فہرست مضامین
- نیند اک ریت کی دیوار
- ساقی فاروقی
- جمع و ترتیب اور پیشکش: اعجاز عبید
- ابھی نظر میں ٹھہر دھیان سے اتر کے نہ جا
- اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے
- ایک دن ذہن میں آسیب پھرے گا ایسا
- بدن چراتے ہوئے روح میں سمایا کر
- پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا
- تجھے خبر ہے تجھے یاد کیوں نہیں کرتے
- حملہ آور کوئی عقب سے ہے
- خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا
- خاک نیند آئے اگر دیدۂ بیدار ملے
- خواب کو دن کی شکستوں کا مداوا نہ سمجھ
- درد کے عتاب لے دوست اسے شمار کر
- رات اپنے خواب کی قیمت کا اندازہ ہوا
- رات نادیدہ بلاؤں کے اثر میں ہم تھے
- ریت کی صورت جاں پیاسی تھی آنکھ ہماری نم نہ ہوئی
- زمانوں کے خرابوں میں اتر کر دیکھ لیتا ہوں
- زندہ رہنے کے تذکرے ہیں بہت
- سب کچھ نہ کہیں سوگ منانے میں چلا جائے
- سرخ چمن زنجیر کیے ہیں سبز سمندر لایا ہوں
- سفر کی دھوپ میں چہرے سنہرے کر لیے ہم نے
- سوچ میں ڈوبا ہوا ہوں عکس اپنا دیکھ کر
- شہر کا شہر ہوا جان کا پیاسا کیسا
- رنج یہ ہے اسے آیا نہ سلیقہ اپنا
- لوگ تھے جن کی آنکھوں میں اندیشہ کوئی نہ تھا
- مجھ کو مری شکست کی دوہری سزا ملی
- مرا اکیلا خدا یاد آ رہا ہے مجھے
- موت نے پردا کرتے کرتے پردا چھوڑ دیا
- مٹی تھی خفا موج اٹھا لے گئی ہم کو
- میں ایک رات محبت کے سائبان میں تھا
- میں تیرے ظلم دکھاتا ہوں اپنا ماتم کرنے کے لیے
- بنجر پڑا ہوا ہوں کوئی دیکھتا نہیں
- میں وہی دشت ہمیشہ کا ترسنے والا
- میں کسی جواز کے حصار میں نہ تھا
- میں کھل نہیں سکا کہ مجھے نم نہیں ملا
- وحشت دیواروں میں چنوا رکھی ہے
- وقت ابھی پیدا نہ ہوا تھا تم بھی راز میں تھے
- وہ آگ ہوں کہ نہیں چین ایک آن مجھے
- وہ دکھ جو سوئے ہوئے ہیں انہیں جگا دوں گا
- وہ سخی ہے تو کسی روز بلا کر لے جائے
- وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مرجائیں گے اک دن
- وہی آنکھوں میں اور آنکھوں سے پوشیدہ بھی رہتا ہے
- ہراس پھیل گیا ہے زمین دانوں میں
- ہیں سحر مصور میں قیامت نہیں کرتے
- یوں مرے پاس سے ہو کر نہ گزر جانا تھا
- یہ کس نے بھرم اپنی زمیں کا نہیں رکھا
- یہ کون آیا شبستاں کے خواب پہنے ہوئے
- یہیں کہیں پہ کبھی شعلہ کار میں بھی تھا
- وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مر جائیں گے اک دن
- درد پرانا آنسو مانگے۔ آنسو کہاں سے لاؤں
- اک رات ہم ایسے ملیں جب دھیان میں سائے نہ ہوں
- باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں
- جو تیرے دل میں ہے وہ بات میرے دھیان میں ہے
- جمع و ترتیب اور پیشکش: اعجاز عبید
- مستانہ ہیجڑا
- اے دل پہلے بھی ہم تنہا تھے
نیند اک ریت کی دیوار
غزلیں
ساقی فاروقی
جمع و ترتیب اور پیشکش: اعجاز عبید
ابھی نظر میں ٹھہر دھیان سے اتر کے نہ جا
اس ایک آن میں سب کچھ تباہ کر کے نہ جا
مجھے حجاب نہیں بوسۂ جدائی سے
مگر لبوں کے پیالے میں پیاس بھر کے نہ جا
مرے خیال میں تیرا کوئی جواز نہیں
خدا کی طرح مری ذات میں بکھر کے نہ جا
سنبھال اپنی نگاہوں میں واپسی کے خیال
مرے جواب کے پندار سے گزر کے نہ جا
ہر ایک راستہ دیوار بن کے حائل ہے
نہ جا کہ دشت نئے سلسلے ہیں گھر کے نہ جا
٭٭٭
اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے
یہ بات کسی اور سے کہہ بھی نہیں سکتے
تو اپنے گہن میں ہے تو میں اپنے گہن میں
دو چاند ہیں اک ابر میں گہہ بھی نہیں سکتے
ہم جسم ہیں اور دونوں کی بنیادیں امر ہیں
اب کیسے بچھڑ جائیں کہ ڈھہہ بھی نہیں سکتے
دریا ہوں کسی روز معاون کی طرح مل
یہ کیا کہ ہم اک لہر میں بہہ بھی نہیں سکتے
خواب آئیں کہاں سے اگر آنکھیں ہوں پرانی
اور صبح تک اس خوف میں رہ بھی نہیں سکتے
٭٭٭
ایک دن ذہن میں آسیب پھرے گا ایسا
یہ سمن زار نظر آئے گا صحرا ایسا
میں نے کیا رنج دیے اشک نہ لوٹائے مجھے
اے مرے دل کوئی بے فیض نہ دیکھا ایسا
ایک مدت سے کوئی لہر نہ اٹھی مجھ میں
میری آنکھوں سے چھپا چاند کا چہرہ ایسا
رات کہتی ہے ملاقات نہ ہو گی اپنی
تو کوئی خواب نہ میں نیند کا ماتا ایسا
جسم کی سطح پہ کاغذ کی طرح زندہ ہیں
تو سمندر ہے نہ میں ڈوبنے والا ایسا
چہرے چہرے پہ اجالے کی سخاوت ایسی
اور مری روح میں نادار اندھیرا ایسا
ہر نئے درد کی پوشاک پہن لی میں نے
جاں مہذب نہ ہوئی میں تھا برہنہ ایسا
٭٭٭
بدن چراتے ہوئے روح میں سمایا کر
میں اپنی دھوپ میں سویا ہوا ہوں سایہ کر
یہ اور بات کہ دل میں گھنا اندھیرا ہے
مگر زبان سے تو چاندنی لٹایا کر
چھپا ہوا ہے تری عاجزی کے ترکش میں
انا کے تیر اسی زہر میں بجھایا کر
کوئی سبیل کہ پیاسے پناہ مانگتے ہیں
سفر کی راہ میں پرچھائیاں بچھایا کر
خدا کے واسطے موقع نہ دے شکایت کا
کہ دوستی کی طرح دشمنی نبھایا کر
عجب ہوا کہ گرہ پڑ گئی محبت میں
جو ہو سکے تو جدائی میں راس آیا کر
نئے چراغ جلا یاد کے خرابے میں
وطن میں رات سہی روشنی منایا کر
٭٭٭
پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا
یہ وہی جسم کا آہن ہے کہ مٹی نکلا
میرے ہمراہ وہی تہمت آزادی ہے
میرا ہر عہد وہی عہد اسیری نکلا
ایک چہرہ تھا کہ اب یاد نہیں آتا ہے
ایک لمحہ تھا وہی جان کا بیری نکلا
ایک مات ایسی ہے جو ساتھ چلی آتی ہے
ورنہ ہر چال سے جیتے ہوئے بازی نکلا
موج کی طرح بہادرد کے دریاؤں میں
اس طرح زندہ بچا کون مگر جی نکلا
میں عجب دیکھنے والا ہوں کہ اندھا کہلاؤں
وہ عجب خاک کا پتلا ہے کہ نوری نکلا
جان پیاری تھی مگر جان سے بے زاری تھی
جان کا کام فقط جان تراشی نکلا
خاک میں اس کی جدائی میں پریشان پھروں
جب کہ یہ ملنا بچھڑنا مری مرضی نکلا
صرف رونا ہے کہ جینا پڑا ہلکا بن کے
وہ تو احساس کی میزان پہ بھاری نکلا
اک نئے نام سے پھر اپنے ستارے الجھے
یہ نیا کھیل نئے خواب کا بانی نکلا
وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے
جسم کی پیاس بجھانے پہ بھی راضی نکلا
میری بجھتی ہوئی آنکھوں سے کرن چنتا ہے
میری آنکھوں کا کھنڈر شہر معانی نکلا
میری عیار نگاہوں سے وفا مانگتا ہے
وہ بھی محتاج ملا وہ بھی سوالی نکلا
میں اسے ڈھونڈ رہا تھا کہ تلاش اپنی تھی
اک چمکتا ہوا جذبہ تھا کہ جعلی نکلا
میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں
اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا
اک نئی دھوپ میں پھراپنا سفر جاری ہے
وہ گھنا سایہ فقط طفل تسلی نکلا
میں بہت تیز چلا اپنی تباہی کی طرف
اس کے چھٹنے کا سبب نرم خرامی نکلا
روح کا دشت وہی جسم کا ویرانہ ہے
ہر نیا راز پرانا لگا باسی نکلا
صرف حشمت کی طلب جاہ کی خواہش پائی
دل کو بے داغ سمجھتا تھا جزامی نکلا
اک بلا آتی ہے اور لوگ چلے جاتے ہیں
اک صدا کہتی ہے ہر آدمی فانی نکلا
میں وہ مردہ ہوں کہ آنکھیں مری زندوں جیسی
بین کرتا ہوں کہ میں اپنا ہی ثانی نکلا
٭٭٭
تجھے خبر ہے تجھے یاد کیوں نہیں کرتے
خدا پہ ناز خدا زاد کیوں نہیں کرتے
عجب کہ صبر کی میعاد بڑھتی جاتی ہے
یہ کون لوگ ہیں فریاد کیوں نہیں کرتے
رگوں میں خون کے مانند ہے سکوت کا زہر
کوئی مکالمہ ایجاد کیوں نہیں کرتے
مرے سخن سے خفا ہیں تو ایک روز مجھے
کسی طلسم سے برباد کیوں نہیں کرتے
یہ حادثہ ہے کہ شعلے میں جان ہے میری
مجھے چراغ سے آزاد کیوں نہیں کرتے
٭٭٭
حملہ آور کوئی عقب سے ہے
یہ تعاقب میں کون کب سے ہے
شہر میں خواب کا رواج نہیں
نیند کی ساز باز سب سے ہے
لوگ لمحوں میں زندہ رہتے ہیں
وقت اکیلا اسی سبب سے ہے
ہم خیالوں کے مشربوں کا زوال
خوف سے جبر سے طلب سے ہے
شعلہ باروں کے خاندان سے ہوں
روح میں روشنی نسب سے ہے
٭٭٭
خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا
ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا
یہ جدائی ہے کہ نسیاں کا جہنم کوئی
راکھ ہو جائے نہ یادوں کا ذخیرہ اپنا
ان ہواؤں میں یہ سسکی کی صدا کیسی ہے
بین کرتا ہے کوئی درد پرانا اپنا
آگ کی طرح رہے آگ سے منسوب رہے
جب اسے چھوڑ دیا خاک تھا شعلہ اپنا
ہم اسے بھول گئے تو بھی نہ پوچھا اس نے
ہم سے کافر سے بھی جزیہ نہیں مانگا اپنا
یہ نیا دکھ کہ محبت سے ہوئے ہیں سیراب
پیاس کے بوجھ سے ڈوبا نہ سفینہ اپنا
٭٭٭
خاک نیند آئے اگر دیدۂ بیدار ملے
اس خرابے میں کہاں خواب کے آثار ملے
اس کے لہجے میں قیامت کی فسوں کاری تھی
لوگ آواز کی لذت میں گرفتار ملے
اس کی آنکھوں میں محبت کے دیے جلتے رہیں
اور پندار میں انکار کی دیوار ملے
میرے اندر اسے کھونے کی تمنا کیوں ہے
جس کے ملنے سے مری ذات کو اظہار ملے
روح میں رینگتی رہتی ہے گنہ کی خواہش
اس امر بیل کو اک دن کوئی دیوار ملے
٭٭٭
خواب کو دن کی شکستوں کا مداوا نہ سمجھ
نیند پر تکیہ نہ کر شب کو مسیحا نہ سمجھ
ہجر کے شہر میں گلزار کہاں ملتے ہیں
صبح کو دشت سمجھ شام کو ویرانہ سمجھ
میں کہیں اور کا ٹوٹا ہوا تارا ہوں کوئی
تو مجھے یوں ہی ستاروں سے الجھتا نہ سمجھ
مجھ پہ کھل جا کہ مرے دل میں کوئی پیچ پڑے
اپنی تنہائی کے اسرار زلیخانہ سمجھ
راستہ دے کہ محبت میں بدن شامل ہے
میں فقط روح نہیں ہوں مجھے ہلکا نہ سمجھ
٭٭٭
دامن میں آنسوؤں کا ذخیرہ نہ کر ابھی
یہ صبر کا مقام ہے گریہ نہ کر ابھی
جس کی سخاوتوں کی زمانے میں دھوم ہے
وہ ہاتھ سو گیا ہے تقاضا نہ کر ابھی
نظریں جلا کے دیکھ مناظر کی آگ میں
اسرار کائنات سے پردا نہ کر ابھی
یہ خامشی کا زہر نسوں میں اتر نہ جائے
آواز کی شکست گوارا نہ کر ابھی
دنیا پہ اپنے علم کی پرچھائیاں نہ ڈال
اے روشنی فروش اندھیرا نہ کر ابھی
٭٭٭
درد کے عتاب لے دوست اسے شمار کر
خون کا حساب دے زخم اختیار کر
دھوپ بیچتا ہوں میں دن میں آ گیا ہوں میں
چاند کے سواد میں ایک شب گزار کر
یاد سے رہا نہ ہو رات سے جدا نہ ہو
نیند سے خفا نہ ہو خواب انتظار کر
چاندنی مدام ہو روشنی تمام ہو
وصل میں قیام ہو ہجر میں دیار کر
آج روح اور دل ایک ظلم سے خجل
یار آدمی سے مل سرحدیں اتار کر
٭٭٭
رات اپنے خواب کی قیمت کا اندازہ ہوا
یہ ستارہ نیند کی تہذیب سے پیدا ہوا
ذہن کی زرخیز مٹی سے نئے چہرے اگے
جو مری یادوں میں زندہ ہے سراسیمہ ہوا
میری آنکھوں میں انوکھے جرم کی تجویز تھی
صرف دیکھا تھا اسے اس کا بدن میلا ہوا
وہ کوئی خوشبو ہے میری سانس میں بہتی ہوئی
میں کوئی آنسو ہوں اس کی روح میں گرتا ہوا
اس کے ملنے اور بچھڑ جانے کا منظر ایک ہے
کون اتنے فاصلوں میں بے حجاب ایسا ہوا
٭٭٭
رات نادیدہ بلاؤں کے اثر میں ہم تھے
خوف سے سہمے ہوئے سوگ نگر میں ہم تھے
پاؤں سے لپٹی ہوئی چیزوں کی زنجیریں تھیں
اور مجرم کی طرح اپنے ہی گھر میں ہم تھے
وہ کسی رات ادھر سے بھی گزرجائے گا
خواب میں راہ گزر راہ گزر میں ہم تھے
ایک لمحے کے جزیرے میں قیام ایسا تھا
جیسے انجانے زمانوں کے سفر میں تھے
ڈوب جانے کا سلیقہ نہیں آیا ورنہ
دل میں گرداب تھے لہروں کی نظر میں ہم تھے
٭٭٭
ریت کی صورت جاں پیاسی تھی آنکھ ہماری نم نہ ہوئی
تیری درد گساری سے بھی روح کی الجھن کم نہ ہوئی
شاخ سے ٹوٹ کے بے حرمت ہیں ویسے بھی بے حرمت تھے
ہم گرتے پتوں پہ ملامت کب موسم موسم نہ ہوئی
ناگ پھنی سا شعلہ ہے جو آنکھوں میں لہراتا ہے
رات کبھی ہمدم نہ بنی اور نیند کبھی مرہم نہ ہوئی
اب یادوں کی دھوپ چھاؤں میں پرچھائیں سا پھرتا ہوں
میں نے بچھڑ کر دیکھ لیا ہے دنیا نرم قدم نہ ہوئی
میری صحرا زاد محبت ابر سیہ کو ڈھونڈتی ہے
ایک جنم کی پیاسی تھی اک بوند سے تازہ دم نہ ہوئی
٭٭٭
زمانوں کے خرابوں میں اتر کر دیکھ لیتا ہوں
پرانے جنگلوں میں بھی سمندر دیکھ لیتا ہوں
جو طوفانوں کے ڈر سے پانیوں میں سر چھپاتی ہیں
میں ایسی سیپیوں میں کوئی گوہر دیکھ لیتا ہوں
ہمیشہ خوف کے نرغے میں رہتا ہوں مگر پھر بھی
ابابیلوں کی منقاروں میں لشکر دیکھ لیتا ہوں
وہ دیہاتوں کے رستے ہوں کہ ہوں فٹ پاتھ شہروں کے
جہاں پر رات پڑ جائے وہاں گھر دیکھ لیتا ہوں
بہت سی خواہشوں کو میں پنپنے ہی نہیں دیتا
مگر ان کی نگاہوں میں سویمبر دیکھ لیتا ہوں
٭٭٭
زندہ رہنے کے تذکرے ہیں بہت
مرنے والوں میں جی اٹھے ہیں بہت
ان کی آنکھوں میں خوں اتر آیا
قیدیوں پر ستم ہوئے ہیں بہت
اس کے وارث نظر نہیں آتے
شاید اس لاش کے پتے ہیں بہت
جاگتے ہیں تو پاؤں میں زنجیر
ورنہ ہم نیند میں چلے ہیں بہت
جن کے سائے میں رات گزری ہے
ان ستاروں نے دکھ دیے ہیں بہت
تجھ سے ملنے کا راستہ بس ایک
اور بچھڑنے کے راستے ہیں بہت
٭٭٭
سب کچھ نہ کہیں سوگ منانے میں چلا جائے
جی میں ہے کسی اور زمانے میں چلا جائے
میں جس کے طلسمات سے باہر نہیں نکلا
اک روز اسی آئنہ خانے میں چلا جائے
جو میرے لیے آج صداقت کی طرح ہے
وہ خواب نہ گم ہوکے فسانے میں چلا جائے
سہما ہوا آنسو کہ سسکتا ہے پلک پر
اب ٹوٹ کے دامن کے خزانے میں چلا جائے
اک عمر کے بعد آیا ہے جینے کا سلیقہ
دکھ ہو گا اگر جان بچانے میں چلا جائے
٭٭٭
سرخ چمن زنجیر کیے ہیں سبز سمندر لایا ہوں
میں تو دنیا بھر کے منظر آنکھوں میں بھر لایا ہوں
جنگل تھے اور لوگ پرانے سوگ پہن کر سوتے تھے
ایک انوکھے خواب سے اپنی جان چھڑا کر لایا ہوں
میں اتنا محتاج نہیں ہوں تو اتنا مایوس نہ ہو
آج برہنہ چشم نہیں اشکوں کی چادر لایا ہوں
صرف نشاط انگیز فضا میں لہجے کی تہذیب ہوئی
دیکھ اپنے نوحوں کے علم نغموں کے برابر لایا ہوں
ساقی یادوں کی فصدوں سے جیتا جیتا خون بہے
میں رنگوں کی فصلیں کاٹ کے آپ اپنے گھر لایا ہوں
٭٭٭
سفر کی دھوپ میں چہرے سنہرے کر لیے ہم نے
وہ اندیشے تھے رنگ آنکھوں کے گہرے کر لیے ہم نے
خدا کی طرح شاید قید ہیں اپنی صداقت میں
اب اپنے گرد افسانوں کے پہرے کر لیے ہم نے
زمانہ پیچ اندر پیچ تھا ہم لوگ وحشی تھے
خیال آزار تھے لہجے اکہرے کر لیے ہم نے
مگر ان سیپیوں میں پانیوں کا شور کیسا تھا
سمندر سنتے سنتے کان بہرے کر لیے ہم نے
وہی جینے کی آزادی وہی مرنے کی جلدی ہے
دوالی دیکھ لی ہم نے دسہرے کر لیے ہم نے
٭٭٭
سوچ میں ڈوبا ہوا ہوں عکس اپنا دیکھ کر
جی لرز اٹھا تری آنکھوں میں صحرا دیکھ کر
پیاس بڑھتی جا رہی ہے بہتا دریا دیکھ کر
بھاگتی جاتی ہیں لہریں یہ تماشا دیکھ کر
ایک دن آنکھوں میں بڑھ جائے گی ویرانی بہت
ایک دن راتیں ڈرائیں گی اکیلا دیکھ کر
ایک دنیا ایک سائے پر ترس کھاتی ہوئی
لوٹ کر آیا ہوں میں اپنا تماشا دیکھ کر
عمر بھر کانٹوں میں دامن کون الجھاتا پھرے
اپنے ویرانے میں آبیٹھا ہوں دنیا دیکھ کر
٭٭٭
شہر کا شہر ہوا جان کا پیاسا کیسا
سانس لیتا ہے مرے سامنے صحرا کیسا
مرے احساس میں یہ آگ بھری ہے کس نے
رقص کرتا ہے مری روح میں شعلہ کیسا
تیری پرچھائیں ہوں نادان جدائی کیسی
میری آنکھوں میں پھرا خوف کا سایہ کیسا
اپنی آنکھوں پہ تجھے اتنا بھروسہ کیوں ہے
تیرے بیمار چلے تو ہے مسیحا کیسا
یہ نہیں یاد کہ پہچان ہماری کیا ہے
اک تماشے کے لیے سوانگ رچایا کیسا
مت پھری تھی کہ حریفانہ چلے دنیا سے
سوچتے خاک کہ مواج ہے دریا کیسا
صبح تک رات کی زنجیر پگھل جائے گی
لوگ پاگل ہیں ستاروں سے الجھنا کیسا
دل ہی عیار ہے بے وجہ دھڑک اٹھتا ہے
ورنہ افسردہ ہواؤں میں بلاوا کیسا
آج خاموش ہیں ہنگامہ اٹھانے والے
ہم نہیں ہیں تو کراچی ہوا تنہا کیسا
٭٭٭
عمر انکار کی دیوار سے سر پھوڑتی ہے
رنج یہ ہے اسے آیا نہ سلیقہ اپنا
ایک دن رات کے اسرار کھلیں گے ہم پر
شک کی بوچھار سے چھلنی ہوا سینہ اپنا
خرد بینوں سے کئی داغ چھپائے اپنے
غم گساروں نے کوئی بھید نہ پایا اپنا
اپنی کھوئی ہوئی آواز رسائی مانگے
جاں سے الجھا ہے کوئی نغمہ رسیلا اپنا
نیند وہ ریت کی دیوار کہ مسمار ہوئی
اپنی آنکھوں میں چھپا رکھا ہے صحرا اپنا
زندگی ایک گزرتی ہوئی پرچھائیں ہے
آئنہ دیکھتا رہتا ہے تماشا اپنا
برگ آواز کے مانند اڑیں گے یہ پہاڑ
غرق ہو جائے گا پانی میں جزیرہ اپنا
خواب دیکھا تھا کہ ہم ہوں گے بچھڑنے والے
منہدم ہو گئے پر خواب نہ ٹوٹا اپنا
چاند کی طرح کئی داغ ہیں پیشانی پر
موت کے سامنے مہتاب ہے چہرا اپنا
٭٭٭
لوگ تھے جن کی آنکھوں میں اندیشہ کوئی نہ تھا
میں جس شہر سے گزرا اس میں زندہ کوئی نہ تھا
چیزوں کے انبار لگے تھے خلق آرام سے تھی
اور مجھے یہ رنج وہاں افسردہ کوئی نہ تھا
حیرانی میں ہوں آخر کس کی پرچھائیں ہوں
وہ بھی دھیان میں آیا جس کا سایہ کوئی نہ تھا
چونک پڑا جب یادوں میں اس کی آواز سنی
بس اپنی ہی گونج تھی مجھ میں ورنہ کوئی نہ تھا
میں جس خوف میں تھا اس میں کچھ اور بھی قیدی تھے
میں جس خواب میں تھا اس میں دروازہ کوئی نہ تھا
٭٭٭
مجھ کو مری شکست کی دوہری سزا ملی
تجھ سے بچھڑ کے زندگی دنیا سے جا ملی
اک قلزم حیات کی جانب چلی تھی عمر
اک دن یہ جوئے تشنگی صحرا سے آ ملی
یہ کیسی بے حسی ہے کہ پتھر ہوئی ہے آنکھ
ویسے تو آنسوؤں کی کمک بارہا ملی
میں کانپ اٹھا تھا خود کو وفادار دیکھ کر
موج وفا کے پاس ہی موج فنا ملی
دیوار ہجر پر تھے بہت صاحبوں کے نام
یہ بستی فراق بھی شہرت سرا ملی
پھر رود بے وفائی میں بہتا رہا یہ جسم
یہ رنج ہے کہ تیری طرف سے دعا ملی
وہ کون خوش نصیب تھے جو مطمئن پھرے
مجھ کو تو اس نگاہ سے عسرت سوا ملی
یہ عمر عمر کوئی تعاقب میں کیوں رہے
یادوں میں گونجتی ہوئی کس کی صدا ملی
جس کی ہوس کے واسطے دنیا ہوئی عزیز
واپس ہوئے تو اس کی محبت خفا ملی
٭٭٭
مرا اکیلا خدا یاد آ رہا ہے مجھے
یہ سوچتا ہوا گرجا بلا رہا ہے مجھے
مجھے خبر ہے کہ اک مشت خاک ہوں پھر بھی
تو کیا سمجھ کے ہوا میں اڑا رہا ہے مجھے
یہ کیا طلسم ہے کیوں رات بھر سسکتا ہوں
وہ کون ہے جو دیوں میں جلا رہا ہے مجھے
اسی کا دھیان ہے اور پیاس بڑھتی جاتی ہے
وہ اک سراب کہ صحرا بنا رہا ہے مجھے
میں آنسوؤں میں نہایا ہوا کھڑا ہوں ابھی
جنم جنم کا اندھیرا بلا رہا ہے مجھے
٭٭٭
موت نے پردا کرتے کرتے پردا چھوڑ دیا
میرے اندر آج کسی نے جینا چھوڑ دیا
خوف کہ رستہ بھول گئی امید کی اجلی دھوپ
اس لڑکی نے بالکنی پر آنا چھوڑ دیا
روز شکایت لے کر تیری یاد آ جاتی ہے
جس کا دامن آہستہ آہستہ چھوڑ دیا
دنیا کی بے راہ روی کے افسانے لکھے
اور اپنی دنیا داری کا قصہ چھوڑ دیا
بس تتلی کا کچا کچا رنگ آنکھوں میں ہے
زندہ رہنے کی خواہش نے پیچھا چھوڑ دیا
٭٭٭
مٹی تھی خفا موج اٹھا لے گئی ہم کو
گرداب میں ساحل کی بلا لے گئی ہم کو
ہم کب سے لپکتے ہوئے شعلوں میں کھڑے ہیں
اس آگ میں اک گل کی ہوا لے گئی ہم کو
اک سرو کی خوش قامتی آنکھوں میں بسی تھی
جو ذلت دنیا سے بچا لے گئی ہم کو
سائے کے تعاقب میں گنوائی ہے مگر عمر
ہر سمت وہی ایک صدا لے گئی ہم کو
تو جان محبت ہے مگر تیری طرف بھی
اک خواہش تشہیر وفا لے گئی ہم کو
٭٭٭
میں ایک رات محبت کے سائبان میں تھا
مرا تمام بدن روح کی کمان میں تھا
دھنک جلی تھی فضا خون سے منور تھی
مرے مزاج کا اک رنگ آسمان میں تھا
جو سوچتا ہوں اسے دل میں پھول کھلتے ہیں
وہ خوش نگاہ نہیں تھا تو کون دھیان میں تھا
یہ حادثہ ہے کہ دونوں خزاں سرشت ہوئے
مگر بہار کا اک عہد درمیان میں تھا
مجھے عزیز رہی دشمنی کی تلخی بھی
اس ایک زہر سے کیا ذائقہ زبان میں تھا
٭٭٭
میں تیرے ظلم دکھاتا ہوں اپنا ماتم کرنے کے لیے
مری آنکھوں میں آئے تری آنکھیں نم کرنے کے لیے
مٹی سے ہوا منسوب مگر آتش خانہ سا جلتا ہوں
کئی سورج مجھ میں ڈوب گئے مرا سایہ کم کرنے کے لیے
وہ یاد کے ساحل پر سارے موتی بکھرائے بیٹھی تھی
اک لہر لہو میں اٹھی تھی مجھے تازہ دم کرنے کے لیے
آج اپنے زہر سے کاٹ دیا سب زنگ پرانے لفظوں کا
آئندہ کے اندیشوں کی تاریخ رقم کرنے کے لیے
ممکن ہے کہ اب بھی ہونٹوں پر کوئی بھولا بسرا شعلہ ہو
میں جلتے جلتے راکھ ہوا لہجہ مدھم کرنے کے لیے
٭٭٭
میں وہ ہوں جس پہ ابر کا سایہ نہیں پڑا
بنجر پڑا ہوا ہوں کوئی دیکھتا نہیں
میں تو خدا کے ساتھ وفادار بھی رہا
یہ ذات کا طلسم مگر ٹوٹتا نہیں
یوں ٹوٹتا ضرور بکھرتا ضرور ہوں
میں چاک پیرہن نہیں خونیں قبا نہیں
میں نے الجھ کے دیکھ لیا اپنی گونج سے
اب کیا صدا لگاؤں کوئی جاگتا نہیں
حد بندئی خزاں سے حصار بہار تک
جاں رقص کر سکے تو کوئی فاصلہ نہیں
٭٭٭
میں وہی دشت ہمیشہ کا ترسنے والا
تو مگر کون سا بادل ہے برسنے والا
سنگ بن جانے کے آداب سکھائے میں نے
دل عجب غنچۂ نورس تھا بکسنے والا
حسن وہ ٹوٹتا نشہ کہ محبت مانگے
خون روتا ہے مرے حال پہ ہنسنے والا
رنج یہ ہے کہ ہنر مند بہت ہیں ہم بھی
ورنہ وہ شعلۂ عصیاں تھا جھلسنے والا
وہ خدا ہے تو مری روح میں اقرار کرے
کیوں پریشان کرے دور کا بسنے والا
٭٭٭
میں کسی جواز کے حصار میں نہ تھا
میرا شوق میرے اختیار میں نہ تھا
دور نئی طاقتوں نے جنگ لڑی تھی
خوف ابھی روح کے جوار میں نہ تھا
صرف مری ذات سوگوار کھڑی تھی
اور کوئی نیند کے غبار میں نہ تھا
لہر کے قریب مری پیاس پڑی تھی
ابر کوئی شام کے دیار میں نہ تھا
یاد تری تھی کہ مرے دل میں گڑی تھی
درد مرا تھا کسی شمار میں نہ تھا
٭٭٭
میں کھل نہیں سکا کہ مجھے نم نہیں ملا
ساقی مرے مزاج کا موسم نہیں ملا
مجھ میں بسی ہوئی تھی کسی اور کی مہک
دل بجھ گیا کہ رات وہ برہم نہیں ملا
بس اپنے سامنے ذرا آنکھیں جھکی رہیں
ورنہ مری انا میں کہیں خم نہیں ملا
اس سے طرح طرح کی شکایت رہی مگر
میری طرف سے رنج اسے کم نہیں ملا
ایک ایک کر کے لوگ بچھڑتے چلے گئے
یہ کیا ہوا کہ وقفۂ ماتم نہیں ملا
٭٭٭
وحشت دیواروں میں چنوا رکھی ہے
میں نے گھر میں وسعت صحرا رکھی ہے
مجھ میں سات سمندر شور مچاتے ہیں
ایک خیال نے دہشت پھیلا رکھی ہے
روز آنکھوں میں جھوٹے اشک بلوتا ہوں
غم کی ایک شبیہ اتروا رکھی ہے
جاں رہتی ہے پیپر ویٹ کے پھولوں میں
ورنہ میری میز پہ دنیا رکھی ہے
خوف بہانہ ہے ساقی نغمے کی لاش
ایک زمانے سے بے پردا رکھی ہے
٭٭٭
وقت ابھی پیدا نہ ہوا تھا تم بھی راز میں تھے
ایک سسکتا سناٹا تھا ہم آغاز میں تھے
ان سے پیار کیا جن پر خاموشی نازل کی
ان پر ظلم کیا جو بند اپنی آواز میں تھے
ہر قیدی پر آزادی کی حد جاری کر دی
ہونٹوں کا اعجاز ہوئے جو نغمے ساز میں تھے
حبس تھا کوئی صبح فروزاں ہونے والی تھی
شام قدم بوسی پر تھی سائے پرواز میں تھے
جس میں خون میں غسل کیا اور آگ میں رقص کیا
حیف کہ سارے ہنگامے اس کے اعزاز میں تھے
٭٭٭
وہ آگ ہوں کہ نہیں چین ایک آن مجھے
جو دن گیا تو ملی رات کی کمان مجھے
وہ کون ہے کہ جسے آسماں میں ڈھونڈتا ہوں
پلٹ کے دیکھتا کیوں ہے یہ آسمان مجھے
یہ کیسی بات ہوئی ہے کہ دیکھ کر خوش ہے
وہ آنسوؤں کے سمندر کے درمیان مجھے
یہیں پہ چھوڑ گیا تھا اسے یہیں ہو گا
سکوت خواب ہے آواز کا نشان مجھے
وہ منتقم ہوں کہ شعلوں کا کھیل کھیلتا ہوں
مری کمینگی دیتی ہے داستان مجھے
میں اپنی آنکھوں سے اپنا زوال دیکھتا ہوں
میں بے وفا ہوں مگر بے خبر نہ جان مجھے
٭٭٭
وہ دکھ جو سوئے ہوئے ہیں انہیں جگا دوں گا
میں آنسوؤں سے ہمیشہ ترا پتا دوں گا
بجھے لبوں پہ ہے بوسوں کی راکھ بکھری ہوئی
میں اس بہار میں یہ راکھ بھی اڑا دوں گا
ہوا ہے تیز مگر اپنا دل نہ میلا کر
میں اس ہوا میں تجھے دور تک صدا دوں گا
مری صدا پہ نہ برسیں اگر تری آنکھیں
تو حرف و صوت کے سارے دیے بجھا دوں گا
جو اہل ہجر میں ہوتی ہے ایک دید کی رسم
تری تلاش میں وہ رسم بھی اٹھا دوں گا
٭٭٭
وہ سخی ہے تو کسی روز بلا کر لے جائے
اور مجھے وصل کے آداب سکھا کر لے جائے
میرے اندر کسی افسوس کی تاریکی ہے
اس اندھیرے میں کوئی آگ جلا کر لے جائے
یہ مری روح میں ندی کی تھکن کیسی ہے
وہ سمندر کی طرح آئے بہا کر لے جائے
ہجر میں جسم کے اسرار کہاں کھلتے ہیں
اب وہی سحر کرے پیار سے آ کر لے جائے
خاک آنکھوں میں ہے وہ خواب کہاں ملتا ہے
جو مجھے قید مناظر سے رہا کر لے جائے
٭٭٭
وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مرجائیں گے اک دن
اک رات کے راہی ہیں گزر جائیں گے اک دن
یوں دل میں اٹھی لہر یوں آنکھوں میں بھرے رنگ
جیسے مرے حالات سنور جائیں گے اک دن
دل آج بھی جلتا ہے اسی تیز ہوا میں
اک تیز ہوا دیکھ بکھر جائیں گے اک دن
یوں ہے کہ تعاقب میں ہے آسائش دنیا
یوں ہے کہ محبت سے مکر جائیں گے اک دن
یوں ہو گا کہ ان آنکھوں سے آنسو نہ بہیں گے
یہ چاند ستارے بھی ٹھہر جائیں گے اک دن
اب گھر بھی نہیں گھر کی تمنا بھی نہیں ہے
مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اک دن
٭٭٭
وہی آنکھوں میں اور آنکھوں سے پوشیدہ بھی رہتا ہے
مری یادوں میں اک بھولا ہوا چہرا بھی رہتا ہے
جب اس کی سرد مہری دیکھتا ہوں بجھنے لگتا ہوں
مجھے اپنی اداکاری کا اندازہ بھی رہتا ہے
میں ان سے بھی ملا کرتا ہوں جن سے دل نہیں ملتا
مگر خود سے بچھڑ جانے کا اندیشہ بھی رہتا ہے
جو ممکن ہو تو پر اسرار دنیاؤں میں داخل ہو
کہ ہر دیوار میں اک چور دروازہ بھی رہتا ہے
بس اپنی بے بسی کی ساتویں منزل میں زندہ ہوں
یہاں پر آگ بھی رہتی ہے اور نوحہ بھی رہتا ہے
٭٭٭
ہراس پھیل گیا ہے زمین دانوں میں
قیامتیں نظر آتی ہیں آسمانوں میں
نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ان آنکھوں پر
جو خواب دیکھتی تھیں خوف کے زمانوں میں
یہاں خیال کے سوتوں سے خون پھوٹے گا
سراب کے لیے جنگیں ہیں ساربانوں میں
یہ کون ہیں کہ خدا کی لگام تھامے ہوئے
پڑے ہوئے ہیں قناعت کے شامیانوں میں
میں اپنے شہر سے مایوس ہو کے لوٹ آیا
پرانے سوگ بسے تھے نئے مکانوں میں
٭٭٭
ہیں سحر مصور میں قیامت نہیں کرتے
رنگوں سے نکلنے کی جسارت نہیں کرتے
افسوس کے جنگل میں بھٹکتے ہیں خیالات
رم بھول گئے خوف سے وحشت نہیں کرتے
تم اور کسی کے ہو تو ہم اور کسی کے
اور دونوں ہی قسمت کی شکایت نہیں کرتے
مدت ہوئی اک شخص نے دل توڑ دیا تھا
اس واسطے اپنوں سے محبت نہیں کرتے
یہ کہہ کے ہمیں چھوڑ گئی روشنی اک رات
تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے
٭٭٭
یوں مرے پاس سے ہو کر نہ گزر جانا تھا
بول اے شخص تجھے کون نگر جانا تھا
روح اور جسم جہنم کی طرح جلتے ہیں
اس سے روٹھے تھے تو اس آگ کو مر جانا تھا
راہ میں چھاؤں ملی تھی کہ ٹھہر سکتے تھے
اس سہارے کو مگر تنگ سفر جانا تھا
خواب ٹوٹے تھے کہ آنکھوں میں ستارے ناچے
سب کو دامن کے اندھیرے میں اتر جانا تھا
حادثہ یہ ہے کہ ہم جاں نہ معطر کر پائے
وہ تو خوشبو تھا اسے یوں بھی بکھر جانا تھا
٭٭٭
یہ کس نے بھرم اپنی زمیں کا نہیں رکھا
ہم جس کے رہے اس نے کہیں کا نہیں رکھا
دیکھا کہ ابھی روح میں فریاد کناں ہے
سجدہ جسے پابند جبیں کا نہیں رکھا
افسوس کہ انکار کی منزل نہیں آئی
ہر چند کہ در بند نہیں کا نہیں رکھا
اور اپنی طرح کے یہاں سالک ہیں کئی اور
ہر شخص پر الزام یقیں کا نہیں رکھا
گلزار کھلائے جہاں بازار لگائے
ہم خاک نشینوں کو وہیں کا نہیں رکھا
اک ایسی قناعت ہے طبیعت میں کہ جس نے
محتاج ہمیں نان جویں کا نہیں رکھا
اس گھر کے مقدر میں تباہی نہ لکھی ہو
وہ جس نے خیال اپنے مکیں کا نہیں رکھا
٭٭٭
یہ کون آیا شبستاں کے خواب پہنے ہوئے
ستارے اوڑھے ہوئے ماہتاب پہنے ہوئے
تمام جسم کی عریانیاں تھیں آنکھوں میں
وہ میری روح میں اترا حجاب پہنے ہوئے
مجھے کہیں کوئی چشمہ نظر نہیں آیا
ہزار دشت پڑے تھے سراب پہنے ہوئے
قدم قدم پہ تھکن ساز باز کرتی ہے
سسک رہا ہوں سفر کا عذاب پہنے ہوئے
مگر ثبات نہیں بے سبیل رستوں میں
کہ پاؤں سو گئے ساقی رکاب پہنے ہوئے
٭٭٭
یہیں کہیں پہ کبھی شعلہ کار میں بھی تھا
شبِ سیاہ میں اک چشمِ مار میں بھی تھا
بہت سے لوگ تھے سقراط کار و عیسیٰ نفس
اسی ہجوم میں اک بے شمار میں بھی تھا
یہ چاند تارے مرے گرد رقص کرتے تھے
لکھا ہوا ہے زمیں کا مدار میں بھی تھا
سنا ہے زندہ ہوں، حرص و ہوس کا بندہ ہوں
ہزار پہلے محبت گزار میں بھی تھا
جو میرے اشک تھے برگ خزاں کی طرح گرے
برس کے کھُل گیا، ابرِ بہار میں بھی تھا
مجھے سمجھنے کی کوشش نہ کی زمانے نے
یہ اور بات ذرا پیچ دار میں بھی تھا
سپردگی میں نہ دیکھی تھی تمکنت ایسی
یہ رنج ہے کہ انا کا شکار میں بھی تھا
مجھے عزیز تھا ہر ڈوبتا ہوا منظر
غرض کہ ایک زوال آشکار میں بھی تھا
مجھے گناہ میں اپنا سراغ ملتا ہے
وگرنہ پارسا و دیندار میں بھی تھا
برائے درس اب اطفالِ شہر آتے ہیں
حرام کارِ غنا و قمار میں تھا
میں کیا بھلا تھا یہ دنیا اگر کمینی تھی
درِ کمینگی پر چوبدار میں بھی تھا
وہ آسمانی بلا لوٹ کر نہیں آئی
اسی زمین پہ امید وار میں بھی تھا
٭٭٭
وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مر جائیں گے اک دن
اک رات کے راہی ہیں، گزر جائیں گے اک دن
یوں دل میں اٹھی لہر، یوں آنکھوں میں بھرے رنگ
جیسے مرے حالات سنور جائیں گے اک دن
دل آج بھی جلتا ہے اسی تیز ہوا میں
اے تیز ہوا دیکھ، بکھر جائیں گے اک دن
یوں ہے کہ تعاقب میں ہے آسائشِ دنیا
یوں ہے کہ محبت سے مُکر جائیں گے اک دن
یوں ہو گا کہ ان آنکھوں سے آنسو نہ بہیں گے
یہ چاند ستارے بھی ٹھہر جائیں گے اک دن
اب گھر بھی نہیں، گھر کی تمنّا بھی نہیں ہے
مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اک دن
٭٭٭
وہ دکھ جو سوئے ہوئے ہیں، انہیں جگا دوں گا
میں آنسوؤں کو ہمیشہ ترا پتہ دوں گا
بجھے لبوں پہ ہے بوسوں کی راکھ بکھری ہوئی
میں اس بہار میں یہ خاک بھی اُڑا دوں گا
ہوا ہے تیز، مگر اپنا دل نہ میلا کر
میں اس ہوا میں تجھے دور تک صدا دوں گا
مری صدا پہ نہ برسیں اگر تری آنکھیں
تو حرف و صوت کے سارے دئے بجھا دوں گا
جو اہلِ ہجر میں ہوتی ہے ایک دید کی رسم
تری تلاش میں وہ رسم بھی اٹھا دوں گا
وہ ایک لمحہ جسے کھو دیا محبت نے
اسے تلاش کروں گا، تجھے بھُلا دوں گا
وہ لفظ ہاتھ نے لکھے ہیں جو نہ لکھنے تھے
میں اس خطا پہ اسے عمر بھر سزا دوں گا
٭٭٭
درد پرانا آنسو مانگے۔ آنسو کہاں سے لاؤں
روح میں ایسی کونپل پھوٹی میں کمھلاتا جاؤں
میرے اندر بیٹھا کوئی میری ہنسی اڑائے
ایک پلک کو اندر جاؤں، باہر بھاگا آؤں
سارے موتی جھوٹے نکلے، سارے جادو ٹونے
میری خالی آنکھوں بولو، اب کیا خواب سجاؤں
میرا کیسے کام چلے جب نام سے کرن نہ پھوٹے
اب کیا جینے پر اتراؤں، اب کیا نام کماؤں
اب بھی راکھ کے ڈھیر کے نیچے سسک رہی چنگاری
اب بھی کوئی جتن کرے تو جوالا مکھی بن جاؤں
٭٭٭
اک رات ہم ایسے ملیں جب دھیان میں سائے نہ ہوں
جسموں کی رسم و راہ میں روحوں کے سناٹے نہ ہوں
ہم بھی بہت مشکل نہ ہوں تو بھی بہت آساں نہ ہو
خوابوں کی زنجیریں نہ ہوں رازوں کے ویرانے نہ ہوں
اک کاش ایسا کر سکیں آنکھوں کو زندہ کر سکیں
یہ کیا کہ دل میں گرد ہو آنکھوں میں آئینے نہ ہوں
ہیں تیز دنیا کے قدم شاید سجل چل پائیں ہم
اس بیسوا رفتار میں یادوں سے کیوں رشتے نہ ہوں
شوق فراواں سے پرے لذت کے زنداں سے پرے
اس آگ میں سلگیں ذرا جس میں کبھی سلگے نہ ہوں
٭٭٭
باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں
بند آنکھوں پر کیسے کیسے منظر کھلتے ہیں
اپنے اشکوں سے اپنا دل شق ہو جاتا ہے
بارش کی بوچھار سے کیا کیا پتھر کھلتے ہیں
لفظوں کی تقدیر بندھی ہے میرے قلم کے ساتھ
ہاتھ میں آتے ہی شمشیر کے جوہر کھلتے ہیں
شام کھلے تو نشے کی حد جاری ہوتی ہے
تشنہ کاموں کی حجت پر ساغر کھلتے ہیں
ساقی پاگل کر دیتے ہیں وصل کے خواب مجھے
اس کو دیکھتے ہی آنکھوں میں بستر کھلتے ہیں
٭٭٭
جو تیرے دل میں ہے وہ بات میرے دھیان میں ہے
تری شکست تری لکنت زبان میں ہے
ترے وصال کی خوشبو سے بڑھتی جاتی ہے
نہ جانے کون سی دیوار درمیان میں ہے
ہمیں تباہ کیا آب و گل کی سازش نے
کہ ایک دوست ہمارا بھی آسمان میں ہے
مگر یہ لوگ بھلا کس لیے اداس ہوئے
یہ کیا طلسم بہاروں کی داستان میں ہے
ہم اہل درد کو تہمت ہوئی ہے آزادی
کہ ساری عمر گرفتار ایک آن میں ہے
٭٭٭
مستانہ ہیجڑا
مولا تری گلی میں
سردی برس رہی تھی
شاید اسی سبب سے
مستانہ ہیجڑا بھی
بُسکی پہن کے نکلا
ٹینس کے بال
کستی انگیا میں
گھُس گھُسا کے
پستان بن گئے تھے
شہوت کے سرخ ڈورے
سرمہ لگانے والی
آنکھوں میں تن گئے تھے
اک دم سے
چلتے چلتے
اس نے کمر کے جھٹکے سے
راہ چلنے والے
شُہدوں، حرام خوروں
سے التفات مانگا
اور دعوتِ نظر دی
اس کے ضخیم
کولھوں نے
آگ اور لذت
خالی دلوں میں بھر دی
اس نے ہتھیلیوں کے گدّے
رگڑ رگڑ کے
وہ تالیاں اڑائیں
مہندی کے رنگ
تتلی بن کے ہوا میں
اپنے پر تولنے لگے تھے
پھر جان دار ہونٹوں
سے پان دار بوسے
چھن چھن چھلک چھلک کے
ہر منچلی نظر میں
رس گھولنے لگے تھے
وہ آج لہر میں تھا
مسّی کی چھب دکھا کے
نتھنے پھلا پھلا کے
انگلی نچا نچا کے
اس نے مزے میں آ کے
ہنس کر کہا کہ "سالو
میں تو جنم جنم سے
اپنے ہی آنسوؤں میں
ڈوبا ہوا پڑا ہوں
شاید ضمیرِ عالم کے
تنگ مقبرے میں
زندہ گڑا ہوا ہوں ”
٭٭٭
اے دل پہلے بھی ہم تنہا تھے
اے دل پہلے بھی ہم تنہا تھے
اے دل ہم تنہا آج بھی ہیں
ان زخموں سے
ان داغوں سے
اب اپنی باتیں ہوتی ہیں
جو زخم کہ سُرخ گلاب ہوئے
جو داغ کہ بدرِ مُنیر ہوئے
اس طرح سے کب تک جینا ہے
میں ہار گیا اس جینے سے
کوئی ابر اٹھے کسی قلزم سے
رس برسے میرے ویرانے پر
کوئی جاگتا ہو، کوئی کُڑھتا ہو
میرے دیر سے واپس آنے پہ
کوئی سانس بھرے میرے پہلو میں
اور ہاتھ دھرے میرے شانے پر
اور دبے دبے لہجے میں کہے
تم نے اب تک بڑے درد سہے
تم تنہا تنہا چلتے رہے
تم تنہا تنہا جلتے رہے
سنو! تنہا چلنا کھیل نہیں
چلو آؤ میرے ہمراہ چلو
چلو نئے سفر پر چلتے ہیں
چلو مُجھ کو بنا کے گواہ چلو
٭٭٭
ماخذ: ادبی دنیا ڈاٹ کام اور دوسری ویب سائٹس
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید