کرتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی ہے، وہ یہیں ہے

یہیں ہے؟مگر اب کہاں ہے؟

مگر اب کہاں ہے

یہ کیا بات ہے،ایسے جیسے ابھی وہ یہیں تھی

مگر اب کہاں ہے؟

کوئی یاد ہے یا کوئی دھیان ہے یا کوئی خواب ہے؟

نہ وہ یاد ہے اور نہ وہ دھیان ہے اور نہ وہ خواب ہے،

مگر پھر بھی کچھ ہے

مگر پھر بھی کچھ ہے

وہ اک لہر ہے،۔۔۔ہاں فقط لہر ہے

وہ اک لہر ہے ایسی جیسی کسی لہر میں بھی کوئی بات ہی تو

نہیں ہے

اسی بات کو رو رہا ہوں

اسی بات کو رو رہا ہے زمانہ

زمانہ اگر رو رہا ہے تو روئے

مگر میں ازل سے تبسم، ہنسی قہقہوں ہی میں پلتا رہا ہوں

ازل سے مرا کام ہنسنا ہنسانا رہا ہے

تو کیا جب زمانہ ہنسا تھا تو اس کو ہنسایا تھا میں نے؟

(یہ تم کہہ رہے ہو جو روتے رہے ہو؟

اگر تم یہ کہتے ہو میں مانتا ہوں)

مگر جب زمانے کو رونا رُلانا ملا ہے تو روتا رہے گا زمانہ

فقط میں ہنسوں گا

یہ ممکن نہیں ہے

زمانہ اگر روئے،روؤں گا میں بھی

زمانہ ہنسے گا تو میں بھی ہنسوں گا

مگر یہ زمانے کا ہنسنا،یہ رونا،وہ شے ہے نظر آئے اور

یہ کہے میں کہاں ہوں کہیں بھی نہیں ہوں

زمانے کا ہنسنا ،زمانے کا رونا وہ شے ہے

دکھائی دیا کرتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی ہے۔۔۔۔۔

اور یہیں ہے

میں ہنستا چلا جاؤں گا اور روتا چلا جاؤں گا اور پھر بھی

زمانہ کہے گا تو روتا رہا ہے،تو ہنستا رہا ہے

مگر میں یہ کہتا ہوں تم سے کہ میں ہی وہ شے ہوں

جو اب بھی نظر آئے اور یہ کہے میں کہاں ہوں تو پھر بھی

دکھائی نہ دے اور کہے میں کہیں بھی نہیں ہوں

میں روتا رہا تھا میں ہنستا گیا ہوں

مگر تم تو ہنستے گئے تھے۔۔بس اب تم ہی روؤ گے اور

صرف اک میں ہوں جو اب بھی ہنستا رہوں گا

٭٭٭

 

 

سمندر کا بلاوا

 

یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مِرے

دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں،مگر یہ انوکھی ندا آ رہی ہے

بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا

’’مِرے پیارے بچے‘‘۔۔’’مجھے تم سے کتنی محبت ہے‘‘۔۔’’دیکھو‘ اگر یوں کیا تو

بُرا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہوگا ۔۔’’خدایا،خدایا!‘‘

کبھی ایک سسکی،کبھی اک تبسم،کبھی صرف تیوری

مگر یہ صدائیں تو آتی رہی ہیں

انہی سے حیاتِ دو روزہ ابد سے ملی ہے

مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

یہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دئے جا رہی ہے

اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری

فقط کان سنتے چلے جا رہے ہیں

یہ اک گلستاں ہے۔۔۔ہوا لہلہاتی ہے، کلیاں چٹکتی ہیں

غنچے مہکتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں، کھِل کھِل کے مرجھا کے

گِرتے ہیں ،اِک فرشِ مخمل بناتے ہیں جس پر

مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں

کہ جیسے گلستاں ہی اِک آئینہ ہے

اسی آئینے سے ہر اک شکل نکھری،مگر ایک پل میں جو جو مٹنے لگی ہے تو پھر نہ اُبھری

یہ صحرا ہے۔۔۔پھیلا ہوا،خشک،بے برگ صحرا

بگولے یہاں تند بھوتوں کا عکسِ مجسم بنے ہیں

مگر میں تو دور۔۔ایک پیڑوں کے جھرمٹ پہ اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہوں

نہ اب کوئی صحرا،نہ پربت،نہ کوئی گلستاں

اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم تیوری

فقط ایک انوکھی صدا کہہ رہی ہے کہ تم کو بلاتے بلاتے مِرے دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ شاید تھکے گا

تو پھر یہ ندا آئینہ ہے،فقط میں تھکا ہوں

نہ صحرا،نہ پربت، نہ کوئی گلستاں،فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو

کہ ہر شے سمندر سے آئی سمندر میں جا کر ملے گی

٭٭٭

 

یگانگت

 

زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے

فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے

یہ میں کہہ رہا ہوں

میں کوئی برائی نہیں ہوں،زمانہ نہیں ہوں،تسلسل کا جھولا نہیں ہوں

مجھے کیا خبر کیا برائی میں ہے،کیا زمانے میں ہے،اور پھر میں تو یہ بھی کہوں گا

کہ جو شے اکیلی رہے اس کی منزل فنا ہی فنا ہے

برائی،بھلائی،زمانہ،تسلسل۔۔یہ باتیں بقا کے گھرانے سے آئی ہوئی ہیں

مجھے تو کسی بھی گھرانے سے کوئی تعلق نہیں ہے

میں ہوں ایک،اور میں اکیلا ہوں،ایک اجنبی ہوں

یہ بستی،یہ جنگل،یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا

یہ پربت،اچانک نگاہوں میں آتی ہوئی کوئی اونچی عمارت

یہ اُجڑے ہوئے مقبرے اور مرگِ مسلسل کی صورت مجاور

یہ ہنستے ہوئے ننھے بچے،یہ گاڑی سے ٹکرا کے مرتا ہوا ایک اندھا مسافر

ہوائیں،نباتات اور آسماں پر اِدھر سے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل

یہ کیا ہیں؟

یہی تو زمانہ ہے ،یہ اک تسلسل کا جھولا رواں ہے

یہ میں کہہ رہا ہوں یہ بستی،یہ جنگل،یہ رستے ،یہ دریا،یہ پربت،عمارت،مجاور۔مسافر

ہوائیں،نباتات اور آسماں پر اِدھر سے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل

یہ سب کچھ ،یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے

زمانہ ہوں میں،میرے ہی دَم سے اَن مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے

مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے

کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں

٭٭٭

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

 

 

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

کہیں یہ میری ہستی کو

پریشاں کائناتی نغمۂ مبہم میں الجھا دے

کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت

مِری ہستی ہے اک ذرہ

کہیں یہ میری ہستی کو چکھا دے کہر عالم تاب کا نشہ

ستاروں کا علمبردار کر دے گی

مسرت میری ہستی کو

اگر پھر سے اسی پہلی بلندی سے ملا دے گی

تو میں ڈرتا ہوں۔۔۔ڈرتا ہوں

کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت

 

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

کہیں یہ میری ہستی کو

بھلا کر تلخیاں ساری

بنا دے دیوتاؤں سا

تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا

زمانہ اپنی ہستی کا

٭٭٭

ارتقاء

 

قدم قدم پر جنازے رکھے ہوئے ہیں،ان کو اُٹھاؤ جاؤ!

یہ دیکھتے کیا ہو؟کام میرا نہیں،تمہارا یہ کام ہے

آج اور کل کا

تم آج میں محو ہو کے شاید یہ سوچتے ہو

نہ بیتا کل اور نہ آنے والا تمہارا کل ہے

مگر یونہی سوچ میں جو دوبے تو کچھ نہ ہو گا

جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اُٹھاؤ،جاؤ!

چلو! جنازوں کو اب اٹھاؤ۔۔۔

یہ بہتے آنسو بہیں گے کب تک؟

اُٹھو اور اب ان کو پونچھ ڈالو

یہ راستہ کب ہے؟اک لحد ہے

لحد کے اندر تو اک جنازہ ہی بار پائے گا یہ بھی سوچو

تو کیا مشیت کے فیصلے سے ہٹے ہٹے رینگتے رہو گے؟

جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اُٹھاؤ،جاؤ!

لحد ہے ایسے کہ جیسے بھوکے کا لالچی منہ کھلا ہوا ہو

مگر کوئی تازہ۔۔اور تازہ نہ ہو میسر تو باسی لقمہ بھی اسکے

اندر نہ جانے پائے

کھلا دہن یوں کھلا رہے جیسے اک خلا ہو

اٹھاؤ،جلدی اٹھاؤ،آنکھوں کے سامنے کچھ جنازے

رکھے ہوئے ہیں،ان کو اُٹھاؤ ،جاؤ،

لحد میں ان کو ابد کی اک گہری نیند میں غرق کر کے آؤ

اگر یہ مُردے لحد کے اندر گئے تو شاید

تمہاری مُردہ حیات بھی آج جاگ اُٹھے

٭٭٭

 

 

بلندیاں

 

 

دیکھ انسانوں کی طاقت کا ظہور

اک سکونِ آہنی ہمدم ہے میرا،اور میں

روزنِ دیوار سے

دیکھتا ہوں کوچہ و بازار میں

آرہے ہیں،جا رہے ہیں لوگ ہر سُو۔۔۔گرم رَو

اور آہن کی سواری کے نمائندے بھی ہیں

تیز آنکھوں،نرم قدموں کو لئے

محو گہرے نشّۂ رفتار میں

اور یہ اونچا مکان

جس پہ استادہ ہوں میں

جذبۂ تعمیر کا اظہار ہے

سرخرو،دل میں اولوالعزمی لئے

رات کی تاریکیاں ہر شے پہ ہیں چھائی ہوئی

لیکن ان تاریکیوں میں ہیں درخشاں چشم ہائے

دیوِ تہذیبِ جدید

اک سکونِ آہنی ہمدم ہے میرا ،اور میں

سوچتا ہوں عرصۂ انجم کے باشندے تمام

دل میں کہتے ہوں گے۔۔۔ہیچ!

٭٭٭

 

ابوالہول

 

بچھا ہے صحرا اور اُس میں ایک ایستادہ صورت بتا رہی ہے

پرانی عظمت کی یادگار آج بھی ہے باقی

نہ اب وہ محفل،نہ اب وہ ساقی

مگر انہی محفلوں کا اک پاسباں کھڑا ہے

فضائے ماضی میں کھو چکی داستانِ فردا

مگر یہ افسانہ خواں کھڑا ہے

زمانہ ایوان ہے،یہ اس میں سنا رہا ہے پرانے نغمے

میں ایک ناچیز و ہیچ ہستی

فضائے صحرا کے گرم و ساکن ،خموش لمحے

مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے

ابھی وہ آ جائیں گے سپاہی،

وہ تُند فوجیں

دلوں میں احکام بادشاہوں کے لے کے

آ جائیں گی اُفق سے

ہوائے صحرا نے چند ذرے کیے پریشاں

ہے یا وہ فوجوں کی آمد آمد؟

خیال ہے یہ فقط مِرا اک خیال ہے،میں خیال سے

دل میں ڈر گیا ہوں

مگر یہ ماضی کا پاسباں پُر سکون دل سے

زمیں پہ اک بے نیاز انداز میں ہے قائم

٭٭٭

 

 

 

آمدِ صبح

 

دوپٹہ شب کا ڈھلکے گا!

نہ ٹھہرے گا یہ سر پر رات کی رانی کے اک پل کو،

 

یہ روشن اور اجلا چاند یعنی رات کا پریمی

یہ اس کو جگمگاتے،پیلے تاروں سے

سجا کر لایا ہے گھر سے

مگر چنچل ہے رانی رات کی بے حد،

دوپٹہ شب کا ڈھلکے گا

 

ہے دل میں چاند کے جذبہ محبت کا

چھپاتا ہے وہ غیروں کی نگاہوں سے

اُڑھا کر اک دوپٹہ اس کو تاروں کا

مگر چنچل ہے رانی رات کی بے حد،

فضا کے گلستاں میں پھرتی ہے اٹھکیلیاں کرتی،

ہوائیں گیسوؤں کو اُس کے چھو کر دوڑ جاتی ہیں،

دوپٹہ شب کا ڈھلکے گا،

وہ لو،پیلا پڑا روشن سا چہرہ چاند کا بالکل

اسے افسوس !اندیشوں نے گھیرا ہے

اسے خطرہ ہے غیروں کا

ہے جذبہ اس کے دل میں تند چاہت کا

مگر چنچل ہے رانی رات کی بے حد

وہ ان کیفیتوں کو دل میں لاتی ہی نہیں بالکل

دوپٹہ شب کا ڈھلکا،ہاں وہ ڈھلکا جس طرح نغمہ

کسی راگی کے دل سے اُٹھ کے اک دم بیٹھ جاتا ہے

پرندے چہچہاتے ہیں

وہ لو،سورج بھی اپنی سیج پر اب جاگ اُٹھا ہے

گئی رات اور دن آیا

٭٭٭

 

 

 

’’جوہو‘‘ کے کنارے

 

 

افق پہ دور۔۔۔

کشتیاں ہی کشتیاں جہاں تہاں

کوئی قریب بارِ نور سے عیاں تو کوئی دور کہر میں نہاں

ہر ایک ایسے جیسے ساکن و خموش و پُر سکون۔۔۔ہر ایک

بادباں ہے ناتواں

مگر ہر ایک ہے کبھی یہاں کبھی وہاں

سکوں میں ایک جستجوئے نیم جاں

حیاتِ تازہ و شگفتہ کو لیے رواں دواں

افق پہ دور کشتیاں ہی کشتیاں جہاں تہاں

قریب شورِ ساحلِ خمیدہ ہے

ہر ایک موج یوں رمیدہ ہے

کہ جیسے آبدیدہ ہے

کہ دور افق پہ کشتیاں نہیں ہیں کوئی روح پارہ پارہ

غم گزیدہ ہے

کنارِ آب سیپیاں ہی سیپیاں ہیں ایک عکسِ ناتواں

اچانک اک گھٹا اُٹھی

اچانک اس کے پار آفتاب چھپ گیا

اچانک ایک پل میں کشتیاں بھی مٹ گئیں

کنارِ آب پر کھلی ہوئی پڑی ہوئی ہیں سیپیاں ہی سیپیاں

٭٭٭

 

 

یعنی۔۔۔۔

 

میں سوچتا ہوں اک نظم لکھوں

لیکن اس میں کیا بات کہوں

اک بات میں بھی سو باتیں ہیں

کہیں جیتیں ہیں،کہیں ماتیں ہیں

دل کہتا ہے میں سنتا ہوں

من مانے پھول یوں چنتا ہوں

جب مات ہو مجھ کو چپ نہ رہوں

اور جیت جو ہو درّانہ کہوں

پل کے پل میں اک نظم لکھوں

لیکن اس میں کیا بات کہوں

جب یوں الجھن بڑھ جاتی ہے

تب دھیان کی دیوی آتی ہے

اکثر تو وہ چپ ہی رہتی ہے

کہتی ہے تو اتنا کہتی ہے

کیوں سوچتے ہو اک نظم لکھو

کیوں اپنے دل کی بات کہو

بہتر تو یہی ہے چپ ہی رہو

لیکن پھر سوچ یہ آتی ہے

جب ندی بہتی جاتی ہے

اور اپنی اننت کہانی میں

یوں بے دھیانی میں،روانی میں

مانا ہر موڑ پہ مڑتی ہے

پر جی کی کہہ کے گزرتی ہے

سر پر آئی سہہ جاتی ہے

اور منہ آئی کہہ جاتی ہے

دھرتی کے سینے پہ چڑھتی ہے

اور آگے ہی آگے بڑھتی ہے

یوں میں بھی دل کی بات کہوں

جی میں آئے تو نظم لکھوں

چاہے اک بات میں سو باتیں

جیتیں لے آئیں یا ماتیں

چاہے کوئی بات بنے نہ بنے

چاہے سُکھ ہوں یا دُکھ اپنے

چاہے کوئی مجھ سے آ کے کہے

کیوں بول اُٹھے،کیوں چُپ نہ رہے

چاہے میں کہہ کر چپ ہی رہوں

میں سوچتا ہوں اک نظم لکھوں

لیکن اس میں کیا بات کہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گناہوں سے نشو و نما پا گیا دل

در پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل

 

اگر زندگی مختصر تھی تو پھر کیا

اسی میں بہت عیش کرتا گیا دل

 

یہ ننھّی سی وسعت یہ نادان ہستی

نئے سے نیا بھید کہتا گیا دل

 

نہ تھا کوئی معبود، پر رفتہ رفتہ

خود اپنا ہی معبود، بنتا گیا دل

 

نہیں گریہ و خندہ میں فرق کوئی

جو روتا گیا دل تو ہنستا گیا دل

 

بجائے دل اک تلخ آنسو رہے گا

اگر ان کی محفل میں آیا گیا دل

 

پریشاں رہا آپ تو فکر کیا ہے

ملا جس سے بھی اس کو بہلا گیا دل

 

کئی راز پنہاں ہیں لیکن کھلیں گے

اگر حشر کے روز پکڑا گیا دل

 

بہت ہم بھی چالاک بنتے تھے لیکن

ہمیں باتوں باتوں میں بہکا گیا دل

 

کہی بات جب کام کی میرا جی نے

وہیں بات کو جھٹ سے پلٹا گیا دل

٭٭٭

 

سلسلۂ روز و شب

 

 

خدا نے الاؤ جلایا ہوا ہے

اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے

ہر اک سمت اس کے خلا ہی خلا ہے

سمٹتے ہوئے،دل میں وہ سوچتا ہے

تعجب کہ نورِ ازل مٹ چکا ہے

 

بہت دور انسان ٹھٹکا ہوا ہے

اُسے ایک شعلہ نظر آ رہا ہے

مگر اس کے ہر سمت بھی اک خلا ہے

تخیّل نے یوں اس کو دھوکا دیا ہے

ازل ایک پل میں ابد بن گیا ہے

 

عدم اس تصور پر جھنجھلا رہا ہے

نفس دو نفس کا بہانہ بنا ہے

حقیقت کا آئینہ ٹوٹا ہوا ہے

تو پھر کوئی کہہ دے یہ کیا ہے،وہ کیا ہے؟

خلا ہی خلا ہے،خلا ہی خلا ہے

٭٭٭

 

 

ترقی

 

 

 

بھید لکھا تھا یہ پتھر پہ پیا داسی نے

اسی چوکھٹ پہ نصیبا جاگا

جس پہ بڑھتے ہوئے پاؤں جھجکے

اور جنگل میں گئے

قصرِ عشرت میں وہ اک ذرہ تھا

قصرِ عشرت میں ازل سے اب تک

جو بھی رہتا رہا اک راگ نیا گاتا رہا

اور جنگل میں وہی راگ ۔۔۔پرانا نغمہ

گونجتا تھا کہ ہر اک بستی سے

آخری عیش کو دوری ہی بھلی ہوتی ہے

اس نے جنگل میں یہ جا کر جانا

بستیاں اور بھی ویران ہوئی جاتی ہیں

وہ چمک،منزلِ مقصود ،چراغ

دائیں بائیں کی ہواؤں سے ہر اک پل،ہر آن

نور کھونے کو ہے،لو! نور مٹا،نور مٹا

اس کی لو کانپتی جاتی ہے ذرا تھمتی نہیں

ابھی بڑھنے کو ہے،بڑھنے کو ہے،بڑھ جائے گا

یہ چراغِ انساں

یہی اک دھیان اسے آگے لیے جاتا ہے

اور وہ بڑھتا گیا

پیڑ کی چھاؤں تلے سوچ میں ایسا ڈوبا

بن گیا فکرِ ازل،فکر، ابد

اور جنگل سے نکل آیا تو اس نے دیکھا

بستیوں میں بھی اسی چاہ کے انداز نرالے ،پھیلے

اور پھر وہ بھی تھا بھائی،میں بھی

دیوتا اس کو بنایا کس نے؟

کہہ تو دو قصرِ مسرت میں جو اک ذرہ تھا

اس کو اک عالمِ ادراک بتایا کس نے؟

اسی انساں نے جو ہر بستی کو

آج ویرانہ بنانے پہ تلا بیٹھا ہے

اور اک ذرے کے بل پر افسوس

بھید کیوں لکھا نہیں تھا یہ پیا داسی نے

راستے اور بھی ہیں،اور بھی ہیں،اور بھی ہیں

اسی اک ذرے کی چوکھٹ پہ نصیبے کو بھی نیند آ ہی گئی

٭٭٭

 

 

روحِ انساں کے اندیشے

 

خیال موت کے مجھ کو ستا رہے ہیں کیوں؟

یہ سائے تیرہ و تاریک آرہے ہیں کیوں؟

اور عقل و ہوش کو بے خود بنا رہے ہیں کیوں؟

کہ زندگی کا ابھی ہو نہیں چکا آغاز

ابھی ہزاروں برس اور آنے والے ہیں

مِرے عروج و تنزل کو لانے والے ہیں

مجھے عجیب زمانے دکھانے والے ہیں

مجھے دکھائیں گے لا انتہا زمین کے راز

ابھی تو شامِ غمِ عشق ہے ، سحر ہو گی

ابھی تو شاخِ تفکر بھی بار ور ہو گی

ابھی خیال کی وسعت کشادہ تر ہو گی

کہ لاکھوں نغمے ہے دل میں لیے فضا کا ساز

یہ پست ہمت و دردانہ رنگ کیسے ہیں؟

یہ قلبِ کوہ میں گہرے سرنگ کیسے ہیں؟

یہ بحرِ فکر میں وحشی نہنگ کیسے ہیں؟

ابھی نہیں ہوئی پوری مری مہیب نماز

یہ کیسی وسعتِ کونین میں بجی شہنائی؟

تھا اس کا شور کہ بے باک زلزلہ آرائی؟

یوں دیو، فکر میں یہ عاجزی کہاں سے آئی؟

کہ سست رو ہے یہ بے چین،دہر گرد جہاز

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی کش مکشِ حاصل و نا حاصل ہے

ماسوا اس کے ہر اک نقشِ جہاں باطل ہے

 

دُور ماضی کا اُفق،سامنے سیلِ امروز

وقت کا کٹتا کنارا تو یہ مستقبل ہے

 

دلِ محروم ہے عشاقِ تن آساں کا امیر

گرچہ ہر نورِ گریزاں کا یہی سائل ہے

 

مجھ سے تو بہجتِ آسودہ کا حاصل مت پوچھ

فکر،ہر رنگ میں لذت کے لیے قاتل ہے

 

ہاتھ پر ہاتھ دھرے عمر گزاری جس نے

کشتنی،سوختنی،جو بھی کہو یہ دل ہے

 

لبِ میگوں سے جو محرومی ہے تسلیم ہمیں

لذتِ تشنہ لبی اس میں مگر شامل ہے

 

تیرگی، موجۂ خونخوار، شکستہ کشتی

اور ذرا آنکھ اُٹھائی تو وہیں ساحل ہے

 

یہ تماشائے چمن نقشِ خط و رنگ نہیں

بہ تقاضائے حیا کاہشِ آب و گِل ہے

٭٭٭

 

خدا

 

 

میں نے کب دیکھا تجھے روحِ ابد

ان گنت گہرے خیالوں میں ہے تیرا مرقد

صبح کا،شام کا نظارہ ہے

ذوقِ نظارہ نہیں چشمِ گداگر کو مگر

میں نے کب جانا تجھے روحِ ابد

راگ ہے تو پہ مجھے ذوقِ سماعت کب ہے

مادیّت کا ہے مِرا ذہن،مجھے

چھو کے معلوم یہ ہو سکتا ہے شیریں ہے ثمر

اور جب پھول کھلے اس کی مہک اُڑتی ہے

اپنی ہی آنکھ ہے اور اپنی سمجھ،کس کو کہیں۔۔تو مجرم

میں نے کب سمجھا تجھے روحِ ابد

خشک مٹی تھی مگر چشمِ زدن میں جاگی

اُسے بے تاب ہوا لے کے اُڑی

پھر کنارا نہ رہا،کوئی کنارا نہ رہا

بن گیا عرصۂ آفاق نشانِ منزل

زور سے گھومتے پہیے کی طرح

ان گنت گہرے خیال ایک ہوئے

ایک آئینہ بنا

جس میں ہر شخص کو اپنی تصویر

اپنے ہی رنگ میں اک لمحہ دکھائی دی تھی

ایک لمحے کے لیے

بن گیا عرصۂ آفاق نشانِ منزل

میں نے دیکھا ہے تجھے روحِ ابد

ایک تصویر ہے شب رنگ ،مہیب

درِ معبد پہ لرز اٹھے ہر ایک کے پاؤں

ہاتھ ملتے ہوئے پیشانی تک آئے دونوں

خوف سے ایک ہوئے

میں تجھے جان گیا روحِ ابد

تو تصور کی تمازت کے سوا کچھ بھی نہیں

(چشمِ ظاہر کے لیے خوف کا سنگیں مرقد)

اور مِرے دل کی حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں

اور مرے دل میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

٭٭٭

 

لذتِ شام، شبِ ہجر خدا داد نہیں

اس سے بڑھ کر ہمیں رازِ غمِ دل یاد نہیں

 

کیفیت خانہ بدوشانِ چمن کی مت پوچھ

یہ وہ گلہائے شگفتہ ہیں جو برباد نہیں

 

یک ہمہ حسنِ طلب،یک ہمہ جانِ نغمہ

تم جو بیداد نہیں ہم بھی تو فریاد نہیں

 

زندگی سیلِ تن آساں کی فراوانی ہے

زندگی نقش گرِ خاطر ناشاد نہیں!

 

اُن کی ہر اک نگہ آموختۂ عکسِ نشاط

ہر قدم گرچہ مجھے سیلیِ استاد نہیں

 

دیکھتے دیکھتے ہر چیز مٹی جاتی ہے

جنتِ حُسنِ نَفَس و جنتِ شداد نہیں

 

ہر جگہ حُسنِ فزوں اپنی مہک دیتا ہے

باعثِ زینتِ گل تو قدِ شمشاد نہیں

 

خانہ سازانِ عناصر سے یہ کوئی کہہ دے

پُر سکوں آبِ رواں ،نوحہ کناں باد نہیں

٭٭٭

 

 

 

جیسے ہوتی آئی ہے، ویسے بسر ہو جائے گی

زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی

 

گیسوئے عکسِ شبِ فرقت پریشاں اب بھی ہے

ہم بھی تو دیکھیں کہ یوں کیوں کر سحر ہو جائے گی

 

انتظارِ منزلِ موہوم کا حاصل یہ ہے

ایک دن ہم پر عنایت کی نظر ہو جائے گی

 

سوچتا رہتا ہے دل یہ ساحلِ اُمّید پر

جستجو، آئینۂ مدّ و جزر ہو جائے گی

 

درد کے مشتاق گستاخی تو ہے لیکن معاف

اب دعا، اندیشہ یہ ہے، کارگر ہو جائے گی

 

سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ ہے

ایک دن، اُمّید ہے اُن کو خبر ہو جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

جیون جیوتی جاگ رہی ہے چھوڑ بہانے، چھوڑ بہانے

تن من دھن کی بھینٹ چڑھا دے کیوں سپنوں کے تانے بانے

 

آئے کون تجھے بہلانے، پہنچے کون تجھے سمجھانے

پھر پایا ہے پریم سدھانے، اُلجھایا ہے پریم کتھا نے

 

آنکھیں کھول کے دیکھ جگت کو رنگ رنگ کی نیاری باتیں

ایک ہی چاند مگر آتا ہے تیری راتوں کو چمکانے

 

ساغر اُلٹے، مینا ٹوٹی، میخواروں کی سنگت چھوٹی

ڈھونڈنا اب بیکار ہے تیرا، خالی ہیں سارے میخانے

 

اس کے دامن میں سو لہریں، آئیں جھکولے، جائیں جھکولے

ہاں کہہ کر پھر جائیں پل میں، کوئی مانے کوئی نہ مانے

 

دیکھ کہ ندی اب گدلی ہے، جاگ کہ دنیا ہی بدلی ہے

موج کی راہ سے ناؤ ہٹا لے، آئے ہیں تیرے محل کو ڈھانے

 

پریم کا ساتھ ہے دکھ کا دارو، کیسا سکھ ہو، پاس نہیں تُو

آنے لگی گیسو کی خوشبو، پیتا ہوں رس کے پیمانے

 

مانا دکھ میں کھویا ہوا ہوں، تم سمجھے ہو سویا ہوا ہوں

دھرتی کو آکاش بنا دوں، آئے ہو تم کس کو جگانے؟

٭٭٭

 

 

 

خاکِ جامِ مے ہے گردِ کارواں

اب نہیں اندیشۂ سود و زیاں

 

اب نَفَس کا زیر و بم کیا ہے؟ فقط

حاصلِ امّید مرگِ ناگہاں

 

عشرتِ حُسنِ نظر ہے بازگشت

اور تفکّر اک فریبِ رائیگاں

 

اب نجاتِ دائمی ہے ایک لفظ

اور وہ اک لفظ بھی رازِ عیاں

 

ایک پردہ روز و شب شام و سحر

راز جُو اور جستجو کے درمیاں

 

اک تخیّل کے سوا کچھ بھی نہیں

رشتۂ دورِ زماں، دورِ مکاں

 

حاصلِ عمر دو روزہ ہے بہت

گر کبھی منزل کرے عمرِ رواں

 

کیوں نہ یہ تارِ رگِ جاں توڑیے

دیکھیے پھر کیوں نہ عیشِ جاوداں

 

سوچتے ہی سوچتے آیا خیال

کچھ نہیں ہستی سوائے جسم و جاں

 

وقت کی پرواز کے ہمدوش ہی

بہتا جائے گا یہ دریائے رواں

 

تم بھی یہ کہتے ہو بڑھتے چلو

الاماں، منزل کہاں، منزل کہاں؟

٭٭٭

 

 

 

دل محوِ جمال ہو گیا ہے

یا صرفِ خیال ہو گیا ہے

 

اب اپنا یہ حال ہو گیا ہے

جینا بھی محال ہو گیا ہے

 

ہر لمحہ ہے آہ آہ لب پر

ہر سانس وبال ہو گیا ہے

 

وہ درد جو لمحہ بھر رکا تھا

مُژدہ کہ بحال ہو گیا ہے

 

چاہت میں ہمارا جینا مرنا

آپ اپنی مثال ہو گیا ہے

 

پہلے بھی مصیبتیں کچھ آئیں

پر اب کے کمال ہو گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

زندگی ایک اذیت ہے مجھے

تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے

 

دل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک خیال

تجھ سے کس درجہ محبت ہے مجھے

 

تیری صورت تیری زلفیں ملبوس

بس انہی چیزوں سے رغبت ہے مجھے

 

مجھ پہ اب فاش ہوا رازِ حیات

زیست اب سے تیری چاہت ہے مجھے

 

تیز ہے وقت کی رفتار بہت

اور بہت تھوڑی سی فرصت ہے مجھے

 

سانس جو بیت گیا بیت گیا

بس اسی بات کی کلفت ہے مجھے

 

اب نہیں دل میں میرے شوقِ وصال

اب ہر اک شے سے فراغت ہے مجھے

 

اب نہ وہ جوشِ تمنا باقی

اب نہ وہ عشق کی وحشت ہے مجھے

 

اب یونہی عمر گزر جائے گی

اب یہی بات غنیمت ہے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا، کیا اب تم سے بیان کریں

غم بھی راس نہ آیا دل کو، اور ہی کچھ سامان کریں

 

کرنے اور کہنے کی باتیں، کس نے کہیں اور کس نے کیں

کرتے کہتے دیکھیں کسی کو، ہم بھی کوئی پیمان کریں

 

بھلی بُری جیسی بھی گزری، اُن کے سہارے گزری ہے

حضرتِ دل جب ہاتھ بڑھائیں، ہر مشکل آسان کریں

 

ایک ٹھکانا آگے آگے، پیچھے پیچھے مسافر ہے

چلتے چلتے سانس جو ٹوٹے، منزل کا اعلان کریں

 

مجبوروں کی مختاروں سے دُوری اچھی ہوتی ہے

مل بیٹھیں تو مبادا دونوں باہم کچھ احسان کریں

 

دستِ مزد میں خشتِ رنگیں اس کا اشارہ کرتی ہے

ایک ہی نعرہ کافی ہے، بربادیِ ہر ایوان کریں

 

میر ملے تھے میرا جی سے، باتوں سے ہم جان گئے

فیض کا چشمہ جاری ہے، حفظ ان کا بھی دیوان کریں

٭٭٭

 

 

 

 

لب پر ہے فریاد کہ ساقی یہ کیسا میخانہ ہے

رنگِ خونِ دل نہیں چمکا، گردش میں پیمانہ ہے

 

مٹ بھی چکیں امیدیں مگر باقی ہے فریب امیدوں کا

اس کو یہاں سے کون نکالے، یہ تو صاحبِ خانہ ہے

 

ایسی باتیں اور سے جا کر کہئے تو کچھ بات بھی ہے

اس سے کہے کیا حاصل جس کو سچ بھی تمہارا بہانہ ہے

 

طور اطوار انوکھے اس کے، کس بستی سے آیا ہے

پاؤں میں لغزش کوئی نہیں ہے، یہ کیسا مستانہ ہے

 

میخانے کی جھلمل کرتی شمعیں دل میں کہتی ہیں

ہم وہ رِند ہیں جن کو اپنی حقیقت بھی افسانہ ہے

٭٭٭

 

 

 

لبِ جوئبار

 

 

 

اک ہی پل کے لیے بیٹھ کے پھر اُٹھ بیٹھی

آنکھ نے صرف یہ دیکھا کہ نشستہ بت ہے

یہ بصارت کو نہ تھی تاب کہ وہ دیکھ سکے

کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ

ایک لمحے کے لیے چشمے کی مانند بنا

پیچ کھاتے ہوئے یہ لہر اُٹھی دل میں مرے

کاش یہ یہ جھاڑیاں اک سلسلۂ کوہ بنیں

دامنِ کوہ میں ، میں جا کے ستادہ ہو جاؤں

ایسی انہونی جو ہو جائے تو کیوں یہ بھی نہ ہو

خشک پتوں کا زمیں پر جو بچھائے بستر

وہ بھی اک ساز بنے، ساز تو ہے! ساز تو ہے!

نغمہ بیدار ہوا تھا جو ابھی، کان ترے

کیوں اُسے سن نہ سکے! سننے سے مجبور رہے

پردۂ چشم نے صرف ایک نشستہ بت کو

ذہن کے دائرۂ خاص میں مرکوز کیا

یاد آتا ہے مجھے، کان ہوئے تھے بیدار

خشک پتوں سے جب آئی تھی تڑپنے کی صدا

اور دامن کی ہر اک لہر چمک اٹھی تھی

پڑ رہا تھا اُسی تلوار کا سایہ شاید

جو نکل آئی تھی اک پل میں نہاں خانے سے

جیسے بے ساختہ انداز میں بجلی چمکے

لیکن اُس دامنِ آلودہ کہ ہر لہر مٹی

جل پری دیکھتے ہی دیکھتے روپوش ہوئی

میں ستادہ ہی رہا میں نے نہ دیکھا (افسوس!)

کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ

ایک لمحے کے لیے چشمے کی مانند بنا

دامن کوہ میں استادہ نہیں ہوں اس وقت

جھاڑیاں سلسلۂ کوہ نہیں، پردہ ہیں

جس کے اُس پار جھلکتا نظر آتا ہے مجھے

منظر انجان، اچھوتی سی دلہن کی صورت

ہاں تصور کو میں اب اپنے بنا کر دولہا

اسی پردے کے نہاں خانے میں جاؤں گا کبھی

کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ

دلِ بے تاب کی مانند تڑپ اُٹھا تھا!

زندگی گرم تھی ہر بوند میں آبی پاؤں

خشک پتوں پہ پھسلتے ہوئے جا پہنچے تھے!

میں بھی موجود تھا، اک کرمک بے نام و نشاں

میں نے دیکھا کہ گھٹا شق ہوئی، دھارا نکلی

برق رفتاری سے اک تیر کماں نے چھوڑا

اور وہ خم کھا کے لچکتا ہوا تھرا کے گرا

قلۂ کوہ سے گرتے ہوئے پتھر کی طرح

کوئی بھی روک نہ تھی اُس کے لیے، اُس کے لیے

خشک پتوں کا زمیں پر ہی بچھا تھا بستر!

اُسی بستر پہ وہ انجان پری لیٹ گئی!

اور میں کرمک بے نام ، گھٹا کی صورت

اسی امید پہ تکتا رہا ، تکتا ہی رہا

اب اسی وقت کوئی جل کی پری آ جائے

بنسری ہاتھ میں لے کر میں گوالا بن جاؤں

جل پری نے دیکھا ابھی آسودہ ہوئی لیٹ گئی

لیکن افسوس کہ میں اب بھی کھڑا ہوں تنہا

ہاتھ آلودہ ہے، نمدار ہے، دھندلی ہے نظر

ہاتھ سے آنکھوں کے آنسو تو نہیں پونچھے تھے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں

لیکن میں آزاد ہوں ساقی! چھوٹے سے پیمانے میں

 

عمر ہے فانی، عمر ہے باقی اس کی کچھ پرواہی نہیں

تو یہ کہہ دے وقت لگے گا کتنا آنے جانے میں

 

تجھ سے دوری، دوری کب تھی، پاس اور دور تو دھکا ہیں

فرق نہیں انمول رتن کو کھو کر پھر سے پانے میں

 

دو پل کی تھی اندھی جوانی، نادانی کی، پھر پایا

عمر بھلا کیوں بیتے ساری رو رو کر پچھتانے میں

 

خوشیاں آئیں! اچھا آئیں! مجھ کو کیا احساس نہیں

سدھ بدھ ساری بھول گیا ہوں دکھ کے گیت سنانے میں

٭٭٭

 

 

 

 

دیدۂ اشکبار ہے اپنا

اور دل بے قرار ہے اپنا

 

چشم گریاں سے چاک داماں سے

حال سب آشکار ہے اپنا

 

رشکِ صحرا ہے گھر کی ویرانی

یہی رنگِ بہار ہے اپنا

 

ہاؤ  ہو میں ہر ایک کھویا ہے

کون یاں غمگسار ہے اپنا

 

ان کو اپنا بنا کر چھوڑیں گے

بخت اگر سازگار ہے اپنا

 

ہے یہی رسمِ میکدہ شاید

نشّہ ان کا خمار ہے اپنا

 

پاس تو کیا ہے اپنے بھر بھی مگر

ان پہ سب کچھ نثار ہے اپنا

 

ہم کو ہستی رقیب کی منظور

پھول کے ساتھ خار ہے اپنا

 

کیا غلط سوچتے ہیں میرا جی

شعر کہنا شعار ہے اپنا

٭٭٭

 

 

 

نگری نگری پھرا مسافر، گھر کا رستہ بھول گیا

کیا ہے تیرا کیا ہے میرا، اپنا پرایا بھول گیا

 

کیا بھولا، کیسے بھولا، کیوں پوچھتے ہو، بس یوں سمجھو

کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا

 

کیسے دن تھے کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں

من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا

 

اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا، شرمائی

دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ، بھُول گیا

 

یاد کے پھر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی

دُکھ میں سُکھ ہے سُکھ میں دُکھ ہے بھید یہ نیا را بھُول گیا

 

ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی

ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا، بھول گیا

 

سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ

لہر لہر سے جا سر پٹکا، ساگر گہرا، بھول گیا

 

ہنسی ہنسی میں کھیل کھیل میں، بات کی بات میں رنگ مٹا

دل بھی ہوتے ہوتے آخر گھاؤ کا رِسنا بھول گیا

 

اپنی بیتی جگ بیتی ہے جب سے دل نے جان لیا

ہنستے ہنستے جیون بینا رونا دھونا بھول گیا

 

جس کو دیکھو اس کے دل میں شکوہ ہے تو اتنا ہے

ہمیں تو سب کچھ یاد رہا پر ہم کو زمانہ بھول گیا

 

کوئی کہے یہ کس نے کہا تھا کہہ دو جو کچھ جی میں ہے

میرا جی کہہ کر پچھتایا اور پھر کہنا بھول گیا

٭٭٭

 

 

ایک  نظم

 

پیارے لمحے آئیں گے اور مجبوری مٹ جائے گی

ہم دونوں مل جائیں گے اور سب دُوری مٹ جائے گی

 

ہر دم بہنے والی آنکھوں کی مالا بھی ٹوٹے گی

تیری میری ہستی اس بیری بندھن سے چھوٹے گی

 

لیکن یہ سب باتیں ہیں اپنے جی کے بہلانے کی

دکھ کی رات میں دھیرے دھیرے دل کا درد مٹانے کی

 

روتے روتے ہنستے ہنستے رُکتے رُکتے گانے کی

سکھ کا سپنا سوکھا ہے اور سوکھا ہی رہ جائے گا

 

سونی سیج پہ پریم کہانی پریمی یوں کہہ جائے گا

ہوتے ہوتے سارا جیون آنکھوں سے بہہ جائے گا

٭٭٭

 

 

 

ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا دل میں دھن بھی سمائی ہے

میر ا جی د انا تو نہیں ہے، عاشق ہے سو دائی ہے

 

صبح سویرے کون سی صورت پھلواڑی میں آئی ہے

ڈالی ڈالی جھوم اٹھی ہے ، کلی کلی لہرائی ہے

 

جانی پہچانی صورت کو اب تو آنکھیں ترسیں گی

نئے شہر میں جیون دیوی نیا روپ بھر لائی ہے

 

ایک کھلونا ٹوٹ گیا تو اور کئی مل جائیں گے

بالک یہ انہونی تجھ کو کس بیری نے سمجھائی ہے

 

دھیان کی دھن ہے امر گیت پہچان لیا تو بولے گا

جس نے راہ سے بھٹکایا تھا وہی راہ پر لائی ہے

 

جب دل گھبرا جاتا ہے تو آپ ہی آپ بہلتا ہے

پریم کی ریت اسے جانو پر ہونی کی چترائی ہے

 

امیدیں ، ارمان سبھی جل دے جائیں گے جانتے تھے

جان جان کے دھوکے کھائے ، جان کے بات بڑھائی ہے

 

ایسے ڈولے من کا بجرا جیسے نین بیچ ہو  کجرا

دل کے اندر دھوم مچی ہے ، جگ میں اداسی چھائی ہے

٭٭٭

 

 

 

اس راہ پر چلتا جانے دے

 

مجھے

چاہے نہ

چاہے دل تیرا، تُو مجھ کو چاہ

بڑھانے دے

اک پاگل پریمی کو اپنی چاہت کے نغمے گانے دے

 

تُو رانی پریم کہانی کی چُپ

چاپ کہانی سُنتی جا

یہ پریم کی باتیں سُنتی جا،

پریمی کو گیت سُنانے دے

 

یہ چاہت میرا جذبہ ہے میرے دل

کا میٹھا نغمہ

ان باتوں سے کیا کام تجھے

ان باتوں کو کہہ جانے دے

 

تُو دُور اکیلی بیٹھی ہے

سکھ سندرتا کی مستی میں

میں دُور بہا جاتا ہوں پریم کی

ندی میں بہہ جانے دے

 

گر بھولے سے اس جذبے کا

تُو گیت جوابی گا بیٹھی

یہ جادو سب مٹ جائے گا اس کو

جوبن پر آنے دے

 

ہاں جیت میں کوئی نہیں ہے

نشہ، یہ بات ہے جیت سے

دُوری میں

جو راہ رسیلی چلتا ہوں اس راہ

پر چلتا جانے دے

٭٭٭

 

 

 

ایک نظم

 

اے پیارے لوگو!

تم دور کیوں ہو؟

کچھ پاس آؤ

آؤ کہ پل میں

یہ سب ستارے

تاریکیوں کے

اس پار ہوں گے

اے پیارے لوگو!

میں تم سے مل کر

بہتر بنوں گا،

ایسے اکیلے

یوں روتے روتے

آنسو بہیں گے

اور کچھ نہ ہوگا

تم پاس آؤ

پھر دیکھ لیں گے

دنیا ہے کیا کچھ

اور دین کیا ہے،

پھر جان لیں گے

ہر سانس کیسے

آنکھیں جھپکتے

ان مٹ بنا تھا

لیکن محبت

یہ کہہ رہی ہے

ہم دور ہی دور

اور دور ہی دور

چلتے رہیں گے

٭٭٭

دھوبی گھاٹ

 

 

جس شخص کے ملبوس کی قسمت میں لکھی ہے

کرنوں کی تمازت

رشک آتا ہے مجھ کو اس پر

کیوں صرف اچھوتا،

انجان، انوکھا

اک خواب ہے خلوت؟

کیوں صرف تصور

بہلاتا ہے مجھ کو؟

کیوں صبح شب عیش کا جھونکا بن کر

رخسار کی بے نام اذیت

سہلاتا ہے مجھ کو

کیوں خواب فسوں گر کی قبا چاک نہیں ہے؟

کیوں گیسوئے پیچیدہ و رقصاں

نمناک نہیں ہے

اشک دل خوں سے؟

کیوں لمس کی حسرت کے جنوں سے

ملتی نہیں مجھ کو

بے قید رہائی؟

٭٭٭

 

 

 

ایک نظم

 

قابل ذکر ہے۔

اے پیارے لوگو!

تم دور کیوں ہو؟

کچھ پاس آؤ

آؤ کہ پل میں

یہ سب ستارے

تاریکیوں کے

اس پار ہوں گے

اے پیارے لوگو!

میں تم سے مل کر

بہتر بنوں گا،

ایسے اکیلے

یوں روتے روتے

آنسو بہیں گے

اور کچھ نہ ہوگا

تم پاس آؤ

پھر دیکھ لیں گے

دنیا ہے کیا کچھ

اور دین کیا ہے،

پھر جان لیں گے

ہر سانس کیسے

آنکھیں جھپکتے

ان مٹ بنا تھا

لیکن محبت

یہ کہہ رہی ہے

ہم دور ہی دور

اور دور ہی دور

چلتے رہیں گے

٭٭٭

 

 

 

ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا، بیٹھ اکیلے رونا ہوگا

چپکے چپکے بہا کر آنسو، دل کے دکھ کو دھونا ہوگا

 

بیرن ریت بڑی دنیا کی، آنکھ سے ٹپکا جو بھی موتی

پلکوں ہی سے اٹھانا ہوگا، پلکوں ہی سے پرونا ہوگا

 

پیاروں سے مل جائیں پیارے، انہونی کب ہونی ہوگی

کانٹے پھول بنیں گے کیسے، کب سکھ سیج بچھونا ہوگا

 

بہتے بہتے کام نہ آئے لاکھوں بھنور طوفانی ساگر

اب منجدھار میں اپنے ہاتھوں جیون ناؤ ڈبونا ہوگا

 

میرا جی کیوں سوچ ستائے، پلک پلک ڈوری لہرائے

قسمت جو بھی رنگ دکھائے، اپنے دل میں سمونا ہوگا

٭٭٭

 

 

 

نہیں سنتا دلِ ناشاد میری

ہوئی ہے زندگی برباد میری

 

رہائی کی اُمیدیں مجھ کو معلوم

تسّلی کر نہ اے صیّاد میری

 

نہیں ہے بزم میں ان کی رسائی

یہ کیا فریاد ہے فریاد میری

 

میں تم سے عرض کرتا ہوں بہ صد شوق

سنو گر سن سکو روداد میری

 

مجھے ہر لمحہ آئے یاد تیری

کبھی آئی تجھے بھی یاد میری

٭٭٭

 

 

کیفِ حیات

 

نرم اور نازک، تند اور تیز،

میٹھا میٹھا درد مِرے دل میں جاگا

میرا ہے، میرا ہے جھُولا خوشیوں کا

مست، منوہر، میٹھا میٹھا درد مِرے دل میں جاگا!

جھُول رہی ہوں، جھُول رہی ہوں سندر جھُولا خوشیوں کا!

نرم بہاؤ تند اور تیز،

پیارے گھاؤ جنوں انگیز،

میٹھا میٹھا درد مِرے دل میں جاگا!

جیون کی ندی رُک جائے،

رُک جائے تو رُک جائے،

رُک جائے تو رُک جائے،

صرف مرے احساس کی ناؤ چلتی جائے، نرم اور تیز!

گرم لہو رگ رگ میں مچلتا،

ساتھ ہے سپنوں کے پیتم کا،

خوشیوں کا جھُولا ہے میرا،

جھُول رہی ہوں، جھُول رہی ہوں، نرم بہاؤ، نرم اور تیز!

جیون کی ندی رُک جائے، رُک جائے جیون کا راگ،

رُک جائے تو رُک جائے،

رُک جائے تو رُک جائے،

رُک جائے تو رُک جائے،

میٹھا میٹھا درد مرے دل میں جاگا،

جھُول رہی ہوں، جھُول….

٭٭٭

 

 

 

رسیلے جرائم کی خوشبو

 

رسیلے جرائم کی خوشبو

مِرے ذہن میں آ رہی ہے!

رسیلے جرائم کی خوشبو

مجھے حدّ ِ احساس سے دُور لے جا رہی ہے!

جوانی کا خُوں ہے

بہاریں ہے موسم زمیں پر!

پسند آج مجھ کو جنوں ہے

نگاہوں میں ہے میری نشے کی اُلجھن

کہ چھایا ہے ترغیب کا پیرہن آج ہر اک حسیں پر؟

رسیلے جرائم کی خوشبو مجھے آج للچا رہی ہے!

قوانینِ اخلاق کے سارے بندھن شکستہ نظر آ رہے ہیں

حسیں اور ممنوع جھُرمٹ مِرے دل کو پھُسلا رہے ہیں

یہ ملبوس ریشم کے اور اِن کی لرزش،

یہ غازہ، یہ انجن

نسائی فسوں کی ہر اک موہنی آج کرتی ہے سازش!

مِرے دل کو بہکا رہی ہے!

مِرے ذہن میں آ رہی ہے

رسیلے جرائم کی خوشبو!

٭٭٭

 

 

 

یگانگت

 

زمانے میں کوئی بُرائی نہیں ہے

فقط اک تسلسل کا جھُولا رواں ہے

یہ میں کہہ رہا ہوں

میں کوئی بُرائی نہیں ہوں، زمانہ نہیں ہوں، تسلسل کا جھولا نہیں ہوں

مجھے کیا خبر کیا برائی میں ہے، کیا زمانے میں ہے، اور پھر میں تو یہ بھی کہوں گا

کہ جو شے اکیلی رہے، اس کی منزل فنا ہی فنا ہے،

بُرائی، بھلائی، زمانہ، تسلسل…. یہ باتیں بقا کے گھرانے سے آئی ہوئی ہیں

مجھے تو کسی بھی گھرانے سے کوئی تعلق نہیں ہے

میں ہوں ایک، اور میں اکیلا ہوں، ایک اجنبی ہوں،

یہ بستی، یہ جنگل، یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا

یہ پربت، اچانک نگاہوں میں آتی ہوئی، کوئی اونچی عمارت،

یہ اُجڑے ہوئے مقبرے اور مرگِ مسلسل کی صورت مجاور،

یہ ہنستے ہوئے ننھّے بچّے، یہ گاڑی سے ٹکرا کے مرتا ہوا ایک اندھا مسافر،

ہوائیں، نباتات اور آسماں پر ادھر سے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل

یہ کیا ہیں؟

یہی تو زمانہ ہے، یہ اک تسلسل کا جھولا رواں ہے

یہ میں کہہ رہا ہوں

یہ بستی، یہ جنگل، یہ رستے، یہ دریا، یہ پربت، عمارت، مجاور، مسافر،

ہوائیں، نباتات اور آسماں پر ادھر سے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل،

یہ سب کچھ، یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے،

زمانہ ہوں میں، میرے ہی دم سے ان مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے،

مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے

یہ کیسے کہوں میں

کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں

٭٭٭

 

 

 

گیت

 

رستہ وہی دکھائے

مسافر

رستہ وہی دکھائے

 

راہ نہ پائے تو گھبرائے

دھیان میں کوئی بات نہ آئے

ڈوبے کو دے کون سہارا

بولو کون بچائے

مسافر

رستہ وہی دکھائے

 

جب قسمت نے ڈالا پھندا

کر لے جو بھی چاہے دھندا

دائیں جائے بائیں جائے

پھر بھی راہ نہ پائے

مسافر

رستہ وہی دکھائے

 

گھر سے نکلے جھولے بھر لے

جو چاہے سامان تو کر لے

چنچل قسمت چھیل چھبیلی

ایک بھی کام نہ آئے

مسافر

رستہ وہی دکھائے

٭٭٭

 

ماخذ:

http://poetmeeraji.blogspot.com/

http://pakistanica.com/writers/meera-ji/

وغیرہ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید